سُوْرَۃ الكَهْف
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
قَیِّمًا لِّیُنْذِرَ بَاْسًا شَدِیْدًا مِّنْ لَّدُنْهُ وَ یُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ اَجْرًا حَسَنًا(2)مَّاكِثِیْنَ
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلٰى عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَ لَمْ یَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًاﭧ(1)
ترجمہ: کنزالعرفان
تمام تعریفیں اس اللہ کیلئے ہیں جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل فرمائی اور اس میں کوئی ٹیڑھ نہیں رکھی۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ: تمام تعریفیں اللّٰہ کیلئے ہیں ۔} اس سورت کی ابتداء اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی حمد ، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت اور قرآنِ پاک کی شان سے کی گئی ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ تمام تعریفیں اس اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کیلئے ہیں جس نے اپنے بندے محمد مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر کتاب یعنی قرآن نازل فرمایا جو اس کی بہترین نعمت اور بندوں کے لئے نجات وفلاح کا سبب ہے اور اس قرآن میں کوئی ٹیڑھ نہیں رکھی یعنی نہ کوئی لفظی خرابی، نہ معنوی ،نہ اس کی آیتوں میں آپس میں اختلاف ہے اور نہ تَضاد۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۱، ۳ / ۱۹۷، ملخصاً)
آیت’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات
اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں
(1)…اس آیت میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنا بندہ فرمایا، اس سے معلوم ہو اکہ رسول کی شان اس میں ہے کہ اسے اللّٰہ تعالیٰ کا بندہ کہا جائے نہ کہ اسے اللّٰہ تعالیٰ کی اولاد کہنا شروع کر دیا جائے جیسے عیسائی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مَعَاذَاللّٰہ ،اللّٰہ تعالیٰ کا بیٹا کہتے ہیں ۔
(2)…قرآنِ کریم کا نازل ہونا بہت بڑی نعمت ہے ، امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’قرآن مجید کو نازل کرنا حضور پُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے اور ہمارے لئے بھی اللّٰہ تعالیٰ کی بڑی عظیم نعمت ہے ۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے نعمت تو ا س طور پر ہے کہ اس مُقَدّس کتاب کے ذریعے اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تَوحید اور اللّٰہ تعالیٰ کی پاکی پر نیز اللّٰہ تعالیٰ کی صِفات ِجلال و اِکرام کے علوم کے اَسرار پر مطلع کیا، فرشتوں اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اَحوال، قضاء و قدر کے احوال کے اسرار، عالَمِ سِفلی کے اَحوال کا عالَمِ عُلوی کے احوال سے تعلق رکھنے کے اسرار، عالَمِ آخرت کے احوال کا عالَمِ دنیا کے احوال سے تعلق رکھنے کے اسرار، عالَمِ جسمانیات کے عالَمِ روحانیات سے مَربوط ہونے کی کیفیت وغیرہ کے اَسرار عطا فرمائے اور بے شک یہ چیزیں عظیم ترین نعمتوں میں سے ہیں ۔اور اس کتاب کا ہمارے حق میں نعمت ہونا اس طور پر ہے کہ یہ کتاب پابندیوں اور اَحکامات، وعدہ اور وعید، ثواب اور عذاب کے بیان پر مشتمل ہے، خلاصہ یہ ہے کہ یہ کتاب انتہائی اعلیٰ درجے کی کامل کتاب ہے تو اس سے ہر ایک اپنی طاقت اور فہم کے مطابق نفع حاصل کرے۔( تفسیرکبیر، الکھف، تحت الآیۃ: ۱، ۷ / ۴۲۲)
فِیْهِ اَبَدًا(3)وَّ یُنْذِرَ الَّذِیْنَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا(4)
ترجمہ: کنزالعرفان
لوگوں کی مصلحتوں کو قائم رکھنے والی نہایت معتدل کتاب تاکہ اللہ کی طرف سے سخت عذاب سےڈرائے اوراچھے اعمال کرنے والے مومنوں کو خوشخبری دے کہ ان کے لیے اچھا ثواب ہے۔ جس میں ہمیشہ رہیں گے۔ اور ان لوگوں کو ڈرائے جو کہتے ہیں کہ اللہ نے اپنا کوئی بچہ بنایا ہے
تفسیر: صراط الجنان
{قَیِّمًا:لوگوں کی مصلحتوں کو قائم رکھنے والی نہایت مُعْتَدَل کتاب۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآنِ مجید بندوں کی دینی اور دُنْیوی مصلحتوں کو قائم رکھنے والی انتہائی معتدل کتاب ہے اور اسے اس لئے نازل کیا گیا ہے تاکہ میرے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کتاب کے ذریعے اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے کافروں کو سخت عذاب سے ڈرائیں اور اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اچھے اعمال کرنے والے مومنوں کو خوشخبری دیں کہ ان کے لیے اچھا ثواب یعنی جنت اور اس کی نعمتیں ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور قرآن کریم کو ا س لئے نازل کیا گیا ہے تاکہ وہ اس کے ذریعے یہودیوں اور عیسائیوں وغیرہ ان لوگوں کو ڈرائیں جو کہتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی کوئی اولاد بنائی ہے۔( روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۲-۴، ۵ / ۲۱۵، جلالین، الکہف، تحت الآیۃ: ۲-۴، ص۲۴۱، ملتقطاً)
مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ وَّ لَا لِاٰبَآىٕهِمْؕ-كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُ جُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْؕ-اِنْ یَّقُوْلُوْنَ اِلَّا كَذِبًا(5)
ترجمہ: کنزالعرفان
اس بارے میں نہ تووہ کچھ علم رکھتے ہیں اورنہ ان کے باپ دادا۔کتنا بڑا بول ہے جو ان کے منہ سے نکلتا ہے۔ وہ بالکل جھوٹ کہہ رہے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ وَّ لَا لِاٰبَآىٕهِمْ:اس بارے میں نہ تووہ کچھ علم رکھتے ہیں اور نہ ان کے باپ دادا۔} ارشاد فرمایا کہ ( اللّٰہ تعالیٰ نے اپنا کوئی بچہ بنایا ہے) اس بارے میں نہ تووہ کچھ علم رکھتے ہیں اور نہ ان کے باپ دادا جن کی وہ اس عقیدے میں پیروی کر رہے ہیں ، یعنی علم اس بات کا تقاضا ہی نہیں کرتا کہ اللّٰہ تعالیٰ اپنی کوئی اولادبنائے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ کے لئے بچے کا ہونا فی نَفْسِہٖ محال ہے اور انہوں نے یہ بات ان چیزوں میں غور و فکر کے بغیر مَحض جہالت کی وجہ سے کہی ہے جو اللّٰہ تعالیٰ کے لئے ہو سکتی ہیں اور جو اللّٰہ تعالیٰ کے لئے محال ہیں ۔ اللّٰہ تعالیٰ کے لئے بچہ ہونا کتنا بڑا بول ہے جو ان کے منہ سے نکلتا ہے۔ وہ لوگ اللّٰہ تعالیٰ کی شان میں بالکل جھوٹ کہہ رہے ہیں اوراس بات کے سچ ہونے کا امکان تک بھی نہیں ہے۔( روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۵، ۵ / ۲۱۵-۲۱۶)
فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا(6)
ترجمہ: کنزالعرفان
اگر وہ اس بات پر ایمان نہ لائیں تو ہوسکتا ہے کہ تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کو ختم کردو۔
تفسیر: صراط الجنان
{عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ: ان کے پیچھے۔} نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ چونکہ کفار کے ایمان نہ لانے پر نہایت رنجیدہ رہتے تھے اور اس کیلئے بہت زیادہ کوشش کرتے تھے اِس پر اِس آیت میں نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قلب ِ مبارک کی تسلی فرمائی گئی ہے کہ آپ ان بے ایمانوں کے ایمان سے محروم رہنے پر اس قدر رنج و غم نہ کیجئے اور اپنی جانِ پاک کو اس غم سے ہلاکت میں نہ ڈالئے کہ وہ قرآن پاک پر ایمان نہیں لاتے۔( صاوی، الکہف، تحت الآیۃ: ۶، ۴ / ۱۱۸۲، ملخصاً)
تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کاجذبۂ تبلیغ:
اس طرح کی آیات سے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے جذبۂ تبلیغ ، امت پر رحمت و شفقت کی اِنتہا اور رسالت کے حقوق کو انتہائی اعلیٰ طریقے سے ادا کرنے کا بھی پتہ چلتا ہیکہ وہ لوگ جن کاحضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ طرزِ عمل یہ تھا کہ وہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کاہِن، ساحِر، شاعر، مجنون کہتے، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پیچھے شریر لڑکوں کے غول لگا دیتے جو پھبتیاں کستے، گالیاں دیتے اور یہ دیوانہ ہے، یہ دیوانہ ہے، کا شور مچا کر پتھر پھینکتے، راستوں میں کانٹے بچھاتے، جسم مبارک پر نجاست ڈالتے، دھکے دیتے، مقدس اور نازک گردن میں چادر کا پھندہ ڈال کر گلا گھونٹنے کی کوشش کرتے، نیز رحمتِ عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ساتھ غریب مسلمانوں پر بھی ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے، صحرائے عرب کی تیز دھوپ میں تنور کی طرح گرم ریت کے ذروں پر مسلمانوں کو پیٹھ کے بل لٹا کر ان کے سینوں پر بھاری پتھر رکھ دیتے، لوہے کو آگ میں گرم کرکے ان سے مسلمانوں کے جسموں کو داغتے، ان کے ساتھ رحمۃٌ لِّلْعَالَمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا طرزِ عمل کیا ہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے اس قدر غمزدہ ہو رہے ہیں جس سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی جان چلی جانے کا خطرہ ہے۔
سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرتِ مبارکہ کے اس روشن باب کو سامنے رکھتے ہوئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنی حالت پر غور کرے کہ کیا فی زمانہ مسلمانوں کی بے راہ روی، اسلامی احکام پر عمل سے دوری، یہودیوں ، عیسائیوں اور دیگر کافروں کے طور طریقے اور رسم ورواج کی پیروی اور مسلمانوں میں پھیلی فحاشی و عُریانی دیکھ کر اس نے ان کی اصلاح کی کتنی کوشش کی اور ان کے یہ حالات دیکھ کر اسے کتنا دکھ، افسوس اور رنج وغم ہوا۔
اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْاَرْضِ زِیْنَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ اَیُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا(7)وَ اِنَّا لَجٰعِلُوْنَ مَا عَلَیْهَا صَعِیْدًا: جُرُزًاﭤ(8)
ترجمہ کنزالعرفان
بیشک ہم نے زمین پر موجود چیزوں کوزمین کیلئے زینت بنایا تاکہ ہم انہیں آزمائیں کہ ان میں عمل کے اعتبار سے کون اچھا ہے۔اور بیشک جو کچھ زمین پر ہے ہم اسے خشک میدان بنا دیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{زِیْنَةً لَّهَا: زمین کیلئے زینت۔} آیت میں فرمایا گیا کہ ہم نے زمین پر موجود چیزوں کوزمین کیلئے زینت بنایاہے خواہ وہ حیوان ہوں یا نباتات یا معدنیات یا نہریں اور دریاوغیرہا اور ان چیزوں کو پیدا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آزمائیں کہ ان میں عمل کے اعتبار سے کون اچھا ہے اور کون زہدوتقویٰ اختیار کرتا ہے اور مُحَرَّمات و ممنوعات سے بچتا ہے۔( جلالین، الکہف، تحت الآیۃ: ۷، ص۲۴۱)
{صَعِیْدًا جُرُزًا:خشک میدان۔} اِس آیت میں دنیا کی ناپائیداری اور قابلِ فنا ہونے کو بیان فرمایا ہے کہ جو کچھ زمین پر ہے قیامت کے دن وہ سب کا سب خشک میدان کی طرح بنا دیا جائے گا جس پر کوئی رونق نہیں ہوگی اور زمین کو اس کے آباد ہونے کے بعد ویران کردیا جائے گا اور حیوانات، نباتات اور اس کے علاوہ جو بھی چیزیں اس کیلئے باعث ِ زینت تھیں ان میں سے کچھ بھی باقی نہ رہے گالہٰذا ایسی فانی چیز سے کیا دل لگانا ۔
دنیا کی محبت کم کرنے کا عمدہ طریقہ:
دنیا کی محبت دور کرنے کا سب سے عمدہ طریقہ یہی ہے کہ اس کی فنائیت میں غور کیا جائے ، آدمی جتنا اس میں غور کرتا جاتا ہے اتنی ہی دنیا کی محبت اس کے دل سے کم ہوتی جاتی ہے۔ دنیا کی محبت کم کرنے کیلئے امام غزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے کلام سے اسی آیت سے متعلقہ کچھ کلام پیش کیا جاتا ہے۔ چنانچہ آپ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : جو شخص دنیا میں آتا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی میزبان کے پاس کوئی مہمان ہو اور اس میزبان کی یہ عادت ہو کہ ہمیشہ مہمانوں کے لیے مکان آراستہ رکھتا ہو ، لہٰذا اس نے مہمانوں کو یکے بعد دیگرے بلا کر ان کے سامنے انتہائی خوبصورت برتنوں میں عمدہ ڈشیں سجائیں ، چاندی کی انگیٹھیوں میں عود اور اگر بتیاں سلگائیں ، کمروں میں اعلیٰ قسم کا اسپرے کروایا تاکہ مہمانوں کے دماغ معطر رہیں اور خوب فرحت و سکون پائیں ۔ عقلمند مہمان ان جملہ لَوازمات سے خوب لطف اندوز ہوتا ہے اور رخصت کے وقت اپنے اعزاز و اکرام کی بناء پر میزبان کا شکریہ ادا کرتا ہے لیکن بیوقوف مہمان ا س بدگمانی کا شکار ہو جاتا ہے کہ میزبان نے یہ جتنا اہتمام کیا ہے اور یہ سبھی اَشیاء اسے دینے ہی کے لئے سجائی ہیں تاکہ رخصت کے وقت انہیں اپنے ساتھ لے جائے۔ وہ اسی میں پڑا رہتا ہے کہ رخصت کے وقت ا س کے سامنے سے تمام چیزوں کواٹھا لیا جاتا ہے۔ جب خالی ہاتھ پلٹتا ہے تو بڑا کبیدہ خاطر، رنجیدہ اور نادم ہوتا ہے بلکہ روتا ہے کہ ہائے میرے ساتھ کیا ہوا۔ یونہی یہ دنیا مہمان خانہ ہے، اس کے سامانِ آرائش و زیبائش کو دیکھ کر الجھ نہیں جانا چاہئے، کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کے حرص ، طمع اور لالچ میں گرفتار ہو جائیں اور موت کا وقت سر پہ آن پہنچے، پھر سوائے پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔( کیمیائے سعادت، عنوان سوم: معرفت دنیا، فصل چہارم، ۱ / ۹۵)
دنیا کو تو کیا جانے یہ بِس کی گانٹھ ہے حرافہ
صورت دیکھو ظالم کی تو کیسی بھولی بھالی ہے
شہد دکھائے، زہر پلائے، قاتل، ڈائن، شوہر کُش
اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْـكَهْفِ وَ الرَّقِیْمِ كَانُوْا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًا(9)اِذْ اَوَى الْفِتْیَةُ اِلَى الْـكَهْفِ فَقَالُوْا رَبَّنَاۤ اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً وَّ هَیِّئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا(10)ترجمہ: کنزالعرفانکیا تمہیں معلوم ہوا کہ پہاڑ ی غار اور جنگل کے کنارے والے وہ ہماری نشانیوں میں سے ایک عجیب نشانی تھے۔ جب ان نوجوانوں نے ایک غار میں پناہ لی، پھرکہنے لگے: اے ہمارے رب! ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما اور ہمارے لئے ہمارے معاملے میں ہدایت کے اسباب مہیا فرما
تفسیر: صراط الجنان
{ اَمْ حَسِبْتَ: کیا تمہیں معلوم ہوا۔} یہاں سے اَصحاب ِ کہف کا واقعہ شروع ہوتا ہے اور اسے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنی عجیب و غریب نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا کیونکہ اس واقعے میں بہت سی نصیحتیں اور حکمتیں ہیں ۔ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا کہ رقیم اس وادی کا نام ہے جس میں اصحابِ کہف ہیں ۔(خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۹، ۳ / ۱۹۸
{اِذْ اَوَى الْفِتْیَةُ اِلَى الْـكَهْفِ:جب ان نوجوانوں نے غار میں پناہ لی۔} ارشاد فرمایا کہ جب ان نوجوانوں نے اپنی کافر قوم سے اپنا ایمان بچانے کے لئے ایک غار میں پناہ لی اور اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں دعا کی ،اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ، ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما اور ہدایت و نصرت اور رزق و مغفرت اور دشمنوں سے امن عطا فرما اور ہمارے لئے ہمارے معاملے میں ہدایت کے اَسباب مہیا فرما۔ اصحابِ کہف کے متعلق قوی ترین قو ل یہ ہے کہ وہ سات حضرات تھے اگرچہ ان کے ناموں میں کسی قدر اختلاف ہے لیکن حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی روایت پر جو خازن میں ہے ان کے نام یہ ہیں ۔ (1) مکسلمینا ، (2)یملیخا، (3) مرطونس، (4) بینونس، (5) سارینونس، (6) ذونوانس، (7) کشفیط طنونس اور اُن کے کتے کا نام قطمیر ہے۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۲، ۳ / ۲۰۷)
اصحابِ کہف کے ناموں کی برکت:
اصحاب ِ کہف کے نام بڑے بابرکت ہیں اور اَکابر بزرگانِ دین نے ان کے فوائد وخواص بیان کئے ہیں ، چنانچہ فرماتے ہیں کہ اگریہ اَسماء لکھ کر دروازے پر لگادیئے جائیں تو مکان جلنے سے محفوظ رہتا ہے، سرمایہ پر رکھ دیئے جائیں تو چوری نہیں ہوتا، کشتی یا جہاز اُن کی برکت سے غرق نہیں ہوتا ،بھاگا ہوا شخص ان کی برکت سے واپس آجاتا ہے، کہیں آگ لگی ہو اور یہ اسماء کپڑے میں لپیٹ کر ڈال دیئے جائیں تو وہ بجھ جاتی ہے، بچے کے رونے، باری کے بخار، دردِ سر، اُمُّ الصّبیان (خاص قسم کے دماغی جھٹکے اور دورے،) خشکی و تری کے سفر میں ، جان و مال کی حفاظت، عقل کی تیزی اور قیدیوں کی آزادی کے لئے یہ اسماء لکھ کرتعویذ کی طرح بازو میں باندھے جائیں۔( جمل، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۲، ۴ / ۴۰۹)
اصحابِ کہف کا واقعہ :
اکثر مفسرین کے نزدیک اصحابِ کہف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا واقعہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے آسمان پر تشریف لے جانے کے بعد رونما ہوا اور بعض مفسرین کے نزدیک یہ واقعہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پہلے کا ہے اور ا س کا ذکر اہلِ کتاب کی مذہبی کتابوں میں موجود ہے اور اسی وجہ سے یہودیوں نے بڑی توجہ کے ساتھ ان کے حالات محفوظ رکھے۔ بہر حال یہ واقعہ کس زمانے میں رونما ہوا اس کی اصل حقیقت اللّٰہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے ، البتہ ہم یہاں معتبر مفسرین کی طرف سے بیان کردہ اس واقعے کی بعض تفصیلات کا خلاصہ ذکر کرتے ہیں ، چنانچہ مفسرین کے بیان کے مطابق اصحابِ کہف اُفْسُوس نامی ایک شہر کے شُرفاء و معززین میں سے ایماندار لوگ تھے۔ ان کے زمانے میں دقیانوس نامی ایک بڑا جابر بادشاہ تھا جو لوگوں کو بت پرستی پر مجبور کرتا اورجو شخص بھی بت پرستی پر راضی نہ ہوتا اسے قتل کر ڈالتا تھا۔ دقیانوس بادشاہ کے جَبر و ظلم سے اپنا ایمان بچانے کے لئے اصحابِ کہف بھاگے اور قریب کے پہاڑ میں غار کے اندر پناہ گزین ہوئے، وہاں سوگئے اور تین سوبرس سے زیادہ عرصہ تک اسی حال میں رہے ۔ بادشاہ کو جستجو سے معلوم ہوا کہ وہ ایک غار کے اندر ہیں تو اس نے حکم دیا کہ غار کو ایک سنگین دیوار کھینچ کر بند کردیا جائے تاکہ وہ اس میں مر کر رہ جائیں اور وہ ان کی قبر ہوجائے، یہی ان کی سزا ہے۔ حکومتی عملے میں سے یہ کام جس کے سپرد کیا گیا وہ نیک آدمی تھا، اس نے ان اصحاب کے نام، تعداد اور پورا واقعہ رانگ کی تختی پرکَنْدَہ کرا کرتا نبے کے صندوق میں دیوار کی بنیا د کے اندر محفوظ کردیا اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اسی طرح ایک تختی شاہی خزانہ میں بھی محفوظ کرا دی گئی۔ کچھ عرصہ بعد دقیانوس ہلاک ہوا ، زمانے گزرے ، سلطنتیں بدلیں یہاں تک کہ ایک نیک بادشاہ فرمانروا ہوا جس کا نام بیدروس تھا اور اس نے 68 سال حکومت کی ۔ اس کے دورِ حکومت میں ملک میں فرقہ بندی پیدا ہوئی اور بعض لوگ مرنے کے بعد اٹھنے اور قیامت آنے کے منکر ہوگئے ۔ بادشاہ ایک تنہا مکان میں بند ہوگیا اور اس نے گریہ وزاری سے بارگاہِ الٰہی میں دعا کی کہ یارب! کوئی ایسی نشانی ظاہر فرما جس سے مخلوق کو مُردوں کے اٹھنے اور قیامت آنے کا یقین حاصل ہو جائے۔ اسی زمانہ میں ایک شخص نے اپنی بکریوں کے لئے آرام کی جگہ حاصل کرنے کے واسطے اسی غار کو تجویز کیا اور (کچھ لوگوں کے ساتھ مل کر) دیوار کوگرا دیا۔ دیوار گرنے کے بعد کچھ ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ گرانے والے بھاگ گئے ۔ اصحابِ کہف اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے فرحاں و شاداں اُٹھے ، چہرے شگفتہ ،طبیعتیں خوش ، زندگی کی ترو تازگی موجود۔ ایک نے دوسرے کو سلام کیا اور نماز کے لئے کھڑے ہوگئے ، نماز سے فارغ ہو کر یملیخاسے کہا کہ آپ جائیے اور بازار سے کچھ کھانے کو بھی لائیے اور یہ بھی خبر لائیے کہ دقیانوس بادشاہ کا ہم لوگوں کے بارے میں کیا ارادہ ہے۔ وہ بازار گئے تو انہوں نے شہر پناہ کے دروازے پر اسلامی علامت دیکھی اور وہاں نئے نئے لوگ پائے، یہ دیکھ کر انہیں تعجب ہوا کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ کل تک تو کوئی شخص اپنا ایمان ظاہر نہیں کرسکتا تھا جبکہ آج اسلامی علامتیں شہر پناہ پر ظاہر ہیں ۔ پھر کچھ دیر بعد آپ تندور والے کی دوکان پر گئے اور کھانا خریدنے کے لئے اسے دقیانوسی سکے کا روپیہ دیا جس کارواج صدیوں سے ختم ہوگیا تھا اور اسے دیکھنے والا بھی کوئی باقی نہ رہا تھا۔ بازار والوں نے خیال کیا کہ کوئی پرانا خزانہ ان کے ہاتھ آگیا ہے، چنانچہ وہ انہیں پکڑ کر حاکم کے پاس لے گئے، وہ نیک شخص تھا ،اس نے بھی ان سے دریافت کیا کہ خزانہ کہاں ہے؟ انہوں نے کہا خزانہ کہیں نہیں ہے۔ یہ روپیہ ہمارا اپنا ہے۔ حاکم نے کہا :یہ بات کسی طرح قابلِ یقین نہیں ، کیونکہ اس میں جو سال لکھا ہوا ہے وہ تین سو برس سے زیادہ کا ہے اور آپ نوجوان ہیں ،ہم لوگ بوڑھے ہیں ، ہم نے تو کبھی یہ سکہ دیکھا ہی نہیں ۔ آپ نے فرمایا: میں جو دریافت کروں وہ ٹھیک ٹھیک بتاؤ تو عُقدہ حل ہوجائے گا۔ یہ بتاؤ کہ دقیانوس بادشاہ کس حال وخیال میں ہے ؟ حاکم نے کہا، آج روئے زمین پر اس نام کا کوئی بادشاہ نہیں ، سینکڑوں برس پہلے ایک بے ایمان بادشاہ اس نام کا گزرا ہے۔ آپ نے فرمایا: کل ہی تو ہم اس کے خوف سے جان بچا کر بھاگے ہیں اور میرے ساتھی قریب کے پہاڑ میں ایک غار کے اندر پناہ گزین ہیں ، چلو میں تمہیں ان سے ملادوں ، حاکم اور شہر کے سردار اور ایک کثیر مخلوق ان کے ہمراہ غار کے کنارے پہنچ گئے۔ اصحابِ کہف یملیخا کے انتظار میں تھے ، جب انہوں نے کثیر لوگوں کے آنے کی آواز سنی تو سمجھے کہ یملیخا پکڑے گئے اور دقیانوسی فوج ہماری جستجو میں آرہی ہے۔ چنانچہ وہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی حمدمیں مشغول ہوگئے۔ اتنے میں شہر کے لوگ پہنچ گئے اور یملیخا نے بقیہ حضرات کو تمام قصہ سنایا، ان حضرات نے سمجھ لیا کہ ہم اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے اتنا طویل زمانہ سوئے رہے اور اب اس لئے اٹھائے گئے ہیں کہ لوگوں کے لئے موت کے بعد زندہ کئے جانے کی دلیل اور نشانی بنیں ۔ جب حاکمِ شہر غار کے کنارے پہنچا تو اس نے تانبے کا صندوق دیکھا ، اس کو کھلوایا تو تختی برآمد ہوئی، اس تختی میں اُن اصحاب کے اَسماء اور اُن کے کتے کا نام لکھا تھا ، یہ بھی لکھا تھا کہ یہ جماعت اپنے دین کی حفاظت کے لئے دقیانوس کے ڈر سے اس غار میں پناہ گزین ہوئی، دقیانوس نے خبر پا کر ایک دیوار سے انہیں غار میں بند کردینے کا حکم دیا ، ہم یہ حال اس لئے لکھتے ہیں تاکہ جب کبھی یہ غار کھلے تو لوگ ان کے حال پر مطلع ہوجائیں ۔ یہ تختی پڑھ کر سب کو تعجب ہوا اور لوگ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی حمد و ثناء بجالائے کہ اس نے ایسی نشانی ظاہر فرمادی جس سے موت کے بعد اٹھنے کا یقین حاصل ہوتا ہے۔ حاکمِ شہرنے اپنے بادشاہ بید روس کو واقعہ کی اطلاع دی ، چنانچہ بادشاہ بھی بقیہ معززین اور سرداروں کو لے کر حاضر ہوا اور شکرِ الٰہی کا سجدہ بجا لایا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اس کی دعا قبول کی ۔اصحاب ِکہف نے بادشاہ سے مُعانقہ کیا اور فرمایا ہم تمہیں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے سپرد کرتے ہیں ۔ والسلام علیک ورحمۃ اللّٰہ وبرکا تہ ،اللّٰہ تعالیٰ تیری اور تیرے ملک کی حفاظت فرمائے اور جن و اِنس کے شر سے بچائے ۔بادشاہ کھڑا ہی تھا کہ وہ حضرات اپنے خواب گاہوں کی طرف واپس ہو کر مصروفِ خواب ہوئے اور اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں وفات دیدی، بادشاہ نے سال کے صندوق میں ان کے اَجساد کو محفوظ کیا اور اللّٰہ تعالیٰ نے رُعب سے ان کی حفاظت فرمائی کہ کسی کی مجال نہیں کہ وہاں پہنچ سکے ۔ بادشاہ نے سرِغار مسجد بنانے کا حکم دیا اور ایک خوشی کا دن معین کردیا کہ ہر سال لوگ عید کی طرح وہاں آیا کریں ۔(خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۱۰، ۳ / ۱۹۸-۲۰۳، تفسیر ابن کثیر، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۱، ۵ / ۱۳۲-۱۳۳، خزائن العرفان، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۵۴۹-۵۵۰، ملتقطا)اس مردار پہ کیا للچانا دنیا دیکھی بھالی ہے
فَضَرَبْنَا عَلٰۤى اٰذَانِهِمْ فِی الْـكَهْفِ سِنِیْنَ عَدَدًا(11)ثُمَّ بَعَثْنٰهُمْ لِنَعْلَمَ اَیُّ الْحِزْبَیْنِ اَحْصٰى لِمَا لَبِثُوْۤا اَمَدًا(12)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو ہم نے اس غار میں ان کے کانوں پر گنتی کے کئی سال پردہ لگا رکھا ۔پھر ہم نے انہیں جگایا تاکہ دیکھیں کہ دو گروہوں میں سے کون ان کے ٹھہرنے کی مدت زیادہ درست بتاتا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{سِنِیْنَ عَدَدًا: گنتی کے کئی سال۔} ارشاد فرمایا کہ جب وہ غار میں لیٹے تو ہم نے اس غار میں ان کے کانوں پر گنتی کے کئی سال تک پردہ لگا رکھا یعنی انہیں ایسی نیند سلادیا کہ کوئی آواز بیدار نہ کرسکے۔( مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۱۱، ص۶۴۲)
اولیاء کی کرامات برحق ہیں :
اس آیت سے معلوم ہواکہ کراماتِ اَولیاء برحق ہیں ، اصحابِ کہف بنی اسرائیل کے اولیاء ہیں ۔ ان کا کھائے پئے بغیر اتنی مدت زندہ رہنا کرامت ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ کرامت ولی سے سوتے میں بھی صادر ہو سکتی ہے اور اسی طرح بعد ِموت بھی۔ ان کے جسموں کو مٹی کا نہ کھانا یہ بھی کرامتِ اولیاء میں سے ہے۔نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ ضروری نہیں کہ ولی اپنے اختیار سے کرامت ظاہر کرے اور اسے علم بھی ہو بلکہ بعض اوقات بغیر ولی کے اختیار کے اور بغیر اس کے علم کے بھی کرامت ظاہر ہوتی ہے جیسے اصحاب ِ کہف کے واقعہ میں ہوا۔
{ ثُمَّ بَعَثْنٰهُمْ: پھر ہم نے انہیں جگایا۔} ارشاد فرمایا کہ پھر ہم نے اصحاب ِ کہف کو (تین سونو سال کی) نیند کے بعد جگایا تاکہ دیکھیں کہ ان کے سونے کی مدت کے بارے میں اختلاف کرنے والے دو گروہوں میں سے کون ان کے ٹھہرنے کی مدت زیادہ درست بتاتا ہے۔( روح البیان، الکھف، تحت الآیۃ: ۱۲، ۵ / ۲۲۰)
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْكَ نَبَاَهُمْ بِالْحَقِّؕ-اِنَّهُمْ فِتْیَةٌ اٰمَنُوْا بِرَبِّهِمْ وَ زِدْنٰهُمْ هُدًى(13)وَّ رَبَطْنَا عَلٰى قُلُوْبِهِمْ اِذْ قَامُوْا فَقَالُوْا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ لَنْ نَّدْعُوَاۡ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِلٰهًا لَّقَدْ قُلْنَاۤ اِذًا شَطَطًا(14)هٰۤؤُلَآءِ قَوْمُنَا اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اٰلِهَةًؕ-لَوْ لَا یَاْتُوْنَ عَلَیْهِمْ بِسُلْطٰنٍۭ بَیِّنٍؕ-فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًاﭤ(15)وَ اِذِ اعْتَزَلْتُمُوْهُمْ وَ مَا یَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ فَاْوٗۤا اِلَى الْـكَهْفِ یَنْشُرْ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِّنْ رَّحْمَتِهٖ وَ یُهَیِّئْ لَكُمْ مِّنْ اَمْرِكُمْ مِّرْفَقًا(16)
ترجمہ: کنزالعرفان
ہم آپ کے سامنے ان کا ٹھیک ٹھیک حال بیان کرتے ہیں ۔ بیشک وہ کچھ جوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے ان کی ہدایت میں اضافہ کردیا۔اور ہم نے ان کے دلوں کو قوت عطا فرمائی جب وہ کھڑے ہوگئے تو کہنے لگے: ہمارا رب وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے ،ہم اس کے سوا کسی معبود کی عبادت ہرگز نہیں کریں گے۔ اگر ہم ایسا کریں تو اس وقت ہم ضرور حد سے بڑھی ہوئی بات کہنے والے ہوں گے۔ یہ ہماری قوم ہے انہوں نے اللہ کے سوا اور معبود بنا رکھے ہیں ، یہ ان پر کوئی روشن دلیل کیوں نہیں لاتے؟ تو اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے؟ اور (آپس میں کہا:) جب تم ان لوگوں سے اور اللہ کے سوا جن کو یہ پوجتے ہیں ان سے جدا ہوجاؤ تو غار میں پناہ لو، تمہارا رب تمہارے لیے اپنی رحمت پھیلا دے گا اور تمہارے کام میں تمہارے لئے آسانی مہیا کردے گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِذْ قَامُوْا فَقَالُوْا:جب وہ کھڑے ہوگئے تو کہنے لگے۔} انہوں نے اپنی بات دقیانوس بادشاہ کے سامنے کی جب اس نے انہیں اپنے دربار میں بلا کربتوں کی عبادت نہ کرنے پر باز پُرس کی تھی۔( مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۱۴، ص۶۴۳، ملخصاً)
{وَ اِذِ اعْتَزَلْتُمُوْهُمْ: اور جب تم ان لوگوں سے جدا ہوجاؤ۔} یہاں سے جو کلام ہے یہ ان حضرات کا آپس میں تھا ۔ انہوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ اس کافر قوم میں نہ رہو بلکہ ان سے جدا ہوجاؤ اورجا کر کہیں کسی گوشہ میں چھپ جاؤ، جہاں ان کے فتنہ سے بچ کر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کیا کریں ۔ ہم کو امید ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں گوشۂ عافیت ضرور دے گا۔( مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۱۶، ص۶۴۴، ملخصاً)
فتنوں کے زمانے میں ایمان کی حفاظت کاذریعہ:
اس سے معلوم ہوا کہ فتنوں کے زمانہ میں خلقت سے علیحدگی اپنے ایمان کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔ احادیث ِ مبارکہ میں بھی یہی فرمایا گیا ہے چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ عنقریب مسلمان کا بہترین مال وہ بکریاں ہوں گی جنہیں لے کر یہ پہاڑ کی چوٹیوں اور برساتی مقامات پر چلا جائے گا کیونکہ وہ اپنے دین کو بچانے کی خاطر فتنوں سے بھاگ رہا ہوگا۔( بخاری، کتاب الفتن، باب التعرّب فی الفتنۃ، ۴ / ۴۳۹، الحدیث: ۷۰۸۸)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’عنقریب فتنے کھڑے ہوں گے جن میں بیٹھا ہو ا شخص کھڑے سے اچھا رہے گا اور کھڑا ہوا چلنے والے سے اچھا رہے گا۔ اور چلنے والا دوڑنے والے سے اچھا رہے گا۔ جو اس (فتنے) کی طرف جھانکے گا تو وہ اسے بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ ان دنوں جس کو بچاؤ کی کوئی جگہ یا پناہ گاہ ملے تو ا سے اس میں پناہ لے لینی چاہئے۔( بخاری، کتاب الفتن، باب تکون فتنۃ القاعد فیہا خیر من القائم، ۴ / ۴۳۶، الحدیث: ۷۰۸۲)
حضرت ابوبکرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’عنقریب فتنے ہوں گے ، خبردار پھر فتنے ہوں گے ، پھر وہ فتنے ہوں گے کہ ان میں بیٹھا ہوا چلتے ہوئے سے بہتر ہوگا اور چلتا ہوا دوڑتے ہوئے سے بہتر ہوگا۔ آگاہ رہو کہ جب وہ فتنے واقع ہوں تو جس کے پاس اونٹ ہوں وہ اونٹوں سے مل جائے اور جس کے پاس بکریاں ہوں وہ اپنی بکریوں میں چلا جائے اور جس کی زمین ہو وہ اپنی زمین میں پہنچ جائے۔ یہ سن کر ایک صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جس کے پاس اونٹ ، بکریاں اور زمین نہ ہو تو وہ کیا کرے ۔ ارشاد فرمایا ’’ وہ اپنی تلوار کی طرف رخ کرے اور اس کی دھار کو پتھر سے کوٹ دے ،پھر اگر الگ ہونے کی طاقت رکھے تو الگ ہو جائے۔ (یعنی اپنی تلوار توڑ دے تاکہ باہمی جنگ و جدال میں حصہ ہی نہ لے سکے۔)( مشکاۃ، کتاب الفتن، الفصل الاول، ۲ / ۲۷۹، الحدیث: ۵۳۸۵)
بارگاہِ الٰہی کے مقبول بندے تَقیہ نہیں کرتے:
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مقبولانِ بارگاہ ِ الٰہی تقیہ نہیں کرتے جیسے اصحاب ِ کہف نے علاقہ چھوڑ دیا لیکن تقیہ نہ کیا۔
وَ تَرَى الشَّمْسَ اِذَا طَلَعَتْ تَّزٰوَرُ عَنْ كَهْفِهِمْ ذَاتَ الْیَمِیْنِ وَ اِذَا غَرَبَتْ تَّقْرِضُهُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَ هُمْ فِیْ فَجْوَةٍ مِّنْهُؕ-ذٰلِكَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِؕ-مَنْ یَّهْدِ اللّٰهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِۚ-وَ مَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ وَلِیًّا مُّرْشِدًا(17)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اے حبیب! تم سورج کو دیکھو گے کہ جب نکلتا ہے تو ان کے غار کے دائیں جانب مائل ہوکر نکل جاتا ہے اور جب غروب ہوتا ہے تو ان سے بائیں طرف کتراکر گزر جاتا ہے حالانکہ وہ اس غار کے کھلے حصے میں ہیں ۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے ۔ جسے اللہ ہدایت دیتا ہے تو وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے وہ گمراہ کرے تو تم ہرگز اس کیلئے کوئی راہ دکھانے والا مددگار نہ پاؤ گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ تَرَى الشَّمْسَ: اور تم سورج کو دیکھو گے۔} آیت میں فرمایا گیا کہ سورج اصحاب ِ کہف کے دائیں اور بائیں ہوکر گزرتا ہے یعنی ان پر تمام دن سایہ رہتا ہے اور طلوع سے غروب تک کسی وقت بھی دھوپ کی گرمی انہیں نہیں پہنچتی۔( مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۶۴۴)
مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ان کا غار جنوب رخ (میں ) واقع ہوا ہے کہ سورج نکلتے وقت بائیں اور غروب کے وقت داہنے ہو جاتا ہے اور ان پر کسی وقت دھوپ نہیں پہنچتی، یہ ہی تفسیر زیادہ قوی ہے۔( نور العرفان، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۴۷۰)آیت میں مزید فرمایا کہ حالانکہ وہ اس غار کے کھلے حصے میں ہیں گویا ہر وقت انہیں تازہ ہوائیں پہنچتی رہتی ہیں یعنی وہ کھلے میدان میں ہونے کے باوجود دھوپ سے محفوظ ہیں ، یا تو ان کی یہ کرامت ہے یا کچھ رخ ہی ایسا ہے ۔
وَ تَحْسَبُهُمْ اَیْقَاظًا وَّ هُمْ رُقُوْدٌ ﳓ وَّ نُقَلِّبُهُمْ ذَاتَ الْیَمِیْنِ وَ ذَاتَ الشِّمَالِ ﳓ وَ كَلْبُهُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَیْهِ بِالْوَصِیْدِؕ-لَوِ اطَّلَعْتَ عَلَیْهِمْ لَوَلَّیْتَ مِنْهُمْ فِرَارًا وَّ لَمُلِئْتَ مِنْهُمْ رُعْبًا(18)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور تم انہیں جاگتے ہوئے خیال کرو گے حالانکہ وہ سو رہے ہیں اور ہم ان کی دائیں اور بائیں کروٹ بدلتے رہتے ہیں اور ان کا کتا غار کی چوکھٹ پراپنی کلائیاں پھیلائے ہوئے ہے ۔ اے سننے والے ! اگر تو انہیں جھانک کر دیکھ لے تو ان سے پیٹھ پھیر کر بھاگ جائے اور ان کی ہیبت سے بھر جائے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ تَحْسَبُهُمْ اَیْقَاظًا: اور تم انہیں جاگتے ہوئے خیال کرو گے۔} اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اگر تم انہیں دیکھو توتم انہیں جاگتے ہوئے خیال کرو گے کیونکہ ان کی آنکھیں کھلی ہیں حالانکہ وہ سو رہے ہیں اور ہم سال میں ایک مرتبہ دس محرم شریف کو ان کی دائیں اور بائیں کروٹ بدلتے رہتے ہیں تاکہ ایک ہی طرح لیٹے رہنے سے ان کے بدن کو نقصان نہ پہنچے اور ان کا کتا غار کی چوکھٹ پراپنی کلائیاں پھیلائے ہوئے ہے اور وہ بھی ان کے ساتھ کروٹ بدلتا ہے یعنی جب اصحاب ِکہف کروٹ بدلتے ہیں تو وہ بھی کروٹ بدلتا ہے۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۱۸، ۳ / ۲۰۴-۲۰۵، ملخصاً)
کتے کے ضَرَر سے محفوظ رہنے کاوظیفہ:
تفسیر ثعلبی میں ہے کہ جو کوئی ان کلمات ’’وَ كَلْبُهُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَیْهِ بِالْوَصِیْدِ‘‘ کو لکھ کر اپنے ساتھ رکھے تو کتے کے ضرر سے امن میں رہے گا۔( تفسیر ثعلبی، الکھف، تحت الآیۃ: ۱۸، ۶ / ۱۶۰)
اللّٰہ تعالیٰ کے نیک بندوں سے محبت کی برکت:
ابو فضل جوہری نے کہا ’’بے شک جس نے نیک لوگوں سے محبت کی وہ ان کی برکتیں پائے گا، ایک کتے نے نیک بندوں سے محبت کی اور ان کی صحبت میں رہا تو اللّٰہ تعالیٰ نے اس کا ذکر اپنی پاک کتاب میں فرمایا۔ ابو عبداللّٰہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ جب نیک بندوں اور اولیاءِ کرام کی صحبت میں رہنے کی برکت سے ایک کتا اتنا بلند مقام پا گیا حتّٰی کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ا س کا ذکر قرآنِ پاک میں فرما یا تو ا س مسلمان کے بارے میں تیرا کیا گمان ہے جو اولیاء اور صالحین سے محبت کرنے والا اور ان کی صحبت سے فیضیاب ہونے والا ہے بلکہ اس آیت میں ان مسلمانوں کے لئے تسلی ہے جو کسی بلند مقام پر فائز نہیں ۔( قرطبی، الکھف، تحت الآیۃ: ۱۸، ۵ / ۲۶۹، الجزء العاشر) یعنی ان کیلئے تسلی ہے کہ وہ اپنی اس محبت و عقیدت کی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سرخ رُو ہوں گے۔
حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، ایک شخص نے بارگاہِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہو کر عرض کی :یا رسولَ اللّٰہ ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، قیامت کب قائم ہو گی؟ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے نماز ادا کی اور ا س کے بعد فرمایا ’’قیامت کے بارے میں سوال کرنے والا کہاں ہے؟ اس شخص نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں ہوں ۔ ارشاد فرمایا: تم نے ا س کی کیا تیاری کی ہے؟ عرض کی : میرے پاس بہت زیادہ نمازیں اور روزے تو نہیں ہیں البتہ میں اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے محبت کرتا ہوں ۔ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: مرد اسی کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبت کرتا ہے اور اے شخص! تم ان کے ساتھ ہو گے جن سے محبت کرتے ہو۔‘‘ حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں : میں نے اسلام قبول کرنے کے بعد اس سے زیادہ مسلمانو ں کو خوش نہیں دیکھا جتنا اس دن دیکھا تھا۔( ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء انّ المرء مع من احبّ، ۴ / ۱۷۲، الحدیث: ۲۳۹۲)
{لَوِ اطَّلَعْتَ عَلَیْهِمْ:اے سننے والے ! اگر تو انہیں جھانک کر دیکھ لے۔} آیت میں مزید فرمایا کہ اے سننے والے ! اگر تو انہیں جھانک کر دیکھ لے تو ان سے پیٹھ پھیر کر بھاگ جائے اور ان کی ہیبت سے بھر جائے۔ یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے ایسی ہیبت سے ان کی حفاظت فرمائی ہے کہ ان تک کوئی جا نہیں سکتا۔ بعض روایتوں میں ہے کہ حضرت امیر ِمعاویہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ جنگ ِروم کے وقت کہف کی طرف گزرے تو انہوں نے اصحابِ کہف کے غار میں داخل ہونا چاہا، حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے انہیں منع کیا اور یہ آیت پڑھی پھر ایک جماعت حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے حکم سے داخل ہوئی تو اللّٰہ تعالیٰ نے ایک ایسی ہوا چلائی کہ سب جل گئے۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۱۸، ۳ / ۲۰۵)
وَ كَذٰلِكَ بَعَثْنٰهُمْ لِیَتَسَآءَلُوْا بَیْنَهُمْؕ-قَالَ قَآىٕلٌ مِّنْهُمْ كَمْ لَبِثْتُمْؕ-قَالُوْا لَبِثْنَا یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍؕ-قَالُوْا رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْؕ-فَابْعَثُوْۤا اَحَدَكُمْ بِوَرِقِكُمْ هٰذِهٖۤ اِلَى الْمَدِیْنَةِ فَلْیَنْظُرْ اَیُّهَاۤ اَزْكٰى طَعَامًا فَلْیَاْتِكُمْ بِرِزْقٍ مِّنْهُ وَ لْیَتَؔلَطَّفْ وَ لَا یُشْعِرَنَّ بِكُمْ اَحَدًا(19)اِنَّهُمْ اِنْ یَّظْهَرُوْا عَلَیْكُمْ یَرْجُمُوْكُمْ اَوْ یُعِیْدُوْكُمْ فِیْ مِلَّتِهِمْ وَ لَنْ تُفْلِحُوْۤا اِذًا اَبَدًا(20)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ویسا ہی ہم نے انہیں جگایا تاکہ آپس میں ایک دوسرے سے حالات پوچھیں ۔ ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا: تم یہاں کتنی دیر رہے ہو؟ چند افراد نے کہا: کہ ہم ایک دن رہے ہیں یا ایک دن سے کچھ کم وقت۔ دوسروں نے کہا: تمہارا رب خوب جانتا ہے جتنا تم ٹھہرے ہوتو اپنے میں سے ایک کو یہ چاندی دے کرشہر کی طرف بھیجو تاکہ وہ دیکھے کہ وہاں کون سا کھانا زیادہ عمدہ ہے پھر تمہارے پاس اسی میں سے کوئی کھانا لے آئے اور اسے چاہیے کہ نرمی سے کام لے اور ہرگز کسی کو تمہاری اطلاع نہ دے۔ بیشک اگر انہوں نے تمہیں جان لیا تو تمہیں پتھر ماریں گے یا تمہیں اپنے دین میں پھیر لیں گے اور اگر ایسا ہوا تو پھر تم کبھی بھی فلاح نہ پاؤگے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ كَذٰلِكَ بَعَثْنٰهُمْ: اور یوں ہی ہم نے انہیں جگایا۔} یہاں سے اب بقیہ واقعے کی تفصیل بیان کی گئی ہے، تفسیرات کی روشنی میں آیت کا خلاصہ یوں ہے کہ فرمایا ’’ جیسا ہم نے انہیں سلایا ویسا ہی ایک مدت ِ دراز کے بعد ہم نے انہیں جگایا تاکہ آپس میں ایک دوسرے سے حالات پوچھیں اور اللّٰہ تعالیٰ کی قدرتِ عظیمہ دیکھ کر ان کا یقین زیادہ ہو اور وہ اس کی نعمتوں کا شکر ادا کریں ۔ چنانچہ جب وہ بیدار ہوئے تو ان میں سے ایک کہنے والے یعنی مَکْسِلْمِینَا جو اُن میں سب سے بڑے اور ان کے سردارتھے کہنے لگے: تم یہاں کتنی دیر رہے ہو؟ چند افراد نے کہا: کہ ہم یہاں ایک دن رہے ہیں یا ایک دن سے کچھ کم وقت۔ کیونکہ وہ غار میں طلوعِ آفتاب کے وقت داخل ہوئے تھے اور جب اُٹھے تو آفتاب قریب ِغروب تھا، اس سے انہوں نے گمان کیا کہ یہ وہی دِن ہے۔ بقیہ لوگوں نے کہا: تمہارا رب خوب جانتا ہے جتنا تم ٹھہرے ہوکہ تھوڑا عرصہ ہوا ہے یا زیادہ ،تو اپنے میں سے ایک کو یہ چاندی دے کرشہر کی طرف بھیجو تاکہ وہ جاکر دیکھے کہ وہاں کون سا کھانا زیادہ عمدہ ہے جس میں حرمت کا کوئی شبہ نہ ہو پھر وہی کھانا لے آئے اور جانے والے کو چاہیے کہ آنے جانے میں نرمی سے کام لے اور ہرگز کسی کو تمہاری اطلاع نہ دے۔ اصحاب ِ کہف اپنے ساتھ دقیانوسی سکے لے کر گئے تھے اورسوتے وقت انہیں اپنے سرہانے رکھ لیا تھا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسافر کو خرچ ساتھ میں رکھنا طریقۂ تَو کل کے خلاف نہیں ہے۔ اسباب ساتھ رکھے اور بھروسہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ پر رکھے۔( مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۶۴۵، خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۱۹، ۳ / ۲۰۵، ملتقطاً)
{اِنَّهُمْ اِنْ یَّظْهَرُوْا عَلَیْكُمْ:بے شک اگر انہوں نے تمہیں جان لیا ۔} اصحاب ِ کہف نے آپس میں کہا کہ اگر انہوں نے تمہیں جان لیا تو تمہیں پتھر ماریں گے اور بری طرح قتل کریں گے یا جبروستم سے تمہیں اپنے دین میں پھیر لیں گے اور اگر ایسا ہوا تو پھر تم کبھی بھی فلاح نہ پاؤگے۔
وَ كَذٰلِكَ اَعْثَرْنَا عَلَیْهِمْ لِیَعْلَمُوْۤا اَنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّ اَنَّ السَّاعَةَ لَا رَیْبَ فِیْهَا ﱐ اِذْ یَتَنَازَعُوْنَ بَیْنَهُمْ اَمْرَهُمْ فَقَالُوا ابْنُوْا عَلَیْهِمْ بُنْیَانًاؕ-رَبُّهُمْ اَعْلَمُ بِهِمْؕ-قَالَ الَّذِیْنَ غَلَبُوْا عَلٰۤى اَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیْهِمْ مَّسْجِدًا(21)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اسی طرح ہم نے ان پر مطلع کردیا تاکہ لوگ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور یہ کہ قیامت میں کچھ شبہ نہیں ، جب وہ لوگ ان کے معاملے میں باہم جھگڑنے لگے تو کہنے لگے : ان کے غار پر کوئی عمارت بنادو ، ان کا رب انہیں خوب جانتا ہے، جو لوگ اپنے اس کام میں غالب رہے تھے انہوں نے کہا: ہم ضرور ان کے قریب ایک مسجد بنائیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ كَذٰلِكَ: اور اسی طرح۔} ارشاد فرمایا کہ جیسے ہم نے اصحاب ِ کہف کو جگایا تھا اسی طرح ہم نے لوگوں کو دقیانوس کے مرنے اور مدت گزر جانے کے بعداصحاب ِ کہف کے بارے میں مطلع کردیا تاکہ تمام لوگ اور بالخصوص بیدروس بادشاہ کی قوم کے منکرین ِقیامت جان لیں کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا وعدہ سچا ہے اور یہ کہ قیامت میں کچھ شبہ نہیں ۔ پھر اصحاب ِ کہف کی وفات کے بعد ان کے اردگرد عمارت بنانے میں لوگ باہم جھگڑنے لگے تو کہنے لگے : ان کے غار پر کوئی عمارت بنادو۔ ان کا رب عَزَّوَجَلَّ انہیں خوب جانتا ہے جو لوگ اپنے اس کام میں غالب رہے تھے یعنی بیدروس بادشاہ اور اس کے ساتھی، انہوں نے کہا: ہم ضرور ان کے قریب ایک مسجد بنائیں گے جس میں مسلمان نماز پڑھیں اور ان کے قرب سے برکت حاصل کریں ۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۱، ۳ / ۲۰۶، مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۱، ص۶۴۶، ملتقطاً)
بزرگوں کے مزارات کے قریب مسجدیں بنانا جائز ہے:
اس سے معلوم ہوا کہ بزرگوں کے مزارات کے قریب مسجدیں بنانا اہلِ ایمان کا قدیم طریقہ ہے اور قرآنِ کریم میں اس کا ذکر فرمانا اور اس کو منع نہ کرنا اس فعل کے درست ہونے کی قوی ترین دلیل ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بزرگوں کے قرب میں برکت حاصل ہوتی ہے اسی لئے اہلُ اللّٰہ کے مزارات پر لوگ حصولِ برکت کے لئے جایا کرتے ہیں ۔قبروں کی زیارت سنت اور مُوجِب ِثواب ہے۔
سَیَقُوْلُوْنَ ثَلٰثَةٌ رَّابِعُهُمْ كَلْبُهُمْۚ-وَ یَقُوْلُوْنَ خَمْسَةٌ سَادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ رَجْمًۢا بِالْغَیْبِۚ-وَ یَقُوْلُوْنَ سَبْعَةٌ وَّ ثَامِنُهُمْ كَلْبُهُمْؕ-قُلْ رَّبِّیْۤ اَعْلَمُ بِعِدَّتِهِمْ مَّا یَعْلَمُهُمْ اِلَّا قَلِیْلٌ ﲕ فَلَا تُمَارِ فِیْهِمْ اِلَّا مِرَآءً ظَاهِرًا۪-وَّ لَا تَسْتَفْتِ فِیْهِمْ مِّنْهُمْ اَحَدًا(22)
ترجمہ: کنزالعرفان
اب لوگ کہیں گے کہ وہ تین ہیں (جبکہ) چوتھا ان کا کتا ہے اور کچھ کہیں گے : وہ پانچ ہیں (اور) چھٹا ان کا کتا ہے (یہ سب) بغیر دیکھے اندازے ہیں اور کچھ کہیں گے: وہ سات ہیں اور آٹھواں ان کا کتا ہے ۔ تم فرماؤ! میرا رب ان کی تعداد خوب جانتا ہے۔ انہیں بہت تھوڑے لوگ جانتے ہیں ۔ تو ان کے بارے میں بحث نہ کرو مگر اتنی ہی جتنی ظاہر ہوچکی ہے اور ان کے بارے میں ان میں سے کسی سے کچھ نہ پوچھو۔
تفسیر: صراط الجنان
{سَیَقُوْلُوْنَ: اب لوگ کہیں گے۔} واقعہ کے آخر میں ان کی تعداد کے متعلق لوگوں کے اختلاف کا بیان فرمایا اور اس کا حل بھی ارشاد فرما دیا اور وہی حل ہر اس مسئلے کا ہے جو اہم نہ ہو اور جس کے جاننے سے کوئی خاص فائدہ نہ ہو۔ چنانچہ فرمایا کہ اب لوگ کہیں گے یعنی عیسائی جیسا کہ ان میں سے سیّدنامی آدمی نے کہا کہ وہ تین ہیں جبکہ چوتھا ان کا کتا ہے اور عاقب نامی آدمی نے کہا کہ وہ پانچ ہیں اور چھٹا ان کا کتا ہے۔ یہ سب بغیر دیکھے اندازے ہیں یعنی یہ دونوں اندازے غلط ہیں وہ نہ تین ہیں نہ پانچ ۔ اور کچھ کہیں گے: وہ سات ہیں اور آٹھواں ان کا کتا ہے اور یہ کہنے والے مسلمان ہیں اللّٰہ تعالیٰ نے ان کے قول کو ثابت رکھا کیونکہ انہوں نے جو کچھ کہا وہ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے علم حاصل کرکے کہا۔ تم فرماؤ! میرا رب ان کی تعداد خوب جانتا ہے کیونکہ تمام جہانوں کی تمام تفصیلات اور گزشتہ و آئندہ کی کائنات کا علم اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ہی کو ہے یا جس کو وہ عطا فرمائے۔ مزید فرمایا کہ اصحاب ِ کہف کی تعداد کو بہت تھوڑے لوگ جانتے ہیں ۔ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا کہ میں انہیں قلیل میں سے ہوں جن کا آیت میں اِستثناء فرمایا۔ آیت کے آخر میں مزید فرمایا کہ ان کے بارے میں اہلِ کتاب سے بحث نہ کرو مگر اتنی ہی جتنی ظاہر ہوچکی ہے اور ان کے بارے میں ان میں سے کسی سے کچھ نہ پوچھو۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۲، ۳ / ۲۰۶-۲۰۷، ملخصاً)
وَ لَا تَقُوْلَنَّ لِشَایْءٍ اِنِّیْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًا(23)اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ٘-وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ اِذَا نَسِیْتَ وَ قُلْ عَسٰۤى اَنْ یَّهْدِیَنِ رَبِّیْ لِاَقْرَبَ مِنْ هٰذَا رَشَدًا(24)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہر گز کسی چیز کے متعلق نہ کہنا کہ میں کل یہ کرنے والاہوں ۔ مگر یہ کہ اللہ چاہے اور جب تم بھول جاؤ تو اپنے رب کو یاد کرلواور یوں کہو کہ قریب ہے کہ میرا رب مجھے اس واقعے سے زیادہ قریب ہدایت کا کوئی راستہ دکھائے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ: مگر یہ کہ اللّٰہ چاہے۔} یہاں دو آیتوں میں اسلامی تعلیمات کی ایک بنیادی چیز بیان فرمائی کہ مسلمان کو چاہیے کہ اپنے ارادے میں اِنْ شَاءَ اللّٰہ ضرور کہا کرے ، چنانچہ فرمایا گیا کہ اور ہر گز کسی چیز کے متعلق نہ کہنا کہ میں کل یہ کرنے والا ہوں مگر ساتھ ہی یہ کہا کرو کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ چاہے تو میں کرلوں گا ، مراد یہ ہے کہ جب کسی کام کا ارادہ ہو تو یہ کہنا چاہیے کہ اِنْ شَاءَ اللّٰہ ایسا کروں گا، بغیر اِنْ شَاءَ اللّٰہ کے نہ کہے ۔اِس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ اہلِ مکہ نے رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جب روح،اَصحاب ِکہف اور حضرت ذوالقر نین کے بارے میں دریافت کیا تھا تو حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ کل بتاؤں گا اور اِنْ شَاءَ اللّٰہ نہیں فرمایا تھا تو کئی روز وحی نہیں آئی پھر یہ آیت نازل ہوئی۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۳-۲۴، ۳ / ۲۰۷)
{وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ اِذَا نَسِیْتَ:اور جب تم بھول جاؤ تو اپنے رب کو یاد کرلو۔} حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں :اس کا معنی یہ ہے کہ اگر اِنْ شَاءَ اللّٰہ کہنا یاد نہ رہے تو جب یاد آئے کہہ لو۔ یاد آنے کی مدت کے بارے میں حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ اگرچہ ایک سال بعد یاد آئے اور امام حسن بصری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْتحت ہُ نے فرمایا ہے کہ جب تک اس مجلس میں رہے ، اِنْ شَاءَ اللّٰہ کہہ لے۔( خازن، الکھف، الآیۃ: ۲۴، ۳ / ۲۰۷)
اس آیت کے معنی سے متعلق تفسیروں میں کئی قول مذکور ہیں ، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آیت کا معنٰی یہ ہے ’’اگرکسی نماز کو بھول گیا تو یاد آتے ہی ادا کرلے۔( مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۴، ص۶۴۸) نماز کے بارے میں حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جو نماز پڑھنا بھول جائے تو اسے چاہئے کہ جب یاد آئے (اس وقت) نماز پڑھ لے، اس کا یہی کفارہ ہے۔( بخاری، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب من نسی صلاۃ فلیصلّ اذا ذکرہا۔۔۔ الخ، ۱ / ۲۱۷، الحدیث: ۵۹۷)
{وَ قُلْ عَسٰى:اور یوں کہو کہ قریب ہے ۔} ارشاد فرمایا ’’ یوں کہو کہ قریب ہے کہ میرا رب میری نبوت پر دلائل کیلئے اصحابِ کہف کے اس واقعے سے زیادہ قریب ہدایت کا کوئی راستہ دکھائے یعنی ایسے معجزات عطا فرمائے جو میری نبوت پر اس سے بھی زیادہ ظاہر دلالت کریں جیسے کہ اَنبیاء ِسابقین کے اَحوال کا بیان اور غیوب کا علم اور قیامت تک پیش آنے والے واقعات کا بیان اور چاند کا دو ٹکڑے ہونا اور حیوانات کا حضور ِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت کی گواہی دینا، وغیرہ۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۴، ۳ / ۲۰۸، جمل، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۴، ۴ / ۴۱۰-۴۱۱، ملتقطاً)
وَ لَبِثُوْا فِیْ كَهْفِهِمْ ثَلٰثَ مِائَةٍ سِنِیْنَ وَ ازْدَادُوْا تِسْعًا(25)قُلِ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوْاۚ-لَهٗ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-اَبْصِرْ بِهٖ وَ اَسْمِــعْؕ-مَا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّلِیٍّ٘-وَّ لَا یُشْرِكُ فِیْ حُكْمِهٖۤ اَحَدًا(26)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور وہ اپنے غار میں تین سو سال ٹھہرے اورنو سال زیادہ۔ تم فرماؤ: اللہ خوب جانتا ہے وہ جتنا ٹھہرے۔ آسمانوں اور زمین کے سب غیب اسی کے لیے ہیں ، وہ کتنا دیکھنے والا اور سننے والا ہے۔ ان کیلئے اس کے سوا کوئی مددگار نہیں اور وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔
تفسیر: صراط الجنان
{ قُلْ: تم فرماؤ۔} اصحاب ِ کہف کے قیام کی مدت بیان کرنے کے بعد ارشاد فرمایا کہ اگر لوگ اس مدت میں جھگڑا کریں تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ہی کا فرمانا برحق ہے لہٰذا تم ان سے کہہ دو کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ خوب جانتا ہے کہ وہ لوگ کتنا ٹھہرے تھے، خواہ وہ ان کے غار میں سونے والی مدت ہو یا تب سے لے کر اب تک کی مدت ہو، بہرحال اللّٰہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کیونکہ آسمانوں اور زمین کے سب غیبوں کا علم اسی کوہے ،کوئی ظاہر اور کوئی باطن اس سے چھپا نہیں ۔ اِس حصے کا شانِ نزول یہ ہے کہ نجران کے نصرانیوں نے کہا تھا کہ تین سو برس تک ٹھیک ہیں اور نو کی زیادتی کیسی ہے، اس کا ہمیں علم نہیں ۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۶، ۳ / ۲۰۸)
وَ اتْلُ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنْ كِتَابِ رَبِّكَۚ- لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖۚ-وَ لَنْ تَجِدَ مِنْ دُوْنِهٖ مُلْتَحَدًا(27)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اپنے رب کی کتاب سے اس وحی کی تلاوت کرو جو آپ کی طرف بھیجی گئی ہے ۔اس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں اور تم ہرگز اس کے سوا کوئی پناہ نہ پاؤ گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اتْلُ: اور تلاوت کر۔} جب اللّٰہ تعالیٰ نے اصحابِ کہف کے واقعے پر مشتمل آیات نازل فرما دیں تو ا س آیت میں اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حکم دیا کہ آپ قرآنِ پاک کی تلاوت کرتے رہیں اور کفار کی ان باتوں کی پروا نہ کریں کہ آپ اس کے علاوہ کوئی اور قرآن لے آئیں یا اسے تبدیل کر دیں ۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی باتوں کو بدلنے پر کوئی قادر نہیں ۔(ابوسعود، الکہف، تحت الآیۃ: ۲۶-۲۷، ۳ / ۳۷۶-۳۷۷)
قرآنِ مجید کی تلاوت کرنی چاہئے اگرچہ سمجھ میں نہ آئے:
ا س آیتِ مبارکہ میں تلاوت کا بیان اصحاب ِ کہف کے واقعے کے اختتام کے طور پر ہے لیکن قرآنِ پاک کے عمومی الفاظ کا اعتبار کرتے ہوئے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مُطْلَقاً بھی قرآنِ پاک کی تلاوت کرنی چاہیے، سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔
وَ اصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَ لَا تَعْدُ عَیْنٰكَ عَنْهُمْۚ-تُرِیْدُ زِیْنَةَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۚ-وَ لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَ اتَّبَعَ هَوٰىهُ وَ كَانَ اَمْرُهٗ فُرُطًا(28)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اپنی جان کو ان لوگوں کے ساتھ مانوس رکھ جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اس کی رضا چاہتے ہیں اور تیری آنکھیں دنیوی زندگی کی زینت چاہتے ہوئے انہیں چھوڑ کر اوروں پر نہ پڑیں اور اس کی بات نہ مان جس کا دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا اور وہ اپنی خواہش کے پیچھے چلا اور اس کا کام حد سے گزر گیا۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ:جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں ۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ سردارانِ کفار کی ایک جماعت نے سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کیا کہ ہمیں غُرباء اور شکستہ حالوں کے ساتھ بیٹھتے شرم آتی ہے ۔ اگر آپ انہیں اپنی صحبت سے جدا کردیں تو ہم اسلام لے آئیں اور ہمارے اسلام لانے سے خلقِ کثیر اسلام لے آئے گی ۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔(روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۲۸، ۵ / ۲۳۸) اور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو فرمایا گیا کہ اپنی جان کو ان لوگوں کے ساتھ مانوس رکھ جو صبح و شام اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو پکارتے ہیں اس کی رضا چاہتے ہیں یعنی جو اِخلاص کے ساتھ ہر وقت اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی طاعت میں مشغول رہتے ہیں ۔
آیت’’وَ اصْبِرْ نَفْسَكَ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:
اِس آیتِ مبارکہ سے بہت سے مسائل معلوم ہوئے ۔
(1)… نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تربیت خود ربُّ العالَمین عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے جیسے یہاں ہوا کہ ایک معاملہ در پیش ہوا تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خود تربیت فرمائی اور آپ کی کمال کی طرف رہنمائی فرمائی۔
(2)…یہ بھی معلوم ہوا کہ اچھوں کے ساتھ رہنا اچھا ہے اگرچہ وہ فُقراء ہوں اور بروں کے ساتھ رہنا برا ہے اگرچہ وہ مالدار ہوں ۔
(3)… یہ بھی معلوم ہوا کہ صبح و شام خصوصیت سے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا ذکرکرنا بہت افضل ہے۔ قرآنِ پاک میں بطورِ خاص صبح و شام کے ذکر کو بکثرت بیان فرمایا ہے ،جیسے اِس آیت میں بھی ہے اور اس کے علاوہ بھی بہت سی آیتوں میں ہے۔
(4)…یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور پُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو صالحین سے بطورِ خاص محبت ہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس کا حکم دیا گیا ہے۔
(5)… صالحین کی دو علامتیں بھی اس آیت میں بیان فرمائیں اول یہ کہ وہ صبح و شام اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا ذکر کرتے ہیں اور دوسری یہ کہ ہر عمل سے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا اور خوشنودی کے طلبگار ہوتے ہیں ۔
(6)…مزید اِس آیت میں دنیا داروں کی طرف نظر رکھنے اور ان کی پیروی سے ممانعت کے بارے میں حکم ہے۔اس حکم میں قیامت تک کے مسلمانوں کو ہدایت ہے کہ غافلوں ، متکبروں ، ریاکاروں ، مالداروں کی نہ مانا کریں اور ان کے مال ودولت پر نظریں نہ جمائیں بلکہ مخلص، صالح، غُرباء و مَساکین کے ساتھ تعلق رکھیں اور ان ہی کی اطاعت کیا کریں ۔ دنیا کی محبت میں گرفتار مالداروں کی بات ماننا دین کوبرباد کر دیتا ہے ۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں جو بات سمجھ آتی ہے وہ یہ ہے کہ مال اور مالدار فی نَفْسِہٖ نہ برے ہیں اور نہ اچھے بلکہ مال کا غلط استعمال اور ایسے مالدار برے ہیں اور چونکہ مالدار عموماً نفس پرستی میں پڑ جاتے ہیں اسی لئے ان کی مذمت زیادہ بیان کی جاتی ہے ۔ اسی سے ملتا جلتا ایک حکم حدیث ِ مبارک میں ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے ، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میری امت میں سے کچھ لوگ علمِ دین سیکھیں گے ، قرآن پڑھیں گے اور کہیں گے کہ ہم امیروں کے پاس ا س لئے جاتے ہیں تاکہ ان سے دنیا حاصل کرلیں اور اپنے دین کو ان سے جدا رکھتے ہیں حالانکہ یہ نہیں ہو سکتا جیسا کہ کانٹے والے درخت سے پھل توڑنے میں کانٹے ہی ہاتھ آتے ہیں اسی طرح وہ ان کے قرب میں گناہوں سے نہیں بچ سکتے۔(ابن ماجہ، کتاب السنّۃ، باب الانتفاع بالعلم والعمل بہ، ۱ / ۱۶۶، الحدیث: ۲۵۵)
حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ اگر علماء علم حاصل کرنے کے بعد اسے محفوظ رکھتے اور اسے اہل لوگوں کے سامنے پیش کرتے تو اہلِ زمانہ کے سردار بن جاتے لیکن انہوں نے اسے دنیا والوں پر اپنی دنیا حاصل کرنے کے لئے خرچ کیا اس وجہ سے ذلیل ہو گئے ۔ میں نے رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو فرماتے سنا ہے ’’جس شخص کی ساری فکر آخرت کے متعلق ہے تو اللّٰہ تعالیٰ دنیا کے غموں سے اس کی کفایت فرمائے گا اور جو شخص دنیاوی اُمور میں پریشان ہوتا رہے گا اللّٰہ تعالیٰ کو اس کی پروا نہیں چاہے وہ کسی وادی میں بھی گر کر مرے۔(ابن ماجہ، کتاب السنّۃ، باب الانتفاع بالعلم والعمل بہ، ۱ / ۱۶۷، الحدیث: ۲۵۷)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص علم صرف اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ دنیاوی مَقاصد کے لئے حاصل کرے تو قیامت کے دن وہ جنت کی خوشبو ہر گز نہیں پائے گا۔(ابوداؤد، کتاب العلم، باب فی طلب العلم لغیر اللّٰہ، ۳ / ۴۵۱، الحدیث: ۳۶۶۴)
وَ قُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ- فَمَنْ شَآءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّ مَنْ شَآءَ فَلْیَكْفُرْۙ-اِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِیْنَ نَارًاۙ-اَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَاؕ-وَ اِنْ یَّسْتَغِیْثُوْا یُغَاثُوْا بِمَآءٍ كَالْمُهْلِ یَشْوِی الْوُجُوْهَؕ-بِئْسَ الشَّرَابُؕ-وَ سَآءَتْ مُرْتَفَقًا(29)
ترجمہ: کنزالعرفان
اورتم فرما دو کہ حق تمہارے رب کی طرف سے ہے تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے بیشک ہم نے ظالموں کے لیے وہ آگ تیار کر رکھی ہے جس کی دیواریں انہیں گھیر لیں گی اور اگروہ پانی کے لیے فریاد کریں تو ان کی فریاد اس پانی سے پوری کی جائے گی جو پگھلائے ہوئے تانبے کی طرح ہوگا جو اُن کے منہ کوبھون دے گا۔ کیا ہی برا پینا اور دوزخ کیا ہی بری ٹھہرنے کی جگہ ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قُلْ:اور فرمادو۔} یعنی تم فرمادو کہ حق تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ہے اور حق و باطل ظاہر ہوچکا ہے لہٰذا میں تو مسلمانوں کو ان کی غربت کے باعث تمہاری دل جوئی کے لئے اپنی مجلس مبارک سے جدا نہیں کروں گا، جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے اور خود ہی اپنے انجام کو سوچ لے اور سمجھ لے کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے ظالموں یعنی کافروں کے لیے وہ آگ تیار کر رکھی ہے جس کی دیواریں انہیں گھیر لیں گی اور اگروہ پیاس کی شدت سے پانی کے لیے فریاد کریں تو ان کی فریاد اس پانی سے پوری کی جائے گی جو پگھلائے ہوئے تانبے کی طرح ہوگا جو اُن کے منہ کوبھون دے گا۔ کیا ہی برا پینا ہے اور دوزخ کیا ہی بری ٹھہرنے کی جگہ ہے۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی پناہ، حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا: وہ روغن زیتون کی تلچھٹ کی طرح گاڑھا پانی ہے۔(خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۹، ۳ / ۲۰۹) اور ترمذی کی حدیث میں ہے کہ جب وہ منہ کے قریب کیا جائے گا تو منہ کی کھال اس سے جل کر گر پڑے گی۔(ترمذی، کتاب صفۃ جہنّم، باب ما جاء فی صفۃ شراب اہل النار، ۴ / ۲۶۲، الحدیث: ۲۵۹۲)اور بعض مفسرین کا قول ہے کہ وہ پگھلایا ہوا رانگ اور پیتل ہے۔(خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۹، ۳ / ۲۰۹)
گناہگار مسلمانوں کے لئے نصیحت:
اس آیتِ مبارکہ میں ہر اس مسلمان کے لئے بھی بڑی نصیحت ہے جو ظلم اور گناہ کرنے میں مصروف ہے، اسے اپنے گناہوں پر ندامت و شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے توبہ و استغفار کرنا اور نیک اعمال میں مصروف ہوجانا چاہئے ورنہ یاد رکھے کہ مرنے کے بعد کا سفر انتہائی طویل ہے، جہنم کی گرمی بڑی شدید ہے، اہلِ جہنم کا پانی پگھلے ہوئے تانبے کی طرح اور جہنمیوں کی پیپ ہے اور جہنم کی قید بہت سخت ہے۔ جہنم کے سب سے کم عذاب کے بارے میں حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جہنم میں سب سے کم عذاب جس شخص کو ہو گا اسے آگ کی دو جوتیاں پہنائی جائیں گی جن کی گرمی کی وجہ سے اس کا دماغ کھول رہا ہوگا۔(مسلم، کتاب الایمان، باب اہون اہل النار عذاباً، ص۱۳۴، الحدیث: ۳۶۱(۲۱۱))اور حضرت نعمان بن بشیررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اہلِ جہنم میں سب سے کم عذاب اس شخص کو ہو گا جسے آگ کی دو جوتیاں تسموں سمیت پہنائی جائیں گی جس کی وجہ سے اس کا دماغ ایسے کھول رہا ہو گا جیسے پتیلی میں پانی جوش سے کھولتا ہے، وہ سمجھ رہا ہو گا کہ سب سے زیادہ عذاب مجھے دیا گیا ہے حالانکہ اسے سب سے کم عذاب (دیا گیا) ہوگا۔(مسلم، کتاب الایمان، باب اہون اہل النار عذاباً، ص۱۳۴، الحدیث: ۳۶۴(۲۱۳)) جب سب سے کم عذاب والے کا یہ حال ہو گا تو اس شخص کا حال کیا ہو گا جسے اس سے زیادہ عذاب دیاجا رہا ہو گا۔
ایک بچے کی عبرت انگیز حکایت:
یہاں ایک بچے کی عبرت انگیز حکایت ملاحظہ ہو ، چنانچہ حضرت مالک بن دینار رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : میں ایک بچے کے پاس سے گزرا، وہ مٹی کے ساتھ کھیل رہاتھا اور (اس دوران) کبھی وہ ہنسنا شروع کر دیتا اور کبھی رونے لگ جاتا تھا۔ میں نے ارادہ کیا کہ اسے سلام کروں تو میرے نفس نے مجھے منع کیا، میں نے کہا: اے نفس! نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بچوں اور بڑوں کو سلام کیا کرتے تھے ،پھر میں نے اسے سلام کیا تو اس نے کہا ’’وعلیک السلام ورحمۃ اللّٰہ، اے مالک! میں نے کہا: آپ نے مجھے کیسے پہچانا؟ اس نے کہا: عالَمِ مَلکوت میں میری روح نے آپ کی روح سے ملاقات کی تھی تو اس نے مجھے پہچا ن کروا دی جو زندہ ہے اور اسے کبھی موت نہیں آئے گی۔ میں نے کہا: نفس اور عقل میں فرق کیا ہے؟ اس نے جواب دیا: نفس وہ ہے جس نے آپ کو سلام کرنے سے منع کیا اور عقل وہ ہے جس نے آپ کو سلام کرنے پر ابھارا۔ میں نے کہا: تم مٹی سے کیوں کھیل رہے ہو؟ اس نے کہا: میں مٹی سے اس لئے کھیل رہا ہوں کہ ہم اسی سے پیدا ہوئے اور اسی کی طرف لوٹ کر جائیں گے۔ میں نے کہا :تم کبھی روتے اور کبھی ہنستے کیوں ہو؟ اس نے کہا: جب مجھے اپنے رب کاعذاب یاد آتا ہے تو میں رونا شروع کر دیتا ہوں اور جب مجھے اس کی رحمت یاد آتی ہے تو میں ہنسنے لگتا ہوں ۔ میں نے کہا: اے میرے بچے! تمہارے نامہ اعمال میں تو کوئی گناہ نہیں جس کی وجہ سے تم رؤو، کیونکہ تم تو مُکَلَّف ہی نہیں ہو۔ اس نے کہا: آپ ایسی بات نہ کریں کیونکہ میں نے اپنی والدہ کو دیکھا ہے کہ وہ بڑی لکڑیوں کو چھوٹی لکڑیوں کے ذریعے ہی جلاتی ہے۔(روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۲۹، ۵ / ۲۴۲)
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اِنَّا لَا نُضِیْعُ اَجْرَ مَنْ اَحْسَنَ عَمَلًا(30)اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْهٰرُ یُحَلَّوْنَ فِیْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَّ یَلْبَسُوْنَ ثِیَابًا خُضْرًا مِّنْ سُنْدُسٍ وَّ اِسْتَبْرَقٍ مُّتَّكِـٕیْنَ فِیْهَا عَلَى الْاَرَآىٕكِؕ-نِعْمَ الثَّوَابُؕ-وَ حَسُنَتْ مُرْتَفَقًا(31)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کئے ہم ان کا اجر ضائع نہیں کرتے جو اچھے عمل کرنے والے ہوں ۔ ان کے لیے ہمیشگی کے باغات ہیں ان کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، انہیں ان باغوں میں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے اور وہ سبز رنگ کے باریک اور موٹے ریشم کے کپڑے پہنیں گے وہاں تختوں پر تکیے لگائے ہوئے ہوں گے۔ یہ کیا ہی اچھا ثواب ہے اور جنت کی کیا ہی اچھی آرام کی جگہ ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{جَنّٰتُ عَدْنٍ: ہمیشگی کے باغات۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نیکوں کا اجر ضائع نہیں کرتے بلکہ اُنہیں اُن کی نیکیوں کی جزا دیتے ہیں اور ان کا اجر جَنّاتِ عدن یعنی ہمیشہ بسنے کے باغات ہیں کہ نہ وہاں سے نکالے جائیں اور نہ کسی کو موت آئے ۔ پھر مزید یہ کہ ہر جنتی کو سونے اور چاندی اور موتیوں کے کنگن پہنائے جائیں گے(جیسا کہ دیگر آیات میں ہے)۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۳۰-۳۱، ۳ / ۲۱۰، روح البیان، الکھف، تحت الآیۃ: ۳۱، ۵ / ۲۴۳، ملتقطاً) صحیح حدیث میں ہے کہ وضو کا پانی جہاں جہاں پہنچتا ہے وہ تمام اَعضاء جنتی زیورات سے آراستہ کئے جائیں گے۔( مسلم، کتاب الطہارۃ، باب تبلغ الحلیۃ حیث یبلغ الوضوء، ص۱۵۱، الحدیث: ۴۰(۲۵۰)) مزید فرمایا کہ وہ انتہائی خوبصورت قسم کے ریشمی لباس پہنے ہوں گے کوئی باریک ہوگا اور کوئی موٹا ریشم اور وہ جنت میں تختوں پر تکئے لگائے ہوئے ہوں گے اور شاہانہ شان و شوکت کے ساتھ ہوں گے۔
ریشمی لباس اور سونے چاندی کا زیور دنیا میں صرف عورتوں کے لئے حلال ہے:
یاد رہے کہ ریشمی لباس اور سونے چاندی کے کنگن جنتی لباس ہیں ، دنیا میں عورتوں کیلئے حلال اور مردوں کیلئے حرام ہیں ۔ اس بارے میں بکثرت اَحادیث ِ مبارکہ ہیں ،ان میں سے 4اَحادیث درج ذیل ہیں ۔
(1)… حضرت ابوموسیٰ اشعری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’سونا اور ریشم میری اُمت کی عورتوں کے لیے حلال ہے اور مَردوں پر حرام۔( نسائی، کتاب الزینۃ، تحریم لبس الذہب، ص۸۳۶، الحدیث: ۵۲۷۵)
(2)… حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو دنیا میں ریشم پہنے گا، وہ آخرت میں نہیں پہنے گا۔( بخاری، کتاب اللباس، باب لبس الحریر وافتراشہ للرّجال۔۔۔ الخ، ۴ / ۵۹، الحدیث: ۵۸۳۲)
(3)…حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ریشم پہننے کی ممانعت فرمائی، مگر اتنا۔ اور رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دو انگلیاں بیچ والی اور کلمہ کی انگلیوں کو ملا کر اشارہ کیا۔( بخاری، کتاب اللباس، باب لبس الحریر وافتراشہ للرّجال۔۔۔ الخ، ۴ / ۵۸، الحدیث: ۵۸۲۸)
(4)…صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے خطبہ میں فرمایا: رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ریشم کی ممانعت فرمائی ہے، مگردو یا تین یا چار اُنگلیوں کے برابر۔( مسلم، کتاب اللباس والزینۃ، باب تحریم اناء الذہب والفضّۃ علی الرّجال والنساء۔۔۔ الخ، ص۱۱۴۹، الحدیث: ۱۵ (۲۰۶۹)) یعنی کسی کپڑے میں اتنی چوڑی ریشم کی گوٹ لگائی جاسکتی ہے۔
ریشم کے لباس سے متعلق چند مسائل:
یہاں ریشم کے لباس سے متعلق چند شرعی مسائل ملاحظہ ہوں :
(1)…ریشم کے کپڑے مرد کے لیے حرام ہیں ، بدن اور کپڑوں کے درمیان کوئی دوسرا کپڑا حائل ہو یا نہ ہو، دونوں صورتوں میں حرام ہیں اور جنگ کے موقع پر بھی خالص ریشم کے کپڑے حرام ہیں ، ہاں اگر تانا (یعنی لمبائی کے رخ) سوت ہو اور بانا (یعنی چوڑائی کے رخ) ریشم تو لڑائی کے موقع پر پہننا جائز ہے اور اگر تانا ریشم ہو اور بانا سوت ہو تو ہر شخص کے لیے ہر موقع پر جائز ہے۔ مجاہد اور غیر مجاہد دونوں پہن سکتے ہیں ۔ لڑائی کے موقع پر ایسا کپڑا پہننا جس کا بانا ریشم ہو اس وقت جائز ہے جبکہ کپڑا موٹا ہو اور اگر باریک ہو تو ناجائز ہے کہ اس کا جو فائدہ تھا، اس صورت میں حاصل نہ ہوگا۔( ہدایہ، کتاب الکراہیۃ، فصل فی اللبس، ۲ / ۳۶۵-۳۶۶، در مختار مع رد المحتار، کتاب الحظر والاباحۃ، فصل فی اللبس، ۹ / ۵۸۰)
(2)…عورتوں کو ریشم پہننا جائز ہے اگرچہ خالص ریشم ہو اور اس میں سوت کی بالکل آمیزش نہ ہو۔( عالمگیری، کتاب الکراہیۃ، الباب التاسع فی اللبس ما یکرہ من ذلک وما لا یکرہ، ۵ / ۳۳۱)
(3)…مَردوں کے کپڑوں میں ریشم کی گوٹ چار انگل تک کی جائز ہے اس سے زیادہ ناجائز، یعنی اس کی چوڑائی چار انگل تک ہو، لمبائی کا شمار نہیں ۔ اسی طرح اگر کپڑے کا کنارہ ریشم سے بُنا ہو جیسا کہ بعض عمامے یا چادروں یا تہبند کے کنارے اس طرح کے ہوتے ہیں ، اس کا بھی یہی حکم ہے کہ اگر چار انگل تک کا کنارہ ہو تو جائز ہے، ورنہ ناجائز۔( در مختار مع رد المحتار، کتاب الحظر والاباحۃ، فصل فی اللبس، ۹ / ۵۸۱)
(4)…ریشم کا لحاف اوڑھنا ناجائز ہے کہ یہ بھی پہننے میں داخل ہے۔ ریشم کے پردے دروازوں پر لٹکانا مکروہ ہے۔( عالمگیری، کتاب الکراہیۃ، الباب التاسع فی اللبس ما یکرہ من ذلک وما لا یکرہ، ۵ / ۳۳۱)
اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا رَّجُلَیْنِ جَعَلْنَا لِاَحَدِهِمَا جَنَّتَیْنِ مِنْ اَعْنَابٍ وَّ حَفَفْنٰهُمَا بِنَخْلٍ وَّ جَعَلْنَا بَیْنَهُمَا زَرْعًاﭤ(32)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ان کے سامنے دو آدمیوں کا حال بیان کروکہ ان میں سے ایک آدمی کیلئے ہم نے انگوروں کے دو باغ بنائے اور ان دونوں باغوں کو کھجوروں سے ڈھانپ دیا اور ان کے درمیان میں کھیتی بھی بنادی۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا رَّجُلَیْنِ:اور ان کے سامنے دو مردوں کا حال بیان کرو۔} اس پورے رکوع میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے دو آدمیوں کا یعنی ایک مسلمان اور ایک کافر کا حال بیان کیا ہے اورہر کافرومومن دونوں کو دعوتِ فکر دی ہے کہ اس واقعے میں غور کرکے اپنا اپنا انجام سمجھیں ۔ اب اصل بیان شروع ہوتا ہے چنانچہ فرمایا کہ ان دو مردوں کا حال یہ ہے ان میں سے ایک آدمی یعنی کافر کیلئے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے انگوروں کے دو باغ بنادیئے اور ان دونوں باغوں کو کھجوروں سے ڈھانپ دیا اور ان کے درمیان میں کھیتی بھی بنادی یعنی اُنہیں نہایت بہترین ترتیب کے ساتھ مُرتَّب کیا۔ آس پاس سبز باغ ہواور بیچ میں ہرا بھرا کھیت ہو تودیکھنے میں بہت ہی خوشنما معلوم ہوتا ہے اور اس سے مالک اپنی تمام ضروریات پوری کرلیتا ہے، کھیت سے غذا اور باغ سے پھل حاصل ہوتے ہیں ۔
مُجتہد کا قیاس بر حق ہے:
اس آیت میں مسلمان اور کافر کو دو آدمیوں کے احوال پر اپنی حالت کو قیاس کرنے کا فرمایا گیا اس سے معلوم ہوا کہ قیاسِ مجتہد برحق ہے۔
كِلْتَا الْجَنَّتَیْنِ اٰتَتْ اُكُلَهَا وَ لَمْ تَظْلِمْ مِّنْهُ شَیْــٴًـاۙ-وَّ فَجَّرْنَا خِلٰلَهُمَا نَهَرًا(33)وَّ كَانَ لَهٗ ثَمَرٌۚ-فَقَالَ لِصَاحِبِهٖ وَ هُوَ یُحَاوِرُهٗۤ اَنَا اَكْثَرُ مِنْكَ مَالًا وَّ اَعَزُّ نَفَرًا(34)
ترجمہ: کنزالعرفان
دونوں باغوں نے اپنے اپنے پھل دیدئیے اور اس میں کچھ کمی نہ کی اور دونوں کے بیچ میں ہم نے ایک نہر جاری کردی۔ اور اس آدمی کے پاس پھل تھے تو اس نے اپنے ساتھی سے کہا اور وہ اس سے فخروغرور کی باتیں کرتا رہتا تھا۔ (اس سے کہا)میں تجھ سے زیادہ مالدار ہوں اور افراد کے اعتبار سے زیادہ طاقتور ہوں ۔
تفسیر: صراط الجنان
كِلْتَا الْجَنَّتَیْنِ: دونوں باغ ۔} ارشاد فرمایا کہ دونوں باغوں نے اپنے اپنے پھل دیدئیے اور اس میں کچھ کمی نہ کی اور دونوں کے بیچ اللّٰہ تعالیٰ نے ایک نہر جاری کردی۔ یعنی کھجور اور انگور، دونوں باغوں میں ہی خوب بہار آئی، پھل خوب لگے جبکہ باغ کے بیچ میں موجود نہر نے باغ کی خوبصورتی اور زینت میں بھی اضافہ کردیا اور وہ باغ کے ترو تازہ رہنے کا باعث بھی ہوئی۔
{وَ كَانَ لَهٗ ثَمَرٌ:اور اس کے پاس پھل تھے۔} مزید فرمایا کہ اس باغ والے کافر آدمی کے پاس باغ کے علاوہ اور بھی بہت سا مال و اَسباب جیسے سونا، چاندی وغیرہ ہر قسم کا مال تھا تو وہ اپنے مسلمان ساتھی سے اتراتے ہوئے اور اپنے مال پر فخر کرتے ہوئے کہنے لگا اور وہ اس سے فخر و غرور کی باتیں کرتا رہتا تھا۔ کہنے لگا کہ میں تجھ سے زیادہ مالدار ہوں اور افراد کے اعتبار سے زیادہ طاقتور ہوں یعنی میرا کنبہ قبیلہ بڑا ہے اور ملازم، خدمت گار ،نوکر چاکر بھی میرے پاس بہت ہیں ۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۳۴، ۳ / ۲۱۱، ملخصاً)
اس سے معلوم ہوا کہ شیخی مارنا کفار کا کام ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کی نعمت پر حمدِ الٰہی کرنا مومن کا کام ۔ اسی طرح مومن کو ذلیل جاننا کفار کا کام ہے۔
وَ دَخَلَ جَنَّتَهٗ وَ هُوَ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖۚ-قَالَ مَاۤ اَظُنُّ اَنْ تَبِیْدَ هٰذِهٖۤ اَبَدًا(35)
ترجمہ: کنزالعرفان
اوروہ اپنے باغ میں گیا حالانکہ وہ اپنی جان پر ظلم کرنے والا تھا ، کہنے لگا: میں گمان نہیں کرتا کہ یہ (باغ) کبھی فنا ہوگا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ دَخَلَ جَنَّتَهٗ:اور وہ اپنے باغ میں گیا۔} یہاں سے اس کافر کی غافلانہ باتوں کی ابتداء ہوتی ہے چنانچہ وہ باغات کا مالک مسلمان کا ہاتھ پکڑ کر اس کو ساتھ لے کر باغ میں گیا ، وہاں اسے فخریہ طور پر ہر طرف لے کرپھرا اور مسلمان کو ہر ہر چیز دکھائی اور پھر باغ کی زینت و زیبائش اور رونق و بہار دیکھ کر مغرور ہوگیا اور کہنے لگا: میں گمان نہیں کرتا کہ یہ باغ کبھی فنا ہوگا یعنی ساری عمر مجھے پھل دیتا رہے گا۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۳۵، ۳ / ۲۱۱، ملخصاً)اس سے معلوم ہوا کہ وہ کافر بھی تھا، ناشکرا بھی اور متکبر بھی، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ دنیاوی دولت غافل کے لئے زیادہ جرم کرنے کا باعث ہو جاتی ہے۔
وَّ مَاۤ اَظُنُّ السَّاعَةَ قَآىٕمَةًۙ-وَّ لَىٕنْ رُّدِدْتُّ اِلٰى رَبِّیْ لَاَجِدَنَّ خَیْرًا مِّنْهَا مُنْقَلَبًا(36)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور میں گمان نہیں کرتا کہ قیامت قائم ہونے والی ہے اور اگر مجھے میرے رب کی طرف لوٹایا بھی گیا تو میں ضرور اس باغ سے بہتر پلٹنے کی جگہ پالو ں گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَاۤ اَظُنُّ السَّاعَةَ قَآىٕمَةً{:اور میں گمان نہیں کرتا کہ قیامت قائم ہونے والی ہے۔} باغ کے کافر مالک نے کہا کہ مجھے تواس بات کا گمان بھی نہیں ہے کہ قیامت قائم ہوگی جیسے تیرا گمان ہے بلکہ مجھے یقین ہے کہ قیامت نہ آئے گی اور اگر بالفرض قیامت آبھی گئی تو مجھے آخرت میں بھی اس دنیوی باغ سے بہتر باغ دیا جائے گا کیونکہ دنیا میں بھی میں نے بہترین جگہ پائی ہے۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۳۶، ۳ / ۲۱۱، ملخصاً)
آیت’’ وَ مَاۤ اَظُنُّ السَّاعَةَ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں
(1)…برے اعمال کرکے جنت کی آس لگانی کافروں کا شیوہ ہے، جَو کاشت کرکے گندم کاٹنے کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔
(2)… دنیا میں مال ملنے کو اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کی علامت سمجھنا کفار کا کام ہے۔
قَالَ لَهٗ صَاحِبُهٗ وَ هُوَ یُحَاوِرُهٗۤ اَكَفَرْتَ بِالَّذِیْ خَلَقَكَ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ سَوّٰىكَ رَجُلًاﭤ(37)لٰكِنَّاۡ هُوَ اللّٰهُ رَبِّیْ وَ لَاۤ اُشْرِكُ بِرَبِّیْۤ اَحَدًا(38)
ترجمہ: کنزالعرفان
اس کے ساتھی نے اس کی فخروغرور کی باتوں کا جواب دیتے ہوئے کہا: کیا تو اس کے ساتھ کفر کرتا ہے جس نے تجھے مٹی سے بنایا پھر نطفہ سے پھر تجھے بالکل صحیح مرد بنادیا۔ لیکن ( میں تو یہی کہتا ہوں کہ) وہ اللہ ہی میرا رب ہے او ر میں کسی کو اپنے رب کا شریک نہیں کرتا ۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ لَهٗ صَاحِبُهٗ: اس کے ساتھی نے اسے کہا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ سب باتیں سن کر اس کافر کے مسلمان ساتھی نے اس کی فخروغرور کی باتوں کا جواب دیتے ہوئے کہا: کیا تو اس خداوند ِ قدوس عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ کفر کرتا ہے جس نے تجھے مٹی سے بنایا ،پھر نطفہ سے اور پھر تجھے بالکل صحیح مرد بنادیا یعنی اس نے تجھے عقل و بلوغ، قوت و طاقت عطا کی اور تو سب کچھ پاکر کافر ہوگیا۔ لہٰذا تو اس کو مان یا نہ مان لیکن میں تو یہی کہتا ہوں کہ وہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ہی میرا رب ہے او ر میں کسی کو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کا شریک نہیں کرتا۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۳۷-۳۸، ۳ / ۲۱۱، مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۳۷-۳۸، ص۶۵۲، ملتقطاً)
وَ لَوْ لَاۤ اِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ قُلْتَ مَا شَآءَ اللّٰهُۙ-لَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰهِۚ-اِنْ تَرَنِ اَنَا اَقَلَّ مِنْكَ مَالًا وَّ وَلَدًا(39)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تو اپنے باغ میں گیا تو کہتا: (یہ سب وہ ہے) جو اللہ نے چاہا، ساری قوت اللہ کی مدد سے ہی ہے۔ اگر تو مجھے اپنے مقابلے میں مال اور اولاد میں کم دیکھ رہا ہے
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْتَ مَا شَآءَ اللّٰهُ:تو کہتا: جو اللّٰہ نے چاہا۔} مسلمان نے اس کافر کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ ایسا کیوں نہ ہوا کہ تو اس سارے باغ اور اَسباب پر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی قدرت و نعمت کا معترف ہوتا اور اگر توباغ دیکھ کر مَاشَآءَ اللّٰہ کہتا اور اعتراف کرتا کہ یہ باغ اور اُس کے تمام مَحاصل و مَنافع اللّٰہ تعالیٰ کی مَشِیَّت اور اس کے فضل وکرم سے ہیں اور سب کچھ اس کےاختیار میں ہے، چاہے اس کو آباد رکھے اور چاہے ویران کرے ،ایسا کہتا تو یہ تیرے حق میں بہتر ہوتا ۔اگر تو مجھے اپنے مقابلے میں مال اور اولاد میں کم سمجھ رہا تھا اور اس وجہ سے تکبر میں مبتلا تھا اور اپنے آپ کو بڑا سمجھتا تھا توتو نے ایسا کیوں نہیں کہا جو اوپر بیان ہوا۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۳۹، ۳ / ۲۱۱، ملخصاً خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۳۹، ۳ / ۲۱۱، ملخصاً)
مسلمان اور کافر کا فرق:
یہاں سے مسلمان اور کافر کا فرق واضح ہوا کہ کافر اپنے مال و دولت اور کامیابی کو اپنی کوششوں کا نتیجہ سمجھتا ہے جبکہ مسلمان اپنی ہر کامیابی کو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل و کرم کی طرف منسوب کرتا ہے اور یہی تَوکّل ہے کہ اَسباب تواختیار کئے جائیں لیکن نتیجہ اور ثَمرہ کی تَوقّع اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے کی جائے اور مُؤثّرِ حقیقی اسی کی ذات کو سمجھا جائے۔
آفات سے بچنے کا وظیفہ:
حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص کوئی پسندیدہ چیز دیکھ کر ’’ مَا شَآءَ اللّٰهُۙ-لَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰهِ‘‘ کہے تو اسے نگاہ، نقصان نہیں پہنچائے گی۔( کنز العمال، کتاب السحر والعین والکہانۃ، قسم الاقوال، الفصل الثانی، ۳ / ۳۱۶، الحدیث: ۱۷۶۶۶، الجزء السادس)
حضرت عقبہ بن عامررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللّٰہ تعالیٰ کسی بندے کو کوئی نعمت عطا کرے اور وہ چاہے کہ نعمت باقی رہے تو وہ کثرت سے ’’لَا حَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہ‘‘ کہے، پھر حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ’’ وَ لَوْ لَاۤ اِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ قُلْتَ مَا شَآءَ اللّٰهُۙ-لَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰهِ‘‘(معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہفَعَسٰى رَبِّیْۤ اَنْ یُّؤْتِیَنِ خَیْرًا مِّنْ جَنَّتِكَ وَ یُرْسِلَ عَلَیْهَا حُسْبَانًا مِّنَ السَّمَآءِ فَتُصْبِحَ صَعِیْدًا زَلَقًا(40)اَوْ یُصْبِحَ مَآؤُهَا غَوْرًا فَلَنْ تَسْتَطِیْعَ لَهٗ طَلَبًا(41)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو قریب ہے کہ میرا رب مجھے تیرے باغ سے بہتر عطا فرمادے اور تیرے باغ پر آسمان سے بجلیاں گرادے تو وہ چٹیل میدان ہوکر رہ جائے۔ یا اس باغ کا پانی زمین میں دھنس جائے پھر تو اسے ہرگز تلاش نہ کرسکے ۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَعَسٰى: تو قریب ہے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمان نے مزید کہا کہ قریب ہے یعنی ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ میرا رب عَزَّوَجَلَّ مجھے تیرے باغ سے بہتر عطا فرما دے اور تیرے باغ پر آسمان سے بجلیاں گرا دے تو وہ چٹیل میدان ہوکر رہ جائے کہ اس میں سبزہ کا نام و نشان باقی نہ رہے اور اپنی زندگی ہی میں تو اس باغ کو برباد ہوتا ہوا دیکھے اور کف ِ افسوس ملتا رہ جائے یا اس باغ کا پانی زمین میں دھنس جائے اور نیچے چلا جائے کہ کسی طرح نکالا نہ جاسکے۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۴۰-۴۲، ۳ / ۲۱۱-۲۱۲، ملخصاً) چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ عذاب آگیا اور اگلی آیات میں اسی کا بیان ہے۔
احمد، ۱ / ۵۸، الحدیث: ۱۵۵)
وَ اُحِیْطَ بِثَمَرِهٖ فَاَصْبَحَ یُقَلِّبُ كَفَّیْهِ عَلٰى مَاۤ اَنْفَقَ فِیْهَا وَ هِیَ خَاوِیَةٌ عَلٰى عُرُوْشِهَا وَ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ لَمْ اُشْرِكْ بِرَبِّیْۤ اَحَدًا(42)وَ لَمْ تَكُنْ لَّهٗ فِئَةٌ یَّنْصُرُوْنَهٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ مَا كَانَ مُنْتَصِرًاﭤ(43)هُنَالِكَ الْوَلَایَةُ لِلّٰهِ الْحَقِّؕ-هُوَ خَیْرٌ ثَوَابًا وَّ خَیْرٌ عُقْبًا(44)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اس کے پھل گھیر لیے گئے تو وہ ان اخراجات پر اپنے ہاتھ ملتا رہ گیا جو اس باغ میں خرچ کئے تھے اور وہ باغ اپنی چھتوں کے بل اوندھے منہ گرا ہواتھااوروہ مالک کہہ رہا ہے، اے کاش!میں نے اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہوتا۔ اور اس کے پاس کوئی جماعت نہ تھی جو اللہ کے سامنے اس کی مدد کرتی اور نہ ہی وہ خود بدلہ لینے کے قابل تھا۔ یہاں پتہ چلتا ہے کہ تمام اختیار سچے اللہ کا ہے، وہ سب سے بہتر ثواب دینے والا اور سب سے اچھا انجام عطا فرمانے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اُحِیْطَ بِثَمَرِهٖ:اور اس کے پھل گھیر لئے گئے۔} ارشاد فرمایا کہ اس کافر کے باغ پر عذاب آگیا اور باغ کے ساتھ ساتھ اس کے دیگر ہر طرح کے مال و اَسباب پھل ہلاکت میں گھیر لیے گئے اور باغ بالکل ویران ہوگیا تو وہ حسرت کے ساتھ ان اخراجات پر اپنے ہاتھ ملتا رہ گیا جو اس نے باغ کی دیکھ بھال میں خرچ کئے تھے اور وہ باغ اپنی چھتوں کے بل اوندھے منہ گرگیا ، پھر اس حال کو پہنچ کر اسے مو من کی نصیحت یاد آئی اور وہ سمجھا کہ یہ اُس کے کفرو سرکشی کا نتیجہ ہے اور اس وقت وہ کہنے لگا کہ اے کاش! میں نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّکے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہوتا۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۴۲، ۳ / ۲۱۲)
{هُنَالِكَ: یہاں پتہ چلتا ہے۔} آیت کے آخر میں اس واقعے کا سبق بیان فرمایا ہے کہ یہاں پتہ چلتا ہے اور ایسے حالات میں معلوم ہوتا ہیکہ تمام اختیار ات اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے دست ِ قدرت میں ہیں ۔ وہی چاہے تو پھلوں سے لدے ہوئے باغات عطا فرما دے اور وہ چاہے تو ایک لمحے میں سب کچھ تہس نہس کردے۔
وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ هَشِیْمًا تَذْرُوْهُ الرِّیٰحُؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ مُّقْتَدِرًا(45)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ان کے سامنے بیان کرو کہ دنیا کی زندگی کی مثال ایسی ہے جیسے ایک پانی ہو جسے ہم نے آسمان سے اتارا تو اس کے سبب زمین کا سبزہ گھنا ہوکر نکلا پھروہ سوکھی گھاس بن گیا جسے ہوائیں اڑاتی پھرتی ہیں اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا:اور ان کے سامنے دنیا کی زندگی کی مثال بیان کرو۔} اِس رکوع میں دُنْیَوی زندگی کے قابلِ فنا ہونے اور قیامت کے حساب کتاب کے بارے میں سمجھایا گیا ہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، لوگوں کے سامنے دنیا کی حقیقت بیان کرو اور اس کے سمجھانے کیلئے اس مثال کا سہارا لو کہ دنیوی زندگی کی مثال ایسی ہے جیسے زمین کی ہریالی اور سرسبزی و شادابی، جو ہمارے نازل کئے ہوئے پانی کے سبب زمین سے نکلی ہو اور اس پانی کی وجہ سے زمین پر وہ شادابی اور تازگی پھیل جائے لیکن پھر کچھ ہی عرصے کے بعد وہ سبزہ فنا کے گھاٹ اتر جاتا ہے اور سوکھی ہوئی گھاس میں تبدیل ہوجاتا ہے جسے ہوائیں اِدھر سے اُدھر اڑائے پھرتی ہیں اور اس کی کوئی قدر و قیمت باقی نہیں رہتی ۔ فرمایا کہ دنیاوی زندگی کی مثال بھی ایسے ہی ہے کہ جس طرح سبزہ خوشنما ہونے کے بعد فنا ہوجاتا ہے اور اس کا نام و نشان باقی نہیں رہتا، یہی حالت دنیا کی بے اعتبار حیات کی ہے اس پر مغرور و شیدا ہونا عقل مند کا کام نہیں اور یہ سب فنا و بقا اللّٰہ کی قدرت سے ہے۔( روح البیان، الکھف، تحت الآیۃ: ۴۵، ۵ / ۲۴۹-۲۵۰، مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۴۵، ص۶۵۳، ملتقطاً)
اَلْمَالُ وَ الْبَنُوْنَ زِیْنَةُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۚ-وَ الْبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّ خَیْرٌ اَمَلًا(46)
ترجمہ: کنزالعرفان
مال اور بیٹے دنیا کی زندگی کی رونق ہیں اور باقی رہنے والی اچھی باتیں تیرے رب کے نزدیک ثواب کے اعتبار سے زیادہ بہتر اور امید کے اعتبار سے زیادہ اچھی ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{زِیْنَةُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا: دنیا کی زندگی کی زینت۔} دنیا کے مال و اَسباب کے بارے میں مزید فرمایا کہ مال اور بیٹے دنیا کی زندگی کی رونق ہیں کہ ان کے ذریعے دنیا میں آدمی فخر کرتا ہے اور انہیں دنیا کی سہولیات و لذّات حاصل کرنے کا ذریعہ بناتا ہے حالانکہ انہی چیزوں کو آخرت کا زاد ِ راہ تیار کرنے کا ذریعہ بھی بنایا جاسکتا ہے۔ حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا کہ مال و اولاد دنیا کی کھیتی ہیں اور اعمالِ صالحہ آخرت کی اور اللّٰہ تعالیٰ اپنے بہت سے بندوں کو یہ سب عطا فرماتا ہے۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۴۶، ۳ / ۲۱۲-۲۱۳)دوسری چیز باقیاتِ صالحات ہیں ، ان سے نیک اعمال مراد ہیں جن کے ثمرے انسان کے لئے باقی رہتے ہیں ، جیسا کہ پنج گانہ نمازیں اور تسبیح و تحمید اور جملہ عبادات ۔حدیث شریف میں ہے، سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے باقیاتِ صالحات کی کثرت کا حکم فرمایا۔ عرض کی گئی:وہ کیا ہیں ؟ فرمایا : اَللّٰہُ اَکْبَرُ لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہ پڑھنا۔(مسند امام احمد، مسند ابی سعید الخدری رضی اللّٰہ عنہ، ۴ / ۱۵۰، الحدیث: ۱۱۷۱۳) البتہ یہ یاد رہے کہ مال اور اولاد فی نَفْسِہٖ تو اگرچہ دنیا ہیں لیکن یہی دو چیزیں آخرت کیلئے عظیم زاد ِ راہ بھی بن سکتی ہیں کیونکہ اگر مال کو راہِ خدا میں خرچ کیا اور خصوصاً کوئی صدقہ جاریہ کا کام کیا تو یہی مال نجات کا ذریعہ بنے گا اور یونہی اگر اولاد کی اچھی تربیت کی اور نیکی کے راستے پر لگایاتو ان کی نیکیوں کا ثواب بھی ملے گا اور اس کے ساتھ اولاد کی دعائیں بھی ملتی رہیں گی۔
وَ یَوْمَ نُسَیِّرُ الْجِبَالَ وَ تَرَى الْاَرْضَ بَارِزَةًۙ-وَّ حَشَرْنٰهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ اَحَدًا(47)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور یاد کرو جس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور تم زمین کو صاف کھلی ہوئی دیکھو گے (جس پر پہاڑ وغیرہ کچھ بھی نہ ہوگا)اور ہم لوگوں کواٹھائیں گے تو ان میں سے کسی کو نہ چھوڑیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یَوْمَ نُسَیِّرُ الْجِبَالَ:اور جس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے۔} دنیا کی فنائیت اور اسباب ِ دنیا کی حقیقت بیان کرنے کے بعد اب قیامت کی ہولناکی کا بیان کیا جارہا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ یاد کرو جس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے کہ وہ اپنی جگہ سے اُکھڑ کر بادلوں کی طرح اڑتے پھریں گے اور ریزہ ریزہ ہوجائیں گے اور تم زمین کو صاف کھلی ہوئی دیکھو گے جس پرنہ کوئی پہاڑ ہوگا ، نہ درخت، نہ عمارت بلکہ ایک چٹیل میدان ہوگا۔ اور ہم لوگوں کو قبروں سے اٹھائیں گے اور میدانِ قیامت میں حاضر کردیں گے۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۴۷، ۳ / ۲۱۳، ملخصاً)
وَ عُرِضُوْا عَلٰى رَبِّكَ صَفًّاؕ-لَقَدْ جِئْتُمُوْنَا كَمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍۭ٘-بَلْ زَعَمْتُمْ اَلَّنْ نَّجْعَلَ لَكُمْ مَّوْعِدًا(48)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور سب تمہارے رب کی بارگاہ میں صفیں باندھے پیش کئے جائیں گے ، بیشک تم ہمارے پاس ویسے ہی آئے جیسے ہم نے تمہیں پہلی بارپیدا کیا تھا ،بلکہ تمہارا گمان تھا کہ ہم ہر گز تمہارے لیے کوئی وعدے کا وقت نہ رکھیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ عُرِضُوْا عَلٰى رَبِّكَ: اور سب تمہارے رب کی بارگاہ میں پیش ہوں گے۔} یہاں قیامت واقع ہونے کے بعد کی منظر کشی کی گئی ہے کہ سب اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں صفیں باندھے پیش کئے جائیں گے ، ہر ہر امت کی جماعت کی قطاریں علیحدہ علیحدہ ہوں گی اور اللّٰہ تعالیٰ اُن سے فرمائے گا: بیشک تم ہمارے پاس ویسے ہی ننگے بدن، ننگے پاؤں ، مال و زر سے خالی ہوکر آئے جیسے ہم نے تمہیں پہلی بارپیدا کیا تھا او رپھر جو قیامت کے منکرین ہوں گے ان سے کہا جائے گاکہ تمہارا تو گمان یہ تھا کہ قیامت نہیں آئے گی اور تمہارے لئے حساب و کتاب کا کوئی وعدہ نہیں ہے اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام نے جو تمہیں اِس وعدے سے خبردار کیا تھا اسے تو تم نے تسلیم ہی نہیں کیا تھا۔( مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۴۸، ص۶۵۴، ملخصاً)
غافل مسلمانوں کے لئے نصیحت:
علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ کی عزت و عظمت اوراس کے قہر و جلال کی صفت کے اظہار اور اس کے عدل کے آثار کی طرف اشارہ ہے تاکہ جو لوگ سو رہے ہیں وہ اپنی غفلت کی نیند سے بیدار ہو جائیں اور غفلت کے شکار لوگ قیامت کے دن نجات پانے کے اسباب اختیار کرکے اور اپنے پوشیدہ و اعلانیہ معاملات درست کر کے اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے والے خطاب کا جواب دینے کی تیاری کریں کیونکہ اسی کی طرف ہر ایک کو لوٹنا ہے اورجو پیشی اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہوگی وہی سب سے بڑی پیشی ہے اور وہ کسی بادشاہ کے سامنے پیش ہونے کی طرح نہ ہوگی۔ حضرت عتبہ خواص رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :میرے پاس حضرت عتبہ غلام رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ایک رات ٹھہرے تو وہ اتنا روئے کہ ان پر غشی طاری ہو گئی ۔ میں نے ان سے کہا:آپ کو کس چیز نے رلایا ہے؟انہوں نے جواب دیا:اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیشی کی یاد نے محبت کرنے والوں کی رگیں کاٹ کر رکھ دی ہیں ۔
مروانی خلفاء میں سے ساتویں خلیفہ سلیمان بن عبد الملک نے حضرت ابو حازم رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے کہا ’’ہم آخرت کو کیوں ناپسند کرتے ہیں ؟ آپ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا ’’کیونکہ تم نے اپنی دنیا کو آباد کیا اور اپنی آخرت کو ویران کر دیااس لئے تم آبادی سے ویرانی کی طرف منتقل ہونے کو ناپسند کرتے ہو۔ سلیمان بن عبد الملک نے کہا: اے ابو حازم! رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ، آپ نے سچ کہا، اے کاش میں جان سکتا کہ کل اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہمارے لئے کیا ہو گا! حضرت ابو حازم رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا ’’اگر تم چاہو تو یہ بات جان سکتے ہو کیونکہ یہ اللّٰہ تعالیٰ کی کتاب میں موجود ہے۔ اس نے کہا: میں اسے (اللّٰہ تعالیٰ کی کتاب میں ) کس جگہ پا سکتا ہوں ؟ آپ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا ’’اللّٰہ تعالیٰ کے اس فرمان میں
’’ اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِیْ نَعِیْمٍۚ(۱۳)وَ اِنَّ الْفُجَّارَ لَفِیْ جَحِیْمٍ‘‘(انفطار:۱۳،۱۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:بیشک نیک لوگ ضرور چین میں (جانے والے) ہیں ۔ اور بیشک بدکار ضرور دوزخ میں (جانے والے) ہیں ۔
سلیمان بن عبد الملک نے کہا :اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیشی کس طرح ہو گی؟ آپ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا ’’نیک لوگ تو ایسے پیش ہوں گے جیسے وہ پیش ہی نہیں ہوئے اور وہ اپنے اہل و عیال کی طرف شاداں و فَرحاں واپس آ جائیں گے اور گناہگار اس طرح پیش ہوں گے جیسے بھاگے ہوئے غلام کو اس کے آقا کے سامنے باندھ کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ سن کر سلیمان بن عبد الملک بہت رویا۔( روح البیان، الکھف، تحت الآیۃ: ۴۸، ۵ / ۲۵۳)
وُضِعَ الْكِتٰبُ فَتَرَى الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْهِ وَ یَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ هٰذَا الْكِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَةً وَّ لَا كَبِیْرَةً اِلَّاۤ اَحْصٰىهَاۚ-وَ وَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًاؕ-وَ لَا یَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا(49)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور نامہ اعمال رکھا جائے گا تو تم مجرموں کو دیکھو گے کہ اس میں جو( لکھا ہوا) ہوگا اس سے ڈر رہے ہوں گے اور کہیں گے: ہائے ہماری خرابی! اس نامہ اعمال کو کیا ہے کہ اس نے ہر چھوٹے اور بڑے گناہ کو گھیرا ہوا ہے اور لوگ اپنے تمام اعمال کو اپنے سامنے موجود پائیں گے اور تمہارا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ وُضِعَ الْكِتٰبُ: اور نامہ اعمال رکھا جائے گا۔} یہاں قیامت کا وہ اہم اور نازک ترین مرحلہ بیان کیا گیا ہے جہاں جنتی اور جہنمی ہونے کا اعلان ہونا ہے کہ ہر بندے کا نامۂ اعمال اس کو دیا جائے گا ،مومن کا دائیں ہاتھ میں اور کافر کا بائیں میں ۔ اس وقت نامہ اعمال کو دیکھ کر جو برے لوگوں کی حالت ہوگی وہ دہشت انگیز ہوگی کہ وہ نامہ اعمال دیکھ کر ڈر رہے ہوں گے اور کہیں گے: ہائے ہماری خرابی! اس نامہ اعمال کو کیا ہے کہ اس نے ہر چھوٹے اور بڑے گناہ کو گھیرا ہوا ہے ، ایک ذرے کے برابر بھی کوئی گناہ ہوگاتو وہ نامہ اعمال میں درج ہوگا اور لوگ اپنے تمام اعمال کو اپنے سامنے موجود پائیں گے۔ آیت کے آخر میں فرمایا کہ تمہارا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا ، نہ کسی پر بغیر جرم عذاب کرے گا اور نہ کسی کی نیکیاں گھٹائے گا۔ حضرت فضیل بن عیاض رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ جب اس آیت کی تلاوت فرماتے تو کہتے :ہائے بربادی، اے لوگو! کبیرہ گناہوں سے پہلے صغیرہ گناہوں کے بارے میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں رجوع کرلو۔( قرطبی، الکہف، تحت الآیۃ: ۴۹، ۵ / ۳۰۲، الجزء العاشر)
صغیرہ گناہوں سے بھی بچیں :
اس آیتِ مبارکہ کو سامنے رکھتے ہوئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ خاص طور پر کبیرہ گناہوں سے بچے اور اس کے ساتھ ساتھ صغیرہ گناہوں سے بھی خود کو بچانے کی کوشش کرے کیونکہ قیامت کے دن صغیرہ اور کبیرہ ہر طرح کے گناہ نامہ اعمال میں لکھے ہوئے ملیں گے اور اس دن ہر شخص اپنے اعمال کے درخت کا پھل پائے گا۔ کثیر اَحادیث میں صغیرہ گناہوں سے بچنے کی ترغیب دی گئی ہے ، چنانچہ
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں :نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اے عائشہ!رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا، ان گناہوں سے تم بھی پرہیز کرو جنہیں تم حقیر سمجھتی ہو کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں ان کا بھی سوال ہوگا۔( ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر الذنوب، ۴ / ۴۸۸، الحدیث: ۴۲۴۳)
حضرت سہل بن سعد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تم ان گناہوں سے بچو جنہیں تم حقیر سمجھتے ہو، ان گناہوں کی مثال اس قوم (کے لوگوں ) کی طرح ہے جو ایک وادی میں اترے تو ایک شخص ایک لکڑی لے آیا اور دوسرا شخص دوسری لکڑی لے آیا یہاں تک کہ ا نہوں نے اتنی لکڑیا ں جمع کر لیں جنہیں جلا کر انہوں نے اپنی روٹیاں پکالیں (یعنی لکڑیوں کو آگ لگانے کیلئے چھوٹی لکڑیوں کو آگ لگائی جس سے بڑی لکڑیوں کو بھی آگ لگ گئی، گویا یہی حال صغیرہ گناہوں کے اِرتکاب سے کبیرہ تک جانے کا ہے)، اور بے شک صغیرہ گناہ کرنے والے کا جب مُؤاخذہ کیا جاتا ہے تو یہ گناہ اسے ہلاک کر دیتے ہیں ۔( معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد، ۵ / ۲۷۸، الحدیث: ۷۳۲۳)
علامہ عبد الرؤف مناوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ (اس حدیث میں چھوٹے گناہوں سے بچنے کا فرمایا گیا) کیونکہ جس طرح چھوٹی نیکیاں بڑی نیکیاں کرنے کا سبب بن جاتی ہیں اسی طرح صغیرہ یعنی چھوٹے گناہ ، کبیرہ یعنی بڑے گناہوں کے اِرتکاب کاسبب بن جاتے ہیں ، امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’صغیرہ گناہوں میں سے بعض گناہ دوسرے گناہوں کی طرف لے جاتے ہیں حتّٰی کہ اصل سعادت فوت ہو جاتی ہے اور خاتمہ کے وقت ایمان سے ہی محرومی ہو جاتی ہے۔ اور اللّٰہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ جسے چاہے صغیرہ گناہ پر عذاب دیدے اور جس کے لئے چاہے کبیرہ گناہ بخش دے۔( فیض القدیر، حرف الہمزۃ، ۳ / ۱۶۴، تحت الحدیث: ۲۹۱۶)
وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّهٖؕ-اَفَتَتَّخِذُوْنَهٗ وَ ذُرِّیَّتَهٗۤ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِیْ وَ هُمْ لَكُمْ عَدُوٌّؕ-بِئْسَ لِلظّٰلِمِیْنَ بَدَلًا(50)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں سے فرمایا: آدم کو سجدہ کروتو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے ، وہ جنوں میں سے تھا تو وہ اپنے رب کے حکم سے نکل گیا تو (اے لوگو!) کیا تم اسے اور اس کی اولاد کو میرے سوا دوست بناتے ہو حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں ، ظالموں کیلئے کیا ہی برا بدلہ ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں سے فرمایا: آدم کو سجدہ کرو۔} اس پورے رکوع میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے شیطان کے ابتدائی کردار کا بیان کیا اور لوگوں کو سمجھایا کہ جس طرح وہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی کرکے مردود ہوا ، تم اس طرح نہ کرنا اور اس کی اطاعت و اتباع سے بچنا۔ اب آیت کا خلاصہ ملاحظہ ہو۔ ارشاد فرمایا، یاد کرو جب ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تعظیم کے طور پر انہیں سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے جو جِنّوں کے گروہ سے تعلق رکھتا تھا اور ابلیس نے حکمِ الٰہی کے باوجود حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سجدہ نہ کیا بلکہ تکبر (و حسد) کا راستہ اختیار کیا اور اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے نکل گیا تو (اے لوگو!) کیا تم اسے اور اس کی اولاد کو میرے سوا دوست بناتے ہو اور اُن کی اطاعت اختیار کرتے ہو اور وہ یوں کہ بجائے میری بندگی کے ان کی بندگی میں مبتلا ہوتے ہوحالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں ۔ اور جب وہ تمہارے دشمن ہیں تو تمہیں تو ان سے ہوشیار اور دور رہنا چاہیے نہ کہ تمہیں ان سے دوستی کرنی چاہئے اور یاد رکھو کہ شیطان، اس کی اولاد اور شیطان کے فرمانبردار سب ظالم ہیں اور ظالموں کیلئے بہت برا بدلہ ہے۔( روح البیان، الکھف، تحت الآیۃ: ۵۰، ۵ / ۲۵۵، ملتقط
مَاۤ اَشْهَدْتُّهُمْ خَلْقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لَا خَلْقَ اَنْفُسِهِمْ۪-وَ مَا كُنْتُ مُتَّخِذَ الْمُضِلِّیْنَ عَضُدًا(51)
ترجمہ: کنزالعرفان
نہ میں نے انہیں آسمانوں اور زمین کو بناتے وقت حاضر رکھاتھااور نہ خود ان کے بناتے وقت اور نہ میں گمراہ کرنے والوں کو مددگار بنانے والا ہوں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{مَاۤ اَشْهَدْتُّهُمْ: میں نے انہیں حاضر نہ رکھا تھا۔} ارشاد فرمایا کہ شیطان، اس کی اولاد نیز جن بتوں یا چیزوں کو مشرکین اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا شریک ٹھہراتے ہیں ان میں سے کسی کو نہ تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے آسمانوں اور زمین کو بناتے وقت حاضر رکھا تھا اور نہ خود ان کے بناتے وقت حاضر رکھا تھا۔ مراد یہ ہے کہ اَشیاء کے پیدا کرنے میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی ذات مُتَفَرِّد اور یگانہ ہے۔ نہ اس کا کوئی شریک ِ عمل ہے ،نہ کوئی مشیرِ کار، پھر اس کے سوا اور کسی کی عبادت کس طرح درست ہوسکتی ہے۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۵۱، ۳ / ۲۱۵، مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۵۱، ص۶۵۵، ملتقطاً)
وَ لَقَدْ صَرَّفْنَا فِیْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لِلنَّاسِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍؕ-وَ كَانَ الْاِنْسَانُ اَكْثَرَ شَیْءٍ جَدَلًا(54)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ہم نے لوگوں کے لیے اس قرآن میں ہر قسم کی مثال طرح طرح سے بیان فرمائی اور انسان ہرچیز سے بڑھ کر جھگڑا لو ہے
تفسیر: صراط الجنان
{فِیْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ: اس قرآن میں ۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے اس قرآن میں ہر قسم کی مثال مختلف انداز سے بیان فرمائی تاکہ لوگ انہیں سمجھیں اور نصیحت حاصل کریں لیکن اکثریت کی حالت یہ ہے کہ وہ نصیحت قبول نہیں کرتے بلکہ آگے سے فضول میں بحث مُباحثہ کرنا شروع کردیتے ہیں ۔ آیت میں فرمایا کہ انسان ہرچیز سے بڑھ کر جھگڑالو ہے۔ یہ آیت اگرچہ بطورِ خاص نضر بن حارث نامی کافر یا اُبی بن خلف کافر کے بارے میں نازل ہوئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس آیت میں تمام کفار داخل ہیں جو حق کو تسلیم کرنے کی بجائے آگے سے صرف بحث و مباحثہ ہی کرتے ہیں اور اس آیت کے عموم میں تمام لوگ ہی داخل ہیں کیونکہ یہ انسان کی عمومی عادت ہے کہ وہ فورا ًبات کو تسلیم نہیں کرتا اگرچہ وہ حق بات ہی کیوں نہ ہو بلکہ بحث وَ مَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ یُّؤْمِنُوْۤا اِذْ جَآءَهُمُ الْهُدٰى وَ یَسْتَغْفِرُوْا رَبَّهُمْ اِلَّاۤ اَنْ تَاْتِیَهُمْ سُنَّةُ الْاَوَّلِیْنَ اَوْ یَاْتِیَهُمُ الْعَذَابُ قُبُلًا(55)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جب لوگوں کے پاس ہدایت آگئی تو انہیں ایمان لانے اور اپنے رب سے مغفرت مانگنے سے کس چیز نے روکا سوائے اس کے کہ ان پر بھی پہلے لوگوں کا طریقہ آجائے یا ان پر بہت سی قسموں کا عذاب آجائے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِذْ جَآءَهُمُ الْهُدٰى: جب ان کے پاس ہدایت آگئی۔} یہ کلام اس انداز میں ہے جیسے کوئی شخص سمجھانے کے باوجود بار بار غلط حرکتیں کرتا رہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ لگتا ہے کہ جناب کو صرف جوتوں کی ضرورت ہے۔ مراد یہ ہوتا ہے کہ اب تمہارا علاج یہی ہے۔ یہی بات کفار سے کہی گئی کہ ہدایت کی تعلیم آجانے کے بعد اب ا نہیں ایمان لانے اور استغفار کرنے سے صرف اسی بات نے روکا ہوا ہے کہ ان پر بھی پہلے لوگوں جیسا عذاب آئے۔
مباحثہ کرتا ہے۔
وَ مَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّا مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَۚ-وَ یُجَادِلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِالْبَاطِلِ لِیُدْحِضُوْا بِهِ الْحَقَّ وَ اتَّخَذُوْۤا اٰیٰتِیْ وَ مَاۤ اُنْذِرُوْا هُزُوًا(56)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم رسولوں کوخوشخبری دینے والے اور ڈر کی خبریں سنانے والے بنا کر ہی بھیجتے ہیں اور کافر باطل باتوں کے ذریعے جھگڑا کرتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے سے حق بات کومٹادیں اور انہوں نے میری نشانیوں کو اور جس سے انہیں ڈرایا جاتا تھا اسے مذاق بنالیا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّا مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ:اور ہم رسولوں کوخوشخبری دینے والے اور ڈر کی خبریں سنانے والے بنا کر ہی بھیجتے ہیں ۔} ارشاد فرمایا کہ ہم رسولوں کو ان کی امتوں کی طرف بھیجتے ہیں تاکہ وہ ایمان والوں اور اطاعت گزاروں کو ثواب اور جنت کے دَرجات کی خوشخبری دیں جبکہ کافروں اور گناہگاروں کو عذاب اور جہنم کے دَرکات سے ڈرانے والی خبریں سنائیں لیکن کافر باطل باتوں کے ذریعے ان رسولوں سے جھگڑا کرتے ہیں ، مثلاًاُن سے کہتے ہیں کہ تم تو ہماری طرح بشر ہو اور اگر اللّٰہ تعالیٰ چاہتا تو کسی فرشتے کو رسول بنا کر بھیج دیتا، اور وہ یہ جھگڑا اس لئے کرتے ہیں تاکہ اِس کے ذریعے سے اُس حق بات کومٹا دیں جو رسولوں کے ساتھ ہے، چنانچہ اس طرزِ عمل کے ذریعے کافروں نے میری وحدانیت اور قدرت پر دلالت کرنے والی نشانیوں کو اور جس عذاب سے انہیں ڈرایا جاتا تھا اسے مذاق بنالیا۔( روح البیان، الکھف، تحت الآیۃ: ۵۶، ۵ / ۲۶۰)
وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّهٖ فَاَعْرَضَ عَنْهَا وَ نَسِیَ مَا قَدَّمَتْ یَدٰهُؕ-اِنَّا جَعَلْنَا عَلٰى قُلُوْبِهِمْ اَكِنَّةً اَنْ یَّفْقَهُوْهُ وَ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ وَقْرًاؕ-وَ اِنْ تَدْعُهُمْ اِلَى الْهُدٰى فَلَنْ یَّهْتَدُوْۤا اِذًا اَبَدًا(57)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جسے اس کے رب کی آیتوں کے ذریعے نصیحت کی جائے تو وہ ان سے منہ پھیرلے اور ان اعمال کو بھول جائے جو اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجے ہیں ۔ بیشک ہم نے ان کے دلوں پر غلاف کردئیے ہیں تاکہ قرآن کو نہ سمجھیں اور ان کے کانوں میں بوجھ رکھ دئیے ہیں اور اگر تم انہیں ہدایت کی طرف بلاؤ تو جب بھی ہرگز کبھی ہدایت نہ پائیں گے
تفسیر: صرط الجنان
{وَ مَنْ اَظْلَمُ:اور اس سے بڑھ کر ظالم کون۔} ارشاد فرمایا کہ اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جسے اس کے رب عَزَّوَجَلَّ کے کلام قرآنِ مجید کی آیتوں کے ذریعے نصیحت کی جائے تو وہ ان سے منہ پھیرلے اور ان آیات میں سوچ بچار اور غوروفکر نہ کرے اور کفر وغیرہ ان اعمال کے انجام کو بھول جائے جو اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجے ہیں ۔بیشک ہم نے ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں پر غلاف کردئیے ہیں تاکہ قرآن کو نہ سمجھیں اور ان کے کانوں میں بوجھ رکھ دئیے ہیں تاکہ وہ حق کو سن نہ سکیں اور اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر آپ انہیں ہدایت کی طرف بلائیں تو جب بھی ہرگز کبھی ہدایت نہ پائیں گے کیونکہ ان کی قسمت میں ہی کفر کرنا لکھا ہو اہے۔( روح البیان، الکھف، تحت الآیۃ: ۵۷، ۵ / ۲۶۰-۲۶۱، مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۵۷، ص۶۵۶، ملتقطاً)وَ رَبُّكَ الْغَفُوْرُ ذُو الرَّحْمَةِؕ-لَوْ یُؤَاخِذُهُمْ بِمَا كَسَبُوْا لَعَجَّلَ لَهُمُ الْعَذَابَؕ-بَلْ لَّهُمْ مَّوْعِدٌ لَّنْ یَّجِدُوْا مِنْ دُوْنِهٖ مَوْىٕلًا(58)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور تمہارا رب بڑا بخشنے والا،رحمت وا لا ہے۔ اگر وہ لوگوں کو ان کے اعمال کی بنا پر پکڑ لیتا تو جلد ان پر عذاب بھیج دیتا بلکہ ان کے لیے ایک وعدے کا وقت ہے جس کے سامنے کوئی پناہ نہ پائیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ رَبُّكَ الْغَفُوْرُ ذُو الرَّحْمَةِ:اور تمہارا رب بڑا بخشنے والا، رحمت وا لا ہے۔} اس آیت میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت اور مہلت کا بیان ہے کہ وہ بڑا بخشنے والا ہے کہ کروڑوں گناہ کرنے کے بعد بھی اگر کوئی مغفرت کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے تووہ بخش دیتا ہے اور ساری زندگی گناہوں میں گزارنے کے باوجود بھی اگر کوئی زندگی کے آخری لمحات میں توبہ کرلیتا ہے تو اللّٰہ تعالیٰ اسے معاف فرمادیتا ہے۔ یہ شانِ مغفرت بھی ہے اور شانِ رحمت بھی، اور شانِ رحمت میں یہ بھی داخل ہے کہ اس نے مہلت دی ہوئی ہے اور عذاب دینے میں جلدی نہیں فرماتا بلکہ کفروگناہ کے باوجود لوگوں کو دنیا کا رزق دیتا رہتا ہے۔ مزید فرمایا کہ اگر وہ لوگوں کودنیا ہی میں ان کے اعمال کی بنا پر پکڑ لیتا تو جلد ان پر عذاب بھیج دیتا لیکن اس کی رحمت ہے کہ اُس نے مہلت دی اور عذاب میں جلدی نہ فرمائی۔ بلکہ ان کے لیے ایک وعدے کا وقت مقرر کردیا یعنی قیامت کا دن ۔ اس دن البتہ ساری مہلتیں ختم ہوجائیں گی اور اس دن کوئی پناہ نہ ہوگی۔
وَ تِلْكَ الْقُرٰۤى اَهْلَكْنٰهُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا وَ جَعَلْنَا لِمَهْلِكِهِمْ مَّوْعِدًا(59)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور یہ بستیاں ہم نے تباہ کردیں جب انہوں نے ظلم کیا اور ہم نے ان کی بربادی کیلئے ایک وعدہ کررکھا تھا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ تِلْكَ الْقُرٰى: اور یہ بستیاں ۔} کفار کو سمجھانے کیلئے اب پچھلی قوموں کے انجام کو اِجمالی طور پر بیان کیا جارہا ہے چنانچہ فرمایا کہ ان بستیوں کے رہنے والوں کو ہم نے ہلاک کردیا اور وہ بستیاں ویران ہوگئیں ۔ ان بستیوں سے قومِ لوط، عاد اور ثمود وغیرہ کی بستیاں مراد ہیں ۔ تو جیسے وہ بستیاں اپنے کفر اور سرکشی کی وجہ سے برباد ہوئی ہیں ایسے تم بھی ہوسکتے ہو۔
سورۂ کہف کی آیت نمبر 57 تا 59 سے حاصل ہونے والی معلومات:
علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ان آیات سے چند باتیں معلوم ہوئیں :
(1)… ہدایت کے اسباب اگرچہ مکمل طور پر جمع ہوں ا س کے باوجود لوگ ان سے اس وقت تک ہدایت حاصل نہیں کر سکتے اور نہ ہی ایمان لا سکتے ہیں جب تک اللّٰہ تعالیٰ کی عنایت شاملِ حال نہ ہو ۔ صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا’’خدا کی قسم! اگراللّٰہ تعالیٰ کی رحمت نہ ہوتی تو نہ ہم ہدایت پاتے، نہ صدقہ کرتے اور نہ ہی نماز پڑھ سکتے۔( بخاری، کتاب ا لمغازی، باب غزوۃ الخندق وہی الاحزاب، ۳ / ۵۲، الحدیث: ۴۱۰۴)
(2)…اہلِ باطل حق کو باطل اور باطل کو حق دیکھتے ہیں اور یہ ان کے قلبی اندھے پن اور عقلوں کے کمزور ہونے کی وجہ سے ہے تو وہ انبیاء اور اولیاء کے مقام سے جاہل اور گمراہ ہونے کی وجہ سے ان سے جھگڑتے ہیں اور حق کو باطل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ اہلِ حق انبیاء اور اولیاء کے سامنے اپنی گردن جھکادیتے ہیں اور کسی عناد اور جھگڑے کے بغیر سرِ تسلیم خم کرتے ہیں اور ا س کی وجہ یہ ہے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کے نور سے دیکھتے ہیں تو انہیں حق حق نظر آتا ہے اور وہ اس کی پیروی کرتے ہیں اور باطل باطل نظر آتا ہے اور وہ اس سے بچتے ہیں ۔
(3)…دنیا میں اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت مومن اور کافر دونوں کو عام ہے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ ان کے اعمال کی وجہ سے ان کا رزق مُنْقطع کر کے ان کا مُؤاخذہ نہیں فرماتا اور قیامت کے دن اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت مومن کے ساتھ اور عذاب کافر کے ساتھ خاص ہے۔( روح البیان، الکھف، تحت الآیۃ: ۵۹، ۵ / ۲۶۲)
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِفَتٰىهُ لَاۤ اَبْرَحُ حَتّٰۤى اَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَیْنِ اَوْ اَمْضِیَ حُقُبًا(60)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور یاد کرو جب موسیٰ نے اپنے خادم سے فرمایا: میں مسلسل سفر میں رہوں گا جب تک دوسمندروں کے ملنے کی جگہ نہ پہنچ جاؤں یا مدتوں چلتا رہوں گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى:اور یاد کرو جب موسیٰ نے فرمایا۔} اس رکوع سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا حضرت خضر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس علم سیکھنے کے لئے جانے والے قصے کو بیان کیا گیا ہے۔ آیت میں جن کا ذکر ہے وہ مشہور پیغمبر اور جلیل القدر نبی حضرت موسیٰ بن عمران عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں ، انہیں اللّٰہ تعالیٰ نے تورات اور کثیر معجزات عطا فرمائے تھے۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے خادم کا نام حضرت یوشع بن نون ہے، یہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خدمت وصحبت میں رہتے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے علم حاصل کرتے تھے ۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد حضرت یوشع ہی آپ کے ولی عہد بنے۔ آیت میں مذکور واقعے کا پسِ منظر یہ ہے کہ ایک بار حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بنی اسرائیل کی جماعت میں بہت شاندار وعظ فرمایا، اس کے بعد کسی نے پوچھا کہ آپ سے بڑا عالم بھی کوئی ہے۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: نہیں ۔ اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی فرمائی کہ ’’ اے موسیٰ !عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، تم سے بڑے عالم حضرت خضرعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں ۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللّٰہ تعالیٰ سے ان کا پتہ پوچھا تو ارشاد فرمایا : مَجمعِ بَحرَین میں رہتے ہیں ، وہاں کی نشانی یہ بتائی، کہ جہاں بھنی مچھلی زندہ ہو کر دریا میں چلی جائے اور پانی میں سرنگ بن جائے ، وہاں حضرت خضر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہوں گے ۔ چنانچہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے خادم سے فرمایا: میں مسلسل سفر میں رہوں گا جب تک کہ مشرق کی جانب دوسمندروں یعنی بحرِ فارس اور بحرِ روم کے ملنے کی جگہ نہ پہنچ جاؤں یا اگر وہ جگہ دور ہو تو مدتوں تک چلتا رہوں گا ۔پھر یہ حضرات روٹی اور نمکین بھنی مچھلی زنبیل میں توشہ کے طور پر لے کر روانہ ہوئے۔( تفسیرکبیر، الکھف، تحت الآیۃ: ۶۰، ۷ / ۴۷۷، روح البیان، الکھف، تحت الآیۃ: ۶۰، ۵ / ۲۶۲-۲۶۳، مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۶۰، ص۶۵۷، ملتقطاً)
حضرت موسیٰ اور حضرت خضر عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے سے حاصل ہونے والی معلومات:
حضرت موسیٰ اور حضرت خضرعَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے سے چند باتیں معلوم ہوئیں ۔
(1)…علم کے لئے سفر کرنا اللّٰہ تعالیٰ کے نبی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے۔
(2)… استاد کے پاس جانا اور اسے گھر نہ بلانا سنت ہے۔
(3)…علم کی زیادتی چاہنا بہتر ہے۔
(4)…سفر میں توشہ ساتھ رکھنا اچھا ہے۔
(5)… سفر میں اچھا ساتھی ہونا بہتر ہے۔
(6)… استاد کا ادب کرنا ضروری ہے۔
(7)… استاد کی بات پر اعتراض نہ کرنا چاہیے۔
(8)… جہاں تک ہوسکے پیر ِکامل کے فعل کی تاویل کرنی چاہیے اور اس سے بد ظن نہیں ہونا چاہیے جبکہ وہ واقعی پیر ِ کامل اور شریعت کا سچا عامل ہو۔
(9)… علم صرف کتا ب سے نہیں آتا بلکہ استاد کی صحبت سے بھی آتا ہے۔
(10)… بزرگوں کی صحبت کیمیا کا اثر رکھتی ہے۔
(11)… اپنے آپ کو اِستفادہ کرنے سے مُستَغنی نہیں سمجھنا چاہیفَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَیْنِهِمَا نَسِیَا حُوْتَهُمَا فَاتَّخَذَ سَبِیْلَهٗ فِی الْبَحْرِ سَرَبًا(61)
ترجمہ: کنزالعرفان
پھر جب وہ دونوں دو سمندروں کے ملنے کی جگہ پہنچے تواپنی مچھلی بھول گئے اور اس مچھلی نے سمندر میں سرنگ کی طرح اپنا راستہ بنالیا۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَلَمَّا بَلَغَا: پھر جب وہ دونوں پہنچے۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت یوشع بن نون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ دو سمندروں کے ملنے کی جگہ پہنچے ، وہاں ایک پتھر کی چٹان اور چشمۂ حیات تھا ۔ اس جگہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ نے آرام فرمایا اور حضرت یوشع عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام وضو کرنے لگے۔ اسی دوران بھنی ہوئی مچھلی زنبیل میں زندہ ہوگئی اور تڑپ کر دریا میں گری ، اس پر سے پانی کا بہاؤ رک گیا اور ایک محراب سی بن گئی ۔ حضرت یوشع عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام یہ دیکھ کر بہت حیران ہوئے اور جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بیدار ہوئے تو حضرت یوشع عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان سے مچھلی کا واقعہ ذکر کرنا یاد نہ رہا۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہ وہ اپنی مچھلی بھول گئے اور اس مچھلی نے سمندر میں سرنگ کی طرح اپنا راستہ بنالیا۔( روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۶۱، ۵ / ۲۶۴-۲۶۵)ے۔
فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتٰىهُ اٰتِنَا غَدَآءَنَا٘-لَقَدْ لَقِیْنَا مِنْ سَفَرِنَا هٰذَا نَصَبًا(62)
ترجمہ: کنزالعرفان
پھر جب وہ وہاں سے گزر گئے تو موسیٰ نے اپنے خادم سے فرمایا: ہمارا صبح کا کھانا لاؤ بیشک ہمیں اپنے اس سفر سے بڑی مشقت کا سامنا ہواہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَلَمَّا جَاوَزَا:پھر جب وہ وہاں سے گزر گئے۔} ارشاد فرمایا کہ پھر جب وہ دونوں اس جگہ سے گزر گئے اور چلتے رہے یہاں تک کہ دوسرے روز کھانے کا وقت آیا تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے خادم سے فرمایا: ہمارا صبح کا کھانا لاؤ بیشک ہمیں اپنے اس سفر سے بڑی مشقت کا سامنا ہوا ہے۔ تھکان بھی ہے بھوک کی شدت بھی ہے۔ اور یہ بات جب تک مَجْمَعُ الْبَحْرَیْن پہنچے تھے پیش نہ آئی تھی اور جب منزلِ مقصود سے آگے بڑھ گئے تو تھکن اور بھوک معلوم ہوئی، اس میں اللّٰہ تعالیٰ کی حکمت یہ تھی کہ وہ مچھلی یاد کریں اور اس کی طلب میں منزلِ مقصود کی طرف واپس ہوں ۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے یہ فرمانے پر خادم نے معذرت کی اور یہ کہا، جو اگلی آیت میں مذکور ہے۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۶۲، ۳ / ۲۱۸، ملخصاً)
قَالَ اَرَءَیْتَ اِذْ اَوَیْنَاۤ اِلَى الصَّخْرَةِ فَاِنِّیْ نَسِیْتُ الْحُوْتَ٘-وَ مَاۤ اَنْسٰىنِیْهُ اِلَّا الشَّیْطٰنُ اَنْ اَذْكُرَهٗۚ-وَ اتَّخَذَ سَبِیْلَهٗ فِی الْبَحْرِ ﳓ عَجَبًا(63)قَالَ ذٰلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ ﳓ فَارْتَدَّا عَلٰۤى اٰثَارِهِمَا قَصَصًا(64)فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَاۤ اٰتَیْنٰهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَ عَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا(65)
ترجمہ: کنزالعرفان
خادم نے عرض کی: سنئے ! جب ہم نے اس چٹان کے پاس (آرام کیلئے) ٹھکانہ بنایا تھا تو بیشک میں مچھلی (کے متعلق بتانا) بھول گیا تھا اور مجھے شیطان ہی نے اس کا ذکر کرنا بھلادیا اور (ہوا یہ ہے کہ) مچھلی نے سمندر میں اپنا راستہ بڑا عجیب بنایا۔ موسیٰ نے فرمایا: یہی تو ہم چاہتے تھے پھر وہ دونوں اپنے قدموں کے نشانات دیکھتے واپس لوٹ گئے۔ تو انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ پایاجسے ہم نے اپنے پاس سے خاص رحمت دی تھی اور اسے اپنا علم لدنی عطا فرمایا.
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ:موسیٰ نے فرمایا۔} حضرت یوشع بن نون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بات سن کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’مچھلی کا جانا ہی تو ہمارے مقصد حاصل ہونے کی علامت ہے ۔ جن کی طلب میں ہم چلے ہیں ان کی ملاقات وہیں ہوگی۔ چنانچہ پھر وہ دونوں اپنے قدموں کے نشانات کی پیروی کرتے ہوئے واپس لوٹے۔( مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۶۴، ص۶۵۸، ملخصاً)
{فَوَجَدَا:توانہوں نے پایا۔} یعنی جب وہ دونوں بزرگ واپس اسی جگہ پہنچے تو وہاں انہوں نے اللّٰہ تعالیٰ کے بندوں میں سے ایک بندہ پایا جو چادر اوڑھے آرام فرما رہا تھا۔ یہ حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تھے۔ لفظ خضر لغت میں تین طرح سے آیا ہے۔ (1) ’’خا ‘‘کے نیچے زیر اور ضاد کے اوپر جزم کے ساتھ یعنی خِضْر۔ (2) ’’خا ‘‘ کے اوپر زبر اور ضاد کے اوپر جزم کے ساتھ یعنی خَضْر۔ (3) ’’خا‘‘ کے اوپر زبر اور ضاد کے نیچے زیر کے ساتھ یعنی خَضِر۔ یہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا لقب ہے اور اس لقب کی وجہ یہ ہے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جہاں بیٹھتے یا نماز پڑھتے ہیں وہاں اگر گھاس خشک ہو تو سرسبز ہوجاتی ہے۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا نام بَلیا بن ملکان اور کنیت ابوالعباس ہے ۔ ایک قول یہ ہے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بنی اسرائیل میں سے ہیں ۔ ایک قول یہ ہے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام شہزادے تھے اور آپ نے دنیا ترک کرکے زہد اختیار فرما لیا تھا۔( روح البیان، الکھف، تحت الآیۃ: ۶۵، ۵ / ۲۶۷، خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۶۵، ۳ / ۲۱۸، ملتقطاً)
حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شان:
اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شان میں مزید دو باتیں ارشاد فرمائیں ۔
ایک یہ کہ اسے ہم نے اپنے پاس سے خاص رحمت دی تھی۔ اس رحمت سے نبوت مراد ہے یا ولایت یا علم یا لمبی زندگی۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ولی تو بالیقین ہیں جبکہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت میں اختلاف ہے۔ا علیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’سیدنا خضرعَلَیْہِ السَّلَام جمہور کے نزدیک نبی ہیں اور ان کوخاص طور سے علمِ غیب عطا ہوا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا ’’وَ عَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا‘‘(فتاویٰ رضویہ، ۲۶ / ۴۰۱) ایک اور مقام پر فرماتے ہیں ’’معتمد ومختار یہ ہے کہ وہ (یعنی حضرت خضرعَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام) نبی ہیں اور دنیا میں زندہ ہیں ۔( فتاویٰ رضویہ، ۲۸ / ۶۱۰)
دوسری یہ کہ اسے اپنا علم لدُنی عطا فرمایا۔ علم لدنی سے مراد غیب کا علم ہے۔( بیضاوی، الکھف، تحت الآیۃ: ۶۵، ۳ / ۵۱۰، جلالین، الکھف، تحت الآیۃ: ۶۵، ص۲۴۹، مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۶۵، ص۶۵۸) بعض مفسرین نے فرمایا علمِ لدنی وہ ہے جو بندے کواِلہام کے ذریعے حاصل ہو۔( مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۶۵، ص۶۵۸)
حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے نام کی برکت۔
بزرگانِ دین فرماتے ہیں ’’جو حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا نام ان کی ولدیت اور کنیت کے ساتھ (یعنی ابوالعباس بَلیا بن ملکان ) یاد رکھے گا اِنْ شَآءَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اس کا خاتمہ ایمان پر ہوگا۔( صاوی، الکھف، تحت الآیۃ: ۶۵، ۴ / ۱۲۰۷)
قَالَ لَهٗ مُوْسٰى هَلْ اَتَّبِعُكَ عَلٰۤى اَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا(66)
ترجمہ: کنزالعرفان
اس سے موسیٰ نے کہا: کیااس شرط پر میں تمہارے ساتھ رہوں کہ تم مجھے وہ درست بات سکھادو جو تمہیں سکھائی گئی ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ لَهٗ مُوْسٰى:اس سے موسیٰ نے کہا۔} صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دیکھا کہ سفید چادر میں لپٹے ہوئے ہیں تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں سلام کیا۔ انہوں نے دریافت کیا کہ تمہاری سرزمین میں سلام کہاں ؟ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ میں موسیٰ ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ بنی اسرائیل کے موسیٰ ؟ آپ نے فرمایا کہ جی ہاں ۔ پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے کہا: کیا اس شرط پر میں آپ کے ساتھ رہوں کہ آپ مجھے وہ درست بات سکھا دیں جوآپ کو سکھائی گئی ہے۔(بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ الکہف، باب واذ قال موسی لفتاہ لا ابرح حتّی ابلغ مجمع البحرین ۔۔۔ الخ، ۳ / ۲۶۵، الحدیث: ۴۷۲۵)
آیت’’ هَلْ اَتَّبِعُكَ عَلٰۤى اَنْ تُعَلِّمَنِ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں
(1)… آدمی کو علم کی طلب میں رہنا چاہئے خواہ وہ کتنا ہی بڑا عالم ہو ۔
(2)…آدمی کو چاہئے کہ اپنے سے بڑے علم والے کے ساتھ(خواہ وہ استاد ہو یا کوئی اور) عاجزی اور ادب سے پیش آئے۔(مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۶۶، ص۶۵۸)
قَالَ اِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا(67)وَ كَیْفَ تَصْبِرُ عَلٰى مَا لَمْ تُحِطْ بِهٖ خُبْرًا(68)
ترجمہ: کنزالعرفان
جواب دیا: آپ میرے ساتھ ہرگز نہ ٹھہر سکیں گے۔اور آپ اس بات پر کس طرح صبر کریں گے جسے آپ کا علم محیط نہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ:کہا۔} حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: آپ میرے ساتھ ہرگز نہ ٹھہر سکیں گے۔ حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ اس لئے فرمایا کہ وہ جانتے تھے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوکچھ ناپسندیدہ اور ممنوع کام دیکھنا پڑیں گے اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے ممکن ہی نہیں کہ وہ ممنوع کام دیکھ کر صبر کرسکیں ۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۶۷، ۳ / ۲۱۹)
{وَ كَیْفَ تَصْبِرُ:اور آپ کس طرح صبر کریں گے۔} حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اُس ترکِ صبر کا عذر بھی خود ہی بیان فرما دیا اور فرمایا ’’ اور آپ اس بات پر کس طرح صبر کریں گے جسے آپ کا علم محیط نہیں اور ظاہر میں وہ ممنوع ہیں ۔(خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۶۸، ۳ / ۲۱۹، مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۶۸، ص۶۵۸، ملتقطاً)
حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا علم:
حدیث شریف میں ہے کہ حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا کہ ایک علم اللّٰہ تعالیٰ نے مجھ کو ایسا عطا فرمایا جو آپ نہیں جانتے اور ایک علم آپ کو ایسا عطا فرمایا جو میں نہیں جانتا۔( بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ الکہف، باب واذ قال موسی لفتاہ لا ابرح حتّی ابلغ مجمع البحرین۔۔۔ الخ، ۳ / ۲۶۵، الحدیث: ۴۷۲۵) مفسرین و محدثین کہتے ہیں کہ جو علم حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے لئے خاص فرمایا وہ باطن اور مُکاشَفَہ کا ہے اور یہ اہلِ کمال کے لئے باعثِ فضل ہے۔( جمل، الکھف، تحت الآیۃ: ۶۸، ۴ / ۴۴۱)
قَالَ سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ صَابِرًا وَّ لَاۤ اَعْصِیْ لَكَ اَمْرًا(69)قَالَ فَاِنِ اتَّبَعْتَنِیْ فَلَا تَسْــٴَـلْنِیْ عَنْ شَیْءٍ حَتّٰۤى اُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْرًا(70)
ترجمہ: کنزالعرفان
موسیٰ نے کہا :اگراللہ چاہے گاتو عنقریب آپ مجھے صبر کرنے والاپاؤ گے اور میں آپ کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہ کروں گا۔کہا ،تو اگر آپ کو میرے ساتھ رہنا ہے تو مجھ سے کسی شے کے بارے میں سوال نہ کرنا جب تک میں خودآپ کے سامنے اس کا ذکر نہ کردوں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ:کہا ۔} یعنی حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایاکہ اگر آپ کو میرے ساتھ رہنا ہے تو آپ میرے کسی ایسے عمل کے بارے میں مجھ سے سوال نہ کرنا جو آپ کی نظر میں ناپسندیدہ ہو جب تک میں خود آپ کے سامنے اس کا ذکر نہ کردوں ۔(خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۷۰، ۳ / ۲۱۹)
شاگرد اور مرید کے لئے ایک ادب:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ شاگرد اور مرید کے آداب میں سے ہے کہ وہ اپنے استاد اور پیر کے اَفعال پر زبانِ اعتراض نہ کھولے اور منتظر رہے کہ وہ خود ہی اس کی حکمت ظاہر فرما دیں ۔( مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۷۰، ص۶۵۸، ابو سعود، الکھف، تحت الآیۃ: ۷۰، ۳ / ۳۹۴، ملخصاً)
فَانْطَلَقَاٙ-حَتّٰۤى اِذَا رَكِبَا فِی السَّفِیْنَةِ خَرَقَهَاؕ-قَالَ اَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ اَهْلَهَاۚ-لَقَدْ جِئْتَ شَیْــٴًـا اِمْرًا(71)قَالَ اَلَمْ اَقُلْ اِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا(72)قَالَ لَا تُؤَاخِذْنِیْ بِمَا نَسِیْتُ وَ لَا تُرْهِقْنِیْ مِنْ اَمْرِیْ عُسْرًا(73)
ترجمہ: کنزالعرفان
پھروہ دونوں چلے یہاں تک کہ جب کشتی میں سوار ہوئے تواس نے کشتی کو چیر ڈالا۔ موسیٰ نے کہا: کیا تم نے اسے اس لیے چیردیا تاکہ کشتی والوں کو غرق کردو، بیشک یہ تم نے بہت برا کام کیا۔ کہا: کیا میں نہ کہتا تھا کہ آپ میرے ساتھ ہرگز نہ ٹھہر سکیں گے۔ موسیٰ نے کہا: میری بھول پر میرا مواخذہ نہ کرواور مجھے میرے کام کی طرف سے مشکل میں نہ ڈالو۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَانْطَلَقَا: پھروہ دونوں چلے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کشتی کی تلاش میں ساحل کے کنارے چلنے لگے ۔ جب ان کے پاس سے ایک کشتی گزری تو کشتی والوں نے حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پہچان کر بغیر معاوضہ کے سوار کرلیا، جب کشتی سمندر کے بیچ میں پہنچی تو حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کلہاڑی کے ذریعے اس کا ایک تختہ یا دو تختے اکھاڑ ڈالے۔ یہ دیکھ کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خاموش نہ رہ سکے اور فرمایا: کیا تم نے اس کشتی کو اس لیے چیر دیا تاکہ کشتی والوں کو غرق کردو، بیشک یہ تم نے بہت برا کام کیا۔ حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا: کیا میں نہ کہتا تھا کہ آپ میرے ساتھ ہرگز نہ ٹھہر سکیں گے۔(روح البیان، الکھف، تحت الآیۃ: ۷۱-۷۲، ۵ / ۲۷۷، ملخصاً)
{قَالَ لَا تُؤَاخِذْنِیْ:کہا :میرا مُواخذہ نہ کرو۔} یعنی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عذر خواہی فرمائی کہ میں آپ سے کیا وعدہ بھول گیا تھا لہٰذا اس پر میرا مواخذہ نہ کریں ۔
فَانْطَلَقَاٙ-حَتّٰۤى اِذَا لَقِیَا غُلٰمًا فَقَتَلَهٗۙ-قَالَ اَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِیَّةًۢ بِغَیْرِ نَفْسٍؕ-لَقَدْ جِئْتَ شَیْــٴًـا نُّكْرًا(74)
ترجمہ: کنزالعرفان
پھر دونوں چلے یہاں تک کہ جب انہیں ایک لڑکا ملا تو اس نے اسے قتل کردیا۔ موسیٰ نے کہا: کیا تم نے کسی جان کے بدلے کے بغیر ایک پاکیزہ جان کوقتل کردیا۔ بیشک تم نے بہت ناپسندیدہ کام کیا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ فَانْطَلَقَا: پھر دونوں چلے۔} یعنی کشتی سے اتر کر وہ دونوں چلے اور ایک ایسے مقام پر گزرے جہاں لڑکے کھیل رہے تھے۔ وہاں انہیں ایک لڑکا ملا جوکافی خوبصورت تھا اور حدِ بلوغ کو نہ پہنچا تھا۔ بعض مفسرین نے کہا وہ لڑکا جوان تھا اور رہزنی کیا کرتا تھا۔ حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اسے قتل کردیا۔ یہ دیکھ کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پھر نہ رہا گیا اور آپ نے فرمایا: کیا تم نے کسی جان کے بدلے کے بغیر ایک پاکیزہ جان جس کا کوئی گناہ ثابت نہ تھا کو قتل کردیا؟ بیشک تم نے بہت ناپسندیدہ کام کیا ہے۔(خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۷۴، ۳ / ۲۱۹-۲۲۰، ملخصاً
قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكَ اِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا(75)
ترجمہ: کنزالعرفان
کہا: میں نے آپ سے نہ کہا تھا کہ آپ ہرگز میرے ساتھ نہ ٹھہرسکیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ:کہا۔} جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے فعل پر کلام فرمایا تو آپ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کہا: اے موسیٰ! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، میں نے آپ سے نہ کہا تھا کہ آپ ہرگز میرے ساتھ نہ ٹھہر سکیں گے۔اس بار حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اپنے کلام میں لفظ’’لَكَ‘‘ کا اضافہ فرمایا کیونکہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دوسری مرتبہ ان کے فعل پر کلام فرمایا تھا۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۷۵، ۳ / ۲۲۰)
قَالَ اِنْ سَاَلْتُكَ عَنْ شَیْءٍۭ بَعْدَهَا فَلَا تُصٰحِبْنِیْۚ-قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَّدُنِّیْ عُذْرًا(76)
ترجمہ: کنزالعرفان
موسیٰ نے کہا: اگر اس مرتبہ کے بعد میں آپ سے کسی شے کے بارے میں سوال کروں تو پھر مجھے ساتھی نہ رکھنا، بیشک میری طرف سے تمہارا عذر پورا ہوچکاہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ:موسیٰ نے کہا۔} حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بات کے جواب میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کہا: اگر اس مرتبہ کے بعد میں آپ سے کسی شے کے بارے میں سوال کروں تو پھر مجھے اپنا ساتھی نہ رکھنا اگرچہ میں آپ کے ساتھ رہنے کا تقاضا کروں اور جب میں تیسری بار آپ کی مخالفت کروں تو بیشک اس صورت میں میری طرف سے آپ کے ساتھ نہ رہنے میں آپ کا عذر پورا ہوچکا۔( روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۷۶، ۵ / ۲۸۰)
تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تمنا:
صحیح مسلم میں ہے کہ جب حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے کا یہ حصہ بیان کیا تو اس موقع پر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ہم پر اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو، اگر وہ جلدی نہ کرتے تو بہت حیران کن چیزیں دیکھتے لیکن انہیں حضرت خضر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے حیاء آئی اور کہا: اگر اس مرتبہ کے بعد میں آپ سے کسی شے کے بارے میں سوال کروں تو پھر مجھے ساتھی نہ بنانا، بیشک میری طرف سے تمہارا عذر پورا ہوچکا ہے۔ کاش! حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام صبر کرتے تو بہت عجیب و غریب چیزیں دیکھتے۔( مسلم، کتاب الفضائل، باب من فضائل الخضر علیہ السلام، ص۱۲۹۶، الحدیث: ۱۷۲(۲۳۸۰))
اور ایک روایت میں یوں ہے کہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر رحم فرمائے، میری آرزوتھی کہ کاش! حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام صبر کرتے حتّٰی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت خضر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مزید واقعات سناتا۔( مسلم، کتاب الفضائل، باب من فضائل الخضر علیہ السلام، صفَانْطَلَقَاٙ-حَتّٰۤى اِذَاۤ اَتَیَاۤ اَهْلَ قَرْیَةِ-ﹰاسْتَطْعَمَاۤ اَهْلَهَا فَاَبَوْا اَنْ یُّضَیِّفُوْهُمَا فَوَجَدَا فِیْهَا جِدَارًا یُّرِیْدُ اَنْ یَّنْقَضَّ فَاَقَامَهٗؕ-قَالَ لَوْ شِئْتَ لَتَّخَذْتَ عَلَیْهِ اَجْرًا(77)
ترجمہ: کنزالعرفان
پھر دونوں چلے یہاں تک کہ جب ایک بستی والوں کے پاس آئے تواس بستی کے باشندوں سے کھانا مانگا، انہوں نے ان دونوں کی مہمان نوازی کرنے سے انکار کردیا پھر دونوں نے اس گاؤں میں ایک دیوار پا ئی جو گرنا ہی چاہتی تھی تو اس نے اسے سیدھا کردیا، موسیٰ نے کہا: اگر تم چاہتے تو اس پر کچھ مزدوری لے لیتے.
تفسیر: صراط الجنان
{فَانْطَلَقَا:پھر دونوں چلے۔} اس گفتگو کے بعد حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چلنے لگے یہاں تک کہ جب ایک بستی والوں کے پاس آئے توان حضرات نے اس بستی کے باشندوں سے کھانا مانگا، انہوں نے ان دونوں کی مہمان نوازی کرنے سے انکار کردیا۔ پھر دونوں نے اس گاؤں میں ایک دیوار پا ئی جو گرنے والی تھی تو حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے دستِ مبارک سے اسے سیدھا کردیا۔ یہ دیکھ کرحضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: اگر آپ چاہتے تو اس دیوار کو سیدھی کرنے پر کچھ مزدوری لے لیتے کیونکہ یہ ہماری حاجت کا وقت ہے اور بستی والوں نے ہماری کچھ مہمان نوازی نہیں کی، اس لئے ایسی حالت میں ان کا کام بنانے پر اجرت لینا مناسب تھا ۔ اس آیت میں جس بستی کا ذکر ہوا اس کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ اس بستی سے مراد ’’انطاکیہ‘‘ ہے ۔ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد ’’اَیلہ‘‘ ہے اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد اندلس کا ایک شہر ہے۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۷۷، ۳ / ۲۲۰، مدارک، الکہف، تحت الآیۃ: ۷۷، ص۶۵۹-۶۶۰، ملتقطاً)
مہمان نوازی نہ کرنے کی مذمت:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ مہمان نوازی نہ کرنا انتہائی معیوب اور نا پسندیدہ عمل ہے اور اگر یہ عمل اجتماعی طور پر ہو تو اور بھی مذموم ہو جاتا ہے، جیسا کہ حضرت قتادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ وہ بستی بہت بدتر ہے جہاں مہمانوں کی میزبانی نہ کی جائے۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۷۷، ۳ / ۲۲۰)
۱۲۹۴، الحدیث: ۱۷۰(۲۳۸۰))قَالَ هٰذَا فِرَاقُ بَیْنِیْ وَ بَیْنِكَۚ-سَاُنَبِّئُكَ بِتَاْوِیْلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَّلَیْهِ صَبْرًا(78)
ترجمہ: کنزالعرفان
کہا: یہ میری اور آپ کی جدائی کا وقت ہے۔ اب میں آپ کو ان باتوں کا اصل مطلب بتاؤں گا جن پر آپ صبر نہ کرسکے۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ:کہا۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف سے تیسری مرتبہ اپنے فعل پر کلام سن کر حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا ’’ یہ میری اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی جدائی کا وقت ہے۔ اب میں جدا ہونے سے پہلے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان باتوں کا اصل مطلب بتاؤں گا جن پر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام صبر نہ کرسکے اور اُن کے اندر جو راز تھے ان کا اظہار کردوں گا۔( مدارک، الکہف، تحت الآیۃ: ۷۸، ص۶۶۰، جمل، الکہف، تحت الآیۃ: ۷۸، ۴ / ۴۴۶، ملتقطاً)
آیت’’ قَالَ هٰذَا فِرَاقُ بَیْنِیْ وَ بَیْنِكَ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں :
(1)…اگر اپنا قریبی ساتھی یا ماتحت شخص کوئی ایسا کام کرے جس کی وجہ سے اسے خود سے دور کرنے کی صورت بنتی ہو تو فوراً اسے دور نہ کر دے بلکہ ایک یادو مرتبہ اسے معاف کر دیا جائے اور اس سے درگزر کیا جائے اور ساتھ میں مناسب تنبیہ بھی کر دی جائے تاکہ وہ اپنی کوتاہی یا غلطی پر آگاہ ہو جائے اور اگر وہ تیسری بار پھر وہی کام کرے تو اب چاہے تو اسے خود سے دور کر دے۔
(2)…اگر اپنے قریبی ساتھی کو خود سے دور کرے تو اسے دور کرنے کی وجہ بتا دے تاکہ اس کے پاس اعتراض کی کوئی گنجائش نہ رہے۔
اَمَّا السَّفِیْنَةُ فَكَانَتْ لِمَسٰكِیْنَ یَعْمَلُوْنَ فِی الْبَحْرِ فَاَرَدْتُّ اَنْ اَعِیْبَهَا وَ كَانَ وَرَآءَهُمْ مَّلِكٌ یَّاْخُذُ كُلَّ سَفِیْنَةٍ غَصْبًا(79)
ترجمہ: کنزالعرفان
وہ جو کشتی تھی تووہ کچھ مسکین لوگوں کی تھی جو دریا میں کام کرتے تھے تو میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کردوں اور ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہرصحیح سلامت کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَمَّا السَّفِیْنَةُ:وہ جو کشتی تھی۔} حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے افعال کی حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے فرمایا ’’وہ جو میں نے کشتی کا تختہ اکھاڑا تھا، اس سے میرا مقصد کشتی والوں کو ڈبو دینا نہیں تھا بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ کشتی دس مسکین بھائیوں کی تھی، ان میں پانچ تو اپاہج تھے جو کچھ نہیں کرسکتے تھے اور پانچ تندرست تھے جو دریا میں کام کرتے تھے اور اسی پر ان کے روزگار کا دارومدار تھا۔ ان کے آگے ایک بادشاہ تھا اور انہیں واپسی میں اس کے پاس سے گزرنا تھا، کشتی والوں کو اس کا حال معلوم نہ تھا اور اس کا طریقہ یہ تھا کہ وہ ہرصحیح سلامت کشتی کو زبردستی چھین لیتا اور اگر عیب دار ہوتی تو چھوڑ دیتا تھا اس لئے میں نے اس کشتی کو عیب دار کردیا تاکہ وہ ان غریبوں کے لئے بچ جائے۔( تفسیرکبیر، الکہف، تحت الآیۃ: ۷۹، ۷ / ۴۹۰-۴۹۱، خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۷۹، ۳ / ۲۲۰-۲۲۱، ملتقطاً)
آیت ’’ اَمَّا السَّفِیْنَةُ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں :
(1)… اللہ تعالیٰ اپنے مسکین بندوں پرخاص عنایت اور کرم نوازی فرماتا ہے اور ان پر آنے والے مَصائب اور آفات کو دور کرنے میں کفایت فرماتا ہے۔ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’مسکین لوگ امیروں سے چالیس سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔ اے عائشہ ! رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا، مسکین (کے سوال )کو کبھی رد نہ کرنا اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی ہو اور اے عائشہ ! رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا، مسکینوں سے محبت رکھنا اور انہیں اپنے قریب کرنا (کہ ایسا کرنے سے) اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تجھے اپنا قرب نصیب فرمائے گا۔(ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء انّ فقراء المہاجرین یدخلون الجنّۃ قبل اغنیائہم، ۴ / ۱۵۷، الحدیث: ۲۳۵۹)
(2)…بڑے نقصان اور بڑی تکلیف سے بچنے کے لئے چھوٹے نقصان اور چھوٹی تکلیف کو برداشت کر لینا بہتر ہے، جیسے یہاں مسکینوں نے چھوٹے نقصان یعنی کشتی کا تختہ اکھاڑ دئیے جانے کو برداشت کیا تو وہ بڑے نقصان یعنی پوری کشتی چھن جانے سے بچ گئے .
وَ اَمَّا الْغُلٰمُ فَكَانَ اَبَوٰهُ مُؤْمِنَیْنِ فَخَشِیْنَاۤ اَنْ یُّرْهِقَهُمَا طُغْیَانًا وَّ كُفْرًا(80)فَاَرَدْنَاۤ اَنْ یُّبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَیْرًا مِّنْهُ زَكٰوةً وَّ اَقْرَبَ رُحْمًا(81)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور وہ جو لڑکا تھا تواس کے ماں باپ مسلمان تھے تو ہمیں ڈر ہوا کہ وہ لڑکاانہیں بھی سرکشی اور کفر میں ڈال دے گا۔تو ہم نے چاہا کہ اُن کا رب اُنہیں پاکیزگی میں پہلے سے بہتر اور حسنِ سلوک اوررحمت و شفقت میں زیادہ مہربان عطا کردے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اَمَّا الْغُلٰمُ:اور وہ جو لڑکا تھا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اپنے دوسرے فعل کی حکمت بیان کرتے ہوئے حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ وہ لڑکا جسے میں نے قتل کیا تھا، اس کے ماں باپ مسلمان تھے تو ہمیں ڈر ہوا کہ وہ بڑا ہوکر انہیں بھی سرکشی اور کفر میں ڈال دے گا اور وہ اس لڑکے کی محبت میں دین سے پھر جائیں اور گمراہ ہوجائیں گے، اس لئے ہم نے چاہا کہ ان کا رب عَزَّوَجَلَّ اس لڑکے سے بہتر ،گناہوں اور نجاستوں سے پاک اور ستھرا اور پہلے سے زیادہ اچھا لڑکا عطا فرمائے جو والدین کے ساتھ ادب سے پیش آئے، ان سے حسنِ سلوک کرے اور ان سے دلی محبت رکھتا ہو۔( روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۰-۸۱، ۵ / ۲۸۵، خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۰-۸۱، ۳ / ۲۲۱، ملتقطاً)
یاد رہے کہ حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ اندیشہ اس سبب سے تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے خبر دینے کی وجہ سے اس لڑکے کے باطنی حال کو جانتے تھے۔( جمل، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۰، ۴ / ۴۴۷)مسلم شریف میں حضرت اُبی بن کعب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس لڑکے کو حضرت خضر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قتل کر دیا تھا وہ کافر ہی پیدا ہوا تھا اگر وہ زندہ رہتا تو اپنے ماں باپ کو کفر اور سرکشی میں مبتلا کر دیتا۔( مسلم، کتاب القدر، باب کلّ مولود یولد علی الفطرۃ۔۔۔ الخ، ص۱۴۳۰، الحدیث: ۲۹(۲۶۶۱))
باطن کا حال جان کر کسی کو قتل کرنا جائز ہے یا نہیں ؟
یہ بھی یاد رہے کہ ہمارے زمانے میں اگر کوئی ولی کسی کے ایسے باطنی حال پر مطلع ہوجائے کہ یہ آگے جا کر کفر اختیار کر لے گا اور دوسروں کو کافر بھی بنا دے گا اور اس کی موت بھی حالتِ کفر میں ہوگی تو وہ ولی اس بنا پر اسے قتل نہیں کر سکتا، جیسا کہ امام سُبکی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ باطن کاحال جان کر بچے کو قتل کردینا حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ خاص ہے، انہیں اس کی اجازت تھی ۔اب اگر کوئی ولی کسی بچے کے ایسے حال پر مطلع ہو تو اُس کے لئے قتل کرنا جائز نہیں ہے۔( جمل، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۰، ۴ / ۴۴۸)
{خَیْرًا مِّنْهُ زَكٰوةً:پاکیزگی میں پہلے سے بہتر۔} مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس کے بدلے ایک مسلمان لڑکا عطا کیا اور ایک قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک بیٹی عطا کی جو ایک نبی عَلَیْہِ السَّلَام کے نکاح میں آئی اور اس سے نبی عَلَیْہِ السَّلَام پیدا ہوئے جن کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ نے ایک اُمت کو ہدایت دی۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۱، ۳ / ۲۲۱)
آیت’’فَاَرَدْنَاۤ اَنْ یُّبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں :
(1)… بندے کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قضا پر راضی رہنا چاہئے کہ اسی میں بہتری ہوتی ہے۔ اسی بات کو ایک اور آیتِ مبارکہ میں اس طرح بیان کیاگیا ہے کہ: ’’وَ عَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْــٴًـا وَّ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْۚ-وَ عَسٰۤى اَنْ تُحِبُّوْا شَیْــٴًـا وَّ هُوَ شَرٌّ لَّكُمْؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ‘‘(بقرہ:۲۱۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور قریب ہے کہ کوئی بات تمہیں ناپسند ہو حالانکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور قریب ہے کہ کوئی بات تمہیں پسند آئے حالانکہ وہ تمہارے حق میں بری ہو اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
(2)… بسا اوقات اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندے کی محبوب اور پسندیدہ چیزوں میں سے کوئی چیز لے لیتا ہے کیونکہ اس چیز میں بندے کا نقصان ہوتا ہے اور وہ اس کے نقصان سے غافل ہوتا ہے، پھر اگر وہ صبر کرے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے تو اللہ تعالیٰ اس چیز کے بدلے اس سے بہتر چیز عطا کر دیتا ہے جس میں مومن بندے کا نفع ہوتا ہے نقصان نہیں ہوتا اور یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے مومن بندوں پر ایک بہت بڑا احسان ہے۔( روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۱، ۵ / ۲۸۶، ملخصاً)
وَ اَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلٰمَیْنِ یَتِیْمَیْنِ فِی الْمَدِیْنَةِ وَ كَانَ تَحْتَهٗ كَنْزٌ لَّهُمَا وَ كَانَ اَبُوْهُمَا صَالِحًاۚ-فَاَرَادَ رَبُّكَ اَنْ یَّبْلُغَاۤ اَشُدَّهُمَا وَ یَسْتَخْرِجَا كَنْزَهُمَا ﳓ رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَۚ-وَ مَا فَعَلْتُهٗ عَنْ اَمْرِیْؕ-ذٰلِكَ تَاْوِیْلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَّلَیْهِ صَبْرًاﭤ(82)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بہرحال دیوار (کا جہاں تک تعلق ہے) تو وہ شہرکے دو یتیم لڑکوں کی تھی اور اس دیوارکے نیچے ان دونوں کا خزانہ تھا اور ان کا باپ نیک آدمی تھا تو آپ کے رب نے چاہا کہ وہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچیں اور اپنا خزانہ نکالیں (یہ سب ) آپ کے رب کی رحمت سے ہے اور یہ سب کچھ میں نے اپنے حکم سے نہیں کیا ۔ یہ ان باتوں کا اصل مطلب ہے جس پر آپ صبر نہ کرسکے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اَمَّا الْجِدَارُ:اور بہرحال دیوار۔} حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے تیسرے فعل یعنی دیوار سیدھی کرنے کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا ’’اور بہرحال دیوار کا جہاں تک تعلق ہے تو وہ شہرکے دو یتیم لڑکوں کی تھی جن کے نام اصرم اور صریم تھے اور اس دیوار کے نیچے ان دونوں کا خزانہ تھا اور ان کا باپ نیک آدمی تھا تو اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ وہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچیں اور اُن کی عقل کا مل ہوجائے اور وہ قوی و توانا ہوجائیں اور اپنا خزانہ نکالیں یہ سب اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے ہے اور جو کچھ میں نے کیا وہ میری اپنی مرضی سے نہ تھا بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے تھا۔یہ ان باتوں کا اصل مطلب ہے جس پر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام صبر نہ کرسکے۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۲، ۳ / ۲۲۱-۲۲۲، ملخصاً)
یتیم کے ساتھ نیکی کرنے کا ثواب:
اس سے معلوم ہو اکہ یتیموں کے ساتھ نیکی کرنی چاہئے اور ان کے ساتھ ایسا معاملہ کرنا چاہئے جس میں ان کا بھلا ہو۔ اَحادیث میں یتیم کے ساتھ نیکی کرنے والے کے لئے بہت اجر و ثواب بیان کیا گیا ہے ، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’مسلمانوں میں سے جو شخص کسی یتیم کے کھانے پینے کی کفالت کرے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا مگر یہ کہ وہ کوئی ایسا گناہ کرے جس کی بخشش نہ ہو۔( ترمذی، کتاب البرّ والصلۃ، باب ما جاء فی رحمۃ الیتیم وکفالتہ، ۳ / ۳۶۸، الحدیث: ۱۹۲۴)اور حضرت عبد اللہ بن عمررَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور ا س کی عزت کی جاتی ہو۔( معجم الکبیر، عبد اللہ بن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہما۔۔۔ الخ، محمد بن طلحۃ عن ابن عمر، ۱۲ / ۳۸۸، الحدیث: ۱۳۴۳۴)
{وَ كَانَ تَحْتَهٗ كَنْزٌ لَّهُمَا:اور اس دیوار کے نیچے ان دونوں کا خزانہ تھا۔} ترمذی شریف کی حدیث میں ہے کہ اس دیوار کے نیچے سونا اور چاندی مدفون تھا۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الکہف، ۵ / ۱۰۳، الحدیث: ۳۱۶۳)
عبرت انگیز عبارات:
حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں کہ اس (خزانے) میں سونے کی ایک تختی تھی، اس پر ایک طرف لکھا تھا ’’اس شخص کا حال عجیب ہے جسے موت کا یقین ہو، اسے (اپنی قلیل اور مختصر زندگی پر) خوشی کس طرح ہوتی ہے۔ اس شخص کا حال عجیب ہے جو قضاو قدر کا یقین رکھتا ہو ،اس کو (نعمت چھن جانے اور مصیبت آنے پر) غصہ کیسے آتا ہے۔ اس شخص کا حال عجیب ہے جسے رزق کا یقین ہو، وہ کیوں (اسے حاصل کرنے کی) مشقت میں پڑتا ہے۔ اس شخص کا حال عجیب ہے جسے حساب کا یقین ہو ،وہ(اپنے حساب سے) کیسے غافل رہتا ہے (اور دنیا کا مال و متاع زیادہ کرنے میں کیوں مشغول ہوتا ہے)۔ اس شخص کا حال عجیب ہے جسے دنیا کے زوال و تغیر کا یقین ہو، وہ (اس پر) کیسے مطمئن ہوتا ہے اور اس کے ساتھ لکھا تھا ’’ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ‘‘اور دوسری جانب اس لَوح پر لکھا تھا ’’میں اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں ، میں یکتا ہوں میرا کوئی شریک نہیں ،میں نے خیرو شر کو پیدا کیا ، تواس کے لئے خوشی ہے جسے میں نے خیر کے لئے پیدا کیا اور اس کے ہاتھوں پر خیر جاری کی، اس کے لئے تباہی ہے جسے میں نے شر کے لئے پیدا کیا اور اس کے ہاتھوں پر شر جاری کیا۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۲، ۳ / ۲۲۱)
{وَ كَانَ اَبُوْهُمَا صَالِحًا:اور ان کا باپ نیک آدمی تھا۔} اس کا نام کاشِح تھا اور یہ شخص پرہیزگار تھا۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۲، ۳ / ۲۲۱)علماء فرماتے ہیں وہ ان بچوں کاآٹھویں یا دسویں پشت میں باپ تھا۔( فتاویٰ رضویہ، ۲۳ / ۲۴۰)
باپ کے تقویٰ اور پرہیزگاری کا فائدہ:
یاد رہے کہ باپ کے تقویٰ و پرہیز گاری کے نتیجے میں ا س کی اولاد در اولاد کو دنیا میں فائدہ ہوتا ہے، جیساکہ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بے شک اللہ تعالیٰ آدمی کے نیک ہونے کی وجہ سے اس کی اولاد در اولاد کی بہتری فرما دیتا ہے اور اس کی نسل اور اس کے ہمسایوں میں اس کی رعایت فرما دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پردہ پوشی اور امان میں رہتے ہیں ۔( در منثور، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۲، ۵ / ۴۲۲)
اور حضرت محمد بن منکدر رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ بندے کی نیکی سے اس کی اولاد کو اوراس کی اولاد کی اولاد کو اور اس کے کنبہ والوں کو اور اس کے محلہ داروں کو اپنی حفاظت میں رکھتا ہے۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۲، ۳ / ۲۲۱)
یونہی باپ کا نیک پرہیزگار ہونا آخرت میں بھی اس کی اولاد کو نفع دیتا ہے، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ اتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّیَّتُهُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَ مَاۤ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ‘‘(طور:۲۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی (جس) اولاد نے ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کی توہم ان کی اولاد کو ان کےساتھ ملادیں گے اور ان( والدین) کے عمل میں کچھ کمی نہ کریں گے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بیشک اللہ تعالیٰ مومن کی ذُرِّیَّت کو اس کے درجہ میں اس کے پاس اٹھالے گا اگرچہ وہ عمل میں اس سے کم ہو تا کہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں ۔( جامع الاحادیث، حرف الہمزۃ، ۲ / ۴۹۵، الحدیث: ۶۸۳۵)
حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جب آدمی جنت میں جائے گا تواپنے ماں باپ،بیوی اور اولاد کے بارے میں پوچھے گا۔ ارشاد ہوگا کہ وہ تیرے درجے اور عمل کو نہ پہنچے۔ عرض کرے گا ’’اے میرے رب ! عَزَّوَجَلَّ، میں نے اپنے اور ان کے سب کے نفع کے لئے اعمال کئے تھے۔ اس پر حکم ہوگا کہ وہ اس سے ملادئیے جائیں ۔( معجم صغیر، باب العین، من اسمہ: عبد اللّٰہ، ص۲۲۹، الجزء الاوّل)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’جب عام صالحین کی صلاح (یعنی تقویٰ و پرہیزگاری) ان کی نسل واولاد کو دین ودنیا وآخرت میں نفع دیتی ہے تو صدیق وفاروق وعثمان وعلی وجعفر وعباس وانصار کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی صلاح کا کیا کہنا جن کی اولاد میں شیخ، صدیقی وفاروقی وعثمانی وعلوی وجعفری وعباسی وانصاری ہیں ۔ یہ کیوں نہ اپنے نسبِ کریم سے دین ودنیا وآخرت میں نفع پائیں گے۔ پھر اللہ اکبر حضرات عُلْیَہ سادات کرام اولادِ امجاد حضرت خاتونِ جنت بتول زہرا کہ حضور پُر نور، سیدالصالحین ،سید العالمین ،سید المرسلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَسَلَّمَ کے بیٹے ہیں کہ ان کی شان تو ارفع واعلیٰ وبلند وبالا ہے۔( فتاوی رضویہ، ۲۳ / ۲۴۳-۲۴۴)
{ذٰلِكَ تَاْوِیْلُ مَا:یہ ان باتوں کا اصل مطلب ہے ۔} حضرت عبد اللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’بعض لوگ (اس آیت کی وجہ سے ) ولی کو نبی پر فضیلت دے کر گمراہ ہوگئے اوردر حقیقت ولی کو نبی پر فضیلت دینا کفر ِجَلی ہے، ان لوگوں نے یہ خیال کیا کہ حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حضرتِ خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے علم حاصل کرنے کا حکم دیا گیا حالانکہ حضرت خضرعَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ولی ہیں ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نبی ہیں اور اگر ایسا نہ ہو جیسا کہ بعض کا گمان ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حق میں اِبتلا یعنی آزمائش ہے۔( مدارک، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۲، ص۶۶۱)
حضرت خضرعَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام زندہ ہیں :
یہاں یہ یاد رہے کہ اکثر علماء کا مَوقف یہ ہے ،نیز مشائخ صوفیہ اور اصحابِ عرفان کا اس پر اتفاق ہے کہ حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام زندہ ہیں ۔ شیخ ابو عمرو بن صلاح نے اپنے فتاویٰ میں فرمایا کہ حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جمہور علماء و صالحین کے نزدیک زندہ ہیں ۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت خضر اور حضرت الیاس عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام دونوں زندہ ہیں اور ہر سال زمانۂ حج میں ملتے ہیں ۔ یہ بھی منقول ہے کہ حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے چشمۂ حیات میں غسل فرمایا اور اس کا پانی پیا۔ و اللہ تعالٰی اعلم(خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۲، ۳ / ۲۲۲)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’چار نبی زندہ ہیں کہ اُن کو وعدۂ الٰہیہ ابھی آیا ہی نہیں ، یوں تو ہر نبی زندہ ہے: اِنَّ اللہ حرَّمَ عَلَی الْاَرْضِ اَنْ تَاْکُلَ اَجْسَادَ الْاَنْبِیَاءِ فَنَبِیُّ اللہ حَیٌّ یُّرْزَقُ۔ بے شک اللہ نے حرام کیا ہے زمین پر کہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جسموں کوخراب کرے تو اللہ کے نبی زندہ ہیں روزی دیئے جاتے ہیں ۔( ابن ماجہ، کتاب الجنائز، باب ذکر وفاتہ ودفنہ صلی اللہ علیہ وسلم، ۲ / ۲۹۱، الحدیث: ۱۶۳۷)اَنبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایک آن کو محض تصدیقِ وعدۂ الٰہیہ کے لیے موت طاری ہوتی ہے، بعد اِس کے پھر اُن کو حیاتِ حقیقی حِسّی دُنْیَوی عطا ہوتی ہے۔ خیر اِن چاروں میں سے دو آسمان پر ہیں اور دو زمین پر۔ خضر و الیاس عَلَیْہِمَا السَّلَام زمین پر ہیں اور ادریس و عیسیٰ عَلَیْہِمَا السَّلَام آسمان پر۔( ملفوظات، حصہ چہارم، ص۴۸۴)
وَ یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنْ ذِی الْقَرْنَیْنِؕ-قُلْ سَاَتْلُوْا عَلَیْكُمْ مِّنْهُ ذِكْرًاﭤ(83)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور آپ سے ذوالقرنین کے متعلق سوال کرتے ہیں ۔ تم فرماؤ: میں عنقریب تمہارے سامنے اس کا ذکر پڑھ کر سناتا ہوں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یَسْــٴَـلُوْنَكَ:اور آپ سے سوال کرتے ہیں ۔} سورۂ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 85 کی تفسیر میں بیان ہو اتھا کہ کفارِ مکہ نے یہودیوں کے مشورے سے سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اصحابِ کہف اور حضرت ذوالقر نین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے بارے میں سوال کیا۔ سورۂ کہف کی ابتدا میں اصحابِ کہف کا قصہ تفصیل سے بیان کر دیا گیا اور اب حضرت ذوالقر نین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے بارے میں بتایا جارہا ہے۔
حضرت ذوالقرنین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا مختصر تعارف:
آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا نام اسکندر اور ذوالقر نین لقب ہے۔ مفسرین نے اس لقب کی مختلف وجوہات بیان کی ہیں ، ان میں سے 4 یہاں بیان کی جاتی ہیں :
(1)…آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سورج کے طلوع اور غروب ہونے کی جگہ تک پہنچے تھے۔
(2)… آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے سر پر دو چھوٹے ابھار سے تھے ۔
(3)…انہیں ظاہری و باطنی علوم سے نوازا گیا تھا ۔
(4)… یہ ظلمت اور نور میں داخل ہوئے تھے۔
یہ حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے خالہ زاد بھائی ہیں ، اُنہوں نے اسکندریہ شہر بنایا اور اس کا نام اپنے نام پر رکھا۔ حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کے وزیر اور صاحبِ لِواء تھے۔ دنیا میں چار بڑے بادشاہ ہوئے ہیں ، ان میں سے دو مومن تھے، حضرت ذوالقرنین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اور حضرت سلیمان عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور دو کافر تھے نمرود اور بُختِ نصر، اور پانچویں بڑے بادشاہ حضرت امام مہدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ہوں گے، اُن کی حکومت تمام روئے زمین پر ہوگی۔ حضرت ذوالقرنین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی نبوت میں اختلاف ہے ، حضرت علی کَرَّمَ اللہ تَعَالیٰ وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا کہ وہ نہ نبی تھے نہ فرشتے بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے محبت کرنے والے بندے تھے، اللہ عَزَّوَجَلَّ نے انہیں محبوب بنایا۔(جمل، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۳، ۴ / ۴۵۱، مدارک، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۳، ص۶۶۱، قرطبی، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۳،۵ / ۳۴۰، الجزء العاشر، خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۳، ۳ / ۲۲۲-۲۲۳)
اِنَّا مَكَّنَّا لَهٗ فِی الْاَرْضِ وَ اٰتَیْنٰهُ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ سَبَبًا(84)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک ہم نے اسے زمین میں اقتدار دیا اور اسے ہر چیز کا ایک سامان عطا فرمایا۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّا مَكَّنَّا لَهٗ فِی الْاَرْضِ:بیشک ہم نے اسے زمین میں اقتدار دیا۔} ارشاد فرمایا کہ بیشک ہم نے حضرت ذوالقرنین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو زمین میں اقتدار دیا اور اسے ہر چیز کا ایک سامان یا اس کے حصول کا ایک طریقہ عطا فرمایا اور جس چیز کی مخلوق کو حاجت ہوتی ہے اور جو کچھ بادشاہوں کو ملک اور شہر فتح کرنے اور دشمنوں کے ساتھ جنگ کرنے میں درکار ہوتا ہے وہ سب عنایت کیا۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۴، ۳ / ۲۲۳)
فَاَتْبَعَ سَبَبًا(85)حَتّٰۤى اِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِیْ عَیْنٍ حَمِئَةٍ وَّ وَجَدَ عِنْدَهَا قَوْمًا۬ؕ-قُلْنَا یٰذَا الْقَرْنَیْنِ اِمَّاۤ اَنْ تُعَذِّبَ وَ اِمَّاۤ اَنْ تَتَّخِذَ فِیْهِمْ حُسْنًا(86)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو وہ ایک راستے کے پیچھے چلا ۔ یہاں تک کہ جب سورج کے غروب ہونے کی جگہ پہنچا تواسے ایک سیاہ کیچڑ کے چشمے میں ڈوبتا ہوا پایا اور اس چشمے کے پاس ہی ایک قوم کو پایا توہم نے فرمایا: اے ذوالقرنین! یا تو تُو انہیں سزا دے یا ان کے بارے میں بھلائی اختیار کرو۔
تفسیر: صراط الجنان
{سَبَبًا:سبب۔}سبب سے مراد وہ چیز ہے جو مقصود تک پہنچنے کا ذریعہ ہوخواہ وہ علم ہو ، قدرت ہو یا آلات ہوں ، تو حضرت ذوالقرنین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے جس مقصد کا ارادہ کیا اسی کا سبب اختیار کیا، چنانچہ جب آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے مغرب کی طرف جانے کا ارادہ کیا تو اس کے لئے وہ راستہ اختیار کیا جو انہیں وہاں تک پہنچا دے ،جیسا کہ اس آیت میں ہے ، اور جب انہوں نے مشرق کی طرف جانے کا ارادہ کیا تو وہ اس راستے پر چلے جو انہیں مشرق تک پہنچا دے۔( مدارک، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۵، ص۶۶۲، بیضاوی، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۵، ۳ / ۵۲۰، ملتقطاً)
{وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِیْ عَیْنٍ حَمِئَةٍ:اسے ایک سیاہ کیچڑ کے چشمے میں ڈوبتا ہواپایا ۔} حضرت ذوالقرنین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے سفر کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ انہوں نے کتابوں میں دیکھا تھا کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بیٹے سام کی اولاد میں سے ایک شخص چشمۂ حیات سے پانی پئے گا اور اس کو موت نہ آئے گی۔ یہ دیکھ کر وہ چشمۂ حیات کی طلب میں مغرب و مشرق کی طرف روانہ ہوئے ، اس سفر میں آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی تھے، وہ تو چشمۂ حیات تک پہنچ گئے اور انہوں نے اس میں سے پی بھی لیا مگر حضرت ذوالقرنین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے مقدر میں نہ تھا اس لئے انہوں نے وہ چشمہ نہ پایا ۔ اس سفر میں مغرب کی جانب روانہ ہوئے تو جہاں تک آبادی ہے وہ سب منزلیں طے کر ڈالیں اور مغرب کی سمت میں وہاں تک پہنچے جہاں آبادی کا نام و نشان باقی نہ رہا ، وہاں انہیں سورج غروب ہوتے وقت ایسا نظر آیا گویا کہ وہ سیاہ چشمہ میں ڈوبتا ہے جیسا کہ دریائی سفر کرنے والے کو پانی میں ڈوبتا معلوم ہوتا ہے۔( مدارک، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۶، ص۶۶۲، جمل، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۶، ۴ / ۴۵۲-۴۵۳، ملتقطاً)
{وَجَدَ عِنْدَهَا قَوْمًا:اور اس چشمے کے پاس ہی ایک قوم کو پایا۔} حضرت ذوالقرنین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس چشمے کے پاس ہی ایک ایسی قوم کو پایا جو شکار کئے ہوئے جانوروں کے چمڑے پہنے تھے، اس کے سوا اُن کے بدن پر اور کوئی لباس نہ تھے اور دریائی مردہ جانور اُن کی غذا تھے۔ یہ لوگ کافر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اِلہام کے طور پرفرمایا: اے ذوالقرنین! یا تو تُو انہیں سزا دے اور اُن میں سے جو اسلام میں داخل نہ ہو اس کو قتل کردے یا اگر وہ ایمان لائیں تو ان کے بارے میں بھلائی اختیار کر اور انہیں اَحکامِ شرع کی تعلیم دے ۔ بعض مفسرین کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے یہ کلام اپنے کسی نبی عَلَیْہِ السَّلَام سے فرمایا اور انہوں نے حضرت ذوالقر نین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے یہ بات کہی۔( مدارک، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۶، ص۶۶۲)
قَالَ اَمَّا مَنْ ظَلَمَ فَسَوْفَ نُعَذِّبُهٗ ثُمَّ یُرَدُّ اِلٰى رَبِّهٖ فَیُعَذِّبُهٗ عَذَابًا نُّكْرًا(87)وَ اَمَّا مَنْ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَهٗ جَزَآءَ اﰳلْحُسْنٰىۚ- وَ سَنَقُوْلُ لَهٗ مِنْ اَمْرِنَا یُسْرًاﭤ(88)
ترجمہ: کنزالعرفان
کہا : بہرحال جس نے ظلم کیا تو عنقریب ہم اسے سزا دیں گے پھروہ اپنے رب کی طرف لوٹایاجائے گا تو وہ اسے بہت برا عذاب دے گا۔اور بہر حال جو ایمان لایا اور اس نے نیک عمل کیا تو اس کا بدلہ بھلائی ہے اور عنقریب ہم اس کو آسان کام کہیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ:کہا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ذوالقر نین نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ملنے کے بعد ان نبی عَلَیْہِ السَّلَام سے عرض کی یا اپنے پاس موجود خاص ساتھیوں سے کہا ’’بہرحال جس نے کفرو شرک اختیار کیا اور میری دعوت کو ٹھکرا کر ایمان نہ لایا تو عنقریب ہم اسے قتل کردیں گے، یہ تو اس کی دُنْیَوی سزا ہے ، پھر وہ قیا مت کے دن اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف لوٹایا جائے گا تو وہ اسے جہنم کابہت برا عذاب دے گا اور جو ایمان لایا اور اس نے ایمان کے تقاضوں کے مطابق نیک عمل کیا تو اس کیلئے جزا کے طور پر بھلائی یعنی جنت ہے اور عنقریب ہم اس ایمان والے کو آسان کام کہیں گے اور اس کو ایسی چیزوں کا حکم دیں گے جو اس پر سہل ہوں دشوار نہ ہوں ۔( ابو سعود، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۷-۸۸، ۳ / ۴۰۳، مدارک، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۷-۸۸، ص۶۶۲، جلالین، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۷-۸۸، ص۲۵۱، ملتقطاً)
ثُمَّ اَتْبَعَ سَبَبًا(89)حَتّٰۤى اِذَا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَطْلُعُ عَلٰى قَوْمٍ لَّمْ نَجْعَلْ لَّهُمْ مِّنْ دُوْنِهَا سِتْرًا(90)كَذٰلِكَؕ-وَ قَدْ اَحَطْنَا بِمَا لَدَیْهِ خُبْرًا(91)
ترجمہ: کنزالعرفان
پھر وہ ایک راستے کے پیچھے چلا۔ یہاں تک کہ جب سورج طلوع ہونے کی جگہ پہنچا تو اسے ایک ایسی قوم پرطلوع ہوتا ہوا پایا جن کے لیے ہم نے سورج سے کوئی آڑ نہیں رکھی تھی۔ بات اسی طرح ہے اور جو کچھ اس کے پاس تھا سب کو ہمارا علم محیط ہے.
تفسیر: صراط الجنان
{ثُمَّ:پھر۔} یعنی حضرت ذوالقرنین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ مشرق کی طرف ایک راستے کے پیچھے چلے۔( جلالین، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۹، ص۲۵۱)
{سِتْرًا:آڑ۔} مفسرین فرماتے ہیں کہ وہ قوم اس جگہ پر تھی جہاں ان کے اور سورج کے درمیان کوئی چیز پہاڑ درخت وغیرہ حائل نہ تھی اور نہ وہاں زمین کی نرمی کی وجہ سے کوئی عمارت قائم ہو سکتی تھی اور وہاں کے لوگوں کا یہ حال تھا کہ طلوعِ آفتاب کے وقت زمین کے اندر بنائے ہوئے تہ خانوں میں گھس جاتے تھے اور زوال کے بعد نکل کر اپنا کام کاج کرتے تھے۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۰، ۳ / ۲۲۴، روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۰، ۵ / ۲۹۴، ملتقطاً)
{ كَذٰلِكَ:بات اسی طرح ہے۔} یعنی حضرت ذوالقر نین کی بادشاہی کی وسعت اور ان کا بلند مرتبہ جو ہم نے بیان کیا ان کا معاملہ اسی طرح ہے۔ مفسرین نے ’’ كَذٰلِكَ ‘‘ کے معنی میں یہ بھی کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ حضرت ذوالقرنین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے جیسا مغربی قوم کے ساتھ سلوک کیا تھا ایسا ہی اہلِ مشرق کے ساتھ بھی کیا کیونکہ یہ لوگ بھی ان کی طرح کافر تھے توجوان میں سے ایمان لائے اُن کے ساتھ احسان کیا اور جوکفر پراڑے رہے انہیں سزا دی۔( روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۱، ۵ / ۲۹۵)
{وَ قَدْ اَحَطْنَا بِمَا لَدَیْهِ خُبْرًا:اور جو کچھ اس کے پاس تھا سب کو ہمارا علم محیط ہے۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ حضرت ذوالقر نین کے پاس جو فوج ،لشکر، آلاتِ جنگ اور سامانِ سلطنت وغیرہ تھا سب ہمارے علم میں ہے ۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ جب ہم نے حضرت ذوالقرنین کو اقتدار عطا کیا تو اس وقت ا س کے پاس جتنی ملک داری کی قابلیت اور اُمورِ مملکت سر انجام دینے کی لیاقت تھی سب ہمیں معلوم تھی۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۱، ۳ / ۲۲۴)
ثُمَّ اَتْبَعَ سَبَبًا(92)حَتّٰۤى اِذَا بَلَغَ بَیْنَ السَّدَّیْنِ وَجَدَ مِنْ دُوْنِهِمَا قَوْمًاۙ-لَّا یَكَادُوْنَ یَفْقَهُوْنَ قَوْلًا(93)
ترجمہ: کنزالعرفان
پھر وہ ایک اور راستے کے پیچھے چلا ۔ یہاں تک کہ جب دو پہاڑوں کے درمیان پہنچا تو اس نے ان پہاڑوں کے آگے ایک ایسی قوم کو پایا جو کوئی بات سمجھتے معلوم نہ ہوتے تھے
تفسیر: صراط الجنان
{ثُمَّ:پھر۔} حضرت ذوالقر نین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ جب مشرق و مغرب تک پہنچ گئے تو اب کی بار انہوں نے شمال کی جانب سفر شروع فرمایا یہاں تک کہ وہ دو پہاڑوں کے درمیان تک جا پہنچے اور یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ علم اور قدرت کی وجہ سے واقع ہوا۔( تفسیرکبیر، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۲، ۷ / ۴۹۸، خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۲-۹۳، ۳ / ۲۲۴)
{وَجَدَ:اس نے پایا۔} جب حضرت ذوالقر نین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ شمال کی جانب ا س جگہ پہنچے جہاں انسانی آبادی ختم ہو جاتی تھی تووہاں دو بڑے عالیشان پہاڑ دیکھے جن کے اُس طرف یاجوج ماجوج کی قوم آباد تھی جو کہ دو پہاڑوں کے درمیانی راستے سے اِس طرف آکر قتل و غارت کیا کرتی تھی۔ یہ جگہ ترکستان کے مشرقی کنارہ پر واقع تھی۔ یہاں حضرت ذوالقرنین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک ایسی قوم کو پایا جو کوئی بات سمجھتے معلوم نہ ہوتے تھے کیونکہ اُن کی زبان عجیب و غریب تھی اس لئے اُن کے ساتھ اشارہ وغیرہ کی مدد سے بہ مشقت بات کی جاسکتی تھی۔( روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۳،۵ / ۲۹۶-۲۹۷، خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۳، ۳ / ۲۲۴، ملتقطاً)
قَالُوْا یٰذَا الْقَرْنَیْنِ اِنَّ یَاْجُوْجَ وَ مَاْجُوْجَ مُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ فَهَلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرْجًا عَلٰۤى اَنْ تَجْعَلَ بَیْنَنَا وَ بَیْنَهُمْ سَدًّا(94)
ترجمہ: کنزالعرفان
انہوں نے کہا، اے ذوالقرنین! بیشک یاجوج اور ماجوج زمین میں فساد مچانے والے لوگ ہیں تو کیا ہم آپ کے لیے کچھ مال مقرر کردیں اس بات پر کہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار بنادیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالُوْا:انہوں نے کہا۔} ان لوگوں نے کسی ترجمان کے ذریعے یا بلاواسطہ حضرت ذوالقر نین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے اس طور پر گفتگو کی کہ آپ ان کا کلام سمجھ سکتے تھے۔ آپ کا ان لوگوں کی زبان کو سمجھ لینا بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ جملہ اَسباب میں سے ہے۔( ابو سعود، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۴، ۳ / ۴۰۴)
{اِنَّ یَاْجُوْجَ وَ مَاْجُوْجَ:بیشک یاجوج اور ماجوج۔} یہ یافث بن نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد سے فسادی گروہ ہیں ، اِن کی تعداد بہت زیادہ ہے، زمین میں فساد کرتے تھے ،بہار کے موسم میں نکلتے تھے تو کھیتیاں اور سبزے سب کھا جاتے اور ان میں سے کچھ نہ چھوڑتے تھے اور خشک چیزیں لاد کر لے جاتے تھے، یہ لوگ آدمیوں کو کھالیتے تھے اور درندوں ، وحشی جانوروں ، سانپوں اور بچھوؤں تک کو کھا جاتے تھے۔ حضرت ذوالقرنین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے لوگوں نے ان کی شکایت کی کہ وہ زمین میں فساد مچانے والے لوگ ہیں تو کیا ہم آپ کے لیے اس بات پر کچھ مال مقرر کردیں کہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار بنادیں تاکہ وہ ہم تک نہ پہنچ سکیں اور ہم ان کے شرواِیذا سے محفوظ رہیں ۔(خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۴، ۳ / ۲۲۴-۲۲۵، روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۴، ۵ / ۲۹۷-۲۹۸، ملتقطاً)
قَالَ مَا مَكَّنِّیْ فِیْهِ رَبِّیْ خَیْرٌ فَاَعِیْنُوْنِیْ بِقُوَّةٍ اَجْعَلْ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَهُمْ رَدْمًا(95)اٰتُوْنِیْ زُبَرَ الْحَدِیْدِؕ-حَتّٰۤى اِذَا سَاوٰى بَیْنَ الصَّدَفَیْنِ قَالَ انْفُخُوْاؕ-حَتّٰۤى اِذَا جَعَلَهٗ نَارًاۙ-قَالَ اٰتُوْنِیْۤ اُفْرِغْ عَلَیْهِ قِطْرًاﭤ(96)فَمَا اسْطَاعُوْۤا اَنْ یَّظْهَرُوْهُ وَ مَا اسْتَطَاعُوْا لَهٗ نَقْبًا(97)
ترجمہ: کنزالعرفان
ذوالقرنین نے کہا: جس چیزپر مجھے میرے رب نے قابو دیا ہے وہ بہتر ہے توتم میری مدد قوت کے ساتھ کرو، میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک مضبوط رکاوٹ بنادوں گا۔ میرے پاس لوہے کے ٹکڑے لاؤ یہاں تک کہ جب وہ دیوار دونوں پہاڑوں کے کناروں کے درمیان برابر کردی تو ذوالقرنین نے کہا: آگ دھنکاؤ۔ یہاں تک کہ جب اُس لوہے کو آگ کردیا توکہا : مجھے دو تا کہ میں اس گرم لوہے پر پگھلایا ہوا تانبہ اُنڈیل دوں ۔ تو یاجوج و ماجوج اس پر نہ چڑھ سکے اور نہ اس میں سوراخ کرسکے.
تفسیر: صراط الجنان
{ قَالَ:کہا۔} حضرت ذوالقر نین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان سے فرمایا’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل سے میرے پاس کثیر مال اور ہرقسم کا سامان موجود ہے تم سے کچھ لینے کی حاجت نہیں ، البتہ تم جسمانی قوت کے ساتھ میری مدد کرو اور جو کام میں بتاؤں وہ انجام دو ،میں تم میں اور ان میں ایک مضبوط رکاوٹ بنادوں گا۔( مدارک، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۵، ص۶۶۳-۶۶۴، خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۵، ۳ / ۲۲۵، ملتقطاً)
{ اٰتُوْنِیْ زُبَرَ الْحَدِیْدِ:میرے پاس لوہے کے ٹکڑے لاؤ ۔} ان لوگوں نے عرض کی: پھر ہمارے متعلق کیا خدمت ہے؟ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’میرے پاس پتھر کے سائز کے لوہے کے ٹکڑے لاؤ ۔جب وہ لے آئے تواس کے بعد ان سے بنیاد کھدوائی ، جب وہ پانی تک پہنچی تو اس میں پتھر پگھلائے ہوئے تانبے سے جمائے گئے اور لوہے کے تختے اوپر نیچے چن کر اُن کے درمیان لکڑی اور کوئلہ بھروا دیا اور آگ دے دی اس طرح یہ دیوار پہاڑ کی بلندی تک اونچی کردی گئی اور دونوں پہاڑوں کے درمیان کوئی جگہ نہ چھوڑی گئی، پھر اوپر سے پگھلایا ہوا تانبہ دیوار میں پلا دیا گیا تو یہ سب مل کر ایک سخت جسم بن گیا۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۶، ۳ / ۲۲۵-۲۲۶، مدارک، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۶، ص۶۶۴، جلالین، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۶، ص۲۵۲، ملتقطاً)
{ فَمَا اسْطَاعُوْۤا اَنْ یَّظْهَرُوْهُ:تو یاجوج و ماجوج اس پر نہ چڑھ سکے۔} جب حضرت ذوالقر نین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے دیوار مکمل کر لی تو یاجوج اور ماجوج آئے اور انہوں نے اس دیوار پر چڑھنے کا ارادہ کیا تو اس کی بلندی اور ملائمت کی وجہ سے اس پر نہ چڑھ سکے، پھر انہوں نے نیچے سے اس میں سوراخ کرنے کی کوشش کی تو اس دیوار کی سختی اور موٹائی کی وجہ سے اس میں سوراخ نہ کر سکے۔( روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۷، ۵ / ۲۹۹)
قَالَ مَا مَكَّنِّیْ فِیْهِ رَبِّیْ خَیْرٌ فَاَعِیْنُوْنِیْ بِقُوَّةٍ اَجْعَلْ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَهُمْ رَدْمًا(95)اٰتُوْنِیْ زُبَرَ الْحَدِیْدِؕ-حَتّٰۤى اِذَا سَاوٰى بَیْنَ الصَّدَفَیْنِ قَالَ انْفُخُوْاؕ-حَتّٰۤى اِذَا جَعَلَهٗ نَارًاۙ-قَالَ اٰتُوْنِیْۤ اُفْرِغْ عَلَیْهِ قِطْرًاﭤ(96)فَمَا اسْطَاعُوْۤا اَنْ یَّظْهَرُوْهُ وَ مَا اسْتَطَاعُوْا لَهٗ نَقْبًا(97)
ترجمہ: کنزالعرفان
ذوالقرنین نے کہا: جس چیزپر مجھے میرے رب نے قابو دیا ہے وہ بہتر ہے توتم میری مدد قوت کے ساتھ کرو، میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک مضبوط رکاوٹ بنادوں گا۔ میرے پاس لوہے کے ٹکڑے لاؤ یہاں تک کہ جب وہ دیوار دونوں پہاڑوں کے کناروں کے درمیان برابر کردی تو ذوالقرنین نے کہا: آگ دھنکاؤ۔ یہاں تک کہ جب اُس لوہے کو آگ کردیا توکہا : مجھے دو تا کہ میں اس گرم لوہے پر پگھلایا ہوا تانبہ اُنڈیل دوں ۔ تو یاجوج و ماجوج اس پر نہ چڑھ سکے اور نہ اس میں سوراخ کرسکے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ قَالَ:کہا۔} حضرت ذوالقر نین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان سے فرمایا’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل سے میرے پاس کثیر مال اور ہرقسم کا سامان موجود ہے تم سے کچھ لینے کی حاجت نہیں ، البتہ تم جسمانی قوت کے ساتھ میری مدد کرو اور جو کام میں بتاؤں وہ انجام دو ،میں تم میں اور ان میں ایک مضبوط رکاوٹ بنادوں گا۔( مدارک، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۵، ص۶۶۳-۶۶۴، خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۵، ۳ / ۲۲۵، ملتقطاً)
{ اٰتُوْنِیْ زُبَرَ الْحَدِیْدِ:میرے پاس لوہے کے ٹکڑے لاؤ ۔} ان لوگوں نے عرض کی: پھر ہمارے متعلق کیا خدمت ہے؟ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’میرے پاس پتھر کے سائز کے لوہے کے ٹکڑے لاؤ ۔جب وہ لے آئے تواس کے بعد ان سے بنیاد کھدوائی ، جب وہ پانی تک پہنچی تو اس میں پتھر پگھلائے ہوئے تانبے سے جمائے گئے اور لوہے کے تختے اوپر نیچے چن کر اُن کے درمیان لکڑی اور کوئلہ بھروا دیا اور آگ دے دی اس طرح یہ دیوار پہاڑ کی بلندی تک اونچی کردی گئی اور دونوں پہاڑوں کے درمیان کوئی جگہ نہ چھوڑی گئی، پھر اوپر سے پگھلایا ہوا تانبہ دیوار میں پلا دیا گیا تو یہ سب مل کر ایک سخت جسم بن گیا۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۶، ۳ / ۲۲۵-۲۲۶، مدارک، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۶، ص۶۶۴، جلالین، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۶، ص۲۵۲، ملتقطاً)
{ فَمَا اسْطَاعُوْۤا اَنْ یَّظْهَرُوْهُ:تو یاجوج و ماجوج اس پر نہ چڑھ سکے۔} جب حضرت ذوالقر نین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے دیوار مکمل کر لی تو یاجوج اور ماجوج آئے اور انہوں نے اس دیوار پر چڑھنے کا ارادہ کیا تو اس کی بلندی اور ملائمت کی وجہ سے اس پر نہ چڑھ سکے، پھر انہوں نے نیچے سے اس میں سوراخ کرنے کی کوشش کی تو اس دیوار کی سختی اور موٹائی کی وجہ سے اس میں سوراخ نہ کر سکے۔( روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۷، ۵ / ۲۹۹)
وَ تَرَكْنَا بَعْضَهُمْ یَوْمَىٕذٍ یَّمُوْجُ فِیْ بَعْضٍ وَّ نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَجَمَعْنٰهُمْ جَمْعًا(99)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اس دن ہم انہیں چھوڑ دیں گے کہ ان کا ایک گروہ دوسرے پر سیلاب کی طرح آئے گا اور صُور میں پھونک ماری جائے گی تو ہم سب کو جمع کر لائیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ تَرَكْنَا بَعْضَهُمْ یَوْمَىٕذٍ:اور اس دن ہم انہیں چھوڑ دیں گے۔} ارشاد فرمایا کہ جب دیوار ٹوٹ جائے گی تو اس دن ہم یاجوج اور ماجوج کو اس طرح چھوڑ دیں گے کہ ان کا ایک گروہ دوسرے پر اس طرح آئے گا جس طرح پانی کی لہر ایک دوسرے پر آتی ہے اور وہ اپنی کثیر تعداد کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے ہوں گے۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۹، ۳ / ۲۲۶)
{وَ نُفِخَ فِی الصُّوْرِ:اور صُور میں پھونک ماری جائے گی۔} اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یا جوج ماجوج کا نکلنا قربِ قیامت کے علامات میں سے ہے۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۹، ۳ / ۲۲۶)
{فَجَمَعْنٰهُمْ جَمْعًا:تو ہم سب کو جمع کر لائیں گے۔}یعنی ہم قیامت کے دن تمام مخلوق کو عذاب و ثواب کے لئے جمع کر لائیں گے۔( مدارک، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۹، ص۶۶۴، روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۹، ۵ / ۳۰۱، ملتقطاً)
وَّ عَرَضْنَا جَهَنَّمَ یَوْمَىٕذٍ لِّلْكٰفِرِیْنَ عَرْضَاﰳ(100)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم اس دن جہنم کافروں کے سامنے لائیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ عَرَضْنَا جَهَنَّمَ یَوْمَىٕذٍ:اور ہم اس دن جہنم لائیں گے۔} یعنی جس دن ہم تمام مخلوق کو جمع کریں گے اس دن جہنم کافروں کے سامنے لائیں گے تاکہ وہ اسے صاف دیکھیں اور اس کا جوش مارنا اور چنگھاڑناسنیں ۔( ابو سعود، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۳ / ۴۰۷)
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ وَ اَعْتَدْنَا لِمَنْ كَذَّبَ بِالسَّاعَةِ سَعِیْرًاۚ(۱۱) اِذَا رَاَتْهُمْ مِّنْ مَّكَانٍۭ بَعِیْدٍ سَمِعُوْا لَهَا تَغَیُّظًا وَّ زَفِیْرًا‘‘(فرقان:۱۱،۱۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے قیامت کو جھٹلانے والوں کیلئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔ جب وہ آگ انہیں دور کی جگہ سے دیکھے گی تو کافر اس کا جوش مارنا اور چنگھاڑناسنیں گے۔
اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن جہنم کو لایا جائے گا، اس کی ستر ہزار لگامیں ہوں گی اور ہر لگام کو ستر ہزار فرشتے پکڑ کر کھینچ رہے ہوں گے۔( مسلم، کتاب الجنّۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب فی شدۃ حرّ نار جہنّم وبعد قعرہا وما تأخذ من المعذّبین، ص۱۵۲۳، الحدیث: ۲۹(۲۸۴۲))
الَّذِیْنَ كَانَتْ اَعْیُنُهُمْ فِیْ غِطَآءٍ عَنْ ذِكْرِیْ وَ كَانُوْا لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ سَمْعًا(101)
ترجمہ: کنزالعرفان
وہ جن کی آنکھیں میری یاد سے پردے میں تھیں اور حق بات سن نہ سکتے تھے ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَّذِیْنَ:وہ لوگ جو۔} اس سے پہلی آیت میں کفار کے بارے میں فرمایا کہ ہم قیامت کے دن ان کے سامنے جہنم لائیں گے،اب اس آیت میں کافروں کے بارے میں مزید فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کی آنکھیں میری یاد سے پردے میں تھیں اور وہ آیاتِ الٰہیہ اور قرآن ،ہدایت و بیان ، دلائلِ قدرت اور ایمان سے اندھے بنے رہے اور ان میں سے کسی چیز کو وہ نہ دیکھ سکے اور اپنی بدبختی کی وجہ سے رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ عداوت رکھنے کے باعث حق بات سن نہ سکتے تھے۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۳ / ۲۲۶-۲۲۷)
اَفَحَسِبَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنْ یَّتَّخِذُوْا عِبَادِیْ مِنْ دُوْنِیْۤ اَوْلِیَآءَؕ-اِنَّاۤ اَعْتَدْنَا جَهَنَّمَ لِلْكٰفِرِیْنَ نُزُلًا(102)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو کیا کافر یہ سمجھتے ہیں کہ میرے بندوں کو میرے سوا حمایتی بنالیں گے بیشک ہم نے کافروں کی مہمانی کیلئے جہنم تیار کر رکھی ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَفَحَسِبَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا:تو کیا کافر سمجھتے ہیں ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کیا کافر یہ سمجھتے ہیں کہ میرے بندوں جیسے حضرت عیسیٰ، حضرت عزیر عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور فرشتوں کو میرے سوا حمایتی بنالیں گے اور ان سے کچھ نفع پائیں گے؟ ان کایہ گمان فاسد ہے ،بلکہ وہ بندے انہیں اپنا دشمن سمجھتے اور ان سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں ۔( روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۵ / ۳۰۳، خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۳ / ۲۲۷، ملتقطاً)اور کافروں کا گمان فاسد ہونے کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، اولیاء رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اور ملائکہ، ایمان والوں کے مددگار ہوکر ان کی شفاعت کریں گے نہ کہ کافروں کی۔
قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًاﭤ(103)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ: کیا ہم تمہیں بتادیں کہ سب سے زیادہ ناقص عمل والے کون ہیں ؟
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ:تم فرماؤ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کیا ہم تمہیں بتادیں کہ وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے عمل کرنے میں مشقتیں اُٹھائیں اور یہ امید کرتے رہے کہ ان اعمال پر فضل و عطا سے نوازے جائیں گے مگر ا س کی بجائے ہلاکت و بربادی میں جا پڑے ۔حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا وہ لوگ یہودی اور عیسائی ہیں ۔بعض مفسرین نے کہا کہ وہ راہب لوگ ہیں جو گرجوں میں خَلْوَت نشین رہتے تھے ۔ حضرت علی مرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا کہ یہ لوگ اہلِ حَروراء یعنی خارجی لوگ ہیں ۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ۳ / ۲۲۷، روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ۵ / ۳۰۴، ملتقطاً)اورحقیقت میں سب ایک ہی مفہوم کی مختلف تعبیریں ہیں کیونکہ اس میں ہر وہ شخص داخل ہے جو عبادت یا ظاہری اچھے اعمال میں محنت و مشقت تو کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ کسی ایسی چیز کا مرتکب بھی ہوتا ہے جس سے اس کا عمل مردود ہوجائے جیسے کفر۔
ظاہری اعمال اچھے ہونا حق پر ہونے کی دلیل نہیں :
اس سے اشارۃً یہ معلوم ہو اکہ کسی کے ظاہری اعمال اچھے ہونا اس کے حق پر ہونے کی دلیل نہیں ، اور صحیح بخاری میں تو خارجیو ں سے متعلق صراحت کے ساتھ مذکور ہے کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے ارشاد فرمایا ’’ تم اپنی نمازوں کو ان کی نمازوں کے مقابلے میں اور اپنے روزوں کو ان کے روزوں کے مقابلے میں حقیر جانو گے ،یہ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، یہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔( بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوّۃ فی الاسلام، ۲ / ۵۰۳، الحدیث: ۳۶۱۰)
خارجیوں کا مختصر تعارف :
خارجیوں میں سب سے پہلا اور ان میں سب سے بدتر شخص ذُوالْخُوَیصِرَہ تمیمی تھا۔ اس نے حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تقسیم پر اعتراض کر کے آپ کی شان میں گستاخی کی تھی ۔ اس کے اور ا س کے ساتھیوں کے بارے میں حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا تھا کہ یہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ اسی وجہ سے انہیں خارجی یعنی دین سے نکل جانے والا کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ ظاہری طور پر بڑے عبادت گزار، شب بیدار تھے اور ان کی عبادت و ریاضت اور تلاوت ِقرآن میں مشغولیت دیکھ کر صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ بھی حیران ہوتے تھے لیکن ان کے عقائد و نظریات انتہائی باطل تھے ۔ان کاایک بہت بڑا عقیدہ یہ تھا کہ جو کبیرہ گناہ کرے وہ مشرک ہے اور جو ان کے اس عقیدے کامخالف ہو وہ بھی مشرک ہے ۔ ان ظالموں نے حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو بھی مَعَاذَ اللہ مشرک قرار دے دیا تھا اور نہروان کے مقام پر آپ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے جنگ کی تھی۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ ان کی تمام تر ظاہری عبادت و ریاضت،تقویٰ و طہارت اور رات رات بھر تلاوت ِقرآن کرنے کو خاطر میں نہ لائے اور ان کے باطل عقائد کی وجہ سے ان کے ساتھ جنگ کی اور انہیں قتل کیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ کسی کی لمبی لمبی اور ظاہری خشوع وخضوع سے بھر پور نمازیں ، رقت انگیز اور درد بھری آواز میں قرآنِ مجید کی تلاوتیں ، اللہ تعالیٰ کی گرفت اور اس کے عذابات سے ڈرانے والے وعظ اور نصیحتیں اور دیگر ظاہری نیک اعمال اس وقت تک قابلِ قبول نہیں جب تک ا س کے عقائد درست نہ ہوں ، لہٰذا ہر شخص کو چاہئے کہ وہ بد عقیدہ اور بد مذہب شخص کی کثرتِ عبادت، تقویٰ و طہارت اور دیگر نیک نظر آنے والی چیزوں سے ہر گزمتأثِّر نہ ہو اور نہ ہی ان چیزوں کو دیکھ کر ان کی طرف مائل ہو بلکہ ان سے ہمیشہ دورہی رہے کہ اسی میں اس کی دنیا وآخرت کی بھلائی ہے۔
اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ هُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا(104)
ترجمہ: کنزالعرفان
وہ لوگ جن کی ساری کوشش دنیا کی زندگی میں برباد ہو گئی حالانکہ وہ یہ گمان کررہے ہیں کہ وہ اچھا کام کررہے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَّذِیْنَ:وہ لوگ۔} اس سے پہلی آیت میں اعمال کے اعتبار سے سب سے زیادہ خسارے والے لوگوں کی خبر دینے کے بارے میں فرمایا، اب ا س آیت میں فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کی ساری کوشش دنیا کی زندگی میں برباد ہو گئی اور عمل باطل ہوگئے حالانکہ وہ اس گمان میں ہیں کہ وہ اچھا کام کررہے ہیں جو انہیں آخرت میں نفع دے گا۔( روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۵ / ۳۰۴)
بدکار سے زیادہ بد نصیب:
یہ آیتِ مبارکہ بنیادی طور پر تو کافروں کے متعلق ہے لیکن اس سے اشارتاً یہ بھی معلوم ہوا کہ بدکار سے زیادہ بد نصیب وہ نیکوکار ہے جو محنت مشقت اٹھا کر نیکیاں کرے مگر اس کی کوئی نیکی اس کے کام نہ آئے، وہ اس دھوکے میں رہے کہ میں نیکو کار ہوں ۔ ہم اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں
اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ وَ لِقَآىٕهٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا(105)
ترجمہ: کنزالعرفان
یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیات اور اس کی ملاقات کا انکار کیا تو ان کے سب اعمال برباد ہوگئے پس ہم ان کے لیے قیامت کے دن کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اُولٰٓىٕكَ:یہ لوگ۔} ارشاد فرمایا کہ کثیر نیک اعمال کے باوجود خسارے کاشکار ہونے والے ،یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی آیات اور اس کی ملاقات کا انکار کیا ، رسول اور قرآن پر ایمان نہ لائے اور مرنے کے بعد اٹھائے جانے، حساب ،ثواب اور عذاب کے منکر رہے تو ان کے سب اعمال برباد ہوگئے اور انہیں ان اعمال پر کوئی ثواب نہ ملے گا۔( روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ۵ / ۳۰۵، خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ۳ / ۲۲۷، ملتقطاً)
{فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا:پس ہم ان کے لیے قیامت کے دن کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔} وزن قائم نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن ان کے ظاہری نیک اعمال کی کوئی قدر وقیمت ہو گی اور نہ ہی ان میں کوئی وزن ہو گا اور جب میزانِ عمل میں ان کے ظاہری نیک اعمال اور کفر و مَعْصِیَت کا وزن ہو گا تو تمام ظاہری نیک اعمال بے وزن ثابت ہوں گے کیونکہ نیک اعمال کی قدر و قیمت اور ان میں وز ن کا دار ومدار ایمان اور اخلاص پر ہے اور جب یہ لوگ ایمان اور اخلاص سے ہی خالی ہیں تو ان کے اعمال میں وزن کہاں سے ہو گا۔ کفار کے اعمال کے بارے میں ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’وَ قَدِمْنَاۤ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰهُ هَبَآءً مَّنْثُوْرًا‘‘(فرقان:۲۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور انہوں نے جو کوئی عمل کیا ہوگا ہم اس کیطرف قصد کرکے باریک غبار کے بکھرے ہوئے ذروں کی طرح (بے وقعت) بنادیں گے جو روشندان کی دھوپ میں نظر آتے ہیں ۔
اور حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن ایک بہت ہی موٹے تازے آدمی کو جب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کیا جائے گا تو ( اتنا بھاری بھر کم ہونے کے باوجود) اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کا وزن ایک مچھر کے پر کے برابر بھی نہ ہو گا، اور فرمایا کہ یہ آیت پڑھ لو
’’فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان:پس ہم ان کے لیے قیامت کے دن کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔( بخاری، کتاب التفسیر، باب اولئک الذین کفروا بآیات ربّہم ولقائہ فحبطت اعمالہم، ۳ / ۲۷۰، الحدیث: ۴۷۲۹)
اعمال میں وزن سے محروم ہونے والے لوگ:
یاد رہے کہ کافروں کے ظاہری نیک اعمال تو قیامت کے دن بے وزن ہی ہوں گے البتہ بعض مسلمان بھی ایسے ہوں گے جو اپنے نیک اعمال میں وزن سے محروم ہو جائیں گے ، جیسا کہ حضرت ثوبان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میں اپنی امت میں سے ان قوموں کو جانتا ہوں کہ جب وہ قیامت کے دن آئیں گے تو ان کی نیکیاں تِہامہ کے پہاڑوں کی مانند ہوں گی لیکن اللہ تعالیٰ انہیں روشندان سے نظر آنے والے غبار کے بکھرے ہوئے ذروں کی طرح (بے وقعت) کر دے گا۔ حضرت ثوبان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہمارے سامنے ان لوگوں کا صاف صاف حال بیان فرما دیجئے تاکہ ہم معلومات نہ ہوتے ہوئے ان لوگوں میں شریک نہ ہو جائیں ۔ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’وہ تمہارے بھائی، تمہارے ہم قوم ہوں گے ۔ راتوں کو تمہاری طرح عبادت کیا کریں گے لیکن وہ لوگ تنہائی میں برے اَفعال کے مُرتکب ہوں گے۔( ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر الذنوب، ۴ / ۴۸۹، الحدیث: ۴۲۴۵)
اور حضرت ابو حذیفہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے آزاد کردہ غلام حضرت سالِم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن کچھ لوگ ایسے آئیں گے کہ ان کے پاس تہامہ کے پہاڑوں کے برابر نیکیاں ہو ں گی، یہاں تک کہ جب انہیں لایا جائے گا تو اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو روشندان سے نظر آنے والےغبار کے ذروں کی طرح (بے وقعت) کر دے گا ، پھر انہیں جہنم میں ڈال دے گا۔ حضرت سالِم نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میرے ماں باپ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر قربان ہو جائیں ! ہمیں ان لوگوں کا حال بتا دیجئے ؟ ارشاد فرمایا ’’وہ لوگ نماز پڑھتے ہوں گے ، روزے رکھتے ہوں گے لیکن جب ان کے سامنے کوئی حرام چیز پیش کی جائے تو وہ اس پر کود پڑیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے اعمال باطل فرما دے گا۔( حلیۃ الاولیا، سالم مولی ابی حذیفۃ، ۱ / ۱۳۳، الحدیث: ۵۷۵)
اور حضرت ابوسعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ قیامت کے دن بعض لوگ ایسے اعمال لائیں گے جو اُن کے خیالوں میں مکہ مکرمہ کے پہاڑوں سے زیادہ بڑے ہوں گے لیکن جب وہ تولے جائیں گے تو ان میں وزن کچھ نہ ہوگا۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ۳ / ۲۲۷)
ذٰلِكَ جَزَآؤُهُمْ جَهَنَّمُ بِمَا كَفَرُوْا وَ اتَّخَذُوْۤا اٰیٰتِیْ وَ رُسُلِیْ هُزُوًا(106)
ترجمہ: کنزالعرفان
یہ ان کا بدلہ ہے جہنم ،کیونکہ انہوں نے کفر کیا اور میری آیتوں اور میرے رسولوں کو ہنسی مذاق بنالیا۔
تفسیر: صراط الجنان
{ذٰلِكَ جَزَآؤُهُمْ جَهَنَّمُ:یہ ان کا بدلہ جہنم ہے۔} ارشاد فرمایا کہ یہ جہنم ان کا بدلہ ہے کیونکہ انہوں نے کفر کیا اور جس چیز پر ایمان لانا اور جس کا اقرار کرنا ضروری تھا اس کا انکار کیا اور انہوں نے قرآنِ پاک ، اللہ تعالیٰ کی دیگر کتابوں اور اس کے رسولوں کو ہنسی مذاق بنالیا۔( روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۰۶، ۵ / ۳۰۵)اس سے معلوم ہوا کہ تمام کفر وں سے بڑھ کر کفر نبی کی توہین اور ان کا مذاق اڑانا ہے جس کی سزا دنیا و آخرت دونوں میں ملتی ہے۔
اہلِ حق علماء کا مذاق اڑانے والوں کو نصیحت:
حضرت علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’یاد رکھو! علماء، انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے وارث ہیں اور ان کے عُلوم انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے علوم سے حاصل شدہ ہیں تو جس طرح باعمل علماء، انبیاء اور مُرسَلین عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اعمال اور علوم کے وارث ہیں اسی طرح علماء کا مذاق اڑانے والے ابو جہل ، عقبہ بن ابی معیط اور ان جیسے دیگر کافروں کے مذاق اڑانے میں وارث ہیں ۔( روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۰۶، ۵ / ۳۰۵)اس سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنے کی شدید ضرورت ہے جو میڈیا پر اور اپنی نجی محفلوں میں اہلِ حق علمائے کرام کا مذاق اڑانے میں لگے رہتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں عقلِ سلیم عطا فرمائے۔
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا(107)خٰلِدِیْنَ فِیْهَا لَا یَبْغُوْنَ عَنْهَا حِوَلًا(108)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک جو لوگ ایمان لائے اور اچھے اعمال کئے ان کی مہمانی کیلئے فردوس کے باغات ہیں ۔ وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے، ان سے کوئی دوسری جگہ بدلنا نہ چاہیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:بیشک جو لوگ ایمان لائے۔} اس سے پہلے کافروں کی جہنم میں مہمانی کا ذکر ہوا اور اب یہاں سے وہ چیز بیان کی جا رہی ہے جس سے ایمان لانے اور نیک اعمال کرنے کی ترغیب ملتی ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ بیشک جو لوگ دنیا میں ایمان لائے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اچھے اعمال کئے تو ان کی مہمانی کے لئے فردوس کے باغات ہیں ۔( تفسیرکبیر، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۷ / ۵۰۲، روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۵ / ۳۰۵، ملخصاً)
جنتی نعمتیں اور سب سے اعلیٰ جنت:
یاد رہے کہ اہلِ جنت کے لئے اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں تیار کی ہیں وہ انسان کے تَصَوُّر سے بھی زیادہ ہیں ، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّاۤ اُخْفِیَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْیُنٍۚ-جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ‘‘(سجدہ:۱۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:تو کسی جان کو معلوم نہیں وہ آنکھوں کی ٹھنڈک جو ان کے لیے ان کے اعمال کے بدلے میں چھپا رکھی ہے۔
اور حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے ایسی نعمتیں تیار کر رکھی ہیں جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا،نہ کسی کان نے سنا اور نہ ہی کسی انسان کے دل پر اس کا خطرہ گزرا۔‘‘ اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو’’فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّاۤ اُخْفِیَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْیُنٍ‘‘(بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ما جاء فی صفۃ الجنّۃ وانّہا مخلوقۃ، ۲ / ۳۹۱، الحدیث: ۳۲۴۴)
اور زیر ِتفسیر آیت میں جس جنت کا ذکر ہوا، اس کے بارے میں حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جب اللہ عَزَّوَجَلَّ سے مانگو تو فردوس مانگو، کیونکہ وہ جنتوں میں سب کے درمیان اور سب سے بلند ہے اور اس پر رحمٰن عَزَّوَجَلَّ کاعرش ہے اور اسی سے جنت کی نہریں جاری ہوتی ہیں ۔( بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب درجات المجاہدین فی سبیل اللّٰہ۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۵۰، الحدیث: ۲۷۹۰)
حضرت عبادہ بن صامت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جنت میں سو درجے ہیں ، ہر دو درجوں کے درمیان زمین و آسمان کے درمیان جتنا فاصلہ ہے اور فردوس سب سے اوپر والا درجہ ہے، اس سے جنت کی چار نہریں پھوٹتی ہیں ، اس سے اوپر عرش ہے اور جب تم اللہ تعالیٰ سے سوال کرو تو جنت الفردوس ہی مانگا کرو۔( ترمذی، کتاب صفۃ الجنّۃ، باب ما جاء فی صفۃ درجات الجنّۃ، ۴ / ۲۳۸، الحدیث: ۲۵۳۹)
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’فردوس بلند جنت ہے، درمیانی اور سب سے بہتر جنت ہے۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ المؤمنین ۵ / ۱۱۸، الحدیث: ۳۱۸۵)
حضرت کعب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’ فردوس جنتوں میں سب سے اعلیٰ ہے اس میں نیکیوں کا حکم کرنے والے اور بدیوں سے روکنے والے عیش کریں گے۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۳ / ۲۲۷)
{لَا یَبْغُوْنَ عَنْهَا حِوَلًا:ان سے کوئی دوسری جگہ بدلنا نہ چاہیں گے۔} یعنی دنیا میں انسان کیسی ہی بہتر جگہ میں ہو، وہ اس سے اور اعلیٰ و ارفع جگہ کی طلب رکھتا ہے لیکن یہ بات وہاں جنت میں نہ ہوگی کیونکہ وہ جانتے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہیں بہت اعلیٰ و ارفع جگہ حاصل ہے۔( روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ۵ / ۳۰۶)
قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمٰتُ رَبِّیْ وَ لَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهٖ مَدَدًا(109)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرمادو: اگر سمندر میرے رب کی باتوں کے لیے سیاہی ہو جاتا تو ضرور سمندر ختم ہوجاتااور میرے رب کی باتیں ختم نہ ہوتیں، اگرچہ ہم اس کی مدد کیلئے اُسی سمندر جیسا اور لے آتے ۔
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ:تم فرمادو۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے علم و حکمت کے کلمات لکھے جائیں اور اُن کے لئے تمام سمندروں کا پانی سیاہی بنادیا جائے اور تمام مخلوق لکھے تو وہ کلمات ختم نہ ہوں اور یہ تمام پانی ختم ہوجائے اور اتنا ہی اور بھی ختم ہوجائے ۔ مُدَّعا یہ ہے کہ اس کے علم و حکمت کی کوئی انتہاء نہیں ۔ شانِ نزول : حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں کہ یہودیوں نے کہا: اے محمد! (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) آپ کا خیال ہے کہ ہمیں حکمت دی گئی اور آپ کی کتاب میں ہے کہ جسے حکمت دی گئی اُسے خیرِ کثیر دی گئی، پھر آپ کیسے فرماتے ہیں کہ تمہیں تھوڑا علم دیا گیا ہے! اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی۔ ایک قول یہ ہے کہ جب آیت ِکریمہ ’’ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا ‘‘ نازل ہوئی تو یہودیوں نے کہا کہ ہمیں توریت کا علم دیا گیا اور اس میں ہر شے کا علم ہے، اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔ مدعا یہ ہے کہ ہر شے کا علم بھی علمِ الٰہی کے حضور قلیل ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے علم سے اتنی بھی نسبت نہیں رکھتا جتنی ایک قطرے کو سمندر سے ہو۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ۳ / ۲۲۷-۲۲۸)
قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰۤى اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌۚ-فَمَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا(110)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ: میں ( ظاہراً) تمہاری طرح ایک بشر ہوں مجھے وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہےتو جو اپنے رب سے ملاقات کی امید رکھتا ہو اسے چاہیے کہ نیک کام کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے ۔
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ:تم فرماؤ۔} حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو عاجزی کی تعلیم دی اور انہیں یہ کہنے کا حکم دیا کہ میں بھی تمہاری طرح آدمی ہوں (یعنی جیسے تم انسان ہو اسی طرح میں بھی انسان ہوں ) البتہ مجھے (تم پر) یہ خصوصیت حاصل ہے کہ میری طرف وحی آتی ہے اور وحی کے سبب اللہ تعالیٰ نے مجھے اعلیٰ مقام عطا کیا ہے۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۱۰، ۳ / ۲۲۸)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’(کافر) انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنا سا بشر مانتے تھے اس لئے ان کی رسالت سے منکر تھے کہ
’’مَاۤ اَنْتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَاۙ-وَ مَاۤ اَنْزَلَ الرَّحْمٰنُ مِنْ شَیْءٍۙ-اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا تَكْذِبُوْنَ‘‘(یس:۱۵)
تم تو ہمارے جیسے آدمی ہواور رحمٰن نے کوئی چیز نہیں اتاری، تم صرف جھوٹ بول رہے ہو۔
واقعی جب ان خُبَثاء کے نزدیک وحی ِنبوت باطل تھی تو انہیں اپنی اسی بشریت کے سواکیا نظر آتا؟لیکن اِن سے زیادہ دل کے اندھے وہ (ہیں جو) کہ وحی ونبوت کا اقرار کریں اور پھر انہیں ( یعنی انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ) اپنا ہی سا بشر جانیں ، زید کو’’قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ‘‘ سوجھا اور ’’ یُوْحٰۤى اِلَیَّ‘‘ نہ سوجھا جو غیر متناہی فرق ظاہر کرتا ہے، زید نے اتناہی ٹکڑا لیا جوکافر لیتے تھے، انبیاءعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بشریت جبریل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مَلکیت سے اعلیٰ ہے، وہ ظاہری صورت میں ظاہر بینوں کی آنکھوں میں بشریت رکھتے ہیں جس سے مقصود خلق کا اِن سے اُنس حاصل کرنا اور ان سے فیض پانا (ہے) ولہٰذا ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ لَوْ جَعَلْنٰهُ مَلَكًا لَّجَعَلْنٰهُ رَجُلًا وَّ لَلَبَسْنَا عَلَیْهِمْ مَّا یَلْبِسُوْنَ‘‘(انعام:۹)
اور اگرہم فرشتے کو رسول کرکے بھیجتے تو ضرور اسے مردہی کی شکل میں بھیجتے اور ضرور انھیں اسی شبہ میں رکھتے جس دھوکے میں اب ہیں ۔
(اس سے) ظاہر ہوا کہ انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام کی ظاہری صورت دیکھ کر انھیں اوروں کی مثل سمجھنا ان کی بشریت کو اپناسا جاننا، ظاہر بینوں (اور) کور باطنوں کا دھوکا ہے (اور) یہ شیطان کے دھوکے میں پڑے ہیں ۔۔۔ ان کا کھانا پینا سونا یہ افعالِ بشری اس لئے نہیں کہ وہ ان کےمحتاج ہیں، حاشا(یعنی ہر گز نہیں ، آپ تو ارشاد فرماتے ہیں ) ’’لَسْتُ کَاَحَدِکُمْ اَنِّیْ اَبِیْتُ عِنْدَ رَبِّیْ یُطْعِمُنِیْ وَیَسْقِیْنِیْ‘‘ میں تمہاری طرح نہیں ہوں میں اپنے رب کے ہاں رات بسرکرتاہوں وہ مجھے کھلاتابھی ہے اور پلاتا بھی ہے۔ (ت) (بلکہ) ان کے یہ افعال بھی اقامتِ سنت وتعلیمِ امت کے لئے تھے کہ ہر بات میں طریقۂ محمودہ لوگوں کو عملی طور سے دکھائیں، جیسے ان کا سَہوونِسیان ۔حدیث میں ہے ’’اِنِّیْ لَا اَنْسیٰ وَلٰکِنْ اُنْسٰی لِیَسْتَنَّ بِیْ ‘‘ میں بھولتا نہیں بھلایا جاتا ہوں تاکہ حالتِ سہو میں امت کوطریقۂ سنت معلوم ہو۔ عمرو نے سچ کہا کہ یہ قول (اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ) حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اپنی طرف سے نہ فرمایا بلکہ اس کے فرمانے پر مامور ہوئے، جس کی حکمت تعلیمِ تواضع، وتانیسِ اُمت، و سدِّغُلُوِّنصرانیت (یعنی عاجزی کی تعلیم،امت کے لئے اُنسیت کا حصول اور عیسائی جیسے اپنے نبی کی شان بیان کرنے میں حد سے بڑھ گئے مسلمانوں کو اس سے روکنا) ہے، اول ،دوم ظاہر، اور سوم یہ کہ مسیح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کی امت نے ان کے فضائل پر خدا اور خدا کا بیٹا کہا ،پھر فضائل ِمحمدیہ عَلٰی صَاحِبِہَا اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَالتَّحِیَّۃ کی عظمت ِشان کا اندازہ کون کرسکتا ہے، یہاں اس غلو کے سدِّباب (روکنے) کے لئے تعلیم فرمائی گئی کہ کہو’’ میں تم جیسا بشرہوں خدا یا خدا کابیٹا نہیں ، ہاں ’’یُوْحٰۤى اِلَیَّ‘‘ رسول ہوں ، دفعِ اِفراطِ نصرانیت کے لئے پہلا کلمہ تھا اور دفعِ تفریط ِابلیسیَّت کے لئے دوسرا کلمہ، اسی کی نظیر ہے جو دوسری جگہ ارشادہوا:
’’قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا‘‘(بنی اسرائیل:۹۳)
تم فرمادو پاکی ہے میرے رب کومیں خدا نہیں ،میں تو ا نسان رسول ہوں ۔
اِنہیں دونوں کے دفع کوکلمہ ٔشہادت میں دونوں لفظِ کریم جمع فرمائے گئے ’’اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہْ‘‘ میں اعلان کرتا ہوں کہ حضرت محمدصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اللہ کے بندے اور رسول ہیں ۔ (ت) بندے ہیں خدا نہیں ، رسول ہیں خدا سے جدا نہیں، شَیْطَنَت اس کی کہ دوسرا کلمہ امتیازِ اعلیٰ چھوڑ کرپہلے کلمہ تواضع پر اِقتصار کرے۔( فتاوی رضویہ، ۱۴ / ۶۶۲-۶۶۵)
صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’صورتِ خاصہ میں کوئی بھی آپ (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کا مثل نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ( صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ)کو حسن و صورت میں بھی سب سے اعلیٰ و بالا کیا اور حقیقت و روح و باطن کے اعتبار سے تو تمام انبیاء (عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام )اوصافِ بشر سے اعلیٰ ہیں ، جیسا کہ شفاء قاضی عیاض (قاضی عیاض رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی کتاب ’’شفاء‘‘) میں ہے اور شیخ عبد الحق محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے شرح مشکوٰۃ میں فرمایا کہ انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام کے اَجسام و ظواہر تو حدِّ بشریت پر چھوڑے گئے اور اُن کے اَرواح و بَواطن بشریت سے بالا اور مَلاءِ اعلیٰ سے متعلق ہیں۔ شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ نے سورۂ والضُّحیٰ کی تفسیر میں فرمایا کہ آپ کی بشریت کا وجود اصلا ًنہ رہے اور غلبۂ انوارِحق آپ پر علی الدَّوام حاصل ہو۔ بہرحال آپ (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ)کی ذات و کمالات میں آپ کا کوئی بھی مثل نہیں ۔ اس آیتِ کریمہ میں آپ کو اپنی ظاہری صورتِ بشریہ کے بیان کا اظہارِ تواضع کے لئے حکم فرمایا گیا، یہی فرمایا ہے حضرت ابن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے۔(خزائن العرفان، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۱۰، ص۵۶۹)
ترا مسند ِناز ہے عرشِ بریں تِرا محرمِ راز ہے روحِ امیں
تو ہی سرورِ ہر دو جہاں ہے شہا تِرا مثل نہیں ہے خدا کی قسم
سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بشر کہنے سے متعلق 3 اَہم باتیں :
یہاں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بشر کہنے سے متعلق 3 اَہم باتیں یاد رکھیں :
پہلی بات یہ کہ کسی کو جائز نہیں کہ وہ حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنے جیسا بشر کہے کیونکہ جو کلمات عزت و عظمت والے اصحاب عاجزی کے طور پر فرماتے ہیں انہیں کہنا دوسروں کے لئے روا نہیں ہوتا۔ حضرت علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’واضح رہے کہ یہاں ایک ادب اور قاعدہ ہے جسے بعض اَصفیا اور اہل ِتحقیق نے بیان کیا ہے اور اسے جان لینا اور اس پر عمل پیرا ہونا مشکلات سے نکلنے کا حل اور سلامت رہنے کا سبب ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر کسی مقام پر اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی خطاب، عتاب، رعب ودبدبہ کا اظہار یا بے نیازی کا وقوع ہو مثلاً آپ ہدایت نہیں دے سکتے، آپ کے اعمال ختم ہوجائیں گے، آپ کے لئے کوئی شے نہیں ، آپ حیاتِ دُنْیَوی کی زینت چاہتے ہیں، اور اس کی مثل دیگر مقامات، یا کسی جگہ نبی کی طرف سے عبدیَّت، انکساری، محتاجی و عاجزی اور مسکینی کا ذکر آئے مثلاً میں تمہاری طرح بشر ہوں ، مجھے اسی طرح غصہ آتا ہے جیسے عبد کو آتا ہے اور میں نہیں جانتا اس دیوار کے اُدھر کیا ہے، میں نہیں جانتا میرے ساتھ اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا، اور اس کی مثل دیگر مقامات۔ ہم امتیوں اور غلاموں کو جائز نہیں کہ ان معاملات میں مداخلت کریں ، ان میں اِشتراک کریں اور اسے کھیل بنائیں ، بلکہ ہمیں پاسِ ادب کرتے ہوئے خاموشی وسکوت اور تَوَقُّف کرنا لازم ہے ، مالک کا حق ہے کہ وہ اپنے بندے سے جو چاہے فرمائے، اس پر اپنی بلندی و غلبہ کا اظہار کرے، بندے کا بھی یہ حق ہے کہ وہ اپنے مالک کے سامنے بندگی اور عاجزی کا اظہار کرے، دوسرے کی کیا مجال کہ وہ اس میں دخل اندازی کرے اور حدِّ ادب سے باہر نکلنے کی کوشش کرے، اس مقام پر بہت سے کمزور اور جاہل لوگوں کے پاؤں پھسل جاتے ہیں جس سے وہ تباہ و برباد ہوجاتے ہیں ، اللّٰہ تعالیٰ محفوظ رکھنے والا اور مدد کرنے والا ہے۔ و اللہ تعالٰی اعلم۔( مدارج النبوت، باب سوم در بیان فضل وشرافت، وصل در ازالۂ شبہات، ۱ / ۸۳-۸۴)
دوسری بات یہ کہ جسے اللہ تعالیٰ نے فضائلِ جلیلہ اور مَراتبِ رفیعہ عطا فرمائے ہوں ، اُس کے ان فضائل و مراتب کا ذکر چھوڑ کر ایسے عام وصف سے اس کا ذکر کرنا جو ہر خاص و عام میں پایا جائے ، اُن کمالات کو نہ ماننے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس لئے سلامتی اسی میں ہے کہ فضیلت و مرتبے پر فائز ہستی کا ذکر اس کے فضائل اور ان اوصاف کے ساتھ کیا جائے جن کی وجہ سے وہ دوسروں سے ممتاز ہے اور یہی نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا طریقہ ہے،جیساکہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں: تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ قبرستان میں تشریف لے گئے تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِیْنَ‘‘ بے شک اگر اللہ نے چاہا تو ہم تم سے ملنے والے ہیں، میری خواہش ہے کہ ہم اپنے (دینی) بھائیوں کو دیکھیں ۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا ہم آپ کے (دینی ) بھائی نہیں ؟ ارشاد فرمایا ’’( دینی بھائی ہونے کے ساتھ تمہاری خصوصیت یہ ہے کہ) تم میرے صحابہ ہو اور ہمارے (صرف دینی) بھائی وہ ہیں جو ابھی تک نہیں آئے۔( مسلم، کتاب الطہارۃ، باب استحباب اطالۃ الغرّۃ والتحجیل فی الوضوئ، ص۱۵۰، الحدیث: ۳۹(۲۴۹))
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’جب تم رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر درود بھیجا کرو تو اچھی طرح بھیجا کرو، تمہیں کیا پتہ کہ شاید وہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے پیش کیا جاتا ہو۔ لوگوں نے عرض کی: تو ہمیں سکھا دیجئے ۔آپ نے فرمایا: یوں پڑھا کرو ’’اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ صَلَا تَکَ وَرَحْمَتَکَ وَبَرَکَا تِکَ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ وَاِمَامِ الْمُتَّقِیْنَ وَخَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَرَسُوْلِکَ اِمَامِ الْخَیْرِ وَقَائِدِ الْخَیْرِ وَرَسُولِ الرَّحْمَۃِ اَللّٰہُمَّ ابْعَثْہُ مَقَامًا مَّحْمُوْدًایَغْبِطُہُ بِہِ الْاَوَّلُوْنَ وَالآخِرُوْنَ اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی آلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ اَللّٰہُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّد کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی آلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ‘‘(ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب الصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم، ۱ / ۴۸۹، الحدیث: ۹۰۶، مسند ابی یعلی، مسند عبد اللہ بن مسعود، ۴ / ۴۳۸، الحدیث: ۵۲۴۵، ملتقطاً)
اور حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بشر کہنے میں راہِ سلامت یہ ہے کہ نہ تو آپ کی بشریت کا مُطْلَقاً انکار کیا جائے اور نہ ہی کسی امتیازی وصف کے بغیر آپ کی بشریت کا ذکر کیا جائے بلکہ جب حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بشریت کا ذکر کیا جائے تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو افضل البشر یا سیّد البشر کہا جائے یا یوں کہا جائے کہ آپ کی ظاہری صورت بشری ہے اور باطنی حقیقت بشریَّت سے اعلیٰ ہے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’جو یہ کہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَسَلَّمَ کی صورتِ ظاہری بشری ہے (اور) حقیقت ِباطنی بشریت سے ارفع واعلیٰ ہے، یا یہ (کہے) کہ حضور اوروں کی مثل بشر نہیں ،وہ سچ کہتا ہے اور جو مُطْلَقاً حضور سے بشریت کی نفی کرے وہ کافر ہے،قال تعالٰی
’’ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا‘‘(بنی اسرائیل:۹۳)
تم فرماؤ:میرا رب پاک ہے میں تو صرف اللہ کا بھیجا ہوا ایک آدمی ہوں ۔( فتاوی رضویہ، ۱۴ / ۳۵۸)
تیسری بات یہ کہ قرآنِ کریم میں جا بجا کفار کا طریقہ بتایا گیا ہے کہ وہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنے جیسا بشرکہتے تھے اور اسی سے وہ گمراہی میں مبتلا ہوئے لہٰذا جس مسلمان کے دل میں سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے محبت کی ادنیٰ رمق بھی باقی ہے ا س پر لازم ہے کہ وہ کفار کا طریقہ اختیار کرنے سے بچے اور حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنے جیسا بشر سمجھ کر گمراہوں کی صف میں داخل ہونے کی کوشش نہ کرے۔
{اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ:تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے۔} یعنی مجھے وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے اس کا کوئی شریک نہیں تو جو اپنے رب عَزَّ وَجَلَّ سے ملاقات کی امید رکھتا ہو اسے چاہیے کہ نیک کام کرے اور اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔ شرکِ اکبر سے بھی بچے اور ریاء سے بھی جس کو شرکِ اصغر کہتے ہیں ۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۱۰، ۳ / ۲۲۸، مدارک، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۱۰، ص۶۶۵-۶۶۶، ملتقطاً)
ریاکاری کی مذمت پر 4 اَحادیث:
موضوع کی مناسبت سے یہاں ریاکاری کی مذمت پر 4 اَحادیث بھی ملاحظہ ہوں :
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’میں شریک سے بے نیاز ہوں ، جس نے کسی عمل میں میرے ساتھ کسی غیر کو شریک کیا میں اسے اور اس کے شرک کو چھوڑ دیتا ہوں ۔(مسلم، کتاب الزہد والرقائق، باب من اشرک فی عملہ غیر اللّٰہ، ص۱۵۹۴، الحدیث: ۴۶(۲۹۸۵))
(2)…حضرت ابو سعید بن ابو فضالہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ جب قیامت کے دن جس میں کوئی شک و شبہ نہیں، لوگوں کو جمع فرمائے گا تو ایک پکارنے والا پکارے گا: جس نے کسی ایسے عمل میں جو اس نے اللہ کے لئے کیا تھا ،کسی کو شریک ٹھہرایا تو اسے اس کا ثواب اسی غیرِ خدا سے طلب کرنا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ تمام شریکوں کے شرک سے بے نیاز ہے۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الکہف، ۵ / ۱۰۵، الحدیث: ۳۱۶۵)
(3)…حضرت محمود بن لَبید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت کے د ن جب اللہ عَزَّوَجَلَّ بندوں کو ان کے اعمال کابدلہ دے گا توریاکاروں سے فرمائے گا: ان کے پاس جاؤ جنہیں دکھانے کے لئے تم دنیا میں عمل کیا کرتے تھے اور دیکھو! کیا تم ان کے پاس کوئی بدلہ یا بھلائی پاتے ہو؟( شعب الایمان، الخامس والاربعون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۵ / ۳۳۳، الحدیث: ۶۸۳۱)
(4)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جُبُّ الْحُزْن‘‘ سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی پناہ مانگو۔ صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: ’’جُبُّ الْحُزْن‘‘ کیا ہے؟ ارشاد فرمایا: جہنم کی ایک وادی ہے جس سے جہنم (بھی) روزانہ سو مرتبہ پناہ مانگتی ہے۔ ہم نے عرض کی: اس میں کون لوگ داخل ہوں گے؟ ارشاد فرمایا: ’’وہ قاری جو اپنے اعمال لوگوں کو دکھانے کے لئے کرتے تھے(ترمذی،کتاب الزھد ، باب ما جاء فی الریاء والسمعۃ، ۴ / ۱۷۰، الحدیث: ۲۳۹۰)۔