سُوْرَۃُ الكَوْثَر
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَﭤ(1)فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْﭤ(2)اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ(3)
ترجمہ: کنزالعرفان
اے محبوب!بیشک ہم نے تمہیں بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں ۔تو تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔بیشک جو تمہارا دشمن ہے وہی ہر خیر سے محروم ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَ: اے محبوب!بیشک ہم نے تمہیں بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں ۔} کوثر کی تفسیر میں مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں ،ان سب اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ اے محبوب!بیشک ہم نے تمہیں بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں اور کثیر فضائل عنایت کرکے تمہیں تمام مخلوق پر افضل کیا،آپ کو حسنِ ظاہر بھی دیا حسنِ باطن بھی عطا کیا، نسب ِعالی بھی، نبوت بھی، کتاب بھی، حکمت بھی، علم بھی،شفاعت بھی، حوضِ کوثر بھی، مقامِ محمود بھی،امت کی کثرت بھی، دین کے دشمنوں پر غلبہ بھی، فتوحات کی کثرت بھی اور بے شمار نعمتیں اور فضیلتیں عطا کیں جن کی انتہاء نہیں۔(خازن، الکوثر، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۴۱۳-۴۱۴ملتقطاً)
آیت ’’ اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَ ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس سے5 باتیں معلوم ہوئیں
(1)…اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو کوثر عطا کر دی ہے کیونکہ یہاں یہ نہیں فرمایا گیا کہ ہم آپ کو کوثر عطا کریں گے بلکہ یہ فرمایا کہ بیشک ہم نے آپ کو کوثر عطا کر دی۔
(2)… اللّٰہ تعالیٰ کی اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پر یہ عطا ان کے نبی اور رسول ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی ذات کی وجہ سے ہے جو شانِ محبوبِیّت کی صورت ہے کیونکہ یہاں یہ فرمایا ’’اَعْطَیْنٰكَ‘‘ ہم نے آپ کو عطا فرمائی،یہ نہیں فرمایا کہ ’’اَعْطَیْنَا الرَّسُوْلَ‘‘ یا ’’اَعْطَیْنَا النَّبِیَّ‘‘ ۔
(3)… تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پر یہ عطا کسی عبادت اور ریاضت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ ان پر یہ عطا اللّٰہ تعالیٰ کے عظیم فضل اور احسان کی وجہ سے ہے کیونکہ یہاں عطا کا ذکر پہلے ہوا اور عبادت کا ذکر بعد میں ہوا۔
(4)…اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو کوثر کا مالک بنا دیا ہے تو آپ جسے چاہیں جو چاہیں عطا کر سکتے ہیں۔
(5)…سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی مِدحت خود رب تعالیٰ فرماتا ہے۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :
اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَ
ساری کثرت پاتے یہ ہیں
ٹھنڈا ٹھنڈا میٹھا میٹھا
پیتے ہم ہیں پلاتے یہ ہیں
اور فرماتے ہیں :
اے رضاؔ خود صاحبِ قرآں ہے مَدّاحِ حضور
تجھ سے کب ممکن ہے پھر مدحت رسولُ اللّٰہ کی
{فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْ: تو تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ،اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو دونوں جہاں کی بے شمار بھلائیاں عطا کی ہیں اور آپ کو وہ خاص رتبہ عطا کیا ہے جو آپ کے علاوہ کسی اور کو عطا نہیں کیا، تو آپ اپنے اس رب عَزَّوَجَلَّ کے لیے نماز پڑھتے رہیں جس نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو،کوثر عطا کر کے عزت و شرافت دی تاکہ بتوں کے پجاری ذلیل ہوں اور بتوں کے نام پر ذبح کرنے والوں کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے لئے اوراس کے نام پر قربانی کریں ۔اس آیت کی تفسیر میں ایک قول یہ بھی ہے کہ نماز سے نمازِ عید مراد ہے۔( مدارک، الکوثر، تحت الآیۃ: ۲، ص۱۳۷۸، خازن، الکوثر، تحت الآیۃ: ۲، ۴ / ۴۱۶-۴۱۷، ملتقطاً)
{اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ:بیشک جو تمہارا دشمن ہے وہی ہر خیر سے محروم ہے۔} شانِ نزول: جب سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے فرزند حضرت قاسم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا وصال ہوا تو کفار نے آپ کو اَبتر یعنی نسل ختم ہو جانے والا کہا اور یہ کہا کہ اب اُن کی نسل نہیں رہی ،ان کے بعد اب ان کا ذکر بھی نہ رہے گا اوریہ سب چرچا ختم ہوجائے گا اس پر یہ سورۂ کریمہ نازل ہوئی اور اللّٰہ تعالیٰ نے اُن کفار کا بالغ رد فرمایا اور اس آیت میں ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، بیشک تمہارا دشمن ہی ہر بھلائی سے محروم ہے نہ کہ آپ، کیونکہ آپ کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا، آپ کی اولاد میں بھی کثرت ہوگی اور آپ کی پیروی کرنے والوں سے دنیا بھر جائے گی، آپ کا ذکر منبروں پر بلند ہوگا ،قیامت تک پیدا ہونے والے عالِم اور واعظ اللّٰہ تعالیٰ کے ذکر کے ساتھ آپ کا ذکر کرتے رہیں گے اور آخرت میں آپ کے لئے وہ کچھ ہے جس کا کوئی وصف بیان ہی نہیں کر سکتا تو جس کی یہ شان ہے وہ اَبتر کہاں ہوا، بے نام و نشان اور ہر بھلائی سے محروم تو آپ کے دشمن ہیں۔( مدارک، الکوثر، تحت الآیۃ: ۳، ص۱۳۷۸، خازن، الکوثر، تحت الآیۃ: ۳، ۴ / ۴۱۷، ملتقطاً)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس سورت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں عاص بن وائل شقی نے جو صاحبزادہ ٔسیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے انتقالِ پُر ملال پر حضور کو اَبتر یعنی نسل بُریدہ کہا۔ حق جَلَّ وَعَلا نے فرمایا: ’’اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَ‘‘ بیشک ہم نے تمہیں خیر ِکثیر عطا فرمائی ۔کہ اولاد سے نام چلنے کو تمہاری رفعت ِذکر سے کیا نسبت ،کروڑوں صاحب ِاولاد گزرے جن کا نام تک کوئی نہیں جانتا ،اور تمہاری ثنا کا ڈنکا تو قیامِ قیامت تک اَکنافِ عالَم واطرافِ جہاں میں بجے گا اور تمہارے نامِ نامی کا خطبہ ہمیشہ ہمیشہ اَطباقِ فلک آفاقِ زمین میں پڑھا جائے گا۔ پھر اولاد بھی تمہیں وہ نفیس و طیب عطا ہوگی جن کی بقاء سے بقائے عالَم مَربوط رہے گی اس کے سوا تمام مسلمان تمہارے بال بچے ہیں اور تم سا مہربان ان کے لیے کوئی نہیں ،بلکہ حقیقت ِکار کو نظر کیجئے تو تمام عالَم تمہاری اولادِ معنوی ہے کہ تم نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا ،اور تمہارے ہی نور سے سب کی آفرینش ہوئی ۔اسی لیے جب ابو البشر آدم تمھیں یاد کرتے تو یوں کہتے: ’’یَا اِبْنِیْ صُوْرَۃً وَاَبَایَ مَعْنًی‘‘اے ظاہر میں میرے بیٹے اور حقیقت میں میرے باپ ۔ پھر آخرت میں جو تمہیں ملنا ہے اس کا حال تو خدا ہی جانے ۔جب اس کی یہ عنایت ِبے غایت تم پر مبذول ہو تو تم ان اَشقیاء کی زبان درازی پر کیوں ملول ہوبلکہ’’فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْ‘‘ رب کے شکرانہ میں اس کے لئے نماز پڑھو اورقربانی کرو۔ ’’اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ‘‘ جو تمہارا دشمن ہے وہی نسل بریدہ ہے کہ جن بیٹوں پر اُسے ناز ہے یعنی عمرو وہشام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا، وہی اُس کے دشمن ہوجائیں گے اورتمہارے دین ِحق میں آکر بوجۂ اختلافِ دین اس کی نسل سے جدا ہوکرتمہارے دینی بیٹوں میں شمارکئے جائیں گے ۔ پھر آدمی بے نسل ہوتاتو یہی سہی کہ نام نہ چلتا۔ اس سے نامِ بدکاباقی رہنا ہزار درجہ بدتر ہے ۔ تمہارے دشمن کا ناپاک نا م ہمیشہ بدی ونفرین کے ساتھ لیا جائے گا، اورروزِ قیامت ان گستاخیوں کی پوری سزا پائے گا۔ وَ الْعِیَاذُ بِاللّٰہ تعالٰی۔( فتاویٰ رضویہ، ۳۰ / ۱۶۷-۱۶۸)
اس سے معلوم ہوا کہ حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقام اتنا بلند ہے کہ ان کے گستاخ کو ا س کی گستاخی کا جواب خود رب تعالیٰ دیتا ہے۔