سُوْرَۃُ اللَّيْل
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَ الَّیْلِ اِذَا یَغْشٰى(1)وَ النَّهَارِ اِذَا تَجَلّٰى(2)وَ مَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَ الْاُنْثٰۤى(3)
ترجمہ: کنزالعرفان
رات کی قسم جب وہ چھاجائے۔اور دن کی جب وہ روشن ہو ۔اور مذکر اور مؤنث کو پیدا کرنے والے کی۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الَّیْلِ اِذَا یَغْشٰى: رات کی قسم جب وہ چھا جائے۔} ارشاد فرمایا کہ رات کی قَسم جب وہ جہان پر اپنی تاریکی سے چھاجائے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے رات کی قسم اس لئے ارشاد فرمائی کہ وہ ساری مخلوق کے سکون کاوقت ہے اور رات میں ہر جاندار اپنے ٹھکانے پر آتا ہے اور ا س میں مخلوق حرکت وبے قراری سے پُرسکون ہوتی ہے اور ان پر نیند چھا جاتی ہے جسے اللّٰہ تعالیٰ نے ان کے بدنوں کے لئے راحت اور ان کی اَرواح کے لئے غذا بنایا ہے اور اس وقت اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ کے مقبول بندے سچی نیاز مندی کے ساتھ مناجات میں مشغول ہوتے ہیں ۔ (خازن، واللّیل، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۳۸۳، تفسیرکبیر، اللّیل، تحت الآیۃ: ۱، ۱۱ / ۱۸۱، روح البیان، اللّیل، تحت الآیۃ: ۱، ۱۰ / ۴۴۷، ملتقطاً)
{وَ النَّهَارِ اِذَا تَجَلّٰى: اور دن کی جب وہ روشن ہو۔} ارشاد فرمایا کہ اور دن کی قسم جب وہ چمکے اور رات کے اندھیرے کو دور کردے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے دن کی قسم اس لئے ارشاد فرمائی کہ وہ رات کی تاریکی دور ہونے کا، سونے والوں کے بیدار ہونے کا ، جانداروں کے حرکت کرنے کا اور مَعاش کی طلب میں مشغول ہونے کا وقت ہے ۔( مدارک، اللّیل، تحت الآیۃ: ۲، ص۱۳۵۴، تفسیرکبیر، اللّیل، تحت الآیۃ: ۲، ۱۱ / ۱۸۱، ملتقطاً)
رات اور دن، اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتیں اور اس کی قدرت کی نشانیاں ہیں :
یاد رہے کہ رات اور دن اللّٰہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمتیں اور ا س کی قدرت کی عظیم نشانیاں ہیں ،چنانچہ ایک مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’هُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ لِتَسْكُنُوْا فِیْهِ وَ النَّهَارَ مُبْصِرًاؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّسْمَعُوْنَ‘‘(یونس:۶۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: وہی ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی تاکہ اس میں سکون حاصل کرواور دن کو آنکھیں کھولنے والا بنایا بیشک اس میں سننے والوں کے لیے نشانیاں ہیں ۔
اور ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ جَعَلْنَا الَّیْلَ وَ النَّهَارَ اٰیَتَیْنِ فَمَحَوْنَاۤ اٰیَةَ الَّیْلِ وَ جَعَلْنَاۤ اٰیَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً لِّتَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَ الْحِسَابَؕ-وَ كُلَّ شَیْءٍ فَصَّلْنٰهُ تَفْصِیْلًا‘‘(بنی اسرائیل: ۱۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا پھر ہم نے رات کی نشانی کو مٹاہو اکیا اور دن کی نشانی کودیکھنے والی بنایا تاکہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو اور تا کہ تم سالوں کی گنتی اور حساب جان لو اور ہم نے ہر چیز کوخوب جدا جدا تفصیل سے بیان کردیا۔
اسی طرح رات کے بعد دن کا آنا اور دن کے بعد رات کا آنا بھی اللّٰہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے کیونکہ اگر قیامت تک ہمیشہ رات ہی رہے تو مخلوق کے لئے اپنی معاشی ضروریات پورا کرنا ممکن نہ رہے گا اور اگر قیامت تک ہمیشہ دن ہی رہے تو مخلوق کا چین ،سکون اور راحت ختم ہو جائے گی۔ عقلمند لوگ اس میں بھی غور کر کے اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی وحدانیّت کے بارے میں جان سکتے ہیں ۔چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’یُقَلِّبُ اللّٰهُ الَّیْلَ وَ النَّهَارَؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّاُولِی الْاَبْصَارِ‘‘(النور:۴۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اللّٰہ رات اور دن کو تبدیل فرماتا ہے،بیشک اس میں آنکھ والوں کیلئے سمجھنے کا مقام ہے۔
اور ارشاد فرماتا ہے: ’’قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰهُ عَلَیْكُمُ الَّیْلَ سَرْمَدًا اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ مَنْ اِلٰهٌ غَیْرُ اللّٰهِ یَاْتِیْكُمْ بِضِیَآءٍؕ-اَفَلَا تَسْمَعُوْنَ(۷۱) قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰهُ عَلَیْكُمُ النَّهَارَ سَرْمَدًا اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ مَنْ اِلٰهٌ غَیْرُ اللّٰهِ یَاْتِیْكُمْ بِلَیْلٍ تَسْكُنُوْنَ فِیْهِؕ-اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ‘‘(قصص:۷۱،۷۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم فرماؤ: بھلا دیکھو کہ اگر اللّٰہ تم پر قیامت تک ہمیشہ رات ہی بنادے تو اللّٰہ کے سوا کون دوسرا معبود ہے جو تمہارے پاس روشنی لائے گا تو کیا تم سنتے نہیں ؟ تم فرماؤ: بھلا دیکھو کہ اگر اللّٰہ قیامت تک ہمیشہ دن ہی بنادے تو اللّٰہ کے سوا اورکون معبود ہے جو تمہارے پاس راتلے آئے جس میں تم آرام کرو تو کیا تم دیکھتے نہیں ؟
{وَ مَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَ الْاُنْثٰى: اور مُذّکر اور مُؤنّث کو پیدا کرنے والے کی۔} یعنی اس عظیم قدرت والے قادر کی قسم! جو ایک ہی پانی سے مذکر اور مؤنث پیدا کرنے پر قادر ہے۔ (خازن، واللّیل، تحت الآیۃ: ۳، ۴ / ۳۸۳)
اِنَّ سَعْیَكُمْ لَشَتّٰىﭤ(4)فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰى وَ اتَّقٰى(5)وَ صَدَّقَ بِالْحُسْنٰى(6)فَسَنُیَسِّرُهٗ لِلْیُسْرٰىﭤ(7)وَ اَمَّا مَنْۢ بَخِلَ وَ اسْتَغْنٰى(8)وَ كَذَّبَ بِالْحُسْنٰى(9)فَسَنُیَسِّرُهٗ لِلْعُسْرٰىﭤ(10)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک تمہاری کوشش ضرور مختلف قسم کی ہے۔تو بہر حال وہ جس نے دیا اور پرہیزگاربنا ۔ اور سب سے اچھی راہ کو سچا مانا۔تو بہت جلد ہم اسے آسانی مہیا کردیں گے ۔اوررہا وہ جس نے بخل کیا اور بے پروا بنا۔اور سب سے اچھی راہ کو جھٹلایا۔تو بہت جلد ہم اسے دشواری مہیا کردیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ سَعْیَكُمْ لَشَتّٰى: بیشک تمہاری کوشش ضرور مختلف قسم کی ہے۔} شانِ نزول : اُمیہ بن خلف حضرت بلال رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو جو کہ اس کی غلامی میں تھے ،دین سے مُنْحَرِ ف کرنے کے لئے طرح طرح کی تکلیفیں دیتا اور انتہائی ظلم اور سختیاں کرتا تھا۔ ایک دن حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے دیکھا کہ اُمیہ نے حضرت بلال رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو گرم زمین پر ڈال کرتپتے ہوئے پتھر ان کے سینے پر رکھے ہیں اور اس حال میں بھی ایمان کا کلمہ اُن کی زبان پر جاری ہے تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اُمیہ سے فرمایا’’ اے بدنصیب! توایک خدا پرست پر ایسی سختیاں کر رہا ہے۔ اُس نے کہا: آپ کو اس کی تکلیف ناگوار ہے تو اسے خرید لیجئے۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے مہنگی قیمت پر اُن کو خرید کر آزاد کردیا۔ اس پر یہ سورت نازل ہوئی اور اللّٰہ تعالیٰ نے رات ،دن اور اپنی ذات کی قسم ذکر فرما کر ارشاد فرمایا کہ تمہاری کوششیں مختلف ہیں یعنی حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی کوشش اور اُمیہ کی کوشش مختلف ہے اور حضرت ابو بکرصدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کے طالب ہیں اورامیہ حق کی دشمنی میں اندھا ہے۔ (تفسیر بغوی ، اللّیل ، تحت الآیۃ: ۴ ، ۴ / ۴۶۲، روح البیان ، اللّیل، تحت الآیۃ: ۲۰، ۱۰ / ۴۵۱، خزائن العرفان، اللّیل، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۱۱۰۷)
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں :امام قفال رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ یہ سورت اگرچہ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے مسلمانوں پر اپنا مال خرچ کرنے اور امیہ بن خلف کے بخل اور اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنے کے بارے میں نازل ہوئی ہے البتہ اس کے معانی تمام لوگوں کو عام ہیں ۔ (تفسیرکبیر، تفسیر سورۃ اللّیل، ۱۱ / ۱۸۱) چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی6آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ بیشک تمہارے اعمال جداگانہ ہیں کہ کوئی اطاعت کر کے جنت کے لئے عمل کرتا ہے اور کوئی نافرمانی کرکے جہنم کے لئے عمل کرتا ہے تو وہ شخص جس نے اپنا مال راہِ خدا میں دیا اور اللّٰہ تعالیٰ کے حق کو ادا کیا اور ممنوع و حرام چیزوں سے بچ کر پرہیزگاربنا اور سب سے اچھی اسلا م کی راہ کو سچا مانا تو بہت جلد ہم اسے جنت کے لئے آسانی مہیا کردیں گے اور اسے ایسی خصلت کی توفیق دیں گے جو اس کے لئے آسانی اور راحت کا سبب ہو اور وہ ایسے عمل کرے جن سے اس کا رب عَزَّوَجَلَّ راضی ہو، اور وہ شخص جس نے بخل کیا اور اپنا مال نیک کاموں میں خرچ نہ کیا اور اللّٰہ تعالیٰ کے حق ادا نہ کئے اور ثواب اور آخرت کی نعمت سے بے پرواہ بنا اور سب سے اچھی اسلام کی راہ کو جھٹلایا تو بہت جلدہم اسے ایسی خصلت مہیا کردیں گے جو اس کے لئے دشواری اور شدت کا سبب ہو اور اسے جہنم میں پہنچادے۔( جلالین، واللّیل،تحت الآیۃ:۴-۱۰،ص۵۰۱، خازن، واللّیل، تحت الآیۃ: ۴-۱۰، ۴ / ۳۸۳، مدارک، اللّیل، تحت الآیۃ: ۴-۱۰، ص۱۳۵۴، ملتقطاً)
آیت ’’اِنَّ سَعْیَكُمْ لَشَتّٰى‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں ،
(1)… حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ برحق مومن، صحابی اور بڑے متقی ہیں کہ انہیں اللّٰہ تعالیٰ نے کفار سے مختلف قرار دیا۔
(2)… تمام انسان یکساں نہیں ہیں بلکہ مومن اور کافر، متقی اور فاسق، دنیادار اور دیندار مختلف ہیں ، ان کے اعمال اور ان کی کوششیں جدا گانہ ہیں ۔اسی چیز کو بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’لَا یَسْتَوِیْۤ اَصْحٰبُ النَّارِ وَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِؕ-اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَ‘‘(حشر:۲۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: دوزخ والے اور جنت والے برابر نہیں ، جنت والے ہی کامیاب ہیں ۔
اورارشاد فرماتا ہے:
’’اَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا ﳳ-لَا یَسْتَوٗنَؐ(۱۸) اَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَهُمْ جَنّٰتُ الْمَاْوٰى٘-نُزُلًۢا بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۱۹) وَ اَمَّا الَّذِیْنَ فَسَقُوْا فَمَاْوٰىهُمُ النَّارُؕ-كُلَّمَاۤ اَرَادُوْۤا اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنْهَاۤ اُعِیْدُوْا فِیْهَا وَ قِیْلَ لَهُمْ ذُوْقُوْا عَذَابَ النَّارِ الَّذِیْ كُنْتُمْ بِهٖ تُكَذِّبُوْنَ (سجدہ:۱۸۔۲۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو کیا جو ایمان والا ہے وہ اس جیسا ہوجائے گا جونافرمان ہے؟ یہ برابر نہیں ہیں ۔بہرحال جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے توان کے لیے ان کے اعمال کے بدلے میں مہمانی کے طور پر رہنے کے باغات ہیں ۔ اور وہ جو نافرمان ہوئے توان کا ٹھکانا آ گ ہے، جب کبھی اس میں سے نکلنا چاہیں گے تو پھر اسی میں پھیر دیئے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا: اس آگ کا عذاب چکھو جسے تم جھٹلاتے تھے۔
اور ارشاد فرماتا ہے:
’’اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ اجْتَرَحُوا السَّیِّاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِۙ-سَوَآءً مَّحْیَاهُمْ وَ مَمَاتُهُمْؕ-سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ‘‘(جاثیہ:۲۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:کیا جن لوگوں نے برائیوں کا ارتکاب کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم انہیں ان جیسا کردیں گے جو ایمان لائے اورجنہوں نے اچھے کام کئے (کیا) ان کی زندگی اور موت برابر ہوگی؟ وہ کیا ہی برا حکم لگاتے ہیں ۔
اور ارشاد فرماتا ہے:
’’اَمْ نَجْعَلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَالْمُفْسِدِیْنَ فِی الْاَرْضِ٘-اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِیْنَ كَالْفُجَّارِ‘‘(ص:۲۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:: کیا ہم ایمان لانے والوں اور اچھے اعمال کرنے والوں کو زمین میں فساد پھیلانے والوں کی طرحکردیں گے؟ یا ہم پرہیزگاروں کو نافرمانوں جیسا کردیں گے؟
راہِ خدا میں مال خرچ کرنے ،حرام کاموں سے بچنے اور دین ِاسلام کو سچا ماننے کے فضائل:
آیت نمبر5اور 6 میں تین نیک کاموں کا بطورِ خاص ذکر فرمایا گیا، (1)اللّٰہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنا، (2)ممنوع و حرام کاموں سے بچنا ، (3) دین ِاسلام کو سچا ماننا۔اس مناسبت سے یہاں ان نیک کاموں کے فضائل ملاحظہ ہوں ،چنانچہ راہِ خدا میں خرچ کرنے کے حوالے سے ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍؕ-وَ اللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ‘‘(بقرہ:۲۶۱)
ترجمہ کنزُالعِرفان: ان لوگوں کی مثال جو اپنے مال اللّٰہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس دانے کی طرح ہے جس نے سات بالیاں اگائیں ،ہر بالی میں سو دانے ہیں اور اللّٰہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لئے چاہے اور اللّٰہ وسعت والا، علم والا ہے۔
اور ممنوع و حرام کاموں سے بچنے کے بارے میں ارشاد فرمایا:
’’اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَآىٕرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ نُدْخِلْكُمْ مُّدْخَلًا كَرِیْمًا‘‘(النساء:۳۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اگر کبیرہ گناہوں سے بچتے رہو جن سے تمہیں منع کیا جاتا ہے تو ہم تمہارے دوسرے گناہ بخش دیں گے اور تمہیں عزت کی جگہ داخل کریں گے۔
اور ارشاد فرمایا:
’’وَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِۙ-لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَسَآءُوْا بِمَا عَمِلُوْا وَ یَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا بِالْحُسْنٰىۚ(۳۱)اَلَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ كَبٰٓىٕرَ الْاِثْمِ وَ الْفَوَاحِشَ اِلَّا اللَّمَمَؕ-اِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِؕ-هُوَ اَعْلَمُ بِكُمْ اِذْ اَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَ اِذْ اَنْتُمْ اَجِنَّةٌ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْۚ-فَلَا تُزَكُّوْۤا اَنْفُسَكُمْؕ-هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰى‘‘(نجم:۳۱،۳۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللّٰہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے ،تا کہ برائی کرنے والوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دے اور نیکی کرنے والوں کو نہایت اچھا صلہ عطا فرمائے۔وہ جو بڑے گناہوں اور بے حیائیوں سے بچتے ہیں مگر اتنا کہ گناہ کے پاس گئے اور رک گئے بیشک تمہارے رب کی مغفرت وسیع ہے، وہ تمہیں خوب جانتا ہے جب اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں حمل (کی صورت میں ) تھے تو تم خود اپنی جانوں کی پاکیزگی بیان نہ کرو، وہ خوب جانتا ہے جو پرہیزگار ہوا۔
اور دین ِاسلام کے بارے میں ارشاد فرمایا:
’’اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ ‘‘(ال عمران:۱۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اللّٰہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔
اور ارشاد فرمایا:
’’وَ مَنْ اَحْسَنُ دِیْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ وَّ اتَّبَعَ مِلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًاؕ-وَ اتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِیْمَ خَلِیْلًا‘‘(النساء:۱۲۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اُس سے بہتر کس کا دین جس نے اپنا چہرہ اللّٰہ کے لئے جھکا دیا اور وہ نیکی کرنے والاہو اور وہابراہیم کے دین کا پیروکار ہو جو ہر باطل سے جدا تھے اور اللّٰہنے ابراہیم کو اپنا گہرا دوست بنالیا۔
اور ارشاد فرمایا:
’’فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤۙ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ‘‘(اعراف:۱۵۷)
ترجمہٌ کنزُالعِرفان: تو وہ لوگ جو اس نبی پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اس کی مدد کریں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔
اور ارشاد فرمایا:
’’وَ اَنِیْبُوْۤا اِلٰى رَبِّكُمْ وَ اَسْلِمُوْا لَهٗ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ(۵۴) وَ اتَّبِعُوْۤا اَحْسَنَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَّ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ‘‘(زمر:۵۴،۵۵)
ترجمہٌ کنزُالعِرفان: اور اپنے رب کی طرف رجوع کرواور اس وقت سے پہلے اس کے حضور گردن رکھو کہ تم پر عذاب آئے پھر تمہاری مدد نہ کی جائے۔ اورتمہارے رب کی طرف سے جو بہترین چیزتمہاری طرف نازل کی گئی ہے اس کی اس وقت سے پہلے پیروی اختیار کرلو کہ تم پر اچانک عذا ب آجائے اور تمہیں خبر (بھی) نہ ہو۔
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اپنی راہ میں مال خرچ کرنے ،حرام و ناجائز اور ممنوع کاموں سے بچنے کی اور دین ِاسلام پر اِستقامت کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
بخل کرنے ،آخرت سے بے پرواہ بننے اور دینِ اسلام کو جھٹلانے کی وعیدیں :
آیت نمبر8اور 9 میں اللّٰہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنے میں بخل کرنے والے،ثواب اور آخرت سے بے پرواہ بننے والے اور دینِ اسلام کو جھٹلانے والے کے بارے میں وعید بیان کی گئی ہے۔اس مناسبت سے یہاں ان برے کاموں سے متعلق چند وعیدیں ملاحظہ ہوں ،چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنے سے بخل کرنے والوں کے بارے میں ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’هٰۤاَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۚ-فَمِنْكُمْ مَّنْ یَّبْخَلُۚ-وَ مَنْ یَّبْخَلْ فَاِنَّمَا یَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِهٖؕ-وَ اللّٰهُ الْغَنِیُّ وَ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُۚ-وَ اِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَكُمْۙ-ثُمَّ لَا یَكُوْنُوْۤا اَمْثَالَكُمْ‘‘(محمد:۳۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: ہاں ہاں یہ تم ہو جو بلائے جاتے ہو تاکہ تم اللّٰہ کی راہ میں خرچ کرو تو تم میں کوئی بخل کرتا ہے اور جو بخل کرے وہ اپنی ہی جان سے بخل کرتا ہے اور اللّٰہ بے نیاز ہے اور تم سب محتاج ہو اور اگر تم منہ پھیرو گے تو وہ تمہارے سوا اور لوگ بدل دے گا پھر وہ تم جیسے نہ ہوں گے۔
اور ارشاد فرمایا:
’’وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ هُوَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْؕ-سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِهٖ یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-وَ لِلّٰهِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ‘‘(اٰل عمران:۱۸۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو لوگ اس چیز میں بخل کرتے ہیں جو اللّٰہ نے انہیں اپنے فضل سے دی ہے وہ ہرگز اسےاپنے لئے اچھا نہ سمجھیں بلکہ یہ بخل ان کے لئے برا ہے۔ عنقریب قیامت کے دن ان کے گلوں میں اسی مال کا طوق بنا کر ڈالا جائے گا جس میں انہوں نے بخل کیا تھا اور اللّٰہ ہی آسمانوں اور زمین کاوارث ہے اور اللّٰہ تمہارے تمام کاموں سے خبردار ہے۔
اور اللّٰہ تعالیٰ کے ثواب اور آخرت سے بے پرواہ بننے والے کے بارے میں ارشاد فرمایا:
’’كَلَّاۤ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَیَطْغٰۤىۙ(۶) اَنْ رَّاٰهُ اسْتَغْنٰىؕ(۷) اِنَّ اِلٰى رَبِّكَ الرُّجْعٰى‘‘(العلق:۶۔۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: ہاں ہاں ، بیشک آدمی ضرور سرکشی کرتا ہے۔ اس بنا پر کہ اپنے آپ کو غنی سمجھ لیا۔بیشک تیرے رب ہی کی طرف لوٹنا ہے۔
اور ارشاد فرمایا:
’’مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَیْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِیْهَا وَ هُمْ فِیْهَا لَا یُبْخَسُوْنَ(۱۵)اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ ﳲ وَ حَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْهَا وَ بٰطِلٌ مَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ‘‘(ہود:۱۵،۱۶)
ترجمہ ٔکنزُالعِرفان: جو دنیا کی زندگی اوراس کی زینت چاہتا ہو توہم دنیا میں انہیں ان کے اعمال کا پورا بدلہ دیں گے اورانہیں دنیا میں کچھ کم نہ دیا جائے گا۔یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں اور دنیا میں جو کچھ انہوں نے کیا وہ سب برباد ہوگیا اور ان کے اعمال باطل ہیں ۔
اور دین ِاسلام کے حوالے سے ارشاد فرمایا:
’’وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْهُۚ-وَ هُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ‘‘(ال عمران:۸۵)
ترجم ۂ کنزُالعِرفان: اور جو کوئی اسلام کے علاوہ کوئی اوردین چاہے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔
اور ارشاد فرمایا:
’’وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ وَ هُوَ یُدْعٰۤى اِلَى الْاِسْلَامِؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ‘‘(صف:۷)
ترجمہ کنزُالعِرفان: اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللّٰہپر جھوٹ باندھے حالانکہ اسے اسلام کی طرف بلایا جاتا ہو اور اللّٰہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اپنی راہ میں مال خرچ کرنے میں بخل کرنے سے بچنے ،اپنی آخرت کی پرواہ اور فکر کرنے اور دینِ اسلام کو مانتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
وَ مَا یُغْنِیْ عَنْهُ مَالُهٗۤ اِذَا تَرَدّٰىﭤ(11)اِنَّ عَلَیْنَا لَلْهُدٰى(12)وَ اِنَّ لَنَا لَلْاٰخِرَةَ وَ الْاُوْلٰى(13)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جب وہ ہلاکت میں پڑے گاتواس کا مال اسے کام نہ آئے گا۔بیشک ہدایت فرمانا ہمارے ہی ذمہ ہے۔اور بیشک آخرت اور دنیا دونوں کے ہم ہی مالک ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَا یُغْنِیْ عَنْهُ مَالُهٗۤ اِذَا تَرَدّٰى: اور جب ہلاکت میں پڑے گاتواس کا مال اسے کام نہ آئے گا۔} یعنی جو شخص اللّٰہ کی راہ میں مال خرچ کرنے سے بخل کر رہا ہے وہ جب مر کر قبر میں جائے گایا جہنم کی گہرائی میں پہنچے گا تواس کا مال اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے میں اسے کچھ کام نہ آئے گا۔ (روح البیان، اللّیل، تحت الآیۃ: ۱۱، ۱۰ / ۴۴۹، مدارک، اللّیل، تحت الآیۃ: ۱۱، ص۱۳۵۴، ملتقطاً)
{اِنَّ عَلَیْنَا لَلْهُدٰى: بیشک ہدایت فرمانا ہمارے ہی ذمہ ہے۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ حق اور باطل کی راہوں کو واضح کردینا ، حق پر دلائل قائم کرنا اور احکام بیان فرمانا ہمارے ذمۂ کرم پرہے۔( خازن، واللّیل، تحت الآیۃ: ۱۲، ۴ / ۳۸۴، مدارک، اللّیل، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۱۳۵۴، ملتقطاً)
دوسرا معنی یہ ہے کہ جو ہم سے ہدایت طلب کرے اور ہدایت طلب کرنے میں کوشش کرے تو اسے ہدایت دینا ہمارے ذمۂ کرم پر ہے۔جیسا کہ ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا
’’وَ الَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا‘‘(عنکبوت:۶۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جنہوں نے ہماری راہ میں کوششکی ضرور ہم انہیں اپنے راستے دکھادیں گے۔( تاویلات اہل السنہ، اللّیل، تحت الآیۃ: ۱۲، ۵ / ۴۷۱)
{وَ اِنَّ لَنَا لَلْاٰخِرَةَ وَ الْاُوْلٰى: اور بیشک آخرت اور دنیا دونوں کے ہم ہی مالک ہیں ۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ بے شک تم یہ بات جانتے ہو کہ آخرت اور دنیا دونوں کے ہم ہی مالک ہیں اور پتھروں اور دیگر چیزوں سے بنے ہوئے جن بتوں کی تم پوجا کرتے ہو وہ نہ آخرت کے مالک ہیں نہ دنیا کے مالک ہیں تو تم آخرت اور دنیا کے مالک کی عبادت چھوڑ کر اُن بتوں کی عبادت کیسے کرنے لگ گئے جو آخرت اور دنیامیں سے کسی چیز کے مالک نہیں حالانکہ تمہیں یہ بات معلوم بھی ہے۔( تاویلات اہل السنہ، اللّیل، تحت الآیۃ: ۱۳، ۵ / ۴۷۱)
دوسری تفسیر یہ ہے کہ بیشک آخرت اور دنیا دونوں کے ہم ہی مالک ہیں اور ہم ان میں سے جو چیز جسے چاہیں عطا کریں لہٰذا دنیا اور آخرت کی سعادتیں ہم سے ہی طلب کی جائیں ۔ (تفسیرکبیر، اللّیل، تحت الآیۃ: ۱۳، ۱۱ / ۱۸۶)
دنیا اور آخرت دونوں کی بہتری کے لئے دعا مانگنی چاہئے:
یاد رہے کہ اللّٰہ تعالیٰ سے صرف دنیا کی بہتری کے لئے یا صرف آخرت کی بہتری کے لئے دعا نہیں مانگنی چاہئے بلکہ دنیا اور آخرت دونوں کی بہتری کے لئے دعا مانگنی چاہئے،جیساکہ ایک مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا وَ مَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ(۲۰۰) وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ(۲۰۱) اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ نَصِیْبٌ مِّمَّا كَسَبُوْاؕ-وَ اللّٰهُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ‘‘(بقرہ:۲۰۰۔۲۰۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کوئی آدمی یوں کہتا ہے کہ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں دیدے اور آخرت میں اس کا کچھ حصہ نہیں ۔اور کوئی یوں کہتا ہے کہ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں آخرت میں (بھی) بھلائی عطا فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔ان لوگوں کے لئے ان کے کمائے ہوئے اعمال سے حصہ ہے اور اللّٰہ جلد حساب کرنے والا ہے۔
اور حضرتِ انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اکثر یہ دعا فرمایا کرتے تھے’’رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ‘‘ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں آخرت میں (بھی) بھلائی عطا فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔( بخاری، کتاب الدّعوات، باب قول النّبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ربّنا اتنا فی الدّنیاحسنۃ، ۴ / ۲۱۴، الحدیث: ۶۳۸۹)
اللّٰہ تعالیٰ کے نیک بندوں سے دین و دنیا کی بھلائیاں طلب کرنا جائز ہے:
نیز یہ بھی یاد رہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاء رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ سے دین اور دنیا کی بھلائیاں طلب کرنا بھی جائز ہے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ کے یہ نیک بندے اللّٰہ تعالیٰ کی عطا سے دین اور دنیا کی بھلائیاں دے سکتے ہیں اور یہاں ہم صرف صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی سیرت میں موجود اس کی بے شمار مثالوں میں سے چند مثالیں اِختصار کے ساتھ ذکر کرتے ہیں تاکہ یہ بات واضح ہو جائے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور سے دین یا دنیا کی بھلائیاں طلب کرنا شرک ہر گز نہیں بلکہ یہ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا طریقہ رہا ہے۔چنانچہ
جب حضرت ربیعہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے جنت میں ان کی رفاقت مانگی تو رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے انہیں جنت میں اپنی رفاقت عطا کردی۔( مسلم، کتاب الصلاۃ، باب فضل السجود والحثّ علیہ، ص۲۵۲، الحدیث: ۲۲۶(۴۸۹))
حضرت عکاشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی: یا رسول اللّٰہ! آپ دعا فرما دیں کہ اللّٰہ تعالیٰ مجھے بے حساب جنت میں جانے والوں میں شامل کر دے۔تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرما دیا کہ اے عکاشہ!تو انہی میں سے ہے۔( مسلم،کتاب الایمان،باب الدلیل علی دخول طوائف من المسلمین الجنۃ…الخ، ص۱۳۷، الحدیث: ۳۷۴(۲۲۰))
اور صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا آخرت کی بھلائی طلب کرنا تو اپنی جگہ،جب کھجور کے ایک تنے سے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا کہ اگر تو چاہے تو میں تجھے اس باغ میں لوٹا دوں جہاں تُو تھا اور اگر تُو چاہے تو میں تجھے جنت میں بو دوں تاکہ جنت میں تیرے پھل اللّٰہ تعالیٰ کے اولیاء کھائیں اور اس نے عرض کی کہ :مجھے جنت میں لگا دیں تو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا ’’میں نے ایساکر دیا (یعنی تجھے جنت میں لگا دیا)۔( سنن دارمی، المقدمۃ، باب ما اکرم اللّٰہ النّبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بحنین المنبر، ۱ / ۲۹، الحدیث: ۳۲)
غزوۂ خیبر کے موقع پر جب حضرت سلمہ بن اکوع رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی پنڈلی پر چوٹ لگ گئی اور وہ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو گئے تو رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ان کی پنڈلی کو درست کر دیا۔( بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ خیبر، ۳ / ۸۳، الحدیث: ۴۲۰۶)
اور مدینہ منورہ میں رہنے والوں نے ایک بارحضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے قحط کے بارے میں عرض کی تو انہوں نے رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے روضۂ انور کی چھت میں روشَندان بنانے کا حکم دیا اور جب روشندان بنایا گیا تو ا س قدر بارش برسی کہ گھاس اُگ آئی اور اونٹ موٹے تازے ہو گئے۔( سنن دارمی، المقدمۃ، باب ما اکرم اللّٰہ تعالی نبیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بعد موتہ، ۱ / ۵۶، الحدیث: ۹۲)
فَاَنْذَرْتُكُمْ نَارًا تَلَظّٰى(14)لَا یَصْلٰىهَاۤ اِلَّا الْاَشْقَى(15)الَّذِیْ كَذَّبَ وَ تَوَلّٰىﭤ(16)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو میں تمہیں اس آگ سے ڈرا چکا جو بھڑک رہی ہے۔اس میں بڑا بدبخت ہی داخل ہوگا۔جس نے جھٹلایا اور منہ پھیرا۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَاَنْذَرْتُكُمْ نَارًا تَلَظّٰى: تو میں تمہیں اس آگ سے ڈرا چکا جو بھڑک رہی ہے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے اہلِ مکہ ! میں تمہیں اِس قرآن کے ذریعے اُس آگ سے ڈراتا ہوں جو بھڑک رہی ہے، اس میں بڑا بدبخت ہی ہمیشہ کے لئے لازمی طور پر داخل ہوگا اور بڑا بد بخت وہ ہے جس نے میرے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کوجھٹلایا اور ان پر ایمان لانے سے اس نے منہ پھیرا۔ (روح البیان، اللّیل، تحت الآیۃ: ۱۴-۱۶، ۱۰ / ۴۵۰، مدارک، اللّیل، تحت الآیۃ: ۱۴-۱۶، ص۱۳۵۵، جلالین، اللّیل، تحت الآیۃ: ۱۴-۱۶، ص۵۰۱، ملتقطاً)
وَ سَیُجَنَّبُهَا الْاَتْقَى(17)الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَهٗ یَتَزَكّٰى(18)
ترجمہ: کنزالعرفان
اورعنقریب سب سے بڑے پرہیزگارکو اس آگ سے دور رکھا جائے گا۔جو اپنا مال دیتا ہے تاکہ اسے پاکیزگی ملے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ سَیُجَنَّبُهَا الْاَتْقَى: اور عنقریب سب سے بڑے پرہیزگارکو اس آگ سے دور رکھا جائے گا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اور سب سے بڑے پرہیزگارکو اس بھڑکتی آگ سے دور رکھا جائے گا اور سب سے بڑا پرہیز گار وہ ہے جو اللّٰہ تعالیٰ کی راہ میں اپنا مال ریا کاری اور نمائش کے طور پر خرچ نہیں کرتا بلکہ اس لئے خرچ ہے تاکہ اسے اللّٰہ تعالیٰ کی بار گاہ میں پاکیزگی ملے ۔( مدارک، اللّیل، تحت الآیۃ: ۱۷-۱۸، ص۱۳۵۵)
حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے فضائل:
امام علی بن محمد خازن رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’تما م مفسرین کے نزدیک اس آیت میں سب سے بڑے پرہیزگار سے مراد حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہیں ۔ (خازن، واللّیل، تحت الآیۃ: ۱۹، ۴ / ۳۸۴)
اس سے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے 6 فضائل معلوم ہوئے ،
(1)…دنیا میں ان سے کوئی گناہ سرزد نہ ہو گا۔
(2)… انہیں جہنم سے بہت دور رکھا جائے گا۔
(3)… جہنم سے دور رکھے جانے میں ان کے لئے جنّتی ہونے کی بشارت ہے۔
(4)…سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی امت میں سب سے بڑے متقی اور پرہیز گار حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہیں ۔
(5)…حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے تمام صدقات و خیرات قبول ہیں ۔
(6)…حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ہر صدقے میں اعلیٰ درجے کا اخلاص ہے جس کی گواہی رب تعالیٰ دے رہا ہے۔
نوٹ:حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی افضلِیَّت سے متعلق اہم معلومات حاصل کرنے کے لئے فتاویٰ رضویہ کی اٹھائیسویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِرَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کے رسالہ ’’اَلزُّلَالُ الْاَنْقٰی مِنْ بَحْرِ سَبْقَۃِ الْاَتْقٰی‘‘(حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی افضلِیَّت کا بیان) کامطالعہ فرمائیں ۔
وَ مَا لِاَحَدٍ عِنْدَهٗ مِنْ نِّعْمَةٍ تُجْزٰۤى(19)اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْاَعْلٰى(20)وَ لَسَوْفَ یَرْضٰى(21)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور کسی کا اس پر کچھ احسان نہیں جس کا بدلہ دیا جانا ہو ۔صرف اپنے سب سے بلند شان والے رب کی رضا تلاش کرنے کے لئے ۔اور بیشک قریب ہے کہ وہ خوش ہوجائے گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَا لِاَحَدٍ عِنْدَهٗ مِنْ نِّعْمَةٍ تُجْزٰى: اور کسی کا اس پر کچھ احسان نہیں جس کا بدلہ دیا جانا ہو۔} شانِ نزول : جب حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرتِ بلال رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو بہت مہنگی قیمت پر خرید کر آزاد کیا تو کفار کو حیرت ہوئی اور اُنہوں نے کہا کہ حضرتِ صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایسا کیوں کیا؟ شاید حضرت بلال رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا ان پر کوئی احسان ہوگا جو اُنہوں نے اتنی مہنگی قیمت دے کر انہیں خریدا اور آزادکردیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں ظاہر فرمادیا گیا کہ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا یہ فعل محض اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہے کسی کے احسان کا بدلہ نہیں اور نہ اُن پر حضرتِ بلال رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ وغیرہ کا کوئی احسان ہے۔( خازن، واللّیل، تحت الآیۃ: ۱۹-۲۰، ۴ / ۳۸۵)
یاد رہے کہ حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت بلال رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے علاوہ بھی بہت سے لوگوں کو اُن کے اسلام کی وجہ سے خرید کر آزاد کیا جیسے حضرت عامر بن فُہیرہ،حضرت اُمِّ عُمیس اور حضرت زہرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ۔
{وَ لَسَوْفَ یَرْضٰى: اور بیشک قریب ہے کہ وہ خوش ہوجائے گا۔} یعنی بیشک قریب ہے کہ وہ اُس نعمت وکرم سے خوش ہوجائے گا جو اللّٰہ تعالیٰ ان کو جنت میں عطا فرمائے گا۔( خازن، واللّیل، تحت الآیۃ: ۲۱، ۴ / ۳۸۵)
اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا مقام:
اس سے بھی حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی شان اور اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کا مقام معلوم ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے ارشاد فرمایا: ’’وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰى‘‘(والضحی:۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں اتنا دے گا کہ تم راضی ہوجاؤ گے۔
اور حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے لئے فرمایا: ’’وَ لَسَوْفَ یَرْضٰى‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک قریب ہے کہ وہ خوش ہوجائے گا۔
طرزِ کلام دونوں مقبولوں سے یکساں ہے۔ سُبْحَانَ اللّٰہ۔