سُوْرَۃُ المَعَارِج

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سَاَلَ سَآىٕلٌۢ بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ(1)لِّلْكٰفِرِیْنَ لَیْسَ لَهٗ دَافِعٌ(2)

ترجمہ: کنزالعرفان

ایک مانگنے والے نے وہ عذاب مانگاجو کافروں پر واقع ہونے والا ہے،اس کو کوئی ٹالنے والا نہیں 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{سَاَلَ سَآىٕلٌۢ بِعَذَابٍ: ایک مانگنے والے نے وہ عذاب مانگا۔} ان آیات کے شانِ نزول کے بارے میں  ایک قول یہ ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جب کفارِ مکہ کو اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب کا خوف دلایا تو وہ آپس میں  کہنے لگے کہ محمد (مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) سے پوچھو کہ اس عذاب کے مُستحق کو ن لوگ ہیں  اور یہ کن لوگوں  پر آئے گا؟ تو اُنہوں نے حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دریافت کیا، اس پر اللّٰہ تعالیٰ نے یہ آیتیں  نازل فرمائیں۔اس صورت میں  یہاں  لفظِ ’’سَاَلَ‘‘ سوال کرنے کے معنی میں  ہے۔

دوسرا قول یہ ہے کہ نضر بن حارث نے عذاب نازل ہونے کی دعا کی تھی جس کا ذکر سورۂ اَنفال میں  ہے۔ چنانچہ نضر بن حارث نے کہا کہ اَللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ(انفال:۳۲)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے اللّٰہ اگر یہ (قرآن) ہی تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا کوئی  دردناک عذاب ہم پر لے آ۔

اس کے بارے میں  یہ آیتیں  نازل ہوئیں ۔

تیسرا قول یہ ہے کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اللّٰہ تعالیٰ سے کفار پر عذاب نازل کرنے کی دعا کی تھی اس کے جواب میں  یہ آیتیں  نازل ہوئیں ۔اس صورت میں  یہاں  لفظِ ’’سَاَلَ‘‘ دعاکرنے کے معنی میں  ہے۔(تفسیر کبیر، المعارج، تحت الآیۃ: ۱، ۱۰ / ۶۳۷، خازن، المعارج، تحت الآیۃ: ۲، ۴ / ۳۰۷، ملتقطاً)

پہلے قول کے مطابق اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کفار جس عذاب کے بارے میں  آپ سے سوال کر رہے ہیں  وہ کافروں  پر واقع ہونے والا ہے اور اس عذاب کو کوئی ٹال نہیں  سکتا۔

دوسرے قول کے مطابق اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک مانگنے والے نے مذاق کے طور پروہ عذاب مانگا ہے جو کافروں  پر واقع ہونے والا ہے، کافر چاہے طلب کریں  یا نہ کریں  جو عذاب ان کے لئے مُقَدّر ہے وہ ان پر ضرور آنا ہے، اُسے کوئی ٹال نہیں  سکتا۔

تیسرے قول کے مطابق اس آیت اوراس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ نے کفار پر جو عذاب نازل کرنے کی دعا ہے وہ ان پر واقع ہونے والا ہے اور اس عذاب کو ان سے کوئی ٹال نہیں  سکتا ۔

مِّنَ اللّٰهِ ذِی الْمَعَارِجِﭤ(3)تَعْرُجُ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ الرُّوْحُ اِلَیْهِ فِیْ یَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهٗ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَةٍ(4

ترجمہ: کنزالعرفان

اللہ کی طرف سے ہوگا جو بلندیوں کا مالک ہے۔فرشتے اور جبریل اس کی بارگاہ کی طرف چڑھتے ہیں ، (وہ عذاب) اس دن میں ہوگا جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{مِنَ اللّٰہِ: اللّٰہ کی طرف سے۔} یعنی کافروں  پروہ عذاب ا س اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے واقع ہو گا جو ساتوں  آسمانوں  کا مالک ہے۔( تفسیر سمرقندی، المعارج، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۴۰۲)

{ تَعْرُجُ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ الرُّوْحُ اِلَیْهِ: فرشتے اور جبریل اس کی بارگاہ کی طرف چڑھتے ہیں ۔} یعنی فرشتے اور حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام قرب کے اس مقام کی طرف چڑھتے ہیں  جو آسمان میں  اللّٰہ تعالیٰ کے احکامات نازل ہونے کی جگہ ہے اور عالَم میں  تَصَرُّف کرنے والے فرشتے وہاں  سے اَحکامات وصول کرتے ہیں ۔یہاں  حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے شرف اور اعلیٰ مقام کی وجہ سے بطورِ خاص ان کاذکر کیا گیا اگرچہ وہ جملہ فرشتوں  میں  داخل ہیں  ۔( خازن، المعارج، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۳۰۸، جمل، المعارج، تحت الآیۃ: ۴، ۸ / ۱۰۷، ملتقطاً)

{فِیْ یَوْمٍ: (وہ عذاب) اس دن میں  ہوگا۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ اگر فرشتوں  کے علاوہ کوئی انسان ساتویں  زمین کے نیچے سے اس مقام تک چڑھے جہاں  سے اللّٰہ تعالیٰ کے احکامات نازل ہوتے ہیں  تو وہ پچاس ہزار سال سے پہلے وہاں  تک نہیں  پہنچ سکتا جبکہ فرشتہ ایک لمحے میں  یہ فاصلہ طے کر لیتا ہے۔دوسرا معنی یہ ہے کہ کفار پر وہ عذاب قیامت کے دن ہو گاجس کی مقدار دُنْیَوی سالوں  کے حساب سے پچاس ہزار سال ہے۔( خازن، المعارج، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۳۰۸، جلالین، المعارج، تحت الآیۃ: ۴، ص۴۷۳، ملتقطاً)

          نوٹ: یاد رہے کہ قیامت کی سختیوں  کی وجہ سے بعض کفار کو وہ دن پچاس ہزار سال کے برابر لگے گا جیساکہ یہاں  بیان ہوا اور بعض کو دوسرے اعتبار سے ایک ہزار سال کے برابر لگے گا جیسا کہ ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’ فِیْ یَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهٗۤ اَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ ‘‘(السجدہ:۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اُس دن میں  جس کی مقدار تمہاری گنتی سے ہزار سال ہے۔

             جبکہ مومن کیلئے وہ دن دنیا میں  ادا کی جانے والی ایک فرض نماز سے بھی کم ہوگا جیساکہ حضرت ابو سعید خدری  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں  میری جان ہے!قیامت کا دن مومن پر ہلکا ہو گا حتّٰی کہ ا س فرض نماز سے بھی زیادہ ہلکا ہو گا جو مومن دنیا میں  پڑھا کرتا تھا۔( مسند امام احمد، مسند ابی سعید الخدری رضی اللّٰہ عنہ، ۴ / ۱۵۱، الحدیث: ۱۱۷۱۷)

فَاصْبِرْ صَبْرًا جَمِیْلًا(5)اِنَّهُمْ یَرَوْنَهٗ بَعِیْدًا(6)وَّ نَرٰىهُ قَرِیْبًاﭤ(7)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو تم اچھی طرح صبر کرو۔بیشک وہ اسے دور سمجھ رہے ہیں ۔اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں ۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ فَاصْبِرْ صَبْرًا جَمِیْلًا: تو تم اچھی طرح صبر کرو۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کاخلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا’’اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی قوم کی طرف سے پہنچنے والی اَذِیَّتوں  پر اور مذاق اُڑانے کے طور پر عذاب نازل کرنے کا مطالبہ کرنے پر صبر ِجمیل فرمائیں  اور کفار کی سختی پر تنگدل نہ ہوں  کیونکہ کفارِ مکہ اس عذاب کو اپنے گمان میں  ناممکن سمجھ رہے ہیں  اور یہ خیال کرتے ہیں  کہ وہ واقع ہونے والا ہی نہیں  اور اسی وجہ سے عذاب نازل ہونے کا مطالبہ کرتے ہیں  جبکہ ہم جانتے ہیں  کہ یہ ہماری قدرت سے کوئی بعید نہیں  اور نہ ہی ان پر عذاب نازل کرناہمارے لئے کوئی مشکل ہے ۔( روح البیان، المعارج، تحت الآیۃ: ۵-۷، ۱۰ / ۱۵۹، ابو سعود، المعارج، تحت الآیۃ: ۵-۷، ۵ / ۷۶۶، ملتقطاً)

یَوْمَ تَكُوْنُ السَّمَآءُ كَالْمُهْلِ(8)وَ تَكُوْنُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ(9)

ترجمہ: کنزالعرفان

جس دن آسمان پگھلی ہوئی چاندی جیساہوجائے گا۔اور پہاڑ اون کی طرح ہلکے ہوجائیں گے ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ یَوْمَ تَكُوْنُ السَّمَآءُ كَالْمُهْلِ :  جس دن آسمان پگھلی ہوئی چاندی جیسا ہوجائے گا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ وہ عذاب ممکن ہے اور اس دن میں  کوئی مشکل نہیں  جس دن آسمان پگھلی ہوئی چاندی جیسا ہوگا اور پہاڑ اون کی طرح ہلکے ہوجائیں  گے اور ہوا میں  اُڑتے پھریں  گے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ ایک مانگنے والے نے وہ عذاب مانگا ہے جو ا س دن واقع ہو گا جس دن آسمان پگھلی ہوئی چاندی جیسا ہوجائے گا اور پہاڑ اُون کی طرح ہلکے ہوجائیں  گے اور ہوا میں  اُڑتے پھریں  گے۔تیسری تفسیر یہ ہے کہ جس دن آسمان پگھلی ہوئی چاندی جیساہوگا اور پہاڑ اون کی طرح ہلکے ہوجائیں  گے اور ہوا میں  اُڑتے پھریں  گے تو اس دن کی دہشت اور ہَولناکی تصوُّر سے بالا تر ہے۔( ابو سعود، المعارج،تحت الآیۃ:۸-۹،۵ / ۷۶۷، تفسیر کبیر، المعارج، تحت الآیۃ: ۸-۹، ۱۰ / ۶۴۱، مدارک، المعارج، تحت الآیۃ: ۸-۹، ص۱۲۷۸، ملتقطاً)

وَ لَا یَسْــٴَـلُ حَمِیْمٌ حَمِیْمًا(10)یُّبَصَّرُوْنَهُمْؕ-یَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ یَفْتَدِیْ مِنْ عَذَابِ یَوْمِىٕذٍۭ بِبَنِیْهِ(11)وَ صَاحِبَتِهٖ وَ اَخِیْهِ(12)وَ فَصِیْلَتِهِ الَّتِیْ تُــٴْـوِ یْهِ(13)وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًاۙ-ثُمَّ یُنْجِیْهِ(14)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور کوئی دوست کسی دوست سے حال نہ پوچھے گا۔وہ ان کو دکھائے جارہے ہوں گے۔مجرم آرزو کرے گا، کاش!اس دن کے عذاب سے چھوٹنے کے بدلے میں اپنے بیٹے دیدے ۔اور اپنی بیوی اور اپنا بھائی۔اور اپنا وہ کنبہ جو اسے پناہ دیتا ہے۔اور جتنے لوگ زمین میں ہیں سب کے سب ،پھر یہ (بدلہ دینا) اسے بچالے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ لَا یَسْــٴَـلُ حَمِیْمٌ حَمِیْمًا : اور کوئی دوست کسی دوست سے حال نہ پوچھے گا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی 4آیات کاخلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن کی شدّت اور ہَولناکی کی وجہ سے یہ حال ہو گا کہ کوئی دوست کسی دوست سے یہ نہیں  پوچھے گا کہ تیرا حال کیا ہے اور نہ ہی اس سے کوئی بات کرے گا کیونکہ اسے تو صرف اپنی ہی جان کی فکر پڑی ہوگی اور یہ اس وجہ سے نہیں  ہو گا کہ دوست ایک دوسرے کو دیکھ نہ رہے ہوں  گے بلکہ وہ دوست ان دوسرے دوستوں  کو دکھائے جارہے ہوں  گے اور وہ ایک دوسرے کو پہچانیں  گے لیکن اپنے حال میں  ایسے مبتلا ہوں  گے کہ نہ اُن سے حال پوچھیں  گے اورنہ بات کرسکیں  گے۔اس دن کافرکا حال یہ ہو گا کہ وہ یہ آرزو کرے گا : کاش!قیامت کے دن کے عذاب سے چھوٹنے کے بدلے میں  مجھ سے میرے (محبوب ترین) بیٹے لے لئے جائیں ، اور (زندگی بھر) میرا ساتھ نبھانے والی بیوی لے لی جائے اور دنیا میں  (ہر طرح سے) میری مدد کرنے والے میرے بھائی لے لئے جائیں  اور میرا وہ کنبہ لے لیا جائے جو مجھے اپنے پاس جگہ دیتا تھا،حتّٰی کہ وہ یہ تمنا کرے گا کہ جتنے لوگ زمین میں  ہیں  سب اس کے ماتحت ہوں  اور وہ ان سب کوفدیے میں  دیدیے اورپھر یہ بدلہ دینا اسے اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب سے بچالے۔( خازن ، المعارج ، تحت الآیۃ : ۱۰ – ۱۴ ، ۴ / ۳۰۸-۳۰۹، روح البیان، المعارج، تحت الآیۃ: ۱۰-۱۴، ۱۰ / ۱۶۰، مدارک، المعارج، تحت الآیۃ: ۱۰-۱۴، ص۱۲۷۹، ملتقطاً)

            اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کے دن کفار کو اپنے کسی عزیزسے محبت نہ رہے گی اور وہ یہ چاہے گا کہ میرے بچے،بیوی،بھائی،خاندان کے لوگ بلکہ ساری دنیا کے لوگ میرے بدلے دوزخ میں  پھینک دئیے جائیں  اور میں  کسی طرح عذاب سے بچ جاؤں ۔

كَلَّاؕ-اِنَّهَا لَظٰى(15)نَزَّاعَةً لِّلشَّوٰى(16)

ترجمہ: کنزالعرفان

ہرگز نہیں ،وہ تو بھڑکتی آگ ہے۔کھال کھینچ لینے والی ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{كَلَّا: ہرگز نہیں ۔} یہاں  کافر کی تمنا کا رد کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ یہ سب کچھ فدیے میں  دے دینا ہر گز اس کے کام نہ آئے گا اور نہ اسے کسی طرح عذاب سے بچا سکے گا۔( جلالین، المعارج، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۴۷۳، مدارک، المعارج، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۱۲۷۹، ملتقطاً)

فدیہ دینا بھی کفار کو عذاب سے بچا نہ سکے گا:

            کفار کا عذاب سے بچنے کے لئے فدیہ دینے اور اس کے قبول نہ ہونے کے بارے میں  ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:’’لِلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمُ الْحُسْنٰىﳳ-وَ الَّذِیْنَ لَمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَهٗ لَوْ اَنَّ لَهُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا وَّ مِثْلَهٗ مَعَهٗ لَافْتَدَوْا بِهٖؕ-اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ سُوْٓءُ الْحِسَابِ ﳔ وَ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُؕ-وَ بِئْسَ الْمِهَادُ‘‘ (رعد:۱۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: جن لوگوں  نے اپنے رب کا حکم مانا انہیں  کے لیے بھلائی ہے اور جنہوں  نے اس کا حکم نہ مانا (ان کا حال یہ ہوگا کہ) اگر زمین میں  جو کچھ ہے وہ سب اور اس جیسا اور اِس کے ساتھ ہوتا تو اپنی جان چھڑانے کو دے دیتے۔ ان کے لئے برا حساب ہوگا اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے۔

            اور ارشاد فرمایا: ’’اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ اَنَّ لَهُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا وَّ مِثْلَهٗ مَعَهٗ لِیَفْتَدُوْا بِهٖ مِنْ عَذَابِ یَوْمِ الْقِیٰمَةِ مَا تُقُبِّلَ مِنْهُمْۚ-وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ‘‘(مائدہ:۳۶)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اگرکافر لوگ جو کچھ زمین میں ہے وہ سب اور اس کے برابر اتنا ہی اور اس کے ساتھ (ملا کر) قیامت کے دن کے عذاب سے چھٹکارے کیلئے دیں  تو ان سے قبول نہیں  کیا جائے گا اور ان کیلئے دردناک عذاب ہے۔

            اور حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللّٰہ تعالیٰ اس جہنمی سے فرمائے گا جس کو سب سے کم عذاب دیا جا رہا ہوگا کہ اگر تجھے دنیا کا سارا سازو سامان دے دیاجائے تو کیا تو عذاب سے بچنے کے لئے انہیں  فدیے میں  دیدے گا۔وہ عرض کرے گا: ہاں ۔ اللّٰہ تعالیٰ فرمائے گا ’’میں  نے (اس وقت) تم سے اس کے مقابلے میں  بہت تھوڑا مطالبہ کیا تھا جب تو حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پشت میں  تھا کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا لیکن تو (نے دنیا میں  آنے کے بعد یہ بات نہ مانی اور) شرک پر ہی ڈٹا رہا۔( بخاری، کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنّۃ والنار، ۴ / ۲۶۱، الحدیث: ۶۵۵۷)

{اِنَّہَا لَظٰی: وہ تو بھڑکتی آگ ہے۔} آیت کے اس حصے اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ جہنم تو کافروں  پربھڑکتی آگ ہے اور وہ ان (کے جسم) کی کھال کھینچ لے گی یہاں  تک کہ ان کے جسم پر گوشت اور کھال (کا نشان تک) باقی نہ رہے گا۔( جلالین، المعارج، تحت الآیۃ: ۱۵-۱۶، ص۴۷۳، خازن، المعارج، تحت الآیۃ: ۱۵-۱۶، ۴ / ۳۰۹، ملتقطاً)

            یاد رہے کہ ایک بار کھال جل جانے کے بعد سزا ختم نہیں  ہو جائے گی بلکہ اللّٰہ تعالیٰ دوبارہ ان کے جسم پر کھال پیدا کر دے گا تاکہ یہ عذاب کا مزہ چکھتے رہیں ،جیساکہ سورۂ نساء میں  اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:’’ اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِیْهِمْ نَارًاؕ-كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُهُمْ بَدَّلْنٰهُمْ جُلُوْدًا غَیْرَهَا لِیَذُوْقُوا الْعَذَابَؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَزِیْزًا حَكِیْمًا‘‘ (النساء:۵۶)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ لوگ جنہوں  نے ہماری آیتوں  کا انکار کیا عنقریب ہم ان کو آگ میں  داخل کریں  گے۔ جب کبھی ان کی کھالیں  خوب جل جائیں  گی توہم ان کی کھالوں  کو دوسری کھالوں  سے بدل دیں  گے کہ عذاب کا مزہ چکھ لیں ۔ بیشک اللّٰہ زبردست ہے، حکمت والا ہے۔

تَدْعُوْا مَنْ اَدْبَرَ وَ تَوَلّٰى(17)وَ جَمَعَ فَاَوْعٰى(18)

ترجمہ: کنزالعرفان

بلا رہی ہے اسے جس نے پیٹھ پھیری اورمنہ موڑا۔اور جوڑ کر رکھا پھر (اسے) محفوظ کرلیا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ تَدْعُوْا: بلا رہی ہے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جہنم نام لے لے کر کہ اے کافر میرے پاس آ، اے منافق میرے پاس آ ،اسے اپنی طرف بلائے گی جس نے حق قبول کرنے سے پیٹھ پھیری اورایمان لانے سے اِعراض کیا اور اپنامال جوڑ کر رکھا پھر اسے محفوظ کرلیا اور اس پر اس مال کے جو حقوق واجب تھے وہ ا س نے ادا نہ کئے۔ جہنم کا یہ بلانا یا تو زبانِ حال سے ہو گا یا اللّٰہ تعالیٰ آگ میں  کلام کرنے کی صلاحیت پیدا کر دے گا اور وہ واضح طور پر کلام کرے گی یا اس سے مراد یہ ہے کہ جہنم پر مامور فرشتے بلائیں  گے ۔( خازن ، المعارج ، تحت الآیۃ : ۱۷-۱۸ ، ۴ / ۳۰۹ ، مدارک، المعارج، تحت الآیۃ: ۱۷-۱۸، ص۱۲۷۹، تفسیر کبیر، المعارج، تحت الآیۃ: ۱۷-۱۸، ۱۰ / ۶۴۳)

            ان آیات سے معلوم ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کی اطاعت سے اِعراض کرنا،دنیا کی محبت ،مال کی حرص اور نفسانی خواہشات دین کی آفات کا مجموعہ ہیں ۔

اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوْعًا(19)اِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوْعًا(20)وَّ اِذَا مَسَّهُ الْخَیْرُ مَنُوْعًا(21)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک آدمی بڑا بے صبرا حریص پیدا کیا گیا ہے ۔جب اسے برائی پہنچے تو سخت گھبرانے والاہوجاتا ہے ۔اور جب اسے بھلائی پہنچے تو بہت روک رکھنے والاہوجاتا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوْعًا: بیشک آدمی بڑا بے صبرا حریص پیدا کیا گیا ہے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ بیشک انسان بڑا بے صبرا اور حریص پیدا کیا گیا ہے کہ جب اسے تنگ دستی اور بیماری وغیرہ کی صورت میں  کوئی برائی پہنچتی ہے تو وہ سخت گھبرانے والاہوجاتا ہے اور جب اسے دولت مندی ومال اور صحت و تندرستی کی صورت میں  کوئی بھلائی پہنچتی ہے تو وہ اسے اپنے پاس روک رکھنے والاہوجاتا ہے یعنی انسان کی حالت یہ ہے کہ جب اسے کوئی ناگوار حالت پیش آتی ہے تو وہ اس پر صبر نہیں  کرتا اور جب اسے مال ملتا ہے تو وہ اس کو خرچ نہیں  کرتا۔( مدارک، المعارج، تحت الآیۃ: ۱۹-۲۱، ص۱۲۸۰، خازن، المعارج، تحت الآیۃ: ۱۹-۲۱، ۴ / ۳۰۹، ملتقطاً)

غریبی اور بیماری کی حالت میں  شکوہ شکایت کرنے سے بچا جائے:

            اس سے معلوم ہوا کہ اگرکسی شخص کو زندگی میں  کبھی غربت ،تنگدستی اور ناداری کا سامنا ہو یا کسی بیماری اور مرض وغیرہ میں  مبتلا ہو جائے تو وہ اس پر بے صبری اور بے قراری کا مظاہرہ کرنے اور شکوہ شکایت کرنے سے بچے اور ان حالات میں  اللّٰہ تعالیٰ کی رضاپر راضی رہے ،البتہ اس کایہ مطلب نہیں  کہ انسان تنگدستی دور کرنے کے لئے محنت اور کوشش کرنا چھوڑ دے اور بیماری کا علاج کروانا ترک کر دے بلکہ اسے چاہئے کہ تنگدستی دور کرنے کے لئے محنت اور جدوجہد بھی کرتا رہے اور اپنے مرض کا علاج بھی کرواتا رہے اور اخلاص کے ساتھ اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  آسانی اور شفا ملنے کی دعا بھی کرتا رہے اور جب اللّٰہ تعالیٰ اسے فراخ دستی اور شفا عطا فرمادے تو اسے چاہئے کہ اللّٰہ  تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور ہر دم اس کی اطاعت و فرمانبرداری میں  مصروف رہے اور اس کا دیا ہوا مال اسی کی راہ میں  خرچ کرتا رہے۔

اِلَّا الْمُصَلِّیْنَ(22)الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَاتِهِمْ دَآىٕمُوْنَ(23)

ترجمہ: کنزالعرفان

مگر وہ نمازی۔جو اپنی نماز کی ہمیشہ پابندی کرنے والے ہیں ۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِلَّا الْمُصَلِّیْنَ : مگر نمازی۔} یہاں  سے ان لوگوں  کے بارے میں  بیان کیا گیا ہے جن میں  اس سے پہلی آیات میں  بیان کی گئی حالت یعنی حرص اور بے صبری نہیں  پائی جاتی اور یہ وہ لوگ ہیں  جن میں  یہ آٹھ اوصاف پائے جاتے ہو ں :

(1)…فرض نمازیں  پابندی کے ساتھ ادا کرنا۔

(2)…اپنے مال سے واجب صدقات ادا کرنا۔

(3)…انصاف کے دن یعنی قیامت کی تصدیق کرنا۔

(4)…اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنا۔

(5)… شرمگاہوں  کی حرام کاری سے حفاظت کرنا۔

(6)…امانت اور عہد کی حفاظت کرنا۔

(7)…صدق و انصاف کے ساتھ گواہی پر قائم رہنا۔

(8)… نماز کی حفاظت کرنا۔

            ان اوصاف کی تفصیل اگلی آیات میں  مذکور ہے۔

{اَلَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَاتِهِمْ دَآىٕمُوْنَ : جو اپنی نماز کی ہمیشہ پابندی کرنے والے ہیں ۔} اس آیت میں  پہلا وصف بیان ہوا کہ (ان لوگوں  میں حرص اور بے صبری نہیں  پائی جاتی) جو اپنے اوپر فرض پانچوں  نمازیں  ان کے اوقات میں  پابندی سے ادا کرتے ہیں  ۔(تفسیر کبیر، المعارج، تحت الآیۃ: ۲۳، ۱۰ / ۶۴۴، خازن، المعارج، تحت الآیۃ: ۲۳، ۴ / ۳۰۹، ملتقطاً)

نماز، حرص اور ہَوَس سے بچنے کا ذریعہ ہے:

            اس سے معلوم ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ مومن بندے کو نماز کی برکت سے دُنْیَوی عیوب مثلاًحرص اورہَوَس وغیرہ سے بچالے گا۔اَحادیث میں  پانچوں  نمازیں  اپنے وقت میں پابندی کے ساتھ ادا کرنے کی بہت فضیلت بیان کی گئی ہے چنانچہ

             حضرت عبادہ بن صامت رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’پانچ نمازیں  اللّٰہ تعالیٰ نے بندوں  پر فرض کیں ، جس نے اچھی طرح وضو کیا اور وقت میں  نمازیں  پڑھیں  اور رکوع و خشوع کو پورا کیا تو اس کے لیے اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے ذمۂ کرم پر عہد کر لیا ہے کہ اسے بخش دے، اور جس نے نہ کیا اس کے لیے عہد نہیں ،چاہے بخش دے،چاہے عذاب کرے۔(مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث عبادۃ بن الصامت رضی اللّٰہ عنہ، ۸ / ۳۹۷، الحدیث:۲۲۷۵۶)

            اور اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے:’’ میرے بندے کا میرے ذمۂ کرم پر عہد ہے کہ اگر وہ وقت میں  نماز قائم رکھے تو میں  اسے عذاب نہ دوں  اور بے حساب جنت میں  داخل کروں ۔(کنز العمال، کتاب الصلاۃ، قسم الاقوال، الباب الاول، الفصل الثانی، ۴ / ۱۲۷، الحدیث: ۱۹۰۳۲)

وَ الَّذِیْنَ فِیْۤ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ(24)لِّلسَّآىٕلِ وَ الْمَحْرُوْمِ(25)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور وہ جن کے مال میں ایک معلوم حق ہے۔اس کے لیے جو مانگے اوراس کے لیے جو محروم رہے۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ الَّذِیْنَ فِیْۤ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ: اور وہ جن کے مال میں  ایک معلوم حق ہے۔} یہاں  سے دوسرا وصف بیان کیا گیا چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ (ان لوگوں  میں  حرص اور بے صبری نہیں  پائی جاتی) جن کے مال میں  سائل اور محروم کے لئے ایک معلوم اور مُعَیَّن حق ہے ۔ معلوم حق سے مراد زکوٰۃ ہے جس کی مقدار معلوم ہے یا اس سے وہ صدقہ مراد ہے جو آدمی اپنے آپ پر مُعَیَّن کرلے اور اُسے مُعَیَّن اوقات میں  ادا کیا کرے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ مُستحب صدقات کیلئے اپنی طرف سے وقت مُعَیَّن کرنا شریعت میں  جائز اور قابلِ تعریف ہے۔سائل سے مراد وہ شخص ہے جو حاجت کے وقت سوال کرے اور محروم سے مراد وہ شخص ہے جو حاجت کے باوجود شرم و حیا کی وجہ سے نہیں  مانگتا اور اس کی محتاجی ظاہر نہیں  ہوتی۔( تفسیر کبیر، المعارج، تحت الآیۃ: ۲۴-۲۵، ۱۰ / ۶۴۵، خازن، المعارج، تحت الآیۃ: ۲۴-۲۵، ۴ / ۳۱۰، ملتقطاً)

 فقیروں ،مسکینوں  اور محتاجوں  کا خیال رکھیں :

            اس آیت سے معلوم ہو اکہ فقیروں ،مسکینوں  اور محتاجوں  کا خیال رکھنا چاہئے اور انہیں  اپنے مالوں  میں  سے کچھ نہ کچھ مال دیتے رہنا چاہئے، اسی سلسلے میں  یہاں  3اَحادیث ملاحظہ ہوں :

(1)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اپنے مال کی زکاۃ نکالو کہ وہ پاک کرنے والی ہے تجھے پاک کر دے گی اور رشتہ داروں  سے اچھا سلوک کر اور مسکین ، پڑوسی اور سائل کا حق پہچانو۔( مسند امام احمد، مسند انس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ، ۴ / ۲۷۳، الحدیث: ۱۲۳۹۷)

(2)…حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’فقیر ہرگز ننگے بھوکے ہونے کی تکلیف نہ اٹھائیں  گے مگر مال داروں  کے ہاتھوں ، سن لو! ایسے مالداروں  سے اللّٰہ تعالیٰ سخت حساب لے گا اور انہیں  دردناک عذاب دے گا۔( معجم الاوسط، باب الدال، من اسمہ: دلیل، ۲ / ۳۷۴، الحدیث: ۳۵۷۹)

(3)… حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت کے دن مالداروں  کے لیے محتاجوں  کے ہاتھوں  سے خرابی ہے۔ محتاج عرض کریں  گے، ہمارے حقوق جو تو نے اُن پر فرض کیے تھے، انہوں  نے ظُلماً نہ دیے۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ فرمائے گا ’’مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم ہے کہ تمہیں  اپنا قرب عطا کروں  گا اور انھیں  دور رکھوں  گا۔( معجم الاوسط، باب العین، من اسمہ: عبید، ۳ / ۳۴۹، الحدیث: ۴۸۱۳)

وَ الَّذِیْنَ یُصَدِّقُوْنَ بِیَوْمِ الدِّیْنِ(26)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور وہ لوگ جو انصاف کے دن کی تصدیق کرتے ہیں ۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ الَّذِیْنَ یُصَدِّقُوْنَ بِیَوْمِ الدِّیْنِ : اور وہ لوگ جو انصاف کے دن کی تصدیق کرتے ہیں ۔} اس آیت میں  تیسرا وصف بیان کیا گیا کہ (ان لوگوں  میں  حرص اور بے صبری نہیں  پائی جاتی) جو اُخروی ثواب کی امید میں  اپنی جانوں  کو بدنی اور مالی عبادتوں  میں  مصروف رکھ کر اپنے اعمال کے ذریعے انصاف کے دن کی تصدیق کرتے ہیں اور مرنے کے بعد اُٹھنے، حشرو نشر، جزاء اورقیامت ان سب چیزوں  پر ایمان رکھتے ہیں ۔( تفسیرکبیر،المعارج،تحت الآیۃ:۲۶، ۱۰ / ۶۴۵، روح البیان، المعارج، تحت الآیۃ: ۲۶، ۱۰ / ۱۶۵، خازن، المعارج، تحت الآیۃ: ۲۶، ۴ / ۳۱۰، ملتقطاً)

وَ الَّذِیْنَ هُمْ مِّنْ عَذَابِ رَبِّهِمْ مُّشْفِقُوْنَ(27)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور وہ جو اپنے رب کے عذاب سے ڈر رہے ہیں ۔



تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ الَّذِیْنَ هُمْ مِّنْ عَذَابِ رَبِّهِمْ مُّشْفِقُوْنَ: اور وہ جو اپنے رب کے عذاب سے ڈر رہے ہیں ۔} اس آیت میں  چوتھا وصف بیان کیاگیا کہ (ان لوگوں  میں  حرص اور بے صبری نہیں  پائی جاتی) جو فرض عبادات کے علاوہ بھی نیک اعمال بکثرت کرنے کے باوجود اپنی کوتاہیوں  کی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈر رہے ہیں  کہ نجانے ان کے وہ اعمال قبول ہوتے بھی ہیں  یا نہیں ۔( تفسیر کبیر ، المعارج ، تحت الآیۃ : ۲۷ ، ۱۰ / ۶۴۵ ، ابو سعود ، المعارج ، تحت الآیۃ : ۲۷، ۵ / ۷۶۸، روح البیان، المعارج، تحت الآیۃ: ۲۷، ۱۰ / ۱۶۵، ملتقطاً)

بکثرت نیک اعمال کرنے کے باوجود اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتے رہنے کی ترغیب:

            اس آیت سے معلوم ہو اکہ اللّٰہ  تعالیٰ کے نیک بندے گناہوں  سے ہر دم بچتے رہنے اورکثرت کے ساتھ نیک اعمال کرنے کے باوجود اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب کا خوف اپنے دلوں  میں  رکھتے تھے اور انہیں  یہ اندیشہ رہتا تھا کہ کہیں  ان کے اعمال رد ہی نہ کر دئیے جائیں ۔ایک اور مقام پرایمان والوں  کا ایک وصف بیان کرتے ہوئے اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ

’’ وَ الَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَاۤ اٰتَوْا وَّ قُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ اَنَّهُمْ اِلٰى رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَ‘‘( مومنون:۶۰)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جنہوں  نے جو کچھ دیا وہ اس حال میں  دیتے ہیں  کہ ان کے دل اس بات سے ڈر رہے ہیں  کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔

            یہاں  ہم چند صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے اَقوال ذکر کرتے ہیں  جنہیں  پڑھ کرہر مسلمان کو غور کرلینا چاہئے کہ وہ لوگ جو قطعی جنّتی تھے ،ہر وقت نیک اعمال میں  مصروف رہتے تھے اور گناہوں  سے بچنے کی مقدور بھر کوشش کرتے تھے ،ا س کے باوجود اللّٰہ تعالیٰ کے خوف سے ان کا کیا حال تھا ، چنانچہ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک بارپرندے کو دیکھ کر فرمایا:’’ اے پرندے! کاش ! میں  تمہاری طرح ہوتا اور مجھے انسان نہ بنایا جاتا۔

             حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا قول ہے:میں  یہ پسند کرتا ہوں  کہ میں  ایک مینڈھا ہوتا جسے میرے اہلِ خانہ اپنے مہمانوں  کے لیے ذبح کر دیتے ۔

             حضرت ابو ذر غفاری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا قول ہے کہ ’’کاش! میں  ایک درخت ہوتا جس کو کاٹ دیا جاتا۔

            حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرمایا کرتے:’’ میں  اس بات کو پسند کرتا ہوں  کہ مجھے وفات کے بعد اُٹھایا نہ جائے۔

             حضرت  طَلْحہ اور حضرت زبیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا  فرمایا کرتے: ’’کاش! ہم پیدا ہی نہ ہوئے ہوتے۔

            حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا  فرمایا کرتیں : ’’کاش! میں  کوئی بھولی بسری چیز ہوتی۔

            حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرمایا کرتے:کاش! میں  راکھ ہوتا۔( قوت القلوب، الفصل الثانی والثلاثون، شرح مقام الخوف ووصف الخائفین۔۔۔ الخ،۱ / ۴۵۹-۴۶۰)

            اللّٰہ تعالیٰ ہمیں  اپنے عذاب سے ڈرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔

اِنَّ عَذَابَ رَبِّهِمْ غَیْرُ مَاْمُوْنٍ(28)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک ان کے رب کا عذاب بے خوف ہونے کی چیز نہیں ہے۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اِنَّ عَذَابَ رَبِّهِمْ غَیْرُ مَاْمُوْنٍ: بیشک ان کے رب کا عذاب بے خوف ہونے کی چیز نہیں  ہے۔} امام عبداللّٰہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں : ’’ اس کا معنی یہ ہے کہ انسان چاہے کتنا ہی نیک ،پارسا اور عبادت و اطاعت کی کثرت کرنے والا ہو لیکن اسے اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب سے بے خوف نہیں  ہونا چاہئے۔( مدارک، المعارج، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۱۲۸۰)

اور علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں : ’’اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کے لئے ممکن نہیں  کہ وہ فرض عبادات اسی طرح ادا کرتا رہے جس طرح ادا کرنی چاہئیں  اور تمام ممنوعات سے اسی طرح بچتا رہے جیسا بچنے کا حق ہے بلکہ کبھی دونوں  طرف سے ا س سے خطا واقع ہو جاتی ہے لہٰذا اسے چاہئے کہ وہ خوف اور امید کے درمیان رہے۔(خازن، المعارج، تحت الآیۃ: ۲۸، ۴ / ۳۱۰)

اللّٰہ تعالیٰ سے خوف اور امید کیسی رکھنی چاہئے؟

اللّٰہ تعالیٰ سے کیسا خوف اور کیسی امید رکھنی چاہئے اس کا اندازہ درج ذیل دو واقعات سے لگایاجا سکتا ہے ، چنانچہ

(1)…حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: ’’اگر آسمان سے کوئی مُنادی یہ آواز دے کہ اے لوگو ایک شخص کے علاوہ تم سب جنت میں  داخل ہو جاؤ گے تو میں  اس بات سے ڈروں  گا کہ کہیں  وہ ایک شخص میں  ہی نہ ہوں  اور اگر مُنادی یہ اعلان کرے کہ اے لوگو!ایک شخص کے علاوہ تم سب جہنم میں  داخل ہو جاؤ گے تو میں  یہ امید کروں  گا کہ وہ ایک شخص میں  ہی ہوں ۔( حلیۃ الاولیاء، ذکر الصحابۃ من المہاجرین، ۲-عمر بن الخطاب،۱ / ۸۹، الحدیث: ۱۴۲)

(2)…حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے ایک مرتبہ اپنے صاحبزادے سے فرمایا کہ اے میرے بیٹے ! اللّٰہ تعالیٰ سے ایسا خوف رکھو کہ تمہیں  گمان ہونے لگے کہ اگر تم تمام زمین والوں  کی نیکیاں  اس کی بارگاہ میں  پیش کرو تو وہ انہیں  قبول نہ کرے اور اللّٰہ تعالیٰ سے ایسی امید رکھو کہ تم سمجھو کہ اگر سب زمین والوں  کی برائیاں  لے کر اس کی بارگاہ میں  جاؤگے تو بھی تمہیں  بخش دے گا۔( احیاء علوم الدین، کتاب الخوف والرجاء، بیان انّ الافضل ہو غلبۃ الخوف۔۔۔ الخ، ۴ / ۲۰۲)

وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَ(29)اِلَّا عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ(30)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔مگر اپنی بیویوں یا اپنی کنیزوں سے تو بیشک ان پر کچھ ملامت نہیں ۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَ: اور وہ جو اپنی شرمگاہوں  کی حفاظت کرتے ہیں ۔} اس آیت میں  پانچواں  وصف بیان کیا گیا کہ (ان لوگوں  میں  حرص اور بے صبری نہیں  پائی جاتی) جو اپنی بیویوں  یا اپنی کنیزوں  کے علاوہ (دیگر لوگوں ) سے اپنی شرمگاہوں  کی (زنا، لِواطَت اور مُشت زنی وغیرہ سے) حفاظت کرتے ہیں  تو بیشک اپنی بیویوں  اور کنیزوں  سے حیض و نفاس کے علاوہ اوقات میں  شرمگاہوں  کی حفاظت نہ کرنے کی وجہ سے ان پر کچھ ملامت نہیں  اور ا س بناء پر دنیا اور آخرت میں  ان سے کوئی مُؤاخذہ نہیں۔(تفسیر کبیر، المعارج، تحت الآیۃ: ۲۹، ۱۰ / ۶۴۵، روح البیان، المعارج، تحت الآیۃ: ۲۹-۳۰، ۱۰ / ۱۶۵، ملتقطاً)

            اس سے معلوم ہوا کہ اپنی مَنکوحہ بیوی اور اپنی مِلکیَّت میں  موجود وہ لونڈی جس سے صحبت حلال ہے،ان سے پردہ نہیں  لہٰذا شوہر بیوی اور مالک لونڈی ایک دوسرے کابدن دیکھ سکتے ہیں ۔

فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَآءَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْعٰدُوْنَ(31)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو جو ان دو کے سوا اور کوئی صورت چاہیں تووہی حد سے بڑھنے والے ہیں ۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَآءَ ذٰلِكَ: تو جو ان دو کے سوا اور کوئی صورت چاہیں ۔} یعنی جو لوگ اپنی بیویوں  اور اپنی مِلکیَّت  میں  موجود (ان) کنیزوں  (جن سے صحبت حلال ہے) کے علاوہ (شہوت پوری کرنے کی) کوئی اور صورت چاہیں  تو وہی لوگ حد سے بڑھنے والے ہیں  کہ حلال سے حرام کی طرف تجاوُز کرتے ہیں  ۔ اس آیت سے مُتعَہ، لِواطَت، جانوروں  کے ساتھ قضائِ شہوت اور اپنے ہاتھ سے منی خارج کرنے کی حرمت ثابت ہوتی ہے۔( مدارک، المعارج، تحت الآیۃ: ۳۱، ص۱۲۸۰)

وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَ(32)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَ : اور وہ جو اپنی امانتوں  اور اپنے عہد کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔} اس آیت میں  چھٹا وصف بیا ن کیا گیا کہ (ان لوگوں  میں  حرص اور بے صبری نہیں  پائی جاتی) جو اپنی امانتوں  اور اپنے عہد کی حفاظت کرنے والے ہیں  کہ امانت میں  خیانت نہیں  کرتے اور نہ ہی عہد توڑتے ہیں  ۔یہاں  امانت میں  شرعی امانتیں  اور بندوں  کی امانتیں  دونوں  داخل ہیں  اور عہد میں  مخلوق کے ساتھ کئے ہوئے عہد اور اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ کئے ہوئے عہد نذریں  اور قَسمیں  بھی داخل ہیں ۔( تفسیر کبیر، المعارج، تحت الآیۃ: ۳۲، ۱۰ / ۶۴۶، مدارک، المعارج، تحت الآیۃ: ۳۲، ص۱۲۸۰)

            امانت میں  خیانت کرنے اورعہد کی خلاف ورزی کرنے سے متعلق حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’چار باتیں  جس میں  ہوں  وہ خالص منافق ہے اور جس کے اندر ان میں  سے کوئی ایک ہو تو اس میں  نفاق کا ایک حصہ ہے یہاں  تک کہ اسے چھوڑ دے(1)جب اسے امانت سپرد کی جائے تو خیانت کرے۔(2)جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔(3) جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے۔(4)جب جھگڑا کرے تو بیہودہ بکے۔( بخاری، کتاب الایمان، باب علامۃ المنافق، ۱ / ۲۵، الحدیث: ۳۴)

وَ الَّذِیْنَ هُمْ بِشَهٰدٰتِهِمْ قَآىٕمُوْنَ(33)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور وہ جو اپنی گواہیوں پر قائم رہنے والے ہیں ۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ الَّذِیْنَ هُمْ بِشَهٰدٰتِهِمْ قَآىٕمُوْنَ: اور وہ جو اپنی گواہیوں  پر قائم رہنے والے ہیں ۔} اس آیت میں  ساتواں  وصف بیان کیا گیا کہ وہ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور اس پر قائم رہتے ہیں  ، نہ اس میں  رشتہ داری کا پاس کرتے ہیں  نہ زبردست کو کمزور پر ترجیح دیتے ہیں  اورنہ کسی حق دار کا حق تَلف کرنا گوارا کرتے ہیں ۔بعض مفسرین کے نزدیک یہاں  گواہی سے مراد توحید (اوررسالت) کی گواہی پر قائم رہنا ہے۔( تفسیر کبیر ، المعارج ، تحت الآیۃ: ۳۳، ۱۰ / ۶۴۶، مدارک، المعارج، تحت الآیۃ: ۳۳، ص۱۲۸۰، خازن، المعارج، تحت الآیۃ: ۳۳، ۴ / ۳۱۰، ملتقطاً)

گواہی چُھپانے اور جھوٹی گواہی دینے کی وعید:

            گواہی چُھپانے کے بارے میں  اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:’’ وَ لَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَؕ-وَ مَنْ یَّكْتُمْهَا فَاِنَّهٗۤ اٰثِمٌ قَلْبُهٗؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ‘‘ (بقرہ:۲۸۳)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور گواہی نہ چھپاؤ اور جو گواہی چھپائےگا تو اس کا دل گنہگار ہے اور اللّٰہ تمہارے کاموں  کو خوبجاننے والا ہے۔

            اور جھوٹی گواہی دینے والے کے بارے میں  حدیث ِپاک میں  ہے ،حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ   اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں  گے کہ اللّٰہ تعالیٰ اُس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔( ابن ماجہ، کتاب الاحکام، باب شہادۃ الزور، ۳ / ۱۲۳، الحدیث: ۲۳۷۳)

            اورحضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مرد کا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے تو اُس نے جہنم واجب کر لیا۔ (معجم کبیر، عکرمۃ عن ابن عباس، ۱۱ / ۱۷۲، الحدیث: ۱۱۵۴۱)

وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَاتِهِمْ یُحَافِظُوْنَﭤ(34)اُولٰٓىٕكَ فِیْ جَنّٰتٍ مُّكْرَمُوْنَﭤ(35)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور وہ جو اپنی نماز کی حفاظت کرتے ہیں ۔یہ لوگ وہ ہیں جن کی (جنت کے) باغوں میں عزت کی جائے گی۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَاتِهِمْ یُحَافِظُوْنَ: اور وہ جو اپنی نماز کی حفاظت کرتے ہیں ۔} اس آیت میں  آٹھواں  وصف بیان کیاگیا کہ (ان لوگوں  میں  حرص اور بے صبری نہیں  پائی جاتی) جو اپنی نماز کی حفاظت کرتے ہیں ۔ یہاں  نماز کا دوبارہ ذکر اس بات کو ظاہر کرنے کے لئے فرمایا گیا ہے کہ نماز بہت اہم ہے یا اس لئے دوبارہ ذکر کیا گیا کہ ایک جگہ فرائض مراد ہیں  اور دوسری جگہ نوافل مراد ہیں ۔بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس سے پہلی آیت میں  دوام سے ہمیشہ نماز پڑھنا اوراس کے وقت میں  پڑھنا مراد ہے اور یہاں  نماز کی حفاظت کرنے کا بیان ہے اور حفاظت سے مراد یہ ہے کہ وہ نماز کے ارکان، واجبات ، سنتوں  اور مُستحبات کو کامل طور پر ادا کرتے ہیں ۔( تفسیر کبیر، المعارج، تحت الآیۃ: ۳۴، ۱۰ / ۶۴۶، مدارک، المعارج، تحت الآیۃ: ۳۴، ص۱۲۸۰، ملتقطاً)

{ اُولٰٓىٕكَ: یہ لوگ وہ ہیں ۔} یعنی جن لوگوں  میں  یہ اوصاف پائے جاتے ہیں  یہ وہ لوگ ہیں  جن کی جنت کے باغوں  میں  اَبدی ثواب اور سَرمَدی جزا کے ذریعے عزت کی جائے گی۔( مدارک، المعارج، تحت الآیۃ: ۳۵، ص۱۲۸۰، روح البیان، المعارج، تحت الآیۃ: ۳۵، ۱۰ / ۱۶۸، ملتقطاً)

فَمَالِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا قِبَلَكَ مُهْطِعِیْنَ(36)عَنِ الْیَمِیْنِ وَ عَنِ الشِّمَالِ عِزِیْنَ(37)اَیَطْمَعُ كُلُّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ اَنْ یُّدْخَلَ جَنَّةَ نَعِیْمٍ(38)كَلَّاؕ-اِنَّا خَلَقْنٰهُمْ مِّمَّا یَعْلَمُوْنَ(39)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو ان کافروں کو کیا ہوا تمہاری طرف تیز نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔گروہ کے گروہ دائیں اور بائیں جانب سے ۔کیا ان میں ہر شخص یہ طمع کرتا ہے کہ اسے چین کے باغ میں داخل کیا جائے گا۔ہرگز نہیں ، بیشک ہم نے انہیں اس چیز سے پیدا کیا جسے جانتے ہیں ۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ فَمَالِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا: تو ان کافروں  کو کیا ہوا۔}شانِ نزول: یہ آیت کفار کی اس جماعت کے بارے میں  نازل ہوئی جو رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے گرد حلقے باندھ کر گروہ کے گروہ جمع ہوتے تھے اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مبارک کلام سن کر اسے جھٹلاتے ،مذاق اُڑاتے اور کہتے تھے کہ اگر یہ لوگ جنت میں  داخل ہوں  گے جیسا کہ محمد (مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) فرماتے ہیں  تو ہم ضرور ان سے پہلے جنت میں  داخل ہو جائیں  گے۔ اس آیت اور ا س کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ان کافروں  کا کیا حال ہے جو آپ کے پاس بیٹھتے بھی ہیں  اور گردنیں  اُٹھا اُٹھا کر دیکھتے بھی ہیں  پھر بھی جو آپ سے سنتے ہیں  اس سے نفع نہیں  اُٹھاتے۔کیا ان میں  سے ہر شخص یہ طمع کرتا ہے کہ اسے ایمان والوں  کی طرح چین کے باغ میں  داخل کیا جائے گا!ہرگزاسے داخل نہیں کیا جائے گا (کیونکہ) ہم نے جس طرح سب آدمیوں  کو منی سے پیدا کیا اسی طرح انہیں  بھی منی سے پیدا کیا ہے اور صرف منی سے پیدا ہو جانا جنتی ہونے کا سبب نہیں  بلکہ جنت میں  داخل ہونے کا ذریعہ تو ایمان اور نیک اعمال ہیں  اور جب وہ ایمان ہی نہیں  لائے تو حکمت والے رب تعالیٰ کے یہ شایانِ شان کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ انہیں  جنت میں  داخل کر دے۔( مدارک ، المعارج ، تحت الآیۃ : ۳۶-۳۹ ، ص۱۲۸۱، خازن، المعارج، تحت الآیۃ: ۳۶-۳۹، ۴ / ۳۱۰، تفسیر کبیر، المعارج، تحت الآیۃ: ۳۶-۳۹، ۱۰ / ۶۴۶-۶۴۷، ملتقطاً)

کلام دل میں  کب اثر کرتا ہے؟

اس سے معلوم ہوا کہ کلام دل میں  تب ہی اثر کرتا ہے جب کہ کلام کرنے والے کا وقار دل میں  موجود ہو، ان کفار کے دلوں  میں  چونکہ حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا وقار نہ تھا اس لئے وہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وعظ سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔

فَلَاۤ اُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشٰرِقِ وَ الْمَغٰرِبِ اِنَّا لَقٰدِرُوْنَ(40)عَلٰۤى اَنْ نُّبَدِّلَ خَیْرًا مِّنْهُمْۙ-وَ مَا نَحْنُ بِمَسْبُوْقِیْنَ(41)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو مجھے تمام مشرقوں اور تمام مغربوں کے رب کی قسم ، بیشک ہم ضرورقادر ہیں ۔اس بات پر کہ ان سے اچھے لوگ بدل دیں اور کوئی ہم سے نکل کر نہیں جاسکتا۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

}فَلَاۤ اُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشٰرِقِ وَ الْمَغٰرِبِ : تو مجھے تمام مشرقوں  اور تمام مغربوں  کے رب کی قسم۔{ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب معاملہ یہ ہے کہ ہم نے انہیں  منی سے پیدا کر دیا تومجھے سورج کے طلوع اور غروب ہونے کی تمام جگہوں  کے مالک رب کی قسم! بیشک ہم اس بات پر ضرور قادر ہیں  کہ انہیں  ان کے جرموں  کی وجہ سے ہلاک کردیں  اور ان کی بجائے وہ لوگ پیدا کردیں  جو ان جیسے نہ ہوں بلکہ وہ ہمارے اطاعت گزار اور فرمانبردار ہوں  اور ہم انہیں  ہلاک کرنے اور دوسرے لوگ پیدا کرنے سے عاجز نہیں  لیکن ہماری انتہا کو پہنچی ہوئی حکمت اور مَشِیَّت کا تقاضا یہی ہے کہ ان کی سزا کو مُؤخَّر کیا جائے۔( ابو سعود،المعارج،تحت الآیۃ:۴۰-۴۱،۵ / ۷۷۰، خازن، المعارج، تحت الآیۃ: ۴۰-۴۱، ۴ / ۳۱۱، مدارک، المعارج، تحت الآیۃ: ۴۰-۴۱، ص۱۲۸۱، ملتقطاً)

فَذَرْهُمْ یَخُوْضُوْا وَ یَلْعَبُوْا حَتّٰى یُلٰقُوْا یَوْمَهُمُ الَّذِیْ یُوْعَدُوْنَ(42)یَوْمَ یَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ سِرَاعًا كَاَنَّهُمْ اِلٰى نُصُبٍ یُّوْفِضُوْنَ(43)خَاشِعَةً اَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌؕ-ذٰلِكَ الْیَوْمُ الَّذِیْ كَانُوْا یُوْعَدُوْنَ(44)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو انہیں اپنی بیہودگیوں میں پڑے اور کھیلتے ہوئے چھوڑ دو یہاں تک کہ اپنے اس دن سے ملیں جس کا انہیں وعدہ دیا جاتا ہے۔جس دن قبروں سے جلدی کرتے ہوئے نکلیں گے گویا وہ نشانوں کی طرف لپک رہے ہیں ۔ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی، ان پر ذلت چڑھ رہی ہوگی، یہ وہ دن ہے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا تھا۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَذَرْهُمْ یَخُوْضُوْا وَ یَلْعَبُوْا : تو انہیں  اپنی بیہودگیوں  میں  پڑے اور کھیلتے ہوئے چھوڑ دو۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کاخلاصہ یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جو مشرکین آپ کے دائیں  بائیں  بیٹھ کر آپ کی طرف تیز نگاہ سے دیکھتے ہیں  ان کے ایمان قبول نہ کرنے پر غم نہ کریں  بلکہ انہیں  چھوڑ دیں  کہ یہ اپنی بیہودگیوں  میں  پڑے رہیں  اور اپنی دنیا میں  کھیلتے رہیں  یہاں  تک کہ اپنے عذاب کے اس دن سے ملیں  جس کا انہیں  وعدہ دیا جاتا ہے اور یہ وہ دن ہے جس دن یہ قبروں  سے جلدی کرتے ہوئے محشر کی طرف اس طرح نکلیں  گے گویا وہ اپنے مقررہ نشانوں  کی طرف ایسے لپک رہے ہیں  جیسے جھنڈے گاڑنے والے اپنے جھنڈے کی طرف دوڑتے ہیں  اوراس وقت ان کا حال یہ ہو گا کہ ان کی آنکھیں  جھکی ہوئی ہوں  گی، ان پر ذلت چڑھ رہی ہوگی اور قیامت کا دن ان کا وہ دن ہے جس کا ان سے دنیا میں وعدہ کیا جاتا تھا اور وہ اسے جھٹلاتے تھے۔( تفسیرطبری،المعارج،تحت الآیۃ:۴۲، ۱۲ / ۲۴۳، خازن، المعارج، تحت الآیۃ: ۴۲-۴۴، ۴ / ۳۱۱، مدارک، المعارج، تحت الآیۃ: ۴۲-۴۴، ص۱۲۸۱، جلالین، المعارج، تحت الآیۃ: ۴۲-۴۴، ص۴۷۴، ملتقطاً)

 

Scroll to Top