سُوْرَۃ مَرْيَم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

ترجمہ: کنزالعرفان

اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ، رحمت والاہے ۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ بِسْمِ اللّٰهِ: اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔(کنز العمال، کتاب الاذکار،   الباب السابع  فی تلاوۃ  القراٰن  وفضائلہ،  الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷،  الجزءالاول، الحدیث:۲۴۸۸)

 لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔

{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے  ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)

 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:

       علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

 (1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔

(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام جو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔

(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔

(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔

(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔

(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔

كٓهٰیٰعٓصٓ(1)ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهٗ زَكَرِیَّا(2)

ترجمہ: کنزالعرفان

كهیعص۔ یہ تیرے رب کی اپنے بندے زکریا پر رحمت کا ذکر ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ كٓهٰیٰعٓصٓ: } یہ حروفِ مُقَطَّعات ہیں ،ان کی مراد  اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔

{ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ:یہ تیرے رب کی رحمت کا ذکر ہے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم آپ کے سامنے جو بیان کررہے ہیں  یہ آپ کے رب عَزَّوَجَلَّ کی اس رحمت کا ذکر ہے جو اس نے اپنے بندے حضرت زکریا عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر فرمائی۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۲، ۳ / ۲۲۸)

نیک بیٹا  اللہ تعالیٰ کی بڑی رحمت ہے:

         اس آیت میں   اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مراد نیک اور صالح بیٹا عطا فرمانا ہے اور بیٹا عطا فرمانے کے تذکرے کو رحمت ِ الہٰی کا تذکرہ فرمایا گیا ہے ،اس سے معلوم ہوا کہ نیک اور صالح بیٹا  اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بڑی رحمت ہے خصوصاً جب کہ بڑھاپے میں  عطا ہو۔ یاد رہے کہ نیک اولاد سے جس طرح دنیا میں  فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنے والدین کی خدمت کرتی ہے اور بڑھاپے میں  ان کا سہارا بنتی ہے ، اسی طرح مرنے کے بعد بھی نیک اولاد اپنے والدین کو نفع پہنچاتی ہے ، جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس کے اَعمال مُنقطع ہو جاتے ہیں  لیکن تین عمل منقطع نہیں  ہوتے (1) صدقۂ جاریہ۔ (2) علمِ نافع۔ (3) نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرتی رہتی ہے۔( مسلم، کتاب الوصیۃ، باب ما یلحق الانسان من الثواب بعد وفاتہ، ص۸۸۶، الحدیث: ۱۴(۱۶۳۱))  لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ جب بھی  اللہ تعالیٰ سے اولاد کی دعا مانگے تو نیک اولاد کی دعا مانگے یونہی اسے چاہئے کہ وہ اپنی موجودہ اولاد کو بھی نیک بنانے کی کوشش کرے تاکہ جب وہ دنیا سے جائے تو اس کے پیچھے اس کی بخشش کی دعا مانگنے والابھی کوئی ہو۔

اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ نِدَآءً خَفِیًّا(3)

ترجمہ: کنزالعرفان

جب اس نے اپنے رب کو آہستہ سے پکارا ۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ نِدَآءً خَفِیًّا:جب اس نے اپنے رب کوآہستہ سے پکارا۔} یعنی حضرت زکریا عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے آہستہ آواز میں   اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی ، مفسرین نے آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے آہستہ آواز میں  دعا مانگنے کی چند وجوہات ذکر کی ہیں:

(1)…آہستہ دعا مانگنے میں  اخلاص زیادہ ہوتا ہے اور دعا مانگنے والا ریاکاری سے محفوظ رہتا ہے اس لئے آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے آہستہ دعا فرمائی ۔

 (2)…لوگ اولاد کی دعا مانگنے پر ملامت نہ کریں  کیونکہ اس وقت حضرت زکریا عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عمرشریف 75 یا 80 سال تھی ۔

(3)…حضرت زکریا عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی آوازکمزوری کے باعث آہستہ ہوگئی تھی۔(مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۳، ص۶۶۷، خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۲۲۹، ملتقطاً)

آہستہ آواز میں  دعامانگنے کی فضیلت اوردعا مانگنے کا ایک ادب:

         اس آیت میں  حضرت زکریاعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے آہستہ دعا مانگنے کا ذکر ہے ،آہستہ دعا مانگنے کی فضیلت کے بارے میں  حضرت انس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’آہستہ آواز میں  دعا کرنا 70 بلند آواز کے ساتھ دعاؤں  کے برابر ہے۔( مسند الفردوس، باب الدال، ۲ / ۲۱۴، الحدیث: ۳۰۴۶)

         نیزاس سے معلوم ہوا کہ آہستہ آواز میں  دعا مانگنا دعا کے آداب میں  سے ہے۔ اسی ادب کی تعلیم دیتے ہوئے ایک اور مقام پر  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’ اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةً‘‘(اعراف:۵۵)

ترجمۂ  کنزُالعِرفان: اپنے رب سے گڑگڑاتے ہوئے اور آہستہ آواز سے دعا کرو ۔

اور حضرت علامہ مولانا نقی علی خاں  رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ دعا کے آداب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں  ’’دعا نرم و پَست آواز سے ہو کہ  اللہ تعالیٰ سمیع و قریب ہے، جس طرح چِلانے سے سنتا ہے اسی طرح آہستہ (آواز بھی سنتا ہے) اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں’’بلکہ وہ اسے بھی سنتا ہے جو ہنوز (یعنی ابھی) زبان تک اصلاً نہ آیا یعنی دلوں  کا ارادہ، نیت، خطرہ کہ جیسے اس کا علم تمام موجودات و معدومات کو محیط (یعنی گھیرے ہوئے) ہے یونہی اس کے سَمع و بَصر جمیع موجودات کو عام و شامل ہیں ، اپنی ذات و صفات اور دلوں  کے ارادات و خطرات اور تمام اَعیان و اَعراضِ کائنات ہر شئے کو دیکھتا بھی ہے اور سنتا بھی، نہ اس کا دیکھنا رنگ و ضَوء (یعنی روشنی) سے خاص نہ اس کا سننا آواز کے ساتھ مخصوص۔(فضائل دعا، فصل دوم آدابِ دعا واسبابِ اجابت میں ، ص ۷۶-۷۷)

قَالَ رَبِّ اِنِّیْ وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّیْ وَ اشْتَعَلَ الرَّاْسُ شَیْبًا وَّ لَمْ اَكُنْۢ بِدُعَآىٕكَ رَبِّ شَقِیًّا(4)

ترجمہ: کنزالعرفان

عرض کی: اے میرے رب ! بیشک میری ہڈی کمزور ہوگئی اور سرنے بڑھاپے کا شعلہ چمکا دیا ہے (بوڑھا ہوگیا ہوں ) اور اے میرے رب! میں تجھے پکار کر کبھی محروم نہیں رہا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ:عرض کی:} حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دعا مانگنے کا پورا واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عمر شریف 75 یا 80 سال تک پہنچ چکی تھی مگرآپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس اولاد جیسی نعمت نہ تھی اور آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کواپنے رشتہ داروں  میں  سے بھی کوئی ایسا نیک صالح مرد نظر نہیں  آتا تھا کہ جوآپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات کے بعد اس قابل ہوکہ وہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا جانشین بنے اور  اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے جودین کی خدمت آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سپرد تھی اس کوانجام دے سکے بلکہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے کئی رشتہ دار شریر تھے اور آپ کوخوف تھا کہ کہیں  میرے بعد یہ دین میں  تبدیلیاں  شروع نہ کردیں  اسی وجہ سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بہت فکرمند رہا کرتے تھے ۔ یہی احساس جب بہت زیادہ بڑھا تو بالآخر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں  دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دئیے اوراللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں عرض کردی کہ مجھے نیک صالح بیٹا عطا فرما جو تیرا بھی پسندیدہ ہو اور وہ میرے بعد میرا وارث بنے اور دین کی خدمت کرے۔

{اِنِّیْ وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّیْ:بے شک میری ہڈی کمزور ہوگئی۔} حضرت زکریا عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی دعا کی ابتدا اس طرح کی کہ اے میرے مولیٰ ! عَزَّوَجَلَّ، تو جانتا ہے کہ میں  بوڑھا ہو چکا ہوں  اور بڑھاپے کی کمزوری اس انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ سب سے مضبوط عُضْوْ ہڈی میں  کمزوری آ گئی ہے اور جب یہ کمزور ہو چکی تو باقی اَعضاء کا حال محتاجِ بیان نہیں  اور میرے سرکے بال بھی سفید ہوچکے ہیں  ، اور اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، آج سے پہلے تیری بارگاہ میں  مَیں  نے جوبھی دعائیں  کی ہیں  تونے وہ قبول کی ہیں ، لہٰذا مجھے امید ہے کہ تومیری یہ دعا بھی قبو ل کرے گا۔(مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۴، ص۶۶۷-۶۶۸)

آیت’’ رَبِّ اِنِّیْ وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّیْ‘‘سے حاصل ہونے والی معلومات:

         اس آیت سے چند باتیں  معلوم ہوئیں :

(1)…جب بھی  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  دعا مانگی جائے تو پہلے ان اُمور کو ذکر کیا جائے جن سے دعا مانگنے والے کی عاجزی و اِنکساری کا اظہار ہو۔

(2)…اپنی حاجت عرض کرنے سے پہلے اپنے اوپر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی نعمت و رحمت اور لطف و کرم کا ذکر کیا جائے ۔

(3)… پہلے جو دعا قبول ہو چکی اسے دوبارہ دعا کرتے وقت  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  وسیلہ بنایا جائے۔

(4)… انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعائیں قبول ہوتی ہیں ۔ اسی لیے ان سے دعائیں  کرائی جاتی ہیں ، یونہی اولیاءِ کرام رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِمْ سے بھی اسی لئے دعا کرنے کا عرض کیا جاتا ہے کہ ان کی دعائیں  قبول ہوتی ہیں ۔

وَ اِنِّیْ خِفْتُ الْمَوَالِیَ مِنْ وَّرَآءِیْ وَ كَانَتِ امْرَاَتِیْ عَاقِرًا فَهَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ وَلِیًّا(5)یَّرِثُنِیْ وَ یَرِثُ مِنْ اٰلِ یَعْقُوْبَ ﳓ وَ اجْعَلْهُ رَبِّ رَضِیًّا(6)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بیشک مجھے اپنے بعد اپنے رشتے داروں کا ڈر ہے اور میری بیوی بانجھ ہے، تو مجھے اپنے پاس سے کوئی ایسا وارث عطا فرمادے ۔جو میرا جانشین ہو اور یعقوب کی اولاد کا وارث ہو اور اے میرے رب! اسے پسندیدہ بنادے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِنِّیْ خِفْتُ الْمَوَالِیَ مِنْ وَّرَآءِیْ:اور بیشک میں  اپنے بعد اپنے رشتے داروں  سے ڈرتا ہوں ۔} رشتہ داروں  سے مراد چچازاد بھائی ہیں  اور ڈر کی وجہ یہ تھی کہ وہ بنی اسرائیل کے شریر لوگ تھے اور آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوخوف تھا کہیں  میری وفات کے بعد یہ لوگ دین میں  تبدیلی نہ کردیں  اور صحیح طور پر دین کی خدمت نہ کریں ، اس وجہ سے آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے بعد کے لئے اپنی پشت سے نیک بیٹے کا مطالبہ کیا تاکہ وہ دین کو زندہ رکھنے کے معاملے میں  ان کی پیروی کرے ، چنانچہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یوں  عرض کی: اے میرے رب ! عَزَّوَجَلَّ، بیشک مجھے اپنے بعد اپنے رشتے داروں  کی طرف سے دین میں  تبدیلی کر دینے کا ڈر ہے اور میری بیوی بانجھ ہے جس سے اولاد نہیں  ہو سکتی، تو مجھے اپنے پاس سے کسی سبب کے بغیر کوئی ایسا وارث عطا فرما دے جومیرے علم اور آلِ یعقوب کی نبوت کا وارث ہو (یعنی اسے اس قابل بنا دے کہ اس کی طرف وحی کی جا سکے) اور اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، اسے ایسا بنا دے کہ تو اس سے راضی ہو اور وہ تجھ سے اور تیرے حکم سے راضی ہو۔( مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۵-۶، ص۶۶۸) یاد رہے کہ جس وقت آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بیٹے کے لیے دعا کی اس وقت آپ کی زوجہ کی عمر تقریباً 70 سال تھی۔

{وَ اجْعَلْهُ رَبِّ رَضِیًّا:اور اے میرے رب! اسے پسندیدہ بنا دے۔} حضرت زکریاعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بیٹے کے لیے جو دعا کی تھی اس میں  آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا کے آخر میں  فرمایا تھا کہ اسے اپنا پسندیدہ بندہ بنانا، اس میں  بھی کئی راز پوشیدہ تھے ۔ اس میں  ہمارے لئے نصیحت یہ ہے کہ جب بھی اولاد کی دعا مانگی جائے تو نیک صالح اولاد کی دعا مانگی جائے ، ورنہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دعا مانگی اور قبول ہوئی اور اولاد مل گئی مگر اسی اولاد نے جینا حرام کردیا ہو۔

سورہِ مریم کی آیت 5اور 6سے حاصل ہونے والی معلومات:

            ان آیاتِ مبارکہ سے یہ چیزیں  معلوم ہوئیں :

(1)… حضرت زکریا عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کانیک صالح بیٹے کے لیے دعاکرنادین کے لیے تھا،نہ کہ کسی دُنْیَوی غرض سے۔

(2)… انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وراثت علم وحکمت ہی ہوتی ہے لہٰذا آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا میں  اسی وراثت کا ذکر فرمایا ہے۔

(3)…بیٹے کی دعا کرنا سنت ِانبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہے مگر اس لئے کہ وہ توشۂ آخرت ہو۔ البتہ یہ یاد رہے کہ بیٹی پیدا ہونے پر غم کرنا کفار کا طریقہ ہے۔

یٰزَكَرِیَّاۤ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمِ-ﹰاسْمُهٗ یَحْیٰىۙ-لَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا(7)

ترجمہ: کنزالعرفان

اے زکریا! ہم تجھے ایک لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام یحیٰ ہے ،اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی دوسرا نہ بنایا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ یٰزَكَرِیَّاۤ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمِ:اے زکریا! ہم تجھے ایک لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں۔}  اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریاعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی یہ دعا قبول فرمائی اور ارشاد فرمایا ’’ اے زکریا! ہم تجھے ایک لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں  جو آپ کی طلب کے مطابق (آپ کے علم اور آلِ یعقوب کی نبوت کا) وارث ہو گا، اس کا نام یحیٰ ہے اور اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی دوسرا نہ بنایا کہ ا س کا نام یحیٰ رکھا گیا ہو۔( جلالین، مریم، تحت الآیۃ: ۷، ص۲۵۴)

آیت ’’ یٰزَكَرِیَّاۤ اِنَّا نُبَشِّرُكَ‘‘ سے متعلق تین باتیں :

            یہاں  اس آیتِ مبارکہ سے متعلق 3 باتیں  قابلِ ذکر ہیں :

(1)… سورۂ اٰلِ عمران کی آیت نمبر 39میں  ذکر ہوا کہ حضرت زکریا عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دعا مانگنے کے بعد فرشتوں  نے انہیں  حضرت یحیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بشارت دی اور اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ  اللہ تعالیٰ نے انہیں  حضرت یحیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بشارت دی ، اس کے بارے میں  امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  ’’ہو سکتا ہے کہ بشارت دو مرتبہ دی گئی ہو یعنی ایک مرتبہ  اللہ تعالیٰ نے اور ایک مرتبہ فرشتوں  نے بشارت دی ہو۔(تفسیر کبیر، مریم، تحت الآیۃ: ۷، ۷ / ۵۱۲)

(2)…اس آیت میں   اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کا نام لے کر پکارا، اسی طرح دیگر انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بھی قرآنِ مجید میں  ان کانام لے کر پکارا گیا ہے، اس کے بارے میں  اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  ’’قرآنِ عظیم کا عام محاورہ ہے کہ تمام انبیائے کرام کو نام لے کر پکارتا ہے، مگر جہاں  محمَّد رسولُ اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَسَلَّمَ سے خطاب فرمایا ہے حضور کے اَوصافِ جلیلہ و اَلقابِ جمیلہ ہی سے یاد کیا ہے (چنانچہ کہیں  ارشاد فرمایا)

’’ یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ‘‘(احزاب:۴۵)                 اے نبی ہم نے تجھے رسول کیا۔

(کہیں  ارشاد فرمایا)

’’ یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ‘‘(مائدہ:۶۷)   اے رسول پہنچا جو تیری طرف اترا ۔

(کہیں  ارشاد فرمایا)

’’ یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ(۱) قُمِ الَّیْلَ‘‘(مزمل:۱،۲) اے کپڑا اوڑھے لیٹنے والے رات میں  قیام فرما۔

(کہیں  ارشاد فرمایا)

’’ یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُۙ(۱) قُمْ فَاَنْذِرْ‘‘(مدثر:۱،۲)   اے جھرمٹ مارنے والے کھڑا ہو ،لوگوں  کو ڈر سنا۔

(کہیں  ارشاد فرمایا)

’’ یٰسٓۚ(۱) وَ الْقُرْاٰنِ الْحَكِیْمِۙ(۲) اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ‘‘(یس: ۱-۳)

اے یٰس !،،یا،، اے سردار! مجھے قسم ہے حکمت والے قرآن کی، بے شک تو مُرسَلوں  سے ہے ۔

(کہیں  ارشاد فرمایا)

’’طٰهٰۚ(۱) مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰى‘‘(طہ:۱،۲)

اے طہ! ،،یا،، اے پاکیزہ رہنما! ہم نے تجھ پر قرآن اس لیے نہیں  اتارا کہ تو مشقت میں  پڑے ۔

            ہر ذی عقل جانتا ہے کہ جو ان نداؤں  اور ان خطابوں  کو سنے گا، بِالبداہت حضور سیّد المرسَلین و اَنبیائے سابقین کا فرق جان لے گا۔ ۔۔امام عزّالدین بن عبد السّلام وغیرہ علمائے کرام فرماتے ہیں  ’’ بادشاہ جب اپنے تمام اُمرا کو نام لے کر پکارے اور ان میں  خاص ایک مقرب کو یوں  ندا فرمایا کرے : اے مقربِ حضرت، اے نائب ِسلطنت ،اے صاحبِ عزت ، اے سردارِ مملکت! تو کیا (اس بات میں ) کسی طرح محلِ رَیب وشک باقی رہے گا کہ یہ بندہ بارگاہِ ِسلطانی میں  سب سے زیادہ عزت و وَجاہت والا اور سرکارِ سلطانی کو تمام عَمائد و اَراکین سے بڑھ کر پیارا ہے۔( فتاوی)

(3)…  اللہ تعالیٰ نے حضرت یحیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کویہ فضیلت عطا فرمائی کہ ان کی ولادت سے پہلے ہی ان کا نام رکھ دیا۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بھی یہ فضیلت عطا ہوئی کہ ان کی ولادت سے پہلے ہی ان کا نام بتا دیا گیا اور  اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جو مقام عطا کیا وہ تمام انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے بڑھ کر ہے کہ میثاق کے دن تمام انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی محفل میں  آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا تذکرہ فرمایا، انسان کی تخلیق کا سلسلہ شروع ہونے سے پہلے ہی آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اسمِ گرامی کو اپنے نام کے ساتھ عرش کے پایوں  پر لکھ دیا اور ان کے اسمِ گرامی کے وسیلے سے جب حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا مانگی تو  اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو شرفِ قبولیَّت عطا فرمایا، حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان کے اپنی اولاد میں  ہونے کی دعا مانگی اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا اسمِ مبارک بتا کر صدیوں  پہلے آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دنیا میں  تشریف آوری کی بشارت دی اور یہ وہ مرتبۂ عُظمیٰ ہے جو  اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سوا اور کسی کو عطا نہیں  فرمایا۔

قَالَ رَبِّ اَنّٰى یَكُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ وَّ كَانَتِ امْرَاَتِیْ عَاقِرًا وَّ قَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِیًّا(8)

ترجمہ: کنزالعرفان

عرض کی: اے میرے رب! میرے لڑکا کہاں سے ہوگا حالانکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بڑھاپے کی وجہ سے سوکھ جانے کی حالت کو پہنچ چکا ہوں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ رَبِّ اَنّٰى یَكُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ:عرض کی:اے میرے رب میرے لڑکا کہاں  سے ہوگا۔} حضرت زکریا عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جب بیٹے کی خوشخبری سنی تو عرض کی: اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، میرے ہاں  لڑکا کس طرح ہوگا کیونکہ میری بیوی نے اپنی اور میری جوانی کے زمانے میں  بچہ نہیں  جنا تو اب بڑھاپے کی حالت میں  وہ کس طرح جنے گی اور میں  بھی بڑھاپےکی وجہ سے خشک لکڑی کی طرح سوکھ جانے کی حالت کو پہنچ چکا ہوں ۔( روح البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۸، ۵ / ۳۱۶-۳۱۷)

            یاد رہے کہ حضرت زکریا عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے  اس طرح عرض کرنے میں   اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قدرت پر کسی عدمِ یقین کا اظہار نہیں  تھا بلکہ معلوم یہ کرناتھا کہ بیٹاکس طرح عطا کیا جائے گا، کیا ہمیں  دوبارہ جوانی عطاکی جائے گی یااسی عمرمیں  بیٹا عطا کیا جائے گا۔

قَالَ كَذٰلِكَۚ-قَالَ رَبُّكَ هُوَ عَلَیَّ هَیِّنٌ وَّ قَدْ خَلَقْتُكَ مِنْ قَبْلُ وَ لَمْ تَكُ شَیْــٴًـا(9)

ترجمہ: کنزالعرفان

فرمایا: ایسا ہی ہے ۔تیرے رب نے فرمایا ہے کہ یہ میرے اوپر بہت آسان ہے اور میں نے تو اس سے پہلے تجھے پیدا کیا حالانکہ تم کچھ بھی نہ تھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ كَذٰلِكَ: فرمایا ایسا ہی ہے۔} حضرت زکریاعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عرض کے جواب میں  یہاں  فرمایا گیا کہ بیٹا اسی حالت میں  دیا جائے گا اور یہ میرے اوپر بہت آسان ہے کہ میں  بڑھاپے کے عوارض دور کر کے آپ میں  جوانوں  کی سی قوت و توانائی پیدا کردوں  اور آپ کی بیوی کے مرض کو دور کر کے انہیں  صحت عطا کر دوں  کیونکہ  اللہ تعالیٰ نے حضرت یحیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پہلے آپ کو اس وقت پیدا کر دیا جب آپ کچھ بھی نہ تھے تو جو رب تعالیٰ معدوم کو موجود کرنے پر قادر ہے وہ بڑھاپے میں  اولاد عطا فرمانے پر بھی یقینا قادر ہے ۔

قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِّیْۤ اٰیَةًؕ-قَالَ اٰیَتُكَ اَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَ لَیَالٍ سَوِیًّا(10)

ترجمہ: کنزالعرفان

عرض کی: اے میرے رب! میرے لئے کوئی نشانی مقرر فرما دے۔ فرمایا: تیری نشانی یہ ہے کہ تم بالکل تندرست ہوتے ہوئے بھی تین رات دن لوگوں سے کلام نہ کرسکو گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِّیْۤ اٰیَةً:عرض کی: اے میرے رب!میرے لئے کوئی نشانی مقرر فرمادے۔} حضرت زکریا عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوجب یہ بتا دیا گیا کہ اسی عمر میں  بیٹا عطا ہوگا تو آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مزید عرض کی :اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، میری بیوی کے حاملہ ہونے کی کوئی نشانی بتادی جائے تاکہ میں  اس وقت سے تیری ا س عظیم نعمت کا شکرادا کرنے میں  مشغول ہو جاؤں ۔  اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ آپ کے لئے آپ کی زوجہ کے حاملہ ہونے کی نشانی یہ ہے کہ آپ صحیح سالم ہونے کے باوجود اور گونگا ہونے کے بغیرتین دن رات لوگوں  سے کلام نہ کرسکیں  گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ ان ایام میں  آپ لوگوں  سے کلام کرنے پر قادر نہ ہوئے ، البتہ جب  اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا چاہتے تو زبان کھل جاتی تھی۔( روح البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۱۰، ۵ / ۳۱۷-۳۱۸، خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۱۰، ۳ / ۲۳۰، ملتقطاً)

حقیقی مُؤثِّر  اللہ تعالیٰ ہے:

            اس سے معلوم ہوا کہ آپ کو گُنگ کی بیماری نہ ہوگی کیونکہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس بیماری سے محفوظ ہیں ۔ نیز یہ نشانی بھی بڑی دلچسپ تھی کہ ذِکْرُ اللہ کریں  تو بالکل آسانی سے ہوجائے اور لوگوں  سے کلام فرمانا چاہیں  تو نہ کرسکیں ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مُؤثِّرِ حقیقی  اللہ عَزَّوَجَلَّ ہے اور بقیہ اَشیاء صرف اَسبابِ ظاہری ہیں  ۔  اللہ عَزَّوَجَلَّ چاہے تو آگ سے پیاس بجھے اور پانی سے آگ لگے ۔ آگ کا جلانا اور پانی کا پیاس بجھانا سب اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے کرنے سے ہے۔

فَخَرَ جَ عَلٰى قَوْمِهٖ مِنَ الْمِحْرَابِ فَاَوْحٰۤى اِلَیْهِمْ اَنْ سَبِّحُوْا بُكْرَةً وَّ عَشِیًّا(11)

ترجمہ: کنزالعرفان

پس وہ اپنی قوم کی طرف مسجد سے باہر نکلے تو انہیں اشارہ سے کہا کہ صبح و شام تسبیح کرتے رہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَخَرَ جَ عَلٰى قَوْمِهٖ مِنَ الْمِحْرَابِ:پس وہ اپنی قوم کی طرف مسجد سے باہر نکلے۔} ایک دن حضرت زکریا عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس جگہ سے باہر نکلے جہاں  وہ نماز ادا کیا کرتے تھے اور لوگ محراب کے پیچھے انتظار میں  تھے کہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کے لئے دروازہ کھولیں  تو وہ داخل ہوں  اور نماز پڑھیں  ، جب حضرت زکریا عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام باہر آئے تو آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا رنگ بدلا ہوا تھا اور آپ گفتگو نہیں  فرما سکتے تھے ۔یہ حال دیکھ کر لوگوں  نے دریافت کیا: کیا حال ہے؟ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں  اشارہ سے کہا کہ صبح و شام تسبیح کرتے رہو اور عادت کے مطابق فجر و عصر کی نمازیں  ادا کرتے رہو ، اب حضرت زکریا عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے کلام نہ کر سکنے سے جان لیا کہ آپ کی بیوی صاحبہ حاملہ ہو گئی ہیں۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۱۱، ۳ / ۲۳۰، جلالین، مریم، تحت الآیۃ: ۱۱، ص۲۵۴، ملتقطاً)

فَخَرَ جَ عَلٰى قَوْمِهٖ مِنَ الْمِحْرَابِ فَاَوْحٰۤى اِلَیْهِمْ اَنْ سَبِّحُوْا بُكْرَةً وَّ عَشِیًّا(11)

ترجمہ: کنزالعرفان

پس وہ اپنی قوم کی طرف مسجد سے باہر نکلے تو انہیں اشارہ سے کہا کہ صبح و شام تسبیح کرتے رہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَخَرَ جَ عَلٰى قَوْمِهٖ مِنَ الْمِحْرَابِ:پس وہ اپنی قوم کی طرف مسجد سے باہر نکلے۔} ایک دن حضرت زکریا عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس جگہ سے باہر نکلے جہاں  وہ نماز ادا کیا کرتے تھے اور لوگ محراب کے پیچھے انتظار میں  تھے کہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کے لئے دروازہ کھولیں  تو وہ داخل ہوں  اور نماز پڑھیں  ، جب حضرت زکریا عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام باہر آئے تو آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا رنگ بدلا ہوا تھا اور آپ گفتگو نہیں  فرما سکتے تھے ۔یہ حال دیکھ کر لوگوں  نے دریافت کیا: کیا حال ہے؟ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں  اشارہ سے کہا کہ صبح و شام تسبیح کرتے رہو اور عادت کے مطابق فجر و عصر کی نمازیں  ادا کرتے رہو ، اب حضرت زکریا عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے کلام نہ کر سکنے سے جان لیا کہ آپ کی بیوی صاحبہ حاملہ ہو گئی ہیں۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۱۱، ۳ / ۲۳۰، جلالین، مریم، تحت الآیۃ: ۱۱، ص۲۵۴، ملتقطاً)

وَّ حَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ زَكٰوةًؕ-وَ كَانَ تَقِیًّا(13)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اپنی طرف سے نرم دلی اورپاکیزگی دی اور وہ (اللہ سے) بہت زیادہ ڈرنے والا تھا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ حَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا:اور اپنی طرف سے نرم دلی دی۔} اس آیت میں   اللہ تعالیٰ نے حضرت یحیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی 3 صفات بیان فرمائی ہیں  ۔

(1)… اللہ تعالیٰ نے انہیں  اپنی طرف سے نرم دلی عطا کی اور ان کے دل میں  رِقَّت و رحمت رکھی تا کہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام لوگوں  پر مہربانی کریں  اور انہیں   اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے اور اخلاص کے ساتھ نیک اعمال کرنے کی دعوت دیں ۔

(2)… اللہ تعالیٰ نے انہیں  پاکیزگی دی ۔حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَافرماتے ہیں  کہ یہاں  پاکیزگی سے طاعت و اخلاص مراد ہے۔ اور حضرت قتادہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ پاکیزگی سے مراد عملِ صالح ہے۔(بغوی، مریم، تحت الآیۃ: ۱۳، ۳ / ۱۵۹)

(3)… وہ  اللہ تعالیٰ سے بہت زیادہ ڈرنے والا تھا۔ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  اللہ تعالیٰ کے خوف سے بہت گریہ و زاری کرتے تھے یہاں  تک کہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے رخسار مبارکہ پر آنسوؤں  سے نشان بن گئے تھے ۔

حضرت یحیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اورتاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نرم دلی اور رحمت:

         اس آیت میں   اللہ تعالیٰ نے حضرت یحیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نرم دلی اور رحمت ان الفاظ ’’ وَ حَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا‘‘کے ساتھ بیان فرمائی ،اور اپنے حبیب صَلَّی اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی نرم دلی اور امت پر شفقت ورحمت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا

’’ فَبِمَا  رَحْمَةٍ  مِّنَ  اللّٰهِ  لِنْتَ  لَهُمْ‘‘ (اٰل عمران:۱۵۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:تو اے حبیب! اللہ کی کتنی بڑی مہربانی ہے کہ آپ ان کے لئے نرم دل ہیں ۔اور ارشاد فرمایا: ’’لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ‘‘(توبہ:۱۲۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:بیشک تمہارے پاس تم میں  سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں  پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں  پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں ۔

         اس سے معلوم ہوا کہ  اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بھی کمال درجے کی نرم دلی ، امت کی بھلائی کی حرص اور مسلمانوں  پر شفقت و رحمت عطا کی ہے ۔

نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پاک کرنے والے ہیں :

             اللہ تعالیٰ نے حضرت یحیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں  ارشاد فرمایا کہ ہم نے اپنی طرف سے انہیں  پاکیزگی دی۔ اور اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں  ارشاد فرمایا :

’’لَقَدْ  مَنَّ  اللّٰهُ  عَلَى  الْمُؤْمِنِیْنَ  اِذْ  بَعَثَ  فِیْهِمْ  رَسُوْلًا  مِّنْ  اَنْفُسِهِمْ  یَتْلُوْا  عَلَیْهِمْ  اٰیٰتِهٖ  وَ  یُزَكِّیْهِمْ  وَ  یُعَلِّمُهُمُ  الْكِتٰبَ  وَ  الْحِكْمَةَۚ-وَ  اِنْ  كَانُوْا  مِنْ  قَبْلُ  لَفِیْ  ضَلٰلٍ  مُّبِیْنٍ‘‘(اٰل عمران:۱۶۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:بیشک  اللہ نے ایمان والوں  پر بڑا احسان فرمایا جب ان میں  ایک رسول مبعوث فرمایا جو انہی میں  سے ہے۔وہ ان کے سامنے  اللہ کی آیتیں تلاوت فرماتا ہے اورانہیں  پاک کرتا ہے اور انہیں  کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ یہ لوگ اس سے پہلے یقیناکھلی گمراہی میں  پڑے ہوئے تھے۔

 نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا خوفِ خدا:

         اس آیت میں  حضرت یحیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں  ارشاد ہو اکہ وہ  اللہ تعالیٰ سے بہت زیادہ ڈرنے والے تھے،اس مناسبت سے یہاں  حبیبِ خدا  صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خوفِ خدا کی تین روایات ملاحظہ ہوں ، چنانچہ حضرت انس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ خدا کی قسم! میں  تم سب میں   اللہ عَزَّوَجَلَّ سے زیادہ ڈرنے والا اور خوف کرنے والا ہوں ۔( بخاری، کتاب النکاح، باب الترغیب فی النکاح، ۳ / ۴۲۱، الحدیث: ۵۰۶۳)

         حضرت براء بن عازب رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں : ہم حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ہمراہ ایک جنازے میں  شریک تھے، آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ قبر کے کنارے بیٹھے اور اتنا روئے کہ آپ کی چشمانِ اقدس سے نکلنے والے آنسوؤں  سے مٹی نم ہوگئی ۔ پھر ارشاد فرمایا ’’اے بھائیو! اس قبر کے لئے تیاری کرو۔( ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب الحزن والبکاء، ۴ / ۴۶۶، الحدیث: ۴۱۹۵)

         حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا فرماتی ہیں : جب آندھی اور بادل والا دن ہوتا تورسولِ اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چہرہ ٔ اقدس کا رنگ مُتَغَیّر ہوجاتا اور آپ کبھی حجرہ سے باہر تشریف لے جاتے اور کبھی واپس آجاتے، پھر جب بارش ہو جاتی تو یہ کَیْفِیّت ختم ہوجاتی۔ میں  نے اس کی وجہ پوچھی تو ارشاد فرمایا ’’(اے عائشہ! رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا) مجھے یہ خوف ہوا کہ کہیں  یہ بادل،  اللہ عَزَّوَجَلَّ کا عذاب نہ ہو جو میری امت پر بھیجا گیا ہو۔(شعب الایمان، الحادی عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۱ / ۵۴۶، الحدیث: ۹۹۴)

وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَیْهِ وَ لَمْ یَكُنْ جَبَّارًا عَصِیًّا(14)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور وہ اپنے ماں باپ سے اچھا سلوک کرنے والا تھا اور وہ متکبر ، نافرمان نہیں تھا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ بَرًّۢا بِوَالِدَیْهِ:اور وہ اپنے ماں  باپ سے اچھا سلوک کرنے والاتھا۔} اس آیت میں  حضرت یحیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مزید3صفات بیان کی گئی ہیں ۔

(1)… آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  ماں  باپ کے فرمانبردار اور ان سے اچھا سلوک کرنے والے تھے کیونکہ  اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کے بعد والدین کی خدمت سے بڑھ کرکوئی طاعت نہیں  اور اس پر  اللہ تعالیٰ کایہ قول دلالت کرتاہے:

’’وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا‘‘(بنی اسرائیل۲۳)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں  باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔

(2،3)… آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تکبرکرنے والے اور اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے نافرمان نہیں  بلکہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام عاجزی وانکساری کرنے والے اوراپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت کرنے والے تھے ۔یہاں  جَبّارکے معنی متکبر کے ہیں  اور ایک قول یہ بھی ہے کہ جَبّار وہ شخص ہوتاہے جوغصہ میں  مارے اور قتل کرے۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۱۴، ۳ / ۲۳۰)

لفظِ’’جَبّار‘‘ کے مختلف معنی:

            یاد رہے کہ جبار کا لفظ جب مخلوق کیلئے آئے تو اس کا معنی متکبر ہوتا ہے اور اگر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کیلئے آئے جیسے جبار اس کی صفت ہے تو اس کا معنی بالکل مختلف ہوتا ہے، جیسے ایک معنی ہے: وہ ذات جو اپنی مخلوق پر عالی ہے۔ دوسرا معنی ہے: وہ جو معاملات کو سدھار دیتا ہے ۔ تیسرا معنی ہے: وہ جو اپنے ارادے میں  غالب ہے۔ چوتھا معنی ہے: وہ کہ جس کی سلطنت میں  اس کے حکم کے سوا کسی کا حکم نہ چل سکے۔ یہ سب معانی  اللہ عَزَّوَجَلَّ کے شایانِ شان ہیں ۔

 تکبر سے بچنے کی فضیلت اور عاجزی کے فضائل:

            یہاں  آیت میں  بیان ہوا کہ حضرت یحیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تکبر کرنے والے نہیں  تھے، اس مناسبت سے تکبر سے بچنے کی فضیلت ملاحظہ ہو، چنانچہ حضرت ثوبان رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص اس حال میں  مَرا کہ وہ تین چیزوں  سے بَری تھا: تکبر، خیانت اور دَین (قرض)،تو وہ جنت میں  داخل ہو گا۔( ترمذی، کتاب السیر، باب ما جاء فی الغلول، ۳ / ۲۰۸، الحدیث: ۱۵۷۸) نیز عاجزی کے فضائل پر مشتمل 3اَحادیث بھی ملاحظہ ہوں :

(1)…حضرت قتادہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بے شک  اللہ عَزَّوَجَلَّ نے میری طرف وحی فرمائی کہ تم لوگ اتنی عاجزی اختیار کرو یہاں  تک کہ تم میں  سے کوئی کسی پرنہ فخر کرے نہ کسی پر ظلم کرے۔(مسلم، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب الصفات التی یعرف بہا فی الدنیا اہل الجنّۃ واہل النار، ص۱۵۳۳، الحدیث: ۶۴(۲۸۶۵))

(2)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے ،سرکارِ دو عالَم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ صدقہ مال میں  کمی نہیں  کرتا اور  اللہ عَزَّوَجَلَّ بندے کے دوسروں  کو معاف کردینے کی وجہ سے اس کی عزت میں  اضافہ فرما دیتا ہے اور جو شخص  اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے عاجزی اختیار کرتا ہے  اللہ عَزَّوَجَلَّ اسے بلندی عطا فرماتا ہے ۔( مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب استحباب العفو والتواضع، ص۱۳۹۷، الحدیث: ۶۹(۲۵۸۸))

(3)… حضرت رَکْب مصری رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’خوشخبری ہے اس کے لئے جوعیب نہ ہونے کے باوجود تواضع اختیار کرے ،اورمسکینی کے بغیر خود کوذلیل سمجھے ،اور اپنا جمع کیا ہوا مال نیک کاموں  میں  خرچ کرے ، اور بے سروسامان اور مسکین لوگوں  پررحم کرے اور علم وحکمت والے لوگوں  سے میل جول رکھے ، اور خوش بختی ہے اس کے لئے جس کی کمائی پاکیزہ ہو، باطن اچھا ہو، ظاہر بزرگی والا ہو اور جو لوگوں  کو اپنے شر سے محفوظ رکھے ،اور سعادت مندی ہے اس کے لئے جواپنے علم پرعمل کرے ، اپنی ضرورت سے زائد مال کوراہِ خدا میں  خرچ کرے اور فضول گوئی سے رک جائے۔( معجم الکبیر، باب الراء، رکب المصری، ۵ / ۷۱، الحدیث: ۴۶۱۶) اللہ تعالیٰ ہمیں  تکبر سے بچنے اور عاجزی و انکساری اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

وَ سَلٰمٌ عَلَیْهِ یَوْمَ وُلِدَ وَ یَوْمَ یَمُوْتُ وَ یَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّا(15)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اس پر سلامتی ہے جس دن وہ پیدا ہوا اور جس دن وہ فوت ہوگا اورجس دن وہ زندہ اٹھایا جائے گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ سَلٰمٌ عَلَیْهِ:اور اس پر سلامتی ہے ۔} یعنی جس دن حضرت یحیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پیدا ہوئے اس دن ان کے لئے شیطان سے امان ہے کہ وہ عام بچوں  کی طرح آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کونہ چھوئے گا اور جس دن آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام وفات پائیں  گے اس دن ان کے لئے عذابِ قبرسے امان ہے اور جس دن آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو زندہ اٹھایا جائے گا اس دن ان کے لئے قیامت کی سختی سے امان ہے ۔ اس آیت کی تفسیر میں  ایک قول یہ بھی ہے کہ پیدا ہونے، وفات پانے اور زندہ اٹھائے جانے کے یہ تینوں  دن بہت وحشت ناک ہیں  کیونکہ ان دنوں  میں  آدمی وہ دیکھتا ہے جو اِس سے پہلے اُس نے نہیں  دیکھا ، اس لئے ان تینوں  مَواقع پرانتہائی وحشت ہوتی ہے، تو  اللہ تعالیٰ نے حضرت یحیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اِکرام فرمایا کہ انہیں  ان تینوں  مواقع پر امن و سلامتی عطا فرمائی۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۱۵، ۳ / ۲۳۰-۲۳۱)

           حضرت سفیان بن عیینہ  رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں : کہ انسان کوتین دنوں  میں  وحشت کا سامنا ہوتا ہے، جب وہ پیدا ہوتا ہے تو وہ ماں  کے پیٹ سے باہر آکر ایک نئی دنیا کا سامنا کرتا ہے اور وہ جب مرتا ہے توایسی قوم دیکھتاہے جسے پہلے کبھی نہیں  دیکھا ہوتا اور جب دوبارہ زندہ کیا جائے گا تو اپنے آپ کوایک عظیم محشرمیں  پائے گا جس کی مثل اس نے کبھی نہ دیکھا ہوگا تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت یحیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوان تینوں  وقتوں  میں  امان وسلامتی کا مژدہ دیا۔( بغوی، مریم، تحت الآیۃ: ۱۵، ۳ / ۱۵۹) یاد رہے کہ سلامتی تو یقینا ہر نبی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حاصل ہے لیکن بطورِ خاص  اللہ عَزَّوَجَلَّ کا بشارت دینا ایک جداگانہ فضیلت رکھتا ہے۔

ولادت کے دن خوشی کرنے اور وفات کے دن غم کا اظہار نہ کرنے کی وجہ:

          اس آیت میں   اللہ تعالیٰ نے حضرت یحیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ولادت کے دن ان پر سلام بھیجا،ا س سے معلوم ہو اکہ نبی عَلَیْہِ  السَّلَام کی ولادت کے دن ان پر سلام بھیجنا  اللہ تعالیٰ کی سنت ہے، اسی وجہ سے اہلسنّت وجماعت بارہ ربیع الاوّل کے دن  اللہ تعالیٰ کے حبیب اور تمام اَنبیاء کے سردار صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ولادت کا دن مناتے ہیں  اور اس دن آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر درود وسلام کی کثرت کرتے ہیں ، نظم و نثر کی صورت میں آپ کی شان اور آپ کے فضائل و مناقب بیان کرتے ہیں  ۔ فی زمانہ کچھ لوگ اسی آیتِ مبارکہ کو بیان کر کے یہ اعتراض کرتے ہیں  کہ حضرت یحیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات کے دن بھی ان پر سلام بھیجا گیا ہے اس لئے تم جس طرح رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے میلاد کا دن خوشی کا اظہار کر کے مناتے ہو اسی طرح ان کی وفات کا دن بھی غم ظاہر کر کے منایا کرو۔ اس کا جواب یہ ہے کہ  اللہ تعالیٰ نے ہمیں  قرآنِ مجید میں  اپنی نعمت کا چرچا کرنے اور اپنا فضل و رحمت ملنے پر خوشی منانے کا حکم دیا ہے اور چونکہ حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے بڑی  اللہ تعالیٰ کی کوئی نعمت نہیں  اور حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی  اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا فضل اور سب سے بڑی رحمت ہیں  اس لئے جس دن  اللہ تعالیٰ نے ہمیں  اپنا حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عطا کیا اس دن ہم آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا میلاد مناتے ، آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت و شان کے چرچے کرتے اور آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دنیا میں  تشریف آوری کے دن خوشیاں  مناتے ہیں ۔وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مَرْیَمَۘ-اِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ اَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِیًّا(16)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور کتاب میں مریم کو یاد کرو جب وہ اپنے گھر والوں سے مشرق کی طرف ایک جگہ الگ ہوگئی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مَرْیَمَ:اور کتاب میں  مریم کو یاد کرو۔} اس سے پہلی آیات میں  حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان ہوا کہ انہیں  بڑھاپے کی حالت میں  اور زوجہ کے بانجھ ہونے کے باجود  اللہ تعالیٰ نے ایک نیک اور صالح بیٹا عطا فرمایا اور یہ واقعہ  اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بہت بڑی دلیل ہے، اب یہاں  سے  اللہ تعالیٰ کی قدرت پر دلالت کرنے والا ایک اور انتہائی حیرت انگیز واقعہ بیان کیا جا رہا ہے، چنانچہ  اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’اے پیارے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،آپ قرآنِ کریم میں  حضرت مریم  رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا کا واقعہ پڑھ کر ان لوگوں  کو سنائیے تاکہ انہیں  ان کا حال معلوم ہو ، جب وہ اپنے گھر والوں  سے مشرق کی طرف ایک جگہ الگ ہوگئی اوراپنے مکان میں  یا بیت المقدس کی شرقی جانب میں  لوگوں  سے جدا ہو کر عبادت کے لئے خَلْوَت میں  بیٹھیں ۔(مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۱۶، ص۶۶۹-۶۷۰)

حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا  کی فضیلت:

            مریم کے معنی ہیں  عابدہ، خادمہ۔ آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہابچپن سے بیت ُالمقدس کی خادمہ تھیں  اور وہاں  رہ کر  اللہ تعالیٰ کی عبادت کیا کرتی تھیں  اور حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہاکے فضائل میں  سے ہے کہ قرآنِ کریم میں  عورتوں  میں  سے صرف آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا  کا نامِ مبارک ذکر کیا گیا ہے، نیز آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا کی شان کے بارے میں سورۂ اٰلِ عمران میں  فرمایا گیا

’’وَ اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓىٕكَةُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰىكِ وَ طَهَّرَكِ وَ اصْطَفٰىكِ عَلٰى نِسَآءِ الْعٰلَمِیْنَ‘‘(اٰل عمران:۴۲)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور (یاد کرو) جب فرشتوں  نے کہا، اے مریم، بیشک  اللہ نے تمہیں  چن لیاہے اور تمہیں  خوب پاکیزہ کردیا ہے اور تمہیں  سارے جہان کی عورتوں  پر منتخب کرلیا ہے۔

فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِهِمْ حِجَابًا ﱏ فَاَرْسَلْنَاۤ اِلَیْهَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِیًّا(17)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو ان (لوگوں ) سے ادھر ایک پردہ کرلیا تو اس کی طرف ہم نے اپنا روحانی (جبرئیل) بھیجا تووہ اس کے سامنے ایک تندرست آدمی کی صورت بن گیا

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِهِمْ حِجَابًا:تو ان سے ادھر ایک پردہ کرلیا۔} جب حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہاخَلْوَت میں  تشریف لے گئیں  تو آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا نے اپنے اور گھر والوں  کے درمیان پردہ کر لیا، اس وقت  اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہاکی طرف حضرت جبرئیل عَلَیْہِ  السَّلَام کو بھیجا تو آپ عَلَیْہِ  السَّلَام حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا کے سامنے نوجوان، بے ریش، روشن چہرے اور پیچ دار بالوں  والے آدمی کی صورت میں  ظاہر ہوئے۔حضرت جبرئیل عَلَیْہِ  السَّلَام کے انسانی شکل میں  آنے کی حکمت یہ تھی کہ حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا ان کے کلام سے مانوس ہو جائیں  اور ان سے خوف نہ کھائیں  کیونکہ اگر حضرت جبرئیل عَلَیْہِ  السَّلَام اپنی ملکوتی شکل میں  تشریف لاتے تو حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا خوفزدہ ہو جاتیں  اور آپ عَلَیْہِ  السَّلَام کا کلام سننے پر قادر نہ ہوتیں ۔( مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۶۷۰، ملتقطاً)

نوری وجود بشری صورت میں  آ سکتا ہے:

         اس آیت سے معلوم ہوا کہ نور ی وجود بشری صورت میں  آسکتا ہے۔ حضرت علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  ’’حضرت جبریل عَلَیْہِ  السَّلَام فرشتہ ہیں  ،نور ہیں  اور حضرت مریم کے پاس بشری شکل میں  ظاہر ہوئے، اس وقت اس بشری شکل کی وجہ سے (حضرت جبریل عَلَیْہِ  السَّلَام) نورانیت سے علیحدہ نہیں  ہو گئے ۔صحابہ کرام نے حضرت جبریل کو بشری شکل میں  دیکھا، سیاہ زلفیں ، سفید لباس ، آنکھ، ناک، کان وغیرہ سب موجود ہیں ، اس کے باوجود بھی وہ نور تھے ، اسی طرح حضرت ابراہیم، حضرت لوط، حضرت داؤدعَلَیْہِمُ السَّلَام کے خدمات میں  فرشتے شکلِ بشری میں  گئے۔ رب فرماتا ہے: ’’هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ ضَیْفِ اِبْرٰهِیْمَ الْمُكْرَمِیْنَۘ(۲۴) اِذْ دَخَلُوْا عَلَیْهِ فَقَالُوْا سَلٰمًاؕ-قَالَ سَلٰمٌۚ-قَوْمٌ مُّنْكَرُوْنَ‘‘(ذاریات:۲۴ ،۲۵)

(ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے محبوب! کیا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں  کی خبر آئی۔جب وہ اس کے پاس آئے تو کہا: سلام،(حضرت ابراہیم نے)فرمایا، ’’سلام ‘‘(تم)اجنبی لوگ ہو۔)

 (اور فرماتا ہے)

’’وَ هَلْ اَتٰىكَ نَبَؤُا الْخَصْمِۘ-اِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَۙ(۲۱) اِذْ دَخَلُوْا عَلٰى دَاوٗدَ فَفَزِعَ مِنْهُمْ قَالُوْا لَا تَخَفْۚ-خَصْمٰنِ بَغٰى بَعْضُنَا عَلٰى بَعْضٍ‘‘(ص:۲۱ ،۲۲)

(ترجمۂ کنزُالعِرفان: کیا تمہارے پاس ان دعویداروں  کی خبر آئی جب وہ دیوار کود کر مسجد میں  آئے ۔جب وہ داؤد پر داخل ہوئے تو وہ ان سے گھبرا گیا۔ انہوں  نے عرض کی: ڈرئیے نہیں  ہم دو فریق ہیں  ، ہم میں  سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے۔)

(اور فرماتا ہے)

’’ وَ لَمَّاۤ اَنْ جَآءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِیْٓءَ بِهِمْ وَ ضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَّ قَالُوْا لَا تَخَفْ وَ لَا تَحْزَنْ- اِنَّا مُنَجُّوْكَ وَ اَهْلَكَ اِلَّا امْرَاَتَكَ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ‘‘(عنکبوت:۳۳)

(ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور جب ہمارے فرشتے لوط کے پاس آئے توانہیں  فرشتوں  کا آنا برا لگا اور ان کے سبب دل تنگ ہوا اورفرشتوں  نے کہا: آپ نہ ڈریں  اور نہ غمگین ہوں ، بیشک ہم آپ کو اور آپ کے گھر والوں  کو بچانے والے ہیں  سوائے آپ کی بیوی کے کہ پیچھے رہ جانے والوں  میں  سے ہے۔)

         ان تمام آیتوں  سے معلوم ہوا کہ فرشتے انبیاءِ کرام کی خدمت میں  انسانی شکل بشری صورت میں  حاضر ہوتے تھے، مگر اس کے باوجود وہ نور بھی ہوتے تھے، غرضیکہ نورانیت و بشریت ضدیں  نہیں ۔( رسائل نعیمیہ، رسالہ نور، ص۷۸۷۹)

قَالَتْ اِنِّیْۤ اَعُوْذُ بِالرَّحْمٰنِ مِنْكَ اِنْ كُنْتَ تَقِیًّا(18)قَالَ اِنَّمَاۤ اَنَا رَسُوْلُ رَبِّكِ ﳓ لِاَهَبَ لَكِ غُلٰمًا زَكِیًّا(19)

ترجمہ: کنزالعرفان

مریم بولی: میں تجھ سے رحمٰن کی پناہ مانگتی ہوں اگر تجھے خدا کا ڈر ہے۔ کہا: میں توتیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں تا کہ میں تجھے ایک پاکیزہ بیٹا عطا کروں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَتْ اِنِّیْۤ اَعُوْذُ بِالرَّحْمٰنِ مِنْكَ:مریم بولی: میں  تجھ سے رحمان کی پناہ مانگتی ہوں۔} جب حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا نے خَلْوَت میں  اپنے پاس ایک بے ریش نوجوان کو دیکھا تو خوفزدہ ہوگئیں  اور فرمایا کہ میں تجھ سے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی پناہ مانگتی ہوں ، اگر تم میں  کچھ خدا خوفی ہے تویہاں  سے چلے جاؤ۔ اس کلام سے آپ کی انتہائی پاکدامنی اور تقویٰ کا پتہ چلتا ہے کہ آپ نے چیخ کر کسی او ر کو آواز نہ دی بلکہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے پناہ مانگی تاکہ اس واقعہ کی کسی کو خبر نہ ہو ۔

{قَالَ اِنَّمَاۤ اَنَا رَسُوْلُ رَبِّكِ: کہا:میں  توتیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں ۔} جب حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا خوفزدہ ہوئیں  تواس وقت حضرت جبرئیل عَلَیْہِ  السَّلَام نے کہا کہ میں  فرشتہ ہوں  اور تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں  تاکہ میں  تمہیں  ایک ستھرا اور پاکیزہ بیٹا عطا کروں ۔

آیت’’لِاَهَبَ لَكِ غُلٰمًا زَكِیًّا‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس آیت سے 3 باتیں  معلوم ہوئیں :

(1)…  اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے  اللہ تعالیٰ کے بعض کاموں  کو اپنی طرف منسوب کر سکتے ہیں ، جیسے کسی کوبیٹا دینا در حقیقت  اللہ تعالیٰ کا کام ہے لیکن حضرت جبرئیل عَلَیْہِ  السَّلَام نے فرمایا کہ میں  تجھے ایک پاکیزہ بیٹا عطا کروں ۔

(2)… اللہ تعالیٰ کے بعض کام اس کے بندوں  کی طرف منسوب کئے جا سکتے ہیں ، لہٰذا یہ کہنا درست ہے کہ سیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جنت دیتے ہیں  اور  اللہ تعالیٰ کے اَولیاء اولاد دیتے ہیں، وغیرہ۔

(3)…  اللہ تعالیٰ اپنے مقبول بندوں  کو اولاد عطا کرنے کی طاقت اور اجازت دیتا ہے اور وہ  اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی طاقت واجازت سے اولاد عطا بھی کرتے ہیں ، جیسے  اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل عَلَیْہِ  السَّلَام کو بیٹا دینے کی طاقت اور اجازت دی اور آپ عَلَیْہِ  السَّلَام نے  اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی طاقت اور اجازت سے حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا کو بیٹا عطا کی.\

قَالَتْ اَنّٰى یَكُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ وَّ لَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ وَّ لَمْ اَكُ بَغِیًّا(20)

ترجمہ: کنزالعرفان

مریم نے کہا: میرے لڑکا کہاں سے ہوگا؟ حالانکہ مجھے تو کسی آدمی نے چھوا تک نہیں اور نہ ہی میں بدکار ہوں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَتْ اَنّٰى یَكُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ:کہا: میرے لڑکا کہاں  سے ہوگا؟} حضرت جبرئیل عَلَیْہِ  السَّلَام نے جب حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہاکوبیٹے کی خوشخبری دی توآپ حیران ہوگئیں  اور کہنے لگیں : کسی عورت کے ہاں  اولاد ہونے کا جو ظاہری سبب ہے وہ مجھ میں  پایا نہیں  جا رہا کیونکہ نہ تو میرا کسی سے نکاح ہوا ہے اور نہ ہی میں  بدکار عورت ہوں  تو پھر میرے ہاں  لڑکا کہاں  سے ہو گا؟ یاد رہے کہ حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہاکی یہ حیرانی اس وجہ سے نہ تھی کہ آپ  اللہ تعالیٰ کی قدرت سے یہ کام بعید سمجھتی تھیں  بلکہ آپ اس لئے حیران ہوئی تھیں  کہ باپ کے بغیر اولاد کا ہونا خلافِ عادت تھا اور عادت کے برخلاف کام ہونے پر حیرت زدہ ہو جانا ایک فِطرتی امر ہے۔

قَالَ كَذٰلِكِۚ-قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَیَّ هَیِّنٌۚ-وَ لِنَجْعَلَهٗۤ اٰیَةً لِّلنَّاسِ وَ رَحْمَةً مِّنَّاۚ-وَ كَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا(21)

ترجمہ: کنزالعرفان

جبرئیل نے کہا : ایسا ہی ہے۔ تیرے رب نے فرمایا ہے کہ یہ میرے اوپر بہت آسان ہے اور تاکہ ہم اسے لوگوں کیلئے نشانی بنادیں اور اپنی طرف سے ایک رحمت (بنادیں ) اور یہ ایسا کام ہے جس کا فیصلہ ہوچکا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ كَذٰلِكِ:جبرئیل نے کہا : ایسا ہی ہے۔} حضرت جبرئیل عَلَیْہِ  السَّلَام نے جواب دیا: اے مریم! رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا،  اللہ تعالیٰ کی مرضی یہی ہے کہ وہ آپ کو کسی مرد کے چھوئے بغیر ہی لڑکا عطا فرمائے اور آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا کے رب عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا ہے کہ آپ کو بغیر باپ کے بیٹا دینا میرے اوپر بہت آسان ہے، کیونکہ میں  اَسباب اور واسطوں  کا محتاج نہیں  ہوں  اور آپ کو اس طرح بیٹا دینے میں  ایک حکمت یہ ہے کہ ہم اسے لوگوں  کیلئے نشانی اور اپنی قدرت کی بُرہان بنا دیں  اور اُن لوگوں  کے لئے اپنی طرف سے ایک رحمت بنا دیں  جو اِس کے دین کی پیروی کریں  اور اِس پر ایمان لائیں  اور یہ ایسا کام ہے جس کا  اللہ تعالیٰ کے علم میں  فیصلہ ہوچکا ہے جو کہ اب نہ رد ہو سکتا ہے اور نہ بدل سکتا ہے ۔ جب حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا  کو اطمینان ہوگیا اور ان کی پریشانی جاتی رہی تو حضرت جبرئیل عَلَیْہِ  السَّلَام نے ان کے گریبان میں ،، یا،، آستین میں  ،، یا،، دامن میں ،، یا،، منہ میں  دم کیا اور آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا  اللہ تعالیٰ کی قدرت سے اسی وقت حاملہ ہوگئیں ۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۲۱-۲۲، ۳ / ۲۳۱، مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۲۱، ص۶۷۰، روح البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۲۱، ۵ / ۳۲۳، ملتقطاً)

فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهٖ مَكَانًا قَصِیًّا(22)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر مریم حاملہ ہوگئیں تواسے لے کر ایک دور کی جگہ چلی گئی

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهٖ مَكَانًا قَصِیًّا:پھر مریم حاملہ ہوگئیں  تواسے لے کر ایک دور کی جگہ چلی گئی۔} جب حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا کوحمل کے آثار ظاہر ہوئے تو  اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہاکو اِلہام کیا کہ وہ اپنی قوم سے علیحدہ چلی جائیں  ،اس لئے وہ بیتُ اللّحم میں  چلی گئیں ۔

یوسف نجار کے سوال کا جواب:

            منقول ہے کہ سب سے پہلے جس شخص کو حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہاکے حمل کا علم ہواوہ ان کا چچا زاد بھائی یوسف نجار تھا جو مسجد بیت المقدس کا خادم تھا اور بہت بڑا عابد شخص تھا ۔ اس کو جب معلوم ہوا کہ حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا حاملہ ہیں  تواسے نہایت حیرت ہوئی ۔ وہ جب چاہتا کہ حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا پر تہمت لگائے تو اُن کی عبادت و تقویٰ، ان کا ہر وقت کا حاضر رہنا اور کسی وقت غائب نہ ہونا یاد کرکے خاموش ہوجاتا تھا اور جب حمل کا خیال کرتا تو اُن کو بَری سمجھنا مشکل معلوم ہوتا ۔ بالآخر اُس نے حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا سے کہا کہ میرے دِل میں  ایک بات آئی ہے ہر چند چاہتا ہوں  کہ زبان پر نہ لاؤں  مگر اب صبر نہیں  ہوتا ہے ، آپ اجازت دیجئے کہ میں  کہہ گزروں  تاکہ میرے دل کی پریشانی رفع ہو۔ حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہانے کہا کہ اچھی بات کہو۔ تو اُس نے کہا کہ اے مریم! رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا، مجھے بتاؤ کہ کیا کھیتی بغیر بیج کے اور درخت بغیر بارش کے اور بچہ بغیر باپ کے ہوسکتا ہے؟ حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہانے فرمایا کہ ہاں ، کیا تجھے معلوم نہیں  کہ  اللہ تعالیٰ نے جو سب سے پہلے کھیتی پیدا کی وہ بغیربیج ہی کے پیدا کی اور درخت اپنی قدرت سے بغیر بارش کے اگائے، کیا تو یہ کہہ سکتا ہے کہ  اللہ تعالیٰ پانی کی مدد کے بغیر درخت پیدا کرنے پر قادر نہیں ؟ یوسف نے کہا :میں  یہ تو نہیں  کہتا بے شک میں  اس کا قائل ہوں  کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ہر شے پر قادر ہے ،جسے کُن فرمائے وہ ہوجاتی ہے۔ حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا نے کہا کہ کیا تجھے معلوم نہیں  کہ  اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اُن کی بیوی کو بغیر ماں  باپ کے پیدا کیا۔ حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہاکے اس کلام سے یوسف کا شُبہ رفع ہوگیا اور حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا حمل کے سبب سے ضعیف ہوگئیں  تھیں  اس لئے حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا کی نِیابَت کے طور پر مسجد کی خدمت وہ سر انجام دینے لگا۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۲۲،۳ / ۲۳۲)

تمام مخلوقات کو پہلی بار  اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا:

            یاد رہے کہ  اللہ تعالیٰ نے کائنات میں  جتنی مخلوقات پیدا فرمائیں  ان تمام کی پہلی بار پیدائش اس نے اپنی قدرتِ کاملہ سے فرمائی اور اس کے بعد جن مخلوقات کی افزائش منظور تھی ان کی افزائش کے لئے ظاہری اَسباب مقرر فرمائے اور ان اَسباب کے ذریعے مخلوقات کی افزائش ہوئی، نیز اَسباب مقرر کرنے کے بعد بھی  اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے اِظہار کے لئے بعض مخلوقات کو ان کے ظاہری سبب کے بغیر پیدا فرمایا جیسے حضرت حوّا رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا کو حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پسلی سے پیدا فرما یا اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بغیر باپ کے پیدا فرمایا۔ کائنات میں  اَشیاء کے پہلی بار وجود میں  آنے سے متعلق یہ وہ مُعْتَدِل نظریہ ہے جو عقل اور شریعت کے عین موافق ہے جبکہ اس کے برعکس دَہْرِیّوں  کے نظریات عقل و نظر کے صریح مخالف ہیں  کہ ان کے نظریات کی رُو سے کسی شے کی کوئی ابتداء بنتی ہی نظر نہیں  آتی۔

            یہاں  یہ بھی یاد رہے کہ  اللہ تعالیٰ کی قدرت پر دلالت کرنے والی چیزوں  میں  غورو فکر کرنا اور ان چیزوں  میں   اللہ تعالیٰ کی قدرت کے دلائل تلاش کرنے کے لئے تحقیق اور جستجو کرنا بہت عمدہ کام ہے کیونکہ اس سے  اللہ تعالیٰ کی قدرت دلائل کے ساتھ معلوم ہوتی ہے اور یوں  کفار کے لئے  اللہ تعالیٰ کی قدرت اور ا س کی وحدانیت کا اعتراف کرنے اور  اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کی راہیں  کھلتی ہیں  اور مسلمانوں  کا اپنے رب تعالیٰ پر ایمان مزید مضبوط ہوتا ہے۔

فَاَجَآءَهَا الْمَخَاضُ اِلٰى جِذْعِ النَّخْلَةِۚ-قَالَتْ یٰلَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ هٰذَا وَ كُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا(23)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر بچے کی پیدائش کا درد اسے ایک کھجور کے تنے کی طرف لے آیا تو اس نے کہا: اے کاش کہ میں اس سے پہلے مرگئی ہوتی اور میں کوئی بھولی بسری ہوجاتی

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاَجَآءَهَا الْمَخَاضُ اِلٰى جِذْعِ النَّخْلَةِۚ:پھر بچے کی پیدائش کا درد اسے ایک کھجور کے تنے کی طرف لے آیا۔} جب ولادت کاوقت قریب آیا اور درد کی شدت زیادہ ہوئی تو حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہاکھجور کے ایک سوکھے درخت کے پاس آکر بیٹھ گئیں۔ اب درد کی بھی شدّت تھی اور دوسری طرف مستقبل کے معاملات بھی تھے کہ اگرچہ میں  تو مطمئن ہوں  مگرلوگوں  کوکیسے مطمئن کروں  گی چنانچہ اسی پریشانی کی شدّت سے کہا کہ اے کاش میں  اس سے پہلے ہی مرگئی ہوتی یابھولی بسری ہوجاتی تا کہ یہ تمام معاملات پیش نہ آتے ۔

فَنَادٰىهَا مِنْ تَحْتِهَاۤ اَلَّا تَحْزَنِیْ قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِیًّا(24)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو اسے اس کھجورکے درخت کے نیچے سے پکارا کہ غم نہ کھا بیشک تیرے رب نے تیرے نیچے ایک نہر بنا دی ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَنَادٰىهَا مِنْ تَحْتِهَاۤ اَلَّا تَحْزَنِیْ:تو اسے اس کے نیچے سے پکارا کہ غم نہ کھا۔} جب حضرت مریم رَضِیَ اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا نے درد کی شدت سے مرنے کی تمنا کی تواس وقت حضرت جبرئیل عَلَیْہِ  السَّلَام نے وادی کے نیچے سے پکاراکہ غم نہ کرو، اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ کے لیے آپ کے قریب ایک نہر بنا دی ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا فرماتے ہیں : حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یا حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنی ایڑی زمین پر ماری تو میٹھے پانی کا ایک چشمہ جاری ہو گیا ، کھجور کا درخت سرسبز ہو کرپھل لایا اور وہ پھل پختہ اور رس دار ہو گئے ۔ ایک قول یہ ہے کہ اس جگہ ایک خشک نہر تھی جسے  اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے جاری کر دیا اور کھجور کا خشک درخت سرسبز ہو کر پھل دار ہوگیا۔( مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۲۴، ص۶۷۱، خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۲۴، ۳ / ۲۳۲، ملتقطاً)

وَ هُزِّیْۤ اِلَیْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسٰقِطْ عَلَیْكِ رُطَبًا جَنِیًّا(25)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور کھجور کے تنے کو پکڑ کر اپنی طرف ہلاؤ، وہ تم پر عمدہ تازہ کھجوریں گرائے گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ هُزِّیْۤ اِلَیْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ:اور کھجور کے تنے کو پکڑ کر اپنی طرف ہلاؤ۔} حضرت مریم!رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا، سے کہا گیا کہ آپ جس سوکھے تنے کے نیچے بیٹھی ہیں  اسے اپنی طرف حرکت دیں  تو اس سے آپ پر عمدہ اور تازہ پکی ہوئی کھجوریں  گریں  گی ۔

            اس سے معلوم ہوا کہ حمل کی حالت میں  عورت کے لئے کجھور کھانا فائدہ مند ہے۔ کھجور میں  آئرن بہت ہوتا ہے جو بچے کی صحت و تندرستی میں  بہت معاون ہوتا ہے، البتہ اس حالت میں  کھجوریں  اپنی طبعی حالت کو پیشِ نظر رکھ کر ہی کم یا زیادہ کھائی جائیں ۔

حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا پر  اللہ تعالیٰ کی عنایت و کرم نوازی:

            اگر بنظر ِغائر دیکھا جائے تو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی  پیدائش کے وقت سے ہی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت مریم رَضِیَ اللہ  تَعَالٰی  عَنْہاکواپنی قدرتِ کاملہ کے کئی نظارے دکھا کر تسلی دی کہ دیکھوجوذات تیرے لئے خشک نہر سے پانی جاری کرسکتی ہے اور خشک درخت سے پکی ہوئی کھجوریں  ظاہر کرسکتی ہے وہ آئندہ بھی تمہیں  بے یارو مددگار نہیں  چھوڑے گی لہٰذا تم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کرامتوں  ،عنایتوں  ،شفقتوں  پر نظر کرو اور غم وپریشانی کا اِظہار مت کرو۔

فَكُلِیْ وَ اشْرَبِیْ وَ قَرِّیْ عَیْنًاۚ-فَاِمَّا تَرَیِنَّ مِنَ الْبَشَرِ اَحَدًاۙ-فَقُوْلِیْۤ اِنِّیْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا فَلَنْ اُكَلِّمَ الْیَوْمَ اِنْسِیًّا(26)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو کھا اور پی اور آنکھ ٹھنڈی رکھ پھر اگر تو کسی آدمی کو دیکھے تو (اشارے سے) کہہ دینا کہ میں نے آج رحمٰن کیلئے روزہ کی نذر مانی ہے تو آج ہرگز میں کسی آدمی سے بات نہیں کروں گی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَكُلِیْ وَ اشْرَبِیْ وَ قَرِّیْ عَیْنًا:تو کھا اور پی اور آنکھ ٹھنڈی رکھ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہاسے فرمایا گیا کہ آپ کھجوریں  کھائیں  اور پانی پئیں  اور اپنے فرزند حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اپنی آنکھ ٹھنڈی رکھیں ، پھر اگر آپ کسی آدمی کو دیکھیں  کہ وہ آپ سے بچے کے بارے میں  دریافت کرتا ہے تو اشارے سے اسے کہہ دیں  کہ میں  نے آج رحمٰن کیلئے روزہ کی نذر مانی ہے تو آج ہرگز میں  کسی آدمی سے بات نہیں  کروں  گی۔ حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہاکو خاموش رہنے کی نذر ماننے کا اس لئے حکم دیا گیا تاکہ کلام حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرمائیں  اور ان کا کلام مضبوط حجت ہو جس سے تہمت زائل ہو جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ بیوقوف کے جواب میں  خاموش رہنا اور منہ پھیر لینا چاہئے کہ جاہلوں  کے جواب میں  خاموشی ہی بہتر ہے اور یہ بھی معلوم ہو اکہ کلام کو افضل شخص کے حوالے کر دینا اَولیٰ ہے۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۲۶، ۳ / ۲۳۳، مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۲۶، ص۶۷۱-۶۷۲، ملتقطاً)

چپ رہنے کا روزہ منسوخ ہو چکا ہے:

            یاد رہے کہ پہلے زمانہ میں  بولنے اور کلام کرنے کا بھی روزہ ہوتا تھا جیسا کہ ہماری شریعت میں  کھانے اور پینے کا روزہ ہوتا ہے، البتہ ہماری شریعت میں  چپ رہنے کا روزہ منسوخ ہوگیا ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں  : نبی کریم صَلَّی اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صَومِ وصال (یعنی سحری اور افطار کے بغیر مسلسل روزہ رکھنے) اور چپ کا روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔(مسند امام اعظم، باب العین، روایتہ عن عدی بن ثابت، ص۱۹۲)

فَاَتَتْ بِهٖ قَوْمَهَا تَحْمِلُهٗؕ-قَالُوْا یٰمَرْیَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَیْــٴًـا فَرِیًّا(27)یٰۤاُخْتَ هٰرُوْنَ مَا كَانَ اَبُوْكِ امْرَاَ سَوْءٍ وَّ مَا كَانَتْ اُمُّكِ بَغِیًّا(28)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر عیسیٰ کو اُٹھائے ہوئے اپنی قوم کے پاس آئیں تو لوگ کہنے لگے : اے مریم! بیشک تو بہت ہی عجیب و غریب چیز لائی ہے۔ اے ہارون کی بہن! نہ تو تیرا باپ کوئی برا آدمی تھا اور نہ ہی تیری ماں بدکارتھی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاَتَتْ بِهٖ قَوْمَهَا تَحْمِلُهٗؕ:پھر عیسیٰ کو اُٹھائے ہوئے اپنی قوم کے پاس آئیں ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ولادت کے بعد حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا انہیں  اُٹھائے ہوئے اپنی قوم کے پاس آئیں  ، جب لوگوں  نے حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا کو دیکھا کہ ان کی گود میں  بچہ ہے تو وہ روئے اور غمگین ہوئے ، کیونکہ وہ صالحین کے گھرانے کے لوگ تھے اور کہنے لگے : اے مریم! بیشک تم بہت ہی عجیب و غریب چیز لائی ہو۔ اے ہارون کی بہن! نہ تو تیرا باپ عمران کوئی برا آدمی تھا اور نہ ہی تیری ماں  حنہ بدکار عورت تھی تو پھر تیرے ہاں  یہ بچہ کہاں  سے ہو گیا۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۲۷-۲۸، ۳ / ۲۳۳)

{یٰۤاُخْتَ هٰرُوْنَ:اے ہارون کی بہن!} حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا کوان کی قوم کے لوگوں  نے ہارون کی بہن کہا، اس ہارون سے کون مراد ہے اس کے بارے میں  ایک قول یہ ہے کہ ہارون حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہاکے بھائی کا ہینام تھا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ بنی اسرائیل میں  ایک نہایت نیک وصالح شخص کانام ہارون تھا اور اس کے تقویٰ اور پرہیز گاری سے تشبیہ دینے کے لیے آپ کوہارون کی بہن کہا۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائی ہی ہوں  اگرچہ ان کازمانہ بہت بعید تھا اور ایک ہزار سال کا عرصہ ہوچکا تھا مگر آپ ان کی نسل سے تھیں  اسی لئے ہارون کی بہن کہہ دیا۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۲۸، ۳ / ۲۳۳، مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۶۷۲، ملتقطاً)

فَاَشَارَتْ اِلَیْهِؕ-قَالُوْا كَیْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كَانَ فِی الْمَهْدِ صَبِیًّا(29)

ترجمہ: کنزالعرفان

اس پر مریم نے بچے کی طرف اشارہ کردیا ۔ وہ بولے :ہم اس سے کیسے بات کریں ؟جو ابھی ماں کی گود میں بچہ ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاَشَارَتْ اِلَیْهِ:اس پر مریم نے بچے کی طرف اشارہ کردیا ۔} جب لوگوں  نے حضرت مریم  رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا سے تفصیل پوچھنی چاہی تو چونکہ آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہانے  اللہ تعالیٰ کے حکم سے چپ کاروزہ رکھا ہوا تھا اس لئے آپ نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ اگر کچھ پوچھنا ہے تواس بچے سے پوچھ لویہ جواب دے گا۔ اس پر لوگوں  کو غصہ آیا اور انہو ں  نے کہا کہ جوبچہ ابھی پیدا ہوا ہے وہ کیسے ہم سے بات کرے گا! کیا تم ہم سے مذاق کر رہی ہو؟ یہ گفتگوسن کر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دودھ پینا چھوڑ دیا اور بائیں  ہاتھ پر ٹیک لگا کر لوگوں  کی طرف متوجہ ہوئے اور سیدھے ہاتھ مبارک سے اشارہ کرکے بات کرنا شروع کی۔( روح البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۲۹، ۵ / ۳۳۰، خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۲۹، ۳ / ۲۳۳-۲۳۴، ملتقطاً)

قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰهِ ﳴ اٰتٰىنِیَ الْكِتٰبَ وَ جَعَلَنِیْ نَبِیًّا(30)

ترجمہ: کنزالعرفان

بچے نے فرمایا: بیشک میں اللہ کا بندہ ہوں ، اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰهِ:بچے نے فرمایا بیشک میں   اللہ کابندہ ہوں ۔} حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے لوگوں  سے بات کرنا شروع کی اور فرمایا، میں   اللہ عَزَّوَجَلَّ کابندہ ہوں ، اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے ۔ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اگرچہ کلام کرکے اپنی والدہ ماجدہ سے تہمت کو دور کرنا تھا مگر آپ نے پہلے خود کو  اللہ عَزَّوَجَلَّ کا بندہ قرار دیا تاکہ کوئی اُنہیں  خدا اور خدا کا بیٹا نہ کہے کیونکہ آپ کی نسبت یہ تہمت لگائی جانے والی تھی اور یہ تہمت  اللہ تعالیٰ پر لگتی تھی، اس لئے منصبِ رسالت کاتقاضا یہی تھا کہ والدہ کی برأ ت بیان کرنے سے پہلے اس تہمت کو رفع فرما دیں  جو  اللہ تعالیٰ کے جنابِ پاک میں  لگائی جائے گی اور اسی سے وہ تہمت بھی اٹھ گئی جو والدہ پر لگائی جاتی کیونکہ  اللہ تعالیٰ اس مرتبۂ عظیمہ کے ساتھ جس بندے کو نوازتا ہے، بِالیقین اس کی ولادت اور اس کی فطرت نہایت پاک و طاہر بناتا ہے۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۳۰، ۳ / ۲۳۴)

{اٰتٰىنِیَ الْكِتٰبَ:اس نے مجھے کتاب دی ہے۔} اس کتاب سے انجیل مراد ہے۔ حضرت حسن رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کا قول ہے کہ آپ والدہ کے پیٹ ہی میں  تھے کہ آپ کو توریت کا اِلہام فرما دیا گیا تھا اور جھولے میں  تھے جب آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نبوت عطا کردی گئی اور اس حالت میں  آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا کلام فرمانا آپ کا معجزہ ہے ۔بعض مفسرین نے آیت کے معنی میں  یہ بھی بیان کیا ہے کہ یہ نبوت اور کتاب ملنے کی خبر تھی جو عنقریب آپ کو ملنے والی تھی۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۳۰، ۳ / ۲۳۴، مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۳۰، ص۶۷۲، ملتقطاً)

نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بچپن میں  ملنے والے عظیم ترین فضائل:

         علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  ’’اللہ تعالیٰ نے چار بچوں  کو چار چیزوں  کے ساتھ فضیلت عطا کی:

(1)… حضرت یوسف عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کنویں  میں  وحی کے ساتھ فضیلت دی۔

 (2)… حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھولے میں  کلام کرنے کے ساتھ فضیلت دی۔

 (3)… حضرت سلیمان عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو فہم سے فضیلت دی۔

 (4)… حضرت یحیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بچپن میں  نبوت عطا کر کے فضیلت دی۔

         اور سب سے عظیم فضیلت اور سب سے بڑی نشانی وہ ہے جو  اللہ تعالیٰ نے سیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو عطا کی کہ آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ولادت کے وقت سجدہ فرمایا،  اللہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سینے کو کشادہ فرمایا، آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ولادت کے وقت حوروں  اور فرشتوں  کو خادم بنایا اور ولادت سے پہلے ہی عالَمِ اَرواح میں  آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نبوت سے سرفراز فرما دیا اور یہ عظمت و فضیلت آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کا خاصہ ہے۔( روح البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۳۰، ۵ / ۳۳۰)

حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا اور حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا کی براء ت میں  فرق:

         اس آیت سے معلوم ہوا کہ جب حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا پر بہتان لگا تو ان کی عِفَّت و پاکیزگی خود حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بیان فرمائی۔ اب یہاں   اللہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زوجۂ مُطَہّرہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہاکے ساتھ ہونے والا معاملہ ملاحظہ ہو، چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  :حضرت والد ماجد ’’سُرُورُالْقُلُوْب فِیْ ذِکْرِ الْمَحْبُوْب ‘‘میں  فرماتے ہیں  ’’حضرت یوسف کودودھ پیتے بچے، اور حضرت مریم کو حضرت عیسیٰ کی گواہی سے لوگوں  کی بدگمانی سے نجات بخشی، اور جب حضرت عائشہ پر بہتان اٹھا، خود ان کی پاک دامنی کی گواہی دی، اور سترہ آیتیں  نازل فرمائیں ، اگرچاہتا ایک ایک درخت اور پتھر سے گواہی دلواتا، مگر منظور یہ ہوا کہ محبوبۂ محبوب کی طہارت وپاکی پر خود گواہی دیں  اور عزت واِمتیاز ان کا بڑھائیں ۔(فتاوی رضویہ، رسالہ: تجلی الیقین، ۳۰ / ۱۶۹)

وَّ جَعَلَنِیْ مُبٰرَكًا اَیْنَ مَا كُنْتُ۪-وَ اَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ مَا دُمْتُ حَیًّا(31)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اس نے مجھے مبارک بنایا ہے خواہ میں کہیں بھی ہوں اور اس نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کی تاکید فرمائی ہے جب تک میں زندہ رہوں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ جَعَلَنِیْ مُبٰرَكًا:اور اس نے مجھے مبارک بنایا ہے ۔} حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ مجھے نبوت عطا کرنے کے ساتھ ساتھ  اللہ تعالیٰ نے مجھے لوگوں  کے لئے نفع پہنچانے والا، خیر کی تعلیم دینے والا ، اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والا اور اس کی توحید اور عبادت کی دعوت دینے والا بنایا ہے خواہ میں  کہیں  بھی ہوں  اور جب تک میں  زمین پر زندہ رہوں  تب تک اس نے مجھے نماز کا مُکَلَّف ہونے پر اسے قائم کرنے اور زکوٰۃ کے قابل مال ہونے کی صورت میں  اس کی زکوٰۃ ادا کرنے کاحکم دیا ہے۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۳۱، ۳ / ۲۳۴، مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۳۱، ص۶۷۲، ملتقطاً)

تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی برکات:

حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے مبارک ہونے کاخود اعلان فرمایا جبکہ حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی برکات کو خو د  اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے ،چنانچہ  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے

’’لَقَدْ  مَنَّ  اللّٰهُ  عَلَى  الْمُؤْمِنِیْنَ  اِذْ  بَعَثَ  فِیْهِمْ  رَسُوْلًا  مِّنْ  اَنْفُسِهِمْ  یَتْلُوْا  عَلَیْهِمْ  اٰیٰتِهٖ  وَ  یُزَكِّیْهِمْ  وَ  یُعَلِّمُهُمُ  الْكِتٰبَ  وَ  الْحِكْمَةَۚ-وَ  اِنْ  كَانُوْا  مِنْ  قَبْلُ  لَفِیْ  ضَلٰلٍ  مُّبِیْنٍ‘‘(اٰل عمران:۱۶۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک  اللہ نے ایمان والوں  پر بڑا احسان فرمایا جب ان میں  ایک رسول مبعوث فرمایا جو انہی میں  سے ہے۔وہ ان کے سامنے  اللہ کی آیتیں تلاوت فرماتا ہے اورانہیں  پاک کرتا ہے اور انہیں  کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ یہ لوگ اس سے پہلے یقیناکھلی گمراہی میں  پڑے ہوئے تھے۔

         اور ارشاد فرماتا ہے:

’’لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ‘‘(توبہ:۱۲۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک تمہارے پاس تم میں  سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں  پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں ۔

اور ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِؕ-وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا‘‘(النساء:۶۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لئے کہ  اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور اگر جب وہ اپنی جانوں  پر ظلم کربیٹھے تھے تو اے حبیب! تمہاری بارگاہ میں  حاضر ہوجاتے پھر  اللہ سے معافی مانگتے اور رسول(بھی) ان کی مغفرت کی دعافرماتے تو ضرور  اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا، مہربان پاتے۔

اسی طرح نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت پر رحمت و شفقت کی انتہا اور  اللہ تعالیٰ کی وحدانیت و عبادت کی دعوت دینے کا جذبہ ایساتھا کہ  اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب!

’’فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا‘‘(کہف:۶)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اگر وہ اس بات پر ایمان نہ لائیں  تو ہوسکتا ہے کہ تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کو ختم کردو ۔

سر ِدست یہ چند آیات ذکر کی ہیں  ورنہ قرآنِ مجید میں  سینکڑوں  آیات ایسی ہیں  جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی برکات کو بیان فرمایا ہے۔

آدمی کب تک شرعی اَحکام کا پابند ہے؟

اس آیت سے معلوم ہوا کہ جب تک آدمی زندہ ہے اور کوئی ایسا شرعی عذر نہیں  پایا جا رہا جس سے عبادت ساقط ہو جائے تب تک شریعت کی طرف سے لازم کی گئی عبادات اور دئیے گئے احکامات کا وہ پابند ہے۔ اس میں  ان لوگوں  کے لئے بڑی نصیحت ہے جو شیطان کے بہکاوے میں  آکر لوگوں  سے یہ کہتے ہیں  کہ ہم  اللہ تعالیٰ کی معرفت کے اتنے اعلیٰ مقام پر فائز ہو چکے ہیں  کہ اب ہم پر کوئی عبادت لازم نہیں  رہی اور ہر حرام وناجائز چیز ہمارے لئے مباح ہو چکی ہے۔ جب مخلوق میں اللہ تعالیٰ کی سب سے زیادہ معرفت رکھنے والی اور سب سے مقرب ہستیوں  یعنی اَنبیاء و رُسُل عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عبادات ساقط نہیں  ہوئیں  بلکہ پوری کائنات میں  اللہ تعالیٰ کے سب زیادہ مقرب بندے اور سب سے زیادہ  اللہ تعالیٰ کی معرفت رکھنے والے یعنی ہمارے آقا، محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے بھی عبادات ساقط نہیں  ہوئیں  تو آج کل کے جاہل اور بناوٹی صوفیا کس منہ سے کہتے ہیں  کہ ہم سے عبادات ساقط ہو چکی ہیں ۔ایسے بناوٹی صوفی شریعت کے نہیں  بلکہ شیطان کے پیروکار ہیں  اور اس کی دی ہوئی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے لوگوں  کے دین مذہب اور ایمان پر ڈاکے ڈال رہے ہیں ۔  اللہ تعالیٰ ایسے شریروں  کے شر سے ہمیں  محفوظ فرمائے،اٰمین۔

وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَتِیْ٘-وَ لَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا(32)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور (مجھے) اپنی ماں سے اچھا سلوک کرنے والا (بنایا) اور مجھے متکبر، بدنصیب نہ بنایا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ بَرًّۢا بِوَالِدَتِیْ:اور اپنی ماں  سے اچھا سلوک کرنے والا۔} یعنی  اللہ تعالیٰ نے مجھے میری والدہ کاخدمت گزار بنایا ہے اور مجھے حق بات کے خلاف تکبر کرنے والا اور بدنصیب نہیں  بنایا بلکہ عاجزی اور انکساری کرنے والا بنایا ہے۔

آیت’’وَ بَرًّۢا بِوَالِدَتِیْ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

             اس آیت سے تین باتیں  معلوم ہوئیں  :

(1)…حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی والدہ ماجدہ بدکاری کی تہمت سے بری ہیں  کیونکہ اگر وہ کوئی بدکار عورت ہوتیں  تو ایک معصوم رسول کو ان کے ساتھ بھلائی کرنے اور ان کی تعظیم کرنے کا حکم نہ دیا جاتا۔

(2)…حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں  کیونکہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنی والدہ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیاگیا ہے۔ اس سے ماں  کا مرتبہ بھی معلوم ہوا کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بھی اُن سے حسن ِسلوک کا فرمایا جاتا ہے اور  اللہ تعالیٰ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو فطرت کے اعتبار سے ہی ماں  سے حسن ِ سلوک کرنے والا بناتا ہے۔

(3)… انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بد عقیدگی، بد عملی، بد خلقی اور سخت دلی سے معصوم ہوتے ہیں  کیونکہ بد عقیدہ اور بد عمل لوگ بد بخت ہوتے ہیں  ۔

وَ السَّلٰمُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ وَ یَوْمَ اَمُوْتُ وَ یَوْمَ اُبْعَثُ حَیًّا(33)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور مجھ پر سلامتی ہو جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن وفات پاؤں اور جس دن زندہ اٹھایا جاؤں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ السَّلٰمُ عَلَیَّ:اور مجھ پر سلامتی ہو۔} آخر میں  حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ویساہی کلام کیا جوگزشتہ رکوع میں  حضرت یحیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حوالے سے گزر چکا ہے کہ میں  جس دن پیدا ہوا اس دن مجھ پر سلامتی ہو، جس دن وفات پاؤں  اس دن مجھ پرسلامتی ہو اور جس دن زندہ اٹھایا جاؤں  اس دن مجھ پر سلامتی ہو۔ جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ کلام فرمایا توتمام لوگ خاموش ہوگئے اور ان کوآپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی والدہ ماجدہ کے نیک، پرہیزگار ہونے پر یقین آگیا کہ جوبچہ اس طرح کی باتیں  کر رہا ہے اس کی والدہ ہمارے لگائے ہوئے الزامات سے بَری ہیں ، اس کلام کے بعد آپ خاموش ہوگئے اور دوبارہ اسی وقت کلام کیاجب دوسرے بچوں  کی طرح بولنے کی عمرتک پہنچ گئے۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۳۳، ۳ / ۲۳۴) اس سے معلوم ہوا کہ  اللہ تعالیٰ کے نبی عَلَیْہِ السَّلَام ولادت، زندگی، وفات،حشر ہر جگہ  اللہ عَزَّوَجَلَّ کے امن میں  رہتے ہیں ۔

ذٰلِكَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَۚ-قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِیْ فِیْهِ یَمْتَرُوْنَ(34)

ترجمہ: کنزالعرفان

یہ ہے عیسیٰ مریم کا بیٹا۔ سچی بات جس میں یہ شک کررہے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ذٰلِكَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ:یہ عیسیٰ مریم کا بیٹاہے۔} گزشتہ آیات میں  حضر ت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ولادت کا قصہ تفصیل سے بیان کیا گیا تاکہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ولادت کی اصل حقیقت واضح ہو، اب اس آیت ِمبارکہ سے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے متعلق جویہودی اورعیسائی عقیدہ رکھتے ہیں  اس کی وضاحت شروع کی گئی تاکہ اس بارے میں  بھی اصل حقیقت واضح ہوکہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے متعلق ان کے عقیدے کیا ہیں ۔ یہودی تو مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوجادوگر، ولدُ الزِّنا کہتے تھے اور عیسائی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں  ، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا کے بیٹے ہیں  اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے برگزیدہ نبی اور بندے ہیں  جیساکہ گزشتہ آیات میں  بیان کیا گیا کہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے پیدا ہوتے ہی فرمایا ’’اِنِّیْ عَبْدُاللّٰہِ‘‘میں   اللہ کابندہ ہوں ، اوریوں  آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے تمام باطل نظریات کارد کردیا۔

مَا كَانَ لِلّٰهِ اَنْ یَّتَّخِذَ مِنْ وَّلَدٍۙ-سُبْحٰنَهٗؕ-اِذَا قَضٰۤى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُﭤ(35)

ترجمہ: کنزالعرفان

اللہ کیلئے لائق نہیں کہ وہ کسی کو اپنا بیٹا بنائے ، وہ پاک ہے ۔ جب وہ کسی کام کا فیصلہ فرماتا ہے تو اسے صرف یہ فرماتا ہے ، ’’ہوجا‘‘ تو وہ فوراً ہوجاتا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{مَا كَانَ لِلّٰهِ اَنْ یَّتَّخِذَ مِنْ وَّلَدٍ: اللہ کیلئے لائق نہیں  کہ وہ کسی کو اپنا بیٹا بنائے۔} اس آیت مبارکہ میں  عیسائیوں  کے اس عقیدے کی تردید ہے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بیٹے ہیں ، چنانچہ  اللہ تعالیٰ اولاد سے اپنی پاکی بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ  اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق نہیں  کہ وہ کسی کواپنا بیٹا بنائے اور وہ عیسائیوں  کے لگائے گئے بہتان سے پاک ہے۔ اس کی شان تو یہ ہے کہ جب وہ کسی کام کا فیصلہ فرماتا ہے تواسے صرف یہ فرماتا ہے ، ’’ہوجا‘‘ تو  وہ کام فوراً ہوجاتا ہے، اور جو ایسا قادرِ مُطْلَق ہو اسے بیٹے کی کیا حاجت ہے اور اسے کسی کا باپ کس طرح قرار دیا جا سکتا ہے۔

وَ اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ(36)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور عیسیٰ نے کہا بیشک اللہ میرا اور تمہارارب ہے تو اس کی عبادت کرو۔ یہ سیدھا راستہ ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ:اور بیشک  اللہ میرا اور تمہارا رب ہے۔} اس آیت میں  مذکور کلام حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ہے، چنانچہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نےفرمایا: بیشک اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ میرا اور تمہارارب ہے، اس کے سوا اور کوئی رب نہیں ، تو تم صرف اسی کی عبادت کرو اور  اللہ تعالیٰ کے جو اَحکامات میں  نے تم تک پہنچائے یہ ایسا سیدھا راستہ ہے جو جنت کی طرف لے کر جاتا ہے۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۳۶، ۳ / ۲۳۵)

فَاخْتَلَفَ الْاَحْزَابُ مِنْۢ بَیْنِهِمْۚ-فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ مَّشْهَدِ یَوْمٍ عَظِیْمٍ(37)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر گروہوں کا آپس میں اختلاف ہوگیا تو کافروں کے لئے خرابی ہے ایک بڑے دن کی حاضری سے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاخْتَلَفَ الْاَحْزَابُ مِنْۢ بَیْنِهِمْ:پھر گروہوں  کا آپس میں  اختلاف ہوگیا۔} حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں  حقیقت ِحال واضح ہوجانے کے باوجود لوگوں  میں  ان کے متعلق کئی فرقے بن گئے حالانکہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کااپنی دودھ پینے کی عمر میں  کلام کرنا اور کلام کرنے میں  سب سے پہلے ہی اس اختلاف کی بیخ کنی کرنا کہ میں  ایک بندہ ہوں ، اور مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ خدا یا خدا کا بیٹا نہیں  ہوں  واضح طور پر دلالت کرتا ہے کہ وہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے خاص بندےاور رسول ہیں  ۔

عیسائیوں  کے مختلف فرقے اور ان کے عقائد:

            سورہِ نساء آیت 171کی تفسیر میں  تفسیر خازن کے حوالے سے مذکور ہو چکا کہ عیسائی چار بڑے فرقوں  میں  تقسیم ہو گئے تھے(1) یعقوبیہ۔(2)ملکانیہ۔(3)نسطوریہ۔(4) مرقوسیہ۔ ان میں  سے ہر ایک حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کے بارے میں  جداگانہ کفریہ عقیدہ رکھتا تھا ۔ یعقوبیہ اور ملکانیہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خدا کہتے تھے۔ نسطوریہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خدا کا بیٹا کہتے تھے جبکہ مرقوسیہ فرقے کا عقیدہ یہ تھا کہ وہ تین میں  سے تیسرے ہیں ،اور اس جملے کا کیا مطلب ہے اس میں  بھی ان میں  اختلاف تھا ،بعض تین اُقْنُوم (یعنی وجود) مانتے تھے اور کہتے تھے کہ باپ ،بیٹا، روحُ القدس تین ہیں  اورباپ سے ذات، بیٹے سے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اورروحُ القدس سے ان میں  حلول کرنے والی حیات مراد لیتے تھے گویا کہ اُن کے نزدیک اِلٰہ تین تھے اور اس تین کو ایک بتاتے تھے۔بعض کہتے تھے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ناسُوتِیَّت (یعنی انسانیت) اور اُلُوہِیَّت کے جامع ہیں ، ماں  کی طرف سے اُن میں  ناسوتیت آئی اور باپ کی طرف سے الوہیت آئی ’’تَعَالَی  اللہ  عَمَّا یَقُوْلُوْنَ عُلُوًّا کَبِیْرًا‘‘( اللہ تعالیٰ ظالموں  کی بات سے پاک اور بہت ہی بلند وبالا ہے) یہ فرقہ بندی عیسائیوں  میں  ایک یہودی نے پیدا کی جس کا نام بَوْلَسْ تھا ، اُس نے اُنہیں  گمراہ کرنے کے لیے اس طرح کے عقیدوں  کی تعلیم دی۔( خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۱۷۱، ۱ / ۴۵۴)

            البتہ تفسیر مدارک میں  سورہِ مریم کی اسی آیت کے تحت عیسائیوں  کے تین فرقوں  کا ذکر ہے اور اس میں  ملکانیہ فرقے کے بارے میں  لکھاہے کہ یہ کہتا تھا کہ وہ  اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں ، مخلوق ہیں ا ور نبی ہیں ۔( مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۶۷۳)

          نیز صدرالافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ   نے بھی اسی مقام پر تین فرقوں  کا ذکر کیا ہے اور ملکانیہ فرقے کا عقیدہ بیان کرنے کے بعد لکھا ہے کہ یہ فرقہ مومن تھا۔(خزائن ا لعرفان، مریم، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۵۷۴)

{فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْا:تو کافروں  کے لئے خرابی ہے۔} یعنی ان گروہوں  میں  سے جو کافر ہیں  جب یہ قیامت کے بڑے دن حاضر ہوں  گے تو ان کے لئے شدید عذاب ہے۔

اَسْمِـعْ بِهِمْ وَ اَبْصِرْۙ-یَوْمَ یَاْتُوْنَنَا لٰكِنِ الظّٰلِمُوْنَ الْیَوْمَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(38)

ترجمہ: کنزالعرفان

اس دن کتنا سنتے اور دیکھتے ہوں گے جس دن ہمارے پاس حاضر ہوں گے لیکن آج ظالم کھلی گمراہی میں ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَسْمِـعْ بِهِمْ وَ اَبْصِرْ:اس دن کتنا سنتے اور دیکھتے ہوں  گے۔} یعنی قیامت کے دن جب کافر ہمارے پاس حاضر ہوں  گے تو اس دن خوب سنتے اور دیکھتے ہوں  گے لیکن چونکہ انہوں  نے دنیا میں  حق کے دلائل کو نہیں  دیکھا اور  اللہ تعالیٰ کی وعیدوں  کو نہیں  سنا تو اُس دن کا دیکھنا او رسننا انہیں  کچھ نفع نہ دے گا ۔ بعض مفسرین نے کہا کہ یہ کلام ڈرانے کے طور پر ہے کہ اس دن (وہ اپنے بارے میں ) ایسی ہولناک باتیں  سنیں  اور دیکھیں  گے جن سے ان کے دل پھٹ جائیں  گے، لیکن آج دنیا میں  ظالم کھلی گمراہی میں  ہیں  ،نہ حق دیکھتے ہیں  نہ حق سنتے ہیں  بلکہ بہرے اور اندھے بنے ہوئے ہیں  ، حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کواِلٰہ اور معبود ٹھہراتے ہیں  حالانکہ انہوں  نے صراحت کے ساتھ اپنے بندہ ہونے کا اعلان فرمایا ہے۔

وَ اَنْذِرْهُمْ یَوْمَ الْحَسْرَةِ اِذْ قُضِیَ الْاَمْرُۘ-وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ وَّ هُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ(39)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور انہیں پچھتاوے کے دن سے ڈراؤ جب فیصلہ کردیا جائے گا اور وہ غفلت میں ہیں اورنہیں مانتے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَاَنْذِرْهُمْ یَوْمَ الْحَسْرَةِ:اور انہیں پچھتاوے کے دن سے ڈراؤ۔}ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کافروں  کو اس دن سے ڈرائیں  جس میں  لوگ حسرت کریں  گے، غمزدہ  ہوں  گے اور نیک و بد تمام لوگ پچھتائیں گے اور اس دن اس طرح فیصلہ کر دیا جائے گا کہ جنتیوں کو جنت میں اور دوزخیوں کو دوزخ میں پہنچا کر موت کو بھی ذبح کردیا جائے گا کہ اب ہر شخص ہمیشہ کیلئے اپنی جگہ رہے اور کسی کو موت نہ آئے، انہیں ایسا سخت دن درپیش ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ وہ غفلت میں  پڑے ہوئے ہیں  اور اس دن کے لئے کچھ فکر نہیں کرتے اور نہ ہی اس دن کومانتے ہیں ۔(روح البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۳۹، ۵ / ۳۳۵، مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۳۹، ص۶۷۴، ملتقطاً)

         قیامت کے دن کی اس کیفیت کے بارے میں  حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’(جب اہلِ جنت ،جنت میں  داخل ہو جائیں گے اور دوزخی دوزخ میں رہ جائیں گے تو) موت کوایک سرمئی مینڈھے کی شکل میں لایاجائے گا، اسے جنت اور دوزخ کے درمیان کھڑا کیا جائے گا، پھر ایک منادی ندا کرے گا : اے اہلِ جنت! پس وہ گردن اٹھا کر دیکھیں گے تو ان سے کہا جائے گا: کیاتم اسے جانتے ہو؟ وہ کہیں  گے: ہاں ! جانتے ہیں ، یہ تو موت ہے (کیونکہ سب اسے مرتے وقت دیکھ چکے ہوں  گے) پھر کہا جائے گا: اے دوزخیو! کیا تم اسے پہچانتے ہو؟ وہ جھانک کر دیکھیں  گے اور کہیں  گے :ہاں ، یہ موت ہے۔ پھر موت (کے مینڈھے) کوذبح کرنے کا حکم دیا جائے گا (اور اسے ذبح کر کے) کہا جائے گا: اے اہلِ جنت! تمہیں  ہمیشہ جنت میں  رہنا ہے اور (اس میں  کسی کے لئے) موت نہیں  ہوگی ۔ اے اہلِ جہنم!تم نے دوزخ میں  ہمیشہ رہنا ہے اور اب تمہیں  موت نہیں  آئے گی۔ پھر آپ  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:

’’وَ اَنْذِرْهُمْ یَوْمَ الْحَسْرَةِ اِذْ قُضِیَ الْاَمْرُۘ-وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ وَّ هُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ‘‘

ترجمۂ کنزُ العِرفان: اور انہیں  پچھتاوے کے دن سے ڈراؤ جب فیصلہ کردیا جائے گا اور وہ غفلت میں ہیں اورنہیں مانتے۔‘‘

اور ہاتھ سے دنیا کی طرف اشارہ فرمایا (کہ دنیا کا شیدائی غفلت میں ہے)۔(مسلم، کتاب الجنّۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب النار یدخلہا الجبارون۔۔۔ الخ، ص۱۵۲۶، الحدیث: ۴۰(۲۸۴۹))

اُخروی تیاری کی ترغیب:

اس آیت میں قیامت کے دن کے بارے میں ارشاد ہوا کہ وہ ایسا دن ہے جس میں لوگ حسرت کریں گے اور پچھتائیں گے اور لوگوں کا حال بیان ہو اکہ وہ اس دن کی تیاری سے غافل ہیں اور اس دن کو ماننے پر تیار نہیں ، ان کے بارے میں  ایک اور مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’ قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِلِقَآءِ اللّٰهِؕ-حَتّٰۤى اِذَا جَآءَتْهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً قَالُوْا یٰحَسْرَتَنَا عَلٰى مَا فَرَّطْنَا فِیْهَاۙ-وَ هُمْ یَحْمِلُوْنَ اَوْزَارَهُمْ عَلٰى ظُهُوْرِهِمْؕ-اَلَا سَآءَ مَا یَزِرُوْنَ‘‘(انعام:۳۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ان لوگوں نے نقصان اٹھایا جنہوں  نے اپنے رب سے ملنے کو جھٹلایا یہاں تک کہ جب ان پر اچانک قیامت آئے گی تو کہیں گے : ہائے افسوس اس پر جو ہم نے اس کےماننے میں کوتاہی کی اور وہ اپنے گناہوں کے بوجھ اپنی پیٹھ پر لادے ہوئے ہوں  گے ۔خبردار،وہ کتنا برا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں ۔

      اوران کاانجام بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:

’’اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا وَ رَضُوْا بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ اطْمَاَنُّوْا بِهَا وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنْ اٰیٰتِنَا غٰفِلُوْنَۙ(۷) اُولٰٓىٕكَ مَاْوٰىهُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ‘‘ (یونس: ۷،۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی امید نہیں  رکھتے اور دنیا کی زندگی پسند کر بیٹھے ہیں  اور اس پر مطمئن ہوگئے ہیں اور وہ جو ہماری آیتوں سے غافل ہیں ۔ ان لوگوں کا ٹھکانا ان کے اعمال کے بدلے میں  دوزخ ہے۔

لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ حسرت و پچھتاوے اور عذاب کا دن آنے سے پہلے پہلے  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے گناہوں سے سچی تو بہ کر لے ، اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت میں اپنی زندگی بسر کرنا شروع کر دے اور قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے جو اَحکامات دئیے ان کی پیروی میں لگ جائے، چنانچہ اسی چیز کا حکم دیتے ہوئے  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ اَنِیْبُوْۤا اِلٰى رَبِّكُمْ وَ اَسْلِمُوْا لَهٗ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ(۵۴)وَ اتَّبِعُوْۤا اَحْسَنَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَّ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَۙ(۵۵) اَنْ تَقُوْلَ نَفْسٌ یّٰحَسْرَتٰى عَلٰى مَا فَرَّطْتُّ فِیْ جَنْۢبِ اللّٰهِ وَ اِنْ كُنْتُ لَمِنَ السّٰخِرِیْنَ‘‘(زمر۵۴۔۵۶)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اپنے رب کی طرف رجوع کرواور اس وقت سے پہلے اس کے حضور گردن رکھو کہ تم پر عذاب آئے پھر تمہاری مدد نہ کی جائے۔ اورتمہارے رب کی طرف سے جو بہترین چیزتمہاری طرف نازل کی گئی ہے اس کی اس وقت سے پہلے پیروی اختیار کرلو کہ تم پر اچانک عذا ب آجائے اور تمہیں  خبر (بھی)نہ ہو۔(پھر ایسا نہ ہو)کہ کوئی جان یہ کہے کہ ہائے افسوس ان کوتاہیوں پر جو میں نے اللہ کے بارے میں کیں اور بیشک میں مذاق اڑانے والوں میں  سے تھا۔

اِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْاَرْضَ وَ مَنْ عَلَیْهَا وَ اِلَیْنَا یُرْجَعُوْنَ(40)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک زمین اور جو کچھ اس پر ہے سب کے وارث ہم ہوں گے اور ہماری ہی طرف انہیں لوٹایا جائے گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْاَرْضَ وَ مَنْ عَلَیْهَا:بیشک زمین اور جو کچھ اس پر ہے سب کے وارث ہم ہوں گے۔} ارشاد فرمایا کہ جب قیامت قائم ہو گی تو اس وقت سب کچھ فنا ہو جائے گا اور میری ذات کے سوا کوئی باقی رہے گا نہ کسی کی ظاہری ملکیت باقی ہو گی( اور جب لوگوں کو زندہ کیا جائے گا تو )انہیں ہماری ہی طرف لوٹایا جائے گا اور ہم انہیں ان کے اعمال کی جزا دیں گے۔( مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۴۰، ص۶۷۴)

گناہگاروں کے لئے مقامِ خوف:

اس آیت میں گناہگاروں کے لئے عظیم ڈر اور تنبیہ ہے کہ دنیامیں انہوں نے جس رب تعالیٰ کی نافرمانیاں کی ہیں اور ا س کے دئیے ہوئے اَحکامات کو پامال کیا ہے قیامت کے دن انہیں اسی کی بارگاہ میں لوٹ کر جانا ہے اور اسی کے حضور پیش ہو کر اپنے اعمال کا حساب دینا ہے اور وہ لوگوں کو ان کے اعمال کے مطابق جزا دے گا تو گناہگار لوگ اپنے اعمال کو سامنے رکھتے ہوئے ان کی جزا پر خود ہی غور کر لیں کہ وہ کیا ہو گی،اگر اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنا رحم نہ فرمایا اور ان کے گناہوں کو نہ بخشا تو انہیں جہنم کے انتہائی دردناک عذابات سہنے پڑیں گے،لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حساب کے لئے پیش ہونے سے پہلے پہلے اپنے اعمال کی اصلاح کر لے تاکہ اسے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے اچھی جزا ملے۔

وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ۬ؕ-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا(41)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ بہت ہی سچے نبی تھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ:اور کتاب میں  ابراہیم کو یاد کرو۔} امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں : اس سورت کا (بنیادی) مقصد توحید، رسالت اور حشر کو بیان کرنا ہے اور توحید کا انکار کرنے والے وہ لوگ تھے جو  اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو(اپنا) معبود مانتے تھے، پھر ان لوگوں  کے بھی دو گروہ تھے، ایک گروہ زندہ اور عقل و فہم رکھنے والے انسان کو معبود مانتا تھا اور یہ عیسائیوں  کا گروہ ہے، اور ایک گروہ بے جان اور عقل و فہم نہ رکھنے والی جَمادات کو معبود مانتا تھا اور یہ بتوں  کے پجاریوں  کا گروہ ہے اور یہ دونوں  گروہ اگرچہ گمراہی میں  مُشترک تھے لیکن دوسرا گروہ (پہلے کے مقابلے میں) زیادہ گمراہ تھا، چنانچہ اس سے پہلی آیات میں   اللہ تعالیٰ نے پہلے گروہ کی گمراہی بیان فرمائی اور اب یہاں  سے دوسرے گروہ کی گمراہی بیان فرما رہا ہے، چنانچہ جب حضرت زکریا اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے کا اختتا م ہوا تو گویا کہ ارشاد فرمایا ’’اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ نے حضرت زکریا عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا حال ذکر کردیا اور اب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا حال بیان کریں ۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا حال بیان کرنے کا حکم دینے کی وجہ یہ ہے کہ تمام لوگ اس بات سے واقف تھے کہ نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کی قوم اور آپ کے صحابۂ کرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ کتابوں  کا مطالعہ کرنے اور پڑھنے لکھنے میں  مشغول نہ تھے تو جب آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ واقعہ کسی کمی زیادتی کے بغیر جیسا واقع ہوا تھا ویسا ہی بیان کر دیا تو یہ غیب کی خبر ہوئی اور سیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ(کاغیب کی خبر دینا آپ) کی نبوت کی دلیل اور آپ کا معجزہ ہوا۔(تفسیرکبیر، مریم، تحت الآیۃ: ۴۱، ۷ / ۵۴۱)

             یہاں  بطورِ خاص حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عرب کےمشرکین اپنے آپ کومِلّتِ ابراہیمی کے پیروکار کہتے تھے، اس میں  انہیں  سمجھایا جارہا ہے کہ اگرتم ملت ابراہیمی کے پیروکار ہو توبتوں  کی پوجا کیوں  کرتے ہو؟ تمہارے باپ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام توبتوں  کی پوجانہیں  کرتے تھے بلکہ وہ تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کیا کرتے تھے اور اس میں  کسی کوشریک نہیں  ٹھہراتے تھے۔ اگرتم ملت ابراہیمی پرقائم ہو توان کے دین کواپناؤ اور بت پرستی چھوڑو۔

{اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا:بیشک وہ بہت ہی سچے نبی تھے۔} آیت کے اس حصے میں  حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی صِفات بیان کی جارہی ہیں  کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہمیشہ سچ بولتے تھے اور نبوت کے مرتبے پر بھی فائز تھے۔ بعض مفسرین نے کہا کہ صدیق کے معنی ہیں  کثیرُ التَّصدیق یعنی جو  اللہ تعالیٰ اور اس کی وحدانیت کی، اس کے اَنبیاء اور اس کے رسولوں  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اور مرنے کے بعد اُٹھنے کی تصدیق کرے اور اَحکامِ الٰہیہ بجالائے وہ صدّیق ہے۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۴۱، ۳ / ۲۳۶)

            یاد رہے کہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سچے ہونے کے وصف کو بطورِ خاص بیان کرنے کی یہ حکمت بھی ہوسکتی ہے کہ بعض لوگوں  کو چند واقعات کی وجہ سے شُبہ ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا کلام ان مَواقع پر حقیقت کے مطابق نہیں  تھا۔ ان کی تفہیم کیلئے بطورِ خاص آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سچا فرمایا گیا۔

مقامِ صدّیق اور مقامِ نبوت میں  فرق:

            یہاں  آیت کی مناسبت سے صدیق اور نبی میں  اور صدیق اور ولی میں  فرق ملاحظہ ہو، چنانچہ علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ہر نبی صدیق ہے لیکن اس کا عکس نہیں  (یعنی ہر صدیق نبی نہیں ،اسی طرح) ہر صدیق ولی ہے لیکن اس کا عکس نہیں  (یعنی ہر ولی صدیق نہیں ) کیونکہ صِدِّیْقِیَّت کا مرتبہ نبوت کے مرتبے کے نیچے (اور ا س کے قریب ) ہے۔( صاوی، مریم، تحت الآیۃ: ۴۱، ۴ / ۱۲۳۷)

            اس سے معلوم ہوا کہ اَنبیاء اور رُسُل عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد انسانوں  میں  سب سے بڑا مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کا ہے کیونکہ آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ اَنبیاء اور رسل عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد صدیقیت کے سب سے اعلیٰ مقام پر فائز ہیں ۔

اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ یٰۤاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَ لَا یُبْصِرُ وَ لَا یُغْنِیْ عَنْكَ شَیْــٴًـا(42)

ترجمہ: کنزالعرفان

جب اپنے باپ سے فرمایا: اے میرے باپ! تم کیوں ایسے کی عبادت کررہے ہو جو نہ سنتا ہے اور نہ دیکھتا ہے اور نہ تجھے کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ یٰۤاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ:جب اپنے باپ سے فرمایا: اے میرے باپ! تم کیوں  ایسے کی عبادت کررہے ہو۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے بت پرست (عُرفی) باپ آزَر سے فرمایا ’’ عبادت معبود کی انتہائی تعظیم ہے اور اس کا وہی مستحق ہو سکتا ہے جو اوصاف وکمال والا اور نعمتیں  دینے والا ہو اور وہ صرف  اللہ تعالیٰ ہے جس کا کوئی شریک نہیں ، اس لئے عبادت کا مستحق بھی صرف وہی ہے، جبکہ تم جن بتوں  کی عبادت کررہے ہو ان کا حال یہ ہے کہ یہ نہ توسنتے ہیں ، نہ دیکھتے ہیں  اور نہ ہی تمہارے کسی کام آسکتے ہیں  بلکہ یہ خود تمہارے    محتاج ہیں  کہ اپنی جگہ سے دوسری جگہ بھی نہیں  جاسکتے اور تم نے خود انہیں  اپنے ہاتھوں  سے بنایا ہے تو ایسی ناکارہ اور لاچار مخلوق کی عبادت کرنا اور اس کے سامنے اپنا سرجھکانا اور اس سے کسی بھی قسم کے نفع نقصان کی امید رکھنا انتہائی حماقت کے سوا کچھ نہیں  ہے۔

آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا باپ تھا یا چچا؟

            قرآنِ پاک میں  کئی مقامات پر ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے والد کوتوحید کی دعوت دی اور بت پرستی سے منع کیا اور سورۂ اَنعام کی آیت نمبر 74 میں  اس کا نام آزر بھی مذکور ہے، اب حل طلب معاملہ یہ ہے کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا حقیقی باپ تھا یا نہیں ، چنانچہ اس کے بارے مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں ، بعض مفسرین کے نزدیک آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا حقیقی باپ تھا، بعض کہتے ہیں  کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے والد کا نام تارح ہے اور اس کا لقب آزر ہے، بعض کہتے ہیں  کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قومی زبان میں ان کے باپ کا نام تارخ تھا اور دوسری زبانوں  میں  تارخ کو آزر بولا جاتا تھا، بعض کہتے ہیں  کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے باپ کا نام نہیں  بلکہ قوم کے بڑے بت کا نام آزر تھا اور بعض کہتے ہیں  کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے والد کا نام تارخ تھا جبکہ آزر آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے چچا کا نام تھا اور بڑوں  کی یہ عادت معروف تھی کہ وہ چچا کو باپ کہہ کر پکارتے تھے۔ اور یہ آخری بات ہی درست ہے کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا حقیقی باپ نہیں  بلکہ چچا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حدیث پاک سے ثابت ہے کہ حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نور پاک لوگوں  کی پشتوں  سے پاک عورتوں  کے رحموں  کی طرف مُنْتقل ہوا اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چونکہ حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے آباؤ اَجداد سے ہیں  اس لئے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حقیقی والد کفرو شرک کی نجاست سے آلودہ کیسے ہو سکتے ہیں ، چنانچہ علامہ شہاب الدین محمود آلوسی بغدادی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  ’’ علماءِ اہلسنّت میں  سے ایک جَمِّ غفیر کی رائے یہ ہے کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا والد نہ تھا کیوں  کہ حضور اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے آباؤ اجداد میں  کوئی کافر نہ تھا، جیساکہ نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان ہے کہ’’ میں  ابتداہی سے آخر تک پاک لوگوں  کی پشتوں  سے پاک خواتین کے رحموں  میں  مُنْتقل ہوتا چلا آیا ہوں  جبکہ مشرک تونَجَس ہیں  ۔اورامام رازی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  کایہ کہنا کہ یہ شیعہ کامذہب ہے درست نہیں ۔ امام رازی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  نے اچھی طرح چھان بین نہیں  کی اس لیے ان سے یہ غلطی ہوگئی۔ علماءِ اہلسنّت کی اکثریت کاقول یہ ہے کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے چچا کا نام ہے اور ’’اَبْ‘‘ کا لفظ چچا کے معنی میں  عام استعمال ہوتا ہے۔( روح المعانی، الانعام، تحت الآیۃ: ۷۴، ۴ / ۲۵۳)

            صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہ فرماتے ہیں  : قاموس میں  ہے کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  َالسَّلَام کے چچا کانام ہے۔ امام علامہ جلال الدین سیوطی(رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  )نے ’’مَسَالِکُ الْحُنَفَاءُ‘‘ میں  بھی ایسا ہی لکھا ہے۔ چچا کو باپ کہنا تمام ممالک میں  معمول ہے بالخصوص عرب میں ، قرآنِ کریم میں  ہے (جیسا کہ  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے) ’’نَعْبُدُ اِلٰهَكَ وَ اِلٰهَ اٰبَآىٕكَ اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ اِلٰهًا وَّاحِدًا‘‘ اس میں  حضرت اسماعیل (عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام) کوحضرت یعقوب( عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام)کے آباء میں  ذکر کیا گیا ہے باوجودیکہ آپ عَم (یعنی چچا) ہیں ۔ حدیث شریف میں  بھی حضرت سیّدِ عالَم صَلَّی  اللہ عَلَیْہ وَسَلَّمَ نے حضرت عباس رَضِیَ  اللہ عَنْہُ کواَبْ (یعنی باپ) فرمایا، چنانچہ ارشاد کیا  ’’رُدُّوْاعَلَیَّ اَبِیْ ‘‘ اور یہاں  اَبِیْ سے حضرت عباس( رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ) مراد ہیں ۔( خزائن العرفان، الانعام، تحت الآیۃ: ۷۴، ص۲۶۱) لہٰذا ثابت ہوا کہ آیت میں  حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے باپ (آزر) سے ان کا چچا مراد ہے حقیقی والد مراد نہیں  ہیں ۔

یٰۤاَبَتِ اِنِّیْ قَدْ جَآءَنِیْ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ یَاْتِكَ فَاتَّبِعْنِیْۤ اَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِیًّا(43)

ترجمہ: کنزالعرفان

اے میرے باپ! بیشک میرے پاس وہ علم آیا جو تیرے پاس نہیں آیا تو تُو میری پیروی کر ،میں تجھے سیدھی راہ دکھادوں گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یٰۤاَبَتِ اِنِّیْ قَدْ جَآءَنِیْ مِنَ الْعِلْمِ:اے میرے باپ! بیشک میرے پاس وہ علم آیا۔} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے آزر کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ بیشک میرے پاس میرے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے اس کی معرفت کا وہ علم آیا ہے جو تیرے پاس نہیں  آیا، تو تُو میرا دین قبول کر کے میری پیروی کر ،میں  تجھے سیدھی راہ دکھادوں  گا جس سے تو  اللہ تعالیٰ کے قرب کی اس منزل تک پہنچ سکے گا جو مقصود ہے۔

            اس آیت میں  حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جس علم کا ذکرہوا اس کے بارے میں  ایک قول تفسیر میں  ذکر ہوا کہ اس سے مراد  اللہ تعالیٰ کی معرفت کا علم ہے ، اور ایک قول یہ ہے کہ اس علم سے مراد وہ وحی ہے جو فرشتہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس لے کر آتا تھا ،،یا،، اس سے مراد آخرت کے اُمور اور اُخروی ثواب و عذاب کا علم ہے ،،یا،، اس سے مراد  اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور صرف  اللہ تعالیٰ کے اِلٰہ ہونے اور صرف اسی کے عبادت کا مستحق ہونے کا علم ہے۔( البحر المحیط، مریم، تحت الآیۃ: ۴۳، ۶ / ۱۸۲)اِن اَقوال میں  باہم کوئی تَضاد نہیں  ہے کہ حقیقت میں  آپ عَلَیْہِ  السَّلَام کو یہ سارے علوم عطا کئے گئے۔

آیت’’یٰۤاَبَتِ اِنِّیْ قَدْ جَآءَنِیْ مِنَ الْعِلْمِ‘‘سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس آیت سے دو باتیں  معلوم ہوئیں :

(1)… اگر کوئی شخص عمر میں  بڑا ہوا اور اسے دین کا علم حاصل نہ ہو جبکہ اس کی اولاد یا قریبی عزیزوں  میں  سے کوئی عمر میں  اگرچہ چھوٹا ہے لیکن وہ دین کا علم رکھتا ہو تو اس سے علمِ دین سیکھنے میں  شرم و عار محسوس نہیں  کرنی چاہئے۔

(2)…اگر چھوٹی عمر والا بڑی عمر والے کو کوئی اچھی نصیحت کرے تو چھوٹی عمر کی وجہ سے اس کی اچھی نصیحت کو نظر انداز کرنے کی بجائے اسے قبول کرنا چاہئے۔

یٰۤاَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّیْطٰنَؕ-اِنَّ الشَّیْطٰنَ كَانَ لِلرَّحْمٰنِ عَصِیًّا(44)یٰۤاَبَتِ اِنِّیْۤ اَخَافُ اَنْ یَّمَسَّكَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ فَتَكُوْنَ لِلشَّیْطٰنِ وَلِیًّا(45)

ترجمہ: کنزالعرفان

اے میرے باپ! شیطان کا بندہ نہ بن، بیشک شیطان رحمٰن کا بڑا نافرمان ہے۔ اے میرے باپ! میں ڈرتا ہوں کہ تجھے رحمٰن کی طرف سے کوئی عذاب پہنچے تو تُو شیطان کا دوست ہوجائے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ یٰۤاَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّیْطٰنَ:اے میرے باپ! شیطان کا بندہ نہ بن۔} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے آزر سے تیسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ تو شیطان کابندہ نہ بن اور اس کی فرمانبرداری کر کے کفر و شرک میں  مبتلا نہ ہو، بیشک شیطان رحمٰن عَزَّوَجَلَّ کا بڑ انافرمان ہے اور نافرمان کی اطاعت کا انجام یہ ہے کہ یہ اطاعت کرنے والے کو بھی نافرمان بنا دیتی ہے اور نعمت سے محروم کرکے مشقت و عذاب میں  مبتلا کر دیتی ہے۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۴۴، ۳ / ۲۳۶، روح البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۴۴، ۵ / ۳۳۶، ملتقطاً)

{یٰۤاَبَتِ اِنِّیْۤ اَخَافُ:اے میرے باپ! میں  ڈرتا ہوں ۔} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے آزر سے مزید فرمایا:  مجھے ڈر ہے کہ اگر تو رحمٰن عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی کرتے اور شیطان کی پیروی کرتے ہوئے کفر کی حالت میں  ہی مر گیا تو تجھے رحمٰن عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے کوئی عذاب پہنچے گا اور تولعنت میں  اور جہنم کے عذاب میں  شیطان کا رفیق اور دوست بن جائے گا۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۴۵، ۳ / ۲۳۶، روح البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۴۵، ۵ / ۳۳۶، ملتقطاً)

سورۂ مریم کی آیت نمبر44اور45سے حاصل ہونے والی معلومات:

            ان آیات سے دو باتیں  معلوم ہوئیں

(1)… اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے والے کی پیروی کرنا بندے کے نافرمان بننے کا ایک سبب ہے لہٰذا ایسے لوگوں  کی پیروی کی جائے جو  اللہ تعالیٰ اور ا س کے رسول صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اطاعت گزار اور فرمانبردار ہوں ۔

(2)…بندے کو چاہئے کہ اگر اس کے اہلِ خانہ یا عزیز رشتہ داروں  میں  سے جو لوگ  اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل نہیں  کرتے یا عمل کرنے میں  سستی کرتے ہیں  تو انہیں  احسن انداز میں  اس کی ترغیب دے اور اس حوالے سے انہیں   اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بھی ڈرائے۔

قَالَ اَرَاغِبٌ اَنْتَ عَنْ اٰلِهَتِیْ یٰۤاِبْرٰهِیْمُۚ-لَىٕنْ لَّمْ تَنْتَهِ لَاَرْجُمَنَّكَ وَ اهْجُرْنِیْ مَلِیًّا(46)

ترجمہ: کنزالعرفان

بولا: کیا تو میرے معبودوں سے منہ پھیرتا ہے؟ اے ابراہیم ! بیشک اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے پتھر ماروں گا اور تو عرصہ دراز کیلئے مجھے چھوڑ دے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ قَالَ:بولا۔} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی لطف آمیز نصیحت اور دل پذیر ہدایت سے آزر نے نفع نہ اٹھایا اور وہ ا س کے جواب میں  بولا: کیا تو میرے معبودوں  سے منہ پھیرتا ہے؟ اے ابراہیم ! بیشک اگر تو بتوں  کی مخالفت کرنے، اُنہیں  برا کہنے اور اُن کے عیب بیان کرنے سے باز نہ آیا تو میں  تجھے پتھر ماروں  گا اور تو عرصۂ دراز کیلئے مجھ سے کلام کرنا چھوڑ دے تاکہ میرے ہاتھ اور زبان سے امن میں  رہے۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۴۶، ۳ / ۲۳۷)

نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کرنے والوں  کیلئے درس:

            امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں :  اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا نصیحت کرنے کا انداز اور ان کے جواب میں  آزر کا طرزِ عمل اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے اس لئے بیان فرمایا تاکہ مشرکین کی طرف سے پہنچنے والی اَذِیَّتوں  پر آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دل ہلکا ہو اور آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جان جائیں  کہ جاہلوں  کا یہ مذموم طرزِ عمل (کوئی آج کا نہیں  بلکہ) عرصۂ دراز سے چلا آرہا ہے۔( تفسیرکبیر، مریم، تحت الآیۃ: ۴۶، ۷ / ۴۴۵)

            اس میں  ان مسلمانوں  کے لئے بھی درس ہے جو دینِ اسلام اور اس کے اَحکام کی دعوت دینے کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں  کہ اگر اس دوران انہیں  کسی کافر یا کسی مسلمان کی طرف سے کسی ناقابلِ برداشت سلوک کا سامنا کرنا پڑے تو وہ رنجیدہ ہو کر اس فریضہ کی بجا آوری کو چھوڑ نہ دیں  بلکہ ایسے موقع پر انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوموں  کے واقعات کو یاد کریں  کہ ان بزرگ ترین ہستیوں  نے کس طرح اسلام کی دعوت دی اور انہیں  نافرمان اور سرکش کفار کی طرف سے کیسی کیسی اَذِیَّتوں  کا سامنا کرنا پڑا لیکن اُنہوں  نے تمام تر تکلیفوں  کے باوجود دین ِاسلام کی دعوت دینے کو نہیں  چھوڑا تو ہم بھی ان کی پیروی کرتے ہوئے دین ِاسلام اور اس کے احکام کی دعوت دینا نہیں  چھوڑیں  گے۔ اس سے اِنْ شَآء  اللہ دل کو تسلی ملے گی اور اسے مزید تَقْوِیَت حاصل ہو گی۔

قَالَ سَلٰمٌ عَلَیْكَۚ-سَاَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّیْؕ-اِنَّهٗ كَانَ بِیْ حَفِیًّا(47)

ترجمہ: کنزالعرفان

فرمایا: بس تجھے سلام ہے۔ عنقریب میں تیرے لیے اپنے رب سے معافی مانگوں گا بیشک وہ مجھ پربڑا مہربان ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ سَلٰمٌ عَلَیْكَ:فرمایا: بس تجھے سلام ہے۔} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے چچا آزر کا جواب سن کر فرمایا ’’تجھے دور ہی سے سلام ہے ۔ عنقریب میں  تیرے لیے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے معافی مانگوں  گا کہ وہ تجھے توبہ اور ایمان کی توفیق دے کر تیری مغفرت فرمادے ، بیشک وہ مجھ پر بڑا مہربان ہے۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۴۷، ۳ / ۲۳۷)

آزر کے لئے دعائے مغفرت کاوعدہ کرنے کی وجہ:

         حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے چچا آزر کے لئے جو مغفرت کی دعا فرمائی اس کا ذکر سورۂ شُعراء کی آیت نمبر 86 میں  ہے اور یہاں  یہ یاد رہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اپنے چچا آزر سے یہ کہنا کہ’’ عنقریب میں  تیرے لیے اپنے رب سے معافی مانگوں  گا‘‘ اس وجہ سے تھا کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس کے ایمان لانے کی تَوَقُّع تھی اور جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر اس کا ایمان نہ لانا واضح ہو گیا تواس کے بعد آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آزر سے بیزار ہو گئے اورپھر کبھی اس کے لئے مغفرت کی دعا نہ کی۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے

’’وَ مَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِیْمَ لِاَبِیْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَهَاۤ اِیَّاهُۚ-فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَهٗۤ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُؕ-اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِیْمٌ‘‘(توبہ:۱۱۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور ابراہیم کا اپنے باپ کی مغفرت کی دعا کرنا صرف ایک وعدے کی وجہ سے تھا جو انہوں  نے اس سے کر لیا تھا پھر جب ابراہیم کے لئے یہ بالکل واضح ہوگیا کہ وہ  اللہ کا دشمن ہے تو اس سے بیزار ہوگئے ۔ بیشک ابراہیم بہت آہ و زاری کرنے والا ، بہت برداشت کرنے والا تھا۔

وَ اَعْتَزِلُكُمْ وَ مَا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ اَدْعُوْا رَبِّیْ ﳲ عَسٰۤى اَلَّاۤ اَكُوْنَ بِدُعَآءِ رَبِّیْ شَقِیًّا(48)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور میں تم لوگوں سے اور اللہ کے سوا جن (بتوں ) کی تم عبادت کرتے ہو ان سے جدا ہوتا ہوں اور میں اپنے رب کی عبادت کرتا ہوں ۔قریب ہے کہ میں اپنے رب کی عبادت کی وجہ سے بدبخت نہ ہوں گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اَعْتَزِلُكُمْ:اور میں  تم لوگوں  سے جدا ہوتا ہوں  ۔} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مزید فرمایا کہ میں  بابِل شہر سے شام کی طرف ہجرت کر کے تم لوگوں  سے اور  اللہ کے سوا جن بتوں  کی تم عبادت کرتے ہو ان سے جدا ہوتا ہوں  اور میں  اپنے اس رب عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کرتا ہوں  جس نے مجھے پیدا کیا اور مجھ پر احسان فرمائے ۔پھر آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عاجزی اور اِنکساری کرتے ہوئے فرمایا : قریب ہے کہ میں  اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کی وجہ سے بدبخت نہ ہوں  گا۔ اس میں  اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جیسے تم بتوں  کی پوجا کر کے بدنصیب ہوئے ،خدا کے پَرَسْتار کے لئے یہ بات نہیں  کیونکہ اس کی بندگی کرنے والا بدبخت اور محروم نہیں  ہوتا۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۴۸، ۳ / ۲۳۷، مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۴۸، ص۶۷۶، ملتقطاً)

آیت ’’وَ اَعْتَزِلُكُمْ وَ مَا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس آیت سے 3 باتیں  معلوم ہوئیں :

(1)… کافروں ، بد مذہبوں  کے ساتھ رہنے اور ان کے ساتھ نشست برخاست رکھنے سے بچنا چاہئے، جیسے یہاں  حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ذکر ہوا کہ وہ اپنے کافر چچا سے علیحدہ ہو گئے تھے۔

(2)…اپنا دین نہیں  چھپانا چاہئے جیسے یہاں  ذکر ہوا کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنا دین صاف اور واضح طور پر بیان کر دیا کہ وہ صرف اس  اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں  جو ان کا خالق ہے۔

(3)… اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا بد نصیب نہیں  ہو سکتا بلکہ بد نصیب تو وہ ہے جو  اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کی عبادت کرے۔

فَلَمَّا اعْتَزَلَهُمْ وَ مَا یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِۙ-وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَؕ-وَ كُلًّا جَعَلْنَا نَبِیًّا(49)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر جب ابراہیم لوگوں سے اور اللہ کے سوا جن (بتوں ) کی وہ عبادت کرتے تھے ان سے جدا ہوگئے تو ہم نے اسے اسحاق اور (اس کے بعد) یعقوب عطا کئے اور ان سب کو ہم نے نبی بنایا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَلَمَّا اعْتَزَلَهُمْ:پھر جب ابراہیم لوگوں سے جدا ہوگئے۔} ارشاد فرمایا کہ پھر جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مقدس سرزمین کی طرف ہجرت کر کے لوگوں سے اور  اللہ کے سوا جن بتوں  کی وہ لوگ عبادت کرتے تھے ان سے جدا ہوگئے تو ہم نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو فرزند حضرت اسحاق عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے بعد پوتے حضرت یعقوب عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام عطا کئے تاکہ وہ ان سے اُنْسِیَّت حاصل کریں  اور ان سب کو ہم نے مقامِ نبوت سے سرفراز فرما کر احسان فرمایا۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۴۹، ۳ / ۲۳۷، مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۴۹، ص۶۷۶، ملتقطاً)

             یادرہے کہ حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، حضرت اسحاق عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے بڑے ہیں ، لیکن چونکہ حضرت اسحاق عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بہت سے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے والد ہیں ، اس لئے خصوصیت کے ساتھ ان کا ذکر فرمایا گیا۔

آیت ’’فَلَمَّا اعْتَزَلَهُمْ‘‘سے حاصل ہونے والی معلومات:

         اس آیت سے 2باتیں  معلوم ہوئیں :

(1)… حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عمر شریف اتنی دراز ہوئی کہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے پوتے حضرت یعقوب عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دیکھا ۔

(2)…  اللہ تعالیٰ کے لئے ہجرت کرنے اور اپنے گھر بار کو چھوڑنے کی حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یہ جزا ملی کہ  اللہ تعالیٰ نے انہیں  بیٹے اور پوتے عطا فرمائے ۔

وَ وَهَبْنَا لَهُمْ مِّنْ رَّحْمَتِنَا وَ جَعَلْنَا لَهُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِیًّا(50)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ہم نے انہیں اپنی رحمت عطا کی اور ان کیلئے سچی بلند شہرت رکھی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ وَهَبْنَا لَهُمْ مِّنْ رَّحْمَتِنَا:اور ہم نے انہیں  اپنی رحمت عطا کی ۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے انہیں  دنیا و آخرت کی عظیم ترین نعمت نبوت عطا کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا میں  وسیع رزق اور اولاد عطا کی اور ان کیلئے سچی بلند شہرت رکھی کہ ہر دین والے مسلمان ہوں  خواہ یہودی یا عیسائی سب ان کی ثنا و تعریف کرتے ہیں  اور مسلمانوں میں  تو نمازوں  کے اندر ان پر اور ان کی آل پر درود پڑھا جاتا ہے۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۵۰، ۳ / ۲۳۷، مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۵۰، ص۶۷۶، ملتقطاً)

حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور آزر کے واقعے سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس واقعے سے چار باتیں  معلوم ہوئیں

(1)…حق کی طرف ہدایت دینے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ نرم مزاج اور اچھے اَخلاق والا ہو کیونکہ عام طور پر جو بات سختی سے کہی جاتی ہے ، سننے والا اس سے منہ پھیر لیتا ہے البتہ جہاں  سختی کا موقع ہو وہاں  اُسی کو بروئے کار لایا جائے۔

(2)…اپنے سے بڑے مرتبے والے کی پیروی کی جائے۔ یاد رہے کہ اطاعت و فرمانبرداری میں  سے سب سے بڑا مرتبہ  اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ہے اور صحابہ و اَئمۂ دین کی پیروی بھی در حقیقت  اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ہی پیروی ہے۔

(3)… جو شخص دنیا و آخرت میں  ظاہری و باطنی سلامتی چاہتا ہے وہ برے ساتھیوں  اور بد مذہب لوگوں  سے جدا ہو جائے۔

(4)…جو شخص  اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی خاطر اپنی پسندیدہ چیز چھوڑ دے تو  اللہ تعالیٰ اسے اس چیز سے بہت بہتر اور زیادہ پسندیدہ بدل عطا فرماتا ہے اور اس سے پہلی چیز کے چھوٹنے پر ہونے والی وحشت  اُنْسِیَّت میں  بدل جاتی ہے۔

وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(51)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو، بیشک وہ چنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰى:اور کتاب میں  موسیٰ کو یاد کرو۔} اس سے پہلی آیات میں  حضر ت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی صِفات بیان کی گئیں  اور اب یہاں  سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی صفات بیان فرمائی جا رہی ہیں ، دوسرے لفظوں  میں  ہم یہ کہہ سکتے ہیں  کہ خلیلُ  اللہ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی صفات بیان کرنے کے بعد اب  کلیمُ  اللہ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی صفات بیان کی جارہی ہیں  ۔

حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پانچ صفات :

         اس رکوع میں  حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پانچ صفات بیان کی گئی ہیں ۔

(1)…آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے چنے ہوئے اور برگزیدہ بندے تھے۔

(2)… آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام رسول و نبی تھے۔

(3)…آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے  اللہ تعالیٰ نے کلام فرمایا۔

(4)…آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کواپنا قرب بخشا۔

(5)…آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خواہش پرآپ کے بھائی حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کونبوت عطاکی ۔

         حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں  سے ہیں  اسی لئے ان کا ذکر حضرت اسماعیل عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پہلے فرمایا تاکہ دادا اور پوتے کے ذکر میں  فاصلہ نہ ہو۔( روح المعانی، مریم تحت الآیۃ: ۵۱، ۸ / ۵۵۹)ورنہ حضرت اسماعیل عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے بہت پہلے کے ہیں۔

وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(52)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اپنا راز کہنے کیلئے مقرب بنایا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ:اور ہم نے اسے طور کی دائیں  جانب سے پکارا ۔} طور ایک پہاڑ کا نام ہے جو مصر اور مَدْیَن کے درمیان ہے۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مدین سے آتے ہوئے طور کی اس جانب سے جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دائیں  طرف تھی ایک درخت سے ندا دی گئی

’’یٰمُوْسٰۤى اِنِّیْۤ اَنَا اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘ (قصص:۳۰)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اے موسیٰ میں  ہی  اللہ ہوں ، تمام جہانوں  کا پالنے والا ۔

         اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے بلاواسطہ کلام فرمایا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کلیمُ  اللہ کے شرف سے نوازے گئے ۔آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مرتبۂ قرب عطا فرمایا گیا ، حجاب اٹھا دئیے گئے یہاں  تک کہ آپ نے قلموں  کے چلنے کی آواز سنی اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قدرو منزلت بلند کی گئی۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۵۲، ۳ / ۲۳۷-۲۳۸)

کلیم اور حبیب میں  فرق:

         یہا ں   اللہ تعالیٰ کے کلیم حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور  اللہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مقام و مرتبے کافرق ملاحظہ ہو کہ  اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کوہِ طور پر جو کلام فرمایا اسے اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ذریعے سب پر ظاہر فرما دیا لیکن  اللہ تعالیٰ نے معراج کی رات لا مکاں  میں  اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جو کلام فرمایا وہ کسی کو نہ بتایا بلکہ یہ ارشاد فرما کرسب سے چھپا دیا کہ ’’فَاَوْحٰۤى اِلٰى عَبْدِهٖ مَاۤ اَوْحٰى‘‘(النجم:۱۰)ترجمۂ کنزُالعِرفان: پھر اس نے اپنے بندے کو وحی فرمائی جو اسنے وحی فرمائی۔

وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(53)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جونبی تھا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا:اورہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جونبی تھا۔} یعنی جب حضر ت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے  اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ میرے گھر والوں  میں  سے میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر بنا تو  اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ دعا قبول فرمائی اور اپنی رحمت سے حضرت ہارون عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نبوت عطا کی۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۵۳، ۳ / ۲۳۸)

آیت’’وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَا ‘‘ سے حاصل ہونے و الی معلومات:

            اس آیت سے دو باتیں  معلوم ہوئیں

(1)… نبوت کسبی نہیں  یعنی اپنی کوشش سے کسی کو نبوت نہیں  مل سکتی بلکہ یہ  اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے جسے  اللہ تعالیٰ چاہے صرف اسے ملتی ہے ۔

(2)…حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  قرب کاایسا مقام حاصل ہے کہ  اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کے صدقے ان کے بھائی حضرت ہارون عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نبوت عطافرما دی۔اس سے  اللہ تعالیٰ کے پیاروں  کی عظمت کا پتہ لگا کہ ان کی دعا سے وہ نعمت ملتی ہے جو بادشاہوں  کے خزانوں  میں  نہ ہو تو اگر ان کی دعا سے اولاد یا دنیا کی دیگر نعمتیں  مل جائیں  تو کیا مشکل ہے۔البتہ اب ختمِ نبوت ہوچکی تو اب کسی کو نبوت نہیں  مل سکتی۔

وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(54)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور کتاب میں اسماعیل کو یاد کرو بیشک وہ وعدے کا سچا تھا اور غیب کی خبریں دینے والارسول تھا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ:اور کتاب میں  اسماعیل کو یاد کرو۔} حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے فرزند ہیں  اور سیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد سے ہیں ۔ اس آیت میں  حضرت اسماعیل عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دو وصف بیان کئے گئے۔

(1)… آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام وعدے کے سچے تھے ۔ یاد رہے کہ تمام انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام وعدے کے سچے ہی ہوتے ہیں  مگرآپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا خصوصی طور پر ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس وصف میں  بہت زیادہ ممتاز تھے، چنانچہ ایک مرتبہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوکوئی شخص کہہ گیا جب تک میں  نہیں  آتا آپ یہیں  ٹھہریں  توآپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس کے انتظار میں  3دن تک وہیں  ٹھہرے رہے۔ اسی طرح (جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آپ کو  اللہ تعالیٰ کے حکم سے ذبح کرنے لگے تو) ذبح کے وقت آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے صبر کرنے کا وعدہ فرمایا تھا، اس وعدے کو جس شان سے پورا فرمایا اُس کی مثال نہیں  ملتی۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۵۴، ۳ / ۲۳۸)

(2)…آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام غیب کی خبریں  دینے والے رسول تھے۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کورسول اور نبی فرمایا گیا ہے، اس میں  بنی اسرائیل کے ان لوگوں  کی تردید کرنا مقصود تھا جویہ سمجھتے تھے کہ نبوت صرف حضرت اسحاق عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لیے ہے اور حضرت اسماعیل عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نبی نہیں  ہیں ۔

رسولِ اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی وعدہ وفائی

            اوپر بیان ہو اکہ حضرت اسماعیل کسی جگہ پر 3دن تک ایک شخص کے انتظار میں  ٹھہرے رہے،اسی طرح کا ایک واقعہ سیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں  بھی اَحادیث کی کتابوں  میں  موجود ہے، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن ابو الحمساء رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں : بِعْثَت سے پہلے میں  نے نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کوئی چیز خریدی اور اس کی کچھ قیمت میری طرف باقی رہ گئی تھی۔ میں  نے وعدہ کیا کہ اسی جگہ لاکر دیتا ہوں ، میں  بھول گیا اور تین دن کے بعد یاد آیا، میں  گیا تو آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اسی جگہ موجود تھے۔ ارشاد فرمایا ’’اے نوجوان! تو نے مجھے تکلیف دی ہے، میں  تین دن سے یہاں  تمہارا انتظار کر رہا ہوں ۔( ابوداؤد، کتاب الادب، باب فی العدۃ، ۴ / ۴۸۸، الحدیث:  ۴۹۹۶)

وَ كَانَ یَاْمُرُ اَهْلَهٗ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ۪-وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِیًّا(55)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتاتھا اوروہ اپنے رب کے ہاں بڑا پسندیدہ بندہ تھا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ كَانَ یَاْمُرُ اَهْلَهٗ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ:اور وہ اپنے گھر والوں  کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتاتھا ۔} ارشاد فرمایا کہ حضرت اسماعیل عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے گھر والوں  اور اپنی قوم جرہم کو جن کی طرف آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مبعوث تھے نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیتے تھے اور آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنی طاعت و اَعمال ،صبر و اِستقلال اور اَحوال و خِصال کی وجہ سے  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کے بڑے پسندیدہ بندے تھے۔

اہلِ خانہ کو نماز کی تلقین کرنے میں  نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت:

         سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مختلف مَواقع پر اپنے اہلِ خانہ کو نماز وغیرہ کی تلقین فرمایا کرتے تھے، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن سلام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں  ’’جب حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اہل ِخانہ پر کوئی تنگی آتی تو آپ انہیں  نماز پڑھنے کا حکم ارشاد فرماتے۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۲۵۸، الحدیث: ۸۸۶)

         حضرت ثابت رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں : جب حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اہلِ خانہ کو کوئی حاجت پہنچتی تو آپ اپنے اہلِ خانہ کو ندا فرماتے: اے اہلِ خانہ! نماز پڑھو ،نماز پڑھو۔( الزہد لابن حنبل، ص۳۵، الحدیث: ۴۹)

 حضرت ابوسعید خدری رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں  ’’ نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آٹھ ماہ تک حضرت علی کَرَّمَ  اللہ  تَعَالٰی  وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے دروازے پرصبح کی نماز کے وقت تشریف لاتے رہے اور فرماتے ’’اَلصَّلَاۃُ رَحِمَکُمُ اللّٰہُ،اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًا‘‘ نماز پڑھو، اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے،  اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے ہر ناپاکی دور فرما دے اور تمہیں  پاک کرکے خوب صاف ستھرا کر دے۔( ابن عساکر، حرف العین، حرف الطاء فی آباء من اسمہ علی، علی بن ابی طالب۔۔۔ الخ، ۴۲ / ۱۳۶)

اہلِ خانہ کو نماز کا حکم دینے کی ترغیب:

         معلوم ہوا کہ اپنے گھر والوں  کو نماز کا حکم دینا  اللہ تعالیٰ کے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے لہٰذا ہمیں  بھی چاہئے کہ ہم اپنے گھر والوں  کو نماز قائم کرنے کا حکم دیں  اور اس کے علاوہ ان تمام کا موں  کا بھی حکم دیں  جو جہنم سے نجات ملنے کاسبب ہیں ۔  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ‘‘(تحریم:۶)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اے ایمان والو!اپنی جانوں  اور اپنے گھر والوں  کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں  ، اس پر سختی کرنے والے، طاقتور فرشتے مقرر ہیں  جو  اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں  کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں  حکم دیا جاتا ہے۔

نمازِ فجر کے لئے جگانے کی فضیلت:

         نمازِ فجر کے لئے جگانا حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنت ہے ،چنانچہ حضرت ابو بکرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں ، میں  سرکارِ دو عالَم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ نمازِفجر کیلئے نکلا تو آپ جس سوتے ہوئے شخص کے پاس سے گزرتے اُسے نماز کیلئے آواز دیتے یا اپنے پاؤں  مبارک سے ہلا دیتے۔( ابوداؤد، کتاب التطوّع، باب الاضطجاع، ۲ / ۳۳، الحدیث: ۱۲۶۴) لہٰذا جو خوش نصیب انسان کسی کو فجر کی نماز کے لئے جگاتا ہے تو وہ نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اِس ادا کو ادا کررہا ہے۔

وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا(56)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بیشک وہ بہت ہی سچا نبی تھا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ:اور کتاب میں  ادریس کو یاد کرو۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ہماری اس کتاب میں  حضرت ادریس عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ذکر فرمائیں  ، بیشک وہ بہت ہی سچے نبی تھے۔

حضرت ادریس عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا مختصر تعارف:

            آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا نام اخنوخ ہے اور آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت نوح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے والد کے دادا ہیں ۔ حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد آپ ہی پہلے رسول ہیں ۔ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے والد حضرت شیث بن آدم عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں ۔ سب سے پہلے جس شخص نے قلم سے لکھا وہ آپ ہی ہیں ۔ کپڑوں  کو سینے اور سلے ہوئے کپڑے پہننے کی ابتدا بھی آپ ہی سے ہوئی ، آپ سے پہلے لوگ کھالیں  پہنتے تھے ۔ سب سے پہلے ہتھیار بنانے والے، ترازو اور پیمانے قائم کرنے والے اور علمِ نُجوم اور علمِ حساب میں  نظر فرمانے والے بھی آپ ہی ہیں  اور یہ سب کام آپ ہی سے شروع ہوئے۔  اللہ تعالیٰ نے آپ پر تیس صحیفے نازِل کئے اور  اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے صحیفوں  کاکثرت سے درس دینے کی وجہ سے آپ کا نام ادریس ہوا۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۵۶، ۳ / ۲۳۸، مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۵۶، ص۶۷۷، روح البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۵۶، ۵ / ۳۴۱، ملتقطاً)

درسِ قرآن اور درسِ علمِ دین کے فضائل:

            حضرت ادریس عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے صحیفوں  کا کثرت سے درس دیا کرتے تھے، اس سے معلوم ہو اکہ  اللہ تعالیٰ کی کتاب کا درس دینا انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے ،اس مناسبت سے یہاں  قرآنِ مجید کا درس دینے کی فضیلت اور علمِ دین کا درس دینے کے دو فضائل ملاحظہ ہوں :

(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو لوگ  اللہ تعالیٰ کے گھروں  میں  سے کسی گھر میں  جمع ہوتے ہیں  اور وہ قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے اور ایک دوسرے کو اس کادرس دیتے ہیں  تواُن پر سکون نازل ہوتا ہے، رحمت انہیں  ڈھانپ لیتی ہے اور  اللہ تعالیٰ ان کا ذکر فرشتوں  میں  فرماتا ہے۔(مسلم، کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن وعلی الذکر، ص۱۴۴۷، الحدیث: ۳۸(۲۶۹۹))

(2)…حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ وہ عالِم جو صرف فرض نماز پڑھ کر بیٹھ جاتا پھر لوگوں  کو علمِ دین سکھاتا ہے اس کی بزرگی اس عابد پر جو دن کو روزہ رکھتا اور رات کو قیام کرتا ہے، ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے ادنیٰ پر۔(دارمی، باب من قال: العلم الخشیۃ وتقوی اللّٰہ، ۱ / ۱۰۰، الحدیث: ۲۸۹)

(3)…حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَافرماتے ہیں  ’’ رات میں  ایک گھڑی علم کا پڑھنا پڑھانا پوری رات (عبادت کرتے ہوئے) بیدار رہنے سے افضل ہے۔(دارمی، باب العمل بالعلم وحسن النیّۃ فیہ، ۱ / ۹۴، الحدیث: ۲۶۴)

قرآنِ مجید کا درس دینے سے متعلق اہم تنبیہ:

            یاد رہے کہ جو شخص عالِم نہیں  اس کا درسِ قرآن دینا جائز نہیں  ہاں  اگر وہ کسی سُنّی ، صحیح العقیدہ ماہر عالِم کی لکھی ہوئی تفسیر سے صرف وہی الفاظ پڑھ کر سناتا ہے جو انہوں  نے لکھے ہیں  اور اس کی اپنی طرف سے کوئی وضاحت یا تشریح نہیں  کرتا تو یہ جائز ہے، یونہی علماء میں  سے بھی انہیں  ہی درسِ قرآن دینا چاہئے جنہوں  نے معتبر علماءِ کرام کی تفاسیر، اَحادیث اور ان کی شروحات، فقہی اَحکام اور دیگر ضروری علوم کا مُعْتَدْبِہا (اچھا خاصا) مطالعہ کیا ہو۔ درسِ قرآن دینے والا ہر شخص ان 3 اَحادیث کو ضرور اپنے پیش ِنظر رکھے :

(1)…حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جو قرآن میں  علم کے بغیر کچھ کہے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں  بنالے۔(ترمذی، کتاب تفسیر القرآن عن رسول  اللہ صلی  اللہ علیہ وسلم، باب ما جاء فی الذی یفسّر القرآن برأیہ، ۴ / ۴۳۹، الحدیث: ۲۹۵۹)

(2)…حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جو قرآن میں  اپنی رائے سے کچھ کہے وہ اپنا ٹھکانہ آگ سے بنائے۔(ترمذی، کتاب تفسیر القرآن عن رسول  اللہ صلی  اللہ علیہ وسلم، باب ما جاء فی الذی یفسّر القرآن برأیہ، ۴ / ۴۳۹، الحدیث: ۲۹۶۰)

(3)…حضرت جندب رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے ،رسول اکرم صَلَّی اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جو قرآن میں  اپنی رائے سے کہے پھر ٹھیک بھی کہہ دے تب بھی وہ خطا کر گیا۔(ترمذی، کتاب تفسیر القرآن عن رسول  اللہ صلی  اللہ علیہ وسلم ، باب ما جاء فی الذی یفسّر القرآن برأیہ ، ۴ / ۴۴۰ ، الحدیث: ۲۹۶۱)

وَّ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا(57)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ہم نے اسے ایک بلند مکان پر اٹھالیا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا:اور ہم نے اسے ایک بلند مکان پر اٹھالیا۔} حضرت ادریس عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بلندمکان پر اٹھالینے کے بارے میں  ایک قول یہ ہے کہ ا س سے آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مرتبے کی بلندی مراد ہے اور ایک قول یہ ہے کہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوآسمان پر اٹھالیا گیا ہے اور زیادہ صحیح یہی قول ہے کہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو آسمان پر اٹھالیا گیا ہے۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۵۷، ۳ / ۲۳۸)

اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ مِنْ ذُرِّیَّةِ اٰدَمَۗ-وَ مِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ٘-وَّ مِنْ ذُرِّیَّةِ اِبْرٰهِیْمَ وَ اِسْرَآءِیْلَ٘-وَ مِمَّنْ هَدَیْنَا وَ اجْتَبَیْنَاؕ-اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ بُكِیًّا(58)

ترجمہ: کنزالعرفان

یہ وہ انبیاء ہیں جن پر اللہ نے احسان کیا ،جو آدم کی اولاد میں سے ہیں اوران لوگوں میں سے ہیں جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا تھا اور ابراہیم اور یعقوب کی اولاد میں سے ہیں اور ان لوگوں میں سے ہیں جنہیں ہم نے ہدایت دی اور چن لیا۔ جب ان کے سامنے رحمٰن کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو یہ سجدہ کرتے ہوئے اور روتے ہوئے گر پڑتے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ:یہ وہ ہیں  جن پراللّٰہ نے احسان کیا ۔}  اللہ عَزَّوَجَلَّ نے سورۂ مریم کی ابتدا سے یہاں  تک مختلف انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حالات وواقعات فرداً فرداً بیان فرمائے مگراب تمام انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کامشترکہ ذکر کیا جا رہا ہے جن میں  حضرت ادریس ، حضرت نوح ، حضرت ابراہیم ، حضرت اسماعیل ، حضرت اسحاق ، حضرت یعقوب ،حضرت موسیٰ ،حضرت ہارون ،حضرت زکریا، حضرت یحیٰ اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام شامل ہیں  اور یہ وہ مبارک ہستیاں  ہیں  جنہیں   اللہ تعالیٰ نے نبوت و رسالت کا منصب عطا کر کے ان پر اپنا خصوصی احسان فرمایا اور انہیں  اپنی طرف ہدایت دی اور انہیں  شریعت کی تشریح اور حقیقت کے کشف کے لئے چن لیا۔

{اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیٰتُ الرَّحْمٰنِ:جب ان کے سامنے رحمٰن کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے ۔} اس آیت سے مراد یہ ہے کہ اے لوگو! تم سے پہلے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نسبی شرافت میں  بلند رتبہ رکھنے، نفس کے کامل ہونے اور  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  قرب کے مقام پر فائز ہونے کے باوجود جب اپنے اوپر نازل ہونے والی کتابوں  میں   اللہ تعالیٰ کی آیتیں  سنتے تو  اللہ تعالیٰ کے خوف سے رویا کرتے اور سجدے کیا کرتے تھے تو تم بھی ان کی سیرت پر عمل کرو (اور جب قرآن کی آیتیں  سنو تو  اللہ تعالیٰ کے خوف سے گریہ و زاری کیا کرو)۔(روح البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۵۸، ۵ / ۳۴۳، خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۵۸، ۳ / ۲۳۹، ملتقطاً)

 اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں  کا شِعار:

         اس سے معلوم ہوا کہ  اللہ تعالیٰ کے کلام کی آیات سن کر رونا انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت اور ان کا طریقہ ہے۔سیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی قرآنِ مجید کی آیات سن کر رویا کرتے تھے، جیسا کہ حضرت ابراہیم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عبد اللہ بن مسعودرَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے فرمایا ’’مجھے قرآن پاک سناؤ۔انہوں  نے عرض کی: میں  (کس طرح) آپ کو قرآن مجید سناؤں  حالانکہ آپ پر قرآن مجید نازل ہوا ہے۔ ارشاد فرمایا ’’ میں  ا س بات کو پسند کرتا ہوں  کہ میں  کسی اور سے قرآن کریم سنوں  ۔ راوی کہتے ہیں : پھر انہوں  نے آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوسورۂ نساء کی ابتدائی آیات سنائیں  اور جب اس آیت پر پہنچے

’’فَكَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۭ بِشَهِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ شَهِیْدًا‘‘(النساء:۴۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو کیسا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں  سےایک گواہ لائیں  گے اور اے حبیب! تمہیں  ان سب پر گواہ اورنگہبان بناکر لائیں  گے۔

 تو سرکارِ دو عالَم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مبارک آنکھوں  سے آنسو جاری ہو گئے۔(مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب فضل استماع القرآن۔۔۔ الخ، ص۴۰۱، الحدیث: ۲۴۸(۸۰۰))

         نیز قرآن کریم کی آیات سن کر رونا عارفین کی صفت اور صالحین کا شِعار ہے ،جیساکہ  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اِذَا یُتْلٰى عَلَیْهِمْ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًاۙ(۱۰۷) وَّ یَقُوْلُوْنَ سُبْحٰنَ رَبِّنَاۤ اِنْ كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُوْلًا(۱۰۸)وَ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ یَبْكُوْنَ وَ یَزِیْدُهُمْ خُشُوْعًا۩(۱۰۹)‘‘(بنی اسرائیل:۱۰۷-۱۰۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: جب ان کے سامنے اس کی تلاوت کی جاتیہے تو وہ ٹھوڑی کے بل سجدہ میں  گر پڑتے ہیں ۔ اور کہتے ہیں  ہمارا رب پاک ہے، بیشک ہمارے رب کا وعدہ پوراہونے والا تھا۔ اور وہ روتے ہوئے ٹھوڑی کے بل گرتے ہیں  اور یہ قرآن ان کےدلوں  کے جھکنے کو اور بڑھادیتا ہے۔  (یہ آیت ِسجدہ ہے،اسے زبان سے پڑھنے اور سننے والے پر سجدۂ تلاوت کرنا واجب ہے۔)

         اور حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بھی اپنی امت کو اس کی تعلیم دی  ہے، جیسا کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’یہ قرآن غم کے ساتھ نازل ہوا تھا، جب تم اسے پڑھو تو روؤ اور اگر رو نہ سکو تو رونے کی شکل بنا لو۔( ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب فی حسن الصوت بالقرآن، ۲ / ۱۲۹، الحدیث: ۱۳۳۷)

اس لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ جب بھی قرآنِ مجید کی تلاوت کرے تو اپنے گناہوں  اور  اللہ تعالیٰ کی گرفت و عذاب کو یاد کر کے رویا کرے اور اگر اسے رونا نہ آئے تو رونے والوں  جیسی صورت بنا لے۔

سجدہ تو کر لیا مگر آنسو نہ نکلے:

         یاد رہے کہ زیرِ تفسیر آیت ان آیات میں  سے ہے جنہیں  پڑھنے اور سننے والے پر سجدۂ تلاوت کرنا واجب ہے۔ یہاں  اسی آیت سے متعلق دوحکایات ملاحظہ ہوں :

(1)… حضرت ابو معمر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں : امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے سورۂ مریم کی تلاوت اور (سجدہ کرنے کے بعد) فرمایا ’’یہ سجدے ہیں  تو رونا کہا ں  ہے؟( شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی البکاء عند قراء تہ، ۲ / ۳۶۵، الحدیث:  ۲۰۵۹)

(2)…حضرت عبد الرحمٰن بن ابو لیلیٰ رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ نے سورۂ مریم کی تلاوت کی، جب وہ  اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ’’خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ بُكِیًّا‘‘ پر پہنچے تو انہوں  نے سجدۂ تلاوت کیا اور جب سجدے سے سر اٹھایا تو فرمایا ’’یہ سجدہ ہے تورونا کہاں  ہے؟( شرح البخاری لابن بطال، کتاب فضائل القرآن، باب البکاء عند قراء ۃ القرآن، ۱۰ / ۲۸۲) ان بزرگوں  کے اس قول سے یہ بھی مراد ہو سکتا ہے کہ سجدہ کر کے رونے والے لوگ اب کہاں  ہیں ؟ اب تو لوگوں  کا حال یہ ہے کہ وہ سجدہ تو کرلیتے ہیں  لیکن ان کی آنکھیں آنسوؤں  سے تر نہیں  ہوتیں ۔ ان بزرگوں  کے یہ فرمان دراصل ہماری تربیت اور اِصلاح کے لئے ہیں  ،اے کاش! ہمیں  بھی تلاوتِ قرآن کے وقت  اللہ تعالیٰ کے خوف سے رونا نصیب ہو جائے۔

آیت’’ اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیٰتُ الرَّحْمٰنِ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

         اس سے تین باتیں  معلوم ہوئیں :

(1)…  اللہ تعالیٰ کے کلام کی تلاوت کرنا اور تلاوت کرا کر سننا دونوں  ہی پسندیدہ طریقے ہیں ۔

(2)… اللہ تعالیٰ کے کلام کی تلاوت خشوع و خضوع کے ساتھ کرنا  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  پسندیدہ ہے ۔

(3)… اللہ تعالیٰ کے کلام کو پڑھ یا سن کر عذاب کے خوف یا دل کے ذوق کی وجہ سے گریہ و زاری کرنا  اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اور اس کے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے۔

فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَ اتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا(59)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو ان کے بعد وہ نالائق لو گ ان کی جگہ آئے جنہوں نے نمازوں کو ضائع کیا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کی تو عنقریب وہ جہنم کی خوفناک وادی غی سے جاملیں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ:تو ان کے بعد وہ نالائق لو گ ان کی جگہ آئے ۔} اس آیت میں  انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد آنے والے ناخلف اور نالائق لوگوں  کی دو خرابیاں  بیان کی گئی ہیں ۔ (1)…انہوں  نے نمازیں  ضائع کیں۔ اس سے مراد فرض نمازیں  چھوڑ دینا یا نماز کا وقت گزار کر نماز پڑھنا مراد ہے، مثلاً ظہر کی نماز عصر میں  اور عصر کی مغرب میں  پڑھنا۔ (2)…اپنی خواہشوں  کی پیروی کی۔ یعنی انہوں  نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کو ترجیح دی اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے کی بجائے گناہوں  کو اختیار کیا۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۵۹، ۳ / ۲۴۰)ایسے لوگوں  کے بارے میں  حضرت عبد اللہ بن مسعودرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پہلے جس امت میں  بھی جو نبی بھیجا اس نبی کے لئے اس امت میں  سے کچھ مدد گار اور اصحاب ہوتے تھے جو اپنے نبی کے طریقۂ کار پر کار بند رہتے، پھر ان صحابہ کے بعد کچھ نالائق لوگ پیدا ہوئے جنہوں  نے اپنے کام کے خلاف بات کی اور جس کا حکم دیاگیا اس کے خلاف کام کیا لہٰذا جس شخص نے ہاتھوں  سے ان کے خلاف جہاد کیا وہ مومن ہے اور جس نے ان کے خلاف زبان سے جہاد کیا وہ مومن ہے،اور جس نے دل سے ان کے خلاف جہاد کیا وہ بھی مومن ہے اور ا س کے بعد رائی کے دانہ برابر بھی ایمان کا کوئی درجہ نہیں۔(مسلم، کتاب الایمان، باب بیان کون النہی عن المنکر من الایمان۔۔۔ الخ، ص۴۴، الحدیث: ۸۰(۵۰))

نما ز ضائع کرنے کی صورتیں  اور 3 وعیدیں :

اس آیت میں  نمازیں  ضائع کرنے کو سب سے پہلے اور دیگر گناہوں  کو بعد میں  ذکر کیا گیا، اس سے معلوم ہوا کہ نمازیں  ضائع کرنا گناہوں  کی جڑ ہے۔ نمازیں  ضائع کرنے کی کئی صورتیں  ہیں ، جیسے نماز نہ پڑھنا، بے وقت پڑھنا، ہمیشہ نہ پڑھنا، ریا کاری سے پڑھنا اور نیت کے بغیر نماز شروع کر دینا وغیرہ ۔ اَحادیث میں  نماز ضائع کرنے کی بہت وعیدیں  بیان کی گئی ہیں  ، ان میں  سے 3 وعیدیں  درج ذیل ہیں ۔

(1)…حضرت نوفل بن معاویہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس کی نماز فوت ہوئی گویا اس کے اہل و مال جاتے رہے۔( بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الاسلام، ۲ / ۵۰۱، الحدیث: ۳۶۰۲)

(2)…حضرت اُمِّ ایمن رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا سے روایت ہے، حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’قصداً نماز ترک نہ کرو کیونکہ جو قصداً نماز ترک کردیتا ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ اور رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس سے بری الذِّمہ ہیں۔(مسند امام احمد، مسند القبائل، حدیث امّ ایمن رضی اللہ عنہا، ۱۰ / ۳۸۶، الحدیث: ۲۷۴۳۳)

(3)…حضرت عقبہ بن عامر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ عنقریب میری امت سے کتاب والے اور دودھ والے ہلاک ہوں  گے۔ میں  نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کتاب والوں  سے کیا مراد ہے؟ ارشاد فرمایا ’’یہ وہ لوگ ہیں  جو اللہ کی کتاب کو اس لئے سیکھیں  گے تاکہ اس کے ذریعے ایمان والوں  سے جھگڑا کریں ۔ میں  نے پھر عرض کی: یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، دودھ والوں  سے کیا مراد ہے؟ ارشاد فرمایا ’’یہ وہ لوگ ہیں  جو خواہشات کی پیروی کریں  گے اور اپنی نمازیں  ضائع کریں  گے۔( مستدرک، کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ مریم، سیہلک من امتی اہل الکتاب واہل اللبن، ۳ / ۱۲۶، الحدیث: ۳۴۶۹)

{فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا: عنقریب وہ جہنم کی خوفناک وادی غی سے جاملیں  گے۔} آیت کے اس حصے میں  نمازیں  ضائع کرنے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے مقابلے میں  اپنی خواہشوں  کی پیروی کرنے والوں  کا انجام بیان کیا گیا کہ وہ عنقریب جہنم کی خوفناک وادی غی میں  ڈال دئیے جائیں  گے۔

جہنم کی وادی ’’غَی‘‘کا تعارف:

         حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں : غی جہنم میں  ایک وادی ہے جس کی گرمی سے جہنم کی وادیاں  بھی پناہ مانگتی ہیں  ۔یہ اُن لوگوں  کے لئے ہے جو زنا کے عادی اور اس پر مُصِر ہوں  ، جو شراب کے عادی ہوں ، جو سود خور اور سود کے عادی ہوں ، جو والدین کی نافرمانی کرنے والے ہوں  اور جو جھوٹی گواہی دینے والے ہوں۔(بغوی، مریم، تحت الآیۃ: ۵۹، ۳ / ۱۶۸)

         صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : غی جہنم میں  ایک وادی ہے ،جس کی گرمی اور گہرائی سب سے زیادہ ہے، اس میں  ایک کنواں  ہے، جس کا نام ’’ہَبْہَبْ‘‘ ہے، جب جہنم کی آگ بجھنے پر آتی ہے، اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اس کنویں  کو کھول دیتا ہے ،جس سے و ہ بدستور بھڑکنے لگتی ہے۔ قَالَ اللہُ تَعَالٰی 🙁 اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا)

’’ كُلَّمَاخَبَتْ زِدْنٰهُمْ سَعِیْرًا‘‘

جب بجھنے پر آئے گی ہم انھیں  اور بھڑک زیادہ کریں  گے۔‘‘

یہ کنواں  بے نمازوں  اور زانیوں  اور شرابیوں  اور سود خواروں  اور ماں  باپ کو اِیذا دینے والوں  کے لیے ہے۔(بہار شریعت، حصہ سوم، نماز کا بیان، ۱ / ۴۳۴)

اِلَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَاُولٰٓىٕكَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ شَیْــٴًـا(60)

ترجمہ: کنزالعرفان

مگر جنہوں نے توبہ کی اور ایمان لائے اور نیک کام کئے تو یہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان پر کوئی زیادتی نہیں کی جائے گی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اِلَّا مَنْ تَابَ:مگر جنہوں  نے توبہ کی۔} ارشاد فرمایا کہ نمازیں  ضائع کرنے اور  اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی بجائے گناہوں کو اختیار کرنے والے تو جہنم کی خوفناک وادی غی میں  جائیں  گے مگر جنہوں  نے کفر و شرک اور دیگر گناہوں  سے توبہ کر لی اور کفر کی جگہ ایمان کو اختیار کیا اور اس کے بعد نیک کام کئے تو یہ لوگ جنت میں  داخل ہوں  گے اور ان پر کوئی زیادتی نہیں  کی جائے گی اور ان کے اعمال کی جزا میں  کچھ بھی کمی نہ کی جائے گی۔( روح البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۶۰، ۵ / ۳۴۵) اس آیت سے معلوم ہوا کہ کافر کے لئے پہلے کفر سے بیزاری کا اظہار کرنا، پھر ایمان لانا اور پھر نیک اعمال کرنا ضروری ہیں ۔

جَنّٰتِ عَدْنِ ﹰالَّتِیْ وَعَدَ الرَّحْمٰنُ عِبَادَهٗ بِالْغَیْبِؕ-اِنَّهٗ كَانَ وَعْدُهٗ مَاْتِیًّا(61)

ترجمہ: کنزالعرفان

ہمیشہ رہنے کے ان باغوں میں (داخل ہوں گے) جن کا وعدہ رحمٰن نے اپنے بندوں سے ان کے دیکھے بغیر فرمایا ہے۔ بیشک اس کا وعدہ آنے والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{جَنّٰتِ عَدْنٍ:ہمیشہ رہنے کے باغوں  میں ۔} یعنی جنہوں  نے توبہ کی، ایمان لائے اور نیک اعمال کئے وہ ہمیشہ رہنے کے ان باغوں  میں  داخل ہوں  گے جن کا وعدہ رحمٰن نے اپنے اِن بندوں  سے فرمایا ہے ا س حال میں  کہ جنت اِن سے غائب ہے اور اِن کی نظر کے سامنے نہیں  یا اس حال میں  کہ وہ جنت سے غائب ہیں  اور اس کا مشاہدہ نہیں  کرتے اور یہ محض اس کی خبر ملنے سے ہی اس پرایمان لے آئے ہیں  ۔ بیشک  اللہ تعالیٰ نے جنت کا جو وعدہ فرمایاہے اس کا وہ وعدہ یقینی طور پر آنے والا ہے۔( روح البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۶۱، ۵ / ۳۴۵)

لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْهَا لَغْوًا اِلَّا سَلٰمًاؕ-وَ لَهُمْ رِزْقُهُمْ فِیْهَا بُكْرَةً وَّ عَشِیًّا(62)

ترجمہ: کنزالعرفان

وہ ان باغات میں کوئی بیکار بات نہ سنیں گے مگر سلام اور ان کیلئے اس میں صبح و شام ان کا رزق ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْهَا لَغْوًا:وہ ان باغات میں  کوئی بیکار بات نہ سنیں  گے۔}یعنی جن باغات کا  اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں  سے وعدہ فرمایا ہے ان کا وصف یہ ہے کہ جنتی ان باغات میں  کوئی بیکار بات نہ سنیں  گے ،البتہ وہ فرشتوں  کا یا آپس میں  ایک دوسرے کا سلام سنیں  گے اور ان کیلئے جنت میں  صبح و شام ان کا رزق ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جنت میں  انہیں  دائمی طور پر رزق ملے گا کیونکہ جنت میں  رات اور دن نہیں  ہیں  بلکہ اہلِ جنت ہمیشہ نور ہی میں  رہیں  گے ۔یا اس سے مراد یہ ہے کہ دنیا کے دن کی مقدار میں  دو مرتبہ جنتی نعمتیں  ان کے سامنے پیش کی جائیں  گی(البتہ وہ خود جس وقت جتنا چاہیں  گے کھائیں  گے،ان پر کوئی پابندی نہ ہوگی)۔( روح البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۶۲، ۵ / ۳۴۵)

 بیکار باتوں  سے پرہیز کریں :

             اللہ تعالیٰ نے اپنی عظیم الشان نعمتو ں  کے گھر جنت کو فضول اور بیکار باتوں  سے پاک فرمایا ہے ،اس سے معلوم ہوا دنیا میں  رہتے ہوئے بھی ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ بیکار باتوں  سے بچتا رہے اور فضول کلام سے پرہیز کرے۔  اللہ تعالیٰ کامل ایمان والوں  کا وصف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا‘‘(فرقان:۷۲)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جب کسی بیہودہ بات کے پاس سےگزرتے ہیں  تواپنی عزت سنبھالتے ہوئے گزر جاتے ہیں  ۔

         اور ارشاد فرماتا ہے

’’وَ اِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْهُ وَ قَالُوْا لَنَاۤ اَعْمَالُنَا وَ لَكُمْ اَعْمَالُكُمْ٘-سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ٘-لَا نَبْتَغِی الْجٰهِلِیْنَ‘‘(قصص:۵۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جب بیہودہ بات سنتے ہیں  اس سے منہ پھیر لیتے ہیں  اور کہتے ہیں : ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال ہیں ۔ بس تمہیں  سلام، ہم جاہلوں (کی دوستی)کو نہیں  چاہتے ۔

         حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا  ’’(یہ بات) آدمی کے اسلام کے حسن سے ہے کہ وہ لایعنی چیز کو چھوڑ دے۔( ترمذی، کتاب الزہد، ۱۱-باب، ۴ / ۱۴۲، الحدیث: ۲۳۲۵) اللہ تعالیٰ ہمیں  بیکار باتوں  اور فضول کلام سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔

تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِیْ نُوْرِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ كَانَ تَقِیًّا(63)

ترجمہ: کنزالعرفان

یہ وہ باغ ہے جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے اسے کریں گے جو پرہیزگار ہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{تِلْكَ الْجَنَّةُ:یہ وہ باغ ہے۔} یعنی جس جنت کے اوصاف بیان ہوئے یہ وہ باغ ہے جوہم اپنے ان بندوں  کو عطا کریں  گے جو پرہیزگار ہو۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک قول یہ بھی ہے کہ ہم نے جنت میں  کفار کے ایمان لانے کی صورت میں  ان کے لئے جو مکانات تیار کئے ہیں  ان کا وارث ہم اپنے پرہیزگار بندوں  کو کریں  گے۔( روح البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۶۳، ۵ / ۳۴۶، خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۶۳، ۳ / ۲۴۰، ملتقطاً) یاد رہے کہ جنت متقی اور پرہیز گار مسلمان کو ملے گی اور گناہگار مسلمانوں  کوبھی جو جنت ملے گی وہ ان کے گناہوں  کی معافی یا خاتمے کے بعد ہی ملے گی یعنی جنت میں  داخل ہوتے وقت وہ بھی گناہوں  سے پاک ہوچکے ہوں  گے۔

وَ مَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّكَۚ-لَهٗ مَا بَیْنَ اَیْدِیْنَا وَ مَا خَلْفَنَا وَ مَا بَیْنَ ذٰلِكَۚ-وَ مَا كَانَ رَبُّكَ نَسِیًّا(64)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ہم فرشتے صرف آپ کے رب کے حکم سے ہی اترتے ہیں ۔ سب اسی کا ہے جو ہمارے آگے ہے اور جو کچھ ہمارے پیچھے اور جو اس کے درمیان ہے اور آپ کا رب بھولنے والا نہیں ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّكَ:ہم فرشتے صرف آپ کے رب کے حکم سے ہی اترتے ہیں  ۔} اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَاسے روایت ہے کہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام  سے فرمایا:ا ے جبریل! عَلَیْہِ  السَّلَام، تم جتنا ہمارے پاس آتے ہو اس سے زیادہ کیوں  نہیں  آتے؟ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔( بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ، ۲ / ۳۸۴، الحدیث: ۳۲۱۸) اور حضرت جبریل عَلَیْہِ  السَّلَام نے  اللہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  عرض کی:یا رسولَ  اللہ !صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم فرشتے صرف آپ کے رب عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے ہی اترتے ہیں  اور تمام جگہوں  کا وہی مالک ہے ، ہم ایک مکان سے دوسرے مکان کی طرف نقل و حرکت کرنے میں  اس کے حکم و مَشِیَّت کے تابع ہیں  ، وہ ہر حرکت و سکون کا جاننے والا اور غفلت و نِسیان سے پاک ہے ، اس لئے وہ جب چاہے گا ہمیں  آپ صَلَّی اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں  بھیجے گا۔( مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۶۴، ص۶۷۹)

 اللہ تعالیٰ بھول سے پاک ہے:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ  اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ وہ کچھ بھول جائے۔ اِس سے ان لوگوں  کو اپنے طرزِ عمل پر غور کرنے کی سخت ضرورت ہے جو مذاق میں  کسی بوڑھے کے بارے میں  یا کسی چیز کے بارے میں  کہہ دیتے ہیں  کہ  اللہ تعالیٰ تو اسے بھول ہی گیا ہے۔ یہ کہنا صریح کفر ہے اور ایسا کہنے والا کافر ہے۔

رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَا فَاعْبُدْهُ وَ اصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهٖؕ-هَلْ تَعْلَمُ لَهٗ سَمِیًّا(65)

ترجمہ: کنزالعرفان

آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے سب کا رب (وہی ہے)تو اسی کی عبادت کرو اور اس کی عبادت پر ڈٹ جاؤ ،کیا تم اللہ کا کوئی ہم نام جانتے ہو؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ:آسمانوں  اور زمین کا رب۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آسمانوں  اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان میں  ہے سب کا مالک آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ ہی ہے، آپ اسی کی عبادت کرتے رہیں  اور اس کی عبادت پر ڈٹ جائیں،کیا آپ  اللہ تعالیٰ کا کوئی ہم نام جانتے ہیں ؟ یعنی کسی کو اس کے ساتھ نام کی شرکت بھی نہیں  اور اس کی وحدانیت اتنی ظاہر ہے کہ مشرکین نے بھی اپنے کسی باطل معبودکا نام’’ اللّٰہ‘‘ نہیں  رکھا ۔

             اس آیت ِ مبارکہ میں  فرمایا گیا کہ اس کی عبادت پر ڈٹ جاؤ، اس سے معلوم ہوا کہ خوشی و غم ہر حال میں  ہمیشہ عبادت کرنی چاہیے ۔ یہی حکم ہے اور یہی بارگاہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں  محبوب ہے، صرف خوشی یا صرف غم میں  عبادت کرنا کمال نہیں ۔ آیت میں   اللہ تعالیٰ کی صفت ِ ربوبیت بیان کرکے عبادت کا حکم دینے میں  اِس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ  اللہ تعالیٰ کا بندے کو پالنا، نعمتیں  پہنچانا اور بَتَدریج مرتبۂ کمال تک پہنچانا بھی اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ بندے احسان مندی کے طور پر  اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں ۔

وَ یَقُوْلُ الْاِنْسَانُ ءَاِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ اُخْرَ جُ حَیًّا(66)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور آدمی کہتا ہے: کیا جب میں مرجاؤں گا تو عنقریب مجھے زندہ کرکے ضرور نکالا جائے گا؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ یَقُوْلُ الْاِنْسَانُ:اور آدمی کہتا ہے۔} اس آیت میں  انسان سے مراد وہ کفار ہیں  جو موت کے بعد زندہ کئے جانے کے منکر تھے جیسے اُبی بن خلف اور ولید بن مغیرہ اور اِن جیسے تمام کفار، اِنہیں  لوگوں  کے بارے میں  یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ یہ کافر انسان مرنے کے بعد اٹھائے جانے کا مذاق اڑاتے اور اسے جھٹلاتے ہوئے کہتا ہے کہ کیا جب میں  مرجاؤں  گا تو عنقریب مجھے قبر سے زندہ کرکے ضرور نکالا جائے گا؟( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۶۶، ۳ / ۲۴۱، جلالین، مریم، تحت الآیۃ: ۶۶، ص۲۵۸، ملتقطاً)

اَوَ لَا یَذْكُرُ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ قَبْلُ وَ لَمْ یَكُ شَیْــٴًـا(67)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور کیا آدمی کو یاد نہیں کہ ہم نے اس سے پہلے اسے پیدا کیا حالانکہ وہ کوئی شے نہ تھا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَوَ لَا یَذْكُرُ الْاِنْسَانُ:اور کیا آدمی کو یاد نہیں ۔}  اللہ تعالیٰ نے اس کا رد کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جو مُردوں  کے زندہ کرنے پر  اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قدرت کا منکر ہے، کیا اُس نے اِس بات پر غور نہیں  کیا کہ ہم نے اسے اس وقت بنادیا جب وہ بالکل معدوم تھا تو جب اصلاً معدوم ہونے کے باوجود ہم اسے وجود اور زندگی دے سکتے ہیں  تو اگر ہم مردے کو زندہ کر دیں  تو اس میں  تعجب کی کیا بات ہے حالانکہ اب تو اس کی اصل موجود ہے۔

            اس آیت کی مناسبت سے یہاں  ایک حدیثِ قُدسی ملاحظہ ہو،صحیح بخاری شریف میں  حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’انسان نے مجھے جھٹلایا اور یہ اس کے لیے مناسب نہیں ، اور اس نے مجھے گالی دی جبکہ یہ بھی اس کے لیے مناسب نہیں ۔ پس اس کا جھٹلانا تو یہ ہے جو وہ کہتا ہے کہ ہمیں  دوبارہ زندہ نہیں  کیا جائے گا جیسا کہ ہمیں  پہلے پیدا کیا گیا، حالانکہ پہلی دفعہ بنانا میرے لئے دوبارہ زندہ کرنے سے زیادہ آسان نہیں ہے اور اس کا گالی دینا یہ ہے جووہ کہتا ہے کہ خدا کا بیٹا بھی ہے، حالانکہ میں  اکیلا ہوں ، بے نیاز ہوں ، نہ میں  نے کسی کو جنا اور نہ مجھے کسی نے جنا، اور کوئی ایک بھی میری برابری کرنے والا نہیں ۔( بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ قل ہو  اللہ احد، ۱-باب، ۳ / ۳۹۴، الحدیث: ۴۹۷۴)

فَوَرَبِّكَ لَنَحْشُرَنَّهُمْ وَ الشَّیٰطِیْنَ ثُمَّ لَنُحْضِرَنَّهُمْ حَوْلَ جَهَنَّمَ جِثِیًّا(68)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو تیرے رب کی قسم! ہم انہیں اور شیطانوں کو جمع کرلیں گے پھر انہیں دوزخ کے آس پاس اس حال میں حاضر کریں گے کہ گھٹنوں کے بل گرے ہوئے ہوں گے ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَوَرَبِّكَ لَنَحْشُرَنَّهُمْ:تو تمہارے رب کی قسم! ہم انہیں  جمع کرلیں  گے۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کے رب کی قسم! ہم مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کا انکار کرنے والے کافروں  کو قیامت کے دن زندہ کر کے انہیں  گمراہ کرنے والے شیطانوں  کے ساتھ اس طرح جمع کرلیں  گے کہ ہر کافر شیطان کے ساتھ ایک زنجیر میں  جکڑا ہو گا ، پھر انہیں  دوزخ کے آس پاس اس حال میں  حاضر کریں  گے کہ  اللہ تعالیٰ کے عذاب کا مشاہدہ کر کے دہشت کے مارے ان سے کھڑا ہونا مشکل ہو جائے گا اور وہ گھٹنوں  کے بل گرجائیں  گے۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۶۸، ۳ / ۲۴۱-۲۴۲، روح البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۶۸، ۵ / ۳۴۹) اور کافروں  کی ایسی ذلت و رسوائی دیکھ کر  اللہ تعالیٰ کے اولیاء اور سعادت مند بندے اس بات پر بہت خوش ہو رہے ہوں  گے کہ  اللہ تعالیٰ نے انہیں  اس ذلت سے نجات عطا فرمائی جبکہ ان کے دشمن کفار ان کی سعادت و خوش بختی دیکھ کر حسرت و افسوس اور انہیں  برابھلا کہنے پر خود کو ملامت کررہے ہوں  گے۔

         یاد رہے کہ قیامت کے دن لوگوں  پر ایک وقت ایسا آئے گا کہ اس دن کی شدت اور حساب کی سختی دیکھ کر ہر دین والا زانو کے بل گرا ہو گا، جیسا کہ  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے

’’وَ تَرٰى كُلَّ اُمَّةٍ جَاثِیَةً‘‘(جاثیہ:۲۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور تم ہر گروہ کو زانو کے بل گرے ہوئے دیکھو گے۔

         اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ کافروں  کو جب جہنم کے قریب حاضر کیا جائے گا تو وہ  اللہ تعالیٰ کے عذاب کا مشاہدہ کرکے گھٹنوں  کے بل گر جائیں  گے جیسا کہ زیرِتفسیر آیت میں  بیان ہوا، تو ان دونوں  آیات میں  جدا جدا احوال کا بیان ہے اس لئے ان میں  کوئی تَعارُض نہیں ۔

دنیا و آخرت میں  شیطان کا ساتھی بننے کاسبب:

         اس آیت کی تفسیر میں  بیان ہو اکہ کافر اور اسے گمراہ کرنے والا شیطان ایک ساتھ زنجیر میں  جکڑ اہو گا، اس مناسبت سے ہم یہاں  دنیا اور آخرت میں  شیطان کا ساتھی بننے کا ایک سبب بیان کرتے ہیں  ، چنانچہ جو شخص قرآنِ مجید سے اس طرح اندھا بن جائے کہ اس کی ہدایتوں  کو دیکھے نہ ان سے فائدہ اٹھائے،  اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اِعراض کرے اور اس کی گرفت اور عذاب سے بے خوف ہو جائے، دُنْیَوی زندگی کی لذّتوں  اور آسائشوں  میں  زیادہ مشغولیت اور اس کی فانی نعمتوں  اور نفسانی خواہشات میں  اِنہماک کی وجہ سے قرآن سے منہ پھیر لے تو  اللہ تعالیٰ اس پر ایک شیطان مقرر کر دیتا ہے جو دنیا میں  اسے حلال کاموں  سے روک کر اور حرام کاموں  کی ترغیب دے کر،  اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے منع کر کے اور اس کی نافرمانی کا حکم دے کر گمراہ کرتا رہتا ہے یہاں  تک کہ وہ اسے کفر کی اندھیری وادیوں  میں  دھکیل کر حالت ِکفر میں  مرواتا ہے اور پھر یہی شیطان قیامت کے دن بھی اس کے ساتھ ہو گا کہ ان دونوں  کو ایک ساتھ زنجیر میں  جکڑ کر جہنم میں  ڈال دیا جائے گا۔

             اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’ وَ مَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَهٗ شَیْطٰنًا فَهُوَ لَهٗ قَرِیْنٌ(۳۶)وَ اِنَّهُمْ لَیَصُدُّوْنَهُمْ عَنِ السَّبِیْلِ وَ یَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ مُّهْتَدُوْنَ(۳۷)حَتّٰۤى اِذَا جَآءَنَا قَالَ یٰلَیْتَ بَیْنِیْ وَ بَیْنَكَ بُعْدَ الْمَشْرِقَیْنِ فَبِئْسَ الْقَرِیْنُ‘‘(زخرف:۳۶-۳۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو رحمٰن کے ذکر سے منہ پھیرے توہم اس پر ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں  تو وہ اس کا ساتھی رہتا ہے۔ اور بیشک وہ شیاطین ان کو راستے سے روکتے ہیں  اوروہ یہ سمجھتے رہتے ہیں  کہ وہ ہدایت یافتہ ہیں ۔یہاں  تک کہ جب وہ کافر ہمارے پاسآئے گا تو(اپنے ساتھی شیطان سے )کہے گا: اے کاش! میرے اور تیرے درمیان مشرق و مغرب کے برابر دوری ہوجائے توتُو کتنا ہی برا ساتھی ہے۔

         اور ارشاد فرماتا ہے:

’’ وَ قَیَّضْنَا لَهُمْ قُرَنَآءَ فَزَیَّنُوْا لَهُمْ مَّا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ وَ حَقَّ عَلَیْهِمُ الْقَوْلُ فِیْۤ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِۚ-اِنَّهُمْ كَانُوْا خٰسِرِیْنَ‘‘(حم السجدہ:۲۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے کافروں  کیلئے کچھ ساتھی مقرر کر دئیے توانہوں  نے ان کے لئے ان کے آگے اور ان کے پیچھے کو خوبصورت بنا دیا۔ ان پر بات پوری ہوگئی جو ان سے پہلے گزرے ہوئے جنوں  اور انسانوں  کے گروہوں  پرثابت ہوچکی ہے۔ بیشک وہ نقصان اٹھانے والے تھے۔

         حضرت انس بن مالک رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جب  اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ شر کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کی موت سے ایک سال پہلے اس پر ایک شیطان مقرر کر دیتا ہے تو وہ جب بھی کسی نیک کام کو دیکھتا ہے وہ اسے برا معلوم ہوتا ہے یہاں  تک کہ وہ اس پر عمل نہیں  کرتا اور جب بھی وہ کسی برے کام کو دیکھتا ہے تو وہ اسے اچھا معلوم ہوتا ہے یہاں  تک کہ وہ اس پر عمل کرلیتا ہے۔(مسند الفردوس، باب الالف، ۱ / ۲۴۵، الحدیث: ۹۴۸)

         اس میں  خاص طور پر کفار اور عمومی طور پرتمام مسلمانوں  کے لئے نصیحت ہے کہ وہ ایسے کام کرنے سے بچیں  جن کی وجہ سے شیطان کو ان کا ساتھی بنا دیا جائے کیونکہ شیطان انتہائی برا ساتھی ہے جیساکہ  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ مَنْ یَّكُنِ الشَّیْطٰنُ لَهٗ قَرِیْنًا فَسَآءَ قَرِیْنًا‘‘(النساء:۳۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جس کا ساتھی شیطان بن جائے تو کتنا برا ساتھی ہوگیا۔

         اور جس کا ساتھی شیطان ہو وہ اپنے انجام پر خود ہی غور کرلے کہ کیساہو گا۔

ثُمَّ لَنَنْزِعَنَّ مِنْ كُلِّ شِیْعَةٍ اَیُّهُمْ اَشَدُّ عَلَى الرَّحْمٰنِ عِتِیًّا(69)ثُمَّ لَنَحْنُ اَعْلَمُ بِالَّذِیْنَ هُمْ اَوْلٰى بِهَا صِلِیًّا(70)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر ہم ہر گروہ سے اسے نکالیں گے جو ان میں رحمٰن پر سب سے زیادہ بے باک ہوگا۔ پھر ہم انہیں خوب جانتے ہیں جو آگ میں جلنے کے زیادہ لائق ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ثُمَّ لَنَنْزِعَنَّ مِنْ كُلِّ شِیْعَةٍ:پھر ہم ہر گروہ سے اسے نکالیں  گے۔} ارشاد فرمایا کہ جہنم کے آس پاس کفار کو جمع کرنے کے بعد ہم کفار کے ہر گروہ سے اسے نکالیں  گے جو ان میں  رحمٰن کی نافرمانی کرنے پر سب سے زیادہ بے باک ہوگا تاکہ جہنم میں  سب سے پہلے اُسے داخل کیا جائے جو سب سے زیادہ سرکش اور کفر میں  زیادہ شدید ہو اور بعض روایات میں  ہے کہ کفار سب کے سب جہنم کے گرد زنجیروں  میں  جکڑے طوق ڈالے ہوئے حاضر کئے جائیں  گے پھر جو کفر و سرکشی میں  زیادہ سخت ہوں  گے وہ پہلے جہنم میں  داخل کئے جائیں  گے اور انہیں  باقی کافروں  کے مقابلے میں  عذاب بھی زیادہ سخت ہوگا۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۶۹، ۳ / ۲۴۲)

کفار کے عذاب میں  فرق ہو گا:

            یاد رہے کہ کفر اگرچہ یکساں  ہے کہ ’’اَلکُفْرُ مِلَّۃٌ وَاحِدَۃٌ‘‘ یعنی کفر ایک ہی ملت ہے، مگر کفار مختلف قسم کے ہیں  کہ بعض ان میں  سے وہ ہیں  جو خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں  کو بھی گمراہ کیا اور بعض وہ ہیں  جو کسی کی پیروی کر کے گمراہ ہوئے تو ان میں  ہر قسم کے کافر کو اس قسم کا عذاب ہو گا جس کا وہ مستحق ہے جیسے گمراہ گَر کافروں  کو پیروی کرنے والے کفار کے مقابلے میں  دگنا عذاب ہو گا،چنانچہ  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے

’’اَلَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ صَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ زِدْنٰهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوْا یُفْسِدُوْنَ‘‘(نحل: ۸۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: جنہوں  نے کفر کیا اور  اللہ کی راہ سے روکا ہم ان کے فساد کے بدلے میں  عذاب پر عذاب کا اضافہ کردیں  گے۔

            اور ارشاد فرماتا ہے

’’وَ لَیَحْمِلُنَّ اَثْقَالَهُمْ وَ اَثْقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ‘‘ (عنکبوت:۱۳)

ترجمۂ  کنزُالعِرفان: اور بیشک ضرور اپنے بوجھ اٹھائیں  گے اور اپنے بوجھوں  کے ساتھ اور بوجھ اٹھائیں  گے ۔

{ثُمَّ لَنَحْنُ اَعْلَمُ:پھر ہم انہیں  خوب جانتے ہیں ۔} یعنی ہم خوب جانتے ہیں  کہ کون سا کافر جہنم کے کس طبقہ کے لائق ہے اور کون سا کافر جہنم کے شدید عذاب کا مستحق ہے اور کون سا نہیں  اور کسے پہلے جہنم میں  پھینکا جائے گا اورکسے بعد میں ۔

وَ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَاۚ-كَانَ عَلٰى رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِیًّا(71)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور تم میں سے ہرایک دوزخ پر سے گزرنے والاہے۔یہ تمہارے رب کے ذمہ پر حتمی فیصلہ کی ہوئی بات ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا:اور تم میں  سے ہرایک دوزخ پر سے گزرنے والاہے۔} اس آیت سے متعلق مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں ، ان میں  سے 3قول درج ذیل ہیں :

(1)… اس آیت میں  کافروں  سے خطاب ہے( اور جہنم پر وارد ہونے سے مراد جہنم میں  داخل ہونا ہے۔)

(2)… اس میں  خطاب تمام لوگوں  سے ہے اور جہنم پر وارد ہونے سے مراد جہنم میں  داخل ہونا ہے البتہ (جنت میں  جانے والے) مسلمانوں  پر جہنم کی آگ ایسے سرد ہو جائے گی جیسے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر دنیا میں  آگ سرد ہوئی تھی اور ان کا یہ داخلہ عذاب پانے کے طور پر نہ ہو گا اور نہ ہی یہ وہاں  خوفزدہ ہوں  (بلکہ ان کا یہ داخلہ صرف  اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کی تصدیق کے لئے ہوگا۔)( تاویلات اہل السنہ، مریم، تحت الآیۃ: ۷۱، ۳ / ۲۷۴-۲۷۵)

(3)…علامہ ابوحیان محمد بن یوسف اندلسی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  ’’اس آیت میں  خطاب عام مخلوق سے ہے (یعنی اس خطاب میں  نیک و بد تمام لوگ داخل ہیں ) اور جہنم پر وارد ہونے سے (نیک و بد) تمام لوگوں  کا جہنم میں  داخل ہونا مراد نہیں  (بلکہ اس سے مراد جہنم کے اوپر سے گزرنا ہے،جیسا کہ ) حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت حسن اور حضرت قتادہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ سے روایت ہے کہ جہنم پر وارد ہونے سے مراد پل صراط پر سے گزرنا ہے جو کہ جہنم کے او پر بچھایا گیا ہے۔( البحر المحیط، مریم، تحت الآیۃ: ۷۱، ۶ / ۱۹۷)

{كَانَ عَلٰى رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِیًّا: یہ تمہارے رب کے ذمہ پر حتمی فیصلہ کی ہوئی بات ہے۔} یعنی جہنم پر وارد ہونا  اللہ تعالیٰ کا وہ حتمی فیصلہ ہے جو اس نے اپنے تمام بندوں  پر لازم کیا ہے۔

پل صراط سے متعلق چند اہم باتیں :

         اس آیت کی تفسیر میں پل صراط سے گزرنے کا بھی ذکر ہوا، اس مناسبت سے یہاں  پل صراط سے متعلق چند اہم باتیں  ملاحظہ ہوں ، چنانچہ صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ فرماتے ہیں  ’’صراط حق ہے ۔یہ ایک پل ہے کہ پشتِ جہنم پر نصب کیا جائے گا۔ بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہوگا ۔ جنت میں  جانے کا یہی راستہ ہے۔ سب سے پہلے نبی صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہ وَسَلَّمَ گزر فرمائیں  گے، پھر اور اَنبیا و مُرسَلین، پھر یہ اُمت پھر اور اُمتیں  گزریں  گی  اور حسبِ اِختلافِ اعمال پل صراط پر لوگ مختلف طرح سے گزریں  گے، بعض تو ایسے تیزی کے ساتھ گزریں  گے جیسے بجلی کا کوندا کہ ابھی چمکا اور ابھی غائب ہوگیا اور بعض تیز ہوا کی طرح، کوئی ایسے جیسے پرند اڑتا ہے اور بعض جیسے گھوڑا دوڑتا ہے اور بعض جیسے آدمی دوڑتا ہے، یہاں  تک کہ بعض شخص سرین پر گھسٹتے ہوئے اور کوئی چیونٹی کی چال جائے گا اور پل صراط کے دونوں  جانب بڑے بڑے آنکڑے ( اللہ (عَزَّوَجَلَّ) ہی جانے کہ وہ کتنے بڑے ہونگے) لٹکتے ہوں  گے، جس شخص کے بارے میں  حکم ہوگا اُسے پکڑلیں  گے، مگر بعض تو زخمی ہو کرنجات پا جائیں  گے اور بعض کو جہنم میں  گرا دیں  گے   اور یہ ہلاک ہوا۔ یہ تمام اہلِ محشر تو پل پر سے گزرنے میں  مشغول، مگر وہ بے گناہ، گناہگاروں  کا شفیع پل کے کنارے کھڑا ہوا بکمالِ گریہ وزاری اپنی اُمتِ عاصی کی نجات کی فکر میں  اپنے رب سے دُعا کر رہا ہے: ’’رَبِّ سَلِّمْ سَلِّمْ‘‘ اِلٰہی! ان گناہگاروں  کو بچالے بچالے۔ اور ایک اسی جگہ کیا! حضور (صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) اُس دن تمام مواطن میں  دورہ فرماتے رہیں  گے، کبھی میزان پر تشریف لے جائیں  گے، وہاں  جس کے حسنات میں  کمی دیکھیں  گے، اس کی شفاعت فرما کر نجات دلوائیں  گے اور فوراً ہی دیکھو تو حوضِ کوثر پر جلوہ فرما ہیں  ، پیاسوں  کو سیراب فرما رہے ہیں  اور وہاں  سے پل پر رونق افروز ہوئے اور گرتوں  کو بچایا۔ غرض ہر جگہ اُنھیں  کی دوہائی، ہر شخص اُنھیں  کو پکارتا، اُنھیں  سے فریاد کرتا ہے اور اُن کے سوا کس کوپکارے۔۔۔؟! کہ ہر ایک تو اپنی فکر میں  ہے، دوسروں  کو کیا پوچھے، صرف ایک یہی ہیں ، جنہیں  اپنی کچھ فکر نہیں  اور تمام عالَم کا بار اِن کے ذمے۔( بہار شریعت، حصہ اول، معاد وحشر کا بیان، ۱ / ۱۴۷-۱۴۹)

         اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ اس وقت کی منظر کَشی کرتے ہوئے کیا خوب فرماتے ہیں :

پیشِ حق مژدہ شفاعت کا سناتے جائیں  گے

آپ روتے جائیں  گے ہم کو ہنساتے جائیں  گے

کچھ خبر بھی ہے فقیرو آج وہ دن ہے کہ

 وہ نعمتِ خُلد اپنے صَدقے میں  لٹاتے جائیں  گے

خاک اُفتادو! بس اُن کے آنے ہی کی دیر ہے

خود وہ گر کر سجدہ میں  تم کو اٹھاتے جائیں  گے

آنکھ کھولو غمزدو دیکھو وہ گِریاں  آئے ہیں

لَوحِ دل سے نقشِ غم کو اب مٹاتے جائیں  گے

پائے کوباں  پل سے گزریں  گے تری آواز پر

رَبِّ سَلِّمْ کی  صَدا  پر  وَجد  لاتے  جائیں   گے 

پل صراط کاخوفناک منظر:

         یاد رہے کہ پل صراط سے گزرنے کا مرحلہ انتہائی مشکل اور اس کا منظر بہت خوفناک ہے، امام محمد غزالی رَحْمَۃُ  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں : (جب قیامت کے دن ) لوگوں  کو پل صراط کی طرف لے جایا جائے گا جو کہ جہنم کے اوپر بنایا ہوا ہے اور وہ تلوار سے زیادہ تیز، بال سے زیادہ باریک ہے۔ تو جو شخص اس دنیا میں  صراطِ مستقیم پر قائم رہا وہ آخرت میں  پل صراط پر ہلکا ہوگا اور نجات پاجائے گا اور جو دنیا میں  اِستقامت کی راہ سے ہٹ گیا، گناہوں  کی وجہ سے اس کی پیٹھ بھاری ہوئی اور وہ نافرمانی کرتا رہا تو پہلے قدم پر ہی وہ پل صراط سے پھسل کر (جہنم میں ) گر جائے گا۔ تو اے بندے! ذرا سوچ کہ اس وقت تیرا دل کس قدر گھبرائے گا جب تو پل صراط اور اس کی باریکی دیکھے گا، پھر اس کے نیچے جہنم کی سیاہی پر تیری نظر پڑے گی، اس کے نیچے آگ کی چیخ اور اس کا غصے میں  آنا سنے گا اور کمزور حالت کے باوجود تجھے پل صراط پر چلنا ہوگا، چاہے تیرا دل بے قرار ہو، قدم پھسل رہے ہوں  اور پیٹھ پر اتنا وزنی بوجھ ہو جو زمین پر چلنے سے رکاوٹ ہے۔ نیز پل صراط کی باریکی پر چلنا تو ایک طرف رہا، اس وقت تیری کیا حالت ہوگی، جب تو اپنا ایک پاؤں  اِس پل پر رکھے گا اور اس کی تیزی کو محسوس کرے گا، لیکن (نہ چاہتے ہوئے بھی) دوسرا قدم اٹھانے پر مجبور ہوگا اور تیرے سامنے لوگ پھسل پھسل کر گر رہے ہوں  گے اور جہنم کے فرشتے انہیں  کانٹوں  اور مڑے ہوئے سرے والے لوہے سے پکڑ رہے ہوں  گے اور تو ان کی طرف دیکھ رہا ہوگا کہ وہ کس طرح سر نیچے اور پاؤں  اوپر کئے ہوئے جہنم میں  جارہے ہوں  گے تو یہ کس قدر خوفناک منظر ہوگا اور تجھے سخت مقام پر چڑھائی کرنی اور تنگ راستے سے گزرنا ہوگا۔ تو اپنی حالت کے بارے میں  سوچ کہ جب تو اس پر چلے گا اور چڑھے گا اور بوجھ کی وجہ سے تیری پیٹھ بھاری ہو رہی گی اور اپنے دائیں  بائیں  لوگوں  کو جہنم میں  گرتے ہوئے دیکھ رہا ہو گا۔ رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اے میرے رب! بچالے ،اے میرے رب ! بچالے، پکار رہے ہوں  گے، تباہی اور خرابی کی پکار جہنم کی گہرائی سے تیری طرف آرہی ہوگی، کیونکہ بے شمار لوگ پل صراط سے پھسل چکے ہوں  گے ،اس وقت اگر تیرا قدم بھی پھسل گیا تو کیا ہوگا…؟اس وقت ندامت بھی تجھے کوئی فائدہ نہ دے گی اور تو بھی ہائے خرابی، ہائے ہلاکت پکار رہا اور یوں  کہہ رہا ہو گا کہ میں  اسی دن سے ڈرتا تھا ،کاش !میں  نے اپنی (اس) زندگی کے لیے کچھ آگے بھیجا ہوتا۔ کاش! میں  رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بتائے ہوئے راستے پر چلا ہوتا۔ ہائے افسوس ! میں  نے فلاں  کو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا ۔ کاش! میں  مٹی ہو گیا ہوتا۔ کاش ! میں  بھولا بسرا ہوجاتا۔ کاش! میری ماں  نے ہی مجھے پیدا نہ کیا ہوتا۔ اس وقت آگ کے شعلے تجھے اچک لیں  گے اور ایک منادی اعلان کردے گا’’اِخْسَــٴُـوْا فِیْهَا وَ لَا تُكَلِّمُوْنِ‘‘دھتکارے ہوئے جہنم میں  پڑے رہو اور مجھ سے بات نہ کرو۔(مومنون:۱۰۸) اب چیخنے چلانے، رونے، فریاد کرنے اور مدد مانگنے کے سوا تیرے پاس کوئی راستہ نہ ہوگا۔

         اے بندے! تو اس وقت تو اپنی عقل کو کس طرح دیکھتا ہے حالانکہ یہ تمام خطرات تیرے سامنے ہیں ؟ اگر تیرا ان باتوں  پر عقیدہ نہیں  تو ا س سے معلوم ہوتا ہے کہ تو دیر تک (یعنی ہمیشہ کیلئے) کفار کے ساتھ جہنم میں  رہنا چاہتا ہے اور اگر تو ان باتوں  پر ایمان رکھتا ہے لیکن غفلت کا شکار ہے اور اس کے لیے تیاری میں  سستی کا مظاہرہ کررہا ہے تواس میں  تیرا نقصان اور سرکشی کتنی بڑی ہے۔ ایسے ایمان کا تجھے کیا فائدہ جو  اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور اس کی نافرمانی چھوڑنے کے ذریعے تجھے اس کی رضا جوئی کی خاطر کوشش کی ترغیب نہیں  دیتا، اگر بالفرض تیرے سامنے پل صراط سے گزرنے کے خوف سے پیدا ہونے والی دل کی دہشت کے سوا کچھ نہ ہو، اگرچہ تو سلامتی کے ساتھ ہی گزرجائے تو یہ ہولناک خوف اور رعب کیا کم ہے۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت ومابعدہ، الشطر الثانی، صفۃ الصراط، ۵ / ۲۸۵)

         امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  مزید فرماتے ہیں : قیامت کے ہولناک حالات میں  وہی شخص زیادہ محفوظ ہوگا جو دنیا میں  اس کی فکر زیادہ کرے گا کیونکہ  اللہ تعالیٰ ایک بندے پر دو خوف جمع نہیں  کرتا، تو جو آدمی دنیا میں  ان خوفوں  سے ڈرا وہ آخرت کے دن ان سے محفوظ رہے گا، اور خوف سے ہماری مراد عورتوں  کی طرح کا خوف نہیں  ہے کہ سنتے وقت دل نرم ہوجائے اور آنسو جاری ہو پھر جلد ہی اسے بھول جاؤ اور اپنے کھیل کود میں  مشغول ہوجاؤ ،کیونکہ اس بات کا خوف سے کوئی تعلق نہیں  بلکہ جو آدمی کسی چیز سے ڈرتا ہے وہ اس سے بھاگتا ہے اور جو شخص کسی چیز کی امید رکھتا ہے وہ اسے طلب کرتا ہے ،تو تجھے وہی خوف نجات دے گا جو  اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے روکے اور اس کی اطاعت پر آمادہ کرے۔ نیزعورتوں  کی طرح دل نرم ہونے سے بھی بڑھ کر بے وقوفوں  کا خوف ہے کہ جب وہ ہَولناک مَناظِر کے بارے میں  سنتے ہیں  تو فوراً ان کی زبان پر اِستعاذہ (یعنی اَعُوْذُ بِاللّٰہ)جاری ہوتا ہے اور وہ کہتے ہیں  میں   اللہ تعالیٰ کی مدد چاہتا ہوں ،  اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں ۔ یااللّٰہ! بچالینا، بچالینا۔ اس کے باوجود وہ گناہوں  پر ڈٹے رہتے ہیں  جو ان کی ہلاکت کا باعث ہیں ۔ شیطان ان کے پناہ مانگنے پر ہنستا ہے جس طرح وہ اس آدمی پر ہنستا ہے جسے صحرا میں  کوئی درندہ پھاڑنا چاہتا ہو اور اس کے پیچھے ایک قلعہ ہو ،جب وہ دور سے درندے کی داڑھوں  اور اس کے حملہ کرنے کو دیکھے تو زبان سے کہنے لگے کہ میں  اس مضبوط قلعے میں  پناہ لیتا ہوں  اور اس کی مضبوط دیواروں  اور سخت عمارت کی مدد چاہتا ہوں  اور وہ یہ کلمات اپنی جگہ بیٹھے ہوئے صرف زبان سے کہتا رہے تو یہ بات کس طرح اسے درندے سے بجائے گی…؟ تو آخرت کا بھی یہی حال ہے کہ اس کا قلعہ صرف سچے دل سے ’’لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کہنا ہے اور سچائی کا معنی یہ ہے کہ اس کا مقصود صرف  اللہ تعالیٰ ہو اور اس کے علاوہ کوئی مقصود و معبود نہ ہو، اور جو شخص اپنی خواہش کو معبود بنالیتا ہے تو وہ توحید میں  سچائی سے دور ہوتا ہے اور اس کا معاملہ خود خطرناک ہے۔ اگر تم ان باتوں  سے عاجز ہو تو  اللہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے محبت کرنے والے بن جاؤ، آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنت کی تعظیم کے حریص ہوجاؤ۔ امت کے نیک لوگوں کے دلوں  کی رعایت کا شوق رکھنے والے ہوجاؤ اور ان کی دعاؤں  سے برکت حاصل کرو تو ممکن ہے کہ تمہیں  نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان نیک لوگوں  کی شفاعت سے حصہ ملے اور اس وجہ سے تم نجات پاجاؤ اگرچہ تمہاری پونجی کم ہو۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت ومابعدہ، الشطر الثانی، صفۃ الصراط، ۵ / ۲۸۶-۲۸۷)

            اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ   اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  عرض کرتے ہیں  اور انہی کے الفاظ میں  ہم بھی  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  عرض گزار ہیں  کہ

یا الٰہی جب چلوں  تاریک راہِ پل صراط

آفتابِ ہاشمی نورُالہُدیٰ کا ساتھ ہو

یا الٰہی جب سرِ شمشیر پر چلنا پڑے

رَبِّ سَلِّمْ  کہنے والے غمزُدا کا ساتھ ہو

ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ نَذَرُ الظّٰلِمِیْنَ فِیْهَا جِثِیًّا(72)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر ہم ڈر نے والوں کو بچالیں گے اور ظالموں کو اس میں گھٹنوں کے بل گرے ہوئے چھوڑ دیں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا:پھر ہم ڈر نے والوں  کو بچالیں  گے ۔} اس سے پہلی والی آیت کی تفسیر میں  ایک قول گزرا کہ جہنم پر وارد ہونے سے مراد پل صرا ط سے گزرنا ہے ، اُس کے مطابق اِس آیت کی تفسیر یہ ہے کہ جب تمام مخلوق پل صراط سے گزرے گی اور کفار و گناہگار مسلمان جہنم میں  گر رہے ہوں  گے اس وقت اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان میں  سے ان لوگوں  کو جہنم میں  گرنے سے بچا لے گا جنہوں  نے دنیا میں  پر ہیز گاری اختیار کی اوروہ کافروں  کو جہنم میں  گھٹنوں  کے بل گرا ہوا چھوڑ دے گا۔ یاد رہے کہ بعض گنہگار مسلمان جو پل صراط سے جہنم میں  گرجائیں  گے انہیں  گناہوں  کی سزا پوری ہونے کے بعد جہنم سے نکال لیا جائے گا جبکہ کافرہمیشہ جہنم میں  ہی رہیں  گے ۔

نجانے ہم پل صراط سے نجات پاجائیں  گے یا نہیں :

         ہمارے بزرگانِ دین دنیا میں  ہر طرح سے تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرنے اور نیک اعمال کی کثرت کرنے کے باوجود پل صراط سے نجات پانے کے معاملے میں اللہ تعالیٰ کی خُفیہ تدبیر سے بہت خوفزدہ رہا کرتے تھے ، چنانچہ ایک مرتبہ حضرت عبد اللہ بن رواحہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  اپنی زوجہ محترمہ کی گود میں  اپنا سر رکھے ہوئے تھے کہ اچانک رونے لگے، انہیں  روتا دیکھ کر زوجہ بھی رونے لگیں۔ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان سے پوچھا :تم کیوں  روتی ہو؟ انہوں  نے جواب دیا: میں  نے آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو روتا دیکھاتو مجھے بھی رونا آگیا۔ حضرت عبد اللہ بن رواحہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’مجھے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان یاد آگیا کہ’’وَ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا‘‘اور تم میں  سے ہرایک دوزخ پر سے گزرنے والاہے ۔‘‘تو مجھے نہیں  معلوم کہ میں  جہنم سے نجات پا جاؤں  گا یا نہیں۔(مستدرک، کتاب الاہوال، یرد الناس النار ثمّ یصدرون عنہا باعمالہم، ۵ / ۸۱۰، الحدیث: ۸۷۸۶)

         اسی طرح ایک دن حضرت حسن بصری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ لوگو ں  کو وعظ ونصیحت کرنے بیٹھے تو لوگ ان کے قریب آنے کے لئے ایک دو سرے کو دھکیلنے لگے ، اس پر آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا: اے میرے بھائیو! آج تم میرا قرب پانے کے لئے ایک دوسرے کو دھکے دے رہے ہو، کل قیامت میں  تمہارا کیا حال ہوگا جب پرہیزگاروں  کی مجالس قریب ہوں  گی جبکہ گنہگاروں  کی مجالس کو دور کردیا جائے گا، جب کم بوجھ والوں  (یعنی نیک لوگوں ) سے کہا جائے گا کہ تم پل صراط عبور کرلو اور زیادہ بوجھ والوں  (یعنی گناہگاروں  ) سے کہا جائے گا کہ تم جہنم میں  گرجاؤ ۔ آہ! میں  نہیں  جانتا کہ میں  زیادہ بو جھ والوں  کے ساتھ جہنم میں  گرپڑوں  گا یا تھوڑے بو جھ والوں  کے ساتھ پل صراط پار کرجاؤں  گا۔( بحر الدموع، الفصل السادس: تنبیہ الغافلین من نسیان الآخرۃ، ص۵۳)

         یونہی ایک بار خلیفۂ عادل حضرت عمر بن عبدالعزیز رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  کی لونڈی نے نیند سے بیدار ہوکر عرض کی: اے امیر المومنین! رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ ، میں  نے ابھی ابھی ایک خواب دیکھا ہے ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  نے فرمایا: وہ خواب بیان کرو۔ لونڈی نے عرض کی: میں  نے خواب میں  دیکھا کہ جہنم بھڑک رہا ہے اور اس کی پشت پر پل صراط قائم کر دیا گیا ہے ،اتنے میں  بنی اُمیّہ کے خلیفہ عبدالملک کولایا گیا، وہ پل صراط پر چند قدم چلا اور جہنم میں  گرگیا، پھر ولید بن عبدالملک کو لایا گیا تو وہ بھی چند قدم چل کر جہنم میں  گرگیا، پھر خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کو لایا گیا تو وہ بھی تھوڑی دور پل صراط پر چل کر جہنم میں  اوندھا ہو کر گر پڑا ۔آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  نے بے قرار ہو کر پوچھا: پھر کیا ہوا؟ لونڈی نے عرض کی: اے امیر المومنین! رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ ، پھر آپ لائے گئے۔ یہ سنتے ہی حضرت عمر بن عبدالعزیز رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  چیخ مار کر بے ہوش ہوگئے اور لونڈی ان کے کان کے قریب جا کر کہنے لگی: اے امیر المومنین ! رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ ، میں  نے دیکھا کہ آپ پل صراط سے پار ہو کر نجات پا گئے، خدا کی قسم! آپ سلامتی کے ساتھ پل صراط سے پار ہوگئے، مگر حضرت عمر بن عبدالعزیز رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  برابر پاؤں  پٹخ پٹخ کر چیخ مارتے اور روتے رہے۔( احیاء علوم الدین،کتاب الخوف والرجاء،بیان احوال الصحابۃ والتابعین والسلف الصالحین فی شدۃ الخوف،۴ / ۲۳۱)اللہ تعالیٰ ہمیں  بھی پل صراط سے گزرنے کے معاملے میں  اپنی فکر کرنے اور ایسے اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے جن کی وجہ سے پل صراط سے گزرنا آسان ہوں ۔

پل صراط پر آسانی اور حفاظت کے لئے 3اَعمال:

         یہاں  پل صراط پر آسانی اور حفاظت کے ساتھ پل صراط پار کر جانے کے لئے 3 اَعمال ملاحظہ ہوں :

(1)…درود شریف پڑھنا:

         حضرت عبد الرحمٰن بن سمرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میں  نے گزشتہ رات عجیب معاملات دیکھے (ان میں  سے ایک یہ بھی تھا کہ) میں  نے اپنے ایک امتی کو دیکھا جو پل صراط پر کبھی گھسٹ کر چل رہا تھا اور کبھی گھٹنوں  کے بل چل رہا تھا ، اتنے میں  وہ دُرُود شریف آیا جو اس نے مجھ پر بھیجا تھا، اُس نے اُسے پُل صِراط پر کھڑا کر دیا یہاں  تک کہ اُس نے پل صراط کو پار کر لیا۔( معجم الکبیر، حدیث عبد الرحمٰن بن سمرۃ فی رؤیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ۲۵ / ۲۸۱، الحدیث: ۳۹)

(2)…مسجد میں  بکثرت حاضر ہونا:

         حضرت ابو دردا ء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے  ارشاد فرمایا ’’مسجد ہر پرہیز گار کا گھر ہے اور جن کے گھر مسجدیں  ہوں  اللہ تعالیٰ انہیں  اپنی رحمت، رضا ،اور پل صراط سے حفاظت کے ساتھ گزار کر اپنی رضا (والے گھر جنت) کی  ضمانت دیتا ہے۔( کتاب الجامع فی آخر المصنف، باب اصحاب الاموال، ۱۱ / ۱۳۵، الحدیث: ۲۰۱۹۸)

 (3)…مسلمان کی پریشانی دور کرنا:

         حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے کسی مسلمان کی ایک پریشانی دور کی تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے لئے پل صراط پر نور کی ایسی دوشاخیں  بنا دے گا جن کی روشنی سے اتنے عالَم روشن ہوں  گے جنہیں  اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی شمار نہیں  کرسکتا۔( معجم الاوسط، باب العین، من اسمہ عبد اللّٰہ، ۴ / ۳۸۵، الحدیث: ۴۵۰۴)

وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤاۙ-اَیُّ الْفَرِیْقَیْنِ خَیْرٌ مَّقَامًا وَّ اَحْسَنُ نَدِیًّا(73)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور جب ان کے سامنے ہماری روشن آیات کی تلاوت کی جاتی ہے توکافر ایمان والوں سے کہتے ہیں : دونوں گروہوں میں کس کا مکان بہتر اور مجلس اچھی ہے؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ:اور جب ان کے سامنے ہماری روشن آیات کی تلاوت کی جاتی ہے۔} نضر بن حارث وغیرہ کفارِ قریش جو کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کے منکر تھے جب ان کے سامنے قیامت قائم ہونے اور اَجسام کا حشر ہونے پر دلائل پیش کئے گئے تو انہوں  نے بناؤ سنگار کر کے ، بالوں  میں  تیل ڈال کر ، کنگھیاں  کر کے ، عمدہ لباس پہن کر اور فخر و تکبر کے ساتھ اُن دلائل کے جواب میں  غریب فقیر مسلمانوں  سے کہا کہ اے مسلمانو! تم اپنی معاشی حالت پر غور کرو اور ہماری معاشی حالت دیکھو، ہم اعلیٰ قسم کی رہائش گاہوں  میں  رہتے ہیں  ،اعلیٰ قسم کے لباس پہنتے ہیں ، اعلیٰ قسم کاکھانا کھاتے ہیں  اور ہماری محفلیں  بھی تمہاری محفلوں  سے زیادہ بارونق ہیں  اور تمہارا حال ہم سے انتہائی برعکس ہے، اس سے تم سمجھ جاؤ کہ اگرہم باطل پرہوتے تو ہمارا حال بد تر اور تمہارا حال ہم سے بہتر ہوتا ۔‘‘

یاد رہے کہ اس آیت کامُدّعا یہ ہے کہ جب آیات نازِل کی جاتی ہیں  اور دلائل و بَراہین پیش کئے جاتے ہیں  تو کفار ان میں  غورو فکر کرتے ہیں  اور نہ ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں  اور اس کی بجائے وہ مال ودولت اور لباس و مکان پر فخر و تکبر کرتے ہیں  ۔

دُنْیَوی ترقی کو اُخروی بہتری کی دلیل بنانا درست نہیں :

اس آیت میں  جو دلیل بیان ہوئی یہ کفار کی وہ دلیل ہے جو فی زمانہ کفار اور ان سے مرعوب مسلمان بھی مسلمانوں  کے سامنے پیش کرتے ہیں  اور کافروں  کی دُنْیَوی اور سائنسی اِیجادات میں  ترقی کی مثالیں  پیش کرکے مسلمانوں  کے دلوں  میں  دین ِاسلام سے متعلق شکوک و شُبہات ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ، اور اس آیت سے معلوم ہوا کہ دنیوی عیش وعشرت کو آخرت کی بہتری کی دلیل بنانا کفار کا طریقہ ہے حالانکہ یہ چیزیں  کبھی آخرت کا وَبال بن جاتی ہیں۔  اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں  کو عقلِ سلیم عطا فرما ئے اور انہیں  اپنی حقیقی بہتری کو پہچاننے کی توفیق نصیب کرے۔اٰمین۔

وَ كَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْنٍ هُمْ اَحْسَنُ اَثَاثًا وَّ رِءْیًا(74)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ہم نے ان سے پہلے کتنی قومیں ہلاک کردیں جو سازوسامان میں اور دکھائی دینے میں ان سے زیادہ اچھے تھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ كَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْنٍ:اور ہم نے ان سے پہلے کتنی قومیں  ہلاک کردیں ۔} اس آیت میں   اللہ تعالیٰ نے ان کافروں  کا رد کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ دنیوی مال ودولت یاعزت وشہرت ہونا کسی کے حق پر ہونے کی کوئی دلیل نہیں ، تم سے پہلے تم سے زیادہ مالد ارلوگ آئے اور انہوں  نے تم سے بھی زیادہ خوبصورت اور مضبوط رہائش گاہیں  بنائیں  جیسے فرعون ہامان، قارون اور ان کے ساتھی وغیرہ ، مگر  اللہ تعالیٰ نے ان کے خوبصورت اور مضبوط مکانات تباہ وبرباد کردئیے اور ان کو نشانِ عبرت بنادیا۔ لہٰذا تم بھی غور کرو اور اپنی اصلاح کرلو کیونکہ دنیا کا مال ودولت ہونا کامیابی کے لیے کافی نہیں ۔ اسی کی کچھ جھلک ہم اپنے قریب زمانے میں  بھی دیکھ سکتے ہیں  کہ ایک سلطنت کبھی اتنی بڑی تھی کہ اس کی حکومت میں  سورج غروب نہ ہوتا تھا لیکن آج وہ چھوٹے سے رقبے پر رہ گئی ، یونہی ایک ملک آدھی دنیا کا مالک بننے کا دعویٰ کرتا پھر رہا تھا لیکن بالآخر تباہ و برباد ہوا اور کمزور سے ملک سے ذلیل و خوار ہوکر نکالا گیا اور اب دوبارہ وہ اپنی روٹی پانی کی فکر میں  پڑا ہوا ہے۔

قُلْ مَنْ كَانَ فِی الضَّلٰلَةِ فَلْیَمْدُدْ لَهُ الرَّحْمٰنُ مَدًّاۚ۬-حَتّٰۤى اِذَا رَاَوْا مَا یُوْعَدُوْنَ اِمَّا الْعَذَابَ وَ اِمَّا السَّاعَةَؕ-فَسَیَعْلَمُوْنَ مَنْ هُوَ شَرٌّ مَّكَانًا وَّ اَضْعَفُ جُنْدًا(75)

ترجمہ: کنزالعرفان

تم فرماؤ : جو گمراہی میں ہو تو اسے رحمٰن خوب ڈھیل دیدے یہاں تک کہ جب وہ اس چیز کو دیکھیں جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے یا تو عذاب اوریا قیامت تو وہ جان لیں گے کہ کس کا درجہ برا اور کس کی فوج کمزور ہے ؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قُلْ مَنْ كَانَ فِی الضَّلٰلَةِ:تم فرماؤ : جو گمراہی میں  ہو ۔} اس آیت میں  کافروں  کے نظریے کا ایک اور جواب دیا گیا، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ مال و مَنال پر فخر کرنے والے اِن کافروں  سے ارشاد فرما دیں  کہ جو گمراہی میں  ہو تو اسے رحمٰن عَزَّوَجَلَّ دنیا میں  لمبی عمر اور زیادہ مال دے کر خوب ڈھیل دیتا ہے یہاں  تک کہ جب وہ گمراہ لوگ اس چیز کو دیکھیں  گے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے یا تو دنیا میں  قتل و قید کا عذاب اوریا قیامت کا دن جس میں  وہ جہنم میں  داخل ہوں  گے تواس وقت وہ جان لیں  گے کہ مسلمانوں  اور کافروں  میں  سے کس کا درجہ برا اور کس کی فوج کمزور ہے؟( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۷۵، ۳ / ۲۴۵، روح البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۷۵، ۵ / ۳۵۲-۳۵۳، ملتقطاً)

وَ یَزِیْدُ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اهْتَدَوْا هُدًىؕ-وَ الْبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّ خَیْرٌ مَّرَدًّا(76)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ہدایت پانے والوں کی ہدایت کو اللہ اور زیادہ بڑھا دیتا ہے اور باقی رہنے والی نیک باتیں تیرے رب کے ہاں ثواب کے اعتبار سے بہتر اور انجام کے اعتبار سے زیادہ اچھی ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ یَزِیْدُ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اهْتَدَوْا هُدًى:اور ہدایت پانے والوں  کی ہدایت کو  اللہ اور زیادہ بڑھا دیتا ہے۔} گمراہ لوگوں  کا حال بیان کرنے کے بعد اب یہاں  سے ہدایت پانے والوں  کا حال بیان کیا جا رہا ہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ وہ لوگ جنہوں  نے ہدایت پائی اور ایمان سے مشرف ہوئے ،  اللہ تعالیٰ انہیں  اس پر استقامت عطا فرما کے اور مزید بصیرت و توفیق دے کر ان کی ہدایت کو اور بڑھا دے گا اور ان کے ایمان، عمل اور یقین میں  مزید اضافہ فرما دے گا۔( مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۷۶، ص۶۸۲،  روح البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۷۶، ۵ / ۳۵۳، ملتقطاً)

{وَ الْبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ:اور باقی رہنے والی نیک باتیں ۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، باقی رہنے والی نیک باتیں  آپ کے رب عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں  ثواب کے اعتبار سے بہتر اور انجام کے اعتبار سے زیادہ اچھی ہیں  جبکہ کفار کے اعمال سب نکمے اور باطل ہیں ۔

باقی رہنے والی نیک باتیں :

مفسرین فرماتے ہیں  کہ طاعتیں  ، آخرت کے تمام اَعمال ، پنجگانہ نمازیں  ،  اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید اور اس کا ذکر اور دیگر تمام نیک اعمال یہ سب باقیاتِ صالحات ہیں  کہ مومن کے لئے باقی رہتے ہیں  اور کام آتے ہیں  ،اسی طرح ہر وہ نیکی جو دنیا میں  برباد نہ ہو جائے وہ باقیاتِ صالحات میں  داخل ہے۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۷۶، ۳ / ۲۴۵، مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۷۶، ص۶۸۲، ملتقطاً)

یہاں  باقیات صالحات سے متعلق ایک حدیث پاک ملاحظہ ہو، چنانچہ حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن رَضِیَ اللہ  تَعَالٰی   عَنْہ فرماتے ہیں : نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک دن تشریف فرما تھے، آپ نے ایک خشک لکڑی لے کر درخت کے پتے گرائے ، پھر فرمایا ’’لَا اِلٰـہَ اِلَّا  اللہُ وَ اللہ اَکْبَرْوَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَسُبْحَانَ  اللہ ‘‘کہنے سے گناہ اس طرح جھڑ جاتے ہیں  جس طرح اس درخت کے پتے جھڑ رہے ہیں ۔ اے ابودرداء! رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ، اس سے پہلے کہ تمہارے اور ان کلمات کے درمیان کوئی چیز (یعنی موت)حائل ہوجائے تم ان کلمات کو یاد کرلو یہ باقیاتِ صالحات ہیں  اور یہ جنت کے خزانوں  میں  سے ہیں ۔( ابن عساکر، حرف العین، عویمر بن زید بن قیس۔۔۔ الخ، ۴۷ / ۱۵۰)

اَفَرَءَیْتَ الَّذِیْ كَفَرَ بِاٰیٰتِنَا وَ قَالَ لَاُوْتَیَنَّ مَالًا وَّ وَلَدًاﭤ(77)اَطَّلَعَ الْغَیْبَ اَمِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَهْدًا(78)كَلَّاؕ-سَنَكْتُبُ مَا یَقُوْلُ وَ نَمُدُّ لَهٗ مِنَ الْعَذَابِ مَدًّا(79)وَّ نَرِثُهٗ مَا یَقُوْلُ وَ یَاْتِیْنَا فَرْدًا(80)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں کے ساتھ کفر کیا اور کہتا ہے ،مجھے ضرو ر مال اور اولاد دئیے جائیں گے۔ کیااسے غیب کی اطلاع مل گئی ہے یا اس نے رحمٰن کے پاس کوئی عہد کررکھاہے؟ہرگز نہیں ! اب ہم لکھ رکھیں گے جو وہ کہتا ہے اور اسے خوب لمبا عذاب دیں گے۔اور وہ جو چیزیں کہہ رہا ہے اس کے ہم وارث ہوں گے اور وہ ہمارے پاس تنہا آئے گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَفَرَءَیْتَ الَّذِیْ كَفَرَ بِاٰیٰتِنَا:تو کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں  کے ساتھ کفر کیا۔}صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی حدیث میں  ہے کہ حضرت خباب بن ارت رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کا زمانہ ٔجاہلیت میں  عاص بن وائل سہمی پر قرض تھا وہ اس کے پاس تقاضے کو گئے تو عاص نے کہا کہ میں  تمہارا قرض ادا نہ کروں  گا جب تک کہ تم محمد (مصطفٰی صَلَّی اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) سے پھر نہ جاؤ اور کفر اختیار نہ کرو۔ حضرت خباب رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے فرمایا: ایسا ہر گز نہیں  ہو سکتا یہاں  تک کہ تو مرے اور مرنے کے بعد زندہ ہو کر اُٹھے۔ وہ کہنے لگا: کیا میں  مرنے کے بعد پھر اُٹھوں  گا؟ حضرت خباب رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے کہا :ہاں ۔ عاص نے کہا: تو پھر مجھے چھوڑ یئے یہاں  تک کہ میں  مرجاؤں  اور مرنے کے بعد پھر زندہ ہوں  اور مجھے مال و اولاد ملے جب ہی میں  آپ کا قرض ادا کروں  گا۔ اس پر یہ آیاتِ کریمہ نازل ہوئیں ۔( بخاری، کتاب الاجارۃ، باب ہل یؤاجر الرجل نفسہ من مشرک۔۔۔ الخ، ۲ / ۶۸، الحدیث: ۲۲۷۵، مسلم، کتاب صفۃ القیامۃ والجنّۃ والنار، باب سؤال الیہود النبیصلی  اللہ علیہ وسلم عن الروح۔۔۔ الخ، ص۱۵۰۲، الحدیث: ۳۵(۲۷۹۵))

چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی3 آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں  کے ساتھ کفر کیا اور وہ مذاق اڑاتے ہوئے کہتا ہے کہ اگر میں  دوبارہ زندہ ہوا تو آخرت میں  مجھے ضرو ر مال اور اولاد دئیے جائیں  گے۔ کیا اسے غیب کی اطلاع مل گئی ہے اور اُس نے لوحِ محفوظ میں  دیکھ لیا ہے کہ آخرت میں  اسے مال اور اولاد ملے گی یا  اللہ تعالیٰ نے اس سے کوئی وعدہ کیا ہوا ہے جس سے اسے معلوم ہوگیا ہے کہ وہ قیامت میں  بھی خوشحال ہوگا۔ہر گز نہیں  ، وہ نہ توغیب جانتا ہے اور نہ ہی اس کے پاس کوئی عہد ہے بلکہ یہ شخص جھوٹا اور بدکار ہے اور جوبات یہ کہہ رہاہے اُسے ہمارے فرشتوں  نے لکھ لیا ہے اور قیامت کے دن ہم اسے اس کابدلہ دیں  گے اور ہم اسے مال و اولاد کے بدلے خوب لمبا عذاب دیں  گے جس کا وہ مستحق ہے اور اس کی ہلاکت کے بعدمال و اولاد سب سے اس کی ملکیت اور اس کا تَصَرُّف اُٹھ جائے گا اور اس کے ہم وارث ہوں  گے اور وہ قیامت کے دن ہمارے پاس تنہا اور خالی ہاتھ آئے گا اور آخرت میں  دنیا سے زیادہ ملنا تو دور کی بات ، دنیا میں  جو مال اور اولاد اس کے ساتھ ہے اُس وقت وہ بھی اس کے ساتھ نہ ہوگا۔( مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۷۷-۸۰، ص۶۸۲-۶۸۳، خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۷۷-۸۰، ۳ / ۲۴۵-۲۴۶، روح البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۷۷-۸۰، ۵ / ۳۵۴، ملتقطاً)

سورۂ مریم کی آیت نمبر 77 تا 80 سے حاصل ہونے والی معلومات:

ان آیات سے دو باتیں  معلوم ہوئیں :

(1)… شریعت کے احکام کا مذاق اڑانا کفار کا طریقہ ہے۔ اس سے وہ لوگ اپنے طرزِ عمل پر غور کر لیں  جو حدود و قصاص اور نکاح و طلاق وغیرہ سے متعلق شریعت کے اَحکام کا مذاق اڑاتے اور انہیں  انسایت سوزاَحکام ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

(2)… مرنے کے بعد اور قیامت کے دن کفار کا مال و اولاد انہیں  کچھ کام نہ آئے گا۔ یاد رہے کہ مومن کامال اور اس کی اولاد کے ساتھ یہ معاملہ نہ ہو گا بلکہ اسے مرنے کے بعد  اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی خاطر راہِ خدا میں  خرچ کیا ہوا مال بھی کام آئے گا اور اس کی نیک اولاد سے بھی اسے فائدہ حاصل ہو گا۔

وَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اٰلِهَةً لِّیَكُوْنُوْا لَهُمْ عِزًّا(81)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور انہوں نے اللہ کے سوا کئی اور معبود بنالئے تا کہ وہ ان کیلئے سفارشی بن جائیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اٰلِهَةً:اور انہوں  نے  اللہ کے سوا کئی اور معبود بنالئے ۔} اس سے پہلی آیات میں  حشر و نشر کا مسئلہ بیان ہوا اور اب یہاں  سے بتوں  کے پجاریوں  کا رد کیا جا رہا ہے،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ قریش کے مشرکوں  نے  اللہ تعالیٰ کی بجائے بتوں  کو اپنا معبود بنالیا اور وہ اس امید پر ان کی عبادت کرنے لگے کہ وہ ان کیلئے سفارشی بن جائیں  اور ان کی مدد کریں  اور انہیں  عذاب سے بچائیں ۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۸۱، ۳ / ۲۴۶، مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۸۱، ص۶۸۳، ملتقطاً)

كَلَّاؕ-سَیَكْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِهِمْ وَ یَكُوْنُوْنَ عَلَیْهِمْ ضِدًّا(82)

ترجمہ: کنزالعرفان

ہرگز نہیں ! عنقریب وہ (جھوٹے معبود) ان کی عبادت کا انکار کردیں گے اور وہ ان کے مخالف ہو جائیں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{كَلَّاؕ-سَیَكْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِهِمْ:ہرگز نہیں ! عنقریب و ہ ان کی عبادت کا انکار کردیں  گے۔}اس آیت میں  کافروں  کا رد کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ایسا ہو ہی نہیں  سکتا بلکہ عنقریب وہ بت جنہیں  یہ پوجتے تھے ان کی عبادت کا انکار کردیں  گے اور انہیں  جھٹلائیں  گے اور ان پر لعنت کریں  گے۔  اللہ تعالیٰ انہیں  بولنے کی قوت دے گا اور وہ کہیں  گے :یارب! انہیں  عذاب دے کہ انہوں  نے تیرے سوا کسی اور کی عبادت کی ہے۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۸۲، ۳ / ۲۴۶، مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۸۲، ص۶۸۳، ملتقطاً)

کفار کی جاہلانہ اور اَحمقانہ حرکت:

            اس سے معلوم ہو اکہ کفار کی یہ انتہا درجے کی جاہلانہ اور احمقانہ حرکت ہے کہ انہوں  نے اپنے ہاتھ سے بنائے ہوئے بتوں  کوخدا بنالیا اور یہ سمجھنا شروع کردیا کہ ہمارے ہاتھوں  سے بنائے ہوئے خدا ہمیں  عزت بخشیں  گے اور ہمیں  نفع دیں  گے ، حالانکہ ان کے بنائے ہوئے خدا نہ تو انہیں  دنیا میں  کسی قسم کانفع اور عزت بخش سکتے ہیں  اور نہ آخرت میں  بلکہ بروزِ قیامت تو وہ خود ان کی عبادت کے منکر ہوجائیں  گے اور کہیں  گے کہ ہمیں  تمہاری عبادت کی خبر ہی نہیں  اور ان کی بندگی سے اپنی براء ت اور بیزاری کا اظہار کردیں  گے اور ان کے دشمن بن جائیں  گے اور یوں  عزت بڑھانے کی بجائے ان کی ذلت اور رسوائی کاسبب بنیں  گے ۔ اس انسان پر انتہائی افسوس ہے جو عقل و شعور رکھنے کے باوجود بے جان اوربے فائدہ بتوں  کی پوجا تو کرے اور اس رب تعالیٰ کی عبادت نہ کرے جو خود بھی زندہ ہے اور دوسروں  کو زندگی عطا بھی کرتا ہے اور ہر طرح کی ذلت سے بچانے اور عزت عطا کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہے۔

اَلَمْ تَرَ اَنَّاۤ اَرْسَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ تَؤُزُّهُمْ اَزًّا(83)

ترجمہ: کنزالعرفان

کیا تم نے نہ دیکھا کہ ہم نے کافروں پر شیطان بھیجے کہ وہ انہیں خوب ابھارتے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَمْ تَرَ اَنَّاۤ اَرْسَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ:کیا تم نے نہ دیکھا کہ ہم نے کافروں  پر شیطان بھیجے ۔} گزشہ آیاتِ مبارکہ میں   اللہ تعالیٰ نے کافروں  کی گمراہیوں  اور آخرت میں  ان کے حسرت ناک انجام کابیان فرمایا اور اب اس کاسبب بیان کیا جا رہا ہے کہ آخر کس وجہ سے وہ حق کے خلاف اس طرح کی باتیں  کرتے تھے اور دلائل ہونے کے باوجود سمجھتے نہیں  تھے ۔ چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا آپ نے دیکھا نہیں  کہ ہم نے کافروں  پر شیطانوں  کو چھوڑ دیا اور ان پر شیطانوں  کو مُسلَّط کر دیا جو کہ انہیں  طرح طرح کے وسوسے دلا کر گناہوں  پر خوب ابھارتے ہیں  ۔ اس آیت میں  نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی بھی دی گئی ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اس وجہ سے پریشان نہ ہوں  کہ کفار آپ کی دعوت قبول کیوں  نہیں  کر رہے کیونکہ آپ کی دعوت میں  کوئی کمی نہیں  بلکہ ان کافروں  پر شیطان مُسلَّط ہیں  جو انہیں  گناہوں  پر ابھار رہے ہیں  جس کی وجہ سے یہ آپ کی دعوت قبول نہیں  کر رہے۔

 آیت’’اَلَمْ تَرَ اَنَّاۤ اَرْسَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس آیت سے چار باتیں  معلوم ہوئیں :

(1)… بد عملی کی وجہ سے انسان پر شیطان مُسلَّط ہوتا ہے۔

(2)… بر ے ساتھی  اللہ تعالیٰ کا عذاب ہیں ۔

(3)…بری باتوں  کی رغبت دینا شیطان اور شیطانی لوگوں  کا کام ہے۔

 (4)… شیطان کسی کو کفر پرمجبور نہیں  کرتا بلکہ کفر پر ابھارتا ہے، اس کے برخلاف انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے وارث کسی کو ایمان قبول کرنے پر مجبور نہیں  کرتے بلکہ وہ بھی صرف انہیں  ایمان کی دعوت اور ترغیب دیتے ہیں  ۔ اب جوعقل والے ہیں  وہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعوت کوقبول کرتے ہیں  اور جوشہوت پرست اور نفس کے بندے ہوتے ہیں  وہ شیطان کی دعوت کوقبول کرتے ہیں  اور کھلم کھلا  اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کے مقابلہ پر تُل جاتے ہیں  اور جہنم کی اَبدی سزا کے مستحق ہوجاتے ہیں ۔

فَلَا تَعْجَلْ عَلَیْهِمْؕ-اِنَّمَا نَعُدُّ لَهُمْ عَدًّا(84)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو تم ان پر جلدی نہ کرو، ہم تو ان کیلئے گنتی کررہے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَلَا تَعْجَلْ عَلَیْهِمْ:تو تم ان پرجلدی نہ کرو۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ مسلمانوں  کو کافروں  کے شر سے بچانے اور زمین کو ان کے فساد سے پاک کرنے کی خاطر کافروں  کی ہلاکت کی دعا کرنے میں  جلدی نہ فرمائیں ، ہم تو ان کے لئے گنتی کر رہے ہیں ۔

             اس سے جزا کے لئے اعمال کی گنتی کرنا مراد ہے یافنا کے لئے سانسوں  کی گنتی کرنا، یا دنوں ، مہینوں  اور برسوں  کی وہ مدت گنتی کرنا مراد ہے جو ان کے عذاب کے واسطے مقرر ہے ۔( روح البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۸۴، ۵ / ۳۵۵، مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۸۴، ص۶۸۳، خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۸۴، ۳ / ۲۴۶، ملتقطاً۔)

نیک عمل کرنے میں  جلدی کرنی چاہئے:

اس آیت میں  کلام اگرچہ کفار کے بارے میں  ہے البتہ اس میں  مسلمانوں  کے لئے بھی یہ نصیحت ہے کہ وہ نیک اعمال کرنے میں  تاخیر سے کام نہ لیں  بلکہ ان میں  جلدی کریں  کیونکہ ان کی سانسیں  بھی گنی جا رہی ہیں ۔ چنانچہ حضرت حسن بصری رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ اپنے وعظ میں  فرمایا کرتے کہ’’ جلدی کرو جلدی کرو، یہ چند سانس ہیں  اگر رک گئے تو تم وہ اعمال نہیں  کر سکو گے جو تمہیں   اللہ تعالیٰ کے قریب کرتے ہیں ۔  اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو اپنے نفس کی فکر کرتا اور اپنے گناہوں  پر روتا ہے، پھر آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے یہ آیت پڑھی’’اِنَّمَا نَعُدُّ لَہُمْ عَدًّا ‘‘ہم تو ان کیلئے گنتی کررہے ہیں ۔ اس سے مراد سانس ہیں  اور آخری عدد جان کا نکلنا ہے ،پھر گھر والوں  سے جدائی ہے اور قبر میں  داخل ہونے کی آخری گھڑی ہے۔(احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت ومابعدہ ، الباب الثانی فی طول الامل وفضیلۃ قصر الامل۔۔۔ الخ ، بیان المبادرۃ الی العمل وحذر آفۃ التاخیر، ۵ / ۲۰۵-۲۰۶)

اللہ تعالیٰ ہمیں گناہوں سے بچنے اور نیک اعمال کرنے میں جلدی کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔

یَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِیْنَ اِلَى الرَّحْمٰنِ وَفْدًا(85)

ترجمہ: کنزالعرفان

یاد کرو جس دن ہم پرہیزگاروں کو رحمٰن کی طرف مہمان بنا کرلے جائیں گے ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِیْنَ:یاد کرو جس دن ہم پرہیزگاروں  کو لے جائیں  گے۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی قوم کو ترغیب دینے اور ڈرانے کے طور پر وہ دن یاد دلائیں  جس دن ہم پرہیزگاروں  اور اطاعت شِعاروں  کو ان کے اس رب کی بارگاہ میں  مہمان بناکر جمع کریں  گے جو اپنی وسیع رحمت کے ساتھ انہیں  ڈھانپے ہوئے ہے۔( روح البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۸۵، ۵ / ۳۵۶)

اہلِ جنت کے اِعزاز و اِکرام سے متعلق4روایات:

            اس آیت میں  قیامت کے دن  اللہ تعالیٰ کے پرہیز گار اور اطاعت گزار بندوں  کے اعزاز و اکرام کا ذکر ہوا اور قبروں  سے اٹھ کر میدانِ محشر میں  جانے ، وہاں  ٹھہرنے ،پھر وہاں  سے جنت میں  جانے کے عرصہ کے دوران ان کے اعزاز واکرام کا ذکر کثیر اَحادیث میں  بھی کیا گیا ہے ان میں  سے4 روایات درج ذیل ہیں ۔

(1)…حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ  اللہ  تَعَالٰی  وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:  اللہ کی قسم! پرہیزگاروں  کوان کے قدموں  پرنہیں  لایا جائے گا اور نہ ہی انہیں  ہانک کر لایا جائے گا بلکہ انہیں  جنت کی اونٹنیوں  پر لایا جائے گا جن کی مثل مخلوق نے دیکھی ہی نہ ہوگی، ان کے کجاوے سونے کے ہوں  گے اور ان کی مہاریں  زبرجد کی ہوں  گی۔پرہیز گار ان پربیٹھے رہیں  گے یہاں  تک کہ وہ جنت کادروازہ کھٹکھٹائیں  گے۔( البعث لابن ابی داؤد، ص۵۲، الحدیث: ۵۶)

(2)…حضرت ابوسعید  رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں : پرہیزگاروں  کو ان اونٹنیوں  پر سوار کر کے لایا جائے گا جن کے کجاوے زمرد اوریاقوت کے ہوں  گے اور جو رنگ وہ چاہیں  گے اسی کے ہوں  گے۔( درمنثور، مریم، تحت الآیۃ: ۸۵، ۵ / ۵۳۸)

(3)…حضرت ربیع رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں : جب پرہیزگار لوگ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حضور حاضر ہوں  گے تو ان کی عزت کی جائے گی، انہیں  نعمتیں  بخشی جائیں  گی، انہیں  سلام پیش کیا جائے گا اور ان کی شفاعت قبول کی جائے گی۔( درمنثور، مریم، تحت الآیۃ: ۸۵، ۵ / ۵۳۸)

(4)…جامع البیان میں  ہے کہ مومن جب قبر سے نکلے گا تو ایک حسین اور خوشبودار صورت اس کااستقبال کرے گی اور مومن سے کہے گی کہ کیا تو مجھے پہچانتا ہے ؟ مومن کہے گا نہیں ، بے شک! اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے تجھے بہت پاکیزہ خوشبودی اور تیری بہت حسین صورت بنائی ۔ وہ صورت کہے گی تو بھی دنیا میں  اسی طرح تھا، میں  تیرا نیک عمل ہوں  ،میں  دنیا میں  بہت عرصہ تک تجھ پر سوار رہا اور آج تومجھ پر سوار ہوجا۔( جامع البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۸۵، ۸ / ۳۸۰)

وَّ نَسُوْقُ الْمُجْرِمِیْنَ اِلٰى جَهَنَّمَ وِرْدًاﭥ(86)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور مجرموں کو جہنم کی طرف پیاسے ہانکیں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ نَسُوْقُ الْمُجْرِمِیْنَ اِلٰى جَهَنَّمَ وِرْدًا:اور مجرموں  کو جہنم کی طرف پیاسے ہانکیں  گے ۔} قیامت کے دن پرہیزگار مسلمان تو مہمان بنا کر  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  جمع کئے جائیں  گے جبکہ کافروں  کا حال یہ ہو گا کہ انہیں  ان کے کفر کی وجہ سے ذلت و توہین کے ساتھ پیاسے جانوروں  کی طرح جہنم کی طرف ہانکاجائے گا۔

کافروں  کی سزا کے بارے میں  سن کر مسلمانوں  کو بھی ڈرنا چاہئے:

         یاد رہے کہ ایسی آیات جن میں  کافروں  کی کوئی سزا بیان کی گئی ہو ان میں  مسلمانوں  کے لئے بھی بڑی عبرت اور نصیحت ہوتی ہے اس لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ جب بھی اس طرح کی آیات پڑھے یا سنے تو اپنے بارے میں   اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے ڈرے اور اپنے ایمان کی حفاظت کی فکر کرے ۔ ایسی آیات سن کر ہمارے بزرگانِ دین کا کیا حال ہوتا تھا اس سے متعلق ایک حکایت ملاحظہ ہو، چنانچہ حضرت مسور بن مخرمہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ شدّتِ خوف کی وجہ سے قرآنِ پاک میں  سے کچھ سننے پر قادر نہ تھے ، یہاں  تک کہ ان کے سامنے ایک حرف یا کوئی آیت پڑھی جاتی تو وہ چیخ مارتے اور بے ہوش ہوجاتے، پھر کئی دن تک انہیں  ہوش نہ آتا۔ ایک دن قبیلہ خثعم کا ایک شخص ان کے سامنے آیا اور اس نے یہ آیات پڑھیں ، ’’ یَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِیْنَ اِلَى الرَّحْمٰنِ وَفْدًاۙ(۸۵) وَّ نَسُوْقُ الْمُجْرِمِیْنَ اِلٰى جَهَنَّمَ وِرْدًا‘‘یاد کرو جس دن ہم پرہیزگاروں  کو رحمٰن کی طرف مہمان بناکرلے جائیں  گے۔ اور مجرموں  کو جہنم کی طرف پیاسے ہانکیں  گے۔( مریم:۸۵،۸۶) یہ سن کر آپ نے فرمایا ’’آہ! میں  مجرموں  میں  سے ہوں  اور متقی لوگوں  میں  سے نہیں  ہوں  ، اے قاری ! دوبارہ پڑھو ۔ اس نے پھر پڑھا تو آپ نے ایک نعرہ مارا اور آپ کی روح قَفسِ عُنصری سے پرواز کر گئی۔( احیاء علوم الدین،کتاب الخوف والرجائ،الشطر الثانی،بیان احوال الصحابۃ والتابعین والسلف الصالحین فی شدّۃ الخوف، ۴ / ۲۲۷)

آیت’’وَ نَسُوْقُ الْمُجْرِمِیْنَ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

         اس آیت سے دو باتیں  معلوم ہوئیں

(1)… کافروں  کا دوزخ میں  داخلہ انتہائی ذلت ورسوائی سے او ر مومنوں  کا جنت میں  داخلہ انتہائی عزت و احترام سے ہوگا۔

(2)… کافر میدانِ محشر میں  پیاسے ہوں  گے۔یاد رہے کہ مومنوں  کے لئے حوضِ کوثر کی نہر میدانِ محشرمیں  آئے گی جس سے مُرتَدّین روک دئیے جائیں  گے، یونہی ہر نبی کے امتیوں  کیلئے ان کے نبی کا حوض ہوگا۔

لَا یَمْلِكُوْنَ الشَّفَاعَةَ اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَهْدًاﭥ(87)

ترجمہ: کنزالعرفان

لوگ شفاعت کے مالک نہیں مگر وہی جس نے رحمٰن کے پاس عہد لے رکھا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَا یَمْلِكُوْنَ الشَّفَاعَةَ:لوگ شفاعت کے مالک نہیں ۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ جسے  اللہ تعالیٰ کی طرف سے گناہگاروں  کی شفاعت کا اِذن مل چکاہے اس کے علاوہ کوئی بندہ کسی گناہگار کی شفاعت کا مالک نہیں ۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ مجرموں  میں  سے کوئی اس بات کا مالک نہیں  کہ اس کی شفاعت کی جائے البتہ ان میں  سے جو مسلمان ہے اس کی شفاعت ہوگی۔(روح البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۸۷، ۵ / ۳۵۶)

 اللہ تعالیٰ کے پاس عہد :

            یہاں  ہم دو ایسے اعمال ذکر کرتے ہیں  جنہیں  بجا لانے والے بندے کا عہد  اللہ تعالیٰ کے پاس رکھ دیا جاتا ہے۔

(1)…حضرت عبادہ بن صامت رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں  پر پانچ نمازیں  فرض فرمائی ہیں ، جس نے انہیں  ادا کیا اور ہلکا سمجھ کر ان میں  سے کچھ ضائع نہ کیا تو اس کا  اللہ تعالیٰ کے پاس عہد ہے کہ وہ اسے جنت میں  داخل فرمائے اور جس نے انہیں  ادا نہ کیا تو اس کے لئے  اللہ تعالیٰ کے پاس کوئی عہد نہیں ، چاہے و ہ اسے عذاب دے یا اسے جنت میں  داخل کر دے۔(ابو داؤد، کتاب الوتر، باب فیمن لم یوتر، ۲ / ۸۹، الحدیث: ۱۴۲۰)

(2)…حضرت عبد اللہ بن مسعودرَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ میں  نے رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنے صحابہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ سے یہ کہتے سنا کہ کیا تم اس بات سے عاجز ہوکہ ہرصبح وشام اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے  پاس سے ایک عہد لو۔ صحابہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ  اللہ !صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ کس طرح ؟ حضور پُرنور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ صبح وشام یہ کہے ’’اَللّٰہُمَّ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ، عَالِمَ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ، اِنِّی اَعْہَدُ اِلَیْکَ فِیْ ہٰذِہِ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا بِاَنِّیْ اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اَنْتَ وَحْدَکَ، لَاشَرِیکَ لَکَ، وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُکَ وَرَسُوْلُکَ،فلَاَ تَکِلْنِیْ اِلٰی نَفْسِیْ فَاِنَّکَ اِنْ تَکِلْنِیْ اِلٰی نَفْسِیْ تُبَاعِدْنِیْ مِنَ الْخَیْرِ وتُقَرِّبْنِیْ مِنَ الشَّرِّ، وَاِنِّیْ لَا اَثِقُ اِلَّا بِرَحْمَتِکَ، فَاجْعَلْ لِیْ عِنْدَکَ عَہْدًا تُوَفِّیْنِیْہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، اِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادْ‘‘ توجوشخص یہ کہے گا، اللہ تعالیٰ اس پرمہر لگا کر عرش کے نیچے رکھ دے گا اور جب قیامت کا دن ہوگا تو ندا کرنے والا ندا کرے گا: کہاں  ہیں  وہ لوگ جن کا اللہ تعالیٰ کے پاس عہد ہے؟ پس وہ آدمی کھڑا ہوگا اور اسے جنت میں  داخل کر دیا جائے گا۔(قرطبی، مریم، تحت الآیۃ: ۸۷، ۶ / ۶۳، الجزء الحادی عشر)

وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًاﭤ(88)لَقَدْ جِئْتُمْ شَیْــٴًـا اِدًّا(89)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور کافروں نے کہا: رحمٰن نے اولاد اختیار کی ہے۔ بیشک تم انتہائی ناپسندیدہ بات لائے ہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ قَالُوا:اور کافر وں  نے کہا۔} اس سے پہلے بتوں  کی پوجا کرنے والوں  کا رد کیا گیا اور اب ایک بار پھر ان لوگوں  کا رد کیا جارہا ہے جو  اللہ تعالیٰ کے لئے اولاد ثابت کرتے ہیں  ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ کافر وں  نے یہ کہا: رحمٰن نے اولاد اختیار کی ہے۔ اس آیت میں  حضرت عزیر عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو  اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہنے والے یہودی، حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو  اللہ تعالیٰ کا بیٹاکہنے والے عیسائی اور فرشتوں  کو  اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں  کہنے والے مشرکینِ عرب سبھی داخل ہیں ۔( تفسیرکبیر، مریم، تحت الآیۃ: ۸۸، ۷ / ۵۶۶)

تَكَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَ تَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَ تَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا(90)اَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا(91)وَ مَا یَنْۢبَغِیْ لِلرَّحْمٰنِ اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًاﭤ(92)

ترجمہ: کنزالعرفان

قریب ہے کہ اس سے آسمان پھٹ پڑیں اور زمین بھی پھٹ جائے اور پہاڑ ٹوٹ کر گرپڑیں ۔ کہ انہوں نے رحمٰن کے لیے اولاد کا دعویٰ کیا۔حالانکہ رحمٰن کے لائق نہیں کہ اولاد اختیار کرے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{تَكَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ:قریب ہے کہ اس سے آسمان پھٹ پڑیں  ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ  اللہ تعالیٰ کے لئے اولاد کا دعویٰ کرنا ایسی بے ادبی و گستاخی کا کلمہ ہے کہ ا س کی وجہ سے اگر  اللہ تعالیٰ غضب فرمائے تو وہ تمام جہان کا نظام درہم برہم کر دے ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ کفار نے جب یہ گستاخی کی اور ایسا بے باکانہ کلمہ منہ سے نکالا تو جن و اِنس کے سوا آسمان ، زمین ، پہاڑ وغیرہ تمام مخلوق پریشانی سے بے چین ہو گئی اور ہلاکت کے قریب پہنچ گئی، فرشتوں  کو غضب ہوا اور جہنم کو جوش آگیا۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۹۰-۹۱، ۳ / ۲۴۷)

{وَ مَا یَنْۢبَغِیْ لِلرَّحْمٰنِ:حالانکہ رحمٰن کے لائق نہیں  ۔} اس آیت میں  اللہ تعالیٰ نے اپنا اولاد سے پاک ہونا بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ رحمٰن کے لائق نہیں  کہ اولاد اختیار کرے۔ وہ اس سے پاک ہے اور اس کے لئے اولاد ہونا ممکن نہیں  محال ہے کیونکہ بیٹاباپ کا جز، اس کی شبیہ ونظیر اور اس کا مددگار ہوتا ہے جبکہ  اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ کوئی اس کا جز ہو یا اس کی مثل بنے یا کوئی اس کا مددگار ہو۔

اِنْ كُلُّ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اِلَّاۤ اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًاﭤ(93)

ترجمہ: کنزالعرفان

آسمانوں اور زمین میں جتنے ہیں سب رحمٰن کے حضور بندے ہو کر حاضر ہوں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنْ كُلُّ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ:آسمانوں  اور زمین میں  جتنے ہیں ۔} یہ آیت مبارکہ  اللہ تعالیٰ کے علاوہ دیگر بناوٹی معبودوں  کی نفی کی دلیل بھی بن سکتی ہے اور اس بات کی بھی دلیل بن سکتی ہے کہ  اللہ تعالیٰ اولاد سے پاک ہے۔ پہلی صورت میں  اس آیت کا معنی یہ ہو گا کہ کفار زمین پر جن لوگوں  کو اور آسمان پر جن فرشتوں  کو اپنا معبود مانتے ہیں  وہ سب تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  اپنے بندہ ہونے کا اقرار کرتے ہیں  اور  اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کرتے اور صرف اسے ہی سجدہ کرتے ہیں  تو پھر وہ معبود کس طرح ہو سکتے ہیں ۔ دوسری صورت میں  اس آیت کا معنی یہ ہو گا کہ قیامت کے دن تمام جن و اِنس اور فرشتے نیز کفار زمین پر جن لوگوں  کو اور آسمان پر جن فرشتوں  کو  اللہ تعالیٰ کی اولاد بتاتے ہیں  وہ سب  اللہ تعالیٰ کا بندہ ہونے کا اقرار کرتے ہوئے اس کی بارگاہ میں  حاضر ہوں  گے اور یہ بات واضح ہے کہ جو کسی کا بندہ ہوتا ہے وہ اس کی اولاد نہیں  ہوتا اور جو اولاد ہو وہ اس کا بندہ نہیں  ہوتا کیونکہ بندہ ہونا اور اولاد ہونا دونوں  جمع ہو ہی نہیں  سکتے نیز کوئی اپنی اولاد کا مالک نہیں  ہوتا جبکہ  اللہ تعالیٰ توہر چیز کا مالک ہے اور جو خود  اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں ہے تو وہ اس کی اولاد ہرگز نہیں  ہو سکتا۔

لَقَدْ اَحْصٰىهُمْ وَ عَدَّهُمْ عَدًّاﭤ(94)وَ كُلُّهُمْ اٰتِیْهِ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فَرْدًا(95)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک اس نے انہیں گھیر رکھا ہے اور ان کو ایک ایک کرکے خوب گن رکھا ہے ۔ اور ان میں ہر ایک روزِ قیامت اس کے حضور تنہا آئے گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَقَدْ اَحْصٰىهُمْ:بیشک اس نے انہیں  گھیر رکھا ہے۔} یعنی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے علم و قدرت نے سب کو گھیر رکھا ہے اور ہر ذی روح کے سانسوں  کی ، دنوں  کی ، تمام اَحوال کی اور جملہ معاملات کی تعداد اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے شمار میں  ہے، اس پر کچھ مخفی نہیں  سب اس کی تدبیر و قدرت کے تحت ہیں ۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۹۴، ۳ / ۲۴۷-۲۴۸)

{وَ كُلُّهُمْ اٰتِیْهِ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فَرْدًا:اور ان میں  ہر ایک روزِ قیامت اس کے حضور تنہا آئے گا۔} یعنی قیامت کے دن ہر ایک  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ، مال ،اولاد اور معین و مددگار کے بغیر تنہا حاضر ہوگا۔( مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۹۵، ص۶۸۵)

 اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  حاضری کے وقت بہت بڑاخطرہ ہو گا:

         یاد رہے کہ بروزِ قیامت جب بندہ  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  اپنے اعمال کا حساب دینے کے لئے حاضر ہو گا تو اس وقت دنیا کا مال، اولاد، دوست اَحباب اور عزیز رشتہ داروں  میں  سے کوئی اس کے ساتھ نہ ہو گا اور نہ ہی کوئی  اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر اس کی مدد کر سکے گا اور اس وقت بہت بڑا خطرہ ہو گا کیونکہ یہ بھی ہو سکتاہے کہ کہا جائے ’’ہم نے دنیا میں  تمہاری پردہ پوشی کی اور آج بھی تجھے بخش رہے ہیں ۔ اس وقت بہت زیادہ خوشی اور سُرور حاصل ہو گا اور پہلے اور بعد والے تم پر رشک کریں  گے،، یا،، فرشتوں  سے کہاجائے گا کہ اس برے بندے کو پکڑ کر گلے میں  طوق ڈالو اور پھر اسے جہنم میں  ڈال دو۔ اس وقت تو اتنی بڑی مصیبت میں  مبتلا ہو گا کہ اگر آسمان و زمین تجھ پر روئیں  تو انہیں  مناسب ہے۔ نیز تجھے اس بات پر بہت زیادہ حسرت ہوگی کہ تم نے  اللہ تعالیٰ کی عبادت اور فرمانبرداری میں  کوتاہی کی اور تم نے کمینی دنیا کے لئے اپنی آخرت بیچ ڈالی اور اب تیرے پاس کچھ نہیں ۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت ومابعدہ، الشطر الثانی، صفۃ المساء لۃ، ۵ / ۲۸۰)

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا(96)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک وہ جو ایمان لائے اور نیک اعمال کئے عنقریب رحمٰن ان کے لیے محبت پیدا کردے گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:بیشک وہ جو ایمان لائے۔} اس سے پہلی آیات میں  مختلف اَقسام کے کافروں  کا رد کیا گیا اور ان کے دُنْیَوی و اُخروی اَحوال کو بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا اور اب نیک اعمال کرنے والے مسلمانو ں  کاذکر کیا جا رہاہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ بیشک وہ جو ایمان لائے اور نیک اعمال کئے عنقریب  اللہ تعالیٰ انہیں  اپنا محبوب بنا لے گا اور اپنے بندوں  کے دلوں  میں  ان کی محبت ڈال دے گا۔( تفسیرکبیر، مریم، تحت الآیۃ: ۹۶، ۷ / ۵۶۷، خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۹۶، ۳ / ۲۴۸، ملتقطاً)

محبوبیت کی دلیل اور ولی کی علامت:

            حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جب  اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو حضرت جبریل عَلَیْہِ  السَّلَام کو ند اکی جاتی ہے کہ  اللہ تعالیٰ فلاں  بندے سے محبت رکھتا ہے لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو۔ حضرت جبریل عَلَیْہِ  السَّلَام اس سے محبت کرتے ہیں ۔ پھر حضرت جبریل عَلَیْہِ  السَّلَام آسمانی مخلوق میں  ندا کرتے ہیں  کہ  اللہ تعالیٰ فلاں  بندے سے محبت فرماتا ہے لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو، چنانچہ آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں ، پھر زمین والوں  میں  اس کی مقبولیت رکھ دی جاتی ہے۔( بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ، ۲ / ۳۸۲، الحدیث: ۳۲۰۹)

             اس سے معلوم ہوا کہ مومنینِ صالحین و اَولیائے کاملین کی مقبولیتِ عامہ ان کی محبوبیت کی دلیل ہے جیسے کہ حضور غوثِ اعظم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ اور خواجہ غریب نواز اور داتا گنج بخش علی ہجویری اور دیگر معروف اَولیاء کرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ کی عام مقبولیت ان کی محبوبیت کی دلیل ہے۔

            نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ولی کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ خَلقت اسے ولی کہے اور اس کی طرف قدرتی طور پر دل کو رغبت ہو۔ دیکھ لیں ، آج اولیاء  اللہ اپنے مزارات میں  سور ہے ہیں  اور لوگ ان کی طرف کھچے چلے جا رہے ہیں  حالانکہ انہیں  کسی نے دیکھا بھی نہیں ۔

فَاِنَّمَا یَسَّرْنٰهُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِیْنَ وَ تُنْذِرَ بِهٖ قَوْمًا لُّدًّا(97)وَ كَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْنٍؕ-هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزًا(98)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو ہم نے یہ قرآن تمہاری زبان میں ہی آسان فرمادیا تاکہ تم اس کے ذریعے متقیوں کو خوشخبری دواور جھگڑالو لوگوں کو اس کے ذریعے ڈر سناؤ۔ اور ہم نے ان سے پہلے کتنی قومیں ہلاک کردیں ۔ کیا اب تم ان میں کسی کو پاتے ہو یا ان کی معمولی سی آواز بھی سنتے ہو؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاِنَّمَا یَسَّرْنٰهُ بِلِسَانِكَ:تو ہم نے یہ قرآن تمہاری زبان میں  ہی آسان فرمادیا۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے یہ قرآن آپ کی زبان عربی میں  ہی آسان فرما دیا ہے تاکہ آپ اس کے ذریعے پرہیزگار لوگوں  کو ( اللہ تعالیٰ کی رحمت و رضا کے حصول اور جنت کی )خوشخبری دیں  اور کفارِ قریش کے جھگڑالو لوگوں  کو اس کے ذریعے  اللہ تعالیٰ کے عذاب کا ڈر سنائیں۔

سورہِ مریم کی آیت97سے متعلق 3اہم باتیں :

            یہاں  اس آیت سے متعلق تین اہم باتیں  ملاحظہ ہوں ،

(1)… بنیادی طور پر  اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے قرآن مجیدآسان فرمادیااور یہ آسان فرمانا اس اعتبار سے ہے کہ اسے آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زبان ’’عربی ‘‘میں  نازل کیا گیا جس کی وجہ سے فہم ِقرآن آسان ہو گیا۔

(2)…اس آیت میں عذابِ الٰہی سے ڈرنے والوں  کو خوشخبری دینے اور جھگڑالو قوم کو ڈرانے کے ذریعے تبلیغ کرنے کا فرمایاگیا،اس سے معلوم ہوا کہ متقی لوگوں  کو  اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت،رضا اور جنت کی بشارت سناکراور جھگڑالو قوم کو  اللہ تعالیٰ کی گرفت اور اس کے عذاب کا ڈر سنا کر تبلیغ کرنے سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔

(3)…قرآن مجید (سر زمینِ عرب میں ) عربی زبان میں  نازل کیا گیا، اس سے معلوم ہواکہ دنیامیں  جس قوم اور علاقے میں  اسلام کی تبلیغ کرنی ہو تواس کے لئے وہاں  کی زبان سیکھی جائے تاکہ وہ لوگ اپنی زبان میں  کی جانے والی تبلیغ کو آسانی سے سمجھ سکیں  اور اسلام کے قریب ہو ں ۔

{وَ كَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْنٍ:اور ہم نے ان سے پہلے کتنی قومیں  ہلاک کردیں ۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے کفارِ قریش سے پہلے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے کی وجہ سے بہت سی امتیں  ہلاک کر دیں ۔ کیا اب تم ان میں  کسی کو پاتے ہو یا ان کی معمولی سی آواز بھی سنتے ہو ؟وہ سب نیست و نابود کر دیئے گئے اسی طرح یہ لوگ اگر وہی طریقہ اختیار کریں  گے تو ان کا بھی وہی انجام ہو گا۔



Scroll to Top