سُوْرَۃُ المُؤْمِنُون

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

ترجمہ: کنزالعرفان

اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ، رحمت والاہے ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ بِسْمِ اللّٰهِ: اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔(کنز العمال، کتاب الاذکار،   الباب السابع  فی تلاوۃ  القراٰن  وفضائلہ،  الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷،  الجزءالاول، الحدیث:۲۴۸۸)

 لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔

{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے  ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)

 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:

       علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

 (1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔

(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام جو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔

(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔

(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔

(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔

(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔

قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ(1)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک ایمان والے کامیاب ہوگئے۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَدْ اَفْلَحَ:بیشک کامیاب ہوگئے۔} اس آیت میں  ایمان والوں  کو بشارت دی گئی ہے کہ بے شک وہ  اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے مقصد میں  کامیاب ہو گئے اور ہمیشہ کے لئے جنت میں  داخل ہو کر ہر ناپسندیدہ چیز سے نجات پاجائیں  گے۔( تفسیرکبیر، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱، ۸ / ۲۵۸، روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱، ۶ / ۶۶، ملتقطاً)

حقیقی کامیابی حاصل کرنے کے لئے ایمان پر خاتمہ ضروری ہے :

            یاد رہے کہ ہر ایک نے موت کا کڑوا ترین ذائقہ چکھ کر ا س دنیا سے کوچ کرنا ہے اور قیامت کے دن سب کو اپنے اعمال کا بدلہ پانا ہے اور جسے اس دن جہنم کے دردناک عذابات سے بچا لیاگیا اور بے مثل نعمتوں  کی جگہ جنت میں  داخل کر دیا گیا وہی حقیقی طور پر کامیاب ہے، جیسا کہ  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’كُلُّ  نَفْسٍ   ذَآىٕقَةُ  الْمَوْتِؕ-وَ  اِنَّمَا  تُوَفَّوْنَ  اُجُوْرَكُمْ  یَوْمَ  الْقِیٰمَةِؕ-فَمَنْ  زُحْزِحَ  عَنِ  النَّارِ  وَ  اُدْخِلَ  الْجَنَّةَ  فَقَدْ  فَازَ‘‘(اٰل عمران:۱۸۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اورقیامت کے دن تمہیں  تمہارے اجر پورے پورے دئیے جائیں  گے توجسے آگ سے بچا لیا گیا اور جنت میں  داخل کردیا گیا تو وہ کامیاب ہوگیا۔

            اور جہنم سے بچنے اور جنت میں  داخلے کے لئے ایمان پر خاتمہ ضروری ہے،جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جس شخص کو جہنم سے بچنا اور جنت میں  داخل ہونا پسند ہو تو اسے موت ضرور اس حال میں  آئے کہ وہ  اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اور جس معاملے کو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہو وہی معاملہ دوسروں  کے ساتھ کرے۔( مسند امام احمد، مسند عبد  اللہ بن عمرو بن العاص رضی  اللہ تعالی عنہما، ۲ / ۶۲۵، الحدیث: ۶۸۲۱)

            اور چونکہ موت کا وقت کسی کو معلوم نہیں  ا س لئے ایمان پر ثابت قدم رہنا اور اس کی حفاظت کی بھرپور کوشش کرنا ضرور ی ہے تاکہ موت کے وقت ایمان سلامت رہے اور قیامت کے دن جنت میں  داخلہ نصیب ہو۔

سورۂ مومنون کی ابتدائی دس آیات کی فضیلت:

            سورۂ مومنون کی ابتدائی دس آیات کے بارے میں  حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں  ’’جب نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر وحی نازل ہوتی تو آپ کے چہرۂ اقدس کے پاس مکھیوں  کی بھنبھناہٹ کی طرح آواز سنائی دیتی۔ایک دن وحی نازل ہوئی تو ہم کچھ دیر ٹھہرے رہے، جب یہ کیفیت ختم ہوئی تو آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے قبلہ رو ہو کر ہاتھ اٹھائے اور یہ دعا مانگی’’اے اللّٰہ!عَزَّوَجَلَّ، ہمیں  زیادہ عطا کرنا اور کمی نہ فرمانا، ہمیں  عزت دینا اور ذلیل نہ کرنا،ہمیں  عطا فرما نااور محروم نہ رکھنا۔ہمیں  چن لے اور ہم پر کسی دوسرے کو نہ چن۔اے اللّٰہ! عَزَّوَجَلَّ، ہمیں  راضی فرما اور ہم سے راضی ہو جا۔اس کے بعد ارشاد فرمایا’’مجھ پر دس آیات نازل ہوئی ہیں ، جس نے ان میں  مذکور باتوں  کو اپنایا وہ جنت میں  داخل ہو گا،پھر آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ’’قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ‘‘ سے لے کر دسویں  آیت کے آخر تک پڑھا۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ المؤمنین، ۵ / ۱۱۷، الحدیث: ۳۱۸۴)

الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَ(2)

ترجمہ: کنزالعرفان

جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{خٰشِعُوْنَ: خشوع و خضوع کرنے والے۔} یہاں  سے ایمان والوں کے چند اَوصاف ذکر فرمائے گئے ہیں ، چنانچہ ان کا پہلا وصف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ایمان والے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں ، اس وقت ان کے دلوں  میں   اللہ تعالیٰ کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اَعضا ساکن ہوتے ہیں ۔(مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۲، ص۷۵۱)

نماز میں  ظاہری و باطنی خشوع:

نماز میں  خشوع ظاہری بھی ہوتا ہے اور باطنی بھی،ظاہری خشوع یہ ہے کہ نماز کے آداب کی مکمل رعایت کی جائے مثلاً نظر جائے نماز سے باہر نہ جائے اور آنکھ کے کنارے سے کسی طرف نہ دیکھے، آسمان کی طرف نظر نہ اٹھائے، کوئی عَبث و بیکار کام نہ کرے، کوئی کپڑا شانوں  پر اس طرح نہ لٹکائے کہ اس کے دونوں  کنارے لٹکتے ہوں  اور آپس میں  ملے ہوئے نہ ہوں ، انگلیاں  نہ چٹخائے اور اس قسم کی حرکات سے باز رہے۔ باطنی خشوع یہ ہے کہ  اللہ تعالیٰ کی عظمت پیش ِنظر ہو، دنیا سے توجہ ہٹی ہوئی ہو اورنماز میں  دل لگا ہو۔(صاوی، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۲، ۴ / ۱۳۵۶، خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۲، ۳ / ۳۲۰، مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۲، ص۷۵۱)یہاں  نماز کے دوران آسمان کی طرف نظریں  اٹھانے،اِدھر اُدھر دیکھنے اور یہاں  وہاں  توجہ کرنے سے متعلق 3اَحادیث ملاحظہ ہوں ،

(1)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ان لوگوں  کا کیا حال ہے جو اپنی نماز میں  نظریں  آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں!پھر آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس میں  بہت سختی کی اور ارشاد فرمایا’’یہ لوگ اس سے باز آ جائیں  ورنہ ان کی نظریں  چھین لی جائیں  گی۔(بخاری، کتاب الاذان، باب رفع البصر الی السماء فی الصلاۃ، ۱ / ۲۶۵، الحدیث: ۷۵۰)

(2)…حضرت انس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں ،نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھ سے ارشاد فرمایا: ’’اے بیٹے!نماز میں  اِدھر اُدھر دیکھنے سے بچو کیونکہ نماز میں  اِدھراُدھر توجہ ہلاکت ہے۔(ترمذی، کتاب السفر، باب ما ذکر فی الالتفات فی الصلاۃ، ۲ / ۱۰۲، الحدیث: ۵۸۹)

(3)…حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا فرماتی ہیں  :میں  نے حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے نماز میں  اِدھر اُدھر توجہ کرنے کے بارے میں  سوال کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا’’یہ شیطانی لغزش ہے،اس کے ذریعے شیطان بندے کو نماز سے پھسلانا چاہتا ہے۔( ترمذی، کتاب السفر، باب ما ذکر فی الالتفات فی الصلاۃ، ۲ / ۱۰۲، الحدیث: ۵۹۰)

لہٰذا ہر مسلمان مرد وعورت کو چاہئے کہ وہ پوری توجہ اور خشوع و خضوع کے ساتھ نماز اداکرے اور  اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرے جیسے عبادت کرنے کا حق ہے۔

خشوع کے ساتھ نماز ادا کرنے کی فضیلت اور دو واقعات:

حضرت عثمان رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے،رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس مسلمان شخص پر فرض نماز کاوقت آ جائے اور وہ ا س نماز کا وضو اچھی طرح کرے پھر نماز میں  اچھی طرح خشوع اور رکوع کرے تو وہ نماز اس کے سابقہ گناہوں  کا کفارہ ہو جاتی ہے جب تک کہ وہ کوئی کبیرہ گناہ نہ کرے اور یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا۔(مسلم، کتاب الطہارۃ، باب فضل الوضو ء والصلاۃ عقبہ، ص۱۴۲، الحدیث: ۷(۲۲۸))

 اگر صحابۂ کرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ اور دیگر بزرگانِ دین رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ مْ کی سیر ت کا مطالعہ کیا جائے تو بکثرت ایسے واقعات مل جائیں  گے کہ جو اس آیت میں  مذکور وصف کے اعلیٰ نمونے ہوں  گے، جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’جب صحابہ کرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ نماز پڑھتے تو وہ اپنی نماز کی طرف متوجہ رہتے، اپنی نظریں  سجدہ کرنے کی جگہ پر رکھتے تھے اور انہیں  یہ یقین ہوتا تھا کہ  اللہ تعالیٰ انہیں  دیکھ رہا ہے اور وہ دائیں  بائیں  توجہ نہیں  کرتے تھے۔(در منثور، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۲، ۶ / ۸۴)

حضرت جابر بن عبد اللہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں’’غزوہ ذاتُ الرقاع میں  ایک صحابی رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے ایک مشرک کی بیوی کو گرفتار کیا۔ اس نے انتقام لینے کے لئے قسم کھالی کہ جب تک حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ میں  سے کسی صحابی رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کے خون سے زمین کو رنگین نہ کرلوں  گا، چین نہ لوں  گا،چنانچہ جب آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غزوہ سے واپس ہوئے تواس نے تَعاقُب کیا۔ جب تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک جگہ قیام کیا تو دریافت فرمایا کہ کون میرا پہرہ دینے کی ذمہ داری اپنے سر لے گا۔ مہاجرین وانصار دونوں  میں  سے ایک ایک بہادر اس شرف کو حاصل کرنے کے لئے اٹھے، آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حکم دیا کہ گھاٹی کے دہانے پر جاکر پہرہ دو۔ دونوں  صحابی رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا وہاں  پہنچے تو مہاجر صحابی رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سوگئے اور انصاری صحابی رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے نماز پڑھنا شروع کر دی۔ مشرک آیا اور فوراً تاڑ گیا کہ یہ محافظ اور نگہبان ہیں ، چنانچہ اس نے تین تیر مارے اور تینوں  کے تینوں  ان انصاری صحابی رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کے جسم میں  پیوست ہوگئے لیکن وہ اسی طرح رکوع اور سجدہ کرتے رہے۔(ابو داؤد، کتاب الطہارۃ، باب الوضو ء من الدم، ۱ / ۹۹، الحدیث: ۱۹۸)

وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ(3)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور وہ جو فضول بات سے منہ پھیرنے والے ہیں ۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{عَنِ اللَّغْوِ: فضول بات سے۔} فلاح پانے والے مومنوں  کا دوسرا وصف بیان کیا گیا کہ وہ ہر لَہْوو باطل سے بچے رہتے ہیں۔(خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۳۲۰)

لَغْو سے کیا مراد ہے؟

            علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں ’’لغو سے مراد ہر وہ قول، فعل اور ناپسندیدہ یا مباح کام ہے جس کا مسلمان کودینی یا دُنْیَوی کوئی فائدہ نہ ہو جیسے مذاق مَسخری،بیہودہ گفتگو،کھیل کود،فضول کاموں  میں  وقت ضائع کرنا، شہوات پوری کرنے میں  ہی لگے رہنا وغیرہ وہ تمام کام جن سے  اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ مسلمان کو اپنی آخرت کی بہتری کے لئے نیک اعمال کرنے میں  مصروف رہنا چاہئے یا وہ اپنی زندگی بسر کرنے کے لئے بقدرِ ضرورت (حلال) مال کمانے کی کوشش میں  لگا رہے۔( صاوی، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۳، ۴ / ۱۳۵۶-۱۳۵۷)

            اَحادیث میں  بھی لا یعنی اور بیکار کاموں  سے بچنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ حضرت ابوہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’آدمی کے اسلام کی اچھائی میں  سے یہ ہے کہ وہ لایعنی چیز چھوڑ دے۔( ترمذی، کتاب الزہد، ۱۱-باب، ۴ / ۱۴۲، الحدیث: ۲۳۲۴) یعنی جوچیز کار آمد نہ ہو اس میں  نہ پڑے، زبان، دل اور دیگر اَعضاء کو بے کار باتوں  کی طرف متوجہ نہ کرے۔

            اورحضرت عقبہ بن عامر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ  فرماتے ہیں ’’میں  حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں  حاضر ہوا اور عرض کی، نجات کیا ہے؟ ارشاد فرمایا: ’’اپنی زبان پر قابو رکھو اور تمہارا گھر تمہارے لیے گنجائش رکھے (یعنی بے کار ادھر ادھر نہ جاؤ) اور اپنی خطا پر آنسو بہاؤ۔( ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی حفظ اللسان، ۴ / ۱۸۲، الحدیث: ۲۴۱۴)

زبان کی حفاظت کرنے کی ضرورت اور ا س کے فوائد و نقصانات:

            یاد رہے کہ زبان کی حفاظت و نگہداشت اور فضولیات ولَغْویات سے اسے باز رکھنا بہت ضروری ہے کیونکہ زیادہ  سرکشی اور سب سے زیادہ فساد و نقصان اسی زبان سے رونما ہوتا ہے اور جو شخص زبان کو کھلی چھٹی دے دیتا اور اس کی لگام ڈھیلی چھوڑ دیتا ہے تو شیطان اسے ہلاکت میں  ڈال دیتا ہے۔زبان کی حفاظت کرنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے نیک اعمال کی حفاظت ہوتی ہے کیونکہ جو شخص زبان کی حفاظت نہیں  کرتا بلکہ ہر وقت گفتگو میں  مصروف رہتا ہے تو ایسا شخص لوگوں  کی غیبت میں  مبتلا ہونے سے بچ نہیں  پاتا، یونہی اس سے کفریہ الفاظ نکل جانے کا بہت اندیشہ رہتا ہے اور یہ دونوں  ایسے عمل ہیں  جس سے بندے کے نیک اعمال ضائع ہو جاتے ہیں ۔منقول ہے کہ حضرت امام حسن بصری رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے کسی شخص نے کہا:فلاں  شخص نے آپ کی غیبت کی ہے۔یہ سن کر آپ نے غیبت کرنے والے آدمی کو کھجوروں  کا تھال بھر کر روانہ کیا اور ساتھ میں  یہ کہلا بھیجا:سنا ہے کہ تم نے مجھے اپنی نیکیاں  ہدیہ کی ہیں ،تو میں  نے ان کا معاوضہ دینا بہتر جانا (اس لئے کھجوروں  کا یہ تھال حاضر ہے۔)( منہاج العابدین، العقبۃ الثالثۃ، العائق الرابع، الفصل الثالث: اللسان، ص۷۶)

            اوردوسرا فائدہ یہ ہے کہ زبان کی حفاظت کرنے سے انسان دنیا کی آفات سے محفوظ رہتا ہے، چنانچہ حضرت سفیان ثوری رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  :زبان سے ایسی بات نہ نکالوجسے سن کر لوگ تمہارے دانت توڑ دیں ۔ اور ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  :اپنی زبان کو بے لگام نہ چھوڑو تاکہ یہ تمہیں  کسی فساد میں  مبتلانہ کر دے۔( منہاج العابدین، العقبۃ الثالثۃ، العائق الرابع، الفصل الثالث: اللسان، ص۷۶)

            نیززبان کی حفاظت نہ کرنے کا ایک نقصان یہ ہے کہ بندہ ناجائز و حرام، لغو اور بیکار باتوں  میں  مصروف ہو کر گناہوں  میں  مبتلا ہوتا اور اپنی زندگی کی قیمتی ترین چیز’’ وقت ‘‘کو ضائع کر دیتا ہے۔ حضرت حسان بن سنان رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  کے بارے میں  مروی ہے کہ آپ ایک بالا خانے کے پاس سے گزرے تو ا س کے مالک سے دریافت فرمایا ’’یہ بالاخانہ بنائے تمہیں  کتناعرصہ گزرا ہے ؟یہ سوال کرنے کے بعدآپ کود ل میں  سخت ندامت ہوئی اور نفس کو مُخاطَب کرتے ہوئے یوں  فرمایا’’اے مغرورنفس!تو فضول اور لا یعنی سوالات میں  قیمتی ترین وقت کو ضائع کرتا ہے؟پھر ا س فضول سوال کے کَفّارے میں  آپ نے ایک سال روزے رکھے۔( منہاج العابدین، العقبۃ الثالثۃ، العائق الرابع، الفصل الثالث: اللسان، ص۷۵)

            اوردوسرا نقصان یہ ہے کہ ناجائز و حرام گفتگو کی وجہ سے انسان قیامت کے دن جہنم کے دردناک عذاب میں  مبتلا ہو سکتا ہے جسے برداشت کرنے کی طاقت کسی میں  نہیں ۔ لہٰذا عافیت اسی میں  ہے کہ بندہ اپنی زبان کی حفاظت کرےاور اِسے ان باتوں  کے لئے استعمال کرے جو اُسے دنیا اور آخرت میں  نفع دیں ۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں  کو زبان کی حفاظت و نگہداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَ(4)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور وہ جو زکوٰۃ دینے کا کام کرنے والے ہیں ۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَ: وہ زکوٰۃ دینے کا کام کرنے والے ہیں ۔} اس آیت میں  کامیابی پانے والے اہلِ ایمان کا تیسرا وصف بیان کیا گیا کہ وہ پابندی کے ساتھ اور ہمیشہ اپنے مالوں  پر فرض ہونے والی زکوٰۃ دیتے ہیں ۔ بعض مفسرین نے اس آیت میں  مذکور لفظ ’’زکاۃ‘‘ کا ایک معنی’’ تَزکیہ ِ نفس‘‘ بھی کیا ہے یعنی ایمان والے اپنے نفس کو دنیا کی محبت وغیرہ مذموم صفات سے پاک کرنے کا کام کرتے ہیں۔( مدارک ، المؤمنون ، تحت الآیۃ : ۴ ، ص ۷۵۱ ، البحر المحیط ، المؤمنون ، تحت الآیۃ : ۴ ،  ۶ / ۳۶۶، روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۴، ۶ / ۶۸، ملتقطاً)

زکوٰۃ ادا کرنے کے فضائل اور نہ دینے کی وعید:

            کثیر اَحادیث میں  زکوٰۃ ادا کرنے کے فضائل اور نہ دینے کی وعیدیں  بیان کی گئی ہیں ، ان میں  سے 4 اَحادیث درج ذیل ہیں  :

(1)…حضرت جابر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کر دی، تو بیشک ا س کے مال کا شر اُس سے چلا گیا۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۴۳۱، الحدیث: ۱۵۷۹)

(2)…حضرت ابو امامہ  رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہ ِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’زکوٰۃ دے کر اپنے مالوں  کو مضبوط قلعوں  میں  کر لو اور اپنے بیماروں  کا علاج صدقہ سے کرو۔( شعب الایمان ، باب الثانی و العشرین من شعب الایمان ۔۔۔ الخ ، فصل فیمن اتاہ  اللہ مالاً من غیر مسألۃ ، ۳ / ۲۸۲ ، الحدیث: ۳۵۵۷)

(3)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، سیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اپنے مال کی زکاۃ نکال، کہ وہ پاک کرنے والی ہے تجھے پاک کر دے گی۔( مسندامام احمد، مسند انس بن مالک رضی  اللہ عنہ، ۴ / ۲۷۳، الحدیث: ۱۲۳۹۷)

(4)…صحیح بخاری شریف میں  حضرت ابوہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جس کو  اللہ تعالیٰ مال دے اور وہ اُس کی زکاۃ ادا نہ کرے تو قیامت کے دن وہ مال گنجے سانپ کی صورت میں  کر دیا جائے گا، جس کے سر پر دو نشان ہوں  گے۔ وہ سانپ اُس کے گلے میں  طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا، پھر اس کی باچھیں  پکڑے گا اور کہے گا میں  تیرا مال ہوں  اور میں  تیرا خزانہ ہوں ۔( بخاری، کتاب الزکاۃ، باب اثم مانع الزکاۃ، ۱ / ۴۷۴، الحدیث: ۱۴۰۳)

 نفس کو مذموم صفات سے پاک کرنا کامیابی حاصل ہونے کا ذریعہ ہے:

            اس آیت کی دوسری تفسیر سے معلوم ہو اکہ نفس کو مذموم صفات جیسے تکبر و ریاکاری، بغض وحسد اور دنیا کی محبت وغیرہ سے پاک کرنا اُخروی کامیابی حاصل ہونے کا ذریعہ ہے۔اسی سے متعلق  اللہ تعالیٰ ایک اور مقام پر ارشاد فرماتا ہے: ’’قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى‘‘(اعلٰی:۱۴)

ترجمۂ  کنزُالعِرفان:بیشک جس نے خود کو پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگیا۔

            اور ارشاد فرماتا ہے: ’’ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَاﭪ(۹)وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا‘‘(شمس:۹،۱۰)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:بیشک جس نے نفس کو پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگیا۔ اور بیشک جس نے نفس کو گناہوں  میں  چھپادیا وہ ناکام ہوگیا۔

حضرت زید بن ارقم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں  :رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس طرح دعا مانگا کرتے تھے: ’’اَللّٰہُمَّ آتِ نَفْسِیْ تَقْوَاہَا وَزَکِّہَا اَنْتَ خَیْرُ مَنْ زَکَّاہَا اَنْتَ وَلِیُّہَا وَمَوْلَاہَا‘‘ اے اللّٰہ! میرے نفس کو تقویٰ عطا فرما اور اسے پاکیزہ کر،تو سب سے بہتر پاک کرنے والا ہے، تو ہی اس کاولی اور مولیٰ ہے۔( مسلم ، کتاب الذکر و الدعاء و التوبۃ و الاستغفار ،  باب التعوّذ من شرّ ما عمل ۔۔۔ الخ ، ص۱۴۵۷، الحدیث: ۷۳ (۲۷۲۲))

             نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی یہ دعا امت کی تعلیم کے لئے ہے، اس لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے نفس کو مذموم صفات سے پاک کرنے کی کوشش کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی پاکی کے لئے  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  دعا بھی کرے اور اس دعا کے لئے وہ الفاظ سب سے بہترین ہیں  جو اوپر حدیث پاک میں  مذکور ہوئے۔

وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَ(5)اِلَّا عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ(6)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔ مگر اپنی بیویوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی مِلک ہیں پس بیشک ان پر کوئی ملامت نہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَ: وہ اپنی شرمگاہوں  کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔} اس آیت سے کامیابی حاصل کرنے والے اہلِ ایمان کا چوتھا وصف بیان کیا گیا ہے، چنانچہ ا س آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ایمان والے زنا اور زنا کے اَسباب و لَوازمات وغیرہ حرام کاموں  سے اپنی شرمگاہوں  کی حفاظت کرتے ہیں  البتہ اگروہ اپنی بیویوں  اور شرعی باندیوں  کے ساتھ جائز طریقے سے صحبت کریں  تو اس میں  ان پر کوئی ملامت نہیں ۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۵-۶، ۳ / ۳۲۰-۳۲۱، ملخصًا)

شرمگاہ کی حفاظت کرنے کی فضیلت:

            حدیث پاک میں  زبان اور شرمگاہ کو حرام اور ممنوع کاموں  سے بچانے پر جنت کا وعدہ کیا گیا ہے،چنانچہ صحیح بخاری میں  حضرت سہل بن سعد رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا ’’جو شخص میرے لیے اس چیز کا ضامن ہو جائے جو اس کے جبڑوں  کے درمیان میں  ہے یعنی زبان کا اور اس کا جو اس کے دونوں  پاؤں  کے درمیان میں  ہے یعنی شرمگاہ کا، میں  اس کے لیے جنت کا ضامن ہوں ۔( بخاری، کتاب الرقاق، باب حفظ اللسان، ۴ / ۲۴۰، الحدیث: ۶۴۷۴)

شرمگاہ کی شہوت کا علمی اور عملی علاج:

            یاد رہے کہ شرمگاہ کی شہوت کو پورا کرنا انسانی فطرت کا تقاضا اور بے شمار فوائد حاصل ہونے کا ذریعہ ہے،اگر اس تقاضے کو شریعت کے بتائے ہوئے جائز طریقے سے پورا کیا جائے تو یہ دنیا میں  بہت بڑی نعمت اور آخرت میں  ثواب حاصل ہونے کا ایک ذریعہ ہے اور اگر اسے ناجائز و حرام ذرائع سے پورا کیا جائے تو یہ دنیا میں  بہت بڑی آفت اور قیامت کے دن جہنم کے دردناک عذاب میں  مبتلا ہونے کا سبب ہے، لہٰذا جو شخص اپنی خواہش کی تکمیل چاہتا ہے تواسے چاہئے کہ اگرکسی عورت سے شرعی نکاح کر سکتا ہے تو نکاح کر لے تاکہ اسے اپنے لئے جائز ذریعہ مل جائے اور اگر وہ شرعی نکاح کرنے کی طاقت نہیں  رکھتا تو پھر روزے رکھ کر اپنے نفس کو مغلوب کرنے کی کوشش کرے اور ا س کے ساتھ ساتھ ان تمام اَسباب اور مُحرِّکات سے بچنے کی بھی بھرپور کوشش کرے جن کی وجہ سے نفس کی اِس خواہش میں  اضافہ ہوتا ہے،نیز ناجائز و حرام ذریعے سے اِس خواہش کو پورا کرنے پر قرآنِ مجید اور اَحادیثِ مبارکہ میں  جن سزاؤں  اور عذابات کا ذکر کیا گیا ہے ان کا بغور مطالعہ کر ے اور  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  اپنے نفس کی حفاظت کے لئے خوب دعائیں  کرے۔

فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَآءَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْعٰدُوْنَ(7)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو جو اِن کے سوا کچھ اور چاہے تووہی حد سے بڑھنے والے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَآءَ ذٰلِكَ: تو جو اِن دو کے سوا کچھ اور چاہے۔} یعنی جو بیویوں  اور شرعی باندیوں  کے علاوہ کسی اور ذریعے سے شہوت پوری کرنا چاہے تو وہی حد سے بڑھنے والے ہیں  کہ حلال سے حرام کی طرف تَجاوُز کرتے ہیں ۔( روح ا لبیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۷، ۶ / ۶۸، ملخصاً)

ہم جنس پرستی، مشت زنی اور مُتعہ حرام ہے:

            اس سے معلوم ہو اکہ شریعت میں  صرف بیویوں  اور شرعی باندیوں  سے جائز طریقے کے ساتھ شہوت پوری کرنے کی اجاز ت ہے، اس کے علاوہ شہوت پوری کرنے کی دیگر صورتیں  جیسے مرد کا مرد سے، عورت کا عورت سے، شوہر کا بیوی یاشرعی باندی کے پچھلے مقام سے، اپنے ہاتھ سے شہوت پوری کرنا حرام ہے یونہی کسی عورت سے متعہ کرنا بھی حرام ہے۔

            علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  ’’اس آیت سے ثابت ہوا کہ اپنے ہاتھ سے قضائے شہوت کرنا حرام ہے۔حضرت سعید بن جبیر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے فرمایا’’  اللہ تعالیٰ نے ایک اُمت کو عذاب کیا جو اپنی شرمگاہوں  سے کھیل کرتے تھے۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۷، ۳ / ۳۲۱)

            اورامام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں ’’اس آیت سے ثابت ہو اکہ متعہ حرام ہے کیونکہ جس عورت سے متعہ کیا جاتا ہے وہ مرد کی بیوی نہیں  کیونکہ اگر ان دونوں  میں  سے کوئی مر جائے تو دوسرا اس کا وارث نہیں  بنتا، اگر وہ عورت بیوی ہوتی تو مرد کے انتقال کے بعد اس کی وارث بھی بنتی کیونکہ بیوی کی وراثت قرآن سے ثابت ہے۔ لہٰذا جب واضح ہو گیا کہ متعہ کروانے والی عورت مرد کی بیوی نہیں  تو ضروری ہے کہ وہ مرد کے لئے حلال نہ ہو۔( تفسیرکبیر، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۷، ۸ / ۲۶۲)

وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَ(8)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدے کی رعایت کرنے والے ہیں 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَ: اپنی امانتوں  اور اپنے وعدے کی رعایت کرنے والے ۔} اس آیت میں  فلاح حاصل کرنے والے اہلِ ایمان کے مزید دو وصف بیان کئے گئے کہ اگر ان کے پاس کوئی چیز امانت رکھوائی جائے تو وہ اس میں  خیانت نہیں  کرتے اور جس سے وعدہ کرتے ہیں  اسے پورا کرتے ہیں ۔

             یاد رہے کہ امانتیں  خواہ  اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ہوں  یا مخلوق کی اور اسی طرح عہد خدا عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ ہوں  یا مخلوق کے ساتھ، سب کی وفا لازم ہے۔( روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۸، ۶ / ۶۹، خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۸، ۳ / ۳۲۱، ملتقطاً)

6چیزوں  کی ضمانت دینے پر جنت کی ضمانت:

            حضرت عبادہ بن صامت رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میرے لیے چھ چیزوں  کے ضامن ہوجاؤ، میں  تمہارے لیے جنت کا ضامن ہوں ۔ (1)بات بولو تو سچ بولو۔ (2)وعدہ کرو تو پورا کرو۔ (3)تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو ادا کرو اور(4) اپنی شرمگاہوں  کی حفاظت کرو اور (5)اپنی نگاہوں  کو پَست کرو اور (6)اپنے ہاتھوں  کو روکو۔( مستدرک، کتاب الحدود، ستّ یدخل بہا الرجل الجنّۃ، ۵ / ۵۱۳، الحدیث: ۸۱۳۰)

وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَﭥ(9)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَ: جو اپنی نمازوں  کی حفاطت کرتے ہیں ۔} یعنی کامیابی حاصل کرنے والے وہ مومن ہیں  جو اپنی نمازوں  کی حفاطت کرتے ہیں  اور انہیں  اُن کے وقتوں  میں ، ان کے شرائط و آداب کے ساتھ پابندی سے ادا کرتے ہیں  اور فرائض و واجبات اور سُنن و نوافل سب کی نگہبانی رکھتے ہیں ۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۹، ۳ / ۳۲۱، مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۹، ص۷۵۲، ملتقطاً)

 عظیم الشّان عبادت:

         ایمان والوں  کا پہلا وصف خشوع وخضوع کے ساتھ نماز ادا کرنا بیان کیا گیا اور آخری وصف نمازوں  کی حفاظت کرنا ذکر کیا گیا، اس سے معلوم ہوا کہ نماز بڑی عظیم الشان عبادت ہے اور دین میں  اس کی بہت زیادہ اہمیت ہے، لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ پانچوں  نمازیں  پابندی کے ساتھ اور ان کے تمام حقوق کی رعایت کرتے ہوئے ادا کرے۔ حضرت عبادہ بن صامت رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت  صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا: ’’پانچ نمازیں   اللہ تعالیٰ نے بندوں  پر فرض کیں ، جس نے اچھی طرح وضو کیا اور وقت میں  سب نمازیں  پڑھیں  اور رکوع و خشوع کو پورا کیا تو اس کے لیے  اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمۂ کرم پر عہد کر لیا ہے کہ اسے بخش دے، اور جس نے نہ کیا اس کے لیے عہد نہیں ، چاہے بخش دے، چاہے عذاب کرے۔( ابو داؤد، کتاب الصلاۃ، باب المحافظۃ علی وقت الصلوات، ۱ / ۱۸۶، الحدیث: ۴

اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَ(10)الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَؕ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(11)

ترجمہ: کنزالعرفان

یہی لوگ وارث ہیں ۔یہ فردوس کی میراث پائیں گے، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اُولٰٓىٕكَ: یہی لوگ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جن ایمان والوں  میں  ما قبل آیات میں  مذکور اَوصاف پائے جاتے ہیں  یہی لوگ کافروں  کے جنتی مقامات کے وارث ہوں  گے۔یہ فردوس کی میراث پائیں  گے اوروہ جنت الفردوس میں  ہمیشہ رہیں  گے،نہ انہیں  اس میں  سے نکالا جائے گا اور نہ ہی وہاں  انہیں  موت آئے گی۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۰-۱۱، ۳ / ۳۲۱)

ہر شخص کے دو مقام ہیں ، ایک جنت میں  اور ایک جہنم میں :

             حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ہر شخص کے دو مقام ہوتے ہیں ،ایک جنت میں  اور ایک جہنم میں ،جب کوئی شخص مر کر(ہمیشہ کے لئے) جہنم میں  داخل ہو  جائے تو اہلِ جنت اس کے جنتی مقام کے وارث ہوں  گے۔ یہی اس آیت ’’اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَ‘‘ کا مقصد ہے۔( ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب صفۃ الجنّۃ، ۴ / ۵۴۲، الحدیث: ۴۳۴۱)

 اللہ تعالیٰ سے سب سے اعلیٰ جنت کا سوال کریں :

            یاد رہے کہ فردوس سب سے اعلیٰ جنت ہے اور اسی کا سوال کرنے کی حدیث پاک میں  ترغیب دی گئی ہے، چنانچہ حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، حضور نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جنت میں  سو درجے ہیں ،دو درجوں  کے درمیان اتنی مسافت ہے جتنی آسمان اور زمین کے درمیان ہے۔فردوس سب سے اعلیٰ اور درمیانی جنت ہے اورا س سے اوپر رحمٰن عَزَّوَجَلَّ کا عرش ہے اور اس سے جنت کی نہریں  نکلتی ہیں ۔جب تم  اللہ تعالیٰ سے سوال کرو تو جنت الفردوس کا سوال کرو۔( ترمذی، کتاب صفۃ الجنّۃ، باب ما جاء فی صفۃ درجات الجنّۃ، ۴ / ۲۳۸، الحدیث: ۲۵۳۸) لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ جب  اللہ تعالیٰ سے جنت کی دعا مانگے تو جنت الفردوس کی ہی دعا مانگے، اگر  اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے یہ دعا قبول فرما لی تو آخرت میں  ملنے والی یہ سب سے عظیم نعمت ہو گی۔

            دعا:اے  اللہ ! ہمیں  فردوس کی میراث پانے والوں  اوراس کی عظیم الشان نعمتوں  سے لطف اندوز ہونے والوں  میں  سے بنا دے اور جہنم کی طرف لے جانے والے تمام اَسباب سے ہماری حفاظت فرما،اٰمین۔

وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِیْنٍ(12)ثُمَّ جَعَلْنٰهُ نُطْفَةً فِیْ قَرَارٍ مَّـكِیْنٍ(13)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بیشک ہم نے انسان کو چنی ہوئی مٹی سے بنایا۔پھر اس کوایک مضبوط ٹھہراؤ میں پانی کی بوند بنایا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلْاِنْسَانَ: انسان۔} اس آیت سے رکوع کے آخر تک  اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت پر چار دلائل ذکر فر مائے ہیں ۔ سب سے پہلے انسان کی پیدائش کے مختلف مَراحل سے اپنی قدرت پر اِستدلال فرمایا،اس کے بعد آسمانوں  کی تخلیق سے،پھر پانی نازل کرنے سے اور سب سے آخر میں  حیوانات کے مختلف مَنافع سے اپنی قدرت پر استدلال فرمایا۔( صاوی، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۲، ۴ / ۱۳۵۸)

       مفسرین فرماتے ہیں  کہ اس آیت میں انسان سے مراد حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں ، انہیں   اللہ تعالیٰ نے مختلف جگہوں  سے چنی ہوئی مٹی سے بنایا۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۲، ۳ / ۳۲۱)

{ثُمَّ جَعَلْنٰهُ نُطْفَةً: پھر اس کو پانی کی بوند بنایا۔} یعنی پھر حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نسل کو ایک مضبوط ٹھہراؤ یعنی ماں  کے رحم میں  پانی کی بوند بنایا۔( مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۷۵۳)

ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًاۗ-ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَؕ-فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَﭤ(14)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر ہم نے اس پانی کی بوند کوجما ہوا خون بنادیا پھر جمے ہوئے خون کو گوشت کی بوٹی بنادیا پھر گوشت کی بوٹی کو ہڈیاں بنادیا پھر ہم نے ان ہڈیوں کو گوشت پہنایا، پھر اسے ایک دوسری صورت بنا دیا تو بڑی برکت والا ہے وہ اللہ جوسب سے بہتربنانے والاہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً: پھر ہم نے اس پانی کی بوند کوجما ہوا خون بنادیا۔} اس آیت میں   اللہ تعالیٰ نے ماں  کے رحم میں  نطفہ قرار پکڑنے کے بعد والے مَراحل بیان فرمائے،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ پھر ہم نے اس پانی کی بوند کوجما ہوا خون بنادیا پھر جمے ہوئے خون کو گوشت کی بوٹی بنادیا پھر گوشت کی بوٹی کو ہڈیاں بنادیا پھر ہم نے ان ہڈیوں  کو گوشت پہنایا، پھر اس میں  روح ڈال کر اس بے جان کو جان دار کیا، بولنے، سننے اور دیکھنے کی صلاحیت عطا کی اوراسے ایک دوسری صورت بنا دیاجو مکمل انسان ہوتا ہے تو بڑی برکت والا ہے وہ  اللہ عَزَّوَجَلَّ جو سب سے بہتربنانے والاہے۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۴، ۳ / ۳۲۱-۳۲۲، مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۴، ص۷۵۳، ملتقطاً)

حضرت عمر فاروق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کی سعادت :

            حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا فرماتے ہیں  :جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت عمر فاروق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے (اس کا ابتدائی حصہ سن کر) کہا’’فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ‘‘حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اے عمر! رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ، اسی طرح نازل ہوا ہے۔( تفسیرکبیر، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۴، ۸ / ۲۶۶)

انسان کی تخلیق  اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بہت بڑی دلیل ہے:

            انسان کے ظاہر وباطن،اس کے ہر ہر عُضْو اور ہر ہر جز میں  اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کی اتنی نشانیاں  موجود ہیں  جنہیں  شمار نہیں  کیا جاسکتا اور نہ ہی ان کی شرح بیان کی جا سکتی ہے۔ اگر کوئی شخص انصاف کے ساتھ اپنی تخلیق کے مراحل اور اپنے جسم کی بناوٹ میں  غور وفکر کرے تو اس کے پا س یہ بات ماننے کے سوا اور کوئی چارہ نہ ہو گا کہ ایسی حیرت انگیز تخلیق پر  اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی قادر نہیں  اوروہی اکیلا اس لائق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔

ثُمَّ اِنَّكُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ لَمَیِّتُوْنَﭤ(15)ثُمَّ اِنَّكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ تُبْعَثُوْنَ(16)وَ لَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَآىٕقَ ﳓ وَ مَا كُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غٰفِلِیْنَ(17)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر اس کے بعد تم ضرور مرنے والے ہو۔پھر تم سب قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے۔ اور بیشک ہم نے تمہارے اوپر سات راستے بنائے اور ہم مخلوق سے بے خبر نہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{بَعْدَ ذٰلِكَ: اس کے بعد۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ تخلیق مکمل ہونے کے بعد جب تمہاری عمریں  پور ی ہو جائیں  گی تو تمہیں  ضرور موت آئے گی، پھر تم سب قیامت کے دن حساب و جزا کے لئے اٹھائے جاؤ گے۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۵-۱۶، ۳ / ۳۲۲)

{وَ لَقَدْ خَلَقْنَا: اور بیشک ہم نے بنائے۔} ا س آیت میں   اللہ تعالیٰ نے آسمانوں  کی تخلیق سے اپنی قدرت پر اِستدلال فرمایا،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ بیشک ہم نے تمہارے اوپر سات راستے بنائے۔ان سے مراد سات آسمان ہیں  جو فرشتوں  کے چڑھنے اُترنے کے راستے ہیں ۔اور فرمایا کہ ہم مخلوق سے بے خبر نہیں ،سب کے اَعمال، اَقوال اور چھپی حالتوں  کو جانتے ہیں  اورکوئی چیز ہم سے چھپی نہیں ۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۷، ۳ / ۳۲۲)

وَ اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءًۢ بِقَدَرٍ فَاَسْكَنّٰهُ فِی الْاَرْضِ ﳓ وَ اِنَّا عَلٰى ذَهَابٍۭ بِهٖ لَقٰدِرُوْنَ(18)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ہم نے آسمان سے ایک اندازے کے ساتھ پانی اتارا پھر اسے زمین میں ٹھہرایا اور بیشک ہم اسے لے جانے پر قادر ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً: اور ہم نے آسمان سے پانی اتارا۔} اس آیت میں   اللہ تعالیٰ نے پانی نازل کرنے سے اپنی قدرت پر اِستدلال فرمایا،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اور ہم نے آسمان سے ایک اندازے کے ساتھ یعنی جتنی ہمارے علم و حکمت میں  مخلوق کی حاجتوں  کے لئے چاہیے اتنی بارش برسائی، پھر اسے زمین میں  ٹھہرایا اور بیشک ہم اسے لے جانے پر قادر ہیں  یعنی جیسے اپنی قدرت سے پانی نازل فرمایا ایسے ہی اس پر بھی قادر ہیں  کہ اس کو ختم کردیں  تو بندوں کو چاہیے کہ اس نعمت کی شکر گزاری سے حفاظت کریں۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۸، ۳ / ۳۲۲، مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۸، ص۷۵۴، ملتقطاً)

فَاَنْشَاْنَا لَكُمْ بِهٖ جَنّٰتٍ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّ اَعْنَابٍۘ-لَكُمْ فِیْهَا فَوَاكِهُ كَثِیْرَةٌ وَّ مِنْهَا تَاْكُلُوْنَ(19)وَ شَجَرَةً تَخْرُ جُ مِنْ طُوْرِ سَیْنَآءَ تَنْۢبُتُ بِالدُّهْنِ وَ صِبْغٍ لِّلْاٰكِلِیْنَ(20)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو اس پانی سے ہم نے تمہارے لئے کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کئے۔ تمہارے لیے ان باغوں میں بہت سے پھل میوے ہیں اور ان میں سے تم کھاتے ہو۔اور (ہم نے) درخت (پیدا کیا) جو طور سینا پہاڑ سے نکلتا ہے، تیل اور کھانے والوں کے لیے سالن لے کر اگتا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاَنْشَاْنَا لَكُمْ: تو ہم نے تمہارے لئے پیدا کئے۔} یعنی جو پانی آسمان سے نازل فرما یا اس سے ہم نے تمہارے لئے کھجوروں  اور انگوروں  کے باغات پیدا کئے۔ تمہارے لیے ان باغوں میں  کھجوروں  اور انگوروں  کے علاوہ مزید بہت سے پھل میوے ہیں  اور سردی گرمی وغیرہ موسموں  میں  ان میں  سے تم کھاتے ہو اور عیش کرتے ہو۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۹، ۳ / ۳۲۳، مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۷۵۴، ملتقطاً)

{وَ شَجَرَةً: اور درخت۔} یعنی  اللہ تعالیٰ نے زیتون کادرخت پیدا کیا جو طورِ سَینا نامی پہاڑسے نکلتا ہے، تیل اور کھانے والوں  کے لیے سالن لے کر اگتا ہے۔ یہ اس میں  عجیب صفت ہے کہ وہ تیل بھی ہے کہ تیل کے مَنافع اور فوائد اس سے حاصل کئے جاتے ہیں ، جلایا بھی جاتا ہے، دوا کے طریقے پر بھی کام میں  لایا جاتا ہے اور سالن کا بھی کام دیتا ہے کہ تنہا اس سے روٹی کھائی جاسکتی ہے۔( ابو سعود، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۲۰، ۴ / ۴۱-۴۲، ملخصاً)

وَ اِنَّ لَكُمْ فِی الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةًؕ-نُسْقِیْكُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْنِهَا وَ لَكُمْ فِیْهَا مَنَافِعُ كَثِیْرَةٌ وَّ مِنْهَا تَاْكُلُوْنَ(21)وَ عَلَیْهَا وَ عَلَى الْفُلْكِ تُحْمَلُوْنَ(22)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بیشک تمہارے لیے چوپایوں میں سمجھنے کا مقام ہے، ہم تمہیں اس میں سے پلاتے ہیں جو ان کے پیٹ میں ہے اور تمہارے لیے ان میں بہت فائدے ہیں اور انہی سے تم کھاتے ہو۔ اور ان پر اور کشتیوں پرتمہیں سوار کیا جاتا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فِی الْاَنْعَامِ: چوپایوں  میں ۔} اس آیت میں   اللہ تعالیٰ نے حیوانات کے مَنافع سے اپنی قدرتِ کاملہ پر اِستدلال فرمایا ہے،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ بیشک تمہارے لیے چوپایوں  میں  سمجھنے کا مقام ہے جس کے ذریعے تم عبرت حاصل کر سکتے ہو، ہم تمہیں  ان کے پیٹ میں  موجود دودھ پلاتے ہیں  اور وہ خوشگوار،طبیعت کے موافق لطیف غذا ہے اور تمہارے لیے ان میں اور بھی بہت سے فائدے ہیں  کہ اُن کے بال، کھال اوراُون وغیرہ سے کام لیتے ہو اور انہی میں  سے تم بعض چوپایوں  کو ذبح کرکے ان کا گوشت بھی کھالیتے ہو۔(خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۲۱، ۳ / ۳۲۳، مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۲۱، ص۷۵۴، ملتقطاً)

{وَ عَلَیْهَا: اور ان پر۔} یعنی خشکی میں  ان جانوروں پر اور دریاؤں  میں  کشتیوں  پرتمہیں  سوار کیا جاتا ہے۔( مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۲۲ص۷۵۴)

وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-اَفَلَا تَتَّقُوْنَ(23)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تو اس نے فرمایا: اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں تو کیا تم ڈرتے نہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ: اور بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا۔}  اللہ تعالیٰ نے ان آیات سے حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق کے علاوہ پانچ واقعات بیان فرمائے ہیں ۔ پہلا :حضرت نوح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ۔دوسرا :حضرت ہود عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا۔تیسرا :قُرونِ آخَرین کا قصہ۔چوتھا: حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَاالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ اور پانچواں :حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی والدہ حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا کا واقعہ۔ ان تمام واقعات کو بیان کرنے سے مقصود یہ ہے کہ رسولِ کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت سابقہ امتوں  کے حالات سے آگاہ ہو تاکہ ان کے اچھے اَوصاف اپنانے کی کوشش کریں  اور مذموم اوصاف سے بچیں ۔( صاوی، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۲۳، ۴ / ۱۳۶۱)

            اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ بیشک ہم نے حضرت نوح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو انہوں  نے قوم سے فرمایا: اے میری قوم! تم( ایمان قبول کر کے)  اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ، کیا تم اس کے عذاب سے ڈرتے نہیں  جو اس کے سوا اوروں کو پوجتے ہو۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۲۳، ۳ / ۳۲۳، ملخصاً)

فَقَالَ الْمَلَؤُا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ مَا هٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْۙ-یُرِیْدُ اَنْ یَّتَفَضَّلَ عَلَیْكُمْؕ-وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَاَنْزَلَ مَلٰٓىٕكَةً ۚۖ-مَّا سَمِعْنَا بِهٰذَا فِیْۤ اٰبَآىٕنَا الْاَوَّلِیْنَ(24)اِنْ هُوَ اِلَّا رَجُلٌۢ بِهٖ جِنَّةٌ فَتَرَبَّصُوْا بِهٖ حَتّٰى حِیْنٍ(25)قَالَ رَبِّ انْصُرْنِیْ بِمَا كَذَّبُوْنِ(26)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو اس کی قوم کے کافرسرداروں نے کہا:یہ تو تمہارے جیسا ہی ایک آدمی ہے جو چاہتا ہے کہ تم پر بڑا بن جائے اور اگر اللہ چاہتا تو وہ فرشتے اتارتا۔ ہم نے تو یہ اپنے پہلے باپ داداؤں میں نہیں سنی۔ یہ تو صرف ایک ایسا مرد ہے جس پر جنون (طاری) ہے تو ایک مدت تک اس کاانتظار کرلو۔ نوح نے عرض کی: اے میرے رب!میری مدد فرما کیونکہ انہوں نے مجھے جھٹلایاہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَقَالَ: تو کہا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے کافر سرداروں  نے اپنی قوم کے لوگوں  سے کہا کہ یہ تو تمہارے جیسا ہی ایک آدمی ہے کہ کھاتا اور پیتا ہے، یہ چاہتا ہے کہ تم پر  بڑا بن جائے اور تمہیں  اپنا تابع بنالے اور اگر  اللہ عَزَّوَجَلَّ چاہتا کہ رسول بھیجے اور مخلوق پرستی کی ممانعت فرمائے تو وہ فرشتے اتاردیتالیکن اس نے ایسا تو نہیں  کیا، نیز ہم نے تو اپنے پہلے باپ داداؤں  میں  یہ بات نہیں  سنی کہ بشر بھی رسول ہوتا ہے۔ یہ ان کی حماقت کی انتہاء تھی کہ بشر کا رسول ہونا تو تسلیم نہ کیا، پتھروں  کو خدا مان لیا اور انہوں  نے حضرت نوح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کے بارے میں  یہ بھی کہا ’’یہ تو صرف ایک ایسا مرد ہے جس پر جنون طاری ہے تو ایک مدت تک انتظار کرلو یہاں  تک کہ اس کا جنون دور ہو جائے، ایسا ہوا تو خیر ورنہ اس کو قتل کر ڈالنا۔( مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۲۴-۲۵، ص۷۵۵، ملخصاً)

{قَالَ: عرض کی۔} جب حضرت نوح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوان لوگوں  کے ایمان لانے اور اُ ن کے ہدایت پانے کی امید نہ رہی تو حضرت نوح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عرض کی: اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، میری مدد فرما اور اس قوم کو ہلا ک کر دے کیونکہ انہوں  نے مجھے جھٹلایاہے۔( مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۲۶، ص۷۵۵)

فَاَوْحَیْنَاۤ اِلَیْهِ اَنِ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِاَعْیُنِنَا وَ وَحْیِنَا فَاِذَا جَآءَ اَمْرُنَا وَ فَارَ التَّنُّوْرُۙ-فَاسْلُكْ فِیْهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وَ اَهْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْهِ الْقَوْلُ مِنْهُمْۚ-وَ لَا تُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْاۚ-اِنَّهُمْ مُّغْرَقُوْنَ(27)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو ہم نے اس کی طرف وحی بھیجی کہ ہماری نگاہ کے سامنے اور ہمارے حکم سے کشتی بنا پھر جب ہمارا حکم آئے اور تنور ابل پڑے تو کشتی میں ہر جوڑے میں سے دو اور اپنے گھر والوں کو داخل کرلو سوائے اِن میں سے اُن لوگوں کے جن پر بات پہلے طے ہوچکی ہے اور ان ظالموں کے معاملہ میں مجھ سے بات نہ کرنا،یہ ضرور غرق کئے جانے والے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاَوْحَیْنَاۤ اِلَیْهِ: تو ہم نے اس کی طرف وحی بھیجی۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت نوح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا فرمائی تو  اللہ تعالیٰ نے اسے قبول فرماتے ہوئے ان کی طرف وحی بھیجی کہ تم ہماری حمایت و حفاظت میں  اور ہمارے حکم سے کشتی بنا ؤپھر جب ان کی ہلاکت کا ہماراحکم آئے اور عذاب کے آثار نمودار ہوں  اور تنور ابلنے لگ جائے اور اس میں  سے پانی برآمد ہو تو یہ عذاب کے شروع ہونے کی علامت ہے، تو اس وقت کشتی میں  ہر طرح کے جانوروں  کے جوڑے میں  سے نراور مادہ اور اپنے گھر والوں  یعنی اپنی مومنہ بیوی اور ایماندار اولاد یا تمام مومنین کو داخل کرلو،البتہ ان میں  سے ان لوگوں  کو سوار نہ کرنا جن پر بات پہلے طے ہوچکی ہے اور کلامِ اَزلی میں  ان پر عذاب اور ہلاکت مُعَیّن ہوچکی ہے۔ اس سے مراد حضرت نوح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کاکنعان نامی ایک بیٹا اور ایک بیوی ہیں  کہ یہ دونوں  کافر تھے، چنانچہ حضرت نوح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے تین فرزندوں  سام، حام، یافث اور اُن کی بیویوں  کو اور دوسرے مؤمنین کو سوار کیا، کل لوگ جو کشتی میں  تھے اُن کی تعداد ایک قول کے مطابق 80تھی نصف مرد اور نصف عورتیں ۔ حضرت نوح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام سے مزید ارشاد فرمایا کہ ان ظالموں  کے معاملہ میں  مجھ سے بات نہ کرنا اور اُن کے لئے نجات طلب کرنا نہ دعا فرمانا، یہ ضرور غرق کئے جانے والے ہیں ۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ : ۲۷، ۳ / ۳۲۴ ، مدارک ، المؤمنون ، تحت الآیۃ : ۲۷ ، ص۷۵۵ – ۷۵۶، جلالین مع صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۴۰، ۳ / ۹۱۳، ملتقطاً)

فَاِذَا اسْتَوَیْتَ اَنْتَ وَ مَنْ مَّعَكَ عَلَى الْفُلْكِ فَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ نَجّٰىنَا مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ(28)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر جب تم اور تمہارے ساتھ والے کشتی پر ٹھیک بیٹھ جاؤ تو تم کہناتمام تعریفیں اس اللہ کیلئے جس نے ہمیں ان ظالموں سے نجات دی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ: تو تم کہناتمام تعریفیں   اللہ کیلئے ہیں ۔} کافروں  سے نجات حضرت نوح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان پر ایمان لانے والے تمام لوگوں  کو نصیب ہوئی لیکن اس پر  اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کرنے کا حکم صرف حضرت نوح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دیاگیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کے نبی اور امام تھے تو اِن کا حمد و ثنا کرنااُن ایمان والوں  کا حمد و ثنا کرنا ہے نیز اس میں   اللہ تعالیٰ کی کِبریائی اور رَبوبِیَّت اور نبوت کی عظمت و فضیلت کی طرف اشارہ کرنا بھی مقصود ہے کیونکہ  اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونا وہ عظیم رتبہ ہے جو فرشتے اور نبی کے علاوہ کسی اور کو حاصل نہیں  ہوتا۔( تفسیرکبیر، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۲۸، ۸ / ۲۷۳)  نیز بحیثیت ِ نبی حمد کا حکم حضرت نوح عَلَیْہِ  السَّلَام کو ہوا تو امت نے اس کی پیروی کرنی تھی۔

وَ قُلْ رَّبِّ اَنْزِلْنِیْ مُنْزَلًا مُّبٰرَكًا وَّ اَنْتَ خَیْرُ الْمُنْزِلِیْنَ(29)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور عرض کرنا: اے میرے رب !مجھے برکت والی جگہ اتار دے اور تو سب سے بہتر اتارنے والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ قُلْ: اور عرض کرنا۔} یعنی کشتی سے اُترتے وقت یا اس میں سوار ہوتے وقت عرض کرنا کہ: اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ،   مجھے برکت والی جگہ اتار دے اور تو سب سے بہتر اتارنے والا ہے۔کشتی میں سوار ہوتے وقت کی برکت عذاب سے نجات ہے اور کشتی سے اترتے وقت کی برکت نسل کی کثرت اور پے درپے بھلائیوں کا ملنا ہے۔(مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۲۹،  ص۷۵۶)اس آیت میں اشارہ ہے کہ ہر مسلمان کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے ایسی برکت والی جگہ کی دعامانگنی چاہئے جس میں اس کے  لئے  دین اور دنیا دونوں کی برکتیں ہوں ۔(روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۳۰، ۶ / ۸۱)

اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ وَّ اِنْ كُنَّا لَمُبْتَلِیْنَ(30)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک اس میں ضرو ر نشانیاں ہیں اور بیشک ہم ضرور آزمانے والے تھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ: بیشک اس میں ۔} یعنی حضرت نوح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے میں  اور اس میں  جو دشمنانِ حق کے ساتھ کیا گیا ضرور نشانیاں ، عبرتیں ، نصیحتیں  اور  اللہ تعالیٰ کی قدرت کے دلائل ہیں  اور بیشک ہم حضرت نوح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کو اس قوم میں  بھیج کر اور ان کو وعظ و نصیحت پر مامُور فرما کر انہیں  ضرور آزمانے والے تھے تاکہ ظاہر ہوجائے کہ عذاب نازل ہونے سے پہلے کون نصیحت قبول کرتا اور تصدیق و اطاعت کرتا ہے اور کون نافرمان تکذیب و مخالفت پر ڈٹا رہتا ہے۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۳۰، ۳ / ۳۲۴، مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۳۰، ص۷۵۶، ملتقطاً)

ثُمَّ اَنْشَاْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ قَرْنًا اٰخَرِیْنَ(31)فَاَرْسَلْنَا فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-اَفَلَا تَتَّقُوْنَ(32)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر ان کے بعد ہم نے ایک دوسری قوم پیدا کی۔ تو ہم نے ان میں ایک رسول انہیں میں سے بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں تو کیا تم ڈرتے نہیں ؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ثُمَّ: پھر۔} یعنی حضرت نوح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر عذاب نازل کرنے اور اِس کی ہلاکت کے بعد ہم نے پھر ایک دوسری قوم پیدا کی اور وہ حضرت ہود عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم عاد ہے۔( روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۳۱، ۶ / ۸۱)

            نوٹ: حضرت ہود عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور قومِ عاد کا واقعہ سورۂ اَعراف آیت نمبر65تا72 اور سورۂ ہود آیت نمبر50تا60 میں  گزر چکا ہے۔

{فَاَرْسَلْنَا فِیْهِمْ رَسُوْلًا: تو ہم نے ان میں  ایک رسول بھیجا۔} یعنی ہم نے قومِ عاد میں  انہیں  میں  سے ایک رسول بھیجا، جن کا نام حضرت ہود عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہے اور اُن کی معرفت اُس قوم کو حکم دیا کہ  اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں  تو کیا تم  اللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے ڈرتے نہیں ؟ تا کہ شرک چھوڑ کر ایمان قبول کر لو۔(روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۳۲، ۶ / ۸۱، ملخصاً)

وَ قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِلِقَآءِ الْاٰخِرَةِ وَ اَتْرَفْنٰهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۙ-مَا هٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْۙ-یَاْكُلُ مِمَّا تَاْكُلُوْنَ مِنْهُ وَ یَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُوْنَ(33)وَ لَىٕنْ اَطَعْتُمْ بَشَرًا مِّثْلَكُمْ اِنَّكُمْ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ(34)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اس کی قوم کے وہ سردار بولے جنہوں نے کفرکیااورآخرت کی ملاقات کو جھٹلایا اور ہم نے انہیں دنیا کی زندگی میں خوشحالی عطا فرمائی (بولے:) یہ تو تمہارے جیسا ہی ایک آدمی ہے، جو تم کھاتے ہو اسی میں سے یہ کھاتا ہے اور جو تم پیتے ہو اسی میں سے یہ پیتا ہے۔ اور اگر تم کسی اپنے جیسے آدمی کی اطاعت کرو گے جب تو تم ضرور خسارہ پانے والے ہوگے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ قَالَ: اور بولے۔} یہاں  سے حضرت ہود عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے کافر سرداروں  کے شبہات بیان کئے گئے ہیں ، ا س آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ہود عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعوت سن کر ان کی قوم کے وہ سردار جنہوں  نے کفرکیااورآخرت کی ملاقات اور وہاں  کے ثواب و عذاب وغیرہ کو جھٹلایا حالانکہ  اللہ تعالیٰ نے انہیں  عیش کی وسعت اور دنیا کی نعمت عطا فرمائی تھی، یہ اپنے نبی عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں  اپنی قوم کے لوگوں  سے کہنے لگے ’’یہ تو تمہارے جیسے ہی ایک آدمی ہیں ، جو تم کھاتے ہو اسی میں  سے یہ کھاتا ہے اور جو تم پیتے ہو اسی میں  سے یہ پیتا ہے۔ یعنی اگر یہ نبی ہوتے تو فرشتوں کی طرح کھانے پینے سے پاک ہوتے۔ ان باطن کے اندھوں  نے کمالاتِ نبوت کو نہ دیکھا اور کھانے پینے کے اوصاف دیکھ کر نبی کو اپنی طرح بشر کہنے لگے اور یہی چیز اُن کی گمراہی کی بنیادہوئی، چنانچہ اسی سے انہوں  نے یہ نتیجہ نکالا کہ آپس میں  کہنے لگے’’اور اگر تم کسی اپنے جیسے آدمی کی بات مان کر اس کی اطاعت کرو گے جب تو تم ضرور خسارہ پانے والے ہوگے۔( مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۳۳-۳۴، ص۷۵۷، روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۳۳-۳۴، ۶ / ۸۲، ملتقطاً)

آیت ’’وَ قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِهِ‘‘ سے معلوم ہونے والی باتیں :

            اس سے دو باتیں  معلوم ہوئیں 

(1)… ہمیشہ مالدار، سردار، دنیاوی عزت والے زیادہ تر لوگ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مخالف ہوئے۔ غُرباء و مَساکین زیادہ مومن ہوئے، اب بھی یہی دیکھا جا رہا ہے کہ عموماًغریب لوگ ہی دینی کام زیادہ کرتے ہیں ۔

(2)… نبی کو اپنے جیسا بشر کہنا اور ان کے ظاہری کھانے پینے کو دیکھنا، باطنی اَسرار کو نہ دیکھنا، ہمیشہ سے کفار کا کام رہا ہے۔ پہلی بارشیطان نے نبی کو بشر کہا، پھر ہمیشہ کفار نے ایساکہا۔

{اِنَّكُمْ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ: جب تو تم ضرور خسارہ پانے والے ہوگے۔} یعنی خدا کی قسم! اگر تم نے اس کے احکاما ت کی پیروی کی تو ا س صورت میں  اپنے آپ کوذلت میں  ڈال کر تم ضرور خسارہ پانے والے ہوگے۔( روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۳۴، ۶ / ۸۲)

کافر بہت بڑا بے عقل ہے:

             اللہ تعالیٰ کے نبی عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیروی سے دونوں  جہاں  میں  سعادتیں  نصیب ہوتی ہیں  لیکن ان بیوقوفوں  نے نبی عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اطاعت میں  اپنی ناکامی جبکہ پتھروں  کی عبادت میں  کامیابی سمجھی، اس سے معلوم ہوا کہ کافر بہت بڑا بے عقل ہوتا ہے۔

اَیَعِدُكُمْ اَنَّكُمْ اِذَا مِتُّمْ وَ كُنْتُمْ تُرَابًا وَّ عِظَامًا اَنَّكُمْ مُّخْرَجُوْنَ(35)هَیْهَاتَ هَیْهَاتَ لِمَا تُوْعَدُوْنَ(36)

ترجمہ: کنزالعرفان

کیا تمہیں یہ وعدہ دیتا ہے کہ تم جب مرجاؤ گے اور مٹی اور ہڈیاں ہوجاؤ گے( اس کے بعد پھر) تم نکالے جاؤ گے۔ جو وعدہ تم سے کیا جارہا ہے وہ بہت دور ہے وہ بہت دور ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَیَعِدُكُمْ: کیا تمہیں  یہ وعدہ دیتا ہے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ حضرت ہود عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے کافر سرداروں  نے حشر کے صحیح ہونے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا’’ کیا تمہیں  یہ کہا جاتا ہے کہ جب تم مرجاؤ گے اور تمہارا گوشت پوست سب مٹی ہو جائے گا اور ہڈیاں  باقی رہ جائیں  گی، اس کے بعد پھر تم قبروں  سے زندہ نکالے جاؤ گے۔ انہوں  نے صرف اتنی بات کہنے کو کافی نہ سمجھا بلکہ مرنے کے بعد زندہ کئے جانے کو بہت بعیدجانا اور کہا’’قبروں  سے نکالے جانے کاجو وعدہ تم سے کیا جارہا ہے وہ بہت دور ہے، وہ بہت دور ہے۔( تفسیرکبیر، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۳۵-۳۶، ۸ / ۲۷۶، روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۳۵-۳۶، ۶ / ۸۲،  ملتقطاً)

اِنْ هِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَ نَحْیَا وَ مَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَ(37)اِنْ هُوَ اِلَّا رَجُلُ-ﰳافْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا وَّ مَا نَحْنُ لَهٗ بِمُؤْمِنِیْنَ(38)

ترجمہ: کنزالعرفان

زندگی تو صرف ہماری دنیا کی زندگی ہے، ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور ہم اٹھائے جانے والے نہیں ہیں ۔ یہ تو صرف ایک ایسا مرد ہے جس نے اللہ پر جھوٹ باندھاہے اور ہم اس کا یقین کرنے والے نہیں ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنْ هِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا: زندگی تو صرف ہماری دنیا کی زندگی ہے۔} اُن سرداروں  نے مرنے کے بعد زندہ ہونے کو بہت بعید جانا اور سمجھا کہ ایسا کبھی ہونے والا ہی نہیں  اور اسی باطل خیال کی بنا پر کہنے لگے کہ زندگی تو صرف ہماری دنیا کی زندگی ہے۔ اس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ اس دُنْیَوی زندگی کے سوا اور کوئی زندگی نہیں  صرف اتنا ہی ہے، ہم مرتے جیتے ہیں  کہ ہم میں  کوئی مرتا ہے کوئی پیدا ہوتا ہے اور ہم مرنے کے بعداٹھائے جانے والے نہیں  ہیں ۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۳۷، ۳ / ۳۲۵، مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۷۵۷، ملتقطاً)

{اِنْ هُوَ اِلَّا رَجُلٌ: یہ تو صرف ایک مرد ہے۔} کافر سرداروں  نے اپنے رسول حضرت ہود عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں  یہ کہا کہ وہ تو صرف ایک ایسا مرد ہے جس نے  اللہ عَزَّوَجَلَّ پر جھوٹ باندھاہے کہ اپنے آپ کو اس کا نبی بتایا اور مرنے کے بعد زندہ کئے جانے کی خبر دی اور ہم اس کی بات کا یقین کرنے والے نہیں  ہیں ۔( مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۳۸، ص۷۵۷)

قَالَ رَبِّ انْصُرْنِیْ بِمَا كَذَّبُوْنِ(39)قَالَ عَمَّا قَلِیْلٍ لَّیُصْبِحُنَّ نٰدِمِیْنَ(40)فَاَخَذَتْهُمُ الصَّیْحَةُ بِالْحَقِّ فَجَعَلْنٰهُمْ غُثَآءًۚ-فَبُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ(41)

ترجمہ: کنزالعرفان

عرض کی: اے میرے رب !میری مدد فرماکیونکہ انہوں نے مجھے جھٹلایاہے۔ اللہ نے فرمایا: تھوڑی دیر میں یہ پچھتانے والے ہوجائیں گے۔ تو سچی چنگھاڑ نے انہیں پکڑ لیا تو ہم نے انہیں سوکھی گھاس کوڑا بنادیا تو ظالم لوگوں کیلئے دوری ہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ: عرض کی۔} جب حضرت ہود عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اُن کے ایمان لانے کی امید نہ رہی اور انہوں  نے دیکھا کہ قوم انتہائی سرکشی پر ہے تو اُن کے خلاف دعا کی اور بارگاہِ الٰہی میں  عرض کی: اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، میری مدد فرما اور انہیں  ہلاک کر دے کیونکہ انہوں  نے مجھے جھٹلایاہے اور وہ اسی پر قائم ہیں ۔( ابوسعود، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۳۹، ۴ / ۴۸)

{ قَالَ:  اللہ نے فرمایا۔}  اللہ تعالیٰ نے حضرت ہود عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا قبول فرمائی اور ان سے ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ تھوڑی دیر میں  جب  اللہ تعالیٰ کا عذاب دیکھیں  گے تو یہ اپنے کفر اور تکذیب پر پچھتانے والے ہوجائیں  گے۔( مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۴۰، ص۷۵۷)

{فَاَخَذَتْهُمُ الصَّیْحَةُ بِالْحَقِّ: تو سچی چیخ نے انہیں  پکڑ لیا۔} آیت کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ حضرت ہود عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کی قوم کے لوگ عذاب اور ہلاکت میں  گرفتار کئے گئے اور وہ ہلاک ہو کر گھاس کوڑے کی طرح ہوگئے تو انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کرنے والے ظالم لوگوں  کے لئے خدا کی رحمت سے دوری ہے۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ:۴۱، ۳ / ۳۲۵، روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۴۱، ۶ / ۸۳، ملتقطاً)

ثُمَّ اَنْشَاْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ قُرُوْنًا اٰخَرِیْنَﭤ(42)مَا تَسْبِقُ مِنْ اُمَّةٍ اَجَلَهَا وَ مَا یَسْتَاْخِرُوْنَﭤ(43)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر ان کے بعد ہم نے دوسری بہت سی قومیں پیدا کیں ۔ کوئی امت اپنی مدت سے نہ پہلے جاتی ہے اور نہ وہ پیچھے رہتے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ثُمَّ اَنْشَاْنَا: پھر ہم نے پیدا کیں ۔} یعنی قومِ عاد کی ہلاکت کے بعد ہم نے دوسری بہت سی قومیں  جیسے حضرت صالح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم، حضرت لوط عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم اور حضرت شعیب عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم وغیرہ پیدا کیں  تاکہ لوگوں  پر ہماری قدرت ظاہر ہو اور ہر امت جان لے کہ ہم ان سے بے نیاز ہیں ، اگر وہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعوت قبول کرتے اور رسولوں  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اطاعت کرتے ہیں  تو اس کا انہیں  ہی فائدہ ہو گا۔( روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۴۲، ۶ / ۸۴)

{مِنْ اُمَّةٍ: کوئی امت۔} ارشاد فرمایا کہ کوئی امت اپنی مدت سے نہ پہلے جاتی ہے اور نہ وہ لوگ اس مدت سے پیچھے رہتے ہیں ، جس امت کے لئے ہلاک ہونے کا جو وقت مقرر ہے وہ ٹھیک اسی وقت ہلاک ہوگی اس میں  کچھ بھی تقدیم و تاخیر نہیں  ہوسکتی۔( مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۴۳، ص۷۵۸)

ثُمَّ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَاؕ-كُلَّمَا جَآءَ اُمَّةً رَّسُوْلُهَا كَذَّبُوْهُ فَاَتْبَعْنَا بَعْضَهُمْ بَعْضًا وَّ جَعَلْنٰهُمْ اَحَادِیْثَۚ-فَبُعْدًا لِّقَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُوْنَ(44)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر ہم نے لگاتار اپنے رسول بھیجے۔ جب کبھی کسی امت کے پاس اس کا رسول آیا توانہوں نے اسے جھٹلایا تو ہم نے ایک کو دوسرے سے ملادیا اور انہیں داستانیں بنا ڈالا تو ایمان نہ لانے والے دور ہوں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ثُمَّ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَا: پھر ہم نے لگاتار اپنے رسول بھیجے۔} یعنی جس طرح ہم نے ایک کے بعد دوسری قوم کو پیدا کیا اسی حساب سے ہم نے ان میں  لگاتار اپنے رسول بھیجے اور جب کبھی کسی امت کے پاس اس کا رسول آیا توانہوں  نے پہلوں  کی طرح اسے جھٹلایا اور اس کی ہدایت کو نہ مانا اور اس پر ایمان نہ لائے تو ہم نے انہیں  ہلاک کرکے ایک کو دوسرے سے ملادیا اور بعد والوں  کو پہلوں  کی طرح ہلاک کردیااور انہیں  داستانیں  بنا ڈالاکہ بعد والے افسانے کی طرح ان کا حال بیان کیا کریں  اور ان کے عذاب اور ہلاکت کا بیان عبرت کا سبب ہو تو ایمان نہ لانے والے  اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہوں۔( تفسیرکبیر، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۴۴، ۸ / ۲۷۸، روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۴۴، ۶ / ۸۴-۸۵، ملتقطاً)

جنت کی نعمتیں  پانے کا ذریعہ اور جہنم کے عذاب میں  مبتلا ہونے کا سبب :

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ جس طرح جنت کی نعمتیں  ملنے اور جہنم کے عذاب سے نجات کا ذریعہ ایمان لانا ہے اسی طرح دنیا میں  ہلاکت اور آخرت میں  جہنم کے دردناک عذاب میں مبتلا ہونے کاسبب ایمان نہ لانا ہے، لہٰذا ہر عقل مند انسان پر لاز م ہے کہ وہ کفر کر کے اپنی جان کے ساتھ دشمنی نہ کرے بلکہ  اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت، سیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت اور تمام ضروریات ِدین پر ایمان لاکر عقلمندی کا ثبوت دے اور اپنی جان کو ہلاکت سے بچائے۔

ثُمَّ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى وَ اَخَاهُ هٰرُوْنَ ﳔ بِاٰیٰتِنَا وَ سُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ(45)اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡىٕهٖ فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا عَالِیْنَ(46)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی ہارون کو اپنی آیتوں اور روشن دلیل کے ساتھ بھیجا۔ فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ غلبہ پائے ہوئے لوگ تھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ثُمَّ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى: پھر ہم نے موسیٰ کو بھیجا۔} یہاں  سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان کیا جارہا ہے، چنانچہ اس آیت اوراس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اس سے پہلی آیت میں  جن رسولوں  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ذکر ہوا ان کے بعد  اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے بھائی حضرت ہارون عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنی آیتوں  اور روشن دلیل جیسے عصا اور روشن ہاتھ وغیرہ معجزات کے ساتھ فرعون اور اس کے درباریوں  کی طرف بھیجا تو فرعون اورا س کے درباریوں  نے غرور کیا اور اپنے تکبرکے باعث ایمان نہ لائے اور وہ بنی اسرائیل پر اپنے ظلم و ستم سے غلبہ پائے ہوئے لوگ تھے۔(تفسیرطبری، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۴۵-۴۶، ۹ / ۲۱۶، ملخصاً)

فَقَالُوْۤا اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَیْنِ مِثْلِنَا وَ قَوْمُهُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَ(47)فَكَذَّبُوْهُمَا فَكَانُوْا مِنَ الْمُهْلَكِیْنَ(48)وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ لَعَلَّهُمْ یَهْتَدُوْنَ(49)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو کہنے لگے: کیا ہم اپنے جیسے دو آدمیوں پرایمان لے آئیں حالانکہ ان کی قوم ہماری اطاعت گزار ہے۔تو انہوں نے ان دونوں کو جھٹلایا تو ہلاک کئے جانے والوں میں سے ہوگئے۔ اور بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی تاکہ (بنی اسرائیل) ہدایت پاجائیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَقَالُوْا: تو کہنے لگے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَاالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اُنہیں  ایمان کی دعوت دی تو کہنے لگے’’کیا ہم اپنے جیسے دو آدمیوں  یعنی حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَاالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پرایمان لے آئیں  حالانکہ ان کی قوم بنی اسرائیل ہمارے زیرِ فرمان ہے، تو یہ کیسے گوارا ہو کہ اسی قوم کے دو آدمیوں  پر ایمان لا کر اُن کے اطاعت گزار بن جائیں ۔ یہ لوگ اپنی تکذیب پر قائم رہے یہاں  تک کہ دریا میں  غرق ہو کر ہلاک کئے جانے والوں  میں  سے ہوگئے۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۴۷-۴۸، ۳ / ۳۲۶، ابوسعود، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۴۷-۴۸، ۴ / ۴۹-۵۰، ملتقطاً)

{وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ: اور بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے فرعون اور اس کی قوم کی ہلاکت کے بعد حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کتاب یعنی توریت شریف عطا فرمائی تاکہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم بنی اسرائیل ا س کے احکامات پر عمل کر کے سیدھے راستے کی ہدایت پاجائیں ۔( روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۴۹، ۶ / ۸۶)

وَ جَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ وَ اُمَّهٗۤ اٰیَةً وَّ اٰوَیْنٰهُمَاۤ اِلٰى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّ مَعِیْنٍ(50)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ہم نے مریم اور اس کے بیٹے کو نشانی بنادیا اور انہیں ایک بلند،رہائش کے قابل اور آنکھوں کے سامنے بہتے پانی والی سرزمین میں ٹھکانہ دیا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ جَعَلْنَا: اور ہم نے بنا دیا۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا اور ان کے بیٹے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنی قدرت کی نشانی بنادیا۔حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا کا نشانی ہونا اس طور پر ہے کہ انہیں  کسی مرد نے نہ چھوا لیکن اس کے باوجود  اللہ تعالیٰ نے ان کے پیٹ میں  حمل پیدا فرما دیا اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا نشانی ہونا اس طور پر ہے کہ  اللہ تعالیٰ نے انہیں  بغیر باپ کے پیدا فرمایا،جھولے میں  انہیں  کلام کرنے کی طاقت دی اور ان کے دستِ اقدس سے پیدائشی اندھوں  اور کوڑھ کے مریضوں  کو شفا دی اور مُردوں  کوزندہ فرمایا۔مزید ارشاد فرمایا کہ ہم نے انہیں  ایک بلند، ہموار، کشادہ اور پھلوں  والی جگہ دی جو اِن چیزوں  کی وجہ سے رہائش کے قابل تھی نیز وہاں  آنکھوں  کے سامنے پانی بہہ رہا تھا جو خوبصورتی کی علامت بھی ہے اور قابلِ رہائش ہونے کی بھی۔ ایک قول کے مطابق اس سر زمین سے مراد بَیتُ الْمَقْدَس ہے اور بعض مفسرین کے نزدیک اس سے دمشق یا فلسطین کی سرزمین مراد ہے۔ اس بارے میں  اور بھی کئی قول ہیں ۔( تفسیرکبیر ، المؤمنون ، تحت الآیۃ : ۵۰ ،  ۸ / ۲۷۹ – ۲۸۰ ، خازن ، المؤمنون ،  تحت الآیۃ:۵۰،  ۳ / ۳۲۶، مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۵۰، ص۷۵۸-۷۵۹، ملتقطاً)

یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًاؕ-اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌﭤ(51)

ترجمہ: کنزالعرفان

اے رسولو!پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور اچھا کام کرو، بیشک میں تمہارے کاموں کو جانتا ہوں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ: اے رسولو!} یہ حکم تمام رسولوں  کو تھاجیسا کہ آگے حدیث نمبر چار سے واضح ہے۔ البتہ بطورِ ندا مُخاطَب کئے جانے کے اعتبار سے بعض مفسرین کے نزدیک اس آیت میں  رسولوں  سے مراد تمام رسول ہیں  اور ہر ایک رسول کو اُن کے زمانے میں  یہ ندا فرمائی گئی۔ ایک قول یہ ہے کہ رسولوں  سے مراد خاص سرکارِ دو عالَم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں  اور ایک قول یہ ہے کہ ان سے مرادحضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں ۔ان کے علاوہ اور بھی کئی قول ہیں ۔ پاکیزہ چیزوں  سے مراد حلال چیزیں  اور اچھے کام سے مراد شریعت کے اَحکام پر اِستقامت کے ساتھ عمل کرنا ہے۔(مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۵۱، ص۷۵۹، خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۵۱، ۳ / ۳۲۶، ملتقطاً)

پاکیزہ اور حلال چیزیں  کھانے کی ترغیب اور ناپاک و حرام چیزیں  کھانے کی مذمت:

         اس آیت میں   اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پاکیزہ اور حلال چیزیں  کھانے کاحکم دیا اور قرآنِ مجید میں  د وسرے مقام پریہی حکم  اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں  کو بھی دیا ہے،اس مناسبت سے یہاں پاکیزہ و حلال چیزیں  کھانے کی ترغیب اور ناپاک و حرام اَشیاء کھانے کی مذمت پر مشتمل 4اَحادیث ملاحظہ ہوں ۔

(1)…حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص پاکیزہ (یعنی حلال) چیز کھائے اور سنت کے مطابق عمل کرے اور لوگ ا س کے شر سے محفوظ رہیں  تو وہ جنت میں  داخل ہو گا۔( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، ۶۰-باب، ۴ / ۲۳۳، الحدیث: ۲۵۲۸)

(2)…حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ہر وہ جسم جو حرام سے پلابڑھا توآگ اس سے بہت قریب ہوگی۔(شعب الایمان، التاسع والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔الخ، فصل فی طیب المطعم والملبس،۵ / ۵۶،الحدیث:۵۷۵۹)

(3)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تم میں  سے کوئی شخص اپنے منہ میں  مٹی ڈال لے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ اپنے منہ میں  ایسی چیز ڈالے جسے  اللہ تعالیٰ نے حرام کر دیاہے۔(شعب الایمان، التاسع والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔الخ،فصل فی طیب المطعم والملبس،۵ / ۵۷،الحدیث: ۵۷۶۳)

(4)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، سیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک چیز کے سوا اور کسی چیز کو قبول نہیں  فرماتا اور  اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں  کو وہی حکم دیا ہے جو رسولوں  کو حکم دیا تھا اور فرمایا:

’’ یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًاؕ-اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ‘‘

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے رسولو!پاکیزہ چیزیں  کھاؤ اور اچھاکام کرو،بیشک میں  تمہارے کاموں  کو جانتا ہوں ۔

 اور فرمایا:

’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ‘‘

ترجمۂ  کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! ہماری دی ہوئی ستھریچیزیں  کھاؤ۔

         پھر نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک ایسے شخص کاذکر فرمایا جو لمبا سفر کرتا ہے، اس کے بال غبار آلود ہیں ،وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہتا ہے’’یا رب! یا رب! اور اس کا کھانا پینا حرام ہو،اس کا لباس حرام ہو،اس کی غذا حرام ہو تو ا س کی دعا کہاں  قبول ہو گی۔(مسلم، کتاب الزکاۃ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیّب وتربیتہا، ص۵۰۶، الحدیث: ۶۵(۱۰۱۵))

             اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں  کو حلال رزق کھانے اور حرام رزق سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

حلال رزق پانے اور نیک کاموں  کی توفیق ملنے کی دعا:

حضرت حنظلہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جبریل امین عَلَیْہِ  السَّلَام نے مجھ سے عرض کی کہ آپ یہ دو دعائیں  مانگا کریں : ’’اَللّٰہُمَّ ارْزُقْنِیْ طَیِّبًا وَّ اسْتَعْمِلْنِیْ صَالِحًا‘‘ یعنی اے  اللہ !، مجھے پاکیزہ رزق عطا فرما اور مجھے نیک کام کرنے کی توفیق عطا فرما۔(نوادر الاصول، الاصل الثانی والستون المائۃ، ۱ / ۶۳۹، الحدیث: ۸۹۶( 

عبادت کرنے سے کو ئی مُسْتَغنی نہیں :

اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر بھی عبادات فرض تھیں ، لہٰذا کوئی شخص خواہ وہ کسی درجہ کا ہوعبادت سے مستغنی نہیں  ہو سکتا۔اس سے ان لوگوں  کو عبرت و نصیحت حاصل کرنے کی بہت ضرورت ہے جو فقیروں  کالبادہ اوڑھ کر اور  اللہ تعالیٰ کے کامل اولیاء جیسی شکل و صورت بنا کر یہ دعوے کرتے ہیں  کہ ہم  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  قرب کے اس مقام پر پہنچ چکے ہیں  کہ اب ہم پر کوئی عبادت فرض نہیں  رہی۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  جو مقام انبیاءِ کرام اور رسولوں  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حاصل ہے وہ کسی ولی اورصحابی کو حاصل نہیں  ہو سکتا اور نہ ہی کوئی کامل ولی ان کے مقام تک پہنچنے کا دعویٰ کر سکتا ہے تو جب انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر عبادات فرض رہیں  اور انہیں  کوئی عبادت معاف نہ ہوئی تو یہ بناوٹی صوفی کس منہ سے دعویٰ کر رہا ہے کہ اب اس پر کوئی عبادت فرض نہیں  رہی۔  اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں  کو عقلِ سلیم اور ہدایت عطا فرمائے،اٰمین۔

وَ اِنَّ هٰذِهٖۤ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ اَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّقُوْنِ(52)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بیشک یہ تمہارا دین ایک ہی دین ہے اور میں تمہارا رب ہوں تو مجھ سے ڈرو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِنَّ هٰذِهٖ: اور بیشک یہ۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اے لوگو! تم جس دین پر ہو یعنی دین ِاسلام، یہ ایک ہی دین ہے، اسی دین پر تمام انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان پر ایمان لانے والے تھے۔( تفسیرسمرقندی، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۵۲، ۲ / ۴۱۵) مراد یہ ہے کہ اصولی عقائد میں  کسی کا اختلاف نہیں ، اس اعتبار سے سب متفق ہیں ، البتہ ان کی شریعتوں  میں فروعی احکام اور عبادت کے طریقوں  میں  جو اختلاف ہے اسے دین میں  اختلاف نہیں  کہا جاتا۔

فَتَقَطَّعُوْۤا اَمْرَهُمْ بَیْنَهُمْ زُبُرًاؕ-كُلُّ حِزْبٍۭ بِمَا لَدَیْهِمْ فَرِحُوْنَ(53)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو ان کی امتوں نے اپنے دین کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کرلیا، ہرگروہ اس پر خوش ہے جو اس کے پاس ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَتَقَطَّعُوْا: تو ان کی امتوں  نے ٹکڑے ٹکڑے کر لیا۔} یعنی  اللہ عَزَّوَجَلَّ کا دین ایک ہی ہے البتہ ان انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی امتوں  نے اپنے دین کو آپس میں  ٹکڑے ٹکڑے کرلیا اور یہودی، عیسائی، مجوسی وغیرہ فرقے فرقے ہوگئے۔ معنی یہ ہے کہ ہر قوم نے ایک کتاب کو مضبوطی سے تھام لیا، صرف اسی پر ایمان لائے اور دیگر کتابوں  کا انکار کر دیا۔ ہر گروہ اس پر خوش ہے جو اس کے پاس ہے اور اپنے ہی آپ کو حق پر جانتا ہے اور دوسروں  کو باطل پر سمجھتا ہے۔ اس طرح اُن کے درمیان دینی اختلافات ہیں۔( تفسیرسمرقندی، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۵۳، ۲ / ۴۱۵، خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۵۳، ۳ / ۳۲۷، ملتقطاً)

            اسی طرح امتیں  یوں  بھی ٹکڑوں  میں         بٹیں  کہ فرقوں  میں  بٹ گئیں  اور اپنے دین کی اپنی اپنی تشریحات بنالیں  جیسے یہودیوں  اور عیسائیوں  میں  ہوا کہ بیسیوں  فرقوں  میں  بٹ گئے۔دین کی یہ تفریق بھی حرام ہے۔ اس حوالے سے یہاں  دو اَحادیث ذکر کی جاتی ہیں ۔

(1)… حضرت معاویہ بن سفیان رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا’’خبردار ہو جاؤ!تم سے پہلے اہلِ کتاب بہتر فرقوں  میں  بٹ گئے تھے اور عنقریب یہ امت تہتر فرقوں  میں  بٹ جائے گی،بہتر فرقے تو جہنم میں  جائیں  گے اور ایک ہی فرقہ جنت میں  جائے گا اوروہ سب سے بڑی جماعت ہے۔‘‘ ایک روایت میں  یہ بھی ہے کہ عنقریب میری امت میں  ایسے لوگ نکلیں  گے کہ گمراہی ان میں  یوں  سرایت کر جائے گی جیسے باؤلے کتے کے کاٹے ہوئے آدمی کے جسم میں  زہر سرایت کر جاتا ہے۔ایک روایت میں  یوں  ہے کہ جیسے کتے کے کاٹے ہوئے کے جسم میں  زہر داخل ہو جاتا ہے کہ کوئی رگ اور کوئی جوڑ اس سے نہیں  بچتا۔( ابو داؤد، کتاب السنّۃ، باب شرح السنّۃ، ۴ / ۲۶۳، الحدیث: ۴۵۹۷)

(2)…حضرت عرباض بن ساریہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں :ایک دن صبح کی نماز کے بعد نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمیں  انتہائی بلیغ وعظ فرمایا جس سے ہر آنکھ سے آنسو رواں  ہو گئے اور سب کے دل لرز گئے۔ایک صحابی رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے عرض کی: یہ تو ا س شخص کی نصیحت کی طرح ہے جو رخصت ہو رہا ہو۔ یا رسولَ  اللہ !صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ہمیں  کس بات کا حکم دیتے ہیں  ؟حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’میں  تمہیں   اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں  اور اگر کوئی حبشی غلام تمہارا امیر مقرر کر دیا جائے تو ا س کا بھی حکم سننا اور اس کی اطاعت کرنا۔بے شک تم میں  سے جو شخص زندہ رہے گا وہ بہت اختلاف دیکھے گا۔ تم (شریعت کے خلاف) نئی باتوں  سے بچتے رہنا کیونکہ یہ گمراہی ہے۔تم میں  جو شخص یہ زمانہ پائے اسے میرا اور میرے ہدایت یافتہ اور ہدایت دینے والے خُلفاء کا طریقہ اختیار کرنا چاہئے اور تم سنت کو مضبوطی سے پکڑ لو۔( ترمذی، کتاب العلم، باب ما جاء فی الاخذ بالسنّۃ واجتناب البدع، ۴ / ۳۰۸، الحدیث: ۲۶۸۵)

فَذَرْهُمْ فِیْ غَمْرَتِهِمْ حَتّٰى حِیْنٍ(54)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو تم انہیں ایک مدت تک ان کی گمراہی میں چھوڑ دو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَذَرْهُمْ: تو تم ان کو چھوڑ دو۔} اس آیت میں   اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان کفار ِمکہ کو ان کے کفرو گمراہی اور ان کی جہالت و غفلت میں  ان کی موت کے وقت تک چھوڑ دیں  اور ان پر جلد عذاب نازل کرنے کا مطالبہ نہ فرمائیں ۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۵۴، ۳ / ۳۲۷، روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۵۴، ۶ / ۸۹، ملتقطاً)

اَیَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهٖ مِنْ مَّالٍ وَّ بَنِیْنَ(55)نُسَارِعُ لَهُمْ فِی الْخَیْرٰتِؕ-بَلْ لَّا یَشْعُرُوْنَ(56)

ترجمہ: کنزالعرفان

کیا یہ خیال کررہے ہیں کہ وہ جو ہم مال اور بیٹوں کے ساتھ ان کی مدد کررہے ہیں ۔ تو یہ ہم ان کیلئے بھلائیوں میں جلدی کررہے ہیں ؟ بلکہ انہیں خبر نہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَیَحْسَبُوْنَ: کیا یہ خیال کررہے ہیں۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں  کفارِ مکہ کے بارے میں  فرمایا گیا کہ کیا وہ یہ خیال کررہے ہیں  کہ ہم جو مال اور بیٹوں  کے ساتھ ان کی مدد کررہے ہیں  تو یہ ہم ان کیلئے بھلائیوں  میں  جلدی کررہے ہیں  اور ہماری یہ نعمتیں  ان کے اعمال کی جزاء ہیں  یا ہمارے راضی ہونے کی دلیل ہیں  ؟ایسا ہر گز نہیں ،بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ انہیں  خبر ہی نہیں  کہ ہم انہیں  مہلت دے رہے ہیں ۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۵۵-۵۶، ۳ / ۳۲۷، روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۵۵-۵۶، ۶ / ۸۹، ملتقطاً)

کفار کی ترقی  اللہ تعالیٰ کے راضی ہونے کی دلیل نہیں :

         اس سے معلوم ہو اکہ کفار کے پاس مال اور اولاد کی کثرت  اللہ تعالیٰ کے ان سے راضی ہونے کی دلیل نہیں  بلکہ یہ  اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں  ڈھیل ہے۔دوسری آیت میں  ارشادِ باری تعالیٰ ہے

’’وَ لَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَ اَوْلَادُهُمْؕ-اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّعَذِّبَهُمْ بِهَا فِی الدُّنْیَا وَ تَزْهَقَ اَنْفُسُهُمْ وَ هُمْ كٰفِرُوْنَ‘‘(التوبہ:۸۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ان کے مال اوراولاد تمہیں  تعجب میں  نہ ڈالیں ۔  اللہ یہی چاہتا ہے کہ انہیں  اس کے ذریعے دنیا میں  سزا دے اور کفر کی حالت میں  ان کی روح نکل جائے۔

         فی زمانہ کفار کی دُنْیَوی علوم و فنون میں  ترقی اور مال ودولت کی بہتات دیکھ کر بعض حضرات یہ سمجھتے ہیں  کہ  اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہے جبھی تو وہ اس قدر ترقی یافتہ ہیں ،اگر  اللہ تعالیٰ ان سے راضی نہ ہوتا تو وہ ا س قدر آسائشوں  میں  تھوڑی ہوتے۔ اگر انہوں  نے قرآن پاک کو سمجھ کر پڑھا ہوتا تو شاید ایسی باتیں  ان کی زبان پر کبھی نہ آتیں ۔  اللہ تعالیٰ انہیں  عقلِ سلیم اور فہم عطا فرمائے،اٰمین۔

اِنَّ الَّذِیْنَ هُمْ مِّنْ خَشْیَةِ رَبِّهِمْ مُّشْفِقُوْنَ(57)وَ الَّذِیْنَ هُمْ بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ یُؤْمِنُوْنَ(58)وَ الَّذِیْنَ هُمْ بِرَبِّهِمْ لَا یُشْرِكُوْنَ(59)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک وہ جو اپنے رب کے ڈر سے خوفزدہ ہیں ۔ اور وہ جو اپنے رب کی آیتوں پر ایمان لاتے ہیں ۔اور وہ جو اپنے رب کے ساتھ (کسی کو)شریک نہیں کرتے.

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ الَّذِیْنَ: بیشک وہ جو۔} گزشتہ آیات میں  کفار کی مذمت بیان فرمانے کے بعد اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات میں  ایمان والوں  کے اَوصاف بیان فرمائے جا رہے ہیں ۔چنانچہ ان کاایک وصف یہ ہے کہ وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے خوفزدہ ہیں ۔ حضرت حسن بصری رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے فرمایا کہ مومن نیکی کرنے کے باوجود  اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرتا ہے جبکہ منافق گناہ کرنے کے باوجود بے خوف رہتا ہے۔ دوسرا وصف یہ ہے کہ وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی آیتوں  پر ایمان لاتے ہیں  اور اس کی تمام کتابوں  کو مانتے ہیں ۔ تیسرا وصف یہ ہے کہ وہ عرب کے مشرکوں  کی طرح اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ کسی اور کو شریک نہیں  کرتے۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۵۷-۵۹، ۳ / ۳۲۷، وَ الَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَاۤ اٰتَوْا وَّ قُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ اَنَّهُمْ اِلٰى رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَ(60)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور وہ جنہوں نے جو کچھ دیا وہ اس حال میں دیتے ہیں کہ ان کے دل اس بات سے ڈر رہے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ الَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ: اور وہ جو دیتے ہیں ۔} اس آیت میں  ایمان والوں  کا چوتھاوصف بیان فرمایا کہ وہ  اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں جو کچھ زکوٰۃ و صدقات دیتے ہیں  یا جو نیک اعمال بجالاتے ہیں ، اس وقت ان کاحال یہ ہوتا ہے کہ ان کے دل اس بات سے ڈر رہے ہوتے ہیں  کہ کہیں  ان کے اعمال رد ہی نہ کر دئیے جائیں ، کیونکہ انہیں  یقین ہے کہ وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف لوٹنے والے ہیں۔(خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۶۰، ۳ / ۳۲۷)

            ترمذی کی حدیث میں  ہے کہ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا نے دو عالَم کے سردار صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دریافت کیا کہ کیا اس آیت میں  ان لوگوں  کا بیان ہے جو شرابیں  پیتے ہیں  اور چوری کرتے

ہیں ؟ ارشاد فرمایا: اے صدیق کی بیٹی! ایسا نہیں ، اس آیت میں  اُن لوگوں  کا بیان ہے جو روزے رکھتے ہیں ،نمازیں  پڑھتے ہیں  ،صدقے دیتے ہیں  اور ڈرتے رہتے ہیں  کہ کہیں  یہ اعمال نامقبول نہ ہوجائیں ۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ المؤمنین، ۵ / ۱۱۸، الحدیث: ۳۱۸۶)

نیکی کرنا اور ڈرنا، ایمان کے کمال کی علامت ہے:

            اس آیت سے معلوم ہو اکہ نیکی کرنا اور ڈرنا، کمالِ ایمان کی علامت ہے۔

پہلے زمانے کے اور موجودہ زمانے کے لوگوں  کا حال:

            امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  ’’پہلے زمانے کے لوگ دن رات عبادت کرتے اور جو بھی عمل کرتے دل میں  خوفِ خدا رہتا تھا کہ انہوں  نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف لوٹ کر جانا ہے، وہ رات دن عبادت میں  گزارنے کے باوجود اپنے نفسوں  کے بارے میں  خوف زدہ رہتے تھے، وہ بہت زیادہ تقویٰ اختیار کرتے اور خواہشات اور شبہات سے بچتے تھے، اس کے باوجود وہ تنہائی میں  اپنے نفسوں  کے لئے روتے تھے۔

            لیکن اب حالت یہ ہے کہ تم لوگوں  کو مطمئن، خوش اوربے خوف دیکھو گے حالانکہ وہ گناہوں  پر اوندھے گرتے ہیں ، دنیا میں  پوری توجہ رکھے ہوئے ہیں  اور  اللہ تعالیٰ سے منہ پھیر رکھا ہے، ان کا خیال ہے کہ وہ  اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم پر کامل یقین رکھتے ہیں ، اس کے عفوودرگزر اور مغفرت کی امید رکھتے ہیں  گویا ان کا گمان یہ ہے کہ انہوں  نے جس طرح  اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کی معرفت حاصل کی ہے اس طرح انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، صحابۂ کرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ اور پہلے بزرگوں  کو بھی حاصل نہ تھی۔ اگر یہ بات محض تمنا اور آسانی سے حاصل ہوجاتی ہے تو ان بزرگوں  کے رونے، خوف کھانے اور غمگین ہونے کا کیا مطلب تھا۔حضرت معقل بن یسار رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا’’لوگوں  پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں  قرآن پاک ان کے دلوں  میں  ایسے پرانا ہوجائے گا جیسے بدن پر کپڑے پرانے ہو جاتے ہیں ، ان کے تما م کام لالچ کی وجہ سے ہوں  گے جس میں  خوف نہیں  ہوگا، اگر ان میں  سے کوئی اچھا عمل کرے گا تو کہے گا یہ مقبول ہوگا اور اگر برائی کرے گا تو کہے گا میری بخشش ہوجائے گی۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذمّ الغرور، بیان ذمّ الغرور وحقیقتہ وامثلتہ، ۳ / ۴۷۴)

            یہ امام غزالی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  نے آج سے تقریباً    900 سال پہلے کے حالات لکھے ہیں  اور فی زمانہ تو حالاتاس سے کہیں  زیادہ نازک ہو چکے ہیں ۔  اللہ تعالیٰ مسلمانوں  کو ہدایت عطا فرمائے اور نیک اعمال کے سلسلے میں  اپنے بزرگوں  کی راہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔

مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۵۷-۵۹، ص

۷۶۰، ملتقطا

اُولٰٓىٕكَ یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ هُمْ لَهَا سٰبِقُوْنَ(61)

ترجمہ: کنزالعرفان

یہ لوگ بھلائیوں میں جلدی کرتے ہیں اور یہی بھلائیوں کی طرف سبقت لے جانے والے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اُولٰٓىٕكَ: یہ لوگ۔} یعنی جن لوگوں  کے اَوصاف سابقہ آیات میں  بیان ہوئے وہ بہت رغبت اور اہتمام کے ساتھ نیک اعمال کرتے ہیں  اور ان میں  ا س لئے جلدی کرتے ہیں  کہ کہیں  ان کا وقت ختم نہ ہو جائے اور اس نیک عمل کی ادائیگی میں  کوئی کوتاہی واقع نہ ہو جائے اور وہ نیک اعمال کرنے میں  دوسروں  پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ مفسرین نے آیت کے اس حصے ’’وَ هُمْ لَهَا سٰبِقُوْنَ‘‘ کے یہ معنی بھی بیان کئے ہیں  کہ وہ اپنی نیکیوں  کے اجر میں  سبقت کرنے والے ہیں  یعنی انہیں  ان کے نیک اعمال کا اجر آخرت سے پہلے دنیا میں  بھی مل جاتا ہے یا وہ نیکیوں  کی وجہ سے جنتوں  کی طرف سبقت کرنے والے ہیں ۔( روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۶۱، ۶ / ۹۱، تفسیرکبیر، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۶۱، ۸ / ۲۸۴، مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۶۱، ص۷۶۰، ملتقطاً)

وَ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا وَ لَدَیْنَا كِتٰبٌ یَّنْطِقُ بِالْحَقِّ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ(62)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ہم کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں رکھتے اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے جو حق بیان کرتی ہے اور ان پر ظلم نہ ہوگا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا: اور ہم کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں  رکھتے۔} یعنی سابقہ آیت میں  نیک لوگوں  کے جو اَوصاف بیان ہوئے یہ ان کی طاقت اور وسعت سے باہر نہیں ، یونہی ہر وہ چیز جو  اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں  پر لازم فرمائی ہے وہ ان کی طاقت سے زیادہ نہیں  ہے اور یہ  اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل اور احسان ہے کہ وہ اپنے بندوں  پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں  ڈالتا، ورنہ اس کی شان تو یہ ہے کہ وہ جو چاہے کرے،اس بارے میں  کسی کو سوال کرنے کی مجال نہیں ۔( مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۶۲، ص۷۶۰، صاوی، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۶۲، ۴ / ۱۳۶۹-۱۳۷۰، ملتقطاً)

            مزیدارشاد فرمایا کہ ہمارے پاس ایک کتاب ہے جو حق ہی بیان کرتی ہے، اس میں  ہر شخص کا عمل لکھا ہواہے، اور وہ لوحِ محفوظ ہے اور عمل کرنے والوں پر کوئی ظلم نہ ہوگا، نہ کسی کی نیکی گھٹائی جائے گی اورنہ بدی بڑھائی جائے گی۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۶۲، ۳ / ۳۲۷-۳۲۸)

بَلْ قُلُوْبُهُمْ فِیْ غَمْرَةٍ مِّنْ هٰذَا وَ لَهُمْ اَعْمَالٌ مِّنْ دُوْنِ ذٰلِكَ هُمْ لَهَا عٰمِلُوْنَ(63)

ترجمہ: کنزالعرفان

بلکہ کافروں کے دل اس قرآن سے غفلت میں ہیں اور کافروں کے کام ان اعمال کے علاوہ ہیں جنہیں یہ کررہے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{بَلْ قُلُوْبُهُمْ: بلکہ ان کے دل۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ کافروں  کے دل اس قرآن شریف سے غفلت میں  ہیں  اور اِن کافروں  کے خبیث کام جنہیں  یہ کررہے ہیں  ان کاموں  کے خلاف ہیں  جو مذکورہ بالا آیات میں  ایمانداروں  کے ذکر کئے گئے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ کافروں  کے دل اس قرآن سے غفلت میں  ہیں  اور وہ اس عظیم غفلت کے علاوہ اور بھی بہت سے خبیث کام کر رہے ہیں ۔( جمل مع جلالین،المؤمنون، تحت الآیۃ:۶۳، ۵ / ۲۴۶-۲۴۷، روح البیان،المؤمنون، تحت الآیۃ:۶۳،۶ / ۹۲، ملتقطاً)

حَتّٰۤى اِذَاۤ اَخَذْنَا مُتْرَفِیْهِمْ بِالْعَذَابِ اِذَا هُمْ یَجْــٴَـرُوْنَﭤ(64)

ترجمہ: کنزالعرفان

یہاں تک کہ جب ہم نے ان کے خوشحال لوگوں کو عذاب میں پکڑا تو جبھی وہ فریاد کرنے لگے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{حَتّٰى: یہاں  تک کہ۔} اس آیت میں  کفار کے اعمال کا انجام بیا ن کیاگیا کہ کفار اپنے اعمال پر ہی قائم رہے یہاں  تک کہ جب ہم نے ان کے خوشحال لوگوں  کو عذاب میں  پکڑا اور وہ بدر کے دن تلواروں  سے قتل کئے گئے تو جبھی وہ فریاد کرنے لگے۔ ایک قول یہ ہے کہ اس عذاب سے مراد فاقوں  اور بھوک کی وہ مصیبت ہے جو تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعا سے ان پر مُسَلّط کی گئی تھی اور اس قحط کی وجہ سے ان کی حالت یہاں  تک پہنچ گئی تھی کہ وہ کتّے اور مردار تک کھا گئے تھے۔( روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۶۴، ۶ / ۹۲، خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۶۴، ۳ / ۳۲۸، ملتقطاً)

لَا تَجْــٴَـرُوا الْیَوْمَ۫-اِنَّكُمْ مِّنَّا لَا تُنْصَرُوْنَ(65)قَدْ كَانَتْ اٰیٰـتِیْ تُتْلٰى عَلَیْكُمْ فَكُنْتُمْ عَلٰۤى اَعْقَابِكُمْ تَنْكِصُوْنَ(66)مُسْتَكْبِرِیْنَ ﳓ بِهٖ سٰمِرًا تَهْجُرُوْنَ(67)

ترجمہ: کنزالعرفان

آج فریاد نہ کرو، بیشک ہماری طرف سے تمہاری مدد نہیں کی جائے گی۔ بیشک میری آیات کی تمہارے سامنے تلاوت کی جاتی تھی تو تم اپنی ایڑیوں کے بل الٹے پلٹتے تھے۔ خانہ کعبہ کی خدمت پر ڈینگیں مارتے، رات کوالٹی سیدھی باتیں ہانکتے،( حق) کو چھوڑتے ہوئے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَا تَجْــٴَـرُوا الْیَوْمَ: آج فریاد نہ کرو۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ کفار کی فریاد کے جواب میں  ان سے کہا گیا کہ آج فریاد نہ کرو، اس سے تمہیں  کوئی فائدہ نہ ہو گا کیونکہ بیشک ہماری طرف سے تمہاری مدد نہیں  کی جائے گی۔ (اس کی وجہ یہ ہے کہ) بے شک قرآن مجید کی آیات تمہارے سامنے تلاوت کی جاتی تھیں ، لیکن تم اپنی ایڑیوں  کے بل پلٹ جاتے تھے اور ان آیات پر ایمان نہ لاتے تھے اور تمہارا حال یہ تھاکہ تم خانہ کعبہ کی خدمت پر یہ کہتے ہوئے ڈینگیں  مارتے تھے کہ ہم حرم والے ہیں  اور بَیْتُ  اللہ کے ہمسائے ہیں ، ہم پر کوئی غالب نہ ہوگا، ہمیں  کسی کا خوف نہیں  اور کعبہ معظمہ کے گرد جمع ہو کرالٹی سیدھی باتیں  ہانکتے ہوئے رات کو وہاں  بیہودہ باتیں  کرتے تھے اور اُن باتوں  میں  اکثر قرآن پاک پر طعن کرنا، اسے جادو اور شعر کہنا، اور سیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں  بے جا باتیں  کہنا ہوتا تھا اورتم نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اور مومنوں  کو نیز قرآن کریم کو چھوڑے ہوئے تھے۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۶۵-۶۷، ۳ / ۳۲۸، مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۶۵-۶۷، ص۷۶۰، ملتقطاً)

اَفَلَمْ یَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ اَمْ جَآءَهُمْ مَّا لَمْ یَاْتِ اٰبَآءَهُمُ الْاَوَّلِیْنَ(68)

ترجمہ: کنزالعرفان

کیا اُنہوں نے قرآن میں غور و فکر نہیں کیا ؟یا کیا اُن کے پاس وہ آیا جو اُن کے باپ دادا کے پاس نہ آیا تھا؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَفَلَمْ یَدَّبَّرُوا: کیا اُنہوں  نے غور و فکر نہیں  کیا؟} اس آیت سے  اللہ تعالیٰ نے حق کی پیروی سے اِعراض کرنے کی وجہ سے کفارِ مکہ کو ڈانٹتے ہوئے فرمایا کہ کیا انہوں  نے قرآن پاک میں  غور نہیں  کیا اور اس کے اعجازپر نظر نہیں  ڈالی جس سے اُنہیں  معلوم ہوجاتا کہ یہ کلام حق ہے، اس کی تصدیق لازم ہے اور جو کچھ اس میں  ارشاد فرمایا گیا وہ سب حق اور اسے تسلیم کرنا واجب ہے اوررسولِ کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صداقت و حقّانیّت پر اس میں  واضح دلالتیں  موجود ہیں  اور کیااُن کے پاس وہ چیز آئی ہے جو اُن کے باپ دادا کے پاس نہ آئی تھی۔یعنی رسول کا تشریف لانا ایسی نرالی بات نہیں  ہے جو کبھی پہلے زمانے میں  ہوئی ہی نہ ہو اور وہ یہ کہہ سکیں  کہ ہمیں  خبر ہی نہ تھی کہ خدا عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے رسول آیا بھی کرتے ہیں ، کبھی پہلے کوئی رسول آیا ہوتا اور ہم نے اس کا تذکرہ سنا ہوتا تو ہم کیوں  اس رسول صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نہ مانتے۔ تمہارے پاس یہ عذر کرنے کا موقع بھی نہیں  ہے کیونکہ پہلی امتوں  میں  رسول آچکے ہیں  اور خدا عَزَّوَجَلَّ کی کتابیں  نازل ہوچکی ہیں ۔(…تفسیرکبیر، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۶۸، ۸ / ۲۸۶، خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۶۸، ۳ / ۳۲۸، ابوسعود، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۶۸، ۴ / ۵۷، ملتقطاً)

اَمْ لَمْ یَعْرِفُوْا رَسُوْلَهُمْ فَهُمْ لَهٗ مُنْكِرُوْنَ(69)

ترجمہ: کنزالعرفان

یاکیا اُنہوں نے اپنے رسول کو پہچانانہیں ہے؟ تو وہ اس کا انکار کررہے ہیں۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَمْ لَمْ یَعْرِفُوْا: یا کیا اُنہوں  نے پہچانانہیں  ہے؟} کفار ِمکہ سے مزید فرمایا کہ کیا انہوں  نے اپنے رسول کو پہچانانہیں  اور حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عمر شریف کے جملہ اَحوال کو نہ دیکھا اور آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے عالی نسب، صدق و امانت، وُفورِ عقل، حسنِ اَخلاق، کمالِ حلم، وفا و کرم اور مُرَوَّت وغیرہ پاکیزہ اخلاق، اچھی صِفات اور بغیر کسی سے سیکھے آپ کے علم میں  کامل اور تمام جہان سے زیادہ علم رکھنے اور فائق ہونے کو نہ جانا، کیا ایسا ہے؟ حقیقت میں  یہ بات تو نہیں  بلکہ وہ سَرورِ عالَم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اور آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَوصاف و کمالات کو خوب جانتے ہیں  اور آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی برگُزیدہ صفات شہرہ آفاق ہیں ، پھر بھی وہ بلاوجہ ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس پیارے نبی صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا انکار کررہے ہیں ۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ : ۶۹،  ۳ / ۳۲۸، مدارک، المؤمنون ، تحت الآیۃ: ۶۹، ص۷۶۱، روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۶۹، ۶ / ۹۴، ملتقطاً)

 حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت پہچاننے کا ایک طریقہ:

            قاضی عیاض رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  کے کلام کی روشنی میں  یہاں  ایک مختصر مضمون دیا جارہا ہے کہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت پہچاننے اور آپ کے محبت کیلئے قابل ترین ہستی ہونے کی ایک بہت بڑی دلیل یہ ہے کہ انسان کے کچھ کمالات فِطری ہوتے ہیں  جیسے حسن،قوت،عقل، فہم کی درستی، زبان کی فصاحت، حَواس اور اَعضاء کی قوت،مُعتدل حرکات،نسب کی شرافت، قومی عزت،وطنی کرامت۔ نیز کچھ چیزیں  زندگی کی ضرورت ہوتی ہیں  جو اگرچہ دنیوی ہوتی ہیں  لیکن جب ان سے تقویٰ مقصود ہو تو وہ آخرت کی خوبیوں  اور خصلتوں  کے ساتھ لاحق ہوجاتی ہیں  جیسے غذا،نیند،لباس، مکان، نکاح،مال اور عہدہ و منصب وغیرہ اور کچھ اَوصاف وہ ہوتے ہیں  جو مُطلَقاً آخرت کے شمار ہوتے ہیں  جیسے تمام بلند اَخلاق، شرعی آداب، علم، بُردباری، صبر، شکر،انصاف،زُہد، تواضع، عَفْو، عِفَّت، سخاوت، شجاعت، حیائ، مُرَوَّت، خاموشی، سکون، وقار، مہربانی، آداب و معاشرت کا حسن وغیرہ ۔ اوریہی وہ خصائل ہیں  جن کے مجموعہ کو حسنِ خُلق سے تعبیر کیا جاتاہے۔ان میں  سے بعض خصلتیں  تو کسی کی فطری عادت ہوتی ہیں  اور کسی کی فطری تو نہیں  ہوتی لیکن وہ انہیں  محنت و ریاضت سے حاصل کرلیتا ہے۔ ان خوبیوں  کا حال یہ ہے کہ کسی شخص میں  ان میں  سے ایک یا دو بھی پائی جائیں  تو وہ بڑا مشرف ومعزز مانا جاتا ہے،مثلاً نسب یا جمال یا، قوت یا علم یا شجاعت یا سخاوت وغیرہ میں  سے ایک بھی وصف پایا جائے تو وہ پسندیدہ، محبوب اور عظیم بن جاتا ہے حتّٰی کہ اس بندے کی قدر اتنی بڑھ جاتی ہے کہ ا س کے نام کو مثال کے طور پر پیش کیاجاتا ہے اور اس وصف کی وجہ سے دلوں  میں  اس کے اثر اورعظمت کا سکہ جم جاتا ہے اور یہ بات گزشتہ زمانے سے چلی آرہی ہے،توپھر ا س ذاتِ اَقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت اور محبوبیت کے بارے میں  تمہارا کیا گمان ہے جس میں  یہ تمام کے تمام مَحاسن و خَصائل پیدائشی اور فطری طور پر کامل ترین طرز پر جمع ہیں  جن سے بہتر جامِعِیّت کا تَصَوُّر بھی نہیں  کیا جاسکتا۔

اَمْ یَقُوْلُوْنَ بِهٖ جِنَّةٌؕ-بَلْ جَآءَهُمْ بِالْحَقِّ وَ اَكْثَرُهُمْ لِلْحَقِّ كٰرِهُوْنَ(70)

ترجمہ: کنزالعرفان

یا وہ کہتے ہیں کہ اس رسول پر جنون طاری ہے بلکہ وہ تو ان کے پاس حق کے ساتھ تشریف لائے ہیں اور ان کافروں میں اکثر حق کو ناپسند کرنے والے ہیں۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَمْ یَقُوْلُوْنَ: یا وہ کہتے ہیں ۔} مزید فرمایا کہ کیا وہ کہتے ہیں  کہ اس نبی پر جنون طاری ہے،یہ بھی سراسر غلط اور باطل ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں  کہ آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جیسا دانا اور کامل عقل والا شخص اُن کے دیکھنے میں  نہیں  آیا لہٰذا اِس ہستی کو جنون نہیں  بلکہ یہ مقدس نبی ہیں  جو ان کے پاس حق یعنی قرآن کریم کے ساتھ تشریف لائے ہیں  جو  اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت اور دینی اَحکام کے بیان پر مشتمل ہے لیکن اس کے باوجود کافروں  کا انہیں  برا کہنا اس لئے ہے کہ ان کافروں  میں  اکثر حق کو ناپسند کرنے والے ہیں  کیونکہ قرآن میں  اُن کی نفسانی خواہشات کی مخالفت ہے، اس لئے وہ رسولُ اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کے صفات و کمالات کو جاننے کے باوجود حق کی مخالفت کرتے ہیں ۔ اکثر کی قید سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ حال ان میں  بیشتر لوگوں  کا ہے چنانچہ ان میں  بعض ایسے بھی تھے جو آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حق پر جانتے تھے اور حق اُنہیں  برا بھی نہیں  لگتا تھا لیکن وہ اپنی قوم سے موافقت کی وجہ سے یا اُن کے طعن و تشنیع کے خوف سے ایمان نہ لائے جیسے کہ ابو طالب۔( مدارک ، المؤمنون ، تحت الآیۃ : ۷۰، ص۷۶۱، جلالین، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۷۰، ص۲۹۱، بیضاوی، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۷۰، ۴ / ۱۶۲، ملتقطاً)

وَ لَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ اَهْوَآءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ وَ مَنْ فِیْهِنَّؕ-بَلْ اَتَیْنٰهُمْ بِذِكْرِهِمْ فَهُمْ عَنْ ذِكْرِهِمْ مُّعْرِضُوْنَﭤ(71)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اگر حق ان کی خواہشوں کی پیروی کرتا تو ضرور آسمان اور زمین اور جو کوئی ان میں ہیں سب تباہ ہوجاتے بلکہ ہم تو ان کے پاس ان کی نصیحت لائے ہیں تو وہ اپنی نصیحت ہی سے منہ پھیرے ہوئے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ اَهْوَآءَهُمْ: اور اگر سچا قرآن ان کی خواہشوں  کی پیروی کرتا۔} یعنی اگر قرآن شریف ان کی خواہشات اور نظریات کے مطابق نازل ہوتا اس طرح کہ اس میں  وہ مَضامین مذکور ہوتے جن کی کفار خواہش کرتے ہیں  تو تمام عالَم کا نظام درہم برہم ہوجاتا کیونکہ قرآن سچی کتاب ہے اور اس میں  اگر یہ مَضامین مذکور ہوتے تو حقیقت میں  بھی ایسا ہی ہوتا اورجب ایک سے زیادہ خدا ہوں  تو ہر خدا کا حکم دوسرے کے مخالف ہوتا یونہی سب کے ارادے کا ایک ہی وقت میں  پورا ہونا محال ہے اور یوں  کائنات کا نظام تباہ ہو کر رہ جاتا لیکن ہم تو ان کے پاس قرآن لائے ہیں  اور ہم یہ قرآن حقیقت میں  ان کی تباہی کا ذریعہ بنا کر نہیں  لائے بلکہ ہم تو اسے ان کے پاس قرآن کی صورت میں  نصیحت لائے ہیں ، مگروہ تو اپنی نصیحت ہی سے منہ پھیرے ہوئے ہیں ۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۷۱، ۳ / ۳۲۹، جلالین، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۷۱، ص۲۹۱، ملتقطاً)

            ایک دوسری تفسیر کے اعتبار سے اس کا معنی یہ ہے کہ ہم یہ قرآن حقیقت میں  ان کی تباہی کا ذریعہ بنا کر نہیں  لائے بلکہ ہم تو اسے ان کے پاس قرآن کی صورت میں ان کی عزت و شہرت کا ذریعہ لائے ہیں کہ یہ اس پر عمل کرکے عزت و شہرت دونوں  کما سکتے ہیں  لیکن وہ تو اپنی عزت و شہرت ہی سے منہ پھیرے ہوئے ہیں ۔

اَمْ تَسْــٴَـلُهُمْ خَرْجًا فَخَرَاجُ رَبِّكَ خَیْرٌ ﳓ وَّ هُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ(72)

ترجمہ: کنزالعرفان

کیا تم ان سے کچھ اجرت مانگتے ہو؟ تو تمہارے رب کا اجر سب سے بہتر ہے اور وہ سب سے بہتر روزی دینے والاہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَمْ تَسْــٴَـلُهُمْ خَرْجًا: کیا تم ان سے کچھ اجرت مانگتے ہو؟} یعنی اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا آپ انہیں  ہدایت کرنے اور راہِ حق بتانے پر کچھ اجرت مانگتے ہو؟ ایسا بھی تو نہیں  تو یہ بات آپ کے کمالِ اخلاص کی دلیل ہے جو انہیں  سمجھنی چاہیے۔ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کا اجر تو آپ کے رب کے پاس ہے جو سب سے بہترین اجر ہے اور وہ سب سے بہتر روزی دینے والاہے اور اس کا آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر فضل عظیم ہے اور جو نعمتیں  اُس نے آپ کو عطا فرمائیں  وہ بہت کثیر اور اعلیٰ ہیں  تو آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ان کی کیا پروا ہ؟ پھر جب وہ آپ صَلَّی اللہ  تَعَالٰی   عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اوصاف و کمالات سے واقف بھی ہیں ، قرآن پاک کا اعجاز بھی اُن کی نگاہوں  کے سامنے ہے اور آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اُن سے ہدایت و اِرشاد کا کوئی اجرو عِوَض بھی طلب نہیں  فرماتے تو اب انہیں  ایمان لانے میں  کیا عذر رہا۔

وَ اِنَّكَ لَتَدْعُوْهُمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(73)وَ اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ عَنِ الصِّرَاطِ لَنٰكِبُوْنَ(74)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بیشک تم انہیں سیدھی راہ کی طرف بلاتے ہو۔اور بیشک جو آخرت پر ایما ن نہیں لاتے وہ ضرور سیدھی راہ سے کترائے ہوئے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِنَّكَ: اور بیشک تم۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہ ِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بے شک آپ انہیں  سیدھی راہ یعنی دین ِاسلام کی طرف بلاتے ہیں  تو اُن پر لازم ہے کہ آپ کی دعوت قبول کریں  اور اسلام میں  داخل ہوں ۔( مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۷۳، ص۷۶۲)

{وَ اِنَّ الَّذِیْنَ: اور بیشک جو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بیشک جو لوگ قیامت کے دن دوبارہ زندہ کئے جانے اور اعمال کی جزاء ملنے پر ایمان نہیں  لاتے وہ ضرور دینِ حق سے منہ موڑے ہوئے ہیں ۔( جلالین، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۷۴، ص۲۹۱)

            اس سے معلوم ہوا کہ آخرت پر ایمان لانا اور قیامت کے دن کی ہَولْناکیوں  کا خوف راہِ حق تلاش کرنے اور اس پر چلنے کا بہت مضبوط ذریعہ ہے۔( روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۷۴، ۶ / ۹۶، ملخصاً)

وَ لَوْ رَحِمْنٰهُمْ وَ كَشَفْنَا مَا بِهِمْ مِّنْ ضُرٍّ لَّلَجُّوْا فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ(75)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اگر ہم ان پر رحم فرماتے اور جو مصیبت ان پر پڑی تھی وہ ٹال دیتے تو یہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے ہوئے ضرور ڈھیٹ پن کرتے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَوْ رَحِمْنٰهُمْ: اور اگر ہم ان پر رحم فرماتے۔} شانِ نزول: جب قریش سرکارِ دو عالَم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعا سے سات برس کے قحط میں  مبتلا ہوئے اور ان کی حالت بہت اَبتر ہوگئی تو ابوسفیان اُن کی طرف سے نبی کریم صَلَّی اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں  حاضر ہوئے اور عرض کی : کیا آپ اپنے خیال میں سب جہانوں  کے لئے رحمت بنا کر نہیں  بھیجے گئے۔تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا بے شک۔ ابوسفیان نے کہا: قریش اپنے خلاف آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعا سے اس حالت کو پہنچ گئے ہیں  کہ قحط کی مصیبت میں  مبتلا ہوئے، فاقوں  سے تنگآگئے، لوگ بھوک کی بے تابی سے ہڈیاں  چبا گئے اور مردار تک کھا گئے۔ میں  آپ کو  اللہ کی قسم دیتا ہوں  اور قرابت کی، آپ  اللہ سے دعا کیجئے کہ ہم سے اس قحط کو دور فرمادے۔ حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دعا کی اور انہوں  نے اس بلا سے رہائی پائی اس واقعہ کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۷۵، ۳ / ۳۲۹، ملخصاً)

            اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اگر ہم ان پر رحم فرمائیں  اور سات سالہ قحط سالی کی جو مصیبت ان اہلِ مکہ پر پڑی ہے وہ ٹال بھی دیں  توپھر وہ اپنے کفر و عناد اور سرکشی کی طرف لوٹ جائیں  گے اور ان کی یہ خوشامد و چاپلوسی جاتی رہے گی اور رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہ ِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور مومنین کی عداوت اور تکبر جواُن کا پہلا طریقہ تھا، یہ وہی اختیار کریں  گے۔( ابوسعود، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۷۵، ۴ / ۶۰، ملخصاً)

وَ لَقَدْ اَخَذْنٰهُمْ بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوْا لِرَبِّهِمْ وَ مَا یَتَضَرَّعُوْنَ(76)حَتّٰۤى اِذَا فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَابًا ذَا عَذَابٍ شَدِیْدٍ اِذَا هُمْ فِیْهِ مُبْلِسُوْنَ(77)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بیشک ہم نے انہیں عذاب میں گرفتار کردیا تو وہ نہ تب اپنے رب کے حضور جھکے اور نہ ہی (اب) عاجزی کررہے ہیں ۔ یہاں تک کہ جب ہم اُن پرکسی سخت عذاب والادروازہ کھولتے ہیں تو اس وقت وہ اس میں ناامید پڑے ہوتے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَقَدْ اَخَذْنٰهُمْ بِالْعَذَابِ: اور بیشک ہم نے انہیں  عذاب میں  گرفتار کردیا۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ بے شک ہم نے انہیں  بھوک کے عذاب میں  گرفتار کر دیا تو وہ پھر بھی نہ ا س وقت اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حضور جھکے ہیں  اور نہ ہی وہ آئندہ   اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں  عاجزی کریں  گے۔( جلالین مع صاوی، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۷۶، ۴ / ۱۳۷۳)

            اس سے معلوم ہوا کہ مصیبت کے موقع پر بھی  اللہ تعالیٰ کی اطاعت نہ کرنا بڑی بد بختی کی دلیل ہے۔

{حَتّٰى: یہاں  تک۔} آیت کا معنی یہ ہے کہ جب ہم اُن پر موت کے وقت یا قیامت کے دن کسی سخت عذاب والا دروازہ کھولیں  گے تو اس وقت وہ اس عذاب میں  ہر بھلائی سے ناامید پڑے ہوں  گے۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۷۷، ۳ / ۳۲۹)

وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَ لَكُمُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ الْاَفْـٕدَةَؕ-قَلِیْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ(78)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے کان اور آنکھیں اور دل بنائے، تم بہت ہی کم شکر ادا کرتے ہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ هُوَ: اور وہی ہے۔} اس آیت سے  اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق سے خطاب فرمایا اور ا س سے مقصود اہلِ ایمان کو نعمتیں  یاد دلا نا جبکہ کفار کو ا س بات پر سختی سے تَنبیہ کرنا ہے کہ انہوں  نے ان نعمتوں  کو ان کے مَصرَف میں  استعمال نہیں  کیا کیونکہ کان اس لئے بنائے گئے ہیں  کہ ان سے وہ بات سنی جائے جس سے ہدایت ملے اورا ٓنکھیں  اس لئے پیدا کی گئی ہیں  کہ ان کے ذریعے  اللہ تعالیٰ کی صفات کے کمال پر دلالت کرنے والی نشانیوں  کا مشاہدہ کیا جائے اور دلوں  کی تخلیق کا مقصد یہ ہے کہ ان کے ذریعے  اللہ تعالیٰ کی صَنعتوں  میں  غورو فکر کیا جائے تو جس نے ان نعمتوں  کو ان کے مصرف میں  استعمال نہ کیا تو وہ ایسا شخص ہے جس نے ان نعمتوں  سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا۔( صاوی، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۷۸، ۴ / ۱۳۷۳-۱۳۷۴)

            اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ  اللہ  وہی ہے جس نے تمہارے لیے کان، آنکھیں  اور دل بنائے تاکہ تم ان کے ذریعے سنو، دیکھو اورسمجھو اور دینی، دُنْیَوی مَنافع حاصل کرو۔اے لوگو!تم بہت ہی کم شکر ادا کرتے ہو کیونکہ تم نے ان نعمتوں کی قدر نہ جانی اور ان سے فائدہ نہ اُٹھایا اور کانوں ، آنکھوں  اور دلوں  سے  اللہ تعالیٰ کی آیات سننے، دیکھنے، سمجھنے اور  اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے اور حقیقی طور پر نعمتیں  عطا فرمانے والے کا حق پہچان کر شکر گزار بننے کا نفع نہ اٹھایا۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۷۸، ۳ / ۳۲۹، مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۷۸، ص۷۶۲-۷۶۳، ملتقطاً)

وَ هُوَ الَّذِیْ ذَرَاَكُمْ فِی الْاَرْضِ وَ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ(79)وَ هُوَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ وَ لَهُ اخْتِلَافُ الَّیْلِ وَ النَّهَارِؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(80)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں پھیلایا اور اسی کی طرف تمہیں اٹھایاجائے گا۔اور وہی زندگی دیتا ہے اوروہی موت دیتا ہے، رات اور دن کا تبدیل ہونااسی کے اختیار میں ہے۔ توکیا تم سمجھتے نہیں ؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ هُوَ: اور وہی ہے۔} ارشاد فرمایا کہ وہی رب عَزَّوَجَلَّ ہے جس نے تمہیں  پیدا کیا اور نسل بڑھا کر تمہیں  زمین میں  پھیلایا اور تم اپنے پھیلاؤ کے باوجود قیامت کے دن اسی کی طرف جمع کیے جاؤ گے نہ کہ کسی اور کی طرف، تو تم کیوں  اس پر ایمان نہیں  لاتے اور اس کا شکر ادا نہیں  کرتے۔( ابوسعود، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۷۹، ۴ / ۶۱)

{وَ هُوَ الَّذِیْ یُحْیٖ: اور وہی زندگی دیتا ہے۔} ارشاد فرمایا کہ وہی زندگی دیتا ہے اوروہی موت دیتا ہے، رات اور دن کا تبدیل ہونااسی کے اختیار میں  ہے، ان میں  سے ہر ایک کا دوسرے کے بعد آنا اور تاریکی و روشنی اور زیادتی و کمی میں  ہر ایک کا دوسرے سے مختلف ہونا یہ سب اس کی قدرت کے نشان ہیں ،توکیا تم سمجھتے نہیں  کہ ان سے عبرت حاصل کرو اور ان میں  خدا عَزَّوَجَلَّ کی قدرت کا مشاہدہ کرکے مرنے کے بعد زندہ کئے جانے کو تسلیم کرو اور اس پر ایمان لاؤ۔( مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۸۰، ص۷۶۳)

بَلْ قَالُوْا مِثْلَ مَا قَالَ الْاَوَّلُوْنَ(81)قَالُوْۤا ءَاِذَا مِتْنَا وَ كُنَّا تُرَابًا وَّ عِظَامًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ(82)لَقَدْ وُعِدْنَا نَحْنُ وَ اٰبَآؤُنَا هٰذَا مِنْ قَبْلُ اِنْ هٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ(83)

ترجمہ: کنزالعرفان

بلکہ انہوں نے وہی بات کہی جو پہلے والے کہتے تھے۔ انہوں نے کہا تھا : کیا جب ہم مرجائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں ہوجائیں گے توکیا پھر ہم اٹھائے جائیں گے؟ بیشک ہمیں اور ہم سے پہلے ہمارے باپ دادا کو یہ وعدہ دیا گیا، یہ تو صرف پہلے لوگوں کی جھوٹی داستانیں ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{بَلْ: بلکہ۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ کفارِ مکہ سمجھے نہیں  بلکہ انہوں  نے وہی بات کہہ دی جو ان سے پہلے والے کفارکہتے تھے کہ جب ہم مرجائیں  گے اور اس کے بعدمٹی اور ہڈیاں  ہوجائیں  گے توکیا ہم پھر زندہ کر کے اٹھائے جائیں  گے؟ بیشک ہمیں  اور ہم سے پہلے ہمارے باپ دادا کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے جانے کا وعدہ دیا گیا اور ہمارے باپ دادا نے تو اس کی کوئی حقیقت نہ دیکھی تو ہمیں  کہاں  سے نظر آئے گی، یہ تو صرف پہلے لوگوں  کی جھوٹی داستانیں  ہیں  جن کی کچھ بھی حقیقت نہیں ۔( جلالین، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۸۱-۸۳، ص۲۹۲، روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۸۱-۸۳، ۶ / ۱۰۰، ملتقطاً)

قُلْ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَ مَنْ فِیْهَاۤ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(84)سَیَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِؕ-قُلْ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ(85)

ترجمہ: کنزالعرفان

تم فرماؤ : زمین اور جو کچھ اس میں ہے وہ سب کس کا ہے؟ اگر تم جانتے ہو۔ اب کہیں گے کہ اللہ کا۔تم فرماؤ: توکیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قُلْ: تم فرماؤ۔} کفار کی اُس بات کا رد فرمانے اور اُن پر حجت قائم فرمانے کے لئے  اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرما دیں  کہ زمین اور جو کچھ اس میں  ہے وہ سب کس کا ہے؟ اگر تم جانتے ہو تومجھے بتاؤ کہ ا ن کا خالق اور مالک کون ہے؟( مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۸۴، ص۷۶۳، خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۸۴، ۳ / ۳۳۰، ملتقطاً)

{سَیَقُوْلُوْنَ: اب کہیں  گے۔}  اللہ تعالیٰ نے کفار کی طرف سے ا س سوال کا دیا جانے والاجواب پہلے ہی اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرما دیا کہ اس سوال کے جواب میں  عنقریب کافر کہیں  گے: ان کا خالق و مالک  اللہ عَزَّوَجَلَّ ہے۔ کیونکہ اس کے علاوہ اور کوئی جواب ہی نہیں  اور مشرکین  اللہ تعالیٰ کے خالق ہونے کا اقرار بھی کرتے ہیں ، جب وہ یہ جواب دیں  تو اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرمائیں  کہ پھر تم کیوں  غور نہیں  کرتے تا کہ یہ بات جان جاؤ کہ جس نے زمین کو اور اس کی کائنات کو ابتداء ً پیدا کیا وہ ضرور مُردوں  کو زندہ کرنے پر قادر ہے۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۸۵، ۳ / ۳۳۰، ابوسعود، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۸۵، ۴ / ۶۱، ملتقطاً)

قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ(86)سَیَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِؕ-قُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ(87)

ترجمہ: کنزالعرفان

تم فرماؤ: ساتوں آسمانوں کا مالک اور عرشِ عظیم کا مالک کون ہے؟ اب کہیں گے: یہ سب اللہ ہی کاہے۔ تم فرماؤ: توکیا تم ڈرتے نہیں؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{سَیَقُوْلُوْنَ: اب کہیں  گے۔} اس سے پہلی آیت میں  کفار سے دوسراسوال کیا گیا کہ ساتوں  آسمانوں  کا اور عرشِ عظیم کا مالک کون ہے؟  اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہ ِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کفار کی طرف سے دیا جانے والاجواب پہلے ہی ارشاد فرما دیا کہ وہ آپ کی اس بات کے جواب میں  کہیں  گے کہ یہ سب  اللہ تعالیٰ ہی کاہے۔ تو آپ ان سے فرمائیں  کہ پھرتم غَیْرُ اللہ کی عبادت کرنے اور  اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانے سے اور اس کے مُردوں  کو زندہ کرنے پر قادر ہونے کا انکار کرنے سے کیوں  نہیں  ڈرتے اور اس کے عذاب سے خوف کیوں  نہیں  کھاتے۔(مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۸۶-۸۷، ص۷۶۳، خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۸۶-۸۷، ۳ / ۳۳۰، ملتقطاً)

قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ(86)سَیَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِؕ-قُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ(87)

ترجمہ: کنزالعرفان

تم فرماؤ: ساتوں آسمانوں کا مالک اور عرشِ عظیم کا مالک کون ہے؟ اب کہیں گے: یہ سب اللہ ہی کاہے۔ تم فرماؤ: توکیا تم ڈرتے نہیں؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{سَیَقُوْلُوْنَ: اب کہیں  گے۔} اس سے پہلی آیت میں  کفار سے دوسراسوال کیا گیا کہ ساتوں  آسمانوں  کا اور عرشِ عظیم کا مالک کون ہے؟  اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہ ِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کفار کی طرف سے دیا جانے والاجواب پہلے ہی ارشاد فرما دیا کہ وہ آپ کی اس بات کے جواب میں  کہیں  گے کہ یہ سب  اللہ تعالیٰ ہی کاہے۔ تو آپ ان سے فرمائیں  کہ پھرتم غَیْرُ اللہ کی عبادت کرنے اور  اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانے سے اور اس کے مُردوں  کو زندہ کرنے پر قادر ہونے کا انکار کرنے سے کیوں  نہیں  ڈرتے اور اس کے عذاب سے خوف کیوں  نہیں  کھاتے۔(مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۸۶-۸۷، ص۷۶۳، خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۸۶-۸۷، ۳ / ۳۳۰، ملتقطاً)

قُلْ مَنْۢ بِیَدِهٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَیْءٍ وَّ هُوَ یُجِیْرُ وَ لَا یُجَارُ عَلَیْهِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(88)سَیَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِؕ-قُلْ فَاَنّٰى تُسْحَرُوْنَ(89)

ترجمہ: کنزالعرفان

ہر چیز کی ملکیت کس کے ہاتھ میں ہے؟ اور وہ پناہ دیتا ہے اور اس کے خلاف پناہ نہیں دی جاسکتی، اگر تمہیں علم ہے۔ اب کہیں گے: یہ (ملکیت) اللہ ہی کیلئے ہے۔ تم فرماؤ:تو کیسے جادو کے فریب میں پڑے ہو؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قُلْ: تم فرماؤ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان کفار سے فرمائیں ’’اگر تمہیں  علم ہے تومجھے اس بات کا جواب دو کہ ہر چیز کی ملکیت کس کے ہاتھ میں  ہے اور ہر چیز پر حقیقی قدرت و اختیار کس کا ہے؟  اللہ تعالیٰ کی شان تو یہ ہے کہ وہ پناہ دیتا ہے اور اس کے خلاف پناہ نہیں  دی جاسکتی۔ کفار آپ کے سوال کے جواب میں  کہیں  گے کہ یہ ملکیت  اللہ تعالیٰ ہی کیلئے ہے۔ آپ ان سے فرمائیں  کہ تو پھر تم کس جادو کے فریب میں  پڑے ہو؟ یعنی کس شیطانی دھوکے میں ہو کہ توحید اور  اللہ تعالیٰ کی عبادت کو چھوڑ کر حق کو باطل سمجھ رہے ہو؟ جب تم اقرار کرتے ہو کہ حقیقی قدرت اسی کی ہے اور اس کے خلاف کوئی کسی کو پناہ نہیں  دے سکتا تو دوسرے کی عبادت قطعاً باطل ہے۔( ابوسعود، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۸۸، ۴ / ۶۲، ملخصاً)

بَلْ اَتَیْنٰهُمْ بِالْحَقِّ وَ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ(90)مَا اتَّخَذَ اللّٰهُ مِنْ وَّلَدٍ وَّ مَا كَانَ مَعَهٗ مِنْ اِلٰهٍ اِذًا لَّذَهَبَ كُلُّ اِلٰهٍۭ بِمَا خَلَقَ وَ لَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍؕ-سُبْحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا یَصِفُوْنَ(91)

ترجمہ: کنزالعرفان

بلکہ ہم ان کے پاس حق لائے اور وہ بیشک جھوٹے ہیں ۔ اللہ نے کوئی بچہ اختیار نہ کیا اور نہ اس کے ساتھ کوئی دوسرا معبودہے۔ اگر ایسا ہوتا توہر معبود اپنی مخلوق لے جاتا اور ضرور ان میں سے ایک دوسرے پر بڑائی و غلبہ چاہتا۔ اللہ ان باتوں سے پاک ہے جو یہ بیان کرتے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{بَلْ: بلکہ۔} یعنی مشرکین جیساگمان کرتے ہیں  ویسا قطعاً نہیں  بلکہ ہم ان کے پاس حق لائے کہ  اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نہ اولاد ہوسکتی ہے نہ اس کا شریک، یہ دونوں  باتیں  محال ہیں  اور وہ بیشک جھوٹے ہیں  جو اس کیلئے شریک اور اولاد ٹھہراتے ہیں ۔( تفسیر طبری، المؤمنون ، تحت الآیۃ : ۹۰، ۹ / ۲۳۹ – ۲۴۰ ، مدارک، المؤمنون ، تحت الآیۃ: ۹۰، ص۷۶۳، خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۹۰، ۳ / ۳۳۰، ملتقطاً)

{مَا اتَّخَذَ اللّٰهُ مِنْ وَّلَدٍ:  اللہ نے کوئی بچہ اختیار نہ کیا۔} اس آیت میں   اللہ تعالیٰ نے کفار کے جھوٹا ہونے کو مزید تاکید سے بیان فرمایا کہ  اللہ تعالیٰ نے کوئی بچہ اختیار نہیں  کیا،وہ اس سے بری ہے کیونکہ  اللہ تعالیٰ نوع اور جنس سے پاک ہے  اور اولاد وہی ہوسکتی ہے جو ہم جنس ہو اور نہ  اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی دوسرا خداہے جو اُلوہِیّت میں  ا س کا شریک ہو۔ اگر بِالفرض کوئی دوسرا خدا ہوتاتو اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ ہر معبود اپنی مخلوق لے جاتا اور اسے دوسرے کے تحت ِتَصَرُّف نہ چھوڑتا اور ضرور ان میں  سے ایک دوسرے پر بڑائی و غلبہ چاہتا اوردوسرے پر اپنی برتری اور اپنا غلبہ پسند کرتا کیونکہ ایک دوسرے کے مقابل حکومتیں  اسی چیز کاتقاضاکرتی ہیں  اور ایسی صورت میں  کائنات کے نظام کی تباہی یقینی تھی۔ اس سے معلو م ہوا کہ دو خدا ہونا باطل ہے، خدا ایک ہی ہے اور ہر چیز اسی کے تحت ِتصرف ہے۔آیت کے آخر میں  فرمایا کہ  اللہ تعالیٰ ان شرکیہ باتوں  سے پاک ہے جو یہ کفاربیان کرتے ہیں  کہ  اللہ تعالیٰ کے لئے شریک اور اولاد ہے۔( مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۹۱، ص۷۶۴، خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۹۱، ۳ / ۳۳۰، ملتقطاً)

 عٰلِمِ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ فَتَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ(92)

ترجمہ: کنزالعرفان

۔ (وہ اللہ ) ہر پوشیدہ اور ظاہر بات کا جاننے والا ہے تو وہ اس سے بلند ہے جو وہ شریک ٹھہراتے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{عٰلِمِ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ: ہر پوشیدہ اور ظاہر بات کا جاننے والا ہے۔} یعنی  اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ ہر پوشیدہ اورظاہر بات کو جاننے والا ہے یعنی جومخلوق سے پوشیدہ ہے یا مخلوق پر ظاہر ہے توایسا علم والا خدا ا ن بتوں  کا شریک کیسے ہو سکتا ہے جو چھپی ہوئی کوئی بات تک نہیں  جانتے اور نہ ہی ظاہری باتوں  کی انہیں  خبر ہے یعنی مکمل بے خبر ہیں ،لہٰذا  اللہ تعالیٰ اس شرک سے بلند و بالا ہے جو یہ مشرک کرتے ہیں ۔

قُلْ رَّبِّ اِمَّا تُرِیَنِّیْ مَا یُوْعَدُوْنَ(93)رَبِّ فَلَا تَجْعَلْنِیْ فِی الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ(94)

ترجمہ: کنزالعرفان

تم عرض کرو: اے میرے رب! اگر تو مجھے وہ دکھادے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے۔ تو اے میرے رب! مجھے ان ظالموں میں (شامل) نہ کرنا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قُلْ رَّبِّ: تم عرض کرو: اے میرے رب!} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں   اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، تم یوں دعاکرو کہ اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، اگر تو مجھے وہ عذا ب دکھادے جس کا(دنیا میں ) ان کافروں سے وعدہ کیا جاتا ہے تو اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، مجھے ان ظالموں  میں  شامل نہ کرنا اور ان کا ساتھی نہ بنانا۔( ابوسعود، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۹۳-۹۴، ۴ / ۶۲)

             یاد رہے کہ یہ بات یقینی طور پر معلوم ہے کہ  اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کفار کا ساتھی نہ بنائے گا،اس کے باوجود رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کاا س طرح دعا فرمانا، عاجزی اور بندگی کے اظہار کے طور پر ہے۔ اسی طرح انبیاءِ معصومین عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام استغفار کیا کرتے ہیں حالانکہ انہیں  اپنی مغفرت اور اکرامِ خداوندی کا علم یقینی ہوتا ہے، یہ سب تواضع اور اظہارِبندگی کے طور پر ہے۔

وَ اِنَّا عَلٰۤى اَنْ نُّرِیَكَ مَا نَعِدُهُمْ لَقٰدِرُوْنَ(95)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بیشک ہم اس پرقادر ہیں کہ تمہیں وہ دکھادیں جس کا ہم انہیں وعدہ دے رہے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِنَّا: اور بیشک ہم۔} اس آیت میں  ان کفار کو جواب دیا گیا ہے جو اُس عذاب کا انکار کرتے اور اس کی ہنسی اڑاتی تھے جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا، انہیں  بتایا گیا کہ اگر تم غور کرو تو سمجھ لو گے کہ  اللہ تعالیٰ اس وعدے کو پورا کرنے پر قادر ہے،تو پھر انکار کی وجہ اورمذاق اڑانے کا سبب کیا ہے ؟اور کفار کے عذاب میں  جو تاخیر ہورہی ہے اس میں   اللہ تعالیٰ کی ایک حکمت یہ ہے کہ ان میں  سے جو ایمان لانے والے ہیں  وہ ایمان لے آئیں  اور جن کی نسلیں  ایمان لانے والی ہیں  ان سے وہ نسلیں  پیدا ہولیں ۔( مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۹۵، ص۷۶۵، ابوسعود، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۹۵، ۴ / ۶۳، ملتقطاً)

اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ السَّیِّئَةَؕ-نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَصِفُوْنَ(96)

ترجمہ: کنزالعرفان

سب سے اچھی بھلائی سے برائی کو دفع کرو۔ ہم خوب جانتے ہیں جو باتیں یہ کررہے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ السَّیِّئَةَ: بُرائی کو اس خصلت و عادت سے دفع کروجو سب سے اچھی ہو۔} مفسرین نے اس خوبصورت جملے کے کثیرمعنی بیان فرمائے ہیں ، ان میں  سے چند یہ ہیں ۔(1) توحید جو کہ سب سے اعلیٰ بھلائی ہے اس سے شرک کی برائی کو دفع فرمائیں ۔ (2)طاعت و تقویٰ کو رواج دے کر مَعصیَت اور گناہ کی برائی دفع کیجئے۔ (3)اپنے مَکارمِ اَخلاق سے خطا کاروں  پر اس طرح عفْو ورحمت فرمائیں  جس سے دین میں  کوئی سستی نہ ہو۔( ابوسعود، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۹۶، ۴ / ۶۳، ملخصاً)

رسولِ کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت سے برائی کو بھلائی کے ساتھ ٹالنے کی مثالیں :

            سُبْحَانَ اللّٰہ! اس آیت میں   اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اور آپ کے ذریعے آپ کی امت کی کتنی پیاری تربیت فرمائی ہے، اسی طرح ایک اور آیت میں  ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’وَ لَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَ لَا السَّیِّئَةُؕ-اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَكَ وَ بَیْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ‘‘(حم السجدہ:۳۴)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اچھائی اور برائی برابرنہیں  ہوسکتی۔ برائی کو بھلائی کے ساتھ دور کردو تو تمہارے اور جس شخص کےدرمیان دشمنی ہوگی تو اس وقت وہ ایسا ہوجائے گا کہ جیسے وہ گہرا دوست ہے۔

            حضور پُرنور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرتِ مبارکہ میں  برائی کو بھلائی کے ساتھ ٹالنے کی بے شمار مثالیں  موجود ہیں ، جیسے سو اونٹوں  کے لالچ میں  آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو شہید کرنے کے لئے آنے والے سراقہ بن مالک کو امان لکھ دی۔آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو شہید کرنے کے ارادے سے زہر میں  بجھی تلوار لے کر آنے والے عمیر بن وہب کے ساتھ ایسا سلوک فرمایا کہ وہ وہیں  کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے۔ فتحِ مکہ کے بعد ان کی سفارش پر صفوان بن امیہ کو بھی معاف کر دیا، منافقوں  کے سردار عبد اللہ بن اُبی سلول کی نماز جنازہ پڑھا دی۔مدینہ منورہ پر کئی حملے کرنے والے ابو سفیان کو معاف کر دیا۔ اپنے چچا حضرت حمزہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کو شہید کرنے والے شخص وحشی کومعاف کر دیا۔ حضرت حمزہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کا کلیجہ چبانے والی ہند بنت ِعتبہ کو معاف کر دیا۔اگر تمام مسلمان اس آیت مبارکہ میں  دئیے گئے حکم پر عمل پیرا ہوجائیں  تو کوئی بعید نہیں  کہ ہمارے معاشرے میں  امن و سکون کا دَور دورہ ہو جائے۔

{نَحْنُ اَعْلَمُ: ہم خوب جانتے ہیں ۔} اس آیت میں  حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے  اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم خوب جانتے ہیں  جو باتیں  یہ کفار  اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں  کررہے ہیں ، آپ ان کا معاملہ ہم پہ چھوڑدیں ، ہم انہیں  اس کی سزا دیں  گے۔( ابوسعود ، المؤمنون ، تحت الآیۃ : ۹۶ ، ۴ / ۶۳ ، بیضاوی ، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۹۶، ۴ / ۱۶۷، مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۹۶، ص۷۶۴، ملتقطاً)

وَ قُلْ رَّبِّ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّیٰطِیْنِ(97)وَ اَعُوْذُ بِكَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ(98)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور تم عرض کرو: اے میرے رب!میں شیطانوں کے وسوسوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔ اور اے میرے رب!میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ وہ شیطان میرے پاس آئیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ قُلْ: اور تم عرض کرو۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں   اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مزید دو دعائیں  تعلیم فرمائی ہیں ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ یوں  دعا کریں  کہ اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، میں  شیطانوں  کے وسوسوں  سے تیری پناہ مانگتا ہوں  جن سے وہ لوگوں  کو فریب دے کر مَعاصی اور گناہوں  میں  مبتلا کرتے ہیں  اور اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، میں  تیری پناہ مانگتا ہوں  اس سے کہ وہ شیطان میرے پاس آئیں۔( مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۹۷-۹۸، ص۷۶۴-۷۶۵، ملخصاً)

شیطان سے حفاظت انتہائی اہم چیز ہے:

          علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  ’’حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اگرچہ معصوم ہیں  لیکن چونکہ شیطان سے حفاظت انتہائی اہم چیز ہے ا س لئے آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ دعا مانگنے کا حکم دیا گیا اور ا س سے مقصود سیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کو تعلیم دینا ہے کہ وہ شیطان اور اس کے وسوسوں  سے پناہ مانگتے رہا کریں ۔( صاوی، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۹۷، ۴ / ۱۳۷۷)

{ وَ اَعُوْذُ بِكَ رَبِّ : اور اے میرے رب!میں  تیری پناہ مانگتا ہوں۔} اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے شیطان کے وسوسوں  سے بھی محفوظ ہیں  اور حضور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ تک شیطان کی رسائی نہیں  کیونکہ  اللہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ دعا سکھائی اور آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ دعا مانگی جو کہ قبول ہوئی۔یہ بھی معلوم ہوا کہ بڑے سے بڑا آدمی بھی اپنے آپ کو شیطان سے محفوظ نہ سمجھے۔ جب نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے شیطان سے پناہ مانگی تو ہم کیا چیز ہیں ۔

حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ(99)

ترجمہ: کنزالعرفان

یہاں تک کہ جب ان میں کسی کو موت آتی ہے تو کہتا ہے کہ اے میرے رب! مجھے واپس لوٹا دے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{حَتّٰى: یہاں  تک کہ۔} اس آیت میں   اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خبر دی کہ جو کفار مرنے کے بعد اٹھنے کا انکار کر رہے ہیں  یہ اپنی موت کے وقت دنیا کی طرف لوٹائے جانے کا سوال کریں  گے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ کافر اپنی موت کے وقت تک تو اپنے کفر و سرکشی،  اللہ تعالیٰ اور ا س کے رسول عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کرنے اور مرنے کے بعد زندہ کئے جانے کا انکار کرنے پر ڈٹارہتا ہے اور جب ا س کی موت کا وقت آتا ہے اور جہنم میں  اس کا جو مقام ہے وہ اسے دکھایاجاتا ہے اور جنت کا وہ مقام بھی دکھایا جاتا ہے جو ایمان لانے کی صورت میں  اسے ملتا، تو کہتا ہے کہ اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، مجھے دنیا کی طرف واپس لوٹادے۔( خازن، المؤمنون،تحت الآیۃ:۹۹، ۳ / ۳۳۱، مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۹۹، ص۷۶۵، جلالین، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۹۹، ص۲۹۲)

لَعَلِّیْۤ اَعْمَلُ صَالِحًا فِیْمَا تَرَكْتُ كَلَّاؕ-اِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَآىٕلُهَاؕ-وَ مِنْ وَّرَآىٕهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ(100)

ترجمہ: کنزالعرفان

جس دنیا کو میں نے چھوڑدیا ہے شاید اب میں اس میں کچھ نیک عمل کرلوں ۔ ہرگز نہیں ! یہ تو ایک بات ہے جو وہ کہہ رہا ہے اور ان کے آگے ایک رکاوٹ ہے اس دن تک جس دن وہ اٹھائے جائیں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَعَلِّیْۤ اَعْمَلُ صَالِحًا: شاید اب میں  کچھ نیک عمل کرلوں ۔} ارشاد فرمایا کہ کافر اپنی موت کے وقت عرض کرے گا کہ اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، مجھے دنیا کی طرف واپس لوٹادے،شاید اب میں  اس دنیا میں  کچھ نیک عمل کرلوں جسے میں  نے چھوڑدیا ہے اور نیک اعمال بجا لا کر اپنی غلطیوں  اورکوتاہیوں  کا تَدارُک کروں ۔ اس پر اس سے فرمایا جائے گا’’ہرگز نہیں ! یہ تو ایک بات ہے جو وہ حسرت و ندامت سے کہہ رہا ہے، یہ ہونے والی نہیں  اور اس کا کچھ فائدہ نہیں ۔ مزید ارشاد فرمایا کہ ان کے آگے ایک رکاوٹ ہے جو انہیں  دنیا کی طرف واپس ہونے سے مانع ہے اور وہ موت ہے کہ قانونِ الٰہی یہی ہے کہ جو مرگیا وہ دوبارہ دنیا میں  نہیں  لوٹایا جائے گا۔ یہاں  یہ بات ذہن میں  رہے کہ انبیاء و اَولیاء کا قدرت ِ الٰہی اور اِذنِ الٰہی سے مُردوں  کو زندہ کرنا اس آیت کے مُنافی نہیں  کہ آیت میں  عمومی قانون بیان کیا گیا ہے جبکہ انبیاء و اَولیاء کا زندہ کرنا قدرت ِ الٰہی کا اِظہار ہے۔

موت کے وقت دنیا میں  واپسی کا سوال مومن و کافر دونوں  کریں  گے:

            یاد رہے کہ جس طرح کافراپنی موت کے وقت ایمان لانے اورنیک اعمال کرنے کے لئے دوبارہ دنیا میں  لوٹا دئیے جانے کاسوال کریں  گے اسی طرح وہ مسلمان بھی دنیا میں  لوٹائے جانے کا سوا ل کریں  جنہوں  نے نیک اعمال کرنے  میں  کمی یا کوتاہی کی ہو گی، چنانچہ  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِۚ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ(۹)وَ اَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَیَقُوْلَ رَبِّ لَوْ لَاۤ اَخَّرْتَنِیْۤ اِلٰۤى اَجَلٍ قَرِیْبٍۙ-فَاَصَّدَّقَ وَ اَكُنْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۱۰)وَ لَنْ یُّؤَخِّرَ اللّٰهُ نَفْسًا اِذَا جَآءَ اَجَلُهَاؕ-وَ اللّٰهُ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ‘‘  (منافقون:۹۔۱۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! تمہارے مال اور تمہاریاولاد تمہیں   اللہ کے ذکر سے غافل نہ کردے اور جو ایسا کرے گاتو وہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں ۔اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں  سے اس وقت سے پہلے پہلے کچھ ہماری راہ میں  خرچ کرلو کہ تم میں  کسی کو موت آئے تو کہنے لگے، اے میرے رب !تو نے مجھے تھوڑی مدت تک کیوں  مہلت نہ دی کہ میں  صدقہ دیتا اور صالحین میں  سے ہوجاتا۔اور ہرگز اللّٰہکسی جان کو مہلت نہ دے گا جب اس کا وعدہ آجائے اور اللّٰہتمہارے کاموں  سے خبردار ہے۔

            ترمذی شریف میں  ہے،حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا نے فرمایا:جس کے پاس اتنا مال ہو کہ وہ بَیْتُ  اللہ شریف کا حج کرنے پہنچ سکتا ہو یا اس پر زکوٰۃ فرض ہو، اس کے باوجود وہ حج نہ کرے یا زکوٰۃ نہ دے تو وہ مرتے وقت دنیا میں  واپسی کا سوال کرے گا۔ایک شخص نے کہا:اے عبد اللہ بن عباس! رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا، آپ  اللہ تعالیٰ سے ڈریں ، دنیا میں  واپسی کا سوال تو صرف کفار کریں  گے (اور آپ مسلمانوں  کے بارے میں  ایسا کہہ رہے ہیں ) حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا نے فرمایا:میں  اس کے بارے میں  تمہارے سامنے قرآن مجید کی آیات پڑھتا ہوں ، چنانچہ آپ نے سورہِ منافقون کی ان تین آیات کی تلاوت فرمائی۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ المنافقین، ۵ / ۲۰۸، الحدیث: ۳۳۲۷)

             لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ  اللہ تعالیٰ کی عبادت کی ادائیگی اور ا س کے اَحکام کی بجا آوری میں  ہر گز ہر گز غفلت سے کام نہ لے اور دنیا کی زندگی میں  زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کر لے تاکہ موت کے وقت ایسے حال کا سامنا کرنے سے محفوظ رہے۔

فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَلَاۤ اَنْسَابَ بَیْنَهُمْ یَوْمَىٕذٍ وَّ لَا یَتَسَآءَلُوْنَ(101)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو جب صُورمیں پھونک ماری جائے گی تو نہ ان کے درمیان رشتے رہیں گے اور نہ ایک دوسرے کی بات پوچھیں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ: تو جب صُورمیں  پھونک ماری جائے گی۔} حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ اس سے مراد پہلی مرتبہ صور میں  پھونک مارنا ہے جسے پہلا نَفخہ کہتے ہیں  اورحضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ ا س سے مراد دوسری مرتبہ صور میں  پھونک مارنا ہے جسے دوسرا نفخہ کہتے ہیں ۔(خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۳ / ۳۳۲)اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب صورمیں  پھونک ماری جائے گی تولوگوں  کے درمیان کوئی رشتے نہ رہیں  گے جن پر وہ دنیا میں  فخر کیا کرتے تھے اوران میں  آپس کے نسبی تعلقات منقطع ہوجائیں  گے اور رشتے داری کی محبتیں  باقی نہ رہیں  گی اور یہ حال ہوگا کہ آدمی اپنے بھائیوں ، ماں  باپ، بیوی اور بیٹوں  سے بھاگے گا اوراس وقت نہ ایک دوسرے کی بات پوچھیں  گےجیسا کہ دنیا میں  پوچھتے تھے کیونکہ ہر ایک اپنے ہی حال میں مبتلا ہوگا، پھر دوسری بارصور پھونکا جائے گا اور حساب کے بعد لوگ ایک دوسرے کا حال دریافت کریں  گے۔(روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۶ / ۱۰۶-۱۰۷)

رسولِ کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نسب اس وقت بھی فائدہ دے گا جب رشتے مُنقطع ہو جائیں گے:

         یاد رہے کہ ا س حکم میں  حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نسب داخل نہیں ، آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نسب قیامت کے دن مومن سادات کو کام آئے گا۔یہاں  اس سے متعلق 4اَحادیث ملاحظہ ہوں :

(1)…حضرت عبد اللہ بن زبیر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ قیامت کے دن میرے نسبی اور سسرالی رشتے کے علاوہ ہر نسبی اور سسرالی رشتہ منقطع ہو جائے گا۔(معجم الاوسط، باب العین، من اسمہ: علی، ۳ / ۱۴۵، الحدیث: ۴۱۳۲)

(2)… حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے لوگوں  کو جمع کیا اور منبر پر تشریف لے گئے اور ارشادفرمایا’’ ان لوگوں  کا کیا حال ہے جو یہ گمان کرتے ہیں  کہ میری قَرابت نفع نہ دے گی۔ ہر تعلق اوررشتہ قیامت میں  منقطع ہوجائے گا مگرمیرا رشتہ اور تعلق (منقطع نہ ہوگا) کیونکہ دنیا وآخرت میں  جڑا ہواہے۔( مجمع الزواءد، کتاب علامات النبوّۃ، باب فی کرامۃ اصلہ صلی  اللہ علیہ وسلم، ۸ / ۳۹۸، الحدیث: ۱۳۸۲۷)

(3)… امیر المومنین مولیٰ علی کَرَّمَ  اللہ  تَعَالٰی  وَجْہَہُ الْکَرِیْم کی بہن حضرت اُمِّ ہانی رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا کی بالیاں  کسی وجہ سے ایک بار ظاہر ہوگئیں(حالانکہ انہیں  چھپانے کا حکم ہے) اس پر ان سے کہا گیا:محمد مصطفٰی صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہ ِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمہیں نہ بچائیں  گے۔وہ حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت ِاقدس میں  حاضر ہوئیں  اور حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے یہ واقعہ عرض کیا، حضور انور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ ان لوگوں  کا کیاحال ہے جو یہ گمان کرتے ہیں  کہ میری شفاعت میرے اہلِ بیت کو نہ پہنچے گی؟ بے شک میری شفاعت ضرور ’’حَا‘‘ اور ’’حَکَمْ‘‘ (نامی یمن کے دو قبیلوں ) کو بھی شامل ہے۔(معجم الکبیر، عبد الرحمٰن بن ابی رافع عن امّ ہانیٔ، ۲۴ / ۴۳۴، الحدیث: ۱۰۶۰)

(4)…حضرت انس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہ ِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میرےرب نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ میرے اہل ِبیت میں  سے جو شخص  اللہ تعالیٰ کی وحدانیَّت اور میری رسالت پر ایمان لائے گا،اسے عذاب نہ فرمائے گا۔( مستدرک،کتاب معرفۃالصحابۃ رضی  اللہ تعالی عنہم،وعدنی ربّی فی اہل بیتی ان لایعذّبہم،۴ / ۱۳۲، الحدیث: ۴۷۷۲)

فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(102)وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ فِیْ جَهَنَّمَ خٰلِدُوْنَ(103)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی کامیاب ہونے والے ہوں گے۔اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے تو یہ وہی ہوں گے جنہوں نے اپنی جانوں کو نقصان میں ڈالا، (وہ) ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ: تو جن کے پلڑے بھاری ہوں  گے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا معنی یہ ہے کہ جس کے عقائد درست اور اعمال نیک ہوں  گے تو اس کے اعمال کا  اللہ تعالیٰ کے نزدیک وزن ہو گا اور یہی لوگ اپنا مقصد ومطلوب کو پا کر کامیاب ہوں  گے اور جن کے عقائد غلط اور اعمال نیک نہ ہوں  گے، ان کے اعمال کا  اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی وزن نہ ہو گا اور ان سے مراد کفار ہیں ، انہوں  نے اپنی جانوں  کو نقصان میں  ڈالا اوروہ ہمیشہ دوزخ میں  رہیں  گے۔( ابوسعود، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۰۲-۱۰۳، ۴ / ۶۴-۶۵)

تَلْفَحُ وُجُوْهَهُمُ النَّارُ وَ هُمْ فِیْهَا كٰلِحُوْنَ(104)اَلَمْ تَكُنْ اٰیٰتِیْ تُتْلٰى عَلَیْكُمْ فَكُنْتُمْ بِهَا تُكَذِّبُوْنَ(105)

ترجمہ: کنزالعرفان

ان کے چہروں کو آگ جلادے گی اور وہ اس میں منہ چڑائے ہوں گے۔ کیا تم پر میری آیتیں نہ پڑھی جاتی تھیں ؟ تو تم انہیں جھٹلاتے تھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ هُمْ فِیْهَا كٰلِحُوْنَ: اور وہ اس میں  منہ چڑائے ہوں  گے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اپنی جانوں  کو نقصان میں  ڈالنے والے بدبختوں  کا حال یہ ہو گا کہ جہنم کی آ گ ان کے چہروں  کو جلادے گی اور جہنم میں  ان کے دونوں  ہونٹ سکڑ کر دانتوں  سے دور ہو جائیں  گے اور ان سے فرمایا جائے گا’’ کیا دنیا میں  تمہارے سامنے میرے قرآن کی آیتیں  نہ پڑھی جاتی تھیں  ؟ضرور پڑھی جاتی تھیں ، لیکن تم انہیں  سن کر میرے عذاب سے ڈرنے کی بجائے انہیں  جھٹلاتے تھے اور یہ گمان کرتے تھے کہ یہ  اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں  ہے۔( مدارک،المؤمنون،تحت الآیۃ:۱۰۴-۱۰۵،ص۷۶۶، جلالین،المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۰۴-۱۰۵، ص۲۹۳، ملتقطاً)

جہنم کا ایک عذاب:

            حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ’’ وَ هُمْ فِیْهَا كٰلِحُوْنَ‘‘ کے بارے میں  ارشاد فرمایا ’’ آگ انہیں  بھون ڈالے گی اور اوپر کا ہونٹ سکڑ کر آدھے سر تک پہنچ جائے گا اور نیچے کا ہونٹ لٹک کرناف کو چھونے لگے گا۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ المؤمنین، ۵ / ۱۱۹، الحدیث: ۳۱۸۷) اللہ تعالیٰ ہمیں  جہنم کے اس دردناک عذاب سے پناہ عطا فرمائے۔

             حضرت ابوہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی       عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جہنم میں  بد نصیب ہی جائے گا۔ عرض کی گئی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بدنصیب کون ہے ؟ ارشاد فرمایا: ’’ جو  اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کے کام نہ کرے اور اس کی نافرمانی نہ چھوڑے۔( ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ما یرجی من رحمۃ  اللہ عزّوجل یوم القیامۃ، ۴ / ۵۱۶، الحدیث: ۴۲۹۸)

            لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ بھی ان آیات سے عبرت ونصیحت حاصل کرے، ہر حال میں   اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری کرے اور کسی بھی حال میں  اس کی نافرمانی نہ کرے۔

قَالُوْا رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَیْنَا شِقْوَتُنَا وَ كُنَّا قَوْمًا ضَآلِّیْنَ(106)رَبَّنَاۤ اَخْرِجْنَا مِنْهَا فَاِنْ عُدْنَا فَاِنَّا ظٰلِمُوْنَ(107)قَالَ اخْسَــٴُـوْا فِیْهَا وَ لَا تُكَلِّمُوْنِ(108)

ترجمہ: کنزالعرفان

وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! ہم پر ہماری بدبختی غالب آئی اور ہم گمراہ لوگ تھے۔ اے ہمارے رب! ہمیں دوزخ سے نکال دے پھر اگر ہم ویسے ہی کریں تو بیشک ہم ظالم ہوں گے۔ اللہ فرمائے گا: دھتکارے ہوئے جہنم میں پڑے رہو اور مجھ سے بات نہ کرو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالُوْا: وہ کہیں  گے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ ڈانٹ سن کر کفار کہیں  گے:ہم اپنے اختیار سے لذتوں  اور نفسانی خواہشات کی تکمیل میں  مصروف ہوئے اور یہ چیز ہم پر ایسی غالب آئی کہ ہم اس برے انجام تک پہنچ گئے اور انہی لذتوں  کی وجہ سے ہم لوگ حق سے گمراہ ہو گئے تھے اور ہم نے تیرے نبی کو جھٹلا دیا اور تیری نافرمانیاں  کیں ۔اے ہمارے رب! ہمیں  دوزخ سے نکال دے،اس کے بعد اگر ہم نے دوبارہ ویسے ہی کام کئے تو بیشک ہم اپنی جانوں  پر ظلم کرنے میں  حد سے بڑھنے والے ہوں  گے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: دھتکارے ہوئے جہنم میں  پڑے رہو کیونکہ یہ سوال کرنے کی جگہ نہیں  اور مجھ سے جہنم سے نکال کر دنیا میں  لوٹا دینے کی بات نہ کرو کیونکہ اب ایسا کبھی بھی نہیں  ہو گا۔( روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۰۶-۱۰۸، ۶ / ۱۰۹)

جہنمیوں  کی فریاد:

            ان آیات میں  جہنمیوں  کی فریاد کا ذکر ہوا،اس مناسبت سے یہاں  دو اَحادیث ملاحظہ ہوں ،

(1)…حضرت ابو درداء رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ دوزخی لوگ جہنم کے داروغہ حضرت مالک عَلَیْہِ  السَّلَام کو پکار کر کہیں  گے اے مالک! تیرا رب (ہمیں  موت دے کر) ہمارا کام پورا کردے۔حضرت مالک عَلَیْہِ  السَّلَام ان سے کہیں  گے کہ تم جہنم ہی میں  پڑے رہو گے۔ پھر وہ  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  فریاد کریں  گے پکاریں  گے اور کہیں  گے ’’اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ، ہم پر ہماری بدبختی غالب آئی اور ہم گمراہ لوگ تھے، اے ہمارے رب! ہمیں  دوزخ سے نکال دے پھر اگر ہم ویسے ہی کریں  تو بیشک ہم ظالم ہوں  گے۔ اُنہیں  جواب دیا جائے گا کہ دھتکارے ہوئے جہنم میں  پڑے رہو اور مجھ سے بات نہ کرو۔ اب اُن کی امیدیں  منقطع ہوجائیں  گی اور اس وقت ندامت اور خرابی کی پکار میں  مشغول ہوں  گے۔( ترمذی، کتاب صفۃ جہنّم، باب ما جاء فی صفۃ طعام اہل النار، ۴ / ۲۶۳، الحدیث: ۲۵۹۵)

(2)…حضرت عبد اللہ بن عمرو رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ دوزخی لوگ جہنم کے داروغہ حضرت مالک عَلَیْہِ  السَّلَام کو پکاریں  گے تو وہ چالیس برس تک انہیں  جواب نہ دیں  گے، اس کے بعد وہ کہیں  گے کہ تم جہنم ہی میں  پڑے رہو گے پھر وہ کہیں  گے’’اے ہمارے رب! ہمیں  دوزخ سے نکال دے پھر اگر ہم ویسے ہی کریں  تو بیشک ہم ظالم ہوں  گے۔ اور انہیں  دنیا سے دگنی عمر تک جواب نہ دیا جائے گا۔( مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب ذکر النار، ما ذکر فیما اعدّ لاہل النار وشدّتہ، ۸ / ۹۲، الحدیث: ۶)

            اور دنیا کی عمر کتنی ہے اس بارے میں  کئی قول ہیں ’’ بعض نے کہا کہ دنیا کی عمر سات ہزار برس ہے، بعض نے کہا بارہ ہزار برس اور بعض نے کہا کہ تین لاکھ ساٹھ برس ہے۔ وَ اللہ  تَعَالٰی  اَعْلَم(التذکرہ للقرطبی ، باب منہ و ما جاء فی خروج الموحدین من النار۔۔۔ الخ، ص۴۱۸، صاوی، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ۴ / ۱۳۷۸)اور آخری بیان کردہ عمر بھی قطعی نہیں  ہے۔

اِنَّهٗ كَانَ فَرِیْقٌ مِّنْ عِبَادِیْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَ ارْحَمْنَا وَ اَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَ(109)فَاتَّخَذْتُمُوْهُمْ سِخْرِیًّا حَتّٰۤى اَنْسَوْكُمْ ذِكْرِیْ وَ كُنْتُمْ مِّنْهُمْ تَضْحَكُوْنَ(110)اِنِّیْ جَزَیْتُهُمُ الْیَوْمَ بِمَا صَبَرُوْۤاۙ-اَنَّهُمْ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَ(111)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک میرے بندوں کا ایک گروہ کہتا تھا: اے ہمارے رب!ہم ایمان لائے تو ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما اور تو سب سے بہتر رحم کرنے والا ہے۔ تو تم نے انہیں مذاق بنالیا یہاں تک کہ ان لوگوں کا مذاق اڑانے نے تمہیں میری یاد بھلا دی اور تم ان سے ہنسا کرتے تھے۔ بیشک آج میں نے ان کے صبر کا انہیں یہ بدلہ دیا کہ وہی کامیاب ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّهٗ كَانَ فَرِیْقٌ مِّنْ عِبَادِیْ یَقُوْلُوْنَ: بیشک میرے بندوں  کا ایک گروہ کہتا تھا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے کافرو! تمہارا حال یہ تھا کہ جب دنیا میں  میرے مومن بندوں  کا ایک گروہ کہتا تھا: اے ہمارے رب! ہم تجھ پر ایمان لائے اور ہم نے تیری اور جو کچھ تیری طرف سے آیا ا س کی تصدیق کی، توہمارے گناہوں  کو معاف فرما کر ہمیں  بخش دے اور ہم پر رحم فرما اورہمیں  جہنم سے نجات دے کر اور جنت میں  داخل فرما کر ہم پراپنا احسان فرما اور تو سب سے بہتر رحم کرنے والا ہے کیونکہ تیری رحمت ہی تمام رحمتوں  کا مَنبع ہے۔‘‘تو اے کافرو،تم نے انہیں  مذاق بنالیا یہاں  تک کہ ان لوگوں کا مذاق اڑانے نے تمہیں  میری یاد بھلا دی اور تمہیں  میرے عذاب کا خوف نہ رہا اور تم ان سے ہنسا کرتے اور ان کا بہت مذاق اڑایا کرتے تھے۔بیشک آج میں  نے انہیں  تمہاری اَذِیَّتوں  اور مذاق اڑانے پر صبر کرنے کا یہ بدلہ دیا کہ وہی ہمیشہ کے لئے جنت کی نعمتیں  پا کر کامیاب ہیں ۔( روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۰۹-۱۱۱، ۶ / ۱۰۹، جلالین، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۰۹-۱۱۱، ص۲۹۳، ملتقطاً)

          شانِ نزول : بعض مفسرین کے نزدیک یہ آیتیں  ان کفارِ قریش کے بارے میں  نازل ہوئیں  جو حضرت بلال، حضرت عمار،حضرت صہیب، حضرت خبّاب رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ اوران جیسے دیگر فقراء صحابۂ کرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ۳ / ۳۳۳)

قٰلَ كَمْ لَبِثْتُمْ فِی الْاَرْضِ عَدَدَ سِنِیْنَ(112)قَالُوْا لَبِثْنَا یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ فَسْــٴَـلِ الْعَآدِّیْنَ(113)قٰلَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا لَّوْ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(114)

ترجمہ: کنزالعرفان

اللہ فرمائے گا : تم زمین میں سالوں کی گنتی کے اعتبار سے کتنا عرصہ ٹھہرے ہو؟وہ کہیں گے: ہم ایک دن رہے یاایک دن کا بھی کچھ حصہ ٹھہرے ہیں تو گننے والوں سے دریافت فرما۔ فرمائے گا: تم بہت تھوڑا ہی ٹھہرے ہو، اگرتم جانتے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قٰلَ: فرمایا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دوآیات کاخلاصہ یہ ہے کہ  اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کفار سے فرمائے گا کہ تم دنیا میں  اور قبر میں  سالوں  کی گنتی کے اعتبار سے کتنا عرصہ ٹھہرے ہو؟ کفار اس سوال کے جواب میں  کہیں  گے: ہم ایک دن رہے یاایک دن کا بھی کچھ حصہ ٹھہرے ہیں ۔ کفار یہ جواب اس وجہ سے دیں  گے کہ اس دن کی دہشت اور عذاب کی ہَیبت سے انہیں  اپنے دنیا میں  رہنے کی مدت یاد نہ رہے گی اور انہیں  شک ہوجائے گا، اسی لئے کہیں  گے: اے اللّٰہ! عَزَّوَجَلَّ، تواُن فرشتوں  سے دریافت فرما جنہیں  تو نے بندوں  کی عمریں  اور ان کے اعمال لکھنے پر مامور کیا ہے۔  اللہ تعالیٰ کفار کو جواب دے گا کہ اگر تمہیں  دنیا میں  رہنے کی مدت معلوم ہوتی تو تم جان لیتے کہ آخرت کے مقابلے میں  دنیا میں  بہت ہی تھوڑا عرصہ ٹھہرے ہو۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۱۲-۱۱۴، ۳ / ۳۳۳)

اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ(115)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بیکار بنایا اور تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جاؤ گے؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَفَحَسِبْتُمْ: تو کیا تم یہ سمجھتے ہو۔} اس آیت میں   اللہ تعالیٰ نے کفار کو مزید سرزنش فرمائی کہ اے بد بختو! کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں  بیکار بنایا اور تم ہماری طرف لوٹائے نہیں  جاؤ گے،ایسانہیں  بلکہ ہم نے تمہیں  عبادت کے لئے پیدا کیا تاکہ تم پر عبادت لازم کریں  اور آخرت میں  تم ہماری طرف لوٹ کر آؤ تو تمہیں  تمہارے اعمال کی جزا دیں ۔( مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۱۵، ص۷۶۷، ملخصاً)

 اللہ تعالیٰ کی عبادت سے غفلت دانشمندی نہیں :

            یاد رہے کہ ہماری زندگی کا اصلی مقصد  اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ہے،جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’ وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ‘‘(الذاریات:۵۶)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور میں  نے جن اور آدمی اسی لئے بنائے کہ میری عبادت کریں ۔

             اور یہ بھی یاد رہے کہ ہمیں  بالکل آزاد نہیں  چھوڑا جائے گا کہ نہ ہم پر اَمرونَہی وغیرہ کے اَحکام ہوں ، نہ ہمیں  مرنے کے بعد اُٹھایا جائے نہ ہم سے اعمال کا حساب لیا جائے اور نہ ہمیں  آخرت میں  اعمال کی جزا دی جائے، ایسا نہیں  ہے،

 اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’ اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ یُّتْرَكَ سُدًى‘‘(القیامہ:۳۶)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: کیا آدمی اس گھمنڈ میں  ہے کہ اسے آزاد چھوڑ دیا جائے گا۔

            جب ہماری پیدائش کا اصل مقصد  اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے اور ہم شریعت کے احکام سے آزاد بھی نہیں  ہیں  اور ہمیں  قیامت کے دن اپنے ہر عمل کا حساب بھی بہر صورت دینا ہے تو  اللہ تعالیٰ کی عبادت سے غافل ہو کر دنیا کے کام دھندوں  میں  ہی مصروف رہنا کہاں کی دانشمندی ہے۔

فَتَعٰلَى اللّٰهُ الْمَلِكُ الْحَقُّۚ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۚ-رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِیْمِ(116)

ترجمہ: کنزالعرفان

تووہ اللہ بہت بلندی والا ہے جو سچا بادشاہ ہے، اس کے سواکوئی معبود نہیں ، وہ عزت والے عرش کا مالک ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَتَعٰلَى اللّٰهُ: تو  اللہ بہت بلندی والا ہے۔} یعنی  اللہ تعالیٰ اپنی ذات،صفات اور اَفعال میں  مخلوق کی مُماثلَت سے پاک ہے،وہی سچا بادشاہ ہے اور ہر چیز اسی کی ملکیت اور اسی کی بادشاہی میں  داخل ہے،اس کے سوا کوئی معبود نہیں  کیونکہ تمام چیزیں  اسی کی ملکیت ہیں  اور جو ملکیت ہو وہ معبود نہیں  ہو سکتی اور وہ اس عرش کا مالک ہے جو عزت والا ہے کیونکہ  اللہ تعالیٰ کے کرم و رحمت کا فیضان یہیں  سے تقسیم ہوتا ہے اور ہر مخلوق میں  اس کی رحمت و کرم کے آثار یہیں  سے بٹتے ہیں ۔( روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۱۶، ۶ / ۱۱۲)

وَ مَنْ یَّدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَۙ-لَا بُرْهَانَ لَهٗ بِهٖۙ-فَاِنَّمَا حِسَابُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖؕ-اِنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الْكٰفِرُوْنَ(117)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کی عبادت کرے جس کی اس کے پاس کوئی دلیل نہیں تو اس کا حساب اس کے رب کے پاس ہی ہے، بیشک کافرفلاح نہیں پائیں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مَنْ یَّدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ: اور جو  اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کی عبادت کرے۔} ارشاد فرمایا کہ جو  اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کی عبادت کرے جس کی عبادت کرنے پر اس کے پاس کوئی دلیل نہیں  تو اس کا حساب اس کے رب عَزَّوَجَلَّ کے پاس ہی ہے اور وہی اسے اس عمل کی سز ادے گا، بیشک کافر حساب کی سختی اور عذاب سے چھٹکارا نہیں  پائیں  گے اور انہیں  کوئی سعادت نصیب نہ ہوگی۔( روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۱۷، ۶ / ۱۱۲-۱۱۳، جلالین، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۱۷، ص۲۹۳، ملتقطاً)

وَ قُلْ رَّبِّ اغْفِرْ وَ ارْحَمْ وَ اَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَ(118)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور تم عرض کرو، اے میرے رب! بخش دے اور رحم فرما اور تو سب سے بہتر رحم فرمانے والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ قُلْ: اور تم عرض کرو۔} اس آیت میں   اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو استغفار کرنے کا حکم دیا تاکہ امت اس میں  آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی کرے اوربعض مفسرین فرماتے ہیں  کہ اس آیت میں  سیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے واسطے سے آپ کی امت کو استغفار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔( قرطبی، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۱۸، ۶ / ۱۱۷، الجزء الثانی عشر)

استغفار کا سردار:

          حضرت شداد بن اوس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا: ’’استغفار کا سردار یہ ہے کہ تم کہو ’’اَللّٰہُمَّ اَنْتَ رَبِّیْ، لَا اِلٰـہَ اِلاَّ اَنْتَ، خَلَقْتَنِیْ وَ اَنَا عَبْدُکَ، وَ اَنَا عَلٰی عَہْدِکَ وَوَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْتُ، اَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، اَبُوْئُ لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ وَ اَبُوْئُ بِذَنْبِی،فَاغْفِرْلِی، فَاِنَّہٗ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ‘‘ یعنی الٰہی تو میرا رب ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، تو نے مجھے پیدا کیا، میں  تیرا بندہ ہوں  اور اپنی طاقت کے مطابق تیرے عہد و پیمان پر قائم ہوں ، میں  اپنے کیے کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں ، تیری نعمت کا جو مجھ پر ہے اقرار کرتا ہوں  اور اپنے گناہوں  کا اقراری ہوں ، مجھے بخش دے تیرے سوا گناہ کوئی نہیں  بخش سکتا۔حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ جو یقینِ قلبی کے ساتھ دن میں  یہ کہہ لے پھر اسی دن شام سے پہلے مرجائے تو وہ جنتی ہوگا اور جو یقینِ دل کے ساتھ رات میں  یہ کہہ لے پھر صبح سے پہلے مرجائے تو وہ جنتی ہوگا۔(بخاری، کتاب الدعوات، باب افضل الاستغفار، ۴  ۱۸۹، الحدیث: ۶۳۰۶)

Scroll to Top