سُوْرَۃُ المُدَّثِّر

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُ(1)قُمْ فَاَنْذِرْ(2)

ترجمہ: کنزالعرفان

اے چادر اوڑھنے والے ۔کھڑے ہوجاؤ پھر ڈر سناؤ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُ: اے چادر اوڑھنے والے۔} شانِ نزول: حضرت جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میں  حرا پہاڑ پر تھا کہ مجھے ندا کی گئی ’’یَا مُحَمَّدْ اِنَّکَ رسولُ   اللّٰہ‘‘ میں  نے اپنے دائیں  بائیں  دیکھا توکچھ نہ پایا اور جب اوپر دیکھا تو ایک شخص (یعنی وہی فرشتہ جس نے ندا کی تھی) آسمان اور زمین کے درمیان بیٹھا ہے ،یہ دیکھ کر مجھ پر رُعب طاری ہوا اور میں  حضرت خدیجہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا کے پاس آیا اور میں  نے انہیں  کہا کہ مجھے چادر اُڑھاؤ، انہوں  نے چادر اُڑھا دی،اس کے بعد حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام آئے اور انہوں  نے کہا ’’یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُ‘‘ اے چادر اوڑھنے والے۔( مدارک، المدثر، تحت الآیۃ: ۱، ص۱۲۹۶)

{قُمْ: کھڑے ہوجاؤ ۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ اے چادر اوڑھنے والے (نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،) آپ اپنی خواب گاہ سے کھڑے ہو جائیں  ،پھر اپنی قوم کو ایمان نہ لانے پر اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرائیں ۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ اے چادر اوڑھنے والے (نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،) آپ اپنی خواب گاہ سے کھڑے ہو جائیں  پھر تمام لوگوں  کو ایمان نہ لانے پر اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرائیں  کیونکہ آپ تمام لوگوں  کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں ۔( مدارک، المدثر، تحت الآیۃ: ۲، ص۱۲۹۶، روح البیان، المدثر، تحت الآیۃ: ۲، ۱۰ / ۲۲۴، ملتقطاً)

وَ رَبَّكَ فَكَبِّرْ(3)وَ ثِیَابَكَ فَطَهِّرْ(4)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اپنے رب ہی کی بڑائی بیان کرو۔اور اپنے کپڑے پاک رکھو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ رَبَّكَ فَكَبِّرْ: اور اپنے رب ہی کی بڑائی بیان کرو۔} یعنی بتوں  کے پُجاری اللّٰہ تعالیٰ کی شان میں  جو بکواس کرتے ہیں  آپ اس سے اللّٰہ تعالیٰ کی عظمت اور بڑائی بیان کریں ۔مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اَللّٰہُ اَکْبَر فرمایا، حضرت خدیجہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا نے بھی حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تکبیرسن کر تکبیر کہی اور خوش ہوئیں  اور انہیں  یقین ہوگیا کہ وحی آئی ہے۔( خازن، المدثر، تحت الآیۃ: ۳، ۴ / ۳۲۶، مدارک، المدثر، تحت الآیۃ: ۳، ص۱۲۹۶، ملتقطاً)

{وَ ثِیَابَكَ فَطَهِّرْ: اور اپنے کپڑے پاک رکھو۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنے کپڑے ہر طرح کی نجاست سے پاک رکھیں  کیونکہ نماز کیلئے طہارت ضروری ہے اور نماز کے علاوہ اور حالتوں  میں  بھی کپڑے پاک رکھنا بہتر ہے ۔ دوسرا معنٰی یہ ہے کہ آپ کے کپڑے عربوں کی عادت کے مطابق زیادہ لمبے نہ ہوں  کیونکہ بہت زیادہ لمبے ہونے کی وجہ سے چلنے پھرنے کے دوران کپڑے نجس ہونے کا اِحتمال رہتا ہے۔( مدارک، المدثر، تحت الآیۃ: ۴، ص۱۲۹۶)

وَ الرُّجْزَ فَاهْجُرْ(5)وَ لَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ(6)وَ لِرَبِّكَ فَاصْبِرْﭤ(7)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور گندگی سے دور رہو۔اور زیادہ لینے کی خاطر کسی پر احسان نہ کرو۔اور اپنے رب کے لیے ہی صبر کرتے رہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ الرُّجْزَ فَاهْجُرْ: اور گندگی سے دور رہو۔} امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں : ’’اس آیت میں  اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو (پہلے کی طرح) بتوں  کی عبادت سے دور رہنے پر قائم رہنے کا حکم دیا ہے لہٰذا جس طرح مسلمان کے اس قول ’’اِهْدِنَا ‘‘ کا یہ معنی نہیں  کہ اے اللّٰہ ہم ہدایت پر نہیں  اس لئے ہمیں  ہدایت عطا فرما،بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ ہمیں  اس ہدایت پر ثابت قدم رکھ تو اسی طرح یہاں  ہے (کہ اس آیت کا یہ مطلب نہیں  کہ پہلے حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بتوں  کی پوجا کرتے تھے اور اب انہیں  اس سے منع کیا جارہا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح آپ پہلے بتوں  کی پوجا کرنے سے دور تھے اسی طرح ہمیشہ اس سے دور ہی رہئے)۔( تفسیرکبیر، المدثر، تحت الآیۃ: ۵، ۱۰ / ۷۰۰)

{وَ لَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ: اور زیادہ لینے کی خاطر کسی پر احسان نہ کرو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنا مال کسی کو اس نیت سے ہدئیے کے طور پر نہ دینا کہ وہ آپ کو اس سے زیادہ دے گا۔

            یاد رہے کہ دنیا میں  تحفے اور نیوتے دینے کے معاملے میں  دستور ہے کہ دینے والا یہ خیال کرتا ہے کہ جس کو میں  نے دیا ہے وہ موقع آنے پر مجھے اس سے زیادہ دیدے گا ،اس قسم کے نیوتے اور ہدیئے شرعاً اگرچہ جائز ہیں  لیکن نبی ٔکریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس سے منع فرمایا گیا کیونکہ شانِ نبوت بہت اَرفع واعلیٰ ہے اور اس مَنصب ِعالی کے لائق یہی ہے کہ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جس کو جو کچھ دیں  وہ محض کرم کے طور پرہو اور جسے دیا اس سے لینے یا نفع حاصل کرنے کی نیت نہ ہو۔( خازن، المدثر، تحت الآیۃ: ۶، ۴ / ۳۲۷، خزائن العرفان، المدثر، تحت الآیۃ: ۶، ص۱۰۶۶، ملتقطاً)

{وَ لِرَبِّكَ فَاصْبِرْ: اور اپنے رب کے لیے ہی صبر کرتے رہو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی رضا کے لئے اس کی اطاعت،اس کے احکامات،اس کے ممنوعات اور ان ایذاؤں  پر صبر کرتے رہیں  جو دین کی خاطر آپ کو ( کُفّار کی طرف سے) برداشت کرنی پڑیں ۔( خازن، المدثر، تحت الآیۃ: ۷، ۴ / ۳۲۷)

فَاِذَا نُقِرَ فِی النَّاقُوْرِ(8)فَذٰلِكَ یَوْمَىٕذٍ یَّوْمٌ عَسِیْرٌ(9)عَلَى الْكٰفِرِیْنَ غَیْرُ یَسِیْرٍ(10)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر جب صور میں پھونکا جائے گا۔تو وہ دن بڑا سخت دن ہوگا ۔کافروں پر آسان نہیں ہوگا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاِذَا نُقِرَ فِی النَّاقُوْرِ: پھر جب صور میں  پھونکا جائے گا۔} سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے چند باتیں  ارشاد فرمانے کے بعد یہاں  سے اللّٰہ تعالیٰ نے بدبخت کافروں  کے لئے وعید بیان فرمائی ہے،چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب دوسری بار صور میں  پھونک ماری جائے گی تو وہ دن عذاب اور برے حساب کے اعتبار سے سخت دن ہوگا اور وہ کافروں  پر آسان نہیں  ہوگا کیونکہ ان سے سخت حساب لیا جائے گا اور ان کے اعمال نامے ان کے بائیں  ہاتھوں  میں  دئیے جائیں  گے اور ان کے چہرے سیاہ ہوں  گے اور ان کے اَعضاء کلام کریں  گے اور وہ محشر میں  سب لوگوں  کے سامنے رُسوا ہوں  گے۔اس سے معلوم ہوا کہ وہ دن اللّٰہ تعالیٰ کے فضل سے مومنین پر آسان ہوگا۔( تفسیر کبیر ، المدثر ، تحت الآیۃ: ۸ ، ۱۰ / ۷۰۲ ، خازن ، المدثر ، تحت الآیۃ: ۸-۱۰، ۴ / ۳۲۷، روح البیان، المدثر، تحت الآیۃ: ۸-۱۰، ۱۰ / ۲۲۷، ملتقطاً)

ذَرْنِیْ وَ مَنْ خَلَقْتُ وَحِیْدًا(11)وَّ جَعَلْتُ لَهٗ مَالًا مَّمْدُوْدًا(12)وَّ بَنِیْنَ شُهُوْدًا(13)وَّ مَهَّدْتُّ لَهٗ تَمْهِیْدًا(14)ثُمَّ یَطْمَعُ اَنْ اَزِیْدَ(15)كَلَّاؕ-اِنَّهٗ كَانَ لِاٰیٰتِنَا عَنِیْدًاﭤ(16)سَاُرْهِقُهٗ صَعُوْدًاﭤ(17)

ترجمہ: کنزالعرفان

اسے مجھ پر چھوڑ دوجسے میں نے اکیلا پیدا کیا۔اور اسے وسیع مال دیا۔اور سامنے حاضر رہنے والے بیٹے دئیے ۔اور میں نے اس کے لیے (نعمتوں کو) خوب بچھا دیا۔پھر وہ طمع کرتا ہے کہ میں اور زیادہ دوں ۔ہرگز نہیں ،یقیناوہ تو ہماری آیتوں سے دشمنی رکھتا ہے ۔جلد ہی میں اسے (آگ کے پہاڑ) صعود پر چڑھاؤں گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ذَرْنِیْ وَ مَنْ خَلَقْتُ وَحِیْدًا: اسے مجھ پر چھوڑ دوجسے میں  نے اکیلا پیدا کیا۔} شانِ نزول: ولید بن مغیرہ مخزومی اپنی قوم میں  وحید یعنی یکتاکے لقب سے مشہورتھا ،ا س کے بارے میں  یہ آیت نازل ہوئی ، چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی 5آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کی طرف سے اس سے انتقام لینے کے لئے میں  کافی ہوں جسے میں  نے اس کی ماں  کے پیٹ سے مال اور اولاد کے بغیر اکیلا پیدا کیا، پھر میں  نے اس پر انعام کیا اور اسے کھیتیوں ، کثیر مویشیوں  اور تجارتوں  سے وسیع مال دیا اوراسے ایسے دس بیٹے دئیے جنہیں  مالدار ہونے کی وجہ سے مال کمانے کیلئے سفر کرنے کی حاجت نہ تھی اس لئے وہ سب باپ کے سامنے رہتے اور میں  نے اس کے لیے دُنْیوی نعمتوں  کوخوب بچھا دیا کہ اسے (قوم میں ) عزت و مرتبہ بھی دیا، ریاست بھی عطا فرمائی ، عیش بھی دیا اور لمبی عمر بھی عطا کی،پھر وہ میری ناشکری کے باوجود حرص اور ہَوس کی وجہ سے یہ امید کرتا ہے کہ میں  اسے مال و اولاداور زیادہ دوں ۔ ایسا ہرگز نہیں  ہوگا اورآج کے بعد اس کے کفر کے ہوتے ہوئے اس کی نعمتوں  میں  اضافہ نہیں  ہو گا اورا س کی وجہ یہ ہے کہ وہ میری آیتوں  سے دشمنی رکھتا ہے اور ان کاا نکار کرتا ہے۔( خازن ، المدثر ، تحت الآیۃ: ۱۱-۱۶، ۴ / ۳۲۷-۳۲۸، روح البیان، المدثر، تحت الآیۃ: ۱۱-۱۶، ۱۰ / ۲۲۸، مدارک، المدثر، تحت الآیۃ: ۱۱-۱۶، ص۱۲۹۷، ملتقطاً)

{وَ جَعَلْتُ لَهٗ مَالًا مَّمْدُوْدًا: اور اسے وسیع مال دیا۔} حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  ’’ولید بن مغیرہ کے پاس9000مثقال (یعنی تقریباً 3375 تولے) چاندی تھی اور ا س کے پاس اونٹ، گھوڑے اور مویشی اتنے زیادہ تھے کہ مکہ سے لے کر طائف تک کا علاقہ بھر جاتا تھا اور ان کے علاوہ کثیر تعداد میں  بکریاں ، غلام اور لونڈیاں  بھی تھیں ۔حضرت مجاہد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے منقول ہے کہ ولید بن مغیرہ کے پاس ایک لاکھ دینار نقد موجود تھے اور طائف میں  اس کا ایسا بڑا باغ تھا جو سال کے کسی وقت پھلوں  سے خالی نہ ہوتا تھا۔( خازن، المدثر، تحت الآیۃ: ۱۲، ۴ / ۳۲۸، مدارک، المدثر، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۱۲۹۷، ملتقطاً)

{وَ بَنِیْنَ شُهُوْدًا: اور سامنے حاضر رہنے والے بیٹے دئیے۔} ولید بن مغیرہ کے دس بیٹوں  میں  سے تین مُشَرَّف   بَہ اسلام ہوئے اور ان میں  سے ایک اسلامی لشکروں  کے مشہور سِپہ سالار اور ملکِ شام کے فاتح حضرت خالد بن ولید رَضِیَ  اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہیں ۔

{كَلَّا: ہرگز نہیں ۔} منقول ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد ولید کے مال ، اولاد اور عزت و مرتبے میں  کمی ہونا شروع ہوگئی یہاں  تک کہ (وہ بڑی ذلت و خواری کے ساتھ) ہلاک ہوگیا۔( خازن، المدثر، تحت الآیۃ: ۱۶، ۴ / ۳۲۸)

{سَاُرْهِقُهٗ صَعُوْدًا: جلد ہی میں  اسے (آگ کے پہاڑ) صعود پر چڑھاؤں گا۔} حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’صعود آگ کا ایک پہاڑ ہے جس پر کافر کو ستر سال تک چڑھایا جائے گا،پھر ستر سال تک اسے اس پہاڑ سے نیچے گرایا جائے گا اور یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا۔( ترمذی، کتاب التفسیر ، باب ومن سورۃ المدثر، ۵ / ۲۱۶،الحدیث: ۳۳۳۷)

اِنَّهٗ فَكَّرَ وَ قَدَّرَ(18)فَقُتِلَ كَیْفَ قَدَّرَ(19)ثُمَّ قُتِلَ كَیْفَ قَدَّرَ(20)ثُمَّ نَظَرَ(21)ثُمَّ عَبَسَ وَ بَسَرَ(22)ثُمَّ اَدْبَرَ وَ اسْتَكْبَرَ(23)فَقَالَ اِنْ هٰذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ یُّؤْثَرُ(24)اِنْ هٰذَاۤ اِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِﭤ(25)سَاُصْلِیْهِ سَقَرَ(26)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک اس نے سوچا اور دل میں کوئی بات ٹھہرالی ۔تو اس پر لعنت ہو ، اس نے کیسی بات ٹھہرائی۔پھر اس پر لعنت ہو ،اس نے کیسی بات ٹھہرائی ۔پھر نظر اٹھا کر دیکھا۔پھر اس نے تیوری چڑھائی اور منہ بگاڑا۔پھر پیٹھ پھیری اور تکبر کیا۔پھر بولا: یہ تو وہی جادو ہے جو منقول چلتا آرہا ہے۔یہ آدمی ہی کا کلام ہے۔جلد ہی میں اسے دوزخ میں دھنساؤں گا ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّهٗ فَكَّرَ وَ قَدَّرَ: بیشک اس نے سوچا اور دل میں  کوئی بات ٹھہرا لی۔} شانِ نزول: جب یہ آیت ’’ حٰمٓۚ(۱) تَنْزِیْلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللّٰهِ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ‘‘ نازل ہوئی اورسرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مسجد میں  نماز کے دوران  تلاوت فرمائی تو ولید نے اس آیت کو سنا اور اپنی قوم کی مجلس میں  آکر اُس نے کہا کہ خدا کی قسم !میں  نے محمد(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) سے ابھی ایک کلام سنا ہے، نہ وہ کلام آدمی کا ہے اور نہ جن کا، خدا کی قسم! اس کلام میں  عجیب شیرینی، تازگی ، فوائد اور دل کَشی ہے،وہ کلام سب پر غالب رہے گا ۔ قریش کو اُس کی اِن باتوں  سے بہت غم ہوا اور ان میں  مشہور ہوگیا کہ ولید اپنے آبائی دین سے مُنْحَرِف ہوگیا ہے۔ابوجہل نے ولید کو سمجھانے کا ذمہ لیااور اس کے پاس آکر بہت غمزدہ صورت بنا کر بیٹھ گیا۔ ولید نے کہا :تمہیں کیا غم ہے؟ ابوجہل نے کہا :غم کیسے نہ ہو، تو بوڑھا ہوگیاہے اور قریش تیرے خرچ کیلئے روپیہ جمع کردیں  گے، اُنہیں  خیال ہے کہ تو نے محمد (مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کے کلام کی تعریف اس لئے کی ہے کہ تجھے ان کے دستر خوان کا بچا ہوا کھانا مل جائے۔ اس پر اُسے بہت طیش آیا اور کہنے لگا کہ کیا قریش کو میرے مال و دولت کا حال معلوم نہیں  ہے اور کیا محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) اور ان کے اَصحاب نے کبھی سیر ہو کر کھانا بھی کھایا ہے جو اُن کے دستر خوان پر کچھ بچے گا۔ پھر وہ ابوجہل کے ساتھ اُٹھا اور قوم میں  آکر کہنے لگا:تمہیں  خیال ہے کہ محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) مجنون ہیں  ،کیا تم نے اُن میں  کبھی دیوانگی کی کوئی بات دیکھی؟ سب نے کہا: ہرگز نہیں ۔ولید کہنے لگا :تم انہیں  کاہِن سمجھتے ہو ،کیا تم نے انہیں  کبھی کہانت کرتے دیکھاہے؟ سب نے کہا: ہرگز نہیں ۔ ولید بولا: تم انہیں  شاعر گمان کرتے ہو ،کیا تم نے کبھی انہیں  شعر کہتے ہوئے پایا ہے؟سب نے کہا:ہرگز نہیں : ولید کہنے لگا: تم انہیں  کَذّاب کہتے ہو، کیا تمہارے تجربہ میں  ایسا ہے کہ کبھی اُنہوں  نے جھوٹ بولا ہو؟سب نے کہا: ہرگز نہیں  اور قریش میں  آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سچائی اور دیانت ایسی مشہور تھی کہ قریش آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو امین کہا کرتے تھے۔ یہ سن کر قریش نے کہا :ولید!پھر بات کیا ہے؟ تو ولید سوچ کر بولا کہ بات یہ ہے کہ وہ جادو گر ہیں ، تم نے دیکھا ہوگا کہ ان کی بدولت رشتہ دار رشتہ دار سے اورباپ بیٹے سے جدا ہوجاتے ہیں  بس یہی جادو گر کا کام ہے اور جو قرآن وہ پڑھتے ہیں  وہ دل میں  اثر کر جاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جادو ہے۔اس سے متعلق یہ آیات نازل ہوئیں ۔

چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی 8آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ ولید بن مغیرہ نے سوچا کہ وہ اُس قرآن کے بارے میں  کیا کہے جو اس نے نبی ٔکریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سنا ،چنانچہ اس نے غوروفکر کر کے اپنے دل میں  وہ کلام مُرَتَّب کر لیا جو اس نے قرآن کے بارے میں  کہنا تھا ۔ اب فرمانِ الٰہی ہوتا ہے کہ اس پر لعنت ہو ، اس نے اپنے دل میں  کیسی عجیب بات ٹھہرائی ہے ۔ پھراس پر لعنت ہو ، اس نے اپنے دل میں  کیسی حیرت انگیزبات ٹھہرائی ہے۔پھر اس نے نظر اٹھا کر اپنی قوم کے چہروں  کی طرف دیکھا۔پھر اس نے کسی چیز میں  غور کرنے والے کی طرح تیوری چڑھائی اور منہ بگاڑا۔پھراس نے ایمان لانے سے پیٹھ پھیری اورتاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کرنے کو اپنی بڑائی کے خلاف سمجھا۔پھر قرآنِ مجید کے بارے میں  بولا: یہ تو وہی جادو ہے جو جادوگروں  سے منقول چلتا آرہا ہے اوریہ کسی آدمی ہی کا کلام ہے۔یہ سن لے کہ جلد ہی اللّٰہ تعالیٰ اسے دوزخ میں  دھنسادے گا۔(جلالین، المدثر، تحت الآیۃ: ۱۸-۲۶، ص۴۸۰، خازن، المدثر، تحت الآیۃ: ۱۸-۲۶، ۴ / ۳۲۹، ملتقطاً)

وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا سَقَرُﭤ(27)لَا تُبْقِیْ وَ لَا تَذَرُ(28)لَوَّاحَةٌ لِّلْبَشَرِ(29)عَلَیْهَا تِسْعَةَ عَشَرَﭤ(30)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور تمہیں کیا معلوم کہ دوزخ کیا ہے؟نہ باقی رہنے دے گی اور نہ چھوڑے گی ۔آدمی کی کھال جلا دینے والی ہے ۔اس پر اُنیس داروغہ ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا سَقَرُ: اور تمہیں  کیا معلوم کہ دوزخ کیا ہے؟} اس آیت اور ا س کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے مُخاطَب! تمہیں  کیا معلوم کہ دوزخ کیا ہے ؟ وہ ایسی جگہ ہے کہ عقل اس کی شدت اور سختی کا اندازہ نہیں  لگا سکتی، وہ نہ کسی عذاب کے مُسْتحق کو چھوڑے گی اور نہ کسی کے جسم پر گوشت پوست کھال لگی رہنے دے گی، بلکہ عذاب کے مُستحق کو گرفتار کرے گی اور گرفتار کو جلائے گی اور ایسا نہیں  ہو گا کہ ہلاک ہونے کے بعد معاملہ ختم ہو جائے گا بلکہ جب اس میں  داخل لوگ جل جائیں  گے تو پھر ویسے ہی کردیئے جائیں  گے جیسے پہلے تھے اور جہنم پھر انہیں  جلائے گی،وہ جہنم تو جلا کر آدمی کی کھال اتارلینے والی ہے اور اس پر 19 فرشتے حضرت مالک عَلَیْہِ السَّلَام اور ان کے اٹھارہ ساتھی داروغہ کے طور پر مقررہیں ۔( روح البیان، المدثر، تحت الآیۃ: ۲۷-۳۰، ۱۰ / ۲۳۱، خازن، المدثر، تحت الآیۃ: ۲۷-۳۰، ۴ / ۳۲۹، ملتقطاً)

کفار کا سخت عذاب اور جہنم کی شدت:

            کفار کے سخت عذاب اورجہنم کی شدت کے بارے میں ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِیْهِمْ نَارًاؕ-كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُهُمْ بَدَّلْنٰهُمْ جُلُوْدًا غَیْرَهَا لِیَذُوْقُوا الْعَذَابَؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَزِیْزًا حَكِیْمًا‘‘(النساء:۵۶)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ لوگ جنہوں  نے ہماریآیتوں  کا انکار کیا عنقریب ہم ان کو آگ میں  داخل کریں گے۔ جب کبھی ان کی کھالیں  خوب جل جائیں  گی توہم ان کی کھالوں  کو دوسری کھالوں  سے بدل دیں  گے کہ عذاب کا مزہ چکھ لیں ۔ بیشک اللّٰہ زبردست ہے، حکمت والا ہے۔

            اور ارشاد فرمایا: ’’اِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِیْنَ نَارًاۙ-اَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَاؕ-وَ اِنْ یَّسْتَغِیْثُوْا یُغَاثُوْا بِمَآءٍ كَالْمُهْلِ یَشْوِی الْوُجُوْهَؕ-بِئْسَ الشَّرَابُؕ-وَ سَآءَتْ مُرْتَفَقًا‘‘(کہف:۲۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ہم نے ظالموں  کے لیے وہ آگ تیار کر رکھی ہے جس کی دیواریں  انہیں  گھیر لیں  گی اور اگروہ پانی کے لیے فریاد کریں  تو ان کی فریاد اس پانی سے پوری کی جائے گی جو پگھلائے ہوئے تانبے کی طرح ہوگا جو اُن کے منہ کوبھون دے گا۔ کیا ہی برا پینا اور دوزخ کیا ہی بری ٹھہرنے کی جگہ ہے۔

            اللّٰہ تعالیٰ ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے اور ایمان کی حالت میں  ہی ہمیں  موت نصیب فرمائے اور جہنم کے انتہائی سخت اور دردناک عذاب سے ہمیں  نجات عطا فرمائے،اٰمین۔

وَ مَا جَعَلْنَاۤ اَصْحٰبَ النَّارِ اِلَّا مَلٰٓىٕكَةً۪-وَّ مَا جَعَلْنَا عِدَّتَهُمْ اِلَّا فِتْنَةً لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْاۙ-لِیَسْتَیْقِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَ یَزْدَادَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِیْمَانًا وَّ لَا یَرْتَابَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ-وَ لِیَقُوْلَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ وَّ الْكٰفِرُوْنَ مَا ذَاۤ اَرَادَ اللّٰهُ بِهٰذَا مَثَلًاؕ-كَذٰلِكَ یُضِلُّ اللّٰهُ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ مَا یَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّكَ اِلَّا هُوَؕ-وَ مَا هِیَ اِلَّا ذِكْرٰى لِلْبَشَرِ(31)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ہم نے دوزخ کے داروغے فرشتے ہی بنائے اور ہم نے ان کی یہ گنتی کافروں کی آزمائش کیلئے ہی رکھی اس لیے کہ کتاب والوں کو یقین ہوجائے اور ایمان والوں کا ایمان بڑھے اور اہلِ کتاب اور مسلمان شک نہ کریں اور تاکہ جن کے دلوں میں مرض ہے وہ اور کافر کہیں : اس عجیب و غریب بات سے اللہ کی کیا مراد ہے ؟ یونہی اللہ گمراہ کرتا ہے جسے چاہتا ہے اور ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور تمہارے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتااور وہ جہنم توانسان کیلئے نصیحت ہی ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مَا جَعَلْنَاۤ اَصْحٰبَ النَّارِ اِلَّا مَلٰٓىٕكَةً: اور ہم نے دوزخ کے داروغے فرشتے ہی بنائے۔} شانِ نزول: حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں’’جب یہ آیت نازل ہوئی (جس میں  دوزخ پر مقرر فرشتوں  کی تعداد 19 بتائی گئی) تو ابو جہل نے قریش سے کہا’’تمہاری ماں  تم پر روئے، محمد (مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) نے خبر دی ہے کہ دوزخ کے داروغہ 19 ہیں  اور تم انتہائی بہادر اور تعداد میں  کثیرلوگ ہو تو کیا تم میں  سے دس مرد دوزخ کے ایک داروغہ کو نہیں  پکڑ سکتے؟ابو الاشد بن اُسید نے کہا:میں  اکیلا ان میں  سے 17 کو کافی ہوں  گا،10اپنی پیٹھ پر رکھ لوں  گا اور 7 اپنے پیٹ پر باقی دو کو تم سنبھال لینا۔اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اس کاخلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے دوزخ کے داروغے انسانوں  میں  مرد نہیں  بنائے جن پر کفار غالب آ جائیں  گے بلکہ اللّٰہ تعالیٰ نے دوزخ کے داروغے فرشتے ہی بنائے ہیں  لہٰذا ان میں  سے ایساکون ہے جو فرشتوں  پر غالب آ سکے اور اللّٰہ تعالیٰ نے ان فرشتوں  کی یہ قلیل تعداد کافروں  کی اس آزمائش کیلئے ہی رکھی ہے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کی حکمت پر اعتماد نہ کرکے اس تعداد میں  کلام کریں  اور کہیں  کہ19کیوں  ہوئے ،نیز یہ تعداد بیان کرنے میں  چار باتیں  اور مقصود ہیں  ۔

(1)… تورات اور انجیل میں  لکھا ہوا تھا دوزخ کے داروغے 19 ہیں ،قرآنِ پاک میں  بھی ان کی تعداد بیان کر دی گئی تاکہ یہ تعداد اپنی کتابوں کے موافق دیکھ کر یہودیوں  کو حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صداقت کا یقین حاصل ہو۔

(2)… اہلِ کتاب میں  سے جو لوگ ایمان لائے ہیں  ان کارسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ اعتقاد اور زیادہ ہو جائے اور وہ یہ بات جان لیں  کہ حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جو کچھ فرماتے ہیں  وہ اللّٰہ تعالیٰ کی وحی ہے اور اسی لئے وہ سابقہ کتابوں  سے مطابقت رکھتی ہے۔

(3)… اہلِ کتاب اور مسلمان اس گنتی میں  شک نہ کریں  ۔

(4)… جن کے دلوں  میں  مُنافقت کا مرض ہے وہ اور کافر کہیں : اس عجیب و غریب بات سے اللّٰہ تعالیٰ کی کیا مراد ہے؟ اورجس طرح اللّٰہ تعالیٰ نے اُسے گمراہ کیا جس نے ا س تعداد کا انکار کیا اور اُسے ہدایت دی جس نے اس تعداد کی تصدیق کی،اسی طرح اللّٰہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کے لشکروں  کو اس کے سوا کوئی نہیں  جانتااور وہ یعنی جہنم اور اس کی صفت یا قرآن کی آیات توانسان کیلئے نصیحت ہی ہے۔(خازن ، المدثر ، تحت الآیۃ : ۳۱ ، ۴ / ۳۲۹-۳۳۰ ، تفسیر کبیر ، المدثر، تحت الآیۃ: ۳۱، ۱۰ / ۷۱۰-۷۱۱، مدارک، المدثر، تحت الآیۃ: ۳۱، ص۱۲۹۹، ملتقطاً)

كَلَّا وَ الْقَمَرِ(32)وَ الَّیْلِ اِذْ اَدْبَرَ(33)وَ الصُّبْحِ اِذَاۤ اَسْفَرَ(34)اِنَّهَا لَاِحْدَى الْكُبَرِ(35)نَذِیْرًا لِّلْبَشَرِ(36)لِمَنْ شَآءَ مِنْكُمْ اَنْ یَّتَقَدَّمَ اَوْ یَتَاَخَّرَﭤ(37)

ترجمہ: کنزالعرفان

خبردار! چاند کی قسم ۔اور رات کی جب پیٹھ پھیرے ۔اور صبح کی جب وہ خوب روشن ہوجائے۔بیشک دوزخ بہت بڑی چیزوں میں سے ایک چیز ہے۔آدمیوں کو ڈرانے والی ہے ۔اسے جو تم میں سے آگے بڑھنا چاہے یاپیچھے ہٹنا چاہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّهَا لَاِحْدَى الْكُبَرِ: بیشک دوزخ بہت بڑی چیزوں  میں  سے ایک چیز ہے۔} اس سے پہلے اللّٰہ تعالیٰ نے چاند، رات اور صبح کی قسم ارشاد فرمائی کیونکہ ان میں  اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت کے عجائبات ظاہر ہیں ،اس کے بعد اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات میں  ارشا دفرمایا کہ بیشک دوزخ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے سے لے کر قیامت تک کے تمام گناہگار جنوں  اور انسانوں  کو عذاب دینے پر اللّٰہ تعالیٰ کے قادر ہونے پر دلالت کرنے والی بہت بڑی چیزوں  میں  سے ایک چیز ہے اور یہ دوزخ آدمیوں  میں  سے اس کوڈرانے والی ہے جو تم میں  سے ایمان لا کربھلائی کی طرف یا جنت کی طرف آگے بڑھنا چاہے یا کفر اختیار کر کے جنت سے پیچھے ہٹنا چاہے اور جہنم کے عذاب میں  گرفتار ہونا چاہے۔( روح البیان،المدثر،تحت الآیۃ:۳۵-۳۷، ۱۰ / ۲۳۸-۲۳۹، جلالین، المدثر، تحت الآیۃ: ۳۵-۳۷، ص۴۸۱، ملتقطاً)

            اس سے معلوم ہوا کہ انسان اپنے اعمال میں  مجبورِ محض نہیں  بلکہ اسے ایک طرح کا اختیار حاصل ہے۔

كُلُّ نَفْسٍۭ بِمَا كَسَبَتْ رَهِیْنَةٌ(38)اِلَّاۤ اَصْحٰبَ الْیَمِیْنِ(39)

ترجمہ: کنزالعرفان

ہر جان اپنے کمائے ہوئے اعمال میں گروی رکھی ہے۔مگر دائیں طرف والے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{كُلُّ نَفْسٍۭ بِمَا كَسَبَتْ رَهِیْنَةٌ: ہر جان اپنے کمائے ہوئے اعمال میں  گروی رکھی ہے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جنوں  اور انسانوں  میں  سے ہر جان اپنے کئے ہوئے اعمال کی وجہ سے ایسے قید ہے جیسے وہ چیز جسے گروی رکھا ہوا ہے، البتہ کافر دائمی طور پر اور ایمان والے عارضی طور پر قید ہیں  کیونکہ کافر جہنم کے عذاب سے کبھی نجات نہ پائیں  گے جبکہ بعض ایمان والے شروع سے ہی جہنم سے نجات پاکر جنت میں  چلے جائیں  گے اوربعض اپنے گناہوں  کی سزا پانے کے بعد جنت میں  داخل ہوں  گے، ا س طر ح ایمان والے سب کے سب نجات پا جائیں  گے۔( صاوی، المدثر، تحت الآیۃ: ۳۸، ۶ / ۲۲۷۳، ملخصاً)

فِیْ جَنّٰتٍﰈ یَتَسَآءَلُوْنَ(40)عَنِ الْمُجْرِمِیْنَ(41)مَا سَلَكَكُمْ فِیْ سَقَرَ(42)قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ(43)وَ لَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِیْنَ(44)وَ كُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَآىٕضِیْنَ(45)وَ كُنَّا نُكَذِّبُ بِیَوْمِ الدِّیْنِ(46)حَتّٰۤى اَتٰىنَا الْیَقِیْنُﭤ(47)

ترجمہ: کنزالعرفان

باغوں میں ہوں گے ۔ وہ پوچھ رہے ہوں گے ۔مجرموں سے۔کون سی چیزتمہیں دوزخ میں لے گئی؟وہ کہیں گے:ہم نمازیوں میں سے نہیں تھے ۔اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے۔اور بیہودہ فکر والوں کے ساتھ بیہودہ باتیں سوچتے تھے۔اور ہم انصاف کے دن کو جھٹلاتے رہے۔یہاں تک کہ ہمیں موت آئی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فِیْ جَنّٰتٍﰈ یَتَسَآءَلُوْنَ: باغوں  میں  ہوں  گے۔ وہ پوچھ رہے ہوں  گے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی 7آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ ایمان والے آخرت میں  باغوں  میں  ہوں  گے اور جب جہنم میں  داخل ہونے والے مومن اس سے نکل جائیں  گے تو جنتی کافروں  سے ان کا حال پوچھیں  گے کہ تمہیں  کون سی چیزدوزخ میں  لے گئی؟وہ انہیں  جواب دیتے ہوئے کہیں  گے:ہم دنیا میں نماز پڑھنے والوں  میں  سے نہیں  تھے کیونکہ ہم نماز کے فرض ہونے کا اعتقاد نہیں رکھتے تھے اور مسلمانوں  کی طرح مسکین پر صدقہ نہیں  کرتے تھے اور اللّٰہ تعالیٰ کی آیات کے بارے میں  بیہودہ فکر کرنے والوں  کے ساتھ بیٹھ کر بیہودہ باتیں  سوچتے تھے اور ان کے بارے میں جھوٹی باتیں  بولتے تھے اور ہم انصاف کے اس دن کو جھٹلاتے رہے جس میں  اعمال کا حساب ہوگا اور ان کی جزا دی جائے گی ،یہاں  تک کہ ہمیں  موت آئی اور ہم ان مذموم افعال کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے جہنم میں  داخل ہو گئے۔( مدارک،المدثر،تحت الآیۃ:۴۰-۴۷،ص۱۳۰۰-۱۳۰۱، جلالین مع صاوی، المدثر، تحت الآیۃ: ۴۰-۴۷، ۶ / ۲۲۷۳ -۲۲۷۴، روح البیان، المدثر، تحت الآیۃ: ۴۰-۴۷، ۱۰ / ۲۴۰، ملتقطاً)

فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشّٰفِعِیْنَﭤ(48)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو انہیں سفارشیوں کی سفارش کام نہ دے گی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشّٰفِعِیْنَ: تو انہیں  سفارشیوں  کی سفارش کام نہ دے گی۔} یعنی انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام، فرشتے،شُہداء اورصالحین جنہیں  اللّٰہ تعالیٰ نے شفاعت کرنے کا اِذن دیا ہے وہ ایمانداروں کی شفاعت کریں  گے اور کافروں کی شفاعت نہیں  کریں  گے، لہٰذاجو لوگ ایمان نہیں  رکھتے انہیں  قیامت کے دن شفاعت مُیَسَّر بھی نہ ہو گی۔( مدارک، المدثر، تحت الآیۃ: ۴۸، ص۱۳۰۱، جلالین مع صاوی، المدثر، تحت الآیۃ: ۴۸، ۶ / ۲۲۷۴، ملتقطاً)

گناہگار مسلمانوں  کی شفاعت ہو گی :

            اس آیت سے ثابت ہوا کہ قیامت کے دن گناہگار مسلمانوں  کے لئے شفاعت ہو گی اور انہیں  شفاعت کام  بھی آئے گی اور یہ بات کثیر اَحادیث سے بھی ثابت ہے،جیسا کہ حضرت عبداللّٰہ بن شقیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ’’میں  اِیلیا کے مقام پر ایک قافلے کے ساتھ تھا،ان میں  سے ایک شخص نے کہا:میں نے رسولُ   اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میری امت کے ایک آدمی کی شفاعت کے ذریعے بنو تمیم کی آبادی کی تعداد سے زیادہ لوگ جنت میں  داخل ہوں  گے۔ عرض کی گئی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا وہ شخص آپ کے علاوہ کوئی اور ہو گا؟ارشاد فرمایا: ’’ہاں ! میرے علاوہ کوئی اور ہو گا۔( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، ۱۱-باب منہ، ۴ / ۱۹۹، الحدیث: ۲۴۴۶)

            اورحضرت حارث بن قیس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مَروی ہے،نبی ٔاکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میری امت کے بعض لوگ ایسے ہوں  گے جن کی شفاعت کے ذریعے قبیلۂ مُضَر کے لوگوں  سے زیادہ لوگ بخشے جائیں  گے۔( ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب صفۃ النار، ۴ / ۵۳۱، الحدیث: ۴۳۲۳)

فَمَا لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِیْنَ(49)كَاَنَّهُمْ حُمُرٌ مُّسْتَنْفِرَةٌ(50)فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍﭤ(51)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو انہیں کیا ہوا نصیحت سے منہ پھیرے ہوئے ہیں ۔گویا وہ بھڑکے ہوئے گدھے ہوں ۔جو شیر سے بھاگے ہوں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَمَا لَهُمْ: تو انہیں  کیا ہوا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ مُشرکین نادانی اور بے وقوفی میں  گدھے کی طرح ہیں  کہ جس طرح شیر کو دیکھ کر خوفزدہ ہو کر گدھا بھاگتاہے اسی طرح یہ لوگ نبی ٔکریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تلاوتِ قرآن سن کر ان سے بھاگتے ہیں  اور قرآن کی نصیحتوں  سے اِعراض کرتے ہیں ۔( خازن، المدثر، تحت الآیۃ: ۴۹-۵۱، ۴ / ۳۳۲)

بَلْ یُرِیْدُ كُلُّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ اَنْ یُّؤْتٰى صُحُفًا مُّنَشَّرَةً(52)كَلَّاؕ-بَلْ لَّا یَخَافُوْنَ الْاٰخِرَةَﭤ(53)

ترجمہ: کنزالعرفان

بلکہ ان میں سے ہر شخص چاہتا ہے کہ اسے کھلے صحیفے ہاتھ میں دیدیے جائیں ۔ہرگز نہیں بلکہ وہ آخرت سے ڈر تے نہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{بَلْ یُرِیْدُ كُلُّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ: بلکہ ان میں  سے ہر شخص چاہتا ہے۔} کفارِ قریش نے نبی ٔکریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ سے کہا تھا کہ ہم اس وقت تک ہر گز آپ کی پیروی نہیں  کریں  گے جب تک کہ ہم میں  ہر ایک کے پاس اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایک کتاب نہ آئے جس میں  لکھا ہواہو کہ یہ اللّٰہ تعالیٰ کی کتاب ہے اورفلاں  بن فلاں  کے نام ہے ہم اس میں  تمہیں  رسولُ   اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی کرنے کا حکم دیتے ہیں ۔اس پر اللّٰہ تعالیٰ نے اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں  ارشاد فرمایا کہ یہ نصیحت انہیں  کافی نہیں  اور نہ ہی وہ راضی ہوں  گے بلکہ ان میں  سے ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ اسے اس کے نام پرنازل کئے ہوئے کھلے صحیفے ہاتھ میں  دیدیے جائیں ، ایسا ہرگز نہیں ہوگا کہ صحیفے ان کے ہاتھ میں  دیدئے جائیں بلکہ وہ لوگ آخرت سے ڈر تے نہیں  کیونکہ اگر انہیں  آخرت کا خوف ہوتا تو دلائل قائم ہونے اور معجزات ظاہر ہونے کے بعد اس قسم کی سرکشی والی حیلہ بازیاں  نہ کرتے۔( خازن، المدثر، تحت الآیۃ: ۵۲-۵۳، ۴ / ۳۳۲، روح البیان، المدثر، تحت الآیۃ: ۵۲-۵۳، ۱۰ / ۲۴۲، مدارک، المدثر، تحت الآیۃ: ۵۲-۵۳، ص۱۳۰۱، ملتقطاً)

كَلَّاۤ اِنَّهٗ تَذْكِرَةٌ(54)فَمَنْ شَآءَ ذَكَرَهٗﭤ(55)وَ مَا یَذْكُرُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُؕ-هُوَ اَهْلُ التَّقْوٰى وَ اَهْلُ الْمَغْفِرَةِ(56)

ترجمہ: کنزالعرفان

سن لو! بیشک وہ نصیحت ہے۔تو جو چاہے اس سے نصیحت حاصل کرے ۔اور وہ اللہ کے چاہنے سے ہی نصیحت حاصل کرسکتے ہیں ۔ وہی لائق ہے کہ(اس سے)ڈرا جائے اور مغفرت فرمانے والاہے ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{كَلَّا: سن لو!۔} اس آیت اوراس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے لوگو! سن لو، بیشک وہ قرآن شریف عظیم نصیحت ہے تو جو چاہے اس سے نصیحت حاصل کرے کیونکہ اس کا فائدہ اسے ہی ہو گا اور وہ اللّٰہ تعالیٰ کے چاہنے سے ہی نصیحت حاصل کرسکتے ہیں  ۔وہی اللّٰہ اس لائق ہے کہ اس کے بندے اس سے ڈریں  اور ا س کے عذاب سے خوفزدہ ہوں ، اس پر ایمان لائیں  اور اس کی اطاعت کریں  اور وہی بندوں  کے سابقہ کفر اور گناہوں  کی مغفرت فرمانے والا ہے۔( خازن، المدثر، تحت الآیۃ: ۵۴-۵۶، ۴ / ۳۳۲)

اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرنے کی فضیلت:

            حضرتِ انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس آیت ’’هُوَ اَهْلُ التَّقْوٰى وَ اَهْلُ الْمَغْفِرَةِ‘‘ کے بارے میں ارشاد فرمایا’’اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے’’میں  اس لائق ہوں  کہ مجھ سے ڈرا جائے لہٰذا جو مجھ سے ڈرا اور ا س نے میرے ساتھ کوئی دوسرا خدا نہ بنایا تو میں  اس بات کا اہل ہوں  کہ اسے بخش دوں ۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ المدثر،۵ / ۲۱۷، الحدیث: ۳۳۳۹)



Scroll to Top