سُوْرَۃ مُحَمَّد

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ صَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَضَلَّ اَعْمَالَهُمْ(1)

ترجمہ: کنزالعرفان

جنہوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا، اللہ نے ان کے اعمال برباد کردئیے

 

تفسیر: هٰۤاَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۚ-فَمِنْكُمْ مَّنْ یَّبْخَلُۚ-وَ مَنْ یَّبْخَلْ فَاِنَّمَا یَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِهٖؕ-وَ اللّٰهُ الْغَنِیُّ وَ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُۚ-وَ اِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَكُمْۙ-ثُمَّ لَا یَكُوْنُوْۤا اَمْثَالَكُمْ(38)

ترجمہ: کنزالعرفان

ہاں ہاں یہ تم ہوجو بلائے جاتے ہو تاکہ تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو تو تم میں کوئی بخل کرتا ہے اور جو بخل کرے وہ اپنی ہی جان سے بخل کرتا ہے اور اللہ بے نیاز ہے اور تم سب محتاج ہو اور اگر تم منہ پھیرو گے تو وہ تمہارے سوا اور لوگ بدل دے گا پھر وہ تم جیسے نہ ہوں گے۔

هٰۤاَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۚ-فَمِنْكُمْ مَّنْ یَّبْخَلُۚ-وَ مَنْ یَّبْخَلْ فَاِنَّمَا یَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِهٖؕ-وَ اللّٰهُ الْغَنِیُّ وَ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُۚ-وَ اِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَكُمْۙ-ثُمَّ لَا یَكُوْنُوْۤا اَمْثَالَكُمْ(38)

ترجمہ: کنزالعرفان

ہاں ہاں یہ تم ہوجو بلائے جاتے ہو تاکہ تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو تو تم میں کوئی بخل کرتا ہے اور جو بخل کرے وہ اپنی ہی جان سے بخل کرتا ہے اور اللہ بے نیاز ہے اور تم سب محتاج ہو اور اگر تم منہ پھیرو گے تو وہ تمہارے سوا اور لوگ بدل دے گا پھر وہ تم جیسے نہ ہوں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{هٰۤاَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ تُدْعَوْنَ: ہاں  ہاں  یہ تم ہو جوبلائے جاتے ہو۔} ارشاد فرمایا کہ ہاں  ہاں ،تم لوگوں  کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں  وہاں  خرچ کرنے کے لئے بلایا جاتا ہے جہاں  خرچ کرنا تم پر ضروری ہے تو تم میں  کوئی صدقہ دینے اور فرض ادا کرنے میں  بخل کرتا ہے اور جو بخل کرے وہ اپنی ہی جان سے بخل کرتا ہے کیونکہ وہ خرچ کرنے کے ثواب سے محروم ہو جائے گا اور بخل کرنے کا نقصان اٹھائے گا ، اللہ تعالیٰ تمہارے صدقات اور طاعات سے بالکل بے نیاز ہے اور تم سب اس کے فضل و رحمت کے     محتاج ہو تو وہ تمہیں  جو بھی حکم دیتا ہے تمہارے فائدے کے لئے ہی دیتا ہے،اگر تم اس پر عمل کرو گے تو نفع اٹھاؤ گے اور نہیں  کرو گے تو نقصان بھی تمہیں  ہی ہو گا اور یاد رکھو! اگر تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت سے منہ پھیرو گے تو وہ تمہیں  ہلاک کر دے گا اور تمہاری جگہ دوسرے لوگوں  کو پیدا کر دے گا پھر وہ تم جیسے نافرمان نہ ہوں  گے بلکہ انتہائی اطاعت گزار اورفرمانبردار ہوں  گے ۔( خازن، محمد، تحت الآیۃ: ۳۸، ۴ / ۱۴۳، مدارک، محمد، تحت الآیۃ: ۳۸، ص۱۱۳۸-۱۱۳۹، روح البیان، محمد، تحت الآیۃ: ۳۸، ۸ / ۵۲۵-۵۲۷، ملتقطاً)

فرض جگہ پر مال خرچ کرنے کا دینی اور دنیوی فائدہ:

            یاد رہے کہ بعض مقامات پر مال خرچ کرنا اللہ تعالیٰ نے فرض فرمایا ہے جیسے حقدار کو زکوٰۃ دینا، اور یہ اس وجہ سے ہر گز نہیں  ہے کہ اللہ  تعالیٰ کو لوگوں  کے مال کی حاجت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ تمام حاجتوں  سے بے نیاز ہے بلکہ بندے ہی ہر طرح سے اس کے     محتاج ہیں  اور اللہ تعالیٰ نے ان پر جو مال خرچ کرنا فرض فرمایا اس میں  بندوں  کا ہی دینی اور دنیوی فائدہ ہے ،دینی فائدہ تو یہ ہے کہ مال خرچ کرنے کی صور ت میں  وہ ثواب کے حقدار ٹھہریں  اور نہ خرچ کرنے کے وبال سے بچ جائیں  گے جبکہ دنیوی فائدہ یہ ہے کہ اگراپنے معاشرے کے غریب اورمَفْلُوکُ الحال لوگوں  کوزکوٰۃ ملے گی تو انہیں  معاشی سکون نصیب ہو گا،معاشرے سے غربت اور محتاجی کا خاتمہ ہو گا۔اسلام کے ابتدائی زمانے میں  ایک دور ایسا آچکا ہے جس میں  مالدار مسلمان اسلام کے احکام پر پوری طرح عمل کرتے ہوئے اپنی زکوٰۃ وغیرہ غریب مسلمانوں  پر خوب خرچ کیا کرتے تھے جس کی وجہ سے مسلمانوں  میں  غربت کا خاتمہ ہوا اورمسلمانوں  نے ترقی کی بلندیوں  کو چھوا اور اسلام کے آخری زمانے میں  بھی ایک وقت ایسا آئے گا جس میں  مسلمان اتنے مالدار ہوجائیں  گے کہ ان میں  بڑی مشکل سے زکوٰۃ لینے والا ملے گا، جیسا کہ حضرت حارِثَہ بن وَہْب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’صدقہ کرو کیونکہ تم پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ ایک شخص اپنا صدقہ لے کر چلے گا تو کوئی اسے قبول کرنے والا نہ ملے گا۔آدمی کہے گا: اگر تم کل لاتے تو میں  لے لیتا لیکن آج مجھے اس کی ضرورت نہیں ۔( بخاری، کتاب الزکاۃ، باب الصّدقۃ قبل الرد، ۱ / ۴۷۶، الحدیث: ۱۴۱۱)

            آج بھی اگرہمارے معاشرے کے مالدار مسلمان اپنی زکوٰۃ ہی صحیح طورپراپنے ملک کے غریبوں  کودے دیں  توشاید اس ملک میں  کوئی غریب نہ رہے اورغربت کے باعث آج معاشرے میں  جوبدامنی پھیلی ہوئی ہے وہ ختم ہوجائے اورپوراملک امن وسکون کاگہوارہ بن جائے ۔

 بخل کرنے کا دینی اور دنیوی نقصان:

            بخل کرنے کے بہت سے دینی اور دنیوی نقصانات ہیں  ،ہم یہاں  اس کے 5 دینی اور 6 دنیوی نقصانات ذکر کرتے ہیں  تاکہ لوگ بخل کرنے سے بچیں  ،چنانچہ ا س کے دینی نقصانات یہ ہیں 

(1)…بخل کرنے والا کبھی کامل مومن نہیں  بن سکتا بلکہ کبھی بخل ایمان سے بھی روک دیتا ہے اور انسان کو کفر کی طرف لے جاتا ہے ،جیسے قارون کو اس کے بخل نے کافر بنا دیا۔

(2)…بخل کرنے والا گویا کہ اس درخت کی شاخ پکڑ رہا ہے جو اسے جہنم کی آگ میں  داخل کر کے ہی چھوڑے گی۔

(3)…بخل کی وجہ سے جنت میں  داخل ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔

(4)…بخل کرنے والا مال خرچ کرنے کے ثواب سے محروم ہوجاتا اور نہ خرچ کرنے کے وبال میں  مبتلا ہو جاتا ہے۔

(5)…بخل کرنے والا حرص جیسی خطرناک باطنی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے اور اس پر مال جمع کرنے کی دھن سوار ہو جاتی ہے اور ا س کیلئے وہ جائز ناجائز تک کی پرواہ کرنا چھوڑ دیتا ہے۔

            اور بخل کے دنیوی نقصانات یہ ہیں :

(1)…بخل آدمی کی سب سے بدتر خامی ہے۔

(2)…بخل ملامت اور رسوائی کا ذریعہ ہے۔

(3)…بخل خونریزی اور فساد کی جڑ اور ہلاکت وبربادی کا سبب ہے ۔

(4)…بخل ظلم کرنے پر ابھارتا ہے۔

(5)…بخل کرنے سے رشتہ داریاں  ٹوٹتی ہیں  ۔

(6)…بخل کرنے کی وجہ سے آدمی مال کی برکت سے محروم ہوجاتا ہے۔

            اللہ تعالیٰ ہمیں  اپنی راہ میں  مال خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور بخل جیسی بد ترین باطنی بیماری سے محفوظ فرمائے،اٰمین۔

{وَ اِنْ تَتَوَلَّوْا: اور اگر تم منہ پھیرو گے۔} علامہ احمدصاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  :آیت کے اس حصے میں  صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے خطاب ہے(اگر ایسا ہے) تو (یہ تبدیلی بالفعل حاصل نہیں  ہوئی بلکہ) اس سے مقصود محض ڈرانا ہے کیونکہ صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ (کو یہ مقام حاصل ہے کہ ان) کے بعد کوئی شخص بھی ان کے رتبے تک نہیں  پہنچ سکتا اور شرط کے لئے یہ ضروری نہیں  کہ اس کا وقوع بھی ہو (یعنی جیسے کوئی اپنے نوکر سے کہے کہ اگر تم نے صحیح کام نہ کیا تو میں  تمہیں  نوکری سے نکال دوں  گا تو اس کہنے کے بعد ضروری نہیں  کہ نوکر غلط کام ضرور کرے گابلکہ یہ محض سمجھانا تھا)۔ یا یہاں  خطاب منافقوں  سے ہے،(اگر ایسا ہے) تو یہ تبدیلی بالفعل ہوئی ہے (اور ان کی جگہ دوسرے لوگ آئے ہیں  جو ان جیسے نہ تھے بلکہ مخلص اور انتہائی اطاعت گزار مومن تھے۔)( صاوی، محمد، تحت الآیۃ: ۳۸، ۵ / ۱۹۶۴)

{هٰۤاَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ تُدْعَوْنَ: ہاں  ہاں  یہ تم ہو جوبلائے جاتے ہو۔} ارشاد فرمایا کہ ہاں  ہاں ،تم لوگوں  کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں  وہاں  خرچ کرنے کے لئے بلایا جاتا ہے جہاں  خرچ کرنا تم پر ضروری ہے تو تم میں  کوئی صدقہ دینے اور فرض ادا کرنے میں  بخل کرتا ہے اور جو بخل کرے وہ اپنی ہی جان سے بخل کرتا ہے کیونکہ وہ خرچ کرنے کے ثواب سے محروم ہو جائے گا اور بخل کرنے کا نقصان اٹھائے گا ، اللہ تعالیٰ تمہارے صدقات اور طاعات سے بالکل بے نیاز ہے اور تم سب اس کے فضل و رحمت کے     محتاج ہو تو وہ تمہیں  جو بھی حکم دیتا ہے تمہارے فائدے کے لئے ہی دیتا ہے،اگر تم اس پر عمل کرو گے تو نفع اٹھاؤ گے اور نہیں  کرو گے تو نقصان بھی تمہیں  ہی ہو گا اور یاد رکھو! اگر تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت سے منہ پھیرو گے تو وہ تمہیں  ہلاک کر دے گا اور تمہاری جگہ دوسرے لوگوں  کو پیدا کر دے گا پھر وہ تم جیسے نافرمان نہ ہوں  گے بلکہ انتہائی اطاعت گزار اورفرمانبردار ہوں  گے ۔( خازن، محمد، تحت الآیۃ: ۳۸، ۴ / ۱۴۳، مدارک، محمد، تحت الآیۃ: ۳۸، ص۱۱۳۸-۱۱۳۹، روح البیان، محمد، تحت الآیۃ: ۳۸، ۸ / ۵۲۵-۵۲۷، ملتقطاً)

فرض جگہ پر مال خرچ کرنے کا دینی اور دنیوی فائدہ:

            یاد رہے کہ بعض مقامات پر مال خرچ کرنا اللہ تعالیٰ نے فرض فرمایا ہے جیسے حقدار کو زکوٰۃ دینا، اور یہ اس وجہ سے ہر گز نہیں  ہے کہ اللہ  تعالیٰ کو لوگوں  کے مال کی حاجت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ تمام حاجتوں  سے بے نیاز ہے بلکہ بندے ہی ہر طرح سے اس کے     محتاج ہیں  اور اللہ تعالیٰ نے ان پر جو مال خرچ کرنا فرض فرمایا اس میں  بندوں  کا ہی دینی اور دنیوی فائدہ ہے ،دینی فائدہ تو یہ ہے کہ مال خرچ کرنے کی صور ت میں  وہ ثواب کے حقدار ٹھہریں  اور نہ خرچ کرنے کے وبال سے بچ جائیں  گے جبکہ دنیوی فائدہ یہ ہے کہ اگراپنے معاشرے کے غریب اورمَفْلُوکُ الحال لوگوں  کوزکوٰۃ ملے گی تو انہیں  معاشی سکون نصیب ہو گا،معاشرے سے غربت اور محتاجی کا خاتمہ ہو گا۔اسلام کے ابتدائی زمانے میں  ایک دور ایسا آچکا ہے جس میں  مالدار مسلمان اسلام کے احکام پر پوری طرح عمل کرتے ہوئے اپنی زکوٰۃ وغیرہ غریب مسلمانوں  پر خوب خرچ کیا کرتے تھے جس کی وجہ سے مسلمانوں  میں  غربت کا خاتمہ ہوا اورمسلمانوں  نے ترقی کی بلندیوں  کو چھوا اور اسلام کے آخری زمانے میں  بھی ایک وقت ایسا آئے گا جس میں  مسلمان اتنے مالدار ہوجائیں  گے کہ ان میں  بڑی مشکل سے زکوٰۃ لینے والا ملے گا، جیسا کہ حضرت حارِثَہ بن وَہْب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’صدقہ کرو کیونکہ تم پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ ایک شخص اپنا صدقہ لے کر چلے گا تو کوئی اسے قبول کرنے والا نہ ملے گا۔آدمی کہے گا: اگر تم کل لاتے تو میں  لے لیتا لیکن آج مجھے اس کی ضرورت نہیں ۔( بخاری، کتاب الزکاۃ، باب الصّدقۃ قبل الرد، ۱ / ۴۷۶، الحدیث: ۱۴۱۱)

            آج بھی اگرہمارے معاشرے کے مالدار مسلمان اپنی زکوٰۃ ہی صحیح طورپراپنے ملک کے غریبوں  کودے دیں  توشاید اس ملک میں  کوئی غریب نہ رہے اورغربت کے باعث آج معاشرے میں  جوبدامنی پھیلی ہوئی ہے وہ ختم ہوجائے اورپوراملک امن وسکون کاگہوارہ بن جائے ۔

 بخل کرنے کا دینی اور دنیوی نقصان:

            بخل کرنے کے بہت سے دینی اور دنیوی نقصانات ہیں  ،ہم یہاں  اس کے 5 دینی اور 6 دنیوی نقصانات ذکر کرتے ہیں  تاکہ لوگ بخل کرنے سے بچیں  ،چنانچہ ا س کے دینی نقصانات یہ ہیں 

(1)…بخل کرنے والا کبھی کامل مومن نہیں  بن سکتا بلکہ کبھی بخل ایمان سے بھی روک دیتا ہے اور انسان کو کفر کی طرف لے جاتا ہے ،جیسے قارون کو اس کے بخل نے کافر بنا دیا۔

(2)…بخل کرنے والا گویا کہ اس درخت کی شاخ پکڑ رہا ہے جو اسے جہنم کی آگ میں  داخل کر کے ہی چھوڑے گی۔

(3)…بخل کی وجہ سے جنت میں  داخل ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔

(4)…بخل کرنے والا مال خرچ کرنے کے ثواب سے محروم ہوجاتا اور نہ خرچ کرنے کے وبال میں  مبتلا ہو جاتا ہے۔

(5)…بخل کرنے والا حرص جیسی خطرناک باطنی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے اور اس پر مال جمع کرنے کی دھن سوار ہو جاتی ہے اور ا س کیلئے وہ جائز ناجائز تک کی پرواہ کرنا چھوڑ دیتا ہے۔

            اور بخل کے دنیوی نقصانات یہ ہیں :

(1)…بخل آدمی کی سب سے بدتر خامی ہے۔

(2)…بخل ملامت اور رسوائی کا ذریعہ ہے۔

(3)…بخل خونریزی اور فساد کی جڑ اور ہلاکت وبربادی کا سبب ہے ۔

(4)…بخل ظلم کرنے پر ابھارتا ہے۔

(5)…بخل کرنے سے رشتہ داریاں  ٹوٹتی ہیں  ۔

(6)…بخل کرنے کی وجہ سے آدمی مال کی برکت سے محروم ہوجاتا ہے۔

            اللہ تعالیٰ ہمیں  اپنی راہ میں  مال خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور بخل جیسی بد ترین باطنی بیماری سے محفوظ فرمائے،اٰمین۔

{وَ اِنْ تَتَوَلَّوْا: اور اگر تم منہ پھیرو گے۔} علامہ احمدصاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  :آیت کے اس حصے میں  صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے خطاب ہے(اگر ایسا ہے) تو (یہ تبدیلی بالفعل حاصل نہیں  ہوئی بلکہ) اس سے مقصود محض ڈرانا ہے کیونکہ صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ (کو یہ مقام حاصل ہے کہ ان) کے بعد کوئی شخص بھی ان کے رتبے تک نہیں  پہنچ سکتا اور شرط کے لئے یہ ضروری نہیں  کہ اس کا وقوع بھی ہو (یعنی جیسے کوئی اپنے نوکر سے کہے کہ اگر تم نے صحیح کام نہ کیا تو میں  تمہیں  نوکری سے نکال دوں  گا تو اس کہنے کے بعد ضروری نہیں  کہ نوکر غلط کام ضرور کرے گابلکہ یہ محض سمجھانا تھا)۔ یا یہاں  خطاب منافقوں  سے ہے،(اگر ایسا ہے) تو یہ تبدیلی بالفعل ہوئی ہے (اور ان کی جگہ دوسرے لوگ آئے ہیں  جو ان جیسے نہ تھے بلکہ مخلص اور انتہائی اطاعت گزار مومن تھے۔)( صاوی، محمد، تحت الآیۃ: ۳۸، ۵ / ۱۹۶۴)

الجنان

{اَلَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ صَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ: جنہوں  نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا۔} مفسّرین کا ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت مدینہ منورہ کے ان اہلِ کتاب کے بارے میں  نازل ہوئی جنہوں  نے سیِّدُالمرسلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت کا انکار کیا۔اس صورت میں  آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں  نے نبیٔ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان پر نازل ہونے والی کتاب کے ساتھ کفر کیا ،خود بھی اسلام میں  داخل نہ ہوئے اور اور دوسروں  کو بھی اسلام قبول کرنے سے روکا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر کی وجہ سے ان کا وہ ایمان ضائع کر دیاجو یہ لوگ نبیٔ  کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری سے پہلے پچھلے انبیاء کرام اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پررکھتے تھے ۔

دوسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت کفارِ مکہ کے بارے میں  نازل ہوئی ہے۔ اس صورت میں  آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں  نے کفر کیا ، خود بھی اسلام میں  داخل نہ ہوئے اور دوسروں  کو بھی اسلام قبول کرنے سے روکا توانہوں نے کفر کی حالت میں  جو بھی نیک اعمال کئے ہوں خواہ بھوکوں  کو کھلایا ہو، یا اسیروں  کو چھڑایا ہو ،یا غریبوں  کی مد د کی ہو،یا مسجدِ حرام یعنی خانہ کعبہ کی عمارت میں  کوئی خدمت کی ہو،یہ سب اعمال اللہ تعالیٰ نے برباد کر دئیے اور آخرت میں  انہیں  ان اعمال کا کچھ ثواب نہیں  ملے گا کیونکہ ایمان کے بغیر کوئی نیکی قبول نہیں ۔

بعض مفسّرین کے نزدیک یہاں  کفارِ مکہ کے وہ افراد مراد ہیں  جو اپنے کفر کے ساتھ ساتھ دوسروں  کو بھی ایمان قبول کرنے سے روکتے تھے اور حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خلاف سازشیں  کرتے تھے تو ان کافروں  نے سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے جو سازشیں  تیار کیں ، مکر سوچے اور حیلے بنائے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کے وہ تمام کام باطل کردیئے اور ان کے مقابلے میں  اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مدد و نصرت فرمائی اور ان کے دین کو تمام دینوں  پر غالب کر دیا۔

تیسرا قول یہ ہے کہ ا س آیت کا تعلق سورہِ احقاف کی آخری آیت کے ساتھ ہے ،اُس کے آخر میں  ارشاد فرمایا گیاکہ ’’نافرمان لوگ ہی ہلاک کئے جاتے ہیں ‘‘ اس پر گویا یہ سوال پیدا ہوا کہ نافرمان لوگوں کو کیسے ہلاک کیا جاتا ہے حالانکہ وہ تو نیک اعمال کرتے ہیں  اور اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ کسی کا نیک عمل ضائع نہیں  فرماتا اگرچہ وہ رائی کے دانے کے برابر ہو؟اس کے جواب میں  یہاں  ارشاد فرمایاگیا کہ نافرمان وہ لوگ ہیں  جو خود اسلام میں  داخل نہ ہوئے اور دوسروں  کو انہوں  نے اسلام قبول کرنے سے روکا، (اور یہ اس طرح ہلاک ہوئے کہ) اللہ تعالیٰ نے ان کے تمام نیک اعمال برباد کر دئیے اور آخرت میں  انہیں  ان اعمال کا کچھ ثواب نہیں  ملے گا کیونکہ ایمان کے بغیر کوئی نیک عمل مقبول نہیں۔(تاویلات اہل السنہ، محمد، تحت الآیۃ:۱، ۴ / ۴۹۹، مدارک، محمد،تحت الآیۃ:۱،ص۱۱۳۲، جلالین،القتال،تحت الآیۃ:۱، ص۴۱۹، خازن، محمد،تحت الآیۃ:۱،۴ / ۱۳۳، روح المعانی، محمد،تحت الآیۃ:۱،۱۳ / ۲۶۹-۲۷۰، ملتقطاً)

کفر نیک اعمال کی بربادی کا سبب ہے:

اس آیت سے معلوم ہوا کہ کفر نیک اعمال کی بربادی کا بہت بڑا سبب ہے ۔یاد رہے کہ جس طرح کفر کی حالت میں  کئے گئے نیک اعمال باطل اور بے کار ہیں  اورآخرت میں  ان کا کوئی اجر و ثواب نہیں ، اسی طرح ایمان کی حالت میں  کئے گئے نیک اعمال بھی کفر کرنے کی صورت میں  ضائع ہو جاتے ہیں  اور ان کے ثواب سے بھی بندہ محروم کر دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :

’’وَ مَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَیَمُتْ وَ هُوَ كَافِرٌ فَاُولٰٓىٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ‘‘(بقرہ:۲۱۷)

ترجمۂ  کنزُالعِرفان: اور تم میں  جو کوئی اپنے دین سے مرتد ہوجائے پھر کافر ہی مرجائے تو ان لوگوں  کے تمام اعمال دنیا و آخرت میں  برباد ہوگئے اور وہ دوزخ والے ہیں  وہ اس میں  ہمیشہ رہیں  گے۔

         اور ارشاد فرماتا ہے :

’’قَدْ یَعْلَمُ اللّٰهُ الْمُعَوِّقِیْنَ مِنْكُمْ وَ الْقَآىٕلِیْنَ لِاِخْوَانِهِمْ هَلُمَّ اِلَیْنَاۚ-وَ لَا یَاْتُوْنَ الْبَاْسَ اِلَّا قَلِیْلًاۙ(۱۸)اَشِحَّةً عَلَیْكُمْ ۚۖ-فَاِذَا جَآءَ الْخَوْفُ رَاَیْتَهُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْكَ تَدُوْرُ اَعْیُنُهُمْ كَالَّذِیْ یُغْشٰى عَلَیْهِ مِنَ الْمَوْتِۚ-فَاِذَا ذَهَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوْكُمْ بِاَلْسِنَةٍ حِدَادٍ اَشِحَّةً عَلَى الْخَیْرِؕ-اُولٰٓىٕكَ لَمْ یُؤْمِنُوْا فَاَحْبَطَ اللّٰهُ اَعْمَالَهُمْؕ-وَ كَانَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ هُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْۙ-كَفَّرَ عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْ وَ اَصْلَحَ بَالَهُمْ(2)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور جوایمان لائے اورانہوں نے اچھے کام کئے اور اس پر ایمان لائے جو محمد پر اتارا گیا اور وہی ان کے رب کے پاس سے حق ہے تواللہ نے ان کی برائیاں مٹا دیں اور ان کی حالتوں کی اصلاح فرمائی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ: اور جوایمان لائے اورانہوں  نے اچھے کام کئے۔} اس سے پہلی آیت میں  کافروں کا حال بیان ہوا اور اس آیت میں  ایمان والوں  کا حال بیان کیا جا رہا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ جو لوگ ایمان لائے اورانہوں  نے اچھے کام کئے اور اس قرآنِ پاک پر ایمان لائے جو میرے حبیب محمد ِمصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اتارا گیا اور وہی ان کے رب عَزَّوَجَلّ کے پاس سے حق ہے ،تو ا س ایمان اور نیک اعمال کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ان کے گناہ بخش دئیے اور دینی امور میں  توفیق عطا فرما کر اور دنیا میں  ان کے دشمنوں  کے مقابلے میں ان کی مدد فرما کر ان کی حالتوں  کی اصلاح فرمائی ۔

حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا :یہاں  حالتوں  کی اصلاح فرمانے سے مراد یہ ہے کہ ان کی زندگی کے دنوں  میں  ان کی حفاظت فرمائی۔ (خازن، محمد، تحت الآیۃ: ۲، ۴ / ۱۳۳، مدارک، محمد، تحت الآیۃ: ۲، ص۱۱۳۲، ملتقطاً)

آیت ’’وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

اس آیت سے 3باتیں  معلوم ہوئیں:

(1)…قرآنِ مجید پر ایمان لانے کو جداگانہ ذکر کرنے سے معلوم ہوا کہ قرآنِ مجید کی شان انتہائی بلند ہے اور جن پر یہ قرآن نازل ہوا ہے ان کی شان بھی بہت عظیم ہے ۔

(2)… ایمان کے لئے ان تمام چیزوں  کو ماننا ضروری ہے جو حضورپر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لائے ہیں  ، اگر کسی نے ان میں  سے ایک کابھی انکار کیا تو کافر ہوجائے گا۔

(3)… ایمان سے زمانۂ کفر کے تمام گناہ مٹ جاتے ہیں ، مگر نیکیاں  باقی رہتی ہیں ۔ یاد رہے کہ سَیِّئات گناہوں  کو کہتے ہیں  جبکہ حُقُوقُ الْعِباد کو ضائع کرنا دوسری چیز ہے،اس لئے ایمان لانے سے زمانۂ کفر کے قرض وغیرہ معاف نہیں  ہوں  گے بلکہ نو مسلم نے کفر کے زمانہ میں  بندوں  کے جو حقوق تلف کئے ہوں  گے وہ اسے بہر حال ادا کرنے ہوں  گے۔

ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرًا‘‘(احزاب:۱۸، ۱۹)

ترجمۂ  کنزُالعِرفان: بیشک اللہ تم میں  سے ان لوگوں  کو جانتا ہے جو دوسروں  کو جہاد سے روکتے ہیں  اور اپنے بھائیوں  سے کہتے ہیں : ہماری طرف چلے آؤ اور وہ لڑائی میں  تھوڑے ہی آتے ہیں ۔ تمہارے اوپر بخل کرتے ہوئے آتے ہیں پھر جب ڈر کا وقت آتا ہے توتم انہیں  دیکھو گے کہ تمہاری طرف یوں  نظر کرتے ہیں  کہ ان کی آنکھیں  گھوم رہی ہیں  جیسے کسی پر موت چھائی ہوئی ہو پھر جب ڈر کا وقت نکل جاتا ہے تومال غنیمت کی لالچ میں تیز زبانوں  کے ساتھ تمہیں  طعنے دینے لگتے ہیں ۔ یہ لوگ ایمان لائے ہی نہیں  ہیں  تو اللہ نے ان کے اعمال برباد کردئیے اور یہ اللہ پر بہت آسان ہے۔

لہٰذا مسلمانوں  پر لازم ہے کہ وہ نیک اعمال کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ایمان کی حفاظت کرنے کی بھی بھرپور کوشش کریں  اور ہر ایسے قول اور فعل سے بچیں  جس سے مسلمان کا ایمان ضائع ہو جاتا ہے ۔

ذٰلِكَ بِاَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوا اتَّبَعُوا الْبَاطِلَ وَ اَنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّبَعُوا الْحَقَّ مِنْ رَّبِّهِمْؕ-كَذٰلِكَ یَضْرِبُ اللّٰهُ لِلنَّاسِ اَمْثَالَهُمْ(3)

ترجمہ: کنزالعرفان

یہ اس لیے کہ کافر باطل کے پیرو کارہوئے اور ایمان والوں نے حق کی پیروی کی جو ان کے رب کی طرف سے ہے ۔اللہ ان کے حالات لوگوں سے یونہی بیان فرماتا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ذٰلِكَ بِاَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوا اتَّبَعُوا الْبَاطِلَ: یہ اس لیے کہ کافر باطل کے پیرو کارہوئے۔} یعنی ہم نے جوکافروں  کے اعمال ضائع کر دئیے جبکہ ایمان والے نیک بندوں  کی خطاؤں  سے درگزرفرمایا اور ان کی حالتوں  کی اصلاح فرمائی، ا س کی وجہ یہ ہے کہ کافروں نے باطل کی پیروی کر کے حق کے مقابلے میں  باطل کو اختیار کیا اور ایمان والوں  نے اس حق کی پیروی کی جو ان کے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ہے اوراللہ تعالیٰ لوگوں  کے سامنے دونوں  گروہوں  کے حالات یونہی بیان فرماتا ہے کہ کافروں  کے عمل ضائع ہیں  اور ایمانداروں  کی لغزشیں  بھی بخش دی جائیں  گی تاکہ وہ ان سے عبرت حاصل کریں  اور کفار کی خصلتوں  سے بچ کر مومنین کے طریقے اختیار کریں ۔( ابن کثیر، محمد، تحت الآیۃ: ۳، ۷ / ۲۸۳، خازن، محمد، تحت الآیۃ: ۳، ۴ / ۱۳۳-۱۳۴، ملتقطاً)

         یاد رہے کہ یہاں  آیت میں  باطل سے مراد شیطان ،یا نفسِ اَمّارہ ،یا برے سردار ہیں  اور حق سے مراد اللہ تعالیٰ کی کتاب اور رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنت ہے۔ امت کا اِجماع اور مجتہد علماء کا قیاس چونکہ سنت کے ساتھ لاحق ہے ا س لئے یہ بھی حق میں  داخل ہے۔یا حق سے مراد حضور ِانور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں  کیونکہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ہر قول اور فعل شریف برحق ہے اورحق حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ایسا وابستہ ہے جیسے نو رسورج سے ، یا خوشبو پھول سے وابستہ ہے ۔

فَاِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَضَرْبَ الرِّقَابِؕ-حَتّٰۤى اِذَاۤ اَثْخَنْتُمُوْهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَۙ-فَاِمَّا مَنًّۢا بَعْدُ وَ اِمَّا فِدَآءً حَتّٰى تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَهَا ﲰذٰلِكَ ﳍوَ لَوْ یَشَآءُ اللّٰهُ لَانْتَصَرَ مِنْهُمْ وَ لٰـكِنْ لِّیَبْلُوَاۡ بَعْضَكُمْ بِبَعْضٍؕ-وَ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَلَنْ یُّضِلَّ اَعْمَالَهُمْ(4)سَیَهْدِیْهِمْ وَ یُصْلِحُ بَالَهُمْ(5)وَ یُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ عَرَّفَهَا لَهُمْ(6)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو جب کافروں سے تمہارا سامناہوتو گردنیں مارو یہاں تک کہ جب تم انہیں خوب قتل کرلو تو (قیدیوں کو) مضبوطی سے باندھ دو پھر اس کے بعدچاہے احسان کرکے چھوڑ دو یافدیہ لے لو ،یہاں تک کہ لڑائی اپنے بوجھ رکھ دے۔ (حکم) یہی ہے اوراگر اللہ چاہتا تو آپ ہی اُن سے بدلہ لے لیتا مگر (تمہیں قتال کا حکم دیا) تاکہ تم میں سے ایک کو دوسرے کے ذریعے جانچے اور جو اللہ کی راہ میں مارے گئے اللہ ہرگز ان کے عمل ضائع نہیں فرمائے گا۔ عنقریب اللہ انہیں راستہ دکھائے گا اور ان کے حال کی اصلاح فرمائے گا۔ اور انہیں جنت میں داخل فرمائے گا، اللہ نے انہیں اس کی پہچان کروادی تھی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَضَرْبَ الرِّقَابِ: تو جب کافروں  سے تمہارا سامناہوتو گردنیں  مارو۔} یعنی جب کافروں  اور ایمان والوں  کا حال یہ ہے جو بیان ہوا ،تو اے ایمان والو!جب کافروں  کے ساتھ تمہاری جنگ ہوتواس دوران لڑنے والے کافروں  کی کوئی رعایت نہ کرو بلکہ انہیں  قتل کرویہاں  تک کہ جب تم انہیں  کثرت سے قتل کر لو(جس کی حد یہ ہے کہ کافروں  کا زورٹوٹ جائے اور مسلمانوں  پر غالب آنے کا امکان نہ رہے) اور باقی رہ جانے والوں  کو قید کرنے کا موقع آجائے تواس وقت انہیں  مضبوطی سے باندھ دو تاکہ وہ بھاگ نہ سکیں  ۔قید کرنے کے بعد تمہیں  دو باتوں  کا اختیار ہے ، چاہے ان قیدیوں  پر احسان کرکے انہیں  کوئی فدیہ لئے بغیرچھوڑ دو ،یاان سے فدیہ لے لو ۔یہ قتل اور قید کرنے کا حکم اس وقت تک ہے کہ لڑائی کرنے والے کافراپنا اسلحہ رکھ دیں  اوراس طرح جنگ ختم ہوجائے کہ مشرکین مسلمانوں  کی اطاعت قبول کرلیں  یا اسلام لائیں  ، اللہ تعالیٰ کا حکم یہی ہے ۔( مدارک، محمد، تحت الآیۃ: ۴، ص۱۱۳۳، روح المعانی، محمد، تحت الآیۃ: ۴، ۱۳ / ۲۷۲-۲۷۷، ملتقطاً)

{وَ لَوْ یَشَآءُ اللّٰهُ لَانْتَصَرَ مِنْهُمْ: اور اللہ چاہتا تو آپ ہی اُن سے بدلہ لے لیتا۔} یہاں  جہاد کا حکم دینے کی حکمت بیان کی جا رہی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو جنگ کے بغیر ہی کافروں  کو زمین میں  دھنسا کر ،یا ان پر پتھر برسا کر، یا اور کسی طرح خود ہی اُن سے بدلہ لے لیتا (جیسا کہ پچھلی قوموں  کے ساتھ ایسا ہو چکا ہے)لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسا نہیں  چاہا بلکہ اس نے تمہیں  جہاد کا حکم دیا تاکہ کافروں  کے ذریعے مومنوں  کو جانچے (کہ وہ اس کی راہ میں  جہاد کرتے ہیں  یا نہیں ) کیونکہ اگر وہ جہاد کرتے ہیں  تو عظیم ثواب کے مستحق ہو جائیں  گے اور دوسری طرف مومنوں  کے ذریعے کافروں  کو جانچے ( کہ وہ حق کا اقرار کرتے ہیں  یا نہیں  اور اس میں  یہ بھی حکمت ہے) کہ تمہارے ہاتھوں  انہیں  کچھ عذاب جلدی پہنچ جائے اور ان میں  سے بعض کافر اس سے نصیحت حاصل کرکے اسلام قبول کرلیں ۔( روح البیان، محمد، تحت الآیۃ: ۴، ۸ / ۴۹۹-۵۰۰، روح المعانی، محمد، تحت الآیۃ: ۴، ۱۳ / ۲۷۷، ملتقطاً)

اللہ تعالیٰ کی جانچ سے کیا مراد ہے؟

            یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ازلی علم سے جانتا ہے کہ کون سا مسلمان اس کی راہ میں  جہاد کرے گا اور کون سا کافر اسلام قبول کرے گا اور یہاں  اللہ تعالیٰ کے جانچنے سے یہ ہر گز مراد نہیں  کہ اللہ تعالیٰ کو پہلے معلوم نہ تھا اور اس جانچ کے ذریعے اسے معلوم ہوا ، بلکہ اس جانچ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں  کے ساتھ ایسا معاملہ فرماتا ہے جیسا امتحان لینے اور آزمانے والا کرتا ہے تاکہ فرشتوں  اور جنّ و اِنس کے سامنے معاملہ ظاہر ہوجا ئے۔

{وَ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ : اور جو اللہ کی راہ میں  مارے گئے۔} جنگ کے دوران چونکہ مسلمان شہیدبھی ہوتے ہیں  اس لئے یہاں  سے شہیدوں  کی فضیلت بیان کی جا رہی ہے ،چنانچہ آیت کے اس حصے اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں  شہید ہو گئے، اللہ تعالیٰ ہرگز ان کے عمل ضائع نہیں  فرمائے گا بلکہ ان کے اعمال کا ثواب پورا پورا دے گا اور عنقریب اللہ تعالیٰ انہیں  بلند درجات کاراستہ دکھائے گا اوران کے اعمال قبول کر کے ان کے حال کی اصلاح فرمائے گا اور انہیں  جنت میں  داخل فرمائے گا، اللہ تعالیٰ نے انہیں  اس کی پہچان کروادی تھی اس لئے وہ جنت کی منازِل میں  اس نا آشنا کی طرح نہ پہنچیں  گے جو کسی مقام پر جاتا ہے تو اسے ہر چیز کے بارے میں دریافت کرنے کی حاجت درپیش ہوتی ہے بلکہ وہ واقف کاروں  کی طرح داخل ہوں  گے ، اپنے منازِل اور مساکِن پہچانتے ہوں  گے ، اپنی زوجہ اور خُدّام کو جانتے ہوں  گے ، ہر چیز کا مقام ان کے علم میں  ہوگا گویا کہ وہ ہمیشہ سے یہیں  کے رہنے بسنے والے ہیں۔( ابن کثیر ، محمد ، تحت الآیۃ: ۴-۶، ۷ / ۲۸۵-۲۸۶، مدارک ، محمد، تحت الآیۃ: ۴-۶، ص۱۱۳۴، بغوی، محمد، تحت الآیۃ: ۴-۶، ۴ / ۱۶۲، ملتقطاً)

شہید کے فضائل:

            احادیث میں  بھی شہید کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں  ،یہاں  ان میں  سے دو احادیث ملاحظہ ہوں ،

(1)… حضرت مِقْدام بن مَعدیکَرِب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  شہید کی چھ خصلتیں  ( یعنی درجے) ہیں  ،(1) پہلی ہی دفعہ میں  اسے بخش دیا جاتا ہے۔ (2) اسے جنت کا ٹھکانا دکھادیا جاتا ہے۔ (3) اسے قبر کے عذاب سے امان دی جاتی ہے اور وہ بڑی گھبراہٹ سے امن میں  رہے گا۔ (4) اس کے سر پر عزت کا تاج رکھا جائے گا جس کا ایک یا قوت دنیا اور دنیا کی چیزوں  سے بہتر ہوگا۔ (5) 72حورِعِین سے اس کا نکاح کیا جائے گا ۔(6) او راس کے 70 قریبی رشتہ داروں  کے بارے میں  اس کی شفاعت قبول کی جائے گی ۔( ترمذی، کتاب فضائل الجہاد، باب فی ثواب الشہید، ۳ / ۲۵۰، الحدیث: ۱۶۶۹)

(2)… حضرت قیس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’شہید کو چھ خصلتیں  عطا کی جاتی ہیں  (1)اس کے خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی ا س کے گناہ مٹا دئیے جاتے ہیں ۔ (2)اسے جنت کا ٹھکانا دکھادیا جاتا ہے۔ (3)حورِ عِین سے اس کا نکاح کیا جائے گا۔(4،5) بڑی گھبراہٹ اور قبر کے عذاب سے امن میں  رہے گا۔(6)اسے ایمان کا حُلّہ پہنایا جائے گا۔ (مسند امام احمد، مسند الشامیین، حدیث قیس الجذامی رضی اللّٰہ تعالی عنہ، ۶ / ۲۳۴، الحدیث: ۱۷۷۹۸)

اہل جنت اپنے مقام اورجنتی نعمتوں  کو پہچانتے ہوں  گے :

         آیت نمبر6میں  شہید کے بارے میں بیان ہوا کہ اللہ  تعالیٰ نے انہیں  جنت میں  ان کے مقام اور نعمتوں  کی پہچان کروا دی تھی اور حدیثِ پاک میں  عام جنتیوں  کے بارے میں  بھی اسی طرح کی فضیلت بیان کی گئی ہے ،جیسا کہ حضرت ابوسعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: مومنین دوزخ سے نجات پاجائیں  گے جنت اوردوزخ کے درمیان ایک پل ہے اس پران کوروک لیاجائے گا پھر دنیا میں  ان میں  سے بعض نے بعض پرجوزیادتی کی ہوگی اس کاان سے بدلہ لیاجائے گاحتّٰی کہ وہ بالکل پاک وصاف ہوجائیں  گے توپھران کوجنت میں  داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی پس اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں  محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی جان ہے ان میں  سے ایک شخص جنت میں  اپنے ٹھکانے کودنیامیں  اپنے ٹھکانے کی بہ نسبت زیادہ پہچاننے والاہوگا۔( بخاری، کتاب الرقاق، باب القصاص یوم القیامۃ، ۴ / ۲۵۶، الحدیث: ۶۵۳۵)

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ یَنْصُرْكُمْ وَ یُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ(7)

ترجمہ: کنزالعرفان

اے ایمان والو! اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدمی عطا فرمائے گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ یَنْصُرْكُمْ: اے ایمان والو! اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا۔} ارشاد فرمایا کہ اے ایمان والو!اگر تم اللہ تعالیٰ کے دین اور ا س کے پیارے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مدد کرو گے تو اللہ تعالیٰ دشمنوں  کے مقابلے میں  تمہاری مدد کرے گا اورتمہیں  فتح وکامرانی نصیب فرمائے گا اور تمہیں  میدانِ جنگ میں  اور دینِ اسلام اورپُلِ صراط پر ثابت قدمی عطافرمائے گا۔( خازن، محمد، تحت الآیۃ: ۷، ۴ / ۱۳۵، مدارک، محمد، تحت الآیۃ: ۷، ص۱۱۳۴، ملتقطاً)

اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کرنے کی7 صورتیں :

             اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کرنے کی بہت سی صورتیں  ہیں  ،ان میں  سے 7صورتیں  درج ذیل ہیں  ۔

(1)…اللہ تعالیٰ کے دین کو غالب کرنے کیلئے دین کے دشمنوں  کے ساتھ زبان،قلم اور تلوار سے جہاد کرنا۔

(2)… دین کے دلائل کو واضح کرنا،ان پر ہونے والے شبہات کو زائل کرنا،دین کے احکام ،فرائض،سُنَن،حلال اور حرام کی شرح بیان کرنا۔

(3)…نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا۔

(4)…دین ِاسلام کی تبلیغ و اشاعت میں  کوشش اور جدو جہدکرنا۔

(5)…وہ قابل اور مستندعلماء جنہوں  نے اپنی زندگیاں  دین کی ترویج و اشاعت کے لئے وقف کی ہوئی ہیں ، ان کے نیک مقاصد میں  ان کا ساتھ دینا۔

(6)…نیک اور جائز کاموں  میں  اپنا مال خرچ کرنا۔

(7)…علماء اور مبلغین کی مالی خیر خواہی کر کے انہیں  دین کی خدمت کے لئے فارغ البال بنانا۔

بندوں  سے مددمانگناشرک نہیں :

            یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ غنی اور بے نیاز ہے ،اسے نہ بندوں  کی مدد کی حاجت ہے اور نہ ہی وہ اپنے دین کی ترویج و اشاعت اور اسے غالب کرنے میں  بندوں  کی مدد کا       محتاج ہے ،یہاں  جوبندوں  کو اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کرنے کا فرمایا گیا یہ در اصل ان کے اپنے ہی فائدے کے لئے ہے کہ اس صورت میں  انہیں  اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہو گی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں  ثابت قدمی نصیب ہو گی۔یہاں  اسی حوالے سے مزید دو باتیں  ملاحظہ ہوں ،

(1)… اللہ تعالیٰ کے دین کی مددخالص اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے کی جائے اس میں  کوئی دنیاوی مقصد پیش نظرنہ ہو۔

(2)…اس آیت سے معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ کے بندوں  کی مد د لینا شرک نہیں  ، کیونکہ جب بندوں  کی مدد سے غنی اور بے نیاز رب تعالیٰ نے بندوں  کو اپنے دین کی مدد کرنے کا فرما یا ہے تو عام بندے کا کسی سے مدد طلب کرنا کیوں  شرک ہوگا؟

وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَتَعْسًا لَّهُمْ وَ اَضَلَّ اَعْمَالَهُمْ(8)ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَرِهُوْا مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاَحْبَطَ اَعْمَالَهُمْ(9)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور جنہوں نے کفر کیا تو ان کیلئے تباہی و بربادی ہے اور اللہ نے ان کے اعمال برباد کردیئے۔ یہ (سزا)اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے اللہ کے نازل کئے ہوئے کو ناپسند کیا تو اللہ نے ان کے اعمال ضائع کردئیے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا: اور جنہوں  نے کفر کیا۔} یہاں  سے اللہ تعالیٰ نے کفر کے دو نتیجے بیان فرمائے ہیں  ،چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جنہوں  نے کفر کیا تو ان کیلئے دنیا میں  تباہی و بربادی ہے اور آخرت میں  اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال برباد کردیئے ۔انہیں یہ سزااس وجہ سے ملی ہے کہ انہوں  نے اللہ تعالیٰ کے نازل کئے ہوئے قرآن کو ناپسند کیا کیونکہ اس میں  شہوات اور لذّات کو ترک کرنے جبکہ طاعات اور عبادات میں  مَشَقَّتیں  اٹھانے کے احکام ہیں  جو نفس پر شاق ہوتے ہیں  توان کے اس کفر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے نیک اعمال برباد کردئیے۔( خازن، محمد، تحت الآیۃ: ۸-۹، ۴ / ۱۳۵، روح البیان، محمد، تحت الآیۃ: ۸-۹، ۸ / ۵۰۱، ملتقطاً)

اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْؕ-دَمَّرَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ٘-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ اَمْثَالُهَا(10)ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ مَوْلَى الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ اَنَّ الْكٰفِرِیْنَ لَا مَوْلٰى لَهُمْ(11)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو کیا انہوں نے زمین میں سفر نہ کیاتو دیکھتے کہ ان سے پہلے لوگوں کا کیسا انجام ہوا؟ اللہ نے ان پر تباہی ڈالی اور اِن کافروں کے لیے بھی پہلوں کے انجام جیسی بہت سی سزائیں ہیں ۔ یہ اس لیے کہ اللہ مسلمانوں کا مددگارہے اور کافروں کا کوئی مددگارنہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ: تو کیا انہوں  نے زمین میں  سفر نہ کیا۔} یہاں  سے پچھلی امتوں  کا انجام بیان کر کے کافروں  کو ڈرایا جا رہا ہے ،چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے والے اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جھٹلانے والے کافر اپنے گھروں  میں  بیٹھے رہے ہیں  اور انہوں  نے شام ،یمن اور عراق کی جانب سفر کے دوران دیکھا نہیں  کہ ان سے پہلے جھٹلانے والی امتوں  عاد اور ثمود وغیرہ کا کیسا انجام ہوا ،جو اُن کے اجڑے ہوئے مکانات اور محلّات کے آثار سے خوب ظاہر ہے ۔ان کا انجام یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ایسی تباہی ڈالی جس سے وہ خود،ان کی اولاد اور ان کے اموال سب ہلاک ہو گئے ، لہٰذا ان موجودہ کافروں  کو بے فکر نہیں  ہونا چاہئے ،اگر یہ بھی سیِّدِ عالَم محمد ِمصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان نہ لائیں  گے توان کے لئے پہلے کافروں  جیسی بہت سی سزائیں  اور تباہیاں  ہیں  اوریہ مسلمانوں  کی مددہونا اور کافروں  پر قہر ہونا اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں  کا مددگارہے اور کافروں  کا کوئی مددگارنہیں  کیونکہ کافروں  نے ان بتوں  کی پوجا کی جو بے جان ہیں ،نہ نفع پہنچا سکتے ہیں  نہ نقصان، اس لئے ان کا کوئی مدد گار نہیں ۔( خازن، محمد،تحت الآیۃ: ۱۰-۱۱، ۴ / ۱۳۶، ابن کثیر، محمد، تحت الآیۃ: ۱۰-۱۱، ۷ / ۲۸۷، روح البیان، محمد، تحت الآیۃ: ۱۰-۱۱، ۸ / ۵۰۲، ملتقطاً)

اِنَّ اللّٰهَ یُدْخِلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُؕ-وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یَتَمَتَّعُوْنَ وَ یَاْكُلُوْنَ كَمَا تَاْكُلُ الْاَنْعَامُ وَ النَّارُ مَثْوًى لَّهُمْ(12)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک اللہ ایمان لانے والوں اور اچھے اعمال کرنے والوں کو ان باغوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں رواں ہیں اور کافر فائدہ اٹھارہے ہیں اور ایسے کھاتے ہیں جیسے جانور کھاتے ہیں اور آگ ان کا ٹھکانہ ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ اللّٰهَ یُدْخِلُ: بیشک اللہ داخل فرمائے گا۔} اس سے پہلی آیات میں  ایمان والوں  اور کافروں  کا دنیوی حال بیان کیا گیا اور اس آیت میں  ان دونوں  کا اخروی حال بیان کیا جا رہا ہے ،چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ چونکہ ایمان والوں  کا مددگار ہے اس لئے انہیں  اس کا آخرت میں  ثمرہ یہ ملے گا کہ اللہ تعالیٰ ایمان لانے والوں  اور اچھے اعمال کرنے والوں  کو ان باغوں  میں  داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں  رواں  ہیں  اور کافروں  کا حال یہ ہے کہ وہ دنیا میں  اپنے انجام کو فراموش کئے ہوئے ہیں  اور غفلت کے ساتھ چند دنوں  کے لئے اپنے مال و متاع سے فائدہ اٹھارہے ہیں  اور ایسے کھاتے ہیں  جیسے جانور کھاتے ہیں  کیونکہ جانوروں  کو یہ تمیز نہیں  ہوتی کہ کہاں  سے کھانا ہے، ا س لئے انہیں  جہاں  سے جو مل جائے اسے کھانا شروع کر دیتے ہیں ، اسی طرح کھاتے وقت جانور اس چیز سے غافل ہوتے ہیں  کہ اس کھانے کے بعد وہ ذبح کر دئیے جائیں  گے اور یہی حال کفار کا ہے جو حلال و حرام کی تمیز کئے بغیر کھاتے رہتے ہیں  اور غفلت کے ساتھ دنیا طلب کرنے اور ا س کے عیش و عشرت سے فائدہ اٹھانے میں  مشغول ہیں  اور آنے والی مصیبتوں  کا خیال بھی نہیں  کرتے حالانکہ جہنم کی آگ ان کا ٹھکانا ہے۔( تفسیرکبیر، محمد، تحت الآیۃ: ۱۲، ۱۰ / ۴۴-۴۵، روح البیان، محمد، تحت الآیۃ: ۱۲، ۸ / ۵۰۳، ملتقطاً)

کافروں  اور ایمان والوں  میں  فرق

            علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  :اس کا حاصل یہ ہے کہ کافرصرف اپنے پیٹ اور شرمگاہ کی شہوت کو پورا کرنے میں  لگے رہتے ہیں  اور آخرت کی جانب کوئی توجہ نہیں  کرتے تو انہوں  نے اپنے دنوں  کو کفر اور گناہوں  میں  ضائع کر دیا اور دنیا میں  جانوروں  کی طرح کھاتے پیتے رہے جبکہ ایمان والے اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کرتے ہیں  ،ریاضت اور مجاہدے کرنے میں  مشغول رہتے ہیں  اسی لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں  عالیشان جنتیں  عطا فرما کر ان پر احسان فرمایا اور یہیں  سے سیِّدُ المرسلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اس فرمان ’’دنیا مومن کا قید خانہ اور کافر کی جنت ہے ‘‘کا راز ظاہر ہوا کہ مومن ا س چیز کو پہچانتا ہے کہ دنیا قید خانہ ہے اور ا س کی نعمتیں  زائل ہونے والی ہیں  ،اس لئے وہ اپنے نفس کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا پابند بنا دیتا ہے جس کے نتیجے میں  اسے (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) جنت اور اس کی ہمیشہ باقی رہنے والی نعمتیں  نصیب ہوتی ہیں  اور کافر چونکہ آخرت کا منکر ہے ا س لئے وہ دنیا میں  لذّتوں  اور عیش و عشرت میں  مشغول ہوا تو ا س کے لئے آخرت میں  جہنم کی قید اور زَقُّوم کھانے کے سواکچھ باقی نہ بچا۔( روح البیان، محمد، تحت الآیۃ: ۱۲، ۸ / ۵۰۴)

            افسوس! فی زمانہ مسلمانوں  کی غفلت کا حال بھی کچھ کم نظر نہیں  آتا اور ان کا حال دیکھ کر یہ نظر آتا ہے کہ وہ موت کے بعد قبر و حشر کے ہولناک احوال سے بے فکر ہیں  ،اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  ہونے والی پیشی اور اعمال کے حساب سے غافل ہیں  اور ان کامقصودصرف دنیا کے عیش و عشرت سے لطف اندوز ہونا اور ا س کی زیب و زینت سے فائدہ اٹھانا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں  ہدایت اور عقلِ سلیم عطافرمائے ،اٰمین۔

مومن اور کافر کے کھانے میں  فرق:

            یہاں  آیت کی مناسبت مومن اور کافر کے کھانے میں 4 فرق ملاحظہ ہوں :

(1)… سچا مسلمان کھانے سے پہلے حلال وحرام کی تمیزکرتاہے کہ کیامیرے لیے اس کاکھاناشرعاًجائز بھی ہے یا نہیں ؟ جبکہ کافر جانوروں  کی طرح حلال وحرام کی تمیزکیے بغیرکھاتارہتاہے ۔

(2)… کافر کی نظرجانوروں  کی طرح ہر وقت کھانے پینے میں  رہتی ہیں  جبکہ مومن کی نگاہ ذکر و فکر میں  رہتی ہے۔

(3)… کافر کھانے پینے کا حریص ہوتاہے جبکہ مومن قَناعَت کرنے والا ہوتا ہے۔

(4)…کافر جانور کی طرح اپنے انجام سے غافل رہتے ہوئے کھاتا پیتاہے جبکہ مومن اپنے انجام پر نگاہ رکھتے اورا س کی فکر کرتے ہوئے کھاتا ہے ۔

            یاد رہے کہ دنیا کی نعمتوں  سے لُطف اندوز ہونا بُرانہیں  بلکہ بُرا یہ ہے کہ حلال و حرام کی تمیز کئے بغیر جو کچھ ملے اس سے فائدہ اٹھانا شروع کر دیا جائے، یونہی بُرا یہ ہے کہ نعمتوں  میں  مشغول ہو کر اپنی آخرت کو فراموش کر دیا جائے، بُرا یہ ہے کہ نعمتوں  میں  کھو کر بندہ اپنے انجام سے غافل ہو جائے ا س لئے جو مسلمان اپنے انجام کی فکر کرتے ہوئے اور آخرت کو بہتر بنانے کی تیاری کرتے ہوئے دنیا کی جائز و حلال نعمتوں  سے فائدہ اٹھاتا ہے اس میں  کوئی برائی نہیں  اور جو مسلمان حلال و حرام کی پرواہ کئے بغیر نعمتوں  سے لطف اندوز ہوتا ہے یا اپنی آخرت اور انجام سے بے فکر ہو کر نعمتوں  سے لطف اندوز ہونے میں  مشغول رہتا ہے وہ ضرور برا ہے ۔

وَ كَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَةٍ هِیَ اَشَدُّ قُوَّةً مِّنْ قَرْیَتِكَ الَّتِیْۤ اَخْرَجَتْكَۚ-اَهْلَكْنٰهُمْ فَلَا نَاصِرَ لَهُمْ(13)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور کتنے ہی ایسے شہر ہیں جوتمہارے اِس شہر سے زیادہ قوت والے تھے جس نے تمہیں باہر نکال دیا، ہم نے انہیں ہلاک کردیاتو ان کیلئے کوئی مددگار نہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ كَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَةٍ هِیَ اَشَدُّ قُوَّةً مِّنْ قَرْیَتِكَ: اور کتنے ہی ایسے شہر ہیں  جوتمہارے اس شہر سے زیادہ قوت والے تھے۔} شانِ نزول:جب حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مکہ ٔمکرمہ سے ہجرت کی اور غار ِثور کی طرف تشریف لے چلے تومکۂ مکرمہ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا’’اللہ تعالیٰ کے شہروں  میں  تُو اللہ تعالیٰ کو بہت پیارا ہے اور اللہ تعالیٰ کے شہروں  میں  تو مجھے بہت پیارا ہے ، اگر مشرکین مجھے نہ نکالتے تو میں  تجھ سے نہ نکلتا ،اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اس شہر سے نکلنے پر غم نہ فرمائیں ، بے شک اللہ تعالیٰ آپ کی عزت میں  ہی اضافہ فرمائے گا اور ان کافروں  کو ذلیل کرے گا اور اپنی تسلی کے لئے اس بات پر غور فرمائیں  کہ سابقہ زمانے   میں  بھی کئی شہروں  کے باسی اِن کفارِ مکہ سے زیادہ قوت والے تھے جو آپ کے مکہ ٔمکرمہ سے نکلنے کا سبب بنے ہیں  ،ہم نے ان سابقہ قوت والے لوگوں  کو ہلاک کردیاتو ان کیلئے کوئی مددگار نہیں تھا جوانہیں  عذاب اور ہلاکت سے بچا سکتا تو اسی طرح ہم آپ کے شہر والے کافروں  کے ساتھ کریں  گے، اس لئے آپ اسی طرح صبر فرمائیں  جیسے سابقہ شہروں  کے رسولوں  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے صبر فرمایا۔( صاوی ، محمد ، تحت الآیۃ : ۱۳، ۵ / ۱۹۵۴ ، خازن، محمد، تحت الآیۃ: ۱۳، ۴ / ۱۳۶، روح البیان، محمد، تحت الآیۃ: ۱۳، ۸ / ۵۰۵، ملتقطاً)

اَفَمَنْ كَانَ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ كَمَنْ زُیِّنَ لَهٗ سُوْٓءُ عَمَلِهٖ وَ اتَّبَعُوْۤا اَهْوَآءَهُمْ(14)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو جو شخص اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر ہوکیا وہ اُس جیسا ہوگا جس کے برے عمل اس کیلئے خوبصورت بنادئیے گئے اور وہ اپنی خواہشوں کے پیچھے چلے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَفَمَنْ كَانَ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ: تو کیاجو شخص اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر ہو۔} یہاں  سے دوبارہ مومنوں  اور کافروں  کے احوال بیان کر کے ان میں  فرق واضح کیا جا رہا ہے،چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے روشن دلیل پر ہونے والے شخص سے مراد مومن ہے کیونکہ وہ اپنی مثل بنا کر دکھانے سے عاجز کر دینے والے قرآنِ مجید اور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معجزات کی مضبوط دلیل پر کامل یقین اور سچا جَزْم رکھتا ہے، تو جو شخص اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے روشن دلیل پر ہوکیاوہ اُس کافر مشرک جیسا ہوگا جس کے برے عمل اس کیلئے خوبصورت بنادئیے گئے اور وہ اپنی خواہشوں  کے پیچھے چلنے لگا اور اس نے کفرو بت پرستی اختیار کی ، ہرگز وہ مومن اور یہ کافر ایک سے نہیں  ہوسکتے اور ان دونوں  میں  کچھ بھی نسبت نہیں  ہے۔( مدارک، محمد، تحت الآیۃ: ۱۴، ص۱۱۳۵، جلالین، القتال، تحت الآیۃ: ۱۴، ص۴۲۰، ملتقطاً)

اَفَمَنْ كَانَ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ كَمَنْ زُیِّنَ لَهٗ سُوْٓءُ عَمَلِهٖ وَ اتَّبَعُوْۤا اَهْوَآءَهُمْ(14)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو جو شخص اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر ہوکیا وہ اُس جیسا ہوگا جس کے برے عمل اس کیلئے خوبصورت بنادئیے گئے اور وہ اپنی خواہشوں کے پیچھے چلے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَفَمَنْ كَانَ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ: تو کیاجو شخص اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر ہو۔} یہاں  سے دوبارہ مومنوں  اور کافروں  کے احوال بیان کر کے ان میں  فرق واضح کیا جا رہا ہے،چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے روشن دلیل پر ہونے والے شخص سے مراد مومن ہے کیونکہ وہ اپنی مثل بنا کر دکھانے سے عاجز کر دینے والے قرآنِ مجید اور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معجزات کی مضبوط دلیل پر کامل یقین اور سچا جَزْم رکھتا ہے، تو جو شخص اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے روشن دلیل پر ہوکیاوہ اُس کافر مشرک جیسا ہوگا جس کے برے عمل اس کیلئے خوبصورت بنادئیے گئے اور وہ اپنی خواہشوں  کے پیچھے چلنے لگا اور اس نے کفرو بت پرستی اختیار کی ، ہرگز وہ مومن اور یہ کافر ایک سے نہیں  ہوسکتے اور ان دونوں  میں  کچھ بھی نسبت نہیں  ہے۔( مدارک، محمد، تحت الآیۃ: ۱۴، ص۱۱۳۵، جلالین، القتال، تحت الآیۃ: ۱۴، ص۴۲۰، ملتقطاً)

مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَؕ-فِیْهَاۤ اَنْهٰرٌ مِّنْ مَّآءٍ غَیْرِ اٰسِنٍۚ-وَ اَنْهٰرٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُهٗۚ-وَ اَنْهٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشّٰرِبِیْنَ ﳛ وَ اَنْهٰرٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّىؕ-وَ لَهُمْ فِیْهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ وَ مَغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّهِمْؕ-كَمَنْ هُوَ خَالِدٌ فِی النَّارِ وَ سُقُوْا مَآءً حَمِیْمًا فَقَطَّعَ اَمْعَآءَهُمْ(15)

ترجمہ: کنزالعرفان

اس جنت کا حال جس کا پرہیزگاروں سے وعدہ کیا گیا ہے یہ ہے کہ اس میں خراب نہ ہونے والے پانی کی نہریں ہیں اور ایسے دودھ کی نہریں ہیں جس کا مزہ نہ بدلے اور ایسی شراب کی نہریں ہیں جو پینے والوں کیلئے سراسرلذت ہے اور صاف شفاف شہد کی نہریں ہیں اور ان کے لیے اس میں ہر قسم کے پھل اوران کے رب کی طرف سے مغفرت ہے ۔کیا (یہ جنتی) اس کے برابر ہوسکتا ہے جو ہمیشہ آگ میں رہنے والاہے اور انہیں کھولتا پانی پلایا جائے گا تووہ ان کی آنتوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردے گا؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ: اس جنت کا حال جس کا پرہیزگاروں  سے وعدہ کیا گیا ہے۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جس جنت کا پرہیز گاروں  سے وعدہ کیا گیا ہے اس کا ایک وصف یہ ہے کہ اس میں  ایسے پانی کی نہریں  ہیں  جو انتہائی لطیف ہے ، نہ سڑتا ہے ، نہ اس کی بوبدلتی ہے اور نہ ہی اس کے ذائقے میں  فرق آتا ہے ۔

            دوسرا وصف یہ ہے کہ اس میں  ایسے دودھ کی نہریں  ہیں  جس کا مزہ نہیں  بدلتا جبکہ دنیا کے دودھ کا حال ا س کے برخلاف ہے کہ وہ خراب ہوجاتاہے۔

            تیسرا وصف یہ ہے کہ ا س جنت میں  ایسی شراب کی نہریں  ہیں  جو پینے والوں  کیلئے خالص لذت ہی لذت ہے ، وہ دنیا کی شرابوں  کی طرح خراب ذائقے والی نہیں  ہے اور نہ ہی اس میں  میل کچیل ہے، نہ خراب چیزوں  کی آمیزش ہے ، نہ وہ سڑ کر بنی ہے ، نہ اس کے پینے سے عقل زائل ہو تی ، نہ سر چکراتا ہے ، نہ خُمار آتا ہے اور نہ ہی دردِ سرپیدا ہو تا ہے۔ یہ سب آفتیں  دنیا ہی کی شراب میں  ہیں  جبکہ جنت کی شراب ان سب عیوب سے پاک ، انتہائی لذیذ ، فرحت بخش اور خوش گوار ہے۔

            چوتھا وصف یہ ہے کہ اس میں  صاف شفاف شہد کی نہریں  ہیں  یعنی وہ شہدصاف ہی پیدا کیا گیا ، دنیا کے شہد کی طرح نہیں  جو مکھی کے پیٹ سے نکلتا ہے اور اس میں  موم وغیرہ کی آمیزش ہوتی ہے ۔

            پانچواں  وصف یہ ہے کہ اس جنت میں  پرہیزگاروں  کے لئے ہر قسم کے پھل اوران کے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے مغفرت ہے کہ وہ رب ان پر احسان فرماتا ہے اور ان سے راضی ہے اور ان پر سے تمام تکلیفی احکام اٹھالئے گئے ہیں  ،وہ جنتی جو چاہیں  کھائیں  ، جتنا چاہیں  کھائیں  ، وہاں  کوئی حساب نہیں  ہوگا۔

            توکیا ایسے سُکھ چین والا شخص اس کافرکے برابر ہوسکتا ہے جو ہمیشہ آگ میں  رہنے والاہے اور انہیں  کھولتا پانی پلایا جائے گا جو پیٹ میں  جاتے ہی ان کی آنتوں  کے ٹکڑے ٹکڑے کردے گا؟(ہر گز یہ دونوں  برابر نہیں  ہیں  بلکہ ان میں  انتہائی فرق ہے۔ )( مدارک، محمد، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۱۱۳۵، خازن، محمد، تحت الآیۃ: ۱۵، ۴ / ۱۳۶-۱۳۷، ملتقطاً)

فَهَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا السَّاعَةَ اَنْ تَاْتِیَهُمْ بَغْتَةًۚ-فَقَدْ جَآءَ اَشْرَاطُهَاۚ-فَاَنّٰى لَهُمْ اِذَا جَآءَتْهُمْ ذِكْرٰىهُمْ(18)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو وہ قیامت ہی کاانتظار کررہے ہیں کہ ان پر اچانک آجائے تو بیشک اس کی (کئی)علامتیں تو آہی چکی ہیں پھر جب قیامت آجائے گی توان کا نصیحت ماننا انہیں کہاں مفید ہوگا؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَهَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا السَّاعَةَ: تو وہ قیامت ہی کاانتظار کررہے ہیں ۔} ارشاد فرمایا کہ وہ کفار اور منافقین قیامت ہی کاانتظار کررہے ہیں  کہ ان پر اچانک آجائے کیونکہ توحیدو رسالت پر دلائل دئیے جا چکے،سابقہ امتوں  کے احوال ان کے سامنے بیان کر دئیے گئے،قیامت قائم ہونے اور اس کے ہولناک اُمور کے بارے میں  خبریں  دے دی گئیں  ،اس کے باوجود بھی اگر یہ ایمان نہیں  لائے تو اب قیامت کے دن ہی ان کا ایمان لانامتوقَّع ہے ، یہ لوگ قیامت سے غافل ہیں  حالانکہ اس کی کئی علامتیں  تو آہی چکی ہیں  جن میں  سے ایک نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری اور دوسری چاند کا دو ٹکڑے ہونا ہے،پھر جب قیامت آجائے گی تواس وقت ان کا نصیحت ماننا کہاں  مفید ہوگاکیونکہ اس وقت توبہ اور ایمان قبول ہی نہ کیا جائے گا ۔( تفسیرکبیر، محمد، تحت الآیۃ: ۱۸، ۱۰ / ۵۱-۵۲، روح البیان، محمد، تحت الآیۃ: ۱۸، ۸ / ۵۰۹-۵۱۰، ملتقطاً)

فَاعْلَمْ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَ اسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَ مَثْوٰىكُمْ(19)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور اے حبیب!اپنے خاص غلاموں اور عام مسلمان مردوں اور عورتوں کے گناہوں کی معافی مانگو اور (اے لوگو!)اللہ دن کے وقت تمہارے پھرنے اور رات کو تمہارے آرام کرنے کو جانتا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاعْلَمْ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ: تو جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔} یعنی جب آپ نے جان لیا کہ قیامت قائم ہوتے وقت نصیحت حاصل کرنے سے کوئی فائدہ نہ ہو گا تو آپ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے بارے میں  جو علم اور یقین رکھتے ہیں  اس پر قائم رہیں  کیونکہ یہ قیامت کے دن ضرور نفع دے گا۔(صاوی، محمد، تحت الآیۃ: ۱۹، ۵ / ۱۹۵۷)

{وَ اسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ: اور اے حبیب!اپنے خاص غلاموں  اور عام مسلمان مردوں  اور عورتوں  کے گناہوں  کی معافی مانگو۔} یہاں  آیت میں  اگر خطاب حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں  ہو گا کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کوئی گناہ ہوا تھاجس کی معافی مانگنے کا فرمایا گیا کیونکہ آپ یقینی طور پر گناہوں  سے معصوم ہیں  بلکہ یہ کسی دوسرے مقصد کے پیش نظر فرمایا گیا ہو گا، جیسا کہ امام جلالُ الدین سیوطی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  :نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ گناہوں  سے معصوم ہیں  ،اس کے باوجود آپ کو گناہ سے مغفرت طلب کرنے کا فرمایا گیا(یہ امت کی تعلیم کے لئے ہے) تاکہ اس معاملے میں  امت آپ کی پیروی کرے اور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مغفرت طلب بھی کی ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا:’’میں  روزانہ سو مرتبہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  استغفار کرتا ہوں ۔( جلالین، القتال، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۴۲۱)

            علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں :یہاں  حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف ’’ذَنْبْ‘‘ کی جو نسبت کی گئی اس سے مراد آپ کے اہلِ بیت کی خطائیں ہیں  ،نیزاس آیت میں  امت کے لئے بھی بشارت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا کہ مسلمان مردوں  اور عورتوں  کے گناہوں  کی بھی مغفرت طلب فرمائیں  اور آپ کی شان یہ ہے کہ آپ شفاعت فرمانے والے اورمَقْبُولُ الشَّفاعَت ہیں  (تو آپ جس کی مغفرت طلب فرمائیں  گے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ضرور قبول ہو گی۔)( صاوی، محمد، تحت الآیۃ: ۱۹، ۵ / ۱۹۵۸)

{وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ: اور اللہ جانتا ہے۔} یہاں ایمان والوں  اور دیگر تمام لوگوں  سے خطاب فرمایاگیا کہ اے لوگو!اللہ تعالیٰ تم لوگوں  کے دن کے وقت کی مشغولیات اور رات کے وقت تمہارے آرام کرنے کو جانتا ہے۔یعنی وہ تمہارے تمام احوال کو جاننے والا ہے ، اس سے کچھ بھی مخفی نہیں  ہے تو تم اس سے ڈرو ۔( جلالین مع صاوی، محمد، تحت الآیۃ: ۱۹، ۵ / ۱۹۵۸)

وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَوْ لَا نُزِّلَتْ سُوْرَةٌۚ-فَاِذَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ مُّحْكَمَةٌ وَّ ذُكِرَ فِیْهَا الْقِتَالُۙ-رَاَیْتَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ یَّنْظُرُوْنَ اِلَیْكَ نَظَرَ الْمَغْشِیِّ عَلَیْهِ مِنَ الْمَوْتِؕ-فَاَوْلٰى لَهُمْ(20)طَاعَةٌ وَّ قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ- فَاِذَا عَزَمَ الْاَمْرُ- فَلَوْ صَدَقُوا اللّٰهَ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ(21)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور مسلمان کہتے ہیں : کوئی سورت کیوں نہیں اتاری گئی؟ پھر جب کوئی واضح سورت اتاری جاتی ہے اور اس میں جہاد کا حکم دیا جاتا ہے تو تم ان لوگوں کو دیکھو گے جن کے دلوں میں بیماری ہے کہ تمہاری طرف ایسے دیکھتے ہیں جیسے وہ دیکھتا ہے جس پر موت چھائی ہوئی ہوتو ان کے لئے بہتر تھا۔ فرمانبرداری کرنا اور اچھی بات کہنا ،پھر جب (جہاد کا)حکم قطعی ہوگیا تو اگر اللہ سے سچے رہتے تو یہ ان کیلئے بہتر ہوتا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: اور مسلمان کہتے ہیں۔} شانِ نزول :ایمان والوں  کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں  جہاد کرنے کا بہت ہی شوق تھااور اسی شوق کی بنا پر وہ کہتے تھے کہ ایسی سورت کیوں  نہیں  اترتی جس میں  جہاد کا حکم ہو،تا کہ ہم جہاد کریں  اور یہی بات منافق بھی کہہ دیا کرتے تھے، اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی اوراس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں  ارشاد فرمایاگیا کہ مسلمان کہتے ہیں : کوئی سورت کیوں  نہیں  اتاری گئی؟ پھر جب کوئی واضح سورت اتاری جاتی ہے جس کا معنیٰ واضح ہو اور اس کا کوئی حکم منسوخ ہونے والا نہ ہو اور اس میں  جہاد کا حکم دیاگیا ہو تو تم دلوں میں  مُنافَقَت کا مرض رکھنے والوں  کو دیکھو گے کہ وہ پریشان ہو کر تمہاری طرف ایسے دیکھتے ہیں  جیسے وہ شخص دیکھتا ہے جس پر موت کے وقت غشی چھائی ہوئی ہو،حالانکہ اگر یہ اس وقت اللہ تعالیٰ اور رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فرمانبرداری کرتے اور اچھی بات کہتے تو یہ ان کے لئے بہتر تھا۔تو جب جہاد کاحکم قطعی ہوگیا اور جہاد فرض کردیا گیا تو منافقوں  نے اس سے جان چھڑانے کیلئے کوششیں  شروع کردیں  حالانکہ اگر یہ ایمان اوراطاعت پر قائم رہ کر اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے وعدے میں سچے رہتے تو یہ ان کیلئے بہتر ہوتا۔( خازن، محمد، تحت الآیۃ: ۲۰، ۴ / ۱۳۹، مدارک، محمد، تحت الآیۃ: ۲۰، ص۱۱۳۶، ملتقطاً)

فَهَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَ تُقَطِّعُوْۤا اَرْحَامَكُمْ(22)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو کیا تم اس بات کے قریب ہو کہ اگر تمہیں حکومت ملے تو زمین میں فساد پھیلاؤ اور اپنے رشتے کاٹ دو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَهَلْ عَسَیْتُمْ: تو کیا تم اس بات کے قریب ہو۔} جب منافقوں  کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ مشرکین کے خلاف جہاد کریں  تو انہوں  نے جہاد میں  شرکت نہ کرنے سے متعلق یہ عذر پیش کیا کہ ہم مشرکوں  کے خلاف جہاد کیسے کریں  کیونکہ اس میں  ایک خرابی یہ ہے کہ انسانوں  کو قتل کرنا زمین میں  فساد پھیلانا ہے اور دوسری خرابی یہ ہے کہ عرب والے ہمارے رشتہ دار ہیں  اور ہمارے قبیلوں  سے تعلق رکھتے ہیں  تو ان سے جنگ کرکے انہیں  قتل کرنارشتے داری کو توڑ دینا ہے اور یہ کوئی اچھا کام نہیں  ہے۔ ان کے رد میں  اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : اے منافقو! تم سے یہ بعید نہیں  کہ اگر تمہیں  حکومت مل جائے تو تم اپنی مرضی کے خلاف کام کرنے والے کو قتل کر کے زمین میں  فساد پھیلاؤ اور رشتے داری توڑ دو۔کیادورِ جاہلیت میں  تم آپس میں  لڑائی نہیں  کرتے تھے ؟اورکیا ا س دوران ایک دوسرے کو قتل نہیں  کرتے تھے؟ اور تم اپنی بیٹیو ں  کو زندہ دفن نہیں  کرتے تھے؟ کیا تمہاری یہ لڑائیاں  ، قتل اور بیٹیوں  کو زندہ دفن کر دینے جیسا گھناؤنا فعل زمین میں  فساد پھیلانا اور رشتے داری توڑ دینا نہیں  تھا؟ تو اب تم کس منہ سے یہ کہتے ہو کہ جہاد کرنا زمین میں  فساد پھیلانے اور رشتہ داری توڑ دینے جیسی خرابیوں  کا حامِل ہے اوران سب شواہد کے ہوتے ہوئے تمہارا جہاد میں  شریک نہ ہونے کے لئے یہ عذر پیش کرناکسی طرح بھی درست نہیں  ہے۔

اسلامی جہاد رحمت ہے یا فساد؟

            اس سے معلوم ہوا کہ منافقین اسلامی جہاد کو زمین میں  فساد اور خرابیوں  کاسبب سمجھتے تھے اس لئے جہاد سے منہ موڑتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے منافقوں  کا جو رد فرمایا اس سے معلوم ہواکہ منافقوں  کااسلامی جہاد کے بارے میں  یہ نظریہ غلط و باطل تھا اوراس سے ان کا مقصد صرف جہاد میں  جانے سے بچنا اور دوسروں  کو جہاد میں  شرکت سے روکنا تھا۔فی زمانہ بھی اسلام کے دشمن اسلامی جہاد پر اسی طرح کے اعتراض کرتے ہیں  اور ان اعتراضات کے ذریعے لوگوں  کے دلوں  سے اسلام کی محبت اور اس سے قلبی تعلق ختم کر کے اس کے خلاف نفرت ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں  اور مختلف واقعات کو بنیاد بنا کر لوگوں  کے سامنے دینِ اسلام کو ایک ایسے دین کے طور پر پیش کرتے ہیں  جس میں  انسانیت پر بے انتہا ظلم و ستم کی تعلیم دی گئی ہے،اسی طرح اسلام دشمنوں  کے افکار و نظریات اور ان کی تعلیمات سے مرعوب کچھ نام نہاد مسلمان بھی اسلامی جہادسے متعلق ایسا کلام کرتے ہیں  جو اس کی حقیقت اوراس کے اصل مقاصد کے بالکل بر خلاف ہوتا ہے، حالانکہ ان میں  بہت سے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں  کہ حقیقت اس سے کہیں  مختلف ہے حتّٰی کہ تاریخ سے ادنیٰ سی واقِفِیَّت رکھنے والا شخص بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ دینِ اسلام کا سورج طلوع ہونے سے پہلے انسانوں  کا حال کیا تھا اور وہ ظلم و ستم کی کس چَکِّی میں  پِس رہے تھے اور لوگ کس طرح غلامی کی زنجیروں  میں  قید اور اپنے آقاؤں  کے ظلم و ستم کا شکار تھے ،بچے، جوان،بوڑھے،مرداور عورت الغرض ہر سطح کے انسان جس ظلم و زیادتی اور بے رحمی کا شکار تھے وہ تاریخ کے واقِف کار سے ڈَھکی چُھپی نہیں  اور ا س کے مقابلے میں  دینِ اسلام کے تاریخی کارناموں  پر نظر دوڑائی جائے تو صاف نظر آئے گا کہ دینِ اسلام نے ہی انسانیت کو ظلم و ستم کے گہرے اندھیرے سے نکالا،دینِ اسلام نے ہی انسانوں  کو سر اُٹھا کر جینا سکھایا،دینِ اسلام نے ہی انسانوں  میں  انسانیت کی قدر اور عظمت پیدا کی ،دینِ اسلام نے ہی زمین میں  فساد کوختم کر کے پُر سکون معاشرہ اور امن کی فضا قائم کی ،انسانوں  کو ان کے حقوق دلائے اور ان کے حقوق پر دست اندازی کرنے والوں  کو شکنجے میں  جکڑا اور بڑے فسادیوں  کے فساد سے دوسروں  کو بچانے کے لئے انہیں  قتل کرنے کا حکم دیا تاکہ ان کے ذریعے ہونے والے فساد سے دوسرے انسانوں  کی حفاظت ہو اور یہ دوسروں  کے لئے عبرت کا مقام بنیں  اور وہ فساد برپا کرنے سے باز رہیں ،اسی تناظُر میں  اسلامی جہا د کو انصاف کی نظر سے دیکھا جائے اور ا س کے بنیادی مقاصد پر سچے دل سے غور کیا جائے تو ہر عقلِ سلیم رکھنے والے شخص پر واضح ہو جائے گاکہ اسلامی جہاد سراپا رحمت ہے کیونکہ اس کے ذریعے فساد کا خاتمہ ہو تا اور معاشرے میں  امن و سکون قائم ہوتا ہے۔

 اسلام کی نظر میں  رشتے داری کی اہمیت:

            آیت میں  رشتے داریاں  توڑنے کے موضوع پر بھی کلام ہے تو اس کے بارے میں  اسلامی تعلیمات ملاحظہ فرمائیں،چنانچہ قرآنِ مجید میں  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ’’یٰۤاَیُّهَا  النَّاسُ   اتَّقُوْا  رَبَّكُمُ  الَّذِیْ  خَلَقَكُمْ  مِّنْ  نَّفْسٍ  وَّاحِدَةٍ  وَّ  خَلَقَ  مِنْهَا  زَوْجَهَا  وَ  بَثَّ  مِنْهُمَا  رِجَالًا  كَثِیْرًا  وَّ  نِسَآءًۚ-وَ  اتَّقُوا  اللّٰهَ  الَّذِیْ  تَسَآءَلُوْنَ  بِهٖ  وَ  الْاَرْحَامَؕ-اِنَّ  اللّٰهَ  كَانَ  عَلَیْكُمْ  رَقِیْبًا‘‘(نساء:۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے لوگو !اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں  ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں  سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں  سے کثرت سے مرد و عورت پھیلا دیئے اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پرایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتوں  (کو توڑنے سے بچو۔) بیشک اللہ تم پر نگہبان ہے۔

            اور ارشاد فرماتا ہے :

’’اِنَّمَا یَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِۙ(۱۹) الَّذِیْنَ یُوْفُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَ لَا یَنْقُضُوْنَ الْمِیْثَاقَۙ(۲۰) وَ الَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَ یَخَافُوْنَ سُوْٓءَ الْحِسَابِ‘‘(رعد:۱۹۔۲۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: صرف عقل والے ہی نصیحت مانتے  ہیں ۔ وہ جو اللہ کا عہد پورا کرتے ہیں  اور معاہدے کو توڑتے نہیں ۔ اور وہ جواسے جوڑتے ہیں  جس کے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا اور اپنے رب سے ڈرتے ہیں  اور برے حساب سے خوفزدہ ہیں ۔

            اور ارشاد فرماتا ہے :’’وَ الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِیْثَاقِهٖ وَ یَقْطَعُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِۙ-اُولٰٓىٕكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَ لَهُمْ سُوْٓءُ الدَّارِ‘‘(رعد:۲۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اللہ کا عہد اسے پختہ کرنے کے بعد توڑدیتے ہیں  اور جسے جوڑنے کا اللہ نے حکم فرمایا ہے اسے کاٹتے ہیں  اور زمین میں  فساد پھیلاتے ہیں  ان کیلئے لعنت ہی ہے اور اُن کیلئے برا گھر ہے۔

            اور حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب اللہ تعالیٰ مخلوق کو پیدا فرما چکاتو (اس کی مخلوق میں  سے )رشتہ کھڑا ہوا اور اللہ تعالیٰ کے دربار میں  اِستِغاثہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’کیا ہے؟ ‘‘اس نے عرض کی:میں  (رشتہ) کاٹنے والوں  سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔ ارشاد ہوا: کیا تو ا س پر راضی نہیں  ہے کہ جو تجھے مِلائے میں  اسے مِلاؤں  گا اور جو تجھے کاٹے میں  اسے کاٹ دوں  گا؟ اس نے عرض کی:اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، ہاں  !میں  راضی ہوں  ۔ارشاد فرمایا’’تو بس تیرے ساتھ یہی ہوگا۔( بخاری، کتاب التفسیر، باب وتقطّعوا ارحامکم، ۳ / ۳۲۶، الحدیث: ۴۸۳۰)

            اورحضرت ابوبَکْرَہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’سرکشی اور رشتے داری توڑنے سے بڑھ کر کوئی گناہ اس بات کا مستحق نہیں  کہ اللہ تعالیٰ اس کی سزادنیا میں  جلد دیدے اور اس کے ساتھ اس کیلئے آخرت میں  بھی عذاب کا ذخیرہ رہے۔ (یعنی یہ دونوں  گناہ دنیا میں  جلد سزا اور آخرت میں  عذاب کے زیادہ مستحق ہیں ۔) (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ… الخ، ۵۷-باب، ۴ / ۲۲۹، الحدیث: ۲۵۱۹)

             البتہ یاد رہے کہ جہاں  عدل و انصاف یا دین کا معاملہ ہووہاں  رشتے داری کا لحاظ نہ کرنے اور اس کے مقابلے میں  دین کو ترجیح دینے کا حکم ہے ،یہاں  قرآنِ مجید سے اس کی دو مثالیں  ملاحظہ ہوں ،چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :

’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُهَدَآءَ لِلّٰهِ وَ لَوْ عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ‘‘(نساء:۱۳۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ کے لئے گواہی دیتے ہوئے انصاف پر خوب قائم ہوجاؤچاہے تمہارے اپنےیا والدین یا رشتے داروں  کے خلاف ہی (گواہی) ہو۔

            اور ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ اِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَ لَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰىۚ-وَ بِعَهْدِ اللّٰهِ اَوْفُوْا‘‘(انعام:۱۵۲)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جب بات کرو تو عدل کرو اگرچہ تمہارے رشتے دار کا معاملہ ہو اور اللہ ہی کا عہد پورا کرو۔

            اور جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے زیادہ رشتے داروں  کو ترجیح دیتے ہیں ، ان کے بارے میں  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ‘‘(توبہ:۲۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم فرماؤ: اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں  اور تمہاراخاندان اور تمہاری کمائی کے مال او ر وہ تجارت جس کے نقصان سے تم ڈرتے ہو اور تمہارے پسندیدہ مکانات تمہیں  اللہ اور اس  کے رسول اور اس کی راہ میں  جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں  تو انتظار کرو یہاں  تک کہ اللہ  اپنا حکم لائے اور اللہ نافرمان لوگوں  کو ہدایت نہیں  دیتا۔

اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فَاَصَمَّهُمْ وَ اَعْمٰۤى اَبْصَارَهُمْ(23)اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰى قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا(24)

ترجمہ: کنزالعرفان

یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی تو اللہ نے انہیں بہرا کردیا اور ان کی آنکھیں اندھی کردیں ۔ تو کیا وہ قرآن میں غور وفکر نہیں کرتے؟ بلکہ دلوں پر ان کے تالے لگے ہوئے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ: یہ وہ لوگ ہیں ۔} یعنی یہ فساد پھیلانے والے وہ لوگ ہیں  جن پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی اور انہیں  اپنی رحمت سے دور کر دیا تو اس کااثر یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں  وعظ و نصیحت سننے سے بہرا کردیا اور حق کی راہ دیکھنے سے ان کی آنکھیں  اندھی کردیں  اس لئے اب وہ حق راستے کی طرف ہدایت حاصل نہیں  کر سکتے۔( روح البیان، محمد، تحت الآیۃ: ۲۳، ۸ / ۵۱۷، صاوی، محمد، تحت الآیۃ: ۲۳-۲۴، ۵ / ۱۹۵۹-۱۹۶۰، ملتقطاً)

{اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ: تو کیا وہ قرآن میں  غور وفکر نہیں  کرتے؟} یعنی جن کے دلوں  میں  نفاق کے قفل لگے ہیں  وہ نہ تو قرآنِ کریم میں  غوروفکر کر سکتے ہیں اورنہ ہی وہ ہدایت حاصل کرسکتے ہیں  کیونکہ ان کے دلوں  پرتالے لگے ہوئے ہیں  جس کی وجہ سے حق کی بات ان میں  پہنچ ہی نہیں  پاتی۔ تدبُّر قرآنِ پاک میں  گہرے غور و خوض کو کہتے ہیں  جو تعصبات اور جانبداری سے پاک اورعقل و نقل کے حقیقی تقاضو ں کے مطابق ہو۔

اِنَّ الَّذِیْنَ ارْتَدُّوْا عَلٰۤى اَدْبَارِهِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمُ الْهُدَىۙ-الشَّیْطٰنُ سَوَّلَ لَهُمْؕ-وَ اَمْلٰى لَهُمْ(25)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک وہ لوگ جو اپنے پیچھے پلٹ گئے اس کے بعد کہ ان کیلئے ہدایت بالکل واضح ہوچکی تھی شیطان نے انہیں فریب دیا اور انہیں (لمبی لمبی) امیدیں دلائیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ الَّذِیْنَ ارْتَدُّوْا عَلٰۤى اَدْبَارِهِمْ: بیشک وہ لوگ جو اپنے پشت پیچھے پلٹ گئے۔} یعنی جو لوگ ہدایت کا راستہ واضح ہو جانے کے بعد ایمان سے کفر کی طرف پلٹ گئے انہیں  شیطان نے دھوکہ دیا اور ان کی نظر میں  برائیوں  کو ایسا مزین کیا کہ وہ انہیں  اچھا سمجھنے لگے اور انہیں  دنیا میں  مدتوں  رہنے کی امید دلائی کہ ابھی بہت عمر پڑی ہے ، خوب دنیا کے مزے اٹھا لو اور ان پر شیطان کا فریب چل گیا ۔

            حضرت قتادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  اس آیت میں  اہلِ کتاب کے ان کفار کا حال بیان کیا گیا ہے جنہوں  نے نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو پہچانا اور آپ کی نعت و صفت اپنی کتاب میں  دیکھی ، پھر جاننے پہچاننے کے باوجود کفر اختیار کیا ۔

             حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا، ضَحَّاک اور مُفسِّرسُدِی کا قول ہے کہ ان لوگوں  سے مراد منافق ہیں  جو ایمان لا کر کفر کی طرف پھر گئے ۔( خازن، محمد، تحت الآیۃ: ۲۵، ۴ / ۱۴۱)

ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْا لِلَّذِیْنَ كَرِهُوْا مَا نَزَّلَ اللّٰهُ سَنُطِیْعُكُمْ فِیْ بَعْضِ الْاَمْرِۚۖ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ اِسْرَارَهُمْ(26)

ترجمہ: کنزالعرفان

یہ اس لیے ہے کہ انہوں نے اللہ کے نازل کردہ کو ناپسند کرنے والوں سے کہا: کسی کام میں ہم تمہاری اطاعت کریں گے اور اللہ ان کی چھپی ہوئی باتوں کو جانتا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْا: یہ اس لیے ہے کہ انہوں  نے کہا۔} یعنی ایمان سے کفر کی طرف پھر جانا اس لیے ہے کہ منافقوں  نے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ قرآن اور دین کے احکام کو ناپسند کرنے والے یہودیوں  سے پوشیدہ طور پر یہ کہا:بعض کاموں  جیسے محمد ِمصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عداوت اور حضور کے خلاف ان کے دشمنوں  کی امداد کرنے اور لوگوں  کو جہاد سے روکنے میں  ہم تمہاری اطاعت کریں  گے ۔انہوں  نے یہ بات اگرچہ خفیہ طور پر کہی لیکن اللہ تعالیٰ ان کی چھپی ہوئی ان سب باتوں  کو جانتا ہے جو وہ یہودیوں  سے کہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ان کی خبر بھی دے دی ہے۔( روح البیان ، محمد ، تحت الآیۃ : ۲۶ ، ۸ / ۵۱۹ ، خازن، محمد، تحت الآیۃ: ۲۶، ۴ / ۱۴۱، مدارک، محمد، تحت الآیۃ: ۲۶، ص۱۱۳۷، ملتقطاً)

فَكَیْفَ اِذَا تَوَفَّتْهُمُ الْمَلٰٓىٕكَةُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْهَهُمْ وَ اَدْبَارَهُمْ(27)ذٰلِكَ بِاَنَّهُمُ اتَّبَعُوْا مَاۤ اَسْخَطَ اللّٰهَ وَ كَرِهُوْا رِضْوَانَهٗ فَاَحْبَطَ اَعْمَالَهُمْ(28)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو ان کاکیسا حال ہوگا جب فرشتے ان کے منہ اور ان کی پیٹھوں پر ضربیں مارتے ہوئے ان کی روح قبض کریں گے۔ یہ اس لیے ہے کہ انہوں نے اللہ کو ناراض کرنے والی بات کی پیروی کی اور انہوں نے اللہ کی خوشنودی کو پسند نہ کیا تو اس نے ان کے اعمال ضائع کردئیے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَكَیْفَ اِذَا تَوَفَّتْهُمُ الْمَلٰٓىٕكَةُ: تو ان کاکیسا حال ہوگا جب فرشتے ان کی روح قبض کریں  گے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ منافق لوگ اپنی زندگی میں سازشیں  کر رہے ہیں تو ا س وقت ان کاکیسا حال ہوگا جب فرشتے ان کی روح قبض کرنے کے لئے ان کے پاس آئیں  گے اور وہ ان کے منہ اور ان کی پیٹھوں  پر لوہے کے گُرزوں  سے ضربیں  مارتے ہوئے ان کی روح قبض کریں  گے۔ان کی اس ہولناک طریقے سے روح قبض کرنااس لیے ہے کہ انہوں  نے ا س بات کی پیروی کی جو اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والی ہے اوراس چیز کو ناپسند کیا جس میں  اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہے تو اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے وہ تمام نیک اعمال ضائع کردئیے جو انہوں  نے ایمان کی حالت میں  کئے تھے اور یہ چیز ان کے لئے سزا کا باعث بنی ۔

            مفسّرین فرماتے ہیں  کہ یہاں  اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والی بات سے مرادلوگوں  کو رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ جہاد میں  جانے سے روکنا اور کافروں  کی مدد کرنا ہے ۔ جبکہ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ وہ بات تورات کے ان مضامین کو چھپانا ہے جن میں  رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نعت شریف ہے ۔

            اورجس چیز میں  اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہے اس سے مرادایمان وطاعت ، مسلمانوں  کی مدد اور رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ جہاد میں  حاضر ہونا ہے۔( روح البیان ، محمد ، تحت الآیۃ : ۲۷ ۲۸ ، ۸ / ۵۱۹، ابن کثیر، محمد، تحت الآیۃ: ۲۷، ۷ / ۲۹۶، خازن، محمد، تحت الآیۃ: ۲۷-۲۸، ۴ / ۱۴۱، ملتقطاً)

اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ اَنْ لَّنْ یُّخْرِ جَ اللّٰهُ اَضْغَانَهُمْ(29)

ترجمہ: کنزالعرفان

کیا جن کے دلوں میں بیماری ہے وہ اس گھمنڈ میں ہیں کہ اللہ ان کے چھپے ہوئے بغض و کینے کو ظاہر نہ فرمائے گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ: جن کے دلوں  میں  بیماری ہے۔} یعنی وہ لوگ جن کے دلوں  میں  نفاق کی بیماری ہے کیا وہ اس گُھمنڈ میں  ہیں  کہ اسلام اور مسلمانوں  کے خلاف ان کے دلوں  میں  موجود نفرت و عداوت کو اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور مسلمانوں  کے سامنے ظاہر نہیں  فرمائے گا اور ان کے معاملات اسی طرح چھپے رہیں  گے، ایسا نہیں  ہے بلکہ اللہ تعالیٰ انہیں  رسوا فرمائے گا اور ان کا پردہ فاش فرما دے گا۔( روح البیان، محمد، تحت الآیۃ: ۲۹، ۸ / ۵۲۰، مدارک، محمد، تحت الآیۃ: ۲۹، ص۱۱۳۷، ملتقطاً)

وَ لَوْ نَشَآءُ لَاَرَیْنٰكَهُمْ فَلَعَرَفْتَهُمْ بِسِیْمٰىهُمْؕ-وَ لَتَعْرِفَنَّهُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ اَعْمَالَكُمْ(30)وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتّٰى نَعْلَمَ الْمُجٰهِدِیْنَ مِنْكُمْ وَ الصّٰبِرِیْنَۙ-وَ نَبْلُوَاۡ اَخْبَارَكُمْ(31)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اگر ہم چاہتے تو تمہیں وہ منافقین دکھادیتے تو تم انہیں ان کی صورت سے پہچان لیتے اور ضرور تم انہیں گفتگو کے انداز میں پہچان لو گے اور اللہ تمہارے اعمال جانتا ہے۔اور ضرور ہم تمہیں آزمائیں گے یہاں تک کہ ہم تم میں سے جہاد کرنے والوں اور صبرکرنے والوں کودیکھ لیں اور تمہاری خبریں آزمالیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَوْ نَشَآءُ لَاَرَیْنٰكَهُمْ: اور اگر ہم چاہتے تو تمہیں  وہ منافقین دکھادیتے ۔} ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر ہم چاہتے تو آپ کو دلائل اور علامات کے ذریعے ان منافقوں  کی پہچان کروا دیتے یہاں  تک کہ آپ انہیں  ان کی صورت سے ہی پہچان لیتے۔

             حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ اللہ تعالیٰ نے سورہِ براء ت میں  اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو منافقوں  کی پہچان کروا دی ہے ۔

            اور حضرت اَنَس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  : اس آیت کے نازل ہونے کے بعد رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کوئی منافق پوشیدہ نہ رہا، آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سب کو ان کی صورتوں  سے پہچانتے تھے ۔

            مزید ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ضرور انہیں  گفتگو کے انداز سے پہچان لو گے اور وہ اپنے ضمیر کا حال آپ سے چھپا نہ سکیں  گے ، چنانچہ اس کے بعد جو منافق لب ہلاتا تھا حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کے نفاق کو اس کی بات سے اور اس کے اندازِ کلام سے پہچان لیتے تھے ۔

            آیت کے آخر میں  ارشاد فرمایا کہ اللہ تعا لیٰ اپنے بندوں  کے تمام اعمال جانتا ہے اور ہر ایک کو اس کے لائق جزا دے گا۔( تفسیر قرطبی ، محمد ، تحت الآیۃ : ۳۰ ، ۸ / ۱۸۱ – ۱۸۲ ، الجزء السادس عشر ، خازن، محمد، تحت الآیۃ: ۳۰، ۴ / ۱۴۱-۱۴۲، ملتقطاً)

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جوبہت سی اقسام کا علم عطا فرمایا ہے ، ان میں  صورت سے پہچاننا اور بات سے پہچاننا بھی داخل ہے۔

{وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ: اور ضرور ہم تمہیں  آزمائیں  گے۔} ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! ہم تمہیں  جہادکا حکم دے کر ضرورآزمائش میں  ڈالیں  گے یہاں  تک کہ ہم تم میں  سے جہاد کرنے والوں  اوراس پر صبرکرنے والوں  کوظاہرفرما دیں  اور تمہاری خبروں  کو آزما لیں تاکہ ظاہر ہوجائے کہ طاعت و اخلاص کے دعوے میں  تم میں  سے کون سچا ہے ۔

اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ صَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ شَآقُّوا الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمُ الْهُدٰىۙ-لَنْ یَّضُرُّوا اللّٰهَ شَیْــٴًـاؕ-وَ سَیُحْبِطُ اَعْمَالَهُمْ(32)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک جنہوں نے کفرکیا اور اللہ کی راہ سے روکا اور رسول کی مخالفت کی اس کے بعدکہ ان کیلئے ہدایت بالکل ظاہر ہوچکی تھی وہ ہرگز اللہ کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکیں گے اور بہت جلد اللہ ان کے اعمال برباد کردے گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ صَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ: بیشک جنہوں  نے کفرکیا اور اللہ کی راہ سے روکا ۔} بعض مفسّرین کے نزدیک اس آیت میں  منافقوں  کے بارے میں  ارشاد فرمایا گیا کہ بیشک وہ لوگ جنہوں  نے (ظاہری طور پر اسلام کا دعویٰ کیا اور باطنی طور پر) کفرکیا اور لوگوں  کو اللہ تعالیٰ کی راہ سے روکا اور رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جوجہاد کرنے کا کہا اور اس کے علاوہ جو احکام دئیے اس میں  ان کی مخالفت کی حالانکہ ان کے سامنے ہدایت کے دلائل اور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صداقت بالکل ظاہر ہوچکی تھی، وہ ہرگز اللہ تعالیٰ کو کچھ نقصان نہیں  پہنچا سکیں  گے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی شان اس سے بہت بلند ہے کہ کوئی اسے نقصان پہنچا سکے بلکہ وہ لوگ ایسا کر کے اپنی ہی جانوں  کو نقصان پہنچا رہے ہیں  اور بہت جلد اللہ تعالیٰ ان کے ظاہری نیک اعمال برباد کردے گا تو وہ آخرت میں  ان اعمال کا کوئی ثواب نہ دیکھیں  گے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے لئے نہ کئے گئے تھے اور جو کام اللہ تعالیٰ کے لئے نہ ہو اس کا ثواب ہی کیا ؟

            بعض مفسّرین نے اس آیت کا شانِ نزول یہ بیان کیا ہے کہ جب کفارِ قریش جنگ ِبدر کے لئے نکلے تو وہ سال قحط کا تھا اور لشکر کا کھانا قریش کے دولت مند افراد نے ہرہر پڑاؤ پر اپنے ذمہ لے لیا تھا۔ مکۂ مکرمہ سے نکل کر سب سے پہلا کھانا ابوجہل کی طرف سے تھا جس کے لئے اس نے دس اونٹ ذبح کئے تھے ، پھر صَفْوان نے عُسْفان کے مقام میں  نواونٹ ، پھر سَہْل نے قُدَیْد کے مقام میں  دس اونٹ ذبح کئے ، یہاں  سے وہ لوگ سمندر کی طرف پھر گئے اور رستہ گُم ہوگیا تو ایک دن ٹھہرے رہے ،وہاں  شَیْبَہ کی طرف سے کھانا ہوا اور نو اونٹ ذبح ہوئے ، پھراَبْواء کے مقام میں  پہنچے ، وہاں  مِقْیَس جُمَحِی نے نو اونٹ ذبح کئے ۔ حضرت عباس کی طرف سے بھی دعوت ہوئی ، اس وقت تک آپ مشرف بہ اسلام نہ ہوئے تھے ، آپ کی طرف سے دس اونٹ ذبح کئے گئے ، پھر حارث کی طرف سے نو ، اور ابوالبَخْتَرِی کی طرف سے بدر کے چشمے پر دس اونٹ ذبح ہوئے ۔ ان کھانا دینے والوں  کے بارے میں  یہ آیت نازل ہوئی۔اس صورت میں  آیت کا معنی یہ ہو گا کہ بیشک وہ لوگ جنہوں  نے خود کفرکیا اور دوسروں  کو اللہ تعالیٰ کے دین اسلام میں  داخل ہونے سے روکا اور رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت کا حق ہونا بالکل ظاہر ہونے کے بعد ان کی مخالفت کی، وہ اپنے کفر اور لوگوں  کو روکنے کے ذریعے ہرگز اللہ تعالیٰ کو کچھ نقصان نہیں  پہنچا سکیں  گے اور بہت جلد اللہ تعالیٰ ان کے وہ اعمال برباد کردے گا جو انہوں  نے اللہ تعالیٰ کے دین کو مٹانے اور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مخالفت میں  کئے ہیں ، چنانچہ وہ اپنے مقاصد کو پورا نہیں  کر سکیں  گے ۔(قرطبی ، محمد ، تحت الآیۃ: ۳۲، ۸ / ۱۸۲، الجزء السادس عشر، خازن، محمد، تحت الآیۃ: ۳۲، ۴ / ۱۴۲، صاوی، محمد ، تحت الآیۃ : ۳۲ ، ۵ / ۱۹۶۲ ، مدارک ، محمد، تحت الآیۃ: ۳۲، ص۱۱۳۸، روح البیان، محمد، تحت الآیۃ: ۳۲، ۸ / ۵۲۲، ملتقطاً)

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ لَا تُبْطِلُوْۤا اَعْمَالَكُمْ(33)

ترجمہ: کنزالعرفان

اے ایمان والو! اللہ کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو اور اپنے اعمال باطل نہ کرو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ: اے ایمان والو! اللہ کا حکم مانو۔} اس سے پہلی آیت میں  بیان ہوا کہ کافروں  نے حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مخالفت کی اور اس آیت میں  ایمان والوں  کو حکم دیا جا رہا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور ا س کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کرتے رہیں ، چنانچہ اس آیت میں  پہلے یہ ارشاد فرمایا گیا کہ اے ایمان والو!تم جواللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لائے ہو اور ان کی اطاعت کرتے ہو اس ایمان اورا طاعت پر قائم رہو ،اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ ریاکاری یا منافقت کرکے اپنے اعمال باطل نہ کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ اسی عمل کو قبول فرماتا ہے جو ریا کاری اور نفاق سے خالی ہو اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کیا گیا ہو۔

 عمل کو باطل کرنا منع ہے:

            اس آیت میں  عمل کو باطل کرنے کی ممانعت فرمائی گئی ہے ،لہٰذا آدمی جو عمل شروع کرے خواہ وہ نفلی نماز یا روزہ یا کوئی اور ہی عمل ہو ،اس پر لازم ہے کہ اس کو باطل نہ کرے بلکہ اسے پورا کرے۔

نیک اعمال کو برباد کر دینے والے اعمال:

            یہاں  آیت کی مناسبت سے ہم 6ایسے اعمال ذکر کرتے ہیں  جو نیک اعمال کو باطل اور برباد کر دیتے ہیں  تاکہ لوگ ان سے بچیں  اور اپنے اعمال کو برباد ہونے سے بچائیں ،

(1)…کفر و شرک:چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے: ’’وَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ لِقَآءِ الْاٰخِرَةِ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْؕ-هَلْ یُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ‘‘(اعراف:۱۴۷)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جنہوں  نے ہماری آیتوں  اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلایا تو ان کے تمام اعمال برباد ہوئے،انہیں  ان کے اعمال ہی کا بدلہ دیا جائے گا۔

            اور ارشاد فرماتا ہے:

’’قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًاؕ(۱۰۳) اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ هُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا(۱۰۴) اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ وَ لِقَآىٕهٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا(۱۰۵) ذٰلِكَ جَزَآؤُهُمْ جَهَنَّمُ بِمَا كَفَرُوْا وَ اتَّخَذُوْۤا اٰیٰتِیْ وَ رُسُلِیْ هُزُوًا‘‘(کہف:۱۰۳۔۱۰۶)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم فرماؤ: کیا ہم تمہیں  بتادیں  کہ سب  سے زیادہ ناقص عمل والے کون ہیں ؟ وہ لوگ جن کی ساری کوشش دنیا کی زندگی میں  برباد ہو گئی حالانکہ وہ یہ گمان کررہے  ہیں  کہ وہ اچھا کام کررہے ہیں ۔یہی وہ لوگ ہیں  جنہوں  نے اپنے رب کی آیات اور اس کی ملاقات کا انکار کیا تو ان کے سب اعمال برباد ہوگئے پس ہم ان کے لیے قیامت کے دن کوئی وزن قائم نہیں کریں  گے۔یہ ان کا بدلہ ہے جہنم ،کیونکہ انہوں  نے کفر کیا اور میری آیتوں  اور میرے رسولوں  کو ہنسی مذاق بنالیا۔

(2)… مرتد ہو نا:چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ مَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَیَمُتْ وَ هُوَ كَافِرٌ فَاُولٰٓىٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ‘‘(بقرہ:۲۱۷)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور تم میں  جو کوئی اپنے دین سے مرتد ہوجائے پھر کافر ہی مرجائے تو ان لوگوں  کے تمام اعمال دنیا و آخرت میں  برباد ہوگئے اور وہ دوزخ والے ہیں  وہ اس میں  ہمیشہ رہیں  گے۔

            اور ارشاد فرماتا ہے:

’’ وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهٗ٘-وَ هُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ‘‘(مائدہ:۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو ایمان سے پھرکر کافر ہوجائے تو اس کا ہر عمل برباد ہوگیا اور وہ آخرت میں  خسارہ پانے والوں  میں  ہوگا۔

(3)…منافقت :چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’ قَدْ یَعْلَمُ اللّٰهُ الْمُعَوِّقِیْنَ مِنْكُمْ وَ الْقَآىٕلِیْنَ لِاِخْوَانِهِمْ هَلُمَّ اِلَیْنَاۚ-وَ لَا یَاْتُوْنَ الْبَاْسَ اِلَّا قَلِیْلًاۙ(۱۸) اَشِحَّةً عَلَیْكُمْ ۚۖ-فَاِذَا جَآءَ الْخَوْفُ رَاَیْتَهُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْكَ تَدُوْرُ اَعْیُنُهُمْ كَالَّذِیْ یُغْشٰى عَلَیْهِ مِنَ الْمَوْتِۚ-فَاِذَا ذَهَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوْكُمْ بِاَلْسِنَةٍ حِدَادٍ اَشِحَّةً عَلَى الْخَیْرِؕ-اُولٰٓىٕكَ لَمْ یُؤْمِنُوْا فَاَحْبَطَ اللّٰهُ اَعْمَالَهُمْؕ-وَ كَانَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرًا‘‘(احزاب:۱۸،۱۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اللہ تم میں  سے ان لوگوں  کو جانتا ہے جو دوسروں  کو جہاد سے روکتے ہیں  اور اپنے بھائیوں  سے کہتے ہیں : ہماری طرف چلے آؤ اور وہ لڑائی میں  تھوڑے ہی آتے ہیں ۔ تمہارے اوپر بخل کرتے ہوئے آتے ہیں پھر جب ڈر کا وقت آتا ہے توتم انہیں  دیکھو گے کہ تمہاری طرف یوں  نظر کرتے ہیں  کہ ان کی آنکھیں  گھوم رہی ہیں  جیسے کسی پر موت چھائی ہوئی ہو پھر جب ڈر کا وقت نکل جاتا ہے تومال غنیمت کی لالچ میں تیز زبانوں  کے ساتھ تمہیں  طعنے دینے لگتے ہیں  ۔یہ لوگ ایمان لائے ہی نہیں  ہیں  تو اللہ نے ان کے اعمال برباد کردئیے اور یہ اللہ پر بہت آسان ہے۔

(4)…نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  آواز بلند کرنا:چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ‘‘(حجرات:۲)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اپنی آوازیں  نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں  تمہارے اعمال بربادنہ ہوجائیں  اور تمہیں  خبر نہ ہو۔

(5)…صدقہ دے کر احسان جتانا اور تکلیف پہنچانا:چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰى‘‘(بقرہ:۲۶۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! احسان جتا کر اور تکلیف پہنچا کر اپنے صدقے برباد نہ کردو۔

(6)…نیک اعمال کے ذریعے دنیا طلب کرنا:چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَیْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِیْهَا وَ هُمْ فِیْهَا لَا یُبْخَسُوْنَ(۱۵) اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ ﳲ وَ حَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْهَا وَ بٰطِلٌ مَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ‘‘(ہود:۱۵،۱۶)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو دنیا کی زندگی اوراس کی زینت چاہتا ہو توہم دنیا میں  انہیں  ان کے اعمال کا پورا بدلہ دیں  گے اورانہیں  دنیا میں  کچھ کم نہ دیا جائے گا۔ یہ وہ لوگ ہیں  جن کے لیے آخرت میں  آگ کے سوا کچھ نہیں  اور دنیا میں  جو کچھ انہوں نے کیا وہ سب برباد ہوگیا اور ان کے اعمال باطل ہیں ۔

            اللہ تعالیٰ ہمیں  ان تمام اعمال سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے جو نیک اعمال کی بربادی کا سبب بنتے ہیں ، اٰمین۔

اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ صَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ثُمَّ مَاتُوْا وَ هُمْ كُفَّارٌ فَلَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَهُمْ(34)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک جنہوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا پھر کافر ہی مرگئے تو اللہ انہیں ہرگزنہیں بخشے گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ صَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ: بیشک جنہوں  نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا۔} ارشاد فرمایا کہ بیشک وہ لوگ جنہوں  نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ کفر کیا اور لوگوں  کو اللہ تعالیٰ کی رضا تک پہنچانے والے راستے سے روکا،پھر وہ کفر کی حالت میں  ہی مر گئے تو اللہ تعالیٰ آخرت میں  ہر گز ان کی مغفرت نہیں  فرمائے گا کیونکہ وہ کفر پر مرے ہیں  تو اسی کے مطابق ان کا حَشْر ہو گا۔

            مفسّرین کا ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت قُلَیب والوں  کے بارے میں  نازل ہوئی ۔ قلیب بدر میں  ایک کنواں  ہے جس میں  ابو جہل اور اس کے ساتھ دیگر مقتول کفار ڈالے گئے تھے،البتہ اس آیت کا حکم ہراس کافر کے لئے عام ہے جو کفر پر مرا ہو ، اللہ تعالیٰ اس کی ہر گز مغفرت نہ فرمائے گا۔( روح البیان، محمد، تحت الآیۃ: ۳۴، ۸ / ۵۲۳، خازن، محمد، تحت الآیۃ: ۳۴، ۴ / ۱۴۲، ملتقطاً

فَلَا تَهِنُوْا وَ تَدْعُوْۤا اِلَى السَّلْمِ ﳓ وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ ﳓ وَ اللّٰهُ مَعَكُمْ وَ لَنْ یَّتِرَكُمْ اَعْمَالَكُمْ(35)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو تم سستی نہ کرو اور خود صلح کی طرف دعوت نہ دو اور تم ہی غالب ہو گے اور اللہ تمہارے ساتھ ہے اور وہ ہرگز تمہارے اعمال میں تمہیں نقصان نہ دے گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَلَا تَهِنُوْا وَ تَدْعُوْۤا اِلَى السَّلْمِ: تو تم سستی نہ کرو اور خود صلح کی طرف دعوت نہ دو۔} یہاں  آیت میں  اگرچہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے خطاب فرمایا جارہا ہے لیکن اس حکم میں  تمام مسلمان شامل ہیں  اور آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب تمہارے سامنے بیان کر دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں  کے اعمال باطل کر دے گا اور ان کی مغفرت نہیں  فرمائے گا تو تم دشمن کے مقابلے میں  کمزوری نہ دکھاؤ اور کفار کو خود صلح کی طرف دعوت نہ دو کیونکہ اس میں  ذلّت ہے اوران سے جنگ کرو،اس میں  تم ہی ان پر غالب ہو گے اور اللہ تعالیٰ اپنی مدد اور نصرت سے تمہارے ساتھ ہے تو جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہو وہی غالب آئے گا اور یا درکھو کہ اللہ  تعالیٰ ہرگز تمہارے اعمال میں  تمہیں  نقصان نہ دے گا بلکہ تمہیں  اعمال کا پورا پورا اجر عطا فرمائے گا ۔( خازن، محمد، تحت الآیۃ: ۳۵، ۴ / ۱۴۲-۱۴۳، روح البیان، محمد، تحت الآیۃ: ۳۵، ۸ / ۵۲۳، ملتقطاً)

اِنَّمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌؕ-وَ اِنْ تُؤْمِنُوْا وَ تَتَّقُوْا یُؤْتِكُمْ اُجُوْرَكُمْ وَ لَا یَسْــٴَـلْكُمْ اَمْوَالَكُمْ(36)اِنْ یَّسْــٴَـلْكُمُوْهَا فَیُحْفِكُمْ تَبْخَلُوْا وَ یُخْرِ جْ اَضْغَانَكُمْ(37)

ترجمہ: کنزالعرفان

دنیا کی زندگی تو یہی کھیل کود ہے اور اگر تم ایمان لاؤ اور پرہیزگاری کرو تو وہ تمہیں تمہارے ثواب عطا فرمائے گا اور کچھ تم سے تمہارے مال نہ مانگے گا۔ اگر اللہ تم سے تمہارے مال طلب کرے اور زیادہ طلب کرے توتم بخل کرو گے اور وہ بخل تمہارے دلوں کے کھوٹ کوظاہر کردے گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ: دنیا کی زندگی تو یہی کھیل کود ہے۔} اس سے پہلی آیت میں  مسلمانوں  کی ہمّت بڑھا کر انہیں  جہاد کی ترغیب دی گئی اور اب اس آیت سے دنیا کی ناپائیداری اور بے ثباتی بیان فرما کر جہاد کرنے اور راہِ خدا میں  خرچ کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے،چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے لوگو! کافروں  کے خلاف جہاد کرو جو اللہ تعالیٰ کے دشمن ہیں  اور تمہارے بھی دشمن ہیں  اور دنیوی زندگی کی رغبت تمہیں  جہاد چھوڑ دینے پر نہ ابھارے کیونکہ دنیا کی زندگی تو کھیل کود کی طرح ہے اور یہ اتنی جلد گزر جاتی ہے کہ پتا بھی نہیں  چلتا، لہٰذا اس میں  مشغول ہونا کچھ بھی نفع مند نہیں  ہے۔اس کے بعد ارشاد فرمایا’’اے لوگو اگر تم ایمان لاؤ اور پرہیزگاری اختیار کرو تو اللہ تعالیٰ تمہیں  تمہارے ایمان اور پرہیزگاری کا ثواب عطا فرمائے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے لئے تم سے تمہارے مال نہ مانگے گا کیونکہ وہ غنی اوربے نیاز ہے ،البتہ تمہیں  راہِ خدا میں  کچھ مال خرچ کرنے کا حکم دے گا تاکہ تمہیں  اس کا ثواب ملے ۔ اگر اللہ تعالیٰ تم سے تمہارے مال طلب کرے اور زیادہ طلب کرے توتم میں  سے اکثر اس کی اطاعت کرنے کی بجائے بخل کرنے لگیں  گے اور وہ بخل تمہارے دلوں  کے کھوٹ کوظاہر کردے گا کیونکہ انسان فطری طور پر مال سے محبت کرتا ہے اور جس سے اس کی محبوب چیز لے لی جائے تو اس کے دل میں  موجود باتیں  ظاہر ہوجاتی ہیں  تو یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں  پر رحمت ہے کہ وہ ان پر ایسے احکام نافذ نہیں  فرماتا جنہیں  پورا کرناانتہائی دشوار ہو۔( تفسیر طبری، محمد،تحت الآیۃ:۳۶-۳۷،۱۱ / ۳۲۸، خازن،محمد، تحت الآیۃ: ۳۶-۳۷، ۴ / ۱۴۳، مدارک، محمد، تحت الآیۃ: ۳۶-۳۷، ص۱۱۳۸، صاوی، محمد، تحت الآیۃ: ۳۶-۳۷، ۵ / ۱۹۶۳-۱۹۶۴، ملتقطاً)

هٰۤاَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۚ-فَمِنْكُمْ مَّنْ یَّبْخَلُۚ-وَ مَنْ یَّبْخَلْ فَاِنَّمَا یَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِهٖؕ-وَ اللّٰهُ الْغَنِیُّ وَ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُۚ-وَ اِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَكُمْۙ-ثُمَّ لَا یَكُوْنُوْۤا اَمْثَالَكُمْ(38)

ترجمہ: کنزالعرفان

ہاں ہاں یہ تم ہوجو بلائے جاتے ہو تاکہ تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو تو تم میں کوئی بخل کرتا ہے اور جو بخل کرے وہ اپنی ہی جان سے بخل کرتا ہے اور اللہ بے نیاز ہے اور تم سب محتاج ہو اور اگر تم منہ پھیرو گے تو وہ تمہارے سوا اور لوگ بدل دے گا پھر وہ تم جیسے نہ ہوں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{هٰۤاَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ تُدْعَوْنَ: ہاں  ہاں  یہ تم ہو جوبلائے جاتے ہو۔} ارشاد فرمایا کہ ہاں  ہاں ،تم لوگوں  کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں  وہاں  خرچ کرنے کے لئے بلایا جاتا ہے جہاں  خرچ کرنا تم پر ضروری ہے تو تم میں  کوئی صدقہ دینے اور فرض ادا کرنے میں  بخل کرتا ہے اور جو بخل کرے وہ اپنی ہی جان سے بخل کرتا ہے کیونکہ وہ خرچ کرنے کے ثواب سے محروم ہو جائے گا اور بخل کرنے کا نقصان اٹھائے گا ، اللہ تعالیٰ تمہارے صدقات اور طاعات سے بالکل بے نیاز ہے اور تم سب اس کے فضل و رحمت کے     محتاج ہو تو وہ تمہیں  جو بھی حکم دیتا ہے تمہارے فائدے کے لئے ہی دیتا ہے،اگر تم اس پر عمل کرو گے تو نفع اٹھاؤ گے اور نہیں  کرو گے تو نقصان بھی تمہیں  ہی ہو گا اور یاد رکھو! اگر تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت سے منہ پھیرو گے تو وہ تمہیں  ہلاک کر دے گا اور تمہاری جگہ دوسرے لوگوں  کو پیدا کر دے گا پھر وہ تم جیسے نافرمان نہ ہوں  گے بلکہ انتہائی اطاعت گزار اورفرمانبردار ہوں  گے ۔( خازن، محمد، تحت الآیۃ: ۳۸، ۴ / ۱۴۳، مدارک، محمد، تحت الآیۃ: ۳۸، ص۱۱۳۸-۱۱۳۹، روح البیان، محمد، تحت الآیۃ: ۳۸، ۸ / ۵۲۵-۵۲۷، ملتقطاً)

فرض جگہ پر مال خرچ کرنے کا دینی اور دنیوی فائدہ:

            یاد رہے کہ بعض مقامات پر مال خرچ کرنا اللہ تعالیٰ نے فرض فرمایا ہے جیسے حقدار کو زکوٰۃ دینا، اور یہ اس وجہ سے ہر گز نہیں  ہے کہ اللہ  تعالیٰ کو لوگوں  کے مال کی حاجت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ تمام حاجتوں  سے بے نیاز ہے بلکہ بندے ہی ہر طرح سے اس کے     محتاج ہیں  اور اللہ تعالیٰ نے ان پر جو مال خرچ کرنا فرض فرمایا اس میں  بندوں  کا ہی دینی اور دنیوی فائدہ ہے ،دینی فائدہ تو یہ ہے کہ مال خرچ کرنے کی صور ت میں  وہ ثواب کے حقدار ٹھہریں  اور نہ خرچ کرنے کے وبال سے بچ جائیں  گے جبکہ دنیوی فائدہ یہ ہے کہ اگراپنے معاشرے کے غریب اورمَفْلُوکُ الحال لوگوں  کوزکوٰۃ ملے گی تو انہیں  معاشی سکون نصیب ہو گا،معاشرے سے غربت اور محتاجی کا خاتمہ ہو گا۔اسلام کے ابتدائی زمانے میں  ایک دور ایسا آچکا ہے جس میں  مالدار مسلمان اسلام کے احکام پر پوری طرح عمل کرتے ہوئے اپنی زکوٰۃ وغیرہ غریب مسلمانوں  پر خوب خرچ کیا کرتے تھے جس کی وجہ سے مسلمانوں  میں  غربت کا خاتمہ ہوا اورمسلمانوں  نے ترقی کی بلندیوں  کو چھوا اور اسلام کے آخری زمانے میں  بھی ایک وقت ایسا آئے گا جس میں  مسلمان اتنے مالدار ہوجائیں  گے کہ ان میں  بڑی مشکل سے زکوٰۃ لینے والا ملے گا، جیسا کہ حضرت حارِثَہ بن وَہْب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’صدقہ کرو کیونکہ تم پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ ایک شخص اپنا صدقہ لے کر چلے گا تو کوئی اسے قبول کرنے والا نہ ملے گا۔آدمی کہے گا: اگر تم کل لاتے تو میں  لے لیتا لیکن آج مجھے اس کی ضرورت نہیں ۔( بخاری، کتاب الزکاۃ، باب الصّدقۃ قبل الرد، ۱ / ۴۷۶، الحدیث: ۱۴۱۱)

            آج بھی اگرہمارے معاشرے کے مالدار مسلمان اپنی زکوٰۃ ہی صحیح طورپراپنے ملک کے غریبوں  کودے دیں  توشاید اس ملک میں  کوئی غریب نہ رہے اورغربت کے باعث آج معاشرے میں  جوبدامنی پھیلی ہوئی ہے وہ ختم ہوجائے اورپوراملک امن وسکون کاگہوارہ بن جائے ۔

 بخل کرنے کا دینی اور دنیوی نقصان:

            بخل کرنے کے بہت سے دینی اور دنیوی نقصانات ہیں  ،ہم یہاں  اس کے 5 دینی اور 6 دنیوی نقصانات ذکر کرتے ہیں  تاکہ لوگ بخل کرنے سے بچیں  ،چنانچہ ا س کے دینی نقصانات یہ ہیں 

(1)…بخل کرنے والا کبھی کامل مومن نہیں  بن سکتا بلکہ کبھی بخل ایمان سے بھی روک دیتا ہے اور انسان کو کفر کی طرف لے جاتا ہے ،جیسے قارون کو اس کے بخل نے کافر بنا دیا۔

(2)…بخل کرنے والا گویا کہ اس درخت کی شاخ پکڑ رہا ہے جو اسے جہنم کی آگ میں  داخل کر کے ہی چھوڑے گی۔

(3)…بخل کی وجہ سے جنت میں  داخل ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔

(4)…بخل کرنے والا مال خرچ کرنے کے ثواب سے محروم ہوجاتا اور نہ خرچ کرنے کے وبال میں  مبتلا ہو جاتا ہے۔

(5)…بخل کرنے والا حرص جیسی خطرناک باطنی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے اور اس پر مال جمع کرنے کی دھن سوار ہو جاتی ہے اور ا س کیلئے وہ جائز ناجائز تک کی پرواہ کرنا چھوڑ دیتا ہے۔

            اور بخل کے دنیوی نقصانات یہ ہیں 

(1)…بخل آدمی کی سب سے بدتر خامی ہے۔

(2)…بخل ملامت اور رسوائی کا ذریعہ ہے۔

(3)…بخل خونریزی اور فساد کی جڑ اور ہلاکت وبربادی کا سبب ہے ۔

(4)…بخل ظلم کرنے پر ابھارتا ہے۔

(5)…بخل کرنے سے رشتہ داریاں  ٹوٹتی ہیں  ۔

(6)…بخل کرنے کی وجہ سے آدمی مال کی برکت سے محروم ہوجاتا ہے۔

            اللہ تعالیٰ ہمیں  اپنی راہ میں  مال خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور بخل جیسی بد ترین باطنی بیماری سے محفوظ فرمائے،اٰمین۔

{وَ اِنْ تَتَوَلَّوْا: اور اگر تم منہ پھیرو گے۔} علامہ احمدصاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  :آیت کے اس حصے میں  صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے خطاب ہے(اگر ایسا ہے) تو (یہ تبدیلی بالفعل حاصل نہیں  ہوئی بلکہ) اس سے مقصود محض ڈرانا ہے کیونکہ صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ (کو یہ مقام حاصل ہے کہ ان) کے بعد کوئی شخص بھی ان کے رتبے تک نہیں  پہنچ سکتا اور شرط کے لئے یہ ضروری نہیں  کہ اس کا وقوع بھی ہو (یعنی جیسے کوئی اپنے نوکر سے کہے کہ اگر تم نے صحیح کام نہ کیا تو میں  تمہیں  نوکری سے نکال دوں  گا تو اس کہنے کے بعد ضروری نہیں  کہ نوکر غلط کام ضرور کرے گابلکہ یہ محض سمجھانا تھا)۔ یا یہاں  خطاب منافقوں  سے ہے،(اگر ایسا ہے) تو یہ تبدیلی بالفعل ہوئی ہے (اور ان کی جگہ دوسرے لوگ آئے ہیں  جو ان جیسے نہ تھے بلکہ مخلص اور انتہائی اطاعت گزار مومن تھے۔)( صاوی، محمد، تحت الآیۃ: ۳۸، ۵ / ۱۹۶۴)

Scroll to Top