سُوْرَۃُ المُجَادِلَة
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
قَدْ سَمِـعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّتِیْ تُجَادِلُكَ فِیْ زَوْجِهَا وَ تَشْتَكِیْۤ اِلَى اللّٰهِ ﳓ وَ اللّٰهُ یَسْمَعُ تَحَاوُرَكُقَدْ سَمِـعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّتِیْ تُجَادِلُكَ فِیْ زَوْجِهَا وَ تَشْتَكِیْۤ اِلَى اللّٰهِ ﳓ وَ اللّٰهُ یَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَاؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌۢ بَصِیْرٌ(1)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو اپنے شوہر کے معاملے میں آپ سے بحث کررہی ہے اور اللہ کی بارگاہ میں شکایت کرتی ہے اور اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا ہے، بیشک اللہ خوب سننے والا،خوب دیکھنے والاہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَدْ سَمِـعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّتِیْ تُجَادِلُكَ فِیْ زَوْجِهَا: بیشک اللّٰہ نے اس عورت کی بات سن لی جو اپنے شوہر کے معاملے میں آپ سے بحث کررہی ہے۔ } شانِ نزول: حضرت اوس بن صامت رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کسی بات پر اپنی زوجہ حضرت خولہ بنت ِثعلبہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے کہا: تو مجھ پر میری ماں کی پشت کی مثل ہے۔ یہ کہنے کے بعد حضرت اَوس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ندامت ہوئی ،یہ کلمہ زمانۂ جاہلیّت میں طلاق شمار کیا جاتا تھا ا س لئے حضرت اَوس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنی زوجہ سے کہا: میرے خیال میں تو مجھ پر حرام ہوگئی ہے۔حضرت خولہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے سر کارِ دوعالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہو کر تمام واقعات ذکر کئے اور عرض کیا: میرا مال ختم ہوچکا ،ماں باپ وفات پاگئے، عمر زیادہ ہوگئی اوربچے چھوٹے چھوٹے ہیں ،اگر انہیں ان کے باپ کے پاس چھوڑ وں تو ہلاک ہوجائیں گے اور اپنے ساتھ رکھوں تو بھوکے مرجائیں گے،اب ایسی کیا صورت ہے کہ میرے اور میرے شوہر کے درمیان جدائی نہ ہو۔ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تیرے بارے میں میرے پاس کوئی حکم نہیں ، یعنی ابھی تک ظہار کے متعلق کوئی جدید حکم نازل نہیں ہوا اور پرانا دستور یہی ہے کہ ظہار سے عورت حرام ہوجاتی ہے۔حضرت خولہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے عرض کی: یا رسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، حضرت اَوس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے طلاق کا لفظ نہیں کہا، وہ میرے بچوں کے باپ ہیں اور مجھے بہت ہی پیارے ہیں ، اسی طرح وہ بار بار عرض کرتی رہیں اورجب اپنی خواہش کے مطابق جواب نہ پایا تو آسمان کی طرف سر اُٹھا کر کہنے لگی: یا اللّٰہ!عَزَّوَجَلَّ، میں تجھ سے اپنی محتاجی ، بے کَسی اور پریشان حالی کی شکایت کرتی ہوں ، اپنے نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر میرے حق میں ایسا حکم نازل فرماجس سے میری مصیبت دورہو جائے۔ اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے اس سے فرمایا: خاموش ہو جا اور دیکھ ، رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چہرئہ مبارک پر وحی کے آثار ظاہر ہیں ۔ جب وحی پوری ہوگئی تو ارشاد فرمایا: ’’ اپنے شوہر کو بلا ؤ۔حضرت اوس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ حاضر ہوئے تو حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ آیتیں پڑھ کر سنائیں ۔
اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ،بیشک اللّٰہ تعالیٰ نے اس عورت کی بات سن لی جو اپنے شوہر کے معاملے میں آپ سے بحث کررہی ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے حال،فاقے اور تنہائی کے شدید ہونے کی شکایت کرتی ہے اور اللّٰہ تعالیٰ تم دونوں کی آپس میں ہونے والی گفتگو سن رہا ہے، بیشک جو اللّٰہ تعالیٰ سے مناجات کرے اور اس کی بارگاہ میں گریہ و زاری کرے تواللّٰہ تعالیٰ اس کی مناجات کو سننے والا اور شکایت ُکنِندہ کو دیکھنے والاہے۔( خازن، المجادلۃ، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۲۳۵، مدارک، المجادلۃ، تحت الآیۃ: ۱، ص۱۲۱۵، ملتقطاً)
نوٹ:خیال رہے کہ حضرت خولہ بنت ِثعلبہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کاسرکارِدو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے بحث وتکرارکرنامخالفت یامقابلہ کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ کرم طلب کرنے کے لیے تھا اوراس سے اپنے دکھ درد کا اظہار مقصود تھا اور حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت چونکہ آپ کی باندی غلام ہیں اس لئے کرم طلب کرنے کے لئے آپ سے عرض و معروض کر سکتے ہیں ،نیز یاد رہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہرشکایت کرنی بری نہیں بلکہ بے صبری والی شکایت کرنابراہے ۔
حضرت خولہ بنت ِثعلبہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کا احترام
حضرت خولہ بنت ِثعلبہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کو حاصل ہونے والی اس خصوصیت کی وجہ سے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کابہت احترام کیاکرتے تھے ۔چنانچہ حضرت عمرفارو ق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے دورِ خلافت میں ایک بار حضرت خولہ بنت ِثعلبہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے پاس سے گزرے،اس وقت آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ درازگوش پرسوارتھے اورلوگوں کاایک ہجوم ساتھ تھا۔حضرت خولہ بنت ِثعلبہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے ان کوروک لیااورنصیحت کرتے ہوئے کہا:اے عمر! رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ،وہ دن تجھے یاد ہیں جب تمہیں عمیرکہاجاتاتھا،پھرعمرکہاجانے لگااوراب تمہیں لوگ امیرالمومنین کہنے لگے ہیں ،تو اے عمر! رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ، اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرتے رہاکرو،جوشخص موت پریقین رکھتاہے اسے اندیشہ رہتاہے کہ کوئی ضروری چیز رہ نہ جائے اورجسے حساب کایقین ہوتاہے وہ عذاب سے ڈرتاہے۔حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کھڑے ہو کر ان کی نصیحت کوسنتے رہے اورجب کافی وقت گزرگیاتولوگوں نے عرض کی: اے امیرالمومنین !اس بڑھیاکے لیے آپ اتنی دیرکھڑے رہیں گے ۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: خدا کی قسم !اگریہ مجھے صبح سے شام تک روک کر رکھے تومیں کھڑارہوں گا اورصرف نماز کے وقت میں رخصت لوں گا،کیاتم جانتے نہیں کہ یہ بوڑھی خاتون کون ہے؟ یہ حضرت خولہ بنت ِثعلبہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا ہے جس کی فریاد کو اللّٰہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کے اوپرسنا،کیایہ ہوسکتاہے کہ ربُّ العالَمین تواس کی بات سنے اورعمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نہ سنے؟( قرطبی، المجادلۃ، تحت الآیۃ: ۱، ۹ / ۱۹۷، الجزء السابع عشر)
اَلَّذِیْنَ یُظٰهِرُوْنَ مِنْكُمْ مِّنْ نِّسَآىٕهِمْ مَّا هُنَّ اُمَّهٰتِهِمْؕ-اِنْ اُمَّهٰتُهُمْ اِلَّا اﻼ وَلَدْنَهُمْؕ- وَ اِنَّهُمْ لَیَقُوْلُوْنَ مُنْكَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَ زُوْرًاؕ-وَ اِنَّ اللّٰهَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ(2)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم میں سے وہ لوگ جو اپنی بیویوں کو اپنی ماں جیسی کہہ بیٹھتے ہیں وہ ان کی مائیں نہیں ،ان کی مائیں تو وہی ہیں جنہوں نے انہیں جنم دیا اور بیشک وہ ضرور ناپسندیدہ اور بالکل جھوٹ بات کہتے ہیں اور بیشک اللہ ضروربہت معاف کرنے والا ،بہت بخشنے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَّذِیْنَ یُظٰهِرُوْنَ مِنْكُمْ مِّنْ نِّسَآىٕهِمْ: تم میں سے وہ لوگ جو اپنی بیویوں کو اپنی ماں جیسی کہہ بیٹھتے ہیں ۔} اس آیت میں ظہار کی مذمت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا کہ تم میں سے وہ لوگ جو اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں اور انہیں اپنی ماں جیسی کہہ بیٹھتے ہیں ، یہ کہنے سے وہ ان کی مائیں نہیں ہوگئیں بلکہ ان کی مائیں تو وہی ہیں جنہوں نے انہیں جنم دیا ہے اور بیشک ظہار کرنے والے بیویوں کو ماں کہہ کر ناپسندیدہ اور بالکل جھوٹ بات کہتے ہیں ، بیوی کو کسی طرح ماں کے ساتھ تشبیہ دینا ٹھیک نہیں اور بیشک اللّٰہ تعالیٰ انہیں ضرور معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔( خازن، المجادلۃ، تحت الآیۃ: ۲، ۴ / ۲۳۶)
ظِہار کی تعریف اوراس سے متعلق4 شرعی اَحکام
اس آیت میں ظہار کرنے والوں کا ذکر ہوا ،اس مناسبت سے یہاں ظہار کی تعریف اور اس سے متعلق 4شرعی اَحکام ملاحظہ ہوں ،چنانچہ صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :ظہار کے یہ معنے ہیں کہ اپنی زوجہ یا اُس کے کسی جُزْوِ شائع یا ایسے جز کو جو کُل سے تعبیر کیا جاتا ہو، ایسی عورت سے تشبیہ دینا جو اس پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو، یا اس کے کسی ایسے عُضْوْ سے تشبیہ دینا جس کی طرف دیکھنا حرام ہو، مثلاً (بیوی سے ) کہا :تو مجھ پر میری ماں کی مثل ہے، یا (یوں کہا کہ) تیرا سر ،یا تیری گردن ،یا تیرا نصف میری ماں کی پیٹھ کی مثل ہے۔( بہار شریعت، حصہ ہشتم، ظہار کا بیان، ۲ / ۲۰۵-۲۰۶)
اور ظہار سے متعلق4شرعی اَحکام درج ذیل ہیں ،
(1)…جس عورت سے تشبیہ دی اگر اُس کی حرمت عارضی ہے ہمیشہ کے لیے نہیں تو ظہار نہیں (ہو گا) مثلاً (جس سے تشبیہ دی وہ )زوجہ کی بہن، یا جس کو تین طلاقیں دی ہیں ،یا مجوسی یا بت پرست عورت(ہے) کہ یہ مسلمان یا کتابیہ ہوسکتی ہیں اور اِن کی حرمت دائمی نہ ہو نا ظاہر(ہے)۔(بہار شریعت، حصہ ہشتم، ظہار کا بیان، ۲ / ۲۰۶)
(2)…محارم سے مراد عام ہے نسبی ہوں یا رضاعی یا سسرالی رشتہ سے، لہٰذا ماں ،بہن ،پھوپھی ،لڑکی اور رضاعی ماں اور بہن وغیرہما اور زوجہ کی ماں اور لڑکی جبکہ زوجہ مدخولہ(یعنی اس سے حقِ زوجیّت ادا کیا) ہو،اور مدخولہ نہ ہو تو اُس کی لڑکی سے تشبیہ دینے میں ظہار نہیں کہ وہ محار م میں نہیں ۔ یوہیں جس عورت سے اُس کے باپ یا بیٹے نے مَعَاذَ اللّٰہ زنا کیا ہے اُس سے تشبیہ دی یا جس عورت سے اس نے زنا کیا ہے اُس کی ماں یا لڑکی سے تشبیہ دی تو ظہار ہے۔
(3)…عورت مرد سے ظہار کے الفاظ کہے تو ظہار نہیں بلکہ(یہ الفاظ) لَغْوْ ہیں ۔( بہار شریعت، حصہ ہشتم، ظہار کا بیان، ۲ / ۲۰۷)
(4)…ظہار کا حکم یہ ہے کہ جب تک کفارہ نہ دیدے اُس وقت تک اُس عورت سے جماع کرنا، یا شہوت کے ساتھ اُس کا بوسہ لینا، یا اُس کو چھونا، یا اُس کی شرمگاہ کی طرف نظر کرنا حرام ہے اور بغیر شہوت چھونے یا بوسہ لینے میں حرج نہیں مگرلب کا بوسہ بغیر شہوت بھی جائز نہیں ،کفارہ سے پہلے جماع کرلیا تو توبہ کرے اور اُس کے لیے کو ئی دوسرا کفارہ واجب نہ ہوا ،مگر خبر دار! پھر ایسا نہ کرے اور عورت کو بھی یہ جائز نہیں کہ شوہر کو قربت کرنے دے۔(بہار شریعت، حصہ ہشتم، ظہار کا بیان، ۲ / ۲۰۸)
نوٹ:ظہار سے متعلق مزید مسائل کی معلومات حاصل کرنے کے لئے بہار شریعت حصہ8سے ’’ظہار کا بیان‘‘ مطالعہ فرمائیں ۔نیز یاد رہے کہ دودھ پلانے والیاں دودھ پلانے کی وجہ سے ماؤں کے حکم میں ہیں اور حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ازواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ حرمت اور تعظیم کے اعتبارسے مائیں بلکہ حقیقی ماؤں سے بڑھ کر ہیں ،لہٰذا یہ آیت اُس آیت کے خلاف نہیں جس میں ارشاد فرمایاگیا :
’’وَ اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْؕ ‘‘(احزاب:۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ان کی بیویاں ان کی مائیں ہیں ۔
کیونکہ یہاں حقیقی ماں کا ذکر ہے اور سورۂ اَحزاب میں حکمی ماں کا ذکر ہے۔
وَ الَّذِیْنَ یُظٰهِرُوْنَ مِنْ نِّسَآىٕهِمْ ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَآسَّاؕ-ذٰلِكُمْ تُوْعَظُوْنَ بِهٖؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ(3)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور وہ جو اپنی بیویوں کو اپنی ماں جیسی کہیں پھر اپنی کہی ہوئی بات کا تدارک (تلافی ) کرناچاہیں تو ( اس کا کفارہ)میاں بیوی کے ایک دوسرے کو چھونے سے پہلے ایک غلام آزاد کرناہے یہ وہ ہے جس کی تمہیں نصیحت کی جاتی ہے اور اللہ تمہارے کاموں سے خوب خبردار ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الَّذِیْنَ یُظٰهِرُوْنَ مِنْ نِّسَآىٕهِمْ: اور وہ جو اپنی بیویوں کو اپنی ماں جیسی کہیں ۔} اس سے پہلی آیت میں ظہار کی مذمت بیان کی گئی اور اب یہاں سے ظہار کا شرعی حکم بیان کیا جا رہاہے ،چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو اپنی بیویوں سے ظہار کریں ،پھر اس ظہار کو توڑ دینا اوراس کی وجہ سے ہونے والی حرمت کو ختم کر دینا چاہیں تو ان پر ظہار کا کفارہ ادا کرنا لازم ہے ، لہٰذا اُن پر ضروری ہے کہ ایک دوسرے کو چھونے سے پہلے ایک غلام آزاد کریں ، یہ وہ حکم ہے جس کے ذریعے تمہیں نصیحت کی جاتی ہے تاکہ تم دوبارہ ظہار نہ کرو اور اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرو اور یہ بات یاد رکھو کہ اللّٰہ تعالیٰ تمہارے کاموں سے خبردار ہے اور وہ تمہیں ان کی جزا دے گا ،لہٰذا اللّٰہ تعالیٰ نے تمہارے لئے شریعت کی جو حدود مقرر کی ہیں ان کی حفاظت کرو اور کسی حد کو نہ توڑو۔( مدارک،المجادلۃ،تحت الآیۃ: ۳، ص۱۲۱۶، خازن، المجادلۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۴ / ۲۳۷، روح البیان، المجادلۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۹ / ۳۹۲، ملتقطاً)
ظہار کا کفارہ کب واجب ہے ؟
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :ظہار کرنے والا جماع کا ارادہ کرے تو کفارہ واجب ہے اور اگر یہ چاہے کہ وطی نہ کرے اور عورت اُس پر حرام ہی رہے تو کفارہ واجب نہیں اور اگر ارادۂ جماع تھا مگر زوجہ مر گئی تو واجب نہ رہا۔(بہار شریعت، حصہ ہشتم، کفارہ کا بیان، ۲ / ۲۱۰)
جب غلام پر قدرت ہے اگرچہ وہ خدمت کا غلام ہو تو کفارہ آزاد کرنے ہی سے ہو گا اور اگر غلام کی اِستطاعت نہ ہو خواہ ملتا نہیں یا اس کے پاس دام نہیں تو کفارہ میں پے در پے(یعنی مسلسل)دو مہینے کے روزے رکھے اور اگر اُس کے پاس خدمت کا غلام ہے یا مدیون (یعنی مقروض)ہے اور دَین(یعنی قرض)ادا کرنے کے لیے غلام کے سواکچھ نہیں تو ان صورتوں میں بھی روزے وغیرہ سے کفارہ ادا نہیں کرسکتا بلکہ غلام ہی آزاد کرنا ہوگا۔(بہار شریعت، حصہ ہشتم، کفارہ کا بیان، ۲ / ۲۱۳)
نوٹ:ظہار کے کفارے سے متعلق مزید مسائل کی معلومات حاصل کرنے کے لئے بہار شریعت حصہ8سے ’’کفارہ کا بیان‘‘ مطالعہ فرمائیں ۔
فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَهْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَآسَّاۚ-فَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَاِطْعَامُ سِتِّیْنَ مِسْكِیْنًاؕ-ذٰلِكَ لِتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖؕ-وَ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(4)
ترجمہ: کنزالعرفان
پھر جو شخص(غلام )نہ پائے تو میاں بیوی کے ایک دوسرے کو چھونے سے پہلے لگاتار دو مہینے کے روزے رکھنا (شوہر پر لازم ہے) پھر جو(روزے کی) طاقت نہ رکھتا ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ( لازم ہے) یہ اس لیے کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھو اور یہ اللہ کی حدیں ہیں اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ: پھر جو شخص (غلام) نہ پائے۔} اس آیت میں ظہار کے کفارے کی مزید دو صورتیں بیان کی جا رہی ہیں ، چنانچہ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ پھر جسے غلام نہ ملے تو اس صورت میں ظہار کا کفارہ یہ ہے کہ میاں بیوی کے ایک دوسرے کو چھونے سے پہلے لگاتار دو مہینے کے روزے رکھنا شوہر پر لازم ہے ،پھر جو اتنے روزے رکھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس صورت میں ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا شوہر پر لازم ہے۔ یہ حکم اس لیے دیا گیا ہے تا کہ تم اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان رکھو ، ان کی فرمانبرداری کرو اور جاہلیّت کے طریقے چھوڑدو اور یہاں جو ظہار اور اس کے کفارے کے اَحکام بیان ہوئے یہ اللّٰہ تعالیٰ کی حدیں ہیں ،ان کو توڑنا اور ان سے تجاوُز کرنا جائز نہیں اور کافروں کے لیے قیامت کے دن دردناک عذاب ہے۔( خازن، المجادلۃ، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۲۳۷، مدارک، المجادلۃ، تحت الآیۃ: ۵، ص۱۲۱۷، ملتقطاً)
روزے رکھ کر اور مسکینوں کو کھاناکھلا کر ظہار کا کفارہ ادا کرنے سے متعلق 10شرعی مسائل:
یہاں آیت میں کفارے کی بیان کردہ دو صورتوں سے متعلق10شرعی احکام ملاحظہ ہوں ،
(1)…روزے سے کفارہ ادا کرنے میں یہ شرط ہے کہ نہ اِس مدت کے اندر ماہِ رمضان ہو، نہ عید الفطر، نہ عید ِاضحی نہ اَیّامِ تشریق۔ ہاں اگر مسافر ہے تو ماہِ رمضان میں کفارہ کی نیت سے روزہ رکھ سکتا ہے، مگر وہ اَیّام جن میں روزہ رکھنا ممنوع ہے، اُن میں اسے بھی روزہ رکھنے کی اجازت نہیں ۔
(2)…روزے اگر پہلی تاریخ سے رکھے تو دوسرا مہینہ ختم ہونے پر کفارہ ادا ہوگیا اگرچہ دونوں مہینے 29دن کے ہوں جبکہ اگر پہلی تاریخ سے نہ رکھے ہوں تو ساٹھ پورے رکھنے ہوں گے اور اگر پندرہ روزے رکھنے کے بعد چاند ہوا پھراس مہینے کے روزے رکھ لیے اور یہ29 دن کا مہینہ ہو، اس کے بعد پندرہ دن اور رکھ لیے کہ59 دن ہوئے جب بھی کفارہ ادا ہو جائے گا۔
(3)…کفارہ کا روزہ توڑدیا خواہ سفر وغیرہ کسی عذر سے توڑا یا عذر کے بغیر توڑ دیا،یا ظہار کرنے والے نے جس عورت سے ظہار کیا ان دو مہینوں کے اندر دن یا رات میں اُس سے جان بوجھ کر یا بھول کر صحبت کر لی تو نئے سرے سے روزے رکھے کیونکہ شرط یہ ہے کہ جماع سے پہلے دومہینے کے پے در پے روزے رکھے اور ان صورتوں میں یہ شرط نہ پائی گئی۔
(4)…روزے رکھنے پر بھی اگر قدرت نہ ہو کہ بیمار ہے اور صحت یاب ہونے کی امید نہیں یا بہت بوڑھا ہے تو ساٹھ مسکینوں کو دونوں وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلائے اور اس میں یہ اختیار ہے کہ اکٹھے ساٹھ مسکینوں کو کھلادے یا مُتَفَرّق طور پر، مگر شرط یہ ہے کہ اس دوران روزے رکھنے پر قدرت حاصل نہ ہو ورنہ کھلانا صدقہ نفل ہوگا اور کفارہ میں روزے رکھنے ہوں گے اور اگر ایک وقت ساٹھ کو کھلایا دوسرے وقت ان کے علاوہ دوسرے ساٹھ مسکینوں کو کھلایا تو کفارہ ادا نہ ہوا بلکہ ضروری ہے کہ پہلے یا بعد والے مسکینوں کو پھر ایک وقت کھلائے۔
(5)…شرط یہ ہے کہ جن مسکینوں کو کھانا کھلایا ہواُن میں کوئی ایسا نا بالغ نہ ہو جوبالغ ہونے کے قریب ہو ،ہاں اگر ایک جوان کی پوری خوراک کا اُسے مالک کر دیا تو کافی ہے۔
(6)…یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہر مسکین کو صدقۂ فطر کی مقدار یعنی نصف صاع ( تقریبا ًدو کلو ) گندم یا ایک صاع ( تقریبا ًچار کلو) جَویا ان کی قیمت کا مالک کر دیا جائے ،مگر مباح کر دینا کافی نہیں (بلکہ مالک بنانا ضروری ہے) اور یہ اُنہی لوگوں کو دے سکتے ہیں جنہیں صدقۂ فطر دے سکتے ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ صبح کو کھلائے اور شام کے لیے قیمت دیدے یا شام کو کھلائے اور صبح کے کھانے کی قیمت دیدے ،یا دو دن صبح کو یا شام کو کھلائے، یا تیس کو کھلائے اور تیس کو دیدے غرض یہ کہ ساٹھ کی تعداد جس طرح چاہے پوری کرے اس کا اختیار ہے ۔
(7)…کھلانے میں پیٹ بھر کر کھلانا شرط ہے اگرچہ تھوڑے ہی کھانے میں سیرہوجائیں اور اگر پہلے ہی سے کوئی سیر تھا تو اُس کا کھانا کافی نہیں اور بہتر یہ ہے کہ گندم کی روٹی اور سالن کھلائے اوراس سے اچھا کھاناہو تو اور بہتر اور جَوکی روٹی ہو تو سالن ضروری ہے۔
(8)…ایک مسکین کو ساٹھ دن تک دونوں وقت کھلایا ،یا ہر روز صدقۂ فطر کی مقداراُسے دیدیا جب بھی کفارہ اد ا ہوگیا اور اگر ایک ہی دن میں ایک مسکین کو سب دیدیا ایک دفعہ میں یا ساٹھ دفعہ کر کے، یا اُس کو سب مباح کرنے کے طور پر دیا تو صرف اُس ایک دن کا ادا ہوا۔ یوہیں اگر تیس مَساکین کو ایک ایک صاع گندم دی یا دودو صاع جَو دئیے تو صرف تیس کو دینا قرار پائے گا یعنی تیس مساکین کو پھر دینا پڑے گا، یہ اُس صورت میں ہے کہ ایک دن میں دیئے ہوں اور اگر دودنوں میں دئیے ہوں تو جائز ہے۔
(9)…ایک سو بیس مسکینوں کو ایک وقت کھانا کھلادیا تو کفارہ ادا نہ ہوا بلکہ ضروری ہے کہ ان میں سے ساٹھ کو پھر ایک وقت کھلائے خواہ اُسی دن یاکسی دوسرے دن اور اگر وہ نہ ملیں تو دوسرے ساٹھ مسکینوں کو دونوں وقت کھلائے۔
(10)…ظہار میں یہ ضروری ہے کہ قربت سے پہلے ساٹھ مساکین کو کھلادے اور اگر ابھی پورے ساٹھ مساکین کو کھلا نہیں چکا ہے اور درمیان میں وطی کرلی تو اگرچہ یہ حرام ہے مگر جتنوں کو کھلا چکا ہے وہ باطل نہ ہوا، با قیوں کو کھلادے،نئے سرے سے پھر ساٹھ کو کھلانا ضروری نہیں ۔( بہار شریعت، حصہ ہشتم، کفارہ کا بیان، ۲ / ۲۱۳-۲۱۷)
اِنَّ الَّذِیْنَ یُحَآدُّوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ كُبِتُوْا كَمَا كُبِتَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ قَدْ اَنْزَلْنَاۤ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ(5)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ذلیل و رسوا کردیا جائے گا جیسے ان سے پہلے لوگ ذلیل و رسوا کردئیے گئے اور بیشک ہم نے روشن آیتیں اتاریں اور کافروں کے لیے رسواکردینے والا عذاب ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ الَّذِیْنَ یُحَآدُّوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ: بیشک وہ لوگ جو اللّٰہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں ۔} اس سے پہلی آیت میں اللّٰہ تعالیٰ کی حدوں کی حفاظت اور دین ِاسلام کے دئیے ہوئے احکام کی پابندی کرنے کی تاکید کی گئی اور ا س آیت میں ان لوگوں کے لئے وعید بیان کی گئی ہے جو ان کی مخالفت کرتے اور ان کا انکار کرتے ہیں ،چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ بیشک وہ لوگ جو اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے احکام کی مخالفت کرتے ہیں وہ ایسے ہی ذلیل کئے جائیں گے جیسے ان سے پہلے لوگ رسولوں عَلَیْہِ مُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مخالفت کرنے کے سبب ذلیل و رسوا کردئیے گئے اور یہ ذلت اس لئے ہو گی کہ بیشک ہم نے رسولوں عَلَیْہِ مُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی صداقت پر دلالت کرنے والی اور واضح احکام پر مشتمل روشن آیتیں اتاریں ، ا س کے باوجود انہوں نے مخالفت کی اور یہ تو دنیا کی سزا ہے جبکہ آخرت میں ان آیتوں کا انکار کرنے والے کافروں کے لیے رسواکردینے والا عذاب ہے۔
آیت ’’اِنَّ الَّذِیْنَ یُحَآدُّوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں ،
(1)… حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مخالفت اللّٰہ تعالیٰ کی مخالفت ہے۔
(2)…اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ کے مقبول بندوں کے دشمن کو جنگ کااعلان بھی ہے اوراس کے مغلوب ہونے کا اعلان بھی۔
یَوْمَ یَبْعَثُهُمُ اللّٰهُ جَمِیْعًا فَیُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوْاؕ-اَحْصٰىهُ اللّٰهُ وَ نَسُوْهُؕ-وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌ(6)
ترجمہ: کنزالعرفان
جس دن اللہ ان سب کو(دوبارہ زندہ کر کے) اٹھائے گا پھر وہ انہیں ان کے اعمال بتائے گا، اللہ نے ان اعمال کو گن رکھا ہے اور وہ لوگ انہیں بھول گئے ہیں اور اللہ ہر چیزپر گواہ ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{یَوْمَ یَبْعَثُهُمُ اللّٰهُ جَمِیْعًا: جس دن اللّٰہ ان سب کو (دوبارہ زندہ کر کے) اٹھائے گا ۔} یعنی کافروں کو رسوا کر دینے والا عذاب اس دن ہو گا جس دن اللّٰہ تعالیٰ ان سب کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرے گا یہاں تک کہ کسی ایک کو باقی نہ چھوڑے گا، پھر انہیں رسوا اور شرمندہ کرنے کیلئے ان کے اعمال بتائے گا (کیونکہ) اللّٰہ تعالیٰ نے ان کے تمام اعمال کو گن رکھا ہے جبکہ وہ لوگ بے فکری اور توجہ نہ ہونے کے سبب دنیا میں کئے ہوئے اپنے اعمال بھول گئے ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ ہر چیز پر گواہ ہے اوراس سے کچھ بھی چھپا ہو انہیں ہے۔( مدارک، المجادلۃ، تحت الآیۃ: ۶، ص۱۲۱۷)
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِؕ-مَا یَكُوْنُ مِنْ نَّجْوٰى ثَلٰثَةٍ اِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَ لَا خَمْسَةٍ اِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَ لَاۤ اَدْنٰى مِنْ ذٰلِكَ وَ لَاۤ اَكْثَرَ اِلَّا هُوَ مَعَهُمْ اَیْنَ مَا كَانُوْاۚ-ثُمَّ یُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-اِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ(7)
ترجمہ: کنزالعرفان
۔(اے بندے!) کیا تو نے نہ دیکھا کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے۔ جہاں کہیں تین شخصوں کی سرگوشی ہو توان میں چوتھا اللہ ہی ہے اور پانچ کی سرگوشی ہوتو وہ اللہ ہی ان کا چھٹا ہوتا ہے اور اس سے کم اور اس سے زیادہ جتنے بھی لوگ ہوں ، اللہ ان کے ساتھ ہوتا ہے وہ جہاں کہیں بھی ہوں پھر اللہ انہیں قیامت کے دن بتادے گا جو کچھ انہوں نے کیا، بیشک اللہ ہر چیز کوخوب جانتا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَمْ تَرَ: (اے بندے!) کیا تو نے نہ دیکھا۔} اس سے پہلی آیت کے آخر میں بیان ہوا کہ’’ اللّٰہ تعالیٰ ہر چیز پر گواہ ہے‘‘ اور اس آیت میں تاکید کے ساتھ یہ بات بیان کی جا رہی ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ تمام معلومات کو جانتا ہے ،چنانچہ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے سننے والے! کیا تو نے نہ دیکھا کہ جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اللّٰہ تعالیٰ جانتا ہے، اس سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں حتّٰی کہ جہاں کہیں تین شخص سرگوشی سے بات کریں اور اپنے راز آپس میں ایک دوسرے کو آہستہ آواز سے بتائیں اور اپنی مشاورت پر کسی کو مطلع نہ کریں توان میں چوتھا اللّٰہ تعالیٰ ہی ہے جو ان کا مشاہدہ کرتا ہے، ان کی سرگوشی اور ان کے رازو ں کو جانتاہے اور اگر پانچ لوگ سرگوشی سے بات کریں تو وہ اللّٰہ تعالیٰ ہی ان کا چھٹا ہوتا ہے اور (یہ چیز اسی تعداد پر موقوف نہیں بلکہ ) تین سے کم اور پانچ سے زیادہ جتنے بھی لوگ ہوں ، اللّٰہ تعالیٰ اپنے علم و قدرت سے ان سب کے ساتھ ہوتا ہے خواہ وہ جہاں کہیں بھی ہوں ، پھر اللّٰہ تعالیٰ انہیں قیامت کے دن بتادے گا جو کچھ انہوں نے کیا اور انہیں ان کے اعمال کی جزا دے گا، بیشک اللّٰہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے۔( تفسیرکبیر، المجادلۃ،تحت الآیۃ: ۷، ۱۰ / ۴۹۰، خازن، المجادلۃ، تحت الآیۃ: ۷، ۴ / ۲۳۹، مدارک، المجادلۃ، تحت الآیۃ: ۷، ص۱۲۱۷، ملتقطاً)
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ نُهُوْا عَنِ النَّجْوٰى ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ لِمَا نُهُوْا عَنْهُ وَ یَتَنٰجَوْنَ بِالْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ وَ مَعْصِیَتِ الرَّسُوْلِ ٘-وَ اِذَا جَآءُوْكَ حَیَّوْكَ بِمَا لَمْ یُحَیِّكَ بِهِ اللّٰهُۙ-وَ یَقُوْلُوْنَ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ لَوْ لَا یُعَذِّبُنَا اللّٰهُ بِمَا نَقُوْلُؕ-حَسْبُهُمْ جَهَنَّمُۚ-یَصْلَوْنَهَاۚ-فَبِئْسَ الْمَصِیْرُ(8)
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا تم نے انہیں نہ دیکھا جنہیں پوشیدہ مشوروں سے منع فرمایا گیا تھا پھر وہ اسی کام کی طرف لوٹتے ہیں جس سے انہیں منع کیا گیا تھااور آپس میں گناہ اور حد سے بڑھنے اور رسول کی نافرمانی کے مشورے کرتے ہیں اور جب تمہارے حضور حاضر ہوتے ہیں تو اُن الفاظ سے تمہیں سلام کرتے ہیں جن سے اللہ نے تمہیں سلام نہیں فرمایااور وہ اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ ہماری باتوں کی وجہ سے اللہ ہمیں کیوں عذاب نہیں دیتا ؟انہیں جہنم کافی ہے،وہ اس میں داخل ہوں گے تووہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ نُهُوْا عَنِ النَّجْوٰى: کیا تم نے انہیں نہ دیکھا جنہیں پوشیدہ مشوروں سے منع فرمایا گیا تھا۔} شانِ نزول : یہ آیت ان یہودیوں اور منافقوں کے بارے میں نازل ہوئی جوآپس میں سرگوشیاں کرتے اور مسلمانوں کی طرف دیکھتے جاتے اور آنکھوں سے اُن کی طرف اشارے کرتے جاتے تاکہ مسلمان یہ سمجھیں کہ اُن کے خلاف کوئی پوشیدہ بات کی جا رہی ہے اور اس سے انہیں رنج ہو۔ اُن کی اس حرکت سے مسلمانوں کو غم ہوتا تھا اور وہ کہتے تھے کہ شاید ان لوگوں کو ہمارے ان بھائیوں کے شہید ہونے یا شکست کھانے کی کوئی خبر پہنچی جو جہاد میں گئے ہوئے ہیں اور یہ اسی کے بارے باتیں بنارہے اور اشارے کررہے ہیں ۔ جب منافقوں کی یہ حرکات بہت زیادہ ہوگئیں اور مسلمانوں نے سر کارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں اس کی شکایتیں کیں توتاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سرگوشی کرنے والوں کو منع فرمادیا، لیکن وہ باز نہ آئے اور یہ حرکت کرتے ہی رہے، اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی اور ارشاد فرمایا گیا:کیا تم نے انہیں نہ دیکھا جنہیں پوشیدہ مشوروں سے منع فرمایا گیا تھا پھر وہ اسی منع کئے ہوئے کام کی طرف لوٹتے ہیں اور آپس میں گناہ اور حد سے بڑھنے اور رسول کی نافرمانی کے مشورے کرتے ہیں ۔
ان کاگناہ اور حد سے بڑھنا یہ ہے کہ مکاری کے ساتھ سرگوشیاں کرکے مسلمانوں کو رنج و غم میں ڈالتے ہیں اور رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نافرمانی یہ ہے کہ ممانعت کے باوجود اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ لوگ ایک دوسرے کو رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نافرمانی کرنے کی رائے دیتے تھے۔(خازن، المجادلۃ، تحت الآیۃ: ۸، ۴ / ۲۳۹)
کسی کے سامنے سرگوشی سے بات نہ کی جائے:
اس سے معلوم ہوا کہ کسی کے سامنے سرگوشی سے بات کرنا اسے تشویش میں ڈال دیتا اور رنج و غم میں مبتلا کر دیتا ہے ، لہٰذا اس سے بچنا چاہئے، اَحادیث میں بھی اس سے منع کیا گیا ہے ، چنانچہ حضرت عبد اللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا’’جب تم تین آدمی ہو تو تیسرے کو چھوڑ کر دو آدمی آپس میں سرگوشی نہ کریں ۔( بخاری، کتاب الاستئذان، باب لا یتناجی اثنان دون الثالث، ۴ / ۱۸۵، الحدیث: ۶۲۸۸)
اور حضرت عبد اللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا’’جب تم تین افرادہوتو تیسرے کوچھوڑکردوآدمی باہم سرگوشی نہ کریں جب تک کہ بہت سے آدمیوں سے نہ مل جاؤ (یعنی تمہاری تعداد کثیر ہو جائے)ورنہ یہ بات اسے رنج پہنچائے گی۔( بخاری، کتاب الاستئذان، باب اذا کانوا اکثر من ثلاثۃ۔۔۔ الخ، ۴ / ۱۸۵، الحدیث: ۶۲۹۰)
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{وَ اِذَا جَآءُوْكَ: اور جب تمہارے حضور حاضر ہوتے ہیں۔} آیت کے اس حصے میں یہودیوں کی ایک اور بری عادت کے بارے میں بیان کیاجارہاہے کہ یہ لوگ جب سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے ہیں توکسی اچھے الفاظ سے سلام نہیں کرتے اور ان کے سلام کے الفاظ وہ نہیں ہوتے جن سے اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سلام فرمایا ہے ۔
بارگاہِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں یہودیوں کی ایک ذلیل حرکت:
یہودی جب نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے تو یوں کہتے تھے ’’اَلسَّامُ عَلَیْکُمْ‘‘ یعنی تم پرموت آئے۔نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی اس کے جواب میں ’’ عَلَیْکُمْ‘‘یعنی تم پربھی موت آئے، فرمادیتے تھے ،یہاں اسی سے متعلق3اَحادیث ملاحظہ ہوں ،
(1)…اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں :یہودیوں کی ایک جماعت رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوئی تو انہوں نے کہا: ’’اَلسَّامُ عَلَیْکُم‘‘ یعنی تم پر موت ہو۔میں ان کی گفتگو سمجھ گئی اور کہا: تم پر موت اور لعنت ہو۔پھر رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اے عائشہ! جانے دو، اللّٰہ تعالیٰ ہر کام میں نرمی پسند فرماتا ہے ۔میں نے عرض کی: یا رسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا آپ نے سنا نہیں کہ انہوں نے کیا کہا تھا۔حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میں نے کہہ دیا تھا ’’وَعَلَیْکُمْ‘‘ یعنی تم پر ہو۔( بخاری، کتاب الادب، باب الرفق فی الامر کلّہ، ۴ / ۱۰۶، الحدیث: ۶۰۲۴)
(2)… حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے کہ کچھ یہودی نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں آئے اور انہوں نے کہا:’’اَلسَّامُ عَلَیْکُمْ‘‘یعنی تم پر موت ہو۔حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے انہیں جواب دیتے ہوئے کہا:تمہارے اوپر موت ہو، اللّٰہ تعالیٰ تم پر لعنت کرے اور تم پر اللّٰہ تعالیٰ غضب فرمائے۔ حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اے عائشہ!جانے دو اور نرمی اختیار کرو،کَج خُلقی اور بد گوئی سے بچو۔ حضرت عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے عرض کی:جو انہوں نے کہا وہ آپ نے سنا نہیں ؟ارشاد فرمایا’’کیا تم نے وہ نہیں سنا جو میں نے کہا ۔میں نے وہی بات ان پر لوٹا دی تھی پس ان کے بارے میں میرے الفاظ شرفِ قبولیّت حاصل کر گئے اور میرے بارے میں ان کے الفاظ قبول نہیں ہوئے ۔( بخاری، کتاب الادب، باب لم یکن النبیّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فاحشاً ولا متفحّشاً، ۴ / ۱۰۸، الحدیث: ۶۰۳۰)
(3)… حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :ایک یہودی نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی مجلس میں آیا اور ا س نے کہا’’اَلسَّامُ عَلَیْکُمْ ‘‘ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے اسے جواب دیا تو آپ نے ارشاد فرمایا’’تم جانتے ہو کہ اس نے کیا کہا؟صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی:اللّٰہ تعالیٰ اوراس کارسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ زیادہ جانتے ہیں، یا رسول اللّٰہ!صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہمارے خیال میں اس نے سلام کیا تھا۔ ارشادفرمایا’’نہیں ، بلکہ ا س نے یوں کہا’’اَلسَّامُ عَلَیْکُمْ ‘‘ یعنی تم پر موت ہو۔(وہ چلا گیا ہے )تم اسے واپس لے کر آؤ۔صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ اسے واپس لے کر آئے تو آپ نے ارشاد فرمایا’’تم نے ’’اَلسَّامُ عَلَیْکُمْ ‘‘ کہا تھا؟اس نے جواب دیا:جی ہاں ۔اس وقت آپ نے ارشاد فرمایا’’ جب اہل ِکتاب میں سے کوئی شخص تمہیں سلام کرے توتم کہو ’’عَلَیْکَ مَا قُلْتَ‘‘ یعنی تم پروہی نازل ہوجوتم نے کہاہے ۔پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
’’وَ اِذَا جَآءُوْكَ حَیَّوْكَ بِمَا لَمْ یُحَیِّكَ بِهِ اللّٰهُ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جب تمہارے حضور حاضر ہوتے ہیں تو اُن الفاظ سے تمہیں سلام کرتے ہیں جن سے اللّٰہ نے تمہیں سلام نہیں فرمایا۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ المجادلۃ، ۵ / ۱۹۷، الحدیث: ۳۳۱۲)
{وَ یَقُوْلُوْنَ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ: اور وہ اپنے دلوں میں کہتے ہیں ۔} آیت کے اس حصے میں یہودیوں کے بارے میں ایک اور بات بیان کی گئی ہے کہ وہ اپنے دلوں میں کہتے ہیں :ہماری باتوں کی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ ہمیں کیوں عذاب نہیں دیتا ؟ اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ اگر حضرت محمد مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نبی ہوتے تو ہماری اس گستاخی پر اللّٰہ تعالیٰ ہمیں عذاب دیتا۔اس کے جواب میں اللّٰہ تعالیٰ ارشادفرماتا ہے:انہیں عذاب کے طور پر جہنم کافی ہے جس میں یہ داخل ہوں گے تو یہ ان کاکیا ہی برا انجام ہے۔مراد یہ ہے کہ ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے، اگر کسی جرم پر فوراً عذاب نہ آئے تو یہ معنی نہیں کہ وہ جرم جرم نہیں ،بلکہ اس کا جرم ہونا اپنی جگہ برقرار ہے اورعذاب اس لئے نازل نہیں ہوا کہ ابھی اس کا وقت نہیں آیا اور جب وقت آ جائے گا تو عذاب میں تاخیر نہ کی جائے گی، لہٰذافوری عذاب نازل نہ ہونے کی وجہ سے کوئی دھوکہ نہ کھائے۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا تَنَاجَیْتُمْ فَلَا تَتَنَاجَوْا بِالْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ وَ مَعْصِیَتِ الرَّسُوْلِ وَ تَنَاجَوْا بِالْبِرِّ وَ التَّقْوٰىؕ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْۤ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ(9)
ترجمہ: کنزالعرفان
اے ایمان والو! جب تم آپس میں مشورہ کرو تو گناہ اور حد سے بڑھنے اور رسول کی نافرمانی کا مشورہ نہ کرو اور نیکی اورپرہیزگاری کا مشورہ کرو اوراس اللہ سے ڈرو جس کی طرف تمہیں اکٹھا کیاجائے گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا تَنَاجَیْتُمْ: اے ایمان والو! جب تم آپس میں مشورہ کرو۔} اس سے پہلی آیت میں گناہ ، حد سے بڑھنے اور رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نافرمانی کے بارے میں مشورے کرنے پر یہودیوں اور منافقوں کی مذمت بیان کی گئی اور اس آیت میں حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو ان جیسے طریقے سے پرہیز کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے ،چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! تم جب آپس میں مشورہ کرو تو یہودیوں اور منافقوں کی طرح گناہ ، حد سے بڑھنے اور رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نافرمانی کا مشورہ نہ کرنا بلکہ نیکی اورپرہیزگاری کا مشورہ کرنا اوراس اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا جس کی طرف تم اٹھائے جاؤ گے اور وہ تمہیں تمہارے اعمال کی جزا دے گا۔
بعض مفسرین کے نزدیک اس آیت میں منافقوں سے خطاب ہے اور آیت کا معنی یہ ہے کہ اے اپنی زبان سے ایمان لانے والو! تم جب آپس میں مشورہ کرو تو گناہ ، حد سے بڑھنے اور رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نافرمانی کا مشورہ نہ کرو بلکہ نیکی اورپرہیزگاری کا مشورہ کرو اوراس اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرو جس کی طرف تم حساب کے لئے اٹھائے جاؤ گے تو وہ تمہیں تمہارے مشوروں کی جزا دے گا۔( تفسیرکبیر،المجادلۃ، تحت الآیۃ: ۹، ۱۰ / ۴۹۲، خازن، المجادلۃ، تحت الآیۃ: ۹، ۴ / ۲۴۰، مدارک، المجادلۃ، تحت الآیۃ: ۹، ص۱۲۱۸، ملتقطاً)
آیت’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا تَنَاجَیْتُمْ‘‘سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے چار باتیں معلوم ہوئیں
(1)… مسلمان صلاح مشورے مسلمانوں ہی سے کریں ، کفار سے نہ کریں اور انہیں اپنا مشیر وغیرہ نہ بنائیں ۔
(2)… آپس میں مشورے بھی اچھے ہی کریں ،برے نہ کریں ۔
(3)… مسلمانوں کی خَلْوَت بھی جَلْوَت کی طرح پاکیزہ ہونی چاہیے۔
(4)… تنہائی میں بھی حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ادب و احترام ملحوظ رکھے۔ مبارک ہے وہ عالِم جو اپنی تنہائی میں حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فضائل سوچے اور بد نصیب ہے وہ شخص جس کا وقت حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی توہین کے بارے سوچنے میں گزرے۔
اِنَّمَا النَّجْوٰى مِنَ الشَّیْطٰنِ لِیَحْزُنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَیْسَ بِضَآرِّهِمْ شَیْــٴًـا اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِؕ-وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ(10)
ترجمہ: کنزالعرفان
وہ پوشیدہ مشورہ تو شیطان ہی کی طرف سے ہے تاکہ وہ ایمان والوں کوغمگین کرے اور وہ اللہ کے حکم کے بغیر ایمان والوں کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا اور مسلمانوں کو تو اللہ ہی پر بھروسہ کرناچاہیے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّمَا النَّجْوٰى مِنَ الشَّیْطٰنِ: پوشیدہ مشورہ تو شیطان ہی کی طرف سے ہے۔} ارشاد فرمایا کہ وہ مشورہ تو شیطان ہی کی طرف سے ہے جس میں گناہ ،حد سے بڑھنا اور رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نافرمانی ہو اور شیطان اپنے دوستوں کو اس پر اُبھارتا ہے تاکہ وہ ایمان والوں کوغمگین کردے اور وہ اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر مسلمانوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور مسلمانوں کو اللّٰہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرناچاہیے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے والا نقصان میں نہیں رہتا۔( خازن، المجادلۃ، تحت الآیۃ: ۱۰، ۴ / ۲۴۰، مدارک، المجادلۃ، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۱۲۱۸، ملتقطاً)
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا قِیْلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوْا فِی الْمَجٰلِسِ فَافْسَحُوْا یَفْسَحِ اللّٰهُ لَكُمْۚ-وَ اِذَا قِیْلَ انْشُزُوْا فَانْشُزُوْا یَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْۙ-وَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ(11)
ترجمہ: کنزالعرفان
اے ایمان والو! جب تم سے کہا جائے (کہ)مجلسوں میں جگہ کشادہ کرو تو جگہ کشادہ کردو، اللہ تمہارے لئے جگہ کشادہ فرمائے گا اور جب کہا جائے: کھڑے ہو جاؤتو کھڑے ہوجایا کرو، اللہ تم میں سے ایمان والوں کے اور ان کے درجات بلند فرماتا ہے جنہیں علم دیا گیا اور اللہ تمہارے کاموں سے خوب خبردار ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: اے ایمان والو!۔} شانِ نزول: نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غزوہِ بدر میں حاضر ہونے والے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی عزت کرتے تھے، ایک روز چند بدری صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ ایسے وقت پہنچے جب کہ مجلس شریف بھر چکی تھی ،اُنہوں نے حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے کھڑے ہو کر سلام عرض کیا۔ حضورپُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جواب دیا، پھر اُنہوں نے حاضرین کو سلام کیا تواُنہوں نے جواب دیا، پھروہ اس انتظار میں کھڑے رہے کہ اُن کیلئے مجلس شریف میں جگہ بنائی جائے مگر کسی نے جگہ نہ دی ،سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ چیزگراں گزری توآپ نے اپنے قریب والوں کو اُٹھا کر اُن کیلئے جگہ بنا دی، اُٹھنے والوں کو اُٹھنا شاق ہوا تو اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور ارشاد فرمایاگیا اے ایمان والو! جب تم سے کہا جائے کہ مجلسوں میں جگہ کشادہ کرو تو جگہ کشادہ کردو، اللّٰہ تعالیٰ تمہارے لئے جنت میں جگہ کشادہ فرمائے گا اور جب تمہیں اپنی جگہ سے کھڑے ہونے کاکہا جائے تاکہ جگہ کشادہ ہو جائے تو کھڑے ہوجایا کرو، اللّٰہ تعالیٰ اپنی اور اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کے باعث تم میں سے ایمان والوں کے اور ان کے درجات بلند فرماتا ہے جن کو علم دیا گیا ہے اور اللّٰہ تعالیٰ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔( خازن، المجادلۃ، تحت الآیۃ: ۱۱، ۴ / ۲۴۰-۲۴۱)
بزرگانِ دین کی تعظیم کرنا سنت ہے:
اس آیت کے شانِ نزول سے معلوم ہواکہ بزرگانِ دین کے لئے جگہ چھوڑنا اور ان کی تعظیم کر نا جائز بلکہ سنت ہے حتّٰی کہ مسجد میں بھی ان کی تعظیم کر سکتے ہیں کیونکہ یہ واقعہ مسجد ِنبوی شریف میں ہی ہوا تھا۔یاد رہے کہ حدیث ِپاک میں بزرگانِ دین اور دینی پیشواؤں کی تعظیم و توقیر کا باقاعدہ حکم بھی دیا گیا ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جن سے تم علم حاصل کرتے ہوان کے لئے عاجزی اختیار کرو اور جن کو تم علم سکھاتے ہو ان کے لئے تواضع اختیار کرو اور سرکَش عالِم نہ بنو۔( الجامع لاخلاق الراوی، باب توقیر المحدّث طلبۃ العلم۔۔۔ الخ، تواضعہ لہم، ص۲۳۰، الحدیث: ۸۰۲)
لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ بزرگانِ دین کی تعظیم کرتا رہے اور ان کی بے ادبی کرنے سے بچے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں ادب و تعظیم کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
مسلمانوں کی تعظیم کرنے کی ترغیب:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ ایک مسلمان کا اپنے دوسرے مسلمان بھائی کی تعظیم کرنا اللّٰہ تعالیٰ کو بہت پیارا ہے کیونکہ اس پر اللّٰہ تعالیٰ نے اجرو ثواب کا وعدہ فرمایا ہے لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ ایک دوسرے کی تعظیم کیا کریں ۔حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’بوڑھے مسلمان کی تعظیم کرنا اور اس حاملِ قرآن کی تعظیم کرناجو قرآن میں غُلُو نہ کرے اور ا س کے احکام پر عمل کرے اور عادل سلطان کی تعظیم کرنا،اللّٰہ تعالیٰ کی تعظیم کرنے میں داخل ہے ۔( ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی تنزیل الناس منازلہم، ۴ / ۳۴۴، الحدیث: ۴۸۴۳)
فضیلت اور مرتبے والوں کو اگلی صفوں میں بٹھایا جا سکتا ہے:
یاد رہے کہ مجلس کے آداب میں یہ بات شامل ہے کہ جو شخص پہلے آ کر بیٹھ چکا ہو اسے اس کی جگہ سے نہ اٹھایا جائے سوائے کسی بڑی ضرورت کے یا یوں کہ اہم حضرات کیلئے نمایا ں جگہ بنادی جائے جیسے دینی و دُنْیَوی دونوں قسم کی مجلسوں میں سرکردہ حضرات کواسٹیج پر یا سب سے آگے جگہ دی جاتی ہے اور ویسے یہ ہونا چاہیے کہ بڑے اور سمجھدار حضرات سننے کیلئے زیادہ قریب بیٹھیں ۔ حضرت ابو مسعود انصاری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’تم میں سے جو لوگ بالغ اور عقل مند ہیں انہیں میرے قریب کھڑے ہونا چاہئے ،پھر جو ان کے قریب ہوں ،پھر جو ان کے قریب ہوں ۔( ابو داؤد ، کتاب الصلاۃ، باب من یستحبّ ان یلی الامام فی الصفّ وکراہیۃ التأخّر، ۱ / ۲۶۷، الحدیث: ۶۷۴)
اور حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’لوگوں سے ان کے مرتبے اور منصب کے مطابق معاملہ کرو۔( ابو داؤد ، کتاب الادب، باب فی تنزیل الناس منازلہم، ۴ / ۳۴۳، الحدیث: ۴۸۴۲)
فضیلت اور مرتبے والے خود کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ نہ بیٹھیں :
فضیلت اور مرتبہ رکھنے والے حضرات کو چاہئے کہ وہ خود کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ پر نہ بیٹھیں کیونکہ کثیر اَحادیث میں حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس سے منع فرمایا ہے ،جیسا کہ حضرت عبد اللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’کوئی شخص مجلس میں سے کسی کو اٹھا کر خود ا س کی جگہ پر نہ بیٹھے۔( مسلم،کتاب السلام،باب تحریم اقامۃ الانسان من موضعہ المباح الذی سبق الیہ،ص۱۱۹۸،الحدیث:۲۷(۲۱۷۷))
حضرت عبد اللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی دوسری روایت میں ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس سے منع فرمایا ہے کہ ایک شخص کسی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خوداس کی جگہ بیٹھ جائے البتہ (تمہیں چاہئے کہ )دوسروں کے لئے جگہ کشادہ اور وسیع کر دو۔( بخاری، کتاب الاستئذان، باب اذا قیل لکم تفسّحوا فی المجٰلس۔۔۔ الخ، ۴ / ۱۷۹، الحدیث: ۶۲۷۰)
علم حاصل کرنے کی ترغیب اور علم و علماء کے فضائل:
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ علماءِدین بڑے درجے والے ہیں اوردنیا و آخرت میں ان کی عزت ہے، جب اللّٰہ تعالیٰ نے ان کے درجات کی بلندی کا وعدہ کیا ہے تو انہیں اس کے فضل و کرم سے دنیاوآخرت میں عزت ضرور ملے گی۔حضرت حسن بصری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :حضرت عبد اللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اسی آیت کی تلاوت کرنے کے بعد فرمایا:اے لوگو!اس آیت کو سمجھو اور علم حاصل کرنے کی طرف راغب ہو جاؤ کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ وہ مومن عالِم کو اس مومن سے بلند درجات عطا فرمائے گا جو عالِم نہیں ہے ۔( خازن، المجادلۃ، تحت الآیۃ: ۱۰، ۴ / ۲۴۱)
یہاں موضوع کی مناسبت سے علم اور علماء کے15فضائل ملاحظہ ہوں :
(1)…ایک ساعت علم حاصل کرنا ساری رات قیام کرنے سے بہتر ہے۔( مسند الفردوس، باب الطائ، ۲ / ۴۴۱، الحدیث: ۳۹۱۷)
(2)…علم عبادت سے افضل ہے۔ (کنز العمال، حرف العین، کتاب العلم، قسم الاقوال، الباب الاول، ۵ / ۵۸، الجزء العاشر، الحدیث: ۲۸۶۵۳)
(3)…علم اسلام کی حیات اور دین کا ستون ہے۔ (کنز العمال، حرف العین، کتاب العلم، قسم الاقوال، الباب الاول، ۵ / ۵۸، الجزء العاشر، الحدیث: ۲۸۶۵۷)
(4)…علماء زمین کے چراغ اور انبیاء ِکرام عَلَیْہِ مُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے وارث ہیں ۔ (کنز العمال، حرف العین، کتاب العلم، قسم الاقوال، الباب الاول، ۵ / ۵۹، الجزء العاشر، الحدیث: ۲۸۶۷۳)
(5)…مرنے کے بعد بھی بندے کو علم سے نفع پہنچتا رہتا ہے۔( مسلم، ص۸۸۶، الحدیث: ۱۴(۱۶۳۱))
(6)…ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے۔( ترمذی، کتاب العلم، باب ما جاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ، ۴ / ۳۱۱، الحدیث: ۲۶۹۰)
(7)…علم کی مجالس جنت کے باغات ہیں ۔( معجم الکبیر، مجاہد عن ابن عباس، ۱۱ / ۷۸، الحدیث: ۱۱۱۵۸)
(8)…علم کی طلب میں کسی راستے پر چلنے والے کے لئے اللّٰہ تعالیٰ جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے۔( ترمذی، کتاب العلم، باب فضل طلب العلم، ۴ / ۲۹۴، الحدیث: ۲۶۵۵)
(9)…قیامت کے دن علماء کی سیاہی اور شہداء کے خون کا وز ن کیا جائے گا تو ان کی سیاہی شہداء کے خون پر غالب آجائے گی۔( کنز العمال، حرف العین، کتاب العلم، قسم الاقوال، الباب الاول، ۵ / ۶۱، الجزء العاشر، الحدیث: ۲۸۷۱۱)
(10)…عالِم کے لئے ہر چیز مغفرت طلب کرتی ہے حتّٰی کہ سمندر میں مچھلیاں بھی مغفرت کی دعا کرتی ہیں ۔( کنز العمال، حرف العین، کتاب العلم، قسم الاقوال، الباب الاول، ۵ / ۶۳، الجزء العاشر، الحدیث: ۲۸۷۳۵)
(11)…علماء کی صحبت میں بیٹھنا عبادت ہے۔( مسند الفردوس، باب المیم، ۴ / ۱۵۶، الحدیث: ۶۴۸۶)
(12)…علماء کی تعظیم کرو کیونکہ وہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِ مُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے وارث ہیں ۔( ابن عساکر، عبد الملک بن محمد بن یونس بن الفتح ابو قعیل السمرقندی، ۳۷ / ۱۰۴)
(13)…اہلِ جنت ،جنت میں علماء کے محتاج ہوں گے۔( ابن عساکر، محمد بن احمد بن سہل بن عقیل ابوبکر البغدادی الاصباغی، ۵۱ / ۵۰)
(14)…علماء آسمان میں ستاروں کی مثل ہیں جن کے ذریعے خشکی اور تری کے اندھیروں میں راہ پائی جاتی ہے۔( کنز العمال، حرف العین، کتاب العلم، قسم الاقوال، الباب الاول، ۵ / ۶۵، الجزء العاشر، الحدیث: ۲۸۷۶۵)
(15)…قیامت کے دن انبیاء ِکرام عَلَیْہِ مُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد علماء شفاعت کریں گے۔( کنز العمال، حرف العین، کتاب العلم، قسم الاقوال، الباب الاول، ۵ / ۶۵، الجزء العاشر، الحدیث: ۲۸۷۶۶)
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں علم ِدین حاصل کرنے اور ا س پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
نوٹ:علم اور علماء ِکرام کے فضائل وغیرہ سے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے راقم کی کتاب’’علم اور علماء کی فضیلت‘‘ کا مطالعہ فرمائیں ۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰىكُمْ صَدَقَةًؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ لَّكُمْ وَ اَطْهَرُؕ-فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(12)
ترجمہ: کنزالعرفان
اے ایمان والو! جب تم رسول سے تنہائی میں کوئی بات عرض کرنا چاہو تو اپنی عرض سے پہلے کچھ صدقہ دے لو، یہ تمہارے لیے بہت بہتر اور زیادہ پاکیزہ ہے، پھر اگر تم( اس پر قدرت)نہ پاؤ تو بیشک اللہ بہت بخشنے والا ،بڑامہربان ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ : اے ایمان والو! جب تم رسول سے تنہائی میں کوئی بات عرض کرنا چاہو۔} ارشاد فرمایا کہ اے ایمان والو! جب تم رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے تنہائی میں کوئی بات عرض کرنا چاہو تو اپنی عرض سے پہلے کچھ صدقہ دے لو کہ اس میں بارگاہِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہونے کی تعظیم اور فقراء کا نفع ہے، یہ عرض کرنے سے پہلے صدقہ کرنا تمہارے لیے بہت بہتر ہے کیونکہ اس میں اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت ہے اور یہ تمہیں خطاؤں سے پاک کرنے والا ہے ،پھر اگر تم اس پر قدرت نہ پاؤ تو اللّٰہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔( خازن، المجادلۃ، تحت الآیۃ: ۱۲، ۴ / ۲۴۱-۲۴۲، روح البیان، المجادلۃ، تحت الآیۃ: ۱۲، ۹ / ۴۰۵، ملتقطاً)
شانِ نزول: سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں جب مالداروں نے عرض و معروض کا سلسلہ دراز کیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ غریب صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو اپنی عرض پیش کرنے کا موقع کم ملنے لگا تو عرض پیش کرنے والوں کو عرض پیش کرنے سے پہلے صدقہ دینے کا حکم دیا گیا ، بعض روایتوں کے مطابق اس حکم پر حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے عمل کیا اور 1دینار صدقہ کرکے 10 مسائل دریافت کئے۔۔۔۔۔ حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے علاوہ اور کسی کو اس حکم پر عمل کرنے کا وقت نہیں ملا۔( مدارک، المجادلۃ، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۱۲۱۹، خازن، المجادلۃ، تحت الآیۃ: ۱۲، ۴ / ۲۴۲، ملتقطاً)
اولیاء ِکرام کے مزارات پر شیرینی لے جانے کی دلیل :
اس آیت ِمبارکہ سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ اولیاء ِکرام رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ مْ کے مزارات پر صدقہ کرنے کے لئے شیرینی وغیرہ لے کر جانا جائز ہے، چنانچہ صدرُ الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : حضرت مترجمقدس سرہ(یعنی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ )نے فرمایا: یہ اس کی اصل ہے جو مزاراتِ اولیاء پر تَصَدُّق کیلئے شیرینی وغیرہ لے جاتے ہیں ۔( خزائن العرفان، المجادلۃ، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۱۰۰۵)
ءَاَشْفَقْتُمْ اَنْ تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰىكُمْ صَدَقٰتٍؕ-فَاِذْ لَمْ تَفْعَلُوْا وَ تَابَ اللّٰهُ عَلَیْكُمْ فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ-وَ اللّٰهُ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ(13)
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا تم اس بات سے ڈرگئے کہ تم اپنی عرض سے پہلے کچھ صدقے دو پھر جب تم نے (یہ) نہ کیا اور اللہ نے اپنی مہر بانی سے تم پر رجوع فرمایا توتم نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور اللہ اور اس کے رسول کے فرمانبردار رہو اور اللہ تمہارے کاموں کی خوب خبر رکھنے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ءَاَشْفَقْتُمْ اَنْ تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰىكُمْ صَدَقٰتٍ: کیا تم اس بات سے ڈرگئے کہ تم اپنی عرض سے پہلے کچھ صدقے دو ۔}یعنی کیا تم غر یبی اور ناداری کی وجہ سے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں اپنی عرض سے پہلے کچھ صدقہ دینے سے ڈر گئے، پھر جب تم نے صدقہ نہ دیا اور اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی مہربانی سے تم پر رجوع فرمایا اور پہلے صدقہ نہ دینے کا مُواخذہ تم پر سے اُٹھالیا توتم دوسری عبادات بجا لاؤ جیسے نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فرمانبردار رہو اور یاد رکھو کہ اللّٰہ تعالیٰ تمہارے ظاہری اور باطنی تمام کاموں کی خبر رکھنے والا ہے اور وہ تمہیں ان کی جزا دے گا۔
حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے سبب امت پر آسانی:
حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں :جب یہ آیت ِمبارکہ ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ‘‘ نازل ہوئی تونبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھ سے فرمایا:تمہارے خیال میں ایک دینا رٹھیک ہے؟ میں نے عرض کی:لوگ اتنے کی طاقت نہیں رکھیں گے۔ ارشاد فرمایا’’نصف دینار۔میں نے عرض کی :یہ بھی نہیں دے سکیں گے ۔حضورپُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’پھر کتنا ہونا چاہئے۔میں نے عرض کی:جَو کے ایک دانے کے برابر۔ارشاد فرمایا’’تم تو بڑے تنگ دست ہو۔پھریہ آیت نازل ہوگئی ’’ءَاَشْفَقْتُمْ اَنْ تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰىكُمْ صَدَقٰتٍ‘‘ حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں :پس میرے سبب سے اللّٰہ تعالیٰ نے اس امت پر آسانی فرمادی۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ المجادلۃ، ۵ / ۱۹۶، الحدیث:۳۳۱۱)
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ تَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْؕ-مَا هُمْ مِّنْكُمْ وَ لَا مِنْهُمْۙ-وَ یَحْلِفُوْنَ عَلَى الْكَذِبِ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ(14)
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا تم نے ان لوگوں کو نہ دیکھا جنہوں نے ان لوگوں کودوست بنالیا جن پر اللہ نے غضب فرمایا، وہ نہ تم میں سے ہیں اورنہ ہی ان میں سے۔ اور وہ جان بوجھ کر جھوٹی بات پرقسم کھاتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ: کیا تم نے ان لوگوں کو نہ دیکھا ۔ }شانِ نزول: یہ آیت ان منافقوں کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے یہودیوں سے دوستی کی اور ان کی خیر خواہی میں لگے رہتے اور مسلمانوں کے راز ان سے کہتے۔ان کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ اے سننے والے ! کیا تم نے ان لوگوں کو نہ دیکھا جنہوں نے یہودیوں کودوست بنالیا جن پر اللّٰہ تعالیٰ نے غضب فرمایا ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ نہ مسلمان ہیں اور نہ یہودی بلکہ منافق ہیں۔( خازن، المجادلۃ، تحت الآیۃ: ۱۴، ۴ / ۲۴۲)
منافقوں کے تَذَبذُبْ کا حال:
منافقوں کے اسی تَذَبْذُبْ کا حال بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’مُذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِكَ ﳓ لَاۤ اِلٰى هٰۤؤُلَآءِ وَ لَاۤ اِلٰى هٰۤؤُلَآءِؕ-وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ سَبِیْلًا‘‘(النساء:۱۴۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان: درمیان میں ڈگمگا رہے ہیں ،نہ اِن کی طرف ہیں نہ اُن کی طرف اور جسے اللّٰہ گمراہ کرے تو تم اس کے لئے کوئی راستہ نہ پاؤ گے۔
اورحضرت عبد اللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ منافقوں کی مثال اس بکری جیسی ہے جودوریوڑوں کے درمیان مُتَرَدِّدہو،کبھی اس ریوڑ میں جاتی ہے اور کبھی اس ریوڑ میں ۔( مسلم ، کتاب صفات المنافقین واحکامہم، ص۱۴۹۸، الحدیث: ۱۷(۲۷۸۴))
{وَ یَحْلِفُوْنَ عَلَى الْكَذِبِ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ: اور وہ جان بوجھ کر جھوٹی بات پرقسم کھاتے ہیں ۔ } شانِ نزول : یہ آیت عبداللّٰہ بن نبتل منافق کے بارے میں نازل ہوئی جو رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مجلس میں حاضر رہتااور یہاں کی بات یہودیوں کے پاس پہنچاتا ،ایک روز حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دولت سرائے اقدس میں تشریف فرماتھے،آپ نے ارشاد فرمایا’’اس وقت ایک آدمی آئے گا جس کا دِل انتہائی سخت ہے اور وہ شیطان کی آنکھوں سے دیکھتا ہے ۔تھوڑی ہی دیر بعد عبداللّٰہ بن نبتل آیا، اس کی آنکھیں نیلی تھیں ۔ حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس سے ارشادفرمایا’’ تو اور تیرے ساتھی ہمیں کیوں گالیاں دیتے ہیں ؟وہ قسم کھا گیا کہ ایسا نہیں کرتا اور اپنے یاروں کو بھی لے آیا، اُنہوں نے بھی قسم کھائی کہ ہم نے آپ کو گالی نہیں دی اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی۔(خازن، المجادلۃ، تحت الآیۃ: ۱۴، ۴ / ۲۴۲)
اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ عَذَابًا شَدِیْدًاؕ-اِنَّهُمْ سَآءَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(15)اِتَّخَذُوْۤا اَیْمَانَهُمْ جُنَّةً فَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَلَهُمْ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ(16)لَنْ تُغْنِیَ عَنْهُمْ اَمْوَالُهُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُهُمْ مِّنَ اللّٰهِ شَیْــٴًـاؕ-اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِؕ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(17)
ترجمہ: کنزالعرفان
اللہ نے ان کے لیے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے، بیشک وہ بہت ہی برے کام کرتے ہیں ۔انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنالیا ہے توانہوں نے اللہ کی راہ سے روکا تو ان کے لیے رسوا کردینے والا عذاب ہے۔ان کے مال اور ان کی اولاد اللہ کے سامنے انہیں ہر گز کچھ کام نہ دیں گے، وہ دوزخی ہیں ،وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا: اللّٰہ نے ان کے لیے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ منافقوں کے اس طرزِ عمل کی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ نے ان کے لیے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے، بیشک وہ لوگ بہت ہی برے کام کرتے ہیں اوران کے برے کاموں میں سے ایک یہ ہے کہ انہوں نے اپنی جھوٹی قسموں کو اپنی جان و مال کی حفاظت کیلئے ڈھال بنالیا ہے ،پھر اپنی حیلہ سازی سے دوسروں کو بھی اللّٰہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے اور دین ِاسلام میں داخل ہونے سے روکتے ہیں ، تو ان کے کفر اور راہِ خدا سے روکنے کی بنا پران کے لیے آخرت میں رسوا کردینے والا عذاب ہے۔ ان کے مال اور ان کی اولاد اللّٰہ تعالیٰ کے سامنے انہیں کچھ کام نہ دیں گے اور قیامت کے دن انہیں عذابِ الٰہی سے بچا نہ سکیں گے، وہ دوزخی ہیں اور اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔( روح البیان،المجادلۃ،تحت الآیۃ:۱۵-۱۷،۹ / ۴۰۸، خازن، المجادلۃ، تحت الآیۃ: ۱۵-۱۷، ۴ / ۲۴۲-۲۴۳، ملتقطاً)
یَوْمَ یَبْعَثُهُمُ اللّٰهُ جَمِیْعًا فَیَحْلِفُوْنَ لَهٗ كَمَا یَحْلِفُوْنَ لَكُمْ وَ یَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ عَلٰى شَیْءٍؕ-اَلَاۤ اِنَّهُمْ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ(18)
ترجمہ: کنزالعرفان
جس دن اللہ ان سب کو اٹھائے گا تو اس کے حضور بھی ایسے ہی قسمیں کھائیں گے جیسے تمہارے سامنے کھارہے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کسی چیزپر ہیں ۔خبردار! بیشک وہی جھوٹے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{یَوْمَ یَبْعَثُهُمُ اللّٰهُ جَمِیْعًا: جس دن اللّٰہ ان سب کو اٹھائے گا۔} یعنی وہ دن یاد کریں جس دن اللّٰہ تعالیٰ ان سب منافقوں کو اٹھائے گا تو اس کی بارگاہ میں بھی قسمیں کھائیں گے کہ دنیا میں ہم مخلص مومن تھے منافق نہ تھے جیسے آج تمہارے سامنے دنیا میں کھارہے ہیں اور وہ اپنی جھوٹی قسموں کو کار آمد سمجھتے ہیں کہ ان کی بدولت بچ جائیں گے (حالانکہ ایساہر گز نہ ہو گا)خبردار! بیشک وہی اپنی قسموں میں جھوٹے ہیں اور ایسے جھوٹے کہ دنیا میں بھی جھوٹ بولتے رہے اور آخرت میں بھی بولیں گے ، رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے بھی جھوٹ بولا اورقیامت کے دن خدا کے سامنے بھی جھوٹ بولیں گے ۔( مدارک، المجادلۃ، تحت الآیۃ: ۱۸، ص۱۲۲۰، روح البیان، المجادلۃ، تحت الآیۃ: ۱۸، ۹ / ۴۰۹، ملتقطاً)
اِسْتَحْوَذَ عَلَیْهِمُ الشَّیْطٰنُ فَاَنْسٰىهُمْ ذِكْرَ اللّٰهِؕ-اُولٰٓىٕكَ حِزْبُ الشَّیْطٰنِؕ-اَلَاۤ اِنَّ حِزْبَ الشَّیْطٰنِ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ(19)
ترجمہ: کنزالعرفان
ان پر شیطان غالب آگیا تو اس نے انہیں اللہ کی یاد بھلا دی، وہ شیطان کا گروہ ہیں ،سن لو! بیشک شیطان کا گروہ ہی خسارہ پانے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِسْتَحْوَذَ عَلَیْهِمُ الشَّیْطٰنُ: ان پر شیطان غالب آگیا۔} یعنی منافقوں کا یہ حال اس لئے ہوا کہ ان پر شیطان غالب آگیا ہے جس کی وجہ سے ان کی اپنی سوچ سمجھ ختم ہوچکی ہے ،شیطان انہیں جن کاموں میں چاہتاہے لگادیتاہے اورجب ان کی یہ حالت ہوگی توپھرانہیں اللّٰہ تعالیٰ کے ذکرکی کب پرواہ ہوگی اوریہ کب اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کویادکریں گے ۔ وہ منافق شیطان کے گروہ ہیں اورسن لو! بیشک شیطان کا گروہ ہی خسارہ پانے والا ہے کہ جنت کی دائمی نعمتوں سے محروم اور جہنم کے ابدی عذاب میں گرفتار ہو گا۔
شیطان کے غلبہ کی ایک علامت:
تفسیر مدارک میں ہے،شاہ کرمانی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :بندے پر شیطان کے غالب آنے کی علامت یہ ہے کہ شیطان اسے کھانے، پینے اور پہننے میں مشغول کر دیتا ہے،بندے کے دل کو اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کے انعامات میں غوروفکر کرنے اور ان نعمتوں کا شکر ادا کرنے سے غافل کر دیتا ہے،بندے کو اس کے رب تعالیٰ کا ذکر کرنے سے غافل کر کے جھوٹ،غیبت اور بہتان تراشی میں مصروف کر دیتا ہے اور بندے کے دل میں دنیا (کا مال) جمع کرنے اور دنیا سنوارنے کی لگن ڈال کر اسے غور وفکر کرنے اور اپنے انجام کے بارے میں سوچنے سے غافل کر دیتا ہے۔( مدارک، المجادلۃ، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۱۲۲۱، ملخصاً)
ان علامات کو سامنے رکھتے ہوئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے حال اور اپنے اعمال پر غور کرے ، اگر اس میں مذکورہ بالا علامات نہیں پا ئی جاتیں تو اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور اس سے مزید توفیق اورا ستقامت حاصل ہونے کی دعا کرتا رہے اور اگر ا س میں یہ علامات پائی جاتی ہیں تو اسے چاہئے کہ فوراً ہوشیار ہو جائے اور اپنے اوپر سے شیطان کا غلبہ دور کرنے کی کوششوں میں مصروف ہو جائے تاکہ قیامت کے دن شیطان کے گروہ میں شامل ہونے اور ان جیسے برے انجام سے بچ سکے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے اور ہمیں شیطان پر غلبہ نصیب فرمائے،اٰمین۔
اِنَّ الَّذِیْنَ یُحَآدُّوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗۤ اُولٰٓىٕكَ فِی الْاَذَلِّیْنَ(20)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں وہ سب سے زیادہ ذلیلوں میں ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ الَّذِیْنَ یُحَآدُّوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ: بیشک وہ لوگ جو اللّٰہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں ۔} یعنی بیشک وہ لوگ جو اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عداوت رکھتے اور ان کے احکامات کی مخالفت کرتے ہیں وہ اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ ذلیل لوگوں میں شامل ہیں ۔
اس سے معلوم ہوا کہ حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مخالفت اللّٰہ تعالیٰ کی مخالفت ہے کیونکہ زمانۂ رسالت کے کفار و منافقین اپنے گمان میں اللّٰہ تعالیٰ کی مخالفت نہیں کرتے تھے بلکہ کافر توکفربھی یہ سمجھ کر کرتا تھا کہ اللّٰہ تعالیٰ اس سے راضی ہے، البتہ وہ حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مخالفت کرتے ہیں اوراسے اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی مخالفت فرما یا ہے۔
كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِیْؕ-اِنَّ اللّٰهَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ(21)
ترجمہ: کنزالعرفان
اللہ لکھ چکا ہے کہ ضرور میں غالب آؤں گا اور میرے رسول بیشک اللہ قوت والا، سب پر غالب ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{كَتَبَ اللّٰهُ: اللّٰہ لکھ چکا ہے۔}یعنی اللّٰہ تعالیٰ لوحِ محفوظ میں لکھ چکا ہے کہ ضرور میں غالب آؤں گا اور میرے رسول غالب آئیں گے ،بیشک اللّٰہ تعالیٰ قوت والا ہے ،اسے کوئی اس کے ارادے سے منع نہیں کر سکتا، عزت والا اور غلبے والا ہے،کوئی اسے مغلوب نہیں کر سکتا۔یاد رہے کہ یہاں آیت میں رسولوں عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے غالب آنے سے مراد دلیل اور حجت کے ساتھ ،یا تلوار کے ساتھ غالب آنا مراد ہے۔( مدارک، المجادلۃ، تحت الآیۃ: ۲۱، ص۱۲۲۱)دلیل و حجت کے ساتھ تو سبھی غالب تھے البتہ بہت ساروں کو تلوار کے ساتھ بھی غلبہ عطا کیا گیا۔
لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَوْ كَانُوْۤا اٰبَآءَهُمْ اَوْ اَبْنَآءَهُمْ اَوْ اِخْوَانَهُمْ اَوْ عَشِیْرَتَهُمْؕ-اُولٰٓىٕكَ كَتَبَ فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْاِیْمَانَ وَ اَیَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُؕ-وَ یُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُؕ-اُولٰٓىٕكَ حِزْبُ اللّٰهِؕ-اَلَاۤ اِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(22)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم ایسے لوگوں کو نہیں پاؤ گے جو اللہ اورآخرت کے دن پرایمان رکھتے ہوں کہ وہ ان لوگوں سے دوستی کریں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے مخالفت کی اگرچہ وہ ان کے باپ یا ان کے بیٹے یاان کے بھائی یا ان کے خاندان والے ہوں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان نقش فرمادیا اور اپنی طرف کی روح سے ان کی مدد کی اور وہ انہیں اُن باغوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ان میں ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ،یہ اللہ کی جماعت ہے، سن لو! اللہ کی جماعت ہی کامیاب ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ: تم ایسے لوگوں کو نہیں پاؤ گے جو اللّٰہ اورآخرت کے دن پرایمان رکھتے ہوں ۔} کافروں سے دوستی کرنے کے بارے میں منافقوں کا حال بیان کرنے کے بعد یہاں سے مخلص ایمان والوں کا حال بیان کیا جا رہا ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، جو لوگ اللّٰہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر سچا ایمان رکھتے ہیں آپ انہیں ایسا نہیں پائیں گے کہ وہ ان لوگوں سے دوستی کریں جنہوں نے اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے مخالفت کی،یعنی ان سے یہ ہوہی نہیں سکتا اور ان کی یہ شان ہی نہیں اوران کا ایمان اس کو گوارا ہی نہیں کرتا کہ خدا اور رسول کے دشمن سے دوستی کرے اگرچہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا خاندان والے ہوں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللّٰہ تعالیٰ نے ایمان نقش فرمادیا ہے اور اپنی طرف کی روح سے ان کی مدد کی اور وہ انہیں اُن باغوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ،ان میں ہمیشہ رہیں گے، اللّٰہ تعالیٰ ان کے ایمان، اخلاص اور طاعت کے سبب ان سے راضی ہوا اور وہ اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت اور ا س کے کرم سے راضی ہوئے، یہ اللّٰہ تعالیٰ کی جماعت ہے، سن لو! اللّٰہ تعالیٰ کی جماعت ہی کامیاب ہے کہ یہ جہنم کے عذاب سے محفوظ رہیں گے اور جنت کی عظیم الشّان دائمی نعمتیں ہمیشہ کے لئے پائیں گے ۔
مسلمان اللّٰہ تعالیٰ اور ا س کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے گستاخوں سے دوستی نہیں کر سکتا:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ بددینوں ، بدمذہبوں ،اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی شان میں گستاخی اور بے ادبی کرنے والوں سے قلبی محبت ، دوستی اور میل جول جائز نہیں اور یہ بھی معلوم ہواکہ کافروں سے دوستی کرنا مسلمان کی شان اور اس کے ایمان کے تقاضوں کے بر خلاف ہے۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اس آیت ِکریمہ میں صاف فرمادیا کہ جو اللّٰہ یا رسول کی جناب میں گستاخی کرے،مسلمان اُس سے دوستی نہ کرے گا ، جس کا صریح مفاد ہوا کہ جو اس سے دوستی کرے گا وہ مسلمان نہ ہوگا۔ پھر اس حکم کا قطعاً عام ہونا بالتَّصریح ارشاد فرمایا کہ باپ، بیٹے ،بھائی ،عزیز سب کوگِنا یا، یعنی کوئی کیسا ہی تمہارے زعم میں مُعَظَّم یا کیسا ہی تمہیں بالطَّبع محبوب ہو، ایمان ہے تو گستاخی کے بعد اس سے محبت نہیں رکھ سکتے، اس کی وقعت نہیں مان سکتے ورنہ مسلمان نہ رہوگے۔ مَولٰی سُبْحَانَـہٗ وَ تَعَالٰی کا اتنا فرمانا ہی مسلمان کے لئے بس تھا مگردیکھو وہ تمہیں اپنی رحمت کی طرف بلاتا،اپنی عظیم نعمتوں کا لالچ دلاتا ہے کہ اگر اللّٰہ ورسول کی عظمت کے آگے تم نے کسی کا پاس نہ کیا کسی سے علاقہ نہ رکھا تو تمہیں کیا کیا فائدے حاصل ہوں گے۔
(1)…اللّٰہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں ایمان نقش کردے گا جس میں اِنْ شَآءَ اللّٰہُ تَعَالٰی حسن ِخاتمہ کی بشارتِ جلیلہ ہے کہ اللّٰہ کا لکھا نہیں مٹتا۔
(2)…اللّٰہ تعالیٰ روح القدس سے تمہاری مددفرمائے گا۔
(3)…تمہیں ہمیشگی کی جنتوں میں لے جائے گاجن کے نیچے نہریں رواں ہیں ۔
(4)…تم خدا کے گروہ کہلاؤگے ، خدا والے ہوجاؤگے۔
(5)…منہ مانگی مرادیں پاؤگے بلکہ امید و خیال و گمان سے کروڑوں درجے افزوں ۔
(6)…سب سے زیادہ یہ کہ اللّٰہ تم سے راضی ہوگا۔
(7)…یہ کہ فرماتاہے ’’میں تم سے راضی تم مجھ سے راضی ،بندے کیلئے اس سے زائد او رکیا نعمت ہوتی کہ اس کا رب اس سے راضی ہومگر انتہائے بندہ نوازی یہ کہ فرمایا اللّٰہ ان سے راضی اور وہ اللّٰہ سے راضی ۔
مسلمانو!خدا لگتی کہنا اگر آدمی کروڑجانیں رکھتا ہو اوروہ سب کی سب ان عظیم دولتوں پر نثار کردے تووَاللّٰہ کہ مفت پائیں ، پھرزیدوعمرو سے علاقۂ تعظیم و محبت،یک لخت قطع کردینا کتنی بڑی بات ہے؟ جس پر اللّٰہ تعالیٰ ان بے بہا نعمتوں کا وعدہ فرمارہاہے اور اس کا وعدہ یقیناً سچا ہے۔(فتاوی رضویہ، رسالہ: تمہید ایمان بآیات قرآن، ۳۰ / ۳۱۲)
اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دشمنوں کے ساتھ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا کردار:
اس آیت میں مخلص ایمان والوں کا ایک وصف یہ بیان ہواکہ وہ اللّٰہ تعالیٰ اور ا س کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے دوستی نہیں کرتے اگرچہ وہ ان کے کیسے ہی قریبی رشتہ دار کیوں نہ ہوں ،چنانچہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے اپنے عمل سے یہ ثابت کر کے دکھایاکہ انہیں اللّٰہ تعالیٰ اور ا س کے رسول کے مقابلے میں رشتے داری کا کوئی لحاظ نہیں ، چنانچہ منقول ہے کہ حضرت ابوعبیدہ بن جراح رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جنگ ِاُحد میں اپنے باپ جراح کو قتل کیا ۔ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جنگ ِبدرکے دن اپنے بیٹے عبدالرحمٰن کو لڑائی کیلئے طلب کیا لیکن رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں اس جنگ کی اجازت نہ دی۔حضرت مصعب بن عمیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے بھائی عبید بن عمیر کو قتل کیا ۔ حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے ماموں عاص بن ہشام بن مغیرہ کو جنگ ِبدرکے دن قتل کیا۔حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ، حضرت حمزہ اور حضرت ابوعبیدہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے ربیعہ کے بیٹوں عتبہ اور شیبہ کو اور ولید بن عتبہ کو بدر میں قتل کیا جوان کے رشتہ دار تھے۔(بغوی، المجادلۃ، تحت الآیۃ: ۲۲، ۴ / ۲۸۵)
اس آیت سے ان لوگوں کودرسِ عبرت حاصل کرناچاہیے جواپنے دُنْیَوی مفادات کی خاطر صلحِ کُلیّت کے قائل ہوتے ہیں اوراللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اوراس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دشمنوں کے ساتھ دوستیاں نبھاتے ہیں ۔