سُوْرَۃُ المُزَّمِّل

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُ(1)قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًا(2)نِّصْفَهٗۤ اَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِیْلًا(3)اَوْ زِدْ عَلَیْهِ وَ رَتِّلِ الْقُیٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُ(1)قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًا(2)نِّصْفَهٗۤ اَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِیْلًا(3)اَوْ زِدْ عَلَیْهِ وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًاﭤ(4)

ترجمہ: کنزالعرفان

اے چادر اوڑھنے والے۔ رات کے تھوڑے سے حصے کے سوا قیام کرو۔آدھی رات (قیام کرو) یا اس سے کچھ کم کرلو۔یا اس پر کچھ اضافہ کرلو اور قرآن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُ: اے چادر اوڑھنے والے۔} اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ وحی نازل ہونے کے ابتدائی زمانے میں  سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خوف سے اپنے کپڑوں  میں  لپٹ جاتے تھے ،ایسی حالت میں  حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ’’یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُ‘‘ کہہ کر ندا کی ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ ایک مرتبہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ چادر شریف میں  لپٹے ہوئے آرام فرما رہے تھے، اس حالت میں  آپ کو ندا کی گئی ’’یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُ‘‘ ۔( خازن، المزمل، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۳۲۰، ابو سعود، المزمل، تحت الآیۃ: ۱، ۵ / ۷۸۲-۷۸۳)

آیت ’’یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس آیت سے دو باتیں  معلوم ہوئیں ،

(1)…قرآنِ پاک میں  دیگر انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کے نام شریف سے پکارا گیا جبکہ سیّد المرسَلین صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ان کی صفات شریف سے ندا کی گئی ہے۔

(2)…ندا کے ا س انداز سے معلوم ہو اکہ اللّٰہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ہر ادا پیاری ہے ۔

{قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًا: رات کے تھوڑے سے حصے کے سوا قیام کرو۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے چادر اوڑھنے والے میرے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، رات کے تھوڑے حصے میں  آرام فرمائیے اور باقی رات نماز اور عبادت کے ساتھ قیام میں  گزارئیے اور وہ باقی آدھی رات ہو یا اس سے کچھ کم کر لو یا اس پر کچھ اضافہ کرلو۔ یعنی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اختیار دیا گیا ہے کہ عبادت خواہ آدھی رات تک کریں  یا اس سے کم یعنی تہائی رات تک کریں  یا اس سے زیادہ یعنی دو تہائی رات تک کرتے رہیں ۔

             نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آپ کے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ اسی مقدار کے مطابق رات کوقیام فرماتے اور ان میں  سے جوحضرات یہ بات نہیں  جانتے تھے کہ تہائی رات ،یا آدھی رات، یا دو تہائی رات کب ہوتی ہے تووہ ساری رات قیام میں  رہتے اور اس اندیشے سے صبح تک نمازیں  پڑھتے رہتے کہ کہیں  قیام واجب مقدارسے کم نہ ہوجائے یہاں  تک کہ ان حضرات کے پاؤں  سوج جاتے تھے۔ پھر تخفیف ہوئی اور بعض مفسرین کے نزدیک ایک سال کے بعد اسی سورت کی آخری آیت کے اس حصے ’’فَاقْرَءُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنْهُ‘‘ سے یہ حکم منسوخ ہوگیا اور بعض مفسرین کے نزدیک پانچ نمازوں  کی فرضِیّت  سے یہ حکم منسوخ ہو گیا۔یاد رہے کہ اس آیت میں  قیام سے مراد تہجد کی نماز ہے۔( خازن،المزمل،تحت الآیۃ:۲-۴، ۴ / ۳۲۰-۳۲۱، مدارک، المزمل، تحت الآیۃ: ۲-۳، ص۱۲۹۲، تفسیر کبیر، المزمل، تحت الآیۃ: ۲-۳، ۱۰ / ۶۸۱-۶۸۲، ملتقطاً)

اُمّت کے حق میں  تَہَجُّد کی فرضِیَّت منسوخ ہو چکی ہے:

            اب رہی یہ بات کہ تَہَجُّد کی فرضِیَّت کس کے لئے منسوخ ہوئی اس کے بارے میں  علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرما تے ہیں : ا سلام کے ابتدائی دور میں  سورۂ مُزَّمِّل کی ان آیات کی وجہ سے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اور آپ کی اُمّت پر تہجد کی نماز فرض تھی،پھر تخفیف کی گئی اور پانچ نمازوں  کی فرضِیَّت سے امت کے حق میں  تہجد کا وجوب منسوخ ہو گیا اور ان کے لئے تہجد کی نماز ادا کرنا مُستحب ہو گیا جبکہ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے اس کا وجوب باقی رہا،اس کی دلیل یہ آیتِ مبارکہ ہے:

’’وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ‘‘(بنی اسرائیل:۷۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور رات کے کچھ حصے میں  تہجد پڑھویہ خاص تمہارے لیے زیادہ ہے۔

            یعنی آپ پر اللّٰہ تعالیٰ نے جو اور عبادات فرض کی ہیں  ان کے ساتھ ساتھ مزید تہجد کی نماز پڑھنا بھی خاص آپ کے لئے فرض ہے۔ (خازن، المزمل، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۳۲۱)

             جمہور مفسرین اور فقہاء کے نزدیک سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر فرض نمازوں  کے علاوہ نمازِ تہجد کی فرضِیَّت بھی باقی رہی جبکہ امت کے حق میں  منسوخ ہوئی اور دلائل کی رُو سے بھی یہی صحیح ہے جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  ’’ قولِ جمہور ،مذہب ِمختار ومنصور ،حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَسَلَّمَ کے حق میں  (تہجد کی) فرضِیَّت (کا) ہے۔ اسی پرظاہر ِقرآنِ عظیم شاہد اور اسی طرف حدیث ِمرفوع وارِد۔

            قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی : ’’یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ(۱) قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًا‘‘ اللّٰہ تعالیٰ کافرمان ہے: ’’اے چادر اوڑھنے والے! رات کے تھوڑے سے حصے کے سوا قیام کرو۔(ت)

            وَقَالَ تَعَالٰی : ’’وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ‘‘ اور ارشاد فرمایا: ’’اور رات کے کچھ حصے میں  تہجد پڑھو۔( بنی اسرائیل۷۹)

            ان آیتوں  میں  خاص حضورِاقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَسَلَّمَ کو امر ِالٰہی ہے، اور امرا ِلٰہی مفید ِوجوب، اور اللّٰہ تعالیٰ کا ’’نَافِلَةً‘‘ فرمانا اس وجوب کے مُنافی نہیں  کیونکہ ’’نَافِلَةً‘‘  کا معنی ہے زائدہ، اب اس آیت کامعنی یہ ہوگا کہ آپ کے فرائض یادرجات میں  یہ اضافہ ہے کہ آپ پر یہ لازم واجب ہے کیونکہ فرائض سب سے بڑے درجے اور فضیلت پر فائز کرنے کاسبب بنتے ہیں ، بلکہ اس کی تائید اللّٰہ تعالیٰ کے اس ارشاد ’’لَّكَ ‘‘ سے ہورہی ہے۔ امام ابنِ ہمام فرماتے ہیں  کہ بعض اوقات مجرور (یعنی حرف ’’ک‘‘) کے ساتھ مُقَیَّدکرنا اسی بات کافائدہ دیتاہے (یعنی یہ فرائض میں  آپ کے لئے اضافہ ہے) کیونکہ مُتَعارَف نوافل صرف آپ ہی کے لئے نہیں  بلکہ اس میں  آپ اور دیگر لوگ مُشْتَرَک ہیں ۔(ت)( فتاوی رضویہ، باب الوتر والنوافل، ۷ / ۴۰۲-۴۰۳)

            اور مفتی شریف الحق امجدی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  اس مسئلے کی تحقیق کرنے کے بعد فرماتے ہیں : ’’صحیح یہ ہے نمازِ تہجد حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَسَلَّمَ پر نمازِ پنجگانہ کی فرضیت کے بعد بھی فرض رہی۔( نزہۃ القاری، کتاب التہجد، ۲ / ۶۸۳)

            اور مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں : ’’نمازِ تہجد سَیّدِ عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَسَلَّمَ پر فرض تھی،جمہور کا یہی قول ہے حضور (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کی امت کے لئے یہ نماز سنت ہے۔( خزائن العرفان، بنی اسرا ئیل، تحت الآیۃ: ۷۹، ص۵۴۱)

             جبکہ بعض مفسرین کے نزدیک امت کی طرح نبی ٔکریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے بھی تہجد کی فرضیت منسوخ ہو گئی تھی۔

{اَوْ زِدْ عَلَیْهِ: یا اس پر کچھ اضافہ کرلو۔} صدرُ الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں : ’’جو شخص دو تہائی رات سونا چاہے اور ایک تہائی عبادت کرنا چاہے تو اسے افضل یہ ہے کہ وہ رات کے پہلے اورآخری تہائی حصے میں  سوئے اور درمیان کے تہائی حصے میں  عبادت کرے اور اگر آدھی رات میں  سونا چاہتا ہے اور آدھی رات میں  جاگنا تو بعد والی آدھی رات میں  عبادت کرنا افضل ہے کہ حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ رب عَزَّوَجَلَّ ہر رات میں  جب پچھلی تہائی باقی رہتی ہے آسمانِ دنیا پرخاص تجلّی فرماتا ہے اور فرماتا ہے ’’ہے کوئی دعا کرنے والا کہ اس کی دعا قبول کروں ، ہے کوئی مانگنے والا کہ اسے دوں ، ہے کوئی مغفرت چاہنے والا کہ اس کی بخشش کر دوں ۔( مسلم،کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا،باب الترغیب فی الدعاء والذکر فی آخر اللیل والاجابۃ فیہ،ص۳۸۱،الحدیث: ۱۶۸(۷۵۸))

            اور سب سے بڑھ کر تو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے طریقے کے مطابق نماز ادا کرنا ہے،جیسا کہ حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: سب نمازوں  میں  اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کو زیادہ محبوب نمازِ داؤد ہے کہ وہ آدھی رات سوتے اور تہائی رات عبادت کرتے پھر چھٹے حصے میں  سوتے تھے(بخاری، کتاب احادیث الانبیائ، باب احبّ الصلاۃ الی اللّٰہ صلاۃ داود۔۔۔ الخ،  ۲ / ۴۴۸، الحدیث: ۳۴۲۰)۔( بہار شریعت، حصہ چہارم، سنن ونوافل کا بیان، نماز تہجد،۱ / ۶۷۸، ملخصاً)

{وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا: اور قرآن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔} اس کا معنی یہ ہے کہ اطمینان کے ساتھ اس طرح قرآن پڑھو کہ حروف جُدا جُدا رہیں  ،جن مقامات پر وقف کرنا ہے ان کا اور تمام حرکات (اور مَدّات) کی ادائیگی کا خاص خیال رہے۔آیت کے آخر میں  ’’ تَرْتِیْلًا‘‘ فرما کر اس بات کی تاکید کی جا رہی ہے کہ قرآنِ پاک کی تلاوت کرنے والے کے لئے ترتیل کے ساتھ تلاوت کرنا انتہائی ضروری ہے۔( مدارک، المزمل، تحت الآیۃ: ۴، ص۱۲۹۲)

            حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’(قیامت کے دن) قرآن پڑھنے والے سے کہا جائے گا:پڑھتا جا اور ترقی کی منازل طے کرتا جا اور اس طرح ٹھہر کر پڑھ جس طرح دنیا میں  ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا تھا،جہاں  تو آخری آیت پڑھے گا اسی کے پاس تیری منزل ہے۔( ترمذی، کتاب فضائل القرآن، ۱۸-باب، ۴ / ۴۱۹، الحدیث: ۲۹۲۳)

قرآنِ پاک کی قراء ت سے متعلق چند اَحکام:

            یہاں  آیت کی مناسبت سے قرآنِ مجید کی قراء ت سے متعلق 4ضروری اَحکام ملاحظہ ہوں ،

 (1)…تجوید قرآنِ پاک کی آیت،مُتَواتِر اَحادیث،صحابہ ٔکرام، تابعین اور تمام ائمہ ٔکرام کے مکمل اِجماع کی وجہ سے حق اور واجب اور اللّٰہ تعالیٰ کے دین اور شریعت کا علم ہے، اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا ‘‘ اسے مُطْلَقاً ناحق بتانا کلمہ ٔکفر ہے۔(فتاوی رضویہ، ۶ / ۳۲۲-۳۲۳، ملخصاً)

 (2)… قرآنِ پاک کو اتنی تجوید سے پڑھنا فرضِ عین ہے جس سے حروف صحیح ادا ہوں  اور غلط پڑھنے سے بچے۔( فتاوی رضویہ، ۶ / ۳۴۳، ملخصاً)

(3)…جس سے حروف صحیح ادا نہیں  ہوتے اس پر واجب ہے کہ حروف صحیح ادا کرنے کی رات دن پوری کوشش کرے اور اگر نماز میں  صحیح پڑھنے والے کی اِقتدا کر سکتا ہو تو جہاں  تک مُمکن ہو اس کی اقتدا کرے یا وہ آیتیں  پڑھے جن کے حروف صحیح ادا کر سکتا ہو اور یہ دونوں  صورتیں  نا ممکن ہوں  تو کوشش کے زمانے میں  اس کی اپنی نماز ہو جائے گی اور اگر کوشش بھی نہیں  کرتا تو اس کی خود بھی نماز نہیں  ہوگی دوسرے کی اس کے پیچھے کیا ہوگی۔ آج کل عام لوگ اس میں  مبتلا ہیں  کہ غلط پڑھتے ہیں  اور صحیح پڑھنے کی کوشش نہیں  کرتے ان کی اپنی نمازیں  باطل ہیں ۔( بہار شریعت، حصہ سوم، امامت کا بیان، امامت کا زیادہ حقدار کون ہے،۱ / ۵۷۰-۵۷۱، ملخصاً)

(4)…فرضوں  میں  ٹھہر ٹھہر کر قراء ت کی جائے ، تراویح میں  مُتَوَسِّط انداز پر اور رات کے نوافل میں  جلد پڑھنے کی اجازت ہے، لیکن ایسا پڑھے کہ سمجھ میں  آسکے یعنی کم سے کم مد کا جو درجہ قاریوں  نے رکھا ہے اس کو ادا کرے، ورنہ حرام ہے، اس لیے کہ ترتیل سے قرآن پڑھنے کا حکم ہے۔ آج کل کے اکثر حُفّاظ اس طرح پڑھتے ہیں  کہ مد کا ادا ہونا تو بڑی بات ہے یَعْلَمُوْنَ تَعْلَمُوْنَ کے سوا کسی لفظ کا پتہ بھی نہیں  چلتا ہے نہ حروف کی تصحیح ہوتی ہے، بلکہ جلدی میں  لفظ کے لفظ کھا جاتے ہیں  اور اس پرایک دوسرے سے فخر ہوتا ہے کہ فلاں  اس قدر جلد پڑھتا ہے، حالانکہ اس طرح قرآن مجید پڑھنا حرام اور سخت حرام ہے۔( بہار شریعت، حصہ سوم، قرآن مجید پڑھنے کا بیان، ۱ / ۵۴۷، ملخصاً)

            ایک اور مقام پر صدرُ الشَّریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  اپنے زمانے کے حفاظ کی حالت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں  ’’ افسوس صد افسوس کہ اس زمانہ میں حُفّاظ کی حالت نہایت ناگُفتہ بہ ہے، اکثر تو ایسا پڑھتے ہیں  کہ یَعْلَمُوْنَ تَعْلَمُوْنَ کے سوا کچھ پتہ نہیں  چلتا ،الفاظ و حروف کھا جایا کرتے ہیں  ،جو اچھا پڑھنے والے کہے جاتے ہیں  اُنھیں  دیکھیے تو حروف صحیح نہیں  ادا کرتے ،ہمزہ، الف، عین اور ذ، ز، ظ اور ث، س، ص، ت، ط وغیرہا حروف میں  فرق نہیں  کرتے جس سے قطعاً نماز ہی نہیں  ہوتی فقیر کو انھیں  مصیبتوں  کی وجہ سے تین سال ختمِ قرآن مجید سننا نہ ملا۔ مولا عَزَّوَجَلَّ مسلمان بھائیوں  کو توفیق دے کہ مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ  (یعنی جس طرح اللّٰہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک نازل فرمایا اسی طرح) پڑھنے کی کوشش کریں ۔ (بہار شریعت، حصہ چہارم، تراویح کا بیان، ۱ / ۶۹۱-۶۹۲)

            اور فی زمانہ حُفّاظ کا تو جو حال ہو چکا ہے وہ تو ایک طرف عوام اور مَساجد کی انتظامیہ کا حال یہ ہو چکا ہے کہ تراویح کے لئے اس حافظ کو منتخب کرتے ہیں  جو قرآنِ پاک تیزی سے پڑھے اور جتنا جلدی ہو سکے تراویح ختم ہو جائے اور اس امام کے پیچھے تراویح پڑھنے سے جو تجوید کے مطابق قرآن پڑھتا ہے ا س لئے دور بھاگتے ہیں  کہ یہ دیر میں  تراویح ختم کرے گا اور بعض جگہ تو یوں  ہوتا ہے کہ تراویح پڑھانے والے کو مسجد انتظامیہ کی طرف سے ٹائم بتا دیا جاتا ہے کہ اتنے منٹ میں  آپ کو تراویح ختم کرنی ہے اور اگراس وقت سے 5منٹ بھی لیٹ ہو جائے تو حافظ صاحب کوسنا دیا جاتا ہے کہ حضرت آج آپ نے اتنے منٹ لیٹ کر دی آئندہ خیال رکھئے گا۔اے کاش کہ مسلمان اپنے وقت کا خیال کرنے کی بجائے اپنی نماز کی حفاظت کی فکر کریں ۔اللّٰہ تعالیٰ مسلمانوں  کو ہدایت عطا فرمائے۔آمین۔

رْاٰنَ تَرْتِیْلًاﭤ(4)

ترجمہ: کنزالعرفان

اے چادر اوڑھنے والے۔ رات کے تھوڑے سے حصے کے سوا قیام کرو۔آدھی رات (قیام کرو) یا اس سے کچھ کم کرلو۔یا اس پر کچھ اضافہ کرلو اور قرآن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُ: اے چادر اوڑھنے والے۔} اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ وحی نازل ہونے کے ابتدائی زمانے میں  سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خوف سے اپنے کپڑوں  میں  لپٹ جاتے تھے ،ایسی حالت میں  حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ’’یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُ‘‘ کہہ کر ندا کی ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ ایک مرتبہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ چادر شریف میں  لپٹے ہوئے آرام فرما رہے تھے، اس حالت میں  آپ کو ندا کی گئی ’’یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُ‘‘ ۔( خازن، المزمل، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۳۲۰، ابو سعود، المزمل، تحت الآیۃ: ۱، ۵ / ۷۸۲-۷۸۳)

آیت ’’یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس آیت سے دو باتیں  معلوم ہوئیں ،

(1)…قرآنِ پاک میں  دیگر انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کے نام شریف سے پکارا گیا جبکہ سیّد المرسَلین صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ان کی صفات شریف سے ندا کی گئی ہے۔

(2)…ندا کے ا س انداز سے معلوم ہو اکہ اللّٰہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ہر ادا پیاری ہے ۔

{قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًا: رات کے تھوڑے سے حصے کے سوا قیام کرو۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے چادر اوڑھنے والے میرے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، رات کے تھوڑے حصے میں  آرام فرمائیے اور باقی رات نماز اور عبادت کے ساتھ قیام میں  گزارئیے اور وہ باقی آدھی رات ہو یا اس سے کچھ کم کر لو یا اس پر کچھ اضافہ کرلو۔ یعنی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اختیار دیا گیا ہے کہ عبادت خواہ آدھی رات تک کریں  یا اس سے کم یعنی تہائی رات تک کریں  یا اس سے زیادہ یعنی دو تہائی رات تک کرتے رہیں ۔

             نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آپ کے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ اسی مقدار کے مطابق رات کوقیام فرماتے اور ان میں  سے جوحضرات یہ بات نہیں  جانتے تھے کہ تہائی رات ،یا آدھی رات، یا دو تہائی رات کب ہوتی ہے تووہ ساری رات قیام میں  رہتے اور اس اندیشے سے صبح تک نمازیں  پڑھتے رہتے کہ کہیں  قیام واجب مقدارسے کم نہ ہوجائے یہاں  تک کہ ان حضرات کے پاؤں  سوج جاتے تھے۔ پھر تخفیف ہوئی اور بعض مفسرین کے نزدیک ایک سال کے بعد اسی سورت کی آخری آیت کے اس حصے ’’فَاقْرَءُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنْهُ‘‘ سے یہ حکم منسوخ ہوگیا اور بعض مفسرین کے نزدیک پانچ نمازوں  کی فرضِیّت  سے یہ حکم منسوخ ہو گیا۔یاد رہے کہ اس آیت میں  قیام سے مراد تہجد کی نماز ہے۔( خازن،المزمل،تحت الآیۃ:۲-۴، ۴ / ۳۲۰-۳۲۱، مدارک، المزمل، تحت الآیۃ: ۲-۳، ص۱۲۹۲، تفسیر کبیر، المزمل، تحت الآیۃ: ۲-۳، ۱۰ / ۶۸۱-۶۸۲، ملتقطاً)

اُمّت کے حق میں  تَہَجُّد کی فرضِیَّت منسوخ ہو چکی ہے:

            اب رہی یہ بات کہ تَہَجُّد کی فرضِیَّت کس کے لئے منسوخ ہوئی اس کے بارے میں  علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرما تے ہیں : ا سلام کے ابتدائی دور میں  سورۂ مُزَّمِّل کی ان آیات کی وجہ سے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اور آپ کی اُمّت پر تہجد کی نماز فرض تھی،پھر تخفیف کی گئی اور پانچ نمازوں  کی فرضِیَّت سے امت کے حق میں  تہجد کا وجوب منسوخ ہو گیا اور ان کے لئے تہجد کی نماز ادا کرنا مُستحب ہو گیا جبکہ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے اس کا وجوب باقی رہا،اس کی دلیل یہ آیتِ مبارکہ ہے:

’’وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ‘‘(بنی اسرائیل:۷۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور رات کے کچھ حصے میں  تہجد پڑھویہ خاص تمہارے لیے زیادہ ہے۔

            یعنی آپ پر اللّٰہ تعالیٰ نے جو اور عبادات فرض کی ہیں  ان کے ساتھ ساتھ مزید تہجد کی نماز پڑھنا بھی خاص آپ کے لئے فرض ہے۔ (خازن، المزمل، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۳۲۱)

             جمہور مفسرین اور فقہاء کے نزدیک سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر فرض نمازوں  کے علاوہ نمازِ تہجد کی فرضِیَّت بھی باقی رہی جبکہ امت کے حق میں  منسوخ ہوئی اور دلائل کی رُو سے بھی یہی صحیح ہے جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  ’’ قولِ جمہور ،مذہب ِمختار ومنصور ،حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَسَلَّمَ کے حق میں  (تہجد کی) فرضِیَّت (کا) ہے۔ اسی پرظاہر ِقرآنِ عظیم شاہد اور اسی طرف حدیث ِمرفوع وارِد۔

            قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی : ’’یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ(۱) قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًا‘‘ اللّٰہ تعالیٰ کافرمان ہے: ’’اے چادر اوڑھنے والے! رات کے تھوڑے سے حصے کے سوا قیام کرو۔(ت)

            وَقَالَ تَعَالٰی : ’’وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ‘‘ اور ارشاد فرمایا: ’’اور رات کے کچھ حصے میں  تہجد پڑھو۔( بنی اسرائیل۷۹)

            ان آیتوں  میں  خاص حضورِاقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَسَلَّمَ کو امر ِالٰہی ہے، اور امرا ِلٰہی مفید ِوجوب، اور اللّٰہ تعالیٰ کا ’’نَافِلَةً‘‘ فرمانا اس وجوب کے مُنافی نہیں  کیونکہ ’’نَافِلَةً‘‘  کا معنی ہے زائدہ، اب اس آیت کامعنی یہ ہوگا کہ آپ کے فرائض یادرجات میں  یہ اضافہ ہے کہ آپ پر یہ لازم واجب ہے کیونکہ فرائض سب سے بڑے درجے اور فضیلت پر فائز کرنے کاسبب بنتے ہیں ، بلکہ اس کی تائید اللّٰہ تعالیٰ کے اس ارشاد ’’لَّكَ ‘‘ سے ہورہی ہے۔ امام ابنِ ہمام فرماتے ہیں  کہ بعض اوقات مجرور (یعنی حرف ’’ک‘‘) کے ساتھ مُقَیَّدکرنا اسی بات کافائدہ دیتاہے (یعنی یہ فرائض میں  آپ کے لئے اضافہ ہے) کیونکہ مُتَعارَف نوافل صرف آپ ہی کے لئے نہیں  بلکہ اس میں  آپ اور دیگر لوگ مُشْتَرَک ہیں ۔(ت)( فتاوی رضویہ، باب الوتر والنوافل، ۷ / ۴۰۲-۴۰۳)

            اور مفتی شریف الحق امجدی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  اس مسئلے کی تحقیق کرنے کے بعد فرماتے ہیں : ’’صحیح یہ ہے نمازِ تہجد حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَسَلَّمَ پر نمازِ پنجگانہ کی فرضیت کے بعد بھی فرض رہی۔( نزہۃ القاری، کتاب التہجد، ۲ / ۶۸۳)

            اور مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں : ’’نمازِ تہجد سَیّدِ عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَسَلَّمَ پر فرض تھی،جمہور کا یہی قول ہے حضور (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کی امت کے لئے یہ نماز سنت ہے۔( خزائن العرفان، بنی اسرا ئیل، تحت الآیۃ: ۷۹، ص۵۴۱)

             جبکہ بعض مفسرین کے نزدیک امت کی طرح نبی ٔکریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے بھی تہجد کی فرضیت منسوخ ہو گئی تھی۔

{اَوْ زِدْ عَلَیْهِ: یا اس پر کچھ اضافہ کرلو۔} صدرُ الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں : ’’جو شخص دو تہائی رات سونا چاہے اور ایک تہائی عبادت کرنا چاہے تو اسے افضل یہ ہے کہ وہ رات کے پہلے اورآخری تہائی حصے میں  سوئے اور درمیان کے تہائی حصے میں  عبادت کرے اور اگر آدھی رات میں  سونا چاہتا ہے اور آدھی رات میں  جاگنا تو بعد والی آدھی رات میں  عبادت کرنا افضل ہے کہ حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ رب عَزَّوَجَلَّ ہر رات میں  جب پچھلی تہائی باقی رہتی ہے آسمانِ دنیا پرخاص تجلّی فرماتا ہے اور فرماتا ہے ’’ہے کوئی دعا کرنے والا کہ اس کی دعا قبول کروں ، ہے کوئی مانگنے والا کہ اسے دوں ، ہے کوئی مغفرت چاہنے والا کہ اس کی بخشش کر دوں ۔( مسلم،کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا،باب الترغیب فی الدعاء والذکر فی آخر اللیل والاجابۃ فیہ،ص۳۸۱،الحدیث: ۱۶۸(۷۵۸))

            اور سب سے بڑھ کر تو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے طریقے کے مطابق نماز ادا کرنا ہے،جیسا کہ حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: سب نمازوں  میں  اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کو زیادہ محبوب نمازِ داؤد ہے کہ وہ آدھی رات سوتے اور تہائی رات عبادت کرتے پھر چھٹے حصے میں  سوتے تھے(بخاری، کتاب احادیث الانبیائ، باب احبّ الصلاۃ الی اللّٰہ صلاۃ داود۔۔۔ الخ،  ۲ / ۴۴۸، الحدیث: ۳۴۲۰)۔( بہار شریعت، حصہ چہارم، سنن ونوافل کا بیان، نماز تہجد،۱ / ۶۷۸، ملخصاً)

{وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا: اور قرآن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔} اس کا معنی یہ ہے کہ اطمینان کے ساتھ اس طرح قرآن پڑھو کہ حروف جُدا جُدا رہیں  ،جن مقامات پر وقف کرنا ہے ان کا اور تمام حرکات (اور مَدّات) کی ادائیگی کا خاص خیال رہے۔آیت کے آخر میں  ’’ تَرْتِیْلًا‘‘ فرما کر اس بات کی تاکید کی جا رہی ہے کہ قرآنِ پاک کی تلاوت کرنے والے کے لئے ترتیل کے ساتھ تلاوت کرنا انتہائی ضروری ہے۔( مدارک، المزمل، تحت الآیۃ: ۴، ص۱۲۹۲)

            حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’(قیامت کے دن) قرآن پڑھنے والے سے کہا جائے گا:پڑھتا جا اور ترقی کی منازل طے کرتا جا اور اس طرح ٹھہر کر پڑھ جس طرح دنیا میں  ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا تھا،جہاں  تو آخری آیت پڑھے گا اسی کے پاس تیری منزل ہے۔( ترمذی، کتاب فضائل القرآن، ۱۸-باب، ۴ / ۴۱۹، الحدیث: ۲۹۲۳)

قرآنِ پاک کی قراء ت سے متعلق چند اَحکام:

            یہاں  آیت کی مناسبت سے قرآنِ مجید کی قراء ت سے متعلق 4ضروری اَحکام ملاحظہ ہوں ،

 (1)…تجوید قرآنِ پاک کی آیت،مُتَواتِر اَحادیث،صحابہ ٔکرام، تابعین اور تمام ائمہ ٔکرام کے مکمل اِجماع کی وجہ سے حق اور واجب اور اللّٰہ تعالیٰ کے دین اور شریعت کا علم ہے، اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا ‘‘ اسے مُطْلَقاً ناحق بتانا کلمہ ٔکفر ہے۔(فتاوی رضویہ، ۶ / ۳۲۲-۳۲۳، ملخصاً)

 (2)… قرآنِ پاک کو اتنی تجوید سے پڑھنا فرضِ عین ہے جس سے حروف صحیح ادا ہوں  اور غلط پڑھنے سے بچے۔( فتاوی رضویہ، ۶ / ۳۴۳، ملخصاً)

(3)…جس سے حروف صحیح ادا نہیں  ہوتے اس پر واجب ہے کہ حروف صحیح ادا کرنے کی رات دن پوری کوشش کرے اور اگر نماز میں  صحیح پڑھنے والے کی اِقتدا کر سکتا ہو تو جہاں  تک مُمکن ہو اس کی اقتدا کرے یا وہ آیتیں  پڑھے جن کے حروف صحیح ادا کر سکتا ہو اور یہ دونوں  صورتیں  نا ممکن ہوں  تو کوشش کے زمانے میں  اس کی اپنی نماز ہو جائے گی اور اگر کوشش بھی نہیں  کرتا تو اس کی خود بھی نماز نہیں  ہوگی دوسرے کی اس کے پیچھے کیا ہوگی۔ آج کل عام لوگ اس میں  مبتلا ہیں  کہ غلط پڑھتے ہیں  اور صحیح پڑھنے کی کوشش نہیں  کرتے ان کی اپنی نمازیں  باطل ہیں ۔( بہار شریعت، حصہ سوم، امامت کا بیان، امامت کا زیادہ حقدار کون ہے،۱ / ۵۷۰-۵۷۱، ملخصاً)

(4)…فرضوں  میں  ٹھہر ٹھہر کر قراء ت کی جائے ، تراویح میں  مُتَوَسِّط انداز پر اور رات کے نوافل میں  جلد پڑھنے کی اجازت ہے، لیکن ایسا پڑھے کہ سمجھ میں  آسکے یعنی کم سے کم مد کا جو درجہ قاریوں  نے رکھا ہے اس کو ادا کرے، ورنہ حرام ہے، اس لیے کہ ترتیل سے قرآن پڑھنے کا حکم ہے۔ آج کل کے اکثر حُفّاظ اس طرح پڑھتے ہیں  کہ مد کا ادا ہونا تو بڑی بات ہے یَعْلَمُوْنَ تَعْلَمُوْنَ کے سوا کسی لفظ کا پتہ بھی نہیں  چلتا ہے نہ حروف کی تصحیح ہوتی ہے، بلکہ جلدی میں  لفظ کے لفظ کھا جاتے ہیں  اور اس پرایک دوسرے سے فخر ہوتا ہے کہ فلاں  اس قدر جلد پڑھتا ہے، حالانکہ اس طرح قرآن مجید پڑھنا حرام اور سخت حرام ہے۔( بہار شریعت، حصہ سوم، قرآن مجید پڑھنے کا بیان، ۱ / ۵۴۷، ملخصاً)

            ایک اور مقام پر صدرُ الشَّریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  اپنے زمانے کے حفاظ کی حالت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں  ’’ افسوس صد افسوس کہ اس زمانہ میں حُفّاظ کی حالت نہایت ناگُفتہ بہ ہے، اکثر تو ایسا پڑھتے ہیں  کہ یَعْلَمُوْنَ تَعْلَمُوْنَ کے سوا کچھ پتہ نہیں  چلتا ،الفاظ و حروف کھا جایا کرتے ہیں  ،جو اچھا پڑھنے والے کہے جاتے ہیں  اُنھیں  دیکھیے تو حروف صحیح نہیں  ادا کرتے ،ہمزہ، الف، عین اور ذ، ز، ظ اور ث، س، ص، ت، ط وغیرہا حروف میں  فرق نہیں  کرتے جس سے قطعاً نماز ہی نہیں  ہوتی فقیر کو انھیں  مصیبتوں  کی وجہ سے تین سال ختمِ قرآن مجید سننا نہ ملا۔ مولا عَزَّوَجَلَّ مسلمان بھائیوں  کو توفیق دے کہ مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ  (یعنی جس طرح اللّٰہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک نازل فرمایا اسی طرح) پڑھنے کی کوشش کریں ۔ (بہار شریعت، حصہ چہارم، تراویح کا بیان، ۱ / ۶۹۱-۶۹۲)

            اور فی زمانہ حُفّاظ کا تو جو حال ہو چکا ہے وہ تو ایک طرف عوام اور مَساجد کی انتظامیہ کا حال یہ ہو چکا ہے کہ تراویح کے لئے اس حافظ کو منتخب کرتے ہیں  جو قرآنِ پاک تیزی سے پڑھے اور جتنا جلدی ہو سکے تراویح ختم ہو جائے اور اس امام کے پیچھے تراویح پڑھنے سے جو تجوید کے مطابق قرآن پڑھتا ہے ا س لئے دور بھاگتے ہیں  کہ یہ دیر میں  تراویح ختم کرے گا اور بعض جگہ تو یوں  ہوتا ہے کہ تراویح پڑھانے والے کو مسجد انتظامیہ کی طرف سے ٹائم بتا دیا جاتا ہے کہ اتنے منٹ میں  آپ کو تراویح ختم کرنی ہے اور اگراس وقت سے 5منٹ بھی لیٹ ہو جائے تو حافظ صاحب کوسنا دیا جاتا ہے کہ حضرت آج آپ نے اتنے منٹ لیٹ کر دی آئندہ خیال رکھئے گا۔اے کاش کہ مسلمان اپنے وقت کا خیال کرنے کی بجائے اپنی نماز کی حفاظت کی فکر کریں ۔اللّٰہ تعالیٰ مسلمانوں  کو ہدایت عطا فرمائے۔آمین۔

اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْكَ قَوْلًا ثَقِیْلًا(5)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک عنقریب ہم تم پر ایک بھاری بات ڈالیں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْكَ قَوْلًا ثَقِیْلًا: بیشک عنقریب ہم تم پر ایک بھاری بات ڈالیں  گے۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم عنقریب آپ پر ایک انتہائی عظمت،جلالت اور قدر والا کلام نازل فرمائیں  گے اور اس کی عظمت و جلالت کی وجہ یہ ہے کہ وہ ربُّ العالَمین کا کلام ہے لہٰذا آپ خود کو وہ عظیم بات قبول کرنے کے لئے تیار رکھیں  ۔

          دوسری تفسیر یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، عنقریب ہم آپ پر قرآن نازل فرمائیں  گے جس میں  اَحکامات اور مَمنوعات ہیں  جو کہ سخت تکلیف دِہ اور شرعی اَحکام کے پابند (عام) لوگوں  پر بھاری پڑیں  گے (اس لئے آپ ابھی سے انہیں  بھاری احکام کا عادی بنائیں )۔( خازن، المزمل، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۳۲۲، مدارک، المزمل، تحت الآیۃ: ۵، ص۱۲۹۲، ملتقطاً)

          تیسری تفسیر یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، عنقریب ہم آپ پر ایسا کلام نازل فرمائیں   گے جس کا نازل ہونا بہت بھاری ہے۔( تفسیر سمرقندی، المزمل، تحت الآیۃ: ۵، ۳ / ۴۱۶)

            قرآنِ پاک کے نزول کے بارے میں  ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: ’’لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰى جَبَلٍ لَّرَاَیْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَةِ اللّٰهِؕ-وَ تِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ‘‘(حشر:۲۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر اتارتے تو ضرور تم اسے جھکا ہوا، اللّٰہ کے خوف سے پاش پاش دیکھتے اور ہم یہ مثالیں  لوگوں  کے لیے بیان فرماتے ہیں  تاکہ وہ سوچیں۔

            اور حضرت زید بن ثابت رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :’’اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ پر وحی نازل کی اور اس وقت آپ کی ران میری ران پر تھی،مجھے اپنے اوپر اتنا بوجھ محسوس ہوا جس سے مجھے ڈر لگ گیا کہ کہیں  میری ران ٹوٹ ہی نہ جائے۔ (بخاری، کتاب الصلاۃ، باب ما یذکر فی الفخذ، ۱ / ۱۴۸)

اِنَّ نَاشِئَةَ الَّیْلِ هِیَ اَشَدُّ وَطْاً وَّ اَقْوَمُ قِیْلًاﭤ(6)اِنَّ لَكَ فِی النَّهَارِ سَبْحًا طَوِیْلًاﭤ(7)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک رات کو قیام کرنا زیادہ موافقت کا سبب ہے اور بات خوب سیدھی نکلتی ہے۔بیشک دن میں تو تمہیں بہت سے کام ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ نَاشِئَةَ الَّیْلِ: بیشک رات کو قیام کرنا۔} یعنی رات سونے کے بعد اٹھ کر عبادت کرنا دن کی نماز کے مقابلے میں  زبان اوردل کے درمیان زیادہ مُوافقت کا سبب ہے اور اس وقت قرآنِ پاک کی تلاوت کرنے اور سمجھنے میں  زیادہ دل جمعی حاصل ہوتی ہے کیونکہ وہ وقت سکون اور اطمینان کا ہے، شورو غُل سے امن ہوتا ہے ،کامل اخلاص نصیب ہوتا ہے، ریا کاری اور نمود و نمائش کا موقع نہیں  ہوتا۔( خازن، المزمل، تحت الآیۃ: ۶، ۴ / ۳۲۲، ابن کثیر، المزمل، تحت الآیۃ: ۶، ۸ / ۲۶۳، ملتقطاً)

{اِنَّ لَكَ فِی النَّهَارِ: بیشک دن میں  تمہیں ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بیشک دن میں  تو آپ بہت سے کاموں  میں  مصروف رہتے ہیں  جس کی وجہ سے یک سوئی کے ساتھ عبادت نہیں  ہو پاتی لہٰذا آپ رات کے اوقات کو اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور اس سے مُناجات کرنے کے لئے خاص رکھیں ۔( روح البیان، المزمل، تحت الآیۃ: ۷، ۱۰ / ۲۱۰)

وَ اذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَ تَبَتَّلْ اِلَیْهِ تَبْتِیْلًاﭤ(8)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اپنے رب کا نام یاد کرو اور سب سے ٹوٹ کر اُسی کے بنے رہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ: اور اپنے رب کا نام یاد کرو۔} اس کا ایک معنی یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ، آپ رات اور دن کے تمام اوقات میں  اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کا نام یاد کرتے رہیں  چاہے وہ تسبیح اور کلمہ طیبہ پڑھنے سے ہو، نماز ادا کرنے، قرآنِ پاک کی تلاوت کرنے اور علم کادرس دینے کے ساتھ ہو ۔دوسرا معنی یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اپنی قرا ء ت کی ابتداء میں  بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ پڑھیں  ۔( روح البیان، المزمل، تحت الآیۃ: ۸، ۱۰ / ۲۱۰، جلالین، المزمل، تحت الآیۃ: ۸، ص۴۷۸، ملتقطاً)

            یاد رہے کہ نماز کے علاوہ اگر قرآنِ پاک کی تلاوت سورت کی ابتدا سے کی جائے تو  بِسْمِ اللّٰه پڑھنا سنت ہے اور اگر سورت کے درمیان سے تلاوت شروع کی جائے تو  بِسْمِ اللّٰه پڑھنا مُستحب ہے اور نماز میں  سورہ ٔ فاتحہ کے بعد سورت کی تلاوت سے پہلے  بِسْمِ اللّٰه پڑھنا سنت نہیں ۔

{وَ تَبَتَّلْ اِلَیْهِ تَبْتِیْلًا: اور سب سے ٹوٹ کر اسی کے بنے رہو۔} یعنی اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت ایسی ہو کہ اس میں  اِنقطاع کی صفت ہو کہ دِل اللّٰہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کی یاد میں  مشغول نہ ہو ،اس کی عبادت کے وقت سب سے تعلق ختم ہو جائے اور صرف اسی کی طرف توجہ رہے۔

            یاد رہے کہ اس آیت سے یہ ثابت نہیں  ہوتا کہ انسان نکاح کرنا چھوڑ دے اور سب سے ناطہ توڑ کر کسی جنگل، غار یا ویران جگہ میں  اللّٰہ اللّٰہ کرنا شروع کر دے کیونکہ یہ اسلام میں  منع ہے ،جیسا کہ حضرت طاؤس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مَروی ہے ،نبی ٔاکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اسلام میں  نکاح نہ کرنا اور لوگوں  سے کنارہ کش ہو کر عبادت کرنا منع ہے۔( مصنف عبد الرزاق، کتاب الایمان والنذور، باب الخزامۃ،  ۸ / ۳۸۹، الحدیث: ۱۶۱۴۰)

             حضرت سعد بن ہشام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا سے پوچھا کہ نکاح نہ کرنے کے بارے میں  آپ کی کیا رائے ہے؟ تو آپ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا نے فرمایا: ’’کیا تم نے اللّٰہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں  سنا:

’’وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ وَ جَعَلْنَا لَهُمْ اَزْوَاجًا وَّ ذُرِّیَّةً‘‘(رعد:۳۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک ہم نے تم سے پہلے رسول بھیجے اور ان کے لیے بیویاں  اور بچے بنائے۔

            لہٰذا تم نکاح کرنے سے کنارہ کشی نہ کرو۔( مسند امام احمد، مسند السیدۃ عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا، ۹ / ۳۹۱، الحدیث: ۲۴۷۱۲)

            اور ایک روایت میں  ہے ،حضرت عائشہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا نے فرمایا: ’’اے ہشام! نکاح کرنے سے کنارہ کشی نہ کرو کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ‘‘(احزاب:۲۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک تمہارے لئے اللّٰہ کے رسول میں  بہترین نمونہ موجود ہے۔

            اور بیشک رسولُ   اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے نکاح فرمایا اور ان کے ہاں  اولاد بھی ہوئی۔( مسند ابو یعلی، مسند عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا، ۴ / ۲۶۱، الحدیث: ۴۸۴۲)

رَبُّ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِیْلًا(9)

ترجمہ: کنزالعرفان

وہ مشرق اور مغرب کا رب ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں تو تم اسی کو اپنا کارساز بناؤ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{رَبُّ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ: وہ مشرق اور مغرب کا رب ہے۔} یعنی اللّٰہ تعالیٰ مشرق و مغرب اور ان کے درمیان موجود تمام چیزوں  کا رب اور ان کا خالق و مالک ہے،اس کے علاوہ اور کوئی معبود ہی نہیں  لہٰذا تم اپنے دینی اور دُنْیَوی تمام اُمور میں  اسی کو اپنا کارساز بناؤ اوراپنے کام اسی کے سپرد کردو اور اسی پر بھروسہ کرو۔( روح البیان، المزمل، تحت الآیۃ: ۹، ۱۰ / ۲۱۲، خازن، المزمل، تحت الآیۃ: ۹، ۴ / ۳۲۳، ملتقطاً)

حقیقی کارساز صرف اللّٰہ تعالیٰ ہے :

             یاد رہے کہ حقیقی کارساز صرف اللّٰہ تعالیٰ ہے اور سب کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہئے البتہ اس کا یہ مطلب نہیں  کہ انسان اسباب کو اختیار کرنا چھوڑ دے اور صرف اللّٰہ تعالیٰ پر بھروسہ کر کے بیٹھ جائے بلکہ ہر انسان کو چاہئے کہ وہ اسباب ضرور اختیار کرے لیکن ان اسباب پر بھروسہ نہ کرے بلکہ صرف اللّٰہ تعالیٰ پر بھروسہ کرے جیسے ہر ایک کو روزی دینا اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ ٔکرم پر لیا ہو اہے،اب اس کا یہ مطلب نہیں  کہ انسان سب کچھ چھوڑ کر اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے روزی ملنے کی امید لگاکر گھر بیٹھ جائے اور رزق حاصل ہونے کے اَسباب اختیار کرنا چھوڑ دے ،اس طرح اگر وہ ساری عمر بھی بیٹھا رہے گا تو اسے ایک لقمہ بھی نہیں  ملے گا۔

وَ اصْبِرْ عَلٰى مَا یَقُوْلُوْنَ وَ اهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِیْلًا(10)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور کافروں کی باتوں پر صبر کرو اور انہیں اچھی طرح چھوڑ دو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اصْبِرْ عَلٰى مَا یَقُوْلُوْنَ: اور کافروں  کی باتوں  پر صبر کرو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کفارِ قریش اللّٰہ تعالیٰ کے بارے میں  شریک،بیوی اور اولاد بتا کر خُرافات بکتے ہیں  اور آپ کو جادوگر، شاعر، کاہِن اور مجنون کہہ کر آپ کی شان میں  گستاخیاں  کرتے ہیں  اور قرآن کو سابقہ لوگوں  کی کہانیاں  بتا کر اس کے بارے میں  نازیْبا کلمات کہتے ہیں  ،آپ کافروں  کی ان باتوں  پر صبر فرمائیں  اورانہیں  بدنی ،زبانی ، قلبی ہر اعتبار سے چھوڑ دیں  اور ان کا معاملہ ان کے رب عَزَّوَجَلَّ کے سپرد کر دیں ۔( روح البیان، المزمل، تحت الآیۃ: ۱۰، ۱۰ / ۲۱۳)

وَ ذَرْنِیْ وَ الْمُكَذِّبِیْنَ اُولِی النَّعْمَةِ وَ مَهِّلْهُمْ قَلِیْلًا(11)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ان جھٹلانے والے مالداروں کومجھ پر چھوڑو اور انہیں تھوڑی مہلت دو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ ذَرْنِیْ وَ الْمُكَذِّبِیْنَ اُولِی النَّعْمَةِ: اور ان جھٹلانے والے مالداروں  کومجھ پر چھوڑو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، آپ کو اور قرآن کو جھٹلانے والے ان مالداروں  کو مجھ پر چھوڑ دیں ،میں  آپ کی طرف سے انہیں  کافی ہوں  اور انہیں  بدر کے دن تک تھوڑی مہلت دیں ۔چنانچہ کچھ ہی مدت بعد یہ لوگ بدر کی جنگ میں  قتل کر دئیے گئے۔ بعض مفسرین کے نزدیک یہاں  تھوڑی مہلت دینے سے مراد قیامت کے دن تک مہلت دینا ہے۔( روح البیان،المزمل،تحت الآیۃ: ۱۱، ۱۰ / ۲۱۳-۲۱۴، جلالین، المزمل، تحت الآیۃ: ۱۱، ص۴۷۸، مدارک، المزمل، تحت الآیۃ: ۱۱، ص۱۲۹۳، ملتقطاً)

اِنَّ لَدَیْنَاۤ اَنْكَالًا وَّ جَحِیْمًا(12)وَّ طَعَامًا ذَا غُصَّةٍ وَّ عَذَابًا اَلِیْمًا(13)یَوْمَ تَرْجُفُ الْاَرْضُ وَ الْجِبَالُ وَ كَانَتِ الْجِبَالُ كَثِیْبًا مَّهِیْلًا(14)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک ہمارے پاس بھاری بیڑیاں اور بھڑکتی آگ ہے۔اور گلے میں پھنسنے والاکھانا اور دردناک عذاب ہے۔جس دن زمین اور پہاڑ تھرتھرائیں گے اور پہاڑ ریت کا بہتا ہوا ٹیلہ ہوجائیں گے ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ لَدَیْنَاۤ اَنْكَالًا: بیشک ہمارے پاس بھاری بیڑیاں  ہیں ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں  کفار کے عذاب کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جنہوں  نے نبی ٔکریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جھٹلایا ان کے لئے ہمارے پاس آخرت میں  لوہے کی بھاری بیڑیاں  ہیں  جو کہ ذلیل کرنے اور عذاب دینے کے لئے ان کے پاؤں  میں  ڈالی جائیں  گی اور بھڑکتی آگ ہے جس میں  انہیں  جلایا جائے گا اور گلے میں  پھنسنے والاکھانا ہے جو نہ حلق سے نیچے اترے گا اور نہ حلق سے باہر آ سکے گا اور اِن چیزوں  کے علاوہ ان کے لئے ایسا دردناک عذاب ہے جس کی حقیقت کوئی نہیں  جان سکتا۔( جلالین،المزمل،تحت الآیۃ: ۱۲-۱۳، ص۴۷۸، خازن، المزمل، تحت الآیۃ: ۱۲-۱۳، ۴ / ۳۲۳، روح البیان، المزمل، تحت الآیۃ: ۱۲-۱۳، ۱۰ / ۲۱۴، ملتقطاً)

کفار کے لئے تیار کئے گئے عذابات پڑھ کر مسلمان کو کیا کرنا چاہئے:

            قیامت کے دن کفار کے لئے تیار کئے گئے عذاب کے بارے میں  پڑھ یا سن کر ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے دل میں  اللّٰہ تعالیٰ کا خوف پیدا کرے، یہی ہمارے اَسلاف کا طریقہ رہا ہے ۔چنانچہ حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ  اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کسی قاری سے یہ آیت سنی ’’اِنَّ لَدَیْنَاۤ اَنْكَالًا وَّ جَحِیْمًا‘‘ تو (اللّٰہ تعالیٰ کے خوف سے) آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر غشی طاری ہو گئی۔( کنز العمال، کتاب الشمائل، قسم الافعال، باب شمائل الاخلاق، ۴ / ۸۰، الجزء السابع، الحدیث: ۱۸۶۴۰)

            مَروی ہے کہ حضرت حسن بصری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ روزے کی حالت میں  تھے،شام کے وقت جب ان کے سامنے کھانا حاضر کیا گیا تو انہیں  یہی آیت یاد آ گئی (اور اللّٰہ کے خوف سے) انہوں  نے کہا :کھانا اٹھا لو۔ دوسری رات کھانا پیش کیا گیا تو پھر یہی آیت یاد آ گئی ،آپ نے فرمایا:کھانا اٹھا لو۔ تیسری رات بھی اسی طرح ہوا تو حضرت ثابت بنانی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  اور چند دیگر بزرگوں  کو اس بات کی خبر دی گئی، وہ تشریف لائے اور مسلسل حضرت حسن بصری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو کھانے کا کہتے رہے یہاں  تک کہ آپ نے ستو کا صرف ایک گھونٹ پیا۔( مدارک، المزمل، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۱۲۹۴)

{یَوْمَ تَرْجُفُ الْاَرْضُ وَ الْجِبَالُ: جس دن زمین اور پہاڑ تھرتھرائیں  گے۔} ارشاد فرمایا کہ جس دن زمین اور پہاڑ اللّٰہ تعالیٰ کی ہیبت اور جلال سے تَھرتھرائیں  گے اور پہاڑ اپنی سختی اور بلندی کے باوجود تھرتھرانے کی شدت کی وجہ سے ریت کا بہتا ہوا ٹیلہ ہوجائیں  گے وہ قیامت کا دن ہوگا۔( روح البیان، المزمل، تحت الآیۃ: ۱۴، ۱۰ / ۲۱۴-۲۱۵، خازن، المزمل، تحت الآیۃ: ۱۴، ۴ / ۳۲۳، ملتقطاً)

اِنَّاۤ اَرْسَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ رَسُوْلًا ﳔ شَاهِدًا عَلَیْكُمْ كَمَاۤ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ رَسُوْلًاﭤ(15)فَعَصٰى فِرْعَوْنُ الرَّسُوْلَ فَاَخَذْنٰهُ اَخْذًا وَّبِیْلًا(16)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھیجے جوتم پر گواہ ہیں جیسے ہم نے فرعون کی طرف ایک رسول بھیجے۔تو فرعون نے اس رسول کا حکم نہ مانا تو ہم نے اسے سخت گرفت سے پکڑا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّاۤ اَرْسَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ رَسُوْلًا: بیشک ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھیجے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں  اللّٰہ تعالیٰ نے کفارِ مکہ کو دنیا کے ہَولناک عذاب سے ڈراتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے اہلِ مکہ! بیشک ہم نے اُسی طرح محمد مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوتمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا جو کہ مومن کے ایمان اور کافر کے کفر کو جانتے ہیں  جس طرح ہم نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو فرعون کی طرف رسول بنا کر بھیجا اور جب فرعون نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی رسالت کا انکار کر کے اور ان پر ایمان نہ لا کر ان کا حکم نہ مانا تو ہم نے ا س کی نافرمانی کی وجہ سے دریا میں  ڈبو کراسے سخت گرفت سے پکڑا ، لہٰذاتم بھی اس بات سے ڈرو کہ کہیں  میرے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جھٹلانے کی وجہ سے تم پر بھی فرعون کی طرح دنیا میں  عذاب نہ آجائے اور اگر نافرمانی کی وجہ سے دنیا میں  تم پر عذاب آ گیا تو وہ فرعون کے عذاب سے زیادہ سخت ہو گا کیونکہ تمہارے پاس جو رسول تشریف لائے ہیں  وہ رتبے میں  حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے بڑے ہیں ۔( خازن ، المزمل ، تحت الآیۃ : ۱۵ – ۱۶ ، ۴ / ۳۲۳ ، روح البیان، المزمل، تحت الآیۃ: ۱۵-۱۶، ۱۰ / ۲۱۵، ابن کثیر، المزمل، تحت الآیۃ: ۱۵-۱۶، ۸ / ۲۶۷، ملتقطاً)

فَكَیْفَ تَتَّقُوْنَ اِنْ كَفَرْتُمْ یَوْمًا یَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِیْبَاﰳ(17)السَّمَآءُ مُنْفَطِرٌۢ بِهٖؕ-كَانَ وَعْدُهٗ مَفْعُوْلًا(18)اِنَّ هٰذِهٖ تَذْكِرَةٌۚ-فَمَنْ شَآءَ اتَّخَذَ اِلٰى رَبِّهٖ سَبِیْلًا(19)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر اگر تم کفر کروتو اس دن کیسے بچو گے جو بچوں کو بوڑھا کردے گا۔آسمان اس کی وجہ سے پھٹ جائے گا، اللہ کا وعدہ ہوکر رہناہے۔بیشک یہ ایک نصیحت ہے، تو جو چاہے اپنے رب کی طرف راستہ اختیار کرے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَكَیْفَ تَتَّقُوْنَ اِنْ كَفَرْتُمْ یَوْمًا: پھر اگر تم کفر کروتو اس دن کیسے بچو گے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں  کفارِ مکہ کو آخرت کے ہَولناک عذاب سے ڈراتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اگر تمہارے کفر پر قائم رہنے کے باوجود تم سے فرعون کی طرح دنیا میں  ہی مُؤاخذہ نہ ہو ا تو تم قیامت کے اس دن کے عذاب سے کیسے بچو گے جو انتہائی ہَولناک ہوگا اور وہ اپنی شدت اور دہشت سے بچوں  کو بوڑھا کردے گا اورآسمان اپنی عظمت و قوت کے باوجود اس دن کی شدت کی وجہ سے پھٹ جائے گا،یاد رکھو! اللّٰہ تعالیٰ نے قیامت قائم ہونے کا جو وعدہ دیا ہے وہ ہوکر رہنا ہے۔( روح البیان،المزمل،تحت الآیۃ:۱۷-۱۸،۱۰ / ۲۱۶، جلالین،المزمل،تحت الآیۃ: ۱۷-۱۸، ص۴۷۸-۴۷۹، ملتقطاً)

{اِنَّ هٰذِهٖ تَذْكِرَةٌ: بیشک یہ نصیحت ہے۔} یعنی بیشک دنیا و آخرت کے عذاب سے ڈرانے والی یہ آیات مخلوق کے لئے نصیحت ہیں ، تواب جو چاہے ایمان اور طاعت اختیار کرکے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف راستہ اختیار کرے۔( جلالین، المزمل، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۴۷۹)

اِنَّ رَبَّكَ یَعْلَمُ اَنَّكَ تَقُوْمُ اَدْنٰى مِنْ ثُلُثَیِ الَّیْلِ وَ نِصْفَهٗ وَ ثُلُثَهٗ وَ طَآىٕفَةٌ مِّنَ الَّذِیْنَ مَعَكَؕ-وَ اللّٰهُ یُقَدِّرُ الَّیْلَ وَ النَّهَارَؕ-عَلِمَ اَنْ لَّنْ تُحْصُوْهُ فَتَابَ عَلَیْكُمْ فَاقْرَءُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِؕ-عَلِمَ اَنْ سَیَكُوْنُ مِنْكُمْ مَّرْضٰىۙ-وَ اٰخَرُوْنَ یَضْرِبُوْنَ فِی الْاَرْضِ یَبْتَغُوْنَ مِنْ فَضْلِ اللّٰهِۙ-وَ اٰخَرُوْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ﳲ فَاقْرَءُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنْهُۙ-وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ اَقْرِضُوا اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًاؕ-وَ مَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوْهُ عِنْدَ اللّٰهِ هُوَ خَیْرًا وَّ اَعْظَمَ اَجْرًاؕ-وَ اسْتَغْفِرُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(20)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک تمہارا رب جانتا ہے کہ تم اور تمہارے ساتھیوں میں سے ایک جماعت کبھی دو تہائی رات کے قریب قیام کرتی ہے اور کبھی آدھی رات اور کبھی ایک تہائی رات ۔اور اللہ رات اور دن کا اندازہ فرماتا ہے، اسے معلوم ہے کہ( اے مسلمانو!) تم ساری رات قیام نہیں کرسکو گے تو اس نے اپنی مہربانی سے تم پر رجوع فرمایا اب قرآن میں سے جتنا آسان ہو اتنا پڑھو۔ اسے معلوم ہے کہ عنقریب تم میں سے کچھ لوگ بیمار ہوں گے اور کچھ زمین میں اللہ کا فضل تلاش کرنے کیلئے سفر کریں گے اور کچھ اللہ کی راہ میں لڑتے ہوں گے تو جتنا قرآن آسان ہو پڑھو اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور اللہ کو اچھا قرض دو اور اپنے لیے جو بھلائی تم آگے بھیجو گے اسے اللہ کے پاس بہتر اور بڑے ثواب کی پاؤ گے اور اللہ سے بخشش مانگو، بیشک اللہ بہت بخشنے والا بڑامہربان ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ رَبَّكَ یَعْلَمُ: بیشک تمہارا رب جانتا ہے۔} اس سورت کی ابتدائی آیات میں  نبی ٔکریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ پر تَہَجُّد کی فرضِیَّت کا بیان ہوا اور اس آیت میں  امت سے تہجد کی فرضِیَّت منسوخ ہونے کا بیان ہے۔چنانچہ اس آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بیشک تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ جانتا ہے کہ آپ اور آپ کے صحابہ میں  سے ایک جماعت آپ کی پیروی کرتے ہوئے کبھی دو تہائی رات کے قریب قیام کرتی ہے اور کبھی آدھی رات اور کبھی ایک تہائی رات قیام میں  گزارتی ہے اور اللّٰہ تعالیٰ رات اور دن کے اَجزا اور ان کی گھڑیوں  کی مقدار جانتا ہے لہٰذا وہ رات کی اس مقدار کو بھی جانتا ہے جس میں  تم قیا م کرتے ہو اورا سے وہ مقدار بھی معلوم ہے جس میں  تم سوتے ہو اور اسے یہ بھی معلوم ہے کہ اے مسلمانو!تم رات کا شمار نہیں  کرسکو گے اور اس کے اوقات کی تعیین نہ کرسکو گے تو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی مہربانی سے تم پر رجوع فرمایا اور تم سے مشقت دور کردی لہٰذا اب نماز کے دوران قرآن میں  سے جتنا تم پر آسان ہو اتنا پڑھو اوررات کا لمبا قیام تمہیں  معاف ہے۔اور تمہیں  یہ تخفیف دینے کی حکمت یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کومعلوم ہے کہ عنقریب تم میں  سے کچھ لوگ بیمار ہوں  گے اور کچھ لوگ تجارت کے ذریعے زمین میں  اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا فضل تلاش کرنے یا علم حاصل کرنے کیلئے سفر کریں  گے اور کچھ لوگ اللّٰہ تعالیٰ کی راہ میں  کفار سے لڑتے ہوں  گے، اس وجہ سے ان سب پر رات کا قیام دشوار ہوگا تو تم پر جتنا قرآن آسان ہو اتنا پڑھو اور فرض نماز قائم رکھو اور جو زکوٰۃ تم پر واجب ہو اسے ادا کرو اور نفلی صدقات کے ذریعے اللّٰہ تعالیٰ کو اچھا قرض دو اور اپنے لیے جو بھلائی تم آگے بھیجو گے اسے اللّٰہ تعالیٰ کے پاس بہتر اور بڑے ثواب کی پاؤ گے اور اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے اپنے گناہوں  کی بخشش مانگو، بیشک اللّٰہ تعالیٰ تمام گناہ بخشنے والا اور مہربان ہے۔ (خازن، المزمل، تحت الآیۃ: ۲۰، ۴ / ۳۲۴-۳۲۵، ملخصاً)

{فَاقْرَءُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ: اب قرآن میں  سے جتنا آسان ہو اتنا پڑھو۔} یہاں  تین باتیں  یاد رکھیں : (1)اس آیت سے نماز میں  مُطْلَقاً قراء ت کی فرضِیَّت  ثابت ہوئی۔ (2)فرض قراء ت کا سب سے کم درجہ ایک بڑی آیت یا تین ایسی چھوٹی آیتیں  ہیں  جو بڑی آیت کے برابر ہوں ۔ (3)اس آیت سے رات میں  قیام کی مقدار منسوخ ہوئی، پھر (ایک قول کے مطابق) پانچ نمازوں  کی فرضِیَّت سے امت کے حق میں تہجد کا اصل وجوب بھی منسوخ ہو گیا۔

{وَ اَقْرِضُوا اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا: اور اللّٰہ کو اچھا قرض دو۔} حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ اس قرض سے مراد زکوٰۃ کے علاوہ راہِ خدا میں  خرچ کرنا ہے جیسے رشتہ داروں  سے صلہ رحمی کرنے میں  اور مہمان نوازی کرنے میں  خرچ کرنا۔بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس سے وہ تمام صدقات مراد ہیں  جنہیں  اچھی طرح حلال مال سے اور خوش دِلی کے ساتھ راہ ِخد امیں  خرچ کیا جائے۔( خازن، المزمل، تحت الآیۃ: ۲۰، ۴ / ۳۲۵)




Scroll to Top