سُوْرَۃُ النَّاس
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ(1)مَلِكِ النَّاسِ(2)اِلٰهِ النَّاسِ(3)مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ ﳔ الْخَنَّاسِ(4)الَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِ(5)مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ(6)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم کہو: میں تمام لوگوں کے رب کی پناہ لیتا ہوں ۔تمام لوگوں کا بادشاہ ۔تمام لوگوں کا معبود ۔باربار وسوسے ڈالنے والے، چھپ جانے والے کے شر سے(پناہ لیتا ہوں )۔ وہ جو لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے۔ جنوں اورانسانوں میں سے۔
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ: تم کہو: میں تمام لوگوں کے رب کی پناہ لیتا ہوں۔} اللّٰہ تعالیٰ ساری مخلو ق کا رب ہے مگر چونکہ انسان اشرفُ المخلوقات ہے، اس لئے ان کا خصوصیت سے ذکر فرمایا۔( خازن، النّاس، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۴۳۰)
انسان کی عظمت و شرافت:
اس سے انسان کی عظمت و شرافت بھی معلوم ہوئی کہ بطورِ خاص اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی رَبُوبِیَّت کی نسبت اُس کی طرف فرمائی۔ علماء نے یہاں یہ نکتہ بیان فرمایا ہے کہ اس سورت میں پانچ مرتبہ لفظ ’’اَلنَّاسِ ‘‘ آیا ہے اس میں حکمت یہ ہے کہ چونکہ انسان بچپن میں صرف پرورش ہی پاتا ہے، اس لئے سب سے پہلے ’’رَبِّ النَّاسِ‘‘ یعنی رَبُوبِیَّت والی صفت کا ذکر فرمایا۔جبکہ انسان جوانی میں مست ہو کر بے راہ ہو جاتا ہے، اس وقت اس پر قانونی گرفت کی ضرورت ہے، اس لئے یہاں ’’مَلِكِ النَّاسِ‘‘ یعنی لوگوں کا بادشاہ فرمایا، اورچونکہ انسان بڑھاپے میں عبادت میں مشغول ہوتا ہے، اس لئے تیسری جگہ اللّٰہ تعالیٰ کی صفت ِ اُلُوہِیَّت اور معبودیَّت کا ذکر فرمایا یعنی ’’اِلٰهِ النَّاسِ‘‘۔ چوتھی جگہ النَّاسِ سے صالحین مراد ہوسکتے ہیں کہ شیطان عموماًانہیں ہی وسوسوں کے ذریعے عبادت سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے اور پانچویں جگہ النَّاسِ سے مراد شر پسند اور فسادی لوگ ہو سکتے ہیں کہ وہاں لوگوں کے شر سے پناہ مانگی گئی ہے۔
{مَلِكِ النَّاسِ: تمام لوگوں کا بادشاہ ۔} یعنی ان کے کاموں کی تدبیر فرمانے والاہے اورسب کا حقیقی حاکم و مالک کہ دنیا میں بھی کسی کو حکومت و مِلکیَّت ملے تو اسی کی عطا سے ملتی ہے۔
{اِلٰهِ النَّاسِ: تمام لوگوں کا معبود۔} معبود ہونا اسی کے ساتھ خاص ہے اور سارے لوگوں کا حقیقی معبود وہی ہے۔
{مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ ﳔ الْخَنَّاسِ: باربار وسوسے ڈالنے والے، چھپ جانے والے کے شر سے۔}اس سے مراد شیطان ہے اوریہ اس کی عادت ہے کہ انسان جب غافل ہوتا ہے تو اس کے دِل میں وسوسے ڈالتا ہے اورجب انسان اللّٰہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے تو شیطان دبک رہتا ہے اور ہٹ جاتاہے ۔
وسوسہ اور اِلہام میں فرق:
یاد رہے کہ برے خیال کو وسوسہ کہا جاتا ہے جبکہ اچھے خیالات کو اِلہام ۔ وسوسہ شیطان کی طرف سے ہے لہٰذا اس پر لَا حَوْل پڑھنی چاہیے،اور اِلہام فرشتے کے ذریعے اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتاہے، اس لئے اس پر اللّٰہ تعالیٰ کا شکر کرنا چاہیے۔ نفسِ اَمّارہ کے غلبہ میں وسوسے زیادہ ہوتے ہیں جبکہ نفسِ مُطْمَئِنّہ کے غلبہ میں اِلہام زیادہ۔ شیطان ہمارا ایسا دشمن ہے جو ہمیں نظر نہیں آتا یعنی وہ ہمیں دیکھتا ہے اورہم اسے نہیں دیکھتے، لہٰذا اس طاقت والے رب عَزَّوَجَلَّ کی پناہ مانگو، جو اسے دیکھتا ہے، اور وہ رب عَزَّوَجَلَّ کو نہیں دیکھتا ۔قوی دشمن سے قوی رب عَزَّوَجَلَّ کی پناہ مانگو۔
{اَلَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِ: وہ جو لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے۔} یعنی شیطان زبان و آواز سے نہیں بہکاتا، بلکہ براہ راست دل میں اثر ڈالتا ہے، بری چیز کو اچھی کر دکھاتا ہے۔خود دشمن ہے مگر دوستی کے لباس میں آتا ہے،پھر جیسا انسان ہوویسا ہی اسے وسوسہ ڈالتا ہے۔
{مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ: جنوں اورانسانوں میں سے۔}یہ بیان ہے وسوسے ڈالنے والے شیطان کا کہ وہ جنوں میں سے بھی ہوتا ہے اور انسانوں میں سے بھی جیسے شَیاطینِ جن انسانوں کو وسوسے میں ڈالتے ہیں ایسے ہی شیاطینِ انسان بھی ناصح بن کر آدمی کے دل میں وسوسے ڈالتے ہیں پھر اگر آدمی ان وسوسوں کو مانتا ہے تو اس کا سلسلہ بڑھ جاتا ہے اوروہ خوب گمراہ کرتے ہیں اوراگر اس سے متنفر ہوتا ہے تو ہٹ جاتے ہیں اور دبک رہتے ہیں ۔
جنوں اور انسانوں کے شَیاطین سے پناہ مانگیں :
آدمی کو چاہئے کہ جنوں کے شَیاطین کے شر سے بھی پناہ مانگے اورانسانوں کے شیاطین کے شر سے بھی۔ اس سلسلے میں یہاں ایک مفید وظیفہ پیشِ خدمت ہے،چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ رات کے وقت جب بستر مبارک پر تشریف لاتے تو اپنے دونوں دست ِمبارک جمع فرما کر ان میں دم کرتے اور سورہ قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ پڑھ کر اپنے مبارک ہاتھوں کو سر مبارک سے لے کر تمام جسم ِاَقدس پر پھیرتے جہاں تک دست ِمبارک پہنچ سکتے، یہ عمل تین مرتبہ فرماتے۔(بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب فضل المعوّذات، ۳ / ۴۰۷، الحدیث: ۵۰۱۷)
حضرت عبد اللّٰہ بن خبیب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :ہم پر ہلکی بارش ہوئی اور اس وقت اندھیرا چھایا ہوا تھا اور ہم نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا انتظار کر رہے تھے تاکہ وہ آ کر ہمیں نماز پڑھائیں ،پھر حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ہمیں نماز پڑھانے کے لئے تشریف لائے اور ارشاد فرمایا’’پڑھو!میں نے عرض کی :کیا پڑھوں ؟ ارشاد فرمایا:’’صبح شام تین تین بار قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ پڑھو، ان کی تلاوت کرنا تمہیں ہر بری چیز سے بچائے گا۔(سنن نسائی، کتاب الاستعاذۃ، ۱-باب، ص۸۶۲، الحدیث: ۵۴۳۸)
اللّٰہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس تفسیر کو عوام اور خواص سبھی مسلمانوں کے لئے نفع بخش اور فائدہ مند بنائے اور اسے مسلمانوں کی اعتقادی، علمی اور عملی اصلاح کا بہتر ین ذریعہ بنائے اور اس کے صدقے میری ،میرے والدین، میرے عزیز رشتہ داروں ،اساتذہ ِکرام،دوست اَحباب ،دیگر متعلقین اور معاونین کی بے حساب بخشش و مغفرت فرمائے۔ اٰمین ثم اٰمین۔