سُوْرَۃُ النَّبَأ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
عَمَّ یَتَسَآءَلُوْنَ(1) عَنِ النَّبَاِ الْعَظِیْمِ(2) الَّذِیْ هُمْ فِیْهِ مُخْتَلِفُوْنَﭤ(3)
ترجمہ: کنزالعرفان
لوگ آپس میں کس چیز کے بارے میں سوال کر رہے ہیں ؟ بڑی خبر کے متعلق۔جس میں انہیں اختلاف ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{عَمَّ یَتَسَآءَلُوْنَ: لوگ آپس میں کس چیز کے بارے میں سوال کر رہے ہیں ؟۔} یعنی وہ کیا عظیم الشّان بات ہے جس میں کفارِ قریش ایک دوسرے سے پوچھ گچھ کررہے ہیں ۔اس کا پس ِمَنظر یہ ہے کہ جب نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے کفارِ مکہ کو توحید کی دعوت دی اور مرنے کے بعد زندہ کئے جانے کی خبر دی اور قرآنِ کریم کی تلاوت فرما کر اُنہیں سنایا تو انہوں نے ایک دوسرے سے گفتگو کرنا شروع کر دی اور ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کیسا دین لائے ہیں ؟ ان کی اس باہمی گفتگو کو یہاں بیان کیا گیا ہے اور یا د رہے کہ اس آیت میں حقیقتاً سوال نہیں کیا گیا کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ پر کوئی چیز بھی پوشیدہ نہیں بلکہ اس بات کے عظیم الشّان ہونے کی وجہ سے اسے اِستفہام کے پیرائے میں بیان فرمایا گیا ہے۔( خازن، النّبأ، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۳۴۶، روح البیان، النّبأ، تحت الآیۃ: ۱، ۱۰ / ۲۹۲، ملتقطاً)
{عَنِ النَّبَاِ الْعَظِیْمِ: بڑی خبر کے متعلق۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں وہ بات بیان فرمائی جارہی ہے جس کے بارے کفار ایک دوسرے سے گفتگو کر رہے تھے چنانچہ ارشاد فرمایا کہ وہ اس بڑی خبر کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں جس میں انہیں اختلاف ہے۔ بعض مفسرین کے نزدیک بڑی خبر سے قرآنِ پاک مراد ہے اور اس میں اختلاف سے مراد یہ ہے کہ کفار میں سے کوئی تو قرآنِ پاک کو جادو کہتا ہے ،کوئی شعر کہتا ہے،کوئی کہانَت اور کوئی اور کچھ کہتا ہے۔ بعض مفسرین کا قول یہ ہے کہ بڑی خبر سے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نبوت اور آپ کا دین مراد ہے اور اس میں اختلاف سے مراد یہ ہے کہ کفار میں سے کوئی سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو جادوگر کہتا ہے، کوئی شاعر اورکوئی کاہن کہتا ہے ،اور بعض مفسرین یہ کہتے ہیں کہ بڑی خبرسے مرنے کے بعد زندہ کئے جانے کا مسئلہ مراد ہے اورا س میں اختلاف سے مراد یہ ہے کہ بعض کافر تو اس کا قطعی طور پر انکار کرتے ہیں اور بعض کافر اس کے بارے شک میں ہیں ۔( خازن، النّبأ، تحت الآیۃ: ۲-۳، ۴ / ۳۴۶، مدارک، النّبأ، تحت الآیۃ: ۲-۳، ص ۱۳۱۳، ملتقطاً۔)
كَلَّا سَیَعْلَمُوْنَ(4) ثُمَّ كَلَّا سَیَعْلَمُوْنَ(5)
ترجمہ: کنزالعرفان
خبردار! وہ جلد جان جائیں گے۔پھرخبردار! وہ جلد جان جائیں گے
تفسیر: صراط الجنان
{كَلَّا سَیَعْلَمُوْنَ: خبردار! وہ جلد جان جائیں گے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں ارشاد فرمایا کہ کفار جیسی باتیں کر رہے ہیں در حقیقت ویسا ہے نہیں اور جب قیامت کے دن اصل حقیقت کھل کر سامنے آ جائے گی تو اس وقت یہ اپنے انکار کا انجام جان جائیں گے، یہ پھر خبردار ہو جائیں کہ اس وقت وہ اپنے انکار کا انجام جان جائیں گے۔( خازن، النّبأ، تحت الآیۃ: ۴-۵، ۴ / ۳۴۶)
اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِهٰدًا(6) وَّ الْجِبَالَ اَوْتَادًا(7) وَّ خَلَقْنٰكُمْ اَزْوَاجًا(8) وَّ جَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتًا(9) وَّ جَعَلْنَا الَّیْلَ لِبَاسًا(10) وَّ جَعَلْنَا النَّهَارَ مَعَاشًا(11) وَّ بَنَیْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعًا شِدَادًا(12) وَّ جَعَلْنَا سِرَاجًا وَّهَّاجًا(13)وَّ اَنْزَلْنَا مِنَ الْمُعْصِرٰتِ مَآءً ثَجَّاجًا(14)لِّنُخْرِ جَ بِهٖ حَبًّا وَّ نَبَاتًا(15)وَّ جَنّٰتٍ اَلْفَافًاﭤ(16)
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہ بنایا؟اور پہاڑوں کو میخیں ۔اور ہم نے تمہیں جوڑے پیدا کیا۔اور تمہاری نیند کو آرام کا ذریعہ بنایا۔اور رات کو ڈھانپ دینے والی بنایا۔اور دن کو روزی کمانے کا وقت بنایا ۔اور تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان بنائے۔ا ور ایک نہایت چمکتا چراغ (سورج) بنایا۔اور بدلیوں سے زور دار پانی اُتارا۔تاکہ اس کے ذریعے اناج اور سبزہ نکالیں ۔اور گھنے باغات
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِهٰدًا: کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہ بنایا؟} اس آیت سے اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے عجائبات میں سے چند چیزیں ذکر فرمائیں تاکہ کفارِ قریش ان کی دلالت سے اللّٰہ تعالیٰ کی توحید کو جانیں اور یہ سمجھیں کہ اللّٰہ تعالیٰ عالَم کو پیدا کرنے اور اس کے بعد اس کو فنا کرنے اور فنا کرنے کے بعد پھر حساب اور جزا کے لئے پیدا کرنے پر قادر ہے،چنانچہ اس آیت اورا س کے بعد والی10آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا’’ کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہ بنایا تا کہ تم اس پر رہو اور وہ تمہارے ٹھہرنے کی جگہ ہو،اور کیا ہم نے پہاڑوں کو میخیں نہ بنایا تاکہ ان سے زمین ثابت اور قائم رہے ،اور کیا ہم نے تمہیں مرد اور عورت کے جوڑے نہ بنایا تاکہ تم ایک دوسرے سے سکون حاصل کرو اور معاشی و معاشرتی اُمور کا انتظام کرو ،اور کیا ہم نے تمہاری نیند کو تمہارے جسموں کے لئے آرام کا ذریعہ نہ بنایا تاکہ اس سے تمہاری کوفت اور تھکن دور ہو اور تمہیں راحت و آرام حاصل ہو ،اور کیا ہم نے رات کو ڈھانپ دینے والی نہ بنایا جو کہ اپنی تاریکی سے ہر چیز کو چھپادیتی ہے تاکہ تمہارے معاملات پوشیدہ رہیں ، اور کیا ہم نے دن کو روزگار کمانے کا وقت نہ بنایاتاکہ تم اس میں اللّٰہ تعالیٰ کا فضل اور اپنی روزی تلاش کرو ، اور کیا ہم نے تمہارے اوپر ایسے سات مضبوط آسمان نہ بنائے جن پر زمانہ گزرنے کا اثر نہیں ہوتا اور پرانا پن اور بوسیدگی ان تک راہ نہیں پاتی اور کیا ہم نے ان آسمانوں میں ایک نہایت چمکتا چراغ سورج نہ بنایاجس میں روشنی بھی ہے اور گرمی بھی، اور کیا ہم نے بدلیوں سے زور دار پانی نہ اتارا تاکہ اس کے ذریعے زمین سے انسانوں کے کھانے کے لئے اناج، جانوروں کے کھانے کے لئے سبزہ اور گھنے باغات نکالیں ؟ تو غور کرو کہ جس نے اتنی چیزیں پیدا کردیں وہ انسان کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کردے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے، نیز ان چیزوں کو پیدا کرنا حکیم یعنی حکمت والے کا فعل ہے اور حکمت والے کا فعل ہر گز عبث اور بے کار نہیں ہوتا اور مرنے کے بعد اُٹھنے اور سزا و جزا کے انکار کرنے سے لازم آتا ہے کہ انکار کرنے والے کے نزدیک تمام افعال بیکار ہوں ،حالانکہ یہ باطل ہے اور جب بیکار ہونا باطل ہے تومرنے کے بعد زندہ کئے جانے اور اعمال کی جزا ملنے کا انکار کرنا بھی باطل ہے۔ اس مضبوط دلیل سے ثابت ہوگیاکہ مرنے کے بعد اُٹھنا ہے،اعمال کاحساب ہونا ہے اوران کی جزا ضرور ملنی ہے اور اس میں کوئی شک ہر گزنہیں۔(خازن، النّبأ، تحت الآیۃ: ۶-۱۶، ۴ / ۳۴۶-۳۴۷، مدارک، النّبأ، تحت الآیۃ: ۶-۱۶، ص ۱۳۱۳-۱۳۱۴، روح البیان، النّبأ، تحت الآیۃ: ۶-۱۶، ۱۰ / ۲۹۳-۲۹۹، ملتقطاً)
اِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ كَانَ مِیْقَاتًا(17)یَّوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ فَتَاْتُوْنَ اَفْوَاجًا(18)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک فیصلے کا دن ایک مقرر وقت ہے۔جس دن صور میں پھونک ماری جائے گی تو تم فوج در فوج چلے آؤ گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ كَانَ مِیْقَاتًا: بیشک فیصلے کا دن ایک مقرر وقت ہے۔} یعنی بیشک وہ دن جس میں اللّٰہ تعالیٰ مخلوق کافیصلہ فرمائے گا وہ ا س کے علم میں ثواب اور عذاب کے لئے ایک مقرر کیا ہوا وقت ہے۔( جلالین مع صاوی، النّبأ، تحت الآیۃ: ۱۷، ۶ / ۲۳۰۰)
{یَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ: جس دن صور میں پھونک ماری جائے گی۔} ارشاد فرمایا کہ فیصلے کا دن وہ ہو گا جس دن صور میں دوسری بار پھونک ماری جائے گی تو تم اپنی قبروں سے حساب کیلئے حساب کی جگہ کی طرف فوج در فوج چلے آؤ گے۔( روح البیان، النّبأ، تحت الآیۃ: ۱۸، ۱۰ / ۲۹۹، ملخصاً)
اس حالت کو بیان کرتے ہوئے ایک ا ور مقام پر ارشاد فرمایا:
’’وَ نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَاِذَا هُمْ مِّنَ الْاَجْدَاثِ اِلٰى رَبِّهِمْ یَنْسِلُوْنَ‘‘(یس:۵۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور صور میں پھونک ماری جائے گی تواسی وقت وہ قبروں سے اپنے رب کی طرف دوڑتے چلے جائیں گے۔
اور ارشاد فرمایا: ’’وَ نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَجَمَعْنٰهُمْ جَمْعًا‘‘(کہف:۹۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور صور میں پھونک ماری جائے گی تو ہم سب کو جمع کر لائیں گے۔
وَّ فُتِحَتِ السَّمَآءُ فَكَانَتْ اَبْوَابًا(19)وَّ سُیِّرَتِ الْجِبَالُ فَكَانَتْ سَرَابًاﭤ(20)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور آسمان کھول دیا جائے گا تو وہ دروازے بن جائے گا۔اور پہاڑ چلائے جائیں گے تو وہ ایسے ہوجائیں گے جیسے باریک چمکتی ہوئی ریت جو دور سے پانی کا دھوکا دیتی ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ فُتِحَتِ السَّمَآءُ: اور آسمان کھول دیا جائے گا۔ } یعنی قیامت کے دن آسمان کھول دیا جائے گا تو وہ کثیر دروازوں والا ہوجائے گااوراس میں ایسے راستے بن جائیں گے جن سے فرشتے اُتریں گے۔( روح البیان، النّبأ، تحت الآیۃ: ۱۹، ۱۰ / ۳۰۰-۳۰۱، خازن، النّبأ، تحت الآیۃ: ۱۹، ۴ / ۳۴۷)
اسی بات کو صراحت کے ساتھ ایک اور مقام پر بیان کیا گیا ہے،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ
’’وَ یَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَآءُ بِالْغَمَامِ وَ نُزِّلَ الْمَلٰٓىٕكَةُ تَنْزِیْلًا‘‘(فرقان:۲۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جس دن آسمان بادلوں سمیت پھٹ جائے گا اور فرشتے پوری طرح اتارے جائیں گے۔
{وَ سُیِّرَتِ الْجِبَالُ: اور پہاڑ چلائے جائیں گے۔} قرآنِ پاک میں مختلف مقامات پر قیامت کے دن پہاڑوں کی مختلف حالتیں بیان کی گئیں ہیں ۔
ٍٍ پہلی حالت:پہاڑوں کو جڑ سے اکھاڑ کر چورا چورا کر دیا جائے گا۔ارشادِباری تعالیٰ ہے:
’’وّ حُمِلَتِ الْاَرْضُ وَ الْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّةً وَّاحِدَةً ‘‘(حاقہ:۱۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور زمین اور پہاڑ اٹھا کر ایک دم چورا چوراکردئیے جائیں گے۔
دوسری حالت: پہاڑ دُھنکی ہوئی رنگ برنگی اُون کی طرح ہو جائیں گے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَ تَكُوْنُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ الْمَنْفُوْشِ‘‘(القارعہ:۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور پہاڑ رنگ برنگی دھنکی ہوئی اون کی طرح ہوجائیں گے۔
تیسری حالت:پہاڑ بکھرے ہوئے غبار کی طرح ہو جائیں گے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَ بُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّاۙ(۵) فَكَانَتْ هَبَآءً مُّنْۢبَثًّا‘‘(واقعہ:۵،۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور پہاڑ خوب چُورا چُورا کر دیئے جائیں گے ۔ تووہ ہوا میں بکھرے ہوئے غبار جیسے ہوجائیں گے۔
چوتھی حالت: غبار بنا کر پہاڑوں کو اڑا دیا جائے گا،ارشاد فرمایا: ’’وَ اِذَا الْجِبَالُ نُسِفَتْ‘‘(مرسلات:۱۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جب پہاڑ غبار بناکے اڑا دئیےجا ئیں گے۔
اور ارشاد فرمایا: ’’وَ یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ یَنْسِفُهَا رَبِّیْ نَسْفًا‘‘(طہ:۱۰۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور آپ سے پہاڑوں کے بارےمیں سوال کرتے ہیں ۔تم فرماؤ! انہیں میرا رب ریزہ ریزہ کرکے اڑا دے گا۔
پانچویں حالت:غبار بن کر اڑنے کے بعد پہاڑ تیزی سے چل رہے ہوں گے لیکن دیکھنے میں ٹھہرے ہوئے لگیں گے۔ارشاد فرمایاکہ ’’وَ تَسِیْرُ الْجِبَالُ سَیْرًا‘‘(طور:۱۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور پہاڑ تیزی سے چلیں گے۔
اور ارشاد فرمایا: ’’ وَ تَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَّ هِیَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ‘‘(نمل:۸۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور تو پہاڑوں کو دیکھے گا انہیں جمے ہوئے خیال کرے گا حالانکہ وہ بادل کے چلنے کی طرح چل رہے ہوں گے۔
چھٹی حالت: جب پہاڑ چلائے جائیں گے تو وہ دیکھنے والے کی نظر میں ایسے ہوجائیں گے جیسے باریک چمکتی ہوئی ریت جسے دور سے دیکھا جائے تو یوں لگتا ہے جیسے پانی ہے حالانکہ وہ پانی نہیں ہوتی ۔( تفسیرکبیر، النّبأ، تحت الآیۃ: ۲۰، ۱۱ / ۱۳-۱۴، ملخصاً)
اِنَّ جَهَنَّمَ كَانَتْ مِرْصَادًا(21)لِّلطَّاغِیْنَ مَاٰبًا(22)لّٰبِثِیْنَ فِیْهَاۤ اَحْقَابًا(23) لَا یَذُوْقُوْنَ فِیْهَا بَرْدًا وَّ لَا شَرَابًا(24)اِلَّا حَمِیْمًا وَّ غَسَّاقًا(25)جَزَآءً وِّفَاقًاﭤ(26)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک جہنم تاک میں ہے۔سرکشوں کے لئے ٹھکانہ ہے۔اس میں مدتوں رہیں گے۔اس میں کسی طرح کی ٹھنڈک کا مزہ نہ چکھیں گے اور نہ کچھ پینے کو۔مگر کھولتا پانی اور دوزخیوں کی پیپ۔برابر بدلہ ہوگا ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ جَهَنَّمَ كَانَتْ مِرْصَادًا: بیشک جہنم تاک میں ہے۔} اس کا ایک معنی یہ ہے کہ جہنم کافروں کی مُنتظِر اور ان کی طلَبگار ہے۔دوسرا معنی یہ ہے کہ جہنم کے فرشتے کفار کے انتظار میں ہیں ۔ تیسرا معنی یہ ہے کہ جہنم ایک گزرگاہ ہے اور کوئی بھی اس پرسے گزرے بغیر جنت تک نہیں پہنچ سکتا۔( خازن، النّبأ، تحت الآیۃ: ۲۱، ۴ / ۳۴۷، تفسیرکبیر، النّبأ، تحت الآیۃ: ۲۱، ۱۱ / ۱۴، ملتقطاً)
{لِلطَّاغِیْنَ مَاٰبًا: سرکشوں کیلئے ٹھکانا ہے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی3 آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جہنم کفار اور مشرکین کا ٹھکانہ ہے لہٰذا وہ اس میں داخل ہوں گے اوراس میں نہ ختم ہونے والی مدت تک یعنی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہیں گے اور جہنم میں ان کا حال یہ ہوگا کہ وہ اس میں کسی طرح کی ایسی ٹھنڈک محسوس نہ کریں گے جس سے انہیں راحت نصیب ہو اور جہنم کی گرمی سے سکون ملے اور نہ جہنم کے کھولتے ہوئے پانی اور جہنمیوں کی پیپ کے علاوہ انہیں کچھ پینے کو ملے گا۔( روح البیان، النّبأ، تحت الآیۃ: ۲۲-۲۵، ۱۰ / ۳۰۲-۳۰۵، جلالین، النّبأ، تحت الآیۃ: ۲۲-۲۵، ص ۴۸۷، ملتقطاً)
یاد رہے کہ جو مسلمان اپنے گناہوں کی سزا پانے جہنم میں جائیں گے انہیں ہمیشہ کے لئے جہنم میں نہیں رکھا جائے گا بلکہ انہیں مُقَرّب بندوں اور دیگر حضرات کی شفاعت کے ذریعے یا محض فضلِ الٰہی سے یا جب ان کی سزا پوری ہوجائے گی توانہیں جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔
{جَزَآءً وِّفَاقًا: برابر بدلہ ہوگا۔} یعنی جیسے عمل ہوں گے و یسی جزا ملے گی اورچونکہ کفر سے بدترین کوئی جرم نہیں ہے اس لئے سب سے سخت عذاب بھی کفار کو ہو گا۔ (جلالین، النّبأ، تحت الآیۃ: ۲۶، ص ۴۸۷، ملخصاً)
اِنَّهُمْ كَانُوْا لَا یَرْجُوْنَ حِسَابًا(27)وَّ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا كِذَّابًاﭤ(28)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک وہ حساب کا خوف نہ رکھتے تھے۔اور انہوں نے ہماری آیتوں کو بہت زیادہ جھٹلایا ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّهُمْ كَانُوْا لَا یَرْجُوْنَ حِسَابًا: بیشک وہ حساب کا خوف نہ رکھتے تھے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کفار اس سزا کے مستحق اس وجہ سے ہوئے ہیں کہ وہ آخرت میں اپنے اعمال کا حساب ہونے کا خوف نہ رکھتے تھے کیونکہ وہ مرنے کے بعد اٹھنے کاانکار کرتے تھے اور انہوں نے ہماری وحدانیّت اور ہمارے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی صداقت کے دلائل پر مشتمل آیتوں کو بہت زیادہ جھٹلایا تھا۔( روح البیان، النّبأ، تحت الآیۃ: ۲۷-۲۸، ۱۰ / ۳۰۶، خازن، النّبأ، تحت الآیۃ: ۲۷-۲۸، ۴ / ۳۴۷-۳۴۸، ملتقطاً)
وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ كِتٰبًا(29)فَذُوْقُوْا فَلَنْ نَّزِیْدَكُمْ اِلَّا عَذَابًا(30)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم نے ہر چیز لکھ کر شمار کر رکھی ہے۔تواب چکھو تو ہم تمہارے عذاب ہی کو بڑھائیں گے ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ كِتٰبًا: اور ہم نے ہر چیز لکھ کر شمار کر رکھی ہے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم نے لوحِ محفوظ میں ہر چیز لکھ کر شمار کر رکھی ہے اور کافروں کے تمام نیک اور برے اعمال ہمارے علم میں ہیں ، ہم انہیں ان کے اعمال کے مطابق جزا دیں گے اور آخرت میں جب کفار کو عذاب دیاجائے گاتواس وقت ان سے کہا جائے گا کہ اب اپنی سزا کے طور پر جہنم کا عذاب چکھو اورہم تمہارے عذاب پر عذاب ہی کو بڑھائیں گے۔( خازن، النّبأ، تحت الآیۃ: ۲۹-۳۰، ۴ / ۳۴۸، جلالین، النّبأ، تحت الآیۃ: ۲۹-۳۰، ص ۴۸۷، روح البیان، النّبأ، تحت الآیۃ: ۲۹-۳۰، ۱۰ / ۳۰۶-۳۰۷، ملتقطاً)
اہلِ جہنم پر سب سے زیادہ سخت اور تکلیف دِہ آیت:
حضرت حسن بن دینار رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ،میں نے حضرت ابوبرزہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے پوچھا: اللّٰہ تعالیٰ کی کتاب میں وہ کون سی آیت ہے جو اہلِ جہنم کے لئے سب سے زیادہ سخت اور تکلیف دِہ ہے؟حضرت ابوبرزہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:وہ اللّٰہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے ’’فَذُوْقُوْا فَلَنْ نَّزِیْدَكُمْ اِلَّا عَذَابًا‘‘۔(مجمع الزّوائد، کتاب التفسیر، سورۃ عمّ یتساء لون، ۷ / ۲۸۱، الحدیث: ۱۱۴۶۳)
حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’اہلِ جہنم کے لئے اس آیت ’’فَذُوْقُوْا فَلَنْ نَّزِیْدَكُمْ اِلَّا عَذَابًا‘‘ سے زیادہ سخت کوئی آیت نازل نہیں ہوئی۔یعنی وہ اللّٰہ تعالیٰ کے مزید عذاب میں ہمیشہ کے لئے رہیں گے۔( د رمنثور، النّبأ، تحت الآیۃ: ۳۰، ۸ / ۳۹۷)
اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ مَفَازًا(31)حَدَآىٕقَ وَ اَعْنَابًا(32)وَّ كَوَاعِبَ اَتْرَابًا(33)وَّ كَاْسًا دِهَاقًاﭤ(34)لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْهَا لَغْوًا وَّ لَا كِذّٰبًا(35)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک ڈر والوں کے لئے کامیابی کی جگہ ہے۔باغات اور انگورہیں ۔اور اٹھتے جوبن والیاں جو ایک عمر کی ہیں ۔اور چھلکتا جام ہے۔وہ جنت میں نہ کوئی بیہودہ بات سنیں گے اورنہ ایک دوسرے کوجھٹلانا۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ مَفَازًا: بیشک ڈر والوں کیلئے کامیابی کی جگہ ہے۔} اس سے پہلی آیات میں کفار کے لئے وعیدیں بیان کی گئیں اور اب متقی لوگوں کی جزا بیان کی جا رہی ہے ۔چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی 4آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو کفر اور دیگر برے اعمال سے بچتے ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتے ہیں ان کے لئے جنت میں کامیابی کی جگہ ہے جہاں انہیں عذاب سے نجات ہوگی اور انہیں اپنی ہر مراد حاصل ہوگی اوران کے لئے ایسے باغات ہیں جن میں طرح طرح کے نفیس پھلوں والے درخت ہیں اور ان کے لئے انگورہیں اور ان کے لئے اٹھتے جوبن والی ایک عمر کی بیویاں ہیں اور ان کے لئے جنت کی نفیس شراب سے چھلکتا جام ہے اور جنت میں شراب پینے کی وجہ سے انہیں نہ کوئی بے ہودہ بات سننے میں آئے گی اور نہ وہاں کوئی کسی کو جھٹلائے گا۔( روح البیان ، النّبأ ، تحت الآیۃ : ۳۱-۳۵ ، ۱۰ / ۳۰۷- ۳۰۸، مدارک، النّبأ، تحت الآیۃ: ۳۱-۳۵، ص ۱۳۱۵، خازن، النّبأ، تحت الآیۃ: ۳۱-۳۵، ۴ / ۳۴۸، ملتقطاً)
حقیقی طور پر کامیاب کون؟
اس سے معلوم ہوا کہ اصل کامیاب وہ نہیں جو دنیا میں کامیابی پا لے بلکہ حقیقی طور پر کامیاب وہ ہے جو قیامت کے دن جنت حاصل کر لے ۔اسی چیز کو بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’ کُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِؕ-وَ اِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَؕ-وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ‘‘(اٰل عمران:۱۸۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اورقیامت کے دن تمہیں تمہارے اجر پورے پورے دئیے جائیں گے توجسے آگ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا تو وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے۔
لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ ایسے اعمال کرے جس سے دنیا میں بھی سُرْخْرُو ہو اور آخرت میں بھی اللّٰہ تعالیٰ کے فضل و رحمت سے جنت اور ا س کی ابدی نعمتیں حاصل کر لے۔
جَزَآءً مِّنْ رَّبِّكَ عَطَآءً حِسَابًا(36)رَّبِّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَا الرَّحْمٰنِ لَا یَمْلِكُوْنَ مِنْهُ خِطَابًا(37)یَوْمَ یَقُوْمُ الرُّوْحُ وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ صَفًّا ﯼ لَّا یَتَكَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ وَ قَالَ صَوَابًا(38)ذٰلِكَ الْیَوْمُ الْحَقُّۚ-فَمَنْ شَآءَ اتَّخَذَ اِلٰى رَبِّهٖ مَاٰبًا(39)
ترجمہ: کنزالعرفان
(یہ) بدلہ ہے تمہارے رب کی طرف سے نہایت کافی عطا۔وہ جو آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب ہے، نہایت رحم فرمانے والا ہے، لوگ اس سے بات کرنے کا اختیار نہ رکھیں گے۔جس دن جبریل اور سب فرشتے صفیں بنائے کھڑے ہوں گے۔ کوئی نہ بول سکے گا مگر وہی جسے رحمٰن نے اجازت دی ہو اور اس نے ٹھیک بات کہی ہو۔ وہ سچا دن ہے، اب جو چاہے اپنے رب کی طرف راہ بنالے۔
تفسیر: صراط الجنان
{جَزَآءً مِّنْ رَّبِّكَ: (یہ) بدلہ ہے تمہارے رب کی طرف سے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے اطاعت گزار بندو ں سے جو وعدہ فرمایا ہے یہ اس وعدے کے مطابق تمہارے اعمال کے بدلے کے طور پرتمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے نہایت کافی عطا ہے اور تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ وہ ہے جو آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب عَزَّوَجَلَّ ہے اوروہ نہایت رحم فرمانے والا ہے اور جس دن حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام اور سب فرشتے صفیں بنائے کھڑے ہوں گے تواس دن لوگ اللّٰہ تعالیٰ کے رعب و جلال اور خوف کی وجہ سے اس سے مصیبت دور کرنے اور عذاب اٹھا دینے کی بات کرنے کا اختیار نہ رکھیں گے البتہ جسے رحمٰن عَزَّوَجَلَّ نے کلام کرنے یا شفاعت کرنے کی اجازت دی ہو اور اس نے دنیا میں ٹھیک بات کہی ہواور اُسی کے مطابق عمل کیا ہو تو وہ اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کلام کر سکے گا۔بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ ٹھیک بات سے کلمۂ طیّبہ لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہ مراد ہے۔( جلالین مع صاوی،النّبأ،تحت الآیۃ:۳۶-۳۸، ۶ / ۲۳۰۳-۲۳۰۴، خازن، النّبأ، تحت الآیۃ: ۳۶-۳۸، ۴ / ۳۴۸، تفسیر قرطبی، النّبأ، تحت الآیۃ: ۳۶-۳۸، ۱۰ / ۱۳۱-۱۳۳، الجزء التاسع عشر، ملتقطاً)
{ذٰلِكَ الْیَوْمُ الْحَقُّ: وہ سچا دن ہے۔} یعنی قیامت کا واقع ہونا برحق ہے، اب جو چاہے نیک اعمال کر کے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف راہ بنالے تاکہ اس دن میں عذاب سے محفوظ رہ سکے۔( جلالین، النّبأ، تحت الآیۃ: ۳۹، ص ۴۸۸)
اِنَّاۤ اَنْذَرْنٰكُمْ عَذَابًا قَرِیْبًا ﭺ یَّوْمَ یَنْظُرُ الْمَرْءُ مَا قَدَّمَتْ یَدٰهُ وَ یَقُوْلُ الْكٰفِرُ یٰلَیْتَنِیْ كُنْتُ تُرٰبًا(40)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک ہم تمہیں ایک قریب آئے ہوئے عذاب سے ڈراچکے جس دن آدمی وہ دیکھے گا جو اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا اور کافر کہے گا: اے کاش کہ میں کسی طرح مٹی ہوجاتا۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّاۤ اَنْذَرْنٰكُمْ عَذَابًا قَرِیْبًا: بیشک ہم تمہیں ایک قریب آئے ہوئے عذاب سے ڈراچکے۔} ارشاد فرمایا کہ اے کفارِ مکہ ! ہم دنیا میں تمہیں اپنی آیات کے ذریعے قیامت کے دن کے عذاب سے ڈرا چکے ہیں جو کہ قریب آ گیا ہے اور یہ عذاب اس دن ہو گا جس دن ہر شخص اپنے تمام اچھے برے اعمال اپنے نامۂ اعمال میں لکھے ہوئے دیکھے گا اور کافر کہے گا: اے کاش کہ میں کسی طرح مٹی ہوجاتا تاکہ عذاب سے محفوظ رہتا۔کافر یہ تمنا کب کرے گا اس کے بارے میں حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن جب جانوروں اور چوپایوں کو اٹھایا جائے گا اور انہیں ایک دوسرے سے بدلہ دلایا جائے گا یہاں تک کہ اگر سینگ والے نے بے سینگ والے کو مارا ہوگا تو اُسے بھی بدلہ دلایا جائے گا، اس کے بعد وہ سب خاک کردیئے جائیں گے ،یہ دیکھ کر کافر تمناکرے گا کہ کاش! میں بھی ان کی طرح خاک کردیا جاتا ۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ جب مومنین پر اللّٰہ تعالیٰ انعام فرمائے گا تو ان نعامات کو دیکھ کر کافر تمنا کرے گا کہ کاش !وہ دنیا میں خاک ہوتا یعنی اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت کے معاملے میں عاجزی اورتواضع کرنے والاہوتا متکبر اورسرکش نہ ہوتا ۔ایک قول یہ بھی ہے کہ کافر سے مراد ابلیس ہے جس نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر یہ اعتراض کیا تھا کہ وہ مٹی سے پیدا کئے گئے اور اپنے آگ سے پیدا کئے جانے پر فخر کیا تھا۔ جب وہ قیامت کے دن حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اُن کی ایماندار اولاد کے ثواب کو دیکھے گا اوراپنے آپ کو عذاب کی شدت میں مبتلا پائے گا تو کہے گا: کاش! میں مٹی ہوتا یعنی حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرح مٹی سے پیدا کیا ہوا ہوتا۔( جلالین، النّبأ، تحت الآیۃ: ۴۰، ص ۴۸۸، خازن، النّبأ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۴ / ۳۴۸-۳۴۹، ملتقطاً)