سُوْرَۃُ النَّحْل
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
ترجمہ: کنزالعرفان
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ، رحمت والاہے ۔
تفسیر: صراط الجنان
{ بِسْمِ اللّٰهِ: اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔(کنز العمال، کتاب الاذکار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول، الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔
{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)
’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:
علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :
(1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام جو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔
اَتٰۤى اَمْرُ اللّٰهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُؕ-سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ(1)
ترجمہ: کنزالعرفان
اللہ کا حکم قریب آگیا تو تم اس کو جلدی طلب نہ کرو، (اللہ ) ان کے شرک سے پاک اور بلند وبالا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَتٰۤى اَمْرُ اللّٰهِ: اللّٰہ کا حکم آگیا۔} شانِ نزول: جب کفار نے تکذیب اور اِستہزاء کے طور پر اس عذاب کے نازل ہونے اور قیامت قائم ہونے کی جلدی کی جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور بتادیا گیا کہ جس کی تم جلدی کرتے ہو وہ کچھ دور نہیں بلکہ بہت ہی قریب ہے اور اپنے وقت پر یقینا واقع ہوگا اور جب واقع ہوگا تو تمہیں اس سے چھٹکارے کی کوئی راہ نہ ملے گی۔(روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۱، ۵ / ۲، ملخصاً)
قیامت قریب ہے:
جب یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی تو رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ مجھے اور قیامت کو اس طرح بھیجا گیا ہے اور اپنی دو انگلیوں سے اشارہ فرمایا پھر انہیں دراز کر دیا۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱، ۳ / ۱۱۲، بخاری، کتاب الرقاق، باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم: بعثت انا والساعۃ کہاتین، ۴ / ۲۴۸، الحدیث: ۶۵۰۳)
ایک اور روایت میں ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میں قیامت کے بالکل قریب بھیجا گیا ہوں ، تو مجھے قیامت سے صرف اتنی سبقت حاصل ہے جتنی ا س انگلی یعنی درمیانی انگلی کو شہادت کی انگلی پر حاصل ہے۔ (ترمذی، کتاب الفتن، باب ما جاء فی قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم: بعثت انا والساعۃ کہاتین۔۔۔ الخ، ۴ / ۹۱، الحدیث: ۲۲۲۰)
{سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ:(اللّٰہ) ان کے شرک سے پاک اور بلندوبالا ہے۔} کافروں نے کہا ’’اے محمد! (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) آپ نے جویہ بات کہی کہ دنیا یا آخرت میں اللّٰہ تعالیٰ نے ہمیں عذا ب میں مبتلا کر دینے کا حکم نازل فرمایا ہے، چلیں ہم نے اس بات کومان لیا لیکن جن بتوں کی ہم عبادت کر رہے ہیں یہ اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہماری شفاعت کر دیں گے تو ان بتوں کی شفاعت کی وجہ سے ہمیں عذاب سے نجات مل جائے گی، ان کے رد میں اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’اللّٰہ تعالیٰ ان کے شرک سے پاک اور بلندوبالا ہے۔(تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۱، ۷ / ۱۶۸)
یُنَزِّلُ الْمَلٰٓىٕكَةَ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖۤ اَنْ اَنْذِرُوْۤا اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاتَّقُوْنِ(2)
ترجمہ: کنزالعرفان
اللہ اپنے بندوں میں سے جس پرچاہتا ہے اس پر فرشتوں کو اپنے حکم سے روح یعنی وحی کے ساتھ نازل فرماتا ہے کہ تم ڈر سناؤ کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں تو مجھ سے ڈرو۔
تفسیر: صراط الجنان
{یُنَزِّلُ الْمَلٰٓىٕكَةَ: اللّٰہ فرشتوں کو نازل فرماتا ہے ۔} اس آیت میں ملائکہ سے مراد حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام ہیں ، ان کی تعظیم کے لئے جمع کا صیغہ ’’ملائکہ ‘‘ ذکر فرمایا گیا اور روح سے مراد وحی ہے۔ وحی کو روح اس لئے فرمایا گیا کہ جس طرح روح کے ذریعے جسم زندہ ہوتا ہے اور روح نہ ہو تو جسم مردہ ہو جاتا ہے اسی طرح وحی کے ذریعے دل زندہ ہوتا ہے اور اسی سے ابدی سعادت کا پتا چلتا ہے اور جو دل وحی سے دور ہو وہ مردہ ہو جاتا ہے ۔(جلالین مع صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۲، ۳ / ۱۰۵۶)
بعض مفسرین کا قول ہے کہ ملائکہ سے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام اور ان کے ساتھ آنے والے وہ فرشتے مراد ہیں جو اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے وحی کی حفاظت پر مامور ہیں۔(ابوسعود، النحل، تحت الآیۃ: ۲، ۳ / ۲۴۴)آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ’’اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے جن بندوں کو نبوت ، رسالت اور مخلوق کی طرف وحی کی تبلیغ کے لئے منتخب فرما لیا ہے ان پر وحی کے ساتھ فرشتوں کو نازل فرماتا ہے تا کہ وہ لوگوں کو میرا انکار کرنے اور عبادت کے لائق ہونے میں بتوں کو میرا شریک ٹھہرانے پر میرے قہر و غضب سے ڈرائیں ۔(خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۲، ۳ / ۱۱۲-۱۱۳، تفسیر طبری، النحل، تحت الآیۃ: ۲، ۷ / ۵۵۷-۵۵۸، ملتقطاً)
خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّؕ-تَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ(3)
ترجمہ: کنزالعرفان
اس نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ بنایا۔ وہ ان کے شرک سے بلندوبالا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّ:اس نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ بنایا۔} اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت اور اپنے معبود ہونے پر بطورِ دلیل ان چیزوں کا ذکر فرمایا ہے کہ جنہیں پیدا کرنے پر اللّٰہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی قادر نہیں۔(مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۳، ص۵۸۹)آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے لوگو! تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے آسمانوں اور زمین کو حکمت و مصلحت کے ساتھ پیدا کیا ہے باطل اور بیکار نہیں بنایا اور وہ زمین و آسمان کو پیدا کرنے میں یکتا ہے، انہیں عدم سے وجود میں لانے میں اس کا کوئی شریک نہیں اور نہ ہی انہیں پیداکرنے پر کسی نے اللّٰہ تعالیٰ کی مدد کی ہے تو اللّٰہ تعالیٰ کا شریک کہا ں سے آ گیا؟ اے لوگو! تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ تمہارے شرک اور تمہارے اس دعوے کہ’’ اللّٰہ کے سوا اور بھی معبود ہیں ‘‘ سے بلند و بالا ہے اور اس کی شان اتنی بلند ہے کہ کوئی ا س کا مثل، شریک یا مددگار ہو ہی نہیں سکتا۔ (تفسیر طبری، النحل، تحت الآیۃ: ۳، ۷ / ۵۵۹، روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۳، ۵ / ۶، ملتقطاً)
خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ(4)
ترجمہ: کنزالعرفان
اس نے انسان کو منی سے پیدا کیا پھر جبھی وہ کھلم کھلا جھگڑنے والا بن گیا۔
تفسیر: صراط الجنان
{خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ:اس نے انسان کو منی سے پیدا کیا۔} اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت اور قدرت پر ایک اور دلیل ذکر فرمائی کہ اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو منی سے پیدا کیا ،جس میں نہ حِس ہوتی ہے نہ حرکت اور اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے ایک ناپاک قطرے سے عجیب وغریب مخلوق بنائی، ماں کے پیٹ میں اس قطرے کو مختلف شکلوں میں ڈھالتا رہا،پھر اس کی تخلیق پوری کرنے اورا س میں روح پھونکنے کے بعد اسے دنیا کی روشنی میں لے کر آیا، اسے غذا اور رزق دیا اورا س کی پرورش کرتا رہا ،حتّٰی کہ جب وہ اپنے قدموں پر چلنے کے قابل ہو گیا تو اس نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی نعمتوں کی ناشکری کی اور اپنے پیدا کرنے والے کو ماننے سے انکار کر دیا اور ان بتوں کی عبادت کرنے میں مصروف ہوگیا جو اسے نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان اور یہ کہنے لگا کہ ’’مَنْ یُّحْیِ الْعِظَامَ وَ هِیَ رَمِیْمٌ‘‘یعنی ایسا کون ہے جو ہڈیوں کو زندہ کردے جبکہ وہ بالکل گلی ہوئی ہوں ۔ جبکہ وہ اس ہستی کو بھول گیا جس نے اسے گندے قطرے سے ایسی حسین شکل عطا کی تھی۔( تفسیر طبری، النحل، تحت الآیۃ: ۴، ۷ / ۵۵۹، بیضاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۴، ۳ / ۳۸۶، ملتقطاً) شانِ نزول: یہ آیت اُبی بن خلف کے بارے میں نازل ہوئی، یہ مرنے کے بعد زندہ ہونے کا انکار کرتا تھا، ایک مرتبہ کسی مردے کی گلی ہوئی ہڈی اٹھالایا اور سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہنے لگا ’’ آپ کا یہ خیال ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اس ہڈی کو زندگی دے گا! اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۴، ۳ / ۱۱۳)اور نہایت نفیس جواب دیا گیا کہ ہڈی تو کچھ نہ کچھ عُضْو اور شکل رکھتی بھی ہے، اللّٰہ تعالیٰ تو منی کے ایک چھوٹے سے بے حس و حرکت قطرے سے تجھ جیسا جھگڑالو انسان پیدا کردیتا ہے، یہ دیکھ کر بھی تو اس کی قدرت پر ایمان نہیں لاتا۔ علامہ صاوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت میں اُبی بن خلف کا رد ہے اور ہر اس شخص کا بھی رد ہے جو اُبی بن خلف کے طریقے کو اپنائے ہوئے ہے۔(صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۴، ۳ / ۱۰۵۶)
وَ الْاَنْعَامَ خَلَقَهَاۚ-لَكُمْ فِیْهَا دِفْءٌ وَّ مَنَافِعُ وَ مِنْهَا تَاْكُلُوْنَ(5)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اس نے جانور پیدا کئے ، ان میں تمہارے لیے گرم لباس اور بہت سے فائدے ہیں اور ان سے تم (غذابھی) کھاتے ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الْاَنْعَامَ خَلَقَهَا:اور اس نے جانور پیدا کئے۔} اس سے پہلی آیتوں میں اللّٰہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق کا اور اس کے بعد انسان کی پیدائش کا ذکر فرمایا جبکہ اس آیت اور اس کے بعد والی چند آیات میں ان چیزوں کا ذکر فرمایا جن سے انسان اپنی تمام ضروریات میں نفع اٹھاتے ہیں اور چونکہ انسان کی سب سے بڑی ضرورت کھانا اور لباس ہے کیونکہ ان سے بدنِ انسانی تَقوِیَت اور حفاظت حاصل کرتا ہے ا س لئے سب سے پہلے ان جانوروں کا ذکر کیا گیا جن سے یہ فوائد حاصل ہوتے ہیں ۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اونٹ، گائے اور بکریاں وغیرہ جانور پیدا کئے ، ان کی کھالوں اور اُون سے تمہارے لیے گرم لباس تیار ہوتے ہیں اوراس کے علاوہ بھی ان جانوروں میں بہت سے فائدے ہیں جیسے تم ان کی نسل سے دولت بڑھاتے ہو، اُن کے دودھ پیتے ہو، اُن پر سواری کرتے ہو اور تم ان کا گوشت بھی کھاتے ہو۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۵، ۳ / ۱۱۳)وَ لَكُمْ فِیْهَا جَمَالٌ حِیْنَ تُرِیْحُوْنَ وَ حِیْنَ تَسْرَحُوْنَ(6)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور تمہارے لئے ان میں زینت ہے جب تم انہیں شام کو واپس لاتے ہو اور جب چرنے کیلئے چھوڑتے ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَكُمْ فِیْهَا جَمَالٌ:اور تمہارے لئے ان میں زینت ہے ۔} یعنی جب تم ان جانوروں کو شام کے وقت چراگاہوں سے واپس لاتے ہو اور جب صبح کے وقت انہیں چرنے کے لئے چھوڑتے ہو تو اس وقت ان جانوروں کی کثرت اور بناوٹ دیکھ کر تمہیں خوشی حاصل ہوتی ہے اور لوگوں کی نگاہوں میں تمہاری عزت، وجاہت اور مقام و مرتبہ بڑھ جاتا ہے۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۶، ۳ / ۱۱۴، ملخصاً) جیسے ہمارے زمانے میں صبح کسی کے گھر سے اعلیٰ درجے کی گاڑی نکلے اور شام کو واپس آئے تو لوگوں کی نظر میں اس کی بڑی قدر ہوتی ہے۔
وَ تَحْمِلُ اَثْقَالَكُمْ اِلٰى بَلَدٍ لَّمْ تَكُوْنُوْا بٰلِغِیْهِ اِلَّا بِشِقِّ الْاَنْفُسِؕ-اِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(7)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور وہ جانورتمہارے بوجھ اٹھا کر ایسے شہر تک لے جاتے ہیں جہاں تم اپنی جان کو مشقت میں ڈالے بغیر نہیں پہنچ سکتے ،بیشک تمہارا رب نہایت مہربان رحم والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ تَحْمِلُ اَثْقَالَكُمْ:اور وہ جانورتمہارے بوجھ اٹھا کر لے جاتے ہیں ۔} یعنی وہ جانور تمہارا سامان اور سفر کے دوران کام آنے والے آلات اس شہر تک لے جاتے ہیں جہاں تم اپنی جان کو مشقت میں ڈالے بغیر نہیں پہنچ سکتے، بیشک تمہارا رب نہایت مہربان، رحم والا ہے کہ اس نے تمہارے لئے یہ نفع دینے والی چیزیں پیدا کی ہیں ۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۷، ۳ / ۱۱۴)
جانور پر سواری کرنا اور بوجھ لادنا جائز ہے:
ابو عبداللّٰہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت سے ثابت ہوا کہ جانوروں پر سواری کرنا اور ان پر سامان لادنا جائز ہے البتہ جتنی ان میں بوجھ برداشت کرنے کی قوت ہو اسی حساب سے ان پر سامان لادا جائے۔ (قرطبی، النحل، تحت الآیۃ: ۷، ۵ / ۵۴، الجزء العاشر)
جانوروں سے متعلق اسلام کی عظیم تعلیمات:
کثیر احادیث میں جانوروں کے ساتھ بھی نرمی سے پیش آنے ، ان کے لئے آسانی کرنے اور ان کے دانہ پانی کا خیال رکھنے کا حکم دیا ہے، چنانچہ حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جب تم سرسبزی کے زمانے میں سفر کرو تو زمین سے اونٹوں کو ان کا حصہ دو اور جب تم خشکی کے سال میں سفر کرو تو زمین سے جلدی گزرو (تاکہ اونٹ کمزور نہ ہو جائیں ) اور جب تم رات کے وقت آرام کے لئے اترو تو راستے سے الگ اترو کیونکہ وہ جانوروں کے راستے اور رات میں کیڑے مکوڑوں کے ٹھکانے ہیں۔(مسلم، کتاب الامارۃ، باب مراعاۃ مصلحۃ الدواب فی السیر۔۔۔ الخ، ص۱۰۶۳، الحدیث: ۱۷۸(۱۹۲۶))
حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، فرماتے ہیں ، حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جو مسلمان بھی کوئی درخت لگاتا ہے یا کھیت اگاتا ہے، اس سے کوئی پرندہ، انسان یا جانور کچھ کھالیں تو وہ اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے ۔ (بخاری، کتاب الحرث والمزارعۃ، باب فضل الزرع والغرس اذا اکل منہ، ۲ / ۸۵، الحدیث: ۲۳۲۰)
حضرت سہل بن حَنْظَلِیَّہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک ایسے اونٹ کے پاس سے گزرے جس کی پیٹھ پیٹ سے مل گئی تھی تو ارشاد فرمایا’’ ان بے زبان جانوروں کے بارے میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو، ان پر اچھی طرح سوار ہوا کرو اور انہیں اچھی طرح کھلایا کرو۔(ابوداؤد، کتاب الجہاد، باب ما یؤمر بہ من القیام علی الدواب والبہائم، ۳ / ۳۲، الحدیث: ۲۵۴۸)
حضرت جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے (جانوروں کے) چہرے پر مارنے اور چہرے کو داغنے سے منع فرمایا۔ مزید فرماتے ہیں ، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس سے ایک گدھا گزرا جس کے منہ کو داغا گیا تھا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے اسے داغا ہے ا س پر اللّٰہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔( مسلم، کتاب اللباس والزینۃ، باب النہی عن ضرب الحیوان فی وجہہ ووسمہ فیہ، ص۱۱۷۱،۱۱۷۲ الحدیث: ۱۰۶ (۲۱۱۶)، ۱۰۷(۲۱۱۷))
حضرت مسیب بن دارم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ میں نے حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو دیکھا کہ انہوں نے ایک شتربان کو مارا اور ا س سے فرمایا ’’ تم نے اپنے اونٹ پرا س کی طاقت سے زیادہ سامان کیوں لادا ہے؟( الطبقات الکبری لابن سعد، تسمیۃ من نزل البصرۃ من اصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ومن کان بعدہم۔۔۔ الخ، الطبقۃ الاولی من الفقہاء المحدثین۔۔۔ الخ، المسیب بن دارم، ۷ / ۹۱)
وَّ الْخَیْلَ وَ الْبِغَالَ وَ الْحَمِیْرَ لِتَرْكَبُوْهَا وَ زِیْنَةًؕ-وَ یَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(8)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور (اس نے) گھوڑے اور خچر اور گدھے (پیدا کئے) تا کہ تم ان پر سوار ہو اور یہ تمہارے لئے زینت ہے اور (ابھی مزید) ایسی چیزیں پیدا کرے گاجو تم جانتے نہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الْخَیْلَ وَ الْبِغَالَ:اور گھوڑے اور خچر۔} یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے گھوڑے،خچر اور گدھے بھی تمہارے نفع کے لئے پیدا کئے تاکہ تم ان پر سوار ی کرو اور ان میں تمہارے لئے سواری اور دیگر جو فوائد ہیں ان کے ساتھ ساتھ یہ تمہارے لئے زینت ہیں۔( تفسیر طبری، النحل، تحت الآیۃ: ۸، ۷ / ۵۶۲)
اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت:
علما فرماتے ہیں ’’ ہمیں اونٹ، گائے، بکری، گھوڑا اور خچر وغیرہ جانوروں کا مالک بنا دینا، انہیں ہمارے لئے نرم کر دینا، ان جانوروں کو اپنا تابع کرنا اور ان سے نفع اٹھانا ہمارے لئے مباح کر دینا اللّٰہ تعالیٰ کی ہم پر رحمت ہے۔ (قرطبی، النحل، تحت الآیۃ: ۸، ۵ / ۵۵، الجزء العاشر)
{وَ یَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ:اور( ابھی مزید) ایسی چیزیں پیدا کرے گاجو تم جانتے نہیں۔} یعنی جانوروں کی جو اقسام تمہارے سامنے بیان کی گئیں ان کے علاوہ ابھی مزید ایسی عجیب و غریب چیزیں اللّٰہ تعالیٰ پیدا کرے گاجن کی حقیقت اور پیدائش کی کیفیت تم نہیں جانتے ۔(ابوسعود، النحل، تحت الآیۃ: ۸، ۳ / ۲۴۷، جلالین، النحل، تحت الآیۃ: ۸، ص۲۱۶، ملتقطاً) اس میں وہ تمام چیزیں آگئیں جو آدمی کے فائدے، راحت و آرام اورآسائش کے کام آتی ہیں اور وہ اس وقت تک موجود نہیں ہوئی تھیں لیکن اللّٰہ تعالیٰ کو ان کا آئندہ پیدا کرنا منظور تھا جیسے کہ بحری جہاز ، ریل گاڑیاں ، کاریں ، بسیں ، ہوائی جہاز اور اس طرح کی ہزاروں ، لاکھوں سائنسی ایجادات ۔ اور ابھی آئندہ زمانے میں نہ جانے کیا کیا ایجاد ہوگا لیکن جو بھی ایجاد ہوگا وہ اس آیت میں داخل ہوگا۔
وَ عَلَى اللّٰهِ قَصْدُ السَّبِیْلِ وَ مِنْهَا جَآىٕرٌؕ-وَ لَوْ شَآءَ لَهَدٰىكُمْ اَجْمَعِیْنَ(9)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور درمیان کا سیدھا راستہ (دکھانا) اللہ کے ذمہ کرم پر ہی ہے اور ان راستوں میں سے کوئی ٹیڑھا راستہ بھی ہے اور اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دیدیتا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ عَلَى اللّٰهِ قَصْدُ السَّبِیْلِ:اور درمیان کا سیدھا راستہ (دکھانا)اللّٰہ کے ذمہ کرم پر ہی ہے۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے رسول بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر سیدھے راستے کو بیان کرنا اپنے ذمہ کرم پر لیا ہو ا ہے،یہ ا س کا فضل اور احسان ہے لہٰذا جو ہدایت حاصل کرے گا تو وہ اپنے فائدے کیلئے کرے گا اور جو گمراہ ہو گا تو گمراہی کا نقصان بھی اسی کو ہے۔ (صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۹،۳ / ۱۰۵۸، تفسیر طبری، النحل، تحت الآیۃ: ۹، ۷ / ۵۶۴، ملتقطاً)نیز سیدھا راستہ وہی ہے جو اللّٰہ تک پہنچانے والا ہو۔
{وَ مِنْهَا جَآىٕرٌ:اور ان راستوں میں سے کوئی ٹیڑھا راستہ بھی ہے۔} یعنی ان راستوں میں سے کچھ راستے ایسے ہیں جو صراطِ مستقیم سے مُنحرف ہیں اور ان پر چلنے والا منزلِ مقصود تک نہیں پہنچ سکتا ۔کفر او ر گمراہی کی تمام راہیں جیسے یہودیت، عیسائیت اور مجوسیت وغیرہ یونہی اپنی خواہشات سے نئے نئے مسلک بنا نے والے سب اس میں داخل ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ’’ قَصْدُ السَّبِیْلِ‘‘ سے مراد دینِ اسلام اور اہلسنّت والجماعت ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو صراطِ مستقیم، حسنِ اعتقاد اور اچھے اعمال پر اِستقامت عطا فرمائے اور کفر ،گمراہی اور بد مذہبی سے ہماری حفاظت فرمائے۔ (روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۹، ۵ / ۱۳)
{وَ لَوْ شَآءَ لَهَدٰىكُمْ اَجْمَعِیْنَ:اور اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دیدیتا۔} یعنی اگر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ چاہتا تو تم سب کو سیدھے راستے تک پہنچا دیتا لیکن اس نے ایسا نہیں چاہا کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ ازل سے یہ بات جانتا ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو جنت میں جانے کے قابل ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو جہنم میں جانے کے لائق ہیں لہٰذا سب کو ہدایت نصیب نہ ہو گی۔ (صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۹، ۳ / ۱۰۵۸)
هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً لَّكُمْ مِّنْهُ شَرَابٌ وَّ مِنْهُ شَجَرٌ فِیْهِ تُسِیْمُوْنَ(10)یُنْۢبِتُ لَكُمْ بِهِ الزَّرْعَ وَ الزَّیْتُوْنَ وَ النَّخِیْلَ وَ الْاَعْنَابَ وَ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ(11)
ترجمہ: کنزالعرفان
وہی ہے جس نے آسمان سے پانی اتارا، اس سے تمہارا پینا ہے اور اسی سے درخت (اگتے) ہیں جن سے تم (جانور) چراتے ہو۔ اس پانی سے وہ تمہارے لیے کھیتی اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل اگاتا ہے ،بیشک اس میں غور وفکر کرنے والوں کیلئے نشانی ہے ۔
تفسیر: صراط الجنان
{هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً:وہی ہے جس نے آسمان سے پانی اتارا۔} اس سے پہلی آیتوں میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے ان احسانات کا ذکر فرمایا جو خاص انسانوں پر فرمائے اورا س آیت میں ان نعمتوں کو بیان فرمایا ہے کہ جو صرف انسانوں کے ساتھ خاص نہیں بلکہ تمام حیوانات کے لئے بھی ہیں وہ یہ کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی اتارا جو پینے کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے نَباتات اگتی ہیں جن سے تمام جانور نفع اٹھاتے ہیں ۔ (صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۱۰، ۳ / ۱۰۵۸)
{یُنْۢبِتُ لَكُمْ بِهِ الزَّرْعَ:اس پانی سے وہ تمہارے لیے کھیتی اگاتاہے۔} جس طرح سابقہ آیات میں اللّٰہ تعالیٰ نے حیوانات کا تفصیلی اور اِجمالی طورپر ذکر فرمایا اسی طرح اس آیت میں پھلوں کا تفصیلی اور اجمالی دونوں طرح سے ذکر فرمایا ہے۔ اس آیت میں چار اَجناس کا صراحت کے ساتھ ذکر فرمایا (1) کھیتی ۔ اس سے مراد وہ دانہ ہے جس سے غذا حاصل کی جاتی ہے جیسے گندم ، جَو اور ان جیسی دوسری چیزیں کیونکہ ان سے بدنِ انسانی تقوِیَت پاتا ہے۔ (2) زیتون ۔ یہ سالن اور تیل کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور یہ پھل برکت والا بھی ہے۔ (3) کھجور۔ اس پھل میں غذائیت ہے اور یہ میوہ ہے۔ (4) انگور۔ یہ غذائیت اور میوہ ہونے میں کھجور کی طرح ہے۔ اس کے بعد’’ وَ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ‘‘ فرما کر تمام پھلوں کا اجمالی طور پر ذکر کر دیا تاکہ لوگ اللّٰہ تعالیٰ کی عظیم قدرت اور مخلوق پر اس کے انعامات سے آگاہ ہوں ۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۱، ۳ / ۱۱۵، ملخصاً)
{ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ:بیشک اس میں غور وفکر کرنے والوں کیلئے نشانی ہے ۔} یعنی پانی نازل کرنے اور اس سے طرح طرح کی اجناس پیدا کرنے میں ان لوگوں کے لئے اللّٰہ تعالیٰ کے کمالِ علم،قدرت ،حکمت اور صرف اسی کے معبود ہونے پر دلالت کرنے والی بڑی بڑی نشانیاں ہیں جو اس کی صنعتوں میں غورو فکر کر کے ایمان قبول کر لیتے ہیں ۔ (روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۱۱، ۵ / ۱۶، جلالین، النحل، تحت الآیۃ: ۱۱، ص۲۱۶، ملتقطاً)وَ سَخَّرَ لَكُمُ الَّیْلَ وَ النَّهَارَۙ-وَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَؕ-وَ النُّجُوْمُ مُسَخَّرٰتٌۢ بِاَمْرِهٖؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ(12)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اس نے تمہارے لیے رات اور دن اور سورج اور چاند کو کام میں لگا دیا اور ستارے (بھی) اسی کے حکم کے پابند ہیں ۔ بیشک اس میں عقل مندوں کیلئے نشانیاں ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ سَخَّرَ لَكُمُ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ:اور اس نے تمہارے لیے رات اور دن کو کام پر لگا دیا۔} اس سے پہلی آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے ان نعمتوں کا ذکر فرمایا جو عالَم سُفْلِی یعنی زمین اور اس پر موجود تمام چیزوں میں ہیں اور اس آیت میں ان نعمتوں کو بیان فرمایا جو عالَم عُلوی یعنی بادلوں ، آسمانوں اور ان میں موجود تمام چیزوں میں ہیں اور یہ سب نعمتیں کائنات کے نظام کی تکمیل اور عالَم کے نفع کے لئے ہیں۔ (صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۱۲، ۳ / ۱۰۵۹، ملخصاً)
نوٹ:دن رات، سورج چاند اور ستاروں کی تسخیر کی تفسیر سورۂ ابراہیم کی آیت نمبر33میں گزر چکی ہے۔
{اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ:بیشک اس میں عقل مندوں کیلئے نشانیاں ہیں۔} یعنی جو لوگ صحیح اور سلیم عقل رکھتے ہیں وہ ان چیزوں میں غور کر کے سمجھ جائیں گے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہی اپنے اختیار سے ہر کام کرنے والا ہے اور تمام مخلوق اسی کی قدرت کے تحت ہے۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۲، ۳ / ۱۱۶)
آیت’’وَ سَخَّرَ لَكُمُ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ‘‘سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے درج ذیل تین چیزیں بھی معلوم ہوئیں ،
(1)… ہر ذرہ معرفتِ الہٰی کا دفتر ہے، لیکن اس کیلئے صحیح عقل کی ضرورت ہے۔
(2)… اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک وہی عقل اچھی ہے جو اللّٰہ تعالیٰ کو پہچانے جبکہ جو عقل اس کی معرفت تک نہ پہنچائے وہ بے عقلی ہے۔
(3)… علمِ طب، ریاضی و فلکیات وغیرہ بہت عمدہ و اعلیٰ علوم ہیں کہ ان سے اللّٰہ تعالیٰ کی معرفت میں مدد ملتی ہے۔
وَ مَا ذَرَاَ لَكُمْ فِی الْاَرْضِ مُخْتَلِفًا اَلْوَانُهٗؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّقَوْمٍ یَّذَّكَّرُوْنَ(13)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور (اس نے تمہارے کام میں لگادیں ) وہ مختلف رنگوں والی چیزیں جواس نے تمہارے لیے زمین میں پیدا کیں ۔ بیشک اس میں نصیحت ماننے والوں کیلئے نشانی ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَا ذَرَاَ لَكُمْ فِی الْاَرْضِ:اور وہ چیزیں جواس نے تمہارے لیے زمین میں پیدا کیں ۔} یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں بھی تمہارے کام پر لگا دیا جو اس نے تمہارے لئے زمین میں حیوانات، درخت اور پھل وغیرہ پیدا کئے ہیں اوروہ اپنی کثیر تعداد کے باوجود خلقت، ہیئت، کیفیت اور رنگ میں مختلف ہیں حتّٰی کہ ان میں سے کوئی مکمل طور پر دوسرے کی طرح نہیں ہوتا، اس میں اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت کے کمال پر بڑی مضبوط دلیل ہے۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۳، ۳ / ۱۱۶)
وَ هُوَ الَّذِیْ سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَاْكُلُوْا مِنْهُ لَحْمًا طَرِیًّا وَّ تَسْتَخْرِجُوْا مِنْهُ حِلْیَةً تَلْبَسُوْنَهَاۚ-وَ تَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِیْهِ وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(14)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور وہی ہے جس نے سمندر تمہارے قابو میں دیدئیے تا کہ تم اس میں سے تازہ گوشت کھاؤ اور تم اس میں سے زیور نکالوجسے تم پہنتے ہو اور تم اس میں کشتیوں کو دیکھتے ہو کہ پانی کو چیرتی ہوئی چلتی ہیں اور اس لئے کہ تم اس کا فضل تلاش کرو اورتاکہ تم شکر ادا کرو۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ هُوَ الَّذِیْ سَخَّرَ الْبَحْرَ:اور وہی ہے جس نے سمندر تمہارے قابو میں دیدئیے۔} سمندر کی تسخیر کا معنی یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے انسانوں کو سمندر سے نفع اٹھانے کی قدرت عطا کر دی ہے، وہ کشتیوں اور بحری جہازوں کے ذریعے اس میں سفر کر سکتے ہیں ،غوطے لگا کر اس کی تہہ میں پہنچ سکتے ہیں اور اس میں سے شکار کر سکتے ہیں ۔ (بیضاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۱۴، ۳ / ۳۸۹، ملخصاً)
{لِتَاْكُلُوْا مِنْهُ لَحْمًا طَرِیًّا:تا کہ تم اس میں سے تازہ گوشت کھاؤ ۔} سمندر میں انسانوں کے لئے بے شمار فوائد ہیں ، ان میں سے تین فوائد اللّٰہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمائے ہیں ۔
پہلا فائدہ: تم اس میں سے تازہ گوشت کھاتے ہو۔ اس سے مراد مچھلی ہے ۔یاد رہے کہ سمندری جانوروں میں سے صرف مچھلی کا گوشت حلال ہے۔
دوسرا فائدہ: تم سمندرمیں سے زیور نکالتے ہو جسے تم پہنتے ہو۔ زیور سے مراد گوہر و مرجان ہیں اور پہننے سے مراد عورتوں کا پہننا ہے کیونکہ زیور عورتوں کی زینت ہے اور چونکہ عورتوں کازیوروں کے ذریعے سجنا سنورنا مردوں کی وجہ سے ہوتا ہے ا س لئے گویا کہ یہ مردوں کی زینت اور لباس ہے۔ (تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۱۴، ۷ / ۱۸۸)
تیسرا فائدہ: اور تم اس میں کشتیوں کو دیکھتے ہو کہ پانی کو چیرتی ہوئی چلتی ہیں ۔ یعنی اگر تم میں سے کوئی سمندر پر جائے تو وہ دیکھے گا کہ ہوا کا رخ ایک طرف ہونے کے باوجود (بادبانی) کشتیاں پانی کو چیرتی ہوئی آ جا رہی ہیں ۔ (روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۱۴، ۵ / ۱۹، ملخصاً)
{وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ:تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو۔} یعنی سمندر کو تمہارے قابو میں اس لئے دیا تاکہ تم تجارت کی غرض سے سمندر میں سفر کرو اور اللّٰہ تعالیٰ کے فضل سے نفع حاصل کرو اور جب تم اللّٰہ تعالیٰ کا فضل اور احسان پاؤ تو تمہیں چاہئے کہ ا س پر اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو۔ (تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۱۴، ۷ / ۱۸۹)
وَ اَلْقٰى فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِكُمْ وَ اَنْهٰرًا وَّ سُبُلًا لَّعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(15)وَ عَلٰمٰتٍؕ-وَ بِالنَّجْمِ هُمْ یَهْتَدُوْنَ(16)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اس نے زمین میں لنگر ڈالے تاکہ زمین تمہیں لے کر حرکت نہ کرتی رہے اور اس نے نہریں اور راستے بنائے تاکہ تم راستہ پالو۔ اور (راستوں کیلئے) کئی نشانیاں بنائیں اور لوگ ستاروں سے راستہ پالیتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اَلْقٰى فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ:اور اس نے زمین میں لنگر ڈالے۔} اللّٰہ تعالیٰ نے انسانوں کے لئے زمین میں جو نعمتیں پیدا فرمائی ہیں ان میں سے بعض کا ذکر اس آیت میں فرمایا۔آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے زمین میں مضبوط پہاڑوں کے لنگر ڈالے تاکہ وہ تمہیں لے کر حرکت نہ کرتی رہے اور اس نے زمین میں نہریں بنائیں اور راستے بنائے جن پر تم اپنے سفر کے دوران چلتے ہو اور اپنی ضروریات کی تکمیل کے لئے ایک شہر سے دوسرے شہر اور ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہو تاکہ تم اپنی منزلوں تک راستہ پا لو اور بھٹک نہ جاؤ۔ (تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۱۵، ۷ / ۱۸۹، خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۵، ۳ / ۱۱۶، ملتقطاً)
{وَ عَلٰمٰتٍ:اور کئی نشانیاں بنائیں ۔} یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے راستوں کی پہچان کیلئے کئی نشانیاں بنائیں جیسے پہاڑ کہ دن میں لوگ ان کے ذریعے راستہ پاتے ہیں اور رات کے وقت لوگ خشکی اور تری میں ستاروں سے بھی راستہ پالیتے ہیں اورا س سے انہیں قبلہ کی پہچان ہوتی ہے۔ (جلالین، النحل، تحت الآیۃ: ۱۶، ص۲۱۷، ملخصاً)
اَفَمَنْ یَّخْلُقُ كَمَنْ لَّا یَخْلُقُؕ-اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ(17)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو کیا جو پیدا کرنے والا ہے وہ اس جیسا ہے جو کچھ بھی نہیں بناسکتا؟ تو کیا تم نصیحت نہیں مانتے؟
تفسیر: صراط الجنان
{اَفَمَنْ یَّخْلُقُ:تو کیا جو پیداکرنے والا ہے۔} اس سے پہلی آیات میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی قدرت اور صنعت کے عجائبات اور انوکھی مخلوقات کا ذکر فرمایا، یہ سب چیزیں اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت کے کمال اور اس کی وحدانیت پر اور تمام مخلوقات کو پیدا کرنے میں اس کے یکتا ہونے پر دلالت کرتی ہیں جبکہ اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے کلام فرمایا جو اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت چھوڑ کر عاجز اور ناکارہ بتوں کی عبادت میں مشغول ہیں ۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ جو اپنی قدرت اور حکمت سے اِن تمام چیزوں کو پیدا کرنے والا ہے ، کیاوہ ان بتوں جیسا ہے جو اپنے عاجز و بے قدرت ہونے کی وجہ سے کچھ بھی نہیں بناسکتے؟ جب اللّٰہ تعالیٰ ان جیساہے ہی نہیں توعقلمند کو کب سزاوار ہے کہ ایسے خالق و مالک کی عبادت چھوڑ کر عاجز و بے اختیار بتوں کی پرستش کرے یا انہیں عبادت میں اس کا شریک ٹھہرائے؟ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۷، ۳ / ۱۱۷، جلالین، النحل، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۲۱۷، ملتقطاً)
وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَاؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(18)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اگر تم اللہ کی نعمتیں گنو تو انہیں شمار نہیں کرسکو گے، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ:اور اگر تم اللّٰہ کی نعمتیں گنو۔} یعنی اوپر بیان کردہ نعمتیں اور ان کے علاوہ بندے کی تخلیق میں اللّٰہ تعالیٰ کی جتنی نعمتیں ہیں جیسے تندرست بدن، آفات سے محفوظ جسم، صحیح آنکھیں ، عقلِ سلیم، ایسی سماعت جوچیزوں کو سمجھنے میں مددگار ہے، ہاتھوں کا پکڑنا، پاؤں کا چلنا وغیرہ اور جتنی نعمتیں بندے پر فرمائی ہیں ، جیسے بندے کی دینی اور دنیوی ضروریات کی تکمیل کے لئے پیدا کی گئیں تمام چیزیں ، یہ اتنی کثیر ہیں کہ ان کا شمار ممکن ہی نہیں حتّٰی کہ اگر کوئی اللّٰہ تعالیٰ کی چھوٹی سی نعمت کی معرفت حاصل کرنے کی کوشش کرے تو وہ حاصل نہ کر سکے گا تو ان نعمتوں کاکیا کہنا جنہیں تمام مخلوق مل کر بھی شمار نہیں کر سکتی، اسی لئے اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا اگر تم اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں کو شمار کرنے کی کوشش کرو اور ا س کام میں اپنی زندگیاں صَرف کر دو تو بھی اس پر قادر نہیں ہو سکتے۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۸، ۳ / ۱۱۷)
نوٹ: نعمتیں شمار نہ کر سکنے کی کچھ تفصیل ہم سورہ ٔ ابراہیم آیت نمبر 34 میں کرآئے ہیں ، وہاں ملاحظہ فرمائیں ۔
{اِنَّ اللّٰهَ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ:بیشک اللّٰہ بخشنے والا مہربان ہے۔} یعنی اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں پر جیسا شکر اداکرنا تم پر لازم ہے اگر تم ویسا نہ کر سکو تو بے شک اللّٰہ تعالیٰ تمہاری تقصیر معاف کرنے والا ہے ،وہ شکرادا کرنے میں تمہاری تقصیر کے باوجود تم پر نعمتیں وسیع فرماتا ہے اور گناہوں کی وجہ سے تمہیں اپنی نعمتوں سے محروم نہیں فرماتا۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۸، ۳ / ۱۱۷)وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ وَ مَا تُعْلِنُوْنَ(19)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اللہ جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو اور جو تم ظاہر کرتے ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ:اور اللّٰہ جانتا ہے۔} یعنی تم اپنے عقائد و اعمال میں سے جو چھپاتے اور ظاہر کرتے ہووہ سب اللّٰہ تعالیٰ جانتا ہے۔(صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۱۹، ۳ / ۱۰۶۰-۱۰۶۱)
چھپ کر گناہ کرنے والوں کو نصیحت :
اس آیت میں بیان ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ ہمارے تمام ظاہری و باطنی اعمال جانتا ہے، اس میں ہر اس شخص کے لئے بڑی عبرت و نصیحت ہے جو لوگوں سے چھپ کر برے اعمال کرتا ہے اور اپنا برا عمل لوگوں پر ظاہر ہونے سے ڈرتا ہے جبکہ وہ اس رب تعالیٰ سے نہیں ڈرتا جو ان کی تنہائیوں اور خَلْوَتوں کے اَعمال بھی جانتا ہے ۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:
چھپ کے لوگوں سے کئے جس کے گناہ
وہ خبردار ہے کیا ہونا ہے
کام زنداں کے کئے اور ہمیں
شوقِ گلزار ہے کیا ہونا ہے
وَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَا یَخْلُقُوْنَ شَیْــٴًـا وَّ هُمْ یُخْلَقُوْنَﭤ(20)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اللہ کے سوا جن کی یہ لوگ عبادت کرتے ہیں وہ تو کسی شے کو پیدا نہیں کرتے بلکہ وہ تو خود بنائے جاتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ:اور اللّٰہ کے سوا جن کی یہ لوگ عبادت کرتے ہیں ۔} مُستند مفسرین نے اپنی تفاسیر میں اس آیت میں مذکور لفظ ’’یَدْعُوْنَ‘‘ کا معنی ’’یَعْبُدُوْنَ‘‘ یعنی عبادت کرنا لکھا ہے جیساکہ ابو سعید عبداللّٰہ بن عمر بیضاوی، امام جلال الدین سیوطی، ابو سعود محمد بن محمد اور علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ’’ اللّٰہ تعالیٰ کے علاوہ جن معبودوں کی کفار عبادت کرتے ہیں۔(تفسیر بیضاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۲۰، ۳ / ۳۹۱، جلالین، النحل، تحت الآیۃ: ۲۰، ص۲۱۷، ابو سعود، النحل،تحت الآیۃ:۲۰،۳ / ۲۵۶، روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۲۰، ۵ / ۲۳-۲۴) علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کے لفظ ’’یَدْعُوْنَ‘‘ کا معنی ’’یَعْبُدُوْنَ‘‘ لکھنے کے بعد فرماتے ہیں کہ قرآنِ پاک میں لفظ’’ دعا‘‘ عبادت کے معنی میں بکثرت استعمال ہوا ہے۔ (روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۲۰، ۵ / ۲۳)ابو اللیث سمرقندی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ کفار اللّٰہ تعالیٰ کے علاوہ جن بتوں کی عبادت کرتے ہیں وہ ا س بات پر قادر نہیں کہ کوئی چیز پیدا کر سکیں بلکہ وہ خود پتھروں اور لکڑی وغیرہ سے بنائے جاتے ہیں ۔(سمرقندی، النحل، تحت الآیۃ: ۲۰، ۲ / ۲۳۲) امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں اللّٰہ تعالیٰ کے علاوہ جن بتوں کی کفار عبادت کرتے ہیں وہ اپنی ذات میں بھی ناقص ہیں کہ انہیں دوسروں نے بنایا ہے اور اپنی صفات میں بھی ناقص ہیں کہ یہ کسی چیز کو پیدا ہی نہیں کر سکتے۔ (تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۲۰، ۷ / ۱۹۵، ملخصاً)
اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآءٍۚ-وَ مَا یَشْعُرُوْنَۙ-اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ(21)
ترجمہ: کنزالعرفان
بے جان ہیں زندہ نہیں ہیں اور انہیں خبر نہیں کہ لوگ کب اٹھائے جائیں گے
تفسیر: صراط الجنان
}اَمْوَاتٌ:بے جان ہیں {امام ابنِ ابی حاتم اور امام محمد بن جریر طبری رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِما اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں’’یہ بت جن کی اللّٰہ تعالیٰ کے علاوہ عبادت کی جاتی ہے بے جان ہیں، ان میں روحیں نہیں اور نہ ہی یہ اپنی عبادت کرنے والوں کو کوئی نفع پہنچانے کی قدرت رکھتے ہیں۔(تفسیر ابن ابی حاتم، النحل، تحت الآیۃ: ۲۱، ۷ / ۲۲۸۰، تفسیر طبری، النحل، تحت الآیۃ: ۲۱، ۷ / ۵۷۳-۵۷۴) انہی بزرگوں کے حوالے سے امام جلال الدین سیوطی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ا س آیت کی یہی تفسیر دُرِّ منثور میں رقم فرمائی ۔(در منثور، النحل، تحت الآیۃ: ۲۱، ۵ / ۱۱۹) امام فخرالدین رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں’’جن بتوں کی کفار عبادت کرتے ہیں اگر یہ حقیقی معبود ہوتے تویہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرح زندہ ہوتے انہیں کبھی موت نہ آتی حالانکہ سب جانتے ہیں کہ یہ بے جان ہیں ، زندہ نہیں اور ان بتوں کو خبر نہیں کہ لوگ کب اٹھائے جائیں گے تو ایسے مجبور ، بے جان اور بے علم معبود کیسے ہوسکتے ہیں۔(تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۲۱، ۷ / ۱۹۵، ملخصاً) امام علی بن محمد رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنی کتاب تفسیر خازن میں فرماتے ہیں ’’اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اگر یہ بت معبود ہوتے جیسا کہ تمہارا گمان ہے تو یہ ضرور زندہ ہوتے انہیں کبھی موت نہ آتی کیونکہ جو معبود عبادت کا مستحق ہے وہ ہمیشہ سے زندہ ہے اور اسے کبھی موت نہ آئے گی اور بت چونکہ مردہ ہیں زندہ نہیں لہٰذا یہ عبادت کے مستحق نہیں ۔(خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۲۱، ۳ / ۱۱۸)ان کے علاوہ دیگرتمام مُستند تفاسیر جیسے تفسیر طبری، تفسیر سمرقندی، تفسیر بغوی ،تفسیر ابو سعود، تفسیر قرطبی اورتفسیر صاوی وغیرہ میں صراحت ہے کہ اس آیت میں ’’اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآءٍ‘‘سے مراد بت ہیں ، کسی بھی مستند مفسر نے ان آیات کا مصداق انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاء رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کو قرار نہیں دیا۔
اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌۚ-فَالَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ قُلُوْبُهُمْ مُّنْكِرَةٌ وَّ هُمْ مُّسْتَكْبِرُوْنَ(22)
ترجمہ: کنزالعرفان
تمہارا معبود ایک معبود ہے تو وہ جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کے دل منکر ہیں اور وہ متکبر ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ:تمہارا معبود ایک معبود ہے۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اس سے ماقبل آیات میں ذکر کئے گئے قطعی دلائل سے ثابت ہوا کہ تمہاری عبادت کا مستحق ایک معبود یعنی اللّٰہ تعالیٰ ہے، وہ اپنی ذات و صفات میں نظیر و شریک سے پاک ہے تو وہ لوگ جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کے دل اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیت کاانکار کرنے والے ہیں اور وہ متکبر ہیں کہ حق ظاہر ہوجانے کے باوجود اس کی پیروی نہیں کرتے۔(مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۲۲، ص۵۹۳، جلالین، النحل، تحت الآیۃ: ۲۲، ص۲۱۷، خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۲۲، ۳ / ۱۱۸، ملتقطاً)
قرآنی اُسلوب کی شان:
یہاں آیات میں نہایت نفیس ترتیب ہے کہ پہلے کثرت کے ساتھ دلائل کوبیان کیا گیا اور اب ان سب دلائل کا اہم ترین نتیجہ توحید ِ باری تعالیٰ کی صورت میں بیان فرمایا گیا اور دلائل و نتیجہ میں بھی کس قدر عمدہ کلام فرمایا گیا کہ کوئی منطق کی باریکیاں اور فلسفے کی موشگافیاں نہیں بلکہ انتہائی عام فہم انداز میں فطرت ِ انسانی کے قریب ترین دلائل کو جمع کرتے ہوئے بات کو سمجھادیا گیا۔ یہی وہ قرآنی اُسلوب ہے جو دل و دماغ کو تسخیر کردینے والا ہے۔
لَا جَرَمَ اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَ مَا یُعْلِنُوْنَؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِیْنَ(23)
ترجمہ: کنزالعرفان
حقیقت یہ ہے کہ اللہ جانتا ہے جو وہ چھپاتے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں ، بیشک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔
تفسیر: صراط الجنان
ا{لَا جَرَمَ: حقیقت یہ ہے ۔} یعنی حقیقت یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ان کے دلوں کے انکار اور ان کے غرور و تکبر کو جانتا ہے، بے شک اللّٰہ تعالیٰ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔ (روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۲۳، ۵ / ۲۴)
تکبر کی تعریف:
یاد رہے کہ تکبر کرنے والا مومن ہو یا کافر، اللّٰہ تعالیٰ اسے پسند نہیں فرماتا اور تکبر سے متعلق حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تکبر حق بات کو جھٹلانے اور دوسروں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ، ص۶۰، الحدیث: ۱۴۷(۹۱))
تکبر کرنے والوں کا انجام:
قرآن و حدیث میں تکبر کرنے والوں کا بہت برا انجام بیان کیا گیا ہے ،چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’سَاَصْرِفُ عَنْ اٰیٰتِیَ الَّذِیْنَ یَتَكَبَّرُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ‘‘(اعراف: ۱۴۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور میں اپنی آیتوں سے ان لوگوں کو پھیر دوں گا جو زمین میں ناحق اپنی بڑا ئی چاہتے ہیں ۔
اور ارشاد فرماتا ہے
’’اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ‘‘(مومن:۶۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب ذلیل ہو کرجہنم میں جائیں گے۔
اور حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے ، رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ تکبر کرنے والے لوگ قیامت کے دن مردوں کی صورت میں چیونٹیوں کی طرح جمع کیے جائیں گے اور ہر جگہ سے ان پر ذلت چھا جائے گی ،پھر انہیں جہنم کے ایک’’بُوْلَسْ‘‘ نامی قید خانہ کی طرف ہانکا جائے گا، ان پر آگوں کی آگ چھا جائے گی اور وہ دوزخیوں کی پیپ طِیْنَۃُ الْخَبَّالْ سے پلائے جائیں گے ۔ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۴۷-باب، ۴ / ۲۲۱، الحدیث: ۲۵۰۰)
حضرت ابو ہر یرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن تکبر کرنے والوں کو چیونٹیوں کی شکل میں اٹھایا جائے گا اور لوگ ان کوروندیں گے کیوں کہ اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں ان کی کوئی قدر نہیں ہوگی۔ (رسائل ابن ابی دنیا، التواضع والخمول، ۲ / ۵۷۸، الحدیث: ۲۲۴)
حضرت محمد بن واسع رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :میں حضرت بلال بن ابو بردہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس گیا اور ان سے کہا :اے بلا ل ! آپ کے والد نے مجھ سے ایک حدیث بیان کی ہے وہ اپنے والد (حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ) سے اور وہ نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے روایت کرتے ہیں ، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ بے شک جہنم میں ایک وادی ہے جسے ہبہب کہتے ہیں ، اللّٰہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ وہ اس میں تمام تکبر کرنے والوں کو ٹھہرائے گا۔‘‘ اے بلال! تم اس میں ٹھہرنے والوں میں سے نہ ہونا۔ (مسند ابو یعلی، حدیث ابی موسی الاشعری، ۶ / ۲۰۷، الحدیث: ۷۲۱۳)
تکبر کے دو علاج:
تکبر کے برے انجام سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کتنا خطرناک باطنی مرض ہے ،اس لئے جو اپنے اندر تکبر کا مرض پائے اسے چاہئے کہ وہ اس کا علاج کرنے کی خوب کوشش کرے ،اَحادیث میں تکبر کے جو علاج بیان کئے گئے ان میں سے دو علاج درج ذیل ہیں ۔
(1)…اپنے کام خود کرنا: چنانچہ حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے اپنا سامان خود اٹھایا وہ تکبر سے بری ہو گیا۔(شعب الایمان، السابع والخمسون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی التواضع، ۶ / ۲۹۲، الحدیث: ۸۲۰۱)
(2)…عاجزی اختیار کرنا اور مسکین کے ساتھ بیٹھنا: چنانچہ حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’عاجزی اختیار کرو اور مسکینوں کے ساتھ بیٹھا کرو، اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تمہارا مرتبہ بلند ہو جائے گا اور تکبر سے بھی بری ہو جاؤ گے۔(کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، ۲ / ۴۹، الحدیث: ۵۷۲۲، الجزء الثالث)
امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی عاجزی:
ایک مرتبہ امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا گزر چند مسکینوں کے پاس سے ہوا، وہ لوگ کچھ کھا رہے تھے ، انہوں نے حضرت امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو دیکھ کر کہا ’’اے ابو عبداللّٰہ ! آپ بھی یہ غذا کھا لیجئے۔ امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنی سواری سے اتر کر ان کے ساتھ بیٹھ گئے اور فرمایا ’’اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِیْنَ‘‘ یعنی بیشک اللّٰہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔ پھران کے ساتھ کھانا شروع کر دیا، جب کھانے سے فارغ ہوئے تو ان مسکینوں سے فرمایا ’’میں نے تمہاری دعوت قبول کی ہے اس لئے اب تم میری دعوت قبول کرو، چنانچہ وہ تمام مسکین امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ ان کے درِ دولت پر گئے ،امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے انہیں کھانا کھلایا ، پانی پلایا اور انہیں کچھ عطا فرمایا، فراغت کے بعد وہ سب وہاں سے چلے گئے(صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۲۳، ۳ / ۱۰۶۱)وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ مَّا ذَاۤ اَنْزَلَ رَبُّكُمْۙ-قَالُـوْۤا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ(24)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جب ان سے کہا جائے: تمہارے رب نے کیا نازل فرمایا؟ تو کہتے ہیں : پہلے لوگوں کی داستانیں ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ:اور جب ان سے کہا جائے۔} اس سے پہلی آیات میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت پر اور بتوں کی پوجا کرنے والوں کے رد میں دلائلِ قاہرہ بیان فرمائے جبکہ ان آیات میں سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کا انکار کرنے والوں کے شبہات اور ان کے جوابات بیان فرمائے ہیں ۔ (تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۲۴،۷ / ۱۹۷) شانِ نزول: یہ آیت نضر بن حارث کے بارے میں نازل ہوئی، اس نے بہت سی کہانیاں یاد کرلی تھیں ، اس سے جب کوئی قرآنِ کریم کی نسبت دریافت کرتا تو وہ یہ جاننے کے باوجود کہ قرآن شریف عاجز کر دینے والی کتاب اور حق و ہدایت سے بھری ہوئی ہے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے یہ کہہ دیتا کہ یہ پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں ، ایسی کہانیاں مجھے بھی بہت یاد ہیں ۔ (خزائن العرفان، النحل، تحت الآیۃ: ۲۴، ص۵۰۳، ملخصاً)بعض مفسرین فرماتے ہیں ’’یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے مکہ مکرمہ کے داخلی راستوں کو باہم تقسیم کر لیا تھا ،یہ لوگ حج کے لئے آنے والوں کو سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے مُتَنفر کرنے کی کوشش کرتے اور جب کوئی شخص ان سے دریافت کرتا کہ تمہارے رب نے محمد مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر کیا نازل فرمایا ہے تو وہ کہتے ’’ پہلے لوگوں کے جھوٹے افسانےہیں کوئی ماننے کی بات نہیں ۔ جبکہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے جب ان کی ملاقات ہوتی تو وہ انہیں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صداقت اور نبوت کے بارے میں بتاتے تھے۔ (مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۲۴، ص۵۹۳)
لِیَحْمِلُـوْۤا اَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً یَّوْمَ الْقِیٰمَةِۙ-وَ مِنْ اَوْزَارِ الَّذِیْنَ یُضِلُّوْنَهُمْ بِغَیْرِ عِلْمٍؕ-اَلَا سَآءَ مَا یَزِرُوْنَ(25)
ترجمہ: کنزالعرفان
اس لئے کہ قیامت کے دن اپنے پورے بوجھ اور کچھ ان لوگوں کے گناہوں کے بوجھ اٹھائیں جنہیں اپنی جہالت سے گمراہ کررہے ہیں ۔ سن لو ! یہ کیا ہی برا بوجھ اٹھاتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{لِیَحْمِلُـوْۤا اَوْزَارَهُمْ:کہ اپنے بوجھ اٹھائیں ۔} یعنی جن کافروں نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے قرآنِ پاک کو پہلے لوگوں کی داستانیں کہا ، ان کا انجام یہ ہے کہ وہ قیامت کے دن اپنے گناہوں اور گمراہی کے بوجھ پورے اٹھائیں گے اور اس کے ساتھ ان لوگوں کے گناہوں کے بوجھ اٹھائیں گے جنہیں اپنی جہالت سے گمراہ کررہے ہیں ۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۲۵، ۳ / ۱۱۸)
آیت ’’لِیَحْمِلُـوْۤا اَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں :
(1)…’’كَامِلَةً‘‘ فرمانے سے معلوم ہو اکہ کافروں پر دنیا میں آنے والی مصیبتوں کی وجہ سے قیامت کے دن ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہ ہو گی بلکہ انہیں تمام گناہوں کی سزا ملے گی جبکہ مومنوں پر دنیا میں آنے والی مصیبتیں ان کے گناہوں کو مٹا دیں گی یا ان کے درجات بلند کر دیں گی۔ (صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۲۵، ۳ / ۱۰۶۲) مصیبتوں سے مومن کے گناہ مٹنے کے بارے میں حضرت بریدہ اسلمی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں نے نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ’’مسلمان کو جو مصیبت پہنچتی ہے حتّٰی کہ کانٹا بھی چبھے تو اس کی وجہ سے یاتو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اس کا کوئی ایساگناہ مٹادیتا ہے جس کا مٹانا اسی مصیبت پر مَوقوف تھا یا اسے کوئی بزرگی عطا فرماتا ہے کہ بندہ اس مصیبت کے علاوہ کسی اور ذریعے سے اس تک نہ پہنچ پاتا ۔(الترغیب والترھیب، کتاب الجنائز وما یتقدّمہا، الترغیب فی الصبر سیّما لمن ابتلی فی نفسہ او مالہ، ۴ / ۱۴۳، الحدیث: ۲۴)
(2)…قوم کا امیر ،سردار یار ہنما جو برا طریقہ ایجاد کرے اور لوگ اس کی پیروی کریں تو اسے برا طریقہ ایجاد کرنے کا گناہ بھی ہو گا اور جو لوگ اس برے طریقے پر عمل کریں گے ان کے گناہ کے برابر ایجاد کرنے والے کو بھی گناہ ہو گا ۔اس کی مزید وضاحت درج ذیل دواَحادیث میں ہے۔
(۱)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس شخص نے ہدایت کی دعوت دی اسے ا س ہدایت کی پیروی کرنے والوں کے برابر اجر ملے گا اور پیروی کرنے والوں کے اجروں میں کوئی کمی نہ ہو گی اور جس شخص نے کسی گمراہی کی دعوت دی اسے اس گمراہی کی پیروی کرنے والوں کے برابر گناہ ہو گا اور پیروی کرنے والوں کے گناہوں میں کوئی کمی نہ ہو گی ۔ (مسلم، کتاب العلم، باب من سنّ سنّۃ حسنۃ او سیّئۃ۔۔۔ الخ، ص۱۴۳۸، الحدیث: ۱۶(۲۶۷۴))
(۲)…حضرت جریر بن عبداللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے اچھا طریقہ جاری کیا پھر ا س پر عمل کیا گیا تو ا س کے لئے اپنا ثواب بھی ہے اور اسے عمل کرنے والوں کے برابر ثواب بھی ملے گا جبکہ ان کے ثوابوں میں کوئی کمی نہ ہو گی اور جس نے برا طریقہ جاری کیا ،پھر وہ طریقہ اپنایا گیا تو اس کے لئے اپنا گناہ بھی ہے اور اسے عمل کرنے والوں کے برابر گناہ بھی ملے گا جبکہ ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہ ہو گی۔ (ترمذی، کتاب العلم، باب من دعا الی ہدی فاتبع۔۔۔ الخ، ۴ / ۳۰۷، الحدیث: ۲۶۸۴)
قَدْ مَكَرَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَاَتَى اللّٰهُ بُنْیَانَهُمْ مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَرَّ عَلَیْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَ اَتٰىهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَ(26)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک ان سے پہلے لوگوں نے مکرو فریب کیا تھا تو اللہ نے ان کی تعمیر کو بنیادوں سے اکھاڑ دیا اور اوپر سے ان پر چھت گر پڑی اور ان پر وہاں سے عذاب آیا جہاں سے انہیں خبر بھی نہیں تھی۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَدْ مَكَرَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ:بیشک ان سے پہلے لوگوں نے مکرو فریب کیا تھا۔} اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی مثال بیان فرمائی ہے جو اپنے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ مکرو فریب کرتے تھے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ پچھلی اُمتوں نے اپنے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ مکر کرنے کے لئے کچھ منصوبے بنائے تھے اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں خود اُنہیں کے منصوبوں میں ہلاک کردیا اور اُن کا حال ایسا ہوا جیسے کسی قوم نے کوئی بلند عمارت بنائی پھر وہ عمارت ان پر گر پڑی اور وہ ہلاک ہوگئے، اسی طرح کفار اپنی مکاریوں سے خود برباد ہوئے ۔ مفسرین نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ اس آیت میں اگلے مکر کرنے والوں سے نمرود بن کنعان مراد ہے ،یہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے میں روئے زمین کا سب سے بڑا بادشاہ تھا ،اس نے بابِل میں بہت اونچی ایک عمارت بنائی جس کی بلندی پانچ ہزار گز تھی اور اس کا مکریہ تھا کہ اُس نے یہ بلند عمارت اپنے خیال میں آسما ن پر پہنچنے اور آسمان والوں سے لڑنے کے لئے بنائی تھی اور اللّٰہ تعالیٰ نے ہوا چلائی اور وہ عمارت ان پر گر پڑی اور وہ لوگ ہلاک ہوگئے۔ (مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۲۶، ص۵۹۳، خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۲۶، ۳ / ۱۱۹، ملتقطاً)
ثُمَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یُخْزِیْهِمْ وَ یَقُوْلُ اَیْنَ شُرَكَآءِیَ الَّذِیْنَ كُنْتُمْ تُشَآقُّوْنَ فِیْهِمْؕ-قَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ اِنَّ الْخِزْیَ الْیَوْمَ وَ السُّوْٓءَ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ(27)
ترجمہ: کنزالعرفان
پھر قیامت کے دن اللہ انہیں رسوا کرے گا اور فرمائے گا: کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کے بارےمیں تم جھگڑتے تھے؟ علم والے کہیں گے: بیشک آج ساری رسوائی اور برائی کافروں پر ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ثُمَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یُخْزِیْهِمْ:پھر قیامت کے دن اللّٰہ انہیں رسوا کرے گا ۔} اس میں اللّٰہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا کہ کفار پر صرف اس قدر ہی عذاب نہ ہو گا کہ ان پر صرف دنیا میں عذاب ہوجائے بلکہ اللّٰہ تعالیٰ قیامت کے دن بھی انہیں رسوا کرے گا اور انہیں سختی سے فرمائے گا ’’وہ کہاں ہیں جنہیں تم اپنے گمان میں میرا شریک سمجھتے تھے اور ان کے بارے میں تم مومنوں سے جھگڑتے تھے۔ (تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۲۷، ۷ / ۱۹۹، ملخصاً)
{قَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ:علم والے کہیں گے۔} کفار دنیا میں اہلِ ایمان کا مذاق اڑاتے تھے، جب قیامت کے دن اہلِ ایمان کو طرح طرح کی عظمتوں اور شرافتوں سے نوازا جائے گا اور کافروں کو رسوا ئی کے ساتھ مختلف قسم کے عذابوں میں گرفتار کیا جائے گا تو اس وقت اُن اُمتوں کے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور علماء جو اُنہیں دنیا میں ایمان کی دعوت دیتے اور نصیحت کرتے تھے اور یہ لوگ اُن کی بات نہ مانتے تھے ،وہ حضرات اِن کافروں سے کہیں گے’’ بیشک آج ساری رسوائی اور عذاب کافروں پر ہے۔(مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۲۷، ص۵۹۴، خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۲۷، ۳ / ۱۱۹-۱۲۰، ملتقطاً)
آخرت میں بھی علماء کا درجہ اعلیٰ ہو گا:
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ علماء کا درجہ دنیا میں بھی اعلیٰ ہے اور آخرت میں بھی اعلیٰ ہوگا کہ اللّٰہ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی نے ان ہی کا قول نقل فرمایا ہے۔
الَّذِیْنَ تَتَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰٓىٕكَةُ ظَالِمِیْۤ اَنْفُسِهِمْ۪-فَاَلْقَوُا السَّلَمَ مَا كُنَّا نَعْمَلُ مِنْ سُوْٓءٍؕ-بَلٰۤى اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(28)فَادْخُلُوْۤا اَبْوَابَ جَهَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-فَلَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِیْنَ(29)
ترجمہ: کنزالعرفان
فرشتے ان کافروں کی جان اس حال میں نکالتے ہیں کہ وہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہوتے ہیں تو وہ صلح کی بات پیش کرتے ہیں کہ ہم توکوئی برائی نہیں کیا کرتے تھے۔ (فرشتے کہتے ہیں 🙂 ہاں کیوں نہیں ، بیشک اللہ تمہارے اعمال کو خوب جانتا ہے۔تواب جہنم کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ ، ہمیشہ اس میں رہوگے تو تکبر کرنے والوں کا کیا ہی برا ٹھکاناہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ اَلَّذِیْنَ تَتَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰٓىٕكَةُ:وہ کہ فرشتے ان کی جان نکالتے ہیں۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ فرشتے جب کافروں کی جان نکالتے ہیں تو یہ کفر کی حالت یقینا ایسی ہوتی ہے کہ وہ حقیقت میں اپنی جانوں پر ظلم ہوتا ہے لیکن جب ان کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو وہ اللّٰہ تعالیٰ کی عبودیت کا اقرار کرتے اور اسلام قبول کر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو کوئی شرک نہیں کیا کرتے تھے۔ فرشتے ان کا رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہاں ، کیوں نہیں ! بے شک اللّٰہ تعالیٰ تمہارے شرک اور تکذیب کو جانتا ہے۔ (روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۲۸، ۵ / ۲۸، تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۲۸، ۷ / ۲۰۰، ملتقطاً)
دوسری تفسیر یہ ہے کہ حالت ِ کفر میں مرنے والے یہ لوگ جب قیامت کے دن عذاب کا مشاہدہ کریں گے تو خوف کی شدت سے اپنے دنیوی طرزِ عمل کے برخلاف اسلام کی حقانیت تسلیم کرتے ہوئے کہیں گے کہ ہم تو دنیا میں کوئی شرک نہیں کیا کرتے تھے،یوں وہ اپنے کفر و سرکشی سے مکر جائیں گے۔ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور علماء ان کا رد کرتے ہوئے کہیں گے ’’ ہاں کیوں نہیں ، بیشک اللّٰہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو خوب جانتا ہے وہ تمہیں ان کی سزا دے گا، لہٰذا تمہارے انکار کا کوئی فائدہ نہیں۔(مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۵۹۴، ملخصاً)
وَ قِیْلَ لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا مَا ذَاۤ اَنْزَلَ رَبُّكُمْؕ-قَالُوْا خَیْرًاؕ-لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا حَسَنَةٌؕ-وَ لَدَارُ الْاٰخِرَةِ خَیْرٌؕ-وَ لَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِیْنَ(30)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور متقی لوگوں سے کہا جائے کہ تمہارے رب نے کیا نازل فرمایا؟ تو کہتے ہیں : بھلائی نازل فرمائی۔ جنہوں نے اس دنیا میں بھلائی کی ،ان کے لیے بھلائی ہے اور بیشک آخرت کا گھر سب سے بہتر ہے اوربیشک پرہیزگاروں کا گھر کیا ہی اچھا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قِیْلَ لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا:اور متقی لوگوں سے کہاجائے ۔} یعنی جب ایمانداروں سے کہا جائے کہ تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے محمد مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پرکیا نازل فرمایا؟ تو وہ ا س کے جواب میں کہتے ہیں ’’ ہمارے رب عَزَّوَجَلَّ نے قرآن شریف نازل فرمایا جو تمام خوبیوں کا جامع اور حسنات و برکات کا منبع اور دینی و دنیوی اور ظاہری وباطنی کمالات کا سرچشمہ ہے۔( روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۳۰،۵ / ۲۹) شانِ نزول: عرب کے قبائل حج کے دنوں میں رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حال کی تحقیق کے لئے مکہ مکرمہ قاصد بھیجتے تھے ،یہ قاصد جب مکہ مکرمہ پہنچتے توشہر کے داخلی راستوں پر انہیں کفار کے کارند ے ملتے (جیسا کہ سابقہ آیات میں ذکر ہوچکا ہے) اُن سے یہ قاصد رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حال دریافت کرتے تو وہ چونکہ لوگوں کوبہکانے پر مامور ہی ہوتے تھے ا س لئے ان میں سے کوئی سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ساحر کہتا، کوئی کاہن، کوئی شاعر، کوئی کذّاب، کوئی مجنون کہتا اور اس کے ساتھ یہ بھی کہہ دیتے کہ تم ان سے نہ ملنا یہی تمہارے حق میں بہتر ہے ۔ اس پر قاصد کہتے کہ اگر ہم مکہ مکرمہ پہنچ کر اُن سے ملے بغیر اپنی قوم کی طرف واپس ہوں تو ہم برے قاصد ہوں گے اور ایسا کرنا قاصد کے منصبی فرائض کا ترک اور قوم کی خیانت ہوگی۔ ہمیں تحقیق کے لئے بھیجا گیا ہے ا س لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کے اپنے اور بیگانوں سب سے اُن کے حال کی تحقیق کریں اور جو کچھ معلوم ہو اس میں کوئی کمی بیشی کئے بغیراپنی قوم کو مطلع کریں ۔اس خیال سے وہ لوگ مکہ مکرمہ میں داخل ہو کر رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے بھی ملتے تھے اور اُن سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حال کی تحقیق کرتے تھے۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم انہیں تمام حال بتاتے تھے اورحضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حالات ، کمالات اور قرآن کریم کے مَضامین سے مطلع کرتے تھے ان کا ذکر اس آیت میں فرمایا گیا۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۳۰، ۳ / ۱۲۰)
{لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا:جنہوں نے اس دنیا میں بھلائی کی۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ جن لوگوں نے دنیا کی زندگی میں اچھے عمل کئے تو ان کے لئے آخرت میں اچھا اجر ہے۔اچھے اجر سے مراد ثوابِ عظیم ہے اور بعض مفسرین کے نزدیک اچھے اجر سے مراد یہ ہے کہ ان کی نیکیوں کا ثواب دس سے لے کر سات سوگنا تک بڑھا دیا جائے گایا بے حساب اجر عطا کیاجائے گا۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ جو لوگ ایمان لائے اور اچھے عمل کئے انہیں دنیا میں بھی اچھا اجر ملے گا۔ (تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۳۰، ۷ / ۲۰۱-۲۰۲، ملخصاً)
دنیا میں نیک مسلمانوں کا اجر:
دنیا میں حاصل ہونے والے اچھے اجر کی ایک صورت یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ مسلمانوں کے دلوں میں ان کی محبت اور عقیدت پیدا کر دے گا، مسلمان ان کے فضائل و مناقب بیان کریں گے اور ان کی عزت و تعظیم کریں گے۔(تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۳۰، ۷ / ۲۰۲، ملخصاً)
اولیاءِ کرام کے حوالے سے بطورِ خاص اس بات کا مشاہدہ ہے اور قرآنِ مجید میں ہی ایک اور مقام پرنیک مسلمانوں کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا‘‘(مریم:۹۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:بیشک وہ جو ایمان لائے اور نیک اعمال کئے عنقریب رحمٰن ان کے لیے (لوگوں کے دلوں میں )محبت پیدا کردے گا ۔
اسی طرح حدیثِ پاک میں حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جب اللّٰہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کو ند اکی جاتی ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت رکھتا ہے لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو۔ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام اس سے محبت کرتے ہیں ۔ پھر حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام آسمانی مخلوق میں ندا کرتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت فرماتا ہے لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو، چنانچہ آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں ، پھر زمین والوں (کے دلوں ) میں ان کی مقبولیت رکھ دی جاتی ہے۔ (بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ، ۲ / ۳۸۲، الحدیث: ۳۲۰۹)
دنیا میں اچھا اجر ملنے کی دوسری صورت یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ انہیں اس دنیا میں پاکیزہ زندگی ، فتح و کامیابی اور وسیع رزق وغیرہ نعمتیں عطا فرمائے گا ۔ (جلالین، النحل، تحت الآیۃ: ۳۰، ص۲۱۸، خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۳۰، ۳ / ۱۲۰، ملتقطاً)
نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَوصاف چھپانا کن کا طریقہ ہے؟
آیت ِ مبارکہ کے مضمون اور اس کے شانِ نزول سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اوصاف کو چھپانا کفار کا طریقہ جبکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت و شان بیان کرنا صحابہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا طریقہ ہے۔
جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَهَا تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ لَهُمْ فِیْهَا مَا یَشَآءُوْنَؕ-كَذٰلِكَ یَجْزِی اللّٰهُ الْمُتَّقِیْنَ(31)
ترجمہ: کنزالعرفان
ہمیشہ رہنے کے باغات ہیں جن میں وہ داخل ہوں گے، ان کے نیچے نہریں جاری ہیں ، ان کیلئے ان باغوں میں وہ تما م چیزیں ہیں جو وہ چاہیں گے۔اللہ پرہیزگاروں کو ایسا ہی صلہ دیتا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{جَنّٰتُ عَدْنٍ:ہمیشہ رہنے کے باغات ہیں ۔} یعنی آخرت کا گھر ہمیشہ رہنے کے باغات ہیں جن میں پرہیزگار داخل ہوں گے، ان باغات میں جنتیوں کے گھروں ، محلات اور رہائش گاہوں کے نیچے سے نہریں جاری ہیں ، ان کیلئے ان باغوں میں وہ تما م چیزیں ہیں جو وہ چاہیں گے اوریہ بات جنت کے سوا کسی کو کہیں بھی حاصل نہیں ، اللّٰہ تعالیٰ پرہیزگاروں کو ایسا ہی صلہ دیتا ہے۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۳۱، ۳ / ۱۲۰)
الَّذِیْنَ تَتَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰٓىٕكَةُ طَیِّبِیْنَۙ-یَقُوْلُوْنَ سَلٰمٌ عَلَیْكُمُۙ-ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(32)
ترجمہ: کنزالعرفان
فرشتے ان کی جان پاکیزگی کی حالت میں نکالتے ہوئے کہتے ہیں : تم پر سلامتی ہو،تم اپنے اعمال کے بدلے میں جنت میں داخل ہوجاؤ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَّذِیْنَ تَتَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰٓىٕكَةُ:وہ جن کی فرشتے جان نکالتے ہیں ۔} اس آیت میں پرہیز گاروں کا وصف بیان کرتے ہوئے اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ فرشتے ان کی جان پاکیزگی کی حالت میں نکالتے ہیں کہ وہ شرک اور کفر سے پاک ہوتے ہیں اور ان کے اقوال ، افعال ،اخلاق اور خصلتیں پاکیزہ ہوتی ہیں ،نیکیاں ان کے ساتھ ہوتی ہیں ، حرام اور ممنوع اَفعال کے داغوں سے ان کادامنِ عمل میلا نہیں ہوتا، روح قبض ہونے کے وقت اُن کو جنت و رِضوان اوررحمت و کرامت کی بشارتیں دی جاتی ہیں ، اس حالت میں موت انہیں خوشگوار معلوم ہوتی ہے، جان فرحت و سُرور کے ساتھ جسم سے نکلتی ہے اور ملائکہ عزت کے ساتھ اس کو قبض کرتے ہیں۔(خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۳۲، ۳ / ۱۲۰-۱۲۱، ملخصاً)
{یَقُوْلُوْنَ سَلٰمٌ عَلَیْكُمُ:کہتے ہیں : تم پر سلامتی ہو۔} حضرت محمد بن کعب قُرَظی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ جب مومن بندے کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو اس کے پاس فرشتہ آکر کہتا ہے’’ اے اللّٰہ کے دوست! تجھ پر سلام اور اللّٰہ تعالیٰ تجھے سلام فرماتا ہے۔ (شعب الایمان، التاسع من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی عذاب القبر، ۱ / ۳۶۱، روایت نمبر: ۴۰۲)
{اُدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ:تم اپنے اعمال کے بدلے میں جنت میں داخل ہوجاؤ۔} یعنی آخرت میں یا روح نکلتے وقت اُن سے کہا جائے گا کہ تم اپنے اعمال کے بدلے میں جنت میں داخل ہوجاؤ۔ (مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۳۲، ص۵۹۴، صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۳۲، ۳ / ۱۰۶۵، ملتقطاً)
نوٹ:یاد رہے کہ اس آیت اور اس جیسی وہ تمام آیات جن میں اعمال کی وجہ سے جنت میں داخل ہونے کا ذکر ہے ان کا معنی یہ ہے کہ اخلاص کے ساتھ کئے ہوئے نیک اعمال کی وجہ سے بندہ ا س وقت جنت میں جائے گا جب اللّٰہ تعالیٰ اپنی رحمت اور فضل سے ان اعمال کو قبول فرمائے گا محض نیک عمل کر لینے سے کوئی جنت میں داخل نہ ہو گا (کیونکہ جنت میں داخلے کا سبب ِحقیقی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا فضل ہے۔) (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۳۲، ۳ / ۱۲۱)
هَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ تَاْتِیَهُمُ الْمَلٰٓىٕكَةُ اَوْ یَاْتِیَ اَمْرُ رَبِّكَؕ-كَذٰلِكَ فَعَلَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْؕ-وَ مَا ظَلَمَهُمُ اللّٰهُ وَ لٰـكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ(33)فَاَصَابَهُمْ سَیِّاٰتُ مَا عَمِلُوْا وَ حَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ(34)
ترجمہ: کنزالعرفان
یہ کافراس بات کا انتظار کررہے ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آجائیں یا تمہارے رب کا عذاب آجائے۔ ان سے پہلے لوگوں نے بھی ایسے ہی کیا تھا اور اللہ نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا لیکن یہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔ تو ان کے اعمال کی برائیاں ان پر آ پڑیں اور جس عذاب کا یہ مذاق اڑاتے تھے اس نے انہیں گھیرلیا۔
تفسیر: صراط الجنان
{هَلْ یَنْظُرُوْنَ:یہ کس چیز کا انتظار کررہے ہیں ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جن لوگوں نے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ شرک کیا اور آپ کی نبوت کو ماننے سے انکار کر دیا،یہ اس بات کا انتظار کررہے ہیں کہ ان کے پاس فرشتے ان کی روحیں قبض کرنے آجائیں یا تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کا دنیا میں یاروزِ قیامت والے عذاب کاحکم آجائے ۔ ان سے پہلی امتوں کے کفار نے بھی ایسے ہی کیا تھا ،انہوں نے اپنے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا تو وہ ہلاک کر دئیے گئے اور اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے انہیں عذاب میں مبتلا کر کے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ یہ خود ہی کفر اختیار کرکے اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۳۳، ۳ / ۱۲۱، جلالین، النحل، تحت الآیۃ: ۳۳، ص۲۱۸، ملتقطاً)
{فَاَصَابَهُمْ سَیِّاٰتُ مَا عَمِلُوْا:تو ان کے اعمال کی برائیاں ان پر آ پڑیں ۔} یعنی انہوں نے اپنے خبیث اعمال کی سزا پائی اور جس عذاب کا یہ مذاق اڑاتے تھے وہ ان پر نازل ہو گیا۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۳۴، ۳ / ۱۲۱)
وَ قَالَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا لَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُوْنِهٖ مِنْ شَیْءٍ نَّحْنُ وَ لَاۤ اٰبَآؤُنَا وَ لَا حَرَّمْنَا مِنْ دُوْنِهٖ مِنْ شَیْءٍؕ-كَذٰلِكَ فَعَلَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْۚ-فَهَلْ عَلَى الرُّسُلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ(35)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور مشرک کہنے لگے: اگر اللہ چاہتا تو ہم اور ہمارے باپ دادا اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرتے اور نہ اس کے (حکم کے) بغیر ہم کسی چیز کو حرام قرار دیتے۔ ان سے پہلے لوگوں نے بھی ایسا ہی کیا تھا تو رسولوں پر تو صاف صاف تبلیغ کردینا ہی لازم ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَالَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا:اور مشرک کہنے لگے۔} مکہ کے مشرکین مذاق کے طور پرسیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے یہ کہتے تھے کہ’’اگر اللّٰہ تعالیٰ چاہتا تو ہم اور ہمارے باپ دادا اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرتے اور نہ اس کے حکم کے بغیر ہم بحیرہ و سائبہ (جانور) وغیرہ کسی چیز کو حرام قرار دیتے۔ اس سے اُن کی مراد یہ تھی کہ اُن کا شرک کرنا اور اُن چیزوں کو حرام قرار دے لینا اللّٰہ تعالیٰ کی مشیت اور مرضی سے ہے، اس پر اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا کہ’’ان سے پہلے لوگوں نے بھی ایسا ہی کیا تھا کہ اپنے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کی ، حلال کو حرام کیا اور ایسی ہی مذاق اڑانے والی باتیں کہیں ، رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر تو صاف صاف تبلیغ کردینا یعنی حق کو ظاہر کردینا اور شرک کے باطل اور قبیح ہونے پر مطلع کردینا ہی لازم ہے ہدایت دینا ان پر لازم نہیں ۔(جلالین، النحل، تحت الآیۃ: ۳۵، ص۲۱۸، مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۳۵، ص۵۹۵، ملتقطاً)
اللّٰہ تعالیٰ کی مَشِیَّت کو دلیل بنانا اور اس کے حکم کی پرواہ نہ کرنا جہالت ہے:
اِس آیت میں اور اِس سے اگلی آیت میں کفار کی اس جہالت کو بھی بے نقاب کیا گیا ہے کہ مَشِیَّت ِ الٰہی کو تو کفار اپنی حرکتوں کی دلیل بنارہے ہیں لیکن حکمِ الٰہی کی ان کو کوئی پرواہ نہیں ۔ ہمارے زمانے میں بعض مسلمان بھی اپنے برے افعال کی یہی دلیل دیتے ہیں کہ اگر اللّٰہ تعالیٰ نہ چاہتا تو میں یہ گناہ، فلاں جرم اور وہ مَعصِیَت نہ کرتا، اگر میں نے ایسا کیا ہے تو اس میں میرا قصور ہی کیا ہے،یہ لوگ خود ہی غور کر لیں کہ ان کا طرزِ عمل کن سے مل رہا ہے؟
لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَۚ-فَمِنْهُمْ مَّنْ هَدَى اللّٰهُ وَ مِنْهُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَیْهِ الضَّلٰلَةُؕ-فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِیْنَ(36)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ہر امت میں ہم نے ایک رسول بھیجا کہ (اے لوگو!) اللہ کی عبادت کرو اور شیطان سے بچو تو ان میں کسی کو اللہ نے ہدایت دیدی اور کسی پر گمراہی ثابت ہوگئی تو تم زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہوا؟
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا:اور بیشک ہر امت میں ہم نے ایک رسول بھیجا ۔} یعنی جس طرح ہم نے تم میں محمد مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بھیجا اسی طرح ہر امت میں ہم نے ایک رسول بھیجا اور ہر رسول کو حکم دیا کہ وہ اپنی قوم سے فرمائیں کہ اے لوگو!اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کرو اور شیطان کی پیروی کرنے سے بچو تو ان اُمتوں میں کسی کو اللّٰہ تعالیٰ نے ہدایت دیدی تووہ ایمان سے مشرف ہوئے اور کسی پر علمِ الٰہی میں گمراہی ثابت ہوگئی تووہ اپنی اَزلی شقاوت کی وجہ سے کفر پر مرے اور ایمان سے محروم رہے۔ اے کفارِ مکہ! تم زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ اپنے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے والوں کاکیسا انجام ہوا؟ انہیں اللّٰہ تعالیٰ نے ہلاک کر دیا اور اُن کے شہر ویران کر دئیے ،ان کی اجڑی ہوئی بستیاں اُن کی بربادی کی خبر دیتی ہیں ،اس کو دیکھ کر سمجھو کہ اگر تم بھی اُن کی طرح کفر و تکذیب پر مُصِر رہے تو تمہارا بھی ایسا ہی انجام ہونا ہے۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۳۶، ۳ / ۱۲۲، مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۳۶، ص۵۹۵، جلالین، النحل، تحت الآیۃ: ۳۶، ص۲۱۸، ملتقطاً)
اِس آیت میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی بھی دی گئی ہے کہ کسی نبی سے سب لوگوں نے ہدایت حاصل نہ کی جیسے سورج سے سب نور حاصل نہیں کرتے، چمگادڑ محروم رہتا ہے، بارش سے ہر زمین سرسبز نہیں ہوتی، بنجر زمین بے فیض رہتی ہے تو اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر بعض بد بخت آپ پر ایمان نہیں لاتے تو آپ غمگین کیوں ہوتے ہیں ۔ یاد رہے کہ آیت کے شروع میں جو یہ فرمایا گیا کہ ہر امت میں رسول بھیجا تو اس سے یہ مراد نہیں کہ ہر قبیلے یا ہر علاقے میں رسول بھیجا گیا بلکہ کسی جگہ رسول بھیجا گیا اور کسی جگہ اس کی رسالت کا پیغام پہنچا دیا گیا۔
آیت ’’ فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اِس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں ،
(1)… عذابِ الٰہی اور قہرِ ربّانی کا مشاہدہ کرنا ہو تو کفار کی بستیاں دیکھی جاسکتی ہیں اور یونہی اگر رحمتِ الٰہی کا نظارہ کرنا ہو، تو اولیائُ اللّٰہ کے آستانے دیکھے جائیں ۔
(2)… تاریخ و جغرافیہ کا علم سیکھنا بہت مفید ہے کہ اس سے اللّٰہ تعالیٰ کا خوف دل میں پیدا ہوتا ہے لیکن یہ جب ہی ہے کہ تاریخ و جغرافیہ صحیح ہو اور صحیح نیت سے پڑھے۔اِنْ تَحْرِصْ عَلٰى هُدٰىهُمْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِیْ مَنْ یُّضِلُّ وَ مَا لَهُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ(37)
ترجمہ: کنزالعرفان
اگر تم ان کی ہدایت کی حرص کرتے ہو تو بیشک اللہ اسے ہدایت نہیں دیتا جسے وہ گمراہ کرے اور ان کا کوئی مددگار نہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنْ تَحْرِصْ عَلٰى هُدٰىهُمْ:اگر تم ان کی ہدایت کی حرص کرتے ہو۔}یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ لوگ اُن میں سے ہیں جن کی گمراہی ثابت ہوچکی اور اُن کی شقاوت ازلی ہے۔ ا س کے باوجود اگر آپ ان مشرکین کی ہدایت کی حرص کریں تو بے شک جسے اللّٰہ تعالیٰ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں لہٰذا اس بارے میں آپ کوشش نہ فرمائیں اور جس چیز کے ساتھ آپ کو بھیجا گیا ہے وہ ان تک پہنچا دیں تاکہ حجت تمام ہو جائے اور جب اللّٰہ تعالیٰ ان کے عذاب کا ارادہ فرمائے توکوئی بھی ایسا نہیں جو اللّٰہ تعالیٰ اور ان کے عذاب کے درمیان حائل ہو کر ان کی مدد کر ے۔ (مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۵۹۵، تفسیر طبری، النحل، تحت الآیۃ: ۳۷، ۷ / ۵۸۳، ملتقطاً)
وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْۙ-لَا یَبْعَثُ اللّٰهُ مَنْ یَّمُوْتُؕ-بَلٰى وَعْدًا عَلَیْهِ حَقًّا وَّ لٰـكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ(38)لِیُبَیِّنَ لَهُمُ الَّذِیْ یَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِ وَ لِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنَّهُمْ كَانُوْا كٰذِبِیْنَ(39)اِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَیْءٍ اِذَاۤ اَرَدْنٰهُ اَنْ نَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ(40)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور انہوں نے بڑی کوشش کرکے اللہ کی قسم کھائی کہ اللہ کسی مرنے والے کو نہ اٹھائے گا۔ کیوں نہیں ؟ یہ سچا وعدہ اس کے ذمہ پرہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ تاکہ انہیں واضح کر کے وہ بات بتادے جس میں جھگڑتے تھے اور تاکہ کافر جان لیں کہ وہ جھوٹے تھے۔ جب ہم کوئی چیز چاہیں تو اسے ہمارا صرف یہی فرمانا ہوتا ہے کہ ہم اسے کہیں ’’ہوجا ‘‘تووہ فوراً ہوجاتی ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ:اور انہوں نے بڑی کوشش کرکے اللّٰہ کی قسم کھائی۔} شانِ نزول: ایک مشرک ایک مسلمان کا مقروض تھا، مسلمان نے مشرک سے اپنے قرض کا تقاضا کیا ، دورانِ گفتگو اس نے اِس طرح اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم کھائی کہ اس کی قسم! جس سے میں مرنے کے بعد ملنے کی تمنا رکھتا ہوں ۔ اس پر مشرک نے کہا ’’ کیا تیرا یہ خیال ہے کہ تو مرنے کے بعد اٹھے گا اور مشرک نے قسم کھاکر کہا کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ مردے نہ اُٹھائے گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ اللّٰہ تعالیٰ کیوں مُردوں کو نہیں اٹھائے گا؟ یقینا اٹھائے گا۔ یہ اس کا سچا وعدہ ہے لیکن اکثر لوگ اِس اُٹھائے جانے کی حکمت اور اُس کی قدرت نہیں جانتے۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۳۸، ۳ / ۱۲۲)
{لِیُبَیِّنَ لَهُمْ:تاکہ انہیں واضح کر کے بتادے۔} یعنی اللّٰہ تعالیٰ انہیں اس لئے اٹھائے گا تاکہ انہیں واضح کر کے وہ بات بتا دے جس میں وہ مسلمانوں سے جھگڑتے تھے کہ مرنے کے بعد اٹھایا جانا حق ہے اور اس لئے اٹھائے گاتاکہ کافر جان لیں کہ وہ جھوٹے تھے اورمردوں کو زندہ کئے جانے کا انکار غلط تھا۔ (مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۳۹، ص۵۹۵)
{اِنَّمَا:صرف ۔} یعنی جب ہم کسی چیز کو وجود میں لانے کا ارادہ کریں تو ا س سے ہم صرف اتنا کہہ دیتے ہیں کہ ہو جا تو وہ اسی وقت وجود میں آ جاتی ہے۔ مراد یہ ہے کہ ہر مقدور چیز کو وجود میں لانا اللّٰہ تعالیٰ کے لئے اتنا زیادہ آسان ہے تو مرنے کے بعد اٹھانا اس کے لئے کیا مشکل ہے ۔ (مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۴۰، ص۵۹۶)
وَ الَّذِیْنَ هَاجَرُوْا فِی اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةًؕ-وَ لَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُۘ-لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ(41)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں اپنے گھر بار چھوڑے اس کے بعد کہ ان پر ظلم کیا گیا تو ہم ضرور انہیں دنیا میں اچھی جگہ دیں گے اور بیشک آخرت کا ثواب بہت بڑا ہے۔ کسی طرح لوگ جانتے
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الَّذِیْنَ هَاجَرُوْا فِی اللّٰهِ: اور جنہوں نے اللّٰہ کی راہ میں اپنے گھر بار چھوڑے۔} شانِ نزول:حضرت قتادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ یہ آیت رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ان صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے حق میں نازل ہوئی جن پر اہلِ مکہ نے بہت ظلم کئے اور انہیں دین کی خاطر وطن چھوڑنا ہی پڑا ،بعض اُن میں سے حبشہ چلے گئے پھر وہاں سے مدینہ طیبہ آئے اور بعض مدینہ شریف ہی کو ہجرت کر گئے۔ ان کی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے مدح فرمائی اور ان کے اجر کو بہت بڑا اجر قرار دیا ۔(خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۴۱، ۳ / ۱۲۳ملخصاً)
مہاجر صحابۂ کرا م رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے فضائل:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ ہجرت کرنے والے صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ بڑی فضیلت والے ہیں اول تو یوں کہ ان کے لئےبڑے اجر کا وعدہ ہے اور دوسرا یوں کہ ان کے خالصتاً رضائے الٰہی کیلئے ہجرت کرنے کی گواہی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے خود دی ہے۔ قرآنِ مجید کی اور آیات سے بھی ہجرت کرنے والے صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی فضیلت معلوم ہوتی ہے، چنانچہ ایک مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’فَالَّذِیْنَ هَاجَرُوْا وَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَ اُوْذُوْا فِیْ سَبِیْلِیْ وَ قٰتَلُوْا وَ قُتِلُوْا لَاُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْ وَ لَاُدْخِلَنَّهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُۚ-ثَوَابًا مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِؕ-وَ اللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الثَّوَابِ ‘‘(اٰلِ عمران:۱۹۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: پس جنہوں نے ہجرت کی اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور میری راہ میں انہیں ستایا گیا اورانہوں نے جہاد کیا اور قتل کر دیے گئے تو میں ضرور ان کے سب گناہ ان سے مٹا دوں گا اور ضرور انہیں ایسے باغات میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں (یہ) اللّٰہ کی بارگاہ سے اجر ہے اور اللّٰہ ہی کے پاس اچھا ثواب ہے۔
اور ارشاد فرماتا ہے:
’’اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْۙ-اَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللّٰهِؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَ‘‘(توبہ:۲۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:وہ جنہوں نے ایمان قبول کیا اور ہجرت کی اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللّٰہ کی راہ میں جہاد کیا اللّٰہ کے نزدیک ان کا بہت بڑا درجہ ہے اور وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں ۔
اور ارشاد فرماتا ہے:
’’لِلْفُقَرَآءِ الْمُهٰجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَ اَمْوَالِهِمْ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا وَّ یَنْصُرُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ‘‘(حشر:۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: ان فقیر مہاجروں کے لیے جو اپنے گھروں اور مالوں سے نکالے گئے اس حال میں کہ اللّٰہ کا فضل اور اس کی رضا چاہتے ہیں اور اللّٰہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں ،وہی سچے ہیں ۔
اسی طرح اَحادیث سے بھی ہجرت کرنے والے صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے فضائل ظاہر ہیں، چنانچہ حضرت عبد اللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھ سے ارشاد فرمایا ’’ کیا تم میری امت کے اس گروہ کو جانتے ہو جوسب سے پہلے جنت میں داخل ہو گا؟ میں نے عرض کی :اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بہتر جانتے ہیں ۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن مہاجرین جنت کے دروازے کے پاس آ کر اسے کھلوانا چاہیں گے تو جنت کے خازن ان سے کہیں گے: کیا آپ سے حساب لے لیا گیا ہے؟ وہ کہیں گے :ہم سے کس چیز کا حساب لیا جائے گا حالانکہ اللّٰہ تعالیٰ کی راہ میں ہماری تلواریں ہمارے کندھوں پر تھیں حتّٰی کہ اسی حال میں ہمارا انتقال ہو گیا۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں کہ’’ان کے لئے(جنت کا دروازہ )کھول دیاجائے گا تو وہ دوسرے لوگوں کے جنت میں داخل ہونے سے پہلے 40 سال تک جنت میں قیلولہ کریں گے۔(مستدرک، کتاب الجہاد، اوّل زمرۃ تدخل الجنّۃ المہاجرون، ۲ / ۳۸۷، الحدیث: ۲۴۳۶)
حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں :ہم ایک دوسرے دن تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں اس وقت حاضر تھے جب سورج طلوع ہوا۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’عنقریب قیامت کے دن کچھ لوگ آئیں گے جن کا نور سورج کی روشنی کی طرح ہو گا۔ ہم نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ کون لوگ ہوں گے؟ ارشاد فرمایا ’’فُقراء مہاجرین جن کے صدقے ناپسندیدہ چیزوں سے بچا جاتا ہے، ان میں سے کسی کا انتقال اس حال میں ہوتا ہے کہ اس کی حاجت اس کے سینے میں ہی رہتی ہے(یعنی پوری نہیں ہوتی اور حاجت مند ہی فوت ہوجاتا ہے)، وہ زمین کے کناروں سے جمع کئے جائیں گے۔(مسند امام احمد، مسند عبد اللّٰہ بن عمرو بن العاص رضی اللّٰہ تعالی عنہما، ۲ / ۵۹۱، الحدیث: ۶۶۶۲)
رضاءِ الٰہی کی نیت کے بغیر نیک عمل کرنے کی فضیلت نہیں ملتی:
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو ہجرت صرف اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر نہ ہو اس کی کوئی فضیلت نہیں ، وہ ایسے ہے جیسے ایک گھر سے دوسرے گھر کی طرف منتقل ہونا۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اَعمال نیت سے ہیں اور ہر شخص کے لئے وہی ہے جو اس نے نیت کی تو جس کی ہجرت اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف ہو تو اس کی ہجرت اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف ہے اور جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لئے ہو تواس کی ہجرت اسی طرف ہے جس کی جانب اس نے ہجرت کی۔(بخاری، کتاب الایمان، باب ما جاء انّ الاعمال بالنیۃ۔۔۔ الخ، ۱ / ۳۴، الحدیث: ۵۴)اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہر وہ نیک عمل جس میں اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی نیت نہ ہو تو اس نیک عمل کو کرنے والا اس کی فضیلت پانے سے محروم رہےگا۔اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اپنی رضا حاصل کرنے کی نیت سے نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین
{لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً:ہم ضرور انہیں دنیا میں اچھی جگہ دیں گے۔} اچھی جگہ سے مراد مدینہ طیبہ ہے جسے اللّٰہ تعالیٰ نے ان کے لئے ہجرت کی جگہ بنایا۔ مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ جب اپنے زمانۂ خلافت میں کسی مہاجر صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو کوئی چیز بطورِ عطیہ و نذرانہ کے دیتے تو ا س سے فرماتے ’’اللّٰہ تعالیٰ تمہارے لئے اس میں برکت دے، اسے لے لوکیونکہ یہ وہ ہے جس کا دنیا میں اللّٰہ تعالیٰ نے آپ سے وعدہ کیا ہے اور آخرت میں جو آپ کے لئے تیار کر رکھا ہے وہ ا س سے کہیں بہتر ہے۔ اس کے بعد حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ یہی آیت تلاوت فرماتے۔(خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۴۱، ۳ / ۱۲۳)
مدینہ منورہ کی فضیلت:
اس آیت سے مدینہ منورہ کی فضیلت بھی معلوم ہوئی کہ یہاں اسے حَسَنَۃً فرمایا گیاہے۔ صحیح مسلم میں حضرت سعد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا ’’مدینہ لوگوں کے لیے بہتر ہے اگر جانتے، مدینہ کو جو شخص بطورِ اِعراض چھوڑے گا، اللّٰہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اُسے لائے گا جو اس سے بہتر ہوگا اور مدینہ کی تکلیف و مشقت پر جو ثابت قدم رہے گا روزِ قیامت میں اس کا شفیع یا گواہ ہوں گا۔(مسلم، کتاب الحج، باب فضل المدینۃ ودعاء النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فیہا بالبرکۃ۔۔۔ الخ، ص۷۰۹، الحدیث: ۴۵۹ (۱۳۶۳))
{لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ:اگر لوگ جانتے۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ اگر کافر یہ بات جانتے کہ آخرت کا ثواب ان کی پسندیدہ دنیا کی تمام نعمتوں سے زیادہ بڑا ہے تو وہ اس کی طرف راغب ہوتے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ اگر مہاجرین کو معلوم ہو جائے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ان کے لئے آخرت میں کتنی بڑی نعمتیں تیار کی ہیں تو جو مصیبتیں اور تکلیفیں انہیں پہنچیں ، ان پر صبر کرنے کی اور زیادہ کوشش کرتے۔(خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۴۱، ۳ / ۱۲۳)تیسرا معنی یہ ہے کہ جو لوگ ہجرت کرنے سے رہ گئے وہ اگر جانتے کہ ہجرت کا اجر کتنا عظیم ہے تووہ بھی ہجرت کرنے والوں کے ساتھ ہوتے۔(جلالین، النحل، تحت الآیۃ: ۴۱، ص۲۱۹)
الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَ(42)
ترجمہ: کنزالعرفان
وہ جنہوں نے صبر کیا اور اپنے رب ہی پر بھروسہ کرتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَّذِیْنَ صَبَرُوْا:جنہوں نے صبر کیا ۔} یعنی عظیم ثواب کے حقدار وہ ہیں جنہوں نے اپنے اس وطن مکہ مکرمہ سے جدا ہونے پر صبر کیا حالانکہ وہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا حرم ہے اور ہر ایک کے دل میں اس کی محبت بسی ہوئی ہے۔ یونہی کفار کی طرف سے پہنچنے والی ایذاؤں پر اور جان ومال خرچ کرنے پر صبر کیا اور وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ ہی پر بھروسہ کرتے ہیں اور اس کے دین کی وجہ سے جو پیش آئے اس پر راضی ہیں اور مخلوق سے رشتہ منقطع کرکے بالکل حق کی طرف متوجہ ہیں اور سالک کے لئے یہ انتہائے سلوک کا مقام ہے۔ (تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۴۲، ۷ / ۲۱۰، روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۴۲، ۵ / ۳۶، ملتقطاً)
مہاجرین کا توکّل:
علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ہجرت کرنے والے صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا توکل بہت عظیم تھا اورا س کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی رضا کی خاطر اپنا مال و دولت اور گھر بار چھوڑ دیا ،وہ عزت کے بدلے لوگوں کی نظروں میں پائی جانے والی حقارت پر اور مالداری کے بدلے فقر و فاقہ پر راضی ہو گئے تو اللّٰہ تعالیٰ نے لوگوں کی نظروں میں پائی جانے والی ان کی اس حقارت کو عزت میں اور فقر کو مالداری میں تبدیل فرما کر انہیں جزا دی اوروہ دنیا و آخرت میں تمام لوگوں کے سردار ہو گئے۔ امام بوصیری رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ (قصیدہ بردہ شریف میں )فرماتے ہیں : ’’حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے نقیبوں اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حواریوں میں کوئی بھی ایسانہیں جو فضیلت میں صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی طرح ہو۔(صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۴۲، ۳ / ۱۰۶۹)
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْۤ اِلَیْهِمْ فَسْــٴَـلُـوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(43)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم نے تم سے پہلے مرد ہی بھیجے جن کی طرف ہم وحی کرتے تھے اے لوگو!اگر تم نہیں جانتے تو علم والوں سے پوچھو ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا:اور ہم نے تم سے پہلے مرد ہی بھیجے ۔} شانِ نزول : یہ آیت مشرکینِ مکہ کے جواب میں نازل ہوئی جنہوں نے سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کا یہ دلیل دے کر انکار کیا کہ اللّٰہ تعالیٰ کی شان اس سے برتر ہے کہ وہ کسی بشر کو رسول بنائے۔ اُنہیں بتایا گیا کہ سنتِ الٰہی اسی طرح جاری ہے، ہمیشہ اس نے انسانوں میں سے مردوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا ہے۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۴۳، ۳ / ۱۲۳-۱۲۴)
{فَسْــٴَـلُـوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ:اے لوگو! علم والوں سے پوچھو ۔} اس آیت میں علم والوں سے مراد اہلِ کتاب ہیں ، اللّٰہ تعالیٰ نے کفار ِمکہ کو اہلِ کتاب سے دریافت کرنے کا حکم اس لئے دیا کہ کفارِ مکہ اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ اہلِ کتاب کے پاس سابقہ کتابوں کا علم ہے اور ان کی طرف اللّٰہ تعالیٰ نے رسول بھیجے تھے ، جیسے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام وغیرہ، اور وہ ان کی طرح بشر تھے تو جب کفار ِمکہ اہلِ کتاب سے پوچھتے تو وہ انہیں بتا دیتے کہ جو رسول ان کی طرف بھیجے گئے وہ سب بشر ہی تھے، اس طرح ان کے دلوں سے یہ شبہ زائل ہو جاتا۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۴۳، ۳ / ۱۲۴)
جو مسئلہ معلوم نہ ہو وہ علماءِ کرام سے پوچھا جائے:
اس آیت کے الفاظ کے عموم سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس مسئلے کا علم نہ ہو اس کے بارے میں علماء کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔ حضرت جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے (ایک شخص کی وفات کا سبب سن کر)ارشاد فرمایا ’’ جب (رخصت کے بارے) انہیں معلوم نہ تھا تو انہوں نے پوچھا کیوں نہیں کیونکہ جہالت کی بیماری کی شفاء دریافت کرنا ہے۔(ابوداؤد، کتاب الطہارۃ، باب فی المجروح یتیمّم، ۱ / ۱۵۴، الحدیث: ۳۳۶)اور حضرت جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ہی روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’عالم کے لئے مناسب نہیں کہ وہ اپنے علم پر خاموش رہے اور جاہل کے لئے مناسب نہیں کہ وہ اپنی جہالت پر خاموش رہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا’’فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ‘‘ (یعنی اے لوگو! اگر تم نہیں جانتے تو علم والوں سے پوچھو۔) لہٰذا مومن کو دیکھ لینا چاہئے کہ اس کا عمل ہدایت کے مطابق ہے یا اس کے خلاف ہے۔( در منثور، النحل، تحت الآیۃ: ۴۳، ۵ / ۱۳۳)
تقلید جائز ہے:
یاد رہے کہ یہ آیتِ کریمہ تقلید کے جواز بلکہ حکم پر بھی دلالت کرتی ہے جیساکہ امام جلال الدین سیوطی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنی کتاب ’’اَلْاِکْلِیْلْ‘‘ میں فرماتے ہیں ’’ اس آیت سے علماء نے فروعی مسائل میں عام آدمی کے لئے تقلید کے جواز پر استدلال فرمایا ہے ۔ (الاکلیل، سورۃ النحل، ص۱۶۳)بلکہ آیت فَسْــٴَـلُـوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِتقلید واجب ہونے کی صریح دلیل ہے۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس آیت میں ’’اَهْلَ الذِّكْرِ‘‘ سے مسلمان علماء نہیں بلکہ اہل کتاب کے علماء مراد ہیں لہٰذا اس آیت کا تقلید کی بحث سے کوئی تعلق نہیں ، ان کا یہ کہنا نری جہالت ہے کیونکہ یہ اس قانون کے خلاف ہے کہ اعتبار لفظ کے عموم کا ہوتا ہے نہ کہ مخصوص سبب کا۔( فتاویٰ رضویہ، ۲۱ / ۵۸۲)
تقلید کی تعریف:
تقلید کے شرعی معنی یہ ہیں کہ کسی کے قول اور فعل کو یہ سمجھ کر اپنے اوپر لازمِ شرعی جاننا کہ اس کا کلام اور اس کا کام ہمارے لئے حجت ہے کیونکہ یہ شرعی محقق ہے۔
تقلید سے متعلق چند اہم مسائل:
(1)…عقائد اور صریح اسلامی احکام میں کسی کی تقلید جائز نہیں ۔
(2)…جو مسائل قرآن و حدیث یا اِجماعِ امت سے اِجتہاد اور اِستنباط کر کے نکالے جائیں ان میں غیر مُجتَہد پر چاروں آئمہ میں سے کسی ایک کی تقلید کرنا واجب ہے۔
(3)…اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’مذاہبِ اربعۂ اہلسنت سب رشد و ہدایت ہیں جو ان میں سے جس کی پیروی کرے اور عمر بھر اسی کا پیرورہے ،کبھی کسی مسئلے میں اس کے خلاف نہ چلے وہ ضرور صراطِ مستقیم پر ہے اس پر شرعاً کوئی الزام نہیں ، ان میں سے ہر مذہب انسان کیلئے نجات کو کافی ہے۔ تقلید ِشخصی کو شرک یا حرام ماننے والے گمراہ، ضالین، مُتَّبِعْ غَیْرِ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْن (یعنی مومنوں کے راستے کے علاوہ کی پیروی کرنے والے) ہیں ۔(فتاویٰ رضویہ، ۲۷ / ۶۴۴)
نوٹ: تقلید سے متعلق تفصیلی معلومات کے لئے کتاب ’’جاء الحق ‘‘ کا مطالعہ فرمائیں ۔
مُقَلِّد کا ایمان درست ہے یا نہیں ؟
جو شخص تقلید کے طور پر ایمان لایا اس کا ایمان صحیح ہونے کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے، بعض کے نزدیک تقلیدی ایمان درست نہیں ، بعض کے نزدیک تقلیدی ایمان درست ہے لیکن وہ غورو فکر اور اِستدلال ترک کرنے کی وجہ سے گناہگار ہو گا، اور بعض کے نزدیک تقلیدی ایمان درست ہے اور ایسے ایمان لانے والا گناہگار بھی نہیں ہو گا۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ان علماء کے اَقوال ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں ’’بے شک ایمان نور کی ایک تجلی ہے اور وہ (جہالت کا ) پردہ اٹھانا اور سینہ کھولنا ہے ، اللّٰہ تعالیٰ وہ نور اپنے بندوں میں سے جس کے دل میں چاہے ڈالتا ہے خواہ یہ نور کا داخل ہونا غورو فکر سے ہو یا محض کسی کی بات سننے سے حاصل ہو، اور کسی عقلمند کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ کہے :ایمان نظر و استدلال کے بغیر حاصل نہیں ہوتا۔‘‘ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا بلکہ خدا کی قسم! بسا اوقات اس شخص کا ایمان جو استدلال کا طریقہ نہیں جانتا اُس سے کامل تر اور مضبوط تر ہوتا ہے جو بحث و مناظرے میں آخری حد تک پہنچا ہوا ہو، تو جس کا سینہ اللّٰہ تعالیٰ اسلام کے لئے کھول دے اور وہ اپنے دل کو ایمان پر مطمئن پائے تو وہ قطعی طور پر مومن ہے اگرچہ وہ نہ جانتا ہو کہ اسے یہ عظیم نعمت کہاں سے ملی ہے، اور آئمہ اربعہ وغیرہ محققین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ اَجْمَعِیْن نے جو فرمایا کہ ’’مقلد کا ایمان صحیح ہے‘‘ اس کا یہی معنی ہے ،مقلد سے ان کی مراد وہ شخص ہے جو استدلال کرنا، بحث کے اسلوب اور گفتگو کے مختلف طریقے نہ جانتا ہو، رہا وہ شخص جس نے اپنے سینے کو اس یقین کے ساتھ اپنی طرف سے کشادہ نہ کیا تو اس نے ویسے ہی کہا جیسے منافق اپنی قبر میں کہتا ہے :ہائے ہائے! مجھے نہیں معلوم ،میں لوگوں کو کچھ کہتے سنتا تھا تو ان سے سن کر میں بھی کہا کرتا تھا۔ خلاصہ یہ ہے کہ جو شخص اللّٰہ تعالیٰ کے ایک ہونے کی تصدیق اس لئے کرے کہ مثلاً اس کا باپ اس بات کی تصدیق کرتا تھا اور وہ اپنے دل سے اللّٰہ تعالیٰ کے ایک ہونے پر یقین رکھتے ہوئے تصدیق نہ کرے تو ایسے شخص کا ایمان سے کوئی تعلق نہیں اور تقلیدی ایمان کی نفی کرنے والوں کی بھی یہی مراد ہے ۔(المعتمد المستند شرح المعتقد المنتقد، الخاتمۃ فی بحث الایمان، ص۱۹۹-۲۰۰)
بِالْبَیِّنٰتِ وَ الزُّبُرِؕ-وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الذِّكْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْهِمْ وَ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ(44)
ترجمہ: کنزالعرفان
۔(ہم نے) روشن دلیلوں اور کتابوں کے ساتھ (رسولوں کو بھیجا) اور اے حبیب! ہم نے تمہاری طرف یہ قرآن نازل فرمایا تاکہ تم لوگوں سے وہ بیان کردو جو اُن کی طرف نازل کیا گیا ہے اورتاکہ وہ غوروفکر کریں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الذِّكْرَ:اور اے حبیب! ہم نے تمہاری طرف یہ قرآن نازل فرمایا۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے آپ کی طرف یہ قرآن اس لئے نازل فرمایا تاکہ آپ اس کتاب میں موجود اَحکام ،وعدہ اور وعید کو اپنے اَقوال اور اَفعال کے ذریعے لوگوں سے بیان کر دیں ۔ (قرطبی، النحل، تحت الآیۃ: ۴۴، ۵ / ۷۹، الجزء العاشر)
حدیث پاک بھی حجت ہے:
ابو عبداللّٰہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنی تفسیر ’’اَلْجَامِعُ لِاَحْکَامِ الْقُرْآنْ‘‘ کی ابتدا میں فرماتے ہیں ’’اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں موجود مُجمل چیزوں کو بیان کرنے، مشکل کی تفسیر کرنے اور کئی اِحتمال رکھنے والی چیزوں کی تحقیق کرنے کا منصب اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو عطا فرمایا تاکہ رسالت کی تبلیغ کے ساتھ آپ کی یہ خصوصیت بھی ظاہر ہو جائے اور سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰیَ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد قرآنِ پاک کے معانی کو اَخذ کرنے اور قرآنِ پاک کے اصول کی طرف اشارہ کرنے کی خدمت علماء کے سپرد فرمائی تاکہ وہ قرآنِ پاک کے الفاظ میں غورو فکرکر کے ان کی مراد جان جائیں ،یوں علماء دیگر امتیوں سے ممتاز ہو گئے اور اِجتہاد کا ثواب ملنے کی خصوصیت بھی انہیں حاصل ہوئی، خلاصہ یہ ہے کہ قرآنِ پاک اصل ہے اور حدیثِ پاک اس کا بیان ہے اور علماء کا اِستنباط ا س کی وضاحت ہے۔(قرطبی، خطبۃ المصنّف، ۱ / ۲۴، الجزء الاوّل)اس آیتِ کریمہ سے معلوم ہو اکہ قرآنِ پاک کی طرح حدیث پاک بھی معتبر، قابلِ قبول اور لائقِ عمل ہے کیونکہ اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو قرآنِ پاک میں موجود احکام وغیرہ کو اپنے اقوال اور افعال کے ذریعے لوگوں سے بیان کرنے کا منصب عطا فرمایا ہے اور حدیث نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَقوال اور اَفعال ہی کا تو نام ہے ۔اس کے علاوہ اور آیات بھی حدیثِ پاک کے حجت ہونے پر دلالت کرتی ہیں ،جیسے ارشادِ باری تعالیٰ ہے
’’هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۗ-وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ‘‘(سورۂ جمعہ :۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اللّٰہ کی آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کا علم عطا فرماتاہے اور بیشک وہ اس سے پہلے ضرور کھلی گمراہی میں تھے۔
اس آیت کے علاوہ بکثرت آیات ایسی ہیں جن میں اللّٰہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا کہ اس کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حکم مانا جائے یہاں تک کہ واضح طور فرما دیا کہ’’ وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِ‘‘(النساء:۶۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لئے کہ اللّٰہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔
اور سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت اسی صورت ممکن ہے جب ان کے قول اور فعل کی پیروی کی جائے ، اگر یوں نہ کیا جائے تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بِعثَت کا جو مقصد ہے وہی فوت ہو جائے گا۔
اور ارشاد فرمایا ’’وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۗ-وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْاۚ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ‘‘(حشر:۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اوررسول جو کچھ تمہیں عطا فرمائیں وہ لے لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو اور اللّٰہ سے ڈرو بیشک اللّٰہ سخت عذاب دینے والاہے۔
عقلی طور پر بھی دیکھا جائے تو حدیثِ پاک کو حجت مانے بغیر چارہ ہی نہیں کیونکہ قرآنِ پاک میں اسلام کے بنیادی اَحکام جیسے نماز ،روزہ ،حج اور زکوٰۃ کا اِجمالی بیان کیا گیا ہے ، ان پر عمل اسی صورت ممکن ہے جب حدیث پاک پر عمل کیا جائے کیونکہ ان تمام احکام کی تفصیل کا بیان صرف اَحادیث میں ہے۔
{وَ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ:اورتاکہ وہ غوروفکر کریں ۔} یعنی قرآن نازل کرنے کا ایک مقصد یہ ہے کہ لوگ اس کی آیتوں میں غور و فکر کریں اور ان میں موجود حقائق اور عبرت انگیز چیزوں پر مطلع ہوں اور اُن کاموں سے بچیں جن کی وجہ سے سابقہ امتیں عذاب میں مبتلا ہو گئیں ۔ (ابوسعود، النحل، تحت الآیۃ: ۴۴، ۳ / ۲۶۸، ملخصاً)
قرآنِ کریم میں غورو فکر اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے:
اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ قرآن کریم میں غورو فکر کرنا اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے لہٰذا قاری سے عالم باعمل افضل ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ قرآنِ مجید کو سمجھ کر اور اس میں بیان کئے گئے احکام، عبرت انگیز واقعات،موت کے وقت کی آفات، گناہگاروں اور کافروں پر ہونے والے جہنم کے عذابات اور نیک مسلمانوں کو ملنے والے جنت کے انعامات وغیرہ میں غورو فکر کرتے ہوئے ا س کی تلاوت کرے تاکہ اسے قرآن کریم کی برکتیں اچھی طرح حاصل ہوں اور اس کے دل پر اگر گناہوں کی سیاہی غالب آ چکی ہو تو وہ بھی صاف ہو جائے ۔حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا: ان دلوں میں بھی زنگ لگ جاتا ہے، جس طرح لوہے میں پانی لگنے سے زنگ لگتا ہے۔ عرض کی گئی، یا رسولَ اللّٰہ !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،اس کی جِلا(یعنی صفائی) کس چیز سے ہوگی؟ ارشاد فرمایا ’’کثرت سے موت کو یادکرنے اور تلاوتِ قرآن سے۔(شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی ادمان تلاوتہ، ۲ / ۳۵۲، الحدیث: ۲۰۱۴)
حضرت ابراہیم خواص رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :دل کی دوا پانچ چیزیں ہیں ۔ (1) غورو فکر کرتے ہوئے قرآنِ مجید کی تلاوت کرنا، (2) بھوکا رہنا، (3) رات میں نوافل ادا کرنا، (4) سَحری کے وقت اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں گریہ وزاری کرنا، (5) نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنا، (روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۴۴، ۵ / ۳۸)
اَفَاَمِنَ الَّذِیْنَ مَكَرُوا السَّیِّاٰتِ اَنْ یَّخْسِفَ اللّٰهُ بِهِمُ الْاَرْضَ اَوْ یَاْتِیَهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَ(45)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو کیا بری سازشیں کرنے والے اس بات سے بے خوف ہوگئے کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے یا ان پر وہاں سے عذاب آئے جہاں سے انہیں خبر بھی نہ ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَفَاَمِنَ:تو کیا بے خوف ہوگئے۔} اس آیت اورا س کے بعد والی دو آیات میں اللّٰہ تعالیٰ نے کفارِ مکہ کو چار طرح کے عذابوں سے ڈرایا ہے ۔ (1) زمین میں دھنسادیئے جانے سے۔ (2) آسمان سے عذاب نازل کر دینے سے۔ (3) ایسی آفات سے جو یکبارگی ا س طرح آئیں کہ ان کی علامات اور دلائل انہیں معلوم نہ ہوں ۔ (4) ایسی آفات سے جو تھوڑی تھوڑی آئیں یہاں تک کہ ان کا آخری فرد بھی ہلاک ہو جائے۔ (تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۴۵-۴۷، ۷ / ۲۱۲-۲۱۳)اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کفارِ مکہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے خلاف سازشیں کرتے ہیں ، انہیں ایذائیں پہنچانے کی کوشش میں رہتے ہیں اور چھپ چھپ کر فساد پھیلانے کی تدبیریں کرتے ہیں ،کیا وہ ا س بات سے بے خوف ہو گئے ہیں کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ انہیں زمین میں دھنسادے جیسے قارون کو دھنسادیا تھا یا ان پر آسمان سے اچانک عذاب نازل ہو جائے جیسے قومِ لوط پر ہو اتھا۔( روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۴۵، ۵ / ۳۸، بیضاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۴۵، ۳ / ۴۰۰، ملتقطاً)
بعض مفسرین نے فرمایا کہ ’’مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَ(جہاں سے انہیں خبر بھی نہ ہو)‘‘ سے بدر کا دن مراد ہے کیونکہ کفار کے بڑے بڑے سردار اس دن ہلاک کر دئیے گئے اور ان کا حال یہ تھا کہ وہ اپنی ہلاکت کا گمان بھی نہ رکھتے تھے۔(تفسیر قرطبی، النحل، تحت الآیۃ: ۴۵، ۵ / ۷۹، الجزء العاشر)
اَوْ یَاْخُذَهُمْ فِیْ تَقَلُّبِهِمْ فَمَا هُمْ بِمُعْجِزِیْنَ(46)
ترجمہ: کنزالعرفان
یا انہیں چلتے پھرتے پکڑ لے تو وہ اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَوْ یَاْخُذَهُمْ فِیْ تَقَلُّبِهِمْ:یا انہیں چلتے پھرتے پکڑ لے۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ کیا وہ اس بات سے ڈرتے نہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ سفر کی حالت میں ان پر عذاب نازل کر دے کیونکہ جس طرح اللّٰہ تعالیٰ انہیں ان کے شہروں میں ہلاک کرنے پر قادر ہے، اسی طرح سفر کے دوران بھی انہیں ہلاک کرنے پر قادر ہے،وہ کسی دور دراز کے علاقے میں جاکر اللّٰہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کر سکتے بلکہ وہ جہاں بھی ہوں اللّٰہ تعالیٰ ان پر عذاب نازل کر سکتا ہے۔(تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۴۶، ۷ / ۲۱۲)دوسری تفسیر یہ ہے کہ کیا وہ اس بات سے ڈرتے نہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ رات اوردن میں بلکہ ہر ایک حال میں ان کی پکڑ کرنے پر قادر ہے اور وہ فرار ہو کر اللّٰہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کر سکتے بلکہ اللّٰہ تعالیٰ ان پر ہر طرح سے قادر ہے۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۴۶، ۳ / ۱۲۴)
اَوْ یَاْخُذَهُمْ عَلٰى تَخَوُّفٍؕ-فَاِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(47)
ترجمہ: کنزالعرفان
یا انہیں آہستہ آہستہ نقصان پہنچاتے ہوئے پکڑلے تو بیشک تمہارا رب نہایت مہربان رحمت والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَوْ یَاْخُذَهُمْ:یا انہیں پکڑلے ۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ شروع سے ہی انہیں عذاب میں گرفتار نہیں کرے گا بلکہ پہلے انہیں خوف میں مبتلا کرے گا پھر اس کے بعدانہیں عذاب میں گرفتار کر دے گا۔ خوف میں مبتلا کرنے کی صورت یہ ہو گی کہ اللّٰہ تعالیٰ ایک گروہ کو ہلاک کر دے گا تو اس کے قریب والے ا س خوف میں مبتلا ہو جائیں گے کہ کہیں ان پر بھی ویساہی عذاب نازل نہ ہو جائے۔ ایک طویل عرصہ تک وہ اس خوف اور وحشت میں مبتلا رہیں گے ، اس کے بعد ان پر عذاب نازل ہو گا۔دوسرا معنی یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ان پر فوراًعذاب نازل نہیں کرے گا بلکہ ان کی جانوں اور مالوں کو تھوڑا تھوڑا کم کرتا رہے گا یہاں تک کہ سب ہلاک ہو جائیں گے ۔ (تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۴۷،۷ / ۲۱۲-۲۱۳)
{فَاِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ:تو بیشک تمہارا رب نہایت مہربان رحمت والا ہے۔} یعنی اللّٰہ تعالیٰ چونکہ بہت مہربان اور رحمت والا ہے اس لئے وہ اکثر اُمور میں مہلت دے دیتا ہے ا ور عذاب نازل کرنے میں جلدی نہیں فرماتا۔(تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۴۷، ۷ / ۲۱۳)
اَوَ لَمْ یَرَوْا اِلٰى مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَیْءٍ یَّتَفَیَّؤُا ظِلٰلُهٗ عَنِ الْیَمِیْنِ وَ الشَّمَآىٕلِ سُجَّدًا لِّلّٰهِ وَ هُمْ دٰخِرُوْنَ(48)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور کیا انہوں نے اس طرف نہ دیکھا کہ اللہ نے جوچیز بھی پیدا فرمائی ہے اس کے سائے اللہ کو سجدہ کرتے ہوئے دائیں اور بائیں جھکتے ہیں اور وہ سائے عاجزی کررہے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَوَ لَمْ یَرَوْا:اور کیا انہوں نے نہ دیکھا۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے سایہ دار جو چیز بھی پیدا فرمائی ہے اس کا حال یہ ہے کہ سورج طلوع ہوتے وقت اُس کا سایہ دائیں طرف جھک جاتا ہے اور سورج غروب ہوتے وقت اس کا سایہ بائیں طرف جھک جاتا ہے اور سائے کا ایک سے دوسری طرف منتقل ہونا اللّٰہ تعالیٰ کو سجدہ کرنا اور اس کی بارگاہ میں اپنی عاجزی، انکساری اور کمزوری کا اظہار کرنا ہے کیونکہ سایہ دائیں اور بائیں جھکنے میں اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کا پابند اور اسی کا اطاعت گزار ہے، اسی کے سامنے عاجز اور اسی کے آگے مسخر ہے اوراس میں اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت کا کمال ظاہر ہے اور جب کفار سایہ دار چیزوں کا یہ حال اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ اس میں غورو فکر کر کے عبرت و نصیحت حاصل کریں کہ سایہ و ہ چیز ہے جس میں عقل،فہم اور سماعت کی صلاحیت نہیں رکھی گئی تو جب وہ اللّٰہ تعالیٰ کا اطاعت گزار ہے اور صرف اسی کو سجدہ کر رہا ہے تو انسان جسے عقل،فہم اور سماعت کی صلاحیت دی گئی ہے اسے زیادہ چاہئے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کرے اور صرف اسی کے آگے سجدہ ریز ہو۔ (تفسیرسمرقندی، النحل، تحت الآیۃ: ۴۸،۲ / ۲۳۷، تاویلات اہل السنہ، النحل، تحت الآیۃ: ۴۸، ۳ / ۸۹-۹۰، ملتقطاً)
وَ لِلّٰهِ یَسْجُدُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ دَآبَّةٍ وَّ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ هُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ(49)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جو کچھ آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں چلنے والا ہے اور فرشتے سب اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور فرشتے غرور نہیں کرتے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لِلّٰهِ یَسْجُدُ:اور اللّٰہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں ۔}علما ء فرماتے ہیں سجدہ دو طرح کا ہوتا ہے ۔ (1) سجدۂ عبادت، جیسا کہ مسلمانوں کا اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے سجدہ۔ (2) سجد ہ بہ معنی اطاعت اور عاجزی ، جیسا کہ سایہ وغیرہ کا سجدہ۔ ہر چیز کا سجدہ اس کی حیثیت کے مطابق ہے، مسلمانوں اور فرشتوں کا سجدہ، سجدۂ عبادت ہے اور ان کے ماسوا کا سجدہ ، سجدہ بہ معنی اطاعت اور عاجزی ہے۔(خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۴۹، ۳ / ۱۲۵، تفسیر کبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۴۹، ۷ / ۲۱۶ملتقطاً)
یاد رہے کہ یہاں سجدہ سے مراد اطاعت ہے نہ کہ اصطلاحی سجدہ، اور اگر باقاعدہ سجدہ ہی مراد ہو تو بھی حق ہے کہ کسی چیز کی حقیقت ہمیں معلوم نہ ہونا ہمارے علم کی کمی کی دلیل ہے ، اس بات کی نہیں کہ وہ چیز ہی نہیں ہوسکتی جیسے آج کل کی لاکھوں سائنسی ایجادات سے پہلے لوگوں کو اِن چیزوں کا بالکل علم نہیں تھا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ یہ چیزیں ہوہی نہیں سکتی تھیں، یہی صورت سایوں کے سجدہ کرنے میں سمجھ لی جائے اور یہی جواب مخالفینِ اسلام کے سائنسی اعتبار سے اسلام کے خلاف اکثر اعتراضوں کا ہے۔
نوٹ:یاد رہے کہ یہ آیت آیاتِ سجدہ میں سے ہے ، اس کے پڑھنے اور سننے والے پر سجدۂ تلاوت لازم ہو جائے گا۔ سجدۂ تلاوت کے چند احکام سورۂ اَعراف آیت نمبر 206 میں گزر چکے ہیں، مزید مسائل جاننے کے لئے بہار شریعت حصہ 4 سے ’’ سجدۂ تلاوت کا بیان‘‘ مطالعہ کیجئے۔
{وَ هُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ:اور فرشتے غرور نہیں کرتے۔}اس آیت سے ثابت ہوا کہ فرشتے تمام گناہوں سے معصوم ہیں کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ وہ غرور نہیں کرتے ا س بات کی دلیل ہے کہ فرشتے اپنے پیدا کرنے والے اور بنانے والے کے اطاعت گزار ہیں اور وہ کسی بات اور کسی کام میں بھی اللّٰہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرتے۔(تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۴۹، ۷ / ۲۱۷) مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ صرف فرشتے او ر پیغمبر معصوم ہیں ، ان کے سوا کوئی معصوم نہیں ۔
یَخَافُوْنَ رَبَّهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ(50)
ترجمہ: کنزالعرفان
وہ اپنے اوپر اپنے رب کا خوف کرتے ہیں اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتاہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{یَخَافُوْنَ رَبَّهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ:وہ اپنے اوپر اپنے رب کا خوف کرتے ہیں ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ فرشتے اپنے اوپر اللّٰہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہونے سے ڈرتے ہیں اور وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتاہے ،یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کبھی بھی اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی نہیں کی بلکہ انہوں نے اللّٰہ تعالیٰ کے ہر حکم کو پورا کیا اور ممنوعہ کاموں سے باز رہے۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ فرشتے مُکَلَّف ہیں ۔ (مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۵۰، ص۵۹۷، صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۵۰، ۳ / ۱۰۷۱، ملتقطاً)
وَ قَالَ اللّٰهُ لَا تَتَّخِذُوْۤا اِلٰهَیْنِ اثْنَیْنِۚ-اِنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌۚ-فَاِیَّایَ فَارْهَبُوْنِ(51)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اللہ نے فرمادیا: دومعبودنہ ٹھہراؤ وہ تو ایک ہی معبود ہے تو مجھ ہی سے ڈرو۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَالَ اللّٰهُ:اور اللّٰہ نے فرمادیا۔} اس سے پہلی آیتوں میں اللّٰہ تعالیٰ نے یہ بتا دیاکہ آسمان و زمین کی تمام کائنات اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عاجزی کرنے والی،اس کے حکم کی اطاعت کرنے والی اور اسی کی عبادت کرنے والی ہے اور سب اس کی ملکیت میں اور اسی کی قدرت وتَصَرُّف کے تحت ہیں جبکہ ا س آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے شرک سے اور دو خدا ٹھہرانے سے ممانعت فرمائی ہے۔(خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۵۱، ۳ / ۱۲۶)
وَ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لَهُ الدِّیْنُ وَاصِبًاؕ-اَفَغَیْرَ اللّٰهِ تَتَّقُوْنَ(52)
ترجمہ: کنزالعرفان
اورجو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اسی کا ہے اور فرمانبرداری (کا حق)ہمیشہ اسی کیلئے ہے۔ توکیا تم اللہ کے سوا کسی اورسے ڈرو گے؟
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ:اورجو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اسی کا ہے۔} یعنی آسمانوں اور زمین میں موجود ہر چیز کا مالک اللّٰہ تعالیٰ ہی ہے، ان میں سے کسی چیز میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں ، اسی نے انہیں پیدا کیا، وہی انہیں رزق دیتا ہے ،اسی کے دستِ قدرت میں ان کی زندگی اور موت ہے اور ہمیشہ کے لئے اطاعت و فرمانبرداری کا وہی مستحق ہے، تو اے لوگو! کیا تم اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کسی اور سے خوف کھاؤگے اور اس بات سے ڈرو گے کہ اگر تم نے صرف اپنے رب تعالیٰ کی عبادت کی تو وہ تم سے اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتیں چھین نہ لے۔(تفسیر طبری، النحل، تحت الآیۃ: ۵۲، ۷ / ۵۹۵-۵۹۶) یاد رہے کہ فرمانبرداری کا حق ہمیشہ اللّٰہ تعالیٰ کیلئے ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کرنا، والدین کی اطاعت کرنا اور اُولِی الْاَمْر کی اطاعت کرنا بھی درحقیقت اللّٰہ تعالیٰ ہی کی اطاعت ہے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے۔(صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۵۲، ۳ / ۱۰۷۲)
حقیقی خوف صرف اللّٰہ تعالیٰ کا ہونا چاہئے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کے سلسلے میں دنیا کی نعمتیں،سہولتیں اور آسائشیں چھن جانے کا خوف نہیں رکھنا چاہئے بلکہ اس معاملے میں صرف اس رب تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے جس کے دستِ قدرت میں سب نعمتیں ہیں اور جو تمام نعمتوں کا حقیقی مالک ہے ۔اس میں ان لوگوں کے لئے بڑی نصیحت ہے جو مسلمان ہونے کے باوجود اسلام کے اَحکام پر عمل کرنے میں اپنی دنیوی ترقی نہ ہونے ، معاشی خوشحالی نہ آنے اور نفسانی خواہشات پوری نہ ہونے کاخوف کھاتے ہیں اور وہ ا س بات سے ڈرتے ہیں کہ نمازوں کی پابندی کرنے اور داڑھی رکھنے سے دنیا میں شہرت اور اچھی جگہ نوکری نہ ملے گی اور نہ ہی کوئی مالدار گھرانے والا انہیں رشتہ دینے کو تیار ہو گا، یونہی اگر وہ سودی کاروبار اور رشوت کا لین دین نہ کریں اور کاروبار میں جھوٹ، دھوکہ، ملاوٹ اور خیانت سے کام نہ لیں تو وہ معاشی طور پر انتہائی پَستی کا شکار ہو جائیں گے، اسی طرح اگر وہ نیک صورت مسلمان نظر آئیں گے تو دنیا کی رنگین اور عیش و عشرت سے لبریز پارٹیوں سے لطف اندوز کس طرح ہو ں گے اور عیش و نشاط کے مزے کس طرح لوٹیں گے ۔ اے کاش !یہ لوگ ان چیزوں سے خوف کھانے اور ڈرنے کی بجائے اللّٰہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ، اسی سے ڈرتے اور اسی کی اطاعت و فرمانبرداری میں اپنی انتہائی قلیل دنیوی زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتے تو آخرت میں ایسی عظیم اور دائمی نعمتیں پاتے جن کے آگے دنیا کی اعلیٰ سے اعلیٰ ترین نعمتوں کی ذرہ بھر بھی حیثیت اور وقعت نہیں ہے۔وَ مَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ثُمَّ اِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَاِلَیْهِ تَجْــٴَـرُوْنَ(53)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور تمہارے پاس جو نعمت ہے سب اللہ کی طرف سے ہے پھر جب تمہیں تکلیف پہنچتی ہے تو تم اسی سے فریادکرتے ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَةٍ:اور تمہارے پاس جو نعمت ہے۔} اس سے پہلی آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ عقلمند پر لازم ہے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور سے نہ ڈرے جبکہ ان آیات میں بیان فرمایا کہ عقلمند پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کے علاوہ اور کسی کا شکر نہ کرے کیونکہ شکر نعمت کے بدلے میں ہوتا ہے اور انسان کو جو نعمت بھی ملی ہے وہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ملی ہے۔ (تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۵۳، ۷ / ۲۲۱) اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے لوگو! تمہارے بدنوں میں جو عافیت، صحت اور سلامتی ہے اور تمہارے مالوں میں جو نَشوونُما ہو رہی ہے ،تمہارے پاس یہ سب نعمتیں اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں کسی اور کی طرف سے نہیں کیونکہ ساری نعمتیں اللّٰہ تعالیٰ ہی کے دستِ قدرت میں ہیں اور جب تمہارے بدن کسی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں اور انہیں کوئی عارضہ لاحق ہوتا ہے اور تمہاری عیش و عشرت میں کمی واقع ہوتی ہے تو تم صرف اللّٰہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے ہو اور اسی سے مدد طلب کرتے ہو تاکہ وہ تم سے یہ مصیبت دور کر دے۔ (تفسیرطبری، النحل، تحت الآیۃ: ۵۳، ۷ / ۵۹۷)
ثُمَّ اِذَا كَشَفَ الضُّرَّ عَنْكُمْ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْكُمْ بِرَبِّهِمْ یُشْرِكُوْنَ(54)لِیَكْفُرُوْا بِمَاۤ اٰتَیْنٰهُمْؕ-فَتَمَتَّعُوْا- فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ(55)
ترجمہ: کنزالعرفان
پھر جب وہ تم سے برائی ٹال دیتا ہے تو اس وقت تم میں ایک گروہ اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے لگتا ہے۔ تاکہ وہ ہماری دی ہوئی نعمتوں کی ناشکری کریں تو کچھ فائدہ اٹھالو تو عنقریب تم جان جاؤ گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ثُمَّ اِذَا كَشَفَ الضُّرَّ عَنْكُمْ:پھر جب وہ تم سے برائی ٹال دیتا ہے۔} یعنی پھر جب اللّٰہ تعالیٰ تمہاری بدنی بیماریاں دور کر کے تمہیں عافیت عطا کر دے، تمہاری معاشی پریشانی ختم کر دے اور تم پر آنے والی مصیبتیں ٹال دے تو تم میں سے ایک گروہ اپنی عبادت میں غیروں کواللّٰہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرانے لگ جاتا ہے ، بتوں کی عبادت میں مشغول ہونے کے ساتھ بتوں کا شکر اداکرتے ہوئے ان کے نام پر جانور ذبح کرتا ہے اور اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ کا شکر ادا نہیں کرتا جس نے ان کی مشکلات دور کر کے انہیں آسانیاں عطا کی ۔(تفسیر طبری، النحل، تحت الآیۃ: ۵۴، ۷ / ۵۹۸)
{لِیَكْفُرُوْا بِمَاۤ اٰتَیْنٰهُمْ:تاکہ وہ ہماری دی ہوئی نعمتوں کی ناشکری کریں۔} امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت کا معنی یہ ہے کہ لوگوں نے مصیبت دور کرنے میں بتوں کو اللّٰہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرایا اور شریک ٹھہرانے سے ان کا مقصود یہ تھا کہ وہ اِن نعمتوں کے اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے کا انکار کر دیں ۔ دنیا میں ایسے لوگوں کی کثیر تعداد موجود ہے کہ جب ان کے مرض کی تکلیف بڑھتی ہے تو وہ اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں گریہ و زاری کرتے ہیں اور ا س تکلیف کے دور ہونے کی دعائیں مانگتے ہیں اور جب اللّٰہ تعالیٰ ان کی تکلیف دور فرما دے تو وہ یوں کہنے لگتے ہیں کہ فلاں دوائی سے یا فلاں ڈاکٹر کے علاج سے میری یہ تکلیف دور ہوئی، یونہی جب زلزلہ، طوفان یا سیلاب وغیرہ کی مصیبت آتی ہے تو اس وقت بھی اللّٰہ تعالیٰ کے حضور التجائیں کرتے ہیں ، روتے اور گڑگڑاتے ہیں لیکن جب زلزلے، طوفان یا سیلاب وغیرہ کا سلسلہ ختم ہو جائے تو دوبارہ انہی کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں جن میں پہلے سے مصروف تھے۔ لوگوں کی اسی حالت کی وضاحت اللّٰہ تعالیٰ نے ان آیات میں فرمائی ہے۔ (تفسیر کبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۵۵، ۷ / ۲۲۲-۲۲۳، ملخصاً) اگرچہ طبیب یا دوا کی طرف شفا کی نسبت کرنا گناہ نہیں لیکن صرف انہی پر بھروسہ رکھنا اور شفا و صحت کو اللّٰہ تعالیٰ کی نعمت شمار کرنے اور اس پر شکر ادا کرنے کا اصلاً نہ سوچنا ضرور غلط ہے۔
مَصائب و آلام کے وقت لوگوں کا حال اور بعد کی صورتِ حال:
امام رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے کلام کو سامنے رکھتے ہوئے فی زمانہ بھی اگر لوگوں کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو شاید لاکھوں میں ایک انسان بھی ایسانظر نہ آئے جو بیماری ، تکلیف اور پریشانی کی حالت میںاللّٰہ تعالیٰ سے دعائیں نہ مانگتا ہو، دوسروں کو دعاؤں کے لئے نہ کہتا ہو اور اللّٰہ تعالیٰ کے نیک بندوں سے اپنی مشکلات کے حل کے لئے دعائیں نہ کرواتا ہو، یونہی ایسی حالت میں اپنے گناہوں اور نافرمانیوں سے توبہ نہ کرتا ہو اور آئندہ کے لئے تمام گناہوں سے کنارہ کش ہونے کے ارادے نہ کرتاہو ، لیکن جب یہ مصائب و آلام ختم ہو جاتے ہیں تو اللّٰہ تعالیٰ کا شکر اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے کی بجائے اپنی گناہوں کی سابقہ سڑک پر پہلے سے بھی تیز دوڑنا شروع کر دیتے ہیں ،اسی طرح ہمارے مشاہدے میں ہے کہ بہت مرتبہ زلزلے ،طوفان اور سیلاب کی وجہ سے لوگوں کا حال یہ ہوا کہ وہ بارگاہِ الٰہی میں گریہ و زاری کرتے ہوئے اپنی عافیت و سلامتی کی دعائیں مانگنے میں مصروف ہو گئے اور وقتی طور پر نماز،روزہ اور ذکر و درو د میں مشغول ہو گئے ،لیکن یہ آفات ختم ہو جانے کے بعد اب ان کا جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
{فَتَمَتَّعُوْا:تو فائدہ اٹھالو۔} اس آیت میں ان لوگوں کے لئے وعید ہے جن کے اوصاف مذکورہ بالا آیات میں بیان ہوئے ،اللّٰہ تعالیٰ ان سے ارشاد فرماتا ہے کہ تم اس دنیا کی زندگی میں اپنی مدت پوری ہونے تک فائدہ اٹھا لو اور جب تم اپنی زندگی کا وقت پورا کر کے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے ملو گے تو اس وقت اپنے کئے ہوئے اعمال کا وبال جان جاؤ گے اور اپنے برے کاموں کا انجام دیکھ لو گے۔اس وقت تمہیں ندامت تو بہت ہو گی لیکن وہ ندامت تمہیں کوئی فائدہ نہ دے گی۔ (تفسیر طبری، النحل، تحت الآیۃ: ۵۵، ۷ / ۵۹۸)
اَوْ یَاْخُذَهُمْ فِیْ تَقَلُّبِهِمْ فَمَا هُمْ بِمُعْجِزِیْنَ(46)
ترجمہ: کنزالعرفان
یا انہیں چلتے پھرتے پکڑ لے تو وہ اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَوْ یَاْخُذَهُمْ فِیْ تَقَلُّبِهِمْ:یا انہیں چلتے پھرتے پکڑ لے۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ کیا وہ اس بات سے ڈرتے نہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ سفر کی حالت میں ان پر عذاب نازل کر دے کیونکہ جس طرح اللّٰہ تعالیٰ انہیں ان کے شہروں میں ہلاک کرنے پر قادر ہے، اسی طرح سفر کے دوران بھی انہیں ہلاک کرنے پر قادر ہے،وہ کسی دور دراز کے علاقے میں جاکر اللّٰہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کر سکتے بلکہ وہ جہاں بھی ہوں اللّٰہ تعالیٰ ان پر عذاب نازل کر سکتا ہے۔(تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۴۶، ۷ / ۲۱۲)دوسری تفسیر یہ ہے کہ کیا وہ اس بات سے ڈرتے نہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ رات اوردن میں بلکہ ہر ایک حال میں ان کی پکڑ کرنے پر قادر ہے اور وہ فرار ہو کر اللّٰہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کر سکتے بلکہ اللّٰہ تعالیٰ ان پر ہر طرح سے قادر ہے۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۴۶، ۳ / ۱۲۴)
اَوَ لَمْ یَرَوْا اِلٰى مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَیْءٍ یَّتَفَیَّؤُا ظِلٰلُهٗ عَنِ الْیَمِیْنِ وَ الشَّمَآىٕلِ سُجَّدًا لِّلّٰهِ وَ هُمْ دٰخِرُوْنَ(48)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور کیا انہوں نے اس طرف نہ دیکھا کہ اللہ نے جوچیز بھی پیدا فرمائی ہے اس کے سائے اللہ کو سجدہ کرتے ہوئے دائیں اور بائیں جھکتے ہیں اور وہ سائے عاجزی کررہے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَوَ لَمْ یَرَوْا:اور کیا انہوں نے نہ دیکھا۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے سایہ دار جو چیز بھی پیدا فرمائی ہے اس کا حال یہ ہے کہ سورج طلوع ہوتے وقت اُس کا سایہ دائیں طرف جھک جاتا ہے اور سورج غروب ہوتے وقت اس کا سایہ بائیں طرف جھک جاتا ہے اور سائے کا ایک سے دوسری طرف منتقل ہونا اللّٰہ تعالیٰ کو سجدہ کرنا اور اس کی بارگاہ میں اپنی عاجزی، انکساری اور کمزوری کا اظہار کرنا ہے کیونکہ سایہ دائیں اور بائیں جھکنے میں اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کا پابند اور اسی کا اطاعت گزار ہے، اسی کے سامنے عاجز اور اسی کے آگے مسخر ہے اوراس میں اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت کا کمال ظاہر ہے اور جب کفار سایہ دار چیزوں کا یہ حال اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ اس میں غورو فکر کر کے عبرت و نصیحت حاصل کریں کہ سایہ و ہ چیز ہے جس میں عقل،فہم اور سماعت کی صلاحیت نہیں رکھی گئی تو جب وہ اللّٰہ تعالیٰ کا اطاعت گزار ہے اور صرف اسی کو سجدہ کر رہا ہے تو انسان جسے عقل،فہم اور سماعت کی صلاحیت دی گئی ہے اسے زیادہ چاہئے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کرے اور صرف اسی کے آگے سجدہ ریز ہو۔ (تفسیرسمرقندی، النحل، تحت الآیۃ: ۴۸،۲ / ۲۳۷، تاویلات اہل السنہ، النحل، تحت الآیۃ: ۴۸، ۳ / ۸۹-۹۰، ملتقطاً)
وَ لِلّٰهِ یَسْجُدُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ دَآبَّةٍ وَّ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ هُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ(49)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جو کچھ آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں چلنے والا ہے اور فرشتے سب اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور فرشتے غرور نہیں کرتے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لِلّٰهِ یَسْجُدُ:اور اللّٰہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں ۔}علما ء فرماتے ہیں سجدہ دو طرح کا ہوتا ہے ۔ (1) سجدۂ عبادت، جیسا کہ مسلمانوں کا اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے سجدہ۔ (2) سجد ہ بہ معنی اطاعت اور عاجزی ، جیسا کہ سایہ وغیرہ کا سجدہ۔ ہر چیز کا سجدہ اس کی حیثیت کے مطابق ہے، مسلمانوں اور فرشتوں کا سجدہ، سجدۂ عبادت ہے اور ان کے ماسوا کا سجدہ ، سجدہ بہ معنی اطاعت اور عاجزی ہے۔(خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۴۹، ۳ / ۱۲۵، تفسیر کبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۴۹، ۷ / ۲۱۶ملتقطاً)
یاد رہے کہ یہاں سجدہ سے مراد اطاعت ہے نہ کہ اصطلاحی سجدہ، اور اگر باقاعدہ سجدہ ہی مراد ہو تو بھی حق ہے کہ کسی چیز کی حقیقت ہمیں معلوم نہ ہونا ہمارے علم کی کمی کی دلیل ہے ، اس بات کی نہیں کہ وہ چیز ہی نہیں ہوسکتی جیسے آج کل کی لاکھوں سائنسی ایجادات سے پہلے لوگوں کو اِن چیزوں کا بالکل علم نہیں تھا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ یہ چیزیں ہوہی نہیں سکتی تھیں، یہی صورت سایوں کے سجدہ کرنے میں سمجھ لی جائے اور یہی جواب مخالفینِ اسلام کے سائنسی اعتبار سے اسلام کے خلاف اکثر اعتراضوں کا ہے۔
نوٹ:یاد رہے کہ یہ آیت آیاتِ سجدہ میں سے ہے ، اس کے پڑھنے اور سننے والے پر سجدۂ تلاوت لازم ہو جائے گا۔ سجدۂ تلاوت کے چند احکام سورۂ اَعراف آیت نمبر 206 میں گزر چکے ہیں، مزید مسائل جاننے کے لئے بہار شریعت حصہ 4 سے ’’ سجدۂ تلاوت کا بیان‘‘ مطالعہ کیجئے۔
{وَ هُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ:اور فرشتے غرور نہیں کرتے۔}اس آیت سے ثابت ہوا کہ فرشتے تمام گناہوں سے معصوم ہیں کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ وہ غرور نہیں کرتے ا س بات کی دلیل ہے کہ فرشتے اپنے پیدا کرنے والے اور بنانے والے کے اطاعت گزار ہیں اور وہ کسی بات اور کسی کام میں بھی اللّٰہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرتے۔(تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۴۹، ۷ / ۲۱۷) مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ صرف فرشتے او ر پیغمبر معصوم ہیں ، ان کے سوا کوئی معصوم نہیں ۔
یَخَافُوْنَ رَبَّهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ(50)
ترجمہ: کنزالعرفان
وہ اپنے اوپر اپنے رب کا خوف کرتے ہیں اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتاہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{یَخَافُوْنَ رَبَّهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ:وہ اپنے اوپر اپنے رب کا خوف کرتے ہیں ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ فرشتے اپنے اوپر اللّٰہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہونے سے ڈرتے ہیں اور وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتاہے ،یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کبھی بھی اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی نہیں کی بلکہ انہوں نے اللّٰہ تعالیٰ کے ہر حکم کو پورا کیا اور ممنوعہ کاموں سے باز رہے۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ فرشتے مُکَلَّف ہیں ۔ (مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۵۰، ص۵۹۷، صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۵۰، ۳ / ۱۰۷۱، ملتقطاً)
وَ قَالَ اللّٰهُ لَا تَتَّخِذُوْۤا اِلٰهَیْنِ اثْنَیْنِۚ-اِنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌۚ-فَاِیَّایَ فَارْهَبُوْنِ(51)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اللہ نے فرمادیا: دومعبودنہ ٹھہراؤ وہ تو ایک ہی معبود ہے تو مجھ ہی سے ڈرو۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَالَ اللّٰهُ:اور اللّٰہ نے فرمادیا۔} اس سے پہلی آیتوں میں اللّٰہ تعالیٰ نے یہ بتا دیاکہ آسمان و زمین کی تمام کائنات اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عاجزی کرنے والی،اس کے حکم کی اطاعت کرنے والی اور اسی کی عبادت کرنے والی ہے اور سب اس کی ملکیت میں اور اسی کی قدرت وتَصَرُّف کے تحت ہیں جبکہ ا س آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے شرک سے اور دو خدا ٹھہرانے سے ممانعت فرمائی ہے۔(خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۵۱، ۳ / ۱۲۶)
وَ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لَهُ الدِّیْنُ وَاصِبًاؕ-اَفَغَیْرَ اللّٰهِ تَتَّقُوْنَ(52)
ترجمہ: کنزالعرفان
اورجو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اسی کا ہے اور فرمانبرداری (کا حق)ہمیشہ اسی کیلئے ہے۔ توکیا تم اللہ کے سوا کسی اورسے ڈرو گے
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ:اورجو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اسی کا ہے۔} یعنی آسمانوں اور زمین میں موجود ہر چیز کا مالک اللّٰہ تعالیٰ ہی ہے، ان میں سے کسی چیز میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں ، اسی نے انہیں پیدا کیا، وہی انہیں رزق دیتا ہے ،اسی کے دستِ قدرت میں ان کی زندگی اور موت ہے اور ہمیشہ کے لئے اطاعت و فرمانبرداری کا وہی مستحق ہے، تو اے لوگو! کیا تم اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کسی اور سے خوف کھاؤگے اور اس بات سے ڈرو گے کہ اگر تم نے صرف اپنے رب تعالیٰ کی عبادت کی تو وہ تم سے اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتیں چھین نہ لے۔(تفسیر طبری، النحل، تحت الآیۃ: ۵۲، ۷ / ۵۹۵-۵۹۶) یاد رہے کہ فرمانبرداری کا حق ہمیشہ اللّٰہ تعالیٰ کیلئے ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کرنا، والدین کی اطاعت کرنا اور اُولِی الْاَمْر کی اطاعت کرنا بھی درحقیقت اللّٰہ تعالیٰ ہی کی اطاعت ہے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے۔(صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۵۲، ۳ / ۱۰۷۲)
حقیقی خوف صرف اللّٰہ تعالیٰ کا ہونا چاہئے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کے سلسلے میں دنیا کی نعمتیں،سہولتیں اور آسائشیں چھن جانے کا خوف نہیں رکھنا چاہئے بلکہ اس معاملے میں صرف اس رب تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے جس کے دستِ قدرت میں سب نعمتیں ہیں اور جو تمام نعمتوں کا حقیقی مالک ہے ۔اس میں ان لوگوں کے لئے بڑی نصیحت ہے جو مسلمان ہونے کے باوجود اسلام کے اَحکام پر عمل کرنے میں اپنی دنیوی ترقی نہ ہونے ، معاشی خوشحالی نہ آنے اور نفسانی خواہشات پوری نہ ہونے کاخوف کھاتے ہیں اور وہ ا س بات سے ڈرتے ہیں کہ نمازوں کی پابندی کرنے اور داڑھی رکھنے سے دنیا میں شہرت اور اچھی جگہ نوکری نہ ملے گی اور نہ ہی کوئی مالدار گھرانے والا انہیں رشتہ دینے کو تیار ہو گا، یونہی اگر وہ سودی کاروبار اور رشوت کا لین دین نہ کریں اور کاروبار میں جھوٹ، دھوکہ، ملاوٹ اور خیانت سے کام نہ لیں تو وہ معاشی طور پر انتہائی پَستی کا شکار ہو جائیں گے، اسی طرح اگر وہ نیک صورت مسلمان نظر آئیں گے تو دنیا کی رنگین اور عیش و عشرت سے لبریز پارٹیوں سے لطف اندوز کس طرح ہو ں گے اور عیش و نشاط کے مزے کس طرح لوٹیں گے ۔ اے کاش !یہ لوگ ان چیزوں سے خوف کھانے اور ڈرنے کی بجائے اللّٰہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ، اسی سے ڈرتے اور اسی کی اطاعت و فرمانبرداری میں اپنی انتہائی قلیل دنیوی زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتے تو آخرت میں ایسی عظیم اور دائمی نعمتیں پاتے جن کے آگے دنیا کی اعلیٰ سے اعلیٰ ترین نعمتوں کی ذرہ بھر بھی حیثیت اور وقعت نہیں ہے۔
وَ مَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ثُمَّ اِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَاِلَیْهِ تَجْــٴَـرُوْنَ(53)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور تمہارے پاس جو نعمت ہے سب اللہ کی طرف سے ہے پھر جب تمہیں تکلیف پہنچتی ہے تو تم اسی سے فریادکرتے ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَةٍ:اور تمہارے پاس جو نعمت ہے۔} اس سے پہلی آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ عقلمند پر لازم ہے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور سے نہ ڈرے جبکہ ان آیات میں بیان فرمایا کہ عقلمند پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کے علاوہ اور کسی کا شکر نہ کرے کیونکہ شکر نعمت کے بدلے میں ہوتا ہے اور انسان کو جو نعمت بھی ملی ہے وہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ملی ہے۔ (تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۵۳، ۷ / ۲۲۱) اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے لوگو! تمہارے بدنوں میں جو عافیت، صحت اور سلامتی ہے اور تمہارے مالوں میں جو نَشوونُما ہو رہی ہے ،تمہارے پاس یہ سب نعمتیں اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں کسی اور کی طرف سے نہیں کیونکہ ساری نعمتیں اللّٰہ تعالیٰ ہی کے دستِ قدرت میں ہیں اور جب تمہارے بدن کسی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں اور انہیں کوئی عارضہ لاحق ہوتا ہے اور تمہاری عیش و عشرت میں کمی واقع ہوتی ہے تو تم صرف اللّٰہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے ہو اور اسی سے مدد طلب کرتے ہو تاکہ وہ تم سے یہ مصیبت دور کر دے۔ (تفسیرطبری، النحل، تحت الآیۃ: ۵۳، ۷ / ۵۹۷)
ثُمَّ اِذَا كَشَفَ الضُّرَّ عَنْكُمْ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْكُمْ بِرَبِّهِمْ یُشْرِكُوْنَ(54)لِیَكْفُرُوْا بِمَاۤ اٰتَیْنٰهُمْؕ-فَتَمَتَّعُوْا- فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ(55)
ترجمہ: کنزالعرفان
پھر جب وہ تم سے برائی ٹال دیتا ہے تو اس وقت تم میں ایک گروہ اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے لگتا ہے۔ تاکہ وہ ہماری دی ہوئی نعمتوں کی ناشکری کریں تو کچھ فائدہ اٹھالو تو عنقریب تم جان جاؤ گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ثُمَّ اِذَا كَشَفَ الضُّرَّ عَنْكُمْ:پھر جب وہ تم سے برائی ٹال دیتا ہے۔} یعنی پھر جب اللّٰہ تعالیٰ تمہاری بدنی بیماریاں دور کر کے تمہیں عافیت عطا کر دے، تمہاری معاشی پریشانی ختم کر دے اور تم پر آنے والی مصیبتیں ٹال دے تو تم میں سے ایک گروہ اپنی عبادت میں غیروں کواللّٰہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرانے لگ جاتا ہے ، بتوں کی عبادت میں مشغول ہونے کے ساتھ بتوں کا شکر اداکرتے ہوئے ان کے نام پر جانور ذبح کرتا ہے اور اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ کا شکر ادا نہیں کرتا جس نے ان کی مشکلات دور کر کے انہیں آسانیاں عطا کی ۔(تفسیر طبری، النحل، تحت الآیۃ: ۵۴، ۷ / ۵۹۸)
{لِیَكْفُرُوْا بِمَاۤ اٰتَیْنٰهُمْ:تاکہ وہ ہماری دی ہوئی نعمتوں کی ناشکری کریں۔} امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت کا معنی یہ ہے کہ لوگوں نے مصیبت دور کرنے میں بتوں کو اللّٰہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرایا اور شریک ٹھہرانے سے ان کا مقصود یہ تھا کہ وہ اِن نعمتوں کے اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے کا انکار کر دیں ۔ دنیا میں ایسے لوگوں کی کثیر تعداد موجود ہے کہ جب ان کے مرض کی تکلیف بڑھتی ہے تو وہ اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں گریہ و زاری کرتے ہیں اور ا س تکلیف کے دور ہونے کی دعائیں مانگتے ہیں اور جب اللّٰہ تعالیٰ ان کی تکلیف دور فرما دے تو وہ یوں کہنے لگتے ہیں کہ فلاں دوائی سے یا فلاں ڈاکٹر کے علاج سے میری یہ تکلیف دور ہوئی، یونہی جب زلزلہ، طوفان یا سیلاب وغیرہ کی مصیبت آتی ہے تو اس وقت بھی اللّٰہ تعالیٰ کے حضور التجائیں کرتے ہیں ، روتے اور گڑگڑاتے ہیں لیکن جب زلزلے، طوفان یا سیلاب وغیرہ کا سلسلہ ختم ہو جائے تو دوبارہ انہی کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں جن میں پہلے سے مصروف تھے۔ لوگوں کی اسی حالت کی وضاحت اللّٰہ تعالیٰ نے ان آیات میں فرمائی ہے۔ (تفسیر کبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۵۵، ۷ / ۲۲۲-۲۲۳، ملخصاً) اگرچہ طبیب یا دوا کی طرف شفا کی نسبت کرنا گناہ نہیں لیکن صرف انہی پر بھروسہ رکھنا اور شفا و صحت کو اللّٰہ تعالیٰ کی نعمت شمار کرنے اور اس پر شکر ادا کرنے کا اصلاً نہ سوچنا ضرور غلط ہے۔
مَصائب و آلام کے وقت لوگوں کا حال اور بعد کی صورتِ حال:
امام رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے کلام کو سامنے رکھتے ہوئے فی زمانہ بھی اگر لوگوں کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو شاید لاکھوں میں ایک انسان بھی ایسانظر نہ آئے جو بیماری ، تکلیف اور پریشانی کی حالت میںاللّٰہ تعالیٰ سے دعائیں نہ مانگتا ہو، دوسروں کو دعاؤں کے لئے نہ کہتا ہو اور اللّٰہ تعالیٰ کے نیک بندوں سے اپنی مشکلات کے حل کے لئے دعائیں نہ کرواتا ہو، یونہی ایسی حالت میں اپنے گناہوں اور نافرمانیوں سے توبہ نہ کرتا ہو اور آئندہ کے لئے تمام گناہوں سے کنارہ کش ہونے کے ارادے نہ کرتاہو ، لیکن جب یہ مصائب و آلام ختم ہو جاتے ہیں تو اللّٰہ تعالیٰ کا شکر اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے کی بجائے اپنی گناہوں کی سابقہ سڑک پر پہلے سے بھی تیز دوڑنا شروع کر دیتے ہیں ،اسی طرح ہمارے مشاہدے میں ہے کہ بہت مرتبہ زلزلے ،طوفان اور سیلاب کی وجہ سے لوگوں کا حال یہ ہوا کہ وہ بارگاہِ الٰہی میں گریہ و زاری کرتے ہوئے اپنی عافیت و سلامتی کی دعائیں مانگنے میں مصروف ہو گئے اور وقتی طور پر نماز،روزہ اور ذکر و درو د میں مشغول ہو گئے ،لیکن یہ آفات ختم ہو جانے کے بعد اب ان کا جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
{فَتَمَتَّعُوْا:تو فائدہ اٹھالو۔} اس آیت میں ان لوگوں کے لئے وعید ہے جن کے اوصاف مذکورہ بالا آیات میں بیان ہوئے ،اللّٰہ تعالیٰ ان سے ارشاد فرماتا ہے کہ تم اس دنیا کی زندگی میں اپنی مدت پوری ہونے تک فائدہ اٹھا لو اور جب تم اپنی زندگی کا وقت پورا کر کے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے ملو گے تو اس وقت اپنے کئے ہوئے اعمال کا وبال جان جاؤ گے اور اپنے برے کاموں کا انجام دیکھ لو گے۔اس وقت تمہیں ندامت تو بہت ہو گی لیکن وہ ندامت تمہیں کوئی فائدہ نہ دے گی۔ (تفسیر طبری، النحل، تحت الآیۃ: ۵۵، ۷ / ۵۹۸)
وَ یَجْعَلُوْنَ لِمَا لَا یَعْلَمُوْنَ نَصِیْبًا مِّمَّا رَزَقْنٰهُمْؕ-تَاللّٰهِ لَتُسْــٴَـلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَفْتَرُوْنَ(56)وَ یَجْعَلُوْنَ لِلّٰهِ الْبَنٰتِ سُبْحٰنَهٗۙ-وَ لَهُمْ مَّا یَشْتَهُوْنَ(57)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور (کافر) ہماری دی ہوئی روزی میں سے انجانی چیزوں کیلئے حصہ مقرر کرتے ہیں ۔اللہ کی قسم! اے لوگو! تم سے اُس کے بارے میں ضرور پوچھا جائے گا جو تم جھوٹ باندھتے تھے۔ اوروہ اللہ کے لیے بیٹیاں قرار دیتے ہیں حالانکہ وہ پاک ہے اور اپنے لیے وہ (مانتے ہیں )جو اپنا جی چاہتا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یَجْعَلُوْنَ لِمَا لَا یَعْلَمُوْنَ نَصِیْبًا:اور (کافر) انجانی چیزوں کیلئے حصہ مقرر کرتے ہیں ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین کو اللّٰہ تعالیٰ نے جو فصلیں اور مویشی عطا فرمائے وہ اِن میں سے اُن بتوں کے لئے حصہ مقرر کرتے ہیں جنہیں وہ معبود کہتے ہیں اور ان کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ بت نفع اور نقصان پہنچا سکتے ہیں اور وہ اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں ان کی شفاعت کریں گے حالانکہ بتوں میں یہ اَوصاف موجود ہی نہیں کیونکہ وہ تو پتھر ہیں ،نفع یا نقصان پہنچانے کی قدرت کہاں سے رکھیں گے۔اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی قسم کھاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اللّٰہ کی قسم!اے لوگو! تم سے اُس کے بارے میں ضرور پوچھا جائے گا جوتم بتوں کو معبود ، تقرب کے لائق اوربت پرستی کو خدا کا حکم بتاکر اللّٰہ تعالیٰ پرجھوٹ باندھتے تھے۔( جلالین، النحل، تحت الآیۃ: ۵۶، ص۲۲۰، مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۵۶، ص۵۹۸-۵۹۹، ملتقطاً)
{وَ یَجْعَلُوْنَ لِلّٰهِ الْبَنٰتِ:اوروہ اللّٰہ کے لیے بیٹیاں قرار دیتے ہیں ۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے لیے توبیٹیاں قرار دیتے ہیں جیسے بنو خزاعہ اور کنانہ کے لوگ فرشتوں کو اللّٰہ تعالیٰ کی بیٹیاں کہتے تھے حالانکہ اللّٰہ تعالیٰ اولاد سے پاک ہے اور اس کی شان میں ایسا کہنا بہت بے ادبی اور کفر ہے۔ان کافروں میں کفر کے ساتھ بدتمیزی کی انتہا یہ بھی ہے کہ وہ اپنے لئے توبیٹے پسند کرتے ہیں اور بیٹیاں ناپسند کرتے ہیں جبکہ اللّٰہ تعالیٰ کے لئے جو مُطلقاً اولاد سے مُنَزّہ اور پاک ہے اور اس کے لئے اولاد ثابت کرنا ہی عیب لگانا ہے، اس کے لئے اولاد میں بھی وہ ثابت کرتے ہیں جس کو اپنے لئے حقیر اور عار کا سبب جانتے ہیں ۔(جلالین مع صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۵۷، ۳ / ۱۰۷۳، ملخصاً)
وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِالْاُنْثٰى ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا وَّ هُوَ كَظِیْمٌ(58)یَتَوَارٰى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْٓءِ مَا بُشِّرَ بِهٖؕ-اَیُمْسِكُهٗ عَلٰى هُوْنٍ اَمْ یَدُسُّهٗ فِی التُّرَابِؕ-اَلَا سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ(59)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جب ان میں کسی کو بیٹی ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو دن بھر اس کا منہ کالا رہتا ہے اور وہ غصے سے بھراہوتا ہے۔اس بشارت کی برائی کے سبب لوگوں سے چھپا پھرتا ہے ۔ کیا اسے ذلت کے ساتھ رکھے گا یا اسے مٹی میں دبادے گا ؟ خبردار! یہ کتنا برا فیصلہ کررہے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِالْاُنْثٰى:اور جب ان میں کسی کو بیٹی ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے۔} اس آیت اور اس کے بعدوالی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جومشرکین اللّٰہ تعالیٰ کے لئے بیٹیاں قرار دے رہے ہیں جب ان میں کسی کو بیٹی ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو غم، پریشانی اور پسند نہ ہونے کی وجہ سے سارا دن ا س کے چہرے کا رنگ بدلاہوا رہتا ہے اور وہ غصے سے بھرا ہوتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ جب مشرکین اپنے لئے ا س بات کو پسند نہیں کرتے کہ بیٹی ان کی طرف منسوب ہو تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف بیٹی کی نسبت کرنے کو انہوں نے کیسے پسند کر لیا۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۵۸، ۳ / ۱۲۷، ملخصاً)
لڑکی پیدا ہونے پر رنج کرنا کافروں کا طریقہ ہے:
اس سے معلوم ہوا کہ لڑکی پیدا ہونے پر رنج کرنا کافروں کا طریقہ ہے، فی زمانہ مسلمانوں میں بھی بیٹی پیدا ہونے پرغمزدہ ہو جانے، چہرے سے خوشی کا اظہار نہ ہونے، مبارک باد ملنے پر جھینپ جانے، مبارک باد دینے والے کو باتیں سنا دینے، بیٹی کی ولادت کی خوشی میں مٹھائی بانٹنے میں عار محسوس کرنے، صرف بیٹیاں پیدا ہونے کی وجہ سے ماؤں پر ظلم و ستم کرنے اور انہیں طلاقیں دے دینے تک کی وبا عام ہے، حالانکہ بیٹی پیدا ہونے اور اس کی پرورش کرنے کی بہت فضیلت ہے ، رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جب کسی شخص کے ہاں بیٹی پیدا ہوتی ہے تو اللّٰہ تعالیٰ اس کے ہاں فرشتوں کو بھیجتا ہے، وہ آ کر کہتے ہیں : اے گھر والو! تم پر سلامتی نازل ہو، پھر اس بیٹی کا اپنے پروں سے اِحاطہ کر لیتے ہیں اور اس کے سر پر اپنے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں ’’ ایک کمزور لڑکی ایک کمزور عورت سے پیدا ہوئی ہے، جو اس کی کفالت کرے گا توقیامت کے دن اس کی مدد کی جائے گی۔ (معجم الصغیر، باب الالف، من اسمہ: احمد، ص۳۰، الجزء الاول)
حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ جس شخص کے ہاں بیٹی پیدا ہو اور وہ اسے زندہ درگور نہ کرے ، اُسے ذلیل نہ سمجھے اور اپنے بیٹے کو اس پر ترجیح نہ دے تو اللّٰہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔ (ابوداؤد، کتاب الادب، باب فی فضل من عال یتیماً، ۴ / ۴۳۵، الحدیث: ۵۱۴۶)
اللّٰہ تعالیٰ مسلمانوں کوعقلِ سلیم عطا کرے اور جس طرح وہ بیٹا پیدا ہونے پر خوشی سے پھولے نہیں سماتے اسی طرح بیٹی پیدا ہونے پر بھی خوشی کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
{یَتَوَارٰى مِنَ الْقَوْمِ:لوگوں سے چھپا پھرتا ہے ۔}مفسرین فرماتے ہیں کہ زمانۂ جاہلیت میں دستور یہ تھا کہ جب کسی شخص کی بیوی کے ہاں زچگی کے آثار ظاہر ہوتے تو وہ شخص بچہ پیدا ہو جانے تک اپنی قوم سے چھپا رہتا، پھر اگر اسے معلوم ہوتا کہ بیٹا پیدا ہوا ہے تو وہ خوش ہوجاتا اور اپنی قوم کے سامنے آ جاتا اور جب اسے پتا چلتا کہ اس کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی ہے تو وہ غمزدہ ہو جاتا اور شرم کے مارے کئی دنوں تک لوگوں کے سامنے نہ آتا اورا س دوران غور کرتا رہتا کہ اس بیٹی کے ساتھ وہ کیا کرے؟ آیا ذلت برداشت کر کے ا س بیٹی کو اپنے پاس رکھے یا اسے زندہ درگور کر دے جیسا کہ مُضَر، خُزَاعہ اور تمیم قبیلے کے کئی لوگ اپنی لڑکیوں کو زندہ گاڑ دیتے تھے۔(خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۵۹، ۳ / ۱۲۷-۱۲۸، ملخصاً)
زمانۂ جاہلیت میں بیٹیوں سے متعلق کفار کا دستور اور اسلام کا کارنامہ:
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’زمانۂ جاہلیت میں کفار مختلف طریقوں سے اپنی بیٹیوں کو قتل کردیتے تھے، ان میں سے بعض گڑھا کھود تے اور بیٹی کو اس میں ڈال کر گڑھا بند کر دیتے حتّٰی کہ وہ مر جاتی، اور بعض اسے پہاڑ کی چوٹی سے پھینک دیتے ، بعض ا سے غرق کر دیتے اور بعض اسے ذبح کر دیتے تھے ،ان کا بیٹیوں کو قتل کرنا بعض اوقات غیرت اور حَمِیَّت کی وجہ سے ہوتا تھا اور بعض اوقات فقر و فاقہ اور نان نفقہ لازم ہونے کے خوف سے وہ ایسا کرتے تھے۔( تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۵۹،۷ / ۲۲۶، ملخصاً) یہ اسلام ہی کا کارنامہ ہے جس نے دنیا میں سب سے پہلے عورت کو حقوق عطا فرمائے اور اسے عزت و وقار سے نوازا۔ زندہ درگور ہونے والی کو جینے کاحق دیا اور اس کی پوری زندگی کے حقوق کی ایک فہرست بیان فرما دی، اس کے باوجود اگر کوئی جاہل اسلام کی تعلیمات کوعورتوں کے حقوق کے مخالف سمجھتا ہے تو اسے اپنی جہالت اور دماغ کی خرابی کا علاج کرنے کی طرف بھرپور توجہ دینی چاہئے۔
{اَلَا سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ:خبردار! یہ کتنا برا فیصلہ کررہے ہیں ۔} یعنی ان مشرکین نے جو فیصلہ کیا ہے وہ کتنا برا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے لئے بیٹیاں ثابت کرتے ہیں جو اپنے لئے انہیں انتہائی ناگوار ہیں اور یونہی یہ بات کتنی بری ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں جو رزق دیاہے اس میں بتوں کو اللّٰہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہیں حالانکہ وہ نفع یا نقصان پہنچانے کی قدرت ہی نہیں رکھتے اور جس رب عَزَّوَجَلَّ نے انہیں پیدا کیا اوران پر احسانات فرمائے ہیں اسے چھوڑ کر بتوں کی عبادت کرتے ہیں۔( تفسیرطبری، النحل، تحت الآیۃ: ۵۹، ۷ / ۶۰۰)
لِلَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ مَثَلُ السَّوْءِۚ-وَ لِلّٰهِ الْمَثَلُ الْاَعْلٰىؕ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(60)وَ لَوْ یُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ مَّا تَرَكَ عَلَیْهَا مِنْ دَآبَّةٍ وَّ لٰـكِنْ یُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّىۚ-فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ(61)
ترجمہ: کنزالعرفان
جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کیلئے بری حالت ہے اور اللہ کی سب سے بلندشان ہے اور وہی عزت والا، حکمت والا ہے۔اور اگر اللہ لوگوں کو ان کے ظلم کی بنا پر پکڑ لیتا تو زمین پر کوئی چلنے والا نہ چھوڑتا لیکن وہ انہیں ایک مقررہ مدت تک مہلت دیتا ہے پھر جب ان کی مدت آجائے گی تو وہ نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹیں گے اور نہ ہی آگے بڑھیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَوْ یُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ:اور اگر اللّٰہ لوگوں کو ان کے ظلم کی بنا پر پکڑ لیتا۔}اس سے پہلی آیتوں میں اللّٰہ تعالیٰ نے کفارِ مکہ کے بہت بڑے کفر اور برے اَقوال کا بیان فرمایا جبکہ اس آیت میں یہ بیان فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ ان کافروں پر جلدی عذاب نازل نہ فرما کر انہیں ڈھیل دیتا ہے تاکہ اس کی رحمت اور اس کے فضل و کرم کا اظہار ہو۔( تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۶۱، ۷ / ۲۲۷) چنانچہ فرمایا گیا کہ اگر اللّٰہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے گناہوں پر پکڑ لیتا اور عذاب میں جلدی فرماتا تو زمین پر کوئی چلنے والا نہ چھوڑتا بلکہ سب کو ہلاک کردیتا۔ایک قول یہ ہے کہ زمین پر چلنے والے سے کافر مراد ہیں جیسا کہ دوسری آیت میں ہے۔’’اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا‘‘(انفال:۵۵) ترجمۂ کنزُالعِرفان: یعنی بیشک جانوروں میں سب سے بدتر، اللّٰہ کے نزدیک وہ ہیں جنہوں نے کفر کیا۔
بعض مفسرین نے فرمایا ’’آیت کے معنی یہ ہیں کہ روئے زمین پر کسی چلنے والے کو باقی نہیں چھوڑتا جیسا کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانہ میں جو کوئی زمین پر تھا اُن سب کو ہلاک کردیا ، صرف وہی باقی رہے جو زمین پر نہ تھے بلکہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ کشتی میں تھے۔ اس آیت کے معنی میں ایک قول یہ بھی ہے کہ ’’اللّٰہ تعالیٰ ان کے ظالم باپ دادا کو ان کے ظلم کی وجہ سے ہلاک کردیتا تو اُن کی نسلیں منقطع ہوجاتیں اور زمین میں کوئی باقی نہ رہتا۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۶۱، ۳ / ۱۲۸، ملخصاً)
{وَ لٰكِنْ یُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى:لیکن وہ انہیں ایک مقررہ مدت تک مہلت دیتا ہے۔} یعنی اللّٰہ تعالیٰ ان کے ظلم پر پکڑ نہیں فرماتا بلکہ اپنے فضل و کرم اور حِلم کی وجہ سے انہیں زندگی کا وقت پورا ہونے تک یا قیامت آنے تک مہلت دیتا ہے۔ پھر جب ان کی مقررہ مدت آجائے گی تو وہ اس مدت سے نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹیں گے اور نہ ہی آگے بڑھیں گے۔(خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۶۱، ۳ / ۱۲۸، ملخصاً)
وَ یَجْعَلُوْنَ لِلّٰهِ مَا یَكْرَهُوْنَ وَ تَصِفُ اَلْسِنَتُهُمُ الْكَذِبَ اَنَّ لَهُمُ الْحُسْنٰىؕ-لَا جَرَمَ اَنَّ لَهُمُ النَّارَ وَ اَنَّهُمْ مُّفْرَطُوْنَ(62)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اللہ کے لیے وہ ٹھہراتے ہیں جو (خود) ناپسند کرتے ہیں اور ان کی زبانیں جھوٹ بولتی ہیں کہ ان کے لیے بھلائی ہے۔ حقیقت میں ان کے لئے آگ ہے اور یہ کہ وہ (جہنمیوں کے) آگے آگے جانے والے ہوں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یَجْعَلُوْنَ لِلّٰهِ:اور اللّٰہ کے لیے وہ قرار دیتے ہیں ۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین اپنے لئے بیٹیاں بھی ناپسند کرتے ہیں اور یہ بات بھی کہ ان کی ملکیت میں کوئی دوسرا ان کا شریک بنے لیکن اللّٰہ تعالیٰ کیلئے انہی چیزوں کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ یونہی اللّٰہ تعالیٰ کے لئے ناقص مال علیحدہ کرتے ہیں اور بتوں کے لئے اعلیٰ مال جدا کرتے ہیں اورا س کے باوجود بھی اپنے آپ کو حق پر گمان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) سچے ہوں اور مخلوق مرنے کے بعد پھر اُٹھائی جائے تو جنت ہمیں ہی ملے گی کیونکہ ہم حق پر ہیں ۔ان کے بارے میں اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’ان کی جھوٹی بات کا کوئی اعتبار نہیں بلکہ حقیقت میں ان کے لئے آگ ہے اور یہ کہ وہ جہنمیوں کے آگے آگے جانے والے ہوں گے اور جہنم ہی میں چھوڑ دیئے جائیں گے۔(مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۶۲، ص۵۹۹، خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۶۲، ۳ / ۱۲۹، صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۶۲، ۳ / ۱۰۷۵، ملتقطاً)
تَاللّٰهِ لَقَدْ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰۤى اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَزَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ فَهُوَ وَلِیُّهُمُ الْیَوْمَ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(63)
ترجمہ: کنزالعرفان
اللہ کی قسم! ہم نے تم سے پہلے کتنی امتوں کی طرف رسول بھیجے تو شیطان نے لوگوں کیلئے ان کے اعمال کو خوشنما بنادیا تو آج وہی ان کا ساتھی ہے اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{تَاللّٰهِ:اللّٰہ کی قسم!} اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی قسم بیان کر کے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،ہم نے آپ سے پہلے سابقہ امتوں کی طرف جتنے رسول بھیجے، انہوں نے بھی آپ کی طرح اپنی امتوں کو توحید کی دعوت دی، صرف ایک اللّٰہ کی عبادت کرنے کا کہا اور جھوٹے معبودوں کو چھوڑ دینے کا حکم دیا جبکہ شیطان نے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ کفر کرنے اور بتوں کی عبادت پر قائم رہنے کو ان کی نظروں میں خوشنما بنادیا یہاں تک کہ انہوں نے اپنے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلا یا اور اللّٰہ تعالیٰ کے اَحکامات کو رد کر دیا تو دنیا(یا آخرت) میں شیطان ہی ان کاساتھی ہے اور وہ نہایت برا ساتھی ہے۔ قیامت کے دن جب یہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے تو ا س وقت شیطان کی مدد انہیں کوئی نفع نہ دے گی بلکہ اس وقت ان کے لئے دردناک عذاب ہو گا۔( تفسیرطبری، النحل، تحت الآیۃ: ۶۳، ۷ / ۶۰۵)
اللّٰہ تعالیٰ نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دی :
ابو عبداللّٰہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دے رہا ہے کہ( صرف آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قوم نے ہی آپ کو نہیں جھٹلایا بلکہ) آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پہلے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بھی ان کی امتوں نے جھٹلایا تھا۔(قرطبی، النحل، تحت الآیۃ: ۶۳، ۵ / ۸۷، الجزء العاشر)
وَ مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ اِلَّا لِتُبَیِّنَ لَهُمُ الَّذِی اخْتَلَفُوْا فِیْهِۙ-وَ هُدًى وَّ رَحْمَةً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ(64)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم نے تم پر یہ کتاب اس لئے نازل فرمائی ہے تاکہ تم لوگوں کیلئے وہ بات واضح کردو جس میں انہیں اختلاف ہے اوریہ کتاب ایمان والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ:اور ہم نے تم پر یہ کتاب اس لئے نازل فرمائی ہے۔} یعنی اے حبیب!صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے آپ پر یہ قرآن اس لئے نازل فرمایا ہے تاکہ آپ لوگوں کیلئے اُمورِ دین سے وہ بات واضح کردیں جس میں انہیں اختلاف ہے جیسے توحید، عبادات اور معاملات کے اَحکام وغیرہ ،یوں آپ کے بیان کے ذریعے ان پر حجت قائم ہو جائے اور ہم نے قرآ ن ا س لئے نازل فرمایا ہے کہ یہ ایمان والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے کیونکہ ایمان والے ہی اس سے نفع اٹھا سکتے ہیں ۔( تفسیرقرطبی، النحل، تحت الآیۃ: ۶۴، ۵ / ۸۸، الجزء العاشر، جلالین مع صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۶۴، ۳ / ۱۰۷۶، ملتقطاً)
قرآن کریم کے اَحکام اور حقائق بیان کرنے کا منصب:
علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’عام لوگوں کے سامنے قرآنِ کریم کے اَحکام کو بیان کرنے اور خاص لوگوں کے سامنے قرآنِ مجید کے حقائق کو بیان کرنے کا منصب اصلا ًنبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ہے اور ان کی پیروی کرتے ہوئے زمانہ در زمانہ ان کے وارثوں کا ہے چنانچہ علماء ِظاہر واضح بیان کے ساتھ لوگوں کے ان اختلافات کا تَصفِیَہ کرتے ہیں جو ان کے ظاہر کے ساتھ متعلق ہیں اور علماء ِباطن صحیح کشف کے ساتھ لوگوں کے ان اختلافات کو دور کرتے ہیں جن کا تعلق ان کے باطن کے ساتھ ہے،ان میں سے ہر ایک کا مَشرب ہے اور اسے تھامنے والا نامراد نہیں ہوتا، یہ دین کے ستون اور مسلمانوں کے سلطان ہیں۔(روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۶۴، ۵ / ۴۷)
وَ اللّٰهُ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَحْیَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَاؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّقَوْمٍ یَّسْمَعُوْنَ(65)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اللہ نے آسمان سے پانی اتارا تو اس کے ذریعے زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کردیا ۔ بیشک اس میں سننے والوں کے لئے نشانی ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ اللّٰهُ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً:اور اللّٰہ نے آسمان سے پانی اتارا۔} اس آیت سے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّنے پھر اپنی نعمتوں اور قدرت کے کمال کو بیان فرمایا ہے ، چنانچہ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی اتارا تو اس کے ذریعے زمین کو خشک اور بے سبزہ ہونے کے بعد سرسبزی و شادابی بخش کر زندہ کردیا۔ یہ سب اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ہے لیکن اس بات کو سمجھنا ان لوگوں کا کام ہے جو دل سے سنتے ہیں اورسن کر سمجھتے اور غور کرتے ہیں اور اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ جو قادر برحق زمین کو اس کی موت یعنی نَشو و نَما کی قوت فنا ہوجانے کے بعد پھر زندگی دیتا ہے وہ انسان کو اس کے مرنے کے بعد بے شک زندہ کرنے پر قادر ہے۔( قرطبی، النحل، تحت الآیۃ: ۶۵،۵ / ۸۸، الجزء العاشر، جلالین مع صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۶۵، ۳ / ۱۰۷۶، ملتقطاً)
وَ اِنَّ لَكُمْ فِی الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةًؕ-نُسْقِیْكُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْنِهٖ مِنْۢ بَیْنِ فَرْثٍ وَّ دَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَآىٕغًا لِّلشّٰرِبِیْنَ(66)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک تمہارے لیے مویشیوں میں غوروفکر کی باتیں ہیں (وہ یہ کہ) ہم تمہیں ان کے پیٹوں سے گوبر اور خون کے درمیان سے خالص دودھ (نکال کر) پلاتے ہیں جو پینے والے کے گلے سے آسانی سے اترنے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِنَّ لَكُمْ:اور بیشک تمہارے لیے ۔} فرمایا گیا کہ اللّٰہ تعالیٰ کی عظمت و قدرت کی نشانیاں ہر چیز میں موجود ہیں حتّٰی کہ اگر تم اپنے مویشیوں میں بھی غور کرو تو تمہیں غور وفکر کرنے کی بہت سی باتیں مل جائیں گی اور اللّٰہ تعالیٰ کی حکمت کے عجائب اورا س کی قدرت کے کمال پر تمہیں آگاہی حاصل ہوجائے گی۔ تم غورکرو کہ ہم تمہیں ان جانوروں کے پیٹوں سے گوبر اور خون کے درمیان سے خالص دودھ نکال کرپلاتے ہیں جو پینے والے کے گلے سے آسانی سے اترنے والا ہے، جس میں کسی چیز کی آمیزش کا کوئی شائبہ نہیں حالانکہ حیوان کے جسم میں غذا کا ایک ہی مقام ہے جہاں چارا ،گھاس ، بھوسہ وغیرہ پہنچتا ہے اور دودھ، خون گوبر سب اسی غذا سے پیدا ہوتے ہیں اوران میں سے ایک دوسرے سے ملنے نہیں پاتا ۔ دودھ میں نہ خون کی رنگت کا شائبہ ہوتا ہے نہ گوبر کی بوکا، نہایت صاف اور لطیف برآمد ہوتا ہے، اس سے اللّٰہ تعالیٰ کی حکمت کی عجیب کاریگری کا اِظہار ہے ۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۶۶، ۳ / ۱۲۹-۱۳۰، مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۶۶، ص۶۰۰، خزائن العرفان، النحل، تحت الآیۃ: ۶۶، ص۵۱۰، ملتقطاً)
کفار کے شُبہات کا ازالہ:
صدرُ الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’(اس سے ) اوپر(والی آیت میں ) مسئلۂ بعث کا بیان ہوچکا ہے یعنی مُردوں کو زندہ کئے جانے کا،کفار اس کے منکر تھے اورانہیں اس میں دو شُبہے در پیش تھے، ایک تویہ کہ جو چیز فاسد ہوگئی اور اس کی حیات جاتی رہی اس میں دوبارہ پھر زندگی کس طرح لوٹے گی؟ اس شبہ کا ازالہ تو اس سے پہلی آیت میں فرما دیا گیا کہ تم دیکھتے رہتے ہو کہ ہم مردہ زمین کو خشک ہونے کے بعد آسمان سے پانی برسا کر حیات عطا فرمادیا کرتے ہیں تو قدرت کا یہ فیض دیکھنے کے بعد کسی مخلوق کا مرنے کے بعد زندہ ہونا ایسے قادرِ مُطْلَق کی قدرت سے بعید نہیں ۔دوسراشبہ کفار کا یہ تھا کہ جب آدمی مرگیا اور اس کے جسم کے اَجزامُنْتَشر ہوگئے اور خاک میں مل گئے، وہ اجزاء کس طرح جمع کئے جائیں گے اور خاک کے ذروں سے اُن کوکس طرح ممتاز کیا جائے گا؟ اِس آیتِ کریمہ میں جو صاف دودھ کا بیان فرمایا اس میں غورکرنے سے وہ شبہ بالکل نیست و نابُود ہوجاتا ہے کہ قدرتِ الٰہی کی یہ شان تو روزانہ دیکھنے میں آتی ہے کہ وہ غذا کے مخلوط اجزاء میں سے خالص دودھ نکالتا ہے اور اس کے قرب و جوار کی چیزوں کی آمیزش کا شائبہ بھی اس میں نہیں آتا، اُس حکیم برحق کی قدرت سے کیا بعید کہ انسانی جسم کے اجزاء کو منتشر ہونے کے بعد پھر مُجتَمع (یعنی جمع) فرمادے ۔( خزائن العرفان، النحل، تحت الآیۃ: ۶۶، ص۵۱۰-۵۱۱)صوفیاءِ کرام فرماتے ہیں کہ اے انسان! جیسے تیرے رب نے تجھے خالص دودھ پلایا جس میں گوبر، خون کی بال بھر آمیزش نہیں ہے توتو بھی اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں خالص عبادت پیش کر جس میں ریا وغیرہ کی آمیزش نہ ہو۔( نور العرفان، النحل، تحت الآیۃ: ۶۶، ص۴۳۷، ملخصاً)
وَ مِنْ ثَمَرٰتِ النَّخِیْلِ وَ الْاَعْنَابِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْهُ سَكَرًا وَّ رِزْقًا حَسَنًاؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ(67)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور کھجور اور انگور کے پھلوں میں سے کوئی پھل وہ ہے کہ اس سے تم نبیذ اور اچھا رزق بناتے ہو بیشک اس میں عقل مند لوگوں کیلئے نشانی ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مِنْ ثَمَرٰتِ النَّخِیْلِ وَ الْاَعْنَابِ:اور کھجور اور انگور کے پھلوں میں سے۔} اِس آیت میں رزقِ الہٰی کے کچھ دوسرے خزانوں کا بیان کیا گیا جنہیں ان کی اصل حالت میں بھی استعمال کیا جاتا ہے اور انسانی محنت کے بعد والی حالت میں بھی استعمال کیا جاتا ہے چنانچہ فرمایا کہ اے لوگو! تم جوکھجور اور انگور کے بعض پھلوں کے رس سے نبیذ بنا کر پیتے ہو اور اچھا رزق یعنی چھوہارے ،کشمش، سرکہ اورمُنَقّٰی بناتے ہو اس میں بھی تمہارے لئے غورو فکر کا مقام ہے کہ یہ بھی اللّٰہ تعالیٰ کی بندوں پر عظیم نعمت ہے اور یہی اللّٰہ کریم کی عظمت و شانِ تخلیق کی بھی دلیل ہے کہ وہی تمام چیزوں کا خالق ہے اوروہی ہر کام کی تدبیر فرمانے والا ہے۔
وَ اَوْحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا وَّ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعْرِشُوْنَ(68)ثُمَّ كُلِیْ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ فَاسْلُكِیْ سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًاؕ-یَخْرُ جُ مِنْۢ بُطُوْنِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُهٗ فِیْهِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ(69)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور تمہارے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں اور چھتوں میں گھر بناؤ۔ پھر ہر قسم کے پھلوں میں سے کھاؤ اور اپنے رب کے (بنائے ہوئے) نرم و آسان راستوں پر چلتی رہو۔ اس کے پیٹ سے ایک پینے کی رنگ برنگی چیز نکلتی ہے اس میں لوگوں کیلئے شفا ہے بیشک اس میں غوروفکر کرنے والوں کیلئے نشانی ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اَوْحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ:اور تمہارے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی۔} اس سے پہلی آیات میں اللّٰہ تعالیٰ نے گوبر اور خون کے درمیان سے صاف و شفاف دودھ نکالنے ، کھجور اور انگور کے پھلوں سے نبیذ اور اچھا رزق نکالنے کا ذکر فرمایا جبکہ ان آیات میں مکھی سے شہد نکالنے کا ذکر فرمایا جس میں لوگوں کے لئے شفا ہے اوریہ سب چیزیں اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیت، اس کی قدرت اور عظمت پر دلالت کرتی ہیں ۔( صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۶۸، ۳ / ۱۰۷۷)
چنانچہ اس آیت اوراس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ بعض پہاڑوں ، درختوں اور چھتوں میں گھر بنائے،پھر میٹھے ، کڑوے ،پھیکے ہر قسم کے پھلوں اور پھولوں میں سے کھائے اور ان کی تلاش میں اپنے رب کے بنائے ہوئے نرم و آسان راستوں پر چلتی رہے جن کا اللّٰہ تعالیٰ کے فضل سے اسے اِلہام کیا گیا ہے حتّٰی کہ اسے ان راستوں پرچلنا پھر نادشوار نہیں اور وہ کتنی ہی دور نکل جائے را ستہ نہیں بھٹکتی اور اپنے مقام پر واپس آجاتی ہے۔ اس کے پیٹ سے ایک پینے کی چیز یعنی شہد سفید ، زَرد اور سُرخ رنگوں میں نکلتا ہے ،اس میں لوگوں کیلئے شفا ہے اور یہ نافع ترین دواؤں میں سے ہے اور بکثرت معجونوں میں شامل کیا جاتا ہے۔ بیشک اس میں غور وفکر کرنے والوں کیلئے اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت پر نشانی ہے کہ اُس نے ایک کمزور اور ناتوان مکھی کو ایسی زِیر کی و دانائی عطا فرمائی اور ایسی پیچیدہ صَنعتیں مَرحَمَت کیں ، وہ پاک ہے اور اپنی ذات و صفات میں شریک سے مُنَزَّہ ہے، اس سے غوروفکر کرنے والوں کو اس پر بھی تنبیہ ہوجاتی ہے کہ وہ اپنی قدرتِ کاملہ سے ایک ادنیٰ ضعیف سی مکھی کو یہ صفت عطا فرماتا ہے کہ وہ مختلف قسم کے پھولوں اور پھلوں سے ایسے لطیف (ملائم) اجزا حاصل کرے جن سے نفیس شہد بنے جو نہایت خوشگوار ہو، طاہر و پاکیزہ ہو، فاسد ہونے اور سڑنے کی اس میں قابلیت نہ ہو تو جو قادر حکیم ایک مکھی کواس (شہد)کے مادے جمع کرنے کی قدرت دیتا ہے وہ اگر مرے ہوئے انسان کے مُنْتَشر اَجزا کو جمع کردے تو اس کی قدرت سے کیا بعید ہے ،مرنے کےبعد زندہ کئے جانے کو محال سمجھنے والے کس قدر احمق ہیں ۔( مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۶۸-۶۹، ص۶۰۱، جلالین مع صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۶۸-۶۹، ۳ / ۱۰۷۷-۱۰۷۸، خزائن العرفان، النحل، تحت الآیۃ: ۶۹، ص۵۱۱، ملتقطاً)
وَ اللّٰهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ یَتَوَفّٰىكُمْ ﳜ وَ مِنْكُمْ مَّنْ یُّرَدُّ اِلٰۤى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَیْ لَا یَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَیْــٴًـاؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ(70)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اللہ نے تمہیں پیدا کیا پھروہ تمہاری جان قبض کرے گااور تم میں کوئی سب سے گھٹیا عمر کی طرف پھیرا جاتا ہے تاکہ جاننے کے بعد کچھ نہ جانے۔ بیشک اللہ جاننے والا ، بہت قدرت والا ہے.
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اللّٰهُ خَلَقَكُمْ:اور اللّٰہ نے تمہیں پیدا کیا ۔} اس سے پہلی آیات میں اللّٰہ تعالیٰ نے حیوانات کے عجیب و غریب اَفعال ذکر فرما کر اپنے خالق اور قادر ہونے کی دلیل بیان فرمائی اور اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر اپنی قدرت کے وہ آثار ظاہر فرمائے جو خود لوگوں میں اور اُن کے اَحوال میں نمایاں ہیں ۔
آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے تمہیں وجود بخشا حالانکہ تم کچھ بھی نہ تھے، کیسی عجیب قدرت ہے ، پھر وہ اس وقت تمہاری جان قبض کرے گا اور تمہیں زندگی کے بعد موت دے گا جب تمہاری وہ مدت پوری ہو جائے جو اس نے مقرر فرمائی ہے، چاہے بچپن میں پوری ہو یا جوانی میں یا بڑھاپے میں ، اور تم میں کوئی سب سے گھٹیا عمر کی طرف پھیرا جاتا ہے جس کا زمانہ انسانی عمر کے مَراتب میں ساٹھ سال کے بعد آتا ہے کیونکہ اس وقت اعضا اور حواس سب ناکارہ ہونے کے قریب ہوتے ہیں اور انسان کی یہ حالت ہوجاتی ہے کہ وہ جاننے کے بعد کچھ نہ جانے اور نادانی میں بچوں سے زیادہ بدتر ہوجائے ۔ ان تَغَیُّرات میں قدرتِ الٰہی کے کیسے عجائبات مشاہدے میں آتے ہیں ۔ حضرت عکرمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ جس نے قرآن پاک پڑھا وہ اس اَرْذَل عمر کی حالت کو نہ پہنچے گا کہ علم کے بعد محض بے علم ہوجائے۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۷۰، ۳ / ۱۳۳، ملخصاً)
نکمے پن کی عمر سے پناہ مانگنے کی دعا:
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یوں دعا مانگا کرتے تھے ’’اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْبُخْلِ وَالْکَسَلِ وَاَرْذَلِ الْعُمُرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ وَفِتْنَۃِ الدَّجَّالِ وَفِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ‘‘ یعنی( اے اللّٰہ!)میں بخل سے ،سستی سے،نکمے پن کی عمر سے ،قبر کے عذاب سے ،دجال کے فتنے سے، زندگی اور موت کے فتنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔( بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ النحل، باب ومنکم من یردّ الی ارذل العمر، ۳ / ۲۵۷، الحدیث: ۴۷۰۷) اللّٰہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صدقے ہمیں بھی ان تمام چیزوں سے محفوظ فرمائے،اٰمین۔
وَ اللّٰهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلٰى بَعْضٍ فِی الرِّزْقِۚ-فَمَا الَّذِیْنَ فُضِّلُوْا بِرَآدِّیْ رِزْقِهِمْ عَلٰى مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَهُمْ فِیْهِ سَوَآءٌؕ-اَفَبِنِعْمَةِ اللّٰهِ یَجْحَدُوْنَ(71)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اللہ نے تم میں سے ایک کو دوسرے پر رزق میں برتری دی ہے تو جنہیں رزق کی برتری دی گئی ہے وہ اپنا رزق اپنے غلاموں ، باندیوں پر نہیں لوٹاتے کہ کہیں وہ اس رزق میں برابر نہ ہوجائیں تو کیا صرف اللہ کی نعمت سے مکرتے ہیں ؟
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اللّٰهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلٰى بَعْضٍ فِی الرِّزْقِ:اور اللّٰہ نے تم میں سے ایک کو دوسرے پر رزق میں برتری دی ہے۔}
اس آیت میں بڑے نفیس اور دلنشین انداز میں بت پرستی کا رد کیا گیا ہے ۔آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے تم میں سے ایک کو دوسرے پر رزق میں برتری دی ہے ،تو تم میں کوئی غنی ہے کوئی فقیر، کوئی مالدار ہے کوئی نادار، کوئی مالک ہے اور کوئی مملوک، تو جنہیں رزق کی برتری دی گئی ہے وہ اپنا رزق اپنے غلاموں اور باندیوں کو نہیں دیتے کہ کہیں وہ اس رزق میں ان کے برابر نہ ہوجائیں اور جب تم اپنے غلاموں کو اپنا شریک بنانا گوارا نہیں کرتے تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے بندوں اور اس کے مملوکوں کو اس کا شریک ٹھہرانا کس طرح گوارا کرتے ہو؟( جلالین مع صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۷۱، ۳ / ۱۰۷۹-۱۰۸۰، خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۷۱، ۳ / ۱۳۳-۱۳۴، ملتقطاً)
وَ اللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا وَّ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْ بَنِیْنَ وَ حَفَدَةً وَّ رَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِؕ-اَفَبِالْبَاطِلِ یُؤْمِنُوْنَ وَ بِنِعْمَتِ اللّٰهِ هُمْ یَكْفُرُوْنَ(72)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اللہ نے تمہارے لیے تمہاری جنس سے عورتیں بنائیں اور تمہارے لیے تمہاری عورتوں سے بیٹے اور پوتے نواسے پیدا کیے اور تمہیں ستھری چیزوں سے روزی دی تو کیاوہ باطل ہی پر یقین کرتے ہیں ؟ اور اللہ کے فضل ہی کے منکر ہوتے ہیں ؟
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا:اور اللّٰہ نے تمہارے لیے تمہاری جنس سے عورتیں بنائیں ۔} یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے تمہارے لئے تمہاری جنس سے عورتیں بنائیں تاکہ تم ان سے اُنْسِیَّت حاصل کرو اور ان کے ذریعے اپنی ضروریات پوری کرو اور تمہارے لیے تمہاری عورتوں سے بیٹے اور پوتے ، نواسے پیدا کیے جو ضرورت کے وقت تمہاری مدد کرتے ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ نے تمہیں ستھری چیزوں یعنی طرح طرح کے غلوں ،پھلوں اورکھانے پینے کی چیزوں سے روز ی دی تو کیاوہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی ان نعمتوں کے باوجود شرک اور بت پرستی پر ایمان لاتے ہیں اور اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے احسان کے ساتھ کفر کرتے ہیں۔( روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۷۲، ۵ / ۵۸، خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۷۲، ۳ / ۱۳۴، ملتقطاً)
اللّٰہ تعالیٰ کے فضل و نعمت سے کیا مراد ہے؟
علامہ احمد بن محمود نسفی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :آیت میں اللّٰہ تعالیٰ کے فضل و نعمت سے مراد سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذاتِ گرامی ہے یا اس سے وہ نعمتیں مراد ہیں جو اللّٰہ تعالیٰ نے ان کے لئے حلال کیں۔( مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۷۲، ص۶۰۲)
وَ یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقًا مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ شَیْــٴًـا وَّ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ(73)فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰهِ الْاَمْثَالَؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(74)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اللہ کے سوا ایسوں کی عبادت کرتے ہیں جو انہیں آسمان اور زمین سے کچھ بھی روزی دینے کا اختیار نہیں رکھتے اور نہ وہ کچھ کرسکتے ہیں ۔ توتم اللہ کے لیے مِثل نہ ٹھہراؤ،بیشک اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ:اور اللّٰہ کے سوا ایسوں کی عبادت کرتے ہیں ۔} اس سے پہلی آیتوں میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت پر دلالت کرنے والی مختلف چیزیں بیان فرمائیں اور اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے بتوں کی عبادت کرنے والوں کا رد فرمایا ہے۔(تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۷۳، ۷ / ۲۴۵) چنانچہ اس آیت اورا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین اللّٰہ تعالیٰ کے سوا ایسے بتوں کی عبادت کر رہے ہیں جو انہیں آسمان سے کچھ بھی روزی دینے کا اختیار نہیں رکھتے کیونکہ وہ زمین کی خشکی دور کرکے اس میں شادابی لانے کیلئے آسمانوں سے ایک قطرہ پانی تک نازل کرنے پر قادر نہیں اور نہ ہی وہ زمین سے کچھ روزی دینے کا اختیار رکھتے ہیں کیونکہ زمین سے نباتا ت اور پھل نکالنے پر انہیں کوئی قدرت حاصل نہیں اور نہ ہی ان کے بت زمین وآسمان میں سے کسی چیز کے مالک ہیں بلکہ زمین، آسمان اور ان میں موجود ہر چیز کا (حقیقی) مالک صرف اللّٰہ تعالیٰ ہے۔ تو تم اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے لیے شریک نہ ٹھہراؤ بیشک اللّٰہ تعالیٰ جانتا ہے کہ مخلوق میں اس کا کوئی مثل نہیں ہے اور تم یہ بات نہیں جانتے۔(تفسیر طبری، النحل، تحت الآیۃ: ۷۳-۷۴، ۷ / ۶۲۰-۶۲۱، مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۷۳، ص۶۰۲-۶۰۳، ملتقطاً)
ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا عَبْدًا مَّمْلُوْكًا لَّا یَقْدِرُ عَلٰى شَیْءٍ وَّ مَنْ رَّزَقْنٰهُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًا فَهُوَ یُنْفِقُ مِنْهُ سِرًّا وَّ جَهْرًاؕ-هَلْ یَسْتَوٗنَؕ-اَلْحَمْدُ لِلّٰهِؕ-بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ(75)
ترجمہ: کنزالعرفان
اللہ نے ایک بندے کی مثال بیان فرمائی جو خود کسی کی ملکیت میں ہے ، وہ کسی شے پر قادر نہیں اور ایک وہ ہے جسے ہم نے اپنی طرف سے اچھی روزی عطا فرمارکھی ہے تو وہ اس میں سے پوشیدہ اور اعلانیہ خرچ کرتا ہے ، کیا وہ سب برابر ہوجائیں گے؟ تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں بلکہ ان میں اکثر جانتے نہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا عَبْدًا:اللّٰہ نے ایک بندے کی مثال بیان فرمائی۔} اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے دو شخصوں کی مثال بیان فرما کرشرک کا رد فرمایا ہے۔ اس مثال کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک شخص ایسا ہے جو خود کسی کی ملکیت میں ہے اوروہ مالک نہ ہونے کی وجہ سے کسی چیز پر قادر نہیں ، جبکہ ایک شخص ایسا ہے جسے اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے اچھی روزی عطا فرما رکھی ہے تو وہ اس میں سے پوشیدہ اور اعلانیہ خرچ کرتا ہے ،جیسے چاہتا ہے ا س میں تَصَرُّف کرتا ہے تو پہلا شخص عاجز ہے، مملوک اور غلام ہے جبکہ دوسرا شخص آزاد، مالک اور صاحبِ مال ہے اور وہ اللّٰہ تعالیٰ کے فضل سے قدرت و اختیار بھی رکھتا ہے تو کیا یہ دونوں برابر ہوجائیں گے؟ ہر گز نہیں ، تو جب غلام اور آزاد شخص برابر نہیں ہوسکتے حالانکہ یہ دونوں اللّٰہ تعالیٰ کے بندے ہیں توخالق ،مالک اور قادر رب تعالیٰ کے ساتھ قدرت و اختیارنہ رکھنے والے بت کیسے شریک ہوسکتے ہیں اور ان کو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا مثل قرار دینا کیسا بڑا ظلم اورجہل ہے۔( جلالین، النحل، تحت الآیۃ: ۷۵، ص۲۲۳، روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۷۵، ۵ / ۵۹-۶۰، خزائن العرفان، النحل، تحت الآیۃ: ۷۵، ص۵۱۳، ملتقطاً)
وَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا رَّجُلَیْنِ اَحَدُهُمَاۤ اَبْكَمُ لَا یَقْدِرُ عَلٰى شَیْءٍ وَّ هُوَ كَلٌّ عَلٰى مَوْلٰىهُۙ-اَیْنَمَا یُوَجِّهْهُّ لَا یَاْتِ بِخَیْرٍؕ-هَلْ یَسْتَوِیْ هُوَۙ-وَ مَنْ یَّاْمُرُ بِالْعَدْلِۙ-وَ هُوَ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(76)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اللہ نے دو مردوں کی مثال بیان فرمائی ، ان میں سے ایک گونگا ہے جو کسی شے پر قدرت نہیں رکھتا اور وہ اپنے آقا پر (صرف) بوجھ ہے ، (اس کا آقا) اسے جدھر بھیجتاہے وہ کوئی خیر لے کر نہیں آتا تو کیا وہ اور دوسرا وہ جو عدل کا حکم کرتا ہے اور وہ سیدھے راستے پر بھی ہے کیا دونوں برابر ہیں ؟
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا رَّجُلَیْنِ:اور اللّٰہ نے دو مردوں کی مثال بیان فرمائی۔} اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے مومن اور کافر کی ایک مثال بیان فرمائی ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک شخص گونگا ہے جو کسی شے پر قدرت نہیں رکھتا کیونکہ نہ وہ اپنی کسی سے کہہ سکتا اور نہ دوسرے کی سمجھ سکتا ہے اور وہ اپنے آقا پر صرف بوجھ ہے ، اس کا آقا اسے جہاں بھی کسی کام کے لئے بھیجتا ہے تووہ اس کاکوئی کام کر کے نہیں آتا ۔یہ مثال کافر کی ہے۔ اور دوسرا وہ شخص ہے جس کے حواس سلامت ہیں ،بھلائی اور دیانت داری کی وجہ سے بہت فائدہ مند ہے ، وہ لوگوں کوعدل کا حکم کرتا ہے اور ا س کی سیرت بھی اچھی ہے، یہ مثال مومن کی ہے ۔ معنی یہ ہیں کہ کافر ناکارہ گونگے غلام کی طرح ہے وہ کسی طرح اس مسلمان کی مثل نہیں ہوسکتا جو عدل کا حکم کرتا ہے اور صراطِ مستقیم پر قائم ہے۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ گونگے ناکارہ غلام سے بتوں کو تشبیہ دی گئی اور انصاف کا حکم دینے میں شانِ الٰہی کا بیان ہے ،اس صورت میں معنی یہ ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ بتوں کو شریک کرنا باطل ہے۔ کیونکہ انصاف قائم کرنے والے بادشاہ کے ساتھ گونگے اور ناکارہ غلام کو کیا نسبت۔( جلالین، النحل، تحت الآیۃ: ۷۶، ص۲۲۳، مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۷۶، ص۶۰۳، خزائن العرفان، النحل، تحت الآیۃ: ۷۶، ص۵۱۳، ملتقطاً)
وَ لِلّٰهِ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-وَ مَاۤ اَمْرُ السَّاعَةِ اِلَّا كَلَمْحِ الْبَصَرِ اَوْ هُوَ اَقْرَبُؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(77)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور آسمانوں اور زمین کی چھپی چیزوں کا علم اللہ ہی کو ہے اور قیامت کا معاملہ صرف ایک پلک جھپکنے کی طرح ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ قریب ہے ۔بیشک اللہ ہر شے پر قادر ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لِلّٰهِ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ:اورآسمانوں اور زمین کی چھپی چیزوں کا علم اللّٰہ ہی کے لیے ہے۔} اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ کے علم اور قدرت کے کمال کا بیان ہے ۔علم کے کمال کا بیان آیت کے اس حصے میں ہے’’وَ لِلّٰهِ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ‘‘ یعنی اللّٰہ تعالیٰ ہی تمام غیبوں کا جاننے والا ہے اور اس پر کوئی چیزپوشیدہ نہیں رہ سکتی ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ اس سے مراد قیامت کا علم ہے ۔ قدرت کے کمال کابیان آیت کے اس حصے میں ہے ’’ وَ مَاۤ اَمْرُ السَّاعَةِ اِلَّا كَلَمْحِ الْبَصَرِ اَوْ هُوَ اَقْرَبُ‘‘یعنی قیامت قائم کرنے کا معاملہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی قدرت میں صرف ایک پلک جھپکنے کی طرح ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ قریب ہے کیونکہ پلک مارنا بھی زمانہ چاہتا ہے جس میں پلک کی حرکت حاصل ہو اور اللّٰہ تعالیٰ جس چیز کا ہونا چاہے وہ کُنْ فرماتے ہی ہوجاتی ہے۔( تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۷۷، ۷ / ۲۴۹-۲۵۰، خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۷۷، ۳ / ۱۳۶، ملتقطاً)
وَ اللّٰهُ اَخْرَجَكُمْ مِّنْۢ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَیْــٴًـاۙ-وَّ جَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ الْاَفْـٕدَةَۙ-لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(78)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے اس حال میں پیدا کیا کہ تم کچھ نہ جانتے تھے اور اس نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر گزار بنو۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اللّٰهُ اَخْرَجَكُمْ:اور اللّٰہ نے تمہیں پیدا کیا ۔} اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی قدرت پر دلالت کرنے والے مزید مَظاہِر بیان فرمائے، اور وہ یہ کہ اللّٰہ تعالیٰ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے اس حال میں پیدا کیا کہ تم کچھ نہ جانتے تھے اور اپنی پیدائش کی ابتداء اور اوّل فِطرت میں علم و معرفت سے خالی تھے، پھر اللّٰہ تعالیٰ نے تمہارے کان ، آنکھیں اور دل بنائے، یہ حواس ا س لئے عطا کیے تا کہ تم ان سے اپنا پیدائشی جہل دور کرو اور تم شکر گزار بنو، علم و عمل سے فیض یاب ہو جاؤ اور یہ حواس اس لئے عطا کئے تاکہ تم نعمتیں عطا کرنے والے کا شکر بجالاؤ اور اس کی عبادت میں مشغول ہوجاؤ اور اس کی نعمتوں کے حقوق ادا کرو۔( مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۷۸، ص۶۰۴، خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۷۸، ۳ / ۱۳۶، ملتقطاً) لہٰذا ہر عضو کا ’’شکر‘‘ یہ ہے کہ اسے اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت میں لگایا جائے اور ناشکری یہ ہے کہ اس عضو کو اللّٰہ تعالیٰ کی نافرمانی میں استعمال کیا جائے۔
اَلَمْ یَرَوْا اِلَى الطَّیْرِ مُسَخَّرٰتٍ فِیْ جَوِّ السَّمَآءِؕ-مَا یُمْسِكُهُنَّ اِلَّا اللّٰهُؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ(79)
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا انہوں نے پرندوں کی طرف نہ دیکھا جو آسمان کی فضا میں (اللہ کے) حکم کے پابند ہیں ۔ انہیں (وہاں ) اللہ کے سوا کوئی نہیں روکتا ۔بیشک اس میں ایمان والوں کیلئے نشانیاں ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَمْ یَرَوْا اِلَى الطَّیْرِ: کیا انہوں نے پرندوں کی طرف نہ دیکھا ۔} اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے پرندوں کی پرواز سے اپنی قدرت پر اِستدلال فرمایا ۔چنانچہ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کیالوگوں نے پرندوں کی طرف نہ دیکھا جو آسمان کی فضا میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم کے پابند ہیں ۔ انہیں ہوا میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی گرنے سے نہیں روکتا حالانکہ بھاری جسم اپنی طبیعت کے اعتبار سے گرنا چاہتا ہے لیکن اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے پرندوں میں یہی نظام بنایا ہوا ہے۔ اس میں ایمان والوں کیلئے نشانیاں ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ نے پرندوں کوایسا پیدا کیا کہ وہ ہوا میں پرواز کرسکتے ہیں اور اپنے بھاری جسم کی طبیعت کے برخلاف ہوا میں ٹھہرے رہتے ہیں ، گرتے نہیں اور ہوا کو ایسا پیدا کیا کہ اس میں اُن کی پرواز ممکن ہے۔ ایماندار اس میں غور کرکے قدرتِ الٰہی کا اعتراف کرتے ہیں۔(تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۷۹، ۷ / ۲۵۲، جلالین، النحل، تحت الآیۃ: ۷۹، ص۲۲۳، روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۷۹، ۵ / ۶۴، ملتقطاً)
ہوائی جہاز کی پرواز کے ذریعے اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت پر اِستدلال:
اس آیت میں پرندوں کی پرواز کے ذریعے اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت پر استدلال کیاگیا ہے اور اگر لوگ چاہیں تو فی زمانہ پرندوں سے کہیں بڑی اور ان سے انتہائی وزنی چیز ہوائی جہاز کے ذریعے بھی اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت پر دلیل حاصل کر سکتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو ایسی عقل ،سمجھ اور قدرت دی کہ اس نے ایسی چیز بنا لی جو ٹنوں کے حساب سے وزنی ہے اور بڑی اتنی ہے کہ سینکڑوں انسانوں کو اپنے اندر سمو لیتی ہے اور پھر اپنے وزن، سینکڑوں انسانوں اور ان کے ساز و سامان کے وزن کے ساتھ گھنٹوں ہوا میں پرواز بھی کر لیتی ہے اور اس کا یہ پرواز کرنا بظاہر اگرچہ مشینی آلات کی وجہ سے ہے لیکن در حقیقت یہ اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت اور اسی کے اثر سے ہوا میں مَحوِ پرواز ہے کیونکہ ہوا کو پرواز کے قابل اللّٰہ تعالیٰ نے بنایا ہے کسی انسان نے نہیں بنایا، یونہی ہوائی جہاز بھی انسان نے اللّٰہ تعالیٰ کی دی ہوئی عقل،سمجھ اور قدرت سے بنایا ہے، از خود کوئی کہاں اس قابل تھا کہ ایسی چیز بنا سکے۔
وَ اللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْۢ بُیُوْتِكُمْ سَكَنًا وَّ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ جُلُوْدِ الْاَنْعَامِ بُیُوْتًا تَسْتَخِفُّوْنَهَا یَوْمَ ظَعْنِكُمْ وَ یَوْمَ اِقَامَتِكُمْۙ-وَ مِنْ اَصْوَافِهَا وَ اَوْبَارِهَا وَ اَشْعَارِهَاۤ اَثَاثًا وَّ مَتَاعًا اِلٰى حِیْنٍ(80)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اللہ نے تمہارے گھروں کو تمہاری رہائش بنایا اور اس نے تمہارے لیے جانوروں کی کھالوں سے کچھ گھر بنائے جنہیں تم اپنے سفر کے دن اور اپنے قیام کے دن بڑا ہلکا پھلکا پاتے ہو اور بھیڑوں کی اُون اور اونٹوں کی پشم اور بکریوں کے بالوں سے گھریلوسامان اور ایک مدت تک فائدہ اٹھانے کے اسباب بنائے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْۢ بُیُوْتِكُمْ سَكَنًا: اور اللّٰہ نے تمہارے گھروں کو تمہاری رہائش بنایا۔}اِس آیت میں بھی اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیت کے دلائل اور بندوں پر اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔( تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۸۰، ۷ / ۲۵۲) آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے تمہاری رہائش کیلئے اینٹوں اور پتھروں سے تمہارے گھروں کو بنایا جن میں تم آرام کرتے ہو اور اس نے تمہارے لیے جانوروں کی کھالوں سے خیموں کی شکل میں کچھ گھر بنائے جنہیں تم اپنے سفر کے دنوں میں اٹھاکر چلتے وقت اور منزلوں پر قیام کے وقت لگانے کیلئے بڑا ہلکا پھلکا پاتے ہو اور اسی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے تمہارے لئے بھیڑوں کی اُون، اونٹوں کی پشم اور بکریوں کے بالوں سے گھریلو سامان مثلاً بچھانے ، اوڑھنے کی چیزیں اور ایک مدت تک فائدہ اٹھانے کے اَسباب بنائے۔( جلالین، النحل، تحت الآیۃ: ۸۰، ص۲۲۳، خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۸۰، ۳ / ۱۳۶-۱۳۷، ملتقطاً)
وَ اللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّمَّا خَلَقَ ظِلٰلًا وَّ جَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الْجِبَالِ اَكْنَانًا وَّ جَعَلَ لَكُمْ سَرَابِیْلَ تَقِیْكُمُ الْحَرَّ وَ سَرَابِیْلَ تَقِیْكُمْ بَاْسَكُمْؕ-كَذٰلِكَ یُتِمُّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْلِمُوْنَ(81)فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْكَ الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ(82)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اللہ نے تمہیں اپنی بنائی ہوئی چیزوں سے سائے دیئے اور تمہارے لیے پہاڑوں میں چھپنے کی جگہیں بنائیں اور تمہارے لیے کچھ پہننے کے لباس بنائے جو تمہیں گرمی سے بچائیں اور کچھ لباس بنائے جو لڑائی کے وقت تمہاری حفاظت کرتے ہیں ۔ اللہ اسی طرح تم پر اپنی نعمت پوری کرتا ہے تاکہ تم اسلام لے آؤ۔ پھر اگر وہ منہ پھیریں تو اے حبیب! تم پر صرف صاف صاف تبلیغ کردینا لازم ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّمَّا خَلَقَ ظِلٰلًا:اور اللّٰہ نے تمہیں اپنی بنائی ہوئی چیزوں سے سائے دیئے۔} یعنی اے لوگو! تم پر اللّٰہ تعالیٰ کی یہ نعمتیں بھی ہیں کہ اس نے تمہیں اپنی بنائی ہوئی چیزوں مکانوں دیواروں چھتوں درختوں اور بادل وغیرہ سے سائے دیئے جس میں تم آرام کرکے گرمی کی شدت سے بچتے ہو اور تمہارے لیے پہاڑوں میں غار وغیرہ چھپنے کی جگہیں بنائیں تاکہ امیر وغریب سب ان میں آرام کرسکیں اور تمہارے پہننے کے لیے کچھ لباس ایسے بنائے جو تمہیں گرمی، سردی سے بچاتے ہیں اور کچھ لباس جیسے زرہ اور بازو بند وغیرہ ایسے بنائے جو لڑائی کے وقت تمہاری حفاظت کرتے ہیں اور تیر، تلوار، نیزے وغیرہ سے تمہارے بچاؤ کا سامان ہوتے ہیں ۔ اے لوگو! جس طرح اللّٰہ تعالیٰ نے تمہارے لئے یہ چیزیں پیدا فرمائیں اسی طرح دنیا میں تمہاری ضروریات کا سامان پیدا فرما کر وہ تم پر اپنی نعمت پوری کرتا ہے تاکہ تم اس کی اطاعت کرواور اس کی نعمتوں کا اعتراف کرکے اسلام لاؤ اور دین ِبرحق قبول کرلو۔( جلالین، النحل، تحت الآیۃ: ۸۱، ص۲۲۳-۲۲۴، خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۸۱، ۳ / ۱۳۶-۱۳۷، مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۸۱، ص۶۰۴-۶۰۵، روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۸۱، ۵ / ۶۷، ملتقطاً)
{فَاِنْ تَوَلَّوْا:پھر اگر وہ منہ پھیریں ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر کفار ِمکہ آپ پر ایمان لانے اور آپ کی تصدیق کرنے سے اعراض کریں اور اپنے کفر پر ہی جمے رہیں تو آپ غمزدہ نہ ہوں ، آپ پر صرف صاف صاف تبلیغ کردینا لازم ہے اور جب آپ نے ان تک اللّٰہ تعالیٰ کا پیغام پہنچادیا تو آپ کا کام پورا ہوچکا اوراب نہ ماننے کا وبال اُن کی گردن پر ہے۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۸۲، ۳ / ۱۳۷، ملخصاً)
یَعْرِفُوْنَ نِعْمَتَ اللّٰهِ ثُمَّ یُنْكِرُوْنَهَا وَ اَكْثَرُهُمُ الْكٰفِرُوْنَ(83)
ترجمہ: کنزالعرفان
وہ اللہ کی نعمت کو پہچانتے ہیں پھر اس کاانکار کردیتے ہیں اور ان میں اکثر کافر ہی ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{یَعْرِفُوْنَ نِعْمَتَ اللّٰهِ:وہ اللّٰہ کی نعمت کو پہچانتے ہیں ۔} یعنی جو نعمتیں ا س سورت میں ذکر کی گئیں کفارِ مکہ اُن سب کو پہچانتے ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ سب اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ہیں پھر بھی اس کاشکر بجا نہیں لاتے۔ مشہور مفسر سُدِّی کا قول ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی نعمت سے سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مراد ہیں ۔ اس صورت میں آیت کے معنی یہ ہیں کہ وہ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو پہچانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ آپ کا وجود اللّٰہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے اور اس کے باوجود پھر اس نعمت کاانکار کردیتے ہیں یعنی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان نہیں لاتے اور اس طرح ان میں اکثر کافر ہی ہیں اور وہ دینِ اسلام قبول نہیں کرتے۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۸۳، ۳ / ۱۳۸، مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۸۳، ص۶۰۵، خزائن العرفان، النحل، تحت الآیۃ: ۸۳، ص۵۱۵، ملتقطاً)
وَ یَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِیْدًا ثُمَّ لَا یُؤْذَنُ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ لَا هُمْ یُسْتَعْتَبُوْنَ(84)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور یاد کروجس دن ہم ہر امت سے ایک گواہ اٹھائیں گے پھر کافروں کو اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ ان سے رجوع کرنا،طلب کیا جائے گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یَوْمَ نَبْعَثُ:اور یاد کروجس دن ہم اٹھائیں گے۔} اس سے پہلی آیتوں میں اللّٰہ تعالیٰ نے کفار کے بارے میں بیان فرمایا کہ انہوں نے اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں کو پہچاننے کے باوجود ان کا انکار کر دیا، اور یہ بھی بیان فرمایا کہ ان میں سے اکثر کافر ہیں جبکہ ان آیتوں میں اللّٰہ تعالیٰ نے ان کفار پر عذاب کی وعید اور قیامت کے دن ان کا جو حال ہو گا اسے بیان فرمایا۔ آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ جب قیامت کے دن ہم ہر امت سے ایک گواہ اٹھائیں گے جو اُن کی تصدیق و تکذیب اور ایمان و کفر کی گواہی دے گا اور یہ گواہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں ، پھر کافروں کومعذرت کرنے کی یا کسی کلام کی یا دنیا کی طرف لوٹنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ ا س دن انہیں ا س بات کا مُکَلَّف کیا جائے گا کہ وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو راضی کریں کیونکہ آخرت عمل کرنے کی جگہ نہیں ۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۸۴، ۳ / ۱۳۸، مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۸۴، ص۶۰۵، ملتقطاً)
وَ اِذَا رَاَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا الْعَذَابَ فَلَا یُخَفَّفُ عَنْهُمْ وَ لَا هُمْ یُنْظَرُوْنَ(85)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ظلم کرنے والے جب عذاب دیکھیں گے تو ان سے نہ عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ ہی انہیں مہلت دی جائے گی۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذَا رَاَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا الْعَذَابَ:اور ظلم کرنے والے جب عذاب دیکھیں گے۔}یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کو جھٹلانے والے اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کا انکار کرنے والے اور وہ لوگ جو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قوم کی روش اختیار کئے ہوئے ہیں ، جب وہ عذاب دیکھیں گے توکوئی چیز انہیں اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات نہ دے سکے گی کیونکہ انہیں کلام کرنے کی اجازت نہ ہو گی کہ کوئی عذر بیان کر سکیں اور ان سے عذاب ہلکاہو جائے اور نہ ہی انہیں مہلت دی جائے گی کیونکہ توبہ کا وقت ختم ہو چکا، یہاں صرف اعمال کی جزا ملے گی۔( تفسیرطبری، النحل، تحت الآیۃ: ۸۵، ۷ / ۶۳۱)
وَ اِذَا رَاَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا شُرَكَآءَهُمْ قَالُوْا رَبَّنَا هٰۤؤُلَآءِ شُرَكَآؤُنَا الَّذِیْنَ كُنَّا نَدْعُوْا مِنْ دُوْنِكَۚ-فَاَلْقَوْا اِلَیْهِمُ الْقَوْلَ اِنَّكُمْ لَكٰذِبُوْنَ(86)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور مشرک جب اپنے شریکوں کو دیکھیں گے تو کہیں گے: اے ہمارے رب! یہ ہمارے وہ شریک ہیں جن کی ہم تیرے سوا عبادت کیا کرتے تھے تو وہ ان کی طرف (اپنی)بات پھینک دیں گے کہ تم بیشک جھوٹے ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذَا رَاَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا شُرَكَآءَهُمْ:اورمشرک جب اپنے شریکوں کو دیکھیں گے۔} یعنی جب اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے والے قیامت کے دن بتوں وغیرہ ان چیزوں کو دیکھیں گے جن کی عبادت کیا کرتے تھے تو وہ اس وقت کہیں گے’’ اے ہمارے رب! یہ ہمارے وہ شریک ہیں جن کی ہم تیرے سوا عبادت کیا کرتے تھے۔وہ شریک کہیں گے ’’اے مشرکو! بے شک تم جھوٹے ہو ، ہم نے تمہیں اپنی عبادت کی دعوت نہیں دی تھی۔( تفسیرطبری، النحل، تحت الآیۃ: ۸۶، ۷ / ۶۳۱)
وَ اَلْقَوْا اِلَى اللّٰهِ یَوْمَىٕذِ ﹰالسَّلَمَ وَ ضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ(87)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور وہ مشرک اس دن اللہ کی طرف صلح کی پیشکش کریں گے اور ان کی خود ساختہ باتیں ان سے گم ہوجائیں گی ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اَلْقَوْا اِلَى اللّٰهِ یَوْمَىٕذِ ﹰالسَّلَمَ:اور وہ مشرک اس دن اللّٰہ کی طرف صلح کی پیشکش کریں گے۔} مشرکین دنیا میں اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت اورفرمانبرداری سے منہ موڑ تے رہے جبکہ قیامت کے دن وہ اللّٰہ تعالیٰ کے فرمانبردار ہونا چاہیں گے لیکن یہ فرمانبرداری انہیں کوئی نفع نہ دے گی اورجب مشرکوں کے معبود انہیں جھوٹا قرار دے کر ان سے اپنی براء ت کا اظہار کریں گے تواس وقت مشرکین کی من گھڑت باتیں کہ یہ معبود اُن کے مددگار ہیں اور ان کی شفاعت کریں گے، بے کار اور باطل ہوجائیں گی ۔( جلالین مع صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۸۷، ۳ / ۱۰۸۵، مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۸۷، ص۶۰۵، ملتقطاً)
اَلَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ صَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ زِدْنٰهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوْا یُفْسِدُوْنَ(88)
ترجمہ: کنزالعرفان
جنہوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا ہم ان کے فساد کے بدلے میں عذاب پر عذاب کا اضافہ کردیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَّذِیْنَ كَفَرُوْا:جنہوں نے کفر کیا۔} اس سے پہلی آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے ان کافروں کی وعید بیان فرمائی جنہوں نے صرف خود کفر کیا جبکہ ا س آیت میں ان کافروں کی وعید بیان فرمائی جو خود بھی کافر تھے اور دوسروں کو اللّٰہ تعالیٰ کے راستے سے روک کر(اور گمراہ کر کے) انہیں کافر بناتے تھے۔( تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۸۸، ۷ / ۲۵۷) آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جن لوگوں نے آپ کی نبوت کا انکار کیا اور جو آپ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے پاس سے لائے، اسے جھٹلایا اور لوگوں کو اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے سے روکا تو ہم قیامت کے دن جہنم میں انہیں اس عذاب سے زیادہ عذاب دیں گے جس کے وہ صرف اپنے کفر کی وجہ سے حقدار ہوئے تھے۔ انہیں دگنا عذاب اس لئے ہو گا کہ دنیا میں یہ خود بھی اللّٰہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے تھے اور دوسرے لوگوں کو اللّٰہ تعالیٰ کی نافرمانی کا حکم دیتے تھے۔( تفسیرطبری، النحل، تحت الآیۃ: ۸۸، ۷ / ۶۳۲-۶۳۳)
گمراہ گر کوزیادہ عذاب ہوگا:
اس سے معلوم ہوا کہ گمراہ گر کا عذاب گمراہ سے زیادہ ہے کیونکہ اس کا جرم بھی زیادہ ہے ایک تو خود گمراہ ہونا اور دوسرا، دوسروں کو گمراہ کرنا۔ یہ جتنوں کو گمراہ کرے گا اتنے ہی لوگوں کا عذاب اِسے دیا جائے گا، چنانچہ اس کی آگ زیادہ تیز ہوگی، اس کے سانپ بچھو زیادہ زہریلے اور تمام دوزخیوں کا خون و پیپ اس کی غذا ہوگی۔
وَ یَوْمَ نَبْعَثُ فِیْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِیْدًا عَلَیْهِمْ مِّنْ اَنْفُسِهِمْ وَجِئْنَا بِكَ شَهِیْدًا عَلٰى هٰۤؤُلَآءِؕ-وَ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ تِبْیَانًا لِّكُلِّ شَیْءٍ وَّ هُدًى وَّ رَحْمَةً وَّ بُشْرٰى لِلْمُسْلِمِیْنَ(89)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جس دن ہم ہر امت میں انہیں میں سے ان پر ایک گواہ اٹھائیں گے اور اے حبیب! تمہیں ان سب پر گواہ بناکر لائیں گے اور ہم نے تم پر یہ قرآن اتارا جو ہر چیز کا روشن بیان ہے اور مسلمانوں کیلئے ہدایت اور رحمت اور بشارت ہے
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یَوْمَ نَبْعَثُ فِیْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِیْدًا عَلَیْهِمْ:اور جس دن ہم ہر امت میں ان پر ایک گواہ اٹھائیں گے۔} اس آیت میں گواہ سے مراد انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں، یہ قیامت کے دن اپنی اپنی امتوں کے متعلق گواہی دیں گے کہ انہوں نے اللّٰہ تعالیٰ کا پیغام ان تک پہنچایا اوراِن لوگوں کو ایمان قبول کرنے کی دعوت دی۔( قرطبی، النحل، تحت الآیۃ: ۸۹، ۵ / ۱۲۰، الجزء العاشر)
{ وَجِئْنَا بِكَ شَهِیْدًا عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ:اور اے محبوب! تمہیں ان سب پر گواہ بناکر لائیں گے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم تمہیں اُمتوں اور ان کے خلاف گواہی دینے والے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر گواہ بنا کر لائیں گے جیسا کہ دوسری آیت میں ارشاد ہوا
’’فَكَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۭ بِشَهِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ شَهِیْدًا‘‘(نساء:۴۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو کیسا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور اے حبیب! تمہیں ان سب پر گواہ اور نگہبان بناکر لائیں گے۔( ابوسعو د، النحل، تحت الآیۃ: ۸۹، ۳ / ۲۸۷، روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۸۹، ۵ / ۶۹، ملتقطاً)
{تِبْیَانًا لِّكُلِّ شَیْءٍ:جو ہر چیز کا روشن بیان ہے۔} اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’قرآن عظیم گواہ ہے اور ا س کی گواہی کس قدر اعظم ہے کہ وہ ہر چیز کا تِبیان ہے اور تبیان اس روشن اور واضح بیان کو کہتے ہیں جو اصلاً پوشیدگی نہ رکھے کہ لفظ کی زیادتی معنی کی زیادتی پر دلیل ہوتی ہے اور بیان کے لئے ایک تو بیان کرنے والا چاہئے، وہ اللّٰہ سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی ہے اور دوسرا وہ جس کے لئے بیان کیا جائے اور وہ وہ ہیں جن پر قرآن اترا(یعنی) ہمارے سردار رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ۔اور اہلِ سنت کے نزدیک ’’شَیْءٍ‘‘ ہر موجود کو کہتے ہیں تو اس میں جملہ موجودات داخل ہو گئے ،فرش سے عرش تک، شرق سے غرب تک، ذاتیں اور حالتیں ، حرکات اور سکنات، پلک کی جنبشیں اور نگاہیں ، دلوں کے خطرے اور ارادے اور ان کے سوا جو کچھ ہے (وہ سب اس میں داخل ہو گیا) اور انہیں موجودات میں سے لوحِ محفوظ کی تحریر ہے، تو ضروری ہے کہ قرآنِ عظیم میں ان تمام چیزوں کابیان روشن اور تفصیل کامل ہو اور یہ بھی ہم اسی حکمت والے قرآن سے پوچھیں کہ لوح میں کیا کیا لکھا ہوا ہے۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے
’’ كُلُّ صَغِیْرٍ وَّ كَبِیْرٍ مُّسْتَطَرٌ‘‘(قمر:۵۳)
(ترجمۂ کنزُالعِرفان:ہر چھوٹی اور بڑی چیز لکھی ہوئی ہے۔)
اور فرماتا ہے
’’ وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ‘‘(یس:۱۲)
(ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور ایک ظاہر کردینے والی کتاب (لوحِ محفوظ) میں ہر چیز ہم نے شمار کررکھی ہے۔)
اور فرماتا ہے
’’وَ لَا حَبَّةٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَ لَا رَطْبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ‘‘(انعام:۵۹)
(ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور نہ ہی زمین کی تاریکیوں میں کوئی دانہ ہے مگر وہ ان سب کو جانتا ہے۔ اور کوئی تر چیز نہیں اور نہ ہی خشک چیز مگر وہ ایک روشن کتاب میں ہے۔)
اور بے شک صحیح حدیثیں فرما رہی ہیں کہ روزِ اول سے آخر تک جو کچھ ہوا اور جو کچھ ہو گا سب لوحِ محفوظ میں لکھا ہے بلکہ یہاں تک ہے کہ جنت و دوزخ والے اپنے ٹھکانے میں جائیں ،اور وہ جو ایک حدیث میں فرمایا کہ ابد تک کا سب حال اس میں لکھا ہے اس سے بھی یہی مراد ہے ،اس لئے کہ کبھی ابد بولتے ہیں اور اس سے آئندہ کی مدتِ طویل مراد لیتے ہیں جیسا کہ بیضاوی میں ہے، ورنہ غیر مُتناہی چیز کی تفصیلیں متناہی چیز نہیں اٹھا سکتی ،جیسا کہ پوشیدہ نہیں اور اسی کو مَاکَانَ وَمَا یَکُوْنُ کہتے ہیں ، اور بے شک علمِ اصول میں بیان کر دیا گیا کہ نکرہ مقامِ نفی میں عام ہوتا ہے تو جائز نہیں کہ اپنی کتاب میں اللّٰہ تعالیٰ نے کوئی چیز بیان سے چھوڑ دی ہو اور’’ كُل ‘‘ کا لفظ تو عموم پر ہر نص سے بڑھ کر نص ہے تو روا نہیں کہ روشن بیان اور تفصیل سے کوئی چیز چھوٹ گئی ہو۔( الدولۃ المکیہ بالمادۃ الغیبیہ، النظر الخامس فی الدلائل المدعی من الاحادیث والاقوال والآیات، ۷۵-۸۳)
قرآنِ کریم تمام علوم کی جامع کتاب ہے:
آیت کے اس حصے
’’ تِبْیَانًا لِّكُلِّ شَیْءٍ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان:قرآن ہر چیز کا روشن بیان ہے۔
نیز ایک اور آیت کے اس حصے
’’مَا فَرَّطْنَا فِی الْكِتٰبِ مِنْ شَیْءٍ‘‘(انعام:۳۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: ہم نے اس کتاب میں کسی شے کی کوئی کمی نہیں چھوڑی۔
سے معلوم ہوا کہ قرآنِ مجید وہ عظیم الشان کتاب ہے جو تمام علوم کی جامع ہے ، اور یہی بات اَحادیث اور بزرگانِ دین کے اَقوال میں بھی بیان کی گئی ہے ،چنانچہ ترمذی کی حدیث میں ہے، سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پیش آنے والے فتنوں کی خبر دی تو صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے اُن سے خلاصی کاطریقہ دریافت کیا۔ نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اللّٰہ کی کتاب، جس میں تم سے پہلے واقعات کی بھی خبر ہے ،تم سے بعد کے واقعات کی بھی اور تمہارے آپس کے فیصلے بھی ہیں۔( ترمذی، کتاب فضائل القرآن، باب ما جاء فی فضل القرآن، ۴ / ۴۱۴، الحدیث: ۲۹۱۵)
حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’جو علم چاہے وہ قرآن کو لازم کرلے کیونکہ اس میں اَوّلین و آخرین کی خبریں ہیں ۔( مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الاوائل، باب اول ما ومن فعلہ، ۸ / ۳۳۷، الحدیث: ۱۰۷)
امام شافعی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ اُمت کے سارے علوم حدیث کی شرح ہیں اور حدیث قرآن کی اور یہ بھی فرمایا کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جو کوئی حکم بھی فرمایا وہ وہی تھا جو آپ کو قرآنِ پاک سے مفہوم ہوا۔( الاتقان فی علوم القرآن، النوع الخامس والستون فی العلوم المستنبطۃ من القرآن، ۲ / ۴۷۶)
حضرت ابوبکر بن مجاہد رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے منقول ہے انہوں نے ایک روز فرمایا کہ عالَم میں کوئی چیز ایسی نہیں جو کتابُ اللّٰہ یعنی قرآن شریف میں مذکور نہ ہو۔ اس پر کسی نے اُن سے کہا: سَراؤں کا ذکر کہاں ہے: آپ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا اس آیت ’’ لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ مَسْكُوْنَةٍ فِیْهَا مَتَاعٌ لَّكُمْ(اس بارے میں تم پر کچھ گناہ نہیں کہ ان گھروں میں جاؤ جو خاص کسی کی رہائش نہیں جن میں تمہیں نفع اٹھانے کا اختیار ہے۔)‘‘ (النور:۲۹) میں ہے۔ ( الاتقان فی علوم القرآن، النوع الخامس والستون فی العلوم المستنبطۃ من القرآن، ۲ / ۴۷۷)
ابن ابوالفضل مرسی نے کہا کہ اَوّلین و آخرین کے تمام علوم قرآنِ پاک میں ہیں ۔( روح المعانی، النحل، تحت الآیۃ: ۸۹، ۷ / ۶۰۸) غرض یہ کتاب جمیع علوم کی جامع ہے اور جس کسی کو اس کاجتنا علم ملا ہے وہ اتنا ہی جانتا ہے۔
نوٹ: اس آیتِ مبارکہ سے متعلق مزید تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی عظیم الشان تصنیف ’’اِنْبَاءُ الْحَیْ اَنَّ کَلَامَہُ الْمَصُوْنْ تِبْیَانٌ لِکُلِّ شَیْءْ‘‘(قرآن ہر چیز کا بیان ہے) کا مطالعہ فرمائیں ۔
{هُدًى وَّ رَحْمَةً:ہدایت اور رحمت۔} یعنی جس نے قرآن کی تصدیق کی ،اس میں موجود اللّٰہ تعالیٰ کی حدوں پر اور اَمر و نہی پر عمل کیا، قرآن نے جن چیزوں کو حلال کیا اسے حلال سمجھا اور جن چیزوں کو حرام کیا انہیں حرام جانا تو اس کے لئے قرآن ہدایت اور رحمت ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والے اوراس کی وحدانیت کا اقرار کرنے والے کو قرآن آخرت میں بہترین ثواب اور عظیم مرتبے کی بشارت دیتا ہے۔( تفسیر طبری، النحل، تحت الآیۃ: ۸۹، ۷ / ۶۳۳)
اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِۚ-یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ(90)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک اللہ عدل اور احسان اور رشتے داروں کو دینے کا حکم فرماتا ہے اور بے حیائی اور ہر بری بات اور ظلم سے منع فرماتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ:بیشک اللّٰہ عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے۔}عدل اور انصاف کا (عام فہم) معنی یہ ہے کہ ہر حق دار کو اس کا حق دیاجائے اور کسی پر ظلم نہ کیا جائے ، اسی طرح عقائد، عبادات اور معاملات میں اِفراط و تفریط سے بچ کر درمیانی راہ اختیار کرنا بھی عدل میں داخل ہے جیسے بندہ نہ تو دہریوں کی طرح اللّٰہ تعالیٰ کے وجود کا انکار کرے اور نہ مشرکوں کی طرح اللّٰہ تعالیٰ کو شریک ٹھہرانے لگے بلکہ اسے چاہئے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کو موجود، واحد اور لاشریک مانے، اسی طرح نہ تو یہ نظریَہ رکھے کہ اللّٰہ تعالیٰ مومن بندے کے کسی گناہ کا مُؤاخذہ نہیں فرمائے گا اور نہ ہی یہ عقیدہ رکھے کہ کبیرہ گناہ کرنے والا ہمیشہ جہنم میں رہے گا بلکہ یہ عقیدہ رکھے کہ گنہگار مسلمان کا معاملہ اللّٰہ تعالیٰ کی مَشِیَّت پر مَوقوف ہے وہ چاہے تواسے سزا دے اور چاہے تو اسے معاف کر دے اور کبیرہ گناہ کرنے والا مسلمان ہے، وہ اگر جہنم میں گیا تو ہمیشہ جہنم میں نہ رہے گا بلکہ اپنے گناہوں کی سزا پوری ہونے کے بعد جنت میں داخل ہو گا۔ یونہی بندہ عبادات میں اس قدر مصروف نہ ہو جائے کہ اس وجہ سے بیوی بچوں ، عزیز رشتہ داروں، پڑوسیوں اور دیگر لوگوں کے شرعی حقوق ہی ادا نہ کر سکے اور نہ عبادات سے اس قدر غافل ہو کہ فرائض و واجبات ہی ترک کرنا شروع کر دے بلکہ فرائض و واجبات اور سُنَن کی ادائیگی تو ضرور کرے البتہ نفلی عبادت و ریاضت اتنی کرے کہ اس کے ساتھ ساتھ وہ لوگوں کے شرعی حقوق بھی آسانی کے ساتھ ادا کر سکے ، ایسے ہی سخاوت کرنا بہت عمدہ فعل ہے لیکن یہ نہ اتنی کم ہو کہ بندہ بخل کے دائرے میں داخل ہوجائے اور نہ ہی اتنی زیادہ ہو کہ وہ فضول خرچی میں شامل ہو جائے بلکہ ان دونوں کے درمیان ہو۔( روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۹۰، ۵ / ۷۰-۷۱، ملخصاً)
مفسرین نے عدل اور احسان کے اور معنی بھی بیان فرمائے ہیں ، چنانچہ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ عدل یہ ہے کہ آدمی لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہ کی گواہی دے اور احسان فرائض کو ادا کرنے کا نام ہے۔
آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ہی سے ایک اور روایت ہے کہ عدل شرک کو ترک کرنے کا نام ہے اور احسان یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کرنا گویا وہ تمہیں دیکھ رہا ہے اور دوسروں کے لئے وہی پسند کرنا جو اپنے لئے پسند کرتے ہو مثلاً اگر وہ مومن ہو تو اُس کے ایمان کی برکات کی ترقی تمہیں پسند ہو اور اگر وہ کافر ہو تو تمہیں یہ پسند آئے کہ وہ تمہارا مسلمان بھائی ہوجائے۔
حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے ایک اور روایت میں ہے کہ عدل توحیدکا اور احسان اِخلاص کا نام ہے۔(خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۹۰، ۳ / ۱۳۹، ملخصاً)ان تمام روایتوں کا طرزِ بیان اگرچہ جدا جدا ہے لیکن مقصود ایک ہی ہے۔
اور حضرت سفیان بن عُیَیْنَہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ’’عدل یہ ہے کہ تمہارا ظاہر اور باطن دونوں (اطاعت اور فرمانبرداری میں ) برابر ہو اور احسان یہ ہے کہ باطن کا حال ظاہر سے بہتر ہو۔(خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۹۰، ۳ / ۱۳۹)
ابو عبداللّٰہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ابنِ عربی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں : عدل کی ایک قسم وہ ہے جس کا تعلق بندے اور ا س کے رب کے درمیان ہے، اس کی مثال یہ ہے کہ بندہ اپنے نفس کے مطالبے پر اپنے رب تعالیٰ کے حق کو ترجیح دے، اپنی خواہشات پر اس کی رضا کو مقدم کرے ، گناہوں سے اِجتناب کرے اور نیک اعمال بجا لائے۔ عدل کی دوسری قسم وہ ہے جس کا تعلق بندے اور ا س کے نفس کے درمیان ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ بندہ اپنے نفس کو ان چیزوں سے روکے جس میں ا س کی ہلاکت ہے، پیروی کرنے والے سے اپنی طمع ختم کر دے اور ہر حال میں قناعت کو اپنے اوپر لازم کر لے۔ عدل کی تیسری قسم وہ ہے جس کا تعلق بندے اور مخلوق کے درمیان ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ بندہ لوگوں کو خوب نصیحت کرے،قلیل و کثیر ہر چیز میں خیانت کرنا چھوڑ دے، ہر صورت میں لوگوں کے ساتھ انصاف کرے، اس کی طرف سے کسی کو بھی قول سے، فعل سے، پوشیدہ یا اِعلانیہ کوئی برائی نہ پہنچے اورلوگوں کی طرف سے اِس پر جو مصیبت اور آزمائش آئے اُس پر صبر کرے۔(تفسیرقرطبی، النحل، تحت الآیۃ: ۹۰،۵ / ۱۲۱، الجزء العاشر)
عدل اور احسان دونوں پر عمل کیا جائے:
ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ دنیا اور آخرت دونوں کے اُمور میں عدل اور احسان دونوں سے کام لے اور صرف عدل کرنے پر اِکتفا نہ کرے ۔چنانچہ اسی بات کو سمجھاتے ہوئے امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اللّٰہ تعالیٰ نے عدل و احسان دونوں کا حکم دیا ہے اور عدل ہی نجات کاباعث ہے اور تجارت میں وہ مالِ تجارت کی طرح (ضروری) ہے اور احسان کامیابی اور خوش بختی کا سبب ہے اور تجارت میں یہ نفع کی طرح ہے لہٰذا وہ آدمی عقل مند لوگوں میں شمار نہیں ہوتا جو دُنْیوی معاملات میں صرف مال پر اِکتفا کرے اسی طرح آخرت کا معاملہ ہے لہٰذا دیندار آدمی کے لئے مناسب نہیں کہ عدل قائم کرنے اور ظلم سے بچنے پر ہی اِکتفا کرے اور احسان کے دروازوں کو چھوڑ دے۔(احیاء علوم الدین، کتاب آداب الکسب والمعاش، الباب الرابع فی الاحسان فی المعاملۃ، ۲ / ۱۰۱)
{وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى:اور رشتے داروں کو دینے کا۔} یعنی اللّٰہ تعالیٰ رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی اور نیک سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے۔ رشتے دار قریب کے ہوں یا دور کے،اللّٰہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے رزق میں سے حاجت سے زائد کچھ مال انہیں دے کر ان کے ساتھ صلہ رحمی کرنا اور اگر اپنے پا س زائد مال نہ ہو تو رشتہ داروں کے ساتھ محبت سے پیش آنا اور ان کے لئے دعائے خیر کرنا مستحب ہے۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۹۰، ۳ / ۱۳۹)
رشتے داروں کے ساتھ صِلہ رحمی اور حسنِ سلوک کرنے کے فضائل:
رشتے داروں کے ساتھ صِلہ رحمی اور حسنِ سلوک کرنے کی بڑی فضیلت ہے،اس سے متعلق 3اَحادیث درج ذیل ہیں :
(1)… حضرت ابو ایوب انصاری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، ایک شخص نے بارگاہِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ میں حاضر ہو کر عرض کی :یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مجھے ایسے عمل کے بارے میں بتائیے جو مجھے جنت میں داخل کر دے۔ حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تم اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور ا س کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔( بخاری، کتاب الزکاۃ، باب وجوب الزکاۃ، ۱ / ۴۷۱، الحدیث: ۱۳۹۶)
(2)…حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’میں اللّٰہ ہوں اور میں رحمٰن ہوں ، رحم (یعنی رشتے داری) کو میں نے پیدا کیا اور اس کا نام میں نے اپنے نام سے مُشْتَق کیا، لہٰذا جو اسے ملائے گا، میں اسے ملاؤں گا اور جو اسے کاٹے گا، میں اسے کاٹوں گا۔( ترمذی، کتاب البرّ والصلۃ، باب ما جاء فی قطیعۃ الرحم، ۳ / ۳۶۳، الحدیث: ۱۹۱۴)
(3)…حضرت عاصم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس کو یہ پسند ہو کہ عمر میں درازی ہو اور رزق میں وسعت ہو اور بری موت دفع ہو وہ اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے اور رشتہ والوں سے سلوک کرے۔( مستدرک، کتاب البرّ والصلۃ، من سرّہ ان یدفع عنہ میتۃ السوء فلیصل رحمہ، ۵ / ۲۲۲، الحدیث: ۷۲۶۲)
{وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِ:اور بے حیائی اور ہر بری بات اور ظلم سے منع فرماتا ہے۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ہر شرمناک اورمذموم قول و فعل سے نیز شرک ، کفر ،گناہ اور تمام ممنوعاتِ شرعیہ سے منع فرمایا ہے۔
حضرت سفیان بن عُیَیْنَہ فرماتے ہیں ’’ فَحْشَاء ، مُنْکَرْ اور بَغْی یہ ہے کہ ظاہر اچھا ہو اور باطن ایسا نہ ہو ۔ بعض مفسرین نے فرمایا ’’ اس پوری آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے تین چیزوں کا حکم دیا اور تین سے منع فرمایا ہے ۔
(1)…عدل کا حکم دیا ۔عدل ،اَقوال اور اَفعال میں انصاف و مُساوات کا نام ہے اس کے مقابل فَحْشَاء یعنی بے حیائی ہے۔ اس سے مراد قبیح اقوال اور افعال ہیں ۔
(2)… احسان کا حکم فرمایا ۔ احسان یہ ہے کہ جس نے ظلم کیا اس کو معاف کرو اور جس نے برائی کی اس کے ساتھ بھلائی کرو ۔ اس کے مقابل مُنْکَرْ ہے یعنی محسن کے احسان کا انکار کرنا ۔
(3)… رشتہ داروں کو دینے ، اُن کے ساتھ صلہ رحمی کرنے اور شفقت و محبت سے پیش آنے کا حکم فرمایا۔ اس کے مقابل بَغْی ہے ۔ اس کا مطلب اپنے آپ کو اونچا قرار دینااور اپنے تعلق داروں کے حقوق تَلف کرنا ہے۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۹۰، ۳ / ۱۳۹-۱۴۰، ملخصاً)
{یَعِظُكُمْ:وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے۔} یعنی اس آیت میں جس چیز کا حکم دیا گیا اور جس سے منع کیا گیا ا س میں حکمت یہ ہے کہ تم نصیحت حاصل کرو اور وہ کام کرو جس میں اللّٰہ تعالیٰ کی رضا ہے۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۹۰، ۳ / ۱۴۰)
سورۂ نحل کی آیت نمبر 90سے متعلق بزرگانِ دین کے اَقوال:
سورۂ نحل کی اس آیتِ مبارکہ سے متعلق حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ یہ آیت تمام خیر و شر کے بیان کو جامع ہے۔( شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔الخ، فصل فی فضائل السور والآیات، ذکر الآیۃ الجامعۃ للخیر والشرّ فی سورۃ النحل، ۲ / ۴۷۳، الحدیث: ۲۴۴۰)
امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’طاعات فرض بھی ہیں اور نوافل بھی ، اور آدمی ان سب میں صبر کا محتاج ہے اور اللّٰہ تعالیٰ نے ان سب کو ا س میں جمع فرما دیا
’’اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان:بیشک اللّٰہ عدل اور احسان اور رشتے داروں کو دینے کا حکم فرماتا ہے۔
عدل فرض، احسان نفل اور قرابت داروں کو دینا مُرَوَّت اور صلہ رحمی ہے اور یہ تمام اُمور صبر کے محتاج ہیں ۔ دوسری قسم گناہوں پر مشتمل ہے اور ان پر صبر کرنے کی بھی بہت زیادہ حاجت ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے مختلف قسم کے گناہوں کو اپنے اس ارشادِ گرامی میں جمع فرما دیا
’’وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور بے حیائی اور ہر بری بات اور ظلم سے منع فرماتا ہے۔( احیاء علوم الدین، کتاب الصبر والشکر، بیان مظان الحاجۃ الی الصبر وانّ العبد لا یستغنی عنہ۔۔۔ الخ، ۴ / ۸۷)
تفسیر مدارک میں ہے کہ یہی آیت حضرت عثمان بن مظعون رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے اسلام کا سبب ہوئی ،وہ فرماتے ہیں کہ اس آیت کے نزول سے ایمان میرے دل میں جگہ پکڑ گیا ۔ اس آیت کا اثر اتنا زبردست ہوا کہ ولید بن مغیرہ اور ابوجہل جیسے سخت دل کفار کی زبانوں پر بھی اس کی تعریف آ ہی گئی۔ یہ آیت اپنے حسنِ بیان اور جامعیت کی وجہ سے ہر خطبہ کے آخر میں پڑھی جاتی ہے۔( مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۹۰، ص۶۰۶، ملخصاً)
وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ اِذَا عٰهَدْتُّمْ وَ لَا تَنْقُضُوا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْكِیْدِهَا وَ قَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰهَ عَلَیْكُمْ كَفِیْلًاؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ(91)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اللہ کا عہد پورا کرو جب تم کوئی عہد کرو اور قسموں کو مضبوط کرنے کے بعد نہ توڑو حالانکہ تم اللہ کواپنے اوپر ضامن بناچکے ہو۔ بیشک اللہ تمہارے کام جانتا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ:اور اللّٰہ کا عہد پورا کرو۔} اس سے پہلی آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے کرنے والے کاموں اور نہ کرنے والے کاموں کا اِجمالی طور پر ذکر فرمایا اور ا س آیت سے بعض اِجمالی اَحکام کو تفصیل سے بیان فرما رہا ہے اور ان میں سب سے پہلے عہد پورا کرنے کا ذکر کیا کیونکہ اس حق کو ادا کرنے کی تاکید بہت زیادہ ہے۔ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے(بیعتِ رضوان کے موقع پر) رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اسلام پر بیعت کی تھی، انہیں اپنے عہد پورے کرنے کا حکم دیا گیا۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس سے وہ عہد ہے جسے انسان اپنے اختیار سے اپنے اوپر لازم کر لے اور اس میں وعدہ بھی داخل ہے کیونکہ وعدہ عہد کی قسم ہے۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۹۱، ۳ / ۱۴۰)حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’وعدہ عہد ہی کی ایک قسم ہے۔ حضرت میمون بن مہران رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’تم جس شخص سے بھی عہد کرو تواسے پورا کرو ، خواہ وہ شخص مسلمان ہو یا کافر ، کیونکہ تم نے اس عہد پر اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ کا نام لیا(اور اسے ضامن بنایا)ہے۔( تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۹۱، ۷ / ۲۶۳)
حضرت علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’عہد سے مراد ہر وہ چیز ہے جسے پورا کرنا انسان پر لازم ہے خواہ اسے پورا کرنا اللّٰہ تعالیٰ نے بندے پر لازم کیا ہو یا بندے نے خود اسے پورا کرنا اپنے اوپر لازم کر لیا ہو جیسے پیرانِ عظام کے اپنے مریدین سے لئے ہوئے عہد کیونکہ ان میں مریدین اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے اور کسی کام میں اللّٰہ تعالیٰ کی مخالفت نہ کرنے کو اپنے اوپر لازم کر لیتے ہیں لہٰذا مریدین پر اسے پورا کرنا لازم ہے۔( صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۹۱، ۳ / ۱۰۸۸-۱۰۸۹)
وعدہ پورا کرنے کی فضیلت اور عہد شکنی کی مذمت:
اس آیت میں عہد پورا کرنے کا حکم دیا گیااس مناسبت سے ہم یہاں وعدہ پورا کرنے کی فضیلت اور عہد شکنی کی مذمت پر مشتمل3اَحادیث ذکرکرتے ہیں :
(1)…حضرت عبادہ بن صامت رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم میرے لیے چھ چیزوں کے ضامن ہوجاؤ میں تمہارے لیے جنت کا ذمہ دار ہوتا ہوں ۔ (۱)جب بات کرو سچ بولو۔ (۲) جب وعدہ کرو اسے پورا کرو۔ (۳) جب تمہارے پاس امانت رکھی جائے اسے ادا کرو ۔ (۴)اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو۔ (۵) اپنی نگاہیں نیچی رکھو ۔ (۶) اپنے ہاتھوں کو روکو۔‘‘(مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث عبادۃ بن الصامت رضی اللّٰہ عنہ، ۸ / ۴۱۲، الحدیث: ۲۲۸۲۱) یعنی ہاتھ سے کسی کو ایذا نہ پہنچاؤ ۔
(2)…حضرت عبداللّٰہ بن عمررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’قیامت کے دن عہد شکنی کرنے والے کے لئے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی ہے۔‘‘(بخاری، کتاب الادب، باب ما یدعی الناس بآبائہم، ۴ / ۱۴۹، الحدیث: ۶۱۷۷)
(3)…حضرت عبداللّٰہ بن عمررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن ہر عہد شکن کے لئے ایک جھنڈا ہو گا جس کے ذریعے وہ پہچانا جائے گا۔(بخاری، کتاب الحیل، باب اذا غصب جاریۃ فزعم انّہا ماتت۔۔۔ الخ، ۴ / ۳۹۴، الحدیث: ۶۹۶۶)
{وَ لَا تَنْقُضُوا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْكِیْدِهَا:اور قسموں کو مضبوط کرنے کے بعد نہ توڑو۔} قسموں کو مضبوط کرنے سے مراد یہ ہے کہ قسم کھاتے وقت اللّٰہ تعالیٰ کے اَسماء اور صفات زیادہ ذکر کئے جائیں اور قسم توڑنے کی ممانعت مضبوط کرنے کے ساتھ خاص نہیں بلکہ مُطْلَقاً قسم توڑنا منع ہے۔ یا قسم مضبوط کرنے سے مراد یہ ہے کہ قصداً قسم کھائی جائے، اس صورت میں لَغْو قسم اس حکم سے خارج ہو جائے گی۔( تفسیر جمل، النحل، تحت الآیۃ: ۹۱، ۴ / ۲۶۲، ملخصاً)
قسم سے متعلق چند مسائل:
یہاں قسم سے متعلق چند اہم مسائل یاد رکھیں :
(1)…قسم کھانا جائز ہے مگر جہاں تک ہو سکے کم قسم کھانا بہتر ہے اور بات بات پر قسم نہیں کھانی چاہیے ، بعض لوگوں نے قسم کو تکیہ کلام بنا رکھا ہے کہ قصداً اور بلا قصد زبان پر جاری ہوجاتی ہے اور اس کابھی خیال نہیں رکھتے کہ بات سچی ہے یا جھوٹی، یہ سخت معیوب ہے ۔ غیرِ خدا کی قسم مکروہ ہے اور یہ شرعاً قسم بھی نہیں یعنی اس کے توڑنے سے کفارہ لازم نہیں ۔( بہار شریعت، حصہ نہم، قسم کا بیان، ۲ / ۲۹۸،ملخصاً)
(2)…بعض قسمیں ایسی ہیں کہ اُنہیں پورا کرنا ضروری ہے مثلًا کوئی ایسا کام کرنے کی قسم کھائی جو بغیر قسم کرنا ضروری تھا یا گناہ سے بچنے کی قسم کھائی تو اس صورت میں قسم سچی کرنا ضروری ہے۔ مثلاً یوں کہا کہ خدا کی قسم ظہر پڑھوں گا یا چوری یا زنا نہ کروں گا۔ دوسری وہ کہ اُس کا توڑنا ضروری ہے مثلاً گناہ کرنے یا فرائض و واجبات ادانہ کرنے کی قسم کھائی، جیسے قسم کھائی کہ نماز نہ پڑھوں گا یا چوری کروں گا یا ماں باپ سے کلام نہ کروں گا تو ایسی قسم توڑ دے۔ تیسری وہ کہ اُس کا توڑنا مستحب ہے مثلاً ایسے کام کی قسم کھائی کہ اُس کے غیر میں بہتری ہے تو ایسی قسم کو توڑ کروہ کرے جو بہتر ہے۔ چوتھی وہ کہ مباح کی قسم کھائی یعنی کرنا اور نہ کرنا دونوں یکساں ہیں اس میں قسم کو باقی رکھنا افضل ہے۔( بہار شریعت، حصہ نہم، قسم کا بیان، ۲ / ۲۹۹، ملخصاً)
(3)…قسم کا کفارہ غلام آزاد کرنا یا دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا اُن کو کپڑے پہنانا ہے یعنی یہ اختیار ہے کہ ان تین باتوں میں سے جو چاہے کرے۔( تبیین الحقائق، کتاب الایمان، ۳ / ۴۳۰)
نوٹ:قسم سے متعلق مسائل کی تفصیلی معلومات کے لئے بہار شریعت حصہ 9سے ’’قسم کا بیان ‘‘ مطالعہ فرمائیں
وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ لٰـكِنْ یُّضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ لَتُسْــٴَـلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(93)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اگراللہ چاہتا تو سب کو ایک ہی امت بنادیتا لیکن اللہ گمراہ کرتا ہے جسے چاہتا ہے اور ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں ضرور پوچھا جائے گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً:اور اگر اللّٰہ چاہتا تو سب کو ایک ہی امت بنادیتا ۔} فرمایا گیا کہ اگر اللّٰہ تعالیٰ چاہتا تو تم سب ایک ہی دین پر ہوتے لیکن اللّٰہ تعالیٰ کی اپنی مَشِیَّت اور حکمت ہے جس کے مطابق وہ فیصلے فرماتا ہے تو وہ اپنے عدل سے جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور اپنے فضل سے جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے، اس میں کسی دوسرے کو دخل کی ہمت ہے نہ اجازت، البتہ یہ یاد رہے کہ لوگ اس مشیت کو سامنے رکھ کر گناہوں پر جَری نہ ہوجائیں کیونکہ قیامت کے دن لوگوں سے ان کے اعمال کے بارے میں ضرور پوچھا جائے گا لہٰذا مشیت کا معاملہ جدا ہے اور حکمِ الٰہی کا جدا۔
وَ لَا تَتَّخِذُوْۤا اَیْمَانَكُمْ دَخَلًۢا بَیْنَكُمْ فَتَزِلَّ قَدَمٌۢ بَعْدَ ثُبُوْتِهَا وَ تَذُوْقُوا السُّوْٓءَ بِمَا صَدَدْتُّمْ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِۚ-وَ لَكُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ(94)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور تم اپنی قسموں کو اپنے درمیان دھوکے اور فساد کا ذریعہ نہ بناؤ ورنہ قدم ثابت قدمی کے بعد پھسل جائیں گے اور تم اللہ کے راستے سے روکنے کی وجہ سے سزا کا مزہ چکھو گے اور تمہارے لئے بہت بڑا عذاب ہوگا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَا تَتَّخِذُوْۤا اَیْمَانَكُمْ دَخَلًۢا بَیْنَكُمْ:اورتم اپنی قسموں کو اپنے درمیان دھوکے اور فساد کا ذریعہ نہ بناؤ۔} اس سے پہلی آیات میں اللّٰہ تعالیٰ نے عہد اور قسمیں توڑنے سے منع فرمایا تھا ،اب یہاں دوبارہ ا س کام سے تاکیداً منع فرمانے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ معاہدہ اور قسمیں پورا کرنے کا معاملہ انتہائی اہم ہے کیونکہ عہد کی خلاف ورزی میں دین و دنیا کا نقصان ہے اور عہد پورا کرنے میں دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔ آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ تم اپنی قسموں کو اپنے درمیان دھوکے اور فساد کا ذریعہ نہ بناؤورنہ تمہارے قدم اسلام کے صحیح راستے پرثابت قدمی کے بعد پھسل جائیں گے اور تم خود عہد کی خلاف ورزی کرنے یا دوسروں کو عہد پورا کرنے سے روکنے کی وجہ سے دنیا میں عذاب کا مزہ چکھو گے کیونکہ تم عہد توڑ کر گناہ کا ایک طریقہ رائج کرنے کا ذریعہ بنے ہوگے اور تمہارے لئے آخرت میں بہت بڑا عذاب ہوگا۔(جلالین مع صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۹۴، ۴ / ۱۰۹۰) بعض مفسرین کے نزدیک ا س آیت میں بیعتِ اسلام کو توڑنے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ ثابت قدمی کے بعد قدموں کے پھسل جانے کی وعید اسی کے مناسب ہے۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۹۴، ۳ / ۱۴۱)
عہد کی پاسداری کے3 واقعات:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ اسلام میں عہد کی پاسداری کی بہت اہمیت ہے، اسی مناسبت سے یہاں عہد کی پاسداری سے متعلق 3 واقعات ملاحظہ ہوں
(1)…صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت ابو جندل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیڑیوں میں بندھے ہوئے کسی طرح حدیبیہ کے مقام پر پہنچ گئے توان کے باپ سہیل بن عمرو نے ان کی واپسی کا مطالبہ کر دیا اور اس کے بغیر معاہدہ کرنے سے انکار کر دیا۔ جب حضرت ابو جندل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو معلوم ہوگیا کہ اب وہ کفار کی طرف دوبارہ لوٹا دیئے جائیں گے تو گڑگڑا کر مسلمانوں سے فریاد کرنے لگے ۔ چونکہ کفار سے معاہدہ ہو چکا تھا اس لئے حضورِ انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے موقع کی نزاکت کا خیال فرماتے ہوئے حضرت ابوجندل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے فرمایا کہ تم صبر کرو۔ عنقریب اللّٰہ تعالیٰ تمہارے لئے اور دوسرے مظلوموں کے لئے ضرور ہی کوئی راستہ نکالے گا۔ ہم صلح کا معاہدہ کرچکے اب ہم ان لوگوں سے بدعہدی نہیں کرسکتے۔ غرض حضرت ابوجندل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو اسی طرح پھر مکہ واپس جانا پڑا۔( سیرت ابن ہشام، امر الحدیبیۃ فی آخر سنۃ ست وذکر بیعۃ الرضوان۔۔۔الخ، علیّ یکتب شروط الصلح،ص۴۳۲، ملخصاً)
(2)… حضرت حذیفہ بن یمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’میں اور حضرت حُسَیل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہیں سے آرہے تھے کہ راستے میں کفار نے ہم دونوں کو روک کر کہا ’’ تم دونوں بدر کے میدان میں حضرت محمد(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کی مدد کرنے کے لئے جا رہے ہو۔ ہم نے جواب دیا: ہمارا بدر جانے کا ارادہ نہیں ہم تو مدینے جا رہے ہیں ۔ کفار نے ہم سے یہ عہد لیا کہ ہم صرف مدینے جائیں گے اور جنگ میں رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ شریک نہ ہوں گے ۔ اس کے بعد جب ہم دونوں (بدر کے میدان میں ) بارگاہِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہوئے اور اپنا واقعہ بیان کیا تو حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تم دونوں واپس چلے جاؤ، ہم ہر حال میں کفار سے کئے ہوئے عہد کی پابندی کریں گے اور ہمیں کفار کے مقابلے میں صرف اللّٰہ تعالیٰ کی مدد درکار ہے۔(مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب الوفاء بالعہد، ص۹۸۸، الحدیث: ۹۸(۱۷۸۷))
(3)…حضرت سلیم بن عامر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور رومیوں کے درمیان ایک معاہدہ تھا، حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ان کے شہروں کی طرف تشریف لے گئے تاکہ جب معاہدہ ختم ہو تو ان پر حملہ کر دیں لیکن اچانک ایک آدمی کو چارپائے یا گھوڑے پر دیکھا وہ کہہ رہا تھا: اللّٰہ اکبر! عہد پورا کرو، عہد شکنی نہ کرو۔ کیا دیکھتے ہیں کہ یہ شخص حضرت عمرو بن عَبْسَہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہیں ۔ حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ میں نے نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے ’’جس کا کسی قوم سے معاہدہ ہو تو وہ ا س معاہدے کو نہ توڑے اور نہ باندھے جب تک کہ اس کی مدت ختم نہ ہو جائے یا وہ برابری کی بنیاد پر اس کی طرف پھینک نہ دے۔ راوی فرماتے ہیں ’’یہ سن کر حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ لوگوں کو لے کر واپس لوٹ گئے۔(ترمذی، کتاب السیر، باب ما جاء فی الغدر، ۳ / ۲۱۲، الحدیث:۱۵۸۶)
وَ لَا تَشْتَرُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ ثَمَنًا قَلِیْلًاؕ-اِنَّمَا عِنْدَ اللّٰهِ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(95)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اللہ کے عہد کے بدلے تھوڑی سی قیمت نہ لو ۔ بیشک جو اللہ کے پاس ہے وہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَا تَشْتَرُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ ثَمَنًا قَلِیْلًا:اور اللّٰہ کے عہد کے بدلے تھوڑی سی قیمت نہ لو ۔} یعنی اسلا م کا عہد توڑنے کی صورت میں اگر تمہیں دنیا کی کوئی بھلائی ملے تو اس کی طرف توجہ مت دو کیونکہ اسلام پر قائم رہنے کی صورت میں اللّٰہ تعالیٰ نے تمہارے لئے جو بھلائی تیار کی ہے وہ اس سے بہت بہتر ہے جو تم اسلام کا عہد توڑ کر دنیا میں پاؤ گے۔ اگر تم دنیا اور آخرت کی بھلائیوں کے مابین فرق جانتے تو یہ بات سمجھ جاتے۔( تفسیر کبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۹۵، ۷ / ۲۶۶)اگلی آیت میں اِسی بات کی مزید وضاحت فرمائی گئی ہے۔
مَا عِنْدَكُمْ یَنْفَدُ وَ مَا عِنْدَ اللّٰهِ بَاقٍؕ-وَ لَنَجْزِیَنَّ الَّذِیْنَ صَبَرُوْۤا اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(96)
ترجمہ: کنزالعرفان
جو تمہارے پاس ہے وہ ختم ہوجائے گا اور جو اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے اور ہم صبر کرنے والوں کو ان کے بہترین کاموں کے بدلے میں ان کا اجر ضرور دیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{مَا عِنْدَكُمْ:جو تمہارے پاس ہے۔} یعنی تمہارے پاس جو دنیا کا سامان ہے یہ سب فنا اور ختم ہو جائے گا اور اللّٰہ تعالیٰ کے پاس جو خزانۂ رحمت اور آخرت کا ثواب ہے وہ باقی رہنے والا ہے۔ اور یہی وہ چیز ہے جس کو پچھلی آیت میں بیان فرمایا کہ جو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے پاس ہے وہ تمہاری دنیوی کمائی سے بہتر ہے لہٰذا اپنے عہد کو تھوڑی سی قیمت کے بدلے نہ توڑو۔
دنیا و آرت کا مُوازنہ:
امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : جس شخص کو اس بات کی معرفت حاصل ہوجائے کہ جو کچھ اللّٰہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ باقی ہے اور آخرت بہتر اور باقی رہنے والی ہے(تو اس کے لئے باقی اور بہتر کے بدلے فانی اور ناقص کو بیچ دینا مشکل نہیں ہوتا )جس طرح برف کے مقابلے میں جواہر بہتر اور باقی رہنے والے ہیں اور برف کے مالک پر برف کو جواہر اور موتیوں کے بدلے میں بیچنا مشکل نہیں ہوتا، اسی طرح دنیا اور آخرت کا معاملہ ہے، دنیا اس برف کی طرح ہے جو دھوپ میں رکھی ہوئی ہو، وہ ختم ہونے تک پگھلتی رہتی ہے اور آخرت اس جوہر کی طرح ہے جو فنا نہیں ہوتا، لہٰذا دنیا اور آخرت کے درمیان تَفاوُت کے بارے میں جس قدر یقین اور معرفت مضبوط ہوگی اسی قدراس کا سودا کرنے اور معاملہ کرنے میں رغبت مضبوط ہوگی حتّٰی کہ جس شخص کا یقین مضبوط ہوتا ہے وہ اپنے نفس اور مال دونو ں کو بیچ دیتا ہے جیسا کہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ‘‘(توبہ:۱۱۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اللّٰہ نے مسلمانوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس بدلے میں خرید لئے کہ ان کے لیے جنت ہے۔
پھر بتایا کہ انہیں اس سودے میں نفع ہوا،چنانچہ ارشاد فرمایا
’’فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِكُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِهٖ‘‘(توبہ:۱۱۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:تو اپنے اس سودے پر خوشیاں مناؤ جو سودا تم نے کیا ہے۔( احیاء علوم الدین، کتاب الفقر والزہد، الشطر الثانی من الکتاب فی الزہد، بیان حقیقۃ الزہد، ۴ / ۲۶۸)
لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ دنیا کے فنا اور زائل ہو جانے اور آخرت کے ہمیشہ باقی رہنے میں خوب غورو فکر کرے اور آخرت کو دنیا پر ترجیح دے اور دنیا کی فانی نعمتوں اور لذتوں سے بے رغبتی اختیار کرے۔
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّهٗ حَیٰوةً طَیِّبَةًۚ-وَ لَنَجْزِیَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(97)
ترجمہ: کنزالعرفان
جو مرد یا عورت نیک عمل کرے اور وہ مسلمان ہو تو ہم ضرور اسے پاکیزہ زندگی دیں گے اور ہم ضرور انہیں ان کے بہترین کاموں کے بدلے میں ان کا اجر دیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَ هُوَ مُؤْمِنٌ:جو مرد یا عورت نیک عمل کرے اور وہ مسلمان ہو۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جو مرد یا عورت نیک عمل کرے اور وہ مسلمان ہو تو ہم ضرور اسے دنیا میں حلال رزق اور قناعت عطا فرما کر اور آخرت میں جنت کی نعمتیں دے کرپاکیزہ زندگی دیں گے۔ بعض علماء نے فرمایا کہ اچھی زندگی سے عبادت کی لذت مراد ہے ۔ حکمت :مومن اگرچہ فقیر بھی ہو اُس کی زندگانی دولت مند کافر کے عیش سے بہتر اور پاکیزہ ہے کیونکہ مومن جانتا ہے کہ اس کی روزی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ہے جو اُس نے مقدر کیا اس پر راضی ہوتا ہے اور مومن کا دل حرص کی پریشانیوں سے محفوظ اور آرام میں رہتا ہے اور کافر جو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ پر نظرنہیں رکھتا وہ حریص رہتا ہے اور ہمیشہ رنج ، مشقت اور تحصیلِ مال کی فکر میں پریشان رہتا ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ نیک اعمال پر ثواب ملنے کے لئے مسلمان ہونا شرط ہے ، کافر کے تمام نیک اعمال بیکار ہیں ۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۹۷، ۳ / ۱۴۱-۱۴۲، ملخصاً)
فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ(98)اِنَّهٗ لَیْسَ لَهٗ سُلْطٰنٌ عَلَى الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَ(99)اِنَّمَا سُلْطٰنُهٗ عَلَى الَّذِیْنَ یَتَوَلَّوْنَهٗ وَ الَّذِیْنَ هُمْ بِهٖ مُشْرِكُوْنَ(100)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگو ۔ بیشک اسے ان لوگوں پر کوئی قابو نہیں جو ایمان لائے اور وہ اپنے رب ہی پر بھروسہ کرتے ہیں ۔ اس کا قابو تو انہیں پر ہے جو اس سے دوستی کرتے ہیں اور وہ جواس کو شریک ٹھہراتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ:تو جب تم قرآن پڑھنے لگو۔} یعنی قرآنِ کریم کی تلاوت شروع کرتے وقت اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمْ پڑھو۔ یہ مستحب ہے۔( جلالین مع صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۹۷، ۳ / ۱۰۹۰)
نوٹ:یاد رہے کہ تَعَوُّذْ کے مسائل سورۂ فاتحہ کی تفسیر میں گزر چکے ہیں ۔
{اِنَّهٗ لَیْسَ لَهٗ سُلْطٰنٌ:بیشک اسے کوئی قابو نہیں ۔} یعنی شیطان کو ان لوگوں پر تَسَلُّط حاصل نہیں جو ایمان لائے اور وہ اپنے رب ہی پر بھروسہ کرتے ہیں لہٰذا اللّٰہ تعالیٰ پر توکل کرنے والے مومن شیطانی وسوسے قبول نہیں کرتے یعنی اگرچہ شیطان کوشش بھی کرے تو اسے کامیابی نہیں ملتی ۔
{اِنَّمَا سُلْطٰنُهٗ:اس کا قابو تو انہیں پر ہے۔} یعنی شیطان کو ان لوگوں پر تسلط حاصل ہے جو اسے اپنا دوست بناتے ہیں اور اس کے وسوسوں کی پیروی کرتے ہیں اور وہ شیطان کے وسوسوں کی وجہ سے مختلف چیزوں کو اللّٰہ تعالیٰ کا شریک بنا لیتے ہیں ۔( مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ص۶۰۸، ملخصاً)اس سے معلوم ہوا کہ شیطان کوئی زور زبردستی نہیں کرتا بلکہ جو خود ہی اس کی طرف مائل ہوتا ہے اور اسے دوست بناتا ہے وہی اس کا اثر قبول کرتا ہے۔
وَ اِذَا بَدَّلْنَاۤ اٰیَةً مَّكَانَ اٰیَةٍۙ-وَّ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا یُنَزِّلُ قَالُـوْۤا اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُفْتَرٍؕ-بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ(101)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جب ہم ایک آیت کی جگہ دوسری آیت بدل دیں اور اللہ خوب جانتا ہے جو وہ اتارتا ہے تو کافر کہتے ہیں : تم خود گھڑ لیتے ہو بلکہ ان میں اکثر جانتے نہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذَا بَدَّلْنَاۤ اٰیَةً مَّكَانَ اٰیَةٍ:اور جب ہم ایک آیت کی جگہ دوسری آیت بدل دیں ۔}شانِ نزول: مشرکینِ مکہ اپنی جہالت کی وجہ سے آیتیں منسوخ ہونے پر اعتراض کرتے تھے اور اس کی حکمتوں سے ناواقف ہونے کے باعث اس چیز کا مذاق اڑاتے تھے اور کہتے تھے کہ محمد (مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) ایک روز ایک حکم دیتے ہیں اور دوسرے روزدوسرا حکم دیدیتے ہیں ۔ وہ اپنے دل سے باتیں بناتے ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب ہم ایک آیت کی جگہ دوسری آیت بدل دیتے ہیں اور اپنی حکمت سے ایک حکم کو منسوخ کرکے دوسرا حکم دیتے ہیں تو اس میں (کوئی نہ کوئی) حکمت ہوتی ہے اور اللّٰہ تعالیٰ خوب جانتا ہے جو وہ اتارتا ہے کہ اس میں کیا حکمت اور اس کے بندوں کے لئے اس میں کیا مصلحت ہے لیکن کافر نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہتے ہیں : تم خود گھڑ لیتے ہو حالانکہ حقیقت یہ نہیں ہے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ کافروں کی اکثریت جاہل ہے اور وہ نَسخ اور تبدیلی کی حکمت و فوائد سے خبردار نہیں اور یہ بھی نہیں جانتے کہ قرآنِ کریم کی طرف اِفتراء کی نسبت ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ جس کلام کی مثل بنانا انسان کی طاقت سے باہر ہے تو وہ کسی انسان کا بنایا ہوا کیسے ہوسکتا ہے۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۳ / ۱۴۳، روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۵ / ۸۱، خزائن العرفان، النحل، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ص۵۱۸-۵۱۹، ملتقطاً)
قُلْ نَزَّلَهٗ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ لِیُثَبِّتَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ هُدًى وَّ بُشْرٰى لِلْمُسْلِمِیْنَ(102)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ: اسے مقدس روح نے آپ کے رب کی طرف سے حق کے ساتھ نازل کیا ہے تاکہ وہ ایمان والوں کو ثابت قدم کردے اور (یہ)مسلمانوں کیلئے ہدایت اور خوشخبری ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
}قُلْ:تم فرماؤ۔{ یعنی اے حبیب !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جو لوگ قرآن کے بارے میں آپ پر بہتان لگا رہے ہیں آپ ان سے فرما دیں کہ اسے میرے رب عَزَّوَجَلَّ کے پاس سے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام حق کے ساتھ لے کر آئے ہیں اور اس قرآن کے ناسِخ و مَنسوخ کو میرے رب عَزَّوَجَلَّ نے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے ذریعے مجھ پر نازل فرمایا ہے تاکہ وہ ایمان والوں کو ثابت قدم کردے اور ناسخ و منسوح کی تصدیق کی وجہ سے ان کے ایمانوں کو اور مضبوط کر دے اور یہ قرآن مسلمانوں کیلئے ہدایت اور خوشخبری ہے۔(تفسیر طبری، النحل، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۱۴ / ۶۴۷، ملخصاً)
وَ لَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّهُمْ یَقُوْلُوْنَ اِنَّمَا یُعَلِّمُهٗ بَشَرٌؕ-لِسَانُ الَّذِیْ یُلْحِدُوْنَ اِلَیْهِ اَعْجَمِیٌّ وَّ هٰذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُّبِیْنٌ(103)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ہم جانتے ہیں کہ وہ کافر کہتے ہیں : اس نبی کو ایک آدمی سکھاتا ہے، جس آدمی کی طرف یہ منسوب کرتے ہیں اس کی زبان عجمی ہے اور یہ قرآن روشن عربی زبان میں ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ نَعْلَمُ:اور بیشک ہم جانتے ہیں ۔} جب قرآنِ کریم کی حلاوت اور اس کے علوم کی نورانیت دلوں کی تسخیر کرنے لگی اور کفار نے دیکھا کہ دنیا اس کی گرویدہ ہوتی چلی جارہی ہے اور کوئی تدبیر اسلام کی مخالفت میں کامیاب نہیں ہوتی تو اُنہوں نے طرح طرح کے بہتان لگانے شروع کر دئیے ، کبھی قرآن پاک کو سِحر بتایا، کبھی پہلوں کے قصے اور کہانیاں کہا، کبھی یہ کہا کہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ خود بنالیا ہے اور ہر طرح کوشِش کی کہ کسی طرح لوگ اس مقدس کتاب کی طرف سے بدگمان ہوں ،انہیں مکاریوں میں سے ایک مکر یہ بھی تھا کہ انہوں نے ایک عجمی غلام کے بارے میں یہ کہا کہ وہ محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سکھاتا ہے ۔اس کے رد میں یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور ارشاد فرمایا گیا کہ ایسی باطل باتیں دنیا میں کون قبول کرسکتا ہے، جس غلام کی طرف کفار نسبت کرتے ہیں وہ تو عجمی ہے، ایسا کلام بنانا اس کے لئے تو کیا ممکن ہوتا ،تمہارے فُصحاء و بُلغاء جن کی زبان دانی پر اہلِ عرب کو فخر و ناز ہے وہ سب کے سب حیران ہیں اور چند جملے قرآن کی مثل بنانا ان کے لئے محال اور اُن کی قدرت سے باہر ہے تو ایک عجمی کی طرف ایسی نسبت کس قدر باطل اور ڈھٹائی کا فعل ہے۔ خدا کی شان کہ جس غلام کی طرف کفار یہ نسبت کرتے تھے اس کو بھی اس کلام کے اِعجاز نے تسخیر کیا اور وہ بھی رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اطاعت گزاروں کے حلقے میں داخل ہوا اور صدق و اِخلاص کے ساتھ اسلام لایا۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ۳ / ۱۴۳-۱۴۴، ملخصاً)
اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِۙ-لَا یَهْدِیْهِمُ اللّٰهُ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(104)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے اللہ انہیں راہ نہیں دکھاتا اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ:بیشک جو اللّٰہ کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے ۔} یعنی بیشک وہ لوگ جو اللّٰہ تعالیٰ کی حجتوں اور دلائل پر ایمان نہیں لاتے تاکہ (ان پر ایمان لا کر )وہ اس کی تصدیق کرتے جس پر یہ حجتیں دلالت کرتی ہیں ، تو اللّٰہ تعالیٰ دنیا میں انہیں حق بات قبول کرنے کی توفیق اورسیدھے راستے کی ہدایت نہیں دیتا، جب قیامت کے دن یہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے اس وقت ان کے لئے دردناک عذاب ہو گا۔( تفسیر طبری، النحل، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۷ / ۶۵۰، ملخصاً)
اِنَّمَا یَفْتَرِی الْكَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ(105)
ترجمہ: کنزالعرفان
جھوٹا بہتان وہی باندھتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے اور وہی جھوٹے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّمَا یَفْتَرِی الْكَذِبَ:جھوٹا بہتان وہی باندھتے ہیں۔} کافروں کی طرف سے قرآنِ پاک سے متعلق رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر جو اپنی طرف سے قرآن بنالینے کا بہتان لگایا گیا تھا اس آیت میں اس کا رد کیا گیا ہے۔ آیت کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ جھوٹ بولنا اور بہتان باندھنابے ایمانوں ہی کا کام ہے۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ۳ / ۱۴۴، ملخصاً)
جھوٹ کی مذمت:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جھوٹ کبیرہ گناہوں میں بدترین گناہ ہے۔ قرآنِ مجید میں ا س کے علاوہ بہت سی جگہوں پر جھوٹ کی مذمت فرمائی گئی اور جھوٹ بولنے والوں پر اللّٰہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی۔ بکثرت اَحادیث میں بھی جھوٹ کی برائی بیان کی گئی ہے ، ان میں سے 4اَحادیث یہاں ذکر کی جاتی ہیں:
(1)… حضرت عبد اللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’صدق کو لازم کرلو، کیونکہ سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے ۔آدمی برابر سچ بولتا رہتا ہے اور سچ بولنے کی کوشش کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچو، کیونکہ جھوٹ فُجور کی طرف لے جاتا ہے اور فجور جہنم کا راستہ دکھاتا ہے اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا ہے، یہاں تک کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک کذّاب لکھ دیا جاتا ہے۔(بخاری، کتاب الادب، باب قول اللّٰہ تعالی: یا ایّہا الذین آمنوا اتقوا اللّٰہ وکونوا مع الصادقین، ۴ / ۱۲۵، الحدیث: ۶۰۹۴، مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب قبح الکذب وحسن الصدق وفضلہ، ص۱۴۰۵، الحدیث: ۱۰۵(۲۶۰۷))
(2)… حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص جھوٹ بولنا چھوڑ دے اور جھوٹ باطل ہی ہے (یعنی جھوٹ چھوڑنے کی چیز ہی ہے) اس کے لیے جنت کے کنارے میں مکان بنایا جائے گا اور جس نے جھگڑا کرنا چھوڑا حالانکہ وہ حق پر ہو یعنی حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا نہیں کرتا، اس کے لیے جنت کے وسط میں مکان بنایا جائے گا اور جس نے اپنے اَخلاق اچھے کیے، اس کے لیے جنت کے اعلیٰ درجے میں مکان بنایا جائے گا۔( ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی المراء، ۳ / ۴۰۰، الحدیث: ۲۰۰۰)
(3)…حضرت سفیان بن اَسِید حَضْرَمی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بڑی خیانت کی یہ بات ہے کہ تو اپنے بھائی سے کوئی بات کہے اور وہ تجھے اس بات میں سچا جان رہا ہے اور تو اس سے جھوٹ بول رہا ہے۔(ابوداؤد، کتاب الادب، باب فی المعاریض، ۴ / ۳۸۱، الحدیث: ۴۹۷۱)
(4)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بندہ بات کرتا ہے اور محض اس لیے کرتا ہے کہ لوگوں کو ہنسائے اس کی وجہ سے جہنم کی اتنی گہرائی میں گرتا ہے جو آسمان و زمین کے درمیان کے فاصلہ سے زیادہ ہے اور زبان کی وجہ سے جتنی لغزش ہوتی ہے، وہ اس سے کہیں زیادہ ہے جتنی قدم سے لغز ش ہوتی ہے۔(شعب الایمان، الرابع والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۴ / ۲۱۳، الحدیث: ۴۸۳۲)
نوٹ: جھوٹ سے متعلق مزید معلومات کے لئے بہار شریعت حصہ 16 سے’’جھوٹ کا بیان‘‘ مطالعہ فرمائیں ۔
مَنْ كَفَرَ بِاللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ اِیْمَانِهٖۤ اِلَّا مَنْ اُكْرِهَ وَ قَلْبُهٗ مُطْمَىٕنٌّۢ بِالْاِیْمَانِ وَ لٰـكِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰهِۚ-وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ(106)
ترجمہ: کنزالعرفان
جو ایمان لانے کے بعد اللہ کے ساتھ کفر کرے سوائے اس آدمی کے جسے (کفرپر) مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان پرجما ہوا ہولیکن وہ جو دل کھول کر کافر ہوں ان پر اللہ کا غضب ہے اور ان کیلئے بڑا عذاب ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{مَنْ كَفَرَ بِاللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ اِیْمَانِهٖ:جو ایمان لانے کے بعد اللّٰہ کے ساتھ کفر کرے۔} شانِ نزول :یہ آیت حضرت عمار بن یاسررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بارے میں نازل ہوئی۔ حضرت عمار، ان کے والد حضرت یاسر ، ان کی والدہ حضرت سمیہ، حضرت صہیب، حضرت بلال، حضرت خباب اور حضرت سالم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو پکڑ کر کفار نے سخت سخت ایذائیں دیں تاکہ وہ اسلام سے پھر جائیں (لیکن یہ حضرات اسلام سے نہ پھرے تو) کفار نے حضرت عمار رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے والدین کو بڑی بے رحمی سے شہیدکر دیا۔ حضرت عمار رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ (ضعیف تھے جس کی وجہ سے بھاگ نہیں سکتے تھے، انہوں ) نے مجبور ہو کر جب دیکھا کہ جان پر بن گئی تو بادلِ نخواستہ کلمۂ کفر کا تَلَفُّظ کردیا ۔ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خبر دی گئی کہ حضرت عمار رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کافر ہوگئے توآپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ہرگز نہیں ، حضرت عمار رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سر سے پاؤں تک ایمان سے پُر ہیں اور اس کے گوشت اور خون میں ذوقِ ایمانی سرایت کرگیا ہے۔ پھر حضرت عماررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ روتے ہوئے خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے تو حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’کیا ہوا؟ حضرت عمار رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: اے خدا کے رسول! بہت ہی برا ہوا اور بہت ہی برے کلمے میری زبان پر جاری ہوئے۔ سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اس وقت تیرے دل کا کیا حال تھا؟ حضرت عمار رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی ’’دل ایمان پر خوب جما ہوا تھا۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے شفقت و رحمت فرمائی اور فرمایا کہ اگر پھر ایسا اتفاق ہو تو یہی کرنا چاہیے۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۰۶، ۳ / ۱۴۴ملخصاً)
حالتِ اِکراہ میں کلمۂ کفر کہنے سے متعلق 4 شرعی مسائل:
(1)…اس آیت سے معلوم ہوا کہ حالت ِاکراہ میں اگر دل ایمان پر جما ہوا ہو تو کلمۂ کفر کا زبان پر جاری کرنا جائز ہے جب کہ آدمی کو (کسی ظالم کی طرف سے) اپنی جان یا کسی عُضْوْ کے تَلف ہونے کا (حقیقی) خوف ہو ۔(اور اس میں یہ بھی ضروری ہے کہ اگر کوئی دو معنی والی بات کہنے میں گزارا چل سکتا ہو جس سے کفار اپنی مراد لیں اور کہنے والا اس کی درست مراد لے تو ضروری ہے کہ ایسی دو معنی والی بات ہی کہے جبکہ اس طرح کہنا جانتا ہو۔ )۔
(2)… اگر اس حالت میں بھی صبر کرے اور قتل کر ڈالا جائے تو اسے اجر ملے گا اور وہ شہید ہوگا جیسا کہ حضرت خُبَیب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے صبر کیا اور وہ سولی پر چڑھا کر شہید کر ڈالے گئے۔ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں سیّدُ الشُّہداء فرمایا ۔
(3)… جس شخص کو مجبور کیا جائے اگر اس کا دل ایمان پر جما ہوا نہ ہو تو وہ کلمۂ کفر زبان پر لانے سے کافر ہوجائے گا ۔
(4)… اگر کوئی شخص بغیر مجبوری کے مذاق کے طور پر یا علم نہ ہونے کی وجہ سے کلمۂ کفر زبان پر جاری کرے وہ کافر ہوجائے گا(تفسیرات احمدیہ، النحل، تحت الآیۃ: ۱۰۶، ص۵۰۱)۔
ذٰلِكَ بِاَنَّهُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا عَلَى الْاٰخِرَةِۙ-وَ اَنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ(107)اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ طَبَعَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ وَ سَمْعِهِمْ وَ اَبْصَارِهِمْۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ(108)لَا جَرَمَ اَنَّهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ(109)
ترجمہ: کنزالعرفان
یہ عذاب اس لئے ہے کہ انہوں نے آخرت کی بجائے دنیا کی زندگی کوپسند کرلیا اور اس لئے کہ اللہ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا ۔یہی وہ لوگ ہیں جن کے دل اور کان اور آنکھو ں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے اور یہی غافل ہیں ۔ حقیقت میں یہ لوگ آخرت میں برباد ہونے والے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{ذٰلِكَ:یہ۔} یعنی جو لوگ دل کھول کر کافر ہوں ان کے لئے اللّٰہ تعالیٰ کے غضب اور بڑے عذاب کی وعید کا ایک سبب یہ ہے کہ انہوں نے آخرت کی بجائے دنیا کی زندگی کوپسند کرلیا اور دنیا کی محبت ان کے کفر کا سبب ہے۔دوسرا سبب یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ایسے کافروں کو ہدایت نہیں دیتاجو سمجھ بوجھ کے باوجود بھی کفر پر ڈٹے رہیں ۔( مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ص۶۱۰، خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۳ / ۱۴۵، ملتقطاً)
{اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ:یہی وہ لوگ ہیں ۔} یعنی یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں ، کانوں اور آنکھو ں پر اللّٰہ تعالیٰ نے مہر لگا دی ہے، نہ وہ غورو فکر کرتے ہیں ، نہ وعظ و نصیحت پرتوجہ دیتے ہیں ، نہ سیدھے اور ہدایت والے راستے کو دیکھتے ہیں اور یہی غفلت کی انتہا کوپہنچے ہوئے ہیں کہ اپنی عاقبت اور انجام کار کے بارے میں نہیں سوچتے۔( مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ص۶۱۰)
{لَا جَرَمَ:حقیقت میں ۔} یعنی حقیقت میں یہ لوگ آخرت میں برباد ہونے والے ہیں کہ ان کے لئے جہنم کادائمی عذاب ہے۔(جلالین، النحل، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ص۲۲۶)
سب سے بڑی بد نصیبی اور خوش نصیبی:
اس سے معلوم ہوا کہ سب سے بڑی بد نصیبی دل کی غفلت ہے اور سب سے بڑی خوش نصیبی دل کی بیداری ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے دلوں کو غفلت سے محفوظ فرمائے اور ہمیں دل کی بیداری نصیب فرمائے ۔
ثُمَّ اِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِیْنَ هَاجَرُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا فُتِنُوْا ثُمَّ جٰهَدُوْا وَ صَبَرُوْۤاۙ-اِنَّ رَبَّكَ مِنْۢ بَعْدِهَا لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(110)
ترجمہ: کنزالعرفان
پھر بیشک تمہارا رب ان لوگوں کے لیے جنہوں نے تکلیفیں دئیے جانے کے بعد اپنے گھر بار چھوڑے پھر انہوں نے جہاد کیا اورصبر کیا بیشک تمہارا رب اس کے بعد ضرور بخشنے والا مہربان ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ثُمَّ اِنَّ رَبَّكَ:پھر بیشک تمہارا رب ۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بے شک وہ لوگ جنہیں ہجرت سے پہلے ان کے دین کے بارے میں مشرکین کی طرف سے تکلیفیں اور اَذِیَّتیں دی گئیں ،اس کے بعد انہوں نے ہجرت کی اور اپنے شہر، گھر اور خاندانوں کو چھوڑ کر اہلِ اسلام کے شہر مدینہ طیبہ منتقل ہو گئے۔ پھر انہوں نے اپنے ہاتھوں ، تلواروں اور زبانوں کے ساتھ مشرکین اور ان کے جھوٹے معبودوں کے خلاف جہاد کیا اور جہاد کرنے پر صبر کیا تو بیشک یہ بخشش کے مستحق ہیں ، اس لئے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ان کی اس آزمائش کے بعد انہیں ضرور بخشنے والا مہربان ہے۔( تفسیر طبری، النحل، تحت الآیۃ: ۱۱۰، ۷ / ۶۵۳، جلالین، النحل، تحت الآیۃ: ۱۱۰، ص۲۲۶، ملتقطاً)
یَوْمَ تَاْتِیْ كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَّفْسِهَا وَ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ(111)
ترجمہ: کنزالعرفان
یاد کرو جس دن ہر جان اپنی طرف سے جھگڑتی ہوئی آئے گی اور ہر جان کو اس کا عمل پورا پورا دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہ ہوگا۔
تفسیر: صراط الجنان
{یَوْمَ تَاْتِیْ كُلُّ نَفْسٍ:یاد کرو جس دن ہر جان آئے گی۔} یعنی قیامت کے دن ہر انسان اپنی ذات کے بارے جھگڑتا ہوا آئے گا، ہر ایک نفسی نفسی کہتا ہوگا اور سب کو اپنی اپنی پڑی ہوگی۔ جھگڑے سے مراد یہ ہے کہ ہر ایک اپنے دنیوی عملوں کے بارے میں عذر بیان کر ے گا۔( مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ص۶۱۱)
قیامت کے دن انسانوں کا جھگڑناـ:
حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن لوگوں میں جھگڑا یہاں تک بڑھے گا کہ روح اور جسم میں بھی جھگڑا ہوگا، روح کہے گی: یارب! (جسم میں داخل ہونے سے پہلے )نہ میرے ہاتھ تھے کہ میں ان سے کسی کو پکڑتی ، نہ پاؤں تھے کہ ان کے ذریعے چلتی، نہ آنکھ تھی کہ اس سے دیکھتی (گویا میں قصور وار نہیں بلکہ جسم ہی قصور وار ہے۔) جسم کہے گا: یارب! تو نے مجھے لکڑی کی طرح پیدا کیا، نہ میرا ہاتھ پکڑسکتا تھا ، نہ پاؤں چل سکتا تھا،نہ آنکھ دیکھ سکتی تھی، جب یہ روح نوری شعاع کی طرح آئی تو اس سے میری زبان بولنے لگی، آنکھ بینا ہوگئی اور پاؤں چلنے لگے، (جو کچھ کیا اُس نے کیا ہے) ۔ اللّٰہ تعالیٰ ایک مثال بیان فرمائے گا کہ ایک اندھا اور ایک لنگڑا دونوں ایک باغ میں گئے، اندھے کو توپھل نظر نہیں آتے تھے اور لنگڑے کا ہاتھ ان تک نہیں پہنچتا تھا تواندھے نے لنگڑے کو اپنے اوپر سوار کرلیا اس طرح انہوں نے پھل توڑے تو سزا کے وہ دونوں مستحق ہوئے (اس لئے روح اور جسم دونوں ملز م ہیں ۔)( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ۳ / ۱۴۶)
وَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا قَرْیَةً كَانَتْ اٰمِنَةً مُّطْمَىٕنَّةً یَّاْتِیْهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰهِ فَاَذَاقَهَا اللّٰهُ لِبَاسَ الْجُوْ عِ وَ الْخَوْفِ بِمَا كَانُوْا یَصْنَعُوْنَ(112)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اللہ نے ایک بستی کی مثال بیان فرمائی جوامن و اطمینان والی تھی ہر طرف سے اس کے پاس اس کا رزق کثرت سے آتاتھا تو وہاں کے رہنے والے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرنے لگے تو اللہ نے ان کے اعمال کے بدلے میں انہیں بھوک اور خوف کے لباس کا مزہ چکھایا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا قَرْیَةً:اور اللّٰہ نے ایک بستی کی مثال بیان فرمائی۔}اس آیت میں جس بستی کی مثال بیان فرمائی گئی، ممکن ہے کہ اس سے مراد مکہ مکرمہ ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد مکہ مکرمہ کے علاوہ کوئی اور بستی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے سابقہ امتوں کی کوئی بستی مراد ہو جس کا حال اس آیت میں بیان کیا گیا ہو، اکثر مفسرین کے نزدیک اس بستی سے مراد مکہ مکرمہ ہے۔ علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ یہ کلام ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ مقاتل اور بعض مفسرین کے قول کے مطابق یہ آیت مدنی ہے اور یہی صحیح ہے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے اس بستی کی 6 صفات بیان فرمائی ہیں اور یہ تمام صفات اہلِ مکہ میں موجود تھیں تو اللّٰہ تعالیٰ نے ان کی مثال اہلِ مدینہ کے سامنے بیان فرمائی تاکہ وہ انہیں ڈرائے کہ اگر انہوں نے مکہ والوں جیسے کام کئے تو جو بھوک اور خوف اُنہیں پہنچا وہ اِنہیں بھی پہنچ سکتا ہے۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ۳ / ۱۴۷) اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک بستی جیسے کہ مکہ کے رہنے والے جوامن و اطمینان سے تھے، ان پر لٹیرے اور ڈاکو چڑھائی کرتے نہ وہ قتل اور قید کی مصیبت میں گرفتار کئے جاتے، ہر طرف سے ان کے پاس ان کا رزق کثرت سے آتا تھا تو وہ لوگ نافرمانیاں کرکے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی نعمتوں کی ناشکری کرنے لگے اور ا نہوں نے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تکذیب کی تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے ان کے اعمال کے بدلے میں انہیں بھوک اور خوف کے لباس کا مزہ چکھایا کہ سات برس تک نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعائے ضَرَر کی وجہ سے قحط اور خشک سالی کی مصیبت میں گرفتار رہے یہاں تک کہ مردار کھاتے تھے پھر امن واِ طمینان کی بجائے خوف و ہراس ان پر مُسَلَّط ہوا اور ہر وقت مسلمانوں کے حملے اور لشکر کشی کا اندیشہ رہنے لگا ،یہ ان کے اعمال کا بدلا تھا۔( ابوسعود، النحل، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ۳ / ۲۹۷، خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ۳ / ۱۴۶-۱۴۷، ملتقطاً)
وَ لَقَدْ جَآءَهُمْ رَسُوْلٌ مِّنْهُمْ فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَهُمُ الْعَذَابُ وَ هُمْ ظٰلِمُوْنَ(113)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ان کے پاس انہیں میں سے ایک رسول تشریف لایا تو انہوں نے اسے جھٹلایا تو انہیں عذاب نے پکڑلیا اور وہ زیادتی کرنے والے تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ جَآءَهُمْ رَسُوْلٌ مِّنْهُمْ:اور بیشک ان کے پاس انہیں میں سے ایک رسول تشریف لایا۔} یعنی اہلِ مکہ کے پاس انہیں کی جنس سے ایک عظیم رسول یعنی انبیاء کے سردارمحمد مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لائے ، اہلِ مکہ نے انہیں جھٹلایا تو اللّٰہ تعالیٰ نے اہلِ مکہ کو بھوک اور خوف کے عذاب میں مبتلا کر دیا اور ان کا حال یہ تھا کہ وہ کفر کرنے والے تھے۔( جلالین مع صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۱۱۳، ۳ / ۱۰۹۸)
فَكُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰلًا طَیِّبًا۪-وَّ اشْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ(114)اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةَ وَ الدَّمَ وَ لَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖۚ-فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(115)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو اللہ کا دیا ہوا حلال پاکیزہ رزق کھاؤ اور اللہ کی نعمت کا شکر اداکرو اگر تم اس کی عبادت کرتے ہو۔ تم پر صرف مُردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جس کے ذبح کرتے وقت اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا سب حرام کردیا ہے پھر جومجبور ہو اس حال میں کہ نہ خواہش سے کھارہاہو اور نہ حد سے بڑھ رہا ہو توبیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَكُلُوْا:تو کھاؤ!} جمہور مفسرین کے نزدیک اس آیت میں مسلمانوں سے خطاب ہے ،چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! تم لوٹ، غصب اور خبیث پیشوں سے حاصل کئے ہوئے جوحرام اور خبیث مال کھایا کرتے تھے ان کی بجائے حلال اور پاکیزہ رزق کھاؤ اور اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی نعمت کا شکر اداکرو اگر تم اس کی عبادت کرتے ہو۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۱۴، ۳ / ۱۴۸، مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۱۱۴، ص۶۱۲، ملتقطاً)
{ اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْكُمْ:تم پر تو یہی حرام کیا ہے۔}آیت کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے صرف یہ چیزیں حرام کی ہیں جن کا بیان اس آیت میں ہوا نہ کہ بحیرہ سائبہ وغیرہ جانور جنہیں کفار اپنے گمان کے مطابق حرام سمجھتے تھے۔ نیز جو شخص آیت میں مذکور حرام چیزوں میں سے کچھ کھانے پر مجبور ہو جائے تووہ ضرورت کے مطابق ان میں سے کھا سکتا ہے۔( ابو سعود، النحل، تحت الآیۃ: ۱۱۵، ۳ / ۲۹۹، ملخصاً)
نوٹ:اس آیت کی تفصیلی تفسیر سورۂ بقرہ، آیت نمبر 173، سورۂ مائدہ، آیت نمبر 3 اور سورۂ انعام، آیت نمبر 145 میں گزر چکی ہے۔
دین ِاسلام کی خصوصیت:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ دین ِاسلام انتہائی پاکیزہ دین ہے اور اس دین کو اللّٰہ تعالیٰ نے ہر گندی اور خبیث چیز سے پاک فرمایا ہے اور اس دین میں مسلمانوں کو طہارت و پاکیزگی کی اعلیٰ تعلیمات دی گئی ہیں ۔ حضرت قتادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :بے شک اسلام پاکیزہ دین ہے ، اللّٰہ تعالیٰ نے اسے ہر بری چیز سے پاک فرمایا ہے اور اے انسان! اللّٰہ تعالیٰ نے تیرے لئے اس دین میں وسعت بھی رکھی ہے ( کہ) جب تو اس آیت میں بیان کی گئی چیزوں میں سے کسی چیز کو کھانے پر مجبور ہو جائے( تو اسے ضرورت کے مطابق کھا سکتا ہے)( در منثور، النحل، تحت الآیۃ: ۱۱۵، ۵ / ۱۷۴)
وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هٰذَا حَلٰلٌ وَّ هٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَؕ-اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَﭤ(116)مَتَاعٌ قَلِیْلٌ۪-وَّ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(117)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور تمہاری زبانیں جھوٹ بولتی ہیں اس لئے نہ کہو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ تم اللہ پر جھوٹ باندھو ۔ بیشک جو اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ کامیاب نہ ہوں گے۔تھوڑاسا فائدہ اٹھانا ہے اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَا تَقُوْلُوْا:اور نہ کہو۔} زمانۂ جاہلیت کے لوگ اپنی طرف سے بعض چیزوں کو حلال ، بعض چیزوں کو حرام کرلیا کرتے تھے اور اس کی نسبت اللّٰہ تعالیٰ کی طرف کردیا کرتے تھے۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۱۶، ۳ / ۱۴۸) اس آیت میں اس کی ممانعت فرمائی گئی اور اس کو اللّٰہ تعالیٰ پر اِفترا فرمایا گیا اور افترا کرنے والوں کے بارے میں فرمایا گیا کہ بیشک جو اللّٰہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ کامیاب نہ ہوں گے۔
اپنی طرف سے کسی چیز کو شرعاً حرام کہنا اللّٰہ تعالیٰ پر اِفترا ہے:
آج کل بھی جو لوگ اپنی طرف سے حلال چیزوں کو حرام بتادیتے ہیں جیسے میلاد شریف کی شیرینی، فاتحہ، گیارہویں ، عرس وغیرہ ایصالِ ثواب کی چیزیں جن کی حرمت شریعت میں وارد نہیں ہوئی انہیں اس آیت کے حکم سے ڈرنا چاہئے کہ ایسی چیزوں کی نسبت یہ کہہ دینا کہ یہ شرعاً حرام ہیں اللّٰہ تعالیٰ پر افترا کرنا ہے۔
{مَتَاعٌ قَلِیْلٌ:تھوڑاسا فائدہ اٹھانا ہے۔} یعنی ان جاہلوں کیلئے تھوڑاسا فائدہ اٹھانا اور دنیا کی چند روزہ آسائش ہے جو باقی رہنے والی نہیں جبکہ ان کے لیے آخرت میں دردناک عذاب ہے۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۱۷، ۳ / ۱۴۹)
وَ عَلَى الَّذِیْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا مَا قَصَصْنَا عَلَیْكَ مِنْ قَبْلُۚ-وَ مَا ظَلَمْنٰهُمْ وَ لٰـكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ(118)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم نے صرف یہودیوں پروہ چیزیں حرام کی تھیں جو ہم نے پہلے آپ کے سامنے بیان کی ہیں اور ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا لیکن وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ عَلَى الَّذِیْنَ هَادُوْا: اور ہم نے صرف یہودیوں پر۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے صرف یہودیوں پروہ چیزیں حرام کی تھیں جو اللّٰہ تعالیٰ نے پہلے سورۂ انعام میں آیت وَ عَلَى الَّذِیْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِیْ ظُفُرٍ۔۔۔الآیہ۔ (اور ہم نے یہودیوں پر ہر ناخن والا جانور حرام کردیا) میں آپ کے سامنے بیان کی ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ نے ان چیزوں کو حرام قرار دے کر ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود ہی بغاوت و مَعصِیَت کا اِرتکاب کرکے اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے جس کی سزا میں وہ چیزیں اُن پر حرام ہوئیں جیسا کہ آیت فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْهِمْ طَیِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَهُمْ(تو یہودیوں کے بڑے ظلم کے سبب ہم نے وہ بعض ستھری چیزیں کہ ان کے لئے حلال تھیں ان پر حرام فرما دیں ) میں ارشاد فرمایا گیا۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۱۸، ۳ / ۱۴۹)
نوٹ:اس آیت کی تفسیر سورۂ نساء، آیت نمبر 160 اور سورۂ انعام، آیت نمبر146میں گزر چکی ہے۔
ثُمَّ اِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِیْنَ عَمِلُوا السُّوْٓءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَ اَصْلَحُوْۤاۙ-اِنَّ رَبَّكَ مِنْۢ بَعْدِهَا لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(119)
ترجمہ: کنزالعرفان
پھر بیشک تمہارا رب ان لوگوں کیلئے (غفور رحیم ہے) جو نادانی سے برائی کر بیٹھیں پھر اس کے بعد توبہ کریں اوراپنی اصلاح کرلیں بیشک تمہارا رب اس کے بعد ضرور بخشنے والا مہربان ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ثُمَّ اِنَّ رَبَّكَ:پھر بیشک تمہارا رب۔} اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے کافروں کو اسلام میں داخل ہونے اور گناہگاروں کو گناہ چھوڑنے اور ان سے توبہ کرنے کی ترغیب دی ہے اور اس آیت سے مقصود اللّٰہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کی رحمت و مغفرت کی وسعت کا بیان ہے، چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ نادانی سے کفر ومعصیت کا اِرتکاب کر بیٹھیں ، پھر ان سے توبہ کر لیں اور آئندہ اپنی توبہ پر قائم رہ کر اپنے اعمال درست کر لیں تو اللّٰہ تعالیٰ ان پر رحم فرماتے ہوئے ان کی توبہ قبول فرما لے گا۔( صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۱۱۹، ۳ / ۱۰۹۹، خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۱۹، ۳ / ۱۴۹، ملتقطاً)
اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِیْفًاؕ-وَ لَمْ یَكُ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ(120)شَاكِرًا لِّاَنْعُمِهٖؕ-اِجْتَبٰىهُ وَ هَدٰىهُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(121)وَ اٰتَیْنٰهُ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةًؕ-وَ اِنَّهٗ فِی الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَﭤ(122)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک ابراہیم تمام اچھی خصلتوں کے مالک (یا) ایک پیشوا ، اللہ کے فرمانبردار اور ہر باطل سے جدا تھے اور وہ مشرک نہ تھے۔ اس کے احسانات پر شکر کرنے والے، اللہ نے اسے چن لیا اور اسے سیدھے راستے کی طرف ہدایت دی۔ اور ہم نے اسے دنیا میں بھلائی دی اور بیشک وہ آخرت میں قرب والے بندوں میں سے ہوگا۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ:بیشک ابراہیم ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے خلیل حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے 9 اَوصافِ حمیدہ بیان فرمائے ہیں ۔ (1) حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تمام اچھی خصلتوں اور پسندیدہ اَخلاق کے مالک تھے۔ (2) اللّٰہ تعالیٰ کے فرمانبردار تھے۔ (3) دین ِاسلام پر قائم تھے۔ (4) مشرک نہ تھے۔ کفارِ قریش اپنے آپ کو دینِ ابراہیمی پر خیال کرتے تھے ،اس میں ان کفار کے اس نظریے کا رد ہے ۔ (5) اللّٰہ تعالیٰ کے احسانات پر شکر کرنے والے تھے۔ (6) اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں اپنی نبوت و خُلَّت کے لئے منتخب فرما لیا تھا۔ (7) انہیں سیدھے راستے یعنی دین ِاسلام کی طرف ہدایت دی تھی۔ (8) دنیا میں بھی انہیں بھلائی دی گئی۔ اس سے مراد رسالت، اَموال، اولاد ،اچھی تعریف اور قبولیتِ عامہ ہے کہ تمام اَدیان والے مسلمان، یہودی ، عیسائی اور عرب کے مشرکین سب اُن کی عظمت بیان کرتے اور اُن سے محبت رکھتے ہیں ۔ (9) آخرت میں قرب والے بندوں میں سے ہوں گے۔( مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۱۲۰-۱۲۲، ص۶۱۳، خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۲۰-۱۲۲، ۳ / ۱۴۹-۱۵۰، ملتقطاً)
ثُمَّ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ اَنِ اتَّبِـعْ مِلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًاؕ-وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ(123)
ترجمہ: کنزالعرفان
پھر ہم نے آپ کی طرف وحی بھیجی کہ (آپ بھی) دینِ ابراہیم کی پیروی کریں جو ہر باطل سے جدا تھے اور وہ مشرک نہ تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
} ثُمَّ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ: پھر ہم نے آپ کی طرف وحی بھیجی ۔{ اس آیت میں پیروی سے مراد عقائد اور اصولِ دین میں مُوافقت کرنا ہے۔ سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس پیروی کا جو حکم دیا گیا ،اس میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت ومنزلت اور رفعت ِدرجات کا اظہار ہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دین ِابراہیمی کی موافقت فرمانا حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے اُن کے تمام فضائل و کمالات میں سب سے اعلیٰ فضل و شرف ہے کیونکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اَکْرَمُ الْاَوَّلِیْنَ وَالْآخِرِیْنَ یعنی اَوّلین و آخرین میں سب سے زیادہ مُکرّ م ہیں(صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۱۲۳، ۳ / ۱۱۰۰، مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۱۲۳، ص۶۱۳، روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۱۲۳، ۵ / ۹۴، ملتقطاً) جیسا کہ ترمذی شریف کی حدیث میں ہے۔( ترمذی، کتاب المناقب، باب ما جاء فی فضل النبیّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ۵ / ۳۵۴، الحدیث: ۳۶۳۶) اور تمام انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ساری مخلوق سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مرتبہ افضل و اعلیٰ ہے۔
اِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ عَلَى الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْهِؕ-وَ اِنَّ رَبَّكَ لَیَحْكُمُ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِیْمَا كَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ(124)
ترجمہ: کنزالعرفان
ہفتہ صرف انہی لوگوں پر مقرر کیا گیا تھا جنہوں نے اس دن کے بارے میں اختلاف کیا اور بیشک تمہارا رب قیا مت کے دن ان کے درمیان اس بات کا فیصلہ کردے گا جس میں اختلاف کرتے تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ عَلَى الَّذِیْنَ:ہفتہ صرف انہی لوگوں پر مقرر کیا گیا تھا ۔} یہودیوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ہفتے کے دن کی تعظیم کرنا حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شریعت ہے اور وہ (اس دن کی تعظیم کر کے ) حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیروی کر رہے ہیں جبکہ حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیروی کا حکم تو دیتے ہیں لیکن جمعہ کے دن کی تعظیم کر کے ان کی مخالفت کر رہے ہیں ۔ اس پر اللّٰہ تعالیٰ نے ان کا رد فرمایاکہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شریعت میں ہفتے کے دن کی تعظیم ہے ہی نہیں جس کی پیروی کا تم دعویٰ کر رہے ہو بلکہ ان کی شریعت میں جمعہ کے دن کی تعظیم تھی اور اسی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کے لئے جمعہ کا دن منتخب فرمایا کیونکہ یہ نعمت پوری ہونے کا دن ہے اور جنت میں بھی اسی دن نعمتیں زیادہ عطاکی جائیں گی۔ ہفتے کے دن کی تعظیم تو ان لوگوں پر فرض کی گئی تھی جنہوں نے اس کے بارے میں اپنے نبی سے اس وقت اختلاف کیا تھا جب انہوں نے لوگوں سے کہاکہ وہ جمعے کے دن کی تعظیم کریں اور اس دن کام کاج چھوڑ کر اپنے آپ کو اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے فارغ کر لیں تو لوگوں نے ان سے اختلاف کیا اور اس کام کے لئے ہفتے کے دن کا انتخاب کیا۔ اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں اس کی اجازت دے دی ،پھر اس دن عبادت کرنے میں ان پر سختی کی گئی اور ہفتے کے دن ان پر شکار کرنا حرام کر دیا گیا۔ ایک عرصے کے بعد انہوں نے ہفتے کے دن شکار کرنا شروع کر دیا اور بالآخر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے میں مَسخ کر دئیے گئے۔( صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۱۲۴، ۳ / ۱۱۰۱، خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۲۴، ۳ / ۱۵۱، مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۱۲۴، ص۶۱۳، ملتقطاً)
{وَ اِنَّ رَبَّكَ:اور بیشک تمہارا رب ۔} یعنی یہودی ہفتے کے بارے میں جو اختلاف کرتے تھے اللّٰہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کے درمیان اس طرح فیصلہ فرما دے گا کہ اطاعت کرنے والوں کو ثواب عطا کرے گا اور نافرمانوں کو عذاب میں مبتلا کر دے گا۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۲۴، ۳ / ۱۵۱)
اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ-اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِهٖ وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ(125)
ترجمہ: کنزالعرفان
اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلاؤ اور ان سے اس طریقے سے بحث کرو جو سب سے اچھا ہو ،بیشک تمہارا رب اسے خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے گمراہ ہوا اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی خوب جانتا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ:اپنے رب کے راستے کی طرف بلاؤ۔} اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تین طریقوں سے لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کا حکم فرمایا۔ (1) حکمت کے ساتھ۔ اس سے وہ مضبوط دلیل مراد ہے جو حق کو واضح اور شُبہات کو زائل کردے۔ (2) اچھی نصیحت کے ساتھ۔ اس سے مراد ترغیب و ترہیب ہے یعنی کسی کام کو کرنے کی ترغیب دینا اور کوئی کام کرنے سے ڈرانا ۔ (3) سب سے اچھے طریقے سے بحث کرنے کے ساتھ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف اس کی آیات اور دلائل سے بلائیں ۔(خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۲۵، ۳ / ۱۵۱، ملخصاً)اس سے معلوم ہوا کہ دعوتِ حق اور دین کی حقانیت کو ظاہر کرنے کے لئے مناظرہ جائز ہے۔
اَمر بالمعروف کے آداب اور چند مسائل:
اس آیت کی مناسبت سے یہاں امر بالمعروف کے آداب اور اس سے متعلق 6 شرعی مسائل ملاحظہ ہوں
(1)…امربالمعروف یہ ہے کہ کسی کو اچھی بات کا حکم دینا مثلاً کسی سے نماز پڑھنے کو کہنا۔ اور نَہی عَنِ الْمُنْکَر کا مطلب یہ ہے کہ بری باتوں سے منع کرنا۔
(2)…کسی کو گناہ کرتے دیکھے تو نہایت مَتانت اور نرمی کے ساتھ اسے منع کرے اور اسے اچھی طرح سمجھائے پھر اگر اس طریقہ سے کام نہ چلا اوروہ شخص باز نہ آیا تو اب سختی سے پیش آئے، اس کو سخت الفاظ کہے، مگر گالی نہ دے، نہ فحش لفظ زبان سے نکالے اور اس سے بھی کام نہ چلے تو جو شخص ہاتھ سے کچھ کرسکتا ہے کرے۔ لیکن اس صورت میں فتنے اور قانونی پہلو کو سامنے رکھے یعنی نہ خلافِ قانون کرے اور نہ ایسا طریقہ اختیار کرے جس سے فتنہ ہو۔
(3)…امربالمعروف کے لیے پانچ چیزوں کی ضرورت ہے۔ (۱) علم۔ کیونکہ جسے علم نہ ہو وہ اس کام کو اچھی طرح انجام نہیں دے سکتا۔ (۲)اس سے مقصود رضائے الٰہی اور دینِ اسلام کی سربلندی ہو۔ (۳) جس کو حکم دیتا ہے اس کے ساتھ شفقت و مہربانی کرے اور نرمی کے ساتھ کہے۔ (۴)حکم کرنے والا صابر اور بُردبار ہو۔ (۵) حکم کرنے والا خود اس بات پر عامل ہو، ورنہ قرآن کے اس حکم کا مِصداق بن جائے گا، کیوں کہتے ہو وہ جس کو تم خود نہیں کرتے۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک ناخوشی کی بات ہے یہ کہ ایسی بات کہو، جس کو خود نہ کرو۔ اور یہ بھی قرآنِ مجید میں فرمایا کہ ’’کیا لوگوں کو تم اچھی بات کا حکم کرتے ہو اور خودا پنے کو بھولے ہوئے ہو۔
(4)…امربالمعروف کی کئی صورتیں ہیں ۔ اگر غالب گمان یہ ہے کہ یہ ان سے کہے گا تو وہ اس کی بات مان لیں گے اور بری بات سے باز آجائیں گے، توبری بات سے منع کرنا واجب ہے، اس کو باز رہنا جائز نہیں اور اگر گمان غالب یہ ہے کہ وہ طرح طرح کی تہمت باندھیں گے اور گالیاں دیں گے تو ترک کرنا افضل ہے اور اگر یہ معلوم ہے کہ وہ اسے ماریں گے اور یہ صبر نہ کرسکے گا یا اس کی وجہ سے فتنہ و فساد پیدا ہوگا، آپس میں لڑائی ٹھن جائے گی جب بھی چھوڑنا افضل ہے اور اگر معلوم ہو کہ وہ اگر اسے ماریں گے تو صبر کرلے گا تو ان لوگوں کو برے کام سے منع کرے اور یہ شخص مجاہد ہے اور اگر معلوم ہے کہ وہ مانیں گے نہیں مگر نہ ماریں گے اورنہ گالیاں دیں گے تو اسے اختیار ہے اور افضل یہ ہے کہ بری بات سے منع کرے۔
(5)…عام شخص کسی قاضی (یعنی شریعت کے مطابق فیصلے کرنے والے جج)،مفتی یا مشہور و معرو ف عالم کو امر بالمعروف نہ کرے کہ یہ بے ادبی ہے۔ اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ لوگ کسی خاص مصلحت کی وجہ سے ایک فعل کرتے ہیں ، جس تک عوام کی نظر نہیں پہنچتی اور یہ شخص سمجھتا ہے، کہ جیسے ہم نے کیا انہوں نے بھی کیا، حالانکہ دونوں میں بہت فرق ہوتا ہے۔ یہ حکم ان علما کے بارے میں ہے، جو احکامِ شرع کے پابند ہیں اور اتفاقاً کبھی ایسی چیز ظاہر ہوئی جو عوام کی نظر میں بری معلوم ہوتی ہے۔ وہ لوگ مراد نہیں جو حلال و حرام کی پروا نہیں کرتے اور نامِ علم کو بدنام کرتے ہیں ۔
(6)… جس نے کسی کو برا کام کرتے دیکھا اور خود یہ بھی اس برے کام کو کرتا ہے تو اس برے کام سے منع کردے کیونکہ اس کے ذمہ دو چیزیں واجب ہیں برے کام کو چھوڑنا اور دوسرے کو برے کام سے منع کرنا اگر ایک واجب کا تارک ہے تو دوسرے کا کیوں تارک بنے۔
{اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ:بیشک تمہارا رب اسے خوب جانتا ہے ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کی ذمہ داری صرف لوگوں تک اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا پیغام پہنچانا اور ان تین طریقوں سے دینِ اسلام کی دعوت دینا ہے۔اللّٰہ تعالیٰ گمراہ ہونے والوں اور ہدایت پانے والوں کو خوب جانتا ہے اور وہ ہر ایک کو ا س کے عمل کی جزا دے گا۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۲۵، ۳ / ۱۵۱-۱۵۲)
وَ اِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖؕ-وَ لَىٕنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ(126)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اگر تم (کسی کو)سزا دینے لگو تو ایسی ہی سزا دو جیسی تمہیں تکلیف پہنچائی گئی ہو اور اگر تم صبر کرو تو بیشک صبر والوں کیلئے صبر سب سے بہتر ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِنْ عَاقَبْتُمْ:اور اگر تم سزا دینے لگو۔} یعنی اگر تم کسی کوسزا دینے لگو تو وہ سزا جرم کے حساب سے ہو، اُس سے زیادہ نہ ہو اور اگر تم صبر کرو اور انتقام نہ لو تو بیشک صبر والوں کیلئے صبر سب سے بہتر ہے۔ شانِ نزول: جنگ ِاُحد میں کفار نے مسلمانوں کے شُہداء کے چہروں کو زخمی کرکے اُن کی شکلوں کو تبدیل کیا تھا ، اُن کے پیٹ چاک کئے اور ان کے اعضاء کاٹے تھے ، ان شہداء میں حضرت حمزہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بھی تھے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جب انہیں دیکھا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بہت صدمہ ہوا اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے قسم کھائی کہ ایک حضرت حمزہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بدلہ ستر کافروں سے لیا جائے گا اور ستر کا یہی حال کیا جائے گا۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی توحضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وہ ارادہ ترک فرمایا اور اپنی قسم کا کفارہ دے دیا۔ یاد رہے کہ مُثلہ یعنی ناک کان وغیرہ کاٹ کر کسی کی ہَیئت کو تبدیل کرنا شریعت میں حرام ہے۔( مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۱۲۶، ص۶۱۴، جلالین، النحل، تحت الآیۃ: ۱۲۶، ص۲۲۸، ملتقطاً)
وَ اصْبِرْ وَ مَا صَبْرُكَ اِلَّا بِاللّٰهِ وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْهِمْ وَ لَا تَكُ فِیْ ضَیْقٍ مِّمَّا یَمْكُرُوْنَ(127)اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِیْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ(128)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور صبر کرو اور تمہارا صبر اللہ ہی کی توفیق سے ہے اور ان کا غم نہ کھاؤ اور ان کی سازشوں سے دل تنگ نہ ہو ۔ بیشک اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو ڈرتے ہیں اور وہ جو نیکیاں کرنے والے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اصْبِرْ:اور صبر کرو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللّٰہ تعالیٰ کے راستے میں کفار کی طرف سے آپ کوجواَ ذِیَّتیں پہنچیں ان پر صبر فرمائیں اور آپ کا صبر کرنا اللّٰہ تعالیٰ ہی کی توفیق سے ہے اورآپ ان مشر کین کا غم نہ کھائیں جو آپ کو جھٹلاتے ہیں ، قرآنِ پاک کا انکار کرتے اور آپ کی نصیحتوں سے اِعراض کرتے ہیں اور مشرکین آپ کی طرف جو جادو گر اور کاہن ہونے کی نسبت کرتے ہیں اور لوگوں کو دین ِاسلام سے دور کرنے کی جو سازشیں کرتے ہیں آپ اس سے دل تنگ نہ ہوں کیونکہ ہم آپ کے ناصر و مددگار ہیں ۔( تفسیر طبری، النحل، تحت الآیۃ: ۱۲۷، ۷ / ۶۶۶، جلالین، النحل، تحت الآیۃ: ۱۲۷، ص۲۲۸، ملتقطاً)
{اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِیْنَ:بیشک اللّٰہ ان لوگوں کے ساتھ ہے۔}یعنی اے انسان ! اگر تو چاہتا ہے کہ میری مدد، میرا فضل اور میری رحمت تیرے شاملِ حال ہو تو تو ان لوگوں میں سے ہوجا جو مجھ سے ڈرتے ہیں اور نیکیاں کرنے والے ہیں ۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۲۸، ۳ / ۱۵۳)
حضرت ہرم بن حیان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی وصیت
سورہِ نحل کی آخری تین آیات انتہائی شاندار احکام پر مشتمل ہیں ،لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ ان آیتوں میں بیان کئے گئے احکام پر عمل کو اپنی زندگی کا خاص وظیفہ بنا لے اور اپنے متعلقین کو بھی اس کی نصیحت کرتا رہے تاکہ وہ بھی ان پر عمل کی کوشش میں مصروف ہو جائیں ، ہمارے بزرگان دین بھی اس کی وصیت فرمایا کرتے تھے، چنانچہ منقول ہے کہ حضرت ہرم بن حیان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی وفات کا وقت قریب آیا تو ان سے عرض کی گئی: آپ کوئی وصیت کر دیں ۔ انہوں نے فرمایا: ’’وصیت تو مال کے بارے ہوتی ہے اور میرے پاس کوئی مال نہیں البتہ میں تمہیں سورہِ نحل کی آخری آیتوں یعنی ’’اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ‘‘ سے لے کر سورت کے آخر تک کی وصیت کرتا ہوں (کہ ان میں جو احکام بیان ہوئے ان پر مضبوطی سے عمل پیرا ہو جاؤ۔)( روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۱۲۸، ۵ / ۱۰۱)