سُوْرَۃُ النَّمْل
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
ترجمہ: کنزالعرفان
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ، رحمت والاہے ۔
تفسیر: صراط الجنان
{ بِسْمِ اللّٰهِ: اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔(کنز العمال، کتاب الاذکار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول، الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے.
{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)
’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:
علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :
(1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام جو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔
طٰسٓ- تِلْكَ اٰیٰتُ الْقُرْاٰنِ وَ كِتَابٍ مُّبِیْنٍ(1)
ترجمہ: کنزالعرفان
طس، یہ قرآن اور روشن کتاب کی آیتیں ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{ طٰسٓ} یہ حروفِ مُقَطَّعات میں سے ایک حرف ہے، اس کی مراد اللہ تعالٰی ہی بہتر جانتا ہے۔
{تِلْكَ اٰیٰتُ الْقُرْاٰنِ: یہ قرآن کی آیتیں ہیں ۔} ارشاد فرمایا کہ یہ سورت قرآن اوراس روشن کتاب کی آیتیں ہیں جو حق اور باطل میں امتیاز کرتی ہے اور جس میں علوم اور حکمتیں امانت رکھی گئی ہیں ۔ یہاں روشن کتاب سے مراد لوحِ محفوظ ہے یا اس سے مراد بھی قرآنِ پاک ہی ہے اور یہ قرآنِ مجید کی صفت ہے۔( جلالین، النمل، تحت الآیۃ: ۱، ص۳۱۷، مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۱، ص۸۳۷، ملتقطاً)
هُدًى وَّ بُشْرٰى لِلْمُؤْمِنِیْنَ(2)الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ هُمْ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَ(3)
ترجمہ: کنزالعرفان
ایمان والوں کیلئے ہدایت اور خوشخبری ہے۔ وہ جو نمازقائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{هُدًى وَّ بُشْرٰى: ہدایت اور خوشخبری ہے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن ان لوگوں کے لئے ہدایت اور بشارت ہے جو ا س پر ایمان لاتے ہیں ، فرض نمازیں ہمیشہ پڑھتے ہیں اور نمازکی شرائط و آداب اور جملہ حقوق کی حفاظت کرتے ہیں اور جب ان کے مال پر زکوٰۃ فرض ہو جائے تو خوش دلی سے زکوٰۃ دیتے ہیں اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں ۔( تفسیرطبری، النمل، تحت الآیۃ: ۲–۳، ۹ / ۴۹۴، خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۲–۳، ۳ / ۴۰۱، روح البیان، النمل، تحت الآیۃ: ۲–۳، ۶ / ۳۱۹، ملتقطاً)
اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ زَیَّنَّا لَهُمْ اَعْمَالَهُمْ فَهُمْ یَعْمَهُوْنَﭤ(4)اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ لَهُمْ سُوْٓءُ الْعَذَابِ وَ هُمْ فِی الْاٰخِرَةِ هُمُ الْاَخْسَرُوْنَ(5)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک وہ لوگ جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے ہم نے ان کے برے اعمال ان کی نگاہ میں خوشنما بنا دئیے ہیں تو وہ بھٹک رہے ہیں ۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے برا عذاب ہے اور یہی آخرت میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{ اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ: بیشک وہ لوگ جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے۔} اس سے پہلی آیتوں میں ایمان والوں کے حالات بیان کئے گئے اور ا س آیت سے کافروں کے حالات بیا ن کئے جا رہے ہیں ، چنانچہ ا س آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو آخر ت پر اور قرآن پاک میں قیامت کے دن ملنے والے نیک اعمال کے جو ثواب اور برے اعمال کے جو عذاب بیان کئے گئے ہیں ، ان پر ایمان نہیں لاتے، ہم نے ان کے برے اعمال ان کی نگاہ میں خوشنما بنادئیے ہیں کہ وہ اپنی برائیوں کوخواہشات کی وجہ سے بھلائی جانتے ہیں ، پس وہ اپنی گمراہی میں بھٹک رہے ہیں اور ان کے پاس بصیر ت نہیں جس کے ذریعے وہ اچھائی اور برائی میں امتیاز کر سکیں ۔یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے دنیا میں قتل اورگرفتاری کا برا عذاب ہے اور یہی آخرت میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے ہیں کہ ان کا انجام دائمی عذاب ہے۔( ابو سعود ، النمل ، تحت الآیۃ : ۴–۵ ، ۴ / ۱۸۶ ، مدارک ، النمل ، تحت الآیۃ: ۴–۵، ص۸۳۷–۸۳۸، جلالین، النمل، تحت الآیۃ: ۴–۵، ص۳۱۷، ملتقطاً)
وَ اِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْاٰنَ مِنْ لَّدُنْ حَكِیْمٍ عَلِیْمٍ(6)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور (اے محبوب!) بیشک آپ کو قرآن سکھایا جاتا ہے حکمت والے، علم والے کی طرف سے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْاٰنَ: اور (اے محبوب!) بیشک آپ کو قرآن سکھایا جا تا ہے۔} ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی طرف سے قرآن مجید کی آیات نہیں بناتے بلکہ آپ کو اس رب تعالٰی کی طرف سے قرآن سکھایا جاتا ہے جو حکمت والا اور علم والا ہے، لہٰذا کفار کا یہ اعتراض غلط اور باطل ہے کہ آپ اپنی طرف سے قرآن پاک کی آیتیں بناتے ہیں۔(روح البیان، النمل، تحت الآیۃ: ۶، ۶ / ۳۲۰، ملخصا)
حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے استاد نہیں :
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام حضورِاقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے استاد نہیں بلکہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اللہ تعالٰی سے سیکھا ہے جبکہ حضر ت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام خادم اور قاصد بن کر تشریف لاتے رہے۔ یہ بھی پتہ لگا کہ حضورِاکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرح قرآن کوئی نہیں سمجھ سکتا کیوں کہ سب لوگ مخلوق سے قرآن سیکھتے ہیں اور حضورِ انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خالق سے سیکھا۔
اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِاَهْلِهٖۤ اِنِّیْۤ اٰنَسْتُ نَارًاؕ-سَاٰتِیْكُمْ مِّنْهَا بِخَبَرٍ اَوْ اٰتِیْكُمْ بِشِهَابٍ قَبَسٍ لَّعَلَّكُمْ تَصْطَلُوْنَ(7)فَلَمَّا جَآءَهَا نُوْدِیَ اَنْۢ بُوْرِكَ مَنْ فِی النَّارِ وَ مَنْ حَوْلَهَاؕ-وَ سُبْحٰنَ اللّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(8)یٰمُوْسٰۤى اِنَّهٗۤ اَنَا اللّٰهُ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(9)وَ اَلْقِ عَصَاكَؕ-فَلَمَّا رَاٰهَا تَهْتَزُّ كَاَنَّهَا جَآنٌّ وَّلّٰى مُدْبِرًا وَّ لَمْ یُعَقِّبْؕ-یٰمُوْسٰى لَا تَخَفْ- اِنِّیْ لَا یَخَافُ لَدَیَّ الْمُرْسَلُوْنَ(10)اِلَّا مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًۢا بَعْدَ سُوْٓءٍ فَاِنِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(11)وَ اَدْخِلْ یَدَكَ فِیْ جَیْبِكَ تَخْرُ جْ بَیْضَآءَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓءٍ- فِیْ تِسْعِ اٰیٰتٍ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ قَوْمِهٖؕ-اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ(12)
ترجمہ: کنزالعرفان
۔ (یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنی گھر والی سے کہا:میں نے ایک آ گ دیکھی ہے (تو میں جاتا ہوں اور) عنقریب میں تمہارے پاس اس کی کوئی خبر لاتا ہوں یا کوئی چمکتی ہوئی چنگاری لاؤں گا تاکہ تم گرمی حاصل کرو۔ پھر جب موسیٰ آگ کے پاس آئے تو (انہیں ) ندا کی گئی کہ اُس (موسیٰ) کو جو اس آگ کی جلوہ گاہ میں ہے اور جو اس (آگ) کے آس پاس (فرشتے) ہیں انہیں برکت دی گئی اور اللہ پاک ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے۔ اے موسیٰ !بات یہ ہے کہ میں ہی اللہ ہوں جوعزت والا حکمت والا ہے۔ اور اپنا عصا (زمین پر) ڈال دو توجب آپ نے اسے لہراتے ہوئے دیکھا کہ گویا سانپ ہے تو پیٹھ پھیر کر چلے اور مڑ کر نہ دیکھا۔ (ہم نے فرمایا) اے موسیٰ! ڈرو نہیں ، بیشک میری بارگاہ میں رسول ڈرتے نہیں ۔ لیکن جس شخص نے کوئی ز یادتی کی پھر برائی کے بعد (اپنے عمل کو) نیکی سے بدل دیا تو بیشک میں بخشنے والا مہربان ہوں ۔اور اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈالوتووہ بغیر کسی عیب کے سفید چمکتا ہوا نکلے گا، (یہ بھی) فرعون اور اس کی قوم کی طرف نو نشانیوں میں سے ہے، بیشک وہ (فرعونی) نافرمان لوگ تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِاَهْلِهٖ: جب موسیٰ نے اپنی گھر والی سے کہا۔} یہاں سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ایک واقعہ بیان فرمایا جارہا ہے۔چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی 5 آیات میں بیان کئے گئے واقعے کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مَدْیَن سے مصر کی طرف جا رہے تھے، دورانِ سفر یوں ہواکہ رات کے وقت کافی اندھیرا اور برف باری ہونے کی وجہ سے سخت سردی تھی،آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام راستہ بھی بھول گئے تھے اور اسی رات آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زوجہ مطہرہ کودردِ زِہ (یعنی بچے کی ولادت کا درد) بھی شروع ہو گیا۔ اسی حال میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دور سے ایک روشنی ملاحظہ فرمائی۔آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی گھر والی سے کہا:میں نے ایک آگ دیکھی ہے، تم یہیں ٹھہرو، میں ا س طرف جاتا ہوں اور تھوڑی دیر میں تمہارے پاس راستے کی کوئی خبر لاتا ہوں یا اس میں سے کوئی چمکتی ہوئی چنگاری لے آؤں گا تاکہ تم اس سے گرمی حاصل کرو اور سردی کی تکلیف سے امن پاؤ۔ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس آگ کے پاس آئے تو انہیں ندا کی گئی کہ اُس موسیٰ کوبرکت دی گئی جو اِس آگ کی جگہ میں ہے اور جو اِس آگ کے آس پاس فرشتے ہیں انہیں برکت دی گئی اور اللہ تعالٰی پاک ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے۔اے موسیٰ !بات یہ ہے کہ میں ہی اللہ ہوں جوعزت والا حکمت والاہے اور اپنا عصا زمین پرڈال دو۔چنانچہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالٰی کے حکم سے عصا ڈال دیا تو وہ سانپ بن گیا۔جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اسے لہراتے ہوئے دیکھا توآپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خوف کی وجہ سے پیٹھ پھیر کر چلے اور مڑ کر نہ دیکھا۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا:اے موسیٰ !ڈرو نہیں ، بیشک میری بارگاہ میں سانپ یا کسی اور چیز سے رسول ڈرتے نہیں ، جب میں انہیں امن دوں تو پھر کسی چیز کا کیا اندیشہ ہے،لیکن جس شخص نے کوئی ز یادتی کی اس کو ڈر ہوگا یہاں تک کہ وہ اس سے توبہ کر لے اور برائی کے بعد اپنے عمل کونیکی سے بدل دے تو بیشک میں بخشنے والا مہربان ہوں ، توبہ قبول فرماتا ہوں اور بخش دیتا ہوں ۔ اس کے بعد حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دوسری نشانی دکھائی گئی اور فرمایا گیا’’ اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈال کر باہر نکالوتووہ بغیر کسی عیب کے سفید چمکتا ہوا نکلے گا۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس وقت صُوف کا جبہ پہنے ہوئے تھے، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال کر نکالا تووہ سورج کی شعاعوں کی طرح چمک رہا تھا۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ یہ بھی فرعون اور اس کی قوم کی طرف بھیجتے وقت اللہ تعالٰی کی دی ہوئی نو نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، بیشک وہ فرعونی نافرمان لوگ ہیں اور کفر و سرکشی میں حد سے بڑھ چکے ہیں ۔ (خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۷–۱۲، ۳ / ۴۰۱–۴۰۲، روح البیان، النمل، تحت الآیۃ: ۱۲، ۶ / ۳۲۴، ملتقطاً)
{یٰمُوْسٰى: اے موسیٰ۔} یاد رہے کہ اس ندا سے اور اِس واقعے سے ولایت و معرفت کے بہت سے اَسرار اَخذ کئے گئے ہیں۔
{ فِیْ تِسْعِ اٰیٰتٍ: نو نشانیوں میں سے۔} حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جو نونشانیاں عطا کی گئیں وہ یہ ہیں : (1) عصا۔(2)ید ِبَیضا۔(3) بولنے میں دِقّت جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زبان مبارک میں تھی پھر اللہ تعالٰی نے اسے دور فرمادیا۔(4) دریاکا پھٹنا اوراس میں رستے بننا۔ (5)طوفان۔(6) ٹڈی۔(7) گُھن۔(8) مینڈک۔(9) خون۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۳ / ۱۹۴) اس رکوع میں پہلی دو نشانیاں بیان کی گئی ہیں ، جبکہ ان میں سے آخری6 نشانیوں کا مُفَصّل بیان نویں پارے کے چھٹے رکوع میں گزر چکاہے۔
فَلَمَّا جَآءَتْهُمْ اٰیٰتُنَا مُبْصِرَةً قَالُوْا هٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ(13)وَ جَحَدُوْا بِهَا وَ اسْتَیْقَنَتْهَاۤ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّ عُلُوًّاؕ-فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ(14)
ترجمہ: کنزالعرفان
پھر جب ان کے پاس آنکھیں کھولتی ہوئی ہماری نشانیاں آئیں تو وہ کہنے لگے: یہ توکھلا جادو ہے۔ اور انہوں نے ظلم اور تکبر کی وجہ سے ان نشانیوں کاانکار کیا حالانکہ ان کے دل ان نشانیوں کا یقین کر چکے تھے تو دیکھو فساد کرنے والوں کا انجام کیسا ہوا؟
تفسیر: صراط الجنان
{فَلَمَّا جَآءَتْهُمْ اٰیٰتُنَا: پھر جب ان کے پاس ہماری نشانیاں آئیں۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب فرعونیوں کے پاس آنکھیں کھول دینے والی اللہ تعالٰی کی نشانیاں یوں آئیں کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرعونیوں کے پاس تشریف لا کر ان نشانیوں کو ظاہر فرمایاتو وہ کہنے لگے:ہم جو دیکھ رہے ہیں یہ توکھلا جادو ہے۔ انہوں نے صرف ظلم اور تکبر کی وجہ سے ان معجزات کاانکار کیا حالانکہ ان کے دل،دماغ ان نشانیوں کا یقین کر چکے تھے اور وہ جانتے تھے کہ بے شک یہ نشانیاں اللہ تعالٰی کی طرف سے ہیں لیکن اس کے باوجود اپنی زبانوں سے انکار کرتے رہے۔تو دیکھو فساد کرنے والوں کا انجام کیسا ہواکہ وہ لوگ دریا میں غرق کرکے ہلاک کر دیئے گئے۔( خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۱۳–۱۴، ۳ / ۴۰۳، روح البیان، النمل، تحت الآیۃ: ۱۳–۱۴، ۶ / ۳۲۴، ملتقطاً)
عذاب یافتہ لوگوں کے انجام سے عبرت ونصیحت حاصل کرنی چاہئے:
علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :یہ واقعہ کفارِ قریش کے سامنے بطورِ مثال پیش کر کے ان پر واضح کر دیا گیا کہ جو رب تعالٰی فرعون (اور ا س کی قوم) کو ہلاک کرنے پر قدرت رکھتا ہے وہ ان لوگوں کو بھی ہلاک کرنے پر قادر ہے جو فرعون (اور اس کی قوم) کی رَوِش اختیار کئے ہوئے ہیں ۔اس میں قیامت تک آنے والے تمام لوگوں کے لئے بھی نصیحت ہے کیونکہ دشمنوں پر اللہ تعالٰی کا غضب و جلال اسی طرح ہمیشہ کے لئے ہے جس طرح اولیاء پر اس کا کرم و جمال ہر زمانے میں باقی ہے، لہٰذا ہر عقلمند انسان کو چاہئے کہ وہ دوسروں کے حال اور انجام سے عبرت ونصیحت حاصل کرے اور ان تمام اسباب کو ترک کر دے جو اللہ تعالٰی کے عذاب اور ہلاکت کی طرف لے جانے والے ہیں ۔( روح البیان، النمل، تحت الآیۃ: ۱۴، ۶ / ۳۲۴، ملخصاً)
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ عِلْمًاۚ-وَ قَالَا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلٰى كَثِیْرٍ مِّنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِیْنَ(15)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ہم نے داؤد اور سلیمان کو بڑا علم عطا فرمایااور دونوں نے کہا: تمام تعریفیں اس اللہ کیلئے ہیں جس نے ہمیں اپنے بہت سے ایمان والے بندوں پر فضیلت بخشی۔
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ عِلْمًا: اور بیشک ہم نے داؤد اور سلیمان کو بڑا علم عطا فرمایا۔} یعنی ہم نے حضرت داؤد اور حضرت سلیمان عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قضا اور سیاست کا علم دیا، حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پہاڑوں اور پرندوں کی تسبیح کا اور حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو چوپایوں اور پرندوں کی بولی کا علم دیا۔ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا: تمام تعریفیں اس اللہ تعالٰی کیلئے ہیں جس نے ہمیں نبوت و ملک عطا فرماکر، جن و اِنس اور شَیاطین کو ہمارے لئے مُسَخّر کرکے اپنے بہت سے ایمان والے بندوں پر ہمیں فضیلت بخشی۔( خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۱۵، ۳ / ۴۰۳، ابو سعود، النمل، تحت الآیۃ: ۱۵، ۴ / ۱۹۰، ملتقطاً)
علم والوں کو شکر کرنے کی ترغیب:
اس آیت میں اہل ِعلم کے لئے ترغیب ہے کہ اللہ تعالٰی نے اپنے فضل سے انہیں جو علم عطا کیا ا س پر وہ اللہ تعالٰی کا شکر ادا کریں اور عاجزی و اِنکساری کا اظہار کریں اور یہ ذہن بنائیں کہ اگرچہ انہیں کثیر لوگوں پر فضیلت دی گئی ہے لیکن بہت سے بندوں کو ان پر بھی فضیلت حاصل ہے کہ ہر علم والے کے اوپر بڑا علم والا ہے۔حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ عاجزی فرماتے ہوئے کہتے تھے’’سب لوگ عمر فاروق سے زیادہ فقیہ ہیں ۔( ابو سعود، النمل، تحت الآیۃ: ۱۵، ۴ / ۱۹۰، ملتقطاً)
وَ وَرِثَ سُلَیْمٰنُ دَاوٗدَ وَ قَالَ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ وَ اُوْتِیْنَا مِنْ كُلِّ شَیْءٍؕ-اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِیْنُ(16)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور سلیمان داؤد کے جانشین بنے اور فرمایا: اے لوگو!ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے اور ہر چیز میں سے ہم کو عطا ہوا،بیشک یہی (اللہ کا) کھلا فضل ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ وَرِثَ سُلَیْمٰنُ دَاوٗدَ: اور سلیمان داؤد کے جانشین بنے۔} یہاں آیت میں نبوت، علم اور ملک میں جانشینی مراد ہے مال کی وراثت مراد نہیں ۔ چنانچہ ابومحمد حسین بن مسعود بغوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں ۔حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں سے صرف حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کی نبوت، علم اور ان کے ملک کے وارث بنے۔حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ملک عطا ہوا اور مزید انہیں ہواؤں اور جِنّات کی تسخیر بھی عطا کی گئی۔( تفسیر بغوی، النمل، تحت الآیۃ: ۱۶، ۳ / ۳۵۰)
حضرت علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے وصال کے بعد علم،نبوت اور ملک صرف حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عطا ہوئے، ان کی باقی اولاد کو نہ ملے۔
اسے یہاں مجازاً میراث سے تعبیر کیا گیا کیونکہ میراث در حقیقت مال میں ہوتی ہے جبکہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام روحانی کمالات کا وارث بناتے ہیں ان کے نزدیک مال کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔(روح البیان، النمل، تحت الآیۃ: ۱۶، ۶ / ۳۲۷)
ابو عبداللہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں : ’’حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے انیس بیٹے تھے، ان میں سے صرف حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت اور ملک کے وارث ہوئے، اگر یہاں مال کی وراثت مراد ہوتی تو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سب بیٹے اس میں برابر کے شریک ہوتے۔(تفسیرقرطبی، النمل، تحت الآیۃ: ۱۶، ۷ / ۱۲۵، الجزء الثالث عشر)
سر ِدست یہاں تین معتبر تفاسیر کے حوالے سے لکھا گیا جبکہ ان کے علاوہ تفسیر طبری،تفسیر بیضاوی،تفسیر ابو سعود، تفسیر کبیر،تفسیر البحر المحیط اور تفسیر جلالین وغیرہ میں بھی یہی لکھا ہے کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے علم، نبوت اور ملک کے وارث ہوئے۔ لہٰذا اس آیت کو اس بات کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا کہ نبی عَلَیْہِ السَّلَام کی اولاد نبی عَلَیْہِ السَّلَام کے مال کی وارث بنتی ہے۔اس کی مزید صراحت درج ذیل حدیث پاک میں موجود ہے، چنانچہ
حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبیٔ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کسی کو دینارو درہم کا وارث نہ بنایا بلکہ انہوں نے صرف علم کا وارث بنایا تو جس نے علم اختیار کیا اس نے پورا حصہ لیا۔(ترمذی ، کتاب العلم عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، باب ما جاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ ، ۴ / ۳۱۲ ، الحدیث: ۲۶۹۱)
{وَ قَالَ: اورفرمایا۔} یعنی حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے لوگوں سے فرمایا: اے لوگو!ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے اور دنیا و آخرت کی بکثرت نعمتیں ہمیں عطا کی گئی ہیں ،بیشک یہی اللہ تعالٰی کاکھلا فضل ہے۔
حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر اللہ تعالٰی کی نعمتیں :
مروی ہے کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالٰی نے زمین کے مشرقوں اور مغربوں کی مملکت عطا فرمائی۔ چالیس سال آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس کے مالک ر ہے۔ پھر پوری دنیا کی مملکت عطا فرمائی، جن و اِنس، شیطان، پرندے، چوپائے، درندے سب پر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی حکومت تھی اور ہر ایک شے کی زبان آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عطا فرمائی اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے میں عجیب و غریب صنعتیں ایجاد ہوئیں ۔(خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۱۶، ۳ / ۴۰۴)
وَ حُشِرَ لِسُلَیْمٰنَ جُنُوْدُهٗ مِنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ وَ الطَّیْرِ فَهُمْ یُوْزَعُوْنَ(17)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور سلیمان کے لیے جنوں اور انسانوں اور پرندوں سے اس کے لشکر جمع کر دئیے گئے تو وہ روکے جاتے تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ حُشِرَ لِسُلَیْمٰنَ جُنُوْدُهٗ : اور سلیمان کے لیے اس کے لشکر جمع کر دئیے گئے۔} اس آیت کا ایک مفہوم یہ ہے کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے مختلف مقامات سے جنوں ، انسانوں اور پرندوں کے لشکروں کو جمع کر دیا گیا اور اس لشکر کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ ان کا انتظام کرنے کے لئے اگلوں کو آگے بڑھنے سے روکا جاتا تاکہ سب جمع ہوجائیں ، اس کے بعد انہیں چلایا جاتا تھا۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لیے جنّوں اور انسانوں اور پرندوں سے اس کے لشکر جمع کر دئیے گئے تو وہ پہلے ایک جگہ ترتیب سے روکے جاتے تھے پھر انہیں کہیں روانہ کیا جاتا تھا۔ مروی ہے کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لشکر کی جگہ ایک سو فرسخ (یعنی تین سو میل) میں تھی۔ 25 فرسخ (یعنی 75 میل) جنوں کے لئے، 25فرسخ انسانوں کے لئے، 25 فرسخ پرندوں کے لئے اور25 فرسخ وحشی جانوروں کے لئے تھی۔(ابو سعود، النمل، تحت الآیۃ: ۱۷، ۴ / ۱۹۱ – ۱۹۲، ملخصاً) فی زمانہ کی چھاؤنیوں کا سسٹم دیکھ کر یہ بات کوئی بعید نہیں لگتی۔
حَتّٰۤى اِذَاۤ اَتَوْا عَلٰى وَادِ النَّمْلِۙ-قَالَتْ نَمْلَةٌ یّٰۤاَیُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسٰكِنَكُمْۚ-لَا یَحْطِمَنَّكُمْ سُلَیْمٰنُ وَ جُنُوْدُهٗۙ-وَ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ(18)
ترجمہ: کنزالعرفان
یہاں تک کہ جب وہ چیونٹیوں کی وادی پر آئے توایک چیونٹی نے کہا: اے چیونٹیو!اپنے گھروں میں داخل ہوجاؤ، کہیں سلیمان اور ان کے لشکر بے خبری میں تمہیں کچل نہ ڈالیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{حَتّٰۤى اِذَاۤ اَتَوْا عَلٰى وَادِ النَّمْلِ: یہاں تک کہ جب وہ چیونٹیوں کی وادی پر آئے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور چیونٹی کاواقعہ بیان کیا جارہا ہے۔ ایک مرتبہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام اپنے لشکروں کے ساتھ طائف یا شام میں اس وادی پر سے گزرے جہاں چیونٹیاں بکثرت تھیں ۔جب چیونٹیوں کی ملکہ نے حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لشکر کو دیکھا تووہ کہنے لگی:اے چیونٹیو!اپنے گھروں میں داخل ہوجاؤ، کہیں حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے لشکر بے خبری میں تمہیں کچل نہ ڈالیں۔ملکہ نے یہ اس لئے کہا کہ وہ جانتی تھی کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نبی ہیں ، عدل کرنے والے ہیں ، جبر اور زیادتی آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شان نہیں ہے۔ اس لئے اگر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لشکر سے چیونٹیاں کچلی جائیں گی تو بے خبری ہی میں کچلی جائیں گی کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ گزرتے ہوئے اس طرف توجہ نہ کریں ۔ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے چیونٹی کی یہ بات تین میل سے سن لی اور ہوا ہر شخص کا کلام آپ کی مبارک سماعت تک پہنچاتی تھی جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چیونٹیوں کی وادی کے قریب پہنچے تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے لشکر وں کو ٹھہرنے کا حکم دیا یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنے گھروں میں داخل ہوگئیں ۔ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ سفر ہوا پر نہ تھا بلکہ پیدل اور سواریوں پر تھا۔( جلالین، النمل، تحت الآیۃ: ۱۸، ص۳۱۸، خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۱۸، ۳ / ۴۰۵، ملتقطاً)
فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّنْ قَوْلِهَا وَ قَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِیْۤ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَ عَلٰى وَالِدَیَّ وَ اَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىهُ وَ اَدْخِلْنِیْ بِرَحْمَتِكَ فِیْ عِبَادِكَ الصّٰلِحِیْنَ(19)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو سلیمان اس کی بات پر مسکراکر ہنس پڑے اور عرض کی: اے میرے رب!مجھے توفیق دے کہ میں تیرے اس احسان کا شکر اداکروں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کیا اور (مجھے توفیق دے) کہ میں وہ نیک کام کروں جس پر تو راضی ہو اور مجھے اپنی رحمت سے اپنے ان بندوں میں شامل کر جو تیرے خاص قرب کے لائق ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّنْ قَوْلِهَا: تو اس کی بات پر مسکراکر ہنس پڑے۔} حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جب ملکہ چیونٹی کی بات سنی تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس کے چیونٹیوں کی حفاظت، ان کی ضروریات کی تدبیر اور چیونٹیوں کو نصیحت کرنے پر تعجب کرتے ہوئے مسکرا کر ہنس پڑے۔( مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۸۴۲)
انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ہنسنا تَبَسُّم ہی ہوتا ہے:
یاد رہے کہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ہنسنا تبسم ہی ہوتا ہے وہ حضرات قہقہہ مار کر نہیں ہنستے۔ حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا فرماتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کبھی پورا ہنستے نہ دیکھا حتّٰی کہ میں آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے تالو دیکھ لیتی۔ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ صرف مسکرایا کرتے تھے۔( بخاری، کتاب الادب، باب التبسم والضحک، ۴ / ۱۲۵، الحدیث: ۶۰۹۲)
{وَ قَالَ: اور عرض کی۔} حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالٰی کی نعمتیں ملنے پر ا س کی حمد کرتے ہوئے عرض کی : اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، مجھے توفیق دے کہ میں تیرے اس احسان کا شکر اداکروں جو تو نے نبوت، ملک اور علم عطا فرما کر مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کیا اورمجھے توفیق دے کہ میں بقیہ زندگی میں بھی وہ نیک کام کرو ں جس پر تو راضی ہو اور مجھے اپنی رحمت سے اپنے ان بندوں کے زمرے میں شامل کر جو تیرے خاص قرب کے لائق ہیں ۔ خاص قرب کے لائق بندوں سے مراد اَنبیاء ومُرسَلین عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاء ِکرام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ ہیں ۔( خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۱۹، ۳ / ۴۰۵، مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۸۴۲، ملتقطاً)
وَ تَفَقَّدَ الطَّیْرَ فَقَالَ مَا لِیَ لَاۤ اَرَى الْهُدْهُدَ ﳲ اَمْ كَانَ مِنَ الْغَآىٕبِیْنَ(20)لَاُعَذِّبَنَّهٗ عَذَابًا شَدِیْدًا اَوْ لَاۡاَذْبَحَنَّهٗۤ اَوْ لَیَاْتِیَنِّیْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ(21)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور سلیمان نے پرندوں کا جائزہ لیا توفرمایا:مجھے کیا ہوا کہ میں ہد ہد کو نہیں دیکھ رہا یا وہ واقعی غیر حاضروں میں سے ہے۔ میں ضرور ضروراسے سخت سزا دوں گایا اسے ذبح کردوں گا یا وہ کوئی واضح دلیل میرے پاس لائے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ تَفَقَّدَ الطَّیْرَ: اور پرندوں کا جائزہ لیا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں اسی سفر کے دوران پیش آنے والا ایک اور واقعہ بیان کیا جا رہا ہے۔وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ایک جگہ پرندوں کا جائزہ لیا تو فرمایا: مجھے کیا ہوا کہ میں ہد ہد کو یہاں نہیں دیکھ رہا یا وہ واقعی غیر حاضروں میں سے ہے۔ میں غیر حاضری کی وجہ سے اسے سخت سزا دوں گا یا ذبح کردوں گا۔ سخت سزا سے مراد اس کے پر اُکھاڑ کر یا اسے اس کے پیاروں سے جدا کرکے یا اس کو اس کے ساتھیوں کا خادم بنا کر یا اُس کو غیر جانوروں کے ساتھ قید کرنے کی صورت میں سزا دینا ہے۔ البتہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مزید یہ فرمایا کہ ہدہد کو سزا دی جائے گی مگر یہ کہ وہ اپنی غیرحاضری کی کوئی معقول دلیل میرے پاس لائے جس سے اس کی معذوری ظاہر ہو۔(جمل، النمل، تحت الآیۃ: ۲۰، ۵ / ۴۳۱، مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۲۰–۲۱، ص۸۴۲، ملتقطاً)
حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا پرندوں کا جائزہ لینے اور ہدہد کے بارے میں دریافت کرنے کا ایک سبب یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کسی جگہ پر اترتے تو جن و اِنس اور پرندوں کے لشکر آپ پر سایہ کر دیتے یہاں جب ہد ہد کی جگہ سے انہیں دھوپ پہنچی تو اس طرف دیکھا،وہاں ہدہد موجود نہیں تھا اس لئے ہد ہد کے بارے میں فرمایا کہ میں ہد ہد کو یہاں نہیں دیکھ رہا۔ دوسرا سبب یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہد ہد حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پانی کی جگہ کے بارے میں بتادیتا تھا کیونکہ ا س میں یہ صلاحیت تھی کہ وہ زمین کے اندر موجود پانی بھی دیکھ لیتا اور پانی کے قریب یا دور ہونے کے بارے میں جان لیتا تھا،جہاں اسے پانی نظر آتا وہ اپنی چونچ سے اس جگہ کو کُریدنا شروع کر دیتا، پھر جنّات آتے اور اس جگہ کو کھود کر پانی نکال لیتے۔ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جب اس جگہ اترے تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پانی کی حاجت ہوئی۔لشکر والوں نے پانی تلاش کیا لیکن انہیں نہ ملا۔ہدہد کو دیکھا گیا تاکہ وہ پانی کے بارے میں بتائے لیکن ہدہد یہاں موجود نہ تھا اس لئے آپ نے فرمایا کہ میں ہد ہد کو یہاں موجود نہیں پاتا۔(خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۲۰، ۳ / ۴۰۶)
یاد رہے کہ ہد ہد کو مَصلحت کے مطابق سزا دینا حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے حلال تھا اور جب پرندے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے مُسَخّر کر دئیے گئے تھے تو تادیب و سیاست ا س تسخیر کا تقاضا ہے کہ اس کے بغیر تسخیر مکمل نہیں ہوتی۔ (مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۲۱، ص۸۴۲)
فَمَكَثَ غَیْرَ بَعِیْدٍ فَقَالَ اَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهٖ وَ جِئْتُكَ مِنْ سَبَاٍۭ بِنَبَاٍ یَّقِیْنٍ(22)اِنِّیْ وَجَدْتُّ امْرَاَةً تَمْلِكُهُمْ وَ اُوْتِیَتْ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ وَّ لَهَا عَرْشٌ عَظِیْمٌ(23)وَجَدْتُّهَا وَ قَوْمَهَا یَسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ زَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِیْلِ فَهُمْ لَا یَهْتَدُوْنَ(24)اَلَّا یَسْجُدُوْا لِلّٰهِ الَّذِیْ یُخْرِ جُ الْخَبْءَ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ یَعْلَمُ مَا تُخْفُوْنَ وَ مَا تُعْلِنُوْنَ(25)اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ(26)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو ہد ہد کچھ زیادہ دیر نہ ٹھہرا اور آکرعرض کی: کہ میں وہ بات دیکھ کر آیا ہوں جو آپ نے نہ دیکھی اور میں ملک ِسبا سے آپ کے پاس ایک یقینی خبر لایا ہوں ۔ میں نے ایک عورت دیکھی جو لوگوں پر بادشاہی کررہی ہے اور اسے ہر چیز میں سے ملا ہے اور اس کا ایک بہت بڑا تخت ہے۔ میں نے اسے اور اس کی قوم کو پایا کہ اللہ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہیں اور شیطان نے ان کے اعمال ان کی نگاہ میں اچھے بنادئیے تو انہیں سیدھی راہ سے روک دیا تو وہ سیدھا راستہ نہیں پاتے۔ ۔(شیطان نے انہیں روک دیا)تاکہ وہ اس اللہ کو سجدہ نہ کریں جو آسمانوں اور زمین میں چھپی ہوئی چیزوں کو نکالتا ہے اورجو کچھ تم چھپاتے ہو اور جوظاہر کرتے ہو سب کو جانتا ہے۔اللہ وہ ہے کہ اس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں وہ عرشِ عظیم کا مالک ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَمَكَثَ غَیْرَ بَعِیْدٍ: تو ہد ہد کچھ زیادہ دیر نہ ٹھہرا۔} ا س آیت اور اس کے بعد والی چار آیات میں اِس واقعے کا جو حصہ بیان ہوا ا س کا خلاصہ یہ ہے کہ ہدہدزیادہ دیر تک غیر حاضر نہ رہا بلکہ جلد ہی حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دربار شریف میں حاضر ہو گیا اور انتہائی ادب،عاجزی اور اِنکساری کے ساتھ معافی طلب کر کے عرض کرنے لگا:میں وہ بات دیکھ کر آیا ہوں جو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے نہ دیکھی اور میں یمن کے ایک علاقے سبا سے آپ کے پاس ایک یقینی خبر لایا ہوں ۔میں نے وہاں ایک عورت دیکھی جس کا نام بلقیس ہے، وہ لوگوں پر بادشاہی کررہی ہے اور اسے ہر اس چیز میں سے وافر حصہ ملا ہے جو بادشاہوں کے لئے شایان ہوتا ہے اور اس کا ایک بہت بڑا تخت ہے جس کی لمبائی 80 گز، چوڑائی 40گز اور اونچائی30گزہے۔ وہ تخت سونے اور چاندی کا بنا ہوا ہے اور اس میں جواہرات لگے ہوئے ہیں ۔ میں نے اسے اور اس کی قوم کو اللہ تعالٰی کی بجائے سورج کو سجدہ کرتے ہوئے پایا ہے اور شیطان نے ان کے اعمال ان کی نگاہ میں اچھے بنادئیے اور انہیں سیدھی راہ سے روک دیا ہے، ا س لئے وہ سیدھا راستہ یعنی حق اور دین ِاسلام کا راستہ نہیں پاتے۔ تاکہ وہ اس اللہ کو سجدہ نہ کریں جو آسمانوں اور زمین میں چھپی ہوئی چیزوں یعنی بارش اور نباتات کو نکالتا ہے اورجو کچھ تم چھپاتے ہو اور جوظاہر کرتے ہو سب کو جانتا ہے۔ اللہ تعالٰی وہ ہے کہ اس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ، وہ عرشِ عظیم کا مالک ہے۔( جلالین، النمل، تحت الآیۃ: ۲۲–۲۶، ص۳۱۹، ملخصاً)
خیال رہے کہ ہد ہد کی گفتگو کے آخری حصے کا تعلق ان علوم سے ہے جو اس نے حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے حاصل کئے تھے اور یہاں ہدہد نے اپنے دین کی مضبوطی ظاہر کرنے کے لئے یہ کلام کیا تھا۔( جمل، النمل، تحت الآیۃ: ۲۶، ۵ / ۴۳۶)
{اَلَّا یَسْجُدُوْا لِلّٰهِ: تا کہ وہ اللہ کو سجدہ نہ کریں ۔} اس آیت اوراس کے بعد والی آیت میں سورج کی عبادت کرنے والوں بلکہ ان تمام باطل پرستوں کا رد ہے جو اللہ تعالٰی کے سوا کسی کو بھی پوجیں ۔ مقصود یہ ہے کہ عبادت کا مستحق صر ف وہی ہے جو کائناتِ اَرضی و سَماوی پر قدرت رکھتا ہو اور جمیع معلومات کا عالِم ہو، جو ایسا نہیں وہ کسی طرح عبادت کا مستحق نہیں ۔( خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۲۵، ۳ // ۴۰۸، ملخصاً)
قَالَ سَنَنْظُرُ اَصَدَقْتَ اَمْ كُنْتَ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ(27)اِذْهَبْ بِّكِتٰبِیْ هٰذَا فَاَلْقِهْ اِلَیْهِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْهُمْ فَانْظُرْ مَا ذَا یَرْجِعُوْنَ(28)قَالَتْ یٰۤاَیُّهَا الْمَلَؤُا اِنِّیْۤ اُلْقِیَ اِلَیَّ كِتٰبٌ كَرِیْمٌ(29)اِنَّهٗ مِنْ سُلَیْمٰنَ وَ اِنَّهٗ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ(30)اَلَّا تَعْلُوْا عَلَیَّ وَ اْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ(31)
ترجمہ: کنزالعرفان
سلیمان نے فرمایا: ہم ابھی دیکھتے ہیں کہ تو نے سچ کہا یا تو جھوٹوں میں سے ہے۔ میرا یہ فرمان لے جا ؤاور اسے ان کی طرف ڈال دو پھر ان سے الگ ہٹ کردیکھنا کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں ۔ عورت نے کہا: اے سردارو!بیشک میری طرف ایک عزت والا خط ڈالا گیا ہے۔ بیشک وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور بیشک وہ اللہ کے نام سے ہے جونہایت مہربان رحم والا ہے۔ یہ کہ میرے مقابلے میں بلندی نہ چاہواور میرے پاس فرمانبردار بنتے ہوئے حا ضر ہو جاؤ۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ: فرمایا۔} حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ہد ہد سے فرمایا :ہم ابھی دیکھتے ہیں کہ تو سچا ہے یا جھوٹا۔ اس کے بعد حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ایک مکتوب لکھا جس کا مضمون یہ تھا کہ اللہ کے بندے سلیمان بن داؤد کی جانب سے شہر ِسبا کی ملکہ بلقیس کی طرف۔ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اُس پر سلام جو ہدایت قبول کرے۔ اس کے بعد مُدّعا یہ ہے کہ تم مجھ پر بلندی نہ چاہو اور میری بارگاہ میں اطاعت گزار ہو کر حاضر ہو جاؤ۔اس مکتوب پر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی مہر لگائی اور ہدہد سے فرمایا’’میرا یہ فرمان لے جا ؤاور اسے ان کی طرف ڈال دو پھر ان سے الگ ہٹ کر دیکھنا کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں ۔چنانچہ ہد ہد وہ مکتوبِ گرامی لے کر بلقیس کے پاس پہنچا، اس وقت بلقیس کے گرد اس کے اُمرااور وُزراء کا مجمع تھا۔ ہد ہد نے وہ مکتوب بلقیس کی گود میں ڈال دیا۔ ملکہ بلقیس اس مکتوب کو دیکھ کر خوف سے لرز گئی اور پھر اس پر مہر دیکھ کر کہنے لگی: اے سردارو! مجھے ایک معزز خط مَوصول ہوا ہے۔ بلقیس نے اس خط کو عزت والا اس لئے کہا کہ اس پر مہر لگی ہوئی تھی، اس سے اس نے جانا کہ مکتوب بھیجنے والا جلیل القدربادشاہ ہے یا اس لئے عزت والا کہا کہ اس مکتوب کی ابتداء اللہ تعالٰی کے نامِ پاک سے تھی۔ پھر اس نے بتایا کہ وہ مکتوب کس کی طرف سے آیا ہے، چنانچہ اس نے کہا ’’بیشک وہ سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف سے ہے اورا س کا مضمون یہ ہے کہ اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحمت والاہے۔ میرے حکم کی تعمیل کرو اور تکبر نہ کرو جیسا کہ بعض بادشاہ کیا کرتے ہیں اور میرے پاس فرماں بردارانہ شان سے حاضر ہوجاؤ۔( خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۲۷–۳۱، ۳ / ۴۰۹، مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۲۷–۳۱، ص۸۴۴–۸۴۵، جلالین، النمل، تحت الآیۃ:۲۷–۳۱، ص۳۱۹، ملتقطاً)
قَالَتْ یٰۤاَیُّهَا الْمَلَؤُا اَفْتُوْنِیْ فِیْۤ اَمْرِیْۚ-مَا كُنْتُ قَاطِعَةً اَمْرًا حَتّٰى تَشْهَدُوْنِ(32)قَالُوْا نَحْنُ اُولُوْا قُوَّةٍ وَّ اُولُوْا بَاْسٍ شَدِیْدٍ ﳔ وَّ الْاَمْرُ اِلَیْكِ فَانْظُرِیْ مَا ذَا تَاْمُرِیْنَ(33)
ترجمہ: کنزالعرفان
ملکہ نے کہا:اے سردارو!میرے اس معاملے میں مجھے رائے دو میں کسی معاملے میں کوئی قطعی فیصلہ نہیں کرتی جب تک تم میرے پاس موجود نہ ہو۔انہوں نے کہا: ہم قوت والے اور بڑی سخت لڑائی والے ہیں اور اختیار توتمہارے ہی پاس ہے تو تم غور کرلو کہ تم کیا حکم دیتی ہو؟
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَتْ:ملکہ نے کہا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مکتوب کا مضمون سنا کر بلقیس اپنی مملکت کے وزرا ء کی طرف متوجہ ہوئی اور کہا ’’اے سردارو!میرے اس معاملے میں مجھے رائے دو، میں کسی معاملے میں کوئی قطعی فیصلہ نہیں کرتی جب تک تم میرے پاس حاضر نہ ہو۔سرداروں نے کہا: ہم قوت والے ہیں اور بڑی سخت جنگ لڑ سکتے ہیں ۔ اس سے اُن کی مراد یہ تھی کہ اگر تیری رائے جنگ کی ہو تو ہم لوگ اس کے لئے تیار ہیں کیونکہ ہم بہادر اور شُجاع ہیں ، قوت وتوانائی والے ہیں ، کثیر فوجیں رکھتے ہیں اورجنگ آزما ہیں ۔سرداروں نے مزید کہا کہ صلح یا لڑائی کااختیار توتمہارے ہی پاس ہے،اے ملکہ! تو تم غور کرلو کہ تم کیا حکم دیتی ہو؟ ہم تیری اطاعت کریں گے اور تیرے حکم کے منتظرہیں ۔ اس جواب میں انہوں نے یہ اشارہ کیا کہ اُن کی رائے جنگ کی ہے یا اس جواب سے ان کا مقصدیہ تھا کہ ہم جنگی لوگ ہیں ، رائے اور مشورہ دینا ہمارا کام نہیں ، تم خود صاحب ِعقل اور صاحب ِتدبیر ہو، ہم بہرحال تیری اطاعت کریں گے۔( مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۳۲–۳۳، ص۸۴۵، خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۳۲–۳۳، ۳ / ۴۰۹–۴۱۰، ملتقطاً)
قَالَتْ اِنَّ الْمُلُوْكَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْیَةً اَفْسَدُوْهَا وَ جَعَلُوْۤا اَعِزَّةَ اَهْلِهَاۤ اَذِلَّةًۚ-وَ كَذٰلِكَ یَفْعَلُوْنَ(34)
ترجمہ: کنزالعرفان
اس نے کہا: بیشک بادشاہ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تواسے تباہ کردیتے ہیں اور اس کے عزت والوں کوذلیل کردیتے ہیں اور وہ ایسا ہی کرتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَتْ: اس نے کہا۔} جب بلقیس نے دیکھا کہ یہ لوگ جنگ کی طرف مائل ہیں تو اُس نے انہیں اُن کی رائے کی خطا پر آگاہ کیا اور جنگ کے نتائج سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ ’’ جب بادشاہ کسی بستی میں اپنی قوت اور طاقت سے داخل ہوتے ہیں تواسے تباہ کردیتے ہیں اور اس کے عزت والوں کو قتل کر کے، قیدی بنا کراور ان کی توہین کر کے انہیں ذلیل کردیتے ہیں یہی بادشاہوں کا طریقہ ہے۔ ملکہ بلقیس چونکہ بادشاہوں کی عادت جانتی تھی اِس لئے اُس نے یہ کہا اور اُس کی مراد یہ تھی کہ جنگ مناسب نہیں ہے، اس میں ملک اور اہلِ ملک کی تباہی و بربادی کا خطرہ ہے۔(مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۳۴، ص۸۴۵، ملخصاً)
وَ اِنِّیْ مُرْسِلَةٌ اِلَیْهِمْ بِهَدِیَّةٍ فَنٰظِرَةٌۢ بِمَ یَرْجِـعُ الْمُرْسَلُوْنَ(35)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور میں ان کی طرف ایک تحفہ بھیجنے والی ہوں پھر دیکھوں گی کہ قاصدکیا جواب لے کر لوٹتے ہیں ؟
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِنِّیْ مُرْسِلَةٌ اِلَیْهِمْ بِهَدِیَّةٍ: اور میں ان کی طرف ایک تحفہ بھیجنے والی ہوں ۔} سرداروں کے سامنے جنگ کے نتائج رکھنے کے بعد ملکہ بلقیس نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا :میں حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کی طرف ایک تحفہ بھیجنے والی ہوں ، پھر دیکھوں گی کہ ہمارے قاصدکیا جواب لے کر لوٹتے ہیں ؟اس سے معلوم ہوجائے گا کہ وہ بادشاہ ہیں یا نبی، کیونکہ بادشاہ عزت و احترام کے ساتھ ہدیہ قبول کرتے ہیں ، ا س لئے اگر وہ بادشاہ ہیں تو ہدیہ قبول کرلیں گے اور اگر نبی ہیں تو ہدیہ قبول نہ کریں گے اور اس کے علاوہ اور کسی بات سے راضی نہ ہوں گے کہ ہم اُن کے دین کی پیروی کریں ۔ چنانچہ ملکہ نے اپنے قاصد کو ایک خط دے کر روانہ کیا اور اس کے ساتھ 500 غلام ا ور500 باندیاں بہترین لباس اور زیوروں کے ساتھ آراستہ کرکے سونے سے نقش و نگار کی ہوئی زِینوں پر سوار کرکے بھیجے۔ان کے علاوہ 500 سونے کی اینٹیں ، جواہر ات لگے ہوئے تاج اور مشک وعنبروغیرہ بھی روانہ کئے۔ ہدہد یہ دیکھ کر چل دیااور اس نے حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس تمام حالات کی خبر پہنچادی۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حکم دیا کہ سونے چاندی کی اینٹیں بنا کر نو فرسنگ (یعنی 27 میل) کے میدان میں بچھادی جائیں اور اس کے اردگرد سونے چاندی سے بلند دیوار بنا دی جائے اور خشکی و تری کے خوب صورت جانور اور جِنّات کے بچے میدان کے دائیں بائیں حاضر کئے جائیں۔(مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۳۵، ص۸۴۵- ۸۴۶، جلالین، النمل، تحت الآیۃ: ۳۵، ص۳۲۰، ملتقطاً)
فَلَمَّا جَآءَ سُلَیْمٰنَ قَالَ اَتُمِدُّوْنَنِ بِمَالٍ٘-فَمَاۤ اٰتٰىنِﰯ اللّٰهُ خَیْرٌ مِّمَّاۤ اٰتٰىكُمْۚ-بَلْ اَنْتُمْ بِهَدِیَّتِكُمْ تَفْرَحُوْنَ(36)
ترجمہ: کنزالعرفان
پھر جب قاصدسلیمان کے پاس آیا تو سلیمان نے فرمایا: کیا تم مال کے ذریعے میری مدد کرتے ہو؟ تواللہ نے جوکچھ مجھے عطا فرمارکھا ہے وہ اُس سے بہتر ہے جو اس نے تمہیں دیاہے بلکہ تم ہی اپنے تحفہ پر خوش ہوتے ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَلَمَّا جَآءَ سُلَیْمٰنَ: پھر جب قاصدسلیمان کے پاس آیا۔} جب بلقیس کا قاصد تحائف لے کر حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس آیا تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ا س سے فرمایا: ’’کیا تم مال کے ذریعے میری مدد کرتے ہو؟ اللہ تعالٰی نے جوکچھ مجھے علم، نبوت اور بادشاہت کی صورت میں عطا فرمارکھا ہے وہ اس دُنْیَوی مال و اَسباب سے بہتر ہے جو اس نے تمہیں دیاہے، بلکہ تم ہی اپنے تحفہ پر خوش ہوتے ہویعنی تم فخر کرنے والے لوگ ہو، مالِ دنیا کی وجہ سے ایک دوسرے پر بڑائی جتاتے ہو اور ایک دوسرے کے تحفے پر خوش ہوتے ہو، مجھے نہ دنیا سے خوشی ہوتی ہے نہ اس کی حاجت، اللہ تعالٰی نے مجھے اِتنا کثیر عطا فرمایا کہ اُتنا اوروں کو نہ دیا اور اس کے ساتھ ساتھ مجھے دین اور نبوت سے بھی مشرف کیا۔( خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۳۶، ۳ / ۴۱۱)
اِرْجِـعْ اِلَیْهِمْ فَلَنَاْتِیَنَّهُمْ بِجُنُوْدٍ لَّا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا وَ لَنُخْرِجَنَّهُمْ مِّنْهَاۤ اَذِلَّةً وَّ هُمْ صٰغِرُوْنَ(37)
ترجمہ: کنزالعرفان
ان لوگوں کی طرف لوٹ جاؤ تو ضرور ہم ان پر ایسے لشکر لائیں گے جن کے مقابلے کی انہیں طاقت نہ ہوگی اور ضرور ہم ان کو اس شہر سے ذلیل کرکے نکال دیں گے اور وہ رسوا ہوں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِرْجِـعْ اِلَیْهِمْ: ان لوگوں کی طرف لوٹ جاؤ۔} اب حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے وفد کے امیرمُنذِر بن عمرو سے فرمایا کہ یہ ہدیئے لے کر ان لوگوں کی طرف لوٹ جاؤ، اگر وہ میرے پاس مسلمان ہو کر حاضر نہ ہوئے تو ان کا انجام یہ ہوگا کہ ہم ضرور ان پر ایسے لشکر لائیں گے جن کے مقابلے کی انہیں طاقت نہ ہوگی اور ہم ضرور ان کو شہر ِسبا سے ذلیل کرکے نکال دیں گے اور وہ رسوا ہوں گے۔جب قاصد ہدیئے لے کر بلقیس کے پاس واپس گئے اور تمام واقعات سنائے تو اس نے کہا :بے شک وہ نبی ہیں اور ہمیں اُن سے مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ۔پھر بلقیس نے اپنا تخت اپنے سات محلوں میں سے سب سے پچھلے محل میں محفوظ کرکے سب د روازوں پر تالے لگوا دئیے اور ان پر پہرہ دار بھی مقرر کردیئے اور حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خدمت میں حاضر ہونے کا انتظام کرنے لگی تاکہ دیکھے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اسے کیا حکم فرماتے ہیں ، چنانچہ وہ ایک بہت بڑالشکر لے کر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف روانہ ہوئی۔(خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۳۷، ۳ / ۴۱۱–۴۱۲، مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۸۴۷، ملتقطاً)
قَالَ یٰۤاَیُّهَا الْمَلَؤُا اَیُّكُمْ یَاْتِیْنِیْ بِعَرْشِهَا قَبْلَ اَنْ یَّاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ(38)
ترجمہ: کنزالعرفان
سلیمان نے فرمایا: اے درباریو!تم میں کون ہے جو ان کے میرے پاس فرمانبردار ہوکر آنے سے پہلے اس کا تخت میرے پاس لے آئے۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ: فرمایا۔} جب بلقیس اتناقریب پہنچ گئی کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے صرف ایک فرسنگ (یعنی تین میل) کا فاصلہ رہ گیا تو حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: اے درباریو!تم میں سے کون ہے جو ان لوگوں کے میرے پاس فرمانبردار ہوکر آنے سے پہلے بلقیس کا تخت میرے پاس لے آئے۔تخت منگوانے سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا مقصود یہ تھا کہ اس کا تخت حاضر کرکے اسے اللہ تعالٰی کی قدرت اور اپنی نبوت پر دلالت کرنے والا معجزہ دکھادیں ۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے چاہا کہ بلقیس کے آنے سے پہلے اس تخت کی وضع بدل دیں اور اس سے اس کی عقل کا امتحان فرمائیں کہ وہ اپنا تخت پہچان سکتی ہے یا نہیں ۔(خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۳۸، ۳ / ۴۱۲، مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۳۸، ص۸۴۷، ملتقطاً)
قَالَ عِفْرِیْتٌ مِّنَ الْجِنِّ اَنَا اٰتِیْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِكَۚ-وَ اِنِّیْ عَلَیْهِ لَقَوِیٌّ اَمِیْنٌ(39)
ترجمہ: کنزالعرفان
ایک بڑا خبیث جن بولا کہ میں وہ تخت آپ کی خدمت میں آپ کے اس مقام سے کھڑے ہونے سے پہلے حاضر کردوں گا اور میں بیشک اس پر قوت رکھنے والا، امانتدار ہوں ۔
صراط الجنان:تفسیر
{قَالَ عِفْرِیْتٌ مِّنَ الْجِنِّ: ایک بڑا خبیث جن بولا۔} حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بات سن کرایک بڑا طاقتور خبیث جن بولا ’’ میں وہ تخت آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خدمت میں آپ کے اُس مقام سے کھڑے ہونے سے پہلے حاضر کردوں گا جہاں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فیصلے کرنے کے لئے تشریف فرما ہیں اور میں بیشک اس تخت کو اٹھانے پر قوت رکھنے والا اورا س میں لگے ہوئے جواہرات وغیرہ پر امانتدار ہوں ۔حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: میں اس سے جلدی چاہتا ہوں ۔( جلالین، النمل، تحت الآیۃ: ۳۹، ص۳۲۰)
مروی ہے کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ایک مجلس منعقد کرتے تھے جس میں صبح سے لے کر دوپہر تک آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مختلف معاملات کے فیصلے فرمایا کرتے تھے۔( خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۳۹، ۳ / ۴۱۲)
قَالَ الَّذِیْ عِنْدَهٗ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتٰبِ اَنَا اٰتِیْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْكَ طَرْفُكَؕ-فَلَمَّا رَاٰهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهٗ قَالَ هٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ ﱎ لِیَبْلُوَنِیْۤ ءَاَشْكُرُ اَمْ اَكْفُرُؕ-وَ مَنْ شَكَرَ فَاِنَّمَا یَشْكُرُ لِنَفْسِهٖۚ-وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ رَبِّیْ غَنِیٌّ كَرِیْمٌ(40)
ترجمہ: کنزالعرفان
اس نے عرض کی جس کے پاس کتاب کا علم تھاکہ میں اسے آپ کی بارگاہ میں آپ کے پلک جھپکنے سے پہلے لے آؤں گا (چنانچہ) پھرجب سلیمان نے اس تخت کو اپنے پاس رکھا ہوادیکھا تو فرمایا: یہ میرے رب کے فضل سے ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری ؟اور جو شکر کرے تووہ اپنی ذات کیلئے ہی شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا رب بے پرواہ ہے، کرم فرمانے والا ہے۔
صراط الجنان:تفسیر
{ قَالَ الَّذِیْ عِنْدَهٗ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتٰبِ: اس نے عرض کی جس کے پاس کتاب کا علم تھا۔} کتاب کا علم رکھنے والے سے مراد حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے وزیر حضرت آصف بن برخیا رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ہیں ، یہ اللہ تعالٰی کا اسمِ اعظم جانتے تھے۔ چنانچہ ابو البرکات عبداللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’یہی قول زیادہ صحیح ہے اور جمہور مفسرین کا اسی پر اتفاق ہے۔( مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۴۰، ص۸۴۷)
ابو حیان محمد بن یوسف اندلسی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’جس کے پاس کتاب کا علم تھا وہ انسانوں میں سے ایک شخص تھے اورا ن کا نام حضرت آصف بن برخیا رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ تھا۔ یہ جمہور مفسرین کا قول ہے۔( البحر المحیط، النمل، تحت الآیۃ: ۴۰، ۷ / ۷۲–۷۳)
ابو عبداللہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’اکثر مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جس کے پاس کتاب کا علم تھا ا س سے مراد حضرت آصف بن برخیا رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ہیں ۔( تفسیر قرطبی، النمل، تحت الآیۃ: ۴۰، ۷ / ۱۵۶، الجزء الثالث عشر)
اور ابو محمد حسین بن مسعود بغوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’اکثر مفسرین نے فرمایا کہ جس کے پاس کتاب کا علم تھا وہ حضرت آصف بن برخیا رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ تھے۔( تفسیر بغوی، النمل، تحت الآیۃ: ۴۰، ۳ / ۳۵۹)
ان تفاسیر کے علاوہ دیگر معتبر تفاسیر جیسے تفسیر سمرقندی جلد 2 صفحہ 497،تفسیر جلالین صفحہ320، تفسیرصاوی جلد4صفحہ1498، تفسیرروح البیان جلد 6 صفحہ 349 میں راجح اور جمہور مفسرین کا یہی قول لکھا ہے کہ جس کے پاس کتاب کا علم تھا اُس سے مراد حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے وزیر حضرت آصف بن برخیا رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ہیں ۔
{اَنَا اٰتِیْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْكَ طَرْفُكَ: میں اسے آپ کی بارگاہ میں آپ کے پلک جھپکنے سے پہلے لے آؤں گا۔} جب حضرت آصف بن برخیا رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بارگاہ میں اس تخت کو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پلک جھپکنے سے پہلے لے آؤں گا تو حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا: ’’اگر تم نے ایسا کر لیا توتم سب سے زیادہ جلدی ا س تخت کو لانے والے ہو گے۔حضرت آصف بن برخیا رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے جب اسمِ اعظم کے ذریعے دعا مانگی تو اسی وقت تخت حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سامنے نمودارہو گیا۔( تفسیر سمرقندی، النمل، تحت الآیۃ: ۴۰، ۲ / ۴۹۷)
اولیاءِ کرام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ سے کرامات ظاہر ہونے کا ثبوت:
اس آیت سے اولیاءِکرام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ سے کرامات کا ظاہر ہونا بھی ثابت ہوتا ہے۔ حضرت علامہ یافعی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’اولیاءِ کرام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ سے کرامات کا ظاہر ہونا عقلی طورپر ممکن اور نقلی دلائل سے ثابت ہے۔عقلی طور پر ممکن اس لئے ہے کہ ولی سے کرامت ظاہر کردینا اللہ تعالٰی کی قدرت سے محال نہیں بلکہ یہ چیز ممکنات میں سے ہے، جیسے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے معجزات ظاہر کر دینا۔یہ اہلسنّت کے کامل اولیاءِکرام،اصولِ فقہ کے بڑے بڑے علماءِ، فقہاء اور محدثین کا مذہب ہے۔مشرق و مغرب اور عرب و عجم میں ان کی کتابوں میں اس بات کی صراحت موجود ہے۔ پھر اہلسنّت کے جمہور محقق آئمہ کے نزدیک صحیح،ثابت اور مختار قول یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے معجزے کے طور پر جائز ہے وہ اولیاءِ کرام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ سے کرامت کے طور پر جائز ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ ا س سے نبوت والا چیلنج کرنا مقصود نہ ہو۔ معجزہ اور کرامت میں فرق یہ ہے کہ معجزہ نبی سے صادر ہوتا ہے اور کرامت ولی سے۔معجزے کے ذریعے کفار کو چیلنج کیا جا تا ہے جبکہ ولی کو بغیر ضرورت کرامت ظاہر کرنا منع ہے۔ اولیاءِ کرام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ سے کرامات ثابت ہونے پرقرآنِ پاک اور بکثرت اَحادیث ِمبارکہ میں دلائل موجود ہیں ۔ قرآن پاک میں موجود حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا کے پاس بے موسم کے پھل آنے والا واقعہ۔حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا کے کھجور کے سوکھے ہوئے تنے کو ہلانے پر پکی ہوئی عمدہ اور تازہ کھجوریں گرنے والا واقعہ۔اصحابِ کہف رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا غار میں سینکڑوں سال تک سوئے رہنے والا واقعہ اورحضرت آصف بن برخیا رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا پلک جھپکنے سے پہلے تخت لانے والا واقعہ ولی سے کرامات ظاہر ہونے کی دلیل ہے۔اسی طرح صحابہ ٔ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے بے شمار کرامتوں کا ظہور بھی ولی سے کرامت ظاہر ہونے کو ثابت کرتا ہے۔( روض الریاحین، الفصل الثانی فی اثبات کرامات الاولیاء رضی اللّٰہ تعالٰی عنہم، ص۳۷-۳۸، ملخصاً)
{فَلَمَّا رَاٰهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهٗ : پھرجب سلیمان نے اس تخت کو اپنے پاس رکھا ہوادیکھا۔} یعنی جب حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس تخت کو اپنے پاس رکھا ہوادیکھا تو فرمایا: پلک جھپکنے سے پہلے تخت کا میرے پاس آ جانا مجھ پر میرے رب عَزَّوَجَلَّ کے فضل کی وجہ سے ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں ا س کے انعامات پر شکر کرتا ہوں یا ناشکری؟ اور جو شکر کرے تووہ اپنی ذات کیلئے ہی شکر کرتا ہے کیونکہ اس شکر کا نفع خود اس شکر گزار کو ہی ملے گا اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا رب عَزَّوَجَلَّ شکر سے بے پرواہ ہے اور ناشکری کرنے والے پر بھی احسان کر کے کرم فرمانے والا ہے۔(ابو سعود، النمل، تحت الآیۃ: ۴۰، ۴ / ۲۰۲، مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۴۰، ص۸۴۸، ملتقطاً)
خود پسندی کی مذمت اور اللہ تعالٰی کی طرف فضل کو منسوب کرنے کی ترغیب:
یاد رہے کہ بندے کو جو نعمت اورصلاحیت ملے اس پر اسے خود پسندی کا شکار نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی اس طرح کا اظہار کرنا چاہئے کیونکہ خود پسندی انتہائی مذموم عمل ہے اور اس کی آفات بہت زیادہ ہیں ، ان میں سے چند یہ ہیں کہ اس سے تکبر پیدا ہوتا ہے اور تکبر سے بے شمار آفات جنم لیتی ہیں یونہی خود پسندی کی وجہ سے بندہ اپنے گناہوں کو بھولنے اور انہیں نظر انداز کرنے لگ جاتا ہے جبکہ عبادات اور نیک اعمال کو یاد رکھتا،انہیں بہت بڑ اسمجھتا،ان پر خوش ہوتا اور ان کی بجا آوری کو اندرونِ خانہ غیر شعوری طورپر اللہ تعالٰی پر احسان جانتا ہے۔جوآدمی خود پسندی کا شکار ہوتا ہے تو وہ ا س کی آفات سے اندھا ہو جاتا ہے اور جو شخص اعمال کی آفات سے غافل ہو جائے اس کی زیادہ تر محنت ضائع چلی جاتی ہے کیونکہ ظاہری اعمال جب تک خالص اور (ریاکاری وغیرہ کی) آمیزش سے پاک نہ ہوں تب تک نفع بخش نہیں ہوتے۔ خود پسند آدمی اپنے آپ پر اور اپنی رائے پر مغرور ہوتا اور اللہ تعالٰی کی خفیہ تدبیر اور ا س کے عذاب سے بے خوف ہوجاتا ہے، لہٰذا نعمت اور صلاحیت ملنے پرخود پسندی سے بچنا چاہئے اور اس نعمت اور صلاحیت کے ملنے کو اللہ تعالٰی کے فضل کی طرف منسوب کرنا چاہئے کہ یہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور نیک بزرگوں کا طریقہ ہے، جیساکہ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں :ایک مرتبہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس مہمان آیا تو آپ نے اپنی اَزواجِ مُطَہّرات کی طرف کسی کو بھیجا تاکہ وہ ان کے پاس کھانا تلاش کرے لیکن اس نے کسی کے پاس بھی کھانا نہ پایا،اس پر رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دعا مانگی:اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، میں تجھ سے تیرے فضل اور تیری رحمت کا سوال کرتا ہوں کیونکہ اس کا مالک تو ہی ہے۔اتنے میں حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں بھنی ہوئی ایک بکری تحفے کے طور پر پیش کی گئی تو آپ نے ارشاد فرمایا: ’’یہ اللہ تعالٰی کے فضل سے ہے اور ہم ا س کی رحمت کے منتظر ہیں ۔( حلیۃ الاولیاء، زبید بن الحارث الایامی، ۵ / ۴۱، الحدیث: ۶۲۴۴)
اسی طرح حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے توحید پر ہونے اور شرک سے محفوظ رہنے کو اللہ تعالٰی کے فضل کی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا کہ
’’وَ اتَّبَعْتُ مِلَّةَ اٰبَآءِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَؕ-مَا كَانَ لَنَاۤ اَنْ نُّشْرِكَ بِاللّٰهِ مِنْ شَیْءٍؕ-ذٰلِكَ مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ عَلَیْنَا وَ عَلَى النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْكُرُوْنَ‘‘(یوسف:۳۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور میں نے اپنے باپ دادا ابراہیم اور اسحٰق اور یعقوب کے دین ہی کی پیروی کی۔ ہمارے لئے ہرگز جائز نہیں کہ ہم کسی چیز کو اللہ کا شریک ٹھہرائیں ، یہ ہم پراورلوگوں پر اللہ کا ایک فضل ہے مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔
یونہی ہمارے بزرگانِ دین کا معمول تھا کہ جب وہ کوئی کتاب تصنیف فرماتے تو اس میں آنے والی غلطیوں اور خطاؤں کو اپنی طرف منسوب کرتے جبکہ غلطی اور خطا سے محفوظ رہنے کو اللہ تعالٰی کے فضل کی طرف منسوب کرتے، کوئی ان کا حال پوچھتا تواپنا حال درست ہونے کی نسبت اللہ تعالٰی کے فضل کی طرف کرتے، لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ اللہ تعالٰی کی بارگاہ کے مُقَرّب بندوں کی پیروی کرتے ہوئے ہر نعمت اور صلاحیت کے ملنے کو اللہ تعالٰی کے فضل کی طرف منسوب کرے اور خود پسندی سے بچے۔اللہ تعالٰی عمل کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
قَالَ نَكِّرُوْا لَهَا عَرْشَهَا نَنْظُرْ اَتَهْتَدِیْۤ اَمْ تَكُوْنُ مِنَ الَّذِیْنَ لَا یَهْتَدُوْنَ(41)فَلَمَّا جَآءَتْ قِیْلَ اَهٰكَذَا عَرْشُكِؕ-قَالَتْ كَاَنَّهٗ هُوَۚ-وَ اُوْتِیْنَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهَا وَ كُنَّا مُسْلِمِیْنَ(42)وَ صَدَّهَا مَا كَانَتْ تَّعْبُدُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِؕ-اِنَّهَا كَانَتْ مِنْ قَوْمٍ كٰفِرِیْنَ(43)
ترجمہ: کنزالعرفان
حضرت سلیمان نے حکم دیا: اس ملکہ کیلئے اس کے تخت کو تبدیل کردوتا کہ ہم دیکھیں کہ وہ راہ پاتی ہے یا راہ نہ پانے والوں میں سے ہوتی ہے۔پھر جب وہ آئی تواس سے کہا گیا: کیا تیرا تخت ایسا ہی ہے؟ اس نے جواب دیا:گویا یہ وہی ہےاور ہم کو اس واقعہ سے پہلے خبر مل چکی اور ہم فرمانبردار ہوئے۔اور اسے اُس چیز نے روک رکھا تھا جس کی وہ اللہ کے سواعبادت کرتی تھی۔ بیشک وہ کافر قوم میں سے تھی۔
صراط الجنان:تفسیر
{قَالَ: حضرت سلیمان نے حکم دیا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ تخت آ جانے کے بعد حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے خادموں کوحکم دیا کہ اس ملکہ کیلئے اس کے تخت کی شکل و صورت کو تبدیل کردوتا کہ ہم دیکھیں کہ وہ اپنے تخت کو دیکھنے کے بعد اسے پہچان پاتی ہے یا نہیں ۔ جب ملکہ بلقیس حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس آئی تواس وقت تخت حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سامنے موجودتھا۔ملکہ سے کہا گیا: کیا تیرا تخت ایسا ہی ہے؟ اس نے جواب دیا:گویا یہ وہی ہے۔ اس جواب سے بلقیس کی عقل کا کمال معلوم ہوا۔پھر ملکہ سے کہا گیا کہ یہ تیرا ہی تخت ہے۔ تمہیں دروازے بند کرنے،انہیں تالے لگانے اور پہرے دار مقرر کرنے سے کیا فائدہ ہوا؟ پھر ملکہ بلقیس نے اطاعت قبول کرتے ہوئے کہا: ’’ہمیں اللہ تعالٰی کی قدرت اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت صحیح ہونے کی خبر اس واقعہ سے پہلے ہد ہد کے واقعہ سے اور وفد کے امیر سے مل چکی ہے اور ہم نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اطاعت اور فرمانبرداری اختیار کی۔‘‘( روح البیان، النمل، تحت الآیۃ: ۴۱–۴۲، ۶ / ۳۵۲، خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۴۱–۴۲، ۳ / ۴۱۳، ملتقطاً)
{وَ صَدَّهَا: اور اسے روکا۔} یعنی بلقیس کو اللہ تعالٰی کی عبادت کرنے اور اس کی وحدانیت کا اقرار کرنے سے یا اسلام قبول کرنے کی طرف سبقت کرنے سے سورج کی پوجا نے روک رکھا تھااوربلقیس کا تعلق اس قوم سے تھا جو سورج کی پجاری تھی اور وہ چونکہ انہیں میں پلی بڑھی تھی اس لئے اسے صرف سورج کی عبادت کرنا ہی آتاتھا۔( خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۴۳، ۳ / ۴۱۳، مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۴۳، ص۸۴۸، ملتقطاً)
قِیْلَ لَهَا ادْخُلِی الصَّرْحَۚ-فَلَمَّا رَاَتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً وَّ كَشَفَتْ عَنْ سَاقَیْهَاؕ-قَالَ اِنَّهٗ صَرْحٌ مُّمَرَّدٌ مِّنْ قَوَارِیْرَ۬ؕ-قَالَتْ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَ اَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمٰنَ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(44)
ترجمہ: کنزالعرفان
اس سے کہا گیا: صحن میں داخل ہوجاؤ تو جب اس نے اس صحن کو دیکھا تو اسے گہرا پانی سمجھی اور اپنی پنڈلیوں سے (کپڑا) اٹھا دیا، سلیمان نے فرمایا: یہ تو شیشوں سے جڑاؤ کیا ہوا ایک ملائم صحن ہے۔ اس نے عرض کی: اے میرے رب! میں نے اپنی جان پر ظلم کیااور میں سلیمان کے ساتھ اس اللہ کے حضور گردن رکھتی ہوں جو سارے جہان کا رب ہے۔
صراط الجنان:تفسیر
{قِیْلَ لَهَا: اس سے کہا گیا۔} تخت میں تبدیلی کر کے ملکہ بلقیس کی عقل کا امتحان لینے کے بعد ا س سے کہا گیا کہ تم صحن میں آ جاؤ۔وہ صحن شفاف شیشے کا بنا ہوا تھا اوراس کے نیچے پانی جاری تھاجس میں مچھلیاں تیر رہی تھیں اور اس صحن کے وسط میں حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا تخت تھا جس پر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جلوہ افروز ہو چکے تھے۔ جب ملکہ نے اُس صحن کو دیکھا تو وہ سمجھی کہ یہ گہرا پانی ہے، اس لئے اس نے اپنی پنڈلیوں سے کپڑا اونچا کر لیا تاکہ پانی میں چل کر حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خدمت میں حاضر ہو سکے۔حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس سے فرمایا: ’’یہ پانی نہیں بلکہ یہ تو شیشوں سے جڑا ہوا ایک ملائم صحن ہے۔ یہ سن کر بلقیس نے اپنی پنڈلیاں چھپالیں اور یہ عجوبہ دیکھ کر اسے بہت تعجب ہوا اور اس نے یقین کر لیا کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ملک اورحکومت اللہ تعالٰی کی طرف سے ہے اور ان عجائبات سے بلقیس نے اللہ تعالٰی کی توحید اور حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت پر اِستدلال کیا ہے۔اب حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس کو اسلام کی دعوت دی تو اس نے اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں عرض کی: اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، میں نے تیری عبادت کی بجائے سورج کی عبادت کر کے اپنی جان پر ظلم کیا اور اب میں حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ اس اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حضور گردن رکھتی ہوں جو سارے جہان کا رب ہے۔ چنانچہ ملکہ بلقیس نے اخلاص کے ساتھ اللہ تعالٰی کی وحدا نیت کا اقرار کرکے اسلام قبول کرلیا اور صرف اللہ تعالٰی کی عبادت کرنے کواختیار کیا۔( خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۴۴، ۳ / ۴۱۳–۴۱۴، ملخصاً)
آیت میں بیان کردہ واقعے سے یہ سمجھانا بھی مقصود ہوسکتا ہے کہ اَشیاء جیسے نظر آ ئیں حقیقت میں ویسے ہونا ضروری نہیں لہٰذا سورج کی پوجا کو ملکہ بلقیس جیسے درست سمجھتی آرہی تھی وہ حقیقت میں ویسی درست نہیں بلکہ مکمل طور پر خلاف ِ حقیقت و خلافِ حق تھی۔
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ فَاِذَا هُمْ فَرِیْقٰنِ یَخْتَصِمُوْنَ(45)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ہم نے ثمود کی طرف ان کے ہم قوم صالح کو بھیجا کہ (اے لوگو!) اللہ کی عبادت کرو تو اسی وقت وہ جھگڑا کرتے ہوئے دو گروہ بن گئے۔
صراط الجنان:تفسیر
{وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا: اور بیشک ہم نے بھیجا۔} یہاں سے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم ثمود کا واقعہ بیان کیا جا رہا ہے اوراس واقعے کی بعض تفصیلات اس سے پہلے سورۂ اَعراف، آیت نمبر73تا79،سورۂ ہود، آیت نمبر 61 تا 68،سورۂ شعراء، آیت نمبر141تا159میں گزر چکی ہیں ۔اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے قومِ ثمود کی طرف ان کے ہم قوم حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یہ پیغام دے کر بھیجاکہ اے لوگو! تم اللہ تعالٰی کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ تو وہ اسی وقت جھگڑا کرتے ہوئے دو گروہ بن گئے۔ایک گروہ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لے آیا اورایک گروہ نے ایمان لانے سے انکار کر دیا اوران میں سے ہر گروہ اپنے آپ کوہی حق پر کہتا تھا۔( مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۴۵، ص۸۴۹، ملخصاً)
قَالَ یٰقَوْمِ لِمَ تَسْتَعْجِلُوْنَ بِالسَّیِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِۚ-لَوْ لَا تَسْتَغْفِرُوْنَ اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ(46)
ترجمہ: کنزالعرفان
صا لح نے فرمایا: اے میری قوم! بھلائی سے پہلے برائی کی جلدی کیوں کرتے ہو؟تم اللہ سے بخشش کیوں نہیں مانگتے ؟ ہوسکتا ہے تم پر رحم کیا جائے۔
صراط الجنان:تفسیر
{قَالَ: صا لح نے فرمایا۔} جب کافر گروہ نے کہا کہ اے صالح! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، اگر تم رسولوں میں سے ہو تو ہمیں جس عذاب کا وعدہ دے رہے ہو اسے لے آ ؤ۔ اس پر حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا: ’’عافیت اور رحمت سے پہلے مصیبت اور عذاب کی جلدی کیوں کرتے ہو؟ تم عذاب نازل ہونے سے پہلے اپنے کفر سے توبہ کرکے اور ایمان لا کر اللہ تعالٰی سے بخشش کیوں نہیں مانگتے ؟ہوسکتا ہے کہ تم پر رحم کیا جائے اور دنیا میں عذاب نہ کیا جائے۔(خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۴۶، ۳ / ۴۱۴–۴۱۵، مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۴۶، ص۸۴۹، ملتقطاً)
قَالُوا اطَّیَّرْنَا بِكَ وَ بِمَنْ مَّعَكَؕ-قَالَ طٰٓىٕرُكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُوْنَ(47)
ترجمہ: کنزالعرفان
انہوں نے کہا:ہم نے تم سے اور تمہارے ساتھیوں سے برا شگون لیا۔صالح نے فرمایا: تمہاری بدشگونی اللہ کے پاس ہے بلکہ تم ایک ایسی قوم ہو کہ تمہیں آزمایا جارہا ہے۔
صراط الجنان:تفسیر
{قَالُوا اطَّیَّرْنَا بِكَ: انہوں نے کہا:ہم نے تم سے برا شگون لیا۔} جب حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ثمود کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا تو ان لوگوں نے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا۔اس کی وجہ سے بارش رک گئی، یوں وہ لوگ قحط میں مبتلا ہو گئے اور بھوکے مرنے لگے۔ ان مصائب کو انہوں نے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تشریف آوری کی طرف منسوب کیا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی آمد کو بدشگونی سمجھتے ہوئے کہاکہ (مَعَاذَاللہ) ہم تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو منحوس سمجھتے ہیں۔(جلالین مع صاوی، النمل، تحت الآیۃ: ۴۷، ۴ / ۱۵۰۲، مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۴۷، ص۸۴۹-۸۵۰، ملتقطاً)
{قَالَ طٰٓىٕرُكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ: فرمایا: تمہاری بدشگونی اللہ کے پاس ہے۔} قومِ ثمود کے بدشگونی لینے پر حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا کہ تمہیں جو بھلائی اور برائی پہنچتی ہے وہ اللہ تعالٰی کے حکم سے ہے اور وہ تمہاری تقدیر میں لکھی ہوئی ہے۔حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں: (آیت میں ذکر کئے گئے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قول کا معنی یہ ہے کہ) تمہارے پاس جو بدشگونی آئی یہ تمہارے کفر کے سبب اللہ تعالٰی کی طرف سے آئی ہے۔(خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۴۷، ۳ / ۴۱۵)
بدشگونی لینے کی مذمت:
یاد رہے کہ بندے کو پہنچنے والی مصیبتیں اس کی تقدیر میں لکھی ہوئی ہیں ، جیساکہ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے: ’’مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَهَاؕ-اِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرٌ‘‘(حدید:۲۲)
ترجمۂ: کنزُالعِرفان زمین میں اور تمہاری جانوں میں جو مصیبت پہنچتی ہے وہ ہمارے اسے پیدا کرنے سے پہلے (ہی) ایک کتاب میں (لکھی ہوئی) ہے بیشک یہ اللہ پر آسان ہے۔
اور کوئی مصیبت اللہ تعالٰی کے حکم کے بغیر نہیں آتی،جیسا کہ فرمانِ باری تعالٰی ہے:
’’مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ‘‘(تغابن:۱۱)
ترجمۂ:کنزُالعِرفان ہر مصیبت اللہ کے حکم سے ہی پہنچتی ہے۔
اور مصیبتیں آنے کا عمومی سبب بندے کے اپنے برے اعمال ہیں ، جیسا کہ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍ‘‘(شوریٰ:۳۰)
ترجمۂ: کنزُالعِرفان اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ تمہارے ہاتھوں کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہے اور بہت کچھ تو (اللہ) معاف فرما دیتا ہے۔
اور جب ایسا ہے تو کسی چیز سے بد شگونی لینا اور اپنے اوپر آنے والی مصیبت کو اس کی نحوست جاننا درست نہیں اور کسی مسلمان کو تو یہ بات زیب ہی نہیں دیتی کہ وہ کسی چیز سے بد شگونی لے کیونکہ یہ تو مشرکوں کا ساکام ہے جیساکہ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تین بار ارشاد فرمایا کہ بد شگونی شرک (یعنی مشرکوں کا سا کام) ہے اور ہمارے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ،اللہ تعالٰی اسے توکُّل کے ذریعے دور کر دیتا ہے۔(ابو داؤد، کتاب الطب، باب فی الطیرۃ، ۴ / ۲۳، الحدیث: ۳۹۱۰)
اوپر بیان کردہ درس سے ان لوگوں کوعبرت حاصل کرنی چاہیے جو مصیبتوں اور پریشانیوں کو دوسروں کی نحوست قرار دیتے ہیں جیسے بالفرض اگر شادی کے بعد گھر میں مسائل و مصائب شروع ہوجائیں تو سارا الزام دلہن کے سر ڈال دیا جاتا ہے کہ جب سے یہ منحوس گھر میں آئی ہے تب سے مصیبتوں نے ہمارے گھر کا رستہ دیکھ لیا ہے، وغیرہ۔ اس طرح کی بدشگونی سخت ممنوع اور ایسی دل آزاری سخت حرام ہے۔
بد شگونی کا بہترین علاج:
یہاں معاشرے میں رائج بد فالیوں اور بد شگونیوں کا ایک بہترین علاج ذکر کیا جاتا ہے، چنانچہ حضرت عروہ بن عامر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس شگون کا ذکر کیا گیا تو فرمایا: ’’اس میں (نیک) فال اچھی چیز ہے۔ اور مسلمان کو کسی کام سے نہ روکے تو جب تم میں سے کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھے تویوں کہے: ’’اَللّٰہُمَّ لَا یَاْتِیْ بِالْحَسَنَاتِ اِلَّا اَنْتَ وَلَا یَدْفَعُ السَّیِّئَاتِ اِلَّا اَنْتَ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِکَ‘‘ یعنی اے اللہ! تیرے سوا کوئی بھلائیاں نہیں لاتا اور تیرے سوا کوئی برائیاں دور نہیں کرتا،نہ ہم میں طاقت ہے اور نہ قوت مگر تیری توفیق کے ساتھ۔(ابو داؤد، کتاب الطب، باب فی الطیرۃ، ۴ / ۲۵، الحدیث: ۳۹۱۹)
مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’یہ عمل بہت ہی مُجرّب ہے، اِنْ شَآءَاللہ اس دعا کی برکت سے کوئی بری چیز اثر نہیں کرتی۔( مراٰۃ المناجیح، فال اور بدفالی لینے کا بیان، تیسری فصل، ۶ / ۲۲۲، تحت الحدیث: ۴۳۸۷)
{بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ: بلکہ تم ایک قوم ہو۔} اس کا ایک معنی یہ ہے کہ تم ایسی قوم ہوجنہیں آزمائش میں ڈالا گیا ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ تم ایسی قوم ہو جو اپنے گناہوں کے باعث عذاب میں مبتلا ہوئی ہے۔(مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۴۷، ص۸۵۰)
وَ كَانَ فِی الْمَدِیْنَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ یُّفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ وَ لَا یُصْلِحُوْنَ(48)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور شہر میں نو شخص تھے جو زمین میں فساد کرتے تھے اور اصلاح نہیں کرتے تھے۔
صراط الجنان:تفسیر
{وَ كَانَ فِی الْمَدِیْنَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ: اورشہر میں نو شخص تھے۔} یہاں شہر سے مراد قومِ ثمود کا شہر ہے جس کا نام حِجْر تھا۔ اس قوم کے شریف زادوں میں سے نو شخص تھے جو زمین میں اللہ تعالٰی کی نافرمانی کر کے فساد کرتے تھے اور اللہ تعالٰی کی اطاعت کر کے اپنی اصلاح نہ کرتے تھے۔ان کا سردار قدار بن سالف تھا اوریہی وہ لوگ ہیں جوحضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اونٹنی کے پاؤں کی رگیں کاٹنے پر متفق ہوئے تھے۔( خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۴۸، ۳ / ۴۱۵، ملخصاً)
قَالُوْا تَقَاسَمُوْا بِاللّٰهِ لَنُبَیِّتَنَّهٗ وَ اَهْلَهٗ ثُمَّ لَنَقُوْلَنَّ لِوَلِیِّهٖ مَا شَهِدْنَا مَهْلِكَ اَهْلِهٖ وَ اِنَّا لَصٰدِقُوْنَ(49)
ترجمہ: کنزالعرفان
انہوں نے آپس میں اللہ کی قسمیں کھا کر کہا:ہم رات کے وقت ضرورصا لح اور اس کے گھر والوں پر چھاپا ماریں گے پھر اس کے وارث سے کہیں گے کہ اس گھر والوں کے قتل کے وقت ہم حاضر نہ تھے اور بیشک ہم سچے ہیں ۔
صراط الجنان:تفسیر
{قَالُوْا: انہوں نے کہا۔} جب ان لوگوں نے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اونٹنی کے پاؤں کی رگیں کاٹ دیں تو حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں اللہ تعالٰی کے عذاب کے بارے میں بتایا اور اس عذاب کی علامت بھی بیان کر دی۔ اس کے بعد ان نو اَشخاص نے آپس میں اللہ تعالٰی کی قسمیں کھا کر کہا کہ ہم ضرور رات کے وقت چھاپا مار کر حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، اُن کی اولاد اور ا ن پر ایمان لانے والوں کو قتل کردیں گے، پھر ان کے اس وارث سے جسے ان کے خون کا بدلہ طلب کرنے کا حق ہوگا کہیں گے کہ اس گھر والوں کے قتل کے وقت ہم حاضر نہ تھے ا س لئے ہمیں معلوم نہیں کہ انہیں کس نے قتل کیا ہے اور بیشک ہم اپنی بات میں سچے ہیں ۔( روح البیان، النمل، تحت الآیۃ: ۴۹، ۶ / ۳۵۷، مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۴۹، ص۸۵۰، ملتقطاً)
وَ مَكَرُوْا مَكْرًا وَّ مَكَرْنَا مَكْرًا وَّ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ(50)
ترجمہ: کنزالعرفان
او رانہوں نے سازش کی اور ہم نے اپنی خفیہ تدبیر فرمائی اور وہ غافل رہے۔
صراط الجنان:تفسیر
{وَ مَكَرُوْا: او رانہوں نے سازش کی۔} یعنی ان لوگوں نے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے گھر والوں پر شب خون مارنے کی سازش تیار کی اور ہم نے ان کی سازش کی سزا یہ دی کہ ان کے عذاب میں جلدی فرمائی اور وہ ہماری خفیہ تدبیر سے غافل رہے۔ (خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۵۱، ۳ / ۴۱۵)اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالٰی اپنے خاص بندوں کا حافظ وناصر ہے اور انہیں لوگوں کے خفیہ شر سے بچا تا ہے۔
فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ مَكْرِهِمْۙ-اَنَّا دَمَّرْنٰهُمْ وَ قَوْمَهُمْ اَجْمَعِیْنَ(51)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو دیکھو کہ ان کی سازش کاکیسا انجام ہوا ؟ہم نے انہیں اور ان کی ساری قوم کوہلاک کردیا۔
صراط الجنان:تفسیر
{اَنَّا دَمَّرْنٰهُمْ: ہم نے انہیں ہلاک کردیا۔} یعنی ہم نے ان نو شخصوں کو ہلاک کر دیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے اس رات حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مکان کی حفاظت کے لئے فرشتے بھیج دیئے۔ جب وہ نو شخص ہتھیار باندھ کر اور تلواریں کھینچ کر حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دروازے پر آئے تو فرشتوں نے انہیں پتھر مارے۔ وہ پتھر ان لوگوں کو لگتے تھے لیکن مارنے والے نظر نہ آتے تھے۔ اس طرح ان نو کو ہلاک کیا اور ان کے علاوہ ساری قوم کو اللہ تعالٰی نے ہَولناک آواز سے ہلاک کردیا۔( خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۵۰، ۳ / ۴۱۵)
فَتِلْكَ بُیُوْتُهُمْ خَاوِیَةًۢ بِمَا ظَلَمُوْاؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ(52)وَ اَنْجَیْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَ(53)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب ویران پڑے ہیں ، بیشک اس میں جاننے والوں کیلئے (عبرت کی) نشانی ہے۔ اور ہم نے ان لوگوں کو بچالیا جو ایمان لائے اور ڈرتے تھے۔
صراط الجنان:تفسیر
{فَتِلْكَ بُیُوْتُهُمْ خَاوِیَةً: تو یہ ان کے گھر ویران پڑے ہیں ۔} ارشاد فرمایا کہ قومِ ثمودکی ہلاکت کے بعدان کے گھر ویران پڑے ہیں اور اب ان گھروں میں اس قوم کا کوئی شخص بھی موجود نہیں اور ان کا یہ انجام اللہ تعالٰی کے ساتھ شرک کر کے اور اس کے رسول کو جھٹلا کر اپنی جانوں پر ظلم کرنے کی وجہ سے ہوا اور اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے آپ کے سامنے قومِ ثمود کاجو واقعہ بیان فرمایااس میں ان لوگوں کے لئے عبرت کی نشانی موجود ہے جو علم رکھتے ہیں ، لہٰذا اگر آپ کی قوم کے کفار آپ کو جھٹلانے سے باز نہ آئے تو ان کا انجام بھی قومِ ثمود جیسا ہو سکتا ہے اور اگر ایسا ہوا تو یہ ان کے حق میں کسی طرح بہتر نہ ہوگا۔(تفسیر طبری، النمل، تحت الآیۃ: ۵۲، ۹ / ۵۳۴، روح البیان، النمل، تحت الآیۃ: ۵۲، ۶ / ۳۵۷-۳۵۸، ملتقطاً)
{وَ اَنْجَیْنَا: اور ہم نے بچالیا۔} یعنی جو لوگ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لائے اور وہ کفر وشرک اور گناہوں سے بچتے اور حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نافرمانی کرنے سے ڈرتے تھے ہم نے ا نہیں عذاب سے بچا لیا۔( مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۵۳، ص۸۵۱، روح البیان، النمل، تحت الآیۃ: ۵۳، ۶ / ۳۵۸، ملتقطاً)
وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ وَ اَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ(54)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور لوط کو یاد کروجب اس نے اپنی قوم سے فرمایا: کیا تم بے حیائی کا کام کرتے ہوحالانکہ تم دیکھ رہے ہو۔
صراط الجنان:تفسیر
{وَ لُوْطًا: اور لوط کو۔} یہاں سے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ بیان کیا جا رہا ہے۔ آیت میں ذکر کئے گئے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قول کا ایک معنی یہ ہے کہ کیا تم بدکاری پر اتر آئے ہو حالانکہ تم اس فعل کی قباحت جانتے ہو۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ کیا تم بے حیائی پر اتر آئے ہو اور تم ایک دوسرے کے سامنے بے پردہ ہو کراعلانیہ بدفعلی کا اِرتکاب کرتے ہو۔ تیسرا معنی یہ ہے کہ تم اپنے سے پہلے نافرمانی کرنے والوں کی تباہی اور اُن کے عذاب کے آثار دیکھتے ہو پھر بھی اس بدعملی میں مبتلا ہو۔( مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۵۴، ص۸۵۱، ملخصاً)
اَىٕنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّنْ دُوْنِ النِّسَآءِؕ-بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُوْنَ(55)
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا تم عورتوں کو چھوڑ کرمردوں کے پاس شہوت سے جاتے ہو بلکہ تم جاہل لوگ ہو۔
صراط الجنان: تفسیر
{اَىٕنَّكُمْ: کیا تم۔} حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مزید فرمایا کہ کیا تم عورتوں کو چھوڑ کرمردوں کے پاس شہوت پوری کرنے کیلئے جاتے ہو حالانکہ مردوں کے فطرتی تقاضے کی تسکین کے لئے عورتیں بنائی گئی ہیں ، مردوں کے لئے مرد اور عورتوں کے لئے عورتیں نہیں بنائی گئیں ، لہٰذا یہ فعل حکمت ِالٰہی کی مخالفت ہے، بلکہ تم جاہل لوگ ہو جو ایسا کام کرتے ہو اور تمہیں اپنے اس فعل کے برے انجام کا اندازہ نہیں ۔( مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۵۵، ص۸۵۱، ملخصاً)
فطرت سے بغاوت کا نتیجہ:
یاد رہے کہ مردوں کے فطرتی تقاضے یعنی شرمگاہ کی شہوت پوری کرنے کادرست ذریعہ عورت ہے اور اس میں بھی کھلی چھٹی نہیں کہ جب اور جس عورت سے دل چاہا اس سے اپنی شہوت پوری کر لی بلکہ اس میں شریعت نے ایک حد مقرر کی ہے اور کچھ اصول و قوانین نافذ فرمائے ہیں جن کے اندر رہتے ہوئے بندہ عورت سے اپنا فطرتی تقاضا پورا کر سکتا ہے اور فی زمانہ شرعی نکاح کے علاوہ عورت سے فائدہ اٹھانے کی کوئی صورت نہیں ، اور شرعی نکاح کر کے اپنی بیوی سے جائز طریقے کے ساتھ فطرتی تقاضا پورا کرنا انسانی فطرت کے عین مطابق اور بے شمار فوائد کا حامل ہے، جیسے انسانوں کی تعداد میں درست طریقے سے اضافہ ہونا، خاندانی نظام قائم ہونا، معاشرے میں فحاشی اور بے حیائی کا خاتمہ ہو کر ایک پاکیزہ معاشرے کا ترتیب پانا وغیرہ اور جب سے لوگوں نے اپنی فطرت سے بغاوت کرتے ہوئے معاشرے میں ہم جنس پرستی کو فروغ دینا شروع کیا، مردوں کو مردوں اور عورتوں سے بد فعلی کرنے کی طرف مُنَظّم طریقے سے مائل کیا، فحاشی، عریانی اور بے حیائی کو عام کیا، عورتوں میں پردے کی ذہنیت کوختم کر کے آزاد رَوِش اور روشن خیالی کی سوچ کو پیدا کیا،بد فعلی اور زناکاری کو آسان سے آسان تر کیا حتّٰی کہ بچوں کو اس کی باقاعدہ تربیت دینے کانظام قائم کیا تب سے ان لوگوں کا حال جانوروں سے بھی بدتر ہوتا جا رہا ہے اور یہ لوگ انتہائی خطرناک مسائل اور مُہلِک اَمراض سے دوچار ہونے کے بعد اب اس بات پر مجبور ہو چکے ہیں کہ وہ فطرت سے بغاوت ختم کر دیں اور اپنے معاشرے میں اس نظام کو رائج کریں جو فطرت کے مطابق ہے۔اے کاش! مسلمان بھی ہوش کے ناخن لیں اور یہ بھی اپنی فطرت سے بغاوت نہ کریں اور جو بغاوت کر چکے وہ اس سے باز آجائیں ۔ اللہ تعالٰی انہیں ہدایت عطا فرمائے،اٰمین۔
فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْۤا اَخْرِجُوْۤا اٰلَ لُوْطٍ مِّنْ قَرْیَتِكُمْۚ-اِنَّهُمْ اُنَاسٌ یَّتَطَهَّرُوْنَ(56)فَاَنْجَیْنٰهُ وَ اَهْلَهٗۤ اِلَّا امْرَاَتَهٗ٘-قَدَّرْنٰهَا مِنَ الْغٰبِرِیْنَ(57)وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْهِمْ مَّطَرًاۚ-فَسَآءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِیْنَ(58)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو اس کی قوم کا اس کے سواکچھ جواب نہ تھا کہ کہنے لگے کہ لوط کے گھروالوں کو اپنی بستی سے نکال دو،بیشک یہ ایسے لوگ ہیں جو بڑے پاک صاف بنتے ہیں ۔ تو ہم نے اسے اور اس کے گھر والوں کو نجات دی مگر اس کی عورت کو، ہم نے اسے پیچھے رہ جانے والوں میں سے مقرر کردیا تھا۔اور ہم نے ان پر ایک بارش برسائی تو ڈرائے جانے والوں کی بارش کتنی بری تھی۔
صراط الجنان:تفسیر
{اِنَّهُمْ اُنَاسٌ یَّتَطَهَّرُوْنَ: بیشک یہ ایسے لوگ ہیں جو بڑے پاک صاف بنتے ہیں ۔} قومِ لوط کا یہ قول بدباطنی کی انتہا ہے کہ اپنی خبیث حرکتوں کو برا سمجھنے اور ان سے باز آنے کی بجائے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے ساتھیوں کا مذاق اُڑا رہے ہیں کہ یہ بڑے پاکباز بنتے پھرتے ہیں ۔ ہمارا معاشرہ بھی ایسی کئی شَناعتوں کا مرتکب ہوچکا ہے کہ یہاں فُساق و فُجار تو اپنے اَفعال پر فخر کرتے ہیں جبکہ مذہب، مذہبی لوگوں اور ان کے مذہبی افعال کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔
قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ وَ سَلٰمٌ عَلٰى عِبَادِهِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰىؕ- ﰰللّٰهُ خَیْرٌ اَمَّا یُشْرِكُوْنَﭤ(59)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم کہو: تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں اوران بندوں پر سلام ہو جنہیں اللہ نے چن لیا ہے۔ کیا اللہ بہتریا ان کے خود ساختہ شریک؟
صراط الجنان:تفسیر
{قُلْ: تم کہو۔} یہاں حضور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے خطاب فرمایا گیا کہ اے حبیب ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ پچھلی امتوں کی ہلاکت پر اللہ تعالٰی کی حمد بجالائیں اور اللہ تعالٰی کے چنے ہوئے بندوں پر سلام بھیجیں ۔ چنے ہوئے بندوں سے مراد اَنبیاء و مُرسَلین عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ چنے ہوئے بندوں سے حضور پُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابہ ٔ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ مراد ہیں ۔( مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۵۹، ص۸۵۱–۸۵۲، خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۵۹، ۳ / ۴۱۶، ملتقطاً)
{ ﰰللّٰهُ خَیْرٌ اَمَّا یُشْرِكُوْنَ: کیا اللہ بہتریا ان کے خود ساختہ شریک ؟} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ کیا اللہ تعالٰی کی عبادت کرنے والے کے لئے اللہ تعالٰی بہتر ہے یا بتوں کے عبادت کرنے والے کے لئے بت بہتر ہیں ۔ بے شک جو اللہ تعالٰی پر ایمان لایا اور اس نے خاص اللہ تعالٰی کی عبادت کی تو اس کے لئے اللہ تعالٰی بہتر ہے کیونکہ وہ انہیں عذاب اور ہلاکت سے بچا تا ہے جبکہ عذاب نازل ہونے کے وقت بت اپنے عبادت گزاروں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ (خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۵۹، ۳ / ۴۱۶)اس لئے بتوں کو پوجنا اور معبود ماننا انتہائی بے جا ہے۔اَمَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ اَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءًۚ-فَاَنْۢبَتْنَا بِهٖ حَدَآىٕقَ ذَاتَ بَهْجَةٍۚ-مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُنْۢبِتُوْا شَجَرَهَاؕ-ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِؕ-بَلْ هُمْ قَوْمٌ یَّعْدِلُوْنَﭤ(60)
ترجمہ: کنزالعرفان
یا وہ بہتر ہے جس نے آسمان و زمین بنائے اور تمہارے لیے آسمان سے پانی اتارا تو ہم نے اس پانی سے بارونق باغ اگائے۔ تمہارے لئے ممکن نہ تھا کہ تم ان (باغوں ) کے درخت اگادیتے۔ کیا الله کے ساتھ کوئی اور معبود ہے؟ (ہرگز نہیں ،) بلکہ وہ لوگ شریک ٹھہراتے ہیں ۔
صراط الجنان:تفسیر
{اَمَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ: یا وہ بہتر ہے جس نے آسمان و زمین بنائے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی 5آیات کی ابتداء میں مذکور لفظ ’’اَمْ‘‘ کے بارے میں مفسرین کاایک قول یہ ہے کہ یہاں ’’اَمْ‘‘ متصلہ ہے اوردوسرا قول یہ ہے کہ یہاں ’’اَمْ‘‘ منقطعہ ہے۔ پہلے قول کے اعتبار سے آیت کے ابتدائی لفظ ’’اَمَّنْ‘‘ کا معنی یہ ہے کہ کیا بت بہتر ہیں یا وہ خداجس نے۔۔۔۔۔۔ دوسرے قول کے اعتبار سے اس کا معنی یہ ہے کہ مشرکین جنہیں اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہیں وہ ہر گز بہتر نہیں بلکہ وہ بہتر ہے جس نے آسمان اور زمین جیسی عظیم اور عجیب مخلوق بنائی اور تمہارے فائدے کے لیے آسمان سے پانی اتارا اور اللہ تعالیٰ نے ہی اس پانی سے جدا جدا رنگوں ،ذائقوں اور شکلوں والے پھلوں وغیرہ کے باغات اگائے۔ تم اگرچہ ظاہری طور پر بیج بوتے ہو، ٹہنیاں لگاتے ہو اور ان باغات کوپانی سے سیراب کرتے ہو لیکن اس کےباوجودان درختوں کو اگاناتمہارے لئے ممکن نہ تھا کیونکہ ان درختوں کے اگنے اورا ن کی نَشوونُما کے لئے اللہ تعالیٰ نے باقاعدہ جو نظام قائم فرمایا ہے، اگر وہ نظام نہ ہوتا تو درخت کس طرح اگتے۔ کیا قدرت کے یہ دلائل دیکھ کر ایسا کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے؟ ہر گز ایسا نہیں کہا جا سکتا،وہ واحد ہے، اس کے سوا اورکوئی معبود نہیں ،جبکہ مشرکین ایسے لوگ ہیں جن کی عادت راہ ِحق یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت سے کترانا اور راہِ باطل یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے کو اختیار کرنا ہے۔( خازن، النمل، تحت الآیۃ:۶۰،۳ / ۴۱۶، روح البیان، النمل، تحت الآیۃ:۶۰،۶ / ۳۶۰، مدارک، النمل، تحت الآیۃ:۶۰، ص۸۵۲، صاوی، النمل، تحت الآیۃ: ۶۰، ۴ / ۱۵۰۶، ملتقطاً)
اَمَّنْ جَعَلَ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّ جَعَلَ خِلٰلَهَاۤ اَنْهٰرًا وَّ جَعَلَ لَهَا رَوَاسِیَ وَ جَعَلَ بَیْنَ الْبَحْرَیْنِ حَاجِزًاؕ-ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِؕ-بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَﭤ(61)
ترجمہ: کنزالعرفان
یا وہ بہتر ہے جس نے رہائش کیلئے زمین بنائی اور اس کے درمیان میں نہریں بنائیں اور اس کے لئے لنگر بنائے اور دو سمندروں کے درمیان آڑ رکھی۔ کیا الله کے ساتھ کوئی اور معبود ہے؟ بلکہ ان میں اکثر جاہل ہیں ۔
صراط الجنان:تفسیر
{اَمَّنْ جَعَلَ الْاَرْضَ قَرَارًا: یا وہ بہتر ہے جس نے رہائش کیلئے زمین بنائی۔} آیت کے ابتدائی لفظ ’’اَمَّنْ‘‘ کا ایک معنی یہ ہے کہ کیا بت بہتر ہیں یا وہ جس نے۔۔۔۔۔۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ مشرکین جنہیں اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہیں وہ ہر گز بہتر نہیں بلکہ وہ بہتر ہے جس نے زمین کو پھیلا کر ہموار کر کے اوراسے سختی اور نرمی کے درمیان مُتَوَسِّط بناکر،سورج کی شعاعوں کو جذب کرنے کی صلاحیت دے کراسے رہائش کے قابل بنایا اورزمین کے درمیان میں نہریں بنائیں جن میں پانی جاری ہے اور زمین کیلئے وزنی پہاڑوں کے لنگر بنائے جو اُسے جنبش کرنے سے روکتے ہیں اور کھاری اور میٹھے دوسمندروں کے درمیان آڑ رکھی تا کہ ایک کا پانی دوسرے میں داخل نہ ہو۔ ذرا غور کرکے بتاؤ تو سہی کہ کیا کسی انسان، سورج، چاند، درخت، پتھر یاآگ میں سے کوئی اس بات پر قادر ہے کہ وہ زمین میں ان خصوصیات اور ان نعمتوں کو پیدا کر سکے۔جب اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور ان خصوصیات اور نعمتوں کو پیدا کر ہی نہیں سکتا تو تم صرف اسی کی عبادت کیوں نہیں کرتے ؟اصل معاملہ یہ ہے کہ ان میں اکثر لوگ جاہل ہیں جو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی توحید اور اس کی قدرت و اختیار کو نہیں جانتے اور اس پر ایمان نہیں لاتے۔(تفسیرکبیر ، النمل ، تحت الآیۃ : ۶۱، ۸ / ۵۶۴، خازن، النمل،تحت الآیۃ: ۶۱، ۳ / ۴۱۷، قرطبی، النمل، تحت الآیۃ: ۶۱، ۷ / ۱۶۹، الجزء الثالث عشر، ملتقطًا)
اللہ تعالیٰ کی معرفت کا بہت بڑ اذریعہ:
اس سے معلوم ہوا کہ پودوں ، سمندروں اور دریاؤں کے بارے میں علم، اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے،لہٰذا جو لوگ ان چیزوں کا علم رکھتے ہیں وہ دلائل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی قدرت،اس کے اکیلا معبود اور یکتا خالق ہونے کے بارے میں جان سکتے ہیں ۔
اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ وَ یَكْشِفُ السُّوْٓءَ وَ یَجْعَلُكُمْ خُلَفَآءَ الْاَرْضِؕ-ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِؕ-قَلِیْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَﭤ(62)
ترجمہ: کنزالعرفان
یا وہ بہتر جو مجبور کی فریاد سنتا ہے جب وہ اسے پکارے اوربرائی ٹال دیتا ہے اور تمہیں زمین کا وارث کرتا ہے۔ کیا الله کے ساتھ کوئی اورمعبود ہے؟تم بہت ہی کم نصیحت حاصل کرتے ہو۔
صراط الجنان:تفسیر
{اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ: یا وہ بہتر جو مجبور کی فریاد سنتا ہے۔ } آیت کے ابتدائی لفظ ’’اَمَّنْ‘‘ کا ایک معنی یہ ہے کہ کیا بت بہتر ہیں یا وہ جو۔۔۔۔۔۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ مشرکین جنہیں اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہیں وہ ہر گز بہتر نہیں بلکہ وہ بہتر ہے جو مجبور و لاچار کے پکارنے پر ا س کی فریاد سنتا اورا س کی حاجت روائی فرماتا ہے اوراس سے برائی ٹال دیتا ہے، کیونکہ اس کے علاوہ کوئی اور ا س بات پر قادر ہی نہیں کہ وہ فقر دور کر کے مال و دولت عطا کر دے،بیماری ختم کر کے صحت دیدے اور شدت وسختی کی حالت کو آسانی میں بدل دے اور وہ تمہیں پہلے لوگوں کی زمینوں کا وارث بناتا ہے، تم ان میں تَصَرُّف کرتے ہو اور تمہارے بعد والے تمہاری زمینوں کے وارث ہوں گے اور وہ ان میں تصرف کریں گے۔ کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اورمعبود ہے جو تمام مخلوق کو ایسی عظیم نعمتیں عطا کرے ؟ تم اللہ تعالیٰ کی عظمت اورا س کی آسان ترین حجتوں سے بہت ہی کم نصیحت اور عبرت حاصل کرتے ہو، اسی لئے تم اوروں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں شریک کرتے ہو۔( خازن ، النمل ، تحت الآیۃ : ۶۲ ، ۳ / ۴۱۷، روح البیان، النمل، تحت الآیۃ: ۶۲، ۶ / ۳۶۲، طبری، النمل، تحت الآیۃ: ۶۲، ۱۰ / ۶، ملتقطاً)
مجبورو لاچارکی دعا:
ا س آیت میں بیان ہوا کہ اللہ تعالیٰ مجبوروں اور لاچاروں کی فریاد سنتا اور ان کی دادرسی فرماتا ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرنے کا ایک طریقہ سکھایا ہے، چنانچہ حضرت ابو بکرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجبور کی دعا کے بارے میں فرمایا (کہ وہ یوں دعا مانگے:) ’’اَللّٰهمَّ رَحْمَتَکَ اَرْجُوْ فَـلَا تَکِلْنِیْ اِلٰی نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ وَ اَصْلِحْ لِیْ شَاْنِیْ کُلَّہٗ لَا اِلٰـہَ اِلَّا اَنْتَ‘‘ یعنی اےاللہ ! میں تیری رحمت کا امید وار ہوں ،تو مجھے آنکھ جھپکنے کی دیر بھی میرے نفس کے حوالے نہ کرنا اور میرے سارے کام درست فرما دے، تیرے علاوہ اور کوئی معبود نہیں ہے۔( مسند ابو داود طیالسی، ابو بکرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ، ص۱۱۷، الحدیث: ۸۶۹)
مجبور اور لاچار مسلمان تو خاص طور پر یہ دعا مانگے جبکہ عمومی طور پر ہر مسلمان کو یہ مبارک دعا بکثرت مانگنی چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا اوراپنے نفس کے حوالے نہ ہونے کا ہر مسلمان حاجت مند ہے اور اپنے کام درست ہونے کاہر مسلمان طلبگار ہے۔
اَمَّنْ یَّهْدِیْكُمْ فِیْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ مَنْ یُّرْسِلُ الرِّیٰحَ بُشْرًۢا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِهٖؕ-ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِؕ-تَعٰلَى اللّٰهُ عَمَّا یُشْرِكُوْنَﭤ(63)
ترجمہ: کنزالعرفان
یا وہ بہتر ہے جو تمہیں خشکی اور تری کے اندھیروں میں راہ دکھاتا ہے اور وہ جو ہوائیں بھیجتا ہے اس حال میں کہ وہ ہوائیں اللہ کی رحمت سے پہلے خوشخبری دے رہی ہوتی ہیں ۔ کیا الله کے ساتھ کوئی اورمعبود ہے؟اللہ ان کے شرک سے بلندو بالاہے۔
صراط الجنان:تفسیر
{اَمَّنْ یَّهْدِیْكُمْ: یا وہ بہتر ہے جو تمہیں راہ دکھاتا ہے۔} آیت کے ابتدائی لفظ ’’اَمَّنْ‘‘ کا ایک معنی یہ ہے کہ کیا بت بہتر ہیں یا وہ جو۔۔۔۔۔۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ مشرکین جنہیں اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہیں وہ ہر گز بہتر نہیں بلکہ وہ بہتر ہے جو تمہیں خشکی اور تری کے سفر کے دوران اندھیری راتوں میں آسمانی ستاروں کے ذریعے اور دن کے وقت زمینی علامات کے ذریعے تمہاری منزلوں اور مَقاصد کی طرف راستے دکھاتا ہے اور وہ جو ہوائیں بھیجتا ہے اس حال میں کہ وہ ہوائیں اللہ تعالیٰ کی رحمت یعنی بارش سے پہلے بارش کے آنے کی خوشخبری دے رہی ہوتی ہیں ۔ کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے جو ایسی قدرت رکھتا ہو ؟ اللہ تعالیٰ خالق اور قادر ہے اور وہ عاجز مخلوق کی شرکت سے بلندو بالاہے۔(جلالین، النمل، تحت الآیۃ: ۶۳، ص۳۲۳، روح البیان، النمل، تحت الآیۃ: ۶۳، ۶ / ۳۶۳، ملتقطاً)
اَمَّنْ یَّبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ وَ مَنْ یَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِؕ-ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِؕ-قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(64)
ترجمہ: کنزالعرفان
یا وہ بہتر ہے جو خلق کی ابتداء فرماتا ہے پھر اسے دوبارہ بنائے گااور وہ جو تمہیں آسمانوں اور زمین سے روزی دیتا ہے۔ کیا الله کے ساتھ کوئی اور معبود ہے؟ تم فرماؤ: اپنی دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو۔
صراط الجنان:تفسیر
{اَمَّنْ یَّبْدَؤُا الْخَلْقَ: یا وہ بہتر ہے جو خلق کی ابتدا فرماتا ہے۔} آیت کے ابتدائی لفظ ’’ اَمَّنْ‘‘ کا ایک معنی یہ ہے کہ کیا بت بہتر ہیں یا وہ جو۔۔۔۔۔۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ مشرکین جنہیں اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہیں وہ ہر گز بہتر نہیں بلکہ وہ بہتر ہے جو مخلوق کو بغیر کسی مثال کے ابتدا ء ً پیدا فرماتا ہے، پھر مخلوق کی موت کے بعد اسے دوبارہ بنائے گا۔ کفار اگرچہ موت کے بعد زندہ کئے جانے کااقرار اور اعتراف نہیں کرتے تھے،اس کے باوجود ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کے دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہونے والی دلیل اس لئے بیان کی گئی کہ جب دوبارہ زندہ کئے جانے پر ناقابلِ تردید دلائل قائم ہیں تو ان کا اقرار نہ کرنا کچھ بھی قابلِ لحاظ نہیں ، بلکہ جب کفار ابتدائی پیدائش کے قائل ہیں تو انہیں دوبارہ پیدا کئے جانے کا قائل ہونا پڑے گا کیونکہ ابتدائی پیدائش دوبارہ پیدا کئے جانے کی انتہائی مضبوط دلیل ہے، تو اب اُن کے لئے ا س سے عذر و انکار کی کوئی جگہ باقی نہیں رہی۔( تفسیرِکبیر، النمل، تحت الآیۃ: ۶۴، ۸ / ۵۶۷، جلالین، النمل، تحت الآیۃ: ۶۴، ص۳۲۳، مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۶۴، ص۸۵۳، ملتقطاً)
مزید ارشاد فرمایا کہ اور وہ جو تمہیں آسمانوں سے بارش کے ذریعے اور زمین سے نباتات کے ذریعے روزی دیتا ہے، کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے جس نے یہ کام کئے ہوں ؟ہر گز اس کے ساتھ کوئی اور معبود نہیں ہے۔ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرما دیں کہ : اگر تم اپنے اس دعوے میں کہ ’’ اللہ تعالیٰ کے سوا اور بھی معبود ہیں ‘‘ سچے ہو تو بتاؤ جو صفات اور کمالات (اوپر) بیان کئے گئے وہ کس میں ہیں ؟ اور جب اللہ تعالیٰ کے سوا ایسا کوئی نہیں تو پھر کسی دوسرے کو کس طرح معبود ٹھہراتے ہو۔‘‘ یہاں ’’هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ‘‘ فرما کر ان کے عاجز اوربے بس ہونے کا اظہار مقصود ہے۔( جلالین، النمل، تحت الآیۃ: ۶۴، ص۳۲۳، تفسیرابو سعود، النمل، تحت الآیۃ: ۶۴، ۴ / ۲۱۱، ملتقطاً)
قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰهُؕ-وَ مَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ(65)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ: الله کے سوا آسمانوں اور زمین میں کوئی غیب نہیں جانتا اور لوگ نہیں جانتے کہ انہیں کب اُٹھایا جائے گا؟
صراط الجنان: تفسیر
{قُلْ: تم فرماؤ۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ مشرکین نے رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے قیامت کے آنے کا وقت دریافت کیا تھا،ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور آیت کا معنی یہ ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی غیب جانتاہے، اس کے علاوہ اور کوئی غیب نہیں جانتا اور قیامت قائم ہونے کا وقت بھی اسے ہی معلوم ہے اورآسمانوں میں جتنے فرشتے ہیں اور زمین میں جتنے انسان ہیں وہ نہیں جانتے کہ انہیں دوبارہ کب اٹھایا جائے گا۔( خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۶۵، ۳ / ۴۱۷، مدارک، النمل،تحت الآیۃ: ۶۵، ص۸۵۳، ملتقطاً)
غیب کا علم اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہونے سے متعلق اہم کلام:
اس آیت میں اور اس کے علاوہ کئی آیات میں غیب کے علم کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ سے علمِ غیب کی نفی کی گئی ہے، اسی مناسبت سے یہاں ہم علمِ غیب سے متعلق ایک خلاصہ ذکر کرتے ہیں تاکہ وہ آیات،احادیث اور اقوالِ علماء جن میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں سے علم غیب کی نفی کی گئی ہے ا ن کا اصل مفہوم واضح ہو اور علم غیب سے متعلق اہلِ حق کے اصل عقیدے کی وضاحت ہو۔چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’علمِ غیب اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہونا بے شک حق ہے اور کیوں نہ ہو کہ رب عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے:
’’ قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰهُ-‘‘
تم فرمادو کہ آسمانوں اور زمین میں اللہ کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں ۔‘‘
اور اس سے مراد وہی علمِ ذاتی اورعلمِ محیط (یعنی ہر چیز کا علم) ہے کہ وہی اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت اور اس سے مخصوصہیں ۔ علمِ عطائی کہ دوسرے کا دیا ہوا ہواور علمِ غیر محیط کہ بعض اَشیاء سے مطلع ہو اور بعض سے ناواقف ہو، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لیے ہو ہی نہیں سکتا،اس سے مخصوص ہونا تو دوسرا درجہ ہے۔ اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا سے علومِ غیب غیر محیط کا اَنبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ملنا بھی قطعاً حق ہے اور کیوں نہ ہو کہ رب عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے:
’’وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَیْبِ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِهٖ مَنْ یَّشَآءُ – ‘‘(آل عمران:۱۷۹)
اور اللہ کی شان یہ نہیں کہ اے عام لوگوتمہیں غیب کا علم دے ہاں اللہ چن لیتا ہے اپنے رسولوں سے جسے چاہے۔
اور فرماتا ہے:
’’عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْهِرُ عَلٰى غَیْبِهٖۤ اَحَدًاۙ(۲۶) اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ‘‘(الجن:۲۶،۲۷)
اللہ عالم الغیب ہے تو اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں کرتاسوااپنے پسندیدہ رسولوں کے۔
اور فرماتا ہے:
’’ وَ مَا هُوَ عَلَى الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍ‘‘(التکویر: ۲۴)
یہ نبی غیب کے بتانے میں بخیل نہیں ۔
اور فرماتا ہے:
’’ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهِ اِلَیْكَ-‘‘( یوسف: ۱۰۲)
یعنی اے نبی !یہ غیب کی باتیں ہم تم کو مخفی طور پر بتاتے ہیں ۔
حتّٰی کہ مسلمانوں کو فرماتا ہے:
’’یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ‘‘(بقرہ: ۳ )
غیب پر ایمان لاتے ہیں ۔
ایمان تصدیق (کا نام) ہے اور تصدیق علم ہے، (تو) جس شے کا اصلاً علم ہی نہ ہو اس پر ایمان لانا کیونکر ممکن (لہٰذا ثابت ہوا کہ مسلمانوں کو غیب کا علم حاصل ہے)، تفسیر کبیر میں ہے: ’’لَایَمْتَنِعُ اَنْ نَّقُوْلَ نَعْلَمُ مِنَ الْغَیْبِ مَالَنَا عَلَیْہِ دَلِیْلٌ‘‘ یہ کہنا کچھ منع نہیں کہ ہم کو اس غیب کا علم ہے جس میں ہمارے لیے دلیل ہے۔( تفسیرِ کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۱ / ۲۷۴)
نسیم الریاض میں ہے: ’’لَمْ یُکَلِّفْنَااللہُ الْاِیْمَانَ بِالْغَیْبِ اِلَّا وَ قَدْ فَتَحَ لَنَا بَابَ غَیْبِہٖ‘‘ ہمیں اللہ تعالیٰ نے ایمان بالغیب کا جبھی حکم دیا ہے کہ اپنے غیب کا دروازہ ہمارے لیے کھول دیا ہے۔( نسیم الریاض، فصل و من ذلک ما اطلع علیہ من الغیوب۔۔۔الخ، ص۱۵۱، فتاویٰ رضویہ، ۲۹ / ۴۳۸–۴۳۹، ملخصاً)
بَلِ ادّٰرَكَ عِلْمُهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ ﱄ بَلْ هُمْ فِیْ شَكٍّ مِّنْهَا -بَلْ هُمْ مِّنْهَا عَمُوْنَ(66)
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا کافروں کا علم آخرت کے بارے میں مکمل ہوچکا ہے ؟ بلکہ وہ اس کی طرف سے شک میں ہیں بلکہ وہ اس سے اندھے ہیں ۔
صراط الجنان:تفسیر
{بَلِ ادّٰرَكَ عِلْمُهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ: کیا کافروں کا علم آخرت کے بارے میں مکمل ہوچکا ہے؟} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کیا کافروں کا علم آخرت کے بارے میں مکمل ہوچکا اور انہیں قیامت قائم ہونے کا علم ویقین حاصل ہوگیا جو وہ اس کا وقت دریافت کرتے ہیں ؟ حالانکہ ایساہر گز نہیں بلکہ وہ تو اس کی طرف سے شک میں ہیں ، انہیں ابھی تک قیامت کے آنے کا یقین نہیں ہے بلکہ وہ اس سے جاہل ہیں اور بصیرت نہ ہونے کی وجہ سے قیامت کے دلائل کو سمجھ نہیں سکتے۔( جلالین، النمل، تحت الآیۃ: ۶۶، ص۳۲۳، بیضاوی، النمل،تحت الآیۃ: ۶۶، ۴ / ۲۷۵، ملتقطاً)
وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا ءَاِذَا كُنَّا تُرٰبًا وَّ اٰبَآؤُنَاۤ اَىٕنَّا لَمُخْرَجُوْنَ(67)لَقَدْ وُعِدْنَا هٰذَا نَحْنُ وَ اٰبَآؤُنَا مِنْ قَبْلُۙ-اِنْ هٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ(68)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور کافر وں نے کہا:کیا جب ہم اور ہمارے باپ دادا مٹی ہوجائیں گے توکیا ہم پھر نکالے جائیں گے؟ بیشک یہ وعدہ ہمیں اور ہم سے پہلے ہمارے باپ داداؤں کو دیا گیا تھا،یہ تو صرف پہلے لوگوں کی جھوٹی کہانیاں ہیں ۔
صراط الجنان:تفسیر
{وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا: اور کافر وں نے کہا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کافروں نے مرنے کے بعد زندہ کئے جانے کا انکار کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ جب مرنے کے بعدہم اور ہمارے باپ دادا مٹی ہوجائیں گے توکیا ہم پھرقبروں سے زندہ کر کے نکالے جائیں گے؟ بیشک مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کا جووعدہ ہمیں دیا گیا ہے، پچھلے زمانوں میں یہی وعدہ ہمارے باپ داداؤں کو بھی دیا گیا تھا لیکن وہ تو دوبارہ زندہ نہیں ہوئے اور نہ ہر گز ہوں گے، یہ تو صرف پہلے لوگوں کی جھوٹی کہانیاں ہیں جنہیں رستم و اسفندیار کے قصوں کی طرح ان لوگوں نے لکھا ہے۔( جلالین ، النمل، تحت الآیۃ: ۶۷،ص۳۲۳، خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۶۷، ۳ / ۴۱۸، روح البیان، النمل، تحت الآیۃ: ۶۷، ۶ / ۳۶۶، ملتقطاً)
قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِیْنَ(69)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ: زمین میں چل کر دیکھو، مجرموں کا انجام کیسا ہوا؟
صراط الجنان:تفسیر
{قُلْ: تم فرماؤ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کا انکار کرنے اور اسے جھٹلانے والے ان کافروں سے فرمادیں کہ (اگر تمہارے گمان کے مطابق یہ وعدہ جھوٹی کہانی ہے تو) تم جھٹلانے والوں کی سر زمین جیسے حجر اور اَحقاف وغیرہ میں چل کر دیکھ لو کہ ان مجرموں کا انجام کیسا ہوا، وہ لوگ اپنے انکار کے سبب طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک کر دیئے گئے اور اگر تم بھی ان جیسی روش سے باز نہ آئے تو تمہارا انجام بھی ان لوگوں جیسا ہو سکتا ہے اور تم پر بھی ان کی طرح کا کوئی عذاب نازل ہو سکتا ہے۔( روح البیان، النمل، تحت الآیۃ: ۶۹، ۶ / ۳۶۶، ملخصاً)
اجڑی بستیاں عبرت کے نشان ہیں :
اس سے معلوم ہوا کہ برباد شدہ قوموں کی اجڑی بستیاں لوگوں کے لئے عبرت کے نشان ہیں اور لوگوں کو چاہئے کہ جن مقامات پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہو ا وہاں کے رہنے والوں کے احوال اور ان کے دردناک انجام پر غور کریں اور ان کی اجڑی ہوئی اور ویران بستیوں کو دیکھ کر عبرت و نصیحت حاصل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے سے باز آجائیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے اور ہمیں اپنی نافرمانی کرنے سے محفوظ فرمائے،اٰمین۔
وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْهِمْ وَ لَا تَكُنْ فِیْ ضَیْقٍ مِّمَّا یَمْكُرُوْنَ(70)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور (اے حبیب!) تم ان پر غم نہ کرواور ان کی سازشوں سے دل تنگ نہ ہو۔
صراط الجنان:تفسیر
{وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْهِمْ: اور تم ان پر غم نہ کرو۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان کافروں کے اِعراض کرنے، آپ کو جھٹلانے اور اسلام سے محروم رہنے کے سبب ان پر غم نہ کھائیں (کیونکہ ان کے برے اختیار کی وجہ سے ان کی قسمت میں ہی کفر کرنالکھا ہے) اور آپ ان کی سازشوں سے دل تنگ نہ ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت فرمانے والا اور آپ کا مددگار ہے۔( جلالین ، النمل، تحت الآیۃ: ۷۰، ص۳۲۳، خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۷۰، ۳ / ۴۱۸، ملتقطاً)
وَ یَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(71)قُلْ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنَ رَدِفَ لَكُمْ بَعْضُ الَّذِیْ تَسْتَعْجِلُوْنَ(72)
ترجمہ: کنزالعرفان
اورکافر کہتے ہیں : یہ وعدہ کب (پورا) ہوگا؟ اگر تم سچے ہو (تو بتاؤ)۔ تم فرماؤ: ہوسکتا ہے کہ جس (عذاب) کی تم جلدی مچارہے ہو اس کا کچھ حصہ تمہارے پیچھے آلگا ہو۔
صراط الجنان:تفسیر
{وَ یَقُوْلُوْنَ: اورکافر کہتے ہیں ۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کافر یہ کہتے ہیں : اگر آپ عذاب نازل ہونے کے وعدے میں سچے ہیں تو آپ بتائیں کہ یہ وعدہ کب پورا ہوگا ؟ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرمادیں کہ جس عذاب کے نازل ہونے کی تم جلدی مچا رہے ہو، ہوسکتا ہے کہ اس کا کچھ حصہ تمہارے پیچھے آلگا ہو اور تمہارے قریب پہنچ چکا ہو۔ چنانچہ وہ عذاب بدر کے دن اُن پر آہی گیا اور باقی عذاب وہ موت کے بعد پائیں گے۔( جلالین ، النمل، تحت الآیۃ: ۷۱–۷۲، ص۳۲۳)
وَ اِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَشْكُرُوْنَ(73)وَ اِنَّ رَبَّكَ لَیَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُوْرُهُمْ وَ مَا یُعْلِنُوْنَ(74)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک تیرا رب لوگوں پرفضل والا ہے لیکن ان میں اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے۔ اور بیشک تمہارا رب یقیناجانتا ہے جو ان کے سینے چھپائے ہوئے ہیں اور جو وہ ظاہر کرتے ہیں ۔
صراط الجنان:تفسیر
{وَ اِنَّ رَبَّكَ: اور بیشک تیرا رب۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بیشک تیرا رب عَزَّوَجَلَّ لوگوں پرفضل فرمانے والا ہے، اسی لئے عذاب میں تاخیر فرماتا ہے، لیکن ان میں اکثر لوگ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا حق نہیں مانتے اور شکر گزاری نہیں کرتے اور اپنی جہالت کی وجہ سے عذاب نازل ہونے کی جلدی کرتے ہیں ۔(مدارک، النمل، تحت الآیۃ : ۷۳، ص۸۵۵)
{وَ اِنَّ رَبَّكَ: اور بیشک تمہارا رب۔} آیت کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ پوشیدہ اور اِعلانیہ عداوت رکھنا اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مخالفت میں مکاریاں کرنا سب کچھ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے، وہ انہیں اس کی سزا دے گا۔(مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۷۴، ص۸۵۵)
وَ مَا مِنْ غَآىٕبَةٍ فِی السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ(75)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور آسمانوں اور زمین میں جتنے غیب ہیں سب ایک بتانے والی کتاب میں ہیں ۔
صراط الجنان:تفسیر
{وَ مَا مِنْ غَآىٕبَةٍ: اور جتنے غیب ہیں ۔} یعنی آسمانوں اور زمین میں جتنے غیب ہیں سب ایک بتانے والی کتاب لوحِ محفوظ میں ثَبت ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جنہیں ان کا دیکھنا مُیَسَّر ہے اُن کے لئے ظاہر ہیں ۔( تفسیرِ کبیر، النمل، تحت الآیۃ: ۷۵، ۸ / ۵۷۰، ملخصاً)
گناہ چھوڑنے اور دل کو باطنی اَمراض سے پاک رکھنے کی ترغیب:
اس آیت اور اس سے اوپر والی آیت کو سامنے رکھتے ہوئے ہر انسان کو چاہئے کہ وہ گناہوں کو چھوڑ دے کیونکہ اللہ اُسے جانتا اور ا س کے تمام اَفعال پر مطلع ہے اگرچہ وہ اپنے افعال کو مخلوق سے چھپانے کی انتہائی کوشش کر لے،نیز ہر مسلمان کو چاہئے کہ اس کا دل کسی کے بارے میں بغض،حسد،کینہ اور عداوت وغیرہ سے صاف ہو کیونکہ اس کے دل میں چھپی ہوئی ان چیزوں کو بھی اس کا رب تعالیٰ جانتا ہے۔ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے :
’’ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ یَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ وَ مَا تُعْلِنُوْنَؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ‘‘(التغابن: ۴)
ترجمۂ: کنزُالعِرفان وہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور وہ جانتا ہے جو تم چھپاتے ہواور جوتم ظاہر کرتے ہو، اور اللہ دلوں کی بات جانتا ہے۔
اورارشاد فرماتا ہے:
’’ وَ اَسِرُّوْا قَوْلَكُمْ اَوِ اجْهَرُوْا بِهٖؕ-اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ‘‘(الملک: ۱۳)
ترجمۂ: کنزُالعِرفان اور تم اپنی بات آہستہ کہو یا آواز سے، بیشک وہ تو دلوں کی بات جانتا ہے۔
اور قیامت کے دن کے بارے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا قول ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
’’ یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَۙ(۸۸)اِلَّا مَنْ اَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ‘‘(الشعراء:۸۸،۸۹)
ترجمۂ :کنزُالعِرفان جس دن نہ مال کام آئے گا اور نہ بیٹے۔مگر وہ جو اللہ کے حضور سلامت دل کے ساتھ حاضر ہوگا۔
حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بھی اپنی امت کو اسی چیز کی تعلیم دی ہے، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص کسی صحابی کے بارے میں مجھ سے شکایت نہ کرے کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ (اپنے گھر سے) ان کی طرف اس طرح نکلوں کہ میرا دل صاف ہو (اور میرے دل میں کسی کے بارے میں کوئی رنجش نہ ہو۔)( ترمذی ، کتاب المناقب، باب:فضل ازواج النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وآلہ وسلم، ۵ / ۴۷۵، الحدیث: ۲۲۳۹)
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کوگناہوں سے بچنے اور اپنے دلوں کو باطنی امراض سے پاک صاف رکھنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ یَقُصُّ عَلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اَكْثَرَ الَّذِیْ هُمْ فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ(76)وَ اِنَّهٗ لَهُدًى وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ(77)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک یہ قرآن بنی اسرائیل سے اکثر وہ باتیں ذکر فرماتا ہے جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں ۔ اور بیشک یہ مسلمانوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔
صراط الجنان:تفسیر
{اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ: بیشک یہ قرآن۔} اہلِ کتاب نے دینی اُمور میں آپس میں اختلاف کیا جس کی وجہ سے اُن کے بہت سے فرقے بن گئے اور آپس میں لعن طعن کرنے لگے تو قرآنِ کریم نے ان کے اختلافی امور کوحقیقت کے مطابق ایسے شاندار انداز میں بیان کیا کہ اگر اہلِ کتاب انصاف کریں اور اسے قبول کریں اور اسلام لائیں تو ان میں یہ باہمی اختلاف باقی نہ رہے۔( خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۷۶، ۳ / ۴۱۹، مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۷۶، ص۸۵۵، ملتقطاً)
اِنَّ رَبَّكَ یَقْضِیْ بَیْنَهُمْ بِحُكْمِهٖ ۙۚ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْعَلِیْمُ(78)فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِؕ-اِنَّكَ عَلَى الْحَقِّ الْمُبِیْنِ(79)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک تمہارا رب اپنے حکم سے ان کے درمیان فیصلہ فرمادے گا اور وہی عزت و الا علم والاہے۔ تو تم الله پر بھروسہ کرو بیشک تم روشن حق پر ہو۔
صراط الجنان:تفسیر
{اِنَّ رَبَّكَ یَقْضِیْ بَیْنَهُمْ: بیشک تمہارا رب ان کے درمیان فیصلہ فرمادے گا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بنی اسرائیل کے جو لوگ دینی اُمور میں باہم اختلاف کر رہے ہیں ،آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ اپنے حکم سے قیامت کے دن ان کے درمیان فیصلہ فرما دے گااور آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ ہی عزت والا اور غلبے والا ہے، اس لئے کوئی اس کے حکم اور فیصلے کو رد نہیں کر سکتا اور آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ ہی تمام اَشیاء کا علم رکھنے والا ہے،لہٰذا اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں اور ان کی عداوت و دشمنی کی پرواہ نہ کریں ، بے شک آپ روشن حق پر ہیں ۔( روح البیان، النمل، تحت الآیۃ: ۷۸، ۶ / ۳۶۹)
اِنَّكَ لَا تُسْمِــعُ الْمَوْتٰى وَ لَا تُسْمِــعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ(80)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک تم مردوں کو نہیں سناسکتے اور نہ تم بہروں کو پکار سناسکتے ہو جب وہ پیٹھ دے کرپھر رہے ہوں ۔
صراط الجنان:تفسیر
{اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى: بیشک تم مُردوں کو نہیں سناسکتے۔} علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :یعنی جن لوگوں کے دل مردہ ہیں آپ انہیں نہیں سنا سکتے اور وہ لوگ کفار ہیں ۔( خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۸۰، ۳ / ۴۱۹)اورابو البرکات عبد اللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’اس آیت میں کفار کو زندہ ہونے اور حواس درست ہونے کے باوجود مُردوں کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔( مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۸۰، ص۸۵۶)
آیت ’’اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى‘‘ سے مُردوں کے نہ سننے پر اِستدلال کرنے والوں کا رد:
بعض حضرات اس آیت سے مُردوں کے نہ سننے پر استدلال کرتے ہیں ، ان کا استدلال غلط ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کفار کو مُردہ فرمایا گیا اور اُن سے بھی مُطلَقاً ہر کلام سننے کی نفی مراد نہیں ہے بلکہ وعظ و نصیحت اور کلامِ ہدایت قبول کرنے کیلئے سننے کی نفی ہے اور مراد یہ ہے کہ کافر مردہ دل ہیں کہ نصیحت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتے۔ حضرت ملا علی قاری رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’مردوں سے مراد کفار ہیں اور (یہاں ) مطلق سننے کی نفی نہیں بلکہ معنی یہ ہے کہ ان کاسننا نفع بخش نہیں ہوتا۔( مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الجہاد، باب حکم الاسرائ، الفصل الاول، ۷ / ۵۱۹، تحت الحدیث: ۳۹۶۷)
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں سننے کی نفی نہیں بلکہ سنانے کی نفی ہے اور اگر سننے کی نفی مان لی جائے تو یہاں یقینا’’سننا‘‘ قبول کرنے کے لئے سننے اور نفع بخش سننے کے معنی میں ہے۔ باپ اپنے عاقل بیٹے کو ہزار بارکہتاہے : وہ میری نہیں سنتا۔ کسی عاقل کے نزدیک اس کے یہ معنی نہیں کہ حقیقۃً کان تک آواز نہیں جاتی۔ بلکہ صاف یہی کہ سنتا توہے، مانتا نہیں ، اور سننے سے اسے نفع نہیں ہوتا، آیۂ کریمہ میں اسی معنی کے ارادہ پر ’’ہدایت‘‘ شاہدکہ کفار سے نفع اٹھانے ہی کی نفی ہے نہ کہ اصل سننے کی نفی۔ خود اسی آیۂ کریمہ ’’اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى‘‘ کے تتمہ میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اِنْ تُسْمِعُ اِلَّا مَنْ یُّؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا فَهُمْ مُّسْلِمُوْنَ‘‘ تم نہیں سناتے مگر انھیں جو ہماری آیتوں پریقین رکھتے ہیں تو وہ فرمانبردار ہیں ۔ اور پُر ظاہر کہ وعظ و نصیحت سے نفع حاصل کرنے کا وقت یہی دنیا کی زندگی ہے۔ مرنے کے بعد نہ کچھ ماننے سے فائدہ نہ سننے سے حاصل، قیامت کے دن سبھی کافر ایمان لے آئیں گے، پھر اس سے کیا کام، توحاصل یہ ہوا کہ جس طرح مردوں کو وعظ سے کوئی فائدہ نہیں ، یہی حال کافروں کا ہے کہ لاکھ سمجھائیے نہیں مانتے۔( فتاویٰ رضویہ، ۹ / ۷۰۱، ملخصاً)
مُردوں کے سننے کا ثبوت:
کثیر اَحادیث سے مُردوں کا سننا ثابت ہے، یہاں ہم بخاری شریف اور مسلم شریف سے دو اَحادیث ذکر کرتے ہیں جن میں مردوں کے سننے کا ذکر ہے۔ چنانچہ
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب بندے کو اس کی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور لوگ دفن کرکے پلٹتے ہیں توبیشک وہ یقینا تمہارے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔( بخاری ، کتاب الجنائز، باب المیت یسمع خفق النعال، ۱ / ۴۵۰، الحدیث: ۱۳۳۸)
حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ’’رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمیں کفارِ بدر کی قتل گاہیں دکھاتے تھے کہ یہا ں فلاں کافر قتل ہوگا اوریہاں فلاں ، جہاں جہاں حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بتایا تھا وہیں وہیں ان کی لاشیں گریں ۔ پھر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم سے ان کی لاشیں ایک کنویں میں بھردی گئیں ۔سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ وہاں تشریف لے گئے اور ان کفار کو ان کا اور ان کے باپ کا نام لے کر پکارا اور فرمایا: جو سچا وعدہ خداا ور رسول نے تمہیں دیاتھا وہ تم نے بھی پالیا؟ کیونکہ جو حق وعدہاللہ تعالیٰ نے مجھے دیا تھا، میں نے تو اسے پالیا۔ حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان جسموں سے کیونکر کلام کرتے ہیں جن میں روحیں نہیں ۔ ارشادفرمایا: جو میں کہہ رہاہوں اسے تم ان سے کچھ زیادہ نہیں سنتے لیکن انہیں یہ طاقت نہیں کہ مجھے لوٹ کر جواب دیں ۔( مسلم،کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا واہلھا، باب عرض مقعد المیت من الجنۃ او النار علیہ۔۔۔الخ،ص۱۵۳۶، الحدیث: ۷۶( ۲۸۷۳))
نوٹ: مُردوں کے سننے سے متعلق مسئلے کی مزید تفصیل جاننے کے لئے فتاویٰ رضویہ کی 9ویں جلد میں موجود رسالہ ’’حَیَاتُ الْمَوَاتْ فِیْ بَیَانِ سِمَاعِ الْاَمْوَاتْ‘‘ (مردوں کی سماعت کے بیان میں مفید رسالہ) کا مطالعہ فرمائیں ۔
{وَ لَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ: اور نہ تم بہروں کو پکار سناسکتے ہو۔} اس کامعنی یہ ہے کہ کفار کو جس چیز کی دعوت دی جا رہی ہے اس سے انتہا درجے کے اِعراض اورروگردانی کی وجہ سے وہ مُردے اور بہرے کی طرح ہوگئے ہیں تو جس طرح مردے اور سننے سمجھنے سے قاصر بہرے کو حق کی دعوت دینا کوئی فائدہ نہیں دیتا اسی طرح ان کافروں کو حق کی دعوت دینا کوئی فائدہ نہیں دیتا۔(خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۸۰، ۳ / ۴۱۹، ملخصاً)وَ مَاۤ اَنْتَ بِهٰدِی الْعُمْیِ عَنْ ضَلٰلَتِهِمْؕ-اِنْ تُسْمِعُ اِلَّا مَنْ یُّؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا فَهُمْ مُّسْلِمُوْنَ(81)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور تم اندھوں کو ان کی گمراہی سے (نکال کر) ہدایت دینے والے نہیں ۔تم تو اسی کو سنا سکتے ہو جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں تو وہ فرمانبردار ہیں ۔
صراط الجنان:تفسیر
{وَ مَاۤ اَنْتَ بِهٰدِی الْعُمْیِ: اور تم اندھوں کو ہدایت دینے والے نہیں ۔} اس کا معنی یہ ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے ہدایت سے اور ا س کے دل کو ایمان سے اندھا کر دیا آپ اسے گمراہی سے نکال کر ہدایت نہیں دے سکتے ۔( خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۸۱، ۳ / ۴۱۹)
{اِنْ تُسْمِعُ اِلَّا مَنْ یُّؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا: تم تو اسی کو سنا سکتے ہو جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں ۔} یعنی آپ صرف انہی کو سنا سکتے ہیں جن کے پاس سمجھنے والے دل ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کے علم میں ایمان کی سعادت سے بہرہ اندوز ہونے والے ہیں اور وہ مخلص مسلمان ہیں ۔( بیضاوی، النمل، تحت الآیۃ: ۸۱، ۴ / ۲۷۸، تفسیر کبیر، النمل، تحت الآیۃ: ۸۱، ۸ / ۵۷۱، تفسیر ابو سعود، النمل، تحت الآیۃ: ۸۱، ۴ / ۲۱۵، مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۸۱، ص۸۵۶)
وَ اِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْهِمْ اَخْرَجْنَا لَهُمْ دَآبَّةً مِّنَ الْاَرْضِ تُكَلِّمُهُمْۙ-اَنَّ النَّاسَ كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا لَا یُوْقِنُوْنَ(82)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جب ان پر با ت آپڑے گی توہم ان کے لیے زمین سے ایک جانور نکالیں گے جو لوگوں سے کلام کرے گااس لیے کہ لوگ ہماری آیتوں پر یقین نہ کرتے تھے۔
صراط الجنان:تفسیر
{وَ اِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْهِمْ: اور جب ان پر با ت آپڑے گی۔} مفسرین نے ’’بات آ پڑنے‘‘ کے مختلف معنی بیان کئے ہیں۔ (1) جب کفارپر عذاب آناواجب ہوجائے گا۔ (2) جب ان پر اللہ تعالیٰ کا غضب (کا وقوع لازم) ہوجائے گا۔ (3)جب ان پر حجت پوری ہو جائے گی۔یہ اس وقت ہو گا جب لوگ نیک کاموں کی دعوت دینا اور برے کاموں سے منع کرنا ترک کردیں گے۔بعض مفسرین کے نزدیک یہ اس وقت ہو گا جب کفار کی اصلاح کی کوئی امید باقی نہ رہے گی اور یہ امید قیامت قائم ہونے سے پہلے آخری زمانے میں ختم ہوگی۔( خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۸۲، ۳ / ۴۱۹)
ابو البرکات عبد اللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’بات سے مراد وہ ہے جس کا کفار سے وعدہ کیا گیا یعنی قیامت قائم ہونا اور عذاب لازم ہونا اور بات آپڑنے سے مراد اس کا حاصل ہونا ہے ۔آیت سے مراد یہ ہے کہ قیامت قریب ہوجائے گی اوراس کی علامتیں ظاہر ہونے لگیں گی اور اس وقت توبہ نفع نہ دے گی۔( مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۸۲، ص۸۵۶)
{اَخْرَجْنَا لَهُمْ دَآبَّةً مِّنَ الْاَرْضِ: ہم ان کے لیے زمین سے ایک جانور نکالیں گے۔} یعنی جب کفارپر با ت آپڑے گی توہم ان کے لیے زمین سے ایک عجیب و غریب جسم والاجانور نکالیں گے جو لوگوں سے فصیح و بلیغ کلام کرے گا اور کہے گا: ’’ہٰذَا مُؤْمِنٌ وَ ہٰذَا کَافِرٌ‘‘ یعنی یہ مومن ہے اور یہ کافر ہے ۔( مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۸۲، ص۸۵۶)
’’دَآبَّةُ الْاَرْض‘‘ کا تعارف:
اس جانور کو ’’دَآبَّةُ الْاَرْض‘‘ کہتے ہیں ۔اس جانورکے بارے میں صرف اتنا جان لینا کافی ہے کہ یہ عجیب و غریب شکل کا جانور ہوگا ۔ کوہ ِصفا سے برآمد ہو کر تمام شہروں میں بہت جلد پھرے گا ۔فصاحت کے ساتھ کلام کرے گا۔ ہر شخص کی پیشانی پر ایک نشان لگائے گا ،ایمانداروں کی پیشانی پر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے عصاسے نورانی خط کھینچے گا اورکافر کی پیشانی پر حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی انگوٹھی سے سیاہ مہر لگائے گا۔
{اَنَّ النَّاسَ كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا لَا یُوْقِنُوْنَ: اس لیے کہ لوگ ہماری آیتوں پر یقین نہ کرتے تھے۔} اس آیت کے بارے میں ایک احتمال یہ ہے کہ یہ کلام ’’دَآبَّۃُ الْاَرْض‘‘ کا ہے۔ اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہو گا کہ وہ جانور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نمائندگی کرتے ہوئے لوگوں سے یہ کہے گا کہ لوگ ہماری آیتوں پر یقین نہ کرتے تھے۔دوسرا احتمال یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے ۔اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہو گا کہ ہم یہ جانور ا س لئے نکالیں گے کہ لوگ قرآن پاک پر ایمان نہ لاتے تھے جس میں مرنے کے بعد زندہ کئے جانے اورحساب و عذاب کا بیان ہے ۔
وَ یَوْمَ نَحْشُرُ مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ فَوْجًا مِّمَّنْ یُّكَذِّبُ بِاٰیٰتِنَا فَهُمْ یُوْزَعُوْنَ(83)حَتّٰۤى اِذَا جَآءُوْ قَالَ اَكَذَّبْتُمْ بِاٰیٰتِیْ وَ لَمْ تُحِیْطُوْا بِهَا عِلْمًا اَمَّا ذَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(84)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اس دن کو یاد کروجس دن ہم ہر امت میں سے ایک گروہ کو اٹھائیں گے جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتا ہے تو ان کے پہلے لوگوں کو روکا جائے گا تاکہ ان کے بعد والے ان سے آملیں ۔یہاں تک کہ جب سب حاضر ہوجائیں گے تو الله فرمائے گا: کیا تم نے میری آیتوں کو جھٹلایا تھا حالانکہ تمہارا علم ان تک نہ پہنچا تھایاتم کیا کام کرتے تھے؟
صراط الجنان:تفسیر
{وَ یَوْمَ نَحْشُرُ: اور جس دن ہم اٹھائیں گے۔} یہاں سے قیامت کے بارے میں بیان فرمایا جا رہا ہے۔اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جس دن ہم ہر امت میں سے ایک گروہ کو اٹھائیں گے جو انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر نازل کردہ ہماری آیتوں کو جھٹلاتا ہے تو ان کے پہلے لوگوں کو روکا جائے گا تاکہ ان کے بعد والے ان سے آملیں ، پھر انہیں حساب کی جگہ کی طرف چلایا جائے گایہاں تک کہ جب سب حسا ب کی جگہ میں حاضر ہوجائیں گے تو اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا: کیا تم نے میرے رسولوں پر نازل کردہ میری آیتوں کو جھٹلایا تھا حالانکہ تمہارا علم ان تک نہ پہنچا تھا اور تم نے اُن کی معرفت حاصل نہ کی تھی اور بغیر سوچے سمجھے ہی ان آیتوں کا انکار کردیا۔ جب تم اُن آیتوں میں غورو فکر کرنے کے اہم ترین کام میں مشغول نہ ہوئے توتم کیا کام کرتے تھے ؟ تم بے کار تو نہیں پیدا کئے گئے تھے ۔( مدارک ، النمل ، تحت الآیۃ: ۸۳–۸۴ ، ص۸۵۷ ، خازن ، النمل ، تحت الآیۃ: ۸۳–۸۴، ۳ / ۴۲۰، تفسیر کبیر، النمل، تحت الآیۃ: ۸۳–۸۴، ۸ / ۵۷۳، ملتقطاً)
وَ وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْهِمْ بِمَا ظَلَمُوْا فَهُمْ لَا یَنْطِقُوْنَ(85)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ان پر ان کے ظلم کے سبب بات واقع ہوچکی تو وہ اب کچھ نہیں بولتے۔
صراط الجنان:تفسیر
{وَ وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْهِمْ: اور ان پر بات واقع ہوچکی۔} یعنی ان کے شرک کے سبب ان پر عذاب ثابت ہو چکا تو وہ اب کچھ نہیں بولتے کیونکہ اُن کے لئے کوئی حجت اور کوئی گفتگو باقی نہیں ہے۔ اس آیت کا ایک معنی یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعا لیٰ کی آیتوں کو جھٹلانے کی وجہ سے اُن پر عذاب اس طرح چھا جائے گا کہ وہ بول نہ سکیں گے۔( جلالین، النمل، تحت الآیۃ: ۸۵، ص۳۲۴، مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۸۵، ص۸۵۷، ملتقطاً)
اَلَمْ یَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا الَّیْلَ لِیَسْكُنُوْا فِیْهِ وَ النَّهَارَ مُبْصِرًاؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ(86)
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا انہوں نے نہ دیکھا کہ ہم نے رات بنائی تاکہ وہ اس میں آرام کریں اور دن کوآنکھیں کھولنے والابنایا بیشک اس میں ان لوگوں کیلئے ضرور نشانیاں ہیں جو ایمان رکھتے ہیں ۔
صراط الجنان:تفسیر
{اَلَمْ یَرَوْا: کیا انہوں نے نہ دیکھا۔} اس آیت میں مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر دلیل ہے، کیونکہ جو دن کی روشنی کو رات کی تاریکی سے اور رات کی تاریکی کو دن کی روشنی سے بدلنے پر قادر ہے وہ مردے کو زندہ کرنے پر بھی قادر ہے۔ نیز لَیل و نَہار کے اِنقلاب سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس میں لوگوں کی دُنْیَوی زندگی کا انتظام ہے ۔تو یہ عَبث نہیں کیا گیا بلکہ اس زندگانی کے اعمال پر عذاب و ثواب کا تَرَتُّب مُقتَضائے حکمت ہے اور جب دنیا دارُالعمل ہے تو ضروری ہے کہ ایک دارِآخرت بھی ہو تاکہ وہاں کی زندگانی میں یہاں کے اعمال کی جزا ملے۔( خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۸۶، ۳ / ۴۲۰، مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۸۶، ص۸۵۷، ملتقطاً)
{اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ: اس میں ان لوگوں کیلئے ضرور نشانیاں ہیں جو ایمان رکھتے ہیں ۔} یعنی رات کو آرام کے لئے اور د ن کو کام کاج کے لئے بنانے میں ان لوگوں کیلئے ضرور اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں ہیں جو ایمان رکھتے ہیں ۔ دن اور رات کے بنانے میں اگرچہ تمام مخلوق کے لئے نشانیاں ہیں لیکن یہاں ایمان والوں کا بطورِ خاص اس لئے ذکر فرمایا گیاکہ صرف ایمان والے ہی ان نشانیوں سے فائدہ حاصل کرتے ہیں ۔( روح البیان، النمل، تحت الآیۃ: ۸۶، ۶ / ۳۷۳، جلالین، النمل، تحت الآیۃ: ۸۶، ص۳۲۴، تفسیر کبیر، النمل، تحت الآیۃ: ۸۶، ۸ / ۵۷۳، ملتقطاً)
وَ یَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ فَفَزِعَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰهُؕ-وَ كُلٌّ اَتَوْهُ دٰخِرِیْنَ(87)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جس دن صور میں پھونکا جائے گا تو جو آسمانوں میں ہیں اور جوزمین میں ہیں سب گھبرا جائیں گے مگر وہ جنہیں الله چاہے اور سب اس کے حضور عاجزی کرتے حاضر ہوں گے۔
صراط الجنان:تفسیر
{وَ یَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ: اور جس دن صور میں پھونکا جائے گا۔} یعنی جس دن اللہ تعالیٰ کی اجازت سے حضرت اسرافیل عَلَیْہِ السَّلَام صور میں پھونکیں گے تواس کی آواز سن کر زمین و آسمان کے تمام جاندار خوف زدہ ہو جائیں گے اور اسی خوف کی وجہ سے مر جائیں گے۔( تفسیر کبیر، النمل، تحت الآیۃ: ۸۷، ۸ / ۵۷۴، جمل، النمل، تحت الآیۃ: ۸۷، ۵ / ۴۷۷، ملتقطاً)
{اِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰهُ: مگر وہ جنہیں اللہ چاہے۔} یعنی جنہیں اللہ تعالیٰ چاہے گا اور جن کے دل کو اللہ تعالیٰ سکون عطا فرمائے گا انہیں یہ گھبراہٹ نہ ہوگی۔حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ یہ لوگ شہداء ہیں جو اپنی تلواریں گلوں میں حمائل کئے عرش کے گرد حاضر ہوں گے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : ’’وہ لوگ شہداء ہیں ، اس لئے کہ وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک زندہ ہیں ،انہیں ا س وقت گھبراہٹ نہ پہنچے گی ۔ ایک قول یہ ہے کہ صور پھونکنے کے بعد حضرت جبریل ،حضرت میکائل ،حضرت اسرافیل اور حضرت عزرائیل عَلَیْہِمُ السَّلَام ہی باقی رہیں گے۔( مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۸۷، ص۸۵۷، خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۸۷، ۳ / ۴۲۱، ملتقطاً)
{وَ كُلٌّ اَتَوْهُ دٰخِرِیْنَ: اور سب اس کے حضور عاجزی کرتے حاضر ہوں گے۔} یعنی قیامت کے دن سب لوگ موت کے بعد زندہ کئے جائیں گے اور حساب کی جگہ میں اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی کرتے ہوئے حاضر ہوں گے۔( مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۸۷، ص۸۵۷، خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۸۷، ۳ / ۴۲۱، ملتقطاً)
وَ تَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَّ هِیَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِؕ-صُنْعَ اللّٰهِ الَّذِیْۤ اَتْقَنَ كُلَّ شَیْءٍؕ-اِنَّهٗ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَفْعَلُوْنَ(88)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور تُو پہاڑوں کو دیکھے گا انہیں جمے ہوئے خیال کرے گا حالانکہ وہ بادل کے چلنے کی طرح چل رہے ہوں گے۔یہ اس الله کی کاریگری ہے جس نے ہر چیزکو مضبوط کیا بیشک وہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔
صراط الجنان:تفسیر
{وَ تَرَى الْجِبَالَ: اور توپہاڑوں کو دیکھے گا۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ صور پھونکنے کے وقت پہاڑ اپنی بڑی جسامت کی وجہ سے دیکھنے میں تو اپنی جگہ ثابت اورقائم معلوم ہوں گے اور حقیقت میں وہ بادلوں کی طرح انتہائی تیز چلتے ہوں گے ، جیسا کہ بادل وغیرہ بڑے جسم چلتے توہیں لیکن حرکت کرتے ہوئے معلوم نہیں ہوتے ،یہاں تک کہ وہ پہاڑ زمین پر گر کر اس کے برابر ہوجائیں گے، پھر ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جائیں گے۔( مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۸۸، ص۸۵۸، خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۸۸، ۳ / ۴۲۱، ملتقطاً)
مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ خَیْرٌ مِّنْهَاۚ-وَ هُمْ مِّنْ فَزَعٍ یَّوْمَىٕذٍ اٰمِنُوْنَ(89)وَ مَنْ جَآءَ بِالسَّیِّئَةِ فَكُبَّتْ وُجُوْهُهُمْ فِی النَّارِؕ-هَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(90)
ترجمہ: کنزالعرفان
جو نیکی لائے اس کے لیے اس سے بہتر صلہ ہے اور وہ اس دن کی گھبراہٹ سے امن و چین میں ہوں گے۔ اور جو برائی لائے گاتو ان کے چہرے آگ میں الٹے کردیے جائیں گے۔ (اے لوگو!) تمہیں تمہارے اعمال ہی کا بدلہ دیا جائے گا۔
صراط الجنان:تفسیر
{مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ: جو نیکی لائے۔} نیکی سے مراد کلمۂ تَوحید کی شہادت ہے۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس سے مراد عمل میں اخلاص ہے اور بعض نے کہا کہ اس سے مراد ہر وہ نیکی ہے جو اللہ تعالیٰ کے لئے ہو۔آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جو نیکی لائے اس کے لیے اس سے بہتر صلہ یعنی جنت اور ثواب ہے اور وہ نیک لوگ قیامت کے دن کی اس گھبراہٹ سے امن و چین میں ہوں گے جو عذاب کے خوف کی وجہ سے ہوگی۔یاد رہے کہ یہاں جس گھبراہٹ کا ذکر ہے وہ اس گھبراہٹ کے علاوہ ہے جس کا اوپر کی آیت میں ذکر ہوا ہے۔( خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۸۹، ۳ / ۴۲۲، مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۸۹، ص۸۵۸، ملتقطاً)
{وَ مَنْ جَآءَ بِالسَّیِّئَةِ: اور جو برائی لائے گا۔} یہاں برائی سے مراد شرک ہے ۔آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جو شرک لائیں گے وہ اوندھے منہ آگ میں ڈالے جائیں گے اور جہنم کے خازن اُن سے کہیں گے’’تمہیں تمہارے شرک اور گناہوں ہی کا بدلہ دیا جائے گا۔(خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۹۰، ۳ /۴۲۲)
اِنَّمَاۤ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ رَبَّ هٰذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِیْ حَرَّمَهَا وَ لَهٗ كُلُّ شَیْءٍ٘-وَّ اُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ(91)
ترجمہ: کنزالعرفان
مجھے تو یہی حکم ہوا ہے کہ میں اس شہر (مکہ) کے رب کی عبادت کروں جس نے اسے حرمت والا بنایا ہے اورہر شے اسی کی ملکیت ہے اور مجھے حکم ہوا ہے کہ فرمانبرداروں میں سے رہوں ۔
صراط الجنان:تفسیر
{اِنَّمَاۤ اُمِرْتُ: مجھے تو یہی حکم ہوا ہے۔} قیامت کے ابتدائی واقعات اور قیامت قائم ہونے کے بعد کے چند اَحوال بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا کہ آپ فرمادیجئے : مجھے تو یہی حکم ہوا ہے کہ میں اس شہر مکہ کے رب عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کروں اور اپنی عبادت اس رب عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ خاص کروں جس نے اسے حرمت والا بنایا ہے کہ وہاں نہ کسی انسان کا خون بہایا جائے، نہ کوئی شکار مارا جائے اورنہ وہاں کی گھاس کاٹی جائے اور ہر شے حقیقی طور پر اسی کی ملکیت ہے اور اس ملکیت میں ا س کا کوئی شریک نہیں اور مجھے یہ حکم ہوا ہے کہ فرمانبرداروں میں سے رہوں ۔ آیت میں مکہ مکرمہ کا ذکر اس لئے ہواہے کہ وہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا وطن اور وحی نازل ہونے کی جگہ ہے۔( خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۹۱، ۳ / ۴۲۲)
وَ اَنْ اَتْلُوَا الْقُرْاٰنَۚ-فَمَنِ اهْتَدٰى فَاِنَّمَا یَهْتَدِیْ لِنَفْسِهٖۚ-وَ مَنْ ضَلَّ فَقُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ(92)وَ قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ سَیُرِیْكُمْ اٰیٰتِهٖ فَتَعْرِفُوْنَهَاؕ-وَ مَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ(93)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور یہ کہ میں قرآن کی تلاوت کروں تو جس نے ہدایت پائی تواس نے اپنی ذات کیلئے ہی ہدایت پائی اور جو گمراہ ہو تو تم فرمادو کہ میں توصرف ڈر انے والوں میں سے ہوں ۔ اور تم فرماؤ:سب خوبیاں الله کے لیے ہیں ، عنقریب وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھائے گا تو تم انہیں پہچان لو گے اور (اے حبیب!) تمہارا رب، (اے لوگو!) تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہے۔
صراط الجنان:تفسیر
{وَ اَنْ اَتْلُوَا الْقُرْاٰنَ: اور یہ کہ میں قرآن کی تلاوت کروں ۔} یعنی اور مجھے یہ حکم ہوا ہے کہ میں مخلوقِ خدا کو ایمان کی دعوت دینے کے لئے قرآن کی تلاوت کرتا رہوں تاکہ اس کے حقائق مجھ پر ظاہر ہوتے رہیں تو جس نے رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کر کے ہدایت پائی تواس نے اپنی ذات کیلئے ہی ہدایت پائی کیونکہ اس کا نفع اور ثواب وہی پائے گا اور جو گمراہ ہو اور اللہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت نہ کرے اور ایمان نہ لائے تو تم فرمادو کہ میں توصرف اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈر انے والوں میں سے ہوں اورمیری ذمہ داری اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا دینا تھا وہ میں نے انجام دے دی۔( جلالین، النمل، تحت الآیۃ: ۹۲، ص۳۲۵، خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۹۲، ۳ / ۴۲۲، روح البیان، النمل، تحت الآیۃ: ۹۲، ۶ / ۳۷۸، ملتقطاً)
{سَیُرِیْكُمْ اٰیٰتِهٖ: عنقریب وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھائے گا۔} ان نشانیوں سے مراد چاند کا دو ٹکڑے ہونا وغیرہ معجزات اور وہ سزائیں ہیں جو دنیا میں آئیں جیسا کہ بدرمیں کفار کا قتل ہونا، قید ہونا اور فرشتوں کا انہیں مارنا۔( مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۹۳، ص۸۵۹، جلالین، النمل، تحت الآیۃ: ۹۳، ص۳۲۵، ملتقطاً)