سُوْرَۃُ النَّازِعَات

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

وَ النّٰزِعٰتِ غَرْقًا(1)وَّ النّٰشِطٰتِ نَشْطًا(2)

ترجمہ: کنزالعرفان

سختی سے جان کھینچنے والوں کی قسم۔اور نرمی سے بند کھولنے والوں کی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ النّٰزِعٰتِ غَرْقًا: سختی سے جان کھینچنے والوں  کی قسم۔} یعنی ان فرشتوں  کی قسم! جو کافروں  کے جسموں  سے ان کی روح سختی سے کھینچ کر نکالتے ہیں ۔ (تفسیر بغوی، النّازعات، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۴۱۰)

{وَ النّٰشِطٰتِ نَشْطًا: اور نرمی سے بند کھولنے والوں  کی۔} یعنی ان فرشتوں  کی قسم !جو مومنوں  کے جسموں  سے ان کی روحیں  نرمی سے قبض کرتے ہیں ۔ (تفسیر بغوی، النّازعات، تحت الآیۃ: ۲، ۴ / ۴۱۰)

مومن کی روح نرمی سے نکالی جاتی ہے:

            حضرت عزرائیل عَلَیْہِ السَّلَام جب کسی مومن کی روح قبض فرماتے ہیں  تو ا س کے ساتھ نرمی فرماتے ہیں ، چنانچہ حضرت خزرج رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ایک انصاری صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سرہانے حضرت ملک الموت عَلَیْہِ السَّلَام کو دیکھا تو ان سے فرمایا’’میرے صحابی پر نرمی کرنا کیونکہ یہ مومن ہے۔ حضرت ملک الموت عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، آپ خوش ہو جائیں  اور اپنی آنکھیں  ٹھنڈی رکھیں  بے شک میں  ہر مومن کے ساتھ (روح نکالنے کے معاملے میں ) نرمی کرنے والا ہوں ۔( معجم الکبیر، باب الخاء، خزرج الانصاری، ۴ / ۲۲۰، الحدیث: ۴۱۸۸)

وَّ السّٰبِحٰتِ سَبْحًا(3)فَالسّٰبِقٰتِ سَبْقًا(4)فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًاﭥ(5)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور آسانی سے تیرنے والوں کی۔پھر آگے بڑھنے والوں کی۔پھر کائنات کا نظام چلانے والوں کی (اے کافرو!تم پرقیامت ضرور آئے گی) ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ السّٰبِحٰتِ سَبْحًا: اور آسانی سے تیرنے والوں  کی۔} یعنی اوران فرشتوں  کی قسم! جو (زمین اور آسمان کے درمیان) مومنین کی روحیں  لے کر آسانی سے تیرنے والے ہیں ۔( تفسیر قرطبی، النّازعات، تحت الآیۃ: ۳، ۱۰ / ۱۳۶-۱۳۷، الجزء التاسع عشر)

{فَالسّٰبِقٰتِ سَبْقًا: پھر آگے بڑھنے والوں  کی۔} ارشاد فرمایا کہ پھران فرشتوں  کی قسم جن کاوصف یہ ہے کہ وہ اپنی اس خدمت پر جلد پہنچتے ہیں  جس پر وہ مقرر ہیں ۔ (روح البیان، النّازعات، تحت الآیۃ: ۴، ۱۰ / ۳۱۵)

{فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًا: پھر کائنات کا نظام چلانے والوں  کی۔ } یعنی ،پھر ان فرشتوں  کی قسم!جو دنیا کے کاموں  کا انتظام کرنے پر مقرر ہیں  اور ان کاموں  کو سر انجام دیتے ہیں  ،ان تمام قسموں  کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ اے کفار ِمکہ ! تم ضرور دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے اور ضرور تم سے تمہارے اعمال کا حساب لیا جائے گا۔ (بغوی، النّازعات، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۴۱۱)

ہر کام وسیلے کے ذریعے ہونا اللّٰہ تعالیٰ کا قانون ہے:

            یاد رہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت تو یہ ہے کہ ہر چھوٹا بڑا کام کسی وسیلے کے بغیر خود اسی کے حکم سے ہو جائے، لیکن قانون یہ ہے کہ کام وسیلے کے ذریعے ہو کیونکہ دنیا کا ہر کام کائنات کا نظام چلانے پر مقرر فرشتوں  کے سپرد ہے۔آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض نام اللّٰہ تعالیٰ اور مخلوق کے درمیان مُشتَرک ہیں ، جیسے علی، سمیع، بصیر،  انہیں  میں  سے مُدَبِّر بھی ہے کہ رب عَزَّوَجَلَّ بھی تدبیر فرمانے والا ہے اور فرشتے بھی مُدَبِّرات ِ اَمر یعنی کاموں  کی تدبیر کرنے والے ہیں ۔

یَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ(6)تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُﭤ(7)

ترجمہ: کنزالعرفان

جس دن تھرتھرانے والی تھر تھرائے گی ۔اس کے پیچھے آئے گی پیچھے آنے والی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ: جس دن تھرتھرانے والی تھر تھرائے گی۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ اے کافرو! تم اس دن ضرور زندہ کئے جاؤ گے جس دن (ایک سینگ میں ) پہلی پھونک ماری جائے گی تو ا س دن کی ہولناکی کی وجہ سے زمین اورپہاڑ شدید حرکت کرنے لگیں  گے اور انتہائی سخت زلزلہ آ جائے گا اور تمام مخلوق مرجائے گی، پھر ا س پہلی پھونک کے بعد دوسری پھونک ماری جائے گی جس سے ہر چیز اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے زندہ کردی جائے گی۔ ان دونوں  پھونکوں  کے درمیان چالیس سال کا فاصلہ ہوگا۔( روح البیان، النّازعات، تحت الآیۃ: ۶-۷، ۱۰ / ۳۱۶-۳۱۷، بغوی، النّازعات، تحت الآیۃ: ۶-۷، ۴ / ۴۱۱، ملتقطاً)

 قیامت قریب ہے، جو کرنا ہے کر لو:

             حضرت اُبی بن کعب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ جب رات کے دو تہائی حصے گزر جاتے تو نبی کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اٹھتے اور ارشادفرماتے’’ اے لوگو! اللّٰہ تعالیٰ کویاد کرو، اللّٰہ تعالیٰ کویاد کرو۔ (قیامت کا) پہلا نَفخہ آن پہنچا اور دوسرا نفخہ اس کے تابع ہو گا، موت آپہنچی ہے، موت اپنی ان تکالیف کے ساتھ آ پہنچی ہے جو اس میں  ہیں ۔( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، ۲۳-باب، ۴ / ۲۰۷، الحدیث: ۲۴۶۵)  مراد یہ ہے کہ قیامت قریب ہے، جو کرنا ہے کر لو اور موت تمہارے سر پہ کھڑی ہے اس لئے نیک اعمال کرنے میں  جلدی کرلو۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :

اترتے چاند ڈھلتی چاندنی جو ہوسکے کرلے

اندھیرا پاکھ آتا ہے یہ دو دن کی اجالی ہے

قُلُوْبٌ یَّوْمَىٕذٍ وَّاجِفَةٌ(8)اَبْصَارُهَا خَاشِعَةٌﭥ(9)

ترجمہ: کنزالعرفان

دل اس دن خوفزدہ ہوں گے۔ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قُلُوْبٌ یَّوْمَىٕذٍ وَّاجِفَةٌ: دل اس دن خوفزدہ ہوں  گے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جس دن (صُور میں ) پھونک ماری جائے گی تواس دن مرنے کے بعد اٹھائے جانے کا انکار کرنے والے کفار کا حال یہ ہو گا کہ برے اعمال اور قبیح اَفعال کی وجہ سے ان کے دل خوفزدہ ہوں  گے اور اس دن کی دہشت اور ہَولْناکی کی وجہ سے ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں  گی۔(روح البیان،النّازعات،تحت الآیۃ:۸-۹،۱۰ / ۳۱۷، مدارک،النّازعات، تحت الآیۃ: ۸-۹، ص ۱۳۱۷-۱۳۱۸، ملتقطاً)

یَقُوْلُوْنَ ءَاِنَّا لَمَرْدُوْدُوْنَ فِی الْحَافِرَةِﭤ(10)ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا نَّخِرَةًﭤ(11)قَالُوْا تِلْكَ اِذًا كَرَّةٌ خَاسِرَةٌﭥ(12)فَاِنَّمَا هِیَ زَجْرَةٌ وَّاحِدَةٌ(13)فَاِذَا هُمْ بِالسَّاهِرَةِﭤ(14)

ترجمہ: کنزالعرفان

کافر کہتے ہیں : کیابیشک ہم ضرور پھر الٹے پاؤں پلٹیں گے۔کیا اس وقت جب ہم گلی ہڈیاں ہوجائیں گے؟کہنے لگے: جب تویہ پلٹنا نقصان کا پلٹنا ہے۔تو وہ (پھونک) تو ایک جھڑکنا ہی ہے۔تو فوراً وہ کھلے میدان میں آپڑے ہوں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یَقُوْلُوْنَ: کافر کہتے ہیں ۔} اس آیت اوراس کے بعد والی 4 آیات کاخلاصہ یہ ہے کہ جب کفار سے کہا جاتا ہے کہ تم مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر کے اُٹھائے جاؤ گے تو وہ کہتے ہیں  کہ کیا ہم موت کے بعد پھر زندگی کی طرف واپس کر دئیے جائیں  گے؟کیا جب ہماری یہ حالت ہو جائے گی کہ ہماری ہڈیاں  ریزہ ریزہ ہو کر بکھر چکی ہوں  گی تو پھر بھی ہم زندہ کئے جائیں  گے؟پھر مذاق اڑانے کے طور پر وہ کہنے لگے کہ اگر موت کے بعد زندہ کیا جانا صحیح ہے اور ہم مرنے کے بعد اُٹھائے گئے تواس میں  ہمارا بڑا نقصان ہے کیونکہ ہم دنیا میں  اس بات کو جھٹلاتے رہے۔ اس پر انہیں  بتایا گیا کہ تم مرنے کے بعد زندہ کئے جانے کو یہ نہ سمجھو کہ اللّٰہ تعالیٰ کے لئے یہ کام کچھ دشوار ہے، کیونکہ وہ قادر برحق ہے اور اس پر کچھ بھی دشوار نہیں  تو جب اللّٰہ تعالیٰ تمہیں  زندہ کرنے کاا رادہ فرمائے گا ،اس وقت وہ دوسری پھونک ایک ہَولْناک آواز ہی ہو گی اورا س کے بعد فوراً وہ زندہ ہو کرکھلے میدان میں  آپڑے ہوں  گے۔(خازن،النّازعات،تحت الآیۃ:۱۰-۱۴، ۴ / ۳۵۰-۳۵۱، مدارک، النّازعات، تحت الآیۃ: ۱۰-۱۴، ص۱۳۱۸، ملتقطاً)

هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ مُوْسٰىﭥ(15)اِذْ نَادٰىهُ رَبُّهٗ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى(16)اِذْهَبْ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰى(17)فَقُلْ هَلْ لَّكَ اِلٰۤى اَنْ تَزَكّٰى(18)وَ اَهْدِیَكَ اِلٰى رَبِّكَ فَتَخْشٰى(19)فَاَرٰىهُ الْاٰیَةَ الْكُبْرٰى(20)فَكَذَّبَ وَعَصٰى(21)ثُمَّ اَدْبَرَ یَسْعٰى(22)فَحَشَرَ فَنَادٰى(23)فَقَالَ اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى(24)فَاَخَذَهُ اللّٰهُ نَكَالَ الْاٰخِرَةِ وَ الْاُوْلٰىﭤ(25)اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّمَنْ یَّخْشٰىﭤ(26)

ترجمہ: کنزالعرفان

کیا تمہیں موسیٰ کی خبر آئی۔جب اسے اس کے رب نے پاک جنگل طویٰ میں ندا فرمائی۔ (فرمایا) کہ فرعون کے پاس جا، بیشک وہ سرکش ہوگیا ہے۔تواس سے کہہ: کیا تجھے اس بات کی طرف کوئی رغبت ہے کہ تو پاکیزہ ہوجائے ؟اور یہ کہ میں تجھے تیرے رب کی طرف راہ بتاؤں تو تو ڈرے۔پھر موسیٰ نے اسے بہت بڑی نشانی دکھائی۔تو اس نے جھٹلایا اور نافرمانی کی۔پھر اس نے (مقابلے کی) کوشش کرتے ہوئے پیٹھ پھیر دی ۔تو (لوگوں کو) جمع کیا پھر پکارا۔پھر بولا: میں تمہارا سب سے اعلیٰ رب ہوں ۔تو اللہ نے اسے دنیا و آخرت دونوں کے عذاب میں پکڑا۔بیشک اس میں ڈرنے والے کے لئے ضرورعبرت ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ مُوْسٰى: کیا تمہیں  موسیٰ کی خبر آئی۔} جب قوم کا جھٹلانانبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو دشوار اور ناگوار گزرا تو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے دل کی تسکین کے لئے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ذکر فرمایا جنہوں نے اپنی قوم سے بہت تکلیفیں  پائی تھیں  ،چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی 11آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، آپ مشرکین کے جھٹلانے کی وجہ سے غمگین نہ ہو ں  کیونکہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کفارکی طرف سے ایسی باتیں  پیش آتی رہتی ہیں  ،آپ میرے کلیم حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ہی دیکھ لیں  ،جب اسے اس کے رب عَزَّوَجَلَّ نے ملکِ شام میں  طور پہاڑ کے قریب واقع پاک جنگل طُویٰ میں  ندا فرما ئی کہ اے موسیٰ!تم فرعون کے پاس جاؤ، بیشک وہ سرکش ہوگیا ہے اور وہ کفر وفساد میں  حد سے گزر گیا ہے اور اس سے کہو کہ کیا تجھے اس بات کی طرف کوئی رغبت ہے کہ تو ایمان قبول کر کے اور اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت میں  مشغول ہو کر کفر،شرک ، مَعْصِیَت اورنافرمانی سے پاکیزہ ہوجائے اور کیاتو اس بات کی طرف رغبت رکھتاہے کہ میں تجھے تیرے رب عَزَّوَجَلَّ کی ذات و صفات کی معرفت کی طرف راہ بتاؤں  تاکہ تو اس کے عذاب سے ڈرے کیونکہ اس کے عذاب سے ڈر اسی وقت لگے گا جب اس کی تمہیں  معرفت ہو گی ۔پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرعون کے پاس گئے اور انہوں  نے فرعون کوروشن ہاتھ اور عصا کی بہت بڑی نشانی دکھائی تو اس نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا اور اللّٰہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور اس نشانی کو جادو کہنے لگا،پھر اس نے مقابلے اور فساد انگیزی کی کوشش کرتے ہوئے ایمان قبول کرنے سے منہ موڑ لیا اورا س نے جادوگروں  کو اور اپنے لشکر وں  کو جمع کیا ،جب وہ جمع ہو گئے تو فرعون نے انہیں  پکارا اور ان سے کہا ’’ میں  تمہارا سب سے اعلیٰ رب ہوں ، میرے اوپر اور کوئی رب نہیں  ،تو اللّٰہ تعالیٰ نے اسے دنیا و آخرت دونوں  کے عذاب میں  ا س طرح پکڑا کہ دنیا میں  اسے غرق کر دیا اور آخرت میں  جہنم میں  داخل فرمائے گا۔ بے شک فرعون کے ساتھ جو کچھ ہوااس میں  اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کے لئے عبرت ہے۔( خازن،النّازعات،تحت الآیۃ:۱۵-۲۶،۴ / ۳۵۱، مدارک،النّازعات، تحت الآیۃ: ۱۵-۲۶، ص۱۳۱۸-۱۳۱۹، ملتقطاً)

ءَاَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَآءُؕ-بَنٰىهَاﭨ(27)

ترجمہ: کنزالعرفان

کیا (تمہاری سمجھ کے مطابق) تمہارا بنانا مشکل ہے یا آسمان کا ؟اسے اللہ نے بنایا ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ءَاَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَآءُ: کیا (تمہاری سمجھ کے مطابق) تمہارا بنانا مشکل ہے یا آسمان کا؟} اللّٰہ تعالیٰ نے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کا انکار کرنے والوں  سے فرمایا کہ کیا تمہاری سمجھ کے مطابق تمہارے مرنے کے بعد اللّٰہ تعالیٰ کے لئے تمہیں  دوبارہ بنانا مشکل ہے یا آسمان کو بنانا؟اس کے جواب میں تم یہی کہو گے کہ آسمان جیسی بڑی اور مضبوط چیز پیدا کرنے کے مقابلے میں  انسان کو پیدا کرنا زیادہ آسان ہے کیونکہ وہ آسمان سے بہت چھوٹا اور کمزور ہے۔ تو جب تمہاری سمجھ کے مطابق تمہیں  مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنا اللّٰہ تعالیٰ پرزیادہ آسان ہے تو پھر تم اس کا انکار کیوں  کرتے ہیں  حالانکہ تم جانتے ہو کہ زمین و آسمان کو اللّٰہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور اس کا تم انکار بھی نہیں  کرتے۔

( خازن، النّازعات، تحت رَفَعَ سَمْكَهَا فَسَوّٰىهَا(28)وَ اَغْطَشَ لَیْلَهَا وَ اَخْرَ جَ ضُحٰىهَا(29)وَ الْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰىهَا ﭤ(30)اَخْرَ جَ مِنْهَا مَآءَهَا وَ مَرْعٰىهَا (31) وَ الْجِبَالَ اَرْسٰىهَا(32)مَتَاعًا لَّكُمْ وَ لِاَنْعَامِكُمْ ﭤ(33)

ترجمہ: کنزالعرفان

ناس کی چھت اونچی کی پھر اسے ٹھیک کیا۔اور اس کی رات کو تاریک کیا اور اس کے نورکوظاہر کیا ۔اور اس کے بعد زمین پھیلائی۔اس میں سے اس کا پانی اور اس کاچارہ نکا لا۔اور پہاڑوں کو جمایا۔تمہارے اور تمہارے چوپایوں کے فائدہ کے لئے ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{رَفَعَ سَمْكَهَا: اس کی چھت اونچی کی۔} اس آیت اور اس کے بعد والی5آیات میں  آسمان اور زمین کی تخلیق کی کیفیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آسمان کو بنایا اور کسی ستون کے بغیر اس کی چھت اونچی کی ،پھر اسے ایسا ٹھیک کیا کہ اس میں  کہیں  کوئی خَلَل نہیں  اوراس کی رات کو تاریک کیا اور سورج کے نورکوظاہر فرما کر اس کی روشنی چمکائی اور اس کے بعد زمین پھیلائی جو پیدا تو آسمان سے پہلے فرمائی گئی تھی مگر پھیلائی نہ گئی تھی اوراس میں  سے چشمے جاری فرما کر اس کا پانی اور اس کاچارہ نکا لا جسے جاندار کھاتے ہیں  اور پہاڑوں  کو روئے زمین پرجمایا تاکہ اس کو سکون ہو اور جو کچھ زمین سے نکالا ہے وہ تمہارے اور تمہارے چوپایوں  کے فائدے کیلئے ہے۔( خازن،النّازعات،تحت الآیۃ:۲۸-۳۳، ۴ / ۳۵۱-۳۵۲، مدارک، النّازعات، تحت الآیۃ: ۲۸-۳۳، ص۱۳۱۹، جلالین، النّازعات، تحت الآیۃ: ۲۸-۳۳، ص۴۸۹، ملتقطاً)الآیۃ: ۲۷، ۴ / ۳۵۱، ملخصاً)

فَاِذَا جَآءَتِ الطَّآمَّةُ الْكُبْرٰى(34)یَوْمَ یَتَذَكَّرُ الْاِنْسَانُ مَا سَعٰى(35)وَ بُرِّزَتِ الْجَحِیْمُ لِمَنْ یَّرٰى(36)فَاَمَّا مَنْ طَغٰى(37)وَ اٰثَرَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا(38)فَاِنَّ الْجَحِیْمَ هِیَ الْمَاْوٰىﭤ(39)وَ اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰى(40)فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاْوٰىﭤ(41)

ترجمہ: کنزالعرفان

ھر جب وہ عام سب سے بڑی مصیبت آئے گی۔اس دن آدمی یاد کرے گا جو اس نے کوشش کی تھی۔اور جہنم ہر دیکھنے والے کے لئے ظاہر کردی جائے گی۔تو بہر حال وہ جس نے سرکشی کی۔اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی۔تو بیشک جہنم ہی (اس کا) ٹھکانہ ہے۔اوررہا وہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا۔تو بیشک جنت ہی (اس کا) ٹھکانہ ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاِذَا جَآءَتِ الطَّآمَّةُ الْكُبْرٰى: پھر جب وہ عام سب سے بڑی مصیبت آئے گی۔} یہاں  سے مخلوق کا اُخروی حال بیان کیا جا رہا ہے چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی7آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب دوسری بار صُور میں  پھونک ماری جائے گی اور اس وقت مردے زندہ کر دئیے جائیں  گے تو اس دن آدمی کواپنے اعمال نامے دیکھ کر وہ تمام اچھے برے اعمال یا دآجائیں  گے جو اس نے دنیا میں  کئے تھے اور اس دن جہنم ظاہر کردی جائے گی اورتمام مخلوق اسے دیکھے گی تو وہ شخص جس نے سرکشی کی،نافرمانی میں حد سے گزرا اور کفر اختیار کیا اور دنیا کی زندگی کو آخرت کی زندگی پر ترجیح دی اور اپنی نفسانی خواہشات کا تابع ہوا تو بیشک جہنم ہی اس شخص کا ٹھکانہ ہے جس سے اسے نکالا نہیں  جائے گا اور وہ جو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا اور اس نے جانا کہ اسے قیامت کے دن اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حضور حساب کے لئے حاضر ہونا ہے اور اس نے اپنے نفس کو حرام چیزوں  کی خواہش سے روکا تو بیشک ثواب کاگھرجنت ہی اس شخص کا ٹھکانہ ہے۔(روح البیان ، النّازعات ، تحت الآیۃ : ۳۴- ۴۱ ، ۱۰ / ۳۲۶-۳۲۸، خازن، النّازعات، تحت الآیۃ: ۳۴-۴۱، ۴ / ۳۵۲، مدارک، النّازعات، تحت الآیۃ: ۳۴-۴۱، ص۱۳۱۹-۱۳۲۰، ملتقطاً)یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَیَّانَ مُرْسٰىهَاﭤ(42)فِیْمَ اَنْتَ مِنْ ذِكْرٰىهَاﭤ(43)اِلٰى رَبِّكَ مُنْتَهٰىهَاﭤ(44)اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُنْذِرُ مَنْ یَّخْشٰىهَاﭤ(45)كَاَنَّهُمْ یَوْمَ یَرَوْنَهَا لَمْ یَلْبَثُوْۤا اِلَّا عَشِیَّةً اَوْ ضُحٰىهَا(46)

ترجمہ: کنزالعرفان

تم سے قیامت کے بارے پوچھتے ہیں کہ وہ کب کے لیے ٹھہری ہوئی ہے۔تمہارا اس کے بیان سے کیا تعلق؟تمہارے رب ہی تک اس کی انتہا ہے۔تم تو فقط اسے ڈرا نے والے ہو جو اس سے ڈرے۔گویا جس دن وہ اسے دیکھیں گے (تو سمجھیں گے کہ) وہ صرف ایک شام یا ایک دن چڑھے کے وقت برابر ہی ٹھہرے تھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ: تم سے قیامت کے بارے پوچھتے ہیں ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی 4آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین قیامت اور اس کی ہَولْناکْیوں  کے بارے میں  آنے والی خبریں  سنتے تھے تو انہوں  نے مذاق کے طور پر اللّٰہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے کہا کہ قیامت کب قائم ہو گی؟ اللّٰہ تعالیٰ نے ان کفار کے سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، مکہ کے کافر آپ سے قیامت کے بارے میں  پوچھتے ہیں  کہ وہ کب ظاہر ہو گی اور کس وقت قائم ہو گی؟ آپ کی یہ ذمہ داری نہیں  کہ آپ انہیں  بتائیں  کہ قیامت کب اور کس وقت واقع ہو گی،قیامت ایسی چیز ہے کہ اس کے واقع ہو نے کے علم کی انتہاء آپ کے رب عَزَّوَجَلَّ تک ہے اور اس کے علاوہ کوئی نہیں  جانتا کہ قیامت کب واقع ہوگی۔ آپ کو اس لئے بھیجا گیا ہے کہ آپ ان لوگوں  کو قیامت کی ہَولْناکْیوں  اور سختیوں  سے ڈرائیں  جو ڈرانے سے فائدہ حاصل کرتے ہیں  اور آپ کا ڈرانا اس بات پر مَوقوف نہیں  کہ آپ کو قیامت واقع ہونے کا علم بھی ہو کیونکہ اس کے علم کے بغیر بھی آپ کی ذمہ داری پوری ہو سکتی ہے۔کافر جس قیامت کا انکار کر رہے ہیں  عنقریب اسے دیکھ لیں  گے اور گویا کہ جس دن کافر قیامت کو دیکھیں  گے تو اس کی ہَولْناکی اور دہشت کی وجہ سے ان کا حال یہ ہو گا کہ وہ اپنی زندگی کی مدت بھول جائیں  گے اور یہ خیال کریں گے کہ وہ دنیا میں  صرف ایک رات یا ایک دن چڑھے کے وقت برابر ہی رہے تھے۔( تفسیرکبیر،النّازعات،تحت الآیۃ:۴۲-۴۶،۱۱ / ۵۰-۵۱، مدارک،النّازعات،تحت الآیۃ:۴۲-۴۶، ص۱۳۲۰، ملتقطاً)

نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو قیامت قائم ہونے کے وقت کا علم دیا گیا ہے:

             علامہ احمدصاوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  کہ’’ یہ اس وقت کی بات ہے جب اللّٰہ تعالیٰ نے نبی کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو قیامت واقع ہونے کے وقت کا علم نہیں  دیا تھا لہٰذا یہ اس بات کے مُنافی نہیں  کہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ دنیا سے اس وقت تک تشریف نہیں  لے گئے جب تک اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو دنیا اور آخرت کے تمام غُیوب کا علم عطا نہیں  فرمایا (اور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا کچھ چیزوں  کی غیبی معلومات نہ بتانا اس بات کی دلیل نہیں  کہ آپ کو غیب کا علم نہیں  تھا کیونکہ) آپ کو (علم ہونے کے باوجود) کچھ باتیں  چھپانے کا حکم تھا۔( صاوی، النّازعات، تحت الآیۃ: ۴۳، ۶ / ۲۳۱۲)

اِنَّهُمْ یَكِیْدُوْنَ كَیْدًا(15)وَّ اَكِیْدُ كَیْدًا(16)فَمَهِّلِ الْكٰفِرِیْنَ اَمْهِلْهُمْ رُوَیْدًا(17)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک کافر اپنی چالیں چل رہے ہیں ۔اور میں اپنی خفیہ تدبیر فرماتا ہوں ۔تو تم کافروں کو ڈھیل دو، انہیں کچھ تھوڑی سی مہلت دو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّهُمْ یَكِیْدُوْنَ كَیْدًا: بیشک کافر اپنی چالیں  چل رہے ہیں ۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ کفارِ مکہ اللّٰہ تعالیٰ کے دین کو مٹانے،حق کے نور کو بجھانے اورتاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو تکلیف پہنچانے کے لئے طرح طرح کی چالیں  چل رہے ہیں  اور میں  اپنی خفیہ تدبیر فرماتا ہوں  جس کی انہیں  خبر نہیں  تواے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، آپ کافروں  کی ہلاکت کی دعا نہ فرمائیں  بلکہ انہیں  ڈھیل دیں  اور انہیں  چند روز کے لئے کچھ تھوڑی سی مہلت دیں  کیونکہ وہ عنقریب ہلاک کر دئیے جائیں  گے، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور غزوۂ بدر میں  انہیں  اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب نے اپنی گرفت میں  لے لیا۔( خازن، الطّارق، تحت الآیۃ: ۱۵-۱۷، ۴ / ۳۶۹، مدارک، الطّارق، تحت الآیۃ: ۱۵-۱۷، ص۱۳۳۹، ملتقطاً)

Scroll to Top