سُوْرَۃُ النِّسَاء
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
ترجمہ
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ، رحمت والاہے ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ بِسْمِ اللّٰهِ: اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔(کنز العمال، کتاب الاذکار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول، الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔
{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)
’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:
علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :
(1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام جو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَ بَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِیْرًا وَّ نِسَآءًۚ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَ الْاَرْحَامَؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَیْكُمْ رَقِیْبًا(1)
ترجمہ:
اے لوگو !اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے کثرت سے مرد و عورت پھیلا دیئے اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پرایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتوں (کو توڑنے سے بچو۔) بیشک اللہ تم پر نگہبان ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ: اے لوگو۔} اس آیتِ مبارکہ میں تمام بنی آدم کو خطاب کیا گیا ہے اور سب کو تقویٰ کا حکم دیا ہے۔ کافروں کیلئے تقویٰ یہ ہے کہ وہ ایمان لائیں اور اعمالِ صالحہ کریں اور مسلمانوں کیلئے تقویٰ یہ ہے کہ ایمان پر ثابت قدم رہیں اور اعمالِ صالحہ بجالائیں۔ ہر ایک کو اس کے مطابق تقویٰ کا حکم ہوگا۔اس کے بعدیہاں چند چیزیں بیان فرمائیں :
(1)…اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو ایک جان یعنی حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پیدا کیا۔
(2)… حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے وجود سے ان کا جوڑا یعنی حضرت حوا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کو پیدا کیا۔
(3)… انہی دونوں حضرات سے زمین میں نسل درنسل کثرت سے مرد و عورت کا سلسلہ جاری ہوا۔
(4)…چونکہ نسلِ انسانی کے پھیلنے سے باہم ظلم اور حق تَلفی کا سلسلہ بھی شروع ہوا لہٰذا خوف ِ خدا کا حکم دیا گیا تاکہ ظلم سے بچیں اور چونکہ ظلم کی ایک صورت اور بدتر صورت رشتے داروں سے قطع تَعَلُّقی ہے لہٰذا اس سے بچنے کا حکم دیا۔
انسانوں کی ابتداء کس سے ہوئی؟:
مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ انسانوں کی ابتداء حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے ہوئی اور اسی لئے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ابوالبشر یعنی انسانوں کا باپ کہا جاتا ہے۔ اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے انسانیت کی ابتداء ہونا بڑی قوی دلیل سے ثابت ہے مثلاً دنیا کی مردم شماری سے پتا چلتا ہے کہ آج سے سو سال پہلے دنیا میں انسانوں کی تعداد آج سے بہت کم تھی اور اس سے سو برس پہلے اور بھی کم تو اس طرح ماضی کی طرف چلتے چلتے اس کمی کی انتہاء ایک ذات قرار پائے گی اور وہ ذات حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں یا یوں کہئے کہ قبیلوں کی کثیر تعداد ایک شخص پر جاکر ختم ہوجاتی ہیں مثلاً سیّد دنیا میں کروڑوں پائے جائیں گے مگر اُن کی انتہاء رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ایک ذات پر ہوگی، یونہی بنی اسرائیل کتنے بھی کثیر ہوں مگر اس تمام کثرت کا اختتام حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ایک ذات پر ہوگا۔ اب اسی طرح اور اوپر کو چلنا شروع کریں تو انسان کے تمام کنبوں ، قبیلوں کی انتہاء ایک ذات پر ہوگی جس کا نام تمام آسمانی کتابوں میں آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہے اور یہ تو ممکن نہیں ہے کہ وہ ایک شخص پیدائش کے موجودہ طریقے سے پیدا ہوا ہو یعنی ماں باپ سے پیدا ہوا ہو کیونکہ اگر اس کے لئے باپ فرض بھی کیا جائے تو ماں کہاں سے آئے اور پھر جسے باپ مانا وہ خود کہاں سے آیا؟ لہٰذا ضروری ہے کہ اس کی پیدائش بغیر ماں باپ کے ہو اور جب بغیر ماں باپ کے پیدا ہوا تو بالیقین وہ اِس طریقے سے ہٹ کر پیدا ہوا اور وہ طریقہ قرآن نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے مٹی سے پیدا کیا جو انسان کی رہائش یعنی دنیا کا بنیادی جز ہے۔ پھر یہ بھی ظاہر ہے کہ جب ایک انسان یوں وجود میں آگیا تو دوسرا ایسا وجود چاہیے جس سے نسلِ انسانی چل سکے تو دوسرے کو بھی پیدا کیا گیا لیکن دوسرے کو پہلے کی طرح مٹی سے بغیر ماں باپ کے پیدا کرنے کی بجائے جو ایک شخص انسانی موجود تھا اسی کے وجود سے پید افرما دیا کیونکہ ایک شخص کے پیدا ہونے سے نوع موجود ہوچکی تھی چنانچہ دوسرا وجود پہلے وجود سے کچھ کم تر اور عام انسانی وجود سے بلند تر طریقے سے پیدا کیا گیا یعنی حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ایک بائیں پسلی ان کے آرام کے دوران نکالی اور اُن سے اُن کی بیوی حضرت حوا رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا کو پیدا کیا گیا۔ چونکہ حضرت حوا رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا مرد وعورت والے باہمی ملاپ سے پیدا نہیں ہوئیں اس لئے وہ اولاد نہیں ہو سکتیں۔ خواب سے بیدار ہو کر حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے پاس حضرت حوا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاکو دیکھا تو ہم جنس کی محبت دل میں پیدا ہوئی ۔ مخاطب کرکے حضرت حوا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا سے فرمایا تم کون ہو؟ انہوں نے عرض کیا: عورت۔ فرمایا: کس لئے پیدا کی گئی ہو؟ عرض کیا: آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تسکین کی خاطر، چنانچہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اُن سے مانوس ہوگئے۔ (خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۱، ۱ / ۳۴۰)
یہ وہ معقول اور سمجھ میں آنے والا طریقہ ہے جس سے نسلِ انسانی کی ابتداء کا پتا چلتا ہے۔ بقیہ وہ جو کچھ لوگوں نے بندروں والا طریقہ نکالا ہے کہ انسان بندر سے بنا ہے تویہ پرلے درجے کی نامعقول بات ہے۔ یہاں ہم سنجیدگی کے ساتھ چند سوالات سامنے رکھتے ہیں۔ آپ ان پر غور کرلیں ، حقیقت آپ کے سامنے آجائے گی۔ سوال یہ ہے کہ اگر انسان بندر ہی سے بنا ہے تو کئی ہزار سالوں سے کوئی جدید بندر انسان کیوں نہ بن سکا اور آج ساری دنیا پوری کوشش کرکے کسی بندر کو انسان کیوں نہ بنا سکی؟ نیز بندروں سے انسان بننے کا سلسلہ کب شروع ہوا تھا ؟کس نے یہ بنتے دیکھا تھا؟ کون اس کا راوی ہے؟ کس پرانی کتاب سے یہ بات مطالعہ میں آئی ہے؟نیز یہ سلسلہ شروع کب ہوا اور کب سے بندروں پر پابندی لگ گئی کہ جناب! آئندہ آپ میں کوئی انسان بننے کی جرأت نہ کرے۔ نیز بندر سے انسان بنا تو دُم کا کیا بنا تھا؟ کیا انسان بنتے ہی دُم جھڑ گئی تھی یا کچھ عرصے بعد کاٹی گئی یا گھسٹ گھسٹ کر ختم ہوگئی اور بہرحال جو کچھ بھی ہوا ،کیا اس بات کا ثبوت ہے کہ دُم والے انسان پائے جاتے تھے۔ الغرض بندروں والی بات بندر ہی کرسکتا ہے۔ حیرت ہے کہ دنیا بھر میں جس بات کا شور مچایا ہوا ہے اس کی کوئی کَل سیدھی نہیں ، اس کی کوئی کَڑی سلامت نہیں ، اس کی کوئی تاریخ نہیں۔ بس خیالی مفروضے قائم کرکے اچھے بھلے انسان کو بندر سے جاملایا۔
{وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَ الْاَرْحَامَ: اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر مانگتے ہو اور رشتوں کا لحاظ رکھو۔}
ارشاد فرمایا کہ اس اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو جس کے نام سے ایک دوسرے سے مانگتے ہو یعنی کہتے ہو کہ اللہ کے واسطے مجھے یہ دو، وہ دو۔ نیز رشتے داری توڑنے کے معاملے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو۔
رشتے داری توڑنے کی مذمت:
قرآنِ مجید اور احادیثِ مبارکہ میں رشتہ داری توڑنے کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے ،چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَ الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِیْثَاقِهٖ وَ یَقْطَعُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِۙ-اُولٰٓىٕكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَ لَهُمْ سُوْٓءُ الدَّارِ(رعد: ۲۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اللہ کا عہد اسے پختہ کرنے کے بعد توڑدیتے ہیں اور جسے جوڑنے کا اللہ نے حکم فرمایا ہے اسے کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں ان کیلئے لعنت ہی ہے اور اُن کیلئے برا گھر ہے۔
حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس قوم میں رشتہ داری توڑنے والاہوتا ہے اس پر رحمت نہیں اترتی۔ (شعب الایمان، السادس والخمسون من شعب الایمان، ۶ / ۲۲۳، الحدیث: ۷۹۶۲)
اور حضرت ابو بکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس گناہ کی سزا دنیا میں بھی جلد ہی دیدی جائے اور اس کے لئے آخرت میں بھی عذاب رہے وہ بغاوت اور قَطع رَحمی سے بڑھ کر نہیں۔(ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۵۷-باب، ۴ / ۲۲۹، الحدیث: ۲۵۱۹)
وَ اٰتُوا الْیَتٰمٰۤى اَمْوَالَهُمْ وَ لَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِیْثَ بِالطَّیِّبِ ۪- وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَهُمْ اِلٰۤى اَمْوَالِكُمْؕ-اِنَّهٗ كَانَ حُوْبًا كَبِیْرًا(2)
ترجمہ
اور یتیموں کو ان کے مال دیدو اور پاکیزہ مال کے بدلے گندا مال نہ لواور ان کے مالوں کو اپنے مالوں میں ملاکر نہ کھا جاؤ بیشک یہ بڑا گناہ ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اٰتُوا الْیَتٰمٰۤى اَمْوَالَهُمْ:اور یتیموں کو ان کا مال دو۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ ایک شخص کی نگرانی میں اُس کے یتیم بھتیجے کا بہت زیادہ مال تھا، جب وہ یتیم بالغ ہو ا اور اس نے اپنا مال طلب کیا تو چچا نے دینے سے انکار کردیا اِس پر یہ آیت نازل ہوئی جسے سن کر اُس شخص نے یتیم کا مال اُس کے حوالے کردیا اور کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کرتے ہیں۔(بیضاوی، النساء، تحت الآیۃ: ۲، ۲ / ۱۴۱)
آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جب یتیم اپنا مال طلب کریں تو ان کا مال ان کے حوالے کردو جب کہ دیگر شرعی تقاضوں کو پورا کرلیا ہے اور اپنے حلال مال کے بدلے یتیم کا مال نہ لو جو تمہارے لئے حرام ہے۔ جس کی صورت یہ ہے کہ اپنا گھٹیا مال یتیم کو دے کر اس کا عمدہ مال لے لو۔ یہ تمہارا گھٹیا مال تمہارے لئے عمدہ ہے کیونکہ یہ تمہارے لئے حلال ہے اور یتیم کا عمدہ مال تمہارے لئے گھٹیا اور خبیث ہے کیونکہ وہ تمہارے لئے حرام ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ جب یتیم کا مال اپنے مال سے ملا کر کھانا حرام ہوا یعنی گھٹیا معاوضہ دے کر کھانا بھی حرام ہے تو بغیر معاوضہ کے کھالینا تو بطریق اَولیٰ حرام ہوا۔ ہاں شریعت نے جہاں ان کا مال ملا کر استعمال کی اجازت دی وہ جدا ہے جس کا بیان سورہ ٔبقرہ آیت 220 میں ہے۔
یتیموں سے متعلق چند اہم مسائل:
یتیم اس نابالغ لڑکے یا لڑکی کو کہتے ہیں جس کا باپ فوت ہوجائے۔ آیتِ مبارکہ کو سامنے رکھتے ہوئے یہاں یتیموں سے متعلق چند اہم مسائل بیان کئے جاتے ہیں :
(1)… یتیم کوتحفہ دے سکتے ہیں مگر اس کاتحفہ لے نہیں سکتے ۔
(2)… کوئی شخص فوت ہو اور اس کے ورثاء میں یتیم بچے بھی ہوں تو اس ترکے سے تیجہ، چالیسواں ، نیاز، فاتحہ اور خیرات کرنا سب حرام ہے اور لوگوں کا یتیموں کے مال والی اُس نیاز، فاتحہ کے کھانے کو کھانا بھی حرام ہے ۔ یہ مسئلہ بہت زیادہ پیش آنے والا ہے لیکن افسوس کہ لوگ بے دھڑک یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں۔
(3)… ایسے موقع پر جائز نیاز کا طریقہ یہ ہے کہ بالغ ورثاء خاص اپنے مال سے نیاز دلائیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہاں وہ دعوت مراد نہیں ہے جو تدفین کے بعد یا سوئم کے دن کی پکائی جاتی ہے کیونکہ وہ دعوت تو بہر صورت ناجائز ہے خواہ اپنے مال سے کریں۔ مسئلہ: تیجہ، فاتحہ کا ایصالِ ثواب جائز ہے لیکن رشتے داروں اور اہلِ محلہ کی جو دعوت کی جاتی ہے یہ ناجائز ہے، وہ کھانا صرف فقراء کو کھلانے کی اجازت ہے۔ اس کے بارے میں مزید تفصیل جاننے کے لئے فتاویٰ رضویہ کی 9ویں جلد سے ان دو رسائل کامطالعہ فرمائیں (1) اَلْحُجَّۃُ الْفَائِحہْ لِطِیْبِ التَّعْیِیْنِ وَالْفَاتِحَہْ۔(دن متعین کرنے اور مروجہ فاتحہ،سوئم وغیرہ کا ثبوت)(2) جَلِیُّ الصَّوْتْ لِنَھْیِ الدَّعْوَۃِ اَمَامَ مَوْتْ۔(کسی کی موت پردعوت کرنے کی ممانعت کا واضح بیان)
وَ اِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَۚ-فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَلَّا تَعُوْلُوْاﭤ(3)
ترجمہ
اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ یتیم لڑکیوں میں انصاف نہ کرسکو گے تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہیں پسند ہوں ،دو دو اور تین تین او ر چار چار پھر اگر تمہیں اس بات کا ڈرہو کہ تم انصاف نہیں کرسکو گے تو صرف ایک (سے نکاح کرو) یا لونڈیوں (پر گزارا کرو) جن کے تم مالک ہو۔ یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ تم سے ظلم نہ ہو۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِنْ خِفْتُمْ: اور اگر تمہیں ڈر ہو۔} اِس آیت کے معنی میں چنداقوال ہیں۔
(1)… امام حسن بصری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا قول ہے کہ پہلے زمانہ میں مدینہ کے لوگ اپنی زیرِ سرپرستی یتیم لڑکیوں سے اُن کے مال کی وجہ سے نکاح کرلیتے حالانکہ اُن کی طرف انہیں کوئی رغبت نہ ہوتی تھی، پھر اُن یتیم لڑکیوں کے حقوق پورے نہ کرتے اور ان کے ساتھ اچھا سلوک نہ کرتے اور اُن کے مال کے وارث بننے کے لئے اُن کی موت کے منتظر رہتے، اِس آیت میں اُنہیں اِس حرکت سے روکا گیا۔ (صاوی، النساء، تحت الآیۃ: ۳،۲ / ۳۵۹)
(2)… دوسرا قول یہ ہے کہ لوگ یتیموں کی سرپرستی کرنے سے توناانصافی ہوجانے کے ڈرسے گھبراتے تھے لیکن زنا کی پرواہ نہ کرتے تھے، اِنہیں بتایا گیا کہ اگر تم ناانصافی کے اندیشہ سے یتیموں کی سرپرستی سے گریز کرتے ہو تو زنا سے بھی خوف کرو اور اُس سے بچنے کے لئے جو عورتیں تمہارے لئے حلال ہیں اُن سے نکاح کرو اور حرام کے قریب مت جاؤ۔ (تفسیر کبیر، النساء، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۴۸۵)
(3)… تیسرا قول یہ ہے کہ لوگ یتیموں کی سرپرستی میں تو ناانصافی کرنے سے ڈرتے تھے لیکن بہت سے نکاح کرنے میں کچھ خطرہ محسوس نہیں کرتے تھے، اُنہیں بتایا گیا کہ جب زیادہ عورتیں نکاح میں ہوں تو اُن کے حق میں ناانصافی سے بھی ڈرو جیسے یتیموں کے حق میں ناانصافی کرنے سے ڈرتے ہو اور اُتنی ہی عورتوں سے نکاح کرو جن کے حقوق ادا کرسکو۔ (مدارک، النساء، تحت الآیۃ: ۳، ص۲۰۹)
(4)… حضرت عِکْرمَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت کیا کہ قریش دس دس بلکہ اس سے زیادہ عورتیں کرتے تھے اور جب اُن کابوجھ نہ اٹھا سکتے تو جو یتیم لڑکیاں اُن کی سرپرستی میں ہوتیں اُن کے مال خرچ کر ڈالتے۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۳، ۱ / ۳۴۰)
اِس آیت میں فرمایا گیا کہ اپنی مالی پوزیشن دیکھ لو اور چار سے زیادہ نہ کرو تاکہ تمہیں یتیموں کا مال خرچ کرنے کی حاجت پیش نہ آئے۔
نکاح سے متعلق 2 شرعی مسائل:
(1)…اِس آیت سے معلوم ہوا کہ آزاد مرد کے لئے ایک وقت میں چار عورتوں تک سے نکاح جائز ہے۔
(2)…تمام امّت کا اِجماع ہے کہ ایک وقت میں چار عورتوں سے زیادہ نکاح میں رکھنا کسی کے لئے جائز نہیں سوائے رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اور یہ بات آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خصوصیات میں سے ہے۔ ابوداؤد کی حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے اسلام قبول کیا، اس کی آٹھ بیویاں تھیں ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اِن میں سے صرف چار رکھنا۔ (ابو داؤد، کتاب الطلاق، باب فی من اسلم وعندہ نساء۔۔۔ الخ، ۲ / ۳۹۶، الحدیث: ۲۲۴۱)
{فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا: پھر اگر تمہیں عدل نہ کرسکنے کا ڈر ہو۔} آیت میں چار تک شادیاں کرنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی فرمایا کہ اگر تمہیں اس بات کا ڈر ہو کہ ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کی صورت میں سب کے درمیان عدل نہیں کرسکو گے تو صرف ایک سے شادی کرو۔اسی سے یہ معلوم ہوا کہ اگرکوئی چار میں عدل نہیں کرسکتا لیکن تین میں کرسکتا ہے تو تین شادیاں کرسکتا ہے اور تین میں عدل نہیں کرسکتا لیکن دو میں کرسکتا ہے تو دو کی اجازت ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ بیویوں کے درمیان عدل کرنا فرض ہے، اس میں نئی، پرانی، کنواری یا دوسرے کی مُطَلَّقہ، بیوہ سب برابر ہیں۔ یہ عدل لباس میں ، کھانے پینے میں ، رہنے کی جگہ میں اوررات کوساتھ رہنے میں لازم ہے۔ ان امور میں سب کے ساتھ یکساں سلوک ہو۔
وَ اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةًؕ-فَاِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَیْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوْهُ هَنِیْٓــٴًـا مَّرِیْٓــٴًـا(4)
ترجمہ:
اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دو پھر اگر وہ خوش دلی سے مہر میں سے تمہیں کچھ دے دیں تو اسے پاکیزہ، خوشگوار (سمجھ کر) کھاؤ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةً: اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دو۔}اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے شوہروں کو حکم دیا کہ وہ اپنی بیویوں کو ان کے مہر خوشی سے ادا کریں پھر اگر ان کی بیویاں خوش دلی سے اپنے مہر میں سے انہیں کچھ تحفے کے طور پر دے دیں تو وہ اسے پاکیزہ اورخوشگوار سمجھ کر کھائیں ، اس میں ان کا کوئی دُنیوی یااُ خروی نقصان نہیں ہے۔ (خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۴، ۱ / ۳۴۴، جلالین مع صاوی، النساء، تحت الآیۃ: ۴، ۲ / ۳۶۰، ملتقطاً)
مہر سے متعلق چند مسائل:
اس آیت سے کئی چیزیں معلوم ہوئیں :
(1)… مہر کی مستحق عورتیں ہیں نہ کہ ان کے سرپرست ، لہٰذا اگر سرپرستوں نے مہر وصول کرلیا ہو تو انہیں لازم ہے کہ وہ مہر اس کی مستحق عورت کو پہنچادیں۔
(2)…مہر بوجھ سمجھ کر نہیں دینا چاہیے بلکہ عورت کا شرعی حق سمجھ کر اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے کی نیت سے خوشی خوشی دینا چاہیے۔
(3)… مہر دینے کے بعد زبردستی یا انہیں تنگ کرکے واپس لینے کی اجازت نہیں۔
(4)… اگر عورتیں خوشی سے پورا یا کچھ مہر تمہیں دیدیں تو وہ حلال ہے اسے لے سکتے ہیں۔ ہمارے زمانے میں لوگ عورتوں کو مہر واپس دینے یا معاف کرنے پر باقاعدہ تو مجبور نہیں کرتے لیکن کچھ اپنی چرب زبانی سے اور کچھ اپنے روئیے کو بگاڑ کر اور موڈ آف کرکے اور میل برتاؤ میں انداز تبدیل کرکے مہر کی معافی یا واپسی پر عورت کو مجبور کرتے ہیں۔یہ سب صورتیں ممنوع ہیں بلکہ بعض اعتبار سے اِس میں زیادہ خباثت اور کمینگی ہے۔ ایسے لوگ مہر معاف بھی کروالیتے ہیں اور اپنے نفس کو بھی راضی رکھتے ہیں کہ ہم نے کون سا مجبور کیا ہے؟ اِنہیں اللہ تعالیٰ ہی ہدایت دے ۔
وَ لَا تُؤْتُوا السُّفَهَآءَ اَمْوَالَكُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ قِیٰمًا وَّ ارْزُقُوْهُمْ فِیْهَا وَ اكْسُوْهُمْ وَ قُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا(5)
ترجمہ:
اورکم عقلوں کوان کے وہ مال نہ دو جسے اللہ نے تمہارے لئے گزر بسر کا ذریعہ بنایا ہے اور انہیں اس مال میں سے کھلاؤ اور پہناؤ اور ان سے اچھی بات کہو۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَا تُؤْتُوا السُّفَهَآءَ اَمْوَالَكُمْ: اور کم عقلوں کو ان کے مال نہ دو۔} اس آیت میں چند احکام بیان فرمائے جن کا خلاصہ یہ ہے کہ جن بچوں کی پرورش تمہارے ذمہ ہے اور ان کا مال تمہارے پاس ہے اور وہ بچے اتنی سمجھ نہیں رکھتے کہ مال کا مَصرف پہچانیں بلکہ وہ اسے بے محل خرچ کرتے ہیں اور اگران کا مال اُن پر چھوڑ دیا جائے تو وہ جلد ضائع کردیں گے حالانکہ مال کی بہت اہمیت ہے کہ اسی کے ساتھ زندگی کی بقا ہے لہٰذا جب تک مال کی اچھی طرح سمجھ بوجھ انہیں حاصل نہ ہوجائے تب تک ان کے مال ان کے حوالے نہ کرو بلکہ ان کی ضروریات جیسے کھانے پینے اور پہننے کے اخراجات وغیرہ اِن کے مال سے پورے کرتے رہو۔ البتہ ان سے اچھی بات کہتے رہو جس سے اِن کے دل کو تسلی رہے اور وہ پریشان نہ ہوں مثلاً ان سے کہو کہ بھائی! مال تمہارا ہی ہے اور جب تم ہوشیار، سمجھدار ہوجاؤ گے تو یہ تمہارے حوالے کردیا جائے گا۔(مدارک، النساء، تحت الآیۃ: ۵، ص۲۱۰)
وَ ابْتَلُوا الْیَتٰمٰى حَتّٰۤى اِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَۚ-فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوْۤا اِلَیْهِمْ اَمْوَالَهُمْۚ-وَ لَا تَاْكُلُوْهَاۤ اِسْرَافًا وَّ بِدَارًا اَنْ یَّكْبَرُوْاؕ-وَ مَنْ كَانَ غَنِیًّا فَلْیَسْتَعْفِفْۚ-وَ مَنْ كَانَ فَقِیْرًا فَلْیَاْكُلْ بِالْمَعْرُوْفِؕ-فَاِذَا دَفَعْتُمْ اِلَیْهِمْ اَمْوَالَهُمْ فَاَشْهِدُوْا عَلَیْهِمْؕ-وَ كَفٰى بِاللّٰهِ حَسِیْبًا(6)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور یتیموں (کی سمجھداری) کو آزماتے رہو یہاں تک کہ جب وہ نکاح کے قابل ہوں تو اگر تم ان کی سمجھداری دیکھو تو ان کے مال ان کے حوالے کردو اور ان کے مال فضول خرچی سے اور (اس ڈر سے) جلدی جلدی نہ کھاؤ کہ وہ بڑے ہو جائیں گے اور جسے حاجت نہ ہو تو وہ بچے اور جو حاجت مند ہو وہ بقدر مناسب کھاسکتا ہے پھر جب تم ان کے مال ان کے حوالے کرو تو ان پر گواہ کرلو اور حساب لینے کے لئے اللہ کافی ہے ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ ابْتَلُوا الْیَتٰمٰى: اور یتیموں کو آزماتے رہو۔}اس آیتِ مبارکہ میں یتیموں کے حوالے سے بہت واضح احکام دئیے ہیں ، چنانچہ فرمایا کہ جن یتیموں کا مال تمہارے پاس ہو ان کی سمجھداری کو آزماتے رہو جس کی ایک صورت یہ ہے کہ ان کا مال دے کر وقتاً فوقتاً انہیں دیکھتے رہو کہ کیسے خرچ کرتے ہیں۔ یوں انہیں آزماتے رہو یہاں تک کہ جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں یعنی بالغ ہوجائیں تو اگر تم ان میں سمجھداری کے آثار دیکھو کہ وہ مالی معاملات اچھے طریقے سے کرلیتے ہیں تو ان کے مال ان کے حوالے کردو۔ یہاں تک ان کے بارے میں حکم دینے کے بعد اب سرپرستوں کو بطورِ خاص چند ہدایات دی ہیں چنانچہ فرمایا کہ یتیموں کے مال کو فضول خرچی سے استعمال نہ کرو اور ان کامال جلدی جلدی نہ کھاؤ اس ڈر سے کہ جب وہ بڑے ہو جائیں گے تو چونکہ تمہیں اُن کے مال واپس کرنا پڑیں گے لہٰذا جتنا زیادہ ہوسکے ان کا مال کھا جاؤ، یہ حرام ہے۔ مزید ہدایت یہ ہے کہ یتیم کا سرپرست اگر خودمالدار ہویعنی اسے یتیم کا مال استعمال کرنے کی حاجت نہیں تو وہ اُس کا مال استعمال کرنے سے بچے اور جو حاجت مند ہو وہ بقدر مناسب کھاسکتا ہے یعنی جتنی معمولی سی ضرورت ہو ۔ اس میں کوشش یہ ہونی چاہیے کہ کم سے کم کھائے۔ (جَمَل، النساء، تحت الآیۃ: ۶، ۲ / ۱۳)
لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ ۪- وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ اَوْ كَثُرَؕ-نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا(7)
ترجمہ
مردوں کے لئے اس (مال) میں سے (وراثت کا) حصہ ہے جوماں باپ اور رشتے دار چھوڑ گئے اور عورتوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتے دار چھوڑ گئے ، مال وراثت تھوڑا ہو یازیادہ۔ (اللہ نے یہ) مقرر حصہ (بنایاہے۔)
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ: اور عورتوں کا بھی وراثت میں حصہ ہے۔} زمانہ جاہلیت میں عورتوں اور بچوں کو وراثت سے حصہ نہ دیتے تھے، اِس آیت میں اُس رسم کو باطل کیا گیا۔ اِس سے یہ بھی معلو م ہوا کہ بیٹے کو میراث دینا اور بیٹی کو نہ دینا صریح ظلم اور قرآن کے خلاف ہے دونوں میراث کے حقدار ہیں اور اس سے اسلام میں عورتوں کے حقوق کی اہمیت کا بھی پتا چلا۔
وَ اِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ اُولُوا الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنُ فَارْزُقُوْهُمْ مِّنْهُ وَ قُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا(8)
ترجمہ
اور جب تقسیم کرتے وقت رشتہ دار اور یتیم اور مسکین آجائیں تواس مال میں سے انہیں بھی کچھ دیدو اور ان سے اچھی بات کہو ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ اُولُوا الْقُرْبٰى: اور جب تقسیم کرتے وقت رشتہ دار آجائیں۔} جن افراد کا وراثت میں حصہ ہے ان کا بیان تو تفصیل کے ساتھ بعد کی آیتوں میں مذکور ہے ان کے علاوہ دیگر رشتے داروں اور محتاج افراد کے بارے میں فرمایا کہ انہیں بھی وراثت تقسیم کرنے سے پہلے مال میں سے کچھ دیدیا کرو اور ان سے اچھی بات کہو جیسے یہ کہ یہ مال تودرحقیقت وارثوں کا حصہ ہے لیکن تمہیں ویسے ہی تھوڑا سا دیا گیا ہے، یونہی ان کیلئے دعا کردی جائے۔
وراثت تقسیم کرنے سے پہلے غیر وارثوں کو دینا :
اس آیت میں غیر وارثوں کو وراثت کے مال میں سے کچھ دینے کا جوحکم دیا گیا ہے، یہ دینا مستحب ہے ۔ امام محمد بن سیرین رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے مروی ہے حضرت عبیدہ سلمانی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے میراث تقسیم کی تو اسی آیت پر عمل کرتے ہوئے ایک بکری ذبح کروا کر کھانا پکوایا پھر یتیموں میں تقسیم کر دیا اور کہا اگر یہ آیت نہ ہوتی تو میں یہ سب خرچہ اپنے مال سے کرتا۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۸، ۱ / ۳۴۸)
تفسیر قرطبی میں یوں ہے کہ’’یہ عمل عبیدہ سلمانی اور امام محمد بن سیرین رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہما دونوں نے کیا۔ (قرطبی، النساء، تحت الآیۃ: ۸، ۳ / ۳۶، الجزء الخامس)
در منثور میں ایک روایت یہ ہے کہ’’حضرت عبد الرحمٰن بن ابو بکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے جب اپنے والد کی میراث تقسیم کی تو اُسی مال سے ایک بکری ذبح کروا کر کھانا پکوایا، جب یہ بات حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا کی بارگاہ میں عرض کی گئی تو انہوں نے فرمایا: عبد الرحمٰن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے قرآن پر عمل کیا۔(در منثور، النساء، تحت الآیۃ: ۸، ۲ / ۴۴۰)
اس مستحب حکم پر یوں بھی عمل ہوسکتا ہے کہ بعض اوقات کوئی بیٹا یتیم بچے چھوڑ کر فوت ہوجاتا ہے اور اس کے بعد باپ کا انتقال ہوتا ہے تو وہ یتیم بچے چونکہ پوتے بنتے ہیں اور چچا یعنی فوت ہونے والے کا دوسرا بیٹا موجود ہونے کی وجہ سے یہ پوتے داد ا کی میراث سے محروم ہوتے ہیں تو دادا کو چاہیے کہ ایسے پوتوں کو وصیت کر کے مال کا مستحق بنا دے اور اگر دادا نے ایسا نہ کیا ہو تو وارثوں کو چاہیے کہ اوپر والے حکم پر عمل کرتے ہوئے اپنے حصہ میں سے اسے کچھ دے دیں۔ اس حکم پر عمل کرنے میں مسلمانوں میں بہت سستی پائی جاتی ہے بلکہ اس حکم کا علم ہی نہیں ہوتا۔ البتہ یہ یاد رہے کہ نابالغ اور غیر موجود وارث کے حصہ میں سے دینے کی اجازت نہیں۔
وَ لْیَخْشَ الَّذِیْنَ لَوْ تَرَكُوْا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّیَّةً ضِعٰفًا خَافُوْا عَلَیْهِمْ ۪- فَلْیَتَّقُوا اللّٰهَ وَ لْیَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا(9)
ترجمہ:
اور وہ لوگ ڈریں جو اگر اپنے پیچھے کمزور اولاد چھوڑ تے تو ان کے بارے میں کیسے اندیشوں کا شکار ہوتے۔ تو انہیں چاہیے کہ اللہ سے ڈریں اور درست بات کہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لْیَخْشَ: اور چاہیے کہ ڈریں۔} یتیموں کے سرپرستوں کو فرمایا جارہا ہے کہ وہ یتیموں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈریں اوراُن کی یہ سمجھ کر پرورش کریں کہ اگر ہمارے بچے یتیم رہ جائیں اور کوئی دوسرا ان کی پرورش کرے تو وہ کیسی پرورش چاہتے ہیں ، تو ایسی ہی پرورش وہ دوسرے کے یتیموں کی کریں۔ یہ آیتِ کریمہ اخلاق کی بہترین تعلیم ہے ۔ ہمیشہ دوسرے کے ساتھ وہ معاملہ کرنا چاہیے جو اپنے ساتھ پسند ہے اورجو اپنے لئے پسند نہ ہو وہ دوسروں کے لئے بھی پسند نہیں ہونا چاہیے۔ حدیث ِ مبارک میں بھی فرمایا گیا کہ تم میں کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک اپنے بھائی کیلئے وہ پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب من الایمان ان یحبّ لاخیہ۔۔۔ الخ، ۱ / ۱۶، الحدیث: ۱۳)
لہٰذا یتیموں کے سرپرستوں کو چاہیے کہ وہ یتیموں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈریں اور ان سے اچھی اور صحیح بات کہیں مثلاً یہ کہ تم فکر نہ کرو ہم بھی تمہارے باپ جیسے ہیں ، تمہیں پریشانی نہیں آنے دیں گے۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۹، ۱ / ۳۴۹، مدارک، النساء، تحت الآیۃ: ۹، ص۲۱۲، ملتقطاً)
اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْكُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِهِمْ نَارًاؕ-وَ سَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا(10)
ترجمہ
بیشک وہ لوگ جو ظلم کرتے ہوئے یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں بالکل آگ بھرتے ہیں اور عنقریب یہ لوگ بھڑکتی ہوئی آگ میں جائیں گے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰى ظُلْمًا:بیشک وہ لوگ جو ظلم کرتے ہوئے یتیموں کا مال کھاتے ہیں۔} اس سے پہلی آیات میں یتیموں کا مال ناحق کھانے سے منع کیا گیا اور ا س آیت میں یتیموں کا مال ناحق کھانے پر سخت وعید بیان کی گئی ہے اور یہ سب یتیموں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کیونکہ وہ انتہائی کمزور اور عاجز ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے مزید لطف و کرم کے حقدارتھے۔اس آیت میں جو یہ ارشاد فرمایا گیا کہ’’ وہ اپنے پیٹ میں بالکل آ گ بھرتے ہیں ‘‘اس سے مراد یہ ہے کہ یتیموں کا مال ناحق کھانا گویا آگ کھانا ہے کیونکہ یہ مال کھانا جہنم کی آگ کے عذاب کا سبب ہے۔(تفسیر کبیر، النساء، تحت الآیۃ: ۱۰، ۳ / ۵۰۶)
یتیموں کا مال ناحق کھانے کی وعیدیں :
احادیثِ مبارکہ میں بھی یتیموں کا مال ناحق کھانے پر کثیر وعیدیں بیان کی گئی ہیں ،ان میں سے 3وعیدیں درجِ ذیل ہیں:
(1)…حضرت بریدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن ایک قوم اپنی قبروں سے اس طرح اٹھائی جائے گی کہ ان کے مونہوں سے آگ نکل رہی ہو گی۔عرض کی گئی: یا رسول اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ کون لوگ ہوں گے؟ ارشاد فرمایا ’’کیا تم نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو نہیں دیکھا ’’اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْكُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِهِمْ نَارًاؕ-وَ سَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا‘‘ بیشک وہ لوگ جو ظلم کرتے ہوئے یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں بالکل آ گ بھرتے ہیں اور عنقریب یہ لوگ بھڑکتی ہوئی آگ میں جائیں گے۔(کنز العمال، کتاب البیوع، قسم الاقوال، ۲ / ۹، الجزء الرابع، الحدیث: ۹۲۷۹)
(2)… حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ میں نے معراج کی رات ایسی قوم دیکھی جن کے ہونٹ اونٹوں کے ہونٹوں کی طرح تھے اور ان پر ایسے لوگ مقرر تھے جو ان کے ہونٹوں کو پکڑتے پھر ان کے مونہوں میں آگ کے پتھر ڈالتے جو ان کے پیچھے سے نکل جاتے۔ میں نے پوچھا: اے جبرائیل! عَلَیْہِ السَّلَام، یہ کون لوگ ہیں ؟ عرض کی: ’’یہ وہ لوگ ہیں جو یتیموں کامال ظلم سے کھاتے تھے۔ (تہذیب الآثار، مسند عبد اللہ بن عباس، السفر الاول، ذکر من روی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ رأی، ۲ / ۴۶۷، الحدیث: ۷۲۵)
(3)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ چار شخص ایسے ہیں جنہیں جنت میں داخل نہ کرنا اور اس کی نعمتیں نہ چکھانا اللہ تعالیٰ پر حق ہے۔ (1) شراب کا عادی۔ (2) سود کھانے والا۔ (3) ناحق یتیم کا مال کھانے والا۔ (4) والدین کا نافرمان۔(مستدرک، کتاب البیوع، انّ اربی الربا عرض الرجل المسلم، ۲ / ۳۳۸، الحدیث: ۲۳۰۷)
یتیم کا مال کھانے سے کیا مراد ہے؟
یتیم کا مال ناحق کھانا کبیرہ گناہ اور سخت حرام ہے۔ قرآنِ پاک میں نہایت شدت کے ساتھ اس کے حرام ہونے کا بیان کیا گیا ہے۔ افسوس کہ لوگ اس میں بھی پرواہ نہیں کرتے۔ عموماً یتیم بچے اپنے تایا، چچا وغیرہ کے ظلم و ستم کا شکار ہوتے ہیں ، انہیں اِس حوالے سے غور کرنا چاہیے۔ یہاں ایک اور اہم مسئلے کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے وہ یہ کہ یتیم کا مال کھانے کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی باقاعدہ کسی بری نیت سے کھائے تو ہی حرام ہے بلکہ کئی صورتیں ایسی ہیں کہ آدمی کو حرام کا علم بھی نہیں ہوتا اور وہ یتیموں کا مال کھانے کے حرام فعل میں مُلَوَّث ہوجاتا ہے جیسے جب میت کے ورثاء میں کوئی یتیم ہے تو اس کے مال سے یا اس کے مال سمیت مشترک مال سے فاتحہ تیجہ وغیرہ کا کھانا حرام ہے کہ اس میں یتیم کا حق شامل ہے، لہٰذا یہ کھانے صرف فقراء کیلئے بنائے جائیں اور صرف بالغ موجود ورثاء کے مال سے تیار کئے جائیں ورنہ جو بھی جانتے ہوئے یتیم کا مال کھائے گا وہ دوزخ کی آگ کھائے گااور قیامت میں اس کے منہ سے دھواں نکلے گا۔
یتیم کی اچھی پرورش کے فضائل:
جس کے زیر سایہ کوئی یتیم ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اس یتیم کی اچھی پرورش کرے ، اَحادیث میں یتیم کی اچھی پرورش کرنے کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں ، ان میں سے 4فضائل درجِ ذیل ہیں:
(1)…حضرت سہل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے۔ پھراپنی شہادت والی اور در میان والی انگلی سے اشارہ فرمایا اور انہیں کشادہ کیا۔(بخاری، کتاب الطلاق، باب اللعان، ۳ / ۴۹۷، الحدیث: ۵۳۰۴)
(2)… حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، امامُ الانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے مسلمانوں کے کسی یتیم بچے کے کھانے پینے کی ذمہ داری لی، اللہ عَزَّوَجَلَّ اُسے جنت میں داخل فرمائے گا مگر یہ کہ وہ ایسا گناہ کرے جس کی معافی نہ ہو۔ (ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی رحمۃ الیتیم، وکفالتہ، ۳ / ۳۶۸، الحدیث: ۱۹۲۴)
(3)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ مسلمانوں کے گھروں میں سب سے اچھا گھر وہ ہے جس میں یتیم سے اچھاسلوک کیا جائے اور مسلمانوں کے گھروں میں سے برا گھر وہ ہے جس میں یتیم سے برا سلوک کیا جائے۔ (ابن ماجہ، کتاب الادب، باب حق الیتیم، ۴ / ۱۹۳، الحدیث: ۳۶۷۹)
(4)…حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رحمت ِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ جس نے یتیم کے سر پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا کیلئے ہاتھ رکھا تواس کے لئے ہر بال کے بدلے جن پر اس کا ہاتھ گزرا نیکیاں ہیں۔(مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث ابی امامۃ الباہلی، ۸ / ۳۰۰، الحدیث: ۲۲۳۴۷)
یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْۗ-لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِۚ-فَاِنْ كُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَۚ-وَ اِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُؕ-وَ لِاَبَوَیْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنْ كَانَ لَهٗ وَلَدٌۚ-فَاِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهٗ وَلَدٌ وَّ وَرِثَهٗۤ اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُۚ-فَاِنْ كَانَ لَهٗۤ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍؕ-اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ لَا تَدْرُوْنَ اَیُّهُمْ اَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًاؕ-فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًا(11)وَ لَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ اَزْوَاجُكُمْ اِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهُنَّ وَلَدٌۚ-فَاِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْنَ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍؕ-وَ لَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ اِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّكُمْ وَلَدٌۚ-فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ تُوْصُوْنَ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍؕ-وَ اِنْ كَانَ رَجُلٌ یُّوْرَثُ كَلٰلَةً اَوِ امْرَاَةٌ وَّ لَهٗۤ اَخٌ اَوْ اُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُۚ-فَاِنْ كَانُوْۤا اَكْثَرَ مِنْ ذٰلِكَ فَهُمْ شُرَكَآءُ فِی الثُّلُثِ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصٰى بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍۙ-غَیْرَ مُضَآرٍّۚ-وَصِیَّةً مِّنَ اللّٰهِؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَلِیْمٌﭤ(12)
ترجمہ
اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم دیتا ہے، بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں کے برابر ہے پھر اگر صرف لڑکیاں ہوں اگرچہ دو سے اوپر تو ان کے لئے ترکے کا دو تہائی حصہ ہوگا اور اگر ایک لڑکی ہو تو اس کے لئے آدھا حصہ ہے اوراگر میت کی اولاد ہوتو میت کے ماں باپ میں سے ہر ایک کے لئے ترکے سے چھٹا حصہ ہوگا پھر اگرمیت کی اولاد نہ ہو اور ماں باپ چھوڑے تو ماں کے لئے تہا ئی حصہ ہے پھر اگر اس (میت) کے کئی بہن بھا ئی ہو ں توماں کا چھٹا حصہ ہوگا، (یہ سب احکام) اس وصیت (کو پورا کرنے) کے بعد (ہوں گے) جو وہ (فوت ہونے والا) کرگیا اور قرض (کی ادائیگی ) کے بعد (ہوں گے۔) تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے تمہیں معلوم نہیں کہ ان میں کون تمہیں زیادہ نفع دے گا، (یہ) اللہ کی طرف سے مقرر کردہ حصہ ہے۔ بیشک اللہ بڑے علم والا، حکمت والا ہے۔ اور تمہاری بیویاں جو (مال) چھوڑ جائیں اگر ان کی اولاد نہ ہو تواس میں سے تمہارے لئے آدھا حصہ ہے، پھر اگر ان کی اولاد ہو تو ان کے ترکہ میں سے تمہارے لئے چوتھائی حصہ ہے ۔(یہ حصے) اس وصیت کے بعد (ہوں گے) جو انہوں نے کی ہو اور قرض (کی ادائیگی) کے بعد (ہوں گے) اور اگر تمہارے اولاد نہ ہو توتمہارے ترکہ میں سے عورتوں کے لئے چوتھائی حصہ ہے، پھر اگر تمہارے اولاد ہو تو ان کا تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے (یہ حصے) اس وصیت کے بعد (ہوں گے) جو وصیت تم کر جاؤ اور قرض (کی ادائیگی) کے بعد (ہوں گے۔) اور اگر کسی ایسے مرد یا عورت کا ترکہ تقسیم کیا جانا ہو جس نے ماں باپ اور اولاد (میں سے ) کوئی نہ چھوڑا اور (صرف) ماں کی طرف سے اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ان میں سے ہر ایک کے لئے چھٹا حصہ ہوگا پھر اگر وہ (ماں کی طرف والے) بہن بھائی ایک سے زیادہ ہوں تو سب تہائی میں شریک ہوں گے (یہ دونوں صورتیں بھی) میت کی اس وصیت اور قرض (کی ادائیگی) کے بعد ہوں گی جس (وصیت) میں اس نے (ورثاء کو) نقصان نہ پہنچایا ہو ۔یہ اللہ کی طرف سے حکم ہے اور اللہ بڑے علم والا، بڑے حلم والا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْ:اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم دیتا ہے۔} وراثت کے احکام میں کافی تفصیل ہے، انہیں جب تک باقاعدہ کسی کے پاس بیٹھ کر مشق کے ذریعے حل نہ کیا جائے تب تک سمجھنا مشکل ہے اس لئے انہیں سمجھنے کیلئے باقاعدہ کسی علم میراث کے عالم کے پاس بیٹھ کر سمجھیں۔ یہاں آیات مبارکہ کی تفسیر کے پیشِ نظر آیات میں مذکور ورثاء کی مکمل صورتیں تحریر کردی ہیں۔ انہیں دیکھ لیں لیکن یہ یاد رکھیں کہ یہاں بیان کردہ حصوں کے ساتھ بہت سے اصول و قواعد کو ملا کر میراث کا مسئلہ حل کیا جاتا ہے لہٰذا مزید تفصیلات کیلئے میراث کی کتابوں کا مطالعہ کریں۔ نیز یہاں تفسیر میں تمام ورثاء کے حالات بیان نہیں کئے گئے بلکہ صرف ان کے بیان کئے ہیں جن کی صورت یہاں آیات میں مذکور ہے۔
ورثا میں وراثت کا مال تقسیم کرنے کی صورتیں :
(1)… باپ کی تین صورتیں ہیں :(۱) اگرمیت کاباپ ہو اور ساتھ میں بیٹا بھی ہو تو باپ کو 1 / 6 ایک بٹا چھ ملے گا۔ (۲) اگرمیت کاباپ ہو اور ساتھ میں بیٹا نہ ہوبلکہ صرف بیٹی ہوتو باپ کو 1 / 6ایک بٹاچھ ملے گا اور بقیہ ورثاء کو دینے کے بعد اگرکچھ بچ جائے تووہ باپ کو بطورِ عَصبہ کے ملے گا۔ (۳) اگرمیت کاباپ ہو اور ساتھ میں نہ کوئی بیٹا ہو اور نہ کوئی بیٹی ہو تو باپ کوبطور عصبہ کے ملے گا۔
(2)…ماں شریک بھائی کی تین صورتیں ہیں : (۱)اَخیافی بھائی اگر ایک ہو تو اخیافی بھائی کو 1 / 6 ایک بٹا چھ ملے گا۔ (۲) اخیافی بھائی اگر دو یا دو سے زیادہ ہوں خواہ بھائی ہو یا بہنیں یا دونوں مل کر توانہیں 1 / 3 ایک بٹا تین ملے گا۔ (۳) باپ، دادا، بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی کے ہوتے ہوئے اخیافی بھائی محروم ہوجائے گا۔ اسی طرح اخیافی بہن کے بھی یہی تین احوال ہیں۔
(3)…شوہرکی دوصورتیں ہیں : (۱)اگرفوت ہونے والی کی اولاد ہے تو شوہر کو 1 / 4 ایک بٹا چار ملے گا۔ (۲) اگر فوت ہونے والی کی اولاد نہیں تو شوہر کو 1 / 2 ایک بٹا دوملے گا۔
(4)… بیوی کی دو صورتیں ہیں : (۱) اگر فوت ہونے والے کی اولاد ہے توبیوی کو 1 / 8 ایک بٹا آٹھ ملے گا۔ (۲) اگر فوت ہونے والے کی اولاد نہیں ہے تو بیوی کو 1 / 4 ایک بٹا چار ملے گا۔
(5)… بیٹی کی تین صورتیں ہیں : (۱) اگر بیٹی ایک ہو تو 1 / 2 ایک بٹا دو یعنی آدھا مال ملے گا۔ (۲) اگر دو یا دو سے زیادہ بیٹیاں ہوں توان کو2 / 3 دو بٹا تین ملے گا۔ (۳) اگربیٹیوں کے ساتھ بیٹابھی ہوتوبیٹیاں عصبہ بن جائیں گی اور لڑکے کولڑکی سے دوگنا دیا جائے گا۔
(6)…ماں کی تین صورتیں ہیں : (۱) اگر میت کا بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی یاکسی بھی قسم کے دوبہن بھائی ہوں تو ماں کوکل مال کا 1 / 6 ایک بٹا چھ ملے گا۔ (۲) اگر میت کا بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی کوئی نہ ہو اور بہن بھائیوں میں سے دو افراد نہ ہوں خواہ ایک ہو تو ماں کوکل مال کا1 / 3 ایک بٹاتین ملے گا۔ (۳) اگر میت نے بیوی اورماں باپ یا شوہر اور ماں باپچھوڑے ہوں توبیوی یا شوہر کواس کاحصہ دینے کے بعد جو مال باقی بچے ا س کا1 / 3 ایک بٹا تین ماں کودیا جائے گا۔
اس کے علاوہ دو اہم اصول :
… (1) بیٹے کو بیٹی سے دگنا ملتا ہے اور جہاں بھائی عصبہ بنتے ہوں وہاں انہیں بہنوں سے دگنا ملتا ہے اور کئی جگہ بہنیں بھی عصبہ بن جاتی ہیں اور اصحابِ فرائض کو دینے کے بعد بقیہ سارا مال لے لیتی ہیں۔
(2) … ایک اور اہم قاعدہ ہے کہ قریبی کے ہوتے ہوئے دور والا محروم ہوجاتا ہے جیسے بیٹے کے ہوتے ہوئے پوتا، باپ کے ہوتے ہوئے دادا، بھائی کے ہوتے ہوئے بھائی کی اولاد وغیرہ۔
تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِؕ-وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ یُدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-وَ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(13)وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوْدَهٗ یُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِیْهَا ۪- وَ لَهٗ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ(14)
ترجمہ
یہ اللہ کی حدیں ہیں اور جو اللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت کرے تو اللہ اسے جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ۔ ہمیشہ ان میں رہیں گے ، اور یہی بڑی کامیابی ہے ۔اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اس کی (تمام) حدوں سے گزر جائے تو اللہ اسے آگ میں داخل کرے گا جس میں (وہ) ہمیشہ رہے گا اور اس کے لئے رسوا کُن عذاب ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ: یہ اللہ کی حدیں ہیں۔} وراثت کے مسائل کو اللہ تعالیٰ نے اپنی حدود قرار دیا اور ان کے توڑنے کو اللہ کی حدیں توڑنا قرار دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ میراث کی تقسیم میں ظلم کرنا عذابِ الٰہی کا باعث ہے۔ اس سے ان مسلمانوں کو عبرت پکڑنی چاہیے جو لڑکیوں یا دوسرے وارثوں کو وراثت سے محروم کرتے ہیں۔ حدیث مبارکہ ہے’’ جو اپنے وارث کو میراث سے محروم کرے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے جنت میں ا س کے حصے سے محروم کر دے گا۔(ابن ماجہ، کتاب الوصایا، باب الحیف فی الوصیۃ، ۳ / ۳۰۴، الحدیث: ۲۷۰۳)
{وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ یُدْخِلْهُ جَنّٰتٍ:اور جو اللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت کرے تو اللہ اسے جنتوں میں داخل فرمائے گا۔} اِس آیت میں سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت پر جنت کا وعدہ ہے اور اگلی آیت میں حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نافرمانی پر جہنم کی وعید ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ سرکارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت فرض ہے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نافرمانی حرام ہے۔ نیز کسی بھی حد ِ شرعی کو توڑنا حرام ہے لیکن تمام حدود کو توڑنے والا کافر ہی ہے یعنی جو ایمان کی حد بھی توڑ دیتا ہے اور اگلی آیتوں میں یہی مراد ہے کیونکہ وہاں نافرمان کیلئے ہمیشہ جہنم میں داخلے کی وعید ہے اور جہنم میں ہمیشہ کافر ہی رہے گا مسلمان نہیں۔
وَ الّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِّسَآىٕكُمْ فَاسْتَشْهِدُوْا عَلَیْهِنَّ اَرْبَعَةً مِّنْكُمْۚ-فَاِنْ شَهِدُوْا فَاَمْسِكُوْهُنَّ فِی الْبُیُوْتِ حَتّٰى یَتَوَفّٰهُنَّ الْمَوْتُ اَوْ یَجْعَلَ اللّٰهُ لَهُنَّ سَبِیْلًا(15)
ترجمہ:
اور تمہاری عورتوں میں سے جو بدکاری کرلیں ان پر اپنوں میں سے چار مردوں کی گواہی لو پھر اگروہ گواہی دے دیں تو ان عورتوں کو گھر میں بند کردو یہاں تک کہ موت ان (کی زندگی) کو پورا کردے یا اللہ ان کے لئے کوئی راستہ بنا دے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{فَاسْتَشْهِدُوْا عَلَیْهِنَّ اَرْبَعَةً مِّنْكُمْ: ان پر اپنوں میں سے چار مردوں کی گواہی لو۔} مسلمانوں میں سے جو عورتیں زنا کا اِرتِکاب کریں ان کے بارے حکم دیا گیا کہ ان پر زنا کے ثبوت کیلئے چار مسلمان مردوں کا گواہ ہوناضروری ہے جو عورتوں کے زنا پر گواہی دیں۔ اور ایک قول یہ ہے کہ یہاں حکام سے خطاب ہے یعنی وہ چار مردوں سے گواہی سنیں۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۱۵، ۱ / ۳۵۷)
زنا کے ثبوت کے لئے گواہی کی شرائط:
زنا کا ثبوت گواہی سے ہو تو ضروری ہے کہ زنا کے گواہ چار عاقل ،بالغ ، مسلمان مرد ہوں کوئی عورت نہ ہو، چاروں نیک اور متقی ہوں ، اور انہوں نے ایک وقتِ مُعَیَّن میں زنا کا یوں مشاہدہ کیا ہو جیسے سرمہ دانی میں سلائی نیز یہ چاروں گواہ حلفِ شرعی کے ساتھ گواہی دیں۔ اگر ان میں سے ایک بات بھی کم ہوئی تو زنا ثابت نہ ہو گا اور گواہی دینے والے شرعاً اسّی اسّی کوڑوں کے مستحق ہوں گے۔(فتاوی رضویہ، ۱۳ / ۶۲۳، ملخصاً)
{فَاَمْسِكُوْهُنَّ فِی الْبُیُوْتِ: ان عورتوں کو گھر میں بند کر دو۔} زانیہ عورتوں کو موت آنے تک گھروں میں قید رکھنے کا حکم زنا سے متعلق کوڑوں اور رَجم کی سزا مقرر ہونے سے پہلے تھا جب زنا کی حد کے بارے میں احکام ناز ل ہو ئے تو یہ حکم مَنسوخ ہو گیا۔(تفسیرات احمدیہ، النساء، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۲۴۰)
زنا اور قَذف کی سزا کا بیان سورۂ نور آیت نمبر 2اور 4 میں بیان ہواہے۔
زنا کی مذمت:
اس آیت میں زنا کرنے والوں کی سزا سے متعلق بعض ا حکام بیان ہوئے،اس مناسبت سے ہم یہاں زنا کی مذمت پر 4 اَحادیث ذکر کرتے ہیں تاکہ مسلمانوں پر زنا کی قَباحت و برائی مزید واضح ہو اور وہ ا س برے فعل سے بچنے کی کوشش کریں ، چنانچہ
(1)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جو عورت کسی قوم میں اس کو داخل کردے جو اس قوم سے نہ ہو (یعنی زنا کرایا اور اُس سے اولاد ہوئی) تو اُسے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت کا حصہ نہیں ملے گا اور اللہ تعالیٰ اُسے جنت میں داخل نہ فرمائے گا۔ (ابو داؤد، کتاب الطلاق، باب التغلیظ فی الانتفاء، ۲ / ۴۰۶، الحدیث: ۲۲۶۳)
(2)… حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس بستی میں زنا اور سود ظاہر ہوجائے تو اُنہوں نے اپنے لیے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب کو حلال کرلیا۔ (مستدرک، کتاب البیوع، اذا ظہر الزنا والربا فی قریۃ۔۔۔ الخ، ۲ / ۳۳۹، الحدیث: ۲۳۰۸)
(3)…حضرت عمرو بن عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جس قوم میں زنا ظاہر ہوگا، وہ قحط میں گرفتار ہوگی اور جس قوم میں رشوت کا ظہور ہوگا، وہ رُعب میں گرفتار ہوگی۔ (مشکٰوۃ المصابیح، کتاب الحدود، الفصل الثالث، ۱ / ۶۵۶، الحدیث: ۳۵۸۲)
(4)…حضرت بریدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکار دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں بوڑھے زانی پر لعنت کرتی ہیں اور زانیوں کی شرمگاہ کی بدبو جہنم والوں کو ایذا دے گی۔ (مجمع الزوائد، کتاب الحدود والدیات، باب ذم الزنا ، ۶ / ۳۸۹، الحدیث: ۱۰۵۴۱)
وَ الَّذٰنِ یَاْتِیٰنِهَا مِنْكُمْ فَاٰذُوْهُمَاۚ-فَاِنْ تَابَا وَ اَصْلَحَا فَاَعْرِضُوْا عَنْهُمَاؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(16)
ترجمہ:
اور تم میں جو مرد عورت ایسا کام کریں ان کو تکلیف پہنچاؤ پھر اگر وہ توبہ کرلیں اوراپنی اصلاح کرلیں تو ان کا پیچھا چھوڑ دو۔ بیشک اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا، مہربان ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{فَاٰذُوْهُمَا:ان دونوں کوتکلیف پہنچاؤ۔}بے حیائی کا اِرتکاب کرنے والوں کے متعلق سزا کا بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ انہیں ایذاء دو جیسے جھڑک کر، برا بھلا کہہ کر، شرم دلا کر، جوتیاں وغیرہ مار کرزبانی اور بدنی دونوں طرح سے ایذا دو۔ زنا کی سزا پہلے ایذا دینا مقرر کی گئی، پھر قید کرنا، پھر کوڑے مارنا یا سنگسار کرنا۔ (مدارک، النساء، تحت الآیۃ: ۱۶، ص۲۱۷)
یہ آیت بھی حدِزنا کی آیت سے منسوخ ہے۔ بعض علماء نے فرمایا کہ پچھلی آیت میں فاحشہ سے مرا د خود عورت کا عورت سے بے حیائی کا کام کرنا ہے اور ’’وَ الَّذٰنِ یَاْتِیٰنِهَا ‘‘ سے مرد کا مرد سے لِواطَت کرنا مراد ہے۔ اس صورت میں یہ آیت مَنسوخ نہیں بلکہ مُحکم ہے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ لواطت اور مساحقت (عورتوں کی عورتوں سے بے حیائی) میں حد مقرر نہیں بلکہ تَعزیر ہے۔ یعنی قاضی کی صوابدید پر ہے وہ جو چاہے سزا دے۔ یہ ہی امامِ اعظم ابو حنیفہ کا قول ہے۔(تفسیر کبیر، النساء، تحت الآیۃ: ۱۶، ۳ / ۵۲۸، تفسیرات احمدیہ، النساء، تحت الآیۃ: ۱۶، ص۲۴۲، ملتقطاً)
یہی وجہ ہے کہ لواطت کے مرتکب کو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے مختلف سزائیں دیں اگر لواطت میں حد ہوتی تو ایک ہی سزا دی جاتی اس میں اختلاف نہ ہوتا۔ ’’حد‘‘ مخصوص ہوتی ہے جیسے سو کوڑے، اسّی کوڑے وغیرہ۔ جبکہ تعزیر وہاں ہوتی ہے جہاں شرعی حد مقرر نہ ہو بلکہ قاضی کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے ،چاہے تو دس کوڑے مارنے کا فیصلہ کردے اور چاہے تو بیس کا اور چاہے تو کوئی اور سزا دیدے۔
{فَاِنْ تَابَا وَ اَصْلَحَا:پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور اپنی اصلاح کر لیں۔}فرمایا گیا کہ بے حیائی کا ارتکاب کرنے والے اگر پچھلے گناہوں پر نادم ہو جائیں اور آئندہ کے لئے اپنی اصلاح کر لیں تو انہیں چھوڑ دو ۔اس سے معلوم ہوا کہ تعزیر کا مستحق مجرم اگر تعزیر سے پہلے صحیح معنی میں توبہ کر لے تو ا س پر خواہ مخواہ تعزیر لگانا ضروری نہیں۔
توبہ کے معنی:
توبہ کے معنی ہوتے ہیں رجوع کرنا، لوٹنا۔ اگر یہ بندے کی صفت ہو تو معنی ہوں گے گناہ یا ارادہِ گناہ سے رجوع کرنااور اگر رب تعالیٰ کی صفت ہو تو معنی ہوں گے بندے کی توبہ قبول فرمانا یا اپنی رحمت کو بندے کی طرف متوجہ کرنا۔
اِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللّٰهِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْٓءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ فَاُولٰٓىٕكَ یَتُوْبُ اللّٰهُ عَلَیْهِمْؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًا(17)
ترجمہ:
وہ توبہ جس کا قبول کرنا اللہ نے اپنے فضل سے لازم کرلیا ہے وہ انہیں کی ہے جو نادانی سے برائی کر بیٹھیں پھر تھوڑی دیر میں توبہ کرلیں ایسوں پر اللہ اپنی رحمت سے رجوع کرتا ہے اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ:پھر تھوڑی دیر میں توبہ کر لیں۔} اللہ تعالیٰ کی عظیم رحمت ہے کہ گناہ کے بعد توبہ کرنے پر معاف فرما دیتا ہے اور موت کے وقت تک توبہ قبول فرماتا ہے ۔ یہاں فرمایا گیا کہ جو گناہ کرکے تھوڑی دیر میں توبہ کرلیں تو یہاں تھوڑی دیر سے مراد ایک آدھ گھنٹا یا دو چار سال نہیں بلکہ موت سے پہلے جب بھی توبہ کرلی وہ قریب ہی شمار ہوگی ۔ ہاں جب موت کا عالَم طاری ہوجائے اور غیب کا معاملہ ظاہر ہوجائے تو اس وقت توبہ مقبول نہیں۔
{وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًا:اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔} اسلام میں توبہ کا قانون بنانا عین حکمت و علم پر مَبنی ہے ۔ جن دینوں میں توبہ نہیں ان کے ماننے والے گناہ پر زیادہ دلیر ہوتے ہیں کیونکہ مایوسی جرم پر دلیر کر دیتی ہے اور معافی کی امید توبہ پر ابھارتی ہے۔ جس شخص کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی ہو اسے سب سے جدا قید میں رکھا جاتا ہے تا کہ کسی اور کو قتل نہ کر دے کیونکہ وہ اپنی زندگی سے مایوس ہوچکا ہے اور جسے ایک مقررہ مدت تک سزا کے بعد رہائی کا حکم ہو اسے دیگر مجرموں کے ساتھ قید میں رکھا جاتا ہے، اس سے یہ خطرہ نہیں ہوتا کیونکہ اسے رہائی کی امید ہے۔
وَ لَیْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِۚ-حَتّٰۤى اِذَا حَضَرَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّیْ تُبْتُ الْــٴٰـنَ وَ لَا الَّذِیْنَ یَمُوْتُوْنَ وَ هُمْ كُفَّارٌؕ-اُولٰٓىٕكَ اَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا(18)
ترجمہ:
اور ان لوگوں کی توبہ نہیں جو گناہوں میں لگے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب ان میں کسی کو موت آئے تو کہنے لگے اب میں نے توبہ کی اور نہ ان لوگوں کی (کوئی توبہ ہے) جو کفر کی حالت میں مریں ۔ ان کے لئے ہم نے دردناک عذاب تیار کررکھا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَیْسَتِ التَّوْبَةُ:اور توبہ قبول نہیں۔} اوپر والی آیت میں توبہ کی قبولیت کا جووعدہ گزرا اس کی وضاحت کردی گئی ، اب ان افراد کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ جن کی توبہ قبول نہ ہو گی۔ آیت میں ’’سَیِّاٰت ‘‘سے مراد گناہ ہوں تو معنی یہ ہو گا کہ جو لوگ کفر کے علاوہ دیگر گناہوں میں مُلَوَّث رہے جب موت کے آثار ظاہر ہوئے، عذاباتِ الٰہی کا مشاہدہ کر لیا اور روح حلق تک آپہنچی، اب توبہ کریں تو مقبول نہیں لیکن یہ وقت آنے سے ایک لمحہ پہلے بھی اگر توبہ کر لی تو قبول ہے اور اگر ان مسلمانوں کی توبہ مقبول نہ بھی ہو تب بھی وہ افراد ہمیشہ جہنم میں نہ رہیں گے اللہ تعالیٰ چاہے تو انہیں بخش دے، چاہے تو سزا دے لیکن سزا پوری ہونے کے بعد جنت میں جائیں گے البتہ وہ لوگ جو کافر مرے قیامت کے دن ان کی توبہ قبول نہیں یعنی کسی صورت نجات نہ پائیں گے، ہمیشہ ہمیشہ جہنم کے عذاب میں مبتلا رہیں گے۔ ایک قول یہ ہے کہ آیت میں ’’سَیِّاٰت ‘‘ سے مراد کفر ہے ،اس صورت معنی یہ ہو گا کہ وہ کفار جو موت کے آثار دیکھ کر یعنی غیب کا مشاہدہ کرنے کے بعد اپنے کفر سے توبہ کریں اور اپنے ایمان کا اقرار کریں تو ان کی یہ توبہ اور اقرارِ ایمان قابل قبول نہیں ، ایسی توبہ تو فرعون نے بھی کی تھی یونہی وہ لوگ جو حالت کفر میں مر گئے یعنی بوقت موت بھی توبہ نہ کی تو وہ ہمیشہ کے لئے جہنم کی سزا پائیں گے۔(تفسیر قرطبی، النساء، تحت الآیۃ: ۱۸، ۳ / ۶۶، الجزء الخامس، تفسیر کبیر، النساء، تحت الآیۃ: ۱۸، ۴ / ۸، ملتقطاً)
کافر کے لئے دعائے مغفرت کرنے کا شرعی حکم:
جو کسی کافر کے لئے ا س کے مرنے کے بعد اس کے کفر کا علم ہونے کی صورت میں دعائے مغفرت کرے یا کسی مردہ مرتد کو مرحوم یا مغفور کہے یا کسی مرے ہوئے ہندو کو بیکنٹھ باشی (یعنی جنتی) کہے وہ خود کافر ہے۔(بہار شریعت، حصہ اول، ایمان وکفر کا بیان، ۱ / ۱۸۵)
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
مَا كَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِیْنَ وَ لَوْ كَانُوْۤا اُولِیْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ( توبہ: ۱۱۳)
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَآءَ كَرْهًاؕ-وَ لَا تَعْضُلُوْهُنَّ لِتَذْهَبُوْا بِبَعْضِ مَاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ اِلَّاۤ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍۚ-وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ-فَاِنْ كَرِهْتُمُوْهُنَّ فَعَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْــٴًـا وَّ یَجْعَلَ اللّٰهُ فِیْهِ خَیْرًا كَثِیْرًا(19)
ترجمہ:
اے ایمان والو! تمہارے لئے حلال نہیں کہ تم زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ اور عورتوں کو اس نیت سے روکو نہیں کہ جو مہر تم نے انہیں دیا تھا اس میں سے کچھ لے لو سوائے اس صورت کے کہ وہ کھلی بے حیا ئی کا ارتکاب کریں اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے گزر بسر کرو پھر اگر تمہیں وہ ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں ناپسند ہو اور اللہ اس میں بہت بھلائی رکھ دے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{لَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَآءَ كَرْهًا:تمہارے لئے حلال نہیں کہ تم زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ۔} اسلام سے پہلے اہلِ عرب کا یہ دستور تھا کہ لوگ مال کی طرح اپنے رشتہ داروں کی بیویوں کے بھی وارث بن جاتے تھے پھر اگر چاہتے تو مہر کے بغیر انہیں اپنی زوجیت میں رکھتے یا کسی اور کے ساتھ شادی کردیتے اور ان کا مہر خود لے لیتے یا انہیں آگےشادی نہ کرنے دیتے بلکہ اپنے پاس ہی رکھتے تاکہ انہیں جو مال وراثت میں ملا ہے وہ اِن لوگوں کو دیدیں اور تب یہ ان کی جان چھوڑیں یا عورتوں کو اس لئے روک رکھتے کہ یہ مرجائیں گی تو یہ روکنے والے لوگ ان کے وارث بن جائیں۔ الغرض وہ عورتیں ان کے ہاتھ میں بالکل مجبور ہوتیں اور اپنے اختیار سے کچھ بھی نہ کرسکتی تھیں اس رسم کو مٹانے کے لیے یہ آیت نازل فرمائی گئی۔ (بخاری، کتاب التفسیر، باب لا یحلّ لکم ان ترثوا النساء کرہًا، ۳ / ۲۰۳، الحدیث: ۴۵۷۹، تفسیر قرطبی، النساء، تحت الآیۃ: ۱۹، ۳ / ۶۷، الجزء الخامس، ملتقطاً)
{لِتَذْهَبُوْا بِبَعْضِ مَاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ: تاکہ جو مہر تم نے انہیں دیا تھا اس میں سے کچھ لے لو۔}حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما نے فرمایا یہ آیت اُس شخص کے متعلق ہے جو اپنی بیوی سے نفرت رکھتا ہو اور اُس کے ساتھ بدسلوکی ا س لئے کرتا ہو کہ وہ پریشان ہو کر مہر واپس کردے یا مہر معاف کردے، اس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرما دیا۔ ایک قول یہ ہے کہ لوگ عورت کو طلاق دیتے پھر رجوع کرلیتے پھر طلاق دیتے اس طرح عورت کو مُعَلَّق (لٹکا ہوا) رکھتے تھے ، وہ نہ ان کے پاس آرام پاسکتی نہ دوسری جگہ شادی کر کے گھر بسا سکتی، اس کو منع فرمایا گیا۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۱۹، ۱ / ۳۶۰)
بیویوں پر ظلم وستم کرنے والے غور کریں :
یہاں جو حالات زمانہ ِجاہلیت کے بیان کئے جارہے ہیں ان پر غور کریں کہ کیا انہی حالات پر اِس وقت ہمارا معاشرہ نہیں چل رہا۔ بیویوں کو تنگ کرنا، جبری طور پر مہر معاف کروانا، ان کے حقوق ادا نہ کرنا، ذہنی اَذیتیں دینا، کبھی عورت کو اس کے ماں باپ کے گھر بٹھا دینا اور کبھی اپنے گھر میں رکھ کر بات چیت بند کردینا، دوسروں کے سامنے ڈانٹ ڈپٹ کرنا، لتاڑنا، جھاڑنا وغیرہ۔ عورت بیچاری شوہر کے پیچھے پیچھے پھر رہی ہوتی ہے اور شوہر صاحب فرعون بنے آگے آگے جارہے ہوتے ہیں ، عورت کے گھر والوں سے صراحتاً یا بیوی کے ذریعے نت نئے مطالبے کئے جاتے ہیں ، کبھی کچھ دلانے اور کبھی کچھ دلانے کا۔ الغرض ظلم و سِتم کی وہ کون سی صورت ہے جو ہمارے گھروں میں نہیں پائی جارہی۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کرے کہ قرآن کی یہ آیتیں ان لوگوں کو سمجھ آجائیں اور وہ اپنی اس بری رَوِش سے باز آ جائیں۔نیز ان آیات کی روشنی میں وہ لوگ بھی کچھ غور کریں جو اسلام سے شرمندہ شرمندہ سے رہتے ہیں اور ڈھکے چھپے الفاظ میں کہتے ہیں کہ اسلام میں عورتوں پر بہت سختیاں ہیں۔ وہ دیکھیں کہ اسلام میں عورتوں پر سختیاں کی گئی ہیں یا انہیں سختیوں سے نجات دلائی گئی ہے؟
{فَعَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْــٴًـا: توہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں ناپسند ہو۔} گھروں کو امن کا گہوارہ بنانے کیلئے ایک بہت عمدہ نفسیاتی طریقہ بیان کیا جارہا ہے ۔ بیوی کے حوالے سے فرمایا کہ اگر بدخُلقی یا صورت اچھی نہ ہونے کی وجہ سے عورت تمہیں پسند نہ ہو تو صبر کرو اور بیوی کو طلاق دینے میں جلدی نہ کرو کیونکہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اسی بیوی سے تمہیں ایسی اولاد دے جو نیک اور فرماں بردار ہو، بڑھاپے کی بیکسی میں تمہارا سہارا بنے۔
مثبت ذہنی سوچ کے فوائد:
یہ طریقہ صرف میاں بیوی کے تعلقات میں نہیں بلکہ زندگی کے ہزاروں معاملات میں کام آتا ہے۔اس طریقے کو ’’مثبت ذہنی سوچ‘‘ کہتے ہیں یعنی اگر کسی کام یا چیز میں خرابی کی کوئی صورت پائی جارہی ہے تو اس کے اچھے پہلوؤں پر بھی غور کرلو۔ ہوسکتا ہے کہ اچھے پہلو زیادہ ہوں یا اچھا پہلو زیادہ فائدے مند ہو مثلاً کسی کی بھی بیوی بدصورت ہے لیکن اسی سے آدمی کو نیک اولاد حاصل ہے، یہاں اگر بدصورتی کو گوارا کرلے تو اس کی زندگی امن سے گزرے گی لیکن اگر طلاق دیدے تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ بیوی تو چھوٹ ہی جائے گی لیکن اس کے ساتھ بچے بھی چھوٹ جائیں گے اور ساری زندگی ایسی تلخیوں ، ذہنی اذیتوں ، اولاد کے حصول کی جنگ اور حقوق کی لڑائی میں گزرے گی کہ چودہ طبق روشن ہوجائیں گے۔ یونہی کسی آدمی کو ادارے میں رکھا ہوا ہے جو کسی وجہ سے ناپسند ہے لیکن اسی کی وجہ سے نظام بہت عمدہ چل رہا ہے، اب اُس آدمی کو رکھنا اگرچہ پسند نہیں لیکن صرف ناپسندیدگی کی وجہ سے اُسے نکال دینا پورے نظام کو تباہ کردے گا تو ایسی جگہ فوائد پر نظر رکھتے ہوئے اُسے برداشت کرلینا ہی بہتر ہے۔ یہ دو مثالیں عرض کی ہیں ، اِن کو سامنے رکھتے ہوئے زندگی کے بہت سے معاملات کو حل کیا جاسکتا ہے۔ صرف ’’مثبت ذہنی سوچ‘‘ پیدا کرنے کی ضرورت ہے، ہماری زندگی کی بہت سی تلخیاں خود بخود ختم ہوجائیں گی۔ اِسی ’’مثبت ذہنی سوچ‘‘ کا ایک پہلو یہ ہوتا ہے کہ آدمی پریشانیوں کی بجائے نعمتوں کو سامنے رکھے یعنی آدمی اگر ایک تکلیف میں ہے تو اُسی وقت میں وہ لاکھوں نعمتوں اور سینکڑوں کامیابیوں میں بھی ہوتا ہے تو کیا ضرورت ہے کہ پریشانی اور ناکامی کی یاد تو اپنا وظیفہ بنالے اور خوشی اور کامیابی کو بھولے سے بھی نہ سوچے۔ اِس نسخے پر عمل کرکے دیکھیں اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ زندگی میں خوشیاں ہی خوشیاں بھر جائیں گی۔
وَ اِنْ اَرَدْتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍۙ-وَّ اٰتَیْتُمْ اِحْدٰىهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْهُ شَیْــٴًـاؕ-اَتَاْخُذُوْنَهٗ بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا(20)
ترجمہ
اور اگر تم ایک بیوی کے بدلے دوسری بیوی بدلنا چاہو اور تم اسے ڈھیروں مال دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ واپس نہ لو۔ کیا تم کوئی جھوٹ باندھ کر اور کھلے گناہ کے مرتکب ہو کر وہ لو گے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اٰتَیْتُمْ اِحْدٰىهُنَّ قِنْطَارًا:اور تم اسے ڈھیروں مال دے چکے ہو۔} چونکہ عورتوں کے حقوق کا بیان چل رہا ہے۔ یہاں مزید ان کے حقوق بیان فرمائے گئے ہیں ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اگر تمہارا ارادہ بیوی کو چھوڑنے کا ہو تو مہر کی صورت میں جومال تم اسے دے چکے ہو تواس میں سے کچھ واپس نہ لو ۔ا ہلِ عرب میں یہ بھی طریقہ تھا کہ اپنی بیوی کے علاوہ کوئی دوسری عورت انہیں پسند آجاتی تو ا پنی بیوی پر جھوٹی تہمت لگاتے تاکہ وہ اس سے پریشان ہو کر جو کچھ لے چکی ہے واپس کردے اور طلاق حاصل کر لے۔(بیضاوی، النساء، تحت الآیۃ: ۲۰، ۲ / ۱۶۳)
اسی کو فرمایا کہ کیا تم بہتان اور گناہ کے ذریعے ان سے مال لینا چاہتے ہو، یہ حرام ہے۔ البتہ یہ یاد رہے کہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 229کی تفسیر میں وضاحت سے ہم خُلع اور دیگر صورتوں میں مال لینے اور نہ لینے کی صورتیں بیان کرچکے ہیں۔ اس کا مطالعہ بھی یہاں کرلینا چاہیے۔
زیادہ مہر مقرر کرنا جائز ہے:
اس آیت میں ڈھیروں مال دینے کا تذکرہ ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ زیادہ مہر مقرر کرنا جائز ہے اگرچہ بہتر کم مہر ہے یا اتنا مہر کہ جس کی ادائیگی آسان ہو۔ حضرت سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک مرتبہ برسر منبر فرمایا: عورت کے مہر زیادہ مقرر نہ کرو۔ ایک عورت نے یہی آیت پڑھ کر کہا : اے امیر المؤمنین! اللہ ہمیں دیتا ہے اور تم منع کرتے ہو۔ اس پر حضرت عمرفاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا اے عمر! تم سے ہر شخص زیادہ سمجھ دار ہے، (اے لوگو!) تم جو چاہو مہر مقرر کرو۔ (مدارک، النساء، تحت الآیۃ: ۲۰، ص۲۱۹)
وَ كَیْفَ تَاْخُذُوْنَهٗ وَ قَدْ اَفْضٰى بَعْضُكُمْ اِلٰى بَعْضٍ وَّ اَخَذْنَ مِنْكُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا(21)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور تم وہ (مال) کیسے واپس لے سکتے ہو حالانکہ تم (تنہائی میں ) ایک دوسرے سے مل چکے ہو اور وہ تم سے مضبوط عہد (بھی) لے چکی ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ كَیْفَ تَاْخُذُوْنَهٗ :اور تم وہ (مال) کیسے واپس لے سکتے ہو۔} مہر کی واپسی کا بیان کرتے ہوئے مزید فرمایا تم وہ مال عورتوں سے کیسے واپس لے سکتے ہو حالانکہ تم تنہائی میں ایک دوسرے سے مل چکے ہو اور وہ تم سے مضبوط عہد بھی لے چکی ہیں۔ وہ عہد اللہ تعالیٰ کا یہ ارشا دہے:
فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍ (بقرہ: ۲۲۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: کہ اچھے طریقے سے انہیں رکھو گے اور اگرچھوڑو گے تو اچھے طریقے سے چھوڑو گے۔
خَلْوَتِ صحیحہ کی تعریف اور ا س کا حکم:
اس آیتِ مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خلوتِ صحیحہ ہو جانے سے پور امہر دینا پڑتا ہے۔ خلوتِ صحیحہ یہ ہے کہ میاں بیوی کسی ایسی جگہ جمع ہو جائیں جہاں ہم بستری کرنے سے کوئی چیز رکاوٹ نہ ہو۔ اس مسئلے کی مزید تفصیل کے لئے بہار شریعت حصہ 7کا مطالعہ کیجئے۔
وَ لَا تَنْكِحُوْا مَا نَكَحَ اٰبَآؤُكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَؕ-اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً وَّ مَقْتًاؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(22)
ترجمہ
اور اپنے باپ دادا کی منکوحہ سے نکاح نہ کروالبتہ جو پہلے ہوچکا (وہ معاف ہے۔) بیشک یہ بے حیائی اور غضب کا سبب ہے، اور یہ بہت برا راستہ ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ لَا تَنْكِحُوْا مَا نَكَحَ اٰبَآؤُكُمْ: اور اپنے باپ دادا کی منکوحہ سے نکاح نہ کرو۔} زما نہ ٔجاہلیت میں رواج تھا کہ باپ کے انتقال کے بعد بیٹا اپنی سگی ماں کو چھوڑ کر باپ کی دوسری بیوی سے شادی کر لیتا تھا، اس آیت میں ایسا کرنے سے منع کیا گیا۔(تفسیر قرطبی، النساء، تحت الآیۃ: ۲۲، ۳ / ۷۳، الجزء الخامس)
یہاں اگر نکاح سے مراد عَقدِ نکاح ہے تو معلوم ہوا کہ سوتیلی ماں سے نکاح حرام ہے اگرچہ باپ نے خلوت سے پہلے اسے طلاق دے دی ہو اور اگر نکاح سے مراد صحبت ہے تو معلوم ہوا کہ جس عورت سے اپنا باپ صحبت کرے خواہ نکاح کر کے یا زنا کی صورت میں یا لونڈی بنا کر بہر صورت وہ عورت بیٹے پر حرام ہے کیونکہ یہ بیٹے کی ماں کی طرح ہے۔
{مَا قَدْ سَلَفَ:جو ہو گزرا۔} یعنی جاہلیت کے زمانہ میں تم نے جو ایسے نکاح کر لئے اور اب وہ عورتیں مر بھی چکیں تم پر اس کا گناہ نہیں کیونکہ وہ گناہ قانون بننے سے پہلے تھے۔ یہاں ایک مسئلہ یاد رکھیں کہ اگر مجوسی اسلام لائے اور اس کے نکاح میں اپنی ماں یا بہن ہے تو اسے چھوڑ دینا فرض ہے لیکن اس نے زمانہ کفر میں جو نکاح کئے ہوں ، ان سے جو اولاد ہو چکی ہو وہ اولاد حلالی ہو گئی، کیونکہ کفار پر اس طرح کے شرعی احکام جاری نہیں۔
حُرِّمَتْ عَلَیْكُمْ اُمَّهٰتُكُمْ وَ بَنٰتُكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ وَ عَمّٰتُكُمْ وَ خٰلٰتُكُمْ وَ بَنٰتُ الْاَخِ وَ بَنٰتُ الْاُخْتِ وَ اُمَّهٰتُكُمُ الّٰتِیْۤ اَرْضَعْنَكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَ اُمَّهٰتُ نِسَآىٕكُمْ وَ رَبَآىٕبُكُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِكُمْ مِّنْ نِّسَآىٕكُمُ الّٰتِیْ دَخَلْتُمْ بِهِنَّ٘-فَاِنْ لَّمْ تَكُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ٘-وَ حَلَآىٕلُ اَبْنَآىٕكُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلَابِكُمْۙ-وَ اَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(23)
ترجمہ
تم پر حرام کردی گئیں تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں اور تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور تمہاری بھتیجیاں اور تمہاری بھانجیاں اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا اور دودھ (کے رشتے) سے تمہاری بہنیں اور تمہاری بیویوں کی مائیں اور تمہاری بیویوں کی وہ بیٹیاں جو تمہاری گود میں ہیں (جو اُن بیویوں سے ہوں ) جن سے تم ہم بستری کرچکے ہو پھر اگر تم نے ان (بیویوں ) سے ہم بستری نہ کی ہو تو ان کی بیٹیوں سے نکاح کرنے میں تم پر کوئی حرج نہیں اور تمہارے حقیقی بیٹوں کی بیویاں اور دو بہنوں کو اکٹھا کرنا (حرام ہے۔) البتہ جوپہلے گزر گیا۔ بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{حُرِّمَتْ عَلَیْكُمْ اُمَّهٰتُكُمْ:تم پر حرام کردی گئیں تمہاری مائیں۔}نسب کی وجہ سے سات عورتیں حرام ہیں وہ یہ ہیں
(1) ماں ، اسی طرح وہ عورت جس کی طرف باپ یا ماں کے ذریعے سے نسب بنتا ہو یعنی دادیاں ونانیاں خواہ قریب کی ہوں یا دور کی سب مائیں ہیں اور اپنی والدہ کے حکم میں داخل ہیں۔ سوتیلی ماؤں کی حرمت کا ذکر پہلے ہو چکا۔ (2) بیٹی، پوتیاں اور نواسیاں کسی درجہ کی ہوں بیٹیوں میں داخل ہیں۔ (3) بہن (4) پھوپھی (5) خالہ (6) بھتیجی (7) بھانجی، اس میں بھانجیاں ، بھتیجیاں اور ان کی اولاد بھی داخل ہے خلاصہ یہ ہے کہ اپنی اولاد اور اپنے اصول حرام ہیں۔ اس کی تصریح خود اسی آیت میں آگے آرہی ہے۔
{وَ اُمَّهٰتُكُمُ الّٰتِیْۤ اَرْضَعْنَكُمْ:تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا۔}رضاعی رشتے دودھ کے رشتوں کو کہتے ہیں۔ رضاعی ماؤں اور رضاعی بہن بھائیوں سے بھی نکاح حرام ہے بلکہ رضاعی بھتیجے، بھانجے، خالہ، ماموں وغیرہ سب سے نکاح حرام ہے۔ حدیثِ مبارک میں فرمایا گیا کہ جو رشتہ نسب سے حرام ہوتا ہے وہ رضاعت سے بھی حرام ہوتا ہے۔(بخاری، کتاب الشہادات، باب الشہادۃ علی الانساب۔۔۔ الخ، ۲ / ۱۹۱، الحدیث: ۲۶۴۵)
{وَ اُمَّهٰتُ نِسَآىٕكُمْ: اور تمہاری بیویوں کی مائیں۔} چار طرح کی عورتیں مُصاہَرت کی وجہ سے حرام ہیں اور وہ یہ ہیں (1) وہ بیوی جس سے صحبت کی گئی ہو ا س کی لڑکیاں۔ (2) بیوی کی ماں ، دادیاں ، نانیاں۔ (3) باپ داد ا وغیرہ ا صول کی بیویاں۔ (4) بیٹے پوتے وغیرہ فروع کی بیویاں۔
{وَ رَبَآىٕبُكُمْ:اور تمہاری سوتیلی بیٹیاں۔} جن بیویوں سے صحبت کر لی ہو ان کی دوسرے شوہر سے جو بیٹی ہو اس سے نکاح حرام ہے اگرچہ وہ شوہر کی پرورش میں نہ ہو کیونکہ پرورش کی قید اتفاقی ہے مگر یہ سوتیلی لڑکی صرف شوہر کیلئے حرام ہے، شوہر کی اولاد کے لئے حلال اور شوہر کیلئے بھی جب حرام ہے جبکہ بیوی سے صحبت کر لی ہواور اگر بغیر صحبت طلاق دی یا وہ فوت ہو گئی تو اس کی بیٹی حلال ہے۔
{وَ حَلَآىٕلُ اَبْنَآىٕكُمْ:تمہارے حقیقی بیٹوں کی بیویاں۔}اس سے معلوم ہوا کہ منہ بولے بیٹوں کی عورتوں کے ساتھ نکاح جائز ہے اور رضاعی بیٹے کی بیوی بھی حرام ہے کیونکہ وہ نسبی بیٹے کے حکم میں ہے اور پوتے پر پوتے بھی بیٹوں میں داخل ہیں۔
{وَ اَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ:اور دو بہنوں کو اکٹھاکرنا۔} یعنی ایک بہن نکاح میں موجود ہے اور دوسری سے نکاح کرلینا، یہ حرام ہے اور حدیث شریف میں پھوپھی بھتیجی اور خالہ بھانجی کونکاح میں جمع کرنا بھی حرام فرمایا گیا ہے۔ (بخاری، کتاب النکاح، باب لا تنکح المرأۃ علی عمّتہا، ۳ / ۴۳۵، الحدیث: ۵۱۰۹)
نوٹ تفصیلی معلومات کے لئے فتاوی رضویہ جلد نمبر 11سے اور بہار شریعت حصہ 7سے’’محرمات کا بیان ‘‘پڑھئے۔
وَّ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْۚ-كِتٰبَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْۚ-وَ اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَؕ-فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ مِنْهُنَّ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ فَرِیْضَةًؕ-وَ لَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیْمَا تَرٰضَیْتُمْ بِهٖ مِنْۢ بَعْدِ الْفَرِیْضَةِؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًا(24)
ترجمہ:
اور شوہر والی عورتیں تم پر حرام ہیں سوائے کافروں کی عورتوں کے جو تمہاری ملک میں آجائیں ۔ یہ تم پر اللہ کا لکھا ہواہے اور ان عورتوں کے علاوہ سب تمہیں حلال ہیں کہ تم انہیں اپنے مالوں کے ذریعے نکاح کرنے کو تلاش کرونہ کہ زنا کے لئے توان میں سے جن عورتوں سے نکاح کرناچاہو ان کے مقررہ مہر انہیں دیدو اور مقررہ مہر کے بعد اگر تم آپس میں (کسی مقدار پر) راضی ہوجاؤ تو اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں ۔ بیشک اللہ علم والا، حکمت والا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ:اور شوہر والی عورتیں۔} ان عورتوں کا بیان جاری ہے جن سے نکاح حرام ہے، یہاں بتایا جا رہا ہے کہ وہ عورت جس کا شوہر ہو وہ دوسرے مرد پر اس وقت تک حرام ہے جب تک پہلے کے نکاح یا اس کی عدت میں ہو البتہ کافروں کی وہ عورتیں جن کے مسلمان مالک بن جائیں وہ ان کے لئے حلال ہیں ، اس کی صورت یہ ہے کہ میدانِ جنگ سے کفار کی عورتیں گرفتار ہوں اور ان کے شوہر دارُ الحَرْب میں ہوں تو بادشاہِ اسلام یا لشکر کامجاز امیر ان عورتوں کو مجاہدین میں تقسیم کر دے اور جو قیدی عورت جس مجاہد کے حصے میں آئے وہ اس کے لئے حلال ہے کہ ملک مختلف ہونے کی وجہ سے ان کا سابقہ نکاح ختم ہو گیا، وہ عورت اگر حاملہ ہے تو وضع حمل کے بعد ورنہ ایک ماہواری آجانے کے بعد اس سے ہم بستری کر سکتا ہے۔
جنگی قیدیوں سے متعلق اسلام کی تعلیمات:
فی زمانہ جنگی قیدیوں کے ساتھ جو وحشیانہ سلوک کیا جاتا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ، ان پر جو ظلم و ستم ڈھائے جاتے ہیں ان کا تَصَوُّر تک لَرزا دینے والا ہوتا ہے۔ اسلام نے جنگی قیدیوں کے مسئلے میں ایسا بہترین حل پیش کیا کہ جس کی مثال کہیں نہیں ملتی، وہ یہ کہ جنگ میں قید ہونے والے مردوں کو غلام بنا لیا جائے اور عورتوں کو لونڈیاں ، پھر انہیں بھوکا پیاسا رکھنے، طرح طرح کی اذیتیں دینے یا دن رات ان سے جبری مزدوری لینے کی بجائے ان کے ساتھ حسنِ سلوک کی ہدایت کی، بلکہ فدیہ لئے بغیر یا فدیہ لے کر ہی سہی انہیں چھوڑ دینے کی ترغیب بھی دی، آزاد کرنے پر ثواب کی بے شمار بشارتیں سنائیں ، جنگی قیدیوں کو لونڈی غلام بنانا لازمی قرار نہیں دیا بلکہ مُکافاتِ عمل کے طور پر صرف اجازت دی کیونکہ اس دور میں جنگی قیدیوں کو لونڈی غلام بنانے کا رواج تھا جس کو اوپر بیان کردہ طریقوں کے مطابق تَدریجا ًختم کیا گیا۔
{وَ اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ:اور ان کے علاوہ سب تمہارے لئے حلال ہیں۔} یعنی جن عورتوں سے نکاح حرام ہے ان کے علاوہ تمام عورتوں سے نکاح حلال ہے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ مزید کچھ عورتیں ایسی ہیں کہ جن کا ذکر مذکورہ بالا آیات میں اگرچہ نہیں مگر ان سے نکاح حرام ہے جیسے چار عورتوں کے نکاح میں ہوتے ہوئے پانچویں سے نکاح، مُشرکہ عورت سے نکاح، تین طلاقیں دینے کے بعد حلالہ سے پہلے اسی عورت سے دوبارہ نکاح، اسی طرح پھوپھی بھتیجی، خالہ بھانجی کو ایک شخص کے نکاح میں جمع کرنا یونہی طلاق یا وفات کی عدت میں نکاح کرنا حرام ہے البتہ ان سے ہمیشہ کے لئے نکاح حرام نہیں ، نکاح میں جو رکاوٹ ہے وہ ختم ہونے کے بعد ان سے نکاح ہو سکتا ہے۔
{اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ:تم اپنے مالوں کے ذریعے تلاش کرو۔} عورت سے نکاح مہر کے بدلے کیا جائے اور اس نکاح سے مقصود محض لذت نفس اور شہوت پورا کرنا نہ ہو بلکہ اولاد کا حصول، نسل کی بقا اور اپنے نفس کو حرام سے بچانا مقصود ہو۔ یہاں زانی کو تنبیہ کی جا رہی ہے کیونکہ اس کے پیشِ نظر یہ باتیں نہیں ہوتیں بلکہ اس کا مقصود صرف نفسانی خواہش کی تکمیل ہوتا ہے اور یوں وہ اپنے نطفہ ا ور مال کو ضائع کرکے دین و دنیا کے خسارے میں گرفتار ہو جاتا ہے۔
مہر کے چندضروری مسائل:
اس آیت میں مہر کا ذکر ہوا اس مناسبت سے یہاں مہر سے متعلق چند ضروری مسائل ذکر کئے جاتے ہیں :
(1)…مہر کی کم از کم مقدار دس درہم ہے، چاندی میں ا س کا وزن دو تولے ساڑھے سات ماشے ہے، اس کی جو قیمت بنتی ہو وہ مہر کی کم از کم مقدار ہے، زیادہ کی کوئی حد نہیں باہمی رضا مندی سے جتنا چاہے مقرر کیا جاسکتا ہے لیکن یہ خیال رکھیں کہ مہر اتنا مقرر کریں جتنا دے سکتے ہوں۔
(2)…مہر کا مال ہونا ضروری ہے اور جو چیز مال نہیں وہ مہر نہیں بن سکتی، مثلا ًمہر یہ ٹھہرا کہ شوہر عورت کو قرآنِ مجید یا علمِ دین پڑھا دے گا تواس صورت میں مہرِ مثل واجب ہو گا۔
(3)… نکاح میں مہر کا ذکر ہی نہ ہوا یا مہر کی نفی کر دی کہ مہر کے بغیر نکاح کیا تو نکاح ہو جائے گا اور اگر خلوتِ صحیحہ ہو گئی یا دونوں میں سے کوئی مر گیا اور نکاح کے بعد میاں بیوی میں کوئی مہر طے نہیں پایا تھا تو مہرِ مثل واجب ہے ورنہ جو طے پایا تھا وہ واجب ہے۔ مہر سے متعلق تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے بہار شریعت حصہ 7کا مطالعہ کیجئے۔
{فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ مِنْهُنَّ: توان میں سے جن عورتوں سے نکاح کرنا چاہو۔} یعنی جن عورتوں سے تم شرعی نکاح کر کے جماع وغیرہ کافائدہ حاصل کرنا چاہو تو انہیں ان کے مقرر کردہ مہر ادا کرو۔
عورت سے نفع اٹھانے کی جائز صورتیں :
یاد رہے کہ اسلام میں عورت سے نفع اٹھانے کی صرف دو صورتیں جائز ہیں جو قرآنِ پاک میں بیان کی گئی ہیں : (1) شرعی نکاح کے ذریعے۔ (2) عورت جس صورت میں لونڈی بن جائے۔ لہٰذا اس کے علاوہ ہر صورت حرام ہے۔ شروعِ اسلام میں کچھ وقت کیلئے نکاح سے کچھ ملتا جلتا معاہدہ کرکے فائدہ اٹھانے کی اجازت تھی لیکن بعد میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسے قیامت تک کے لئے حرام فرما دیا۔ جیساکہ حضرت سَبُرَہ جُہَنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: اے لوگو! میں نے تمہیں عورتوں سے (متعہ کی صورت میں ) نفع اٹھانے کی اجازت دی تھی اور اب اللہ تعالیٰ نے اسے قیامت تک کے لئے حرام کر دیا ہے تو جس کے پاس کوئی ایسی عورت ہو وہ اسے چھوڑ دے اور جو انہیں دے چکے ہو اس میں سے کچھ نہ لو۔(مسلم، کتاب النکاح، باب نکاح المتعۃ وبیان انّہ ابیح ثمّ نسخ۔۔۔ الخ، ص۷۲۹، الحدیث: ۲۱(۱۴۰۶))
وَ مَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا اَنْ یَّنْكِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ فَمِنْ مَّا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ مِّنْ فَتَیٰتِكُمُ الْمُؤْمِنٰتِؕ-وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِاِیْمَانِكُمْؕ-بَعْضُكُمْ مِّنْۢ بَعْضٍۚ-فَانْكِحُوْهُنَّ بِاِذْنِ اَهْلِهِنَّ وَ اٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ مُحْصَنٰتٍ غَیْرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّ لَا مُتَّخِذٰتِ اَخْدَانٍۚ-فَاِذَاۤ اُحْصِنَّ فَاِنْ اَتَیْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَیْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِؕ-ذٰلِكَ لِمَنْ خَشِیَ الْعَنَتَ مِنْكُمْؕ-وَ اَنْ تَصْبِرُوْا خَیْرٌ لَّكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(25)
ترجمہ
اور تم میں سے جو کوئی اتنی قدرت نہ رکھتا ہو کہ آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کرسکے تو ان مسلمان کنیزوں سے نکاح کرلے جو تمہاری مِلک ہیں اور اللہ تمہارے ایمان کو خوب جانتا ہے۔ تم سب آپس میں ایک جیسے ہو تو ان کے مالکوں کی اجازت سے ان سے نکاح کرلو اور اچھے طریقے سے انہیں ان کے مہر دیدو اس حال میں کہ وہ نکاح کرنے والی ہوں ، نہ زنا کرنے والی اور نہ پوشیدہ آشنا بنانے والی۔ پھر جب ان کا نکاح ہوجائے تو اگر وہ کسی بے حیائی کا اِرتِکاب کریں تو ان پر آزاد عورتوں کی نسبت آدھی سزا ہے۔ یہ تم میں سے اس شخص کے لئے مناسب ہے جسے بدکاری (میں پڑجانے) کا اندیشہ ہے اورتمہارا صبر کرنا تمہارے لئے بہتر ہے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا:اور تم میں سے جو کوئی قدرت نہ رکھتا ہو۔} جو شخص آزاد عورت سے نکا ح کی قدرت اور وسعت نہ رکھتا ہو تو اسے چاہئے کہ وہ کسی مسلمان کی مومِنہ کنیز سے ا س کے مالک کی اجازت کے ساتھ نکاح کر لے۔ اپنی کنیز سے نکاح نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ مالک کے لئے نکاح کے بغیر ہی حلال ہے۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۲۵، ۱ / ۳۶۷)
باندی سے نکاح کرنے کے متعلق 2 شرعی مسائل:
(1)… جو شخص آزاد عورت سے نکاح کی قدرت رکھتا ہو اسے بھی مسلمان کنیز سے نکاح کرنا جائز ہے البتہ اگر آزاد عورت نکاح میں ہو تو اب باندی سے نکاح نہیں کر سکتا۔ (خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۲۵، ۱ / ۳۶۸)
(2)… احناف کے نزدیک کِتابِیَہ لونڈی سے نکاح بھی کر سکتا ہے جبکہ مومنہ کنیز کے ساتھ مستحب ہے۔ (مدارک، النساء، تحت الآیۃ: ۲۵، ص۲۲۲)
{وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِاِیْمَانِكُمْ:اوراللہ تمہارے ایمان کو خوب جانتا ہے۔} اہلِ عرب اپنے نسب پر فخر کرتے اور لونڈیوں سے نکا ح کو باعث ِعار سمجھتے تھے، ان کے اس خیال کی تردید کی گئی کہ نسب میں تم سب برابر ہو کہ سبھی حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد ہو لہٰذا لونڈیوں سے نکاح کرنا باعثِ شرم نہیں۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک قول یہ ہے کہ تم سب ایمان میں مُشْتَرَک ہو کہ تمہارا دین اسلام ہے اور ایمان والا ہونا بڑی فضیلت کا حامل ہے بلکہ فضیلت کا دارومدار تو ایمان اور تقویٰ پر ہے اس لئے جب لونڈیوں سے نکاح کی حاجت ہو تو شرماؤ نہیں ، ان کا ایمان والا ہونا کافی ہے۔ (تفسیرکبیر، النساء، تحت الآیۃ: ۲۵، ۴ / ۴۹، جمل، النساء، تحت الآیۃ: ۲۵، ۲ / ۳۹، ملتقطاً)
{فَاِنْ اَتَیْنَ بِفَاحِشَةٍ:تو اگر وہ کسی بے حیائی کا اِرْتِکاب کریں۔} نکاح کے بعد اگر لونڈی زنا کرے تو آزاد عورت کے مقابلے میں اس کی سزا آدھی ہے یعنی آزاد کنواری عورت زنا میں مُلَوَّث ہو تو اس کی سزا سو کوڑے ہے اور لونڈی کی سزا اس سے آدھی یعنی پچاس کوڑے ہے۔ لونڈی چاہے کنواری ہو یا شادی شدہ اس کی سزا پچاس کوڑے ہی ہے ،شادی شدہ لونڈی کو آزاد عورت کی طرح رَجم نہیں کیا جائے گا کیونکہ رجم میں تَنصِیف یعنی اس سزا کو آدھا کرنا ممکن نہیں۔(قرطبی، النساء، تحت الآیۃ: ۲۵، ۳ / ۱۰۲، الجزء الخامس)
{ذٰلِكَ لِمَنْ خَشِیَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ:یہ اس شخص کے لئے مناسب ہے جسے زنا کا اندیشہ ہے۔} یعنی آزاد عورت کی بجائے باندی سے نکاح کرنا اس شخص کے لئے مناسب ہے جسے غلبۂ شہوت کی وجہ سے زنا میں پڑجانے کاڈرہو اور اگر وہ اس خوف کے باوجود صبر کرے اور پرہیز گار رہے تو یہ بہتر ہے اور جہاں تک ممکن ہو لونڈی سے نکاح نہ کرے کیونکہ کنیز سے نکاح کرنے کی صورت میں جو اولاد ہو گی وہ اس کے مالک کی غلام بنے گی اور لونڈی اپنے مالک کی اجازت کے بغیر شوہر کی خدمت کے لئے بھی نہ آ سکے گی۔(بیضاوی، النساء، تحت الآیۃ: ۲۵، ۲ / ۱۷۴)
پھر اگر صبر نہیں کر سکتا تو لونڈی سے نکاح کر لے۔ یاد رہے کہ فی زمانہ بین الاقوامی طور پر مرد کو غلام اور عورت کو لونڈی بنانے کا قانون ختم ہو چکا ہے۔
نکاح کا شرعی حکم:
مرد کے لئے نکاح کا شرعی حکم یہ ہے کہ اعتدال کی حالت میں یعنی نہ شہوت کا زیادہ غلبہ ہو اور وہ نا مرد بھی نہ ہو، نیز مہر اور نان نفقہ دینے پر قدرت رکھتا ہو تو اس کے لئے نکاح کرنا سنتِ مؤکَّدہ ہے۔ لیکن اگر اسے زنا میں پڑنے کا اندیشہ ہے اور وہ زوجیت کے حقوق پورے کرنے پر قادر ہے تو اس کے لئے نکاح کرنا واجب ہے اور اگر اسے زنا میں پڑنے کا یقین ہو تو ا س پر نکاح کرنا فرض ہے۔ اگر اسے زوجیت کے حقوق پورے نہ کر سکنے کا اندیشہ ہو تو اس کانکاح کرنا مکروہ اور حقوق پورے نہ کرسکنے کا یقین ہو تو اس کے لئے نکاح کرنا حرام ہے۔ (بہار شریعت، حصہ ہفتم، ۲ / ۴-۵، ملخصاً)
عورت کے لئے نکاح کا شرعی حکم یہ ہے کہ جس عورت کو اپنے نفس سے اس بات کا خوف ہو کہ غالباً وہ شوہر کی اطاعت نہ کر سکے گی اور شوہر کے واجب حقوق اس سے ادا نہ ہو سکیں گے تو اسے نکاح کرنا ممنوع وناجائز ہے، اگر کرے گی تو گناہگار ہو گی۔ اگر اسے ان چیزوں کا خوف یقینی ہو تو اسے نکاح کرنا حرام قطعی ہے۔ جس عورت کو اپنے نفس سے ایسا خوف نہ ہو اسے اگر نکاح کی شدید حاجت ہے کہ نکاح کے بغیر مَعَاذَ اللہ گناہ میں مبتلاء ہو جانے کا ظنِ غالب ہے تو ایسی عورت کو نکاح کرنا واجب ہے اور اگر نکاح کے بغیر گناہ میں پڑنے کا یقین کلی ہو تو اس پر نکاح کرنا فرض ہے۔ اگر حاجت کی حالت اعتدال پر ہو یعنی نہ نکاح سے بالکل بے پروائی ہو، نہ اس شدت کا شوق ہو کہ نکاح کے بغیر گناہ میں پڑنے کا ظنِ غالب ہو تو ایسی حالت میں اس کے لئے نکاح کرنا سنت ہے جبکہ وہ اپنے آپ پر اس بات کا کافی اطمینان رکھتی ہو کہ ا س سے شوہر کی اطاعت ترک نہ ہوگی اور وہ شوہر کے حقوق اصلاً ضائع نہ کرے گی۔ (فتاوی رضویہ، ۱۲ / ۲۹۱-۲۹۳، ملخصاً)
یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُبَیِّنَ لَكُمْ وَ یَهْدِیَكُمْ سُنَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ یَتُوْبَ عَلَیْكُمْؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ(26)
ترجمہ
اللہ چاہتا ہے کہ اپنے احکام تمہارے لئے بیان کردے اور تمہیں تم سے پہلے لوگوں کے طریقے بتادے اور تم پر اپنی رحمت سے رجوع فرمائے اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یَهْدِیَكُمْ سُنَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ:اور تمہیں تم سے پہلے لوگوں کے طریقے بتادے۔} اس سے مراد یہ ہے کہ ما قبل آیات میں تمہارے لئے جو عورتیں حرام یا حلال ہیں بیان ہوئیں یہی عورتیں پچھلی شریعتوں میں بھی اسی طرح حرام و حلال تھیں۔ بعض مفسرین کے نزدیک اس سے مراد یہ ہے کہ تمہارے لئے جس کام میں بہتری ہے اللہ تعالیٰ وہ بیان کر دے جیسا کہ پہلے لوگوں سے بیان کیا تھا۔ (جمل، النساء، تحت الآیۃ: ۲۶، ۲ / ۴۱، خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۲۶، ۱ / ۳۶۹، ملتقطاً) اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ گزشتہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جو شرعی احکام قرآن یا حدیث میں تردید کے بغیر منقول ہوئے وہ ہمارے لئے بھی لائق عمل ہیں اور جوممانعت کے ساتھ نقل ہوئے ان پر ہمیں عمل جائز نہیں۔
وَ اللّٰهُ یُرِیْدُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْكُمْ- وَ یُرِیْدُ الَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الشَّهَوٰتِ اَنْ تَمِیْلُوْا مَیْلًا عَظِیْمًا(27)
ترجمہ
اور اللہ تم پر اپنی رحمت سے رجوع فرمانا چاہتا ہے اور جو لوگ اپنی خواہشات کی پیروی کررہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم سیدھی راہ سے بہت دور ہوجاؤ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یُرِیْدُ الَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الشَّهَوٰتِ:اور جو لوگ نفسانی خواہشات کی پیروی کررہے ہیں۔} شانِ نزول: یہود و نصاریٰ اور مجوسی بھائی اور بہن کی بیٹیوں سے نکاح حلال سمجھتے تھے جب اللہ تعالیٰ نے ان سے نکاح کرنے کوحرام فرمایا تو وہ مسلمانوں سے کہنے لگے کہ جس طرح آپ خالہ اور پھوپھی کی بیٹی سے نکاح جائز سمجھتے ہو جبکہ خالہ اور پھوپھی تم پر حرام ہے اسی طرح تم بھائی اور بہن کی بیٹیوں سے بھی نکاح کرو۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ تم بھی ان کی طرح زنا میں پڑ جاؤ۔ (مدارک، النساء، تحت الآیۃ: ۲۷، ص۲۲۳، تفسیر کبیر، النساء، تحت الآیۃ: ۲۷، ۴ / ۵۴-۵۵، جلالین، النساء، تحت الآیۃ: ۲۷، ص۷۵، ملتقطاً)
یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّخَفِّفَ عَنْكُمْۚ-وَ خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا(28)
ترجمہ
اللہ چاہتا ہے کہ تم پرآسانی کرے اور آدمی کمزور بنایا گیا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّخَفِّفَ عَنْكُمْ:اللہ چاہتا ہے کہ تم پرآسانی کرے۔} اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے بندوں پر آسانی چاہتا ہے اسی لئے انہیں نرم احکام عطا فرماتا ہے اور کئی جگہ رخصتیں عطا فرماتا ہے، لوگوں کی طاقت کے مطابق ہی انہیں حکم دیتا ہے اور ان کے فطری تقاضوں کی رعایت فرماتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسان فطری طور پر کمزور پیدا کیا گیا ہے اوراسی فطری کمزوری کا یہ نتیجہ ہے کہ مرد عورت کی طرف بڑی جلدی مائل ہو جاتا ہے، اس کے لئے عورت اور شہوت سے صبر دشوار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر رحم فرماتے ہوئے مردوں کے لئے عورتوں سے شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے نفع اٹھانے کی اجازت دی اور صرف ان عورتوں سے منع کیا جن سے نفع اٹھانے میں فسادِ عظیم اور بڑے نقصان کا خدشہ تھا۔ اسی لئے مُتقی، پرہیزگار اور گناہوں کا تقاضا اور موقع موجود ہونے کے باوجود گناہوں سے بچ رہنے والے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں بڑے محبوب ہیں کہ انہوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا کیلئے اپنی کمزوری کا مقابلہ کیا اور اپنی خواہشات کو پس پشت ڈالا۔ ترغیب کیلئے ایک ایسے ہی متقی بزرگ کا واقعہ پیشِ خدمت ہے:
مشک کی خوشبو میں بسے ہوئے بزرگ:
بصرہ میں ایک بزرگ مِسکی یعنی ’’مشک کی خوشبو میں بسا ہوا ‘‘ کے نام سے مشہور تھے، کسی نے بَاِ صْرار اس خوشبو سے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا ’’ میں کوئی خوشبو نہیں لگاتا، میرا قصہ بڑا عجیب ہے، میں بغدادِ معلیٰ کا رہنے والا ہوں ، جوانی میں بہت حسین وجمیل تھا اور صاحبِ شرم و حیاء بھی۔ ایک کپڑے والے کی دوکان پر میں نے ملازمت اختیار کی، ایک روز ایک بڑھیا آئی اور اس نے کچھ قیمتی کپڑے نکلوائے اور دوکاندار سے کہا: میں ان کپڑوں کو گھر لے جانا چاہتی ہوں ، اس نوجوان کو میرے ساتھ بھیج دیں ، جوکپڑے پسند آئیں گے وہ رکھ لیں گے پھر ان کی قیمت اور بقیہ کپڑے اس نوجوان کے ہاتھ بھیج دیں گے۔ چنانچہ مالک ِدکان کے کہنے پر میں بڑھیا کے ساتھ ہو لیا۔ وہ مجھے ایک عالیشان کوٹھی پر لے آئی اور مجھے ایک کمرے میں بٹھا دیا۔ کچھ دیر بعد ایک نوجوان عورت کمرے میں داخل ہوئی اور اس نے کمرے کا دروازہ بند کر دیا، پھر میرے قریب بیٹھ گئی، میں گھبرا کر نگاہیں نیچی کئے فورا ًوہاں سے ہٹ گیا مگر اس پر شہوت سوار تھی وہ میرے پیچھے پڑ گئی، میں نے بہت کہا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈر ،وہ ہمیں دیکھ رہا ہے لیکن وہ میرے ساتھ منہ کالا کرنے پر مُصِرّ تھی۔ میرے ذہن میں اس گناہ سے بچنے کی ایک تجویز آئی تو میں نے اس سے کہا: مجھے بیتُ الْخَلاء جانے دو، اس نے اجازت دے دی۔ میں نے بیت الخلاء میں جا کر دل مضبوط کر کے وہاں کی نجاست اپنے ہاتھ منہ اور کپڑوں پر مل لی، اب جوں ہی باہر آیا تو میری عاشقہ گھبرا کر بھاگی اور کوٹھی میں ’’پاگل، پاگل‘‘ کا شور اٹھا۔ میں نے وہاں سے بھاگ کر ایک باغ میں پناہ لی، غسل کیا اور کپڑے پاک کر کے وہاں سے چل دیا۔ رات جب میں سویا تو خواب میں دیکھا کہ کوئی آیا ہے اور میرے چہرے اور لباس پر اپنا ہاتھ پھیر رہا ہے اور کہہ رہا ہے: مجھے جانتے ہو میں کون ہوں ؟سنو! میں جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام ہوں۔ جب میری آنکھ کھلی تو میرے سارے بدن اور لباس میں خوشبو آ رہی تھی جو آج تک قائم ہے اور یہ سب حضرت سیدنا جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام کے ہاتھ کی برکت ہے۔(روض الریاحین،الحکایۃ السابعۃ عشرۃ بعد الاربع مائۃ، ص۳۳۴-۳۳۵)
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ- وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا(29)
ترجمہ
اے ایمان والو! باطل طریقے سے آپس میں ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ البتہ یہ (ہو) کہ تمہاری باہمی رضامندی سے تجارت ہو اور اپنی جانوں کو قتل نہ کرو۔ بیشک اللہ تم پر مہربان ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ:باطل طریقے سے آپس میں ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ۔} نکاح کے ذریعے نفس میں تصرف کی وضاحت کے بعد اب مال میں تصرف کا شرعی طریقہ بیان کیا جا رہا ہے، اس آیت میں باطل طریقے سے مراد وہ طریقہ ہے جس سے مال حاصل کرنا شریعت نے حرام قرار دیا ہے جیسے سود، چوری اور جوئے کے ذریعے مال حاصل کرنا، جھوٹی قسم، جھوٹی وکالت، خیانت اور غصب کے ذریعے مال حاصل کرنا اور گانے بجانے کی اجرت یہ سب باطل طریقے میں داخل اور حرام ہے۔ یونہی اپنا مال باطل طریقے سے کھانا یعنی گناہ و نافرمانی میں خرچ کرنا بھی اس میں داخل ہے۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۲۹، ۱ / ۳۷۰)
اسی طرح رشوت کا لین دین کرنا، ڈنڈی مار کر سودا بیچنا، ملاوٹ والا مال فروخت کرنا، قرض دبا لینا، ڈاکہ زنی، بھتہ خوری اور پرچیاں بھیج کر ہراساں کر کے مال وصول کرنا بھی اس میں شامل ہے۔
حرام مال کمانے کی مذمت:
حرام کمانا اور کھانا اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں سخت ناپسندیدہ ہے اور احادیث میں اس کی بڑی سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں ، ان میں سے 4 احادیث درج ذیل ہیں ،
(1)… حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے، اگر اُس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اُس کے لیے اُ س میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ کر مرے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے۔ اللہ تعالیٰ برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا، ہاں نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے۔ بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا۔ (مسند امام احمد، مسند عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ، ۲ / ۳۳، الحدیث: ۳۶۷۲)
(2)…حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرورِکائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اُس جسم پر جنت حرام فرما دی ہے جو حرام غذا سے پلا بڑھا ہو۔ (کنز العمال، کتاب البیوع، قسم الاقوال، ۲ / ۸، الجزء الرابع، الحدیث: ۹۲۵۷)
(3)… تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ارشاد فرمایا: ’’اے سعد ! اپنی غذا پاک کر لو! مُستَجابُ الدَّعْوات ہو جاؤ گے، اس ذاتِ پاک کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کی جان ہے! بندہ حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اس کے 40دن کے عمل قبول نہیں ہوتے اور جس بندے کا گوشت حرام سے پلا بڑھا ہواس کے لئے آگ زیادہ بہترہے۔ (معجم الاوسط، من اسمہ محمد، ۵ / ۳۴، الحدیث: ۶۴۹۵)
(4)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے،اس کے بال پَراگندہ اور بدن غبار آلود ہے اور وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر یا رب! یارب! پکار رہا ہے حالانکہ اس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام ، اور غذا حرام ہو پھر اس کی دعا کیسے قبول ہو گی۔ (مسلم، کتاب الزکاۃ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب وتربیتہا، ص۵۰۶، الحدیث: ۶۵(۱۰۱۵))
{اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ:مگریہ کہ تمہاری باہمی رضامندی سے تجارت ہو۔} یعنی باہمی رضامندی سے جو تجارت کرو وہ تمہارے لئے حلال ہے۔ باہمی رضامندی کی قید سے معلوم ہوا کہ خرید و فروخت کی وہ تمام صورتیں جن میں فریقین کی رضامندی نہ ہو درست نہیں جیسے اکثرضبط شدہ چیزوں کی نیلامی خریدنا کہ اس میں مالک راضی نہیں ہوتا یونہی کسی کی دکان ،مکان زمین یا جائیداد پر جبری قبضہ کر لینا حرام ہے۔ یاد رہے کہ مال کا مالک بننے کے تجارت کے علاوہ اور بھی بہت سے جائز اَسباب ہیں جیسے تحفے کی صورت میں ، وصیت یا وراثت میں مال حاصل ہو تو یہ بھی جائز مال ہے ۔ تجارت کا بطورِ خاص اس لئے ذکر کیا گیا کہ یہ مالک بننے کی اختیاری صورت ہے۔
تجارت کے فضائلـ:
احادیث میں تجارت کے بے شمار فضائل بیان کئے گئے ہیں ، ان میں سے 4 احادیث درج ذیل ہیں:
(1)… حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’سچا اور امانت دار تاجر انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہو گا۔ (ترمذی، کتاب البیوع، باب ما جاء فی التجار وتسمیۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ایاہم، ۳ / ۵، الحدیث: ۱۲۱۲)
(2)… حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’پاکیزہ کمائی ان تاجروں کی ہے جو گفتگو کے وقت جھوٹ نہیں بولتے، وعدہ کریں تو خلاف ورزی نہیں کرتے، جب ان کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت نہیں کرتے، جب کوئی چیز خریدیں تو اس کی برائی بیان نہیں کرتے اور جب کچھ بیچیں تو ا س کی تعریف نہیں کرتے، جب ان پر کسی کا آتا ہو تو دینے میں پس و پیش نہیں کرتے اور جب انہوں نے کسی سے لینا ہو تو اس پر تنگی نہیں کرتے۔(در منثور، النساء، تحت الآیۃ: ۲۹، ۲ / ۴۹۵)
(3)… حضرت رفاعہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت کے دن تاجر فاسق اٹھائے جائیں گے سوا ئے اس تاجر کے جو اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرے ،بھلائی کرے اور سچ بولے۔ (ترمذی، کتاب البیوع، باب ما جاء فی التجار وتسمیۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ایاہم، ۳ / ۵، الحدیث: ۱۲۱۴)
(4)… حضرت حذیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: تم سے پہلے لوگوں میں ایک شخص تھا جس کے پاس اس کی روح قبض کرنے فرشتہ آیا تو اس سے کہا گیا: کیا تو نے کوئی نیکی کی ہے؟ وہ بولا: میں نہیں جانتا ۔اس سے کہا گیا :غور تو کر۔ کہنے لگا: اس کے سوا کچھ اور نہیں جانتا کہ میں دنیا میں لوگوں سے تجارت کرتا تھا اور ان سے (اپنی رقم کا) تقاضا کرتا تو امیر کو مہلت دیتا تھا اور غریب کو معاف کر دیتا تھا، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’اے فرشتو! اس سے درگزر کرو ۔(مسند امام احمد ،حدیث حذیفۃ بن الیمان، ۹ / ۹۸، الحدیث: ۲۳۴۱۳، مسلم، کتاب المساقاۃ والمزارعۃ، باب فضل انظار المعسر، ص۸۴۳، الحدیث: ۲۶(۱۵۶۰))
تجارت کے آداب:
اس سے پہلے تجارت کے فضائل بیان کئے گئے اور ذیلی سطور میں تجارت کے 14 آداب بیان کئے گئے ہیں جن میں سے اکثر آداب ایسے ہیں جن پر عمل کرنا ہر تاجر کے لئے شرعا ًلازم ہے۔
(1)…تاجر کو چاہئے کہ وہ روزانہ صبح کے وقت اچھے ارادے یعنی نیتیں دل میں تازہ کرے کہ بازار اس لئے جاتا ہوں تاکہ حلال کمائی سے اپنے اہل وعیال کی شِکم پروری کروں اور وہ مخلوق سے بے نیاز ہو جائیں اور مجھے اتنی فراغت مل جائے کہ میں اللہ تعالیٰ کی بندگی کرتا رہوں اورراہِ آخرت پر گامزن رہوں۔ نیز یہ بھی نیت کرے کہ میں مخلوق کے ساتھ شفقت، خلوص اور امانت داری کروں گا، نیکی کا حکم دوں گا، برائی سے منع کروں گا اور خیانت کرنے والے سے باز پُرس کروں گا۔
(2)…تجارت کرنے والا جعلی اور اصلی نوٹوں کو پہچاننے کا طریقہ سیکھے اور نہ خود جعلی نوٹ لے نہ کسی اور کو دے تاکہ مسلمانوں کا حق ضائع نہ ہو ۔
(3)…اگر کوئی جعلی نوٹ دے جائے (اور دینے والے کا پتا نہ چلے) تو وہ کسی اور کو نہیں دینا چاہئے (اور اگر دینے والے کاپتا چل جائے تو اسے بھی وہ جعلی نوٹ واپس نہیں دینا چاہئے) بلکہ پھاڑ کے پھینک دے تاکہ وہ کسی اور کو دھوکہ نہ دے سکے۔
(4)…اپنے مال کی حد سے زیادہ تعریف نہ کرے کہ یہ جھوٹ اور فریب ہے اور اگر خریدار اس مال کی صفات سے پہلے ہی آگاہ ہو تو اس کی جائز اور صحیح تعریف بھی نہ کرے کہ یہ فضول ہے۔
(5)… عیب دار مال ہی نہ خریدے اگر خریدے تو دل میں یہ عہد کرے کہ میں خریدار کو تمام عیب بتا دوں گا اور اگر کسی نے مجھے دھوکہ دیا تو اس نقصان کو اپنی ذات تک محدود رکھوں گا دوسروں پر نہ ڈالوں گا کیونکہ جب یہ خود دھوکہ باز پر لعنت کر رہا ہے تو اپنی ذات کو دوسروں کی لعنت میں شامل نہیں کرنا چاہئے۔
(6)…اگر اپنے پاس موجود صحیح مال میں کوئی عیب پیدا ہو گیا تو اسے گاہک سے نہ چھپائے ورنہ ظالم اور گناہگار ہو گا۔
(7)…وزن کرنے اور ناپنے میں فریب نہ کرے بلکہ پورا تولے اور پورا ناپے۔
(8)…اصل قیمت کو چھپا کر کسی آدمی کو قیمت میں دھوکہ نہیں دینا چاہئے۔
(9)…بہت زیادہ نفع نہ لے اگرچہ خریدار کسی مجبوری کی وجہ سے اس زیادتی پر راضی ہو۔
(10)… محتاجوں کا مال زیادہ قیمت سے خریدے تاکہ انہیں بھی مسرت نصیب ہو جیسے بیوہ کا سُوت اور وہ پھل جو فقراء کے ہاتھ سے واپس آیا ہو کیونکہ اس طرح کی چشم پوشی صدقہ سے بھی زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔
(11)…قرض خواہ کے تقاضے سے پہلے اس کا قرض ادا کر دے اور اسے اپنے پاس بلا کر دینے کی بجائے اس کے پاس جا کر دے۔
(12)…جس شخص سے معاملہ کرے ،اگر وہ معاملہ کے بعد پریشان ہو تو ا س سے معاملہ فسخ کر دے ۔
(13)…دنیا کا بازار اسے آخرت کے بازار سے نہ روکے اور آخرت کا بازار مساجد ہیں۔
(14)…بازار میں زیادہ دیر رہنے کی کوشش نہ کرے مثلا ًسب سے پہلے جائے اور سب کے بعد آئے۔(کیمیائے سعادت، رکن دوم در معاملات، اصل سوم آداب کسب، ۱ / ۳۲۶-۳۴۰، ملتقطاً)
{وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ:اور اپنی جانوں کو قتل نہ کرو۔} یعنی ایسے کام کر کے جو دنیا و آخرت میں ہلاکت کا باعث ہوں اپنی جانوں کو قتل نہ کرو۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۲۹، ۱ / ۳۷۰)
خود کو ہلاک کرنے کی صورتیں :
خود کو ہلاک کرنے کی مختلف صورتیں ہیں ، اور ان میں سے 4 صورتیں درج ذیل ہیں :
(1)… مسلمانوں کا ایک دوسرے کو قتل کرنا خود کو ہلاک کرنا ہے کیونکہ احادیث میں مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند فرمایا گیا ہے، جیسا کہ حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تم مسلمانوں کو دیکھو گے کہ وہ ایک دوسرے پر رحم کرنے، دوستی رکھنے اور شفقت کا مظاہرہ کرنے میں ایک جسم کی مانند ہوں گے چنانچہ جسم کے جب کسی بھی حصہ کو تکلیف پہنچتی ہے تو سارا جسم جاگنے اور بخار وغیرہ میں اس کا شریک ہوتا ہے۔(بخاری، کتاب الادب، باب رحمۃ الناس والبہائم، ۴ / ۱۰۳، الحدیث: ۶۰۱۱)
حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ہی روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ مسلمان (باہم) ایک شخص کی طرح ہیں ، اگر اس کی آنکھ میں تکلیف ہو تو اس کے سارے جسم کو تکلیف ہوتی ہے اور اگر اس کے سر میں تکلیف ہو تو اس کے سارے جسم کو تکلیف ہوتی ہے ۔(مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تراحم المؤمنین وتعاطفہم وتعاضدہم، ص۱۳۹۶، الحدیث: ۶۷(۲۵۸۶))
جب مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں تو ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کو قتل کرنا ایسا ہے جیسے ا س نے خود کو قتل کیا۔
(2)…ایسا کام کرنا جس کی سز امیں اسے قتل کر دیا جائے جیسے کسی مسلمان کو قتل کرنا، شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کرنا یامُرْتَدْہونا بھی خود کو ہلاک کرنے کی صورتیں ہیں۔ یاد رہے کہ زنا کرنا اور کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا کبیرہ گنا ہ ہے، زنا کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(بنی اسرائیل:۳۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بیشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی برا راستہ ہے۔
اور کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والے کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(النساء:۹۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کردے تو اس کا بدلہ جہنم ہے عرصہ دراز تک اس میں رہے گااور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
اورمُرْتَدْ ہونے والوں کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَیَمُتْ وَ هُوَ كَافِرٌ فَاُولٰٓىٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(بقرہ:۲۱۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور تم میں جو کوئی اپنے دین سے مرتد ہوجائے پھر کافر ہی مرجائے تو ان لوگوں کے تمام اعمال دنیا و آخرت میں برباد ہوگئے اور وہ دوزخ والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
(3)… خود کو ہلاک کرنے کی تیسری صورت خود کشی کرنا ہے۔ خود کشی بھی حرام ہے ۔حدیث شریف میں ہے: حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ جس نے اپنا گلا گھونٹا تو وہ جہنم کی آگ میں اپنا گلا گھونٹتا رہے گا اور جس نے خود کو نیزہ مارا وہ جہنم کی آگ میں خود کو نیزہ مارتا رہے گا۔(بخاری، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی قاتل النفس، ۴ / ۴۶۰، الحدیث: ۱۳۶۵)
ان ہی سے روایت ہے، سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو پہاڑ سے گر کر خود کشی کرے گا وہ نارِ دوزخ میں ہمیشہ گرتا رہے گا اور جو شخص زہر کھا کر خود کشی کرے گا وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ زہر کھاتا رہے گا۔ جس نے لوہے کے ہتھیار سے خود کشی کی تو دوزخ کی آگ میں وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہو گا اور وہ اس سے اپنے آپ کو ہمیشہ زخمی کرتا رہے گا ۔(بخاری، کتاب الطب، باب شرب السمّ والدواء بہ۔۔۔ الخ، ۴ / ۴۳، الحدیث: ۵۷۷۸)
(4)…ایسا کام کرناجس کے نتیجے میں کام کرنے والا دنیا یا آخرت میں ہلاکت میں پڑجائے جیسے بھوک ہڑتال کرنا یا باطل طریقے سے مال کھانا وغیرہ۔ چنانچہ حضرت عمرو بن عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ مجھے غزوۂ ذاتُ السلاسل کے وقت ایک سرد رات میں احتلام ہو گیا، مجھے غسل کرنے کی صورت میں ( سردی سے) ہلاک ہونے کا خوف لاحق ہوا تو میں نے تیمم کر لیا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ فجر کی نماز پڑھ لی۔ انہوں نے نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اس کا ذکر کیا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ اے عمرو! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، تم نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ا س حال میں نماز پڑھ لی کہ تم جنبی تھے۔ میں نے غسل نہ کرنے کا عذر بیان کیا اور عرض کی :میں نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سنا ہے:
وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا(النساء:۲۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اپنی جانوں کو قتل نہ کرو، بیشک اللہ تم پر مہربان ہے۔
یہ سن کر حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسکرا دئیے اور کچھ نہ فرمایا۔(ابو داؤد، کتاب الطہارۃ، باب اذا خاف الجنب البرد۔۔۔ الخ، ۱ / ۱۵۳، الحدیث: ۳۳۴)
وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ عُدْوَانًا وَّ ظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِیْهِ نَارًاؕ-وَ كَانَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرًا(30)
ترجمہ
اور جو ظلم و زیادتی سے ایسا کرے گا تو عنقریب ہم اسے آگ میں داخل کریں گے اور یہ اللہ پر بہت آسان ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ عُدْوَانًا وَّ ظُلْمًا:اور جو ظلم و زیادتی سے ایسا کرے گا ۔} یہاں ظلم و زیادتی کی قید اس لئے لگائی کہ جن صورتوں میں مومن کا قتل جائز ہے اس صورت میں قتل کرنا جرم نہیں جیسےمُرْتَد کو سزا میں یا قاتل کو قِصاص میں یا شادی شدہ زانی کو سنگسار کرنے میں یا ڈاکو کو مقابلے یا سزا میں یا باغیوں کو لڑائی میں قتل کرنا یہ سب حکومت کیلئے جائز ہے بلکہ حکومت کو اس کا حکم ہے۔ قتل کے بارے میں مزید تفصیل سورہ مائدہ کی متعدد آیات کے تحت آئے گی۔
اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَآىٕرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ نُدْخِلْكُمْ مُّدْخَلًا كَرِیْمًا(31)
ترجمہ
اگر کبیرہ گناہوں سے بچتے رہو جن سے تمہیں منع کیا جاتا ہے تو ہم تمہارے دوسرے گناہ بخش دیں گے اور تمہیں عزت کی جگہ داخل کریں گے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَآىٕرَ:اگر کبیرہ گناہوں سے بچتے رہو ۔} اس سے پہلی آیات میں بعض کبیرہ گناہ کرنے پر وعید بیان کی گئی اور اس آیت میں کبیرہ گناہوں سے بچنے پر (صغیرہ گناہ بخشنے اور عزت کی جگہ داخل کرنے کا) وعدہ ذکر کیا گیا ہے۔ (البحر المحیط، النساء، تحت الآیۃ: ۳۰، ۳ / ۲۴۳)
کبیرہ گناہ کی تعریف اور تعداد:
کبیرہ گناہ کی تعریف یہ ہے کہ وہ گناہ جس کا مُرْتَکِب قرآن وسنت میں بیان کی گئی کسی خاص سخت وعید کا مستحق ہو۔(الزواجر، مقدمۃ فی تعریف الکبیرۃ، ۱ / ۱۲)
کبیرہ گناہوں کی تعداد مختلف بیان کی گئی ہے چنانچہ 7، 10، 17، 40 اور 700 تک بیان کی گئی ہے۔
گناہوں سے متعلق3 احادیث:
(1)… حضرت ابو ثعلبہ خُشَنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ نے کچھ فرائض مقرر کئے ہیں لہٰذا تم انہیں ہرگز ضائع نہ کرو، کچھ چیزیں حرام کی ہیں انہیں ہرگز ہلکا نہ جانو، کچھ حدیں قائم کی ہیں تم ہرگزان سے تجاوز نہ کرو، اور اس نے تم پر رحمت فرماتے ہوئے جان بوجھ کر کچھ چیزوں کے متعلق کچھ نہیں فرمایاتوان کی جستجونہ کرو۔(دار قطنی، کتاب الرضاع، ۴ / ۲۱۷، الحدیث: ۴۳۵۰)
(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جب بندہ کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگا دیا جاتا ہے، جب وہ اس گناہ سے باز آجاتا ہے اور توبہ واستغفار کر لیتا ہے تو ا س کادل صاف ہوجاتا ہے اور اگر وہ پھر گناہ کرتا ہے تو وہ نقطہ بڑھتا ہے یہاں تک کہ پورا دل سیاہ ہو جاتا ہے۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ ویل للمطففین، ۵ / ۲۲۰، الحدیث: ۳۳۴۵)
(3)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : ’’اے گناہ گار! تُو گناہ کے انجامِ بد سے کیوں بے خوف ہے؟ حالانکہ گناہ کی طلب میں رہنا گناہ کرنے سے بھی بڑا گناہ ہے، تیرا دائیں ، بائیں جانب کے فرشتوں سے حیا نہ کرنا اور گناہ پرقائم رہنا بھی بہت بڑا گناہ ہے یعنی توبہ کئے بغیر تیرا گناہ پر قائم رہنا اس سے بھی بڑا گناہ ہے، تیرا گناہ کرلینے پر خوش ہونا اور قہقہہ لگانا اس سے بھی بڑا گناہ ہے حالانکہ تو نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ تیرے ساتھ کیا سلوک فرمانے والا ہے، اور تیرا گناہ میں ناکامی پر غمگین ہونا اس سے بھی بڑاگناہ ہے، گناہ کرتے ہوئے تیز ہوا سے دروازے کا پردہ اٹھ جائے تو تو ڈر جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کی اس نظر سے نہیں ڈرتا جو وہ تجھ پر رکھتا ہے تیرا یہ عمل اس سے بھی بڑا گناہ ہے۔(الزواجر، مقدمۃ فی تعریف الکبیرۃ، ۱ / ۲۷)
کبیرہ گناہوں کے بارے میں مشہور حدیث:
بڑے بڑے کبیرہ گناہوں کے بارے میں مشہور حدیث یہ ہے: حضرت عمرو بن حزم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عالیشان ہے :’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑے گناہ یہ ہوں گے: (1) اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ شرک کرنا۔ (2) مسلمان کو ناحق قتل کرنا۔ (3) جنگ کے دن راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں جہاد سے فرار ہونا۔ (4) والدین کی نافرمانی کرنا۔ (5) پاکدامن عورتوں پر تہمت لگا نا۔ (6) جادو سیکھنا۔ (7) سود کھانا اور (8) یتیم کا مال کھانا۔(سنن الکبری للبیہقی، کتاب الزکاۃ، باب کیف فرض الصدقۃ، ۴ / ۱۴۹، الحدیث: ۷۲۵۵)
چالیس گناہوں کی فہرست:
یہاں مسلمانوں کے فائدے کیلئے ہم چالیس گناہوں کی ایک فہرست بیان کرتے ہیں جن میں اکثر کبیرہ ہیں تاکہ کم از کم یہ تو علم ہو کہ یہ گناہ ہیں اور ہمیں ان سے بچنا ہے۔ (1)اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک ٹھہرانا۔ (2) ریاکاری۔ (3) کینہ۔ (4) حسد۔ (5) تکبر۔ (6) اور خود پسندی میں مبتلا ہونا۔ (7) تکبر کی وجہ سے مخلوق کو حقیر جاننا۔ (8) بد گمانی کرنا۔ (9) دھوکہ دینا۔ (10) لالچ۔ (11) حرص۔ (12) تنگدستی کی وجہ سے فقراء کا مذاق اڑانا۔ (13) تقدیر پر ناراض ہونا۔ (14) گناہ پر خوش ہونا۔ (15) گناہ پر اصرار کرنا۔ (16) نیکی کرنے پر تعریف کا طلبگار ہونا۔ (17) حیض والی عورت سے صحبت کرنا۔ (18) جان بوجھ کر نماز چھوڑ دینا۔ (19) صف کو سیدھا نہ کرنا۔ (20) نماز میں امام سے سبقت کرنا۔ (21) زکٰوۃ ادا نہ کرنا۔ (22) رمضان کا کوئی روزہ چھوڑ دینا۔ (23) قدرت کے باوجود حج نہ کرنا۔ (24) ریشمی لباس پہننا۔ (25) مرد و عورت کا ایک دوسرے سے مشابہت اختیار کرنا۔ (26) عورتوں کا باریک لباس پہننا۔ (27) اترا کر چلنا۔ (28) مصیبت کے وقت چہرہ نوچنا، تھپڑ مارنا یا گریبان چاک کرنا۔ (29) مقروض کو بلا وجہ تنگ کرنا۔ (30) سود لینا دینا۔ (31) حرام ذرائع سے روزی کمانا۔ (32) ذخیرہ اندوزی۔ (33) شراب بنانا، پینا، بیچنا۔ (34) ناپ تول میں کمی کرنا۔ (35) یتیم کا مال کھانا۔ (36) گناہ کے کام میں مال خرچ کرنا۔ (37) مشترکہ کاروبار میں ایک شریک کا دوسرے سے خیانت کرنا۔ (38) غیر کے مال پر ظلماً قابض ہو جانا۔ (39) اجرت دینے میں تاخیر کرنا۔ (40) اور امانت میں خیانت کرنا۔ یہ چندباطنی اور ظاہری گناہ ذکر کئے ہیں ، ان سب گناہوں کی معلومات حاصل کرنا اور ان کے احکام سیکھنا ضروری ہے۔ افسوس کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو ان گناہوں کی تعریفیں تک یاد نہیں کہ یہ ہوتے کیا ہیں؟
{نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ: ہم تم سے دوسرے گناہ مٹا دیں گے۔} ارشاد فرمایا کہ اگر تم کبیرہ گناہوں سے بچتے رہو گے اور اس کے ساتھ دیگر عبادات بجالاتے رہو گے تو ہم تمہارے دوسرے صغیرہ گناہوں کو اپنے فضل سے معاف فرما دیں گے اور تمہیں عزت کی جگہ یعنی جنت میں داخل کریں گے۔ یاد رہے کہ یہ معاملہ بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی مَشِیَّت اور مرضی پر ہے۔ یہ بیان صغیرہ گناہوں کے متعلق ہے، کبیرہ گناہ توبہ ہی سے معاف ہوتے ہیں ، البتہ حجِ مقبول پر بھی یہ بشارت ہے۔ اس کی مزید تحقیق کیلئے فتاویٰ رضویہ شریف کی چوبیسویں جلد میں اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی نہایت تحقیقی کتاب ’’اَعْجَبُ الْاِمْدَاد فِیْ مُکَفِّرَاتِ حُقُوْقِ الْعِبَاد‘‘(بندوں کے حقوق کے معاف کروانے کے طریقے) کا مطالعہ فرمائیں۔
وَ لَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰهُ بِهٖ بَعْضَكُمْ عَلٰى بَعْضٍؕ-لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُوْاؕ-وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَؕ-وَ سْــٴَـلُوا اللّٰهَ مِنْ فَضْلِهٖؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا(32)
ترجمہ
اور تم ا س چیز کی تمنا نہ کرو جس سے اللہ نے تم میں ایک کو دوسرے پرفضیلت دی ہے ۔ مردوں کے لئے ان کے اعمال سے حصہ ہے، اور عورتوں کے لئے ان کے اعمال سے حصہ ہے اوراللہ سے اس کا فضل مانگو ۔ بیشک اللہ ہر شے کو جاننے والا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰهُ بِهٖ:اور ا س کی آرزو نہ کرو جس سے اللہ نے بڑائی دی۔} جب ایک انسان دوسرے کے پاس کوئی ایسی نعمت دیکھتا ہے جو اس کے پا س نہیں تو ا س کا دل تَشویش میں مبتلا ہو جاتا ہے ایسی صورت میں اس کی حالت دو طرح کی ہوتی ہے(1) وہ انسان یہ تمنا کرتا ہے کہ یہ نعمت دوسرے سے چھن جائے اور مجھے حاصل ہو جائے۔ یہ حسد ہے اور حسد مذموم اور حرام ہے۔ (2) دوسرے سے نعمت چھن جانے کی تمنا نہ ہو بلکہ یہ آرزو ہو کہ اس جیسی مجھے بھی مل جائے، اسے غبطہ کہتے ہیں یہ مذموم نہیں۔ (تفسیرکبیر، النساء، تحت الآیۃ: ۳۲، ۴ / ۶۵)
لہٰذا اللہ تعالیٰ نے جس بندے کو دین یا دنیا کی جِہت سے جو نعمت عطا کی اسے اس پر راضی رہنا چاہئے۔ شانِ نزول: جب آیتِ میراث میں ’’لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ‘‘والا حصہ نازل ہوا اور میت کے ترکہ میں مرد کا حصہ عورت سے دگنا مقرر کیا گیا تو مردوں نے کہا کہ ہمیں اُمید ہے کہ آخرت میں نیکیوں کا ثواب بھی ہمیں عورتوں سے دگنا ملے گا اور عورتوں نے کہا کہ ہمیں اُمید ہے کہ گناہ کا عذاب ہمیں مردوں سے آدھا ہوگا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اِس میں بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے جس کو جو فضیلت دی وہ عین حکمت ہے بندے کو چاہئے کہ وہ اُس کی قضا پر راضی رہے۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۳۲، ۱ / ۳۷۲)
دل کے صبر و قرار کا نسخہ:
دل کے صبر و قرار کا نسخہ ہی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا پر راضی رہنا ہے ورنہ دنیا میں کوئی شخص کسی نعمت کی انتہاء کو نہیں پہنچا ہوا اور اگر بالفرض کوئی پہنچا بھی ہو تو کسی دوسری نعمت میں ضرور کم تر ہوگا تو اگر دل کو انہی آرزوؤں اور تمناؤں کا مرکز بنا کر رکھا تو ہزاروں نعمتوں کا مالک ہوکر بھی دل کو قرار نہیں مل سکتا، جیسے ایک آدمی ایک ارب روپے کا مالک ہے لیکن خوبصورت نہیں تو اگر وہ خوبصورتی کی تمنا کرتا رہے گا تو جینا دوبھر ہوجائے گا اور اگر ایک آدمی خوبصورت ہے لیکن جیب میں پیسہ نہیں اور وہ پیسے کو روتا رہے گا تو بھی بے قرار رہے گا اور جس کے پاس پیسہ اور خوبصورتی کچھ نہ ہو لیکن وہ کہے کہ میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا پر راضی ہوں اور پھر وہ صبر کرکے آخرت کے ثواب کو پیشِ نظر رکھے تو یقینا ایسا آدمی دل کا سکون پالے گا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: اگر ابنِ آدم کے پا س مال کی دو وادیاں بھی ہوں تو وہ یہ پسند کرے گا کہ اس کے پاس تیسری وادی بھی ہو اور اس کاپیٹ تو مٹی ہی بھر سکتی ہے، اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمائے گا جو توبہ کرے۔ (بخاری، کتاب الرقاق، باب ما یتقی من فتنۃ المال، ۴ / ۲۲۸، الحدیث: ۶۴۳۶)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: تم اپنے سے نیچے والے کو دیکھو اور جو تم سے اوپر ہو اسے نہ دیکھو ،یہ اس سے بہتر ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی اپنے اوپر نعمت کو حقیر جانو۔ (مسلم، کتاب الزہد والرقائق، ص۱۵۸۴، الحدیث: ۹(۲۹۶۳))
{لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُوْا: مردوں کے لئے ان کی کمائی سے حصہ ہے۔} میاں بیوی میں سے ہر ایک کو اس کے اپنے نیک اعمال کی جزا ملے گی، دونوں کا نیک اور پرہیز گار ہونا انہیں اعمال سے بے نیاز نہ کرے گا۔
شانِ نزول : اُم المؤمنین حضرت اُم سلمہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہانے فرمایا کہ ہم بھی اگر مرد ہوتے تو جہاد کرتے اور مردوں کی طرح جان فدا کرنے کا ثوابِ عظیم پاتے۔ (جلالین، النساء، تحت الآیۃ: ۳۲، ص۲۷)
اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور اِنہیں تسکین دی گئی کہ مرد جہاد سے ثواب حاصل کرسکتے ہیں تو عورتیں شوہروں کی فرمانبرداری اور پاکدامنی سے ثواب حاصل کرسکتی ہیں۔
{وَ سْــٴَـلُوا اللّٰهَ مِنْ فَضْلِهٖ:اور اللہ سے اس کا فضل مانگو۔} سُبْحَانَ اللہ، دلوں کے قرار کا کتنا پیارا بیان فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے اس کا فضل مانگو کہ حقیقت میں سب سے بڑی چیز اللہ کریم کا فضل و کرم ہے۔ اعمال میں کسی کو دوسرے سے لاکھ گنا زیادہ بھی ثواب ملتا ہو لیکن اس کے باوجود وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل ہی کا محتاج ہے کیونکہ اس کا جنت میں داخلہ تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل ہی سے ہوگا ۔ بغیر فضل کے اپنے عمل سے کوئی جنت میں نہیں جائے گا لہٰذا اللہ عَزَّوَجَلَّ سے اس کا فضل مانگنا چاہیے۔
وَ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِیَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَؕ-وَ الَّذِیْنَ عَقَدَتْ اَیْمَانُكُمْ فَاٰتُوْهُمْ نَصِیْبَهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدًا(33)
ترجمہ
اور ماں باپ اور رشتے دار جو کچھ مال چھوڑیں ہم نے سب کے لئے (اُس مال میں ) مستحق بنا دیے ہیں اور جن سے تمہارا معاہدہ ہوچکا ہے انہیں ان کا حصہ دو۔ بیشک اللہ ہر شے پر گواہ ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الَّذِیْنَ عَقَدَتْ اَیْمَانُكُمْ:اور جن سے تمہارا معاہدہ ہوچکا ہے۔} اس سے عَقْدِمُوَالات مراد ہے اس کی صورت یہ ہے کہ ایسا شخص جس کا نسب مجہول ہو وہ دوسرے سے یہ کہے کہ تو میرا مولیٰ ہے میں مرجاؤں تو تو میرا وارث ہو گا اور میں کوئی جرم کروں تو تجھے دِیَت دینی ہوگی۔ دوسرا کہے: میں نے قبول کیا۔ اِس صورت میں یہ عقد صحیح ہوجاتا ہے اور قبول کرنے والا وارث بن جاتا ہے اور دِیَت بھی اُس پر آجاتی ہے اور دوسرا بھی اِسی کی طرح سے مجہولُ النَّسب ہو اور ایسا ہی کہے اور یہ بھی قبول کرلے تو اُن میں سے ہر ایک دوسرے کا وارث اور اُس کی دِیَت کا ذمہ دار ہوگا۔ یہ عقد ثابت ہے اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اِس کے قائل ہیں۔(مدارک، النساء، تحت الآیۃ: ۳۳، ص۲۲۵)
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْؕ-فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُؕ-وَ الّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَهُنَّ فَعِظُوْهُنَّ وَ اهْجُرُوْهُنَّ فِی الْمَضَاجِـعِ وَ اضْرِبُوْهُنَّۚ-فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْهِنَّ سَبِیْلًاؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیًّا كَبِیْرًا(34)
ترجمہ:
مرد عورتوں پرنگہبان ہیں اس وجہ سے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس وجہ سے کہ مرد عورتوں پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں تو نیک عورتیں (شوہروں کی) اطاعت کرنے والی (اور) ان کی عدم موجودگی میں اللہ کی حفاظت و توفیق سے حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں اور جن عورتوں کی نافرمانی کا تمہیں اندیشہ ہو تو انہیں سمجھاؤ اور (نہ سمجھنے کی صورت میں ) ان سے اپنے بستر الگ کرلو اور (پھرنہ سمجھنے پر) انہیں مارو پھر اگر وہ تمہاری اطاعت کرلیں تو (اب) ان پر( زیادتی کرنے کا) راستہ تلاش نہ کرو۔ بیشک اللہ بہت بلند، بہت بڑا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ:مرد عورتوں پرنگہبان ہیں۔}عورت کی ضروریات، اس کی حفاظت، اسے ادب سکھانے اور دیگر کئی امور میں مرد کو عورت پر تَسَلُّط حاصل ہے گویا کہ عورت رعایا اور مرد بادشاہ، ا س لئے عورت پر مرد کی اطاعت لازم ہے ،اس سے ایک بات یہ واضح ہوئی کہ میاں بیوی کے حقوق ایک جیسے نہیں بلکہ مرد کے حقوق عورت سے زیادہ ہیں اور ایسا ہونا عورت کے ساتھ نا انصافی یا ظلم نہیں بلکہ عین انصاف اور حکمت کے تقاضے کے مطابق ہے۔ شانِ نزول: حضرت سعد بن ربیع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنی بیوی حبیبہ کو کسی خطا پر ایک طمانچہ مارا جس سے ان کے چہرے پر نشان پڑ گیا، یہ اپنے والد کے ساتھ حضورسیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں اپنے شوہر کی شکایت کرنے حاضر ہوئیں۔ سرور ِدوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے قصاص لینے کا حکم فرمایا، تب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے قصاص لینے سے منع فرما دیا۔ (بغوی، النساء، تحت الآیۃ: ۳۴، ۱ / ۳۳۵)
لیکن یہ یاد رہے کہ عورت کو ایسا مارنا ناجائز ہے۔
{بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ:اس وجہ سے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی۔} مرد کو عورت پر جو حکمرانی عطا ہوئی اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ رب تعالیٰ نے مرد کو عورت پر فضیلت بخشی ہے۔
مرد کے عورت سے افضل ہونے کی وجوہات:
مرد کے عورت سے افضل ہونے کی وجوہات کثیر ہیں ، ان سب کا حاصل دو چیزیں ہیں علم اور قدرت۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مرد عقل اور علم میں عورت سے فائق ہوتے ہیں ، اگرچہ بعض جگہ عورتیں بڑھ جاتی ہیں لیکن مجموعی طور پر ابھی بھی پوری دنیا پر نگاہ ڈالیں تو عقل کے امور مردوں ہی کے سپرد ہوتے ہیں۔ یونہی مشکل ترین اعمال سرانجام دینے پر انہیں قدرت حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ مرد عقل و دانائی اور قوت میں عورتوں سے فَوقِیّت رکھتے ہیں۔ مزید یہ کہ جتنے بھی انبیاء، خُلفاء اور ائمہ ہوئے سب مرد ہی تھے۔ گھڑ سواری، تیر اندازی اور جہاد مرد کرتے ہیں۔ امامت ِ کُبریٰ یعنی حکومت وسلطنت اور امامت ِصغریٰ یعنی نماز کی امامت یونہی اذان، خطبہ ، حدود و قصاص میں گواہی بالاتفاق مردوں کے ذمہ ہے۔ نکاح، طلاق، رجوع اور بیک وقت ایک سے زائد شادیاں کرنے کا حق مرد کے پاس ہے اور نسب مردوں ہی کی طرف منسوب ہوتے ہیں ، یہ سب قرائن مرد کے عورت سے افضل ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔ مردوں کی عورتوں پر حکمرانی کی دوسری وجہ یہ ہے کہ مرد عورتوں پر مہر اور نان نفقہ کی صورت میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں ا س لئے ان پر حاکم ہیں۔ خیال رہے کہ مجموعی طور پر جنسِ مرد جنسِ عورت سے افضل ہے نہ کہ ہر مرد ہر عورت سے افضل ۔بعض عورتیں علم ودانائی میں کئی مردوں سے زیادہ ہیں جیسے اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا، ہم جیسے لاکھوں مرد اُن کے نعلین کی خاک کے برابر بھی نہیں۔ یونہی صحابیہ عورتیں غیر صحابی بڑے بڑے بزرگوں سے افضل ہیں۔
{فَالصّٰلِحٰتُ:نیک عورتیں۔} نیک اور پارسا عورتوں کے اوصاف بیان فرمائے جا رہے ہیں کہ جب ان کے شوہر موجود ہوں تو ان کی اطاعت کرتی اور ان کے حقوق کی ادائیگی میں مصروف رہتی اور شوہر کی نافرمانی سے بچتی ہیں اور جب موجود نہ ہوں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے مال اور عزت کی حفاظت کرتی ہیں۔
نیک بیوی کے اوصاف اور فضائل:
کثیر احادیث میں نیک اور پارسا بیویوں کے اوصاف اور ان کے فضائل بیان کئے گئے ہیں ، ان میں سے 2 احادیث درج ذیل ہیں :
(1)…حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِا قدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تقویٰ کے بعد مومن کے لئے نیک بیوی سے بہتر کوئی چیز نہیں کہ اگروہ اُسے حکم دے تو وہ اطاعت کرے اوراگر اسے دیکھے تو خوش کر دے اور اس پر قسم کھا بیٹھے تو قسم سچی کر دے اور کہیں چلا جائے تو اپنے نفس اور شوہر کے مال میں بھلائی کرے۔(ابن ماجہ، کتاب النکاح، باب افضل النساء، ۲ / ۴۱۴، الحدیث: ۱۸۵۷)
(2)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جسے چار چیزیں ملیں اسے دنیا و آخرت کی بھلائی ملی۔ (1) شکر گزار دل۔ (2) یادِ خدا کرنے والی زبان۔ (3) مصیبت پر صبر کرنے والا بدن (4) ایسی بیوی کہ اپنے نفس اور شوہر کے مال میں گناہ کی مُتلاشی (یعنی اس میں خیانت کرنے والی) نہ ہو۔ (معجم الکبیر، طلق بن حبیب عن ابن عباس، ۱۱ / ۱۰۹، الحدیث: ۱۱۲۷۵)
نکاح کیسی عورت سے کرنا چاہئے؟:
نکاح کے لئے عورت کے انتخاب کے وقت اس کی دینداری دیکھ لی جائے اور دین والی ہی کو ترجیح دی جائے ۔ جو لوگ عورت کا صرف حسن یامالداری یا عزت و منصب پیش نظر رکھتے ہیں وہ اس حدیث پر غور کر لیں ، حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو کسی عورت سے اس کی عزت کے سبب نکاح کرے، اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کی ذلت میں زیادتی کرے گا اور جو کسی عورت سے اس کے مال کی وجہ سے نکاح کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کی محتاجی ہی بڑھائے گا اور جو اس کے حسب (خاندانی مرتبے) کے سبب نکاح کرے گا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کے کمینہ پن میں زیادتی کرے گا۔(معجم الاوسط، من اسمہ ابراہیم، ۲ / ۱۸، الحدیث: ۲۳۴۲)
{وَ الّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَهُنَّ:اور جن عورتوں کی نافرمانی کا تمہیں ڈر ہو۔} اس آیت میں نافرمان عورت کی اصلاح کا طریقہ بڑے احسن پیرائے میں بیان فرمایا گیا ہے ۔
نافرمان بیوی کی اصلاح کا طریقہ:
سب سے پہلے نافرمان بیوی کو اپنی اطاعت کے فوائد اور نافرمانی کے نقصانات بتاؤ نیز قرآن وحدیث میں اس تعلق سے منقول فضائل اور وعیدیں بتا کر سمجھاؤ، اگر اس کے بعد بھی نہ مانیں تو ان سے اپنے بستر الگ کر لو پھر بھی نہ مانیں تو مناسب انداز میں انہیں مارو۔ اس مار سے مراد ہے کہ ہاتھ یا مسواک جیسی چیز سے چہرے اور نازک اعضاء کے علاوہ دیگر بدن پر ایک دو ضربیں لگا دے۔ وہ مار مراد نہیں جو ہمارے ہاں جاہلوں میں رائج ہے کہ چہرے اور سارے بدن پر مارتے ہیں ، مُکّوں ، گھونسوں اور لاتوں سے پیٹتے ہیں ، ڈنڈا یا جو کچھ ہاتھ میں آئے اس سے مارتے اور لہو لہان کردیتے ہیں یہ سب حرام و ناجائز ، گناہ ِ کبیرہ اور پرلے درجے کی جہالت اور کمینگی ہے۔
شوہر اور بیوی دونوں ایک دوسرے کے حقوق کا لحاظ رکھیں :
عورت اور مرد دونوں کو چاہئے کہ وہ ایک دوسرے کے حقوق کا لحاظ رکھیں ، اس سلسلے میں 5 احادیث درج ذیل ہیں :
(1)… حضرت عمرو بن احوص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ انورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میں تمہیں عورتوں کے حق میں بھلائی کی وصیت کرتا ہوں ، وہ تمہارے پاس مُقَیّدہیں ، تم ان کی کسی چیز کے مالک نہیں ہو البتہ یہ کہ وہ کھلم کھلا بے حیائی کی مُرتَکِب ہوں ، اگر وہ ایسا کریں تو انہیں بستروں میں علیحدہ چھوڑ دو، (اگر نہ مانیں تو) ہلکی مار مارو، پس اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو ان کے خلاف کوئی راستہ تلاش نہ کرو۔ تمہارے عورتوں پر اور عورتوں کے تمہارے ذمہ کچھ حقوق ہیں۔ تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستروں کو تمہارے نا پسندیدہ لوگوں سے پامال نہ کرائیں اور ایسے لوگوں کو تمہارے گھروں میں نہ آنے دیں جنہیں تم ناپسند کرتے ہو۔ تمہارے ذمے ان کا حق یہ ہے کہ ان سے بھلائی کرو، عمدہ لباس اور اچھی غذا دو۔(ترمذی، کتاب الرضاع، باب ما جاء فی حقّ المرأۃ علی زوجہا، ۲ / ۳۸۷، الحدیث: ۱۱۶۶)
(2)…حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جب عورت اپنے شوہر کو دنیا میں ایذا دیتی ہے تو حورِعِین کہتی ہیں : خدا عَزَّوَجَلَّ تجھے قتل کرے، اِسے ایذا نہ دے، یہ تو تیرے پاس مہمان ہے، عنقریب تجھ سے جدا ہو کر ہمارے پاس آجائے گا۔(ترمذی، کتاب الرضاع، ۱۹-باب، ۲ / ۳۹۲، الحدیث: ۱۱۷۷)
(3)… اُم المؤمنین حضرت ام سلمہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا سے روایت ہے، سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو عورت اس حال میں مری کہ اس کا شوہر اس پر راضی تھا وہ جنت میں داخل ہو گئی۔(ترمذی، کتاب الرضاع، باب ما جاء فی حقّ الزوج علی المرأۃ، ۲ / ۳۸۶، الحدیث: ۱۱۶۴)
(4)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ میں تمہیں عورتوں کے بارے میں بھلائی کرنے کی وصیت کرتا ہوں تم میری اس وصیت کو قبول کرو۔ وہ پسلی سے پیدا کی گئیں اور پسلیوں میں سے زیادہ ٹیڑھی اوپر والی ہے۔ اگر تو اسے سیدھا کرنے چلے تو توڑ دے گا اور اگر ویسی ہی رہنے دے تو ٹیڑھی باقی رہے گی۔ (بخاری، کتاب النکاح، باب الوصاۃ بالنساء، ۳ / ۴۵۷، الحدیث: ۵۱۸۵)
(5)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ عورت پسلی سے پیدا کی گئی وہ تیرے لئے کبھی سیدھی نہیں ہو سکتی اگر تو اسے برتنا چاہے تو اسی حالت میں برت سکتا ہے اور سیدھا کرنا چاہے گا تو توڑ دے گا اور توڑنا طلاق دینا ہے۔(مسلم، کتاب الرضاع، باب الوصیۃ بالنساء، ص۷۷۵، الحدیث: ۶۱(۱۴۶۸))
{فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ:پھر اگر وہ تمہاری اطاعت کرلیں۔} یعنی جب گناہ کے بعدتوبہ کرنے کی صورت میں اللہ تعالیٰ تمہاری توبہ قبول فرما لیتا ہے تو تمہیں بھی چاہئے کہ تمہاری زیر دست عورت جب قصور کرنے کے بعد معافی طلب کرے اور نافرمانی چھوڑ کر اطاعت گزار بن جائے تو اس کی معذرت قبول کرلو اور توبہ کے بعد اسے تنگ نہ کرو۔
بیوی جب اپنی غلطی کی معافی مانگے تو اسے معاف کر دیا جائے:
اِس آیت سے اُن لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو عورت کے ہزار بار معذرت کرنے، گڑ گڑا کر پاؤں پڑنے، طرح طرح کے واسطے دینے کے باوجود اپنی ناک نیچی نہیں کرتے اور صنف ِنازک کو مَشقِ ستم بنا کر اپنی بزدلی کو بہادری سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اِن بہادروں کو عاجزی اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
وَ اِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِهِمَا فَابْعَثُوْا حَكَمًا مِّنْ اَهْلِهٖ وَ حَكَمًا مِّنْ اَهْلِهَاۚ-اِنْ یُّرِیْدَاۤ اِصْلَاحًا یُّوَفِّقِ اللّٰهُ بَیْنَهُمَاؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا خَبِیْرًا(35)
ترجمہ
اور اگر تم کو میاں بیوی کے جھگڑے کا خوف ہو تو ایک مُنْصِفْ مرد کے گھروالوں کی طرف سے بھیجو اور ایک مُنْصِفْ عورت کے گھروالوں کی طرف سے (بھیجو) یہ دونوں اگر صلح کرانا چاہیں گے تو اللہ ان کے درمیان اتفاق پیدا کردے گا۔ بیشک اللہ خوب جاننے والا ،خبردار ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِهِمَا:اور اگر تم کو میاں بیوی کے جھگڑے کا خوف ہو۔} جب بیوی کو سمجھانے، الگ رکھنے اور مارنے کے باوجود اصلاح کی صورت نہ بن رہی ہو تو نہ مرد طلاق دینے میں جلدی کرے ،نہ عورت خُلع کے مطالبے پر اِصرار کرے بلکہ دونوں کے خاندان کے خاص قریبی رشتہ داروں میں سے ایک ایک شخص کو مُنصِف مقرر کر لیا جائے، اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ چونکہ رشتے دار ایک دوسرے کے خانگی معاملات سے واقف ہوتے ہیں ، فریقَین کو ان پر اطمینان ہوتا ہے اور ان سے اپنے دل کی بات کہنے میں کوئی جھجک بھی نہیں ہوتی، یہ منصف مناسب طریقے سے ان کے مسئلے کا حل نکال لیں گے اور اگر منصف ،میاں بیوی میں صلح کروانے کا ارادہ رکھتے ہوں تو اللہ تعالیٰ ان کے مابین اتفاق پیدا کر دے گا اس لئے حتّی المقدور صلح کے ذریعے اس معاملے کو حل کیا جائے لیکن یہ یاد رکھیں کہ انہیں میاں بیوی میں جدائی کروا دینے کا اختیار نہیں یعنی یہ جدائی کا فیصلہ کریں تو شرعاً ان میں جدائی ہوجائے، ایسا نہیں ہوسکتا۔
وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْــٴًـا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَاﰳ(36)
ترجمہ:
اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے اچھا سلوک کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی اورپاس بیٹھنے والے ساتھی اور مسافر اور اپنے غلام لونڈیوں (کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔) بیشک اللہ ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو متکبر، فخرکرنے والا ہو۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ:اور اللہ کی عبادت کرو ۔} اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ اور بندوں دونوں کے حقوق کی تعلیم دی گئی ہے، اللہ تعالیٰ کا بندوں پر حق یہ ہے کہ صرف اسی کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرایا جائے اور بندوں کے آپس میں حقوق یہ ہیں :
بندوں کے باہمی حقوق:
(1)…والدین کے ساتھ احسان کرنا: ان کے ساتھ احسان یہ ہے کہ والدین کا ادب اور اطاعت کرے، نافرمانی سے بچے، ہر وقت ان کی خدمت کے لئے تیار رہے اور ان پر خرچ کرنے میں بقدرِ توفیق و استطاعت کمی نہ کرے۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تین مرتبہ فرمایا :اُس کی ناک خاک آلود ہو۔ کسی نے پوچھا:یارسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کون؟ ارشاد فرمایا: جس نے ماں باپ دونوں کو یاان میں سے ایک کو بڑھاپے میں پایا اور جنت میں داخل نہ ہوا ۔(مسلم، کتاب البر والصلۃ والاداب، باب رغم من ادرک ابویہ او احدہما عند الکبر۔۔۔ الخ، ص۱۳۸۱، الحدیث: ۹(۲۵۵۱))
(2)…رشتہ داروں سے حسنِ سلوک کرنا: ان سے حسن سلوک یہ ہے کہ رشتہ داروں کے ساتھ صلۂ رحمی کرے اور قطع تعلقی سے بچے۔ حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےارشاد فرمایا: جسے یہ پسند ہو کہ اس کے رزق میں وسعت ہو اور اس کی عمر لمبی ہو تو اسے چاہئے کہ اپنے رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔(بخاری، کتاب البیوع، باب من احبّ البسط فی الرزق، ۲ / ۱۰، الحدیث: ۲۰۶۷)
حضرت جُبَیر بن مطعم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’رشتہ کاٹنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔(مسلم، کتاب البر والصلۃ والاداب، باب صلۃ الرحم وتحریم قطیعتہا، ص۱۳۸۳، الحدیث: ۱۸(۲۵۵۶))
صلۂ رحمی کا مطلب بیان کرتے ہوئے صدرُالشریعہ مولانا امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : صلۂ رحم کے معنی رشتہ کو جوڑنا ہے، یعنی رشتہ والوں کے ساتھ نیکی اور سلوک کرنا، ساری امت کا اس پر اتفاق ہے کہ صلۂ رحم واجب ہے اور قطع رحم (یعنی رشتہ کاٹنا) حرام ہے۔( بہارِ شریعت، حصہ شانزدہم، سلوک کرنے کا بیان، ۳ / ۵۵۸)
(3،4)…یتیموں اور محتاجوں سے حسنِ سلوک کرنا: یتیم کے ساتھ حسنِ سلوک یہ ہے کہ ان کی پرورش کرے، ان کے ساتھ نرمی سے پیش آئے اور ان کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرے ۔ حضرت سہل بن سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جو شخص یتیم کی کفالت کرے میں اور وہ جنت میں اس طرح ہوں گے۔ حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کلمہ کی انگلی اور بیچ کی انگلی سے اشارہ کیا اور دونوں انگلیوں کے درمیان تھوڑا سافاصلہ کیا۔(بخاری، کتاب الطلاق، باب اللعان، ۳ / ۴۹۷، الحدیث: ۵۳۰۴)
اور مسکین سے حسنِ سلوک یہ ہے کہ ان کی امداد کرے اور انہیں خالی ہاتھ نہ لوٹائے ۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بیوہ اور مسکین کی امداد و خبر گیری کرنے والا راہ ِخدا عَزَّوَجَلَّ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔(بخاری، کتاب النفقات، باب فضل النفقۃ علی الاہل، ۳ / ۵۱۱، الحدیث: ۵۳۵۳)
(5)… ہمسائیوں سے حسنِ سلوک کرنا: قریب کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا ہوا ور دور کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جو محلہ دار تو ہو مگر اس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا نہ ہو یا جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی وہ قریب کا ہمسایہ ہے اور وہ جو صرف پڑوسی ہو، رشتہ دار نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ یا جو پڑوسی بھی ہو اور مسلمان بھی وہ قریب کا ہمسایہ اور وہ جو صر ف پڑوسی ہو مسلمان نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ ہے۔(تفسیرات احمدیہ، النساء، تحت الآیۃ: ۳۶، ص۲۷۵)
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام مجھے پڑوسی کے متعلق برابر وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے۔(بخاری، کتاب الآدب، باب الوصاۃ بالجار، ۴ / ۱۰۴، الحدیث: ۶۰۱۴)
(6)… پاس بیٹھنے والوں سے حسنِ سلوک کرنا: اس سے مراد بیوی ہے یا وہ جو صحبت میں رہے جیسے رفیق ِسفر، ساتھ پڑھنے والایا مجلس و مسجد میں برابر بیٹھے حتّٰی کہ لمحہ بھر کے لئے بھی جو پاس بیٹھے اس کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کا حکم ہے۔
(7)… مسافر کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا: اس میں مہمان بھی داخل ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ تعالیٰ اور روزِ قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ مہمان کا اِکرام کرے۔(مسلم، کتاب الایمان والنذور، باب الحث علی اکرام الجار۔۔۔ الخ، ص۴۳، الحدیث: ۷۴(۴۷))
(8)…لونڈی غلام کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا۔ ان سے حسنِ سلوک یہ ہے کہ انہیں اُن کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دے ، سخت کلامی نہ کرے اور کھانا کپڑا وغیرہ بقدرِ ضرورت دے۔ حدیث میں ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: غلام تمہارے بھائی ہیں ، اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہارے ماتحت کیا ہے، تو جو تم کھاتے ہو اس میں سے انہیں کھلاؤ، جو لباس تم پہنتے ہو، ویسا ہی انہیں پہناؤ، اور ان کی طاقت سے زیادہ ان پر بوجھ نہ ڈالو اور اگر ایسا ہو تو تم بھی ساتھ میں ان کی مدد کرو۔(مسلم، کتاب، باب اطعام المملوک مما یاکل۔۔۔ الخ، ص۹۰۶، الحدیث: ۳۸(۱۶۶۱))
{اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرًا:بیشک اللہ ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو متکبر، فخرکرنے والا ہو۔} کسی کو خود سے حقیر سمجھنا اور حق بات قبول نہ کرنا تکبر ہے، یہ انتہائی مذموم وصف اور کبیرہ گناہ ہے ، حدیث میں ہے: قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند ا ٹھایا جائے گا، ہرجانب سے ان پر ذلت طاری ہو گی، انہیں جہنم کے ’’بُولَس‘‘ نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لے کر ان پر غالب آجائے گی، انہیں ’’طِیْنَۃُ الْخَبَالْ‘‘یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی(ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۴۷-باب، ۴ / ۲۲۱، الحدیث: ۲۵۰۰)۔
الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ وَ یَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَ یَكْتُمُوْنَ مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖؕ-وَ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّهِیْنًا(37)
ترجمہ: وہ لوگ جو خود بخل کرتے ہیں اور دیگر لوگوں کو بخل کا کہتے ہیں اور اللہ نے جو انہیں اپنے فضل سے دیا ہے اسے چھپاتے ہیں (ان کے لئے شدید وعید ہے) اور کافروں کے لئے ہم نے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ:وہ لوگ جو خود بخل کرتے ہیں۔} لغتِ عرب میں بخل سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جومال دیا اس میں سے سائل کو نہ دینا اور بخل کی شرعی تعریف یہ ہے کہ جو چیز ذمہ میں واجب ہو اسے ادا نہ کرنا۔(بغوی، النساء، تحت الآیۃ: ۳۷، ۱ / ۳۳۹)
اور صدرُالاَفاضِل مولانا نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : بخل یہ ہے کہ خود کھائے دوسرے کو نہ دے۔ شُحْ یہ ہے کہ نہ کھائے نہ کھلائے۔ سَخایہ ہے کہ خود بھی کھائے اور دوسروں کو بھی کھلائے ،جودیہ ہے کہ آپ نہ کھائے دوسرے کو کھلائے۔(خزائن العرفان، النساء، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۱۶۶، مدارک، النساء، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۲۲۷)
یہاں بخل سے مراد یہ ہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے توریت میں مذکور اوصاف بیان کرنے میں بخل کرنا اورا س کا حکم دینا۔ شانِ نزول: یہ آیت ان یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی جو توریت میں مذکورسیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اوصاف بیان کرنے میں بخل کرتے اور چھپاتے تھے۔ (خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۳۷، ۱ / ۳۷۹)
ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد مال خرچ کرنے میں بخل کرنا ہے۔ (تفسیر کبیر، النساء، تحت الآیۃ: ۳۷، ۴ / ۷۸)
حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرورِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’دو خصلتیں کسی مومن میں جمع نہیں ہو سکتیں ،بخل اور بدخلقی۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی البخل، ۳ / ۳۸۷، الحدیث: ۱۹۶۹)
تنبیہ: اس سے موجودہ زمانے کے ان علماء کو عبرت حاصل کرنی چاہیے جو حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اوصافِ حمیدہ خود بھی بیان نہیں کرتے اور بیان کرنے والوں کو بھی طرح طرح کے حیلے بہانے کر کے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :
ذکر روکے فضل کاٹے نقص کا جویاں رہے
پھر کہے مَردَک کہ ہوں امت رسولُ اللہ کی
نوٹ:بخل کے بارے میں کافی تفصیل سورہ ٔآلِ عمران آیت180 میں گزر چکی ہے۔
{وَ یَكْتُمُوْنَ مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ:اور اللہ نے جو انہیں اپنے فضل سے دیا ہے اسے چھپاتے ہیں۔} اللہ عَزَّوَجَلَّ جو نعمت عطا فرمائے اسے اچھی نیت کے ساتھ موقع محل کی مناسبت سے حکمت کو سامنے رکھتے ہوئے ظاہر کرنا چاہیے۔ حضرت ابو الاحوص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، میرے والد پَراگندہ بال اور ناپسندیدہ ہَیئت میں سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: کیا تیرے پاس مال نہیں ؟ عرض کی:یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مجھے اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کا مال عطا فرمایا ہے۔ ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ بندے کو جب کوئی نعمت عطا فرمائے تو اس کا اثر بندے پر دیکھنا پسند فرماتا ہے۔(مسند امام احمد، مسند المکیین، حدیث مالک بن نضلۃ ابی الاحوص رضی اللہ تعالی عنہ، ۵ / ۳۸۴، الحدیث: ۱۵۸۹۲)
مسئلہ:اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نعمت کا اظہار اخلاص کے ساتھ ہو تو یہ بھی شکر ہے اور اس لئے آدمی کو اپنی حیثیت کے لائق جائز لباسوں میں بہتر پہننا مستحب ہے۔
وَ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ رِئَآءَ النَّاسِ وَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِؕ-وَ مَنْ یَّكُنِ الشَّیْطٰنُ لَهٗ قَرِیْنًا فَسَآءَ قَرِیْنًا(38)
ترجمہ:
اور وہ لوگ جو اپنے مال لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرتے ہیں اور نہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور نہ ہی آخرت کے دن پر (تو ان کے لئے شدید وعید ہے۔) اور جس کا ساتھی شیطان بن جائے تو کتنا برا ساتھی ہوگیا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ رِئَآءَ النَّاسِ: اور وہ لوگ جو اپنے مال لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرتے ہیں۔} بخل کی برائی بیان فرمانے کے بعد اب ان لوگوں کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ جو محض دکھاوے اور شہرت کے لئے مال خرچ کرتے ہیں اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا کا حصول ان کا مقصد نہیں ہوتا۔ یہ بھی اسی حکم میں داخل ہیں جو اوپر گزرا۔
ریا کاری کی مذمت:
اس سے ان لوگوں کو عبرت پکڑنی چاہئے کہ جو نیک کاموں میں لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں لیکن مقصد صرف واہ واہ کروانا ہوتا ہے، بکثرت خیرات کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ شرط رکھتے ہیں کہ اخبار میں خبر اور تصویر ضرور آنی چاہیے، اسی طرح شادیوں کی فضول رسومات میں لاکھوں روپے اڑا دینے والے بھی عبرت حاصل کریں جو صرف اس لئے رسمیں کرتے ہیں کہ اگر یہ رسمیں بھر پور انداز میں نہ کی گئیں ،تو لوگ کیا کہیں گے، فلاں نے اتنا خرچ کیا تھا، میں کیوں پیچھے رہوں وغیرہ ۔حضرت محمود بن لُبَید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’مجھے تم پر سب سے زیادہ شرکِ اصغر یعنی دکھاوے میں مبتلا ہونے کا خوف ہے،اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کچھ لوگوں کو ان کے حساب کے وقت ارشاد فرمائے گا کہ ان لوگوں کے پاس جاؤ جن کے لئے دنیا میں تم دکھاوا کرتے تھے اور دیکھو کہ کیا تم ان کے پاس کوئی جزا پاتے ہو؟ (مسند امام احمد، حدیث محمود بن لبید رضی اللہ عنہ، ۹ / ۱۶۱، الحدیث: ۲۳۶۹۷)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’بے شک جہنم میں ایک وادی ہے جس سے جہنم روزانہ چار سو مرتبہ پناہ مانگتی ہے،اللہ تعالیٰ نے یہ وادی اُمتِ محمدیہ کے ان ریاکاروں کے لئے تیار کی ہے جو قرآنِ پاک کے حافظ،راہِ خدامیں صدقہ کرنے والے، اللہ تعالیٰ کے گھر کے حاجی اور راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں نکلنے والے ہوں گے (لیکن یہ سارے کام صرف ریاکاری کیلئے کررہے ہوں گے۔ ) (معجم الکبیر، الحسن عن ابن عباس، ۱۲ / ۱۳۶، الحدیث: ۱۲۸۰۳)۔
{وَ مَنْ یَّكُنِ الشَّیْطٰنُ لَهٗ قَرِیْنًا:اورجس کا ساتھی شیطان بن جائے۔} دنیا میں شیطان کا ساتھی اس طرح ہو گا کہ وہ شیطانی کام کر کے اسے خوش کرے کیونکہ جو شیطان کو خوش کرتا ہے شیطان اس کے ساتھ رہتا ہے حتّٰی کہ کھانے پینے ، رات بسر کرنے اور دیگر کئی معاملات میں شریک ہو جاتا ہے اسی لئے یہ حکم ہے کہ ہر جائز کام بِسْمِ اللہْ پڑھ کر شروع کیا جائے تاکہ شیطان کے لئے روک ہو اورا ٓخرت میں شیطان کا ساتھی ہونا یوں ہوگا کہ وہ ایک شیطان کے ساتھ آتشی زنجیر میں جکڑا ہو گا۔ (خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۳۸، ۱ / ۳۷۹)
یہ وعید خاص گناہوں کے ذریعے شیطان کا ساتھی بننے والے کے بارے میں ہے اور جس کا ساتھی شیطان ہو وہ اپنے انجام پر خود ہی غور کرلے کہ کیساہو گا۔
شیطان کے بہکانے کاانداز:
شیطان مختلف انداز سے انسان کو بہکانے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت و فرمانبرداری کرنے سے روکتا ہے جیسے شیطان پہلے انسان کو اللہ تعالیٰ کی طاعت و عبادت سے روکتا ہے، اگر اللہ تعالیٰ انسان کو شیطان سے محفوظ کر لیتا ہے تو انسان شیطان کویہ کہہ کر دور کر دیتا ہے کہ مجھے اللہتعالیٰ کی طاعت و عبادت کی بہت سخت ضرورت ہے کیونکہ مجھے ا س دارِ فانی سے آخرت کے لئے توشہ اور زادِ راہ تیار کرنا بہت ضروری ہے کہ اس کے بغیر آخرت کا سفر ممکن نہیں۔
جب انسان شیطان کے اس مکر سے بچ جاتا ہے تو شیطان اسے اس طرح بہکانے اور گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ اسے عبادت کرنے میں کاہلی اور سستی کا حکم دیتا ہے اور کہتا ہے کہ آج رہنے دو کل کر لینا۔ اگر اللہ تعالیٰ انسان کو اس سے بھی محفوظ کر لیتا ہے تو وہ شیطا ن کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیتا ہے کہ میری موت میرے قبضے میں نہیں ،نیز اگر میں آج کا کام کل پر چھوڑوں گا تو کل کا کام کس دن کروں گا کیونکہ ہر دن کے لئے ایک کام ہے۔
جب شیطان اس حیلے سے بھی ناامید ہو جاتا ہے تو کہتا ہے کہ اے انسان! تم اللہ تعالیٰ کی عبادت جلدی جلدی کرو تاکہ فلاں فلاں کام کے لئے فارغ ہو سکو۔ اگر اللہ تعالیٰ انسان کو اس حیلے سے بھی بچا لے تو انسان شیطان کو یہ کہہ کر دفع کر دیتا ہے کہ تھوڑی اور کامل عبادت زیادہ مگر ناقص عبادت سے کہیں بہتر ہے۔
اگر شیطان اس حیلے میں بھی ناکام و نامراد ہو جاتا ہے تو وہ انسان کو ریاکاری کے ساتھ عبادت کرنے کی ترغیب دیتا اور اسے ریاکاری میں مبتلا کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ اگر انسان اللہ تعالیٰ کی مدد سے اس حیلے سے محفوظ ہوگیا تو وہ یہ کہہ کر ریا کاری کے وسوسے کو ٹھکرا دیتا ہے کہ میں کسی اور کی نمائش اور دکھاوے کے لئے عبادت کیوں کروں ، کیا اللہ تعالیٰ کا دیکھ لینا میرے لئے کافی نہیں۔
جب شیطان اپنے اس ہتھکنڈے سے بھی ناکام ہو جاتا ہے تو وہ انسان کو خود پسندی میں مبتلاء کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ تم نے کتنا عمدہ کام کیا اور تم نے کتنی زیادہ شب بیداری کی۔ اگر انسان اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس بار بھی محفوظ رہا اور خود پسندی میں مبتلاء ہونے سے بچ گیا تو وہ شیطان کے اس وسوسے کو یہ کہہ کر رد کر دیتا ہے کہ مجھ میں کوئی خوبی اور بزرگی نہیں ،یہ تو سب اللہ تعالیٰ کا احسانِ عظیم ہے کہ ا س نے مجھ جیسے گناہگار کو خاص توفیق عطا فرمائی اور یہ بھی اسی کا فضل و کرم ہے کہ ا س نے میری حقیر اور ناقص عبادت کو شرف قبولیت عطا فرمایا، اگر ا س کا فضل و کرم شامل حال نہ ہوتا تو میرے گناہوں کے مقابلے میں میری ان عبادتوں کی حیثیت ہی کیا تھی۔
جب لعین شیطان ان تمام تدبیروں سے ناکام ہو جاتا ہے تو پھر یہ حَربہ استعمال کرتا ہے جو سب سے زیادہ خطرناک ہے اور شیطان کے اس حربے سے بہت عقلمند اور ہوشیار دل شخص کے علاوہ کوئی اور نہیں بچ سکتا، چنانچہ شیطان کہتا ہے کہ اے نیک بخت انسان ! تم لوگوں سے چھپ چھپ کر نیکیاں کرنے میں کوشاں ہو اوراللہ تعالیٰ تمہاری ان نیکیوں کو عنقریب تمام لوگوں میں مشہور کر دے گا تو لوگ تمہیں اللہ تعالیٰ کا مقرب بندہ کہہ کر یاد کیا کریں گے۔ اس طرح شیطان اسے ریا کاری میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اپنی رحمت و عنایت سے انسان کو شیطان کے اس حربے سے بھی محفوظ فرما دے تو وہ شیطان کو یہ کہہ کر ذلیل و خوار اور نامراد کر دیتا ہے کہ اے ملعون! ابھی تک تو تو میرے پاس میرے اعمال کو فاسد و بے کار کرنے آیا کرتا تھا اور اب ان اعمال کی اصلاح و درستی کے لئے آتا ہے تاکہ میرے اعمال کو بالکل ختم کر دے ،چل دفع ہو جا، میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہو ں ، وہی میرا آقا و مولیٰ ہے، میں اپنی نیکیوں کی شہرت کا مشتاق اور طلبگار نہیں ہوں ، میرا پروردگار چاہے میرے اعمال ظاہر و مشہور کر دے چاہے پوشیدہ رکھے، چاہے مجھے عزت و مرتبہ عطا فرمائے چاہے مجھے ذلیل و رسوا کر دے ۔سب کا سب اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے، مجھے ا س کی کوئی پرواہ نہیں کہ وہ لوگوں کے سامنے میرے اعمال کا اظہار فرمائے یا نہ فرمائے۔ انسانوں کے قبضے میں کوئی چیز نہیں ہے۔
اگر انسان شیطان کے اس وار سے بھی بچ جائے تو وہ انسان کے پاس آ کر کہتا ہے کہ تجھے اعمال کرنے کی کیا ضرورت ہے کیونکہ انسان کے نیک اور بد ہونے کا فیصلہ تو روزِ اول میں ہو چکا ہے ،اس دن جو برا ہو گیا وہ برا ہی رہے گا اور جو اچھا اور نیک ہو گیاوہ نیک ہی رہے گا اس لئے اگر تجھے نیک بخت پیدا کیا گیا ہے تو اعمال کو چھوڑنا تمہارے لئے نقصان دہ نہیں اور اگر تجھے بدبخت و شقی پیدا کیاگیا ہے تو تمہارا عمل تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔اگر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے انسان کو شیطان کے اس وار سے بچا لیا تو انسان شیطان مردود سے یوں مخاطب ہوتا ہے کہ میں تواللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں اور بندے کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے آقا و مولیٰ کے احکام بجا لائے اور اللہ تعالیٰ سارے جہان کا پروردگار ہے، جو چاہتا ہے حکم کرتا اور جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ یقینا اعمال میرے لئے فائدہ مند ہیں کسی صورت میں بھی نقصان دہ نہیں ہوسکتے کیونکہ اگر میں اللہ تعالیٰ کے علم میں نیک بخت ہوں تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں زیادہ ثواب کا محتاج ہوں اور اگر خدانخواستہ علمِ الٰہی میں میرا نام بدبختوں میں ہے تو بھی عبادت کرنے سے اپنے آپ پر ملامت تو نہیں کروں گا کہ اللہتعالیٰ مجھے طاعت و عبادت کرنے پر سزا نہ دے گا اور کم از کم اتنا تو ضرور ہے کہ نافرمان ہو کر دوزخ میں جانے سے فرمانبردار ہو کر دوزخ میں جانا بہتر ہے اور پھر یہ کہ سب محض اِحتِمالات ہیں ورنہ ا س کاوعدہ بالکل حق ہے اور ا س کا فرمان بالکل سچ ہے اور اللہ تعالیٰ نے طاعت و عبادت پر ثواب عطافرمانے کا بے شمار مقامات پر وعدہ فرمایا ہے تو جو شخص اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ایمان اور طاعت کے ساتھ حاضر ہو گا وہ ہر گز ہر گز جہنم میں داخل نہ ہو گا بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اورا س کے سچے و مقدس وعدے کی وجہ سے جنت میں جائے گا۔
لہٰذا (اے لوگو!) تم خوابِ غفلت سے بیدار ہو جاؤ، شیطان کے حیلوں سے ہوشیار رہو، ہر وقت اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتے رہو اور شیطان مردود سے اسی کی پناہ مانگتے رہو کیونکہ تمام معاملات اسی کے قبضۂ قدرت میں ہیں اور وہی توفیق عطا فرمانے والا ہے، گناہوں سے بچنے اور طاعت و عبادت کرنے کی طاقت اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہی ملتی ہے۔ (منہاج العابدین، العقبۃ الثالثۃ، العائق الثالث: الشیطان، ص۶۱-۶۲)
وَ مَا ذَا عَلَیْهِمْ لَوْ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقَهُمُ اللّٰهُؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِهِمْ عَلِیْمًا(39)
ترجمہ
اور اگر وہ اللہ اور قیامت پرایمان لاتے اور اللہ کے دیے ہوئے رزق میں سے اس کی راہ میں خرچ کرتے تو ان کا کیا نقصان تھا اوراللہ انہیں جانتا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَا ذَا عَلَیْهِمْ:اور ان کا کیا نقصان تھا۔} نامْوَری اور دکھاوے کے طور پر مال خرچ کرنے والوں کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ یہ اگر اللہ تعالیٰ پر اور آخرت پر صحیح ایمان لاتے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دئیے ہوئے مال میں سے اس کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کیلئے خرچ کرتے تواِس میں سراسر اُن کا نفع ہی تھا۔ معلوم ہوا کہ راہِ خدا میں خرچ کرتے وقت اللہ تعالیٰ کی رضا اور ثواب حاصل کرنے کی نیت ہونی چاہئے، بصورت ِدیگر عمل ضائع ہو جائے گا اور اس پر سزا بھی ملے گی۔
اِنَّ اللّٰهَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍۚ-وَ اِنْ تَكُ حَسَنَةً یُّضٰعِفْهَا وَ یُؤْتِ مِنْ لَّدُنْهُ اَجْرًا عَظِیْمًا(40)
ترجمہ
بیشک اللہ ایک ذرہ برابر ظلم نہیں فرماتا اور اگر کوئی نیکی ہو تو وہ اسے کئی گنا بڑھادیتا ہے اور اپنے پاس سے بہت بڑا ثواب عطافرماتا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ اللّٰهَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ:بیشک اللہ ایک ذرہ برابر ظلم نہیں فرماتا۔} اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ وہ کسی پر ایک ذرے جتنا بھی ظلم فرمائے۔ یہاں یہ بات اس معنیٰ میں ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کسی کے نیک اعمال بغیر کسی وجہ کے ضائع فرماکر ان کی جزا سے محروم کر دے یا کسی مجرم کو اس کے جرم سے زیادہ سزا دیدے، یہ اس کی شان کے لائق نہیں بلکہ اپنے فضل ورحمت سے نیکی کا ثواب عمل کے مقابلے میں بہت زیادہ عطا فرماتا ہے۔ حضرت انس بن مالک رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ ظلم سے پاک ہے مومن نیکی کرتا ہے تو دنیا میں رزق اور آخرت میں جنت کی صورت میں ثواب پاتا ہے اور کافر کوئی نیکی کرتا ہے تو اس کے بدلے دنیا میں ہی اسے رزق دے دیا جاتا ہے اور قیامت کے دن اس کے پاس کوئی نیکی نہ ہو گی جس پر اسے کوئی جزا ملے۔(مسلم، کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار، باب جزاء المؤمن بحسناتہ فی الدنیا والآخرۃ۔۔۔ الخ، ص۱۵۰۸، الحدیث: ۵۶(۲۸۰۸))
فَكَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۭ بِشَهِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ شَهِیْدًا(41)
ترجمہ
تو کیسا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور اے حبیب! تمہیں ان سب پر گواہ اور نگہبان بناکر لائیں گے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{فَكَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۭ بِشَهِیْدٍ:تو کیسا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں۔} اس آیت میں کفار و منافقین اور یہودو نصاریٰ کے لئے شدید وعیدہے کہ جب قیامت کے دن تمام انبیاءعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنی امت کے ہر نیک اور بد کے ایمان، کفر ،نفاق اور تمام اچھے برے اعمال کی گواہی دیں گے ،پھر ان سب پر حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو گواہ بنایا جائے گا تو ان کا انجام کیا ہو گا۔ قیامت کے دن دی جانے والی اس گواہی کی تفصیل سورۂ بقرہ کی آیت نمبر143 کے تحت گزر چکی ہے۔
یَوْمَىٕذٍ یَّوَدُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ عَصَوُا الرَّسُوْلَ لَوْ تُسَوّٰى بِهِمُ الْاَرْضُؕ-وَ لَا یَكْتُمُوْنَ اللّٰهَ حَدِیْثًا(42)
ترجمہ:
اس دن کفار اور رسول کی نافرمانی کرنے والے تمنا کریں گے کہ کاش انہیں مٹی میں دبا کر زمین برابر کردی جائے اور وہ کوئی بات اللہ سے چھپا نہ سکیں گے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{یَوْمَىٕذٍ یَّوَدُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا:اس دن کافر تمنا کریں گے۔} قیامت کے دن کی ہولناکی اور اپنے اعمال کا بدلہ دیکھ کر کفار تمنا کریں گے کہ کاش ہمیں پیدا ہی نہ کیا گیا ہوتا۔ کاش! زمین پھٹ جائے اور ہم اس میں دفن ہو جائیں۔ کاش! ہمیں بھی جانوروں کی طرح مٹی کر دیا جاتا پھر جب ان کی خطاؤں پر باز پُرس ہو گی تو قسمیں کھا کر کہیں گے کہ اے ہمارے رب! ہم مشرک نہ تھے، تب ان کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی پھرا ن کے اعضا ء بول اٹھیں گے اور سب اعمال بیان کر دیں گے،اس طرح یہ اپنی پوری کوشش کے باوجود اللہ تعالیٰ سے کوئی بات بھی چھپا نہ سکیں گے۔
اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ہر ایک کو ڈرنا چاہئے:
یہ آیت تو کافروں کے بارے میں نازل ہوئی لیکن بہرحال دنیا میں تو ہر آدمی کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے ڈرنا چاہیے یہی وجہ ہے قیامت کی ہولناکی اور عذابِ جہنم کی شدت کے پیشِ نظر ہمارے اَکابِر اَسلاف اور بزرگانِ دین بھی تمنا کرتے تھے کہ کاش وہ پیدا ہی نہ ہوئے ہوتے۔ امیرُ المؤمنین حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک بار پرندے کودیکھ کر ارشاد فرمایا: اے پرندے !کاش! میں تمہاری طرح ہوتا اور مجھے انسان نہ بنایا جاتا۔ امیرُ المؤمنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا فرمان ہے : میری تمناہے کہ میں ایک مینڈھا ہوتا جسے میرے اہلِ خانہ اپنے مہمانوں کے لئے ذبح کر دیتے۔ حضرت ابو ذر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا قول ہے :کاش! میں ایک درخت ہوتا جو کاٹ دیا جاتا۔ امیرُ المؤمنین حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرمایا کرتے: میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ مجھے وفات کے بعد نہ اٹھایا جائے۔ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرمایا کرتے: کاش! ہم پیدا ہی نہ ہوئے ہوتے۔ امُ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا فرمایا کرتیں : کاش! میں کوئی بھولی بسری چیز ہوتی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرمایا کرتے کاش! میں راکھ ہوتا۔(قوت القلوب، الفصل الثانی والثلاثون، شرح مقام الخوف ووصف الخائفین۔۔۔ الخ،۱ / ۴۵۹-۴۶۰، ملخصاً)
یہ کلمات ان ہستیوں کے ہیں جو زبانِ رسالت سے قطعی جنتی ہونے کی بشارت سے بہرہ مند ہوئے، جبکہ اب کے لوگوں کی حالت یہ ہے کہ عمل نام کی کوئی چیز پلے نہیں اور بے حساب مغفرت کایقین دل میں سجائے بیٹھے ہیں۔ اے کاش! ہمیں بھی حقیقی معنوں میں ایمان پر خاتمے کی فکر، قبرو حشر کے پُر ہَول لمحات کی تیاری کی سوچ ، عذابِ جہنم سے ڈر اور جَبّار و قَہّار رب عَزَّوَجَلَّ کا خوف نصیب ہو جائے۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ وَ لَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِیْ سَبِیْلٍ حَتّٰى تَغْتَسِلُوْاؕ-وَ اِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَوْ عَلٰى سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَآىٕطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَ اَیْدِیْكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُوْرًا(43)
ترجمہ
اے ایمان والو! نشہ کی حالت میں نماز کے پاس نہ جاؤ جب تک سمجھنے نہ لگو وہ بات جو تم کہو اورنہ ناپاکی کی حالت میں (نماز کے قریب جاؤ) حتی کہ تم غسل کرلو سوائے اس کے کہ تم حالتِ سفر میں ہو (تو تیمم کرلو) اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتو ں سے ہم بستری کی ہواور پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کرو تو اپنے منہ اور ہاتھوں کا مسح کرلیا کرو بیشک اللہ معاف کرنے والا، بخشنے والا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: اے ایمان والو! } شانِ نزول: حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کچھ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی دعوت کی، جس میں کھانے کے بعد شراب پیش کی گئی، بعض حضرات نے شراب پی لی کیونکہ اس وقت تک شراب حرام نہ ہوئی تھی پھر مغرب کی نماز پڑھی، امام نے نشے کی حالت میں سورۂ کافرون کی تلاوت کی اور کلمہ ’’لَا‘‘ چھوڑ گئے جس سے ’’نہ‘‘ کی جگہ ’’ہاں ‘‘کا معنی بن گیا۔ اس سے معنی غلط ہوگئے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور انہیں نشہ کی حالت میں نماز پڑھنے سے منع فرما دیا گیا، (خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۴۳، ۱ / ۳۸۲)
چنانچہ مسلمانوں نے نماز کے اوقات میں شراب ترک کردی، اس کے بعد سورۂ مائدہ میں شراب کو بالکل حرام کردیا گیا۔
نشے کی حالت میں کلمۂ کفر بولنے کا حکمـ:
مذکورہ واقعہ سے معلوم ہوا کہ اگر نشے کی حالت میں کوئی شخص کفریہ کلمہ بول دے تو وہ کافر نہیں ہوتا کیونکہ’’قُلْ یٰۤاَیُّهَا الْكٰفِرُوْنَ ‘‘میں دونوں جگہ’’ لَا ‘‘ کا ترک کفر ہے کیونکہ اس سے معنیٰ بنے گا کہ اے کافرو! جن بتوں کی تم عبادت کرتے ہو ان کی میں بھی عبادت کرتا ہوں۔ اور یہ کلمہ یقینا کفریہ ہے لیکن چونکہ یہاں نشے کی حالت تھی اس لئے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس پر کفر کا حکم نہ فرمایا بلکہ قرآنِ پاک میں اُن کو ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا‘‘سے خطاب فرمایا گیا۔
{وَ لَا جُنُبًا: اور نہ حالت ِ جنابت میں۔} آیت میں پہلا حکم تھا کہ نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ۔ دوسرا حکم یہ دیا گیا کہ جب تم جنابت کی حالت میں ہو تو جب تک غسل نہ کرلو تب تک نماز کے قریب نہ جاؤ یعنی پہلے غسل کرنا فرض ہے۔ ہاں اگر سفر کی حالت میں ہو اور پانی نہ ملے تو تیمم کر کے نماز پڑھ لو۔ یہاں سفر کی قید اس لئے ہے کہ پانی نہ ملنا اکثر سفر ہی میں ہوتا ہے ورنہ نہ تو سفر میں تیمم کی کلی اجازت ہے اور نہ تیمم کی اجازت سفر کے ساتھ خاص ہے یعنی اگر سفر میں پانی مُیَسّر ہو تو تیمم کی اجازت نہ ہوگی اور یونہی اگر سفر کی حالت نہیں لیکن بیماری وغیرہ ہے جس میں پانی کا استعمال نقصان دِہ ہو تو تیمم کی اجازت ہے۔
{وَ اِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰى: اور اگر تم بیمار ہو۔} آیت میں تیسری بات جو ارشاد فرمائی گئی اس میں تیمم کے حکم میں تفصیل بیان کردی گئی جس میں یہ بھی داخل ہے کہ تیمم کی اجازت جس طرح بے غسل ہونے کی صورت میں ہے اسی طرح بے وضو ہونے کی صورت میں ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو اور تمہیں وضو یا غسل کی حاجت ہے یا تم بیتُ الْخَلاء سے قضائے حاجت سے فارغ ہوکر آؤ اور تمہیں وضو کی حاجت ہو یا تم نے عورتوں سے ہم بستری کی ہو اور تم پر غسل فرض ہوگیا ہو تو ان تمام صورتوں میں اگر تم پانی کے استعمال پر قادر نہ ہو خواہ پانی موجود نہ ہونے کے باعث یا دور ہونے کے سبب یا اس کے حاصل کرنے کا سامان نہ ہو نے کے سبب یا سانپ، درندہ، دُشمن وغیرہ کے ڈر سے تو تیمم کرسکتے ہو۔ یاد رہے کہ جب عورت کوحَیض و نِفاس سے فارغ ہونے کے بعد غسل کی حاجت ہو اور اگر اس وقت پانی پر قدرت نہ پائے تو اس صورت میں اسے بھی تیمّم کی اجازت ہے جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے۔
{فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا: تو پاک مٹی سے تیمم کرو ۔} آیت کے آخر میں تیمم کرنے کا طریقہ بھی ارشاد فرمایا جس کا خلاصہ اور چند احکام یہ ہیں :
تیمم کا طریقہ:
تیمم کرنے والا پاکی حاصل کرنے کی نیت کرے اور جو چیز مٹی کی جنس سے ہو جیسے گرد، ریت، پتھر، مٹی کا فرش وغیرہ ، اس پر دو مرتبہ ہاتھ مارے، ایک مرتبہ ہاتھ مار کر چہرے پر پھیرلے اور دوسری مرتبہ زمین پر ہاتھ پھیر کر کہنیوں سمیت دونوں ہاتھوں پر پھیرلے ۔
تیمم کے 2 احکام
(1)… ایک تیمم سے بہت سے فرائض و نوافل پڑھے جاسکتے ہیں۔
(2)…تیمم کرنے والے کے پیچھے غسل اور وضو کرنے والے کی اقتدا صحیح ہے۔
نوٹ :تیمم کے بارے میں مزید احکام جاننے کے لئے بہار شریعت، جلد1، حصہ نمبر2 ’’تیمم کابیان‘‘ مطالعہ فرمائیں۔
آیتِ مبارکہ کے آخری جز کا شانِ نزول یہ ہے کہ غزوۂ بنی مُصْطَلَق میں جب لشکرِ اسلام رات کے وقت ایک بیابان میں ٹھہرا جہاں پانی نہ تھا اور صبح وہاں سے کوچ کرنے کا ارادہ تھا، وہاں اُمّ المومنین حضرت عائشہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا کا ہار گم ہوگیا، اس کی تلاش کے لئے سیّد ِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وہاں قیام فرمایا، صبح ہوئی تو پانی نہ تھا۔
اس پر اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت نازل فرمائی۔ یہ دیکھ کر حضرت اُسَیْدْ بن حضیررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ’’ اے آلِ ابوبکر! یہ تمہاری پہلی ہی برکت نہیں ہے یعنی تمہاری برکت سے مسلمانوں کو بہت آسانیاں ہوئیں اور بہت فوائد پہنچے۔ پھر جب اونٹ اٹھایا گیا تو اس کے نیچے ہار مل گیا۔(بخاری، کتاب التیمم، باب التیمم، ۱ / ۱۳۳، الحدیث: ۳۳۴)
ہار گم ہونے اور رحمت ِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نہ بتانے میں بہت سی حکمتیں تھیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کے ہار کی وجہ سے نبی رحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا وہاں قیام فرمانا حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کی فضیلت و مرتبے کو ظاہر کرتا ہے اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے ہار تلاش کرنے میں اس بات کی ہدایت ہے کہ حضور تاجدارِ انبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ازواجِ مُطَہَّرات کی خدمت مؤمنین کی سعادت ہے، نیز اس واقعے سے تیمم کا حکم بھی معلوم ہوگیا جس سے قیامت تک مسلمان نفع اٹھاتے رہیں گے۔ سُبْحَانَ اللہ ۔
44
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ یَشْتَرُوْنَ الضَّلٰلَةَ وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ تَضِلُّوا السَّبِیْلَﭤ(44)
ترجمہ:
کیا تم نے ان لوگوں کو نہ دیکھا جنہیں کتاب سے ایک حصہ ملا کہ وہ گمراہی خریدتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راستے سے بھٹک جاؤ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَمْ تَرَ: کیا تم نے نہ دیکھا۔} یہاں یہودیوں کے بارے میں فرمایا گیا کہ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی کتاب یعنی تورات ملی جس سے اُنہوں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی نبوت کوتو پہچانا لیکن اِمامُ الانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے متعلق جو کچھ تورات میں بیان کیا تھا اس حصّہ سے محروم رہے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کے منکر ہوگئے۔ اس لئے فرمایا کہ انہیں کتاب کا ایک حصہ ملا ۔ گویا اللہ عَزَّوَجَلَّ کی کتاب رکھنے کے باوجود ہدایت کی بجائے گمراہی کے پیروکار ہوئے اور اس کے ساتھ اے مسلمانو! تمہیں بھی گمراہ کرنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ ہدایت کا دارومدار ہی حضور سید ِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر کامل ایمان لانے پر ہے۔
وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِاَعْدَآىٕكُمْؕ-وَ كَفٰى بِاللّٰهِ وَلِیًّا ﱪ وَّ كَفٰى بِاللّٰهِ نَصِیْرًا(45)
ترجمہ:
اور اللہ تمہارے دشمنوں کو خوب جانتا ہے اور حفاظت کے لئے اللہ ہی کافی ہے اور اللہ ہی کافی مددگار ہے ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِاَعْدَآىٕكُمْ: اور اللہ تمہارے دشمنوں کو خوب جانتا ہے۔} ارشاد فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہارے دشمنوں کو خوب جانتا ہے اور اُس نے تمہیں بھی اُن کی عداوت (دشمنی) پر خبردار کردیا ہے لہٰذا تمہیں چاہئے کہ اُن دشمنوں سے بچتے رہو۔ یقینا اللہ عَزَّوَجَلَّ ہم سے زیادہ ہمارے دشمنوں کو جانتا ہے لہٰذا جسے وہ دشمن فرما دے وہ یقینا ہمارا دشمن ہے جیسے شیطان اور کفار و منافقین۔
مِنَ الَّذِیْنَ هَادُوْا یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ وَ یَقُوْلُوْنَ سَمِعْنَا وَ عَصَیْنَا وَ اسْمَعْ غَیْرَ مُسْمَعٍ وَّ رَاعِنَا لَیًّۢا بِاَلْسِنَتِهِمْ وَ طَعْنًا فِی الدِّیْنِؕ-وَ لَوْ اَنَّهُمْ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا وَ اسْمَعْ وَ انْظُرْنَا لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ وَ اَقْوَمَۙ-وَ لٰـكِنْ لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُفْرِهِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا(46)
ترجمہ
یہودیوں میں کچھ وہ ہیں جو کلمات کو ان کی جگہ سے بدل دیتے ہیں اور کہتے ہیں :ہم نے سنا اور مانا نہیں اور آپ سنیں ، آپ کو نہ سنایا جائے اور ’’راعنا‘‘ کہتے ہیں زبانیں مروڑ کراور دین میں طعنہ کے لئے ،اور اگر وہ کہتے کہ ہم نے سنا اور مانا اور حضور ہماری بات سنیں اور ہم پر نظر فرمائیں تو یہ ان کے لئے بہتر اور زیادہ درست ہوتا لیکن ان پر تو اللہ نے ان کے کفر کی وجہ سے لعنت کردی تو وہ بہت تھوڑا یقین رکھتے ہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{مِنَ الَّذِیْنَ هَادُوْا: یہودیوں میں کچھ وہ ہیں۔} آیت کا خلاصہ کلام یہ ہے کہ بہت سے یہودیوں کی خصلت و عادت نہایت ہی بری اور قبیح ہے، ان میں کئی بری عادتیں ہیں : پہلی یہ کہ توریت شریف میں اللہ تعالیٰ نے حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی شان میں جو بیان فرمایاہے ، یہودی ان کلمات کو بدل دیتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ جب تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ انہیں کچھ حکم فرماتے ہیں تویہ زبان سے تو کہتے ہیں کہ ہم نے مان لیا لیکن دل سے کہتے ہیں کہ ہم نے قبول نہیں کیا۔ تیسری بات یہ کہ سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی خدمت میں کئی طرح سے منافقت کرتے ہیں جس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے ایسے جملے بولتے ہیں جن کے دو معنیٰ بنتے ہوں ، ایک اچھے اور دوسرے برے۔ اور ان یہودیوں کا طریقہ یہ ہے کہ ظاہراً تو اچھے معنی کا تأثُّردیتے ہیں لیکن دل میں وہی خبیث معنی مراد لیتے ہیں جیسے کہتے ہیں کہ سنئے اور آپ کو نہ سنایا جائے۔ ’’نہ سنایا جائے‘‘ سے ظاہری معنی یہ نکلتا کہ کوئی ناگوار بات آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سننے میں نہ آئے اور دوسرا معنی جو وہ مراد لیتے یہ ہوتا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سننا نصیب نہ ہو ۔ اور اسی کی دوسری مثال’’رَاعِنَا ‘‘ کا کلمہ ہے جس کا ظاہری معنی ’’ہماری رعایت فرمائیے‘‘ ہے اور یہودی اس کا معنی وہ لیتے جو شانِ مبارک کے لائق نہ ہو حالانکہ اس لفظ کے استعمال سے منع فرما دیا گیا تھا۔ پھر اس کے ساتھی یہودی اپنے ساتھیوں سے کہتے تھے کہ ہم تو محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو برا بھلا کہتے ہیں ،اگر آپ نبی ہوتے تو آپ اِس کو جان لیتے ۔اللہ تعالیٰ نے اُن کے اندر کی خباثت کو یہاں ظاہر فرما دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے علم پر طعن کرنا درحقیقت دین ِاسلام پر طعن کرنا ہے اور یہ یہودیوں کا طریقہ ہے ۔ پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا کہ اگر یہ لوگ بھی اہلِ ادب کا طریقہ اختیار کرتے اور انہی کی طرح کہتے کہ ’’یا رسولَ اللہ ! ہم نے سنا اور دل و جان سے تسلیم کیا، حضور ! ہماری بات سنئے اور ہم پر نظر ِکرم فرمائیں ‘‘تو یہ ان کیلئے دنیا وآخرت ہر اعتبار سے بہتر ہوتا۔ لیکن چونکہ یہ ملعون ہیں لہٰذا انہیں ادب کی توفیق نہیں ہوگی۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اٰمِنُوْا بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّطْمِسَ وُجُوْهًا فَنَرُدَّهَا عَلٰۤى اَدْبَارِهَاۤ اَوْ نَلْعَنَهُمْ كَمَا لَعَنَّاۤ اَصْحٰبَ السَّبْتِؕ-وَ كَانَ اَمْرُ اللّٰهِ مَفْعُوْلًا(47)
ترجمہ
اے کتاب والو! جو ہم نے تمہارے پاس موجود کتاب کی تصدیق کرنے والا (قرآن) اتارا ہے اُس پر ایمان لے آؤ ،اِس سے پہلے کہ ہم چہرے بگاڑ دیں پھر انہیں ان کی پیٹھ کی صورت پھیر دیں یا ان پر بھی ایسے ہی لعنت کریں جیسے ہفتے والوں پر لعنت کی تھی اور اللہ کا حکم ہوکر ہی رہتا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ:اے کتاب والو!} یہاں یہودیوں سے خطاب ہے کہ اے اہلِ کتاب! ہم نے قرآن اتارا ہے جو تمہارے پاس موجود کتاب یعنی توریت کی تصدیق کرنے والا ہے اس پر ایمان لے آؤ ورنہ ایسا نہ ہو کہ ہم تمہارے چہرے سے آنکھ، ناک کان، ابرو وغیرہ مٹا کرتمہاری شکلیں بگاڑ دیں اور تمہارے چہرے کو آگے سے بھی ایک ایسی کھال کی طرح کردیں جیسے سر کا پچھلا حصہ ہوتا ہے کہ اس میں نہ آنکھیں رہیں ، نہ ناک منہ وغیرہ اور یا اِن یہودیوں پر بھی ہم ایسے ہی لعنت کریں جیسے ہفتہ کے دن نافرمانی کرنے والے یہودی گروہ پر لعنت کی گئی تھی۔ لعنت تو یہودیوں پر ایسی پڑی کہ دنیا انہیں ملعون کہتی ہے۔ اس آیت کے متعلق مفسّرین کے چند اقوال ہیں : بعض کہتے ہیں کہ یہ وعید دنیا کے اعتبار سے ہے اور بعض اسے آخرت کے اعتبار سے قرار دیتے ہیں نیز بعض کہتے ہیں کہ لعنت ہوچکی ہے اور وعید واقع ہوگئی ہے اور بعض کہتے ہیں ابھی انتظار ہے۔ بعض کا قول ہے کہ چہرے بگڑنے کی یہ وعید اس صورت میں تھی جبکہ یہود یوں میں سے کوئی ایمان نہ لاتا اور چونکہ بہت سے یہودی ایمان لے آئے اِس لئے شرط نہیں پائی گئی اور وعید اُٹھ گئی۔
حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا قبولِ اسلام:
حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جو بہت بڑے یہودی عالم تھے، اُنہوں نے ملکِ شام سے واپس آتے ہوئے راستے میں یہ آیت سنی اور اپنے گھر پہنچنے سے پہلے اسلام لا کرنبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسولَ اللہ !میں نہیں خیال کرتا تھا کہ میں اپنا منہ پیٹھ کی طرف پھر جانے سے پہلے اور چہرے کا نقشہ مٹ جانے سے قبل آپ کی خدمت میں حاضر ہوسکوں گا یعنی اس خوف سے اُنہوں نے ایمان لانے میں جلدی کی کیونکہ توریت شریف سے اُنہیں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے رسولِ برحق ہونے کا یقینی علم تھا۔ (خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۴۷، ۱ / ۳۹۰-۳۹۱)
حضرت کعب احبار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا قبولِ اسلام:
حضرت کعب احبار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جو علماءِ یہود میں بڑی قدرومنزلت رکھتے تھے انہوں نے ایک رات کسی شخص سے یہی آیت سنی تو خوفزدہ ہوئے اور حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر مسلمان ہو گئے۔ (فتوح الشام، ذکر فتح مدینۃ بیت المقدس، ص۲۳۴-۲۳۵، الجزء الاول)
اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُۚ-وَ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدِ افْتَرٰۤى اِثْمًا عَظِیْمًا(48)
ترجمہ:
بیشک اللہ اس بات کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اوراس سے نیچے جو کچھ ہے جسے چاہتا ہے معاف فرما دیتا ہے اور جس نے اللہ کا شریک ٹھہرایا توبیشک اس نے بہت بڑے گناہ کا بہتان باندھا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ: بیشک اللہ اس بات کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے۔} آیت کا معنیٰ یہ ہے کہ جو کفر پر مرے اس کی بخشش نہیں ہوگی بلکہ اس کے لئے ہمیشگی کا عذاب ہے اور جس نے کفر نہ کیا ہو وہ خواہ کتنا ہی گنہگاراور کبیرہ گناہوں میں مُلَوَّث ہو اور بے توبہ بھی مر جائے تب بھی اُس کے لئے جہنم میں ہمیشہ کا داخلہ نہیں ہوگا بلکہ اُس کی مغفرت اللہ عَزَّوَجَلَّ کی مَشِیَّت (یعنی اس کے چاہنے) پرہے، چاہے تووہ کریم معاف فرما دے اور چاہے تو اُس بندے کو اس کے گناہوں پر عذاب دینے کے بعد پھر اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرما دے ۔ اس آیت میں یہودیوں کو ایمان لانے کی ترغیب ہے ۔
مغفرت کی امید پر گناہ کرنا بہت خطرناک ہے:
یہ یاد رہے کہ کفر کے علاوہ قیامت کے دن ہر گناہ کے بخشے جانے کا امکان ضرور ہے مگر اس امکان کی امید پر گناہوں میں پڑنا بہت خطرناک ہے بلکہ بعض صورتوں میں گناہ کو ہلکا سمجھنے کی صورت میں خود کفر ہوجائے گا۔ کتنا کریم ہے وہ خدا عَزَّوَجَلَّ جو لاکھوں گناہ کرنے والے بندے کو معافی کی امید دلا رہا ہے اور کتنا گھٹیا ہے وہ بندہ جو ایسے کریم کے کرم و رحمت پر دل و جان سے قربان ہوکر اس کی بندگی میں لگنے کی بجائے اس کی نافرمانیوں پر کمر بستہ ہے۔
حضرت وحشی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا قبولِ اسلام:
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ وحشی جس نے حضرت حمزہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو شہید کیا تھا وہ سلطانِ دو جہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی: مجھے امان دیجئے تا کہ میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے خدا کا کلام سنوں کہ ا س میں میری مغفرت اور نجات ہے۔ ارشاد فرمایا: مجھے یہ پسند تھا کہ میری نظر تم پر اس طرح پڑتی کہ تو امان طلب نہ کر رہا ہوتا لیکن اب تو نے امان مانگی ہے تو میں تمہیں امان دیتا ہوں تاکہ تو خدا عَزَّوَجَلَّ کا کلام سن سکے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی:
وَ الَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ(الفرقان :۶۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پوجتے۔
وحشی نے کہا: میں شرک میں مبتلا رہا ہوں اور میں نے ناحق خون بھی کیا ہے اور زنا کا بھی مرتکب ہوا ہوں کیا ان گناہوں کے ہوتے حق تعالیٰ مجھے بخش دے گا؟ اس پرسرکارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خاموشی اختیار فرمائی اور کوئی کلام نہ فرمایا، پھر یہ آیت نازل ہوئی:
اِلَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا(الفرقان:۷۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: مگر جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور اچھا کام کرے۔
وحشی نے کہا: اس آیت میں شرط کی گئی ہے کہ گناہوں سے مغفرت اسے حاصل ہو گی جو توبہ کرلے اور نیک عمل کرے،جبکہ میں نیک عمل نہ کر سکا تو میرا کیا ہو گا؟ تب یہ آیت تلاوت فرمائی:
اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُ(النساء:۴۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:بیشک اللہ اسے نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ کفر کیا جائے اور کفر سے نیچے جو کچھ ہے جسے چاہے معاف فرمادیتا ہے۔
اب وحشی نے کہا: اس آیت میں مَغفرت مَشِیَّتِ الٰہی کے ساتھ وابستہ ہے، ممکن ہے میں ان لوگوں میں سے ہوں جن کے ساتھ حق تعالیٰ کی مشیت ِمغفرت وابستہ نہ ہو،ا س کے بعد یہ آیت نازل ہوئی :
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ(الزمر :۵۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم فرماؤ اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔
یہ آیت سن کر وحشی نے کہا:اب میں کوئی قید اور شرط نہیں دیکھتا اور اسی وقت مسلمان ہو گیا(مدارج النبوہ، قسم سوم، باب ہفتم: ذکر سال ہفتم وفتح مکہ، ۲ / ۳۰۲)
مدارج کے علاوہ بقیہ کتابوں میں یہ مذکور ہے کہ یہ عرض معروض نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں نہ ہوئی بلکہ دوسرے ذریعے سے ہوئی۔
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ یُزَكُّوْنَ اَنْفُسَهُمْؕ-بَلِ اللّٰهُ یُزَكِّیْ مَنْ یَّشَآءُ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا(49)
ترجمہ
کیا تم نے ان لوگوں کونہیں دیکھا جو خود اپنی پاکیزگی بیان کرتے ہیں بلکہ اللہ جسے چاہتاہے پاکیزہ بنا دیتا ہے۔ اور ان پر کھجور کے اندر کی جھلی کے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَّذِیْنَ یُزَكُّوْنَ اَنْفُسَهُمْ: جو خود اپنی پاکیزگی بیان کرتے ہیں۔} یہ آیت یہود و نصارٰی کے بارے میں نازل ہوئی جو اپنے آپ کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا بیٹا اور اُس کا پیارا بتاتے تھے اور کہتے تھے کہ یہود و نصارٰی کے سوا کوئی جنت میں نہ داخل ہوگا اور یوں اپنی تعریف آپ کرتے تھے اور وہ بھی جھوٹی۔
خود پسندی کی مذمت:
اس آیتِ کریمہ میں خود پسندی کی مذمت کا بیان ہے۔ خود پسندی یہ ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے دینی یا دنیاوی کوئی نعمت عطا کی ہو وہ یہ تَصوُّر کرے کہ ا س نعمت کا ملنا میری ذاتی کاوش کا نتیجہ ہے اور اس پر ناز کرنے لگے۔(کیمیائے سعادت، رکن سوم: مہلکات، اصل نہم، حقیقت عجب وادلال، ۲ / ۷۲۵)
خود پسندی ایک مذموم باطنی مرض ہے اور فی زمانہ مسلمانوں کی اکثریت ا س میں مبتلا نظر آتی ہے۔ اپنے علم وعمل پر ناز کرنا، کثرت عبادت پر اترانا، عزت، منصب اور دولت پر نازاں ہونا، فنی مہارت پر کسی کی انگشت نمائی برداشت نہ کرسکنا، کسی اور کو خاطر میں ہی نہ لانا بہت عام ہے۔ ایسے حضرا ت کو چاہئے کہ ِان روایات کا بغور مطالعہ کریں :
(1)…رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے کسی نیک عمل پر اپنی تعریف کی تو اس کا شکر ضائع ہوا اور عمل برباد ہو گیا۔(کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، العجب، ۲ / ۲۰۶، الجزء الثالث، الحدیث: ۷۶۷۴)
(2)…حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تین چیزیں ہلاکت میں ڈالنے والی ہیں : (1) لالچ جس کی اطاعت کی جائے (2) خواہش جس کی پیروی کی جائے (3) بندے کا اپنے عمل کو پسند کرنا یعنی خود پسندی۔(معجم الاوسط، من اسمہ محمد، ۴ / ۲۱۲، الحدیث: ۵۷۵۴)
(3)…نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اے سراقہ! کیا میں تمہیں جنتی اور جہنمی لوگوں کے بارے میں نہ بتاؤں ؟عرض کی: یا رسولَ اللہ ! ضرور بتائیے۔ ارشاد فرمایا :’’ہر سختی کرنے والا، اِترا کر چلنے والا، اپنی بڑائی چاہنے والا جہنمی ہے جبکہ کمزور اور مغلوب لوگ جنتی ہیں۔(معجم الکبیر، علی بن رباح عن سراقۃ بن مالک، ۷ / ۱۲۹، الحدیث: ۶۵۸۹)
اُنْظُرْ كَیْفَ یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَؕ-وَ كَفٰى بِهٖۤ اِثْمًا مُّبِیْنًا(50)
ترجمہ
دیکھو یہ اللہ پر کیسے جھوٹ باندھ رہے ہیں اور کھلے گناہ کے لئے یہی جھوٹ کافی ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اُنْظُرْ كَیْفَ یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ:دیکھو یہ اللہ پر کیسے جھوٹ باندھ رہے ہیں۔}جو لوگ اپنے آپ کو بے گناہ اور مقبولِ بارگاہ بتا تے ہیں حالانکہ وہ ایسے نہیں ہیں ان کے بارے میں فرمایا کہ دیکھو کہ یہ کیسے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتے ہیں۔
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ یُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَ الطَّاغُوْتِ وَ یَقُوْلُوْنَ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوْا هٰۤؤُلَآءِ اَهْدٰى مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سَبِیْلًا(51)اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ لَعَنَهُمُ اللّٰهُؕ-وَ مَنْ یَّلْعَنِ اللّٰهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ نَصِیْرًاﭤ(52)
ترجمہ
کیا تم نے ان لوگوں کو نہ دیکھا جنہیں کتاب کا ایک حصہ ملا وہ بت اور شیطان پر ایمان لاتے ہیں اور کافروں کو کہتے ہیں کہ یہ (مشرک) مسلمانوں سے زیادہ ہدایت یافتہ ہیں ۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی اور جس پر اللہ لعنت کردے تو ہر گز تم اس کے لئے کوئی مدد گار نہ پاؤ گے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ: کیا تم نے ان لوگوں کو نہ دیکھا جنہیں کتاب کا ایک حصہ ملا۔} کعب بن اشرف اور اس کے ساتھ مزید ستر یہودی مشرکینِ مکہ کے پاس پہنچے اور انہیں حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جنگ کرنے پر آمادہ کیا۔ قریش بولے کہ ہمیں خطرہ ہے کہ تم بھی کتابی ہو اور ان سے قریب ترہو۔ اگر ہم نے ان سے جنگ کی اور تم ان سے مل گئے تو ہم کیا کریں گے؟ اگر ہمیں اطمینان دلانا ہو تو ہمارے بتوں کو سجدہ کرو، ان بد نصیبوں نے سجدہ کر لیا۔ ابو سفیان نے کہا کہ بتاؤ ہم ٹھیک راستہ پر ہیں یا محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) ؟ کعب بن اشرف نے کہا کہ تم ٹھیک راہ پر ہو۔ اس پر یہ آیت اتری۔(تفسیر کبیر، النساء، تحت الآیۃ: ۵۱، ۴ / ۱۰۱، خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۵۱، ۱ / ۳۹۲، ملتقطاً)
اور اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت فرمائی کہ انہوں نے حضور تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عداوت میں مشرکین کے بتوں تک کو پوجا۔
طاغوت کا معنی:
اس آیت میں ’’طاغوت‘‘ کا لفظ آیا ہے۔ یہ ’’طَغٰی‘‘ سے بنا ہے جس کا معنیٰ ہے ’’سرکشی‘‘ ۔جو رب عَزَّوَجَلَّ سے سرکش ہو اور دوسروں کو سرکش بنائے وہ طاغوت ہے خواہ شیطان ہو یا انسان۔ قرآنِ کریم نے سردارانِ کفر کو بھی طاغوت کہا ہے۔ چونکہ طاغوت کے لفظ میں سرکشی کا مادہ موجود ہے اس لئے مُقَرَّبینِ بارگاہِ الٰہی کیلئے یہ لفظ ہرگز استعمال نہیں ہوسکتا بلکہ جو اُن کیلئے یہ لفظ استعمال کرے وہ خود ’’طاغوت‘‘ ہے۔
اَمْ لَهُمْ نَصِیْبٌ مِّنَ الْمُلْكِ فَاِذًا لَّا یُؤْتُوْنَ النَّاسَ نَقِیْرًا(53)
ترجمہ
کیاان کے لئے سلطنت کا کچھ حصہ ہے؟ ایسا ہو تویہ لوگوں کوتِل برابر بھی کوئی شے نہ دیتے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اَمْ لَهُمْ نَصِیْبٌ مِّنَ الْمُلْكِ: کیاان کے لئے سلطنت کا کچھ حصہ ہے؟} یہودی کہتے تھے کہ ہم ملک اور نبوت کے زیادہ حق دار ہیں تو ہم کیسے عربوں کی اتباع کریں ؟ اللہ تعالیٰ نے اُن کے اِس دعوے کو جھٹلادیا کہ اُن کا ملک میں کیسے حصہ ہے یعنی کوئی حصہ نہیں ہے اور اگر بالفرض ان کا سلطنت میں کچھ حصہ ہوتا تو اِن کا بخل اس درجہ کا ہے کہ یہ لوگوں کوتِل برابر بھی کوئی شے نہ دیتے۔
اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰى مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖۚ-فَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ اٰتَیْنٰهُمْ مُّلْكًا عَظِیْمًا(54)
ترجمہ:
بلکہ یہ لوگوں سے اس چیز پر حسد کرتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا فرمائی ہے پس بیشک ہم نے ابراہیم کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی اور انہیں بہت بڑی سلطنت دی۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ: بلکہ یہ لوگوں سے حسد کرتے ہیں۔} اس آیت میں یہودیوں کے اصل مرض کو بیان فرمایا کہ حقیقت ِ حال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جو نبوت عطا فرمائی اور ان کے ساتھ ان کے غلاموں کو جو نصرت، غلبہ، عزت وغیرہ نعمتیں عطا فرمائی ہیں ان پر یہ لوگ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور اہلِ ایمان سے حسد کرتے ہیں حالانکہ یہودیوں کا یہ فعل سراسر جہالت و حماقت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد پر فضل فرمایا تھا کہ کسی کو کتاب عطا فرمائی، کسی کو نبوت اور کسی کو حکومت اور کسی کو اکٹھی کئی چیزیں جیسے حضرت یوسف، حضرت داؤد اور حضرت سلیمان عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نوازا تو پھرا گر اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے حبیب، امامُ الانبیاء ، سیدُالمرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنے کرم سے کتاب اور نبوت و رسالت عطا فرماتا ہے تو اے یہودیو! تم اس سے کیوں جلتے اور حسد کرتے ہو؟
فَمِنْهُمْ مَّنْ اٰمَنَ بِهٖ وَ مِنْهُمْ مَّنْ صَدَّ عَنْهُؕ-وَ كَفٰى بِجَهَنَّمَ سَعِیْرًا(55)
ترجمہ
پھر ان میں کوئی تواس پر ایمان لے آیا اور کسی نے اس سے منہ پھیرا اور عذاب کے لئے جہنم کافی ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{فَمِنْهُمْ مَّنْ اٰمَنَ بِهٖ: پھر ان میں کوئی تواس پر ایمان لے آیا۔} ربِّ کریم عَزَّوَجَلَّ کا فضل جاری و ساری رہا، اس نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سر پر رسالت کا تاج سجایا، کتاب عطا فرمائی اور انہیں عزت و غلبہ سے نوازا۔ پھر کسی کو تو ایمان لانے کی توفیق مل گئی جیسے حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور اُن کے ساتھ والے ایمان لے آئے اور کئی محروم رہے جیسے کعب بن اشرف وغیرہ۔ تو جونبی آخر الزمان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان نہ لایا اس کیلئے جہنم کی بھڑکتی آگ کافی ہے۔
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِیْهِمْ نَارًاؕ-كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُهُمْ بَدَّلْنٰهُمْ جُلُوْدًا غَیْرَهَا لِیَذُوْقُوا الْعَذَابَؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَزِیْزًا حَكِیْمًا(56)
ترجمہ
بیشک وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا عنقریب ہم ان کو آگ میں داخل کریں گے ۔ جب کبھی ان کی کھالیں خوب جل جائیں گی توہم ان کی کھالوں کو دوسری کھالوں سے بدل دیں گے کہ عذاب کا مزہ چکھ لیں ۔ بیشک اللہ زبردست ہے ،حکمت والا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُهُمْ: جب کبھی ان کی کھالیں خوب جل جائیں گی۔} یہاں کافروں کے سخت عذاب کا تذکرہ ہے اور جہنم کے عذاب کی شدت کا بیان ہے کہ جہنم میں ایسا نہیں ہوگا کہ عذاب کی وجہ سے جل کر آدمی چھوٹ جائے بلکہ عذاب ہوتا رہے گا، کھالیں جلتی رہیں گی اور اللہ تعالیٰ نئی کھالیں پیدا فرماتا رہے گا تاکہ عذاب کی شدت میں کمی نہ آئے۔ یہ ایسے ہی ہوگا جیسے دنیا میں کسی کی کھال جل جائے تو کچھ عرصے بعد صحیح ہوجاتی ہے۔
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-لَهُمْ فِیْهَاۤ اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ٘-وَّ نُدْخِلُهُمْ ظِلًّا ظَلِیْلًا(57)
ترجمہ
اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے عنقریب ہم اُنہیں اُن باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں (وہ) ان میں ہمیشہ رہیں گے، ان کے لیے وہاں پاکیزہ بیویاں ہیں اور ہم انہیں وہاں داخل کریں گے جہاں سایہ ہی سایہ ہوگا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: اور ایمان والے۔} کافروں کے عذاب اور جہنم کے ذکر کے بعد ایمان والوں پر کرم نوازیوں اور جنتوں کا بیان کیا گیا ہے۔ یہ قرآنِ پاک کا ایک انداز ہے کہ کافروں کے افعال و عذاب کے ذکر کے ساتھ اہل ِایمان کے اعمال و جزا کا ذکر عموماً ہوتا ہے۔ چنانچہ مومنوں کے متعلق فرمایا کہ انہیں باغوں میں داخل کیا جائے گا جہاں انہیں پاکیزہ بیویاں ملیں گے اور وہاں دھوپ نہیں ہوگی بلکہ رب کریم عَزَّوَجَلَّ کے نور کی تَجَلّی کی روشنی ہوگی اور درخت ہوں گے اور ایسی رحمت ہوگی کہ اس کی راحت و آسائش انسانی فہم اور بیان سے بالا تر ہے ۔
اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَاۙ-وَ اِذَا حَكَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِؕ-اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا یَعِظُكُمْ بِهٖؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا(58)
ترجمہ
بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں جن کی ہیں ان کے سپرد کرو اور یہ کہ جب تم لوگوں میں فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو بیشک اللہ تمہیں کیا ہی خوب نصیحت فرماتا ہے، بیشک اللہ سننے والا ،دیکھنے والا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ: بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے۔} یہاں آیت میں دو حکم بیان کئے گئے ۔ پہلا حکم یہ کہ امانتیں ان کے حوالے کردو جن کی ہیں اور دوسرا حکم یہ ہے کہ جب فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو۔
اسلامی تعلیمات کے شاہکار:
یہ دونوں حکم اسلامی تعلیمات کے شاہکار ہیں اور امن و امان کے قیام اور حقوق کی ادائیگی میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ دونوں کی کچھ تفصیل یوں ہے:
(1)…امانت کی ادائیگی: امانت کی ادائیگی میں بنیادی چیز تو مالی معاملات میں حقدار کو اس کا حق دیدینا ہے۔ البتہ اس کے ساتھ اور بھی بہت سی چیزیں امانت کی ادائیگی میں داخل ہیں۔ جیسے حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو مسلمانوں کا حاکم بنا پھر اس نے ان پر کسی ایسے شخص کو حاکم مقرر کیاجس کے بارے میں یہ خود جانتا ہے کہ اس سے بہتر اور اس سے زیادہ کتاب و سنت کا عالم مسلمانوں میں موجود ہے تو اُس نے اللہ تعالیٰ، اُس کے رسول اور تمام مسلمانوں سے خیانت کی۔(معجم الکبیر، عمرو بن دینار عن ابن عباس، ۱۱ / ۹۴، الحدیث: ۱۱۲۱۶)
(2)… انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنا: نظامِ عدل و عدالت کی روح ہی یہ ہے کہ انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جائے۔ فریقَین میں سے اصلاً کسی کی رعایت نہ کی جائے۔ علماء نے فرمایا کہ حاکم کو چاہئے کہ پانچ باتوں میں فریقین کے ساتھ برابر سلوک کرے۔ (1) اپنے پاس آنے میں جیسے ایک کو موقع دے، دوسرے کو بھی دے۔ (2) نشست دونوں کو ایک جیسی دے۔ (3) دونوں کی طرف برابر مُتَوَجِّہ رہے۔ (4) کلام سننے میں ہر ایک کے ساتھ ایک ہی طریقہ رکھے۔ (5) فیصلہ دینے میں حق کی رعایت کرے جس کا دوسرے پر حق ہو پورا پورا دِلائے۔ حدیث شریف میں ہے کہ انصاف کرنے والوں کو قربِ الہٰی میں نورکے منبر عطا کئے جائیں گے۔(مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضیلۃ الامام العادل۔۔۔ الخ، ص۱۰۱۵، الحدیث: ۱۸(۱۸۲۷))
قاضی شریح رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا عادلانہ فیصلہ:
مسلمان قاضیوں نے اسلام کے عادلانہ نظام اور برحق فیصلوں کی ایسی عظیمُ الشان مثالیں قائم کی ہیں کہ دنیا ان کی نظیر پیش نہیں کر سکتی، اس موقع پر ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیے: جنگِ صفین کے موقع پرحضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کی ایک زِرَہ گم ہو گئی، بعد میں جب آپ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کوفہ تشریف لائے تو وہ زِرہ ایک یہودی کےپاس پائی، اسے فرمایا: یہ زِرَہ میری ہے، میں نے تمہیں بیچی ہے نہ تحفے میں دی ہے۔ یہودی نے کہا: یہ زِرہ میری ہے کیونکہ میرے قبضے میں ہے۔ فرمایا: ہم قاضی صاحب سے فیصلہ کرواتے ہیں ، چنانچہ یہ قاضی شُرَیح رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی عدالت میں پہنچے ، حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ان کے ساتھ تشریف فرما ہوئے ۔قاضی شریح رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا: اے امیرُ المؤمنین! ارشاد فرمائیے۔ فرمایا: اس یہودی کے قبضے میں جو زِرہ ہے وہ میری ہے، میں نے اسے نہ بیچی ہے نہ تحفے میں دی ہے۔ قاضی شریح رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہودی سے فرمایا: اے یہودی! تم کیا کہتے ہو؟ یہودی بولا: یہ زِرَہ میری ہے کیونکہ میرے قبضے میں ہے۔ قاضی صاحب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے کہا: اے امیر المؤمنین ! کیا آپ کے پاس کوئی دلیل ہے؟ فرمایا: ہاں ، قنبر اور حسن دونوں اس بات کے گواہ ہیں۔ قاضی صاحب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا: (کہ حسن آپ کے بیٹے ہیں اور شرعی اصول یہ ہے کہ) بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں جائز نہیں۔ جب اس یہودی نے قاضی صاحب کا عادلانہ فیصلہ سنا تو حیرت زدہ ہو کر کہنے لگا: اے امیر المومنین! آپ مجھے قاضی صاحب کے پاس لے کر آئے اور قاضی صاحب نے آپ ہی کے خلاف فیصلہ کر دیا! میں گواہی دیتا ہوں کہ یہی مذہب حق ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ، یہ زِرہ آپ ہی کی ہے۔ حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْماس کے اسلام قبول کرنے سے بہت خوش ہوئے ،وہ زِرہ اور ایک گھوڑا اُسے تحفے میں دے دیا۔(تاریخ الخلفاء، ابو السبطین: علی بن ابی طالب، فصل فی نبذ من اخبار علی۔۔۔ الخ، ص۱۸۴-۱۸۵، الکامل فی التاریخ، سنۃ اربعین، ذکر بعض سیرتہ، ۳ / ۲۶۵)
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ-فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا(59)
ترجمہ
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان کی جو تم میں سے حکومت والے ہیں ۔ پھر اگر کسی بات میں تمہارا اختلاف ہوجائے تواگر اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو تو اس بات کو اللہ اور رسول کی بارگاہ میں پیش کرو۔ یہ بہتر ہے اور اس کا انجام سب سے اچھا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ: اور رسول کی اطاعت کرو۔} یہاں آیت میں رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی کی اطاعت ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اُس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اُس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی کی۔(بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب یقاتل من وراء الامام ویتقی بہ، ۲ / ۲۹۷، الحدیث: ۲۹۵۷)
رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کے بعد امیر کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔ صحیح بخاری کی سابقہ حدیث میں ہی ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے امیر کی اطاعت کی اُس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اُس نے میری نافرمانی کی۔(بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب یقاتل من وراء الامام ویتقی بہ، ۲ / ۲۹۷، الحدیث: ۲۹۵۷)
نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت فرض ہے:
حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت و فرمانبرداری فرض ہے، قرآنِ پاک کی متعدد آیات میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کا حکم دیا گیا بلکہ رب تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا اورا س پر ثواب عظیم کا وعدہ فرمایا اور تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نافرمانی پرعذاب جہنم کا مژدہ سنایا ،لہٰذا جس کام کا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حکم فرمایا اسے کرنا اور جس سے منع فرمایا اس سے رک جانا ضروری ہے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۗ-وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْاۚ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ(سورۂ حشر:۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں ، اُس سے باز رہو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: میری اور اس چیز کی جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مجھے بھیجا مثال اس شخص کی سی ہے جو اپنی قوم کے پاس آ کر کہنے لگا: اے میری قوم میں نے اپنی آنکھوں سے ایک لشکر دیکھا ہے، میں واضح طور پر تمہیں اُس سے ڈرا رہا ہوں ، اپنی نجات کی راہ تلاش کر لو۔ اب ایک گروہ اس کی بات مان کر مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے راتوں رات وہاں سے چلا گیا وہ تو نجات پا گیا اور ایک گروہ نے اس کی بات نہ مانی اور وہیں رکا رہا تو صبح کے وقت لشکر نے ان پر حملہ کر کے انہیں ہلاک کردیا۔ تو جس نے میری اطاعت کی اور جو میں لایا اس پر عمل پیرا ہوا وہ اس گروہ جیسا ہے جو نجات پاگیا اور جس نے میری نافرمانی کی اور جو میں لایا اسے جھٹلایا تو وہ اس گروہ کی طرح ہے جو نہ مان کر ہلاکت میں پڑا۔(مسلم، کتاب الفضائل، باب شفقتہ صلی اللہ علیہ وسلم علی امتہ۔۔۔ الخ، ص۱۲۵۳، الحدیث: ۱۶(۲۲۸۳))
اِس آیت سے ثابت ہوا کہ مسلمان حکمرانوں کی اطاعت کا بھی حکم ہے جب تک وہ حق کے موافق رہیں اور اگر حق کے خلاف حکم کریں تو ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔نیز اس آیت سے معلوم ہوا کہ احکام تین قسم کے ہیں ایک وہ جو ظاہر کتاب یعنی قرآن سے ثابت ہوں۔ دوسرے وہ جو ظاہر حدیث سے ثابت ہوں اور تیسرے وہ جو قرآن و حدیث کی طرف قیاس کے ذریعے رجوع کرنے سے معلوم ہوں۔ آیت میں ’’اُولِی الْاَمْرِ‘‘ کی اطاعت کا حکم ہے ، اس میں اما م، امیر، بادشاہ، حاکم، قاضی، علماء سب داخل ہیں۔
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاكَمُوْۤا اِلَى الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْۤا اَنْ یَّكْفُرُوْا بِهٖؕ-وَ یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّهُمْ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا(60)
ترجمہ:
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کا دعویٰ ہے کہ وہ اُس پر ایمان لے آئے ہیں جو تمہاری طرف نازل کیا گیا اور جو تم سے پہلے نازل کیا گیا ، وہ چاہتے ہیں کہ فیصلے شیطان کے پاس لے جائیں حالانکہ انہیں تو یہ حکم دیا گیا تھا کہ اسے بالکل نہ مانیں اورشیطان یہ چاہتا ہے کہ انہیں دور کی گمراہی میں بھٹکاتا رہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا: کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کا دعویٰ ہے کہ وہ ایمان لے آئے ہیں } شانِ نزول: بِشرنامی ایک منافق کا ایک یہودی سے جھگڑا ہوگیا۔ یہودی نے کہا چلومحمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فیصلہ کروالیتے ہیں۔منافق نے خیال کیا کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تو کسی کی رعایت نہیں کریں گے اور اس سے میرا مطلب حاصل نہ ہوگا، اس لئے اُس نے مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود یہ کہا کہ کعب بن اشرف یہودی کو پنچ بناؤ (یہاں آیت میں طاغوت سے اس کعب بن اشرف کے پاس فیصلہ لے جانا مراد ہے) یہودی جانتا تھا کہ کعب بن اشرف رشوت خور ہے، اِس لئے اُس نے یہودی ہونے کے باوجو د اُس کو پنچ تسلیم نہ کیا ، ناچار منافق کو فیصلہ کے لئے سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حضور آنا پڑا۔ رسولِ صادق و امین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جو فیصلہ دیا وہ یہودی کے موافق ہوا اور منافق کے خلاف۔ یہاں سے فیصلہ سننے کے بعد پھر منافق اُس یہودی کومجبور کرکے حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس لے آیا، یہودی نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے عرض کیا کہ میرا اور اس کا معاملہ آپ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ طے فرما چکے لیکن یہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فیصلہ سے راضی نہیں بلکہ آپ سے فیصلہ چاہتا ہے۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ ہاں میں ابھی آکر اس کا فیصلہ کرتا ہوں ،یہ فرما کر مکان میں تشریف لے گئے اور تلوار لا کر اُس کو قتل کردیا اور فرمایا جو اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فیصلہ سے راضی نہ ہو اُس کا میرے پاس یہی فیصلہ ہے۔اس منافق کے ورثاء حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں آئے لیکن اِن آیات میں حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی تائید نازل ہوگئی تھی لہٰذا ورثاء کے مطالبے کو مُسترد کردیا گیا۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۶۰، ۱ / ۳۹۷)
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا اِلٰى مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَ اِلَى الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ الْمُنٰفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْكَ صُدُوْدًا(61)فَكَیْفَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْهِمْ ثُمَّ جَآءُوْكَ یَحْلِفُوْنَ ﳓ بِاللّٰهِ اِنْ اَرَدْنَاۤ اِلَّاۤ اِحْسَانًا وَّ تَوْفِیْقًا(62)اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ یَعْلَمُ اللّٰهُ مَا فِیْ قُلُوْبِهِمْۗ-فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ وَ عِظْهُمْ وَ قُلْ لَّهُمْ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ قَوْلًۢا بَلِیْغًا(63)
ترجمہ
اور جب ان سے کہا جائے کہ اللہ کی اتاری ہوئی کتاب اور رسول کی طرف آؤ تو تم دیکھو گے کہ منافق تم سے منہ موڑ کر پھر جاتے ہیں ۔ تو کیسی (حالت) ہوگی جب ان پر ان کے اپنے اعمال کی وجہ سے کوئی مصیبت آپڑے پھر اے حبیب! قسمیں کھاتے ہوئے تمہارے حضور حاضر ہوتے ہیں کہ ہمارا مقصد تو صرف بھلائی اور اتفاق کرانا تھا۔ ان کے دلوں کی بات تواللہ جانتا ہے پس تم ان سے چشم پوشی کرتے رہو اور انہیں سمجھاتے رہو اور ان کے بارے میں ان سے پُراثرکلام کرتے رہو۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{فَكَیْفَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْهِمْ: تو کیسی ہوگی جب ان پر ان کے اپنے اعمال کی وجہ سے کوئی مصیبت آ پڑے} یہاں منافقوں کے بارے میں فرمایا کہ ویسے تو اے حبیب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ سے منہ پھیرتے ہیں لیکن جب ان پر ان کے اپنے اعمال کی وجہ سے کوئی مصیبت آ پڑے جیسے بِشر منافق پر آپڑی تو کیا پھر بھییہ آپ سے اعراض کریں گے؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ اس وقت اپنی کرتوتوں کی تاویلیں کرنے کے لئے قسمیں کھاتے ہوئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں کہ ہمارا مقصد تو صرف بھلائی اور دوفریقوں میں اتفاق کرانا تھا، اس لئے ہمارا آدمی یہودیوں کے پاس فیصلے کیلئے جانے لگا تھا ۔
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِؕ-وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(64)
ترجمہ
اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کربیٹھے تھے تو اے حبیب! تمہاری بارگاہ میں حاضر ہوجاتے پھر اللہ سے معافی مانگتے اور رسول (بھی) ان کی مغفرت کی دعا فرماتے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا، مہربان پاتے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ:اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لئے کہ اس کی اطاعت کی جائے۔} یہاں رسولوں کی تشریف آوری کا مقصد بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ رسولوں کو بھیجتا ہی اس لئے ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے ان کی اطاعت کی جائے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ اَنبیاء و رُسُل عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو معصوم بناتا ہے کیونکہ اگر انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خود گناہوں کے مُرتَکِب ہوں گے تو دوسرے ان کی اطاعت و اِتّباع کیا کریں گے۔ رسول کی اطاعت اس لئے ضروری ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت کا طریقہ ہی رسول کی اطاعت کرنا ہے۔ اس سے ہٹ کر اطاعت ِ الہٰی کا کوئی دوسرا طریقہ نہیں لہٰذا جو رسول کی اطاعت کا انکار کرے گا وہ کافر ہوگا اگرچہ ساری زندگی سر پر قرآن اٹھا کر پھرتا رہے۔
{وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ: اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کربیٹھے تھے۔} آیت کے اس حصے میں اگرچہ ایک خاص واقعے کے اعتبار سے کلام فرمایا گیا، البتہ اس میں موجود حکم عام ہے اورقیامت تک آنے والے مسلمانوں کو سَرورِ دوجہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر شفاعت طلب کرنے کا طریقہ بتا یا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اگر یہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں تو اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آپ کی بارگاہ میں آجائیں کہ یہ بارگاہ، رب کریم عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ ہے، یہاں کی رضا، رب عَزَّوَجَلَّ کی رضا ہے اور یہاں کی حاضری، رب ِ کریم عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ کی حاضری ہے، یہاں آئیں اور اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنے کے ساتھ حبیب ِ ربُّ العٰلَمِین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں بھی شفاعت کیلئے عرض کریں اور نبی مُکَرَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کیلئے سفارش فرما دیں تو ان لوگوں پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت و مغفرت کی بارشیں برسنا شروع ہوجائیں گی اور اس پاک بارگاہ میں آکر یہ خود بھی گناہوں سے پاک ہوجائیں گے۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’بندوں کو حکم ہے کہ ان (یعنی نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کی بارگاہ میں حاضر ہو کر توبہ و استغفار کریں۔ اللہ تو ہر جگہ سنتا ہے، اس کا علم ،اس کا سَمع (یعنی سننا)، اس کا شُہود (یعنی دیکھنا) سب جگہ ایک سا ہے، مگر حکم یہی فرمایا کہ میری طرف توبہ چاہو تو میرے محبوب کے حضور حاضر ہو۔ قال تعالٰی:
وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا
اگر وہ جو اپنی جانوں پر ظلم کریں تیرے پاس حاضر ہو کر خدا سے بخشش چاہیں اور رسول ان کی مغفرت مانگے تو ضرور خدا کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔
حضور کے عالَم حیات ظاہری میں حضور (یعنی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہونا) ظاہر تھا، اب حضورِمزار پُر انوار ہے اور جہاں یہ بھی مُیَسَّر نہ ہو تو دل سے حضور پُر نور کی طرف توجہ ،حضور سے تَوَسُّل، فریاد، اِستِغاثہ، طلبِ شفاعت (کی جائے) کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اب بھی ہر مسلمان کے گھر میں جلوہ فرما ہیں۔ مولانا علی قاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْبَارِی شرح شفا شریف میں فرماتے ہیں ’’رُوْحُ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حَاضِرَۃٌ فِیْ بُیُوْتِ اَھْلِ الْاِسْلَامِ‘‘ ترجمہ : نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہر مسلمان کے گھر میں جلوہ فرما ہیں۔(فتاوی رضویہ، ۱۵ / ۶۵۴)
یاد رہے کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اور وصالِ ظاہری کے بعد آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مزار پر انوار پر حاضری دے کر اپنے گناہوں کی معافی چاہنے، اپنی مغفرت ونجات کی اِلتِجاء کرنے اور اپنی مشکلات کی دوری چاہنے کا سلسلہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے چلتا آ رہا ہے۔ چنانچہ ذیل میں ا س سے متعلق چند واقعات ملاحظہ ہوں :
بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہو کر گناہوں کی معافی چاہنے کے 3 واقعات:
(1)…حضرت ابو لبابہ بن عبدا لمنذر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے غزوۂ بنو قریظہ کے موقع پر ایک خطا سرزد ہو گئی تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس قدر نادم ہوئے کہ خود کو ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا اور کہا: جب تک اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول نہیں فرمائے گا تب تک نہ میں کچھ کھاؤں گا، نہ پیوں گا ،نہ کوئی چیز چکھوں گا، یہاں تک کہ مجھے موت آ جائے یا اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول فرما لے۔ حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جب ان کے بارے میں پتا چلا تو ارشاد فرمایا: اگر یہ میرے پاس آ جاتا تو میں اس کے لئے مغفرت طلب کرتا لیکن اب اس نے خود کو باندھ لیا ہے تو جب تک اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول نہ فرمائے گا، میں نہیں کھولوں گا۔ سات دن تک حضرت ابو لبابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے نہ کوئی چیز کھائی، نہ پی، نہ چکھی ، حتّٰی کہ ان پرغشی طاری ہو گئی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی، جب انہیں توبہ کی قبولیت کے بارے میں بتایا گیا تو فرمایا: خدا کی قسم! میں اس وقت تک خود کو نہیں کھولوں گا جب تک کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لا کر اپنے دستِ اقدس سے مجھے نہیں کھولتے۔ چنانچہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لائے اور اپنے پیارے صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو بندشوں سے آزاد فرمادیا۔ (دلائل النبوہ للبیہقی، باب مرجع النبی صلی اللہ علیہ وسلم من الاحزاب ومخرجہ الی بنی قریظۃ۔۔۔ الخ، ۴ / ۱۳-۱۴، خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۲۷، ۲ / ۱۹۰)
(2)… بارگاہ ِرسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں توبہ و رُجوع کی ایک دوسری روایت ملاحظہ فرمائیں ، چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں : میں نے ایک ایسابستر خریدا جس پر تصویریں بنی ہوئی تھیں جب رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اسے دیکھا تو دروازے پر کھڑے ہو گئے اور گھر میں داخل نہ ہوئے، میں نے آپ کے روئے انور پر ناپسندیدگی کے آثار دیکھے تو عرض گزار ہوئی:یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مجھ سے جو نافرمانی ہوئی میں اس سے اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں توبہ کرتی ہوں۔ ارشاد فرمایا: یہ گدا یہاں کیوں ہے؟ عرض کی: میں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے خریدا تھا تاکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس پر تشریف فرما ہوں اور اس سے ٹیک لگائیں۔ سرکارِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ان تصویروں (کو بنانے) والے قیامت کے دن عذاب دئیے جائیں گے تو ان سے کہا جائے گا: جو تم نے بنایا انہیں زندہ کرو۔‘‘ اور ارشاد فرمایا: ’’جس گھر میں تصویریں ہوں اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔(بخاری، کتاب البیوع، باب التجارۃ فیما یکرہ لبسہ للرجال والنساء، ۲ / ۲۱، الحدیث: ۲۱۰۵)
(3)…حضرت ثوبان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ چالیس صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم جن میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا بھی تھے جمع ہوکر جَبر وقَدر میں بحث کرنے لگے تو روحُ الْاَمین حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دربار میں حاضر ہوئے اور عرض کی:یارسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ باہراپنی امت کے پاس تشریف لے جائیں انہوں نے ایک نیا کام شروع کردیا ہے۔ چنانچہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس حال میں باہر تشریف لائے کہ غصہ سے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا چہرہ مبارک سرخی میں اس طرح نمایاں تھا جیسے سرخ انار کا دانہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے رخسار مبارک پر نچوڑا گیا ہو۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اس کیفیت کو دیکھ کر کھلے بازو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے استقبال کے لئے آگے بڑھے اور ان کا حال یہ تھا کہ ان کے ہاتھ اور بازو کانپ رہے تھے اور عرض کی ’’ تُبْنَا اِلَی اللہِ وَرَسُوْلِہٖ‘‘ ہم نے اللہ تعالیٰ اور رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دربار میں توبہ پیش کی ۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قریب تھا کہ تم اپنے اوپر جہنم کوواجب کرلیتے، میرے پاس جبرائیل امین عَلَیْہِ السَّلَام تشریف لائے اور عرض کی کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ باہر امت کے پاس تشریف لے جائیں ، انہوں نے نیا کام شروع کردیا ہے۔(معجم الکبیر، ثوبان مولی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ۲ / ۵۹، الحدیث: ۱۴۲۳)
مزار پر انوار پر حاضر ہو کر حاجتیں اور مغفرت طلب کرنے کے5واقعات:
حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضری کا یہ طریقہ صرف آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ظاہری حیات ِ مبارکہ میں نہ تھا بلکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وصالِ مبارک کے بعد بھی یہ عرض و معروض باقی رہی اور آج تک ساری امت میں چلتی آرہی ہے۔چنانچہ
(1)…امیر المومنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے دورِ خلافت میں قحط پڑ گیا تو صحابی رسول حضرت بلال بن حارث المزنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے سلطانِ دو جہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قبرِ انور پر حاضر ہو کر عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اپنی امت کے لئے بارش کی دعا فرما دیجئے وہ ہلاک ہو رہی ہے۔ سرکارِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خواب میں ان سے ارشاد فرمایا: تم حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس جا کر میرا سلام کہو اور بشارت دے دو کہ بارش ہو گی اور یہ بھی کہہ دو کہ وہ نرمی اختیار کریں۔ حضرت بلال بن حارث رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بارگاہِ خلافت میں حاضر ہوئے اور خبر دے دی۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ یہ سن کر رونے لگے ، پھر فرمایا: یا رب !عَزَّوَجَلَّ، میں کوتاہی نہیں کرتا مگر اسی چیز میں کہ جس سے میں عاجز ہوں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الفضائل، ما ذکر فی فضل عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ، ۷ / ۴۸۲، الحدیث: ۳۵، وفاء الوفاء، الباب الثامن فی زیارۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم، الفصل الثالث، ۲ / ۱۳۷۴، الجزء الرابع)
(2)…ایک مرتبہ مدینۂ منورہ میں شدید قحط پڑا، اہلِ مدینہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کی بارگاہ میں اس کی شکایت کی تو انہوں نے فرمایا: سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قبرِ انور دیکھو اور چھت میں ایک روشندان بناؤ حتّٰی کہ روضۂ منور اور آسمان کے درمیان کوئی چیز حائل نہ رہے، اہلِ مدینہ نے جیسے ہی روشندان بنایا تو اتنی کثیر بارش ہوئی کہ سبز گھاس اُگ آئی اور اونٹ موٹے ہو گئے یہاں تک کہ گوشت سے بھر گئے۔ (سنن دارمی، باب ما اکرم اللہ تعالٰی نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم بعد موتہ، ۱ / ۵۶، الحدیث: ۹۲)
(3)…بادشاہ ابو جعفرمنصور نے حضرت امام مالک رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے مسجدِ نبوی شریف میں مناظرہ کیا، دورانِ مناظرہ ابو جعفر کی آواز کچھ بلند ہوئی تو امام مالک رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اسے ( ڈانٹتے ہوئے) کہا: اے امیرُ المؤمنین! اس مسجد میں اپنی آواز اونچی نہ کرو کیونکہ اللہ تعا لیٰ نے ایک جماعت کو ادب سکھایا کہ’’تم اپنی آوازوں کو نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی آواز سے بلند مت کرو ۔‘‘اور دوسری جماعت کی تعریف فرمائی کہ’’بے شک جو لوگ اپنی آوازوں کو رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں پَست کرتے ہیں۔‘‘ اور ایک قوم کی مذمت بیان کی کہ’’بے شک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں۔‘‘ بے شک آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عزت و حرمت اب بھی اسی طرح ہے جس طرح آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ظاہری حیات میں تھی۔ یہ سن کر ابو جعفر خاموش ہو گیا، پھر دریافت کیا: اے ابو عبداللہ! میں قبلہ کی طرف منہ کر کے دعا مانگوں یا رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف متوجہ ہو کر؟ فرمایا: تم کیوں حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے منہ پھیرتے ہو حالانکہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمہارے اور تمہارے والد حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کے بروز قیامت اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں وسیلہ ہیں بلکہ تم حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کی طرف متوجہ ہو کر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے شفاعت مانگو پھر اللہ تعالیٰ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شفاعت قبول فرمائے گا۔(شفا شریف، القسم الثانی، الباب الثالث، فصل واعلم انّ حرمۃ النبی۔۔۔ الخ، ص۴۱، الجزء الثانی)
(4)…مروان نے اپنے زمانۂ تَسَلُّط میں ایک صاحب کو دیکھا کہ حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قبر انور پر اپنا منہ رکھے ہوئے ہیں ، مروان نے (ان کی گردن مبارک پکڑ کر) کہا: جانتے ہو کیا کر رہے ہو؟ اس پر ان صاحب نے اس کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ہاں ، میں کسی اینٹ پتھر کے پاس نہیں آیا ہوں ، میں تو رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حضور حاضر ہوا ہوں ، میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : دین پر نہ روؤ جب اس کا اہل اس پر والی ہو، ہاں اس وقت دین پر روؤ جبکہ نا اہل والی ہو۔ یہ صحابی رسول حضرت ابو ایوب انصاری رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ تھے۔(مسند امام احمد، حدیث ابی ایوب الانصاری، ۹ / ۱۴۸، الحدیث: ۲۳۶۴۶)
(5)… حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی وفات شریف کے بعد ایک اعرابی روضۂ اقدس پر حاضر ہوا اور روضۂ انور کی خاک پاک اپنے سر پر ڈالی اور عرض کرنے لگا:یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جو آپ نے فرمایا، ہم نے سنا اور جو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نازل ہوا ،اس میں یہ آیت بھی ہے’’وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْا‘‘ میں نے بے شک اپنی جان پر ظلم کیا اور میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے اپنے گناہ کی بخشش چاہنے حاضر ہوا ہوں تو میرے رب عَزَّوَجَلَّ سے میرے گناہ کی بخشش کرائیے ۔اس پر قبر شریف سے ندا آئی کہ تجھے بخش دیا گیا۔ (مدارک، النساء، تحت الآیۃ: ۶۴، ص۲۳۶)
الغرض یہ آیت ِ مبارکہ سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظیم مدح و ثنا پر مشتمل ہے۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے بہت سے اشعار فرمائے ہیں۔ چنانچہ’’حدائق بخشش‘‘ میں فرماتے ہیں :
مجرم بلائے آئے ہیں جَآءُوْكَ ہے گواہ
پھر رد ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے
اور فرمایا:
بخدا خدا کا یہی ہے در نہیں اور کوئی مَفَر مَقَر
جو وہاں سے ہو یہیں آ کے ہو جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں
اور فرمایا:
وہی رب ہے جس نے تجھ کو ہمہ تن کرم بنایا
ہمیں بھیک مانگنے کو تیرا آستاں بتایا
آیت’’وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْا‘‘سے معلوم ہونے والے احکام:
اس آیت سے 4باتیں معلوم ہوئیں۔
(1)… اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاجت پیش کرنے کے لئے اُس کے مقبولوں کو وسیلہ بنانا کامیابی کا ذریعہ ہے۔
(2)…قبرِ انور پر حاجت کے لئے حاضر ہونا بھی ’’جَآءُوْكَ‘‘ میں داخل اور خَیرُ القُرون کا معمول ہے۔
(3)… بعد ِوفات مقبولانِ حق کو ’’یا‘‘ کے ساتھ نِدا کرنا جائز ہے ۔
(4)… مقبولانِ بارگاہِ الہٰی مدد فرماتے ہیں اور ان کی دعا سے حاجت روائی ہوتی ہے۔
فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(65)
ترجمہ:
تو اے حبیب! تمہارے رب کی قسم، یہ لوگ مسلمان نہ ہوں گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنالیں پھر جو کچھ تم حکم فرما دو اپنے دلوں میں اس سے کوئی رکاوٹ نہ پائیں اوراچھی طرح دل سے مان لیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{فَلَا وَ رَبِّكَ: تو اے حبیب! تمہارے رب کی قسم۔}اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ اہلِ مدینہ پہاڑ سے آنے والے پانی سے باغوں میں آبپاشی کرتے تھے۔ وہاں ایک انصاری کا حضرت زبیررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے جھگڑا ہوا کہ کون پہلے اپنے کھیت کو پانی دے گا۔ یہ معاملہ حبیب ِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے حضور پیش کیا گیا۔ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا، اے زبیر! تم اپنے باغ کو پانی دے کر اپنے پڑوسی کی طرف پانی چھوڑ دو۔ حضرت زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو پہلے پانی کی اجازت اس لئے دی گئی کہ ان کا کھیت پہلے آتا تھا، اس کے باوجود سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انصاری کے ساتھ بھی احسان کرنے کا فرما دیا لیکن مجموعی فیصلہ انصاری کو ناگوار گزرا اور اس کی زبان سے یہ کلمہ نکلا کہ زبیر آپ کے پھوپھی زاد بھائی ہیں۔ باوجود اس کے کہ فیصلہ میں حضرت زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو انصاری کے ساتھ احسان کی ہدایت فرمائی گئی تھی لیکن انصاری نے اس کی قدر نہ کی تو حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے حضرت زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو حکم دیا کہ اپنے باغ کو سیراب کرکے پانی روک لو۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری، کتاب الصلح، باب اذا اشار الامام بالصلح۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۱۵، الحدیث: ۲۷۰۸)
اور بتادیا گیا کہ حبیب ِ خدا، محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم کو تسلیم کرنا فرضِ قطعی ہے۔ جو شخص تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فیصلے کو تسلیم نہیں کرتا وہ کافر ہے، ایمان کا مدار ہی اللہ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم کو تسلیم کرنے پر ہے۔
آیت’’فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ‘‘سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس آیت ِ مبارکہ سے 7 مسائل معلوم ہوئے:
(1)…اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے رب ہونے کی نسبت اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف فرمائی اور فرمایا اے حبیب! تیرے رب کی قسم۔ یہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظیم شان ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی پہچان اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ذریعے سے کرواتا ہے۔
(2)…حضور پرنورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حکم ماننا فرض قرار دیا اور اس بات کو اپنے رب ہونے کی قسم کے ساتھ پختہ کیا۔
(3)…حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حکم ماننے سے انکار کرنے والے کو کافر قرار دیا۔
(4)…تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حاکم ہیں۔
(5)…اللہ عَزَّوَجَلَّ بھی حاکم ہے اور حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی البتہ دونوں میں لامُتَناہی فرق ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بہت سی صفات جواللہ تعالیٰ کیلئے استعمال ہوتی ہیں اگر وہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے استعمال کی جائیں تو شرک لازم نہیں آتا جب تک کہ شرک کی حقیقت نہ پائی جائے۔
(6)…رسو لِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حکم دل و جان سے ماننا ضروری ہے اور اس کے بارے میں دل میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے ۔ اسی لئے آیت کے آخر میں فرمایا کہ پھر اپنے دلوں میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم کے متعلق کوئی رکاوٹ نہ پائیں اور دل و جان سے تسلیم کرلیں۔
(7)…اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلامی احکام کا ماننا فرض ہے اور ان کو نہ ماننا کفر ہے نیز ان پر اعتراض کرنا، ان کا مذاق اڑانا کفر ہے۔ اس سے وہ لوگ عبرت حاصل کریں جو کافروں کے قوانین کو اسلامی قوانین پرفَوْقِیَّت دیتے ہیں۔
وَ لَوْ اَنَّا كَتَبْنَا عَلَیْهِمْ اَنِ اقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ اَوِ اخْرُجُوْا مِنْ دِیَارِكُمْ مَّا فَعَلُوْهُ اِلَّا قَلِیْلٌ مِّنْهُمْؕ-وَ لَوْ اَنَّهُمْ فَعَلُوْا مَا یُوْعَظُوْنَ بِهٖ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ وَ اَشَدَّ تَثْبِیْتًا(66)وَّ اِذًا لَّاٰتَیْنٰهُمْ مِّنْ لَّدُنَّاۤ اَجْرًا عَظِیْمًا(67)وَّ لَهَدَیْنٰهُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا(68)
ترجمہ
اور اگر ہم ان پر فرض کردیتے کہ اپنے آپ کو قتل کردو یا اپنے گھر بار چھوڑ کر نکل جاؤ تو ان میں تھوڑے ہی ایسا کرتے اور اگر وہ ہر وہ کام کرلیتے جس کی انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو ان کے لئے بہت بہتراورثابت قدمی کا ذریعہ ہوتا۔ اور ایسا ہوتا تو ہم ضرور انہیں اپنے پاس سے بہت بڑا ثواب عطا فرماتے۔اور ہم انہیں ضرور سیدھے راستے کی ہدایت دیتے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَوْ اَنَّا كَتَبْنَا عَلَیْهِمْ: اور اگر ہم ان پر فرض کردیتے۔} یہاں مخلص و منافق سب کے اعتبار سے فرمایا جارہا ہے کہ اگر ہم ان پر فرض کردیتے کہ اپنے آپ کو قتل کرویا اپنے گھروں سے نکل جاؤ تو ان میں سے تھوڑے ہی ایسا کرتے جیسا کہ بنی اسرائیل کو مصر سے نکل جانے اور توبہ کے لئے اپنے آپ کو قتل کا حکم دیا تھا۔ اس آیت کا شانِ نزول کچھ اس طرح ہے کہ حضرت ثابت بن قیس بن شَماس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ایک یہودی نے کہا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ہم پر خود کو قتل کرنا اور گھر بار چھوڑ نا فرض کیا تھا، ہم اس کو بجالائے تھے۔ اس پر حضرت ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ ہم پر فرض کرتا تو ہم بھی ضرور بجالاتے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(تفسیر طبری، النساء، تحت الآیۃ: ۶۶، ۴ / ۱۶۳)
کہ یہ کہنا تو آسان ہے لیکن اگر واقعی ایسا حکم دیدیا جاتا تو ایک بڑی تعداد اس حکم پر عمل نہ کرتی۔ اس میں بطورِ خاص منافقین یا نئے نئے مسلمان ہونے والے داخل ہوں گے جیسے منافقین اکثر جہاد سے فرار کی راہ ہی اختیار کرتے تھے اور نئے نئے مسلمان ہونے والے بھی کئی جنگوں میں ثابت قدم نہ رہ سکے۔ جہاں تک مُخلِصین یعنی جلیلُ القدر صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا تعلق ہے تو کتنے ہی صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ایسے ہیں جنہوں نے مختلف جنگوں میں خود کو سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے آگے کھڑا کردیا اور حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی حفاظت میں اپنی جانیں قربان کردیں۔ مزید فرمایا کہ اگر تمہیں خود کو قتل کرنے یا اپنے گھروں سے نکل جانے کا حکم دیا جاتا تو تم میں سے تھوڑے لوگ ہی کرتے لیکن اگر وہ ہر اُس حکم پر عمل کریں جو انہیں دیا جائے خواہ خود کو جان سے ماردینے کا ہو یا گھروں سے نکل جانے کا بہرصورت یہ ان کیلئے بہت بہتر ہوتا اور ایمان پر ثابت قدمی کا ذریعہ ہوتا اور اس پر ہم انہیں عظیم اجروثواب عطا فرماتے اور انہیں صراط ِ مستقیم کی اعلیٰ درجے کی ہدایت عطا فرماتے۔
وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَۚ-وَ حَسُنَ اُولٰٓىٕكَ رَفِیْقًاﭤ(69)
ترجمہ
اور جواللہ اور رسول کی اطاعت کرے تو وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین اور یہ کتنے اچھے ساتھی ہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ: اور جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے۔} آیتِ مبارکہ کا شانِ نزول کچھ اس طرح ہے کہ حضرت ثوبان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ تاجدارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ کمال درجے کی محبت رکھتے تھے اور انہیں جدائی کی تاب نہ تھی۔ ایک روز اس قدر غمگین اور رنجیدہ حاضر ہوئے کہ چہرے کا رنگ بدل گیاتھا تو رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے دریافت فرمایا، آج رنگ کیوں بدلاہوا ہے ؟عرض کیا: نہ مجھے کوئی بیماری ہے اورنہ درد سوائے اس کے کہ جب حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سامنے نہیں ہوتے تو اِنتہا درجہ کی وحشت و پریشانی ہوجاتی ہے، جب آخرت کو یاد کرتا ہوں تو یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ وہاں میں کس طرح دیدار پاسکوں گا؟ آپ اعلیٰ ترین مقام میں ہوں گے اور مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم سے جنت بھی دی تو اس مقام عالی تک رسائی کہاں ؟ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۶۹، ۱ / ۴۰۰)
اور انہیں تسکین دی گئی کہ منزلوں کے فرق کے باوجودفرمانبرداروں کو نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضری اور مَعِیَّت کی نعمت سے سرفراز فرمایا جائے گا اور انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مخلص فرمانبردار جنت میں اُن کی صحبت ودیدار سے محروم نہ ہوں گے۔حدیث شریف میں ہے:آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس سے محبت کرے۔ (ابو داؤد، کتاب الادب، باب اخبار الرجل الرجل بمحبتہ ایاہ، ۴ / ۴۲۹، الحدیث: ۵۱۲۷)
صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا شوقِ رفاقت:
اس سے معلوم ہو اکہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رفاقت صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو بہت محبوب تھی اور دنیا کی رفاقت کے ساتھ ساتھ اُخروی رفاقت کا شوق بھی ان کے دلوں میں رچا بسا تھا اور وہ ا س کے لئے بڑے فکر مند ہو اکرتے تھے۔ ذیلی سُطور میں صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے شوقِ رفاقت کے چند اور واقعات ملاحظہ ہوں ، چنانچہ
حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’میں رات کو رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمتِ اقدس میں رہا کرتا تھا، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وضو کیلئے پانی لایا کرتا اور دیگر خدمت بھی بجا لایا کرتا تھا۔ایک روز آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھ سے فرمایا : سَلْ (مانگو) میں نے عرض کیا ’’اَسْئَلُکَ مُرَافَقَتَکَ فِی الْجَنَّۃِ‘‘میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جنت میں آپ کا ساتھ مانگتا ہوں۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ اس کے علاوہ اور کچھ؟ میں نے عرض کی: میرا مقصود تو وہی ہے۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’تو پھر زیادہ سجدے کر کے اپنے معاملے میں میری مدد کرو۔(مسلم، کتاب الصلاۃ، باب فضل السجود والحث علیہ، ص۲۵۲، الحدیث: ۲۲۶(۴۸۹))
جنگ اُحد کے موقع پر حضرت ام عمارہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہانے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ دعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ ہم لوگوں کو جنت میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت گزاری کا شرف عطا فرمائے۔ اس وقت آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے لئے اور ان کے شوہر اور ان کے بیٹوں کے لئے اس طرح دعا فرمائی کہ ’’اَللّٰھُمَّ اجْعَلْھُمْ رُفَقَائِیْ فِی الْجَنَّۃِ‘‘ یااللہ!عَزَّوَجَلَّ، ان سب کو جنت میں میرا رفیق بنا دے۔ حضرت ام عمارہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہازندگی بھر علانیہ یہ کہتی رہیں کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اس دعاکے بعد دنیا میں بڑی سے بڑی مصیبت مجھ پر آجائے تو مجھ کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔(الطبقات الکبری لابن سعد، ومن نساء بنی النجار ۔۔۔ الخ، امّ عمارۃبنت کعب، ۸ / ۳۰۵)
عاشقوں کے امام حضرت بلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی وفات کا وقت قریب آیا تو ان کی زوجہ شدت ِغم سے فرمانے لگیں :ہائے غم۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: واہ! بڑی خوشی کی بات ہے کہ کل ہم اپنے محبوب آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کے اصحاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے ملاقات کریں گے ۔(سیرت حلبیہ، باب استخفائہ صلی اللہ علیہ وسلم واصحابہ فی دار الارقم۔۔۔ الخ، ۱ / ۴۲۲)
ایک جنگ کے موقع پر حضرت عمار بن یاسر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت ہاشم بن عتبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے فرمایا ’’اے ہاشم! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ،تم جنت سے بھاگتے ہو حالانکہ جنت تو تلواروں (کے سائے) میں ہے۔ آج میں اپنی محبوب ترین ہستیوں محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کے ساتھیوں سے ملاقات کروں گا۔ چنانچہ اسی جنگ میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے شہادت پائی۔(اسد الغابہ، باب العین والمیم، عمار بن یاسر، ۴ / ۱۴۴)
جب حضرت خباب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیمار ہوئے تو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ان کی عیادت کے لئے تشریف لائے (جب انہوں نے دیکھا کہ یہ اسی مرض میں وفات پا جائیں گے ) تو فرمایا ’’تم خوش ہو جاؤ، کل تم محبوب ترین ہستی محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کے صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے ملاقات کرو گے۔ (البدایہ والنہایہ، ثمّ دخلت سنۃ سبع وثلاثین، ذکر من توفی فیہا من الاعیان، ۵ / ۴۱۷)
اللہ تعالیٰ ان مقدس ہستیوں کے شوقِ رفاقت کے صدقے ہمیں بھی اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قبر و حشر اور جنت میں رفاقت نصیب فرمائے۔ اٰمین۔
صدق کے معنی اور اس کے مَراتِب:
اس آیت میں صِدّیقین کا لفظ آیا ہے۔ صدیقین انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سچے مُتَّبِعین کو کہتے ہیں جواخلاص کے ساتھ اُن کی راہ پر قائم رہیں۔ اسی مناسبت سے یہاں ہم اس کے معانی اور اس کے درجات بیان کرتے ہیں چنانچہ امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : صدق 6 معانی میں استعمال ہو تا ہے :(1) گفتگو میں صدق۔ (2) نیت و ارادہ میں صدق۔ (3) عَزم میں صدق۔ (4) عزم کو پورا کرنے میں صدق۔ (5) عمل میں صدق۔ (6) دین کے تمام مقامات کی تحقیق میں صدق۔ ان معانی کے اعتبار سے صادقین کے بہت سے درجات ہیں اور جس شخص میں کسی خاص چیز میں صدق پایا جائے تو وہ اسی چیز کی نسبت سے صادق کہلائے گا، چنانچہ :
پہلا صدق ’’زبان کا صدق ‘‘ہے اور یہ صرف خبریں دینے میں یا ان باتوں میں ہوتا ہے جو خبروں میں شامل ہوں اور ان سے آگاہی ہو اور اس میں وعدے کو پورا کرنا اور اس کی خلاف ورزی کرنا بھی داخل ہے،لہٰذا ہر بندے کو چاہئے کہ وہ اپنے الفاظ کی حفاظت کرے اور (ہمیشہ) سچی بات ہی کہے۔
دوسرا صدق ارادے اور نیت سے متعلق ہے اور یہ اخلاص کی طرف لوٹتا ہے، یعنی بندے کی حَرکات و سَکَنات کا باعث صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہوتی ہے، اگر اس میں کوئی نَفسانی غرض بھی آ جائے تو صدقِ نیت باطل ہو جاتا ہے اور ایسے شخص کو جھوٹاکہنا صحیح ہے لہٰذا ہر صادق کا مخلص ہونا ضروری ہے۔
تیسرا صدق ’’عزم کا صدق ‘‘ ہے کیونکہ بعض اوقات انسان کسی عمل کا پختہ ارادہ کرتا ہے اور دل میں کہتا ہے کہ اگراللہ تعالیٰ نے مجھے مال عطا فرمایا تو میں تمام مال صدقہ کر دوں گا یا یہ کہ اگر اللہ تعالیٰ کے راستے میں میرا دشمن سے مقابلہ ہو ا تو میں ا س سے لڑوں گا اور ا س لڑائی میں اگر میں قتل بھی ہو جاؤں تو مجھے اس کی پرواہ نہ ہو گی یا اگراللہ تعالیٰ مجھے حکومت دے تو میں انصاف کروں گا اور ظلم کرنے اور مخلوق کی طرف میلان کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔یہ عزم و ارادہ دل میں ہوتا ہے اور انتہائی پختہ اور سچا ہوتا ہے لیکن بعض اوقات اس میں دوسری طرف میلان اور تَرَدُّد ہوتا ہے، نیز ایسی کمزوری ہوتی ہے جو عزم میں صدق کے مقابل اور اس کی ضد ہوتی ہے توصادق اور صدیق وہ شخص ہے جس کا پختہ ارادہ تمام نیکیوں میں قوتِ تامہ کے ساتھ ہوتاہے، اس میں کسی قسم کا میلان ،تردد اور کمزوری نہیں ہوتی اور ا س کا نفس ہمیشہ نیک کاموں پر پختہ ارادہ رکھتا ہے۔
چوتھا صدق ’’عزم کو پورا کرنے کا صدق‘‘ ہے کیونکہ بعض اوقات نفس فی الحال عزم کر لیتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وعدے اور عزم میں کوئی مشقت نہیں ہوتی اور اس میں محنت بھی کم ہوتی ہے لیکن جب حقیقت کا سامنا ہوتا ہے اور قدرت حاصل ہوجاتی ہے اور شہوت کازور ہوتا ہے تو عزم ختم ہو جاتا ہے اور خواہشات غالب ا ٓجاتی ہیں جس کی وجہ سے وہ عزم کو پورا نہیں کر سکتا اور یہ بات صدق کے خلاف ہے۔
پانچواں صدق ’’اعمال کا صدق‘‘ ہے، یعنی انسان کوشش کرے حتّٰی کہ اس کے ظاہری اعمال ایسی بات پر دلالت نہ کریں کہ ا س کے دل میں جو کچھ ہے وہ ظاہر کے خلاف ہے۔ یہ کوشش اعمال کو چھوڑنے سے نہ ہو بلکہ باطن کو ظاہر کی تصدیق کی طرف کھینچنے سے ہو اور یہ بات تَرکِ ریاسے حاصل ہوتی ہے کیونکہ ریا کار تو یہی چاہتاہے کہ اس کے ظاہر سے باطن کی اچھی صفات سمجھی جائیں البتہ کئی نمازی نماز میں خشوع و خضوع کی صورت میں کھڑے ہوتے ہیں اور ان کا مقصد دوسروں کو دکھانا نہیں ہوتا لیکن ان کا دل نماز سے غافل ہوتا ہے اور جو شخص اسے دیکھتا ہے وہ اسے اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑ ادیکھتا ہے جبکہ باطنی طورپر وہ خواہشات میں سے کسی خواہش کے سامنے بازار میں کھڑ اہوتا ہے ،اس طرح یہ اعمال زبانِ حال سے باطن کی خبر دیتے ہیں اور وہ اس میں جھوٹا ہوتا ہے اور اس سے اعمال میں صدق کی باز پُرس ہو گی۔ اسی طرح کوئی شخص سکون و وقار سے چل رہا ہوتا ہے حالانکہ ا س کا باطن سکون وو قار سے موصوف نہیں ہوتا تو یہ بھی اپنے عمل میں سچا نہیں اگرچہ ا س کی توجہ مخلوق کی طرف نہ ہو اور نہ ہی وہ ان کو دکھا رہا ہو ۔ خلاصہ یہ ہے کہ اگر ظاہر کاباطن کے خلاف ہونا قصد وارادے سے ہو تو وہ ریا ہے اور ا س سے اخلاص ختم ہو جاتا ہے اور قصدو ارادے کے بغیر ہو تو اس سے صدق فوت ہو جاتا ہے اور اس قسم کی خرابی سے نجات کی صورت یہی ہے کہ ظاہر وباطن ایک جیسا ہو بلکہ باطن ظاہر سے بہتر ہو۔
چھٹا اور سب سے اعلیٰ و مُعَزَّز درجے کا صدق’’ مقامات دین میں صدق‘‘ ہے، جیسے خوف ، امید، تعظیم، زُہد، رضا، تَوَکُّل، محبت اور باقی اُمورِ دینیہ میں صدق پایا جانا ۔ان امور کی کچھ بنیادیں ہیں جن کے ظاہر ہونے سے یہ نام بولے جاتے ہیں ،پھر ان کے کچھ مقاصد اور حقائق ہیں تو حقیقی صادق وہ ہے جو ان امور کی حقیقت کو پا لے اور جب کوئی چیز غالب آ جائے اور اس کی حقیقت کامل ہو تو ا س سے موصوف شخص کو صادق کہا جاتا ہے۔(احیاءعلوم الدین، کتاب النیۃ والاخلاص والصدق، الباب الثالث، بیان حقیقۃ الصدق ومعناہ ومراتبہ، ۵ / ۱۱۷-۱۲۲)
یاد رہے کہ اس آیت میں صدیقین سے سلطانِ دو جہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَکابِر صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سب سے پہلے مراد ہیں جیسے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ۔ شہداء سے مراد وہ حضرات ہیں جنہوں نے راہِ خدا میں جانیں دیں اور صالحین سے مراد وہ دیندار لوگ ہیں جو حق العِباد اور حقُّ اللہ دونوں ادا کریں اور اُن کے احوال و اعمال اور ظاہر و باطن اچھے اور پاک ہوں۔
ذٰلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللّٰهِؕ-وَ كَفٰى بِاللّٰهِ عَلِیْمًا(70)
ترجمہ
یہ اللہ کا فضل ہے، اور اللہ جاننے والاکافی ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ذٰلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللّٰهِ:یہ اللہ کا فضل ہے۔} معلوم ہوا کہ جنت میں حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا قرب جنت کی بہت بڑی نعمت ہوگی کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اسے بطورِ خاص فضیلت میں شمار فرمایا اور اسے اپنا فضل قرار دیا ہے۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَكُمْ فَانْفِرُوْا ثُبَاتٍ اَوِ انْفِرُوْا جَمِیْعًا(71)
ترجمہ
اے ایمان والو! ہوشیاری سے کام لو پھر دشمن کی طرف تھوڑے تھوڑے ہوکر نکلو یا اکٹھے چلو ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{خُذُوْا حِذْرَكُمْ: ہوشیاری سے کام لو۔}اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کروڑ ہا کروڑ احسان ہے کہ اس نے ہمیں زندگی کے کسی بھی شعبے میں اپنے احکام سے محروم نہیں رکھا بلکہ ہر جگہ ہماری رہنمائی فرمائی۔ ماں باپ، بیوی بچے، رشتے دار، پڑوسی، اپنے بیگانے سب کے متعلق واضح ہدایات عطا فرمائیں۔ اسی سلسلے میں ہماری بھلائی کیلئے ہمیں ہوشیار رہنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ دنیا کے دیگر معاملات کی طرح دشمنوں کے مقابلے میں بھی ہوشیاری اور سمجھداری سے کام لو، دُشمن کی گھات سے بچو اور اُسے اپنے اوپر موقع نہ دو اور اپنی حفاظت کا سامان لے رکھو پھر موقع محل کی مناسبت سے دشمن کی طرف تھوڑے تھوڑے ہوکر نکلو یا اکٹھے چلو ۔ یعنی جہاں جو مناسب ہو امیر کی اطاعت میں رہتے ہوئے اور تجربات و عقل کی روشنی میں مفید تدبیریں اختیار کرو۔ یہ آیت ِ مبارکہ جنگی تیاریوں ، جنگی چالوں ، دشمنوں کی حربی طاقت کے اندازے لگانے، معلومات رکھنے، ان کے مقابلے میں بھرپور تیاری اور بہترین جنگی حکمت ِ عملی کے جملہ اصولوں میں رہنمائی کرتی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسباب کا اختیار کرنا بھی نہایت اہم ہے۔ بغیر اسباب لڑنا مرنے کے مُتَرادِف ہے، تَوَکُّل ترک ِ اَسباب کا نام نہیں بلکہ اسباب اختیار کرکے امیدیں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے وابستہ کرنے کا نام ہے۔
جنگی تیاریوں سے متعلق ہدایات:
جنگی تیاری کیلئے حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی ہدایا ت ملاحظہ فرمائیں:
(1)… حضرت عقبہ بن عامر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ( اس آیت)’’وَ اَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ ‘‘ اور ان کے لئے تیار رکھو جو قوت تم سے بن پڑ ے ۔ (کی تفسیر میں ) فرمایا ’’خبردار! وہ قوت تیر اندازی ہے، خبردار! وہ قوت تیر اندازی ہے، خبردار! وہ قوت تیر اندازی ہے۔(مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الرمی والحث علیہ۔۔۔ الخ، ص۱۰۶۱، الحدیث: ۱۶۷(۱۹۱۷))
(2)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مشرکین سے ،اپنے مال، ہاتھ اور زبان سے جہاد کرو ( یعنی دینِ حق کی اشاعت میں ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار ہو جاؤ)(نسائی، کتاب الجہاد، باب وجوب الجہاد، ص۵۰۳، الحدیث: ۳۰۹۳)
(3)…حضرت عقبہ بن عامر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرورِ کائنات، شاہِ موجودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ ایک تیر کے بدلے تین افراد کو جنت میں داخل فرمائے گا (1) ثواب کی نیت سے تیر بنانے والے کو (2) تیر پھینکنے والے کو (3) تیر پکڑوانے والے کو۔ اور تیر اندازی اور گھڑ سواری میں مقابلہ کیا کرو، تمہارا تیر اندازی میں مقابلہ کرنا شَہسواری میں مقابلہ کرنے سے زیادہ مجھے پسند ہے اور جو تیر اندازی سیکھنے کے بعد اس سے غفلت کرتے ہوئے چھوڑ دے تو اس نے ایک نعمت کو گنوا دیا۔ (ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب فی الرمی، ۳ / ۱۹، الحدیث: ۲۵۱۳)
وَ اِنَّ مِنْكُمْ لَمَنْ لَّیُبَطِّئَنَّۚ-فَاِنْ اَصَابَتْكُمْ مُّصِیْبَةٌ قَالَ قَدْ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیَّ اِذْ لَمْ اَكُنْ مَّعَهُمْ شَهِیْدًا(72)وَ لَىٕنْ اَصَابَكُمْ فَضْلٌ مِّنَ اللّٰهِ لَیَقُوْلَنَّ كَاَنْ لَّمْ تَكُنْۢ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَهٗ مَوَدَّةٌ یّٰلَیْتَنِیْ كُنْتُ مَعَهُمْ فَاَفُوْزَ فَوْزًا عَظِیْمًا(73)
ترجمہ
اور تم میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو ضرور دیر لگائیں گے پھر اگر تم پر کوئی مصیبت آ پڑے تو دیر لگانے والاکہے گا: بیشک اللہ نے مجھ پر بڑا احسان کیا کہ میں ان کے ساتھ موجود نہ تھا۔اور اگر تمہیں اللہ کی طرف سے فضل ملے تو (تکلیف پہنچنے والی صورت میں تو ) گویا تمہارے اور اس کے درمیان کوئی دوستی ہی نہ تھی (جبکہ اب) ضرو ر کہے گا : اے کاش میں (بھی) ان کے ساتھ ہوتا تو بڑی کامیابی حاصل کرلیتا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِنَّ مِنْكُمْ لَمَنْ لَّیُبَطِّئَنَّ: اور تم میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو ضرور دیر لگائیں گے۔} یہاں منافقوں کا بیان ہے کہ منافقوں کی حالت یہ ہے کہ حتَّی الامکان میدانِ جنگ میں جانے میں دیر لگائیں گے تاکہ کسی طرح ان کی جان چھوٹ جائے اور اگر پھر واقعی ایسا ہوجائے کہ مسلمانوں کو کوئی مصیبت آپہنچے اور یہ منافقین وہاں موجود نہ ہوں تو بڑی خوشی سے کہیں گے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شکر ہے کہ میں وہاں موجود نہ تھا ورنہ میں بھی مصیبت میں پڑجاتا۔ اور اگر اس کی جگہ مسلمانوں پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کا خصوصی فضل ہوجائے کہ انہیں فتح حاصل ہوجائے اور مالِ غنیمت مل جائے تو پھر وہی جو تکلیف کے وقت اجنبی اور بیگانے بن گئے تھے اب کہیں گے کہ اے کاش کہ ہم بھی ان کے ساتھ ہوتے تو ہمیں بھی کچھ مال مل جاتا۔ گویا منافقین کا اول وآخر صرف مال کی ہوس ہے۔ انہیں نہ مسلمانوں کی فتح سے خوشی اورنہ شکست سے رنج بلکہ شکست پر خوش اور فتح پر رنجیدہ ہوتے ہیں۔
خود غرضی اور مفاد پرستی کی مذمت:
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خود غرضی، موقع شناسی، مفاد پرستی اور مال کی ہوس منافقوں کا طریقہ ہے۔ دنیا میں وہ شخص کبھی کامیاب نہیں ہوتا جو تکلیف کے موقع پر تو کسی کا ساتھ نہ دے لیکن اپنے مفاد کے موقع پر آگے آگے ہوتا پھرے۔ مفاد پرست اور خود غرض آدمی کچھ عرصہ تک تو اپنی منافقت چھپا سکتا ہے لیکن اس کے بعد ذلت و رسوائی اس کا مقدر ہوتی ہے۔
فَلْیُقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ الَّذِیْنَ یَشْرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا بِالْاٰخِرَةِؕ-وَ مَنْ یُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَیُقْتَلْ اَوْ یَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِیْهِ اَجْرًا عَظِیْمًا(74)
ترجمہ
پس جو لوگ دنیا کی زندگی کو آخرت کے بدلے میں بیچ دیتے ہیں انہیں چاہیے کہ اللہ کی راہ میں لڑیں اور جواللہ کی راہ میں لڑے پھر شہید کردیا جائے یا غالب آجائے تو عنقریب ہم اسے بہت بڑا ثواب عطا فرمائیں گے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{فَلْیُقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ: تواللہ کی راہ میں لڑنا چاہیے۔} یہاں اہلِ ایمان کا بیان ہے کہ جن لوگوں کی نگاہیں آخرت کی زندگی پر لگی ہوئی ہیں اور وہ آخرت کی خاطر دنیا کی زندگی قربان کرنے کو تیار ہیں انہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں لڑنا چاہیے اور اس میں دُنیوی نفع کا ہرگز خیال نہ کریں بلکہ ان کا مطلوب و مقصود اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا ،دینِ اسلام کی سربلندی اور حق کا بول بالاہونا چاہیے۔ جب اس نیت سے کوئی جہاد کرے گا تو وہ شہید ہوجائے یا بچ کر آجائے دونوں صورتوں میں بارگاہِ الٰہی میں مقبول ہوجائے گا اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں عظیم اَجر کا مُستحق ہوگا۔
حضرت انس بن نضررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا جذبۂ شہادت:
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’میرے چچا حضرت انس بن نضررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ غزوۂ بدر میں نہ جاسکے ، انہوں نے نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کی :آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مشرکین سے جو پہلی جنگ کی تھی میں اس میں حاضر نہ ہو سکا۔ اگراب اللہ تعالیٰ نے مجھے کسی غزوہ میں شرکت کاموقع دیا تو اللہ تعالیٰ دکھا دے گا جو میں کروں گا، پھر جب غزوۂ اُحد کا موقع آیا توکچھ لوگ بھاگنے لگے، حضرت انس بن نضر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: اے میرے پروردگار عَزَّوَجَلَّ! ان بھاگنے والوں میں جومسلمان ہیں ، میں ان کی طرف سے معذرت خواہ ہوں اور جو مشرک ہیں ، میں اُن سے بری ہوں۔ پھر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ تلوار لے کر میدانِ جنگ کی طرف دیوانہ وار بڑھے۔ راستے میں حضرت سعد بن معاذ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ملاقات ہوئی تو فرمایا ’’اے سعد ! رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ، جنت۔ اس پاک پرورد گار عَزَّوَجَلَّ کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! میں اُحد پہاڑ کے قریب جنت کی خوشبو محسوس کر رہا ہوں۔ حضرت سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ُ فرماتے ہیں : جیسا کارنامہ انہوں نے سر انجام دیا ہم ایسا نہیں کر سکتے ۔حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :ہم نے انہیں شہیدوں میں اس حال میں پایا کہ ان کے جسم مبارک پر تیروں ، تلواروں اور نیزوں کے اسّی(80) سے زائد زخم تھے،اور آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے اعضاء جگہ جگہ سے کاٹ دیئے گئے تھے ، آپ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو پہچاننابہت مشکل ہوچکاتھا ۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی ہمشیرہ نے آپ کواُنگلیوں کے نشانات سے پہچانا۔(بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب قول اللہ تعالٰی: من المؤمنین رجال صدقوا۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۵۵، الحدیث: ۲۸۰۵، عیون الحکایات، الحکایۃ العاشرۃ، ص۲۷، ملتقطاً)
وَ مَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآءِ وَ الْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اَخْرِجْنَا مِنْ هٰذِهِ الْقَرْیَةِ الظَّالِمِ اَهْلُهَاۚ-وَ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ وَلِیًّا ﳐ وَّ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ نَصِیْرًاﭤ(75)
ترجمہ
اور تمہیں کیا ہوگیا کہ تم اللہ کے راستے میں نہ لڑواور کمزور مرد وں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر (نہ لڑو جو) یہ دعا کررہے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اس شہرسے نکال دے جس کے باشندے ظالم ہیں اور ہمارے لئے اپنے پاس سے کوئی حمایتی بنادے اور ہمارے لئے اپنی بارگاہ سے کوئی مددگار بنادے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ: اور تمہیں کیا ہوگیا کہ تم اللہ کے راستے میں نہ لڑو۔} ارشاد فرمایا گیا کہ جہاد فرض ہے اور اس کے ترک کا تمہارے پاس کوئی عذر نہیں تو تمہیں کیا ہوگیا کہ تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں جہاد نہ کرو حالانکہ دوسری طرف مسلمان مرد وعورت اور بچے ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں اور اُن کا کوئی پُرسانِ حال نہیں اور وہ ربُّ العٰلَمین عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں دعائیں مانگ رہے ہیں کہ اے اللہ!عَزَّوَجَلَّ ہمیں اس بستی کے ظالموں سے نجات عطا فرما اور ہمیں اپنے پاس سے کوئی مددگار عطا فرما۔ تو جب مسلمان مظلوم ہیں اور تم ان کو بچانے کی طاقت رکھتے ہو تو کیوں ان کی مدد کیلئے نہیں اٹھتے۔
آیت’’وَ مَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس آیت سے 3باتیں معلوم ہوئیں:
(1)… جہاد فرض ہے، بلاوجہ جہاد نہ کرنے والا ایسا ہی گنہگار ہوگا جیسے نماز چھوڑنے والا بلکہ کئی صورتوں میں اِس سے بھی بڑھ کر ہے۔ البتہ یہ خیا ل رہے کہ جہاد کی فرضیت کی کچھ شرائط ہیں جن میں ایک اہم شرط اِستِطاعت یعنی جنگ کی طاقت ہونا بھی ہے۔ جہاد یہ نہیں ہے کہ طاقت ہو نہیں اور چند مسلمانوں کو لڑائی میں جھونک کر مروا دیا جائے۔ جہاد کبھی فرضِ عین ہوتا ہے اور کبھی فرضِ کِفایہ۔
(2)…آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دینے کیلئے مسلمانوں کی مَظلومِیَّت کا بیان کرنا بہت مفید ہے۔ آیت میں جن کمزوروں کا تذکرہ ہے اس سے مراد مکہ مکرمہ کے مسلمان ہیں۔ اس آیت میں مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دی گئی تاکہ وہ ان کمزور مسلمانوں کو کفار کے پنجۂ ظلم سے چھڑائیں جنہیں مکہ مکرمہ میں مشرکین نے قید کرلیا تھا اور طرح طرح کی ایذائیں دے رہے تھے اور اُن کی عورتوں اور بچوں تک پربے رحمانہ مظالم کرتے تھے اور وہ لوگ اُن کے ہاتھوں میں مجبور تھے اس حالت میں وہ اللہ تعالیٰ سے اپنی خلاصی اور مددِ الٰہی کی دعا ئیں کرتے تھے ۔ یہ دعا قبول ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اُن کا ولی و ناصر کیا اور انہیں مشرکین کے ہاتھوں سے چھڑایا اور مکۂ مکرمہ فتح کرکے اُن کی زبردست مدد فرمائی۔
(3)…آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غیرُاللہ کو ولی اور ناصر (یعنی مددگار) کہہ سکتے ہیں۔
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۚ-وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ الطَّاغُوْتِ فَقَاتِلُوْۤا اَوْلِیَآءَ الشَّیْطٰنِۚ-اِنَّ كَیْدَ الشَّیْطٰنِ كَانَ ضَعِیْفًا(76)اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ قِیْلَ لَهُمْ كُفُّوْۤا اَیْدِیَكُمْ وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَۚ-فَلَمَّا كُتِبَ عَلَیْهِمُ الْقِتَالُ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ یَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْیَةِ اللّٰهِ اَوْ اَشَدَّ خَشْیَةًۚ-وَ قَالُوْا رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَیْنَا الْقِتَالَۚ-لَوْ لَاۤ اَخَّرْتَنَاۤ اِلٰۤى اَجَلٍ قَرِیْبٍؕ-قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌۚ-وَ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّمَنِ اتَّقٰى- وَ لَا تُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا(77)
ترجمہ
ایمان والے اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور کفار شیطان کی راہ میں لڑتے ہیں تو تم شیطان کے دوستوں سے جہاد کرو بیشک شیطان کا مکرو فریب کمزور ہے۔ کیا تم نے ان لوگوں کونہ دیکھا جن سے کہا گیا اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو پھر جب ان پر جہاد فرض کیا گیا تو ان میں ایک گروہ لوگوں سے ایسے ڈرنے لگا جیسے اللہ سے ڈرنا ہوتاہے یا اس سے بھی زیادہ اورکہنے لگے: اے ہمارے رب!تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کردیا ؟ تھوڑی سی مدت تک ہمیں اور مہلت کیوں نہ عطا کردی؟ اے حبیب! تم فرما دو کہ دنیا کاسازو سامان تھوڑا ساہے اور پرہیز گاروں کے لئے آخرت بہتر ہے اور تم پر ایک دھاگے کے برابربھی ظلم نہ کیا جائے گا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَمْ تَرَ: کیا تم نے نہ دیکھا۔} اس آیتِ مبارکہ کا شانِ نزول یوں ہے کہ مشرکین مکہ مکرمہ میں مسلمانوں کو بہت ایذائیں دیتے تھے ۔ہجرت سے پہلے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی ایک جماعت نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ ہمیں کافروں سے لڑنے کی اجازت دیجئے، انہوں نے ہمیں بہت ستایا ہے اور بہت ایذائیں دی ہیں۔ حضورِ انورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ اُن کے ساتھ جنگ کرنے سے ابھی ہاتھ روک کر رکھو اور ابھی صرف نماز اور زکوٰۃ ادا کرو۔ اسی کے متعلق فرمایا کہ کیا تم نے ان لوگوں کونہ دیکھا جن سے شروعِ اسلام میں مکہ مکرمہ میں کہا گیا کہ ابھی جہاد سے اپنے ہاتھ روکے رکھو اور ابھی صرف نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو ۔ (خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۷۷، ۱ / ۴۰۳)
لیکن پھر جب مدینہ منورہ میں ان پر جہاد فرض کیا گیا تو وہ اس وقت طبعی خوف کا شکار ہوگئے جو انسانی فطرت ہے اور حالت یہ تھی کہ ان میں ایک گروہ لوگوں سے ایسے ڈرنے لگا جیسے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرنا ہوتا ہے یا اس سے بھی کچھ زیادہ ہی خوفزدہ تھا اور کہنے لگے: اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ، تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کردیا ؟ اس کی حکمت کیا ہے ؟
یہ سوال حکمت دریافت کرنے کے لئے تھا، اعتراض کرنے کیلئے نہیں۔اسی لئے اُن کو اس سوال پر توبیخ وزجرنہ فرمایا گیا بلکہ تسلی بخش جواب عطا کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، تم ان سے فرما دو کہ دنیا کا ساز و سامان تھوڑا ساہے، فنا ہونے والا ہے جبکہ پرہیز گاروں کے لئے آخرت تیار کی گئی ہے اور وہی ان کیلئے بہتر ہے ۔ لہٰذا جہاد میں خوشی سے شرکت کرو۔
اَیْنَ مَا تَكُوْنُوْا یُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَ لَوْ كُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَةٍؕ-وَ اِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ یَّقُوْلُوْا هٰذِهٖ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِۚ-وَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَّقُوْلُوْا هٰذِهٖ مِنْ عِنْدِكَؕ-قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِؕ-فَمَالِ هٰۤؤُلَآءِ الْقَوْمِ لَا یَكَادُوْنَ یَفْقَهُوْنَ حَدِیْثًا(78)
ترجمہ
تم جہاں کہیں بھی ہو گے موت تمہیں ضرور پکڑ لے گی اگرچہ تم مضبوط قلعوں میں ہو اور ان (منافقوں ) کو کوئی بھلائی پہنچے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر انہیں کوئی برائی پہنچے تو کہتے ہیں : (اے محمد!) یہ آپ کی وجہ سے آئی ہے۔ اے حبیب! تم فرما دو: سب اللہ کی طرف سے ہے تو ان لوگوں کو کیا ہوا کہ کسی بات کو سمجھنے کے قریب ہی نہیں آتے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اَیْنَ مَا تَكُوْنُوْا یُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ:تم جہاں کہیں بھی ہو گے موت تمہیں ضرور پکڑ لے گی۔} لوگوں سے فرمایا گیا کہ اے جہاد سے ڈرنے والو! تم جہاں کہیں بھی ہو گے موت تمہیں ضرور پکڑ لے گی اگرچہ تم مضبوط قلعوں میں ہواور اس سے رہائی پانے کی کوئی صورت نہیں اور جب موت ناگزیر ہے تو بسترپر مرجانے سے راہ ِخدا میں جان دینا بہتر ہے کہ یہ سعادت آخرت کی کامیابی کا سبب ہے۔
{وَ اِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ: اور اگر انہیں کوئی بھلائی پہنچے۔} یہاں سے منافقین کا بیان ہے کہ اگرانہیں کوئی بھلائی پہنچے جیسے مال میں فراوانی آجائے، کاروبار اچھا ہو جائے، پیداوار زیادہ ہوجائے تو کہتے ہیں یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ہے اور اگر انہیں کوئی برائی پہنچے جیسے قحط پڑجائے یا کوئی اور مصیبت آجائے تو کہتے ہیں : اے محمد! یہ آپ کی وجہ سے آئی ہے، جب سے آپ آئے ہیں ایسی ہی سختیاں پیش آرہی ہیں۔ محبوبِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دفاع میں اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، تم ان سے فرما دو کہ رزق میں کمی بیشی، قحط یا خوشحالی، رنج یا راحت، فتح یا شکست سب حقیقت میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ہیں یعنی ہر راحت و مصیبت اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ارادے سے آتی ہے، ہاں ہم اس کے اسباب مہیاکر لیتے ہیں نیز یہ بات بھی یاد رہے کہ نیکی راحت کا ذریعہ ہے اورگناہ مصیبت کا سبب ہے۔
مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ٘-وَ مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ سَیِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِكَؕ-وَ اَرْسَلْنٰكَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًاؕ-وَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًا(79)
ترجمہ
اے سننے والے! تجھے جو بھلائی پہنچتی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور تجھے جو برائی پہنچتی ہے وہ تیری اپنی طرف سے ہے اور اے حبیب! ہم نے تمہیں سب لوگوں کے لئے رسول بنا کربھیجا ہے اور گواہی کے لئے اللہ ہی کافی ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ: تجھے جو بھلائی پہنچتی ہے ۔} ارشادفرمایا گیا کہ اے مخاطب! تمہیں جو بھلائی پہنچتی ہے وہ اللہ کریم کا فضل و رحمت ہے اور تجھے جو برائی پہنچتی ہے وہ تیری اپنی وجہ سے ہے کہ تو نے ایسے گناہوں کا ارتکاب کیا کہ تو اس کا مستحق ہوا۔ یہاں بھلائی کی نسبت اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف اور برائی کی نسبت بندے کی طرف کی گئی ہے جب کہ اوپر کی آیت میں سب کی نسبت اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف ہے ،خلاصہ یہ ہے کہ بندہ جب مُؤثّر ِ حقیقی کی طرف نظر کرے تو ہر چیز کو اُسی کی طرف سے جانے اور جب اسباب پر نظر کرے تو برائیوں کو اپنی شامت ِنفس کے سبب سے سمجھے۔
{وَ اَرْسَلْنٰكَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًا: اور اے حبیب! ہم نے تمہیں سب لوگوں کے لئے رسول بنا کربھیجا ہے۔} رسولِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمام عرب و عجم اور ساری مخلوق کے لئے رسول بنائے گئے اور کل جہان آپ کا امتی کیا گیا۔ یہ سرورِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے جلیلُ القدر منصب اورعظیمُ الْمَرتَبَت قدر و مَنزِلَت کا بیان ہے۔ اَوّلین وآخرین سارے انسانوں کے آپ نبی ہیں ، حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے لے کر یَوم قیامت تک سب انسان آپ کے امتی ہیں ، اسی لئے تمام نَبِیُّوں نے حضورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پیچھے نماز پڑھی۔
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ-وَ مَنْ تَوَلّٰى فَمَاۤ اَرْسَلْنٰكَ عَلَیْهِمْ حَفِیْظًاﭤ(80)
ترجمہ
جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ کا حکم مانا اور جس نے منہ موڑا تو ہم نے تمہیں انہیں بچانے کے لئے نہیں بھیجا ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ: جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ کا حکم مانا۔} آیتِ مبارکہ کا شانِ نزول کچھ اس طرح ہے کہ سرورِکائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک مرتبہ فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اُس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی اُس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے محبت کی، اِس پر آج کل کے گستاخ بددینوں کی طرح اُس زمانہ کے بعض منافقوں نے کہا کہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یہ چاہتے ہیں کہ ہم انہیں رب مان لیں جیسے عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ بن مریم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو رب ماناہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اُن کے رد میں یہ آیت نازل فرما کر اپنے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کلام کی تصدیق فرما دی کہ بے شک رسول کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے۔(بغوی، النساء، تحت الآیۃ: ۸۰، ۱ / ۳۶۲)
تو جس نے ان کی اطاعت سے اِعراض کیا تو اس کا وبال اسی پر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس لئے نہیں بھیجا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بہرصورت انہیں جہنم سے بچائیں بلکہ صرف تبلیغ کیلئے بھیجا ہے۔
وَ یَقُوْلُوْنَ طَاعَةٌ٘-فَاِذَا بَرَزُوْا مِنْ عِنْدِكَ بَیَّتَ طَآىٕفَةٌ مِّنْهُمْ غَیْرَ الَّذِیْ تَقُوْلُؕ-وَ اللّٰهُ یَكْتُبُ مَا یُبَیِّتُوْنَۚ-فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ وَ تَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِؕ-وَ كَفٰى بِاللّٰهِ وَكِیْلًا(81)
ترجمہ
اور کہتے ہیں :ہم نے فرمانبرداری کی پھر جب تمہارے پاس سے نکل کر جاتے ہیں تو ان میں ایک گروہ آپ کے فرمان کے برخلاف رات کو منصوبے بناتا ہے اوراللہ ان کے رات کے منصوبے لکھ رہاہے تو اے حبیب! تم ان سے چشم پوشی کرو اوراللہ پر بھروسہ رکھو اور اللہ کافی کارساز ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یَقُوْلُوْنَ طَاعَةٌ: اور کہتے ہیں :ہم نے فرمانبرداری کی۔} یہ آیت منافقین کے بارے میں نازل ہوئی ،جو نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے کہتے تھے کہ ہم آپ پر ایمان لائے اور آپ کی اطاعت ہم پر فرض ہے لیکن وہاں سے اٹھ کر اس کے خلاف کرتے تھے۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۸۱، ۱ / ۴۰۵)
ان کے بارے میں فرمایا کہ ان کے سب منصوبے ان کے نامۂ اعمال میں لکھے جا رہے ہیں اور اِنہیں اُس کا بدلہ بھی ملے گا۔ لیکن چونکہ یہ ظاہراً کلمہ پڑھتے تھے اور ظاہری طور پر کفر نہیں کرتے تھے اس لئے ان کے بارے میں کہا گیا کہ ان سے چشم پوشی کرو یعنی ان کے کافروں کی طرح دنیوی احکام نہیں ہیں۔ ہاں چونکہ ان کی طرف سے خطرہ پایا جاتا ہے تو اس میں اللہ عَزَّوَجَلَّ پر بھروسہ رکھو، ان کی طرف سے اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کو کفایت کرے گا۔
اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَؕ-وَ لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِیْهِ اخْتِلَافًا كَثِیْرًا(82)
ترجمہ
تو کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے اور اگریہ قرآن اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہوتا تو ضرور اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ : تو کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے۔} یہاں قرآن کی عظمت کا بیان ہے اور لوگوں کو اس میں غوروفکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے ۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ کیا یہ لوگ قرآنِ حکیم میں غور نہیں کرتے اور اس کے عُلوم اور حکمتوں کو نہیں دیکھتے کہ اِس نے اپنی فصاحت سے تمام مخلوق کو اپنے مقابلے سے عاجز کردیا ہے اور غیبی خبروں سے منافقین کے احوال اور ان کے مکروفریب کو کھول کر رکھ دیاہے اور اوّلین و آخرین کی خبریں دی ہیں۔ اگر قرآن میں غور کریں تو یقینا اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کلام ہے اور اسے لانے والا اللہ عَزَّوَجَلَّ کا رسول ہے۔
قرآنِ مجید میں غورو فکر کرنا عبادت ہے لیکن!
اس سے معلوم ہوا کہ قرآن میں غور و فکر کرنا اعلیٰ درجے کی عبادت ہے۔ امام غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ احیاء العُلوم میں فرماتے ہیں کہ ایک آیت سمجھ کر اور غور و فکر کر کے پڑھنا بغیر غور و فکر کئے پورا قرآن پڑھنے سے بہتر ہے۔(احیاء علوم الدین، کتاب التفکر، بیان مجاری الفکر، ۵ / ۱۷۰)
قرآن کا ذکر کرنا، اسے پڑھنا، دیکھنا، چھونا سب عبادت ہے۔ قرآن میں غوروفکر کی دعوت دی گئی ہے لیکن یہ بات واضح ہے کہ قرآن میں وہی غوروفکر مُعْتَبر اور صحیح ہے جو صاحب ِ قرآن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فرامین اور حضور پُرنورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحبت یافتہ صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اور ان سے تربیت حاصل کرنے والے تابعین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کے علوم کی روشنی میں ہو کیونکہ وہ غور و فکر جو اُس ذات کے فرامین کے خلاف ہو جن پر قرآن اترا اور اس غور و فکر کے خلاف ہو جو وحی کے نزول کا مُشاہدہ کرنے والے بزرگوں کے غوروفکر کے خلاف ہو، وہ یقینا معتبر نہیں ہوسکتا ۔ اس لئے دورِ جدید کے اُن نت نئے مُحققین سے بچنا ضروری ہے جو چودہ سو سال کے علماء ، فُقہاء،محدثین ومفسرین اور ساری امت کے فَہم کو غلط قرار دے کر قولاً یا عملاً یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ قرآن اگر سمجھا ہے تو ہم نے ہی سمجھا ہے ، پچھلی ساری امت جاہل ہی گزر گئی ہے۔ یہ لوگ یقینا گمراہ ہیں۔
{وَ لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰهِ : اور اگر یہ قرآن اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہوتا۔}یہاں قرآنِ پاک کی حقانیت پر ایک نہایت آسان اور واضح دلیل دی جارہی ہے کہ اگر قرآنِ پاک اللہ عَزَّوَجَلَّ کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت زیادہ اختلاف ہوتا، اس میں جو غیب کی خبریں دی گئی ہیں وہ سو فیصد پوری نہ ہوتیں بلکہ کوئی بات توپوری ہوجاتی اور کوئی نہ ہوتی لیکن جب ایسا نہ ہوا بلکہ قرآنِ پاک کی تما م غیبی خبریں بالکل سچی ثابت ہورہی ہیں تو ثابت ہوا کہ یقیناً یہ کتاب، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ہے نیز اس کے مضامین میں بھی باہم اختلاف نہیں کہ کہیں کوئی بات کہہ دی اور کہیں اس کے برخلاف کوئی دوسری بات کہہ دی۔ اسی طرح فصاحت و بلاغت میں بھی اس میں کوئی اختلاف نہیں کیونکہ مخلوق کا کلام فصیح بھی ہو تو سب یکساں نہیں ہوتا کچھ بلاغت سے بھرپور ہوتا ہے تو کچھ رکیک و گھٹیا قسم کا ہوتا ہے جیسا کہ شُعراء اور زباندانوں کے کلام میں دیکھا جاتا ہے کہ بڑے سے بڑے شاعر کا کوئی کلام بڑا شاندار ہوتا ہے اور کوئی بالکل گیا گزرا۔ لیکن قرآن چونکہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اوراللہ تعالیٰ ہی کے کلام کی شان ہے کہ اس کا تمام کلام فصاحت و بلاغت کے اعلیٰ مرتبے پر ہے۔
وَ اِذَا جَآءَهُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖؕ-وَ لَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَ اِلٰۤى اُولِی الْاَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْهُمْؕ-وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّیْطٰنَ اِلَّا قَلِیْلًا(83)
ترجمہ
اور جب امن یا خوف کی کوئی بات ان کے پاس آتی ہے تو اسے پھیلانے لگتے ہیں حالانکہ اگر اس بات کو رسول اور اپنے بااختیار لوگوں کی خدمت میں پیش کرتے تو ضرور اُن میں سے نتیجہ نکالنے کی صلاحیت رکھنے والے اُس (خبر کی حقیقت) کوجان لیتے اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو ضرور تم میں سے چند ایک کے علاوہ سب شیطان کے پیچھے لگ جاتے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذَا جَآءَهُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ: اور جب امن یا خوف کی کوئی بات ان کے پاس آتی ہے۔} یہاں اگرچہ ایک خاص سیاق و سباق میں ایک چیز بیان کی گئی ہے لیکن اِس میں جو حکم بیان کیا گیا ہے یہ ہماری زندگی کے ہزاروں گوشوں میں اصلاح کیلئے کافی ہے۔ خلاصہ کلام یہ فرمایا گیا کہ جب کبھی امن مثلاًمسلمانوں کی فتح یا خوف مثلاً مسلمانوں کی شکست کی کوئی بات لوگوں کے پاس آتی ہے جو فساد کا باعث بن سکتی ہے تو وہ فوراً اُسے پھیلانے لگتے ہیں حالانکہ اگر اس بات کو یہ لوگ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور اپنے بااختیار لوگوں جیسے اکابر صحابہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُم جو صاحبِ رائے اور صاحبِ بصیر ت ہیں کی خدمت میں پیش کرتے اور خود کچھ دخل نہ دیتے تو سمجھدار لوگ ضرور اپنی عقل و دانش یا اپنی تحقیق کی روشنی میں اُ س خبر کی حقیقت کوجان لیتے اور یوں بات کا بتنگڑ بننے کی بجائے حقیقت ِ حال کھل کر سامنے آجاتی ۔
زندگی کی اصلاح کا ایک اہم اصول:
اس آیت کو سامنے رکھ کر ہم اپنے گھروں کے معاملات بلکہ ملکی و بین الاقوامی معاملات اور صحافتی معاملات کو جانچ سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں کا حال یہ ہے کہ ایک بات کو کوئی شخص اچھالتا ہے اور پھر وہ موجودہ میڈیا کے ذریعے پوری دنیا میں گردش کرنے لگتی ہے اور کچھ عرصے بعد پتا چلتا ہے کہ اس بات کا کوئی سر پیر ہی نہیں اور وہ سراسر جھوٹی ہے۔ مسلمانوں کو اور اسلام کو بدنام کرنے کیلئے ایسی سازشیں ، افواہیں اور خبریں دن رات پھیلائی جارہی ہیں حتّٰی کہ بعض جگہوں پر یہ بات پھیلائی گئی ہے کہ مسلمانوں کا مذہب یہ ہے کہ کوئی مسلمان اس وقت تک جنت میں نہیں جائے گا جب تک وہ کسی ایک کافر کو قتل نہیں کرلے گا۔ اَ لْاَمان وَالْحفیظ، کیسا جھوٹ اور کیسی دیدہ دلیری ہے۔ کفار کے ممالک میں مسلمانوں کا جو تشخص پھیلایا جارہا ہے وہ بھی اسی طرح کی جھوٹی افواہوں کے ذریعے ہے اور پھر ایسی ہی باتیں سن کر مغرب سے مرعوب کچھ پڑھے لکھے سمجھے جانے والے ہمارے لوگ اِن باتوں کو اسلام کے نام پر پیش کرکے اِسلام کو بدنام کرتے ہیں۔ یہی معاملہ گھروں میں ہے کہ کسی نے کچھ بات کہی ، وہ پھیلتے پھیلتے دس مرتبہ اضافوں کے ساتھ ایسی ہوگئی کہ خاندانوں میں لڑائیاں چھڑگئیں اور تباہیاں مچ گئیں۔ ایسی سینکڑوں باتوں کا ہم سب کو تجربہ ہوگا۔ ان سب کیلئے قرآن نے یہ اصول دیا ہے کہ جب ایسی کوئی بات پہنچے تو اہلِ دانش اور سمجھدار لوگوں تک پہنچا دی جائے وہ غور و فکر اور تحقیق سے اس کی حقیقت ِ حال معلوم کرلیں گے اور یوں بات کا بتنگڑ اور رائی کا پہاڑ نہیں بنے گا۔ حضرت حفص بن عاصم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کر دے۔(مسلم، باب النہی عن الحدیث بکلّ ما سمع، ص۸، الحدیث: ۵(۵))
ایک اہم مسئلہ:
مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس آیت میں اس بات پر دلیل ہے کہ قیاس جائز ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایک علم تو وہ ہے جو قرآن و حدیث سے صراحت سے حاصل ہوتا ہے اور ایک علم وہ ہے جوقرآن و حدیث سے اِستِنباط و قیاس کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔یہ بھی معلوم ہواکہ امور دینیہ میں ہر شخص کو دخل دینا جائز نہیں جو اِس کا اہل ہووہی اِس میں غور کرے۔
فَقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۚ-لَا تُكَلَّفُ اِلَّا نَفْسَكَ وَ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَۚ-عَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّكُفَّ بَاْسَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْاؕ-وَ اللّٰهُ اَشَدُّ بَاْسًا وَّ اَشَدُّ تَنْكِیْلًا(84)
ترجمہ
تو اے حبیب! اللہ کی راہ میں جہاد کریں ۔ آپ کو آپ کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دی جائے گی اور مسلمانوں کو(جہاد کی) ترغیب دیتے رہو ۔ عنقریب اللہ کافروں کی طاقت روک دے گااور اللہ کی طاقت سب سے زیادہ مضبوط ہے اور اس کا عذاب سب سے زیادہ شدید ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{فَقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ: تو اے حبیب! اللہ کی راہ میں جہاد کریں۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ بدر صغریٰ (چھوٹا غزوہ بدر، اُس) کی جنگ جو ابوسفیان سے طے تھی جب اس کا وقت آپہنچا تو سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وہاں جانے کے لئے لوگوں کو دعوت دی، بعض لوگوں پر یہ گراں ہوا تواللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حکم دیا کہ آپ جہاد نہ چھوڑیں اگرچہ تنہا ہوں اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کا ناصرو مددگار ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ کا وعدہ سچا ہے۔ یہ حکم پا کر رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بدرصغریٰ کی جنگ کے لئے روانہ ہوئے اور صرف ستّر سوار ہمراہ تھے۔(مدارک، النساء، تحت الآیۃ: ۸۴، ص۲۴۲)
چنانچہ فرمایا گیا کہ آپ جہاد کیلئے جائیں اور آپ کو آپ کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دی جائے گی خواہ کوئی آپ کا ساتھ دے یا نہ دے اور اگرچہ آپ اکیلے رہ جائیں ، ہاں مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دو اور بس۔ پھراللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا کہ اللہ کریم کافروں کی سختی کو روک دے گا، چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ مسلمانوں کے اس چھوٹے سے لشکرسے کفار ایسے مرعوب ہوئے کہ وہ مسلمانوں کے مقابلے میں میدان میں نہ آسکے ۔
سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم َکی شجاعت:
اس آیت سے ثابت ہوا کہ تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ شجاعت میں سب سے اعلیٰ ہیں کہ آپ کو تنہا کفار کے مقابل تشریف لے جانے کا حکم ہوا اور آپ آمادہ ہوگئے۔
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : حبیبِ خدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمام لوگوں سے زیادہ شُجاع اور بہادر تھے۔ (مسلم، کتاب الفضائل، باب فی شجاعۃ النبی علیہ السلام وتقدّمہ للحرب، ص۱۲۶۲، الحدیث: ۴۸(۲۳۰۷))
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : میں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے زیادہ بہادر اور طاقتور، سخی اور پسندیدہ کسی کو نہیں دیکھا۔ (الشفا، القسم الاول، الباب الثانی، فصل وامّا الشجاعۃ والنجدۃ، ص۱۱۶، الجزء الاول)
حضور پرنورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بے مثل شجاعت و بہادری کا یہ عالم تھا کہ حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم جیسے بہادر صحابی کا یہ قول ہے: جب لڑائی خوب گرم ہو جاتی تھی اور جنگ کی شدّت دیکھ کر بڑے بڑے بہادروں کی آنکھیں پتھرا کر سرخ پڑ جایا کرتی تھیں اس وقت میں ہم لوگ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پہلو میں کھڑے ہو کر اپنا بچاؤ کرتے تھے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہم سب لوگوں سے زیادہ آگے بڑھ کر اور دشمنوں کے بالکل قریب پہنچ کر جنگ فرماتے تھے اور ہم لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر وہ شخص شمار کیا جاتا تھا جو جنگ میں حضور سیدُ المُرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قریب رہ کر دشمنوں سے لڑتا تھا۔(الشفا، القسم الاول، الباب الثانی، فصل وامّا الشجاعۃ والنجدۃ، ص۱۱۶، الجزء الاول)
غزوۂ حنین کے دن جب ابتداء ًمسلمان کفار کے حملے کی تاب نہ لاتے ہوئے میدانِ جنگ سے فرار ہوئے تو ایسے نازک وقت میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے بلکہ اپنے سفید خچر پر سوار دشمنوں کی جانب پیش قدمی فرماتے رہے۔ (مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب فی غزوۃ حنین، ص۹۷۸، الحدیث: ۷۶(۱۷۷۵))
غزوۂ اَحزاب کے موقع پر خندق کھودتے ہوئے ایک ایسی چٹان ظاہر ہوئی جو کسی سے نہ ٹوٹ سکی، سرکارِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وار سے وہ چٹان پارہ پارہ ہو گئی۔ (نسائی، کتاب الجہاد، غزوۃ الترک والحبشۃ، ص۵۱۷، الحدیث: ۳۱۷۳)
ایک رات اہلِ مدینہ ایک خوفناک آواز سن کر دہشت زدہ ہو گئے تو اس آواز کی سمت سب سے پہلے حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لے گئے۔ (بخاری، کتاب الادب، باب حسن الخلق والسخاء۔۔۔ الخ، ۴ / ۱۰۸، الحدیث: ۶۰۳۳)
مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً یَّكُنْ لَّهٗ نَصِیْبٌ مِّنْهَاۚ-وَ مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَةً سَیِّئَةً یَّكُنْ لَّهٗ كِفْلٌ مِّنْهَاؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ مُّقِیْتًا(85)
ترجمہ: جو اچھی سفارش کرے اس کے لئے اس کا اجر ہے اور جو بری سفارش کرے اس کے لئے اس میں سے حصہ ہے اور اللہ ہر شے پر قادر ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً:جو اچھی سفارش کرے ۔} اچھی سفارش وہ ہے جس میں کسی کو جائز نفع پہنچایا جائے یا تکلیف سے بچایا جائے، اس پر ثواب ہے جیسے کوئی نوکری کا واقعی مستحق ہے اور کسی دوسرے کی حق تَلفی نہیں ہورہی تو سفارش کرنا جائز ہے یا کوئی مظلوم ہے اور پولیس سے انصاف دلوانے میں مدد کیلئے سفارش کی جائے۔ بری سفارش وہ ہے جس میں غلط سفارش کی جائے، ظالم کو غلط طریقے سے بچایا جائے یا کسی کی حق تلفی کی جائے جیسے کسی غیر مستحق کو نوکری دلانے کیلئے سفارش کی جائے یا کسی کو شراب یا سینما کے لائسنس دلوانے کیلئے سفارش کی جائے، یہ حرام ہے۔
وَ اِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْهَاۤ اَوْ رُدُّوْهَاؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ حَسِیْبًا(86)
ترجمہ: اور جب تمہیں کسی لفظ سے سلام کیا جائے تو تم اس سے بہتر لفظ سے جواب دو یا وہی الفاظ کہہ دو۔ بیشک اللہ ہر چیز پر حساب لینے والا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّةٍ: اور جب تمہیں کسی لفظ سے سلام کیا جائے۔} اسلام سے پہلے اہلِ عرب کی عادت یہ تھی کہ جب وہ ایک دوسرے سے ملتے تو کہتے ’’حَیَّاکَ اللہُ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ تجھے زندہ رکھے اور جب دینِ اسلام آیا تو اُس میں ا س کلمے کو ’’سلام ‘‘سے تبدیل کر دیا گیا اور یہ کلمہ ’’حَیَّاکَ اللہُ‘‘ کے مقابلے میں زیادہ کامل ہے کیونکہ جو شخص سلامت ہو گا تو وہ لازمی طور پر زندہ ہو گا اور صرف زندہ شخص سلامت نہیں ہو سکتا کیونکہ ا س کی زندگی مصیبتوں اور آفات سے ملی ہو ئی ہے۔ (تفسیر کبیر، النساء، تحت الآیۃ: ۸۶، ۴ / ۱۶۱)
سلام سے متعلق شرعی مسائل:
اس آیت میں سلام کے بارے میں بیان ہوا ،اس مناسبت سے ہم یہاں سلام سے متعلق چند شرعی مسائل ذکر کرتے ہیں :
(1)… سلام کرنا سنت ہے اور جواب دینا فرض اور جواب میں افضل یہ ہے کہ سلام کرنے والے کے سلام پر کچھ بڑھائے مثلاً پہلا شخص اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہے تو دوسرا شخص وَعَلَیْکُمُ السَّلَامْ وَرَحْمَۃُ اللہِ کہے اور اگر پہلے نے وَرَحْمَۃُ اللہِ بھی کہا تھا تو یہ وَبَرَکَاتُہٗ اور بڑھائے پس اس سے زیادہ سلام و جواب میں اور کوئی اضافہ نہیں ہے۔
(2)… کافر، گمراہ، فاسق اور اِستِنجا کرتے مسلمانوں کو سلام نہ کریں۔ یونہی جو شخص خطبہ ،تلاوت ِقرآن ،حدیث، مذاکرہ ِعلم، اذان اور تکبیر میں مشغول ہو ،اس حال میں ان کو بھی سلام نہ کیا جائے اور اگر کوئی سلام کردے تو اُن پر جواب دینا لازم نہیں۔
(3)…جو شخص شطرنج ،چوسر ،تاش، گنجفہ وغیرہ کوئی ناجائز کھیل کھیل رہا ہویا گانے بجانے میں مشغول ہو یا پاخانہ یا غسل خانہ میں ہو یا بَرہنہ ہو اس کو سلام نہ کیا جائے۔
(4)… آدمی جب اپنے گھر میں داخل ہو تو بیوی کو سلام کرے، بعض جگہ یہ بڑی غلط رسم ہے کہ میاں بیوی کے اتنے گہرے تعلقات ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے کو سلام کرنے سے محروم کرتے ہیں حالانکہ سلام جس کو کیا جاتا ہے اس کے لیے سلامتی کی دعا ہے۔
(5)…بہتر سواری والا، کمتر سواری والے کو اور کمتر سواری والا، پیدل چلنے والے کو اور پیدل چلنے والا، بیٹھے ہوئے کو اور چھوٹا بڑے کو اور تھوڑے زیادہ کو سلام کریں۔ سلام سے متعلق شرعی مسائل کی مزید معلومات کے لئے بہار شریعت حصہ 16کا مطالعہ کیجئے۔
اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَؕ-لَیَجْمَعَنَّكُمْ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ لَا رَیْبَ فِیْهِؕ-وَ مَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰهِ حَدِیْثًا(87)
ترجمہ:
اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور وہ ضرور تمہیں قیامت کے دن اکٹھا کرے گا جس میں کوئی شک نہیں اور اللہ سے زیادہ کس کی بات سچی۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰهِ حَدِیْثًا:اوراللہ سے زیادہ کس کی بات سچی۔} ارشاد فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سےزیادہ کس کی بات سچی یعنی اس سے زیادہ سچا کوئی نہیں اس لیے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کاجھوٹ بولنا ناممکن و محال ہے کیونکہ جھوٹ عیب ہے اور ہر عیب اللہ عَزَّوَجَلَّ کیلئے محال ہے، وہ جملہ عیوب سے پاک ہے۔
اِمکانِ کِذب کا رد:
مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کسی کلام میں جھوٹ کا ممکن ہونا ذاتی طور پر محال ہے اوراللہ تعالیٰ کی تمام صفات مکمل طور پر صفاتِ کمال ہیں اور جس طرح کسی صفتِ کمال کی اس سے نفی ناممکن ہے اسی طرح کسی نقص و عیب کی صفت کا ثبوت بھی اللہ تعالیٰ کے لئے محال ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہی فرمان
وَ مَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰهِ حَدِیْثًا
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اوراللہ سے زیادہ کس کی بات سچی۔
ا س عقیدے کی بہت بڑی دلیل ہے ،چنانچہ اس آیت کے تحت علامہ عبداللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اس آیت میں اِستِفہامِ انکاری ہے یعنی خبر، وعدہ اور وعید کسی بات میں کوئی شخص اللہ تعالیٰ سے زیادہ سچا نہیں کہ اس کا جھوٹ تو بِالذَّات محال ہے کیونکہ جھوٹ خود اپنے معنی ہی کی رو سے قبیح ہے کہ جھوٹ واقع کے خلاف خبر دینے کا نام ہے۔(مدارک، النساء، تحت الآیۃ: ۸۷، ص۲۴۳)
علامہ بیضاوی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ اس آیت میں اس سے انکار فرماتا ہے کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ سے زیادہ سچا ہو کیونکہ اس کی خبر تک تو کسی جھوٹ کو کسی طرح راہ ہی نہیں کہ جھوٹ عیب ہے اور عیب اللہ تعالیٰ پر محال ہے۔ (بیضاوی، النساء، تحت الآیۃ: ۸۷، ۲ / ۲۲۹)
نیز اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
فَلَنْ یُّخْلِفَ اللّٰهُ عَهْدَهٗ (بقرہ:۸۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:تو اللہ ہرگز وعدہ خلافی نہیں کرے گا۔
اس آیت کے تحت امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ہر وعدہ اور وعید میں جھوٹ سے پاک ہے ،ہمارے اصحاب اہلِ سنت و جماعت اس دلیل سے کذبِ الہٰی کو ناممکن جانتے ہیں کیونکہ جھوٹ صفتِ نقص ہے اور نقص اللہ تعالیٰ پر محال ہے اور مُعتَزِلہ اس دلیل سے اللہ تعالیٰ کے جھوٹ کو مُمْتَنِع مانتے ہیں کیونکہ جھوٹ فِی نَفْسِہٖ قبیح ہے تو اللہ تعالیٰ سے اس کا صادر ہونا محال ہے۔ الغرض ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا جھوٹ بولنا اصلاً ممکن ہی نہیں۔(تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ:۸۰، ۱ / ۵۶۷، ملخصاً)
شاہ عبدُ العزیز محدث دہلوی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں :اللہ تعالیٰ کی خبر اَزلی ہے ، کلام میں جھوٹ ہونا عظیم نقص ہے لہٰذا وہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں ہر گز راہ نہیں پا سکتا کہ اللہ تعالیٰ تمام عیوب و نقائص سے پاک ہے، اس کے حق میں خبر کے خلاف ہونا سراپا نقص ہے۔ (تفسیر عزیزی(مترجم)، البقرۃ، تحت الآیۃ:۸۰، ۲ / ۵۴۷، ملخصاً)
اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَ تَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّ عَدْلًاؕ-لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖۚ-وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(انعام:۱۱۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور سچ اور انصاف کے اعتبار سے تیرے رب کے کلمات مکمل ہیں۔ اس کے کلمات کو کوئی بدلنے والا نہیں اور وہی سننے والا، جاننے والا ہے۔
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں :یہ آیت ا س چیز پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بات بہت سی صفتوں کے ساتھ موصوف ہے، ان میں سے ایک صفت اس کاسچا ہو نا ہے اور ا س پر دلیل یہ ہے کہ جھوٹ عیب ہے اور عیب اللہ تعالیٰ پر محال ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ قرآن و حدیث کے دلائل کا صحیح ہونا اس پر موقوف ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کذب کو محال مانا جائے ۔(تفسیر کبیر، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۱۵، ۵ / ۱۲۵)
نیز جھوٹ فِی نَفسِہٖ دو باتوں سے خالی نہیں ، یا تو وہ نقص ہو گا یا نہیں ہو گا اور یہ بات ظاہر ہے کہ جھوٹ ضرور نقص ہے اور جب یہ نقص ہے تو بالاتفاق اللہ تعالیٰ کے لئے محال ہو گیا کیونکہ وہ ہر نقص و عیب سے پاک ہے۔ دوسری صورت میں اگر جھوٹ کو نقص و عیب نہ بھی مانا جائے تو بھی یہ اللہ تعالیٰ کے لئے محال ہے کیونکہ اگر جھوٹ نقص نہیں تو کمال بھی نہیں اوراللہ تعالیٰ نہ صرف نقص و عیب سے پاک ہے بلکہ وہ ہر اس شئے سے بھی پاک ہے جو کمال سے خالی ہو اگرچہ وہ نقص وعیب میں سے نہ بھی ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ہر صفت صفتِ کمال ہے اور جس میں کوئی کمال ہی نہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی صفت کس طرح ہو سکتا ہے۔
یاد رہے کہ لوگوں کے جھوٹ بولنے پر قادر ہونے اور اللہ تعالیٰ کے لئے جھوٹ ناممکن و محال ہونے سے یہ ہرگز لازم نہیں آتا کہ لوگوں کی قدرت مَعَاذَاللہ ،اللہ تعالیٰ کی قدرت سے بڑھ گئی یعنی یہ کہنا کہ بندہ جھوٹ بول سکے اور اللہ تعالیٰ جھوٹ نہ بول سکے ، اس سے لازم آتا ہے کہ انسان کی قدرت مَعَاذَاللہ ، اللہ تعالیٰ کی قدرت سے بڑھ جائے گئی، یہ بات سراسر غلط ہے نیز اگر یہ بات سچی ہو کہ آدمی جو کچھ کر سکتا ہے وہ اللہ تعالیٰ بھی کر سکتا ہے تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ جس طرح نکاح کرنا اور بیوی سے ہم بستری کرنا وغیرہ انسان کی قدرت میں ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی مَعَاذَاللہ یہ کر سکتا ہے، یونہی اگر وہ بات سچی ہوتو اس سے یہ لازم آئے گا کہ جس طرح آدمی کھانا کھانے، پانی پینے، اپنے آپ کو دریا میں ڈبو دینے، آگ سے جلانے، خاک اور کانٹوں پر لٹانے کی قدرت رکھتا ہے تو پھر یہ سب باتیں اللہ تعالیٰ بھی اپنے لئے کر سکتا ہو گا۔ ان صورتوں میں انسان ہر طرح خدائی سے ہاتھ دھو بیٹھے گا کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ یہ سب باتیں اپنے لئے کر سکتا ہو تووہ ناقص و محتاج ہوا اور ناقص و محتاج خدا نہیں ہو سکتا اور اگر نہ کر سکا تو عاجز ٹھہرے گا اور کمالِ قدرت میں آدمی سے کم ہو جائے گا اور عاجز خدا نہیں ہو سکتا۔ جبکہ ہمارا سچا خدا سب عیبوں سے اور محال پر قدرت کی تہمت سے پاک اور مُنَزَّہ ہے،نہ کوئی ممکن اس کی قدرت سے باہر ہے نہ کسی کی قدرت ا س کی قدرت کے ہمسر، نہ اپنے لئے کسی عیب و نقص پر قادر ہونا اس کی قُدُّوسی شان کے لائق ہے۔
نوٹ:اس مسئلے پر تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے فتاویٰ رضویہ کی 15ویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے ان رسائل کا مطالعہ فرمائیں: (1)سُبْحٰنُ السُّبُّوْحْ عَنْ عَیْبِ کِذْبٍ مَقْبُوْحْ (جھوٹ جیسے بد ترین عیب سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پاک ہونے کا بیان )۔ (2) دَامَانِ بَاغِ سُبْحٰنِ السُّبُّوْحْ۔(رسالہ سُبْحٰنُ السُّبُّوح کے باغ کا دامن) (3)اَلْقَمْعُ الْمُبِینْ لِآمَالِ الْمُکَذِّبِینْ(اللہ تعالیٰ کے لئے جھوٹ ممکن ماننے والوں کے استدلال کا رد)۔
فَمَا لَكُمْ فِی الْمُنٰفِقِیْنَ فِئَتَیْنِ وَ اللّٰهُ اَرْكَسَهُمْ بِمَا كَسَبُوْاؕ-اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَهْدُوْا مَنْ اَضَلَّ اللّٰهُؕ-وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ سَبِیْلًا(88)
ترجمہ:
تو تمہیں کیا ہوا کہ منافقوں کے بارے میں دو گروہ ہوگئے حالانکہ اللہ نے ان کے اعمال کے سبب ان (کے دلوں ) کو الٹا دیا ہے۔ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ تم اسے راہ دکھاؤ جسے اللہ نے گمراہ کر دیا اور جسے اللہ گمراہ کردے تو ہرگز تو اس کے لئے (ہدایت کا) راستہ نہ پائے گا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{فَمَا لَكُمْ فِی الْمُنٰفِقِیْنَ فِئَتَیْنِ: تو تمہیں کیا ہوا کہ منافقوں کے بارے میں دو گروہ ہوگئے ؟ }اس آیت کاشانِ نزول یہ ہے کہ منافقین کی ایک جماعت کھلم کھلا مرتد ہوکر مشرکین سے جاملی۔ ان کے بارے میں صحابۂ کرام رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے دوگروہ ہوگئے ۔ایک فرقہ ان کو قتل کرنے پراصرار کررہا تھا اور ایک اُن کے قتل سے انکار کرتا تھا۔ اس معاملہ میں یہ آیت نازل ہوئی۔(مدارک، النساء، تحت الآیۃ: ۸۸، ص۲۴۳)
اور فرمایا کہ اے ایمان والو! تمہیں کیا ہوگیا کہ تم منافقوں کے بارے میں دو گروہ بن گئے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ارتداد اور مشرکوں کے ساتھ جاملنے کی وجہ سے ان کے دلوں کو الٹا دیا ہے، کیا تم یہ چاہتے ہو کہ جسے اللہ تعالیٰ نے گمراہ کردیا اسے ہدایت کی راہ دکھا دو! یہ محال ہے کیونکہ جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کر دے تو تم اس کے لئے ہدایت کاکوئی راستہ نہ پاؤ گے۔(روح البیان،النساء ، تحت الایۃ : ۸۸،۲ / ۲۵۶)
وَدُّوْا لَوْ تَكْفُرُوْنَ كَمَا كَفَرُوْا فَتَكُوْنُوْنَ سَوَآءً فَلَا تَتَّخِذُوْا مِنْهُمْ اَوْلِیَآءَ حَتّٰى یُهَاجِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-فَاِنْ تَوَلَّوْا فَخُذُوْهُمْ وَ اقْتُلُوْهُمْ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْهُمْ ۪- وَ لَا تَتَّخِذُوْا مِنْهُمْ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیْرًا(89)
ترجمہ:
وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ جیسے وہ کافر ہوئے کاش کہ تم بھی ویسے ہی کافر ہوجاؤ پھرتم سب ایک جیسے ہو جاؤ۔ توتم ان میں سے کسی کو اپنا دوست نہ بناؤ جب تک وہ اللہ کی راہ میں ہجرت نہ کریں پھر اگر وہ منہ پھیریں تو انہیں پکڑو اور جہاں پاؤ قتل کرو اور ان میں کسی کو نہ دوست بناؤ اور نہ ہی مددگار۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ وَدُّوْا لَوْ تَكْفُرُوْنَ كَمَا كَفَرُوْا: وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ جیسے وہ کافر ہوئے کاش کہ تم بھی ویسے ہی کافر ہوجاؤ ۔} اس سے پہلی آیات میں منافقوں کی اپنی سرکشی کا بیان ہوا اور اس آیت میں ان کے کفر و سرکشی میں حد سے بڑھنے کا بیان ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے مسلمانو! جو منافق ایمان چھوڑ کر کفر و ارتداد کی طرف پلٹ گئے وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ جیسے وہ کافر ہوئے کاش کہ تم بھی ویسے ہی کافر ہوجاؤ پھرتم سب کفر میں ایک جیسے ہو جاؤ اور جب ان کا یہ حال ہے توتم ان میں سے کسی کو اس وقت تک اپنا دوست نہ بناؤ جب تک وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت نہ کریں اور اِس سے اُن کے ایمان کا ثبوت نہ مل جائے کہ ان کا ایمان اللہ تعالیٰ اور ا س کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رضا کے لئے ہے کسی دنیوی مقصد کے لئے نہیں ہے، پھر اگر وہ ہجرت کرنے سے منہ پھیریں اور کفر پر قائم رہنے کو اختیار کریں تو اے مسلمانو! تم انہیں پکڑو اور جہاں پاؤ قتل کرو اور اگر وہ تمہاری دوستی کا دعویٰ کریں اور دشمنوں کے خلاف تمہاری مدد کے لیے تیار ہوں تو ان کی مدد نہ قبول کرو کیونکہ یہ بھی دشمن ہیں۔(روح البیان، النساء، تحت الآیۃ: ۸۹، ۲ / ۲۵۶، خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۸۹، ۱ / ۴۱۱، ملتقطاً)
آیت ’’وَدُّوْا لَوْ تَكْفُرُوْنَ‘‘سے معلوم ہونے والے احکام:
اس آیت سے چند باتیں معلوم ہوئیں:
(1)… دوسرے کو کافر کرنے کی کوشش کرنا کفر ہے۔
(2)… کافر، مرتد ، بد مذہب کو دوست بنانا اور ان سے دلی محبت رکھنا حرام ہے اگرچہ وہ کلمہ پڑھتا ہو اور اپنے کو مسلمان کہتا ہو جیسے اُس زمانے کے منافق تھے۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : کفار اور مشرکین سے اتحاد ووداد حرامِ قطعی ہے قرآنِ عظیم کی نُصوص اُس کی تحریم سے گونج رہے ہیں اور کچھ نہ ہو تو اتنا کافی ہے کہ
وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ(مائدہ:۵۱)
واحد قہار فرماتا ہے کہ تم میں جوکوئی ان سے دوستی رکھے گا وہ بے شک انہیں میں سے ہے۔ (فتاوی رضویہ، ۲۱ / ۲۲۹)
(3)… دینی امور میں مشرک سے مد د نہ لی جائے۔ حضرت ابو حُمید ساعدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ہم مشرکین سے مدد نہیں لیں گے۔ (مستدرک، کتاب الجہاد، لا نستعین بالمشرکین علی المشرکین، ۲ / ۴۵۶، الحدیث: ۲۶۱۰)
اِلَّا الَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ اِلٰى قَوْمٍۭ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَهُمْ مِّیْثَاقٌ اَوْ جَآءُوْكُمْ حَصِرَتْ صُدُوْرُهُمْ اَنْ یُّقَاتِلُوْكُمْ اَوْ یُقَاتِلُوْا قَوْمَهُمْؕ-وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَسَلَّطَهُمْ عَلَیْكُمْ فَلَقٰتَلُوْكُمْۚ-فَاِنِ اعْتَزَلُوْكُمْ فَلَمْ یُقَاتِلُوْكُمْ وَ اَلْقَوْا اِلَیْكُمُ السَّلَمَۙ-فَمَا جَعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ عَلَیْهِمْ سَبِیْلًا(90)
ترجمہ: مگر (ان لوگوں کو قتل نہ کرو) جو ایسی قوم سے تعلق رکھتے ہوں کہ تمہارے اور ان کے درمیان ( امن کا) معاہدہ ہو یا تمہارے پاس اس حال میں آئیں کہ ان کے دل تم سے لڑائی کرنے سے تنگ آچکے ہوں یا (تمہارے ساتھ مل کر) اپنی قوم سے لڑیں اوراللہ اگر چاہتا تو ضرور انہیں تم پر مسلط کر دیتا تو وہ بے شک تم سے لڑتے پھر اگر وہ تم سے دور رہیں اور نہ لڑیں اور تمہاری طرف صلح کا پیغام بھیجیں تو (صلح کی صورت میں ) اللہ نے تمہیں ان پر(لڑائی) کا کوئی راستہ نہیں رکھا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اِلَّا الَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ اِلٰى قَوْمٍ: مگر جو ایسی قوم سے تعلق رکھتے ہوں۔ }گزشتہ آیت میں قتل کا حکم دیا گیا تھا، اب فرمایا جارہا ہے کہ کچھ لوگ اس حکم سے خارج ہیں ، وہ یہ ہیں :
(1)…وہ لوگ جن کا ایسی قوم سے تعلق ہو جن سے تمہارا امن کا معاہدہ ہوچکا ہو۔
(2)…وہ لوگ جو تم سے لڑائی نہ کریں۔
(3)…وہ لوگ جوتمہارے ساتھ مل کر اپنی قوم سے لڑیں۔ ان سب لوگوں کو قتل کرنے کی اجازت نہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنا مزید احسان بیان فرمایا کہ اگراللہ عَزَّوَجَلَّ چاہتا تو ضرور انہیں تم پر مُسلَّط کر دیتا تو وہ بے شک تم سے لڑتے اور تم پر غالب بھی آجاتے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور مسلمانوں کو ان کے شر سے محفوظ رکھا۔
{فَاِنِ اعْتَزَلُوْكُمْ: پھر اگر وہ تم سے دور رہیں۔} یہاں فرمایا کہ اگر کفار تم سے دور رہیں اور نہ لڑیں بلکہ صلح کا پیغام بھیجیں تو اس صورت میں تمہیں اجازت نہیں کہ تم ان سے جنگ کرو۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ یہ آیت منسوخ ہے اور اب اسلامی سلطان کو صلح کرنے، نہ کرنے کا اختیار ہے۔(جمل، النساء، تحت الآیۃ: ۹۰، ۲ / ۹۹، خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۹۰، ۱ / ۴۱۲، ملتقطاً)
سَتَجِدُوْنَ اٰخَرِیْنَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّاْمَنُوْكُمْ وَ یَاْمَنُوْا قَوْمَهُمْؕ-كُلَّمَا رُدُّوْۤا اِلَى الْفِتْنَةِ اُرْكِسُوْا فِیْهَاۚ-فَاِنْ لَّمْ یَعْتَزِلُوْكُمْ وَ یُلْقُوْۤا اِلَیْكُمُ السَّلَمَ وَ یَكُفُّوْۤا اَیْدِیَهُمْ فَخُذُوْهُمْ وَ اقْتُلُوْهُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْهُمْؕ-وَ اُولٰٓىٕكُمْ جَعَلْنَا لَكُمْ عَلَیْهِمْ سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا(91)
ترجمہ:
عنقریب تم کچھ دوسروں کو پاؤ گے جو چاہتے ہیں کہ وہ تم سے بھی امن میں رہیں اور اپنی قوم سے بھی امن میں رہیں (لیکن) جب کبھی انہیں فتنے کی طرف پھیرا جاتا ہے تو اس میں اوندھے جاپڑتے ہیں ۔ پھر اگر وہ تم سے کنارہ کشی نہ کریں اور تمہارے ساتھ صلح نہ کریں اور اپنے ہاتھ تم (سے لڑنے) سے نہ روکیں تو تم انہیں پکڑ لو اور جہاں پاؤ انہیں قتل کردو اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے خلاف ہم نے تمہیں کھلا اختیار دیا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{سَتَجِدُوْنَ اٰخَرِیْنَ: عنقریب تم کچھ دوسروں کو پاؤ گے۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ مدینہ طیبہ میں اسد و غطفان دو قبیلوں کے لوگ ریاکاری کے طور پر کلمہ پڑھتے اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے اور جب ان میں سے کوئی اپنی قوم سے ملتا اور وہ لوگ ان سے کہتے کہ تم کس چیز پر ایمان لائے؟ تویہ کہتے کہ بندروں بچھوؤں وغیرہ پر (یعنی اسلام کا مذاق اڑاتے)۔ اس انداز سے ان کا مطلب یہ تھا کہ دونوں طرف تعلقات رکھیں اور کسی جانب سے انہیں نقصان نہ پہنچے یہ لوگ منافقین تھے، ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۹۱، ۱ / ۴۱۲)
اور ان کے متعلق فرمایا کہ یہ لوگ تم سے بھی امن چاہتے ہیں اور اپنی قوم سے بھی لیکن حقیقت میں تمہارے ساتھ نہیں ہیں کیونکہ جب انہیں کسی فتنے مثلاً شرک یا مسلمانوں سے جنگ کی طرف بلایا جاتا ہے تویہ مسلمانوں کے دشمنوں ہی کے ساتھ ہوتے ہیں۔ مزیدان کے متعلق فرمایا کہ اگر یہ لوگ تمہارے ساتھ جنگ کرنے سے باز آکرایک طرف نہ ہوجائیں اور تمہارے ساتھ صلح نہ کریں تو ان کے کفر اور غداری اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے سبب ہم نے تمہیں ان کے قتل کرنے کا کھلااختیار دیا ہے۔
وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ یَّقْتُلَ مُؤْمِنًا اِلَّا خَطَــٴًـاۚ-وَ مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَــٴًـا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَّ دِیَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰۤى اَهْلِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ یَّصَّدَّقُوْاؕ-فَاِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍؕ-وَ اِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍۭ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَهُمْ مِّیْثَاقٌ فَدِیَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰۤى اَهْلِهٖ وَ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍۚ-فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَهْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ٘-تَوْبَةً مِّنَ اللّٰهِؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًا(92)
ترجمہ:
اور کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ کسی مسلمان کو قتل کرے مگر یہ کہ غلطی سے ہوجائے اور جو کسی مسلمان کو غلطی سے قتل کردے تو ایک مسلمان غلام کو آزاد کرنا اور دیت دینا لازم ہے جو مقتول کے گھروالوں کے حوالے کی جائے گی سوائے اس کے کہ وہ معاف کردیں پھر اگر وہ مقتول تمہاری دشمن قوم سے ہو اور وہ مقتول خود مسلمان ہو تو صرف ایک مسلمان غلام کا آزاد کرنا لازم ہے اور اگر وہ مقتول اس قوم میں سے ہو کہ تمہارے اور ان کے درمیان معاہدہ ہو تو اس کے گھر والوں کے حوالے دیت کی جائے اور ایک مسلمان غلام یا لونڈی کو آزاد کیا جائے پھر جسے (غلام) نہ ملے تو دومہینے کے مسلسل روزے ( لازم ہیں ۔ یہ ) اللہ کی بارگاہ میں اس کی توبہ ہے اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ یَّقْتُلَ مُؤْمِنًا: اور کسی مسلمان کیلئے دوسرے مسلمان کو قتل کرنا جائز نہیں۔}یہ آیت ِ مبارکہ عیاش بن ربیعہ مخزومی کے بارے میں نازل ہوئی ۔ ان کا واقعہ یوں ہے کہ وہ ہجرت سے پہلے مکہ مکرمہ میں مسلمان ہوگئے اور گھر والوں کے خوف سے مدینہ طیبہ جا کر پناہ گزیں ہوگئے۔ ان کی ماں کو اس سے بہت بے قراری ہوئی اور اس نے حارث اور ابوجہل اپنے دونوں بیٹوں سے جو عیاش کے سوتیلے بھائی تھے یہ کہا کہ خدا کی قسم نہ میں سایہ میں بیٹھوں گی اور نہ کھانا چکھوں گی اور نہ پانی پیوں گی جب تک تم عیاش کو میرے پاس نہ لے کر آؤ۔ وہ دونوں حارث بن زید کو ساتھ لے کر تلاش کے لیے نکلے اور مدینہ طیبہ پہنچ کر عیاش کو پالیا اور ان کوماں کے جزع فزع کرنے، بے قراری اور کھانا پینا چھوڑنے کی خبر سنائی اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نام پر یہ عہد کیا کہ ہم دین کے متعلق تجھ سے کچھ نہ کہیں گے، بس تم مکہ مکرمہ چلو۔ اس طرح وہ عیاش کو مدینہ سے نکال لائے اور مدینہ سے باہر آکر اس کو باندھا اور ہر ایک نے سو سو کوڑے مارے پھر ماں کے پاس لائے تو ماں نے کہا میں تیری مشکیں نہ کھولوں گی جب تک تو اپنا دین ترک نہ کرے گا، پھر عیاش کو دھوپ میں بندھا ہوا ڈال دیا اور ان مصیبتوں میں مبتلا ہو کر عیاش نے ان کا کہا مان لیا اور اپنا دین ترک کردیا۔ اس پر حارث بن زید نے عیاش کو ملامت کی اور کہا تواسلام پر تھا، اگر یہ حق تھا تو تو نے حق کو چھوڑ دیا اور اگر باطل تھا توتو باطل دین پر رہا۔ یہ بات عیاش کو بڑی ناگوار گزری اور عیاش نے حارث سے کہا کہ میں تجھے اکیلا پاؤں گا تو خدا کی قسم ،ضرور تمہیں قتل کردوں گا اس کے بعد عیاش اسلام لے آئے اور انہوں نے مدینہ طیبہ ہجرت کرلی اور ان کے بعد حارث بھی اسلام لے آئے اور وہ بھی ہجرت کرکے رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں پہنچ گئے لیکن اس روز عیاش موجود نہ تھے اور نہ انہیں حارث کے اسلام کی اطلاع ہوئی۔ قباء شریف کے قریب عیاش نے حارث کو دیکھ لیا اور قتل کردیا تو لوگوں نے کہا، اے عیاش! تم نے بہت برا کیا، حارث اسلام لاچکے تھے ۔اس پر عیاش کو بہت افسوس ہوا اور انہوں نے رحمت ِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت ِ اقدس میں حاضر ہو کر واقعہ عرض کیا اور کہا کہ مجھے قتل کے وقت تک ان کے اسلام کی خبر ہی نہ ہوئی اس پر یہ آیۂ کریمہ نازل ہوئی اور کفارے کی صورت بیان کی گئی۔(بغوی، النساء، تحت الآیۃ: ۹۲، ۱ / ۳۶۸)
{وَ مَنْ قَتَلَ: اور جو قتل کرے۔} یہاں آیت میں قتل کی چار صورتوں کا بیان ہے اور پھر تین صورتوں میں کفارے کا بیان ہے۔
پہلی صورت یہ کہ مسلمان کا کسی دوسرے مسلمان کو ناحق قتل کرنا حرام ہے۔
دوسری صورت یہ کہ کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو غلطی سے قتل کردے جیسے شکار کو مار رہا ہومگر گولی مسلمان
کو لگ جائے یا کسی کو حربی کافر سمجھ کر مارا لیکن قتل کے بعد معلوم ہوا کہ مقتول تو مسلمان ہے۔ اس صورت میں قاتل پر ایک غلام یا لونڈی کو آزاد کرنا لازم ہے اور اس کے ساتھ وہ دِیت بھی ادا کرے گا جومقتول کے وارثوں کو دی جائے گی اوروہ اسے میراث کی طرح تقسیم کرلیں۔دِیت مقتول کے ترکہ کے حکم میں ہے، اس سے مقتول کا قرضہ بھی ادا کیا جائے گا اور وصیت بھی پوری کی جائے گی۔ ہاں اگر مقتول کے وُرثاء دیت معاف کردیں تو وہ معاف ہوجائے گی۔
تیسری صورت یہ ہے کہ اگر وہ مقتول دشمن قوم سے ہو لیکن وہ مقتول بذات ِخود مسلمان ہو تو صرف ایک مسلمان غلام کا آزاد کرنا لازم ہے اور دیت وغیرہ کچھ لازم نہ ہوگی۔
چوتھی صورت یہ ہے کہ اگر مقتول ذِمّی ہو یا مسلمان حکومت کی اجازت سے مسلمان ملک میں آیا ہو جسے مُستامن کہتے ہیں تو اس کو قتل کرنے کی صورت میں اس کے گھر والوں کو دیت دی جائے گی اور ایک مسلمان غلام یا لونڈی کو آزاد کیا جائے گاالبتہ اگر غلام لونڈی نہ ملے جیسے ہمارے زمانے میں غلام لونڈی ہیں ہی نہیں تو پھر دومہینے کے مسلسل روزے رکھے جائیں گے۔ یہ یاد رہے کہ قتل خطا کے کفارہ میں کافر غلام آزاد نہ کیا جائے گا۔ باقی کفّارات میں حنفی مذہب میں ہر طرح کا غلام آزاد کر سکتے ہیں جیسے روزے کا یا ظہار کا کفار ہ ہو۔
وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(93)
ترجمہ: اور جو کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کردے تو اس کا بدلہ جہنم ہے عرصہ دراز تک اس میں رہے گا اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَنْ یَّقْتُلْ: اور جو قتل کرے۔} اس سے پہلی آیت میں غلطی سے کسی مسلمان کو قتل کر دینے کا حکم بیان کیا گیا اور اس آیت میں جان بوجھ کر کسی مسلمان کو قتل کرنے کی اُخروی وعید بیان کی گئی ہے۔(تفسیر کبیر، النساء، تحت الآیۃ: ۹۳، ۴ / ۱۸۲)
مسلمان کو ناحق قتل کرنے کی مذمت:
کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا شدید ترین کبیرہ گناہ ہے اور کثیر احادیث میں ا س کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے، ان میں سے 4احادیث درج ذیل ہیں:
(1)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن احیاہا، ۴ / ۳۵۸، الحدیث: ۶۸۷۱)
(2)…کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار ہو گا۔ حضرت ابو بکرہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔(معجم صغیر، باب العین، من اسمہ علی، ص۲۰۵ ، الجزء الاول)
(3)…حضرت ابو بکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پرمُصِر تھا۔(بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ، ۱ / ۲۳، الحدیث: ۳۱)
(4)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے مایوس ہے۔‘‘(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا، ۳ / ۲۶۲، الحدیث: ۲۶۲۰)
افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہوگیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا، غنڈہ گردی، دہشت گردی، ڈکیتی، خاندانی لڑائی، تَعَصُّب والی لڑائیاں عام ہیں۔ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے، گروپ اور جتھے اور عسکری وِنگ بنے ہوئے ہیں جن کا کام ہی قتل و غارتگری کرنا ہے۔
مسلمانوں کا باہمی تعلق کیساہونا چاہئے؟
ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے تعلق کیسا ہونا چاہئے، اس بارے میں 5 احادیث درج ذیل ہیں :
(1)…حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دیگر مسلمان محفوظ رہیں۔(بخاری، کتاب الایمان، باب المسلم من سلم المسلمون۔۔۔ الخ، ۱ / ۱۵، الحدیث: ۱۰)
(2)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرورِکائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے بھائی کے لئے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسندکرتا ہے۔(بخاری، کتاب الایمان، باب من الایمان ان یحبّ لاخیہ۔۔۔ الخ، ۱ / ۱۶، الحدیث: ۱۳)
(3)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ نہ اس پر ظلم کرے نہ اسے حقیر جانے ۔ تقویٰ یہاں ہے اور اپنے سینے کی طرف تین بار اشارہ فرمایا۔ انسان کے لیے یہ برائی کافی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے ۔ مسلمان پر مسلمان کی ہر چیز حرام ہے ، اس کا خون، اس کا مال، اس کی آبرو۔ (مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تحریم ظلم المسلم وخذلہ۔۔۔ الخ، ص۱۳۸۶، الحدیث: ۳۲(۲۵۶۴))
(4)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے ،سرورِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ و ہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی تعظیم نہ کرے اور اچھی باتوں کا حکم نہ دے اور بری باتوں سے منع نہ کرے۔ (ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی رحمۃ الصبیان، ۳ / ۳۶۹، الحدیث: ۱۹۲۸)
(5)… حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: مسلمان کو گالی دینا فِسق اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔(مسلم، کتاب الایمان، باب بیان قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: سباب المسلم۔۔۔ الخ ، ص۵۲، الحدیث: ۱۱۶(۶۴))
مسلمان کو قتل کرنا کیسا ہے؟
اگر مسلمانو ں کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا تو یہ خود کفر ہے اور ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور قتل کو حرام ہی سمجھا لیکن پھر بھی اس کا ارتکاب کیا تب یہ گناہ کبیرہ ہے اور ایسا شخص مدت ِ دراز تک جہنم میں رہے گا۔ آیت میں ’’خَالِدًا ‘‘کا لفظ ہے اس کا ایک معنیٰ ہمیشہ ہوتا ہے اور دوسرا معنیٰ عرصہ دراز ہوتا ہے یہاں دوسرے معنیٰ میں مذکور ہے۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا ضَرَبْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَتَبَیَّنُوْا وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰۤى اِلَیْكُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًاۚ-تَبْتَغُوْنَ عَرَضَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا٘-فَعِنْدَ اللّٰهِ مَغَانِمُ كَثِیْرَةٌؕ-كَذٰلِكَ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللّٰهُ عَلَیْكُمْ فَتَبَیَّنُوْاؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا(94)
ترجمہ: اے ایمان والو! جب تم اللہ کے راستے میں چلو تو خوب تحقیق کرلیا کرو اور جو تمہیں سلام کرے اسے یہ نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں ۔ تم دنیوی زندگی کا سامان چاہتے ہو پس اللہ کے پاس بہت سے غنیمت کے مال ہیں ۔ پہلے تم بھی ایسے ہی تھے تواللہ نے تم پر احسان کیا تو خوب تحقیق کرلو بیشک اللہ تمام اعمال سے خبردار ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اِذَا ضَرَبْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَتَبَیَّنُوْا: جب تم اللہ کے راستے میں چلو تو خوب تحقیق کرلیا کرو۔}اس آیتِ مبارکہ کا شانِ نزول کچھ اس طرح ہے کہ مِرْدَاس بن َنہِیْک جو فدک کے رہنے والے تھے اور اُن کے سوا اُن کی قوم کاکوئی شخص اسلام نہ لایا تھا، اس قوم کو خبر ملی کہ لشکرِ اسلام ان کی طرف آرہا ہے تو قوم کے سب لوگ بھاگ گئے مگر مِرْدَاس ٹھہرے رہے۔ جب انہوں نے دور سے لشکر کو دیکھا تواس خیال سے کہ کہیں کوئی غیر مسلم جماعت نہ ہو یہ پہاڑ کی چوٹی پر اپنی بکریاں لے کر چڑھ گئے ۔جب لشکر آیا اور انہوں نے اللہُ اکْبَر کے نعروں کی آوازیں سنیں تو یہ خود بھی تکبیر پڑھتے ہوئے اتر آئے اور کہنے لگے: لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ، السّلام علیکم۔ مسلمانوں نے خیال کیا کہ اہلِ فدک تو سب کافر ہیں یہ شخص دھوکہ دینے کے لیے ایمان کا اظہار کررہا ہے۔ اس خیال سے حضرت اُسامہ بن زید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان کو قتل کردیا اور بکریاں لے آئے۔ جب تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حضور میں حاضر ہوکر تمام ماجرا عرض کیا تو حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نہایت رنج ہوا اور فرمایا تم نے اس کے سامان کے سبب اس کو قتل کردیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت اسامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو حکم دیا کہ مقتول کی بکریاں اس کے اہلِ خانہ کو واپس کردو۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۹۴، ۱ / ۴۱۷)
یہ روایت الفاظ کے کچھ فرق کے ساتھ بخاری اور دیگر کتب حدیث میں بھی موجود ہے۔ یہاں اسی کے متعلق فرمایا جارہا ہے کہ اے ایمان والو! جب تم اللہ تعالیٰ کے راستے میں چلو تو خوب تحقیق کرلیا کرو اور جو تمہیں سلام کرے یا جس میں اسلام کی علامت و نشانی پاؤ تواس سے ہاتھ روک لو اور جب تک اس کا کفر ثابت نہ ہو جائے اس پر ہاتھ نہ ڈالو اور اسے یہ نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں۔ ابوداؤد اور تر مذی شریف کی حدیث میں ہے کہ نبی رحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب کوئی لشکر روانہ فرماتے توحکم دیتے کہ اگرتم کوئی مسجد دیکھو یا اذان سنو تو قتل نہ کرنا۔ (ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب فی دعاء المشرکین، ۳ / ۶۰، الحدیث: ۲۶۳۵، ترمذی، کتاب السیر، ۲-باب، ۳ / ۱۹۴، الحدیث: ۱۵۵۴)
{كَذٰلِكَ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلُ:پہلے تم بھی ایسے ہی تھے۔ } مسلمانوں کو سمجھانے کیلئے مزید فرمایا کہ پہلے تم بھی ایسے ہی تھے یعنی جب تم اسلام میں داخل ہوئے تھے تو تمہاری زبان سے کلمہ شہادت سن کر تمہارے جان و مال محفوظ کر دیئے گئے تھے اور تمہارا اظہارِ ایمان بے اعتبار نہ قرار دیا گیا تھا ایسا ہی اسلام میں داخل ہونے والوں کے ساتھ تمہیں بھی سلوک کرنا چاہئے اور یہ تم پر اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ تمہیں اِسلام پر اِستِقامت بخشی اور تمہارا مؤمن ہونا مشہور کیا، لہٰذا خوب تحقیق کرلیا کرو کہ کہیں تمہارے ہاتھوں کوئی ایمان دار قتل نہ ہو۔ معلوم ہوا کہ جو مسلمان کافروں میں رہتا ہو اور اس کے ایمان کی مسلمانوں کو خبر نہ ہو تو اس کے قتل سے نہ کفارہ واجب ہو گا اورنہ دیت۔ یاد رہے کہ پچھلی آیت میں وہ صورت مذکور ہوئی جہاں مسلمان کا اسلام سب کو معلوم ہو مگر اندھیرے وغیرہ کی وجہ سے پتا نہ لگے اور مسلمانوں کے ہاتھ سے مارا جائے اور اس آیت میں وہ صورت بیان ہوئی ہے جس میں مسلمان کا ایمان کسی کو معلوم نہیں۔ لہٰذا ان دونوں آیات میں تَعارُض نہیں۔
لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ وَ الْمُجٰهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْؕ-فَضَّلَ اللّٰهُ الْمُجٰهِدِیْنَ بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ عَلَى الْقٰعِدِیْنَ دَرَجَةًؕ-وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰىؕ-وَ فَضَّلَ اللّٰهُ الْمُجٰهِدِیْنَ عَلَى الْقٰعِدِیْنَ اَجْرًا عَظِیْمًا(95)
ترجمہ:
عذر والوں کے علاوہ جو مسلمان جہاد سے بیٹھے رہے وہ اوراللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرنے والے برابر نہیں ۔ اپنی جانوں اور مالوں کے ساتھ جہاد کرنے والوں کو بیٹھے رہنے والوں پر اللہ نے درجے کے اعتبار سے فضیلت عطا فرمائی ہے اوراللہ نے سب سے بھلائی کا وعدہ فرمایا ہے اوراللہ نے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر بہت بڑے اجر کی فضیلت عطا فرمائی ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ: عذر والوں کے علاوہ جو مسلمان جہاد سے بیٹھے رہے وہ برابر نہیں۔} اس آیت میں جہاد کی ترغیب ہے کہ بیٹھ رہنے والے اور جہاد کرنے والے برابر نہیں ہیں بلکہ مجاہدین کے لیے بڑے درجات و ثواب ہیں ، اور یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جو لوگ بیماری یا بڑھاپے یا ناطاقتی یا نابینائی یا ہاتھ پاؤں کے ناکارہ ہونے اور عذر کی وجہ سے جہاد میں حاضر نہ ہوں وہ فضیلت سے محروم نہ کئے جائیں گے جبکہ اچھی نیت رکھتے ہوں۔ بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے کہ جب اس آیت کاپہلا حصہ نازل ہوا کہ مجاہدین اور غیر مجاہدین برابر نہیں تو حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جو نابیناصحابی تھے عرض کرنے لگے کہ’’یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں نابینا ہوں ، جہاد میں کیونکر جاؤں اس پر آیت ’’غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ‘‘ نازل ہوئی یعنی معذوروں کو مُستثنیٰ کر دیا گیا۔(بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب قول اللہ: لا یستوی القاعدون۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۶۳، الحدیث: ۲۸۳۲)
اور بخاری شریف میں ہی حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے ۔ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے (غزوہ تبوک سے واپسی کے وقت ) فرمایا: کچھ لوگ مدینہ میں رہ گئے ہیں ہم کسی گھاٹی یا آبادی میں نہیں چلتے مگر وہ ہمارے ساتھ ہوتے ہیں ، انہیں عذر نے روک لیا ہے۔(بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب من حبسہ العذر عن الغزو، ۲ / ۲۶۵، الحدیث: ۲۸۳۹)
نیت کی عظمت اور جہادکا ثواب:
اس سے معلوم ہوا کہ نیت بہت عظیم عمل ہے کہ حقیقتاً عمل کئے بغیر بھی سچی نیت ہونے کی صورت میں ثواب مل جاتا ہے۔ ہاں یہ ہے جو عذر کی وجہ سے جہاد میں حاضر نہ ہوسکے اگر چہ وہ نیت کا ثواب پائیں گے لیکن جہاد کرنے والوں کو عمل کی فضیلت اس سے زیادہ حاصل ہے۔ راہِ خدا میں جان و مال خرچ کرنے کی کتنی عظیم فضیلت ہے اس کیلئے ذیل کی 4احادیث کو ملاحظہ فرمائیں:
(1)… حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں عرض کی گئی : یارسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،لوگوں میں سے کون سا شخص افضل ہے؟ ارشاد فرمایا ’’جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے مال اور جان کے ساتھ جہاد کرتاہے۔(بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب افضل الناس مؤمن یجاہد بنفسہ۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۴۹، الحدیث: ۲۷۸۶)
(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کی گئی :کیا اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہا دکے برابر بھی کوئی عبادت ہے؟ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تم ا س کی اِستِطاعت نہیں رکھتے۔صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے سوال پھر دھرایا، یا تین بار پوچھا، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہر بار فرمایا کہ تم اس کی طاقت نہیں رکھتے۔ تیسری بار فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والا جہاد سے واپسی تک اس شخص کی طرح ہے جو روزے دار ہو، قیام کرنے والا ہو، اللہ تعالیٰ کی آیتوں پر عمل کرنے والا ہو، روزے اور نماز سے تھکتا یا اُکتاتا نہ ہو ۔(مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الشہادۃ فی سبیل اللہ تعالٰی، ص۱۰۴۴، الحدیث: ۱۱۰(۱۸۷۸))
(3)…حضرت خُریم بن فاتک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں کچھ خرچ کیا اس کے لئے سات سوگناثواب لکھا جاتا ہے۔ (ترمذی، کتاب فضائل الجہاد، باب ما جاء فی فضل النفقۃ فی سبیل اللہ، ۳ / ۲۳۳، الحدیث: ۱۶۳۱)
…(4)حضرت معاذ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بے شک اللہ تعالیٰ کی راہ میں(نکل کر)ذکر کرنے کا ثواب مال خرچ کرنے سے سات لاکھ گُنا زیادہ ہے۔(مسند امام احمد، مسند المکیین، حدیث معاذ بن انس الجہنی رضی اللہ تعالٰی عنہ، ۵ / ۳۱۴، الحدیث: ۱۵۶۴۷)
دَرَجٰتٍ مِّنْهُ وَ مَغْفِرَةً وَّ رَحْمَةًؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(96)
ترجمہ:
اس کی طرف سے بہت سے درجات اور بخشش اور رحمت ( ہے) اوراللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{دَرَجٰتٍ مِّنْهُ: اس کی طرف سے بہت سے درجات۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کا اجر بیان فرمایا کہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت کے بہت سے درجات، ان کے گناہوں کی بخشش اور جنت کی نعمتیں ہے اور اللہ تعالیٰ جہاد کرنے والوں کو بخشنے والا اور ان پر مہربان ہے۔(تفسیر سمرقندی، النساء، تحت الآیۃ: ۹۶، ۱ / ۳۸۰)
جنت میں مجاہدین کے درجات اور مجاہدین کی بخشش:
احادیث میں مجاہدین کے جنتی درجات کے بارے میں تفصیل بیان کی گئی ہے ،چنانچہ اس سے متعلق 3احادیث درج ذیل ہیں :
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کے لئے جنت میں سو درجے مہیا فرمائے، ہر دو درجوں میں اتنا فاصلہ ہو گا جتنا آسمان و زمین کے درمیان ہے۔ (بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب درجات المجاہدین فی سبیل اللہ۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۵۰، الحدیث: ۲۷۹۰)
(2)…حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اے ابو سعید! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، جو شخص اللہ تعالیٰ کے ربّ ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نبی ہونے پر راضی ہو گیا اس کے لئے جنت واجب ہو گئی۔ حضرت ابو سعید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو یہ بات اچھی لگی تو عرض کرنے لگے :یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،اس بات کو دوبارہ ارشاد فرمائیں۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دوبارہ اسی طرح فرمایا، پھر ارشاد فرمایا ’’ایک بات اور بھی ہے جس کی وجہ سے بندے کے سو درجات بلند ہوتے ہیں اور ہر دو درجوں کے درمیان زمین و آسمان جتنا فاصلہ ہے ۔میں نے عرض کی : یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ درجہ کس چیز سے ملتا ہے؟ ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے سے،اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے سے۔(مسلم، کتاب الامارۃ، باب بیان ما اعدّ اللہ تعالٰی للمجاہد فی الجنّۃ من الدرجات، ص۱۰۴۵، الحدیث: ۱۱۶(۱۸۸۴))
)3( …حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا :جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرے اور اس کا گھر سے نکلنا صرف اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے اور اس کے دین کی تصدیق کی خاطر ہو تواللہ تعالیٰ اس کے لئے اس بات کا ضامن ہو جاتا ہے کہ)اگر وہ شہید ہو گیا تو( اس کو جنت میں داخل کرے گا یااجر اور غنیمت کے ساتھ ا س کو ا س کے مَسکَن میں واپس کر دے گا جہاں سے وہ روانہ ہو اتھا۔(مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الجہاد والخروج فی سبیل اللہ، ص۱۰۴۲، الحدیث: ۱۰۴(۱۸۷۶))
دَرَجٰتٍ مِّنْهُ وَ مَغْفِرَةً وَّ رَحْمَةًؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(96)
ترجمہ: اس کی طرف سے بہت سے درجات اور بخشش اور رحمت ( ہے) اوراللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{دَرَجٰتٍ مِّنْهُ: اس کی طرف سے بہت سے درجات۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کا اجر بیان فرمایا کہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت کے بہت سے درجات، ان کے گناہوں کی بخشش اور جنت کی نعمتیں ہے اور اللہ تعالیٰ جہاد کرنے والوں کو بخشنے والا اور ان پر مہربان ہے۔(تفسیر سمرقندی، النساء، تحت الآیۃ: ۹۶، ۱ / ۳۸۰)
جنت میں مجاہدین کے درجات اور مجاہدین کی بخشش:
احادیث میں مجاہدین کے جنتی درجات کے بارے میں تفصیل بیان کی گئی ہے ،چنانچہ اس سے متعلق 3احادیث درج ذیل ہیں :
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کے لئے جنت میں سو درجے مہیا فرمائے، ہر دو درجوں میں اتنا فاصلہ ہو گا جتنا آسمان و زمین کے درمیان ہے۔ (بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب درجات المجاہدین فی سبیل اللہ۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۵۰، الحدیث: ۲۷۹۰)
(2)…حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اے ابو سعید! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، جو شخص اللہ تعالیٰ کے ربّ ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نبی ہونے پر راضی ہو گیا اس کے لئے جنت واجب ہو گئی۔ حضرت ابو سعید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو یہ بات اچھی لگی تو عرض کرنے لگے :یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،اس بات کو دوبارہ ارشاد فرمائیں۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دوبارہ اسی طرح فرمایا، پھر ارشاد فرمایا ’’ایک بات اور بھی ہے جس کی وجہ سے بندے کے سو درجات بلند ہوتے ہیں اور ہر دو درجوں کے درمیان زمین و آسمان جتنا فاصلہ ہے ۔میں نے عرض کی : یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ درجہ کس چیز سے ملتا ہے؟ ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے سے،اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے سے۔(مسلم، کتاب الامارۃ، باب بیان ما اعدّ اللہ تعالٰی للمجاہد فی الجنّۃ من الدرجات، ص۱۰۴۵، الحدیث: ۱۱۶(۱۸۸۴))
)3( …حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا :جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرے اور اس کا گھر سے نکلنا صرف اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے اور اس کے دین کی تصدیق کی خاطر ہو تواللہ تعالیٰ اس کے لئے اس بات کا ضامن ہو جاتا ہے کہ)اگر وہ شہید ہو گیا تو( اس کو جنت میں داخل کرے گا یااجر اور غنیمت کے ساتھ ا س کو ا س کے مَسکَن میں واپس کر دے گا جہاں سے وہ روانہ ہو اتھا۔(مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الجہاد والخروج فی سبیل اللہ، ص۱۰۴۲، الحدیث: ۱۰۴(۱۸۷۶))
اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰٓىٕكَةُ ظَالِمِیْۤ اَنْفُسِهِمْ قَالُوْا فِیْمَ كُنْتُمْؕ-قَالُوْا كُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِؕ-قَالُوْۤا اَلَمْ تَكُنْ اَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوْا فِیْهَاؕ-فَاُولٰٓىٕكَ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُؕ-وَ سَآءَتْ مَصِیْرًا(97)
ترجمہ: بیشک وہ لوگ جن کی جان فرشتے اس حال میں قبض کرتے ہیں کہ وہ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہوتے ہیں ان سے (فرشتے) کہتے ہیں : تم کس حال میں تھے؟ وہ کہتے ہیں کہ ہم زمین میں کمزور تھے ۔ تو فرشتے کہتے ہیں : کیا اللہ کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرجاتے؟ تویہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ کتنی بری لوٹنے کی جگہ ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ظَالِمِیْۤ اَنْفُسِهِمْ: اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے۔} یہ آیت اُن لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے کلمہ اسلام تو زبان سے ادا کیا مگر جس زمانہ میں ہجرت فرض تھی اس وقت ہجرت نہ کی اور جب مشرکین جنگ بدر میں مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے گئے تو یہ لوگ ان کے ساتھ ہوئے اور کفار کے ساتھ ہی مارے بھی گئے۔(بخاری، کتاب التفسیر، باب انّ الذین توفّاہم الملائکۃ۔۔۔ الخ، ۳ / ۲۰۹، الحدیث: ۴۵۹۶، سنن الکبری للبیہقی، کتاب السیر، باب فرض الہجرۃ، ۹ / ۲۲، الحدیث: ۱۷۷۴۹)
اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ بیشک وہ لوگ جن کی روح فرشتے اس حال میں قبض کرتے ہیں کہ وہ فرض ہجرت ترک کر کے اور کافروں کا ساتھ دے کر اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہوتے ہیں ، ان کی موت کے وقت فرشتے انہیں جھڑکتے ہوئے کہتے ہیں : تم اپنے دین کے معاملے میں کس حال میں تھے؟ وہ عذر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم زمین میں کمزور لوگ تھے اور (کافروں کی سرزمین میں رہنے کی وجہ سے) دین کے احکام پر عمل کرنے سے عاجز تھے۔ تو فرشتے ان کا عذر رد کرتے اور انہیں ڈانٹتے ہوئے کہتے ہیں : کیا اللہ تعالیٰ کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم کفر کی سرزمین سے ایسی جگہ ہجرت کر کے چلے جاتے جہاں تم دین کے احکام پر عمل کر سکتے؟ توجن لوگوں کے برے احوال یہاں بیان ہوئے یہ وہ لوگ ہیں جن کا آخرت میں ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ کتنی بری لوٹنے کی جگہ ہے۔(جلالین، النساء، تحت الآیۃ: ۹۷، ص ۸۵، روح البیان، النساء، تحت الآیۃ: ۹۷، ۲ / ۲۶۸-۲۶۹، ملتقطاً)
ہجرت کب واجب ہے:
اس آیت سے ثابت ہوا کہ جو شخص کسی شہر میں اپنے دین پر قائم نہ رہ سکتا ہو اور یہ جانے کہ دوسری جگہ جانے سے اپنے فرائض دینی ادا کرسکے گا اس پر ہجرت واجب ہوجاتی ہے۔ اس حکم کو سامنے رکھ کر کافروں کے درمیان رہنے والے بہت سے مسلمانوں کو غور کرنے کی حاجت ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ توفیق عطا فرمائے۔ حدیث میں ہے جو شخص اپنے دین کی حفاظت کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوا اگرچہ ایک بالشت ہی کیوں نہ ہو اس کے لیے جنت واجب ہوئی اور اس کو حضرت ابراہیم اور محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رَفاقت مُیَسَّر ہوگی۔ (تفسیر سمرقندی، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۵۶، ۲ / ۵۴۲)
ہجرت کی اقسام اور ان کے احکام:
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ہجرت کی اقسام بیان فرمائی ہیں ان میں سے ایک قسم کہ دارُالاسلام سے ہجرت ہو، اس بارے میں فرماتے ہیں :
رہا دارُالاسلام ،اس سے ہجرتِ عامہ حرام ہے کہ اس میں مساجد کی ویرانی وبے حرمتی، قبورِ مسلمین کی بربادی، عورتوں بچوں اور ضعیفوں کی تباہی ہوگی اور ہجرتِ خاصہ میں تین صورتیں ہیں ،
(1)… اگر کوئی شخص کسی خاص وجہ سے کسی خاص مقام میں اپنے دینی فرائض بجانہ لاسکے اور دوسری جگہ انہیں بجا لانا ممکن ہوتو اگر یہ خاص اسی مکان میں ہے تو اس پر فرض ہے کہ یہ مکان چھوڑ کر دوسرے مکان میں چلاجائے، اور اگر اس محلہ میں معذور ہوتو دوسرے محلہ میں چلا جائے اور اس شہر میں مجبور ہوتو دوسرے شہر میں چلا جائے۔
(2)… یہاں اپنے مذہبی فرائض بجالانے سے عاجز نہیں اور اس کے ضعیف ماں یا باپ یا بیوی یا بچے جن کا نفقہ اس پر فرض ہے وہ نہ جاسکیں گے یا نہ جائیں گے اور اس کے چلے جانے سے وہ بے وسیلہ رہ جائیں گے تو اس کو دارُالاسلام سے ہجرت کرنا حرام ہے، حدیث میں ہے:کسی آدمی کے گنہگار ہونے کیلئے اتنا کافی ہے کہ وہ اسے ضائع کردے جس کا نفقہ اس کے ذمے تھا۔
یا وہ عالم جس سے بڑھ کر اس شہر میں عالم نہ ہو اسے بھی وہاں سے ہجرت کرنا حرام ہے۔
(3)… نہ فرائض سے عاجز ہے نہ اس کی یہاں حاجت ہے، اسے اختیار ہے کہ یہاں رہے یا چلا جائے ، جو اس کی مصلحت سے ہو وہ کر سکتا ہے ، یہ تفصیل دارُالاسلام میں ہے۔(فتاوی رضویہ، ۱۴ / ۱۳۱- ۱۳۲، ملخصاً)
اِلَّا الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآءِ وَ الْوِلْدَانِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ حِیْلَةً وَّ لَا یَهْتَدُوْنَ سَبِیْلًا(98)فَاُولٰٓىٕكَ عَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّعْفُوَ عَنْهُمْؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَفُوًّا غَفُوْرًا(99)
ترجمہ: مگر وہ مجبور مرد اور عورتیں اور بچے جو نہ تو کوئی تدبیر کرنے کی طاقت رکھتے ہوں اور نہ راستہ جانتے ہوں ۔ توعنقریب اللہ ان لوگوں سے درگزر فرمائے گا اور اللہ معاف فرمانے والا، بخشنے والا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اِلَّا الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآءِ وَ الْوِلْدَانِ:مگر وہ مجبور مرد اور عورتیں اور بچے۔}اس آیت اور ا س کےبعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ مجبور مرد اور عورتیں اور بچے جو نہ ہجرت کرنے کی طاقت رکھتے ہوں ، نہ ان کے پاس اخراجات ہوں اور نہ ہی وہ ہجرت گاہ کا راستہ جانتے ہوں تو ایسے عاجز اور مجبور لوگ ہجرت نہ کرنے پر قابلِ گرفت نہیں ، عنقریب اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے درگزر فرمائے گا اور اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ معاف فرمانے والا، بخشنے والا ہے۔ (جلالین، النساء، تحت الآیۃ: ۹۸، ص ۸۵، روح البیان، النساء، تحت الآیۃ: ۹۷، ۲ / ۲۶۹، ملتقطاً)
وَ مَنْ یُّهَاجِرْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ یَجِدْ فِی الْاَرْضِ مُرٰغَمًا كَثِیْرًا وَّسَعَةًؕ-وَ مَنْ یَّخْرُ جْ مِنْۢ بَیْتِهٖ مُهَاجِرًا اِلَى اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ثُمَّ یُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَ قَعَ اَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(100)
ترجمہ: اور جو اللہ کی راہ میں ہجرت کرے تو وہ زمین میں بہت جگہ اور گنجائش پائے گا اور جو اپنے گھر سے اللہ و رسول کی طرف ہجرت کرتے ہوئے نکلا پھر اسے موت نے آلیا تو اس کا ثواب اللہ کے ذمہ پر ہوگیا اور اللہ بخشنے والا، مہربان ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَنْ یُّهَاجِرْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ: اور جو اللہ کی راہ میں ہجرت کرے۔} شانِ نزول : اس سے پہلی آیت جب نازل ہوئی تو حضرت جُنْدَع بن ضَمرہ اَللّیْثِیْ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اِسے سنا، یہ بہت بوڑھے شخص تھے ،کہنے لگے کہ میں مُستَثنیٰ لوگوں میں تو ہوں نہیں کیونکہ میرے پاس اتنا مال ہے کہ جس سے میں مدینہ طیبہ ہجرت کرکے پہنچ سکتا ہوں۔ خدا کی قسم ، اب میں مکہ مکرمہ میں ایک رات نہ ٹھہروں گا، مجھے لے چلو چنانچہ ان کو چار پائی پر لے کرچلے لیکن مکہ مکرمہ کے بالکل قریب ہی مقامِ تَنعیم میں آکر ان کا انتقال ہوگیا۔ آخری وقت انہوں نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا اور کہا، یارب! عَزَّوَجَلَّ، یہ تیرا ہے اور یہ تیرے رسول کاہے ،میں اُس چیز پر بیعت کرتا ہوں جس پر تیرے رسول نے بیعت لی ۔ سُبْحَانَ اللہ، یہ خبر پا کر صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے فرمایا، کاش وہ مدینہ پہنچتے توان کا اجر کتنا بڑا ہوتا اور مشرک ہنسنے لگے اور کہنے لگے کہ جس مطلب کے لئے نکلے تھے وہ نہ ملا۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی ۔ (بغوی، النساء، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۱ / ۳۷۵)
اور ان کی عظمت و شان کو بہترین انداز میں بیان فرمایا کہ جو راہِ خدا میں ہجرت کرے پھر اسے منزل تک پہنچنے سے پہلے موت آجائے تو اس کا اجر اللہ کریم کے وعدے اور اس کے فضل و کرم سے اس کے ذمۂ کرم پر ہے ، یوں نہیں کہ اس پر بطورِ معاوضہ واجب ہے کیونکہ اس طور پر کوئی چیزاللہ عَزَّوَجَلَّ پر واجب نہیں۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی شان اس سے بلند ہے۔
نیکی کا ارادہ کر کے نیکی کرنے سے عاجز ہوجانے والا اس نیکی کا ثواب پائے گا:
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو کوئی نیکی کا ارادہ کرے اور اس کو پورا کرنے سے عاجز ہوجائے وہ اس نیکی کا ثواب پائے گا۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس شخص نے نیکی کا ارادہ کیا اور نیکی نہیں کی تو ا س کی ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے اور جس نے نیکی کا ارادہ کیا اور نیکی کر لی تو اس کے لئے دس سے لے کر سات سو گنا تک نیکیا ں لکھ دی جاتی ہیں اور جس نے گناہ کا ارادہ کیا اور اس پر عمل نہیں کیا تو اس کا گناہ نہیں لکھا جاتا اور اگر وہ گناہ کر لے تو ایک گناہ لکھ دیاجاتا ہے۔(مسلم، کتاب الایمان، باب اذا ہمّ العبد بحسنۃ کتبت۔۔۔ الخ، ص۷۹، الحدیث: ۲۰۶(۱۳۰))
کن کاموں کے لئے وطن چھوڑنا ہجر ت میں داخل ہے:
صدرُالاَفاضل مولانا نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے فرمان کا خلاصہ ہے کہ طلب ِ ِعلم، جہاد، حج و زیارت ِ مدینہ، نیکی کے کام، زہد و قناعت اور رزقِ حلال کی طلب کے لیے ترک ِوطن کرنا خدا اور رسول کی طرف ہجرت ہے، اس راہ میں مرجانے والا اجر پائے گا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے مروی ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جسے علم حاصل کرتے ہوئے موت آ گئی وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کے اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے درمیان صرف درجۂ نبوَّت کا فرق ہو گا۔(معجم الاوسط، باب الیاء، من اسمہ یعقوب، ۶ / ۴۷۵، الحدیث: ۹۴۵۴)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جو حج کے لئے نکلا اور مر گیا، قیامت تک اس کے لئے حج کرنے والے کاثواب لکھا جائے گا اور جو عمرہ کے لئے نکلا اور مر گیا، اس کے لئے قیامت تک عمرہ کرنے والے کا ثواب لکھا جائے گا۔ (مسند ابو یعلی، مسند ابی ہریرۃ، ۵ / ۴۴۱، الحدیث: ۶۳۲۷)
وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ ﳓ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَكُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْاؕ-اِنَّ الْكٰفِرِیْنَ كَانُوْا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِیْنًا(101)
ترجمہ:
اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تم پر گناہ نہیں کہ بعض نمازیں قصر سے پڑھو اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں ایذا دیں گے بیشک کفار تمہارے کھلے دشمن ہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ:اور جب تم زمین میں سفر کرو ۔} اس آیت میں نماز کو قَصر کرنے کا مسئلہ بیان کیا گیاہے یعنی سفر کی حالت میں ظہر ، عصر اور عشاء میں چار فرضوں کی بجائے دو پڑھیں گے۔
نمازِ قصر کے بارے میں 4مسائل:
یہاں آیت کی مناسبت سے نما زِ قصر سے متعلق 4شرعی مسائل ملاحظہ ہوں
(1)…اس سے یہ مسئلہ معلوم ہوتا ہے کہ سفر میں چار رکعت والی نماز کو پورا پڑھنا جائز نہیں ہے۔
(2)… کافروں کا خوف قصر کے لیے شرط نہیں ، چنانچہ حضرت یعلیٰ بن امیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت عمر رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے کہا کہ ہم تو امن میں ہیں ( پھر ہم کیوں قصر کرتے ہیں ؟ ) آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا، اس کا مجھے بھی تعجب ہوا تھا تو میں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دریافت کیا ۔ اس پر حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے لئے یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے صدقہ ہے تم اس کا صدقہ قبول کرو۔ (مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب صلاۃ المسافرین وقصرہا، ص۳۴۷، الحدیث: ۴(۶۸۶))
آیت کے نازل ہونے کے وقت چونکہ سفر اندیشہ سے خالی نہ ہوتے تھے اس لیے آیت میں اس کا ذکر ہوا ہے ورنہ خوف اور اندیشہ کا ہونا کوئی شرط نہیں ہے، نیز صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا بھی یہی عمل تھا کہ امن کے سفروں میں بھی قصر فرماتے جیسا کہ اوپر کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے اور اس کے علاوہ اور احادیث سے بھی یہ ثابت ہے ۔
(3)…جس سفر میں قصر کیا جاتا ہے اس کی کم سے کم مدت تین رات دن کی مسافت ہے جو اونٹ یا پیدل کی متوسط رفتار سے طے کی جاتی ہو اور اس کی مقداریں خشکی اور دریا اور پہاڑوں میں مختلف ہوجاتی ہیں۔ ہمارے زمینی، میدانی سفر کے اعتبار سے فی زمانہ اس کی مسافت بانوے کلومیٹر بنتی ہے ۔
(4)… قصر صرف فرضوں میں ہے، سنتوں میں نہیں اور سفر میں سنتیں پڑھنی چاہئیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضر کی نماز اور سفر کی نماز کو فرض فرمایا تو ہم حضر میں فرض نماز سے پہلے بھی نماز پڑھا کرتے تھے اور بعد میں بھی اور سفر میں فرض نماز سے پہلے بھی نماز پڑھا کرتے تھے اور بعد میں بھی۔ (ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب التطوع فی السفر، ۱ / ۵۶۱، الحدیث: ۱۰۷۲)
وَ اِذَا كُنْتَ فِیْهِمْ فَاَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلٰوةَ فَلْتَقُمْ طَآىٕفَةٌ مِّنْهُمْ مَّعَكَ وَ لْیَاْخُذُوْۤا اَسْلِحَتَهُمْ- فَاِذَا سَجَدُوْا فَلْیَكُوْنُوْا مِنْ وَّرَآىٕكُمْ ۪- وَ لْتَاْتِ طَآىٕفَةٌ اُخْرٰى لَمْ یُصَلُّوْا فَلْیُصَلُّوْا مَعَكَ وَ لْیَاْخُذُوْا حِذْرَهُمْ وَ اَسْلِحَتَهُمْۚ-وَدَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ تَغْفُلُوْنَ عَنْ اَسْلِحَتِكُمْ وَ اَمْتِعَتِكُمْ فَیَمِیْلُوْنَ عَلَیْكُمْ مَّیْلَةً وَّاحِدَةًؕ-وَ لَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ اِنْ كَانَ بِكُمْ اَذًى مِّنْ مَّطَرٍ اَوْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَنْ تَضَعُوْۤا اَسْلِحَتَكُمْۚ-وَ خُذُوْا حِذْرَكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ اَعَدَّ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّهِیْنًا(102)
ترجمہ: اور اے حبیب! جب تم ان میں تشریف فرما ہو پھر نماز میں ان کی امامت کرو تو چاہئے کہ ان میں ایک جماعت تمہارے ساتھ ہو اور وہ اپنے ہتھیار لیے رہیں پھر جب وہ سجدہ کرلیں تو ہٹ کر تم سے پیچھے ہوجائیں اور اب دوسری جماعت آئے جو اس وقت تک نماز میں شریک نہ تھی اب وہ تمہارے ساتھ نماز پڑھیں اور (انہیں بھی) چاہئے کہ اپنی حفاظت کا سامان اور اپنے ہتھیار لیے رہیں ۔ کافر چاہتے ہیں کہ اگرتم اپنے ہتھیاروں اور اپنے سامان سے غافل ہو جاؤ تو ایک ہی دفعہ تم پرحملہ کردیں اور اگر تمہیں بارش کے سبب تکلیف ہو یا بیمار ہو توتم پرکوئی مضائقہ نہیں کہ اپنے ہتھیار کھول رکھو اور اپنی حفاظت کا سامان لئے رہو۔ بیشک اللہ نے کافروں کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذَا كُنْتَ فِیْهِمْ: اور جب تم ان میں ہو۔} اس آیت میں نمازِ خوف کی جماعت کا طریقہ بیان کیا گیا ہے ۔ اس کا شانِ نزول یہ ہے کہ غزوۂ ذاتُ الرِّقاع میں جب رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مشرکین نے دیکھا کہ آپ نے تمام صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے ساتھ نمازِ ظہر باجماعت ادا فرمائی تو انہیں افسوس ہوا کہ انہوں نے اس وقت میں کیوں نہ حملہ کیا اور آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ کیا ہی اچھا موقع تھا۔ ان میں بعضوں نے کہا کہ اس کے بعد ایک اور نماز ہے جو مسلمانوں کو اپنے ماں باپ سے زیادہ پیاری ہے یعنی نمازِ عصر، لہٰذا جب مسلمان اس نماز کے لیے کھڑے ہوں تو پوری قوت سے حملہ کرکے انہیں قتل کردو۔ اس وقت حضرت جبریلِ امین عَلَیْہِ السَّلَام نازل ہوئے اور انہوں نے حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کیا :یا رسولَ اللہ ! یہ نماز ِخوف ہے یعنی اب یوں نماز پڑھیں۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۱ / ۴۲۳)
آیت میں بیان کیا گیانماز ِ خوف کا طریقہ:
اس آیت میں نمازِ خوف کا طریقہ یہ بیان کیا گیا کہ حاضرین کو دو جماعتوں میں تقسیم کردیا جائے ،ان میں سے ایک آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ رہے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ انہیں نماز پڑھائیں اور ایک جماعت دشمن کے مقابلہ میں کھڑی رہے۔ پہلی جماعت ایک رکعت پڑھ کر اور مغرب میں دو رکعتیں پڑھ کر دشمن کے مقابل چلی جائے اور دوسری جماعت آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پیچھے آجائے پھر بعد میں وہ اپنی ایک ایک بقیہ رکعت پڑھ لیں اور جن کی دو باقی ہیں وہ دو پڑھ لیں اور دونوں جماعتیں ہروقت اسلحہ ساتھ رکھیں یعنی نماز میں بھی مُسلّح رہیں۔ معلوم ہوا کہ نماز کی جماعت ایسی اَہم ہے کہ ایسی سخت جنگ کی حالت میں بھی جماعت کا طریقہ سکھایا گیا ۔افسوس ان پر جو بلاوجہ جماعت چھوڑ دیتے ہیں حالانکہ اس میں ستائیس گنا زیادہ ثواب ہے۔
{وَدَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا: اور کافرچاہتے ہیں۔} ارشاد فرمایا کہ تمہیں حفاظت کا سامان اور ہتھیار ساتھ رکھنے کا حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ کافریہ چاہتے ہیں کہ اگرتم اپنے ہتھیاروں اور اپنے سامان سے غافل ہو جاؤ تو وہ ایک ہی دفعہ تم پرحملہ کردیں اوراگر ہتھیار تمہارے پاس ہوں گے تو دشمن تم پر اچانک حملہ کرنے کی جرأت نہ کرے گا۔ آیت کے اس حصے کے بارے میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غزوۂ ذاتُ الرّقاع سے جب فارغ ہوئے اور دشمن کے بہت آدمیوں کو گرفتار کیا اور اموالِ غنیمت ہاتھ آئے اور کوئی دشمن مقابلے میں باقی نہ رہا تو حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ قضائے حاجت کے لیے جنگل میں تنہا تشریف لے گئے ، دشمن کی جماعت میں سے غورث بن حارث یہ خبر پا کر تلوار لیے ہوئے چھپ چھپ کرپہاڑ سے اترا اور اچانک تاجدارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس پہنچا اور تلوار کھینچ کر کہنے لگا یامحمد! (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) اب تمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟ پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ ۔اور ساتھ ہی حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دعا فرمائی۔ جب اُس نے سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر تلوار چلانے کا ارادہ کیا تواوندھے منہ گر پڑا اور تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وہ تلوار لے کر فرمایا کہ تجھے مجھ سے کوئی بچائے گا؟ کہنے لگا، میرا بچانے والا کوئی نہیں ہے۔ رحمت ِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ اَشْھَدُاَنْ لَّآاِلٰـہَ اِلَّااللہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ‘‘ پڑھ تو تیری تلوار تجھے دے دوں گا، اس نے اس سے انکار کیا اور کہا کہ میں اس کی شہادت دیتا ہوں کہ میں کبھی آپ سے نہ لڑوں گا اور زندگی بھر آپ کے کسی دشمن کی مدد نہ کروں گا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس کی تلوار اس کو دے دی کہنے لگا، یا محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) آپ مجھ سے بہت بہتر ہیں ؟نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا، ہاں !ہمارے لائق یہی ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ہتھیار اور بچاؤ کا سامان ساتھ رکھنے کا حکم دیا گیا۔ (ابو سعود، النساء، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۱ / ۵۷۹)
{اِنْ كَانَ بِكُمْ اَذًى: اگر تمہیں کوئی تکلیف ہو۔} حکم تھا کہ اپنی حفاظت کا سامان ہر وقت ساتھ رکھولیکن حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ زخمی تھے اور اس وقت ہتھیار رکھنا ان کے لیے بہت تکلیف دہ تھا، ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی اور حالتِ عذر میں ہتھیار کھول رکھنے کی اجازت دی گئی۔ (قرطبی، النساء، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۳ / ۲۵۶، الجزء الخامس)
فَاِذَا قَضَیْتُمُ الصَّلٰوةَ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِكُمْۚ-فَاِذَا اطْمَاْنَنْتُمْ فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَۚ-اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا(103)
ترجمہ: پھر جب تم نماز پڑھ لوتو کھڑے اور بیٹھے اور کروٹوں پر لیٹے اللہ کو یاد کرو پھر جب تم مطمئن ہو جاؤ توحسب ِ معمول نماز قائم کرو بیشک نماز مسلمانوں پر مقررہ وقت میں فرض ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{فَاذْكُرُوا اللّٰهَ: تو اللہ کو یاد کرو۔} یعنی ذکرِ الٰہی کی ہر حال میں ہمیشگی کرو اور کسی حال میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ذکر سے غافل نہ رہو۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما نے فرمایا:اللہ تعالیٰ نے ہر فرض کی ایک حد معیَّن فرمائی سوائے ذکر کے کہ اس کی کوئی حد نہ رکھی بلکہ فرمایا کہ ذکر کرو کھڑے بیٹھے کروٹوں پر لیٹے، رات میں ہو یا دن میں ،خشکی میں ہو یا تری میں ،سفر میں اور حضر میں ، غناء میں اور فقر میں ، تندرستی اور بیماری میں پوشیدہ اور ظاہر۔ (تفسیر طبری، النساء، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ۴ / ۲۶۰)
اللہ تعالیٰ کے ذکر سے متعلق2شرعی مسائل:
یہاں آیت کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کے ذکر سے متعلق 2 شرعی مسائل ملاحظہ ہوں:
(1)…اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نمازوں کے بعد جو کلمہ توحیدکا ذکر کیا جاتا ہے وہ جائز ہے جیسا کہ مشائخ کی عادت ہے اور بخاری و مسلم کی احادیثِ صحیحہ سے بھی یہ ذکرثابت ہے ۔ چنانچہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :حضورِا قدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہر فرض نماز کے بعد یوں کہا کرتے تھے ’’لَا اِلٰـہَ اِلاَّ اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ، لَہُ الْمُلْکُ، وَلَہُ الْحَمْدُ، وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ، اَللّٰہُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا اَعْطَیْتَ، وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ‘‘ یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ، اسی کی بادشاہی ہے اور اسی کے لئے سب تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے، اے اللہ ! جو تو دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو تو روکے اسے کوئی دینے والا نہیں اور کسی دولت مند کو تیرے مقابلے پر دولت نفع نہیں دے گی۔(بخاری، کتاب الاذان، باب الذکر بعد الصلاۃ، ۱ / ۲۹۴، الحدیث: ۸۴۴)
صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن زبیررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ہر نماز میں سلام پھیرنے کے بعد یہ فرماتے تھے :لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللہِ لَا اِلٰـہَ اِلاَّ اللہُ وَلَا نَعْبُدُ اِلاَّ اِیَّاہُ لَہُ النِّعْمَۃُ وَلَہُ الْفَضْلُ وَلَہُ الثَّنَائُ الْحَسَنُ لَا اِلٰـہَ اِلاَّ اللہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُوْنَ ‘‘ اور حضرت عبد اللہ بن زبیررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے کہاکہ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہر نماز کے بعد یہ کلمات بلند آوازسے فرماتے تھے ۔ (مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ وبیان صفتہ، ص۲۹۹، الحدیث: ۱۳۹(۵۹۴))
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں :بلند آواز سے ذکر کرنا جبکہ لوگ فرض نماز سے فارغ ہو جاتے یہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے عہد مبارک میں رائج تھا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :جب میں اس (بلند آواز سے ذکر کرنے) کو سنتا تو اسی سے لوگوں کے (نماز سے) فارغ ہونے کو جان لیتا تھا۔(بخاری، کتاب الاذان، باب الذکر بعد الصلاۃ، ۱ / ۲۹۳، الحدیث: ۸۴۱، مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب الذکر بعد الصلاۃ، ص۲۹۹، الحدیث: ۱۲۲(۵۸۳))
البتہ یہ یاد رہے کہ ذکر کرتے وقت اتنی آواز سے ذکر کیا جائے کہ کسی نمازی یا سونے والے کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے۔
(2)…ذکر میں تسبیح، تحمید، تہلیل ،تکبیر، ثناء، دعا سب داخل ہیں۔
{ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا: مقررہ وقت پر فرض ہے۔}نماز کے اوقات مقرر ہیں لہٰذا لازم ہے کہ ان اوقات کی رعایت کی جائے۔
سفر میں دو نمازوں کو جمع کرنے کا شرعی حکم:
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سفر میں دو نمازیں جمع نہیں ہو سکتیں۔ احادیث میں بھی سفر کے دوران دو نمازوں کو جمع کرنے کی نفی کی گئی ہے ،چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کبھی کوئی نماز ا س کے غیر وقت میں پڑھی ہو مگر دو نمازیں کہ ایک ان میں سے نمازِمغرب ہے جسے مُزدلفہ میں عشاء کے وقت پڑھا تھا اور وہاں فجر بھی روز کے معمولی وقت سے پہلے تاریکی میں پڑھی تھی۔ (مسلم، کتاب الحج، باب استحباب زیادۃ التغلیس بصلاۃ الصبح۔۔۔ الخ، ص۶۷۱، الحدیث: ۲۹۲(۱۲۸۹))
حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک بار کے سوا کبھی کسی سفر میں مغرب و عشاء ملاکر نہ پڑھی ۔ (ابو داؤد، کتاب صلاۃ المسافر، باب الجمع بین الصلاتین، ۲ / ۹، الحدیث: ۱۲۰۹)
یاد رہے کہ جس سفر میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مغرب اور عشاء کو ملا کر پڑھا وہ حجۃ الوداع کا سفر تھا اور نویں ذی ا لحجہ کو مزدلفہ میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان دونوں نمازوں کو ملا کر پڑھا تھا اوردیگر جن احادیث میں دو نمازیں جمع کرنے کا ذکر ہے وہاں جمع صوری مراد ہے یعنی پہلی نماز آخر ی وقت میں اور دوسری نماز اول وقت میں ادا کی گئی جیساکہ درج ذیل دو روایات سے واضح ہے، چنانچہ
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’میں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دیکھا کہ جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو پہنچنے کی جلدی ہوتی تو (آخری وقت سے کچھ دیر پہلے) مغرب کی اقامت کہہ کر نماز پڑھ لیتے ،سلام پھیر کر کچھ دیر ٹھہرتے پھر عشاء کی اقامت ہوتی اور نماز عشاء کی دو رکعتیں پڑھتے۔(بخاری، کتاب تقصیر الصلاۃ، باب یصلی المغرب ثلاثاً فی السفر، ۱ / ۳۷۴، الحدیث: ۱۰۹۲ )
حضرت نافع اور حضرت عبداللہ بن واقد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے مؤذن نے نماز کے لئے کہا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:چلتے رہو، یہاں تک کہ جب شَفَق ڈوبنے کے قریب ہوئی تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اتر کر نمازِ مغرب پڑھی، پھر انتظار فرمایا یہاں تک کہ شفق ڈوب گئی ، اس وقت آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے نمازِ عشاء پڑھی ،پھر فرمایا ’’حضور سیّدعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جب (کسی کام کی وجہ سے) جلدی ہوتی تو ایسا ہی کرتے جیسامیں نے کیا۔ (ابو داؤد، کتاب صلاۃ المسافر، باب الجمع بین الصلاتین، ۲ / ۱۰، الحدیث: ۱۲۱۲)
نوٹ:اس مسئلے سے متعلق تفصیلی اور تحقیقی معلومات حاصل کرنے لئے فتاوی رضویہ کی پانچویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت امام حمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی کتاب ’’حَاجِزُ الْبَحْرَیْنْ اَلْوَاقِیْ عَنْ جَمْعِ الصَّلَاتَینْ‘‘ (دو نمازیں ایک وقت میں پڑھنے کی ممانعت پر رسالہ)کا مطالعہ فرمائیں۔
وَ لَا تَهِنُوْا فِی ابْتِغَآءِ الْقَوْمِؕ-اِنْ تَكُوْنُوْا تَاْلَمُوْنَ فَاِنَّهُمْ یَاْلَمُوْنَ كَمَا تَاْلَمُوْنَۚ-وَ تَرْجُوْنَ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا یَرْجُوْنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًا(104)
ترجمہ: اور کافروں کی تلاش میں سستی نہ کرو ۔اگر تمہیں دکھ پہنچتا ہے توجیسے تمہیں دکھ پہنچتا ہے ویسے ہی انہیں بھی دکھ پہنچتا ہے حالانکہ تم اللہ سے وہ امید رکھتے ہو جو وہ نہیں رکھتے۔ اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَا تَهِنُوْا فِی ابْتِغَآءِ الْقَوْمِ: اور کافروں کی تلاش میں سستی نہ کرو ۔} اس آیت کاشانِ نزول یہ ہے کہ احدکی جنگ سے جب ابو سفیان اور ان کے ساتھی واپس ہوئے توسرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے جو صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اُحد میں حاضر ہوئے تھے انہیں مشرکین کے تَعاقُب میں جانے کا حکم دیا، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم زخمی تھے، انہوں نے اپنے زخموں کی شکایت کی اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۱ / ۴۲۶)
اور فرمایا گیا کہ اگر تمہیں تکلیف پہنچی ہے تو انہیں بھی پہنچی ہے نیز تمہیں تو تکلیفیں اٹھانے پراللہ عَزَّوَجَلَّ سے ثواب کی امید ہے جبکہ کافروں کو ایسی کوئی امید نہیں تو تم پیچھا کرنے میں سستی نہ کرو۔
اِنَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَاۤ اَرٰىكَ اللّٰهُؕ-وَ لَا تَكُنْ لِّلْخَآىٕنِیْنَ خَصِیْمًا(105)وَّ اسْتَغْفِرِ اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(106)
ترجمہ: اے حبیب! بیشک ہم نے تمہاری طرف سچی کتاب اتاری تاکہ تم لوگوں میں اس (حق) کے ساتھ فیصلہ کرو جواللہ نے تمہیں دکھایا ہے اورتم خیانت کرنے والوں کی طرف سے جھگڑا نہ کرنا۔اور اللہ کی بارگاہ میں استغفار کریں ۔ بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ:اے حبیب!بیشک ہم نے تمہاری طرف سچی کتاب اتاری۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ انصار کے قبیلہ بنی ظفر کے ایک شخص طُعْمَہ بن اُبیر ِق نے اپنے ہمسایہ قتادہ بن نعمان کی زرہ چرا کر آٹے کی بوری میں ایک یہودی کے ہاں چھپادی جب زرہ کی تلاش ہوئی اور طعمہ پر شُبہ کیا گیا تو وہ انکار کرگیا اور قسم کھا گیا۔ بوری پھٹی ہوئی تھی اور آٹا اس میں سے گرتا جاتا تھا، اس کے نشان سے لوگ یہودی کے مکان تک پہنچے اور بوری وہاں پائی گئی، یہودی نے کہا کہ طعمہ اس کے پاس رکھ گیا ہے اور یہودیوں کی ایک جماعت نے اس کی گواہی دی اور طعمہ کی قوم بنی ظفر نے یہ عَزم کرلیا کہ یہودی کو چور قرار دیں گے اور اس پر قسم کھالیں گے تاکہ ہماری قوم رسوا نہ ہو اور ان کی خواہش تھی کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ طعمہ کو بری کردیں اور یہودی کو سزا دیں۔ اسی لیے انہوں نے سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے طعمہ کے حق میں اور یہودی کے خلاف جھوٹی گواہی دی۔ تب یہ آیتِ کریمہ اتری۔(بیضاوی، النساء، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ۲ / ۲۴۸)
حکام فیصلہ کرنے میں کوتاہی نہ کریں :
اس آیت میں بظاہر خطاب حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہے لیکن در حقیقت قیامت تک کے حکام کو سنانا مقصود ہے کہ فیصلہ کرنے میں کوتاہی نہ کیا کریں اور صحیح ملزم کو بغیر رُو رعایت سزا پوری دیا کریں۔ طعمہ بظاہر مومن تھا اور یہودی کافر تھا مگر فیصلہ اس موقعہ پر یہودی کے حق میں ہوا۔
تَعَصُّب کا رد:
اسی آیت سے تعصب کا رد بھی ہوتا ہے کہ اسلام میں اس بات کی کوئی گنجائش نہیں کہ آدمی اپنی قوم یا خاندان کی ہر معاملے میں تائید کرے اگرچہ وہ باطل پر ہوں بلکہ حق کی اِتّباع کرنا ضروری ہے۔ اس میں رنگ و نسل، قوم وعلاقہ، ملک و صوبہ، زبان و ثقافت کے ہر قسم کے تعصب کا رد ہے۔ کثیر احادیث میں بھی تعصب کا شدید رد کیا گیا ہے ، چنانچہ ان میں سے 3احادیث درج ذیل ہیں :
(1)…حضرت فُسِیلہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں : میرے والد نے حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں عرض کی :یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کیا اپنی قوم سے محبت رکھنا بھی تعصب ہے؟ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، نے ارشاد فرمایا ’’نہیں ، بلکہ اپنی قوم کی ظلم میں مدد کرنا تعصب ہے۔(ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب العصبیۃ، ۴ / ۳۲۷، الحدیث: ۳۹۴۹)
(2)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو بلا وجہ جنگ کرے یا تعصب کی جانب بلائے یا تعصب کی وجہ سے غصہ کرے تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔(ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب العصبیۃ، ۴ / ۳۲۶، الحدیث: ۳۹۴۸)
(3)…حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک بد ترین شخص وہ ہو گا جس نے کسی کی دنیا کی خاطر اپنی آخرت برباد کر لی۔ (ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب اذا التقی المسلمان بسیفہما، ۴ / ۳۳۹، الحدیث: ۳۹۶۶)
وَ لَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِیْنَ یَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا اَثِیْمًا(107)
ترجمہ: اور ان لوگوں کی طرف سے نہ جھگڑنا جو اپنی جانوں کو خیانت میں ڈالتے ہیں ۔ بیشک اللہ پسند نہیں کرتا اُسے جو بہت خیانت کرنے والا، بڑا گناہگار ہو۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِیْنَ یَخْتَانُوْنَ: اور خیانت کرنے والوں کی طرف سے نہ جھگڑنا} گزشتہ آیت میں اور اِس آیت میں فرمایا کہ خیانت کرنے والوں کی طرف سے نہ جھگڑو۔
خیانت کرنے والوں کا ساتھ دینے کی مذمت:
اس سے وکالت کا پیشہ کرنے والوں کوغور کرنا چاہیے کہ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ وکیل کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا موکل مجرم و خائن ہے لیکن وہ مال بٹورنے کے چکر میں مظلوم کو ظالم اور ظالم کو مظلوم بنا دیتا ہے اور ظالم کی طرف داری کرتا ہے، اس کی طرف سے دلائل پیش کرتا ہے، جھوٹ بولتا ہے، دوسرے فریق کا حق مارتا ہے اور نہ جانے کن کن حرام کاموں کا مُرْتَکِب ہوتا ہے۔ کورٹ کچہری سے تعلق رکھنے والے حضرات ان باتوں کو بخوبی جانتے ہیں۔ ان حضرات کی خدمت میں گزارش ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے اس فرمان کو بغور پڑھیں ، نیز اللہ تعالیٰ کے ان فرامین پر غور کریں ،چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَ لَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَكْتُمُوا الْحَقَّ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۴۲)(بقرہ:۴۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور حق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤ اور جان بوجھ کر حق نہ چھپاؤ۔
اور ارشاد فرمایا:
وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِهَاۤ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(بقرہ:۱۸۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ حاکموں کے پاس ان کا مقدمہ اس لئے پہنچاؤ کہ لوگوں کا کچھ مال ناجائز طور پرجان بوجھ کر کھالو۔
اور ارشاد فرمایا:
وَ مَنْ یَّغْلُلْ یَاْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِۚ-ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ(ال عمران:۱۶۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو خیانت کرے تووہ قیامت کے دن اس چیزکو لے کرآئے گاجس میں اس نے خیانت کی ہوگی پھر ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔
اور حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ان ارشادات پر غور کریں اور اپنے برے افعال سے توبہ کریں ، چنانچہ حضرت سمرہ بن جندب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو خیانت کرنے والے کی پردہ پوشی کرے تو وہ بھی اس ہی کی طرح ہے۔ (ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب النہی عن الستر علی من غلّ، ۳ / ۹۳، الحدیث: ۲۷۱۶)
حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’وہ شخص ملعون ہے جو اپنے مسلمان بھائی کو نقصان پہنچائے یا اس کے ساتھ دھوکہ کرے ۔ (تاریخ بغداد، ۲۶۲-محمد بن احمد بن محمد بن جابر۔۔۔ الخ، ۱ / ۳۶۰)
یَّسْتَخْفُوْنَ مِنَ النَّاسِ وَ لَا یَسْتَخْفُوْنَ مِنَ اللّٰهِ وَ هُوَ مَعَهُمْ اِذْ یُبَیِّتُوْنَ مَا لَا یَرْضٰى مِنَ الْقَوْلِؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطًا(108)
ترجمہ: وہ لوگوں سے شرماتے ہیں اور اللہ سے نہیں شرماتے حالانکہ اللہ اُس وقت بھی ان کے ساتھ ہوتا ہے جب وہ رات کو ایسی بات کا مشورہ کرتے ہیں جو اللہ کو پسند نہیں اور اللہ ان کے کاموں کو گھیرے ہوئے ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ یَسْتَخْفُوْنَ مِنَ النَّاسِ:وہ لوگوں سے شرماتے ہیں۔} یعنی طعمہ اور ا س کی قوم کے افراد لوگوں سے حیا کرنے کی بنا پر اور ان کی طرف سے نقصان پہنچنے کے ڈر سے اُن سے تو شرماتے اور چھپتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ سے نہیں شرماتے حالانکہ وہ اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اس سے حیا کی جائے اور اس کے عذاب سے ڈرا جائے کیونکہ وہ ان کے احوال کو جانتا ہے اور اس سے ان کا کوئی عمل چھپا ہوا نہیں حتی کہ وہ ان کے ا س عمل سے بھی واقف ہے جب وہ اپنے دل میں ایسی بات تجویز کرتے ہیں اور رات میں ایسی بات کا مشورہ کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کوپسند نہیں جیسے بے گناہ پر الزام لگانا، جھوٹی قسم کھانا اور جھوٹی گواہی دینا، اور اللہ تعالیٰ ان کے تمام ظاہری و باطنی تمام اعمال کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور ان کا کوئی عمل اللہ تعالیٰ کے علم سے باہر نہیں۔(جلالین، النساء، تحت الآیۃ: ۹۷، ص۸۶، روح البیان، النساء، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ۲ / ۲۷۹-۲۸۰، ملتقطاً)
تقویٰ و طہارت کی بنیاد :
یہ آیتِ مبارکہ تقویٰ و طہارت کی بنیاد ہے۔ اگر انسان یہ خیال رکھے کہ میرا کوئی حال اللہ عَزَّوَجَلَّ سے چھپا ہوا نہیں تو گناہ کرنے کی ہمت نہ کرے۔ قرآنِ پاک میں جگہ جگہ اسی چیز کے ذریعے لوگوں کو گناہوں سے رکنے کا حکم دیا ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ دیکھ رہا ہے۔ اس جملے کا اگر کوئی شخص مراقبہ کرلے اور اسے اپنے دل و دماغ میں بٹھالے تو گناہوں کا علاج نہایت آسان ہوجائے گا۔ حضرت سہل بن عبد اللہ تستری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :میں تین سال کی عمر کا تھا کہ رات کے وقت اٹھ کر اپنے ماموں حضرت محمد بن سوار رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو نماز پڑھتے دیکھتا۔ ایک دن انہوں نے مجھ سے فرمایا: کیا تو اس اللہ تعالیٰ کو یاد نہیں کرتا جس نے تجھے پیدا کیا ہے؟ میں نے پوچھا :میں اسے کس طرح یاد کر وں ؟ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا: جب لیٹنے لگو تو تین بار زبان کو حرکت دئیے بغیر محض دل میں یہ کلمات کہو: ’’اَللہُ مَعِیَ، اللہُ نَاظِرٌ اِلَیَّ، اللہُ شَاہِدٌ‘‘اللہ عَزَّوَجَلَّ میرے ساتھ ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ مجھے دیکھ رہا ہے، اللہ تعالیٰ میرا گواہ ہے۔
حضرت سہل رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں) میں نے چند راتیں یہ کلمات پڑھے اور پھر ان کو بتایا، انہوں نے فرمایا: ہر رات سات مرتبہ یہ کلمات پڑھو، میں نے ایسا ہی کیا اور پھر انہیں بتایا تو انہوں نے فرمایا: ہر رات گیارہ مرتبہ یہ کلمات پڑھو۔ میں نے اسی طرح پڑھا تو مجھے اپنے دل میں اس کی لذّت معلوم ہوئی۔ جب ایک سال گزر گیا تو میرے ماموں نے کہا: میں نے جو کچھ تمہیں سکھایا ہے اسے یاد رکھو اور قبر میں جانے تک ہمیشہ پڑھنا، یہ تمہیں دنیا و آخرت میں نفع دے گا۔ میں نے کئی سال تک ایسا کیا تو میں نے اپنے اندر اس کا مزہ پایا، پھر ایک دن میرے ماموں نے فرمایا: اے سہل! اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ ہو، اسے دیکھتا ہو اور ا س کا گواہ ہو ،کیا وہ اس کی نافرمانی کرتا ہے؟ تم اپنے آپ کو گناہوں سے بچا کر رکھو۔( احیاء علوم الدین، کتاب ریاضۃ النفس وتہذیب الاخلاق۔۔۔ الخ، بیان الطریق فی ریاضۃ الصبیان۔۔۔ الخ، ۳ / ۹۱)
هٰۤاَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ جٰدَلْتُمْ عَنْهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا- فَمَنْ یُّجَادِلُ اللّٰهَ عَنْهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اَمْ مَّنْ یَّكُوْنُ عَلَیْهِمْ وَكِیْلًا(109)
ترجمہ: ۔(اے لوگو!) سن لو، یہ تم ہی ہو جودنیا کی زندگی میں ان کی طرف سے جھگڑے تو قیامت کے دن ان کی طرف سے اللہ سے کون جھگڑے گایا کون ان کا کارساز ہوگا؟
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{هٰۤاَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ جٰدَلْتُمْ عَنْهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا:سن لو، یہ تم ہی ہو جودنیا کی زندگی میں ان کی طرف سے جھگڑے۔} یہاں عام لوگوں سے اور بطورِ خاص طعمہ کی قوم سے خطاب فرمایا گیا ہے کہ اے لوگو! سن لو، تم جوآج دنیا کی زندگی میں ان خیانت کرنے والوں کی طرف سے جھگڑتے ہو توجب قیامت کے دن خیانت کرنے والا مجرم اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں پیش ہوگا اور اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کے عذاب کا فیصلہ فرما دے گاتو اس وقت کون ان کی طرف سے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے جھگڑے گا یا کون ان کا وکیل و کارساز ہوگا؟ یعنی جیسے دنیا میں تم فیصلہ کرنے والے کو دھوکہ دیدیتے ہو اس طرح دھوکہ دینے کے لئے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں جھگڑنا ناممکن ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے کچھ پوشیدہ نہیں۔
شفاعت کا ثبوت:
یاد رہے کہ اس آیت میں شفاعت کا انکار نہیں کیونکہ محبوبوں کی شفاعت اور چھوٹے بچوں کا اپنے ماں باپ کی بخشش کے لئے رب تعالیٰ سے ناز کے طور پر جھگڑنا آیات و احادیث سے ثابت ہے ۔اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے:
مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا بِاِذْنِهٖ (سورۂ بقرہ: ۲۵۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے ہاں شفاعت کرسکے۔
اور حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ قیامت کے دن جب کچے بچے کے ماں باپ کو اللہ تعالیٰ جہنم میں داخل کرے گاتو وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے جھگڑے گا۔ فرمایا جائے گا ’’اَیُّھَا السَّقْطُ الْمُرَاغِمُ رَبَّہٗ‘‘ اے کچے بچے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے جھگڑنے والے ! اپنے ماں باپ کو جنت میں لے جا، تب وہ انہیں اپنے ناف سے کھینچے گا حتّٰی کہ انہیں جنت میں داخل کردے گا۔ (ابن ماجہ، کتاب الجنائز، باب ما جاء فیمن اصیب بسقط، ۲ / ۲۷۳، الحدیث: ۱۶۰۸)
وَ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ یَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(110)وَ مَنْ یَّكْسِبْ اِثْمًا فَاِنَّمَا یَكْسِبُهٗ عَلٰى نَفْسِهٖؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًا(111)وَ مَنْ یَّكْسِبْ خَطِیْٓــٴَـةً اَوْ اِثْمًا ثُمَّ یَرْمِ بِهٖ بَرِیْٓــٴًـا فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا(112)
ترج
اور جو کوئی برا کام کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے مغفرت طلب کرے تو اللہ کو بخشنے والا مہربان پائے گا۔ اور جو گناہ کمائے تو وہ اپنی جان پر ہی گناہ کمار ہا ہے اوراللہ علم و حکمت والا ہے۔ اور جو کوئی غلطی یا گناہ کا ارتکاب کرے پھر کسی بے گناہ پر اس کا الزام لگا دے تویقینا اس نے بہتان اور کھلا گناہ اٹھایا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًا: اور جوبرا عمل کرے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات میں تین چیزیں بیان فرمائی گئیں۔ پہلی یہ کہ جو شخص کوئی برا عمل کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ سے معافی کا طلبگار ہواور سچی توبہ کرے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرے تو وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کو غفور ورحیم پائے گا۔ سُبْحَانَ اللہ۔ دوسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ جو گناہ کرے گا وہی اس گناہ کا وبال اٹھائے گا، یہ نہ ہوگا کہ گناہ کوئی کرے اور اس کا وبال کسی دوسرے کی گردن پر رکھ دیا جائے ۔
گناہ جارِیَہ کا سبب بننے والے کوگناہ کرنے والے کے گناہ سے بھی حصہ ملے گا:
یہاں یہ بات یادرہے کہ جو کسی گناہ جاریہ کا سبب بنا تو اسے گناہ کرنے والوں کے گناہ سے بھی حصہ ملے گا جیسے کسی نے سینما کھولا یا شراب خانہ کھولا یا بے حیائی کا اڈا کھولا یا اپنی دکان وغیرہ پر فلمیں چلائیں جہاں لوگ بیٹھ کر دیکھیں یا کسی کو غلط راہ پر لگادیا یا کسی کو شراب، جوا یا نشے کا عادی بنادیا تو اس صورت میں گناہ کا کام کرنے والے اور اُسے اِس راہ پر لگانے والے دونوں کو گناہ ہوگا۔ احادیث میں یہ مضمون بکثرت ملتا ہے ، چنانچہ ان میں سے4اَحادیث درج ذیل ہیں :
(1)…حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ہر وہ جان جسے ظُلماً قتل کیا جائے تو اُس کے خون کا گناہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پہلے بیٹے پرہو گا کیونکہ اس نے قتل کا طریقہ نکالا۔ (بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب خلق آدم صلوات اللہ علیہ وذرّیتہ، ۲ / ۴۱۳، الحدیث: ۳۳۳۵)
(2)… حضرت جریر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ نکالا پھر اس کے بعد اُس پر عمل کیا گیا تو عمل کرنے والے کے ثواب کی مثل ثواب اِس کے نامۂ اعمال میں لکھا جائے گا اور اُن عمل کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی بھی نہ ہو گی اور جس نے اسلام میں کوئی برا طریقہ جاری کیا پھر اس کے بعداُس پر عمل کیا گیا تو عمل کرنے والے کے گناہ کی مثل گناہ اُس کے نامۂ اعمال میں لکھا جائے گا اور اِن عمل کرنے والوں کے گناہ میں بھی کوئی کمی نہ ہو گی۔(مسلم، کتاب العلم، باب من سنّ سنّۃ حسنۃ او سیئۃ۔۔۔ الخ، ص۱۴۳۷، الحدیث: ۱۵(۲۶۷۳))
(3)…حضرت ابو مسعود انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے کسی بھلائی کے کام پر رہنمائی کی تو اس کے لئے وہ کام کرنے والے کی طرح ثواب ہے۔(مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل اعانۃ الغازی فی سبیل اللہ۔۔ الخ، ص۱۰۵۰، الحدیث: ۱۳۳(۱۸۹۳))
(4)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جو ہدایت کی طرف بلائے تو اسے ویسا ثواب ملے گا جیسا اس کی پیروی کرنے والے کو ملے گا اور ان پیروی کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی نہ ہو گی اور جو گمراہی کی طرف بلائے تو اسے ویسا گنا ہ ملے گا جیسا اس کی پیروی کرنے والے کو ملے گا اور ان پیروی کرنے والوں کے گناہ میں کوئی کمی نہ ہو گی۔(مسلم، کتاب العلم، باب من سنّ سنّۃ حسنۃ او سیئۃ۔۔۔ الخ، ص۱۴۳۸، الحدیث: ۱۶(۲۶۷۴))
{وَ مَنْ یَّكْسِبْ خَطِیْٓــٴَـةً اَوْ اِثْمًا: اور جو کوئی غلطی یا گناہ کا اِرتِکاب کرے۔} اس آیت میں تیسری بات ارشاد فرمائی گئی کہ جس نے کسی بے گناہ پر الزام لگایا تو اس نے بہتان اور بہت بڑے گناہ کا بوجھ اٹھایا۔ آیت میں گناہ سے مراد گناہِ کبیرہ اور خطا سے مراد گناہِ صغیرہ ہے۔
بے گناہ پر تہمت لگانے کی مذمت:ـ
اس آیت سے معلوم ہو اکہ بے گناہ کو تہمت لگانا سخت جرم ہے وہ بے گناہ خواہ مسلمان ہو یا کافر کیونکہ طعمہ نے یہودی کافر کو بہتان لگایا تھا اس پراللہ تعالیٰ نے ا س کی مذمت فرمائی ۔احادیث میں بھی بے گناہ پرتہمت لگانے کی وعیدیں بیان کی گئی ہیں ،چنانچہ
حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی کی کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تا کہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تواللہ تعالیٰ اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے۔(اس سے مراد یہ ہے کہ وہ طویل عرصے تک عذاب میں مبتلا رہے گا)(معجم الاوسط، من اسمہ مقدام، ۶ / ۳۲۷، الحدیث: ۸۹۳۶)
حضرت عمرو بن العاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس مرد یا عورت نے اپنی لونڈی کو ’’اے زانیہ‘‘ کہا جبکہ اس کے زنا سے آگاہ نہ ہو تو قیامت کے دن وہ لونڈی انہیں کوڑے لگائے گی، کیونکہ دنیا میں ان کے لئے کوئی حد نہیں۔ (مستدرک، کتاب الحدود، ذکر حد القذف، ۵ / ۵۲۸، الحدیث: ۸۱۷۱)
اسلام کا اعلیٰ اخلاقی اصول:
اس آیت سے ایک تو کسی پر بہتان لگانے کا حرام ہونا واضح ہوا اور دوسرا اسلام کے اعلیٰ اخلاقی اصولوں کا علم ہوا کہ اسلام میں انسانی حقوق کا کس قدر پاس اور لحاظ ہے، حتّی کہ کافر تک کے حقوق اسلام میں بیان کئے گئے ہیں۔ یہ واقعہ اور آیات ِ مبارکہ کفار کے سامنے پیش کرنے کی ہیں کہ دیکھو اسلام کی تعلیمات کتنی حسین اور عمدہ ہیں۔
وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ وَ رَحْمَتُهٗ لَهَمَّتْ طَّآىٕفَةٌ مِّنْهُمْ اَنْ یُّضِلُّوْكَؕ-وَ مَا یُضِلُّوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَضُرُّوْنَكَ مِنْ شَیْءٍؕ-وَ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُؕ-وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ عَظِیْمًا(113)
ترجمہ: اور اے حبیب! اگر تمہارے اوپراللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو ان میں ایک گروہ نے آپ کو (صحیح فیصلہ کرنے سے) ہٹانے کا ارادہ کیا تھا حالانکہ وہ اپنے آپ ہی کو گمراہ کررہے تھے اور آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اور اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی اور آپ کو وہ سب کچھ سکھا دیا جو آپ نہ جانتے تھے اور آپ پر اللہ کا فضل بہت بڑا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{لَهَمَّتْ طَّآىٕفَةٌ مِّنْهُمْ: ان میں سے ایک گروہ نے ارادہ کیا تھا۔} یہاں سابقہ واقعہ کے اعتبار ہی سے کلام چل رہا ہے، چنانچہ فرمایا گیا کہ اے حبیب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تم پر بڑا فضل فرمایا اور رحمت کی کہ تمہیں نبی معصوم بنایا اور رازوں پر مطلع فرما یا۔ اگر پروردگارِ عالم نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو معصوم نہ بنایا ہوتا اور آپ پر تمام عُلوم ظاہر نہ کر دئیے ہوتے تو یہ آپ کو بہکا دیتے۔ یہاں بہکانے سے مراد دھوکہ دے کر غلط فیصلہ کروا لینا ہے۔ وہ لوگ جو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں یہ تو اپنے آپ کو گمراہ کررہے ہیں کیوں کہ اس کا وبال انہیں پر ہے، یہ حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دھوکا نہیں دے سکتے کیونکہ اُن کی حفاظت ان کا ربّ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے۔ نیز فرمایا کہ یہ لوگ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ہمیشہ کے لئے معصوم بنایا ہے۔
{وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ: اور تمہیں وہ سب کچھ سکھادیا جو تم نہ جانتے تھے۔} یہ آیتِ مبارکہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی عظیم مدح پر مشتمل ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ تعالیٰ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی اور آپ کو دین کے اُمور ، شریعت کے احکام اور غیب کے وہ عُلوم عطا فرما دئیے جو آپ نہ جانتے تھے ۔
نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے علمِ غیب سے متعلق چند ضروری باتیں :
یہاں حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے علمِ غیب سے متعلق چند ضروری باتیں ذہن نشین رکھیں کہ مسلمانوں کا عقیدہ اس بارے میں کیا ہے۔ یہ باتیں پیشِ نظررہیں تو اِنْ شَآءَ اللہُ عَزَّوَجَلَّ کوئی گمراہ بہکانہ سکے گا، چنانچہ اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنْ فرماتے ہیں :
(1)…بے شک غیرِ خدا کے لیے ایک ذرہ کا علمِ ذاتی نہیں اس قدر (یعنی اتنی بات) خود ضروریاتِ دین سے ہے اور اس کامنکر کافر ہے۔
(2)…بے شک غیرِ خدا کا علم اللہ تعالیٰ کی معلومات کو حاوی نہیں ہوسکتا، برابر تو درکنار۔ تمام اَوّلِین و آخِرین، اَنبیاء ومُرسَلین، ملائکہ و مقربین سب کے علوم مل کر علومِ الہِٰیّہ سے وہ نسبت نہیں رکھ سکتے جو کروڑ ہا کروڑ سمندروں سے ایک ذرا سی بوند کے کروڑویں حصے کو ہے کہ وہ تمام سمندر اور یہ بوند کا کروڑواں حصہ دونوں مُتَناہی ہیں (یعنی ان کی ایک انتہا ہے)، اور متناہی کو متناہی سے نسبت ضرور ہے ، جبکہ اللہ تعالیٰ کے علوم وہ غیر متناہی در غیر متناہی در غیر متناہی ہیں (یعنی ان کی کوئی انتہا ہی نہیں )۔ اور مخلوق کے علوم اگرچہ عرش و فرش، مشرق ومغرب ،روزِ اول تا روزِآخر جملہ کائنات کو محیط ہوجائیں پھر بھی متناہی ہیں کہ عرش و فرش دو حدیں ہیں ، روزِ اول و روزِ آخر دو حدیں ہیں اور جو کچھ دو حدوں کے اندر ہو سب متناہی ہے۔
(3)…بالفعل غیر متناہی کا علمِ تفصیلی مخلوق کو مل ہی نہیں سکتا تو جملہ علومِ خَلق کو علمِ الٰہی سے اصلاً نسبت ہونی محالِ قطعی ہے نہ کہ مَعَاذَاللہ تَوَہُّمِ مساوات۔
(4)… اس پر اجماع ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دیئے سے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کثیر و وافر غیبوں کا علم ہے یہ بھی ضروریاتِ دین سے ہے جو اِس کا منکر ہو کافر ہے کہ سرے سے نبوت ہی کا منکر ہے۔
(5)…اور اس پر بھی اجماع ہے کہ اس فضل جلیل میں محمدٌ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حصہ تمام انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام و تمام جہان سے اَتَمّ و اعظم ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا سے حبیبِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اتنے غیبوں کا علم ہے جن کا شمار اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی جانتا ہے۔ (فتاوی رضویہ، ۲۹ / ۴۵۰-۴۵۱، ملخصاً)
یاد رہے کہ یہاں ’’مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ‘‘ میں وہ سب کچھ داخل ہے جو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نہیں جانتے۔ معتبر تفاسیر میں اس کی صراحت موجود ہے۔چنانچہ درج ذیل پانچ تفاسیر میں اس کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے:
(1)… تفسیر البحر المحیط، النساء، تحت الایۃ: ۱۱۳،۳ / ۳۶۲ (2)…تفسیر طبری، النساء، تحت الایۃ: ۱۱۳، ۴ / ۲۷۵، (3)…نظم الدرر ، النساء، تحت الایۃ: ۱۱۳،۲ / ۳۱۷،(4)… زاد المسیر فی علم التفسیر، النساء، تحت الایۃ: ۱۱۳، ص۳۲۴، (5)…روح المعانی، النساء، تحت الایۃ: ۱۱۳، ۳ / ۱۸۷
{وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ عَظِیْمًا:اور آپ پر اللہ کافضل بہت بڑا ہے۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ نے پوری مخلوق کو جو علم عطا فرمایا اس کے بارے میں ارشاد فرمایا:
وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا (بنی اسرائیل:۸۵)
ترجمہ ٔکنزُالعِرفان: اور (اے لوگو!) تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔
اسی طرح پوری دنیا کے بارے میں ارشاد فرمایا :
قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌ (النساء :۷۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے حبیب! تم فرما دو کہ دنیا کاسازو سامان تھوڑا ساہے۔
تو جس کے سامنے پوری دنیا کا علم اور خود ساری دنیا قلیل ہے وہ جس کے علم کوعظیم فرما دے ا س کی عظمتوں کا اندازہ کون لگا سکتا ہے ۔(تفسیر کبیر، النساء، تحت الآیۃ: ۱۱۳، ۴ / ۲۱۷)
لَا خَیْرَ فِیْ كَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىهُمْ اِلَّا مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَةٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلَاحٍۭ بَیْنَ النَّاسِؕ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ فَسَوْفَ نُؤْتِیْهِ اَجْرًا عَظِیْمًا(114)
ترجمہ: اُن کے اکثرخفیہ مشوروں میں کوئی بھلائی نہیں ہوتی مگر ان لوگوں (کے مشوروں ) میں جو صدقے کا یا نیکی کا یا لوگوں میں باہم صلح کرانے کا مشورہ کریں اور جو اللہ کی رضامندی تلاش کرنے کے لئے یہ کام کرتا ہے تواسے عنقریب ہم بڑا ثواب عطا فرمائیں گے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{لَا خَیْرَ فِیْ كَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىهُمْ:ان کے اکثر مشوروں میں کچھ بھلائی نہیں۔} یہاں عام لوگوں کے حوالے سے بیان فرمایا گیا کہ ان کے زیادہ تر کلام اور مشوروں میں کوئی بھلائی نہیں ہوتی کیونکہ عوامی کلام زیادہ تر فضولیات پر مشتمل ہوتا ہے اور ان کے مشورے بے فائدہ مغز ماری پر مَبنی ہوتے ہیں جن کا نتیجہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ان کی بجائے وہ لوگ جو آپس میں اچھے کاموں کیلئے کلام یا مشورہ کرتے ہیں جیسے صدقہ دینے کا حکم دیتے ہیں یا لوگوں کو نیکی کی دعوت دیتے ہیں یا نیکی کی دعوت عام کرنے کیلئے مشورے کرتے ہیں یا لوگوں میں صلح کروانے کیلئے مل بیٹھتے ہیں تو ایسے لوگوں کے مشوروں میں خیر اور بھلائی ہے۔
آیت’’ لَا خَیْرَ فِیْ كَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىهُمْ‘‘ کے چند پہلو:
اس آیت ِ مبارکہ میں اُس گروہ کے لئے نصیحت ہے جن کے مشورے فضولیات پر مشتمل ہوتے ہیں یا جو مَعَاذَاللہ گناہ کو پروان چڑھانے کیلئے مشورے کرتے ہیں جیسے سینما بنانے، بے حیائی کے سینٹر بنانے، فلمی صَنعت کی ترقی کیلئے مشورے کرتے ہیں یہ مشورے صرف خیر سے خالی نہیں بلکہ شَر سے بھر پور ہیں۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت عطا فرمائے۔ ان کے مقابلے میں آیتِ مبارکہ میں ان لوگوں کیلئے بشارت ہے جو نیکی کے کام کیلئے مشورے کرتے ہیں ، ملک کے مسائل حل کرنے کیلئے، قوم کی پریشانیاں دور کرنے کیلئے، عوام کے معاملات سلجھانے کیلئے، لڑنے والوں کے درمیان صلح کرنے والے کیلئے، میاں بیوی اور دیگر رشتے داروں کے جھگڑے ختم کروانے کیلئے، دوستوں میں ناراضگی ختم کرکے جائز دوستی کروانے کیلئے مشورے کرنے والے مبارکباد کے مستحق ہیں۔ یونہی بطورِ خاص اِس آیت میں جن حضرات کا تذکرہ ہے وہ ہے نیکی کی دعوت کیلئے مشورے کرنے والے۔ ایسے تمام لوگوں کے مشورے خیر اور بھلائی سے بھرپور ہیں جن کا مقصد یہ ہے کہ نیکی کی دعوت عام ہو، مسلمانوں کا بچہ بچہ نمازی بنے، لوگ سنتوں کے پابند ہوں ، ان میں خوف ِ خدا اور عشقِ مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پیدا ہو، بے حیائی کا خاتمہ ہو، لڑائی جھگڑے ختم ہوجائیں ، مسلمان باعمل بن جائیں ، لوگوں کے گھر امن کا گہوارہ بن جائیں ، گھروں میں اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ذکر ہو، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پیاروں کا ذکر ہو۔ الغرض جو لوگ ان کاموں کیلئے مشورے کرتے ہیں وہ سب اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پیارے ہیں۔ آیت ِ مبارکہ کے چند پہلوؤں کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے ورنہ حقیقت میں یہ آیت نجی معاملات سے لے کر صوبائی، قومی، ملکی اور بین الاقوامی معاملات سب کو شامل ہے۔
{وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ:اور جو اللہ کی رضامندی تلاش کرنے کے لئے یہ کام کرتا ہے۔} اچھے مشوروں پر اجرو ثواب ملتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرما دیا کہ یہ اس صورت میں ہے جبکہ یہ کام اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا کیلئے کئے جائیں تب اجرِ عظیم ہے ورنہ اگر ریاکاری کیلئے، اپنی واہ واہ کروانے کیلئے، خود کو بڑا لیڈر، یا مُصلِح کہلوانے کیلئے، لوگوں میں عزت و شہرت و دولت حاصل کرنے کیلئے، نیک نامی کیلئے ، بڑا عالم یا مبلغ یا متحرک کہلوانے کیلئے یہ عمل کئے تو سراسر تباہی اورخسارہ ہے۔
وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَ یَتَّبِـعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَ نُصْلِهٖ جَهَنَّمَؕ-وَ سَآءَتْ مَصِیْرًا(115)
ترجمہ:
اور جو اس کے بعد کہ اس کے لئے ہدایت بالکل واضح ہوچکی رسول کی مخالفت کرے اور مسلمانوں کی راہ سے جدا راہ چلے تو ہم اسے ادھر ہی پھیر دیں گے جدھر وہ پھرتا ہے اور اسے جہنم میں داخل کریں گے اور وہ کتنی بری لوٹنے کی جگہ ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ: اور جو رسول کی مخالفت کرے۔} اس آیت میں دو چیزوں سے منع کیا گیاہے جو حقیقت میں ایک ہیں۔ پہلی چیز کہ رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مخالفت جائز نہیں اور دوسری بات کہ مسلمانوں کے راستے سے ہٹ کر چلنا جائز نہیں کیونکہ مسلمانوں کا راستہ اطاعت ِ رسول کا راستہ ہے تو اس سے ہٹنا اطاعتِ رسول سے ہٹنا ہوگا۔
مسلمانوں کا اجماع حجت اور دلیل ہے:
یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ مسلمانوں کا اجماع و اتفاق حجت و دلیل ہے اور اس کی مخالفت جائز نہیں جیساکہ کتاب و سنت کی مخالفت جائز نہیں۔(مدارک، النساء، تحت الآیۃ: ۱۱۵، ص۲۵۳)
نیز اس سے ثابت ہوا کہ مسلمانوں کا راستہ ہی صراطِ مستقیم ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ جماعت پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کا ہاتھ ہے۔(نسائی، کتاب تحریم الدم، قتل من فارق الجماعۃ۔۔۔ الخ، ص۶۵۶، الحدیث: ۴۰۲۷)ایک اور حدیث میں ہے کہ سوادِ اَعْظَم یعنی بڑی جماعت کی پیروی کرو جو اس گروہ سے جدا ہوا وہ جہنم میں گرا۔ (مستدرک، کتاب العلم، من شذّ شذّ فی النار، ۱ / ۳۱۷، الحدیث: ۴۰۳)
اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُؕ-وَ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا(116)
ترجمہ:
اللہ اس بات کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے اور اس سے نیچے جو کچھ ہے جسے چاہے معاف فرما دیتا ہے اور جو اللہ کا شریک ٹھہرائے وہ دور کی گمراہی میں جا پڑا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ: اللہ شرک کو نہیں بخشے گا۔}اِس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما کا قول ہے کہ یہ آیت ایک بوڑھے اَعرابی کے حق میں نازل ہوئی جس نے سیّدُالانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا، یا نبیَّ اللہ! میں بوڑھا ہوں ، گناہوں میں غرق ہوں ، اس کے سوا کہ جب سے میں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کو پہچانا اور اس پر ایمان لایا ہوں اس وقت سے کبھی میں نے اس کے ساتھ شرک نہیں کیا اور اس کے سوا کسی اور کو کارسازِ حقیقی نہیں بنایا اور جرأ ت و دلیری کے ساتھ گناہوں میں مبتلانہ ہوا اور ایک پل بھی میں نے یہ گمان نہ کیا کہ میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے بھاگ سکتا ہوں ، میں شرمندہ ہوں ، تائب ہوں ، مغفرت چاہتا ہوں ،اللہ عَزَّوَجَلَّ کے یہاں میرا کیا حال ہوگا؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۱۱۶، ۱ / ۴۳۰)
آیت’’ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:
(1) …یہ آیت اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ شرک نہیں بخشا جائے گا جبکہ مشرک اپنے شرک پر مرے اور یہی حکم کفر کا ہے بلکہ علماء نے یہاں شرک سے مراد کفر لیا ہے۔ ہاں کافر و مشرک زندگی میں توبہ کرے تواس کی توبہ یقیناً مقبول ہے ۔
(2)…آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ گناہِ کبیرہ ، حقوقُ اللہ اورحقوقُ العِباد تمام گناہ قابلِ مغفرت ہیں اگرچہ حقوقُ العِبادکی مغفرت کا طریقہ یہ ہوگا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ حق العبدصاحب ِحق سے معاف کرا دے گا۔
(3)…یہ بھی معلوم ہوا کہ کفر و شرک کے علاوہ گناہوں کی بخشش یقینی نہیں بلکہ امید ہے کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا کہ جسے چاہے بخشے۔ اب اللہ عَزَّوَجَلَّ کسے چاہے گا یہ معلوم نہیں لہٰذا یہ آیت گناہ پر دلیر نہیں کرتی بلکہ گناہ سے روکتی ہے۔
اِنْ یَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِلَّاۤ اِنٰثًاۚ-وَ اِنْ یَّدْعُوْنَ اِلَّا شَیْطٰنًا مَّرِیْدًا(117)
ترجمہ:
یہ شرک کرنے والے اللہ کے سوا عبادت نہیں کرتے مگر چند عورتوں کی اور یہ عبادت نہیں کرتے مگر سرکش شیطان کی۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ اِنْ یَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِلَّاۤ اِنٰثًا:یہ شرک کرنے والے اللہ کے سوا عبادت نہیں کرتے مگر چند عورتوں کی۔} مشرکین کے بارے میں فرمایا کہ یہ کچھ عورتوں کو پوجتے ہیں یعنی مُؤنَّث بتوں کو پوجتے ہیں جیسے لات، عُزّٰی، مَنات وغیرہ یہ سب مؤنث نام ہیں۔(بغوی، النساء، تحت الآیۃ: ۱۱۷، ۱ / ۳۸۴)
یونہی عرب کے ہر قبیلے کا ایک بت ہوتا تھا جس کی وہ عبادت کرتے تھے اور اس کو اس قبیلہ کی اُنثٰی یعنی عورت کہتے تھے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ مشرکینِ عرب اپنے باطل معبودوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے اس لئے آیت میں فرمایا کہ مشرک عورتوں کو پوجتے ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ مشرکین بتوں کو زیور وغیرہ پہنا کر عورتوں کی طرح سجاتے تھے۔ اس لئے انہیں عورتیں فرمایا گیا ہے۔(ابو سعود، النساء، تحت الآیۃ: ۱۱۷، ۱ / ۵۸۵)
لَّعَنَهُ اللّٰهُۘ-وَ قَالَ لَاَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا(118)
ترجمہ: جس پر اللہ نے لعنت کی اور اس نے کہا: میں ضرور تیرے بندوں سے مقررہ حصہ لوں گا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{لَعَنَهُ اللّٰهُ: جس پر اللہ نے لعنت کی۔}یہاں شیطان مراد ہے ، اس پراللہ عَزَّوَجَلَّ نے لعنت کی اور اس نے کہا تھا کہ میں تیرے بندوں سے مقررہ حصہ ضرور لوں گا یعنی انہیں اپنا اطاعت گزار بناؤں گا ۔
وَّ لَاُضِلَّنَّهُمْ وَ لَاُمَنِّیَنَّهُمْ وَ لَاٰمُرَنَّهُمْ فَلَیُبَتِّكُنَّ اٰذَانَ الْاَنْعَامِ وَ لَاٰمُرَنَّهُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰهِؕ-وَ مَنْ یَّتَّخِذِ الشَّیْطٰنَ وَلِیًّا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِیْنًاﭤ(119)
ترجمہ: اور میں ضرور انہیں گمراہ کروں گا اور انہیں امیدیں دلاؤں گا اور میں انہیں ضرور حکم دوں گا تو یہ ضرور جانوروں کے کان چیریں گے اور میں انہیں ضرور حکم دوں گا تویہ اللہ کی پیدا کی ہوئی چیزیں بدل دیں گے اور جو اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو دوست بنائے تووہ کھلے نقصان میں جاپڑا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَاُضِلَّنَّهُمْ: اور میں ضرور انہیں گمراہ کروں گا۔} یہ شیطان کا کہنا تھا کہ میں ضرور لوگوں کو طرح طرح کی چیزوں کی، کبھی لمبی عمر کی، کبھی لَذّات ِدنیا کی، کبھی باطل خواہشات اور کبھی اور قسم کی امیدیں دلاؤں گا اور وہ ان امیدوں کی دنیا میں پھرتے رہیں گے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ سے غافل رہیں گے۔
لمبی امید رکھنے کی مذمت:
شیطان مردود کا بڑا مقصد لوگوں کو بہکانا اور عملی اعتبار سے ایساکر دینا ہے کہ نجات و مغفرت کا کوئی راستہ باقی نہ رہے، اس کے لئے وہ مختلف طریقے اپناتا ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ لمبے عرصے تک زندہ رہنے کی سوچ انسان کے دل، دماغ میں بٹھا کر موت سے غافل رکھتا ہے، حتّٰی کہ اسی آس امید پرجیتے جیتے اچانک وہ وقت آجاتا ہے کہ موت اپنے دردناک شکنجے میں کَس لیتی ہے پھر اب پچھتائے کیا ہَوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت ،ناچار اپنے کئے اعمال کے انجام سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ فی زمانہ لوگوں کی اکثریت موت کو بھول کر دنیا کی لمبی امیدوں میں کھوئی ہوئی ہے۔ امام غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ لمبی زندگی کی امید دل میں باندھ لینا جہالت اور نادانی کی وجہ سے ہوتا ہے یا پھر دنیا کی محبت کی وجہ سے۔ جہالت اور نادانی تو یہ ہے کہ آدمی اپنی جوانی پر بھروسہ کر بیٹھے اور بڑھاپے سے پہلے مرنے کا خیال ہی دل سے نکال دے، اسی طرح آدمی کی ایک نادانی یہ ہے کہ تندرستی کی حالت میں ناگہانی موت کو ناممکن سمجھے ۔لہٰذا ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ ان باتوں میں غور کرے’ ’کیا لاکھوں بچے جوانی کی دہلیز پر پہنچنے سے پہلے ہی راہیِ عدم نہ ہوئے؟ کیا ہزاروں انسان چڑھتی جوانی میں موت سے ہم آغوش نہ ہوئے؟ کیا سینکڑوں نوجوان بھری جوانی میں لقمۂ اَجَل نہ بنے؟ کیا دَسْیوں نوجوان بیماریوں کا شکار نہ ہوئے؟ ان باتوں میں غورو فکر کے ساتھ ایک اور بات دل میں بٹھا لے کہ موت اس کے اختیار میں نہیں کہ جب یہ چاہے گا تو اسی وقت آ ئے گی، اس طرح جوانی یا کسی اور چیز پر بھروسہ کرنا خود ہی ایک نادانی نظر آئے گی۔ لمبی زندگی کی امید کی دوسری وجہ دنیا کی محبت ہے، انسان اپنے دل کو تَسلّی دیتا رہتا ہے کہ ابھی تو زمانہ پڑا ہے، ابھی کس نے مرنا ہے میں پہلے یہ مکان بنا لوں ، فلاں کاروبار شروع کر لوں ، اچھی گاڑی خرید لوں ، سہولیات سے اپنی زندگی بھر لوں جب بڑھاپا آئے گا تو اللہ اللہ کرنے لگ جائیں گے اس طرح ہر کام سے دس کام نکالتا چلا جاتا ہے حتّٰی کے ایک دن پیغامِ اجل آ پہنچتا ہے اب پچھتانے کے علاوہ اس کے پاس کچھ نہیں بچتا۔ اس میں مبتلا شخص کو چاہئے کہ دنیا کی بے ثباتی اور اس کی حقیقت کے بارے میں معلومات حاصل کرے کیونکہ جس پر دنیا کی حقیقت آشکار ہو جائے کہ دنیا کی لذت چند روزہ ہے اور موت کے ہاتھوں اسے ایک دن ختم ہونا ہی ہے وہ اسے عزیز نہیں رکھ سکتا۔ (کیمیائے سعادت، رکن چہارم: منجیات، اصل دہم، اسباب طول امل، ۲ / ۹۹۵-۹۹۶، ملخصاً)
دِلا غافل نہ ہو یکدم یہ دنیا چھوڑ جانا ہے
باغیچے چھوڑ کر خالی زمیں اندر سمانا ہے
{وَ لَاٰمُرَنَّهُمْ: اور میں ضرور انہیں حکم دوں گا۔} یہ شیطان کا قول ہے کہ اس نے کہا میں لوگوں کو حکم دوں گا کہ وہ بتوں کے نام پر جانوروں کے کان چیریں یا اس طرح کی دوسری حرکتیں کریں۔ چنانچہ لوگوں نے ایسا ہی کیا کہ اونٹنی جب پانچ مرتبہ بچہ جن دیتی تو وہ اس کو چھوڑ دیتے اور اس سے نفع اٹھانا اپنے اوپر حرام کرلیتے اور اس کا دودھ بتوں کے لئے وقف کر دیتے اور اس کو بَحِیرہ کہتے تھے۔ شیطان نے اُن کے دِل میں یہ بات ڈال دی تھی کہ ایسا کرنا عبادت ہے۔
اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی چیزوں میں خلافِ شرع تبدیلیاں کرنے کا شرعی حکم:
شیطان نے ایک بات یہ کہی کہ وہ لوگوں کو حکم دے گا تو وہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی چیزیں ضرور بدلیں گے۔
یاد رہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی پیدا کی ہوئی چیزوں میں خلاف ِ شرع تبدیلیاں حرام ہیں۔ احادیث میں اس کی کافی تفصیل موجود ہے۔ ان میں سے4احادیث درج ذیل ہیں:
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس مرد پر لعنت فرمائی جو عورت کا لباس پہنے اور اس عورت پر لعنت فرمائی جو مرد کا لباس پہنے۔(ابو داؤد، کتاب اللباس، باب فی لباس النساء، ۴ / ۸۳، الحدیث: ۴۰۹۸)
(2)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’ ’نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے زَنانہ مَردوں اور مردانی عورتوں پر لعنت فرمائی اور ارشاد فرمایا: ’’انہیں اپنے گھروں سے باہر نکال دو۔(بخاری، کتاب اللباس، باب اخراج المتشبّہین بالنساء من البیوت، ۴ / ۷۴، الحدیث: ۵۸۸۶)
(3)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’عورتوں سے مُشابہت اختیار کرنے والے مرد اور مردوں سے مشابہت کرنے والی عورتیں صبح شام اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے غضب میں ہوتے ہیں۔(شعب الایمان، السابع والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۴ / ۳۵۶، الحدیث: ۵۳۸۵)
(4)…حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے بالوں میں دوسرے کے بال لگانے والی اور لگوانے والی اور بدن گودنے والی اور گدوانے والی پر لعنت فرمائی۔(مسلم، کتاب اللباس والزینۃ، باب تحریم فعل الواصلۃ والمستوصلۃ۔۔۔ الخ، ص۱۱۷۵، الحدیث: ۱۱۹(۲۱۲۴))
یَعِدُهُمْ وَ یُمَنِّیْهِمْؕ-وَ مَا یَعِدُهُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا(120)اُولٰٓىٕكَ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ٘- وَ لَا یَجِدُوْنَ عَنْهَا مَحِیْصًا(121) وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-وَعْدَ اللّٰهِ حَقًّاؕ-وَ مَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰهِ قِیْلًا(122)
ترجمہ: شیطان انہیں وعدے دیتا ہے اور آرزوئیں دلاتا ہے اور شیطان انہیں صرف فریب کے وعدے دیتا ہے۔ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور یہ اس سے بچنے کی جگہ نہ پائیں گے۔اور جو ایمان لائے اور اچھے کام کرے تو عنقریب ہم انہیں ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ، (یہ) اللہ کا سچا وعدہ ہے اور اللہ سے زیادہ کس کی بات سچی ہے؟
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{یَعِدُهُمْ: شیطان انہیں وعدے دیتا ہے۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے شیطان کا طریقہ واردات بیان فرمایا کہ یہ لوگوں کو طرح طرح کی اُمیدیں دلاتا اور وسوسے ڈالتا ہے تاکہ انسان گمراہی میں پڑے جیسے مشرکوں کو ان کا شرک اچھا کر کے دکھاتا ہے، منافقوں کو ان کی منافقت پسند کرواتا ہے، گناہ کے کام کرنے والوں مثلاً فلمیں بنانے، گانے بجانے والوں کو ان کے کام کلچر، تہذیب، آزادی اور روشن خیالی جیسے ناموں سے مرغوب کرکے دکھاتا ہے، یونہی ریاکاری، شادی بیاہ کی غلط رسومات اورفضول خرچی کے کام لوگوں سے مقام و مرتبہ اور اسٹیٹس وغیرہ کے نام پر کرواتا ہے لیکن حقیقت ِ حال یہ ہے کہ شیطان انہیں دھوکہ دیتا ہے کیونکہ وہ جس چیز کے نفع اور فائدہ کی تَوَقُّع دلاتا ہے درحقیقت اس میں سخت ضَرَر اور نقصان ہوتا ہے۔
{اُولٰٓىٕكَ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ:ان کا ٹھکانا دوزخ ہے۔} یعنی جو لوگ شیطان کو اپنا دوست بناتے اور اس کی باتوں پر عمل کرتے ہیں ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور یہ لوگ جہنم سے بچنے کی کوئی جگہ نہ پائیں گے بلکہ یہ جہنم میں ضرور داخل ہوں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۱۲۱، ۱ / ۴۳۲)
{وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:اور جو ایمان لائے۔} کفار کے بارے میں وعید بیان کرنے کے بعد یہاں ایمان والوں کے لئے جنت کے وعدہ کا بیان فرمایا گیا، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کیے تو عنقریب ہم انہیں ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے پانی، دودھ، شراب اور شہد کی نہریں بہتی ہیں ، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، یہ اللہ تعالیٰ کا سچا وعدہ ہے اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ کسی کی بات سچی نہیں۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۱۲۲، ۱ / ۴۳۲-۴۳۳، روح البیان، النساء، تحت الآیۃ: ۱۲۲، ۲ / ۲۹۰، ملتقطاً)
لَیْسَ بِاَمَانِیِّكُمْ وَ لَاۤ اَمَانِیِّ اَهْلِ الْكِتٰبِؕ-مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًا یُّجْزَ بِهٖۙ-وَ لَا یَجِدْ لَهٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیْرًا(123)وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ مِنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىٕكَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ نَقِیْرًا(124)
ترجمہ:
نہ تمہاری جھوٹی امیدوں کی کوئی حیثیت ہے اور نہ ہی اہلِ کتاب کی جھوٹی امیدوں کی۔ جو کوئی برائی کرے گا اسے اس کا بدلہ دیا جائے گا اوراللہ کے سوا نہ کوئی اپنا حمایتی پائے گااور نہ مددگار۔ اور جو کوئی مرد ہو یا عورت اچھے عمل کرے اور وہ مسلمان بھی ہو تو یہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان پر تِل کے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًا یُّجْزَ بِهٖ: جو کوئی برائی کرے گا اسے اس کا بدلہ دیا جائے گا۔} یہاں لوگوں سے فرمایا گیا کہ نجات کا دارومدار نہ توتمہاری جھوٹی امیدیں ہیں کہ اے مشرکو! تم نے سوچ رکھا ہے کہ بت تمہیں نفع پہنچائیں گے اور نہ ہی نجات اہلِ کتاب کی جھوٹی امیدوں پر ہے جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں ، ہمیں آگ چند روز سے زیادہ نہ جلائے گی یہود و نصاریٰ کا یہ خیال بھی مشرکین کی طرح باطل ہے بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا قانون یہ ہے کہ جو کوئی برائی کرے گا اسے اس کا بدلہ دیا جائے گاخواہ مشرکین میں سے ہو یا یہودو نصاریٰ میں سے اور کافر اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوانہ کوئی اپنا حمایتی پائے گااور نہ مددگار، البتہ جو مرد یا عورت نیک عمل کرے اور وہ مسلمان بھی ہو تو یہی با عمل مسلمان لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور یہ اپنے عمل کی جس جزا کے مستحق ہیں اس میں سے تِل کے برابر بھی کم کر کے ان پر ظلم نہیں کیاجائے گا۔
وَ مَنْ اَحْسَنُ دِیْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ وَّ اتَّبَعَ مِلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًاؕ-وَ اتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِیْمَ خَلِیْلًا(125)
ترجمہ: اور اُس سے بہتر کس کا دین جس نے اپنا چہرہ اللہ کے لئے جھکا دیا اور وہ نیکی کرنے والاہو اور وہ ابراہیم کے دین کا پیروکار ہو جو ہر باطل سے جدا تھے اوراللہ نے ابراہیم کو اپنا گہرا دوست بنالیا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَنْ اَحْسَنُ دِیْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ: اور اُس سے بہتر کس کا دین جس نے اپنا چہرہ اللہ کے لئے جھکا دیا} کفار و مشرکین کے مذاہب کا باطل ہونا بیان کرنے کیلئے ایمان والوں کا بیان کیا گیا اور اب ایمان والوں کے امام و پیشوا اور قائد و رہنما حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا بیان کیا جارہا ہے کہ اچھا دین توتابع فرمان مسلمان کا ہے جو اطاعت و اخلاص اختیار کرے اور دینِ ابراہیمی کی پیروی کرے جوکہ دینِ اسلام کے مُوافق ہے ۔حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شریعت و ملت سیدُالانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ملت میں داخل ہے اور دین محمدی کی خصوصیات اس کے علاوہ ہیں۔دین محمدی کی اتباع کرنے سے شریعت ِ ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیروی بھی ہوجاتی ہے۔ چونکہ عرب اور یہود و نصاریٰ سب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے نسبت پر فخر کرتے تھے اور آپ کی شریعت ان سب کو مقبول تھی اور شریعت ِ محمدی اس پر حاوی ہے تو ان سب کو دینِ محمدی میں داخل ہونا اور اس کو قبول کرنا لازم ہے۔
{خَلِیْلًا: گہرا دوست۔} خُلَّت کے معنی ہیں غیر سے مُنقطع ہوجانا، یہ اس گہری دوستی کو کہا جاتا ہے جس میں دوست کے غیر سے اِنقِطاع ہو جائے۔ ایک معنیٰ یہ ہے کہ خلیل اس محب کو کہتے ہیں جس کی محبت کاملہ ہو اور اس میں کسی قسم کا خَلَل اور نقصان نہ ہو ۔یہ معنیٰ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں پائے جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے خلیل و حبیب:
یہ یاد رہے کہ تمام انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جو کمالات ہیں وہ سب کے سب سیدُ الانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حاصل ہیں۔ حضور سیدُالمرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے خلیل بھی ہیں جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے جس طرح حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنا خلیل بنایا اسی طرح مجھے بھی اپنا خلیل بنایا ہے۔(مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب النہی عن بناء المساجد علی القبور۔۔۔ الخ، ص۲۷۰، الحدیث: ۲۳(۵۳۲))
اور اس سے بڑھ کر اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حبیب بھی ہیں جیسا کہ ترمذی شریف کی حدیث میں ہے،حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کا حبیب ہوں اور یہ فخراً نہیں کہتا۔(ترمذی، کتاب المناقب، باب ما جاء فی فضل النبی صلی اللہ علیہ وسلم، ۱-تابع باب، ۵ / ۳۵۴، الحدیث: ۳۶۳۶)
خلیل اور حبیب کا فرق:
بزرگانِ دین نے خلیل و حبیب کے فرق کو یوں بیان فرمایا ہے:
(1)…حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قیامت کے دن رسوائی سے بچنے کی دعا مانگی۔ (الشعراء:۸۷)
جبکہ اللہ تعالیٰ نے خود اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کے صدقے ان کے صحابہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو قیامت کی رسوائی سے بچانے کا مژد ہ سنایا۔( التحریم:۸)
(2)…حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے رب تعالیٰ سے ملاقات کی تمنا کی۔(الصافات :۹۹)
جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خود بلاکر شَرف ملاقات سے سرفراز فرمایا۔ (بنی اسرائیل:۱)
(3)…حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ہدایت کی آرزو فرمائی۔( الصافات:۹۹)
اور حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے خود اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اور تمہیں سیدھی راہ دکھا دے۔(الفتح:۲)
(4)… حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس فرشتے معزز مہمان بن کر آئے ۔ (الذاریات:۲۴)
اور حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کیلئے رب تعالیٰ نے فرمایا:فرشتے ان کے لشکری وسپاہی بنے۔ (التوبہ:۱۰، ال عمران:۱۲۵، التحریم: ۴)
(5)… حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی امت کی مغفرت کی دعا مانگی۔ (ابراہیم:۴۱)
اور حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خود اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اپنی امت کی مغفرت مانگو ۔( محمد:۱۹)
(6)… حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بعد والوں میں اپنا ذکرِ جمیل باقی رہنے کی دعا کی۔(الشعراء:۸۴)
اور حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے خود ربّ کریم عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا: اور ہم نے تمہارے لئے تمہارا ذکر بلند کر دیا۔(الم نشرح:۴)
(7)…حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: انہوں نے قومِ لُوط سے عذاب دور کئے جانے میں بہت کوشش کی۔ (ہود: ۷۴،۷۶۔عنکبوت:۳۲)
اور حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ربِّ غفّار عَزَّوَجَلَّ نے ا رشاد فرمایا: اللہ ان کافروں پر بھی عذاب نہ کرے گا جب تک اے رحمتِ عالم تو ان میں تشریف فرما ہے۔(انفال:۳۳)
(8)… حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عرض کی: اے اللہ ! میری دعا قبول فرما۔ (ابراہیم:۴۰)
اور حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کے ماننے والوں سےاللہ ربُّ الْعٰلَمِیْن عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا: تمہارا رب فرماتا ہے مجھ سے دعا مانگو میں قبول کروں گا(المؤمن: ۶۰)۔(فتاوی رضویہ،۳۰ / ۱۷۸-۱۸۲،ملخصاً)
وَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ مُّحِیْطًا(126)
ترجمہ: اور اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں اور اللہ ہر شے کو گھیرے ہوئے ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ مُّحِیْطًا: اور اللہ ہر شے کو گھیرے ہوئے ہے۔} اللہ عَزَّوَجَلَّ ہر شے کو محیط ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا علم اور قدرت ہر شے کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور کسی شے کے جتنے پہلو ہوسکتے ہیں وہ تمام کے تمام اللہ عَزَّوَجَلَّ کے علم میں ہیں کوئی اس سے خارج نہیں۔ یہاں علمی اِفادے کے طور پر اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی ایک عبارت پیشِ خدمت ہے ، فرماتے ہیں ’’ علم و قدرتِ الٰہی ہر شے کو محیط ہونے کے بھی یہ معنی نہیں کہ ا س کے علم و قدرت ہر جگہ مُتَمَکِّن ہیں کہ جگہ یا طرف میں ہونا جسم و جِسمانِیَّت کی شان ہے اور وہ اور اس کے صفات ان سے مُتَعالی، بلکہ اِحاطۂ علم کے معنی یہ ہیں کہ ہر شے واجب یا ممکن یامُمتَنِع معدوم یا موجود حادث یا قدیم اسے معلوم ہے ۔احاطۂ قدرت کے معنی یہ ہیں کہ ہر ممکن پر اسے قدرت ہے۔(فتاوی رضویہ، ۱۴ / ۶۲۰)
وَ یَسْتَفْتُوْنَكَ فِی النِّسَآءِؕ-قُلِ اللّٰهُ یُفْتِیْكُمْ فِیْهِنَّۙ-وَ مَا یُتْلٰى عَلَیْكُمْ فِی الْكِتٰبِ فِیْ یَتٰمَى النِّسَآءِ الّٰتِیْ لَا تُؤْتُوْنَهُنَّ مَا كُتِبَ لَهُنَّ وَ تَرْغَبُوْنَ اَنْ تَنْكِحُوْهُنَّ وَ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الْوِلْدَانِۙ-وَ اَنْ تَقُوْمُوْا لِلْیَتٰمٰى بِالْقِسْطِؕ-وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِهٖ عَلِیْمًا(127)
ترجمہ: اور آپ سے عورتوں کے بارے میں فتویٰ مانگتے ہیں : تم فرماؤ کہ اللہ اور جو کتاب تمہارے سامنے تلاوت کی جاتی ہے وہ تمہیں ان ( عورتوں ) کے بارے میں فتویٰ دیتے ہیں (کہ ان کے حقوق ادا کرو) اور (وہ تمہیں فتوی دیتا ہے ) ان یتیم لڑکیوں کے بارے میں جنہیں تم ان کا مقرر کیا ہوا (میراث کا) حصہ نہیں دیتے اور ان سے نکاح کرنے سے بے رغبتی کرتے ہو (حکم یہ دیتا ہے کہ تم یہ کام نہ کرو۔) اور کمزور بچوں کے بارے میں (فتوی دیتا ہے کہ ان کے حقوق ادا کرو) اور یتیموں کے حق میں انصاف پر قائم رہو اور تم جو نیکی کرتے ہو تو اللہ اسے جانتا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یَسْتَفْتُوْنَكَ فِی النِّسَآءِ: اور آپ سے عورتوں کے بارے میں فتویٰ مانگتے ہیں۔} شانِ نزول: زمانہِ جاہلِیَّت میں عرب کے لوگ عورت اور چھوٹے بچوں کو میت کے مال کا وارث قرار نہیں دیتے تھے۔ جب آیت ِمیراث نازل ہوئی تو انہوں نے عرض کیا، یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا عورت اور چھوٹے بچے وارث ہوں گے؟ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اُن کو اِس آیت سے جواب دیا ۔ حضرت عائشہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا نے فرمایا کہ یتیموں کے اولیاء کا دستور یہ تھا کہ اگر یتیم لڑکی صاحب ِمال و جمال ہوتی تو اس سے تھوڑے مہر پر نکاح کرلیتے اور اگر حسن و مال نہ رکھتی تو اسے چھوڑ دیتے اور اگرحسنِ صورت نہ رکھتی اور ہوتی مالدار تو اس سے نکاح نہ کرتے اور اس اندیشہ سے دوسرے کے نکاح میں بھی نہ دیتے کہ وہ مال میں حصہ دار ہوجائے گا اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرما کر انہیں ان عادتوں سے منع فرمایا۔ (خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۱۲۷، ۱ / ۴۳۵)
عورتوں اور کمزور لوگوں کو ان کے حقوق دلانااللہ تعالیٰ کی سنت ہے:
قرآنِ پاک میں یتیموں ، بیواؤں اور معاشرے کے کمزو ر و محروم افراد کیلئے بہت زیادہ ہدایات دی گئی ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ یتیموں ، بیواؤں ، عورتوں ، کمزوروں اور محروم لوگوں کو ان کے حقوق دلانا اللہ عَزَّوَجَلَّ کی سنت ہے اور اس کیلئے کوشش کرنا اللہ عَزَّوَجَلَّ کو بہت پسند ہے۔ اس ضمن میں چند احادیث ملاحظہ ہوں:
(1)… حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، ایک شخص نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اپنے دل کی سختی کی شکایت کی تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ تیرا دل نرم ہو جائے ؟اس نے عرض کی: جی ہاں۔ ارشاد فرمایا: تیرے پاس کوئی یتیم آئے تو اس کے سر پہ ہاتھ پھیرو اور اپنے کھانے میں سے اسے کھلاؤ، تیرا دل نرم ہو جائے گا اور تیری حاجتیں بھی پوری ہوں گی۔(مصنف عبد الرزاق، کتاب الجامع، باب اصحاب الاموال، ۱۰ / ۱۳۵، الحدیث: ۲۰۱۹۸)
(2)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے تین یتیموں کی پرورش کی وہ رات کو قیام کرنے والے، دن کو روزہ رکھنے والے اور صبح شام اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی تلوار سونتنے والے کی طرح ہے اورمیں اور وہ جنت میں دو بھائیوں کی طرح ہوں گے جیسا کہ یہ دو بہنیں ہیں۔‘‘ اوراپنی انگشت ِشہادت اور درمیانی انگلی کوملایا۔ (ابن ماجہ، کتاب الادب، باب حقّ الیتیم، ۴ / ۱۹۴، الحدیث: ۳۶۸۰)
(3)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بیواؤں اور مسکینوں پر خرچ کرنے والا راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں جہاد کرنے والے اور رات کو قیام اور دن کو روزہ رکھنے والے کی طرح ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب التجارات، باب الحث علی المکاسب، ۳ / ۶، الحدیث: ۲۱۴۰)
(4)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جو میرے کسی امتی کی حاجت پوری کرے اور اُس کی نیت یہ ہو کہ اِس کے ذریعے اُس امتی کو خوش کرے تو اس نے مجھے خوش کیا اور جس نے مجھے خوش کیا ا س نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کو خوش کیا اور جس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کو خوش کیا اللہ عَزَّوَجَلَّ اسے جنت میں داخل کرے گا۔ (شعب الایمان، الثالث والخمسون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۶ / ۱۱۵، الحدیث: ۷۶۵۳)
وَ اِنِ امْرَاَةٌ خَافَتْ مِنْۢ بَعْلِهَا نُشُوْزًا اَوْ اِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَاۤ اَنْ یُّصْلِحَا بَیْنَهُمَا صُلْحًاؕ-وَ الصُّلْحُ خَیْرٌؕ-وَ اُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّؕ-وَ اِنْ تُحْسِنُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا(128)
ترجمہ:
اور اگر کسی عورت کواپنے شوہر کی زیادتی یا بے رغبتی کا اندیشہ ہوتو ان پر کوئی حرج نہیں کہ آپس میں صلح کرلیں اور صلح بہترہے اور دل کو لالچ کے قریب کردیا گیا ہے۔ اور اگر تم نیکی اور پرہیزگاری اختیار کرو تو اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِنِ امْرَاَةٌ خَافَتْ مِنْۢ بَعْلِهَا نُشُوْزًا: اور اگر کسی عورت کواپنے شوہر کی زیادتی کا اندیشہ ہو۔} قرآن نے گھریلو زندگی اور معاشرتی برائیوں کی اصلاح پر بہت زور دیا ہے اسی لئے جو گناہ معاشرے میں بگاڑ کا سبب بنتے ہیں اور جو چیزیں خاندانی نظام میں بگاڑ کا سبب بنتی ہیں اور خرابیوں کو جنم دیتی ہیں ان کی قرآن میں بار بار اصلاح فرمائی گئی ہے جیسا کہ یہاں فرمایا گیا ہے کہ اگر کسی عورت کواپنے شوہر کی زیادتی یا بے رغبتی کا اندیشہ ہو، زیادتی تو اس طرح کہ شوہر اس سے علیحدہ رہے، کھانے پہننے کو نہ دے یا اس میں کمی کرے یا مارے یا بدزبانی کرے اور اِعراض یعنی منہ پھیرنایہ کہ بیوی سے محبت نہ رکھے، بول چال ترک کردے یا کم کردے۔تو ان پر کوئی حرج نہیں کہ آپس میں اِفہام و تفہیم سے صلح کرلیں جس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ عورت شوہر سے اپنے مُطالبات کچھ کم کردے اور اپنے کچھ حقوق کا بوجھ کم کردے اور شوہر یوں کرے کہ باوجود رغبت کم ہونے کے اس بیوی سے اچھا برتاؤ بَہ تکلف کرے۔ یہ نہیں کہ عورت ہی کو قربانی کا بکرا بنایا جائے۔ مردو عورت کا یوں آپس میں صلح کرلینا زیادتی کرنے اور جدائی ہوجانے دونوں سے بہتر ہے کیونکہ طلاق اگرچہ بعض صورتوں میں جائز ہے مگراللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں نہایت ناپسندیدہ چیز ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے ناپسند چیز طلاق دینا ہے۔(ابو داؤد، کتاب الطلاق، باب کراہیۃ الطلاق، ۲ / ۳۷۰، الحدیث: ۲۱۷۸)
دل لالچ کے پھندے میں پھنسے ہوئے ہیں :
میاں بیوی کے اعتبار سے بھی اور اس سے ہٹ کر بھی معاملہ یہ ہے کہ دل لالچ کے پھندے میں پھنسے ہوئے ہیں، ہر ایک اپنی راحت و آسائش چاہتا ہے اور اپنے اوپر کچھ مشقت گوارا کرکے دوسرے کی آسائش کو ترجیح نہیں دیتا۔ لہٰذا جو شخص دوسرے کی راحت کو مقدم رکھتا ہے اور خود تکلیف اٹھا کر دوسروں کو سکون پہنچاتا ہے وہ بہت باہمت ہے، اسی طرح کی چیزوں کے بارے میں قرآنِ مجیدمیں فرمایا:
وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ﳴ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(سورۂ حشر:۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور اپنی جانوں پر ان کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں شدید محتاجی ہو اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہیں۔
اورارشاد فرمایا:
لَتُبْلَوُنَّ فِیْۤ اَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ- وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْۤا اَذًى كَثِیْرًاؕ-وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ(ال عمران:۱۸۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:بے شک ضرور تمہاری آزمائش ہوگی تمہارے مال اور تمہاری جانوں میں اور بے شک ضرور تم اگلے کتاب والوں اورمشرکوں سے بہت کچھ برا سنو گے اور اگر تم صبرکرو اور بچتے رہو تو یہ بڑی ہمت کا کام ہے ۔
اور ارشاد فرمایا:
وَ لَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَ لَا السَّیِّئَةُؕ-اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَكَ وَ بَیْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ(۳۴)وَ مَا یُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْاۚ-وَ مَا یُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ(سورۂ حم السجدہ۳۴،۳۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور نیکی اور بدی برابر نہ ہوجائیں گی اے سننے والے برائی کو بھلائی سے ٹال جبھی وہ کہ تجھ میں اور اس میں دشمنی تھی ایسا ہوجائے گا جیسا کہ گہرا دوست ۔اور یہ دولت نہیں ملتی مگر صابروں کو اور اسے نہیں پاتا مگر بڑے نصیب والا ۔
حدیث شریف میں ہے، حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جو تم سے قَطع تعلق کرے تم اس سے رشتہ جوڑو اور جو تم پر ظلم کرے تم اس سے درگزر کرو۔(شعب الایمان، السادس والخمسون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۶ / ۲۲۲، الحدیث: ۷۹۵۷)
}وَ اِنْ تُحْسِنُوْا: اور اگر تم نیکی کرو۔{ یہاں بطورِ خاص عورتوں کے حوالے سے فرمایا گیا کہ اے مَردو! اگر تم نیکی اور خوف ِ خدا اختیار کرو اور نامرغوب ہونے کے باوجود اپنی موجودہ عورتوں پر صبر کرو اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو اور انہیں ایذا و رنج دینے سے اور جھگڑا پیدا کرنے والی باتوں سے بچتے رہو اور ان کے ساتھ زندگی گزارنے میں نیک سلوک کرو اور یہ جانتے رہو کہ وہ تمہارے پاس امانتیں ہیں اوریہ جان کرحسن سلوک کرتے رہو تواللہ عَزَّوَجَلَّ تمہیں تمہارے اعمال کی جزا دے گا۔
وَ لَنْ تَسْتَطِیْعُوْۤا اَنْ تَعْدِلُوْا بَیْنَ النِّسَآءِ وَ لَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِیْلُوْا كُلَّ الْمَیْلِ فَتَذَرُوْهَا كَالْمُعَلَّقَةِؕ-وَ اِنْ تُصْلِحُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(129)
ترجمہ:
اور تم سے ہرگز نہ ہوسکے گا کہ عورتوں کو برابر رکھو اگرچہ تم کتنی ہی (اس کی) حرص کرو تو یہ نہ کروکہ (ایک ہی بیوی کی طرف) پورے پورے جھک جاؤ اور دوسری لٹکتی ہوئی چھوڑ دو اور اگر تم نیکی اور پرہیزگاری اختیارکرو تو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَنْ تَسْتَطِیْعُوْۤا اَنْ تَعْدِلُوْا بَیْنَ النِّسَآءِ:اور تم سے ہرگز نہ ہوسکے گا کہ عورتوں کو برابر رکھو۔} یعنی اگر تمہاری ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تویہ تمہاری قدرت میں نہیں کہ ہر چیز میں تم انہیں برابر رکھو اور کسی چیز میں ایک کو دوسری پر ترجیح نہ ہونے دو، نہ میلان و محبت میں اور نہ خواہش ور غبت میں اور نہ نظر وتوجہ میں ، تم کوشش کرکے یہ تو کر نہیں سکتے لیکن اگر اتنا تمہاری قدرت میں نہیں ہے اور اس وجہ سے ان تمام پابندیوں کا بوجھ تمہارے اوپر نہیں رکھا گیا اور قلبی محبت اور طبعی مَیلان جو تمہارے اختیار میں نہیں ہے اس میں برابری کرنے کا تمہیں حکم نہیں دیا گیا تو یہ تو نہ کرو کہ ایک ہی بیوی کی طرف پورے پورے جھک جاؤ اور دوسری بیوی کے لازمی حقوق بھی ادا نہ کرو بلکہ تم پر لازم ہے کہ جہاں تک تمہیں قدرت و اختیار ہے وہاں تک یکساں برتاؤ کرو، محبت اختیار ی شے نہیں تو بات چیت، حسنِ اخلاق، کھانے، پہننے، پاس رکھنے اور ایسے امور جن میں برابری کرنا اختیار میں ہے ان امور میں دونوں کے ساتھ ضرور یکسا ں سلوک کرو۔
وَ اِنْ یَّتَفَرَّقَا یُغْنِ اللّٰهُ كُلًّا مِّنْ سَعَتِهٖؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ وَاسِعًا حَكِیْمًا(130)
ترجمہ: اور اگر وہ (میاں بیوی) دونوں جدا ہوجائیں تو اللہ اپنی وسعت سے ہر ایک کو دوسرے سے بے نیاز کردے گا اوراللہ وسعت والا، حکمت والا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِنْ یَّتَفَرَّقَا: اور اگر وہ دونوں جدا ہوجائیں۔} یعنی اگر میاں بیوی میں صلح نہ ہوسکے اور طلاق واقع ہو جائے تو دونوں اللہ عَزَّوَجَلَّ پر توکل کریں ، اللہ کریم ،عورت کو اچھا خاوند اور مرد کو اچھی بیوی عطا فرما دے گا اور وسعت بھی بخشے گا۔
عورت اور مرد بالکل ایک دوسرے کے محتاج نہیں :
اس آیت سے معلوم ہوا کہ نہ عورت بالکل مرد کی محتاج ہے اور نہ مرد بالکل عورت کا حاجت مند، سب رب عَزَّوَجَلَّ کے حاجت مند ہیں ، ایک دوسرے کے بغیر کام چل سکتا ہے۔ عام طور پر طلاق کے بعد عورت اور اس کے گھر والے بہت غمزدہ ہوتے ہیں۔ ایسے موقع پر اگر یہ آیتِ مبارکہ بار بار پڑھی جائے تو اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ دل کو تسکین ملے گی اور اللہ عَزَّوَجَلَّ مناسب حل بھی عطا فرما دے گا۔ اس میں شوہروں کو بھی ہدایت ہے کہ وہ اپنے آپ کو بیویوں کے مالک و مختار نہ سمجھیں اور یہ نہ سمجھیں کہ اگر انہوں نے چھوڑ دیا تو اب کائنات میں کوئی ان عورتوں کا سہارا نہیں رہے گا۔ نہیں نہیں ، اللہ عَزَّوَجَلَّ ان کو سہارا دے گا۔اسی سلسلے میں یہاں ایک مفید وظیفہ پیشِ خدمت ہے۔ اُم المؤمنین حضرت اُم سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہافرماتی ہیں ’’میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جس بندے کو کوئی مصیبت پہنچے اور وہ یہ دعا پڑھ لے ’’اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُونَ اللّٰہُمَّ اْجُرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَاَخْلِفْ لِیْ خَیْرًا مِّنْہَا ‘‘تو اللہ تعالیٰ اسے مصیبت پر ثواب عطا فرمائے گا اورا س سے بہتر چیز اسے عطا کرے گا۔ فرماتی ہیں : جب میرے شوہر حضرت ابو سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا انتقال ہو اتو میں نے یہی دعا پڑھی، اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے بہترین شوہر یعنی رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عطا فرما دئیے۔(مسلم،کتاب الجنائز، باب ما یقال عند المصیبۃ، ص۴۵۷، الحدیث: ۴(۹۱۸))
وَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِؕ-وَ لَقَدْ وَصَّیْنَا الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ اِیَّاكُمْ اَنِ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-وَ اِنْ تَكْفُرُوْا فَاِنَّ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ غَنِیًّا حَمِیْدًا(131)وَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِؕ-وَ كَفٰى بِاللّٰهِ وَكِیْلًا(132)اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ اَیُّهَا النَّاسُ وَ یَاْتِ بِاٰخَرِیْنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى ذٰلِكَ قَدِیْرًا(133)
ترجمہ:
اور اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں اور بیشک ہم نے ان لوگوں کو جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور تمہیں بھی تاکید فرمادی ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہو اور اگر نہ مانو تو بیشک اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ بے نیاز ہے، خوبیوں کا مالک ہے۔ اوراللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں اوراللہ کافی کارساز ہے ۔اے لوگو! اگر وہ چاہے تو تمہیں لے جائے اور دوسروں کو لے آئے اور اللہ اس پر قادرہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ اَیُّهَا النَّاسُ: اے لوگو! اگر وہ چاہے تو تمہیں لے جائے۔}اللہ عَزَّوَجَلَّ کائنات سے غنی ہے۔ ساری کائنات اس کی عبادت کرنے لگے تو اس کی شان میں کوئی اضافہ نہیں ہوجاتا اور ساری دنیا اس کی نافرمان ہوجائے تو اس کی شان میں کوئی کمی نہیں آتی۔ وہ غنی، بے پرواہ ہے وہ چاہے تو تم سب کو فنا کردے اور دوسرے لوگوں کو لے آئے، تمہیں موت دے کر دوسری قوم کو یہاں آباد کردے جیسے فرعون کے ملک کادوسروں کومالک بنا دیا۔ اس کی شان بلند ہے اور وہ ہرشے پر قادر ہے۔ حضرت ابوذر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اے میرے بندو ! تم سب گمراہ ہو سوائے اس کے جسے میں ہدایت دوں لہٰذا مجھ سے ہدایت مانگو میں تمہیں ہدایت دوں گااور تم سب فقیر ہو سوائے اس کے جسے میں غنی کردوں لہٰذا مجھ سے مانگو ، میں تمہیں روزی دوں گااور تم سب مجرم ہو سوائے اس کے جسے میں سلامت رکھوں تو تم میں سے جو یہ جان لے کہ میں بخش دینے پر قادر ہوں پھر مجھ سے معافی مانگے تو میں اسے بخش دوں گا اور پرواہ بھی نہ کروں گا اور اگر تمہارے اگلے پچھلے ، زندہ مردے ، ترو خشک سب میرے بندوں میں سے سب سے نیک بندے کے دل پر ہوجائیں (یعنی سارے انسان اس نیک آدمی کی طرح ہو جائیں ) تو یہ ان کی نیکی میرے ملک میں مچھر کے پر برابر اضافہ نہ کرے گی اور اگر تمہارے اگلے پچھلے زندہ مردے ترو خشک میرے بندوں میں سے بدبخت ترین آدمی کے دل کے مطابق ہو جائیں تو ان کے یہ جرم میرے ملک سے مچھر کے پر برابر کم نہ کریں گے اور اگر تمہارے پچھلے زندہ مردے تر و خشک ایک میدان میں جمع ہوں اور پھر تم میں سے ہر شخص اپنی انتہائی تمنا وآرزو مجھ سے مانگے پھر میں ہر مانگنے والے کو دیدوں تو یہ میرے ملک کے مقابل ایسے ہی کم ہوگا جیسے تم میں سے کوئی دریا پر گزرے اوراس میں سوئی ڈبو ئے پھر اسے اٹھائے (یعنی کچھ بھی کم نہ ہوگا۔) یہ اس لیے ہے کہ میں عطا کرنے والا ہوں ، بہت دینے والا ہوں ، جو چاہتا ہوں کرتا ہوں میری عطا کیلئے صرف میرا فرما دینا کافی ہے اور میرے عذاب کیلئے صرف میرا فرما دینا ہی کافی ہے۔ میرا حکم کسی شئے کے متعلق یہ ہے کہ جب کچھ چاہتا ہوں تو صرف اتنا فرماتا ہوں ’’ہوجا ‘‘تووہ ہوجاتی ہے ۔(ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۴۸-باب، ۴ / ۲۲۲، الحدیث: ۲۵۰۳)
مَنْ كَانَ یُرِیْدُ ثَوَابَ الدُّنْیَا فَعِنْدَ اللّٰهِ ثَوَابُ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا(134)
ترجمہ:
جو دنیا کا انعام چاہتا ہے تو دنیا و آخرت کاانعام اللہ ہی کے پاس ہے اور اللہ ہی سنتا دیکھتا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{مَنْ كَانَ یُرِیْدُ ثَوَابَ الدُّنْیَا: جو دنیا کا انعام چاہے۔}اس کا معنیٰ یہ ہے کہ جس کو اپنے عمل سے دنیا مقصود ہوتو وہ دنیا ہی پاسکتا ہے لیکن وہ ثواب ِآخرت سے محروم رہتا ہے اور جس نے عمل رضائے الٰہی اور ثواب آخرت کے لئے کیا ہو تو اللہ عَزَّوَجَلَّ دنیا و آخرت دونوں میں ثواب دینے والا ہے تو جو شخص اللہ عَزَّوَجَلَّ سے فقط دنیا کا طالب ہو وہ نادان، خسیس اور کم ہمت ہے۔ جب اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پاس دنیا و آخرت سب کچھ ہے تو اس سے دنیا و آخرت کی بھلائی مانگو، مانگنے والے میں ہمت چاہیے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نہ تو دنیا کو اپنا اصل مقصود بنایا جائے کہ آخرت کو فراموش کر دے اور نہ بالکل ترکِ دنیا ہی کر دینی چاہیے۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُهَدَآءَ لِلّٰهِ وَ لَوْ عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَۚ-اِنْ یَّكُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰهُ اَوْلٰى بِهِمَا- فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوٰۤى اَنْ تَعْدِلُوْاۚ-وَ اِنْ تَلْوٗۤا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا(135)
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کے لئے گواہی دیتے ہوئے انصاف پر خوب قائم ہوجاؤ چاہے تمہارے اپنے یا والدین یا رشتے داروں کے خلاف ہی (گواہی) ہو۔ جس پر گواہی دو وہ غنی ہو یا فقیر بہرحال اللہ ان کے زیادہ قریب ہے تو (نفس کی) خواہش کے پیچھے نہ چلوکہ عدل نہ کرو۔ اگر تم ہیر پھیر کرو یا منہ پھیرو تو اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ كُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ: انصاف پر خوب قائم ہوجاؤ۔} اس آیتِ مبارکہ میں عدل و انصاف کے تقاضے پورا کرنے کا اہم حکم بیان کیا گیا اور جو چیزیں آدمی کو ناانصافی کی طرف مائل کرنے کا سبب بن سکتی ہیں ان کو وضاحت کے ساتھ بیان کردیا کہ یہ چیزیں انصاف کرنے میں آڑے نہ آئیں۔ اقرباء پروری، رشتے داروں کی طرف داری کرنا، تعلق والوں کی رعایت کرنا، کسی کی امیری کی وجہ سے اس کی حمایت کرنا یا کسی کی غریبی پر ترس کھاکر دوسرے فریق پر زیادتی کردینا، یہ وہ تمام چیزیں ہیں جو انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں رکاوٹ ہیں ان سب کو شمار کروا کر اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ فیصلہ کرتے ہوئے اور گواہی دیتے ہوئے جو صحیح حکم ہے اس کے مطابق چلو اور کسی قسم کی تعلق داری کا لحاظ نہ کرو حتّٰی کہ اگر تمہارا فیصلہ یا تمہاری گواہی تمہارے سگے ماں باپ کے بھی خلاف ہو تو عدل سے نہ ہٹو۔
حق فیصلے کی عظیم ترین مثال:
اس کی عظیم ترین مثال اس حدیثِ مبارک کی روشنی میں ملاحظہ کریں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں ’’ قبیلہ قریش کی ایک عورت نے چوری کی تو اس کے خاندان والوں نے حضرت اسامہ بن زید رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں سفارش کرنے کے لئے کہا: حضرت اسامہ بن زید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے سفارش کی تو تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: کیا تم اللہ تعالیٰ کی حدوں میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کرتے ہو؟ پھر کھڑے ہوئے اور خطبہ ارشاد فرمایا، پھر فرمایا: تم سے پہلے لوگوں کو اس بات نے ہلاک کیا کہ جب ان میں سے کوئی معزز شخص چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد قائم کر دیتے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد(رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا) بھی چوری کر لیتی تو میں اس کابھی ہاتھ کاٹ دیتا۔ (بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، ۵۶-باب، ۲ / ۴۶۸، الحدیث: ۳۴۷۵)
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ الْكِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ الْكِتٰبِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُؕ-وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِاللّٰهِ وَ مَلٰٓىٕكَتِهٖ وَ كُتُبِهٖ وَ رُسُلِهٖ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا(136)
ترجمہ:
اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر اتاری اور اس کتاب پر جو اس سے پہلے نازل کی (ان سب پرہمیشہ) ایمان رکھو اور جو اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور قیامت کو نہ مانے تو وہ ضرور دور کی گمراہی میں جاپڑا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ: اللہ اور اس کے رسول پرایمان رکھو۔} یہاں اہلِ ایمان کو مخاطب کرکے فرمایا ’’اٰمِنُوْا‘‘ ’’ایمان لاؤ‘‘ اگر یہ خطاب حقیقی مسلمانوں کو ہے تو اس کا معنیٰ ہوگا کہ ایمان پر ثابت قدم رہو ۔اور اگر یہ خطاب یہود و نصاریٰ سے ہو تو معنیٰ یہ ہوں گے کہ اے بعض کتابوں اور بعض رسولوں پر ایمان لانے والو! تم مکمل ایمان لاؤ یعنی تمام کتابوں اور تمام رسولوں پر جن میں قرآن اور محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی داخل ہیں۔ اور اگر یہ خطاب منافقین سے ہو تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اے ایمان کا ظاہری دعویٰ کرنے والو ! اخلاص کے ساتھ ایمان لے آؤ ۔ یہاں جو فرمایا گیا کہ رسول اور کتاب پر ایمان لاؤ تو رسول سے سیدُ الانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور کتاب سے قرآنِ پاک مراد ہے۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ اہلِ ایمان کا لفظ حقیقی معنیٰ کے اعتبار سے موجودہ زمانے میں صرف مسلمانوں پر بولا جاسکتا ہے، کسی اور مذہب والے پر خواہ وہ یہودی ہو یا عیسائی اس لفظ کو نہیں بول سکتے۔ آیت میں فرمایا گیا ہے کہ تم اللہ عَزَّوَجَلَّ پر اور اس کے رسول، محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اور قرآن پر اور اس سے پہلی ہر کتاب اور رسول پر ایمان لاؤ۔ اس سے معلوم ہوا کہ تمام کتابوں پر ایمان لانا ضروری ہے مگر عمل صرف قرآن شریف پر ہی ہوگا۔ ان کتابوں کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا چاہیے کہ یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بھیجی ہوئی کتابیں ہیں۔
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا ثُمَّ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا ثُمَّ ازْدَادُوْا كُفْرًا لَّمْ یَكُنِ اللّٰهُ لِیَغْفِرَ لَهُمْ وَ لَا لِیَهْدِیَهُمْ سَبِیْلًاﭤ(137)
ترجمہ: بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے پھر کافر ہوگئے پھر ایمان لائے پھر کافر ہوگئے پھر کفر میں اور بڑھ گئے تو اللہ ہرگز نہ انہیں بخشے گااورنہ انہیں راہ دکھائے گا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: بیشک جو ایمان لائے۔} شانِ نزول: حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمانے فرمایا کہ یہ آیت یہود یوں کے بارے میں نازل ہوئی جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لائے پھر بچھڑے کی پوجا کر کے کافر ہوئے پھر اس کے بعد ایمان لائے پھر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور انجیل کا انکار کرکے کافر ہوگئے پھر محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور قرآن کا انکار کرکے اور کفر میں بڑھ گئے۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت منافقین کے بارے میں نازل ہوئی کہ وہ ایمان لائے پھرایمان کے بعد کافر ہوگئے پھر ایمان لائے یعنی انہوں نے اپنے ایمان کا اظہار کیا تاکہ ان پر مؤمنین کے احکام جاری ہوں پھر کفر میں بڑھے یعنی کفر پر ان کی موت ہوئی۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۱۳۷، ۱ / ۴۴۰)
ان کے متعلق فرمایا گیا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ انہیں نہیں بخشے گا یعنی جبکہ یہ کفر پر رہیں اور کفر پر مریں کیونکہ کفر بخشا نہیں جاتا مگر جب کہ کافر توبہ کرے اور ایمان لائے توبخشش کا مستحق ہوگیا جیسا کہ ایک اور مقام پر فرمایا:
قُلْ لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ یَّنْتَهُوْا یُغْفَرْ لَهُمْ مَّا قَدْ سَلَفَ(انفال:۳۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:تم کافروں سے فرماؤ اگر وہ باز رہے تو جو ہو گزرا وہ انہیں معاف فرمادیا جائے گا۔
حدیث شریف میں ہے’’اسلام سارے سابقہ گناہوں کو ختم کردیتا ہے۔(مسلم، کتاب الایمان، باب کون الاسلام یہدم ما قبلہ۔۔۔ الخ، ص۷۴، الحدیث: ۱۹۲(۱۲۱))
بَشِّرِ الْمُنٰفِقِیْنَ بِاَنَّ لَهُمْ عَذَابًا اَلِیْمَاﰳ(138)الَّذِیْنَ یَتَّخِذُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَؕ-اَیَبْتَغُوْنَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَاِنَّ الْعِزَّةَ لِلّٰهِ جَمِیْعًاﭤ(139)
ترجمہ:
منافقوں کو خوشخبری دوکہ ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ وہ جو مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے ہیں ۔ کیا یہ ان کے پاس عزت ڈھونڈتے ہیں ؟ تو تمام عزتوں کا مالک اللہ ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَّذِیْنَ یَتَّخِذُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ:وہ جو مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے ہیں۔} اس سے پہلی آیتِ مبارکہ میں منافقوں کیلئے دردناک عذاب کی وعید بیان کی گئی ہے اور پھر منافقوں کی ایک کرتوت بھی بیان کی گئی ہے کہ یہ مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے ہیں کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اسلام غالب نہ ہوگا اور اس لئے وہ کفار کو صاحبِ قوت و شوکت سمجھ کر ان سے دوستی کرتے تھے اور ان سے ملنے میں عزت جانتے تھے حالانکہ کفار کے ساتھ دوستی ممنوع ہے اور ان سے ملنے میں عزت سمجھنا باطل ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کافروں سے محبت اور دوستی رکھنا منافقوں کی علامت ہے خصوصاً مسلمانوں کے مقابلہ میں۔ ایسے سب لوگوں کے متعلق فرمایا جارہا ہے کہ کیا یہ لوگوں کے پاس جاکر عزت تلاش کرتے ہیں حالانکہ تمام عزتوں کا مالک اللہ عَزَّوَجَلَّ ہے تو وہی خداوند ِ کریم ہی عزت والا ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا سے وہ عزت والے جنہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ عزت دے جیسے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور مؤمنین۔ منافقوں کے مذکورہ بالا طرزِ عمل کو سامنے رکھ کر آج دنیا کے حالات کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ یہ مرض آج کل بکثرت پایا جارہا ہے، اپنوں کو چھوڑ کر بیگانوں سے دوستیاں ، مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں سے پیار، باہمی اتحاد سے عزت حاصل کرنے کی بجائے کفار کے قدموں میں بیٹھ کر عزت حاصل کرنے کی کوشش کرنامسلمان قوم میں کس طرح سرایت کئے ہوئے ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عقلِ سلیم عطا فرمائے۔
وَ قَدْ نَزَّلَ عَلَیْكُمْ فِی الْكِتٰبِ اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰیٰتِ اللّٰهِ یُكْفَرُ بِهَا وَ یُسْتَهْزَاُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوْا مَعَهُمْ حَتّٰى یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِهٖۤ ﳲ اِنَّكُمْ اِذًا مِّثْلُهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ جَامِعُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ الْكٰفِرِیْنَ فِیْ جَهَنَّمَ جَمِیْعَاﰳ(140)
ترجمہ:
اور بیشک اللہ تم پر کتاب میں یہ حکم نازل فرماچکا ہے کہ جب تم سنو کہ اللہ کی آیتوں کا انکار کیا جا رہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جارہا ہے تو ان لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھو جب تک وہ کسی دوسری بات میں مشغول نہ ہوجائیں ورنہ تم بھی انہیں جیسے ہو جاؤ گے۔ بیشک اللہ منافقوں اور کافروں سب کو جہنم میں اکٹھا کرنے والا ہے ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَدْ نَزَّلَ عَلَیْكُمْ فِی الْكِتٰبِ: اور بیشک اللہ تم پر کتاب میں یہ حکم نازل فرماچکا ہے۔} اِس آیتِ مبارکہ میں واضح طور پر فرما دیا کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں اور ان کا مذاق اڑاتے ہیں جب وہ اِس خبیث فعل میں مصروف ہوں تو ان کے پاس نہ بیٹھو بلکہ حکم یہ ہے کہ ایسی جگہ پر جاؤ ہی نہیں اور اگر جانا پڑجائے تو جب ہاتھ سے روکنا ممکن ہو تو ہاتھ سے روکو اور اگر زبان سے روک سکتے ہو تو زبان سے روکو اور اگر یہ بھی نہ کرسکو تو دل میں اس حرکت سے نفرت کرتے ہوئے وہاں سے اٹھ جاؤ اور ان کی ہم نشینی ہرگز اختیار نہ کرو کیونکہ جب قرآن، شریعت یا دین کا مذاق اڑایا جارہا ہو اور اس کے باوجود کوئی آدمی وہاں بیٹھا رہے تو یاتو یہ خود اِس فعل میں مبتلا ہوجائے گا یا ان کی صحبت کی نحوست سے متاثر ہوگا یا کم از کم اتناتو ثابت ہوہی جائے گا کہ اِس شخص کے دل میں بھی دین کی قدر و قیمت نہیں ہے کیونکہ اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، قرآنِ مجید اور دین مبین سے محبت ہوتی تو جہاں اِن کا مذاق اڑایا جارہا ہے وہاں ہرگز نہ بیٹھتا کیونکہ انسانی فطرت ہے کہ جہاں آدمی کے پیارے کو برا کہا جائے وہاں وہ نہیں بیٹھتا جیسے کسی کے ماں باپ کو جس جگہ گالی دی جائے وہاں بیٹھنا آدمی برداشت نہیں کرسکتا۔ تو جب ماں باپ کی توہین اور گالی والی جگہ پر بیٹھناآدمی کو گوارا نہیں تو جہاں اللہ تعالیٰ، رسول اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور قرآن و دین کا مذاق اڑایا جارہا ہو وہاں کوئی مسلمان کیسے بیٹھ سکتا ہے؟ کیا مَعَاذَاللہ، اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے پیارے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قدر ماں باپ کے بھی برابر نہیں ہے۔
بری صحبت کی مذمت:
اس آیت سے وہ لوگ سبق حاصل کریں جو فلموں ، ڈراموں ، گانوں ،تھیٹروں ، دوستوں کی گپوں اور بدمذہبوں کی صحبتوں میں دین کا مذاق اڑتا ہوا دیکھتے ہیں اور پھر بھی وہاں بیٹھتے رہتے ہیں بلکہ مَعَاذَ اللہ ان کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہوتے ہیں۔ بری صحبت کے بارے میں احادیث بکثرت ہیں۔ ان میں سے 5 احادیث درج ذیل ہیں:
(1)…رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’برے ساتھی سے بچ کہ تو اسی کے ساتھ پہچانا جائے گا (یعنی جیسے لوگوں کے پاس آدمی کی نشست وبرخاست ہوتی ہے لوگ اسے ویساہی جانتے ہیں۔)(ابن عساکر، الحسین بن جعفر بن محمد بن حمدان۔۔۔ الخ، ۱۴ / ۴۶)
(2)…حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےارشاد فرمایا: نیک اور برے ہم نشین کی مثال ایسی ہے جیسے ایک کے پاس مشک ہے اور دوسرا دھونکنی دھونک رہا ہے مشک والا یا تو تجھے مشک ویسے ہی دے گا یاتو اس سے خرید لے گا اور کچھ نہ سہی تو خوشبو توآئے گی اور وہ دوسرا تیرے کپڑے جلادے گا یاتو اس سے بدبوپائے گا۔ (بخاری، کتاب البیوع، باب فی العطار وبیع المسک، ۲ / ۲۰، الحدیث: ۲۱۰۱)
(3)…حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جو کسی بد مذہب کوسلام کرے یا اس سے بکشادہ پیشانی ملے یا ایسی بات کے ساتھ اس سے پیش آئے جس میں اس کا دل خوش ہو تواس نے اس چیز کی تحقیر کی جو اللہ تعالیٰ نے محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اتاری۔(تاریخ بغداد، ۵۳۷۸- عبد الرحمٰن بن نافع، ابوزیاد المخرّمی۔۔۔ الخ، ۱۰ / ۲۶۲)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رحمتِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ا رشاد فرمایا: ’’تم ان سے دور رہو اور وہ تم سے دور رہیں کہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کر دیں اور فتنے میں نہ ڈال دیں۔(صحیح مسلم، باب النہی عن الروایۃ عن الضعفاء والاحتیاط فی تحمّلہا، ص۹، الحدیث: ۷(۷))
(4)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عالیشان ہے :’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، لہٰذا تم میں سے ہر ایک کو چاہئے کہ وہ دیکھے کس سے دوستی کررہا ہے۔ (ترمذی، کتاب الزہد، ۴۵-باب، ۴ / ۱۶۷، الحدیث: ۲۳۸۵)
الَّذِیْنَ یَتَرَبَّصُوْنَ بِكُمْۚ-فَاِنْ كَانَ لَكُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللّٰهِ قَالُوْۤا اَلَمْ نَكُنْ مَّعَكُمْ ﳲ وَ اِنْ كَانَ لِلْكٰفِرِیْنَ نَصِیْبٌۙ-قَالُوْۤا اَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَیْكُمْ وَ نَمْنَعْكُمْ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَؕ-فَاللّٰهُ یَحْكُمُ بَیْنَكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-وَ لَنْ یَّجْعَلَ اللّٰهُ لِلْكٰفِرِیْنَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلًا(141)
ترجمہ:
وہ جو تمہارے اوپر (گردشِ زمانہ) کا انتظار کرتے رہتے ہیں پھر اگر اللہ کی طرف سے تمہیں فتح ملے تو کہتے ہیں :کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ اور اگر کافروں کے لئے(فتح کا) حصہ ہو تو (ان سے) کہتے ہیں : کیا ہم تم پر غالب نہ تھے ؟ اور (کیا) ہم نے مسلمانوں کو تم سے روکے (نہ) رکھا؟ تو اللہ تمہارے درمیان قیامت کے دن فیصلہ کردے گا اور اللہ کافروں کو مسلمانوں پر کوئی راہ نہ دے گا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَّذِیْنَ یَتَرَبَّصُوْنَ بِكُمْ: وہ جو تم پر انتظار کرتے ہیں۔} یہاں منافقوں کی حالت کا بیان ہے کہ اے مسلمانو! یہ منافق تمہارے اوپر گردشِ زمانہ کا انتظار کرتے ہیں پھر اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے تمہیں فتح ملے تو مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ لہٰذا ہمیں بھی مالِ غنیمت دو۔ اور اگر کافروں کوفتح نصیب ہوجائے تو ان سے کہتے ہیں کہ کیا ہم تم پر غالب نہ تھے کہ تمہیں پکڑ سکتے تھے مگر پھر بھی ہم نے تمہیں نہ پکڑ کرتمہاری مدد کی اور ہم نے مسلمانوں کو تم سے روکے رکھا لہٰذا ہمارا حصہ دو۔ الغرض منافقوں کی زندگی صرف اپنے مفاد کے گرد گھومتی ہے وہ کسی کے ساتھ بھی حقیقی طور پر مخلص نہیں۔
اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ هُوَ خَادِعُهُمْۚ-وَ اِذَا قَامُوْۤا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰىۙ-یُرَآءُوْنَ النَّاسَ وَ لَا یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِیْلًا(142)
ترجمہ: بیشک منافق لوگ اپنے گمان میں اللہ کو فریب دینا چاہتے ہیں اور وہی انہیں غافل کرکے مارے گا اور جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں توبڑے سست ہوکر لوگوں کے سامنے ریاکاری کرتے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں اور اللہ کو بہت تھوڑا یاد کرتے ہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ: بیشک منافق لوگ اپنے گمان میں اللہ کو فریب دینا چاہتے ہیں۔} یہاں منافقوں کی ایک اور بری خصلت کا بیان ہے وہ یہ کہ یہ اپنے گمان میں اللہ تعالیٰ کو دھوکا دینا چاہتے ہیں ، حقیقتاً تو مسلمانوں کو دھوکا دینا چاہتے ہیں کیونکہ حقیقت میں تو اللہ تعالیٰ کو فریب دینا ممکن نہیں۔ ان کے اس فریب کا جواب انہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ دے گا کہ انہیں غافل کرکے مارے گا، دنیا میں انہیں رسوا کرے گا اور قیامت میں انہیں عذاب میں مبتلا کرے گا۔ ان منافقوں کی علامت یہ ہے کہ جب مؤمنین کے ساتھ نماز کیلئے کھڑے ہوتے ہیں تو مرے دل سے او ر سستی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں کیونکہ ان کے دلوں میں ایمان تو ہے نہیں جس سے عبادت کا ذوق اور بندگی کا لطف انہیں حاصل ہوسکے ،محض لوگوں کو دکھانے کیلئے نماز پڑھتے ہیں۔
نماز میں سستی کرنا منافقوں کی علامت ہے:
اس سے معلوم ہوا کہ نماز میں سستی کرنا منافقوں کی علامت ہے ۔نماز نہ پڑھنایا صرف لوگوں کے سامنے پڑھنا جبکہ تنہائی میں نہ پڑھنا یالوگوں کے سامنے خشوع و خضوع سے اور تنہائی میں جلدی جلدی پڑھنایا نماز میں ادھر ادھر خیال لیجانا، دلجمعی کیلئے کوشش نہ کرنا وغیرہ سب سستی کی علامتیں ہیں۔
نماز میں خشوع و خضوع پیدا کرنے کا آسان نسخہ:
کسی نے حضرت حاتم اصم رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے ان کی نماز کے بارے میں پوچھا تو فرمایا: جب نماز کا وقت قریب آتا ہے تو میں کامل وضو کرتا ہوں پھر جس جگہ نماز ادا کرنے کا ارادہ ہوتا ہے وہاں آ کر اتنی دیر بیٹھ جاتا ہوں کہ میرے اَعضا اکٹھے ہو جائیں، اس کے بعد یہ تصور باندھ کر نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہوں کہ کعبہ معظمہ میرے سامنے ہے، پل صراط میرے قدموں کے نیچے ہے، جنت میرے دائیں طرف اور جہنم بائیں طرف ہے، مَلَکُ الْموت عَلَیْہِ السَّلَام میرے پیچھے کھڑے ہیں اور میرا یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ میری آخری نماز ہے، پھر میں امید اور خوف کے درمیان قیام کرتا ہوں اور جیسے تکبیر کہنی چاہئے ویسے تکبیر کہتا ہوں اور ٹھہر ٹھہر کر قراءت کرتا ہوں ، عاجزی کے ساتھ رکوع کرتا ہوں ، ڈرتے ہوئے سجدہ کرتا ہوں، بائیں پنڈلی پر بیٹھ کر اپنے قدم کا پچھلا حصہ بچھا دیتا ہوں اور دایاں قدم انگوٹھے پر کھڑا کر دیتا ہوں ، پھر اخلاص کے ساتھ باقی افعال ادا کرتا ہوں اب میں نہیں جانتا کہ میری نماز قبول بھی ہوئی یا نہیں۔(احیاء علوم الدین، کتاب اسرار الصلاۃ ومہماتہا، الباب الاول، فضیلۃ الخشوع، ۱ / ۲۰۶)
مُّذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِكَ ﳓ لَاۤ اِلٰى هٰۤؤُلَآءِ وَ لَاۤ اِلٰى هٰۤؤُلَآءِؕ-وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ سَبِیْلًا(143)
ترجمہ: درمیان میں ڈگمگا رہے ہیں ،نہ اِن کی طرف ہیں نہ اُن کی طرف اور جسے اللہ گمراہ کرے تو تم اس کے لئے کوئی راستہ نہ پاؤ گے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{مُذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِكَ: درمیان میں ڈگمگا رہے ہیں۔} یعنی منافقین کفر اور ایمان کے درمیان ڈگمگارہے ہیں کیونکہ نہ تو یہ حقیقی طور پر مومن اور مخلص ایمان والوں کے ساتھ ہیں اور نہ واضح طور پر کافر اور صریح شرک کرنے والوں کے ساتھ ہیں اور اے حبیب !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان منافقین کے راہِ راست پر آنے کی امید نہ رکھیں کیونکہ جسے ہدایت و توفیق کی لیاقت نہ ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ گمراہ کر دے تو آپ ا س کے لئے کوئی ایسا راستہ نہ پائیں گے جس پر چل کر وہ حق تک پہنچ سکے۔ (خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۱۴۳، ۱ / ۴۴۲، روح البیان، النساء، تحت الآیۃ: ۱۴۳، ۲ / ۳۰۸، ملتقطاً)
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَؕ-اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ عَلَیْكُمْ سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا(144)
ترجمہ: اے ایمان والو! مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بناؤ۔ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اپنے اوپر اللہ کے لئے صریح حجت قائم کرلو۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اَوْلِیَآءَ: دوست۔} اس آیت میں مسلمانوں کو بتایا گیا کہ کفار کو دوست بنانا منافقین کی خصلت ہے ، لہٰذا تم اس سے بچو۔ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ کافروں کو دوست بنا کر منافقت کی راہ اختیار کرو اور یوں اپنے خلاف اللہ تعالیٰ کی حجت قائم کرلو۔
اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِۚ-وَ لَنْ تَجِدَ لَهُمْ نَصِیْرًا(145)
ترجمہ: بیشک منافق دوزخ کے سب سے نچلے طبقے میں ہیں اور تو ہرگز ان کا کوئی مددگار نہ پائے گا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ:بیشک منافق دوزخ کے سب سے نچلے طبقے میں ہیں۔}ارشاد فرمایا کہ بیشک منافق لوگ دوزخ کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے اور تو ہرگز ان کا کوئی مددگار نہ پائے گا جو انہیں عذاب سے بچا سکے اور جہنم کے سب سے نچلے طبقے سے انہیں باہرنکال سکے۔ (روح البیان، النساء، تحت الآیۃ: ۱۴۵، ۲ / ۳۰۹)
یاد رہے کہ منافق کا عذاب کافر سے بھی زیادہ ہے کیونکہ وہ دنیا میں خود کو مسلمان کہہ کرکے مجاہدین کے ہاتھوں سے بچا رہاہے اور کافر ہونے کے باوجود مسلمانوں کو دھوکہ دینا اور اسلام کے ساتھ اِستِہزاء کرنا اس کا شیوہ رہا ہے۔
اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا وَ اَصْلَحُوْا وَ اعْتَصَمُوْا بِاللّٰهِ وَ اَخْلَصُوْا دِیْنَهُمْ لِلّٰهِ فَاُولٰٓىٕكَ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَؕ-وَ سَوْفَ یُؤْتِ اللّٰهُ الْمُؤْمِنِیْنَ اَجْرًا عَظِیْمًا(146)مَا یَفْعَلُ اللّٰهُ بِعَذَابِكُمْ اِنْ شَكَرْتُمْ وَ اٰمَنْتُمْؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ شَاكِرًا عَلِیْمًا(147)
ترجمہ:
مگر وہ لوگ جنہوں نے توبہ کی اور اپنی اصلاح کرلی اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیا اور اپنا دین خالص اللہ کے لئے کرلیا تو یہ مسلمانوں کے ساتھ ہیں اور عنقریب اللہ مسلمانوں کو بڑا ثواب دے گا۔ اور اگر تم شکر گزار بن جاؤ اور ایمان لاؤتو اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا اور اللہ قدر کرنے والا، جاننے والاہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا:مگر وہ لوگ جنہوں نے توبہ کی۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے اپنے نفاق سے توبہ کر لی اور اپنے فاسد احوال کی اصلاح کر لی اور اللہ تعالیٰ کے دین کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیا اور اپنا دین خالص اللہ تعالیٰ کے لئے کرلیا اور اس کی اطاعت میں صرف اسی کی رضا چاہی تو ایسے لوگ جنت کے بلند درجات میں مسلمانوں کے ساتھ ہیں اور انہیں ان کا سابقہ نفاق کوئی نقصان نہ دے گا اور عنقریب اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو بڑا ثواب دے گا جس میں یہ نفاق سے سچی توبہ کرنے والے بھی شریک ہوں گے اور اے لوگو! اگر تم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بن جاؤ اور ا س پرایمان لاؤتو اللہ تعالیٰ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا اور اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ شکر گزار مسلمانوں کی قدر کرنے والا اور انہیں جاننے والاہے۔ (روح البیان، النساء، تحت الآیۃ: ۱۴۶-۱۴۷، ۲ / ۳۰۹-۳۱۱)
لَا یُحِبُّ اللّٰهُ الْجَهْرَ بِالسُّوْٓءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ سَمِیْعًا عَلِیْمًا(148)
ترجمہ: بری بات کا اعلان کرنا اللہ پسند نہیں کرتا مگر مظلوم سے اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{لَا یُحِبُّ اللّٰهُ الْجَهْرَ بِالسُّوْٓءِ مِنَ الْقَوْلِ:بری بات کا اعلان کرنااللہ پسند نہیں کرتا۔}ایک قول یہ ہے کہ بری بات کے اعلان سے مراد کسی کے پوشیدہ معاملات کو ظاہر کرنا ہے جیسے کسی کی غیبت کرنا یا کسی کی چغلی کھانا وغیرہ۔(جمل، النساء، تحت الآیۃ: ۱۴۸، ۲ / ۱۴۴)
یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ اس بات کو پسند نہیں فرماتا کہ کوئی شخص کسی کے پوشیدہ معاملات کو ظاہر کرے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ بری بات کے اعلان سے مراد گالی دینا ہے۔(مدارک، النساء، تحت الآیۃ: ۱۴۸، ص۲۶۱)
یعنی اللہ تعالیٰ اس بات کوپسند نہیں کرتا کہ کوئی کسی کو گالی دے۔
ایک دوسرے کو گالی دینے کی مذمت:
گالی دینا گناہ اور مسلمان کی شان سے بعید ہے۔ اس کے بارے میں 3 اَحادیث درج ذیل ہیں۔
(1)…حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس پر ظلم نہیں کرتا اور نہ اسے گالی دیتا ہے۔ (شرح السنہ، کتاب البر والصلۃ، باب الستر، ۶ / ۴۸۹، الحدیث: ۳۴۱۲)
(2)…حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: مسلمان کو گالی دینا فِسق اور اسے قتل کرنا کفرہے۔ (بخاری، کتاب الفتن، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: لا ترجعوا بعدی کفّاراً۔۔۔ الخ، ۴ / ۴۳۴، الحدیث: ۷۰۷۶)
(3)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: آپس میں گالی دینے والے دو آدمی جو کچھ کہیں تووہ (یعنی اس کا وَبال) ابتداء کرنے والے پر ہے جب تک کہ مظلوم حد سے نہ بڑھے۔ (مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب النہی عن السباب، ص۱۳۹۶، الحدیث: ۶۸(۲۵۸۷))
بری بات کا اعلان اللہ عَزَّوَجَلَّ کو پسند نہیں البتہ مظلوم کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ ظالم کے ظلم کو بیان کرے، لہٰذا وہ چور یا غاصب کی نسبت کہہ سکتا ہے کہ اس نے میرا مال چرایایا غصب کیاہے۔ (جمل، النساء، تحت الآیۃ: ۱۴۸، ۲ / ۱۴۵)
اس آیتِ مبارکہ کا شانِ نزول یہ ہے کہ ایک شخص ایک قوم کا مہمان ہوا تھا اور انہوں نے اچھی طرح اس کی میزبانی نہ کی، جب وہ وہاں سے نکلا تو اُن کی شکایت کرتا ہوانکلا ۔ (بیضاوی، النساء، تحت الآیۃ: ۱۴۸، ۲ / ۲۷۲)
اس واقعہ کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے متعلق نازل ہوئی۔ ایک شخص سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی شان میں زبان درازی کرتا رہا، حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ خاموش رہے مگر وہ باز نہ آیا تو ایک مرتبہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس کو جواب دیدیا، اس پر حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اٹھ کھڑے ہوئے۔ حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا، یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ شخص مجھے برا بھلا کہتا رہا تو حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کچھ نہ فرمایا اور میں نے ایک مرتبہ جواب دیا تو حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اٹھ گئے۔ ارشاد فرمایا ’’ ایک فرشتہ تمہاری طرف سے جواب دے رہا تھا اور جب تم نے جواب دیا تو فرشتہ چلا گیا اور شیطان آگیا۔ اس کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔ (خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۱۴۸، ۱ / ۴۴۴)
مہمان نوازی سے خوش نہ ہونے والوں کو نصیحت:
پہلے یعنی مہمان نوازی والے شانِ نزول کو لیں تو اس سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے جو میزبان کی مہمان نوازی سے خوش نہیں ہوتے اگرچہ گھر والے نے کتنی ہی تنگی سے کھانے کا اہتمام کیا ہو۔ خصوصاً رشتے داروں میں اور بِالخُصوص سسرالی رشتے داروں میں مہمان نوازی پر شکوہ شکایت عام ہے۔ ایک کھانا بنایا تو اعتراض کہ دو کیوں نہیں بنائے؟ دو بنائے تو اعتراض کہ تین کیوں نہیں بنائے؟ نمکین بنایا تو اعتراض کہ میٹھا کیوں نہیں بنایا؟ میٹھا بنایا تو اعتراض کہ فلاں میٹھا کیوں نہیں بنایا؟ الغرض بہت سے مہمان ظلم و زیادتی اور ایذاء رَسانی سے باز نہیں آتے اور ایسے رشتے داروں کو دیکھ کر گھر والوں کی طبیعت خراب ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ حدیثِ مبارک میں مہمان کو حکم دیا گیا ہے کہ کسی مسلمان شخص کے لئے حلال نہیں کہ وہ اپنے (مسلمان) بھائی کے پاس اتنا عرصہ ٹھہرے کہ اسے گناہ میں مبتلا کر دے، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ اسے گناہ میں کیسے مبتلا کرے گا؟ ارشاد فرمایا: وہ اپنے بھائی کے پاس ٹھہرا ہو گا اور حال یہ ہو گا کہ اس کے پاس کوئی ایسی چیز نہ ہوگی جس سے وہ اس کی مہمان نوازی کر سکے۔(مسلم، کتاب اللقطۃ، باب الضیافۃ ونحوہا، ص۹۵۱، الحدیث: ۱۵(۱۷۲۶))
ظالم کے ظلم کو بیان کرنا جائز ہے:
آیت میں مظلوم کو ظلم بیان کرنے کی اجازت دی گئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ مظلوم، حاکم کے سامنے ظالم کی برائی بیان کر سکتا ہے، یہ غیبت میں داخل نہیں۔ اس سے ہزارہا مسائل معلوم ہو سکتے ہیں۔ حدیث کے راویوں کا فسق یا عیب وغیرہ بیان کرنا، چور یا غاصب کی شکایت کرنا، ملک کے غداروں کی حکومت کو اطلاع دینا سب جائز ہے۔ غیبت کے جواز کی جتنی بھی صورتیں ہیں وہ سب کسی نہ کسی بڑے فائدے کی وجہ سے ہیں۔
اِنْ تُبْدُوْا خَیْرًا اَوْ تُخْفُوْهُ اَوْ تَعْفُوْا عَنْ سُوْٓءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا قَدِیْرًا(149)
ترجمہ: اگر تم کوئی بھلائی اعلانیہ کرو یا چھپ کر یا کسی کی برائی سے درگزر کرو تو بیشک اللہ معاف کرنے والا قدرت والا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اِنْ تُبْدُوْا خَیْرًا: اگر تم کوئی بھلائی اعلانیہ کرو۔} ارشاد فرمایا کہ اگر تم کوئی نیک کام اِعلانیہ کرو یا چھپ کریا کسی کی برائی سے درگزر کر و تو یہ افضل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ سزا دینے پر ہر طرح سے قادر ہونے کے باوجود اپنے بندوں کے گناہوں سے درگزر کرتا اور انہیں معاف فرماتا ہے لہٰذا تم بھی اپنے اوپر ظلم وستم کرنے والوں کو معاف کر دواور لوگوں کی غلطیوں سے درگزر کرو۔(تفسیر سمرقندی، النساء، تحت الآیۃ: ۱۴۹، ۱ / ۴۰۱، روح البیان، النساء، تحت الآیۃ: ۱۴۹، ۲ / ۳۱۲، ملتقطاً)
معاف کرنے کے فضائل:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ ظالم سے بدلہ لینا اگرچہ جائز ہے لیکن ظالم سے بدلہ لینے پر قادر ہونے کے باوجود اس کے ظلم پر صبر کرنا اور اسے معاف کر دینا بہتر اور اجر و ثواب کا باعث ہے ،اسی چیز کے بارے میں ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَ اِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖؕ-وَ لَىٕنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ(نحل: ۱۲۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اگر تم (کسی کو) سزا دینے لگو تو ایسی ہی سزا دو جیسی تمہیں تکلیف پہنچائی گئی ہو اور اگر تم صبر کرو تو بیشک صبر والوں کیلئے صبر سب سے بہتر ہے۔
اور ارشاد فرمایا:
وَ لَمَنْ صَبَرَ وَ غَفَرَ اِنَّ ذٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ(شورٰی:۴۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور بیشک جس نے صبر کیااورمعاف کر دیا تو یہ ضرور ہمت والے کاموں میں سے ہے۔
اور ارشاد فرمایا:
وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَةٍ سَیِّئَةٌ مِّثْلُهَاۚ-فَمَنْ عَفَا وَ اَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ(شورٰی:۴۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور برائی کا بدلہ اس کے برابر برائی ہے تو جس نے معاف کیا اور کام سنواراتو اس کا اجر اللہ (کے ذمہ کرم) پر ہے، بیشک وہ ظالموں کوپسند نہیں کرتا۔
اور ارشاد فرمایا:
وَ لْیَعْفُوْا وَ لْیَصْفَحُوْاؕ-اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(نور:۲۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور انہیں چاہیے کہ معاف کردیں اور درگزر کریں ، کیا تم اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہاری بخشش فرما دے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’بے شک اللہ تعالیٰ درگزر فرمانے والا ہے اور درگزر کرنے کو پسند فرماتا ہے۔(مستدرک، کتاب الحدود، اول سارق قطعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ۵ / ۵۴۶، الحدیث: ۸۲۱۶)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عرض کی :اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، تیرے بندوں میں سے کون تیری بارگاہ میں زیادہ عزت والا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’وہ بندہ جو بدلہ لینے پر قادر ہونے کے باوجود معاف کر دے۔(شعب الایمان، السابع والخمسون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی ترک الغضب۔۔۔ الخ، ۶ / ۳۱۹، الحدیث: ۸۳۲۷)
مخلوقِ خدا پر شفقت کے فضائل :
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مخلوقِ خدا پر شفقت و رحم کرنا اللہ عَزَّوَجَل کو بہت محبوب ہے ۔ اَحادیث میں لوگوں پر شفقت و مہربانی اور رحم کرنے کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں ، ترغیب کے لئے 4اَحادیث درجِ ذیل ہیں :
(1)…حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’رحم کرنے والوں پر رحمٰن رحم فرماتا ہے، تم زمین والوں پر رحم کرو آسمانوں کی بادشاہت کا مالک تم پر رحم کرے گا۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی رحمۃ المسلمین، ۳ / ۳۷۱، الحدیث: ۱۹۳۱)
(2)… حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے،رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرے ،نہ اس کی مدد چھوڑے اور جو شخص اپنے بھائی کی حاجت (پوری کرنے کی کوشش) میں ہو اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کی حاجت پوری فرما دیتا ہے اور جو شخص مسلمان سے کسی ایک تکلیف کو دور کرے اللہ عَزَّوَجَلَّ قیامت کی تکالیف میں سے اس کی ایک تکلیف دور کرے گا اور جو شخص مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا،اللہ عَزَّوَجَلَّ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا۔ (بخاری، کتاب المظالم والغصب، باب لا یظلم المسلمُ المسلمَ ولا یسلمہ، ۲ / ۱۲۶، الحدیث: ۲۴۴۲)
(3)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹے پر رحم نہ کرے اورہمارے بڑے کی توقیر نہ کرے اوراچھی بات کا حکم نہ دے اور بری بات سے منع نہ کرے۔ (ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی رحمۃ الصبیان، ۳ / ۳۶۹، الحدیث: ۱۹۲۸)
(4)… حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم میں اچھا وہ شخص ہے جس سے بھلائی کی امید ہو اور جس کے شر سے امن ہو اور تم میں برا وہ شخص ہے جس سے بھلائی کی امید نہ ہو اور جس کے شر سے امن نہ ہو۔(ترمذی، کتاب الفتن، ۷۶-باب، ۴ / ۱۱۶، الحدیث: ۲۲۷۰)
اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ وَ یَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّ نَكْفُرُ بِبَعْضٍۙ-وَّ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِكَ سَبِیْلًا(150)اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ حَقًّاۚ-وَ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّهِیْنًا(151)
ترجمہ:
وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسولوں کو نہیں مانتے اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں میں فرق کریں اور کہتے ہیں ہم کسی پرتو ایمان لاتے ہیں اور کسی کا انکار کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ایمان و کفر کے بیچ میں کوئی راہ نکال لیں ۔تویہی لوگ پکے کافر ہیں اور ہم نے کافروں کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ: اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں میں فرق کریں۔} یہ آیتِ مبارکہ یہود و نصاریٰ کے بارے میں نازل ہوئی کہ یہودی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام پر ایمان لائے لیکن حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور امامُ الانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ انہوں نے کفر کیا اور عیسائی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لائے لیکن انہوں نے سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ کفر کیا۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۱۵۰، ۱ / ۴۴۴)
ان کے متعلق فرمایا کہ یہ لوگ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسولوں پر ایمان لانے میں فرق کرتے ہیں اس طرح کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لائیں اور اس کے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر نہ لائیں اور انہی کے متعلق فرمایا کہ یہ پکے کافر ہیں کیونکہ صرف بعض رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لانا کفر سے نہیں بچاتا بلکہ سب پر ایمان لانا ضروری اور ایک نبی کا انکار بھی تمام انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے انکار کے برابر ہے۔
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ وَ لَمْ یُفَرِّقُوْا بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْ اُولٰٓىٕكَ سَوْفَ یُؤْتِیْهِمْ اُجُوْرَهُمْؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(152)
ترجمہ: اور وہ جو اللہ اور اس کے سب رسولوں پر ایمان لائے اور ان میں سے کسی (پر ایمان لانے) میں فرق نہ کرے تو عنقریب اللہ انہیں ان کے اجر عطا فرمائے گا اوراللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ: اور وہ جو اللہ اور اس کے سب رسولوں پر ایمان لائے۔} یہاں آیت میں ایمان والوں سے اجرو ثواب کا وعدہ فرمایا گیا ہے اور اس میں کبیرہ گناہوں کا مُرْتَکِب بھی داخل ہے کیونکہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے سب رسولوں پر ایمان رکھتا ہے۔
کبیرہ گناہ کرنے والا کافر نہیں :
مُعتَزِلہ فرقے والے کبیرہ گناہ کرنے والوں کیلئے ہمیشہ کے عذاب ِ جہنم کا عقیدہ رکھتے ہیں ، اس آیت سے ان کے اس عقیدہ کا بطلان (یعنی غلط ہونا) ثابت ہوگیا۔ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَ اِنْ طَآىٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا(حجرات: ۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں۔
اس سے بھی معلوم ہوا کہ کبیرہ گناہ کا ارتکاب کفر نہیں کیونکہ جنگ و جِدال گنا ہ ہے لیکن دونوں گروہوں کو مومن فرمایا گیا۔ نیز صحیح بخاری میں ہے، حضرت ابو ذر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سفید کپڑے پہن کر آرام فرما رہے تھے ،پھر میں دوبارہ حاضر ہوا توآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بیدار ہو چکے تھے ،چنانچہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جو بندہ یوں کہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اسی وعدے پر اس کا انتقال ہو جائے تو وہ جنت میں داخل ہوا۔ میں نے عرض کی: خواہ ا س نے زنا یا چوری کی، ارشاد فرمایا ’’خواہ ا س نے زنا یا چوری کی۔ میں نے پھر عرض کی :اگرچہ وہ زنا یا چوری کرے! ارشاد فرمایا ’’اگرچہ وہ زنا یا چوری کرے ،میں نے پھرعرض کی: خواہ ا س نے زنا یا چوری کی، ارشاد فرمایا ’’خواہ ا س نے زنا یا چوری کی،خواہ ابو ذر کی ناک خاک آلود ہو جائے۔ (بخاری، کتاب اللباس، باب الثیاب البیض، ۴ / ۵۷، الحدیث: ۵۸۲۷)
اور حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میری شفاعت میری امت کے ان لوگوں کے لئے ہے جو کبیرہ گناہوں کے مُرْتَکِب ہوں۔(ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۱۱-باب منہ، ۴ / ۱۹۸، الحدیث: ۲۴۴۴)
ان اَحادیث سے بھی معلوم ہو ا کبیرہ گناہ کرنے والا کافر نہیں کیونکہ کافر نہ تو کبھی جنت میں جائے گا اور نہ ہی سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کی شفاعت فرمائیں گے بلکہ جنت میں صرف مسلمان جائیں گے اور تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شفاعت بھی صرف مسلمانوں کو نصیب ہو گی اگرچہ وہ کبیرہ گناہوں کے مرتکب ہوں۔
یاد رہے کہ اہلِ سنت کا اِجماع ہے کہ مومن کسی گناہ کی وجہ سے کافر نہیں ہوتا، چنانچہ شرح عقائدِ نَسْفِیَہ میں ہے ’’نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے سے لے کر آج تک امت کااس بات پر اجماع ہے کہ اہلِ قبلہ میں سے جو شخص بغیر توبہ کے مر گیا تو اس کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی اور اس کے لئے دعا و اِستغفار بھی کی جائے گی اگرچہ اس کا گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہونا معلوم ہو حالانکہ اس بات پر پہلے ہی امت کا اتفاق ہے کہ مومن کے علاوہ کسی اور کے لئے نمازِ جنازہ اور دعا ء و استغفار جائز نہیں۔(شرح عقائد نسفیہ، مبحث الکبیرۃ، ص۱۱۰)
شرح فِقہِ اکبر میں ہے ’’ہم خارجیوں کی طرح کسی گناہ کے ارتکاب کی وجہ سے کسی مسلمان کی تکفیر نہیں کریں گے اگرچہ وہ گناہِ کبیرہ ہو البتہ اگر وہ کسی ایسے گناہ کو حلال جانے جس کی حرمت قطعی دلیل سے ثابت ہو تو وہ کافر ہے، اور ہم معتزلہ کی طرح کسی کبیرہ گناہ کرنے والے سے ایمان کاوصف ساقط نہیں کریں گے اور کبیرہ گناہ کرنے والے کو حقیقی مومن کہیں گے کیونکہ اہلِ سنت و جماعت کے نزدیک ایمان دل سے تصدیق کرنے اور زبان سے اقرار کرنے کا نام ہے جبکہ عمل کا تعلق کمالِ ایمان سے ہے ۔(شرح فقہ اکبر، الکبیرۃ لا تخرج المؤمن عن الایمان، ص۷۱ و۷۴)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ آدمی حقیقۃً کسی بات سے مشرک نہیں ہوتا جب تک غیرِ خدا کو معبود یا مُستَقِل بِالذّات وواجب الوجود نہ جانے۔ بعض نصوص میں بعض افعال پر اطلاقِ شرک تَشبیہاًیا تَغلیظاً یا بارادہ و مقارنت باعتقاد منافی توحید وامثال ذلک من التاویلات المعروفۃ بین العلماء وارد ہوا ہے، جیسے کفر نہیں مگر انکارِ ضروریاتِ دین اگرچہ ایسی ہی تاویلات سے بعض اعمال پر اطلاقِ کفر آیا ہے یہاں ہر گز علی الاطلاق شرک وکفر مصطلح علم عقائد کہ آدمی کو اسلام سے خارج کردیں اور بے توبہ مغفور نہ ہوں زنہار مراد نہیں کہ یہ عقیدۂ اجماعیۂ اہلسنّت کے خلاف ہے، ہر شرک کفر ہے اور کفر مزیلِ اسلام، اور اہلسنّت کا اجماع ہے کہ مومن کسی کبیرہ کے سبب اسلام سے خارج نہیں ہوتا ایسی جگہ نصوص کو علی اطلاقہا کفر وشرک مصطلح پر حمل کرنا اشقیائے خوارج کا مذہب مطرود ہے۔(فتاوی رضویہ، ۲۱ / ۱۳۱)
خلاصہ عبارت یہ ہے کہ آدمی صرف دو چیزوں سے مشرک ہوتا ہے (1) غیرِ خدا کو معبود ماننے سے ، (2) اللہ کے علاوہ کسی کو مستقل بِالذّات ماننے سے۔ا ن دوچیزوں کے علاوہ کسی تیسری چیز سے آدمی حقیقتاً مشرک نہیں ہوتا۔ اور بعض اَحادیث وغیرہ میں جو کچھ کاموں کو بغیر کسی قید کے شرک یا کفر کہا گیا ہے ان کی تاویلات و تَوجِیہات علماء میں مشہور ہیں یعنی یا تو وہاں کفر و شرک سے تشبیہ مراد ہوتی ہے یااس کام پر شریعت نے شدت ظاہر کرنے کیلئے لفظ ِ شرک استعمال کیا ہوتاہے یا وہاں شرک سے مراد وہ صورت ہوتی ہے کہ جب اس فعل کے ساتھ کوئی ایسا ارادہ یا اعتقاد ملا ہو جو توحید کے منافی ہو۔ (جیسے غیر خدا کو سجدہ کرنا مطلقاً شرک نہیں لیکن اگر اس کے ساتھ ارادہ ٔ شرک موجود ہو تو یقینا شرک ہے۔) تو غیر شرک کو جہاں شرک کہا گیا ہو وہاں وہ حقیقی کفر و شرک مراد نہیں ہوتا جس کی وجہ سے آدمی اسلام سے خارج اور بغیر توبہ کے مرنے پر دائمی جہنمی قرار پائے کیونکہ اہلسنّت کا اجماع ہے کہ مسلمان کبیرہ گناہ کی وجہ سے اسلام سے خارج نہیں ہوتا۔ قرآن و حدیث کی مذکورہ بالا قِسم کی تصریحات کو ہماری بیان کردہ تفصیل کے ملحوظ رکھے بغیر حقیقی کفر و شرک قرار دینا خارجیوں کا مردود مذہب ہے۔
یَسْــٴَـلُكَ اَهْلُ الْكِتٰبِ اَنْ تُنَزِّلَ عَلَیْهِمْ كِتٰبًا مِّنَ السَّمَآءِ فَقَدْ سَاَلُوْا مُوْسٰۤى اَكْبَرَ مِنْ ذٰلِكَ فَقَالُوْۤا اَرِنَا اللّٰهَ جَهْرَةً فَاَخَذَتْهُمُ الصّٰعِقَةُ بِظُلْمِهِمْۚ-ثُمَّ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ الْبَیِّنٰتُ فَعَفَوْنَا عَنْ ذٰلِكَۚ-وَ اٰتَیْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا(153)
ترجمہ: ۔ (اے حبیب!) اہلِ کتاب آپ سے سوال کرتے ہیں کہ آپ ان پر آسمان سے ایک کتاب اتار دیں تو یہ لوگ تو موسیٰ سے اس سے بھی بڑا سوال کرچکے ہیں جو انہوں نے کہا تھا : (اے موسیٰ!) اللہ ہمیں اعلانیہ دکھادو تو ان کے ظلم کی وجہ سے انہیں کڑک نے پکڑ لیا پھر ان کے پاس روشن نشانیاں آجانے کے باوجود وہ بچھڑے کو(معبود) بنا بیٹھے۔ پھر ہم نے یہ معاف کردیا اور ہم نے موسیٰ کو روشن غلبہ عطا فرمایا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{یَسْــٴَـلُكَ اَهْلُ الْكِتٰبِ:اہلِ کتاب آپ سے سوال کرتے ہیں۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ یہودیوں میں سے کعب بن اشرف اور فنحاص بن عازوراء نے سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کیا کہ اگر آپ نبی ہیں تو ہمارے پاس آسمان سے یکبارگی کتاب لائیے جیسے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام توریت لائے تھے۔ ان کایہ سوال ہدایت حاصل کرنے کے لئے نہ تھا بلکہ سرکشی و بغاوت کی وجہ سے تھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۱۵۳، ۱ / ۴۴۵)
اور سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی کے طور پر فرمایا گیا کہ آپ ان کے سوالوں پر تعجب نہ کریں کہ یہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے یکبارگی قرآن نازل ہونے کا سوال کرتے ہیں کیونکہ یہ سوال ان کی کمال درجے کی جہالت کی وجہ سے ہے اور اس قسم کی جہالتوں میں ان کے باپ دادا بھی گرفتار تھے۔ اگر ان کا سوال طلبِ ہدایت کے لئے ہوتا توپھر دیکھا جاتا مگر وہ تو کسی حال میں ایمان لانے والے نہ تھے۔ ان کے باپ داداؤں کے ایسے کردار کی وضاحت کیلئے ان کی دو حرکتوں کو بیان کیا جاتا ہے ۔ ایک یہ کہ اُنہوں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے کوہ ِ طور پر تشریف لے جانے کے بعد بچھڑے کو معبود بنالیا اور دوسری بات یہ کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے مطالبہ کیا کہ ہم آپ کااس وقت تک یقین نہیں کریں گے جب تک آپ ہمیں خدا اعلانیہ دکھا نہ دیں۔ اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے تو یہ مطالبہ ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یکبارگی کتاب نازل کروائیں تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کریں گے لیکن جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر یکبارگی تورات نازل ہوئی تو بجائے اطاعت کرنے کے اُنہوں نے خدا عَزَّوَجَلَّ کے دیکھنے کا سوال کردیا اور اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ نہ کرنے کے سو بہانے ہوتے ہیں۔
}وَ اٰتَیْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا: اور ہم نے موسیٰ کو روشن غلبہ عطا فرمایا۔{ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو روشن غلبہ وتَسلُّط عطا فرمایا گیا کہ جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بنی اسرائیل کو توبہ کے لئے خود ان کے اپنے قتل کا حکم دیا تو وہ انکار نہ کرسکے اور نہوں نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی اطاعت کی۔
وَ رَفَعْنَا فَوْقَهُمُ الطُّوْرَ بِمِیْثَاقِهِمْ وَ قُلْنَا لَهُمُ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّ قُلْنَا لَهُمْ لَا تَعْدُوْا فِی السَّبْتِ وَ اَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا(154)
ترجمہ:
پھر ہم نے ان سے عہد لینے کے لئے ان پر کوہِ طور کوبلند کردیا اور ان سے فرمایا کہ دروازے میں سجدہ کرتے داخل ہو اور ان سے فرمایا کہ ہفتہ کے دن میں حد سے نہ بڑھو اور ہم نے ان سے مضبوط عہد لیا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ رَفَعْنَا فَوْقَهُمُ الطُّوْرَ: پھرہم نے ان پر کوہِ طور کو بلند کر دیا۔} یہودیوں کے متعلق مزید تین باتوں کا بیان کیا جارہا ہے۔ پہلی یہ کہ ان سے تورات پر عمل کرنے کا عہد لینے کیلئے کوہِ طور کو ان کے سروں پر مُعَلَّق کردیا۔ دوسری بات یہ کہ بیتُ المقدس یا اَرِیْحَانامی بستی کے دروازے سے سجدہ کرتے ہوئے گزرنے کا حکم دیا جس کی انہوں نے نافرمانی کی۔ تیسری بات یہ کہ انہیں ہفتے کے دن شکار کرنے سے منع فرمایا۔ لیکن انہوں نے تینوں باتوں میں خلاف ورزی کی اور اللہ عَزَّوَجَلَّ سے مضبوط عہد کرکے توڑ دیا۔
فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّیْثَاقَهُمْ وَ كُفْرِهِمْ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ قَتْلِهِمُ الْاَنْۢبِیَآءَ بِغَیْرِ حَقٍّ وَّ قَوْلِهِمْ قُلُوْبُنَا غُلْفٌؕ-بَلْ طَبَعَ اللّٰهُ عَلَیْهَا بِكُفْرِهِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا(155)
ترجمہ: تو (ہم نے ان پر لعنت کی) ان کے عہد کوتوڑنے اور اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کرنے اور انبیاء کو ناحق شہید کرنے اور ان کے یہ کہنے کی وجہ سے (کہ) ہمارے دلوں پر غلاف ہیں بلکہ اللہ نے ان کے کفر کے سبب ان کے دلوں پر مہر لگادی ہے تو (ان میں سے) بہت تھوڑے ایمان لاتے ہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّیْثَاقَهُمْ: تو ان کے عہد توڑنے کی وجہ سے۔} یہاں سے اہلِ کتاب کے جرائم کی ایک فہرست اور اس پر غضبِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کا بیان شروع ہے۔ یہودیوں کے جرائم کی فہرست طویل ہے۔ اس آیت اور اس سے اگلی آیات میں ان کے نصف درجن سے زائد جرائم بیان کئے گئے ہیں :
(1)… یہودیوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے کئے ہوئے عہد کو توڑا۔ اس کی تفصیل اس سے گزشتہ آیت میں گزر چکی۔
(2)…یہودیوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نشانیوں کا انکار کیا جو انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی صداقت پر دلالت کرتی تھیں جیسا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کے معجزات۔
(3)… یہودیوں نے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شہید کیا اور یہودی خود سمجھتے تھے کہ ان کا انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شہید کرنا ناحق ہی تھا۔
(4)… یہودیوں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا تھا کہ ہمارے دلوں پرغلاف چڑھے ہوئے ہیں ، چونکہ یہ بھی ان کا جھوٹ اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعوت کو ٹھکرانا تھا لہٰذا یہ بھی سبب ِ عذاب ہوا۔ پانچواں اور چھٹا جرم اگلی آیت میں بیان کیا گیا ہے۔
{بَلْ طَبَعَ اللّٰهُ: بلکہ اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگادی۔}ارشاد فرمایا کہ یہودی کہتے ہیں ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگادی ہے لہٰذا کوئی وعظ ونصیحت ان کے دلوں پر کارگر نہیں ہوسکتی۔ اس سے معلوم ہوا کہ کفر اور بد کاریاں دل پر مہر لگ جانے کا باعث ہوجاتی ہیں۔
وَّ بِكُفْرِهِمْ وَ قَوْلِهِمْ عَلٰى مَرْیَمَ بُهْتَانًا عَظِیْمًا(156)
ترجمہ: اور (ان پر لعنت کی)ان کے کفر اور مریم پر بڑا بہتان لگانے کی وجہ سے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ بِكُفْرِهِمْ: اور ان کے کفر کی وجہ سے۔} یہودیوں کا پانچواں جرم یہ تھا کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ کفر کیا اور ان کا چھٹا جرم یہ تھا کہ انہوں نے حضرت مریم رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا پر تہمت لگائی۔ اس سے معلوم ہوا کہ پاکدامن عورت پر تہمت لگانا سخت گناہ ہے اور خصوصاً کسی مقدس عورت پر اور مقدس نسبت رکھنے والی پر تہمت لگانا اور بھی زیادہ سنگین ہے۔ اسی لئے حضرت عائشہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا پر تہمت لگانے والوں کی مذمت زیادہ بیان کی گئی۔
وَّ قَوْلِهِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰهِۚ-وَ مَا قَتَلُوْهُ وَ مَا صَلَبُوْهُ وَ لٰـكِنْ شُبِّهَ لَهُمْؕ-وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْهِ لَفِیْ شَكٍّ مِّنْهُؕ-مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّۚ-وَ مَا قَتَلُوْهُ یَقِیْنًۢا(157)
ترجمہ: اور ان کے اس کہنے کی وجہ سے کہ ہم نے مسیح عیسیٰ بن مریم اللہ کے رسول کو شہید کیا حالانکہ انہوں نے نہ تواسے قتل کیا اور نہ اسے سولی دی بلکہ ان (یہودیوں ) کے لئے (عیسیٰ سے ) ملتا جلتا (ایک آدمی)بنادیا گیا اور بیشک یہ (یہودی) جو اس عیسیٰ کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں ضرور اس کی طرف سے شبہ میں پڑے ہوئے ہیں ( حقیقت یہ ہے کہ) سوائے گمان کی پیروی کے ان کواس کی کچھ بھی خبر نہیں اور بیشک انہوں نے اس کو قتل نہیں کیا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَوْلِهِمْ: اور ان کے اس کہنے کی وجہ سے۔} اس آیت میں یہودیوں کے ساتویں سنگین جرم کا بیان کیا گیا کہ یہودیوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قتل کردیا ہے اور عیسائیوں نے اس کی تصدیق کی تھی اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کی تکذیب فرما دی۔ کیونکہ واقعہ یوں ہوا کہ جو منافق شخص یہودیوں کو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا پتہ دینے کے لئے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے گھر میں داخل ہوا وہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ہم شکل ہو گیا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آسمان پر تشریف لے گئے۔ یہودیوں نے اسی منافق کو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دھوکے میں سولی دے دی لیکن پھر خود بھی حیران تھے کہ ہمارا آدمی کہا ں گیا نیز اس کا چہرہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جیسا تھا اور ہاتھ پاؤں مختلف۔(مدارک، النساء، تحت الآیۃ: ۱۵۷، ص۲۶۳-۲۶۴)
اس کا ذکر ا س آیتِ کریمہ میں ہو رہا ہے اور اسی وجہ سے وہ شک میں پڑگئے اور یقینی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے تھے کہ وہ مقتول کون ہے؟ بعض کہتے ہیں کہ یہ مقتول حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ چہرہ تو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ہے لیکن جسم حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا نہیں ،لہٰذا یہ وہ نہیں۔ یہودیوں کی پیروی میں آج کل قادیانی بھی اسی جہالت میں گرفتا ر ہیں۔
بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَیْهِؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَزِیْزًا حَكِیْمًا(158)
ترجمہ:
بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھالیا تھا اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَیْهِ: بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھالیا تھا۔} حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے صحیح سلامت آسمان پر اٹھائے جانے کے متعلق بکثرت اَحادیث وارد ہیں۔ اس کا کچھ بیان سورۂ اٰلِ عمران کی آیت نمبر 55 کے تحت تفسیر میں گزر چکا ہے۔
وَ اِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖۚ-وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَكُوْنُ عَلَیْهِمْ شَهِیْدًا(159)
ترجمہ: کوئی کتابی ایسا نہیں جو اس کی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لے آئے گااور قیامت کے دن وہ (عیسیٰ) ان پر گواہ ہوں گے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِهٖ: مگر وہ اس پر ایمان لائے گا۔} اس آیت کی تفسیر میں چند اقوال ہیں۔ایک قول یہ ہے کہ یہود ونصاریٰ کو اپنی موت کے وقت جب عذاب کے فرشتے نظر آتے ہیں تو وہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لے آتے ہیں اور اس وقت کا ایمان مقبول و معتبر نہیں۔(قرطبی، النساء، تحت الآیۃ: ۱۵۹، ۳ / ۲۹۸، الجزء الخامس، جلالین، النساء، تحت الآیۃ: ۱۵۹، ص۹۱، ملتقطاً)
لیکن یہ قول ضعیف ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ آیت کے معنیٰ یہ ہیں کہ ہر کتابی اپنی موت سے پہلے اللہ تعالیٰ یا نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لے آئے گا لیکن موت کے وقت کا ایمان مقبول نہیں ، اور اس سے کچھ نفع نہ ہوگا۔(بغوی، النساء، تحت الآیۃ: ۱۵۹،۱ / ۳۹۷)
تیسرا قول یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات سے پہلے ہر یہودی اور عیسائی اور وہ افراد جو غیرِ خداکی عبادت کرتے ہوں گے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لے آئیں گے حتّٰی کہ اس وقت ایک ہی دین ، دینِ اسلام ہو گا۔ اور یہ اس وقت ہو گا کہ جب آخری زمانے میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آسمان سے زمین پر نزول فرمائیں گے۔ اُس وقت حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام شریعتِ محمدیہ عَلٰی صَاحِبَہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مطابق حکم کریں گے اور دینِ محمدی کے اماموں میں سے ایک امام کی حیثیت میں ہوں گے اور عیسائیوں نے ان کے متعلق جو گمان باندھ رکھے ہیں انہیں باطل فرمائیں گے، دینِ محمدی کی اشاعت کریں گے اوراس وقت یہود و نصارٰی کو یا تو اسلام قبول کرنا ہو گا یا قتل کر ڈالے جائیں گے، جزیہ قبول کرنے کا حکم حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے نزول کرنے کے وقت تک ہے۔(بغوی، النساء، تحت الآیۃ: ۱۵۹،۱ / ۳۹۷، خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۱۵۹، ۱ / ۴۴۸-۴۴۹، صاوی، النساء، تحت الآیۃ: ۱۵۹، ۱ / ۴۵۶، ملتقطاً)
اس قول سے معلوم ہوا کہ ابھی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات واقع نہیں ہوئی کیونکہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات سے پہلے سارے اہلِ کتاب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لائیں گے۔ حالانکہ ابھی یہودی آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان نہیں لائے ۔یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام قریبِ قیامت زمین پر تشریف لائیں گے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اس آمد پر سارے یہودی آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لے آئیں گے اس طرح کہ سب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اللہ عَزَّوَجَلَّ کا بندہ اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ایک کلمہ ہونے کا اقرار کر کے مسلمان ہو جائیں گے۔
{ یَكُوْنُ عَلَیْهِمْ شَهِیْدًا:وہ ان پر گواہ ہوں گے۔} یعنی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام قیامت کے دن یہود یوں پر تو یہ گواہی دیں گے کہ انہوں نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کی اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حق میں زبانِ طعن دراز کی اور نصارٰی پر یہ گواہی دیں گے کہ اُنہوں نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو رب ٹھہرایا اور خدا عَزَّوَجَلَّ کا شریک جانا جبکہ اہلِ کتاب میں سے جو لوگ ایمان لے آئیں گے ان کے ایمان کی بھی آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام شہادت دیں گے۔
فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْهِمْ طَیِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَهُمْ وَ بِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَثِیْرًا(160)
ترجمہ:
تو یہودیوں کے بڑے ظلم کی وجہ سے اور ان کے بہت سے لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکنے کی وجہ سے ہم نے ان پر وہ بعض پاکیزہ چیزیں حرام کردیں جو ان کے لئے حلال تھیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ هَادُوْا: تو یہودیوں کے بڑے ظلم کی وجہ سے۔} یہودیوں کی کرتوتیں اوپر بیان کی گئیں اور اس آیت میں ان کے جرائم کی سزا کی ایک صورت یہ بیان فرمائی گئی کہ ان کی زیادتیوں کی وجہ سے ان پر کئی حلال چیزیں بھی حرام کردی گئیں۔
وَّ اَخْذِهِمُ الرِّبٰوا وَ قَدْ نُهُوْا عَنْهُ وَ اَكْلِهِمْ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِؕ-وَ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ مِنْهُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا(161)
ترجمہ: اور اس لئے (حرام کیں ) کہ وہ سود لیتے حالانکہ انہیں اس سے منع کیا گیا تھا اور وہ باطل طریقے سے لوگوں کا مال کھا جاتے تھے اور ان میں سے کافروں کے لئے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اَخْذِهِمُ الرِّبٰوا:اور ان کے سود لینے کی وجہ سے۔} یہودیوں میں اعتقادی خرابیوں کے ساتھ عملی برائیاں بھی موجود تھیں چنانچہ سود کھانا اور رشوت لینا ان میں عام تھا۔ فیصلہ کرنے میں رشوت لیتے حتّٰی کہ رشوت کی خاطر شرعی احکام بھی بدل دیتے۔
سود اور رشوت کی مذمت:
اس آیت سے سود کی حرمت اور رشوت کی قباحت و خباثت بھی معلوم ہوئی۔ سود لینا شدید حرام ہے۔ حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک سود سترگناہوں کا مجموعہ ہے ،ان میں سب سے چھوٹا گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے۔(ابن ماجہ، کتاب التجارات، باب التغلیظ فی الربا، ۳ / ۷۲، الحدیث: ۲۲۷۴)
سود سے متعلق مزید کلام سورۂ بقرہ آیت نمبر 275تا278 اور سورۂ اٰلِ عمران کی آیت نمبر 130کے تحت گزر چکا ہے، اور رشوت کے بارے میں حضرت ثوبان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ ’’سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے رشوت لینے والے، دینے والے اور اُن کے مابین لین دین میں مدد کرنے والے پر لعنت فرمائی۔ (مسند امام احمد، مسند الانصار، ومن حدیث ثوبان رضی اللہ تعالی عنہ، ۸ / ۳۲۷، الحدیث: ۲۲۴۶۲)
لٰـكِنِ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ مِنْهُمْ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَ الْمُقِیْمِیْنَ الصَّلٰوةَ وَ الْمُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِؕ-اُولٰٓىٕكَ سَنُؤْتِیْهِمْ اَجْرًا عَظِیْمًا(162)
ترجمہ:
لیکن اُن میں علم میں پختگی والے اور ایمان والے ایمان لاتے ہیں اُس پر جو، اے حبیب ! تمہاری طرف نازل کیا گیا اور جو تم سے پہلے نازل کیا گیا اور نماز قائم رکھنے والے اور زکوٰۃ دینے والے اوراللہ اور قیامت پر ایمان لانے والے ایسوں کو عنقریب ہم بڑا ثواب دیں گے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{لٰكِنِ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ مِنْهُمْ: لیکن ان میں علم میں پختگی والے ۔} یہودیوں کی اکثریت گمراہ اور بدکردار تھی لیکن ان میں کچھ لوگ اچھے بھی تھے جیسے حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور اُن کے ساتھی جو گزشتہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان، راسخ و مضبوط علم ،صاف عقل اور کامل بصیرت رکھتے تھے، انہوں نے اپنے علم سے دین ِاسلام کی حقانیت کو جانا اور سید ِانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لائے۔
رَاسِخْ فِی الْعِلْم کی تعریف:
رَاسِخْ فِی الْعِلْم وہ عالم ہے جس کا علم اس کے دل میں اتر گیا ہو جیسے مضبوط درخت وہ ہے جس کی جڑیں زمین میں جگہ پکڑ چکی ہوں ، اس سے مراد خوش عقیدہ اور با عمل علماء ہیں۔ اس سے معلو م ہوا کہ عالمِ باعمل کا ثواب دوسروں سے زیادہ ہے کیونکہ با عمل عالم خود بھی نیک ہے اور وہ دوسروں کو بھی نیک بنا دیتا ہے۔ چاہیے کہ عالم کا عمل سنتِ نَبَوِی کا نمونہ ہو اور اس کی ہر ادا تبلیغ کرے۔ اس سے اشارۃً یہ بھی معلوم ہوا کہ بے دین یا بے عمل عالم کا عذاب بھی دوسروں سے زیادہ ہے کیونکہ وہ گمراہ بھی ہے اور گمراہ کُن بھی او ر اس کی بد عملی دوسروں کو بھی بد عمل بنا دے گی۔
اِنَّاۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ كَمَاۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى نُوْحٍ وَّ النَّبِیّٖنَ مِنْۢ بَعْدِهٖۚ-وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰۤى اِبْرٰهِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَ عِیْسٰى وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْنُسَ وَ هٰرُوْنَ وَ سُلَیْمٰنَۚ-وَ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا(163)
ترجمہ: بیشک اے حبیب! ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی جیسے ہم نے نوح اور اس کے بعد پیغمبروں کی طرف بھیجی اور ہم نے ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کے بیٹوں اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کی طرف وحی فرمائی اور ہم نے داؤد کو زبور عطا فرمائی۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّاۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ:بیشک ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی۔} اِس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ یہود و نصاریٰ نے رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سوال کیا تھا کہ اُن کے لئے آسمان سے یکبارگی کتاب نازل کی جائے تو وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نبوت پر ایمان لے آئیں گے۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور ان پر حجت قائم کی گئی کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سوا بکثرت انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں جن میں سے گیارہ کے اَسماء شریفہ یہاں آیت میں بیان فرمائے گئے ہیں ، اہلِ کتاب اُن سب کی نبوت کو مانتے ہیں ، توجب اس وجہ سے ان میں سے متعدد کی نبوت تسلیم کرنے میں اہلِ کتاب کو کچھ پس و پیش نہ ہوا تو امامُ الانبیاء، سیدُالمرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت تسلیم کرنے میں کیا عذر ہے؟ نیز رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھیجنے کا مقصد مخلوق کی ہدایت اور ان کو اللہ تعالیٰ کی توحید ومعرفت کا درس دینا اور ایمان کی تکمیل اور عبادت کے طریقوں کی تعلیم ہے اورکتاب کے متفرق طور پر نازل ہونے سے یہ مقصد بڑے کامل طریقے سے حاصل ہوجاتا ہے کیونکہ تھوڑا تھوڑا بہ آسانی دل نشین ہوتا چلا جاتا ہے، اس حکمت کو نہ سمجھنا اور اعتراض کرنا کمال درجے کی حماقت ہے۔سُبْحَانَ اللہ! کیسا دل نشین اور پیارا جواب ہے۔
وَ رُسُلًا قَدْ قَصَصْنٰهُمْ عَلَیْكَ مِنْ قَبْلُ وَ رُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَیْكَؕ-وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًا(164)
ترجمہ:
اور (ہم نے بھیجے) بہت سے ایسے رسول جن کا ذکر ہم تم سے پہلے فرما چکے اور بہت سے وہ رسول جن کا ذکر تم سے نہ فرمایا اوراللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ رُسُلًا: اور بہت سے رسول۔} ارشاد فرمایا گیا کہ بہت سے رسول وہ ہیں جن کا قرآن شریف میں نام لے کر ذکر ہوچکا اور بہت سے وہ ہیں جن کا اب تک ان کے ناموں کی تفصیل کے ساتھ قرآنِ پاک میں ذکر نہیں فرمایا گیا۔ ان سب رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں وہ کتنے ہیں جن پر یکبارگی کتاب اتری۔ تو جب سب نبیوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر یکبارگی کتاب نہیں اتری تو نبی ِآخر الزّمان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر یکبارگی کتاب نہ اترنا یہودیوں کیلئے کیوں باعث ِ اعتراض بنا ہوا ہے؟
{وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًا: اور اللہ نے موسیٰ سے کلام فرمایا۔} یہ بھی یہودیوں کے اعتراض کے جواب کا حصہ ہے کہجس طرح حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے بے واسطہ کلام فرمانا دوسرے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت کیلئے انکار کا ذریعہ نہیں ہوسکتا جن سے اس طرح کلام نہیں فرمایا گیا توایسے ہی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر کتاب کا یکبارگی نازل ہونا بھی دوسرے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت کے انکار کا ذریعہ نہیں ہوسکتا۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۱۶۴، ۱ / ۴۵۲)
آیت کے اس حصے سے دو مسئلے معلوم ہوئے :ایک یہ کہ حضرت موسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام انبیاءِ بنی اسرائیل عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں بہت شان والے ہیں کہ ان کا ذکر خصوصیت سے علیحدہ ہوا۔ دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے بعض انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خاص عظمتیں بخشی ہیں ، ایک نبی کی خصوصیت تمام نبیوں میں ڈھونڈنا غلطی ہے جیسے ہر نبی کَلِیْمُ اللہ نہیں۔
رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّٰهِ حُجَّةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَزِیْزًا حَكِیْمًا(165)
ترجمہ: ۔ (ہم نے ) رسول خوشخبری دیتے اور ڈر سناتے (بھیجے) تاکہ رسولوں (کو بھیجنے) کے بعد اللہ کے یہاں لوگوں کے لئے کوئی عذر (باقی )نہ رہے اور اللہ زبردست ہے، حکمت والا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ: رسول بھیجے خوشخبری دیتے اور ڈر سناتے۔} رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تشریف آوری کا مقصد نیک اعمال پر ثواب کی بشارت اور برے اعمال پرعذاب سے ڈرانا ہے اور ایک حکمت یہ ہے کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تشریف آوری کے بعد لوگوں کو یہ کہنے کا موقع نہ مل سکے کہ اگر ہمارے پاس رسول آتے تو ہم ضرور ان کا حکم مانتے اوراللہ عَزَّوَجَلَّ کے مطیع و فرمانبردار ہوتے۔ اس آیت سے یہ مسئلہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ رسولوں کی بعثت سے پہلے مخلوق پر عذاب نہیں فرماتا جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا(۱۵)(بنی اسرائیل:۱۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم کسی کو عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کوئی رسول نہ بھیج دیں۔
لٰكِنِ اللّٰهُ یَشْهَدُ بِمَاۤ اَنْزَلَ اِلَیْكَ اَنْزَلَهٗ بِعِلْمِهٖۚ-وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ یَشْهَدُوْنَؕ-وَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًاﭤ(166)
ترجمہ: لیکن اے حبیب! اللہ گواہی دیتا ہے اس کی جو اس نے تمہاری طرف نازل کیا، اس نے اسے اپنے علم کے ساتھ نازل فرمایاہے اور فرشتے گواہی دیتے ہیں اور اللہ کافی گواہ ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{لٰكِنِ اللّٰهُ یَشْهَدُ: لیکن اللہ گواہی دیتا ہے۔} اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں دو طرح کے اقوال ہیں ، ان کا خلاصہ یہ ہے
(1)… مَشْہُودْ لَہٗ یعنی جس کے حق میں گواہی دی جارہی ہے وہ قرآنِ پاک ہے کیونکہ یہودیوں نے آسمان سے یکبارگی کتاب اتارنے کا مطالبہ کیا تھا ۔(النساء ،آیت ۱۵۳)
اس آیت میں ان کے مطالبے کا جواب ہے۔ اس صورت میں مفہوم یہ بنتا ہے کہ یہودی اگرچہ قرآن کے آسمانی کتاب ہونے کو نہ مانیں لیکن اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کی طرف اترنے والے قرآن کی حقانیت کی گواہی دیتا ہے اور اس کے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے نازل ہونے کے فرشتے بھی گواہ ہیں ، اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی گواہی کافی ہے۔
(2)… دوسرا مفہوم یہ ہے کہ مَشْہُودْ لَہٗ یعنی جس کے حق میں گواہی ہے وہ خاتَمُ الْمُرْسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت ہے اور جس کے ذریعے گواہی دی جارہی ہے وہ قرآنِ پاک ہے اور معنیٰ یہ بنا کہ یہودیوں نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کا انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کی گواہی قرآن کے ذریعے دی اور فرشتے بھی نبوت پر گواہ ہوئے۔(تفسیر کبیر، النساء، تحت الآیۃ: ۱۶۶، ۴ / ۲۶۸-۲۶۹، صاوی، النساء، تحت الآیۃ: ۱۶۶، ۲ / ۴۶۰، ملتقطاً)
اللہ عَزَّوَجَلَّ کی گواہی یہ ہے کہ اس نے گزشتہ کتابوں میں سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خبر دی اور سرکارِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو معجزات عطا فرمائے جیسے وزیر یا حاکم کا شاہی تمغہ بادشاہ کی گواہی ہے۔
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ صَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ قَدْ ضَلُّوْا ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا(167)
ترجمہ:
بیشک وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا بیشک وہ دور کی گمراہی میں جا پڑے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا: بیشک جنہوں نے کفر کیا۔} یہاں یہودیوں کی حالت کا بیان ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کا انکار کیا اورحضور تاجدارِ انبیاءصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نعت وصفت چھپا کر اور لوگوں کے دلوں میں شبہ ڈال کر لوگوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ سے روکا، بے شک وہ ان حرکتوں کی وجہ سے دور کی گمراہی میں جا پڑے کیونکہ ان میں گمراہ ہونا اور گمراہ کرنا دونوں چیزیں جمع ہو گئیں۔
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ ظَلَمُوْا لَمْ یَكُنِ اللّٰهُ لِیَغْفِرَ لَهُمْ وَ لَا لِیَهْدِیَهُمْ طَرِیْقًا(168)اِلَّا طَرِیْقَ جَهَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-وَ كَانَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرًا(169)
ترجمہ: بیشک وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اور ظلم کیا، اللہ ہرگز انہیں نہ بخشے گا اور نہ انہیں کسی راستے کی ہدایت فرمائے گا ۔مگر جہنم کے راستے (کی ) جس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ اللہ پر بہت آسان ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا: بیشک جنہوں نے کفر کیا۔} یہاں بھی یہودیوں کا بیان ہے کہ انہوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ کفر اور کتابِ الٰہی یعنی تورات میں موجود سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اوصاف بدل کر اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کا انکار کرکے ظلم کیا تو ایسے لوگ جب تک اپنے کفر پر قائم رہیں اور کفر پر مریں ان کی بخشش کی کوئی گنجائش نہیں اور نہ انہیں کسی صحیح راہ کی ہدایت ملے گی البتہ جہنم کا راستہ ان کیلئے ضرور کھلا ہواہے اور وہ بالکل واضح ہوگا۔
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمُ الرَّسُوْلُ بِالْحَقِّ مِنْ رَّبِّكُمْ فَاٰمِنُوْا خَیْرًا لَّكُمْؕ-وَ اِنْ تَكْفُرُوْا فَاِنَّ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًا(170)
ترجمہ: اے لوگو! تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس یہ رسول حق کے ساتھ تشریف لائے تو ایمان لاؤ، تمہارے لئے بہتر ہوگا اور اگر تم کفر کروگے تو بیشک اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور اللہ علم والا، حکمت والا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{قَدْ جَآءَكُمُ الرَّسُوْلُ بِالْحَقِّ: بیشک تمہارے پاس یہ رسول حق کے ساتھ تشریف لے آئے۔} تمام بنی نوعِ انسان کو عظیم خوشخبری سنائی جارہی ہے کہ اے لوگو! تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حق کے ساتھ تشریف لاچکے، وہ خود بھی حق ہیں اور ان کا ہر قول ، ہر ادا حق ہے، ان کی شریعت حق ہے، ان کی طبیعت حق ہے، ان کی تعلیم حق ہے، وہاں باطل کا گزر نہیں۔ لہٰذا ان پر ایمان لے آؤ، اس میں تمہارے لئے خیر ہی خیر ہے اور اگر تم خاتَمُ الْمُرْسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت کا انکار کروگے تو اس میں ان کا کچھ ضرر نہیں اور اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہارے ایمان سے بے نیاز ہے۔
یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِكُمْ وَ لَا تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّؕ-اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللّٰهِ وَ كَلِمَتُهٗۚ-اَلْقٰىهَاۤ اِلٰى مَرْیَمَ وَ رُوْحٌ مِّنْهُ٘-فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ ۚ۫-وَ لَا تَقُوْلُوْا ثَلٰثَةٌؕ-اِنْتَهُوْا خَیْرًا لَّكُمْؕ-اِنَّمَا اللّٰهُ اِلٰهٌ وَّاحِدٌؕ-سُبْحٰنَهٗۤ اَنْ یَّكُوْنَ لَهٗ وَلَدٌۘ-لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِؕ-وَ كَفٰى بِاللّٰهِ وَكِیْلًا(171)
ترجمہ: اے کتاب والو! اپنے دین میں حد سے نہ بڑھو اور اللہ پر سچ کے سوا کوئی بات نہ کہو۔ بیشک مسیح ، مریم کا بیٹا عیسیٰ صرف اللہ کا رسول اور اس کا ایک کلمہ ہے جو اس نے مریم کی طرف بھیجا اور اس کی طرف سے ایک خاص روح ہے تواللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور نہ کہو (کہ معبود) تین ہیں ۔ (اِس سے) باز رہو، (یہ) تمہارے لئے بہتر ہے۔ صرف اللہ ہی ایک معبود ہے ، وہ پاک ہے اس سے کہ اس کی کوئی اولاد ہو۔اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ کافی کارساز ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ: اے اہلِ کتاب۔} اس سے پہلے والی آیات میں یہودیوں کی دین میں زیادتیوں اور ان کے جرائم کو بیان فرمایا، اب عیسائیوں کے دین میں غُلُوّ اور حد سے بڑھنے کے بارے میں بیان فرمایا جا رہا ہے۔
عیسائیوں کے فرقے اور ان کے عقائد:
عیسائی چار بڑے فرقوں میں تقسیم ہو گئے تھے (1) یعقوبیہ۔ (2) ملکانیہ۔ (3) نسطوریہ۔ (4) مرقوسیہ۔ ان میں سے ہر ایک حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں جداگانہ کفریہ عقیدہ رکھتا تھا۔ یعقوبیہ اور ملکانیہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خدا کہتے تھے۔ نسطوریہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خدا کا بیٹا کہتے تھے جبکہ مرقوسیہ فرقے کا عقیدہ یہ تھا کہ وہ تین میں سے تیسرے ہیں ، اور اس جملے کا کیا مطلب ہے اس میں بھی ان میں اختلاف تھا ، بعض تین اُقْنُوم (یعنی وجود) مانتے تھے اور کہتے تھے کہ باپ ،بیٹا، روحُ القدس تین ہیں اور باپ سے ذات، بیٹے سے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اورروحُ القدس سے ان میں حُلُول کرنے والی حیات مراد لیتے تھے گویا کہ اُن کے نزدیک اِلٰہ تین تھے اور اس تین کو ایک بتاتے تھے۔ بعض کہتے تھے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ناسُوتِیَّت (یعنی انسانیت) اور الُوہیت کے جامع ہیں ، ماں کی طرف سے اُن میں ناسوتیت آئی اور باپ کی طرف سے الوہیت آئی ’’تَعَالَی اللہُ عَمَّا یَقُوْلُوْنَ عُلُوًّا کَبِیْرًا‘‘ (اللہ تعالیٰ ظالموں کی بات سے پاک ہے اور بہت ہی بلندو بالاہے)یہ فرقہ بندی عیسائیوں میں ایک یہودی نے پیدا کی جس کا نام بَوْلَسْ تھا ، اُس نے اُنہیں گمراہ کرنے کے لیے اس طرح کے عقیدوں کی تعلیم دی۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۱۷۱، ۱ / ۴۵۴)
اس آیت میں اہلِ کتاب کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں افراط وتفریط سے باز رہیں ، انہیں خدا اور خدا کا بیٹا بھی نہ کہیں اور حلول و اِتّحاد کے عیب لگا کر ان کی تَنقیص بھی نہ کریں ، بلکہ ان کے بارے میں یہ عقیدہ رکھیں کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کے بیٹے ہیں ،ان کے لیے اس کے سوا اورکوئی نسب نہیں ، صرف اللہ تعالیٰ کے رسول اور اس کا ایک کلمہ ہیں جو رب تعالیٰ نے حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کی طرف بھیجا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک خاص روح ہیں۔ لہٰذا ا نہیں چاہئے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسولوں پرایمان لائیں اور تصدیق کریں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ایک ہے، بیٹے اور اولاد سے پاک ہے اور اس کے رسولوں کی تصدیق کریں اور اس کی کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ عَزَّوَجَلَّ کے رسولوں میں سے ہیں۔
{وَ لَا تَقُوْلُوْا ثَلٰثَةٌ:اور نہ کہو (کہ معبود) تین ہیں۔}بعض عیسائی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خدا کا بیٹا کہتے تھے، بعض انہیں تیسرا خدا مانتے تھے اور بعض انہیں کو خدا مانتے تھے، ان تینوں فرقوں کی تردید کے لئے یہ آیتِ کریمہ اتری۔ لفظ ’’اللہُ‘‘ میں ایک فرقے کی تردید ہے۔’’وَاحِدٌ ‘‘میں دوسرے کی اور’’سُبْحٰنَهٗۤ اَنْ یَّكُوْنَ لَهٗ وَلَدٌ‘‘ میں تیسرے کی۔ عقل مند انسان خود ہی غور کر لے آسمان و زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے،جتنے انسان ہیں سب اسی کے بندے اور مملوک ہیں انہی میں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت مریم رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا بھی داخل ہیں اور جب یہ بھی بندے اور مملوک ہیں تو ان کا بیٹا اور بیوی ہونا کیسے مُتَصَوَّر ہو سکتا ہے؟ بلا شُبہ اللہ تعالیٰ ان سب بیہودہ باتوں سے پاک اور مُنَزّہ ہے۔
لَنْ یَّسْتَنْكِفَ الْمَسِیْحُ اَنْ یَّكُوْنَ عَبْدًا لِّلّٰهِ وَ لَا الْمَلٰٓىٕكَةُ الْمُقَرَّبُوْنَؕ-وَ مَنْ یَّسْتَنْكِفْ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَ یَسْتَكْبِرْ فَسَیَحْشُرُهُمْ اِلَیْهِ جَمِیْعًا(172)
ترجمہ: نہ تومسیح اللہ کا بندہ بننے سے کچھ عارکرتا ہے اور نہ مقرب فرشتے اور جو اللہ کی بندگی سے نفرت اور تکبر کرے توعنقریب وہ ان سب کو اپنے پاس جمع کرے گا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{لَنْ یَّسْتَنْكِفَ الْمَسِیْحُ اَنْ یَّكُوْنَ عَبْدًا لِّلّٰهِ:مسیح اللہ کا بندہ بننے سے ہر گز عار نہیں کرتا ۔} نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا: آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عیب لگاتے ہیں کہ انہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ َ کا بندہ کہتے ہیں۔ اس پر یہ آیت اتری(بیضاوی، النساء، تحت الآیۃ: ۱۷۲، ۲ / ۲۸۴)
جس میں فرمایا گیا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا بندہ ہونا باعثِ فخر ہے نہ کہ باعثِ شرم۔ نیز اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت سے نفرت کرنا اور اس میں شرم محسوس کرنا کافر کا کام ہے مسلمان کا نہیں۔
فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَیُوَفِّیْهِمْ اُجُوْرَهُمْ وَ یَزِیْدُهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖۚ-وَ اَمَّا الَّذِیْنَ اسْتَنْكَفُوْا وَ اسْتَكْبَرُوْا فَیُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا ﳔ وَّ لَا یَجِدُوْنَ لَهُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیْرًا(173)
ترجمہ: تو وہ جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے تو (اللہ ) انہیں ان کے پورے اجر عطا فرمائے گا اور انہیں اپنے فضل سے اور زیادہ دے گا اور وہ جنہوں نے نفرت اور تکبر کیا تھا انہیں دردناک سزا دے گا اور وہ اللہ کے سوا نہ اپنا کوئی حمایتی پائیں گے نہ مددگار۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: تو جو ایمان والے ہیں۔} یہاں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بندگی کو اپنا اعزاز اوراپنے سر کا تاج سمجھنے والوں یعنی مومنین صالحین کو بشارت اوراللہ عَزَّوَجَلَّ کی بندگی سے نفرت و تکبر کرنے والوں کو وعید بیان کی گئی ہے۔ پہلے گروہ کو بھر پور اجر ملے گا اور اس کے ساتھ ان پرفضل الٰہی کی مزید بارش برسے گی جس میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کا دیدار بھی شامل ہے۔ اس کے برعکس عبادت ِ الٰہی کے منکروں اور اس سے تکبر کرنے والوں کو دردناک عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمْ بُرْهَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا(174)
ترجمہ:
اے لوگو! بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح دلیل آگئی اور ہم نے تمہاری طرف روشن نورنازل کیا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ: اے لوگو!۔} یہاں تمام انسانوں سے خطاب ہے ، وہ کہیں کے ہوں اورکبھی بھی ہوں۔
نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان کا بیان:
اس سے معلوم ہوا کہ حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کسی زمانے، کسی جگہ اور کسی قوم کے ساتھ خاص نہیں۔ عام اعلان فرما دیا گیا، اے لوگو! تمہارے پاس وہ تشریف لائے جو سرتاپا اللہ عَزَّوَجَلَّ کی معرفت کی دلیل ہیں جن کی صداقت پر اُن کے معجزے گواہ ہیں اور وہ منکرین کی عقلوں کو حیران کر دیتے ہیں۔ جس قدر معجزے پہلے پیغمبروں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ملے ان سے زائد حضور سیدُالمرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو عطا ہوئے ۔ بلکہ حق تو یہ ہے کہ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ از سر تا قدمِ پاک خود اللہ تعالیٰ کی وَحدانِیَّت اور ذات وصِفات کی دلیل ہیں چنانچہ سرکارِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا بال شریف معجزہ کہ حضرت خالد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی ٹوپی میں رہا تو ان کو ہمیشہ دشمنوں پر فتح ہوتی رہی۔ ہرقل کی پگڑی میں رہا تو اس کے سر کے درد کو آرام رہا۔ حضرت سیدنا عمرو بن عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے وصیت فرمائی تھی کہ میرے کفن میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بال شریف رکھ دئیے جائیں تاکہ قبر کی مشکل آسان ہو۔ حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے وصیت فرمائی کہ مجھے غسل دے کر میری آنکھوں اور لَبوں پر سلطانِ دو جہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ناخن اور بال شریف رکھ دئیے جائیں تاکہ حسابِ قبر میں آسانی ہو ۔ معلوم ہو اکہ بال مبارک قبر کی مشکل آسان کرتے ہیں۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم بیماروں کو بال مبارک کا غسل شدہ پانی پلایا کرتے تھے۔ حضرت طلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے گھر ایک بار بال مبارک پہنچ گئے تو انہوں نے ساری رات ملائکہ کی تسبیح و تَہلیل سنی۔
سوکھے دھانوں پہ ہمارے بھی کرم ہو جائے چھائے رحمت کی گھٹا بن کے تمہارے گیسو
ہم سیہ کاروں پہ یا رب تپشِ محشر میں سایہ اَفگن ہوں ترے پیارے کے پیارے گیسو
آنکھ شریف کا معجزہ کہ قیامت تک کے واقعات کو دیکھا، جنت و دوزخ، عرش و کرسی کو ملاحظہ فرمایا، بلکہ خود رب عَزَّوَجَلَّ کو دیکھا۔ نمازِ کُسوف میں جنت و دوزخ کو مسجد کی دیوار میں دیکھا۔ پیچھے مقتدی جو کچھ کریں ا س کو ملاحظہ فرما دیں۔ ناک مبارک کا معجزہ کہ جس نے محبت کی خوشبو یمن سے آتی ہوئی سونگھی۔ زبان کامعجزہ کہ جن کی ہر بات وحیِ خدا اور وہ زبان جو کہ کُن کی کُنجی ہے۔ منہ کا لُعاب معجزہ کہ حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے گھر ہانڈی میں ڈال دیا تو ہانڈی کی ترکاری میں برکت ہوئی۔ آٹے میں ڈال دیا تو چار سیر آٹا ہزاروں آدمیوں نے کھایا پھر بھی اُتنا ہی رہا۔ خیبر میں حضر ت علی کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کی دکھتی آنکھ میں لگا دیا تو آنکھ کو آرام ہو گیا۔ حضرت صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاؤں میں غار میں سانپ نے کاٹا اس پر لگا دیا تواس کو آرام۔ کھاری کنویں میں ڈال دیا تو اس کا پانی میٹھا ہو گیا۔ ہاتھ مبارک بھی دلیل کہ بدر کے دن ایک مٹھی کنکر کفار کو مارے تورب تعالیٰ نے فرمایا کہ’’ آپ نے نہ پھینکے بلکہ ہم نے پھینکے۔ اسی ہاتھ میں آ کر کنکروں نے کلمہ شریف پڑھا۔ اس ہاتھ سے بیعت لی گئی تو رب عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا کہ’’ ان کے ہاتھوں پر ہمارا ہاتھ ہے۔ انگلیاں معجزہ کہ ایک پیالہ پانی میں انگلیاں رکھ دیں ، اس سے پانی کے چشمے جاری ہو گئے۔ انگلی ہی کے اشارے سے چاند چیر دیا۔
پاؤں مبار ک بھی معجزہ کہ پتھر پر چلیں تو پتھر ان کا اثر لے لے اور فرش پر بھی چلیں اور عرش پر بھی ۔ غرض کہ ان کا ہر ہر عُضْوِ پاک اور ہر ہر بال مبارک رب عَزَّوَجَلَّ کے پہچاننے کی دلیل ہے۔ پسینہ مبارک معجزہ کہ جس میں گلاب کی بے مثل خوشبو۔ جاگنا اور سونا معجزہ کہ ہر ایک کی نیند وضو توڑ دے مگرسرکارِ عالی وقارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نیند وضو نہیں توڑتی۔ تمام جسم پاک سایہ سے محفوظ کہ سایہ بھی کسی کے قدم کے نیچے نہ آئے غرض کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ہر وصف معجزہ اورہر حالت رب تعالیٰ کی قدرت کی دلیل ہے ۔
}وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا:اور ہم نے تمہاری طرف روشن نورنازل کیا۔{ روشن نور سے مراد قرآنِ پاک ہے جو حضور ِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ذریعے ہمیں ملا۔
فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ اعْتَصَمُوْا بِهٖ فَسَیُدْخِلُهُمْ فِیْ رَحْمَةٍ مِّنْهُ وَ فَضْلٍۙ-وَّ یَهْدِیْهِمْ اِلَیْهِ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاﭤ(175)
ترجمہ:
تو وہ جو اللہ پر ایمان لائے اور انہوں نے اس کی رسی مضبوطی سے تھام لی تو عنقریب اللہ انہیں اپنی رحمت اور اپنے فضل میں داخل کرے گا اور انہیں اپنی طرف سیدھی راہ دکھائے گا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{فَسَیُدْخِلُهُمْ فِیْ رَحْمَةٍ مِّنْهُ وَ فَضْلٍ: تو عنقریب اللہ انہیں اپنی رحمت اور اپنے فضل میں داخل کرے گا۔} ایمان والوں کو رحمت، فضل اور سیدھے راستے کی بشارت عطا فرمائی گئی ہے۔ رحمت جنت ہے اور فضل جنت میں کرم بالائے کرم والے اُمور ہیں اور سیدھا راستہ دین اسلام ہے جو سیدھا قرب ِ الٰہی تک لیجاتا ہے۔
یَسْتَفْتُوْنَكَؕ-قُلِ اللّٰهُ یُفْتِیْكُمْ فِی الْكَلٰلَةِؕ-اِنِ امْرُؤٌا هَلَكَ لَیْسَ لَهٗ وَلَدٌ وَّ لَهٗۤ اُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَۚ-وَ هُوَ یَرِثُهَاۤ اِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهَا وَلَدٌؕ-فَاِنْ كَانَتَا اثْنَتَیْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثٰنِ مِمَّا تَرَكَؕ-وَ اِنْ كَانُوْۤا اِخْوَةً رِّجَالًا وَّ نِسَآءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِؕ-یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اَنْ تَضِلُّوْاؕ-وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ(176)
ترجمہ: اے حبیب! تم سے فتویٰ پوچھتے ہیں تم فرما دو کہ اللہ تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے۔ اگر کسی مرد کا انتقال ہو جس کی اولاد نہ ہو اور اس کی ایک بہن ہو تو ترکہ میں اس کی بہن کا آدھا ہے اور مرد اپنی بہن کا وارث ہوگا اگر بہن کی اولاد نہ ہو پھر اگر دو بہنیں ہوں ترکہ میں ان کا دو تہائی (حصہ ہوگا) اور اگر بھائی بہن ہوں (جن میں ) مرد بھی (ہوں ) اور عورتیں بھی تو مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہوگا۔ اللہ تمہارے لئے صاف بیان فرماتا ہے تاکہ تم بھٹک نہ جاؤ اور اللہ ہرچیز جانتا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{یَسْتَفْتُوْنَكَ: تم سے فتویٰ پوچھتے ہیں۔} آیتِ مبارکہ میں کَلَالَہ کی وراثت کا بیان کیا گیا ہے۔ کَلَالَہ اس کو کہتے ہیں جو اپنے بعد نہ باپ چھوڑے، نہ اولاد۔ اس آیت کے شانِ نزول کے متعلق بخاری و مسلم میں ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیمار تھے تو سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ ان کی عیاد ت کے لئے تشریف لائے، حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بے ہوش تھے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وضو فرما کراس کا پانی اُن پر ڈالا توانہیں اِفاقہ ہوا (آنکھ کھول کر دیکھا تونبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف فرما تھے)۔ عرض کیا، یارسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں اپنے مال کا کیا انتظام کروں ؟ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔(بخاری، کتاب الفرائض، باب قول اللہ تعالی: یوصیکم اللہ۔۔۔ الخ، ۴ / ۳۱۲، الحدیث: ۶۷۲۳، مسلم، کتاب الفرائض، باب میراث الکلالۃ، ص۸۷۲، الحدیث: ۵(۱۶۱۶))
ابوداؤد کی روایت میں یہ بھی ہے کہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے فرمایا، اے جابر! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، میرے علم میں تمہاری موت اس بیماری سے نہیں ہے۔(ابو داؤد، کتاب الفرائض، باب من کان لیس لہ ولد ولہ اخوات، ۳ / ۱۶۵، الحدیث: ۲۸۸۷)
اس حدیث سے چند مسئلے معلوم ہوئے۔
(1)… بزرگوں کا وضو کا پانی تبرک ہے اور اس کو حصولِ شفا کے لئے استعمال کرنا سنت ہے۔
(2)… مریضوں کی عیادت سنت ہے۔
(3)…نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اللہ تعالیٰ نے عُلومِ غیب عطا فرمائے ہیں اس لئے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو معلوم تھا کہ حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی موت اس مرض میں نہیں ہے۔
کلالہ کی وراثت کے احکام:
آیت میں جو مسائل بیان ہوئے ان کا خلاصہ و وضاحت یہ ہے:
(1)…اگر کوئی شخص فوت ہو اور اس کے ورثاء میں باپ اور اولاد نہ ہو تو سگی اور باپ شریک بہن کو وراثت سے مال کا آدھا حصہ ملے گاجبکہ صرف ایک ہو اور اگر دو یا دو سے زیادہ ہوں تو دو تہائی حصہ ملے گا۔
(2)…اور اگر بہن فوت ہوئی اور ورثاء میں نہ باپ ہو نہ اولاد تو بھائی اُس کے کل مال کا وارث ہوگا۔
(3)…اگر فوت ہونے والے نے بہن بھائی دونوں چھوڑے تو بھائی کو بہن سے دگنا حصہ ملے گا۔
اہم تنبیہ: وراثت کے مسائل میں بہت وسعت اور قُیود ہوتی ہیں۔ آیت میں جو صورتیں موجود تھیں ان کو بیان کردیا لیکن اگر وراثت کا کوئی مسئلہ درپیش ہو تو بغیر کسی ماہرِ میراث عالم کے خود حل نہ نکالیں