سُوْرَۃ النُّور

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

ترجمہ: کنزالعرفان

اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ، رحمت والاہے ۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ بِسْمِ اللّٰهِ: اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔(کنز العمال، کتاب الاذکار،   الباب السابع  فی تلاوۃ  القراٰن  وفضائلہ،  الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷،  الجزءالاول، الحدیث:۲۴۸۸)

 لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔

{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے  ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)

 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:

       علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

 (1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔

(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام جو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔

(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔

(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔

(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔

(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔

سُوْرَةٌ اَنْزَلْنٰهَا وَ فَرَضْنٰهَا وَ اَنْزَلْنَا فِیْهَاۤ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ لَّعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ(1)

ترجمہ: کنزالعرفان

یہ ایک سورت ہے جو ہم نے نازل فرمائی اور ہم نے اس کے احکام فرض کئے اور ہم نے اس میں روشن آیتیں نازل فرمائیں تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{سُوْرَةٌ: یہ ایک سورت ہے۔} سورۂ نور کی ابتداء میں   اللہ تعالیٰ نے حدود اور مختلف اَحکام بیان فرمائے جبکہ ا س سورت کے آخرمیں  توحید کے دلائل ذکر فرمائے اور ا س آیت میں  بیان فرمایا کہ یہ ایک سورت ہے جو ہم نے نازل فرمائی اور ہم نے اس میں  موجود اَحکام مسلمانوں  پرفرض کئے اور ان پر عمل کرنا بندوں  پر لازم کیا اور ہم نے اس میں  ضروری احکام اور اپنی وحدانیّت کے دلائل پر مشتمل روشن آیتیں  نازل فرمائیں  تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۱، ۳ / ۳۳۴، صاوی، النور، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۱۳۸۲، ملتقطاً)

اَلزَّانِیَةُ وَ الزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ۪-وَّ لَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِۚ-وَ لْیَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآىٕفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ(2)

ترجمہ: کنزالعرفان

جوزنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والا مردہو تو ان میں ہر ایک کو سوسو کوڑے لگاؤ اوراگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو توتمہیں اللہ کے دین میں ان پر کوئی ترس نہ آئے اور چاہیے کہ ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کا ایک گروہ موجود ہو۔



تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلزَّانِیَةُ وَ الزَّانِیْ: جو زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والا مرد ہو۔} اس آیت سے  اللہ تعالیٰ نے حدود اور احکام کا بیان شروع فرمایا، سب سے پہلے زنا کی حد بیان فرمائی اور حُکّام سے خطاب فرمایا کہ جس مرد یا عورت سے زنا سرزد ہو تو اس کی حدیہ ہے کہ اسے سو کوڑے لگاؤ۔(مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۲، ص۷۶۸)

 غیر مُحْصَنْ زانی کی سزا:

         یاد رہے کہ حد ایک قسم کی سزا ہے جس کی مقدار شریعت کی جانب سے مقرر ہے کہ اُس میں  کمی بیشی نہیں  ہوسکتی اوراس سے مقصودلوگوں  کو اس کام سے باز رکھنا ہے جس کی یہ سزا ہے۔(درمختار مع ردالمحتار، کتاب الحدود، ۶ / ۵)اوراس آیت میں  بیان کی گئی زنا کی حد آزاد، غیر مُحْصَنْ کی ہے کیونکہ آزاد،مُحْصَنْ کا حکم یہ ہے کہ اسے رَجم کیا جائے جیسا کہ حدیث شریف میں  وارد ہے کہ حضرت ماعِز رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کو نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم سے رجم کیا گیا۔(بخاری ، کتاب المحاربین من اہل الکفر والردۃ ، باب ہل یقول الامام للمقرّ : لعلّک لمست او غمزت ، ۴ /   ۳۴۲ ، الحدیث: ۶۸۲۴)

            مُحْصَنْ وہ آزاد مسلمان ہے جو مُکَلّف ہواور نکاحِ صحیح کے ساتھ خواہ ایک ہی مرتبہ اپنی بیوی سے صحبت کرچکا ہو۔ ایسے شخص سے زنا ثابت ہو تو اسے رجم کیا جائے گا اور اگر ان میں  سے ایک بات بھی نہ ہو مثلاً آزادنہ ہو یا مسلمان نہ ہو یا عاقل بالغ نہ ہو یا اس نے کبھی اپنی بیوی کے ساتھ صحبت نہ کی ہو یا جس کے ساتھ صحبت کی ہو اس کے ساتھ نکاح فاسد ہوا ہو تو یہ سب غیرمُحْصَنْ میں  داخل ہیں  اور زنا کرنے کی صورت میں  ان سب کا حکم یہ ہے کہ انہیں  سو کوڑے مارے جائیں۔

زنا کی حد سے متعلق3شرعی مسائل:

         یہاں  آیت میں  ذکر کی گئی حد سے متعلق 3 اَہم شرعی مسائل ملاحظہ ہوں ۔

(1)…زنا کا ثبوت یا تو چار مَردوں  کی گواہیوں  سے ہوتا ہے یا زنا کرنے والے کے چار مرتبہ اقرار کرلینے سے۔ پھربھی حاکم یا قاضی بار بار سوال کرے گا اور دریافت کرے گا کہ زنا سے کیا مراد ہے؟ کہاں  کیا؟کس سے کیا؟کب کیا؟ اگر ان سب کو بیان کردیا تو زنا ثابت ہوگا ورنہ نہیں  اور گواہوں  کو صَراحتاً اپنا معائنہ بیان کرنا ہوگا، اس کے بغیر ثبوت نہ ہوگا۔

(2)… مرد کو کوڑے لگانے کے وقت کھڑا کیا جائے اور تہبندکے سوا اس کے تمام کپڑے اتار دیئے جائیں  اورمُتَوَسَّط درجے کے کوڑے سے اس کے سر، چہرے اور شرم گاہ کے علاوہ تمام بدن پر کوڑے لگائے جائیں  اورکوڑے اس طرح لگائے جائیں  کہ اَلَم یعنی درد گوشت تک نہ پہنچے۔ عورت کو کوڑے لگانے کے وقت نہ اسے کھڑا کیا جائے، نہ اس کے کپڑے اتارے جائیں  البتہ اگر پوستین یا روئی دار کپڑے پہنے ہوئے ہو تو وہ اتار دیئے جائیں ۔ یہ حکم آزاد مرد اور عورت کا ہے جبکہ باندی غلام کی حد اس سے نصف یعنی پچاس کوڑے ہیں  جیسا کہ سورۂ نساء میں  مذکور ہوچکا۔

 (3)…لِواطَت زنا میں  داخل نہیں  لہٰذا اس فعل سے حد واجب نہیں  ہوتی لیکن تعزیر واجب ہوتی ہے اور اس تعزیر میں  صحابۂ کرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ کے چند قول مروی ہیں ۔ (1)آگ میں  جلا دینا۔(2)غرق کر دینا۔ (3)بلندی سے گرانا اور اوپر سے پتھر برسانا۔ فاعل و مفعول یعنی لواطت کا فعل کرنے اور کروانے والے دونوں  کا ایک ہی حکم ہے۔(تفسیرات احمدیہ، النور، تحت الآیۃ: ۲، ص۵۴۲-۵۴۳)

            نوٹ:زنا کی حد سے متعلق مزید تفصیل جاننے کے لئے بہارِ شریعت جلد 2حصہ9سے ’’حدود کا بیان‘‘ مطالعہ فرمائیں ۔

{وَ لَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ: تمہیں  ان پر کوئی ترس نہ آئے۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ایمان والوں  پر لازم ہے کہ وہ  اللہ تعالیٰ کے دین کے معاملے میں  انتہائی سخت ہوں  اورا س کی نافذ کردہ حدود کوقائم کرنے میں  کسی طرح کی نرمی سے کام نہ لیں  کہ کہیں  ا س کی وجہ سے حدنافذ کرنا ہی چھوڑ دیں  یا اس میں  تخفیف کرنا شروع کر دیں ۔(مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۲، ص۷۶۹)

حدود نافذ کرنے کے معاملے میں  مسلم حکمرانوں  کے لئے شرعی حکم:

         اس آیت میں  اور اس کے علاوہ کثیر اَحادیث میں  مسلم حکمرانوں  کو حکم دیا گیا ہے کہ  اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جرائم کی جو سزائیں  مقرر کی ہیں  وہ انہیں  سختی سے نافذ کریں ، چنانچہ حضرت عبادہ بن صامت رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ کی حدود کو قریب و بعید سب میں  قائم کرو اور  اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم بجا لانے میں  ملامت کرنے والے کی ملامت تمہیں  نہ روکے۔(ابن ماجہ، کتاب الحدود، باب اقامۃ الحدود، ۳ / ۲۱۷، الحدیث: ۲۵۴۰)

          اُمُّ المومنین حضرت عائشہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’(اے حاکمو!)! عزت داروں  کی لغزشیں معاف کر دو، مگر حدود( کہ ان کو معاف نہیں  کرسکتے۔)(ابوداؤد، کتاب الحدود، باب فی الحدّ یشفع فیہ، ۴ / ۱۷۸، الحدیث: ۴۳۷۵)

         اُمُّ  المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا سے روایت ہے کہ ایک مخزومیہ عورت نے چوری کی تھی، جس کی وجہ سے قریش کو فکر پیدا ہوگئی (کہ اس کو کس طرح سزا سے بچایا جائے۔) آپس میں  لوگوں  نے کہا کہ اس کے بارے میں  کون شخص رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سفارش کرے گا؟ پھرلوگوں  نے کہا،حضرت اسامہ بن زید رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا کے سوا جو کہ رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے محبوب ہیں ، کوئی شخص سفارش کرنے کی جرأت نہیں  کرسکتا، غرض حضرت اسامہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے سفارش کی، اس پر حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہ ِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ تو حد کے بارے میں  سفارش کرتا ہے !پھر حضورپُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے اور اس خطبہ میں  یہ فرمایا کہ ’’اگلے لوگوں  کو اس بات نے ہلاک کیا کہ اگر اُن میں  کوئی شریف چوری کرتا تو اُسے چھوڑ دیتے اور جب کمزور چوری کرتا تو اُس پر حد قائم کرتے، خدا کی قسم ! اگر فاطمہ بنت ِمحمد صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ چوری کرتی تو میں  اُس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔(بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، ۵۶-باب، ۲ / ۴۶۸، الحدیث: ۳۴۷۵)

         اس آیت اور روایات سے اِقتدار کی مَسنَدوں  پر فائز ان مسلمانوں  کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے کہ جو  اللہ تعالیٰ کی حدوں  کو قائم کرنے کی بجائے الٹا ان میں  تبدیلیاں  کرنے کی کوششوں  میں  مصروف ہیں ۔  اللہ تعالیٰ انہیں  عقل ِسلیم عطا فرمائے۔

{وَ لْیَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآىٕفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ: اور چاہیے کہ ان کی سزا کے وقت مسلمانوں  کا ایک گروہ موجود ہو۔} یعنی جب زنا کرنے والوں  پر حد قائم کی جارہی ہو تو ا س وقت مسلمانوں  کا ایک گروہ وہاں  موجود ہو تاکہ زنا کی سزا دیکھ کر انہیں  عبرت حاصل ہو اور وہ اس برے فعل سے باز رہیں ۔

زنا کی مذمت:

         زنا حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔ قرآنِ مجیدمیں  ا س کی بہت شدید مذمت کی گئی ہے،چنانچہ  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’ وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا‘‘(بنی اسراءیل:۳۲)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بیشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بُرا راستہ ہے۔

         اور ارشاد فرمایا: ’’وَ الَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ وَ لَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لَا یَزْنُوْنَۚ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ یَلْقَ اَثَامًاۙ(۶۸) یُّضٰعَفْ لَهُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ یَخْلُدْ فِیْهٖ مُهَانًا‘‘(فرقان:۶۸ ،۶۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اللہ  کے ساتھ کسی دوسرے  معبود کی عبادت نہیں  کرتے اور اس جان کو ناحق قتل نہیں  کرتے جسے  اللہ  نے حرام فرمایا ہے اور بدکاری نہیں  کرتے اور جو یہکام کرے گاوہ سزا پائے گا۔اس کے لئے قیامت کے دن عذاب بڑھادیا جائے گا اور ہمیشہ اس میں  ذلت سے رہے گا۔

         نیز کثیر اَحادیث میں  بھی زنا کی بڑی سخت مذمت و برائی بیان کی گئی ہے، یہاں  ان میں  سے6اَحادیث ملاحظہ ہوں ،

 (1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب بندہ زنا کرتا ہے تو اُس سے ایمان نکل کر سر پر سائبان کی طرح ہوجاتا ہے اور جب اس فعل سے جدا ہوتا ہے تو اُس کی طرف ایمان لوٹ آتا ہے۔(ترمذی، کتاب الایمان، باب ما جاء لا یزنی الزانی وہو مؤمن، ۴ / ۲۸۳، الحدیث: ۲۶۳۴)

(2)…حضرت عمرو بن عاص رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس قوم میں  زنا ظاہر ہوگا، وہ قحط میں  گرفتار ہوگی اور جس قوم میں  رشوت کا ظہور ہوگا، وہ رعب میں  گرفتار ہوگی۔(مشکوۃ المصابیح، کتاب الحدود، الفصل الثالث، ۲ / ۶۵۶، الحدیث: ۳۵۸۲)

(3)…حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےارشاد فرمایا’’جس بستی میں  زنا اور سود ظاہر ہوجائے تو انہوں  نے اپنے لیے  اللہ تعالیٰ کے عذاب کو حلال کرلیا۔(مستدرک، کتاب البیوع، اذا ظہر الزنا والربا فی قریۃ فقد احلّوا بانفسہم عذاب اللّٰہ، ۲ / ۳۳۹، الحدیث: ۲۳۰۸)

(4)…حضرت عثمان بن ابو العاص رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، حضور انور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ آدھی رات کے وقت آسمانوں  کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں ،پھر ایک اعلان کرنے والا اعلان کرتا ہے کہ ’’ہے کوئی دعا کرنے والا کہ ا س کی دعا قبول کی جائے، ہے کوئی مانگنے والا کہ اسے عطا کیا جائے،ہے کوئی مصیبت زدہ کہ اس کی مصیبت دور کی جائے۔اس وقت پیسے لے کر زنا کروانے والی عورت اور ظالمانہ ٹیکس لینے والے شخص کے علاوہ ہر دعا کرنے والے مسلمان کی دعا قبول کر لی جائے گی۔(معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ ابراہیم، ۲ / ۱۳۳، الحدیث: ۲۷۶۹)

(5)…حضرت مقداد بن اسود رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں ، نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے صحابۂ  کرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ سے ارشاد فرمایا’’زنا کے بارے میں  تم کیا کہتے ہو؟ انہوں  نے عرض کی:زنا حرام ہے،  اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اُسے حرام کیا ہے اوروہ قیامت تک حرام رہے گا۔ رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہ ِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’دس عورتوں  کے ساتھ زنا کرنا اپنے پڑوسی کی عورت کے ساتھ زنا کرنے (کے گناہ) سے ہلکاہے۔(مسند امام احمد، مسند الانصار رضی  اللہ عنہم ، بقیۃ حدیث المقداد بن الاسود رضی  اللہ تعالٰی عنہ ، ۹ / ۲۲۶، الحدیث: ۲۳۹۱۵)

(6)…حضرت عبد اللہ بن عمرو رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جو شخص اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرے گا تو قیامت کے دن  اللہ تعالیٰ ا س کی طرف نظر ِرحمت نہ فرمائے گا اور نہ ہی اسے پاک کرے گا اور اس سے فرمائے گا کہ جہنمیوں  کے ساتھ تم بھی جہنم میں  داخل ہو جاؤ۔(مسند الفردوس، باب الزای، ۲ / ۳۰۱، الحدیث: ۳۳۷۱)

اَلزَّانِیْ لَا یَنْكِحُ اِلَّا زَانِیَةً اَوْ مُشْرِكَةً٘-وَّ الزَّانِیَةُ لَا یَنْكِحُهَاۤ اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِكٌۚ-وَ حُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ(3)

ترجمہ: کنزالعرفان

زنا کرنے والامرد بدکار عورت یا مشرکہ سے ہی نکاح کرے گااور بدکار عورت سے زانی یا مشرک ہی نکاح کرے گااور یہ ایمان والوں پر حرام ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلزَّانِیْ لَا یَنْكِحُ اِلَّا زَانِیَةً اَوْ مُشْرِكَةً: زنا کرنے والامرد بدکار عورت یا مشرکہ سے ہی نکاح کرے گا۔} ارشاد فرمایا کہ زنا کرنے والامرد بدکار عورت یا مشرکہ سے ہی نکاح کرنا پسندکرے گااور بدکار عورت سے زانی یا مشرک ہی نکاح کرنا پسندکرے گا کیونکہ خبیث کا میلان خبیث ہی کی طرف ہوتا ہے، نیکوں  کو خبیثوں  کی طرف رغبت نہیں  ہوتی۔ اس آیت کا ایک معنی یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ فاسق وفاجر شخص نیک اور پارسا عورت سے نکاح کرنے کی رغبت نہیں  رکھتا بلکہ وہ اپنے جیسی فاسقہ فاجرہ عورت سے نکاح کرنا پسند کرتا ہے اسی طرح فاسقہ فاجرہ عورت نیک اور پارسا مرد سے نکاح کرنے کی رغبت نہیں  رکھتی بلکہ وہ اپنے جیسے فاسق وفاجر مرد سے ہی نکاح کرنا پسند کرتی ہے۔شانِ نزول:اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ مہاجرین میں  سے بعض بالکل نادار تھے، نہ اُن کے پاس کچھ مال تھا نہ ان کا کوئی عزیز قریب تھا اور بدکار مشرکہ عورتیں  دولت مند اور مالدار تھیں ، یہ دیکھ کر کسی مہاجر کو خیال آیا کہ اگر اُن سے نکاح کرلیا جائے تو ان کی دولت کام میں  آئے گی۔سرکارِ دو عالَم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اُنہوں نے اس کی اجازت چاہی تو اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی اور انہیں  اس سے روک دیا گیا۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۳۳۵)

{وَ حُرِّمَ: اور حرام ہے۔} یعنی بدکاروں  سے نکاح کرنا ایمان والوں  پر حرام ہے۔ یاد رہے کہ ابتدائے اسلام میں  زانیہ عورت سے نکاح کرنا حرام تھا بعد میں  اس آیت ’’وَ اَنْكِحُوا الْاَیَامٰى مِنْكُمْ‘‘( ترجمۂکنزُالعِرفان: اور تم میں  سے جو

بغیر نکاح کے ہوں  ان کے نکاح کردو۔)( النور:۳۲) سے یہ حکم مَنسوخ ہوگیا۔( مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۳، ص۷۶۹)

بد عقیدہ اور بد کردار لوگوں  کا ساتھی بننے اور بنانے سے بچیں :

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ بد عقیدہ اور بری عادات و کردار والے لوگوں  کا ساتھی بننے اورانہیں  اپنا ساتھی بنانے سے بچنا چاہئے اور درست عقائد رکھنے والے نیک و پارسا لوگوں  کا ساتھی بننا اور انہیں  اپنا ساتھی بنانا چاہئے کیونکہ ایک طبیعت دوسری طبیعت سے اثر لیتی ہے اور ایک دوسرے سے تعلقات اپنا اثر دکھاتے ہیں  اور بری عادات بہت جلد بندے میں  سَرایَت کر جاتی ہیں ۔

            حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’بنی اسرائیل میں  پہلی خرابی جوآئی وہ یہ تھی کہ ان میں  سے ایک آدمی جب دوسرے آدمی سے ملتا تو اس سے کہتا: اے شخص!  اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو برا کام تم کرتے ہو ا سے چھوڑ دو کیونکہ یہ تیرے لئے جائز نہیں  ہے۔ پھر جب دوسرے دن اس سے ملتا تو اسے منع نہ کرتا کیونکہ وہ کھانے پینے اور بیٹھنے میں  ا س کاشریک ہو جاتاتھا۔جب انہوں  نے ایسا کیا تو  اللہ تعالیٰ نے ان کے اچھے دلوں  کو برے دلوں  سے ملا دیا (اور نیک لوگ بروں  کی صحبت میں  بیٹھنے کی نحوست سے انہی جیسے ہوگئے۔)( ابو داؤد، اوّل کتاب الملاحم، باب الامر والنہی، ۴ / ۱۶۲، الحدیث: ۴۳۳۶)

            اورجتنے قریبی ساتھی شوہر اور بیوی ہوتے ہیں  اتنے کوئی اور نہیں  ہوتے اور ان میں  سے کوئی ایک بد عقیدہ یا بد کردار ہو تو اس کے اثرات اتنے خطرناک ہوتے ہیں  کہ بندہ اپنے دین و ایمان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے،جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں ’’ غیرمذہب والیوں  کی صحبت آگ ہے، ذی علم، عاقل، بالغ مَردوں  کے مذہب اس میں  بگڑگئے ہیں ، عمران بن حطان رقاشی کاقصہ مشہورہے، یہ تابعین کے زمانہ میں  ایک بڑا محدث تھا، خارجی مذہب کی عورت کی صحبت میں  مَعَاذَ اللہ خود خارجی ہوگیا اور یہ دعویٰ کیاتھا کہ اسے سنی کرنا چاہتا ہے۔( فتاوی رضویہ، ۲۳ / ۶۹۲)

            لہٰذا جسے اپنے دین و ایمان کی ذرا سی بھی فکر ہے اسے چاہئے کہ وہ بد مذہب مرد یا عورت سے ہر گز ہر گز شادی نہ کرے،یونہی برے کردار والے مرد یا عورت سے شادی کرنے سے بھی بچے بلکہ درست عقائد،اچھے کردار اور نیک و پارسا مرد یا عورت سے شادی کی جائے تاکہ دنیا بھی سنور جائے اور آخرت بھی برباد نہ ہو

وَ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَةً وَّ لَا تَقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًاۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ(4)اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَ اَصْلَحُوْاۚ-فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(5)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور جو پاکدامن عورتوں پر تہمت لگائیں پھر چار گواہ نہ لائیں تو انہیں اَسّی کوڑے لگاؤ اور ان کی گواہی کبھی نہ مانو اور وہی فاسق ہیں ۔ مگر جو اس کے بعد توبہ کرلیں اور اپنی اصلاح کرلیں تو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ: اور جو پاکدامن عورتوں  پر تہمت لگائیں ۔} اس آیت مبارکہ میں  پاکدامن اجنبی عورتوں  پر زنا کی تہمت لگانے والوں  کی سزا کا بیان ہے۔آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ پاکدامن عورتوں  پر زنا کی تہمت لگائیں  پھر چار گواہ ایسے نہ لائیں  جنہوں  نے ان کے زنا کا معائنہ کیا ہوتو ان میں  سے ہر ایک کو اسی کوڑے لگاؤ اور کسی چیز میں  ان کی گواہی کبھی قبول نہ کرو اور کبیرہ گناہ کے مُرتکِب ہونے کی وجہ سے وہی فاسق ہیں ۔( جلالین، النور، تحت الآیۃ: ۴، ص۲۹۴)

پاک دامن مرد یا عورت پر زنا کی تہمت لگانے کی سزا سے متعلق چند شرعی مسائل:

            یہاں  آیت میں  بیان کی گئی سزا سے متعلق چند شرعی مسائل ملاحظہ ہوں ،

(1)… جو شخص کسی پارسا مرد یا عورت کو زنا کی تہمت لگائے اور اس پر چار معائنہ کے گواہ پیش نہ کر سکے تو اس پر 80کوڑوں  کی حد واجب ہوجاتی ہے۔ آیت میں  مُحْصَنَاتْکا لفظ (یعنی صرف عورتوں  پر تہمت لگانے کا بیان) مخصوص واقعہ کے سبب سے وارد ہوا  یا اس لئے کہ عورتوں  کو تہمت لگانا بکثرت واقع ہوتا ہے۔

(2)… ایسے لوگ جو زنا کی تہمت میں  سزا یاب ہوں  اور ان پر حد جاری ہوچکی ہو وہ مَرْدُوْدُ الشَّہَادَۃ ہوجاتے ہیں ، یعنی ان کی گواہی کبھی مقبول نہیں  ہوتی۔ پارسا سے مراد وہ ہیں  جو مسلمان، مُکَلَّف، آزاد اور زنا سے پاک ہوں ۔

(3)… زنا کی گواہی کا نصاب چار گواہ ہیں ۔

(4)… حد ِقَذَف یعنی زنا کی تہمت لگانے کی سزامطالبہ پر مشروط ہے، جس پر تہمت لگائی گئی ہے اگر وہ مطالبہ نہ کرے تو قاضی پر حد قائم کرنا لازم نہیں ۔

(5) …جس پر تہمت لگائی گئی ہے اگر وہ زندہ ہو تو مطالبہ کا حق اسی کو ہے اور اگر مر گیا ہو تو اس کے بیٹے پوتے کو بھی ہے۔

(6)… غلام اپنے مولیٰ کے خلاف اور بیٹا باپ کے خلاف قذف یعنی اپنی ماں  پر زنا کی تہمت لگانے کا دعویٰ نہیں  کرسکتا۔

(7)…قذف کے الفاظ یہ ہیں  کہ وہ صراحتاً  کسی کو اے زانی کہے یا یہ کہے کہ تو اپنے باپ سے نہیں  ہے یا اس کے باپ کا نام لے کر کہے کہ تو فلاں  کا بیٹا نہیں  ہے یا اس کو زانیہ کا بیٹا کہہ کر پکارے جبکہ اس کی ماں  پارسا ہوتو ایسا شخص قَاذِف یعنی زنا کی تہمت لگانے والاہوجائے گا اور اس پر تہمت کی حد لازم آئے گی۔

(8)… اگر غیرمُحْصَنْ کو زنا کی تہمت لگائی مثلاً کسی غلام کو یا کافر کو یا ایسے شخص کو جس کا کبھی زنا کرنا ثابت ہو تو اس پر حدِ قذف قائم نہ ہوگی بلکہ اس پر تعزیر واجب ہوگی اور یہ تعزیر 3سے 39کوڑے تک جتنے شرعی حاکم تجویز کرے اتنے کوڑے لگانا ہے، اسی طرح اگر کسی شخص نے زنا کے سوا اور کسی گناہ کی تہمت لگائی اور پارسا مسلمان کو اے فاسق، اے کافر، اے خبیث، اے چور، اے بدکار، اے مُخَنَّث، اے بددیانت، اے لوطی، اے زندیق، اے دَیُّوث، اے شرابی، اے سود خوار، اے بدکار عورت کے بچے، اے حرام زادے، اس قسم کے الفاظ کہے تو بھی اس پر تعزیر واجب ہوگی۔

          نوٹ:حد ِقذف سے متعلق مسائل کی تفصیلی معلومات کے لئے بہار شریعت جلد2حصہ9سے ’’قذف کا بیان‘‘ مطالعہ فرمائیں ۔

{اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ: مگر جو اس کے بعد توبہ کرلیں ۔} یعنی تہمت لگانے والا اگر سزا پا نے کے بعد توبہ کرلے اور اپنے اَحوال و اَفعال کو درست کرلے تو اب وہ فاسق نہ رہے گا۔(ابو سعود، النور، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۷۱، ملخصاً) یاد رہے کہ توبہ کے بعد بھی تہمت لگانے والے کی گواہی قبول نہ ہو گی کیونکہ گواہی سے متعلق مُطلَقًاارشاد ہو چکا ہے کہ ان کی گواہی کبھی قبول نہ کرو۔

وَ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَاجَهُمْ وَ لَمْ یَكُنْ لَّهُمْ شُهَدَآءُ اِلَّاۤ اَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ اَحَدِهِمْ اَرْبَعُ شَهٰدٰتٍۭ بِاللّٰهِۙ-اِنَّهٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیْنَ(6)وَ الْخَامِسَةُ اَنَّ لَعْنَتَ اللّٰهِ عَلَیْهِ اِنْ كَانَ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ(7)وَ یَدْرَؤُا عَنْهَا الْعَذَابَ اَنْ تَشْهَدَ اَرْبَعَ شَهٰدٰتٍۭ بِاللّٰهِۙ-اِنَّهٗ لَمِنَ الْكٰذِبِیْنَ(8)وَ الْخَامِسَةَ اَنَّ غَضَبَ اللّٰهِ عَلَیْهَاۤ اِنْ كَانَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(9)وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ وَ اَنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ حَكِیْمٌ(10)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور وہ جو اپنی بیویوں پر تہمت لگائیں اور ان کے پاس اپنی ذات کے علاوہ گواہ نہ ہوں تو ان میں سے ایسے کسی کی گواہی یہ ہے کہ اللہ کے نام کے ساتھ چار بار گواہی دے کہ بیشک وہ سچا ہے۔اور پانچویں گواہی یہ ہوکہ اُس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹوں میں سے ہو۔اور عورت سے سزا کو یہ بات دور کرے گی کہ وہ اللہ کے نام کے ساتھ چار بار گواہی دے کہ بیشک مرد جھوٹوں میں سے ہے۔ اور پانچویں بار یوں کہ عورت پر اللہ کاغضب ہو اگر مردسچوں میں سے ہو۔ اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی اور یہ کہ اللہ بہت توبہ قبول فرمانے والا، حکمت والا ہے(تو وہ تمہاے راز کھول دیت

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَاجَهُمْ: اور وہ جو اپنی بیویوں  پر تہمت لگائیں ۔} اس سے پہلی آیات میں   اللہ تعالیٰ نے اجنبی عورتوں  پر زنا کی تہمت لگانے کے احکام بیان فرمائے جبکہ اس آیت اور ا س کے بعد والی چند آیات میں  بیویوں  پر زنا کی تہمت لگانے کے احکام بیان فرمائے ہیں ۔( تفسیرکبیر، النور، تحت الآیۃ: ۶، ۸ / ۳۳۰) شانِ نزول:حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ ایک صحابی رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی، حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’گواہ لاؤ، ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد لگائی جائے گی۔انہوں  نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کوئی شخص اپنی عورت پر کسی مرد کو دیکھے تو گواہ ڈھونڈنے جائے؟ حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وہی جواب دیا۔ پھر انہوں  نے کہا: قسم ہے اُس کی جس نے حضور اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! بیشک میں  سچا ہوں  اور خدا کوئی ایسا حکم نازل فرمائے گا جو میری پیٹھ کو حد سے بچادے۔ اُس وقت حضرت جبریل عَلَیْہِ  السَّلَام اُترے اور یہ آیتیں  نازل ہوئیں۔(بخاری ، کتاب التفسیر ، سورۃ النور ، باب و یدرأ عنہا العذاب ان تشہد اربع شہادات ۔۔۔ الخ ، ۳ / ۲۸۰ ، الحدیث: ۴۷۴۷)

بیوی پر زنا کی تہمت لگانے کے شرعی حکم کا خلاصہ:

            ان آیات میں  بیوی پر زنا کی تہمت لگانے کا جو حکم بیان ہوا اسے شریعت کی اصطلاح میں  ’’لِعان‘‘ کہتے ہیں ۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب مرد اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائے تو اگرمرد و عورت دونوں  گواہی دینے کی اہلیت رکھتے ہوں  اور عورت اس پر مطالبہ کرے تو مرد پر لِعان واجب ہوجاتا ہے اگر وہ لِعان سے انکار کردے تو اسے اس وقت تک قید میں  رکھا جائے گا جب تک وہ لعان کرے یا اپنے جھوٹ کا اقرار کر لے۔ ا گر جھوٹ کا اقرار کرے تو اس کو حد ِقذف لگائی جائے گی جس کا بیان اوپر گزر چکا ہے اور اگر لِعان کرنا چاہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ اسے چار مرتبہ  اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم کے ساتھ کہنا ہوگا کہ وہ اس عورت پر زنا کا الزام لگانے میں  سچا ہے اور پانچویں  مرتبہ کہنا ہوگا کہ  اللہ عَزَّوَجَلَّ کی مجھ پرلعنت ہو اگر میں  یہ الزام لگانے میں  جھوٹا ہوں ۔ اتنا کرنے کے بعد مرد پر سے حد ِقذف ساقط ہوجائے گی اور عورت پر لعان واجب ہوگا۔ وہ انکار کرے گی تو قید کی جائے گی یہاں  تک کہ لعان منظور کرے یا شوہر کے الزام لگانے کی تصدیق کرے۔ اگر تصدیق کی تو عورت پر زنا کی حد لگائی جائے گی اور اگر لعان کرنا چاہے تو اسے بھی چار مرتبہ  اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم کے ساتھ کہنا ہوگا کہ مرد اس پر زنا کی تہمت لگانے میں  جھوٹا ہے اور پانچویں  مرتبہ یہ کہنا ہوگا کہ اگر مرد اس الزام لگانے میں  سچا ہو تو مجھ پر خدا عَزَّوَجَلَّ کا غضب ہو۔ اتنا کہنے کے بعد عورت سے زنا کی حد ساقط ہوجائے گی اور لعان کے بعد قاضی کے جدائی کروا دینے سے میاں  بیوی میں  جدائی واقع ہوگی، بغیر قاضی کے نہیں  اور یہ جدائی طلاقِ بائنہ ہوگی۔ اور اگر مرد گواہی دینے کی اہلیت رکھنے والوں  میں  سے نہ ہو مثلاً غلام ہو یا کافر ہو یا اس پر قذف کی حد لگ چکی ہو تو لعان نہ ہوگا اور تہمت لگانے سے مرد پر حد ِقذف لگائی جائے گی اور اگر مرد گواہی کی اہلیت رکھنے والوں  میں  سے ہو اور عورت میں  یہ اہلیت نہ ہو، اس طرح کہ وہ باندی ہو یا کافرہ ہو یا اس پر قذف کی حد لگ چکی ہو یا بچی ہو یا مجنونہ ہو یا زانیہ ہو، اس صورت میں  نہ مرد پر حد ہوگی اور نہ لعان۔

            نوٹ: لعان سے متعلق مزید مسائل کی معلومات کے لئے بہارِ شریعت جلد2 حصہ8سے ’’لِعان کا بیان‘‘ مطالعہ فرمائیں۔

{وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ: اور اگر  اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی۔} یعنی اے تہمت لگانے والے مردو اور تہمت لگائی گئی عورتو! اگر تم پر  اللہ تعالیٰ کا فضل اور ا س کی رحمت نہ ہوتی اور  اللہ تعالیٰ بہت توبہ قبول فرمانے والا اور اپنے تمام افعال و احکام میں  حکمت والا نہ ہوتا تو وہ تمہارے راز کھول دیتا اور اس کے بعد تمہارا حال بیان سے باہر ہوتا۔( روح البیان، النور، تحت الآیۃ: ۱۰، ۶ / ۱۲۱)

اِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُوْ بِالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْؕ-لَا تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّكُمْؕ-بَلْ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْؕ-لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِۚ-وَ الَّذِیْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِیْمٌ(11)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک جو لوگ بڑا بہتان لائے ہیں وہ تم ہی میں سے ایک جماعت ہے۔ تم اس بہتان کو اپنے لیے برا نہ سمجھو، بلکہ وہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ ان میں سے ہر شخص کیلئے وہ گناہ ہے جو اس نے کمایا اور ان میں سے وہ شخص جس نے اس بہتان کاسب سے بڑا حصہ اٹھایا اس کے لیے بڑا عذاب ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُوْ بِالْاِفْكِ: بیشک جو بڑا بہتان لائے ہیں ۔} یہ آیت اور ا س کے بعد والی چند آیتیں  اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا کی شان میں  نازل ہوئیں  جن میں  آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا کی عفت و عصمت کی گواہی خود ربُّ العالَمین نے دی اور آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا پر تہمت لگانے والے منافقین کو سزا کا مژدہ سنایا۔

واقعہ ِاِفک:

            آیت میں  مذکور بڑے بہتان سے مراد اُمُّ  المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا پر تہمت لگانا ہے۔ اس کا واقعہ کچھ یوں  ہوا کہ    5    ؁ ہجری میں  غزوہ بنی مُصْطَلَقْ سے واپسی کے وقت قافلہ مدینہ منورہ کے قریب ایک پڑاؤ پر ٹھہرا،تواُمُّ  المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا  ضرورت کے لئے کسی گوشے میں  تشریف لے گئیں ، وہاں  آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا کاہار ٹوٹ گیا تو آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا اس کی تلاش میں  مصروف ہوگئیں ۔ اُدھر قافلے والوں  نے آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا کا مَحمِل شریف اونٹ پر کَس دیا اور انہیں  یہی خیال رہا کہ اُمُّ  المؤمنین رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا اس میں  ہیں ، اس کے بعد قافلہ وہاں  سے کوچ کر گیا۔ جب حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا واپس تشریف لائیں  تو قافلہ وہاں  سے جا چکا تھا۔ آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا ا س خیال سے وہیں  قافلے کی جگہ پر بیٹھ گئیں  کہ میری تلاش میں  قافلہ ضرور واپس آئے گا۔ عام طور پر معمول یہ تھا کہ قافلے کے پیچھے گر ی پڑی چیز اُٹھانے کے لئے ایک صاحب رہا کرتے تھے، اس موقع پر حضرت صفوان رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ اس کام پر مامور تھے۔ جب وہ اس جگہ پر آئے اور اُنہوں  نے آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا کو بیٹھے ہوئے دیکھا تو بلند آواز سے ’’اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ‘‘ پکارا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا نےکپڑے سے پردہ کرلیا۔ انہوں  نے اپنی اُونٹنی بٹھائی اور آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا اس پر سوار ہو کر لشکر میں  پہنچ گئیں ۔ اس وقت سیاہ باطن منافقین نے غلط باتیں  پھیلائیں  اور آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا کی شان میں  بدگوئی شروع کر دی، بعض مسلمان بھی اُن کے فریب میں  آگئے اور اُن کی زبان سے بھی کوئی بیجا کلمہ سرزد ہوا۔ اسی دوران اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا بیمار ہوگئی تھیں  اور ایک ماہ تک بیمار رہیں ، بیماری کے عرصے میں  انہیں  اطلاع نہ ہوئی کہ اُن کے بارے میں  منافقین کیا کہہ رہے ہیں ۔ ایک روز حضرت اُمِ مِسْطَح رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا سے انہیں  یہ خبر معلوم ہوئی۔ اس سے آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا کا مرض اور بڑھ گیا اور اس صدمے میں  اس طرح روئیں  کہ آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا کے آنسو نہ تھمتے تھے اور نہ ایک لمحہ کے لئے نیند آتی تھی، اس حال میں  دو عالَم کے سردار صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر وحی نازل ہوئی اور حضرتِ اُمُّ  المؤمنین رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا کی پاکی میں  یہ آیتیں  اُتریں  اور آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا کا شرف و مرتبہ  اللہ تعالیٰ نے اتنا بڑھایا کہ قرآنِ کریم کی بہت سی آیات میں  آپ کی طہارت و فضیلت بیان فرمائی۔ اس دوران میں  سیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بھی حضرت عائشہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا کیلئے برسر ِمنبرخیر کے کلمات ہی ارشاد فرمائے، چنانچہ فرمایا: میں  اپنے اہل کے متعلق سوائے خیر کے کچھ نہیں  جانتا۔( بخاری، کتاب المغازی، باب حدیث الافک، ۳ / ۶۱، الحدیث: ۴۱۴۱)

             حضرت عمر فاروق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے فرمایا ’’ منافقین یقینی طور پر جھوٹے ہیں ، اُمُّ  المؤمنین رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا یقینی طور پر پاک ہیں ۔  اللہ تعالیٰ نے تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے جسم پاک کو مکھی کے بیٹھنے سے محفوظ رکھا کہ وہ نجاستوں  پر بیٹھتی ہے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بدعورت کی صحبت سے محفوظ نہ رکھے۔

            حضرتِ عثمان غنی رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے بھی اس طرح آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا کی طہارت بیان کی اور فرمایا کہ  اللہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا سایہ زمین پر نہ پڑنے دیا تاکہ اس سایہ پر کسی کا قدم نہ پڑے تو جو پروردگار عَزَّوَجَلَّ آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سایہ کو محفوظ رکھتا ہے کس طرح ہوسکتا ہے کہ وہ آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اہل کو محفوظ نہ فرمائے۔

             حضرت علی مرتضیٰ کَرَّمَ  اللہ  تَعَالٰی  وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا کہ ایک جوں  کا خون لگنے سے پروردگارِ عالَم عَزَّوَجَلَّ نے آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نعلین اتار دینے کا حکم دیا توجو پروردگار عَزَّوَجَلَّ آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نعلین شریف کی اتنی سی آلودگی کوگوارا نہ فرمائے توکیسے ہوسکتا ہے کہ وہ آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اہل کی آلودگی گوارا کرے۔(مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۷۷۲، ملخصاً)

             اس طرح بہت سے صحابہ اور بہت سی صحابیات رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ نے قسمیں  کھائیں ۔ آیت نازل ہونے سے پہلے ہی اُمُّ  المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا کی طرف سے دل مطمئن تھے، آیت کے نزول نے ان کی عزت و شرافت اور زیادہ کردی تو بدگویوں  کی بدگوئی  اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور صحابۂ کِبار رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ کے نزدیک باطل ہے اور بدگوئی کرنے والوں  کے لئے سخت ترین مصیبت ہے۔

{لَا تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّكُمْ: تم اس بہتان کو اپنے لیے برا نہ سمجھو۔} یعنی اے بہتان سے بچنے والو!تم اس بہتان کو اپنے لیے برا نہ سمجھو، بلکہ بہتان سے بچناتمہارے لیے بہتر ہے کہ  اللہ  تَبَارَک وَتَعَالٰی  تمہیں  اس پر جزا دے گا اور اُمُّ  المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا کی شان اور ان کی براء ت ظاہر فرمائے گا، چنانچہ اس براء ت میں   اللہ تعالیٰ نے اٹھارہ آیتیں  نازل فرمائیں۔( مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۱۱، ص۷۷۱، ملخصاً)

{ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ: ان میں  سے ہر شخص کیلئے۔} یعنی ان بہتان لگانے والوں  میں سے ہر شخص کے لئے اس کے عمل کے مطابق گنا ہ ہے کہ کسی نے طوفان اُٹھایا، کسی نے بہتان اُٹھانے والے کی زبانی موافقت کی، کوئی ہنس دیا، کسی نے خاموشی کے ساتھ سن ہی لیا، الغرض جس نے جو کیا اس کا بدلہ پائے گا۔( مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۱۱، ص۷۷۱-۷۷۲)

{وَ الَّذِیْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ: ان میں  سے وہ شخص جس نے اس کاسب سے بڑا حصہ اُٹھایا۔} یعنی ان بہتان لگانے والوں  میں  سے وہ شخص جس نے اس بہتان کاسب سے بڑا حصہ اٹھایا کہ اپنے دل سے یہ طوفان گڑھا اور اس کو مشہور کرتا پھرا اس کے لیے آخرت میں  بڑا عذاب ہے۔ آیت میں  جس کا ذکر ہے اس سے مراد عبد اللہ بن اُبی بن اَبی سلول منافق ہے۔

لَوْ لَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِهِمْ خَیْرًاۙ-وَّ قَالُوْا هٰذَاۤ اِفْكٌ مُّبِیْنٌ(12)

ترجمہ: کنزالعرفان

ایسا کیوں نہ ہواکہ جب تم نے یہ بہتان سنا تو مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اپنے لوگوں پر نیک گمان کرتے اور کہتے: یہ کھلا بہتان ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ لَوْ لَا: ایسا کیوں  نہ ہوا۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں  کو ادب سکھاتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’ایسا کیوں  نہ ہوا کہ جب تم نے یہ بہتان سنا تو مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں  اپنے لوگوں  پر نیک گمان کرتے کیونکہ مسلمان کو یہی حکم ہے کہ وہ مسلمان کے ساتھ نیک گمان کرے کہ بدگمانی ممنوع ہے۔ نیز لوگ سن کرکہتے کہ یہ کھلا بہتان ہے، بالکل جھوٹ ہے اوربے حقیقت ہے۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۱۲، ۳ / ۳۴۳، تفسیرکبیر، النور، تحت الآیۃ: ۱۲، ۸ / ۳۴۱، ملتقطاً)

صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں ’’بعضے گمراہ بے باک یہ کہہ گزرتے ہیں  کہ سید ِعالم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَسَلَّمَ کو مَعَاذَ اللہ اس معاملہ میں  بدگمانی ہوگئی تھی، وہ مُفتری کذّاب (یعنی جھوٹا بہتان لگانے والے) ہیں  اور شانِ رسالت میں  ایسا کلمہ کہتے ہیں  جو مؤمنین کے حق میں  بھی لائق نہیں  ہے۔  اللہ تعالیٰ مؤمنین سے فرماتا ہے کہ تم نے نیک گمان کیوں  نہ کیا تو کیسے ممکن تھا کہ رسولِ کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہ وَسَلَّمَ بدگمانی کرتے اور حضور (صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کی نسبت بدگمانی کا لفظ کہنا بڑی سیاہ باطنی ہے، خاص کر ایسی حالت میں  جب کہ بخاری شریف کی حدیث میں  ہے کہ حضور(صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ)نے بَقسم فرمایا کہ میں  جانتا ہوں  کہ میرے اہل پاک ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان پر بدگمانی کرنا ناجائز ہے اور جب کسی نیک شخص پر تہمت لگائی جائے تو بغیر ثبوت مسلمان کو اس کی موافقت اور تصدیق کرنا روا نہیں ۔( خزائن العرفان، النور، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۶۵۱-۶۵۲)

بد ُگمانی سے بچنے کی ترغیب:

         قرآن مجید میں  مسلمانوں  کو بد ُگمانی سے بچنے کا حکم دیاگیا ہے،چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ‘‘(حجرات:۱۲)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! بہت زیادہ گمان کرنےسے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے۔

         اسی طرح کثیر اَحادیث میں  بھی بد گمانی سے بچنے اور اچھا گمان رکھنے کافرمایا گیا ہے،ان میں  سے 4اَحادیث درج ذیل ہیں ،

(1)…حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے اپنے بھائی سے بدگمانی کی بے شک اس نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے بدگمانی کی، کیونکہ  اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے ’’اِجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ‘‘ ترجمہ: بہت زیادہ گمان کرنے سے بچو۔( در منثور، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۲، ۷ / ۵۶۶)

(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ  تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بد گمانی سے بچو کیونکہ بد گمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔(بخاری، کتاب الفراءض، باب تعلیم الفرائض، ۴ / ۳۱۳، الحدیث: ۶۷۲۴)

 (3)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ  تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اکرم صَلَّی اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’حُسنِ ظن عمدہ عبادت ہے۔(ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی حسن الظنّ، ۴ / ۳۸۷، الحدیث: ۴۹۹۳)

(4)…حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللہ  تَعَالٰی عَنْہُ  فرماتے ہیں :’’تم اپنے بھائی کے منہ سے نکلنے والی کسی بات کا اچھا مَحمل پاتے ہو تو اس کے بارے میں  بد ُگمانی نہ کرو۔(در منثور، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۲، ۷ / ۵۶۶)

لَوْ لَا جَآءُوْ عَلَیْهِ بِاَرْبَعَةِ شُهَدَآءَۚ-فَاِذْ لَمْ یَاْتُوْا بِالشُّهَدَآءِ فَاُولٰٓىٕكَ عِنْدَ اللّٰهِ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ(13)وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ لَمَسَّكُمْ فِیْ مَاۤ اَفَضْتُمْ فِیْهِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ(14)

ترجمہ: کنزالعرفان

اس پر چار گواہ کیوں نہ لائے تو جب وہ گواہ نہ لائے تو وہی اللہ کے نزدیک جھوٹے ہیں ۔اور اگر دنیا اور آخرت میں اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہو تی تو جس معاملے میں تم پڑگئے تھے اس پر تمہیں بڑا عذاب پہنچتا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَوْ لَا جَآءُوْ عَلَیْهِ: اس پر کیوں  نہ لائے۔} اس آیت میں   اللہ تعالیٰ نے بہتان لگانے والوں  سے فرمایا کہ وہ اپنے بہتان پر گواہ کیوں  نہ لائے جو ا س کی گواہی دیتے اور جب وہ گواہ نہیں  لائے تو وہی  اللہ تعالیٰ کے نزدیک جھوٹے ہیں ۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۱۳، ۳ / ۳۴۳)

            یاد رہے کہ یہاں  جھوٹے ہونے سے ظاہری اور باطنی طور پر جھوٹا ہونامراد ہے اور اگر بالفرض وہ گواہ لے بھی آتے تو ظاہراً جھوٹے نہ رہتے اگرچہ در حقیقت پھر بھی وہ اور ان کے سارے گواہ جھوٹے ہوتے۔( روح البیان، النور، تحت الآیۃ: ۱۳، ۶ / ۱۲۷)

{وَ لَوْ لَا: اور اگرنہ ہوتا۔} اس آیت میں  بہتان لگانے والوں  سے مزیدفرمایا کہ اگر دنیا اور آخرت میں  تم پر  اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی، جس میں  سے توبہ کے لئے مہلت دینا بھی ہے اور آخرت میں  عفو و مغفرت فرمانا بھی تو جس بہتان میں  تم پڑے تھے اس پر تمہیں  بڑا عذاب پہنچتا۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۱۴، ۳ / ۳۴۳)

اِذْ تَلَقَّوْنَهٗ بِاَلْسِنَتِكُمْ وَ تَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِكُمْ مَّا لَیْسَ لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ وَّ تَحْسَبُوْنَهٗ هَیِّنًا ﳓ وَّ هُوَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِیْمٌ(15)

ترجمہ: کنزالعرفان

جب تم ایسی بات ایک دوسرے سے سن کر اپنی زبانوں پرلاتے تھے اور اپنے منہ سے وہ بات کہتے تھے جس کا تمہیں کوئی علم نہ تھا اور تم اسے معمولی سمجھتے تھے حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بہت بڑاتھا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِذْ تَلَقَّوْنَهٗ بِاَلْسِنَتِكُمْ: جب تم اس کو ایک دوسرے سے سن کر اپنی زبانوں  پرلاتے تھے۔} ارشاد فرمایا کہ یہ بڑا عذاب اس وقت پہنچ جاتا جب تم اس بہتان کو ایک دوسرے سے سن کر اپنی زبانوں  پرلاتے تھے اور اپنے منہ سے وہ بات کہتے تھے جس کا تمہیں  کوئی علم نہ تھا اور تم اسے ہلکا سا معاملہ سمجھتے تھے اور خیال کرتے تھے کہ اس میں  بڑا گناہ نہیں حالانکہ وہ  اللہ تعالیٰ کے نزدیک جرمِ عظیم تھا۔( روح البیان، النور، تحت الآیۃ: ۱۵، ۶ / ۱۲۷، مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۷۷۳، ملتقطاً)

سب صحابہ ٔکرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ عادل ہیں :

            اس سے معلوم ہوا کہ بعض صحابہ ٔکرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ سے گناہ اور مَعصِیَّت صادِر ہوئی مگر وہ اس پر قائم نہ ہوئے بلکہ انہیں  توبہ کی توفیق ملی، لہٰذا یہ درست ہے کہ سارے صحابہ ٔکرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ عادل ہیں ۔  اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں  فرمایا ہے:

’’وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى‘‘(حدید:۱۰)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ان سب سے  اللہ نے سب سے اچھی چیز (جنت) کا وعدہ فرمالیا ہے۔

اور فرماتا ہے:

’’رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُؕ‘‘( توبہ:۱۰۰)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: ان سب سے  اللہ راضی ہوا اور یہ  اللہ سے راضی ہیں ۔

             اور یہ بات ظاہر ہے کہ  اللہ تعالیٰ فاسق سے راضی نہیں  ہوتا اورنہ اس سے جنت کا وعدہ فرماتا ہے۔

وَ لَوْ لَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ قُلْتُمْ مَّا یَكُوْنُ لَنَاۤ اَنْ نَّتَكَلَّمَ بِهٰذَا ﳓ سُبْحٰنَكَ هٰذَا بُهْتَانٌ عَظِیْمٌ(16)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے اُسے سنا تھا تو تم کہہ دیتے کہ ہمارے لئے جائز نہیں کہ یہ بات کہیں۔(اے اللہ!) تو پاک ہے،یہ بڑا بہتان ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَوْ لَا: اور کیوں  نہ ہوا۔} ارشاد فرمایا کہ جب تم نے بہتان سنا تھا تو اس وقت یہ کیوں  نہ ہوا کہ تم کہہ دیتے : ہمارے لئے درست نہیں  کہ یہ بہتان والی بات کہیں  کیونکہ یہ درست ہوہی نہیں  سکتی۔ یہاں  ایک مسئلہ ذہن نشین رہے کہ کسی نبی عَلَیْہِ  السَّلَام کی بیوی کافر تو ہوسکتی ہے لیکن بدکار ہرگز نہیں  ہوسکتی کیونکہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کفار کی طرف مبعوث ہوتے ہیں  تو ضروری ہے کہ جو چیز کفار کے نزدیک بھی قابلِ نفرت ہو اس سے وہ پاک ہوں  اور ظاہر ہے کہ عورت کی بدکاری اُن کے نزدیک قابلِ نفرت ہے۔(تفسیرکبیر، النور، تحت الآیۃ: ۱۶، ۸ / ۳۴۳-۳۴۴، مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۱۶، ص۷۷۳)

 حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا پر لگائی گئی تہمت واضح بہتان تھی:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا پر لگائی گئی تہمت کا بہتان ہونا بالکل ظاہر تھا۔ اسی لئے بہتان نہ کہنے والوں  اور توقف کرنے والوں  پر عِتاب ہوا، البتہ چونکہ یہ حضورِ انور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے گھر کا معاملہ تھا اس لئے آپ نے خاموشی اختیار فرمائی۔ آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خاموشی حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا کے معاملے کو نہ جاننے کی وجہ سے نہ تھی بلکہ وحی کے انتظار کی وجہ سے تھی کیونکہ اگر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے علم کی بناء پر اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا کی عِصمَت کی خبر دیتے تو منافق کہتے کہ آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے اہلِ بیت کی طرف داری کی۔ اسی لئے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ بھی خاموش رہے بلکہ خود اُمُّ المؤمنین رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا نے بھی لوگوں  سے نہ کہا کہ میں  بے قصور ہوں ۔ حالانکہ انہیں  تو اپنی پاکدامنی یقین کے ساتھ معلوم تھی۔

یَعِظُكُمُ اللّٰهُ اَنْ تَعُوْدُوْا لِمِثْلِهٖۤ اَبَدًا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(17)

ترجمہ: کنزالعرفان

اللہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے کہ دوبارہ کبھی اس طرح کی بات کی طرف نہ لوٹنا اگر تم ایمان والے ہو

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یَعِظُكُمُ اللّٰهُ:  اللہ تمہیں  نصیحت فرماتا ہے۔} امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں ’’اس آیت کا معنی یہ ہے کہ سابقہ آیات میں  مذکور کلام سے تمہیں  معلوم ہو گیا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا پر تہمت لگانا کتنا بڑا گناہ ہے اور یہ بھی معلوم ہو گیاکہ اس جرم کی وجہ سے حد لگے گی، دنیا میں  ذلت و رسوائی اور آخرت میں  عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔  اللہ تعالیٰ تمہیں  اس کے ذریعے نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم اپنی زندگی میں  ا س جیسے عمل کی طرف کبھی بھی نہ لوٹو۔امام رازی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  مزید فرماتے ہیں  کہ ا س حکم میں  وہ شخص تو داخل ہی ہے جو ایسی بات کہے اور وہ بھی داخل ہیں  جو ایسی بات سنے اور اس کا رَد نہ کرے۔( تفسیرکبیر، النور، تحت الآیۃ: ۱۷، ۸ / ۳۴۴)

حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا پر تہمت لگانا خالص کفر ہے:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ اب جو حضرت عائشہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا پر تہمت لگائے یا ان کی جناب میں  تَرَدُّد میں  رہے وہ مؤمن نہیں  کافر ہے۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  ’’اُمُّ المومنین صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا کا قذف (یعنی ان پر تہمت لگانا) کفرِ خالص ہے۔( فتاویٰ رضویہ، ۱۴ / ۲۴۵)

وَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰیٰتِؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ(18)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اللہ تمہارے لیے آیتیں صاف بیان فرماتا ہے اور اللہ علم والا، حکمت والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰیٰتِ: اور  اللہ تمہارے لیے آیتیں  صاف بیان فرماتا ہے۔} علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  اس آیت کی تفسیر میں  فرماتے ہیں  کہ  اللہ تعالیٰ شرعی احکام اور اچھے آداب پر دلالت کرنے والی آیتیں  صاف بیان فرماتا ہے تاکہ تم ان کے ذریعے نصیحت حاصل کرو اور ادب سیکھو اور  اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوقات کے سب حالات کاعلم رکھنے والا اور اپنے تمام افعال و تدابیر میں  حکمت والا ہے تو پھر اس بات کا سچا ہونا کیسے ممکن ہے جو اس عظیم ہستی کی حرمت کے بارے میں  کہی گئی جسے  اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت کے لئے منتخب فرمایا اور اسے ساری مخلوق کی طرف رسول بنا کر بھیجا تاکہ وہ حق کی طرف ان کی رہنمائی کریں  اور انہیں  (گناہ کی آلودگی سے) خوب پاکیزہ فرمادیں  اورانہیں  پاک کرکے خوب صاف ستھرا کردیں ۔( روح البیان، النور، تحت الآیۃ: ۱۸، ۶ / ۱۲۸)

 بہتان تراشی کی مذمت:

            یاد رہے کہ کسی شخص کے پوشیدہ عیب کو جس کا وہ دوسروں  کے سامنے ظاہر ہونا پسند نہ کرتا ہو،اس کی برائی کرنے کے طور پر ذکر کرنا غیبت ہے اور اگر اس میں  وہ بات ہی نہ ہو تو یہ غیبت نہیں  بلکہ بہتان ہے اوربہتان تراشی غیبت سے زیادہ تکلیف دہ ہے کیونکہ یہ جھوٹ ہے، اس لئے یہ ہر ایک پر گراں  گزرتی ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ بہتان تراشی کبیرہ گناہ ہے اور حدیث پاک میں  اس کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے، چنانچہ حضرت معاذ بن انس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے ا س پر الزام عائد کرے تو  اللہ تعالیٰ اسے جہنم کے پُل پر اس وقت تک روکے گا جب تک وہ اپنی کہی ہوئی بات (کے گناہ) سے (اس شخص کو راضی کر کے یا اپنے گناہ کی مقدار عذاب پاکر) نہ نکل جائے۔( ابو داؤد، کتاب الادب، باب من ردّ عن مسلم غیبۃ، ۴ / ۳۵۴، الحدیث: ۴۸۸۳)

            اور حضرت ابو درداء رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے کسی شخص کے بارے میں  کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں  نہیں  تا کہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو  اللہ تعالیٰ اسے جہنم میں  قید کر دے گا یہاں  تک کہ وہ اس کے بارے میں  اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے۔ (اس سے مراد یہ ہے کہ طویل عرصے تک وہ عذاب میں  مبتلا رہے گا)۔( معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: مقدام، ۶ / ۳۲۷، الحدیث: ۸۹۳۶)

          لہٰذا ہر شخص کو چاہئے کہ وہ بہتان تراشی سے بچے اور جس نے کسی پربہتان لگایا ہے اسے توبہ کرنا اور معافی مانگنا ضروری ہے بلکہ جن کے سامنے بہتان باندھا ہے ان کے پاس جا کر یہ کہنا ضروری ہے کہ میں  نے جھوٹ کہا تھا جو فلاں  پر میں  نے بہتان باندھا تھا۔

 بہتان تراشی کرنے والوں  کا رَد کرنا چاہئے:

            آیت نمبر16میں  جو فرمایا گیا کہ’’اور کیوں  نہ ہوا کہ جب تم نے سنا تھا تو تم کہہ دیتے کہ ہمارے لئے جائز نہیں  کہ یہ بات کہیں  ‘‘اس سے معلوم ہواکہ جس کے سامنے کسی مسلمان پر کوئی بہتان باندھا جارہا ہو اور کسی مسلمان پر بہتان تراشی کر کے اسے ذلیل کیا جارہا ہو تو اسے چاہئے کہ خاموش نہ رہے بلکہ بہتان لگانے والوں  کا رَد کرے اور انہیں  اس سے منع کرے اور جس مسلمان پر بہتان لگایا جا رہاہے اس کی عزت کا دفاع کرے۔ افسوس! ہمارے معاشرے میں  لوگوں  کا حال یہ ہو چکاہے کہ وہ کسی کے بارے میں  ایک دوسرے سے ہزاروں  غلط اور بے سرو پا باتیں  سنتے ہیں  لیکن اکثر جگہ پر خاموش رہتے ہیں  اور بہتان تراشی کرنے والوں  کو منع کرتے ہیں  نہ ان کا رد کرتے ہیں ۔ یہ طرزِ عمل اسلامی احکام کے برخلاف ہے اور ایک مسلمان کی یہ شان نہیں  کہ وہ ایساطرزِ عمل اپنائے۔  اللہ تعالیٰ مسلمانوں  کو عقلِ سلیم اور ہدایت عطا فرمائے، اٰمین۔ ترغیب کے لئے یہاں  ایک حدیث پاک ملاحظہ ہو،چنانچہ

            حضرت جابر بن عبد اللہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جہاں  کسی مسلمان مرد کی بے حرمتی اور بے عزتی کی جاتی ہو ایسی جگہ جس نے اُس کی مدد نہ کی (یعنی یہ خاموش سنتا رہا اور اُن کو منع نہ کیا) تو  اللہ تعالیٰ وہاں  اس کی مدد نہیں  کرے گا جہاں  اسے پسند ہو کہ اس کی مدد کی جائے اور جو شخص ایسے موقع پر کسی مسلمان مرد کی مدد کرے گا جہاں  اُس کی بے حرمتی اوربے عزتی کی جارہی ہو،تو  اللہ تعالیٰ ایسے موقع پراس کی مددفرمائے گا جہاں  اسے محبوب ہے کہ مدد کی جائے۔‘‘( ابو داؤد، کتاب الادب، باب من ردّ عن مسلم غیبۃ، ۴ / ۳۵۵، الحدیث: ۴۸۸۴)

اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(19)وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ وَ اَنَّ اللّٰهَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(20)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک جو لوگ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی کی بات پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی اور یہ کہ اللہ نہایت مہربان، رحم فرمانے والا ہے(تواس عذاب کا مزہ چکھتے)۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ: بیشک جو لوگ چاہتے ہیں ۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ جو یہ ارادہ کرتے اور چاہتے ہیں  کہ مسلمانوں  میں  بے حیائی کی بات پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔ دنیا کے عذاب سے مراد حد قائم کرنا ہے، چنانچہ عبد اللہ بن اُبی، حضرت حَسّان اور حضرت مِسْطَحْ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا کو حدلگائی گئی اور آخرت کے عذاب سے مراد یہ ہے کہ اگر توبہ کئے بغیر مر گئے تو آخرت میں  دوزخ ہے۔ مزید فرمایا کہ  اللہ تعالیٰ دلوں  کے راز اور باطن کے احوال جانتا ہے اور تم نہیں  جانتے۔( مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۷۷۴)

{ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: کہ مسلمانوں  میں  بے حیائی کی بات پھیلے۔}

اشاعت ِفاحشہ میں  ملوث افراد کو نصیحت:

           اشاعت سے مراد تشہیر کرنا اور ظاہر کرنا ہے جبکہ فاحشہ سے وہ تمام اَقوال اور اَفعال مراد ہیں  جن کی قباحت بہت زیادہ ہے اور یہاں  آیت میں  اصل مراد زِنا ہے۔( روح البیان، النور، تحت الآیۃ: ۱۹، ۶ / ۱۳۰، ملخصاً) البتہ یہ یاد رہے کہ اشاعتِ فاحشہ کے اصل معنیٰ میں  بہت وسعت ہے چنانچہ اشاعتِ فاحشہ میں  جو چیزیں  داخل ہیں  ان میں  سے بعض یہ ہیں :

(1)…کسی پر لگائے گئے بہتان کی اشاعت کرنا۔

(2)…کسی کے خفیہ عیب پر مطلع ہونے کے بعد اسے پھیلانا۔

(3)…علمائے اہلسنّت سے بتقدیر ِالٰہی کوئی لغزش فاحش واقع ہو تو ا س کی اشاعت کرنا۔

(4) …حرام کاموں  کی ترغیب دینا۔

(5)… ایسی کتابیں  لکھنا، شائع کرنا اور تقسیم کرنا جن میں  موجود کلام سے لوگ کفر اور گمراہی میں  مبتلا ہوں ۔

(6) …ایسی کتابیں ، اخبارات، ناول، رسائل اورڈائجسٹ وغیرہ لکھنا اور شائع کرنا جن سے شہوانی جذبات متحرک ہوں ۔

(7)…فحش تصاویر اور وڈیوز بنانا، بیچنا اور انہیں  دیکھنے کے ذرائع مہیا کرنا۔

(8)…ایسے اشتہارات اور سائن بورڈ وغیرہ بنانا اور بنوا کر لگانا، لگوانا جن میں  جاذِبیت اور کشش پیدا کرنے کے لئے جنسی عُریانِیَّت کا سہارا لیا گیا ہو۔

(9)… حیا سوز مناظر پر مشتمل فلمیں  اور ڈرامے بنانا،ان کی تشہیر کرنا اور انہیں  دیکھنے کی ترغیب دینا۔

(10) فیشن شو کے نام پر عورت اور حیا سے عاری لباسوں  کی نمائش کرکے بے حیائی پھیلانا۔

(11)زنا کاری کے اڈّے چلانا وغیرہ۔

            ان تمام کاموں  میں  مبتلا حضرات کو چاہئے کہ خدارا! اپنے طرزِ عمل پر غور فرمائیں  بلکہ بطورِ خاص ان حضرات کو زیادہ غورکرناچاہئے جو فحاشی وعریانی اور اسلامی روایات سے جدا کلچر کو عام کر کے مسلمانوں  کے اخلاق اور کردار میں  بگاڑ پیدا کر رہے ہیں  اور بے حیائی، فحاشی و عریانی کے خلاف اسلام نے نفرت کی جو دیوار قائم کی ہے اسے گرانے کی کوششوں  میں  مصروف ہیں ۔  اللہ تعالیٰ انہیں  ہدایت اور عقلِ سلیم عطا فرمائے اور درج ذیل تین احادیث پر بھی غورو فکر کرنے اور ان سے عبرت حاصل کر نے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔

 (1)…حضرت جریر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے اسلام میں  اچھا طریقہ رائج کیا، اس کے لئے اسے رائج کرنے اور اپنے بعد اس پر عمل کرنے والوں  کا ثواب ہے، اور ان عمل کرنے والوں  کے ثواب میں  سے بھی کچھ کم نہ ہوگا اور جس نے اسلام میں  بُرا طریقہ رائج کیا، اس پر اس طریقے کو رائج کرنے اور اس پر عمل کرنے والوں  کا گناہ ہے اور ان عمل کرنے والوں  کے گناہ میں بھی کوئی کمی نہ ہوگی۔‘‘( مسلم، کتاب الزکاۃ، باب الحث علی الصدقۃ ولو بشقّ تمرۃ۔۔۔ الخ، ص۵۰۸، الحدیث: ۶۹(۱۰۱۷))

(2)…سید المرسلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے روم کے شہنشاہ ہرقل کو جو مکتوب بھجوایا ا س میں  تحریر تھا کہ (اے ہرقل!) میں  تمہیں  اسلام کی طرف دعوت دیتا ہوں ،تم اسلام قبول کر لو تو سلامت رہو گے اور  اللہ تعالیٰ تمہیں  دُگنا اجر عطا فرمائے گا اور اگر تم (اسلام قبول کرنے سے) پیٹھ پھیرو گے تو رِعایا کا گناہ بھی تم پر ہوگا۔( بخاری، کتاب بدء الوحی، ۶باب، ۱ / ۱۰، الحدیث: ۷)

(3)…حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جو شخص ظلماً قتل کیا جاتا ہے تو اس کے ناحق خون میں  حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پہلے بیٹے (قابیل) کا حصہ ضرور ہوتا ہے کیونکہ اسی نے پہلے ظلماً قتل کرناایجاد کیا۔‘‘( بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب خلق آدم صلوات  اللہ علیہ وذرّیتہ، ۲ / ۴۱۳، الحدیث: ۳۳۳۵)

{وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ: اور اگر  اللہ کا فضل تم پر نہ ہوتا۔} ارشاد فرمایا کہ اگر تم پر  اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی اور یہ کہ  اللہ عَزَّوَجَلَّ  تم پر نہایت مہربان، رحم فرمانے والا ہے تو  اللہ تعالیٰ تمہیں  تمہاری اس حرکت کا مزہ چکھاتا اور اس کا عذاب تمہیں  مہلت نہ دیتا۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-وَ مَنْ یَّتَّبِـعْ خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ فَاِنَّهٗ یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِؕ-وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ مَا زَكٰى مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًاۙ-وَّ لٰكِنَّ اللّٰهَ یُزَكِّیْ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(21)

ترجمہ: کنزالعرفان

اے ایمان والو!شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرواور جو شیطان کے قدموں کی پیروی کرتا ہے تو بیشک شیطان تو بے حیائی اور بُری بات ہی کا حکم دے گا اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی شخص بھی کبھی پاکیزہ نہ ہوتاالبتہ اللہ پاکیزہ فرمادیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: اے ایمان والو!۔} اس آیت میں   اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں  کو شیطان کی پیروی کرنے سے منع فرمایا، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے ایمان والو!تم اپنے اعمال اور افعال میں  شیطان کے طریقوں  پر نہ چلواور جو شیطان کے طریقوں  کی پیروی کرتا ہے تو بیشک شیطان تو بے حیائی اور بُری بات ہی کا حکم دے گا،تم اس کے وسوسوں  میں  نہ پڑو اور بہتان اُٹھانے والوں  کی باتوں  پر کان نہ لگاؤ اور اگر  اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو تم میں  سے کوئی شخص بھی کبھی پاکیزہ نہ ہوتا اور  اللہ تعالیٰ اس کو توبہ اورحسن ِعمل کی توفیق نہ دیتا اور عفو و مغفرت نہ فرماتاالبتہ  اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے بندوں  میں  سے جسے چاہتا ہے ا س کی توبہ قبول فرما کر اسے گناہوں  کی گندگی سے پاکیزہ فرمادیتا ہے اور  اللہ تعالیٰ سننے والا، جاننے والا ہے۔( ابو سعود، النور، تحت الآیۃ: ۲۱،۴ / ۷۷-۷۸، مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۲۱، ص۷۷۴، ملتقطاً)

 شیطان کا پیروکار:

           اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا کی عظمت کا منکر شیطان کا پیروکارہے، بے حیا ہے، بدکار ہے، اس سے بڑا بے حیا کون ہوگا جو اپنی ماں  کو تہمت لگائے اور اس کے بارے میں  ایسی غلیظ بات کہے۔

آیت ’’ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ‘‘ سے معلوم ہونے والے امور:

            علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  نے اس آیت سے معلوم ہونے والے تین اہم امور بیان فرمائے ہیں  جو کہ درج ذیل ہیں :

(1)… وہ تمام طریقے شیطان کے ہیں  جن پربے حیائی اور بُری بات ہونے کا اطلاق ہوتا ہے، جیسے زنا کی تہمت لگانا، گالی دینا، جھوٹ بولنا اور لوگوں  کے عیبوں  کی (شرعی ضرورت کے بغیر) چھان بین کرنا وغیرہ۔

(2)…گناہ کی گندگی سے پاکیزہ کرنے کا معاملہ  اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے کیونکہ وہی اپنے فضل و رحمت سے بندے کو عبادات اور اسباب کی توفیق دیتا ہے لیکن بندے کے لئے ایک ایسا وسیلہ ہونا ضرور ی ہے جس سے وہ  اللہ تعالیٰ کی مراد کے مطابق گناہ کی گندگی سے پاک ہونے کی کیفیت سیکھ سکے اور اس سلسلے میں  سب سے بڑ اوسیلہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں ،پھر وہ لوگ ہیں  جو بندے کو  اللہ تعالیٰ کی طرف ہدایت دیں  (یعنی کامل مرشد۔) شیخ الاسلام عبد اللہ انصاری قُدِّسَ سِرُّہٗ فرماتے ہیں  :شریعت اور حدیث کے علم میں  میرے استاد بہت ہیں  لیکن طریقت میں  میرے استاد حضرت ابو الحسن خرقانی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  ہیں ، اگر میں  ان کی زیارت نہ کرتاتو میں  حقیقت کو نہ پہچان سکتا۔

             کامل مرشد دین کے راستے کے رہنما اور یقین کے دروازوں  کی چابیاں  ہیں ، لہٰذا کسی کامل انسان کا موجود ہونا بہت بڑی غنیمت ہے اور اس کی صحبت نصیب ہونا ایک عظیم نعمت ہے۔

اے دوست! میری یہ ایک نصیحت قبول کرلے     جاکسی (علم و معرفت کی) دولت والے کا دامن تھام لے

کیوں  کہ پانی کا قطرہ جب تک سیپی کے منہ میں  نہیں  جاتا    اس وقت تک چمکدا ر اور روشن موتی نہیں  بن پاتا

            پھر حقیقی تزکیہ یہ ہے کہ گناہوں  کے میل سے پاک کرنے کے بعد دل کو اغیار کے تعلقات سے پاک کر دیا جائے اور ہر کوئی اس تزکیہ کی اہلیت نہیں  رکھتا (بلکہ جسے  اللہ تعالیٰ چاہے اسے ہی یہ دولت نصیب ہوتی ہے جیساکہ آیت میں  بیان ہوا۔)

(3)… غزوۂ بدر میں  شریک ہونے والے صحابہ ٔکرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ میں  جن سے بہتان کی خطا سرزد ہوئی ان کی خطا کو  اللہ تعالیٰ نے بخش دیا ہے جیسا کہ اگلی آیت میں  حضرت مسطح رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کے واقعے سے بھی معلوم ہو رہا ہے۔( روح البیان، النور، تحت الآیۃ: ۲۱، ۶ / ۱۳۱-۱۳۲)

وَ لَا یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَ السَّعَةِ اَنْ یُّؤْتُوْۤا اُولِی الْقُرْبٰى وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ الْمُهٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ﳚ-وَ لْیَعْفُوْا وَ لْیَصْفَحُوْاؕ-اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(22)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور تم میں فضیلت والے اور (مالی) گنجائش والے یہ قسم نہ کھائیں کہ وہ رشتے داروں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو (مال) نہ دیں گے اور انہیں چاہیے کہ معاف کردیں اور دَرگزرکریں ، کیا تم اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہاری بخشش فرمادے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

تفسیر ‎صراط الجنان

{وَ لَا یَاْتَلِ: اور قسم نہ کھائیں ۔} ارشاد فرمایا کہ تم میں  جو دین میں  فضیلت اور منزلت والے ہیں  اور مال و ثروت میں  گنجائش والے ہیں یہ قسم نہ کھائیں  کہ وہ اپنے رشتے داروں ، مسکینوں  اور  اللہ تعالیٰ کی راہ میں  ہجرت کرنے والوں  کو اپنے مال سے نہ دیں  گے اور ان فضیلت والوں کو چاہیے کہ معاف کردیں  اور درگزرکریں ، کیا تم اس بات کو پسند نہیں  کرتے کہ  اللہ تعالیٰ تمہاری بخشش فرمادے اور  اللہ عَزَّوَجَلَّ بخشنے والا مہربان ہے۔شانِ نزول: یہ آیت حضرتِ ابوبکر صدیق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کے حق میں  نازل ہوئی، آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے قسم کھائی تھی کہ حضرت مِسطَح رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کے ساتھ حسنِ سلوک نہ کریں  گے۔ حضرت مِسطَح رَضِیَ اللہ  تَعَالٰی عَنْہُ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کی خالہ کے بیٹے تھے، نادار تھے، مہاجر تھے، بدری تھے اورحضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ ہی اُن کا خرچ اُٹھاتے تھے مگر چونکہ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا پر تہمت لگانے والوں  کے ساتھ انہوں  نے مُوَافَقَت کی تھی اس لئے آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے یہ قسم کھائی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔جب یہ آیت حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پڑھی تو حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے کہا :بے شک میری آرزو ہے کہ  اللہ تعالیٰ میری مغفرت کرے اور میں  حضرت مِسطَح رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کے ساتھ جو سلوک کرتا تھا اس کو کبھی موقوف نہ کروں  گا۔ چنانچہ آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے اس کو جاری فرمادیا۔(بخاری،کتاب المغازی،باب حدیث الافک،۳ / ۶۱،الحدیث:۴۱۴۱،خازن، النور، تحت الآیۃ: ۲۲، ۳ / ۳۴۴-۳۴۵)

آیت ’’وَ لَا یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَ السَّعَةِ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:

         اس آیت سے 3 مسئلے معلوم ہوئے :

(1)… جو شخص کوئی کام نہ کرنے کی قسم کھائے پھر معلوم ہو کہ اس کا کرنا ہی بہتر ہے تو اسے چاہیے کہ اس کام کو کرلے، لیکن یہ یاد رہے کہ اسے قسم کا کَفَّارَہ دینا ہو گا جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جو شخص قسم کھائے اور دوسری چیز اُس سے بہتر پائے توقسم کا کفارہ دیدے اور وہ کام کرلے۔‘‘(مسلم،کتاب الایمان والنذور،باب ندب من حلف یمیناً فرأی غیرہا خیراً منہا۔۔۔الخ، ص۸۹۸، الحدیث:۱۲ (۱۶۵۰)) 

 (2)… اس آیت سے حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کی فضیلت ثابت ہوئی اوراس سے آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کی بلند شان اور مرتبہ ظاہر ہوتا ہے کہ  اللہ تعالیٰ نے آپ کو اُولُوا الْفَضْلِ فرمایا۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۲۲، ۳ / ۳۴۵)

(3)… رسولِ کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ (اور دیگر انبیاء و رُسُل عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام) کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ تمام مخلوق سے افضل ہیں ۔( روح البیان، النور، تحت الآیۃ: ۲۲، ۶ / ۱۳۳)

اِنَّ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ لُعِنُوْا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ۪-وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ(23)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک وہ جو انجان، پاکدامن، ایمان والی عورتوں پربہتان لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔

تفسیر :‎صراط الجنان

{اِنَّ الَّذِیْنَ: بیشک وہ جو۔} اِس آیت اوراس کے بعد والی دو آیات میں  تہمت لگانے والے منافقین کی سزابیان کی گئی ہے ،اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ عورتیں  جوبدکاری اور فِسق و فُجور کو جانتی بھی نہیں  اور بُرا خیال اُن کے دل میں  بھی نہیں  گزرتا اور وہ پاکدامن اورایمان والی ہیں ، ایسی پاکیزہ عورتوں  پر بدکاری کا بہتان لگانے والوں  پر دنیا اور آخرت میں  لعنت ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا نے فرمایا کہ آیت میں  عورتوں  کے بیان کردہ اوصاف سید المرسلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ازواجِ مطہرات کے اوصاف ہیں ، اور ایک قول یہ ہے کہ ا س سے تمام ایماندار اور پارسا عورتیں  مراد ہیں ، انہیں  عیب لگانے والوں  پر  اللہ تعالیٰ لعنت فرماتا ہے۔( مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۲۳، ص۷۷۵)یَّوْمَ تَشْهَدُ عَلَیْهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ وَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(24)

ترجمہ: کنزالعرفان

جس دن ان کے خلاف ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔

‎صراط الجنان :تفسیر 

{یَوْمَ تَشْهَدُ عَلَیْهِمْ: جس دن ان کے خلاف گواہی دیں  گے۔} ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن ان کے خلاف ان کی زبانیں ، ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں  گے۔زبانوں  کا گواہی دینا تو اُن کے مونہوں  پر مُہریں  لگائے جانے سے پہلے ہوگا اور اس کے بعد مونہوں  پر مُہریں  لگادی جائیں  گی جس سے زبانیں  بند ہوجائیں  گے اور اعضاء بولنے لگیں  گے اور دنیا میں  جو عمل کئے تھے وہ ان کی خبر دیں  گے۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۲۴، ۳ / ۳۴۵)

یَوْمَىٕذٍ یُّوَفِّیْهِمُ اللّٰهُ دِیْنَهُمُ الْحَقَّ وَ یَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ الْمُبِیْنُ(25)

ترجمہ: کنزالعرفان

اس دن اللہ انہیں ان کی پوری سچی سزا دے گا اور وہ جان لیں گے کہ اللہ ہی صریح حق ہے۔

‎صراط الجنان :تفسیر 

{یَوْمَىٕذٍ: اس دن۔} منافقین کی سزا کے بیان میں  ہی ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن  اللہ تعالیٰ انہیں  ان کی پوری سچی سزا دے گا جس کے وہ قانونی طور پرمستحق ہیں  اوروہ جان لیں  گے کہ  اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی صریح حق ہے یعنی موجود، ظاہر ہے، اسی کی قدرت سے ہر چیز کا وجود ہے۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ معنی یہ ہیں  کہ کفار دنیا میں   اللہ تعالیٰ کے وعدوں  میں  شک کرتے تھے تو  اللہ تعالیٰ آخرت میں  انہیں  اُن کے اعمال کی جزا دے کر ان وعدوں  کا حق ہونا ظاہر فرمادے گا۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۲۵، ۳ / ۳۴۵)

سید المرسلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا بلند مقام:

         قرآنِ کریم میں  کسی گناہ پر ایسی سختی، شدت اور تکرار و تاکید نہیں  فرمائی گئی جیسی کہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا کے اوپر بہتان باندھنے پر فرمائی گئی، اس سے تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رِفْعَتِ منزلت ظاہرہوتی ہے۔(مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۲۵، ص۷۷۵)اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسولِ کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صدقے آپ سے نسبت رکھنے والوں  کا بھی  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  مقام بہت بلند ہے اور جس کی جتنی نسبت قریب ہے اس کا اتنا ہی مقام بلند ہے اور آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے نسبت رکھنے والوں  کی بے ادبی  اللہ تعالیٰ کے غضب و جلال کا حق دار ٹھہرنے کا باعث ہے۔

اَلْخَبِیْثٰتُ لِلْخَبِیْثِیْنَ وَ الْخَبِیْثُوْنَ لِلْخَبِیْثٰتِۚ-وَ الطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیْنَ وَ الطَّیِّبُوْنَ لِلطَّیِّبٰتِۚ-اُولٰٓىٕكَ مُبَرَّءُوْنَ مِمَّا یَقُوْلُوْنَؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌ(26)

ترجمہ: کنزالعرفان

گندی عورتیں گندے مردوں کیلئے ہیں اور گندے مرد گندی عورتوں کیلئے ہیں اور پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کیلئے ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کیلئے ہیں ۔ وہ ان باتوں سے بَری ہیں جو لوگ کہہ رہے ہیں ۔ ان (پاکیزہ لوگوں ) کے لیے بخشش اور عزت کی روزی ہے۔

‎صراط الجنان :تفسیر 

{اَلْخَبِیْثٰتُ لِلْخَبِیْثِیْنَ: گندی عورتیں  گندے مردوں  کیلئے ہیں ۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ گندے کے لئے گندہ لائق ہے، گندی عورت گندے مرد کے لئے اورگندہ مرد گندی عورت کے لئے اور گندہ آدمی گندی باتوں  کے درپے ہوتا ہے اور گندی باتیں  گندے آدمی کا وَطیرہ ہوتی ہیں  اور پاکیزہ عورتیں  پاکیزہ مردوں  کیلئے ہیں  اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں  کیلئے ہیں ۔ وہ پاک مرد اور عورتیں  جن میں  سے حضرت عائشہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا اور حضرت صفوان رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ ہیں ، ان باتوں  سے بَری ہیں  جویہ تہمت لگانے والے کہہ رہے ہیں ۔ ان پاکیزہ لوگوں  کے لیے بخشش اور جنت میں  عزت کی روزی ہے۔

حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا کی فضیلت اور خصوصیات:

         اس آیت سے حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا کا کمالِ فضل و شرف ثابت ہواکہ وہ طَیِّبہ اور پاک پیدا کی گئیں  اور قرآنِ کریم میں  اُن کی پاکی کا بیان فرمایا گیا اور انہیں  مغفرت اور رزقِ کریم کا وعدہ دیا گیا۔اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا کو  اللہ تعالیٰ نے بہت سے خَصائِص عطا فرمائے جو آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا کے لئے قابلِ فخر ہیں ، ان میں  سے بعض یہ ہیں :

(1)…حضرت جبریلِ اَمین عَلَیْہِ  السَّلَام رسولِ کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  ایک ریشمی کپڑے پر آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا کی تصویر لائے اور عرض کیا کہ یہ آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زوجہ ہیں ۔

(2)… نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا کے سوا کسی کنواری عورت سے نکاح نہ فرمایا۔

 (3)…رسولِ کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی وفات آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا کے گھر تشریف آوری کے دِن ہوئی۔

(4)… آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا ہی کا حجرۂ شریفہ حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی آرام گاہ بنا۔

(5)… بعض اوقات ایسی حالت میں  حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر وحی نازل ہوئی کہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لحاف میں  ہوتیں ۔

(6)… آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خلیفہ حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کی دُختر ہیں ۔

(7)… آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا پاک پیدا کی گئیں  اور آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا سے مغفرت و رزقِ کریم کا وعدہ فرمایا گیا ہے۔(خازن، النور، تحت الآیۃ: ۲۶، ۳ / ۳۴۶، مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۲۶، ص۷۷۶، ملتقطاً)

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا وَ تُسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَهْلِهَاؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ(27)

ترجمہ: کنزالعرفان

اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں داخل نہ ہو جب تک اجازت نہ لے لو اور ان میں رہنے والوں پر سلام نہ کرلو۔ یہ تمہارے لیے بہتر ہے تاکہ تم نصیحت مان لو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: اے ایمان والو!} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات میں   اللہ تعالیٰ نے دوسروں  کے گھروں  میں  جانے کے آداب اور احکام بیان فرمائے ہیں ۔ شانِ نزول: حضرت عدی بن ثابت رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ انصار کی ایک عورت نے بارگاہ ِرسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں  عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اپنے گھر میں  میری حالت کچھ اس طرح کی ہوتی ہے کہ میں  نہیں  چاہتی کہ کوئی مجھے اس حالت میں  دیکھے، چاہے وہ میرے والد یا بیٹا ہی کیوں  نہ ہو اورمیری اسی حالت میں  گھر میں  مردوں  کا آنا جانا رہتا ہے تو میں  کیا کروں ؟ ا س پر یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی۔( تفسیرطبری، النور، تحت الآیۃ: ۲۷، ۹ / ۲۹۷)

دوسروں  کے گھر جانے سے متعلق 3شرعی احکام:

            یہاں  اس آیت کے حوالے سے 3 شرعی احکام ملاحظہ ہوں ،

(1)…اس آیت سے ثابت ہوا کہ غیر کے گھرمیں  کوئی بے اجازت داخل نہ ہو۔ اجازت لینے کا طریقہ یہ بھی ہے کہ بلند آواز سے سُبْحَانَ  اللہ یا اَلْحَمْدُ لِلّٰہ یا  اللہ اَکْبَرْ کہے، یا کَھنکارے جس سے مکان والوں  کو معلوم ہوجائے کہ کوئی آنا چاہتا ہے (اور یہ سب کام اجازت لینے کے طور پر ہوں ) یا یہ کہے کہ کیا مجھے اندر آنے کی اجازت ہے۔ غیر کے گھر سے وہ گھر مراد ہے جس میں  غیر رہتا ہو خواہ وہ اس کا مالک ہو یا نہ ہو۔( روح البیان، النور، تحت الآیۃ: ۲۷، ۶ / ۱۳۷، ملخصاً)

(2) …غیر کے گھر جانے والے کی اگر صاحبِ مکان سے پہلے ہی ملاقات ہوجائے توپہلے سلام کرے پھر اجازت چاہے اور اگر وہ مکان کے اندر ہو تو سلام کے ساتھ اجازت لے اور اس طرح کہے: السلام علیکم، کیا مجھے اندر آنے کی اجازت ہے۔ حدیث شریف میں  ہے کہ سلام کو کلام پر مُقَدَّم کرو۔( ترمذی، کتاب الاستءذان والآداب عن رسول اللّٰہ، باب ما جاء فی السلام قبل الکلام، ۴ / ۳۲۱، الحدیث: ۲۷۰۸)

 (3)… اگر دروازے کے سامنے کھڑے ہونے میں  بے پردگی کا اندیشہ ہو تو دائیں  یا بائیں  جانب کھڑے ہو کر اجازت طلب کرے۔ حدیث شریف میں  ہے اگرگھرمیں  ماں  ہوجب بھی اجازت طلب کرے۔( موطا امام مالک، کتاب الاستءذان، باب الاستءذان، ۲ / ۴۴۶، الحدیث: ۱۸۴۷)

فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فِیْهَاۤ اَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوْهَا حَتّٰى یُؤْذَنَ لَكُمْۚ-وَ اِنْ قِیْلَ لَكُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا هُوَ اَزْكٰى لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ(28)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر اگرتم ان گھروں میں کسی کو نہ پاؤتو بھی ان میں داخل نہ ہو ناجب تک تمہیں اجازت نہ دیدی جائے اور اگر تمہیں کہا جائے ’’واپس لوٹ جاؤ ‘‘تو تم واپس لوٹ جاؤ،یہ تمہارے لیے زیادہ پاکیزہ ہے اور اللہ تمہارے کاموں کو خوب جاننے والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فِیْهَاۤ اَحَدًا: پھر اگرتم ان گھروں میں  کسی کو نہ پاؤ۔} یعنی اگرمکان میں  اجازت دینے والا موجود نہ ہو تو بھی ان میں  داخل نہ ہو ناجب تک تمہیں  اجازت نہ دیدی جائے کیونکہ غیر کی مِلک میں  تَصَرُّف کرنے کے لئے اس کی رضا مندی ضروری ہے۔ اور اگر مکان میں  اجازت دینے والا موجود ہو اور وہ تمہیں  کہے کہ ’’واپس لوٹ جاؤ ‘‘تو تم واپس لوٹ جاؤ اور اجازت طلب کرنے میں  اصرار اور منت سماجت نہ کرو۔

کسی کا دروازہ بجانے سے متعلق دو اہم باتیں :

جب بھی کسی کے گھر جائیں  تودروازہ بجانے سے پہلے دو باتوں  کا ضرور لحاظ رکھیں ۔

(1)… کسی کا دروازہ بہت زور سے کھٹ کھٹانا اور شدید آواز سے چیخنا خاص کر علماء اور بزرگوں  کے دروازوں  پر ایساکرنا اوران کو زُور سے پکارنا مکرو ہ و خلافِ ادب ہے۔(مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۷۷۶) لہٰذا درمیانے انداز میں  دروازہ بجائیں  اور آواز دینے کی ضرورت ہو تو درمیانی آواز سے پکاریں ،یونہی جس کے گھر پہ بیل لگی ہو تو ایسا نہ کریں  کہ بٹن پر ہاتھ رکھ کر ہی کھڑے ہو جائیں  اور جب تک دروازہ ُکھل نہ جائے اس سے ہاتھ نہ ہٹائیں  بلکہ ایک بار بٹن دباکر کچھ دیر انتظار کریں ، اگر دروازہ نہ کھلے تو دوبارہ بجا لیں ،کچھ دیر انتظار کے بعد پھر بجا لیں ، اگر تیسری بار بجانے کے بعد بھی جواب نہ ملے تو کسی شدید مجبوری اور ضرورت کے بغیر چوتھی بار نہ بجائیں  بلکہ واپس چلے جائیں  اور کسی دوسرے وقت میں  ملاقات کر لیں ۔نیز یہاں  یہ بھی یاد رہے کہ تین مرتبہ تک دروازہ بجانے یا گھنٹی بجانے کی اجازت ہے، کوئی واجب نہیں  لہٰذا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دو یا ایک مرتبہ دروازہ بجانے پر اگر کوئی دروازہ نہ کھولے تو واپس چلے جائیں ۔

(2)… جب کسی کا دروازہ بجائیں  اور اندر سے پوچھا جائے کہ کون ہے تو ا س کے جواب میں  یہ نہ کہیں  کہ میں  ہوں ، بلکہ اپنا نام بتائیں  تاکہ پوچھنے والا آپ کو پہچان سکے۔حضرت جابر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ میں  اپنے والد کے قرض کے سلسلے میں حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  حاضر ہوا تومیں  نے دروازہ بجایا۔ آپ نے پوچھا: کون ہے؟میں  نے عرض کی:میں  ہوں ۔آپ نے ارشاد فرمایا: ’’میں ، میں ۔‘‘ (یعنی میں  تو میں  بھی ہوں ) گویا آپ نے اس جواب کو ناپسند فرمایا۔(بخاری، کتاب الاستئذان، باب ما اذا قال: من ذا؟ فقال: انا، ۴ / ۱۷۱، الحدیث: ۶۲۵۰)

نوٹ:مزید تفصیل کے لئے بہارِ شریعت جلد3 حصہ16 سے ’’مکان میں  جانے کا بیان‘‘ مطالعہ فرمائیں ۔

{هُوَ اَزْكٰى لَكُمْ: یہ تمہارے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔} یعنی اجازت نہ ملنے کی صورت میں  تمہارا لوٹ جانا تمہارے لئے زیادہ پاکیزہ کام ہے کیونکہ بعض اوقات لوگ ا س حال میں  ہوتے ہیں  کہ ا س وقت وہ کسی کا اپنے پاس آنا پسند نہیں  کرتے۔(خازن، النور، تحت الآیۃ: ۲۸، ۳ / ۳۴۷)

دین ِاسلام کا وصف:

مذکورہ بالا آیاتِ کریمہ سے معلوم ہوا کہ اسلام نے ہمیں  زندگی کے ہر چھوٹے بڑے معاملے میں  اپنی تعلیمات سے نوازا ہے اور زندگی کے آداب سکھائے ہیں  نیز دوسروں  کی سہولت کا خیال رکھنا بھی سکھایا ہے۔

لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ مَسْكُوْنَةٍ فِیْهَا مَتَاعٌ لَّكُمْؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَ مَا تَكْتُمُوْنَ(29)

ترجمہ: کنزالعرفان

اس بارے میں تم پر کچھ گناہ نہیں کہ ان گھروں میں جاؤ جو خاص کسی کی رہائش نہیں جن میں تمہیں نفع اُٹھانے کا اختیار ہے اور اللہ جانتا ہے جوتم ظاہر کرتے ہواور جو تم چھپاتے ہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ: تم پر کچھ گناہ نہیں ۔} شانِ نزول : یہ آیت ان صحابہ ٔکرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ کے جواب میں  نازل ہوئی جنہوں  نے آیتِ اِسْتِیْذَانْ یعنی اُوپر والی آیت نازل ہونے کے بعد دریافت کیا تھا کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ کے درمیان اور شام کے راستے میں  جو مسافر خانے بنے ہوئے ہیں  کیا اُن میں  داخل ہونے کے لئے بھی اجازت لینا ضروری ہے۔اس پر فرمایا گیا کہ اس بارے میں  تم پر کچھ گناہ نہیں  کہ ان گھروں  میں  جاؤ جو خاص کسی کی رہائش نہیں  جیسے سَرائے اور مسافر خانے وغیرہ کہ اس میں  جانے کے لئے اجازت حاصل کرنے کی حاجت نہیں  اور ان سے تمہیں  نفع اُٹھانے کا اختیار ہے۔بعض مفسرین کے نزدیک ان گھروں  سے دوکانیں  مراد ہیں ۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۲۹، ۳ / ۳۴۷)      کیونکہ دکانوں  میں  اجازت لے کر داخل نہیں  ہوا جاتا بلکہ کھلی ہوئی دکانیں  ہوتی ہی اس لئے ہیں  کہ لوگ ان میں  آئیں  اور خریداری کریں ۔ حقیقت میں  اس سے مراد ہر وہ جگہ ہے جہاں  شرعاً و عرفاً اجازت لے کر جانے کی حاجت نہیں ۔

{وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ: اور  اللہ جانتا ہے۔} آیت کے ا س حصے میں  ان لوگوں  کے لئے وعید ہے جو ان مقامات پر چوری وغیرہ کی نیت سے یا عورتوں  کو جھانکنے کے لئے جائیں ۔ یہ لوگ اس بات کو ذہن میں  رکھیں  کہ  اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو وہ ظاہر کرتے ہیں  اور جوچھپاتے ہیں ۔( روح البیان، النور، تحت الآیۃ: ۲۹، ۶ / ۱۳۹)

قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْؕ-ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ(30)

ترجمہ: کنزالعرفان

مسلمان مردوں کو حکم دو کہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ، یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے، بیشک اللہ ان کے کاموں سے خبردار ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ: مسلمان مردوں  کو حکم دو۔} اس آیت میں  مسلمان مردوں  کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنی نگاہیں  کچھ نیچی رکھیں  اور جس چیز کو دیکھنا جائز نہیں  اس پر نظر نہ ڈالیں ۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۳۰، ۳ / ۳۴۸)

نگاہیں  جھکا کر رکھنے اور حرام چیزوں  کو دیکھنے سے بچنے کی ترغیب:

            کثیر احادیث میں  بھی مسلمان مردوں  کو اپنی نظریں  نیچی رکھنے اور  اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں  کو دیکھنے سے بچنے کا حکم دیاگیا ہے،ان میں  سے چند یہاں  بیان کی جاتی ہیں ۔

(1)…حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم راستوں  میں  بیٹھنے سے بچو۔‘‘ صحابہ ٔکرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ  اللہ !صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، راستوں  میں  بیٹھے بغیر ہمارا گزارہ نہیں ، ہم وہاں  بیٹھ کر باتیں  کرتے ہیں ۔ارشاد فرمایا: ’’اگر راستوں  میں  بیٹھے بغیر تمہیں  کوئی چارہ نہیں  تو راستے کا حق ادا کرو۔‘‘ صحابہ ٔکرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ نے عرض کی: راستے کا حق کیا ہے؟ ارشاد فرمایا: ’’نظر نیچی رکھنا۔ تکلیف دہ چیز کو دُور کرنا۔ سلام کا جواب دینا۔ نیکی کی دعوت دینا اور بُرائی سے منع کرنا۔‘‘( بخاری،کتاب المظالم والغصب،باب افنیۃ الدوروالجلوس فیہا والجلوس علی الصعدات،۲ / ۱۳۲،الحدیث:۲۴۶۵)

(2)… حضرت ابوسعید خدری رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہ ِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ ایک مرد دوسرے مرد کے سَتْر کی جگہ نہ دیکھے اور نہ عورت دوسری عورت کے ستر کی جگہ دیکھے اور نہ مرد دوسرے مرد کے ساتھ ایک کپڑے میں  بَرَہْنَہ سوئے اور نہ عورت دوسری عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں  برہنہ سوئے۔‘‘( مسلم، کتاب الحیض، باب تحریم النظر الی العورات، ص۱۸۶، الحدیث: ۷۴(۳۳۸))

(3)… حضرت بریدہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت علی کَرَّمَ  اللہ  تَعَالٰی  وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے فرمایا کہ ’’ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ کرو (یعنی اگر اچانک بِلاقصد کسی عورت پر نظر پڑجائے تو فوراً نظر ہٹالے اور دوبارہ نظر نہ کرے) کہ پہلی نظر جائز ہے اور دوسری نظر جائز نہیں ۔‘‘( ابو داؤد، کتاب النکاح، باب ما یؤمر بہ من غض البصر، ج۲، ص۳۵۸، الحدیث: ۲۱۴۹)

(4)…حضرت ابو امامہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا: ’’جو مسلمان کسی عورت کے حُسن وجمال کی طرف (بِلا ارادہ) پہلی بار نظر کرے، پھر اپنی آنکھ جُھکا لے تو  اللہ تعالیٰ اسے ایسی عبادت کرنے کی توفیق دے گا جس کا وہ مزہ پائے گا۔‘‘( مسند امام احمد، مسند الانصار رضی  اللہ عنہم، حدیث ابی امامۃ الباہلی۔۔۔ الخ، ۸ / ۲۹۹، الحدیث: ۲۲۳۴۱)

            لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنی نگاہیں  جھکا کر رکھا کرے اور جن چیزوں  کو دیکھنا حرام ہے انہیں  دیکھنے سے بچے۔مزید ترغیب کے لئے امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  کا یہ کلام ملاحظہ ہو، فرماتے ہیں  :نظر نیچی رکھنا دل کو بہت زیادہ پاک کرتا ہے اور نیکیوں  میں  اضافے کا ذریعہ ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر تم نظر نیچی نہ رکھو بلکہ اسے آزادانہ ہر چیز پر ڈالو تو بسا اوقات تم بے فائدہ اور فضول بھی اِدھر اُدھر دیکھنا شروع کر دو گے اور رفتہ رفتہ تمہاری نظر حرام پر بھی پڑنا شروع ہو جائے گی، اب اگر جان بوجھ کر حرام پر نظر ڈالو گے تو یہ بہت بڑ اگناہ ہے اور عین ممکن ہے کہ تمہارا دل حرام چیز پر فریفتہ ہو جائے اور تم تباہی کا شکار ہو جاؤ، اور اگر اس طرف دیکھنا حرام نہ ہو بلکہ مباح ہو، تو ہو سکتا ہے کہ تمہارا دل (اس میں ) مشغول ہو جائے اور اس کی وجہ سے تمہارے دل میں  طرح طرح کے وسوسے آنا شروع ہو جائیں  اور ان وسوسوں  کا شکار ہو کر نیکیوں  سے رہ جاؤ،لیکن اگر تم نے (حرام اور مباح) کسی طرف دیکھا ہی نہیں  تو ہر فتنے اور وسوسے سے محفوظ رہو گے اور اپنے اندر راحت و نَشاط محسوس کرو گے۔( منہاج العابدین، تقوی الاعضاء الخمسۃ، الفصل الاول: العین، ص۷۲-۷۳)

          نوٹ: پردے کے بارے میں  مزید معلومات کیلئے بہارِ شریعت جلد3حصہ16سے ’’دیکھنے اور چھونے کا بیان‘‘ مطالعہ فرمائیں ۔

{وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ: اور اپنی شرمگاہوں  کی حفاظت کریں ۔} آیت کے اس حصے کا ایک معنی یہ ہے کہ زنا اور حرام سے بچیں ۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ اپنی شرم گاہوں  اور اُن سے مُتَّصِل وہ تمام اعضاء جن کا سَتْر ضرور ی ہے انہیں  چھپائیں  اور پردے کا اہتمام رکھیں ۔( روح البیان، النور، تحت الآیۃ: ۳۰، ۶ / ۱۴۰، ملخصاً)

{ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْ: یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔} یعنی نگاہوں  کو جھکا کر رکھنا اور شرمگاہ کی حفاظت کرنا مردوں  کے لیے گناہ کی میل کے مقابلے میں  بہت زیادہ پاکیزہ طریقہ اور کام ہے۔ اور فرمایا کہ بیشک  اللہ تعالیٰ ان کے کاموں  سے خبردار ہے۔امام عبد اللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں : ’’اس میں  نگاہیں  جھکا کر رکھنے اور شرمگاہوں  کی حفاظت کرنے کی ترغیب اور ایسا نہ کرنے پر ترہیب یعنی  اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا گیاہے کہ  اللہ تعالیٰ مردوں  کے حالات، ان کے اَفعال اور ان کے نظریں  گھمانے کے انداز سے خبردار ہے،وہ آنکھوں  کی خیانت اور دلوں  کی چھپی ہوئی باتیں  جانتا ہے۔ جب مرد ا س بات سے آگاہ ہیں  تو ان پر لازم ہے کہ وہ ا س معاملے میں   اللہ تعالیٰ سے ڈریں  اور ہر غلط حرکت و سکون سے بچیں ۔( مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۳۰، ص۷۷۷)

وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُیُوْبِهِنَّ۪-وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَآىٕهِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَآىٕهِنَّ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اَخَوٰتِهِنَّ اَوْ نِسَآىٕهِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُنَّ اَوِ التّٰبِعِیْنَ غَیْرِ اُولِی الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْهَرُوْا عَلٰى عَوْرٰتِ النِّسَآءِ۪-وَ لَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِهِنَّؕ-وَ تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ جَمِیْعًا اَیُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(31)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور مسلمان عورتوں کو حکم دو کہ وہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنی زینت نہ دکھائیں مگر جتنا (بدن کاحصہ) خود ہی ظاہر ہے اور وہ اپنے دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رکھیں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں پر یا اپنے باپ یا شوہروں کے باپ یا اپنے بیٹوں یا شوہروں کے بیٹے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھتیجوں یا اپنے بھانجوں یا اپنی (مسلمان) عورتوں یا اپنی کنیزوں پر جو ان کی ملکیت ہوں یامردوں میں سے وہ نوکر جو شہوت والے نہ ہوں یا وہ بچے جنہیں عورتوں کی شرم کی چیزوں کی خبر نہیں اور زمین پر اپنے پاؤں اس لئے زور سے نہ ماریں کہ ان کی اس زینت کا پتہ چل جائے جو انہوں نے چھپائی ہوئی ہے اور اے مسلمانو! تم سب اللہ کی طرف توبہ کرو اس امید پر کہ تم فلاح پاؤ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ: اور مسلمان عورتوں  کو حکم دو۔} آیت کے ا س حصے میں  مسلمان عورتوں  کوحکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی نگاہیں  کچھ نیچی رکھیں  اور غیر مردوں  کو نہ دیکھیں ۔ حضرت اُمِّ سلمہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا  فرماتی ہیں  کہ میں  اور حضرت میمونہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا بارگاہِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں  حاضر تھیں ، اسی وقت حضرت ابنِ اُمِّ مکتوم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ حاضر ہوئے۔ حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمیں  پردہ کا حکم فرمایا تومیں  نے عرض کی : وہ تو نابینا ہیں ، ہمیں  دیکھ اور پہچان نہیں  سکتے۔ حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا: ’’کیا تم دونوں  بھی نابینا ہو اور کیا تم ان کو نہیں  دیکھتیں ۔‘‘( ترمذی، کتاب الادب، باب ما جاء فی احتجاب النساء من الرجال، ۴ / ۳۵۶، الحدیث: ۲۷۸۷، ابوداؤد، کتاب اللباس، باب فی قولہ عزّ وجلّ: وقل للمؤمنات یغضضن۔۔۔ الخ، ۴ / ۸۷، الحدیث: ۴۱۱۲)

 عورت کا اجنبی مرد کو دیکھنے کا شرعی حکم:

            یہاں  ایک مسئلہ یاد رہے کہ عورت کا اجنبی مردکی طرف نظر کرنے کا وہی حکم ہے، جو مرد کا مرد کی طرف نظر کرنے کا ہے اور یہ اس وقت ہے کہ عورت کو یقین کے ساتھ معلوم ہو کہ اس کی طرف نظر کرنے سے شہوت پیدا نہیں  ہوگی اور اگر اس کا شبہ بھی ہو تو ہر گز نظر نہ کرے۔

{وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ: اور اپنی زینت نہ دکھائیں ۔} ابو البرکات عبد اللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں : ’’زینت سے مراد وہ چیزیں  ہیں  جن کے ذریعے عورت سجتی سنورتی ہے جیسے زیوراورسرمہ وغیرہ اور چونکہ محض زینت کے سامان کو دکھانا مباح ہے اس لئے آیت کا معنی یہ ہے کہ مسلمان عورتیں  اپنے بدن کے ان اعضا کو ظاہر نہ کریں  جہاں  زینت کرتی ہیں  جیسے سر، کان، گردن، سینہ، بازو، کہنیاں  اور پنڈلیاں ، البتہ بد ن کے وہ اعضا جوعام طور پر ظاہر ہوتے ہیں  جیسے چہرہ،دونوں  ہاتھ اور دونوں  پاؤں ،انہیں  چھپانے میں  چو نکہ مشقت واضح ہے اس لئے ان اعضا کو ظاہر کرنے میں  حرج نہیں ۔(لیکن فی زمانہ چہرہ بھی چھپایا جائے گا جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے۔)( مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۳۱، ص۷۷۷)

            اِس آیتِ مبارکہ کے بارے میں  ملا جیون رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  اپنا نکتہ نظر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’زیادہ ظاہر یہ ہے کہ آیت میں  مذکور حکم نماز کے بارے میں  ہے (یعنی عورت نماز پڑھتے وقت چہرے دونوں  ہاتھوں  اور دونوں  پاؤں کے علاوہ پورا بدن چھپائے۔ یہ حکم عورت کو) دیکھنے کے بارے میں  نہیں کیونکہ عورت کا تمام بدن عورت یعنی چھپانے کی چیز ہے۔ شوہر اور مَحرم کے سوا کسی اور کے لئے اس کے کسی حصہ کو بے ضرورت دیکھنا جائز نہیں  اور علاج وغیرہ کی ضرورت سے بقدرِ ضرورت جائز ہے۔‘‘( تفسیرات احمدیہ، النور، تحت الآیۃ: ۳۱، ص۵۶۲)

{وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُیُوْبِهِنَّ: اور وہ اپنے دوپٹے اپنے گریبانوں  پر ڈالے رکھیں ۔} یعنی مسلمان عورتیں  اپنے دوپٹوں  کے ذریعے اپنے بالوں ، گردن،پہنے ہوئے زیور اور سینے وغیرہ کو ڈھانپ کر رکھیں ۔( تفسیرات احمدیہ، النور، تحت الآیۃ: ۳۱، ص۵۶۲)

 اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے میں  صحابیات رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُنَّ کا جذبہ:

            جب یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی تواس حکم پر عمل کرنے میں  صحابیات رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُنَّ کا جذبہ قابل دید ہے، چنانچہ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا  فرماتی ہیں : ’’ اللہ تعالیٰ ان عورتوں  پر رحم فرمائے جنہوں  نے سب سے پہلے ہجرت کی تھی کہ جب  اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا ’’اور وہ اپنے دوپٹے اپنے گریبانوں  پر ڈالے رکھیں ‘‘ تو انہوں  نے اپنی اونی چادروں  کو پھاڑ کر اوڑھنیاں  بنا لیا تھا۔‘‘( بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ النور، باب ولیضربن بخمرہنّ علی جیوبہنّ، ۳ / ۲۹۰، الحدیث: ۴۷۵۸)

            اب یہاں  پردے سے متعلق تین عظیم واقعات ملاحظہ ہوں :

(1)…حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا فرماتی ہیں  کہ پردے کی آیات نازل ہونے کے بعد (میرے رَضاعی چچا) افلح نے مجھ سے میرے پاس آنے کی اجازت طلب کی تو میں  نے کہا:میں  اس وقت تک اجازت نہیں  دے سکتی جب تک نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اجازت نہ لے لوں  کیونکہ ابو القعیس کے بھائی نے مجھے دودھ نہیں  پلایا بلکہ ابو القعیس کی بیوی نے دودھ پلایاہے۔جب رسولِ اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لائے اور حضرت عائشہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا نے ان سے صورتِ حال عرض کی تو ارشاد فرمایا’’اے عائشہ! رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا، افلح کو اجازت دے دو کیونکہ وہ تمہارے رضاعی چچا ہیں ۔‘‘( بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ الاحزاب، باب قولہ: ان تبدوا شیءاً او تخفوہ۔۔۔ الخ، ۳ / ۳۰۶، الحدیث: ۴۷۹۶)

(2)…خاتونِ جنت حضرت فاطمہ زہرا رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا کو یہ تشو یش تھی کہ عمر بھر تو غیر مردوں  کی نظروں  سے خود کو بچائے رکھا ہے اب کہیں  وفات کے بعد میری کفن پوش لاش ہی پرلوگوں  کی نظر نہ پڑ جائے!ایک موقع پر حضرت اسماء بنتِ عمیس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا نے عرض کی:میں  نے حبشہ میں  دیکھا ہے کہ جنازے پر درخت کی شاخیں  باندھ کر اور ایک ڈولی کی سی صورت بنا کر اس پر پردہ ڈالدیتے ہیں ۔ پھر انہوں  نے کھجور کی شاخیں  منگوا کر انہیں  جوڑااور اس پر کپڑا تان کر خاتونِ جنّت رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا کو دکھایا۔اسے دیکھ کر آپ بہت خوش ہوئیں  اور لبوں  پر مسکراہٹ آگئی۔ بس آپ کی یہی ایک مسکراہٹ تھی جو سرکارِ مدینہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وصالِ ظاہری کے بعد دیکھی گئی۔( جذب القلوب، باب دوازدہم در ذکر مقبرۂ شریفۂ بقیع۔۔۔ الخ، ص۱۵۹)

(3)…حضرت اُمِّ خلاد رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا کا بیٹا جنگ میں  شہید ہو گیا، آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا ان کے بارے میں  معلومات حاصل کرنے کیلئے چہرے پرنقاب ڈالے باپردہ بارگاہِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں  حاضر ہو ئیں ، اس پر کسی نے حیرت سے کہا:اس وقت بھی آپ نے منہ پر نقاب ڈال رکھا ہے!آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا نے جواب دیا: میں  نے بیٹاضرور کھویا ہے لیکن حیا ہر گز نہیں  کھوئی۔( ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب فضل قتال الروم علی غیرہم من الامم، ۳ / ۹، الحدیث: ۲۴۸۸)

             مذکورہ بالا حدیثِ پاک اور ان تین واقعات میں  ان عورتوں  کے لئے بڑی نصیحت ہے جو مسلمان ہونے کے باوجود  اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے حکم پر عمل کرنے کی بجائے دنیا کے ناجائزفیشن اور رسم و رواج کو اپنانے میں  بڑی کوشش کرتی ہیں  اور پردے سے جان چھڑانے کے لئے طرح طرح کے حیلے بہانے تراشتی ہیں ۔  اللہ تعالیٰ انہیں  عقلِ سلیم اور شرعی احکام پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

{وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ: اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں ۔} اس آیت سے ان مردوں  کے بارے میں  بتایا گیا ہے جن کے سامنے عورت اپنی پوشیدہ زینت کے اعضا مثلاً سر، کان، گردن، سینہ، بازو، کہنیاں  اور پنڈلیاں  وغیرہ ظاہر کر سکتی ہے۔ چنانچہ وہ مرد حضرات درج ذیل ہیں،

(1)… شوہر۔

(2)…باپ۔ اس کے حکم میں  دادا پَر دادا وغیرہ تمام اصول شامل ہیں ۔

(3)…شوہروں  کے باپ یعنی سُسرکہ وہ بھی مَحرم ہوجاتے ہیں ۔

(4)…اپنے بیٹے۔ اِنہیں  کے حکم میں  اِن کی اولاد بھی داخل ہے۔

(5)… شوہروں  کے بیٹے کہ وہ بھی مَحرم ہوگئے۔

(6،7)…سگے بھائی۔ سگے بھتیجے۔

(8)…سگے بھانجے۔ اِنہیں  کے حکم میں  چچا ماموں  وغیرہ تمام مَحارِم داخل ہیں ۔

(9) …مسلمان عورتوں  کے سامنے۔ غیر مسلم عورتوں  کے سامنے کھولنا منع ہے چنانچہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کو خط لکھا تھا کہ کُفَّار اہلِ کتاب کی عورتوں  کو مسلمان عورتوں  کے ساتھ حمام میں  داخل ہونے سے منع کریں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان عورت کو کافرہ عورت کے سامنے اپنا بدن کھولنا جائز نہیں ۔ مسئلہ: عورت اپنے غلام سے بھی اجنبی مرد کی طرح پردہ کرے۔

 (10)… اپنی ملکیت میں  موجود کنیزوں  کے سامنے۔ ان پر اپنا سنگار ظاہر کرنا ممنوع نہیں  اور غلام اِن کے حکم میں  نہیں ، اس کو اپنی مالکہ کی زینت کی جگہوں  کو دیکھنا جائز نہیں ۔

(11)…مردوں  میں  سے وہ نوکرجوشہوت والے نہ ہوں  مثلاً ایسے بوڑھے ہوں  جنہیں  اصلاً شہوت باقی نہیں  رہی ہو اوروہ نیک ہوں۔

             یاد رہے کہ ائمہ حنفیہ کے نزدیک خصی اور عنین نظر کی حرمت کے معاملے میں  اجنبی کا حکم رکھتے ہیں ۔ اس طرح بُرے اَفعال کرنے والے ہیجڑوں  سے بھی پردہ کیا جائے جیسا کہ مسلم شریف کی حدیث سے ثابت ہے۔

 (12)… وہ بچے جنہیں  عورتوں  کی شرم کی چیزوں  کی خبر نہیں ، وہ ابھی ناسمجھ نابالغ ہیں ۔( مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۳۱، ص۷۷۸، خازن، النور، تحت الآیۃ: ۳۱، ۳ / ۳۴۹، خزاءن العرفان، النور، تحت الآیۃ: ۳۱، ص۶۵۶، ملتقطاً)

            یاد رہے کہ شوہر کے علاوہ دیگر مَحارِم کے سامنے بھی عورت اپنے بناؤ سنگار کے اعضاء اس وقت ظاہر کر سکتی ہے جب ان میں  سے کسی کو شہوت کا اندیشہ نہ ہو، اگر شہوت کا اندیشہ ہو تو ظاہر کرنا ناجائزہے۔

{وَ لَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ: اور زمین پر اپنے پاؤں  زور سے نہ ماریں ۔} یعنی عورتیں  چلنے پھرنے میں  پاؤں  اس قدر آہستہ رکھیں  کہ اُن کے زیور کی جھنکار نہ سُنی جائے۔‘‘ اسی لئے چاہیے کہ عورتیں  بجنے والے جھانجھن نہ پہنیں ۔ حدیث شریف میں  ہے کہ  اللہ تعالیٰ اس قوم کی دعا نہیں  قبول فرماتا جن کی عورتیں  جھانجھن پہنتی ہوں ۔ اس سے سمجھ لیناچاہیے کہ جب زیور کی آواز دعا قبول نہ ہونے کا سبب ہے تو خاص عورت کی آواز اور اس کی بے پردگی کیسی  اللہ تعالیٰ کے غضب کو لازم کرنے والی ہوگی۔ پردے کی طرف سے بے پروائی تباہی کا سبب ہے ( اللہ کی پناہ)۔( تفسیر احمدی، النور، تحت الآیۃ: ۳۱، ص۵۶۵، خزاءن العرفان، النور، تحت الآیۃ: ۳۱، ص۶۵۶، ملتقطاً)

پردے کے دینی اور دُنیوی فوائد :

            یہاں  پردہ کرنے کے چند دینی اور دُنیوی فوائد ملاحظہ ہوں ، چنانچہ اس کے4 دینی فوائد یہ ہیں :

(1)…پردہ  اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔

(2)…پردہ ایمان کی علامت، اسلام کا شعار اور مسلمان خواتین کی پہچان ہے۔

(3)…پردہ شرم و حیا کی علامت ہے اور حیا  اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔

(4)… پردہ عورت کو شیطان کے شر سے محفوظ بنا دیتا ہے۔

            اور پردے کے4 دُنیوی فوائد یہ ہیں :

(1)…باحیا اور پردہ دارعورت کو اسلامی معاشرے میں  بہت عزت و وقار کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

(2)… پردہ عورت کو بُری نظر اور فتنے سے محفوظ رکھتا اور بُرائی کے راستے کو روکتا ہے۔

(3)…عورت کے پردے سے معاشرے میں  بگاڑ پیدا نہیں  ہوتا اور معاشرے میں  امن و سکون رہتاہے۔

(4)…پردہ عورت کے وقار میں  اضافہ کرتا اور اس کی خوبصورتی کی حفاظت کرتا ہے۔

 پردے کی ضرورت واہمیت سے متعلق ایک مثال:

            یہاں  پردے کی ضرورت اور اہمیت کو آسانی کے ساتھ سمجھنے کے لئے ایک مثال ملاحظہ ہو،چنانچہ وہ مثال یہ ہے کہ اگر ایک پلیٹ میں  مٹھائی رکھ دی جائے اور اسے کسی چیز سے ڈھانپ دیاجائے تو وہ مکھیوں  کے بیٹھنے سے محفوظ ہو جاتی ہے اور اگر اسے ڈھانپا نہ جائے، پھر اس پر مکھیاں  بیٹھ جائیں  تو یہ شکایت کرنا کہ اس پر مکھیاں  کیوں  بیٹھ گئیں  بہت بڑی بے وقوفی ہے کیونکہ مٹھائی ایسی چیز ہے جسے مکھیوں  کے تَصَرُّف سے بچانے کے لئے اسے ڈھانپ کر رکھنا ضروری ہے ورنہ انہیں  مٹھائی پر بیٹھنے سے روکنا بڑ امشکل ہے، اسی طرح اگرعورت جو کہ چھپانے کی چیز ہے، اسے پردے میں  رکھا جائے تو بہت سے معاشرتی مسائل سے بچ سکتی ہے اور عزت و ناموس کے لٹیروں  سے اپنی حفاظت کر سکتی ہے اور جب اسے پردے کے بغیر رکھا جائے تو اس کے بعد یہ شکایت کرنا کہاں  کی عقلمندی ہے کہ لوگ عورت کو تانک جھانک کرتے ہیں ، اسے چھیڑتے ہیں  اوراس کے ساتھ دست درازی کرتے ہیں  کیونکہ جب اسے بے پردہ کر دیاتو غیر مردوں  کی فتنہ باز نظریں  ا س کی طرف ضرور اُٹھیں  گی، ان کے لئے عورت کے جسم سے لطف اندوز ہونا اور اس میں  تَصَرُّف کرنا آسان ہو گا اور شریر لوگوں  سے اپنے جسم کو بچانا عورت کے لئے انتہائی مشکل ہو گا کیونکہ فطری طور پر مردوں  میں  عورتوں  کے لئے رغبت رکھی گئی ہے اور جب وہ بے پردہ عورت کا جسم دیکھتا ہے تو وہ اپنی شہوت و رغبت کو پورا کرنے کے لئے اس کی طرف لپکتا ہے۔

پردے کی طرف سے بے پروائی تباہی کا سبب ہے:

            موجودہ دور میں  میڈیا کے ذریعے اور دیگر ذرائع سے لوگوں  کا یہ ذہن بنانے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے کہ عورت بھی ایک انسان ہے اور آزادی اس کا بھی حق ہے اور اسے پردہ کروانااس کی آزادی اور روشن خیالی کے برخلاف ہے اور یہ ایک طرح کی جبری قید ہے حالانکہ پردہ تو عورت کی آزادی کا ضامن ہے،پردہ اس کی عزت و ناموس کا محافظ ہے، اسی میں  عورت کی عزت اور ا س کاو قار ہے۔آج ہر عقلمند انسان انصاف کی نظر سے یہ دیکھ سکتا ہے کہ جن ممالک میں  عورت کے پردے کو اس کے انسانی حق اور آزادی کے خلاف قرار دے کر اس کی بے پردگی کو رواج دیا گیا، ایسے ذرائع اور حالات پیدا کئے گئے جن سے عورتوں  اور مردوں  کا باہم اِختلاط رہے اور ان کا ایک دوسرے کے ساتھ میل جول ہوتا رہے اور قانونی طور پر عورت کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ جب اور جس مرد کے ساتھ چاہے اپنا وقت گزارے اور اپنی فطری خواہشات کو پورا کرے تو وہاں  کا حال کیسا عبرت ناک ہے کہ ان کا معاشرہ بگڑ گیا اور خاندانی نظام تباہ ہو کر رہ گیا، شادیوں  کی ناکامی، طلاقوں  کی تعداد اور حرامی بچوں  کی پیدائش میں  اضافہ ہوگیا اور یہ سب تباہی عورت کو بے پردہ کرنے کا ہی نتیجہ ہے۔

{وَ تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ جَمِیْعًا: تم سب  اللہ کی طرف توبہ کرو۔} یعنی اے مسلمانو! جن باتوں  کا تمہیں  حکم دیا گیا اور جن سے منع کیا گیا، اگر ان میں  بشری تقاضے کی بنا پر تم سے کوئی تقصیر واقع ہوجائے تو تم  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  ا س امید پر توبہ کر لو کہ تم فلاح پا جاؤ۔(خازن، النور، تحت الآیۃ: ۳۱، ۳ / ۳۵۰)

            اور توبہ سے متعلق حضرت انس بن مالک رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’  اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر ا س سے بھی زیادہ راضی ہوتا ہے جیسے تم میں  سے کسی کا اونٹ جنگل میں  گم ہونے کے بعد دوبارہ اسے مل جائے۔( بخاری، کتاب الدعوات، باب التوبۃ، ۴ / ۱۹۱، الحدیث: ۶۳۰۹)

وَ اَنْكِحُوا الْاَیَامٰى مِنْكُمْ وَ الصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَ اِمَآىٕكُمْؕ-اِنْ یَّكُوْنُوْا فُقَرَآءَ یُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(32)

ترجمہ: کنزالعرفان

اورتم میں سے جو بغیر نکاح کے ہوں اور تمہارے غلاموں اور لونڈیوں میں سے جو نیک ہیں ان کے نکاح کردو۔ اگر وہ فقیر ہوں گے تو اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی کردے گا اور اللہ وسعت والا، علم والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اَنْكِحُوا الْاَیَامٰى مِنْكُمْ: اور تم میں  سے جو بغیر نکاح کے ہوں  ان کے نکاح کردو۔} اس سے پہلی آیات میں   اللہ تعالیٰ نے مردوں  اور عورتوں  کونگاہیں  جھکا کر رکھنے اور اپنی شرمگاہوں  کی حفاظت کرنے کا حکم دیا، اب اس آیت میں  شرمگاہوں  کی حفاظت کا ایک طریقہ بیان کیا جارہا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ تم میں  سے جو بغیر نکاح کے ہوں  خواہ مرد ہوں  یا عورتیں ،کنوارے یا غیر کنوارے (یعنی شادی شدہ تھے لیکن پھر طلاق یا ایک کی موت ہوگئی) اور تمہارے غلاموں  اور لونڈیوں  میں  سے جو نیک ہیں  ان کے نکاح کردو۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۳۲، ۳ / ۳۵۰)

نکاح کرنے کا شرعی حکم:

            نکاح کرنے کا شرعی حکم یہ ہے کہ اِعتدال کی حالت میں  یعنی نہ شہوت کا زیادہ غلبہ ہو اور نا مرد بھی نہ ہو، مہر اور نان نفقہ پر قدرت رکھتا ہو تو نکاح سنّتِ مُؤکَّدَہ ہے۔ زِنا میں  پڑنے کا اندیشہ ہے اور زَوْجِیَّت کے حقوق پورے کرنے پر قادِر ہے تو واجب اور اگر زِنا میں  پڑنے کا یقین ہو تو نکاح کرنا فرض ہے، زوجیت کے حقوق پورے نہ کر سکنے کا اندیشہ ہو تو نکاح مکروہ اور حقوق پورے نہ کرسکنے کا یقین ہو تو حرام ہے۔(بہارِ شریعت، حصہ ہفتم، نکاح کا بیان، ۲ / ۴-۵، ملخصاً)

            نوٹ: نکاح سے متعلق مسائل کی مزید معلومات کے لئے بہارِ شریعت جلد2سے حصہ7کا مطالعہ فرمائیں ۔

{اِنْ یَّكُوْنُوْا فُقَرَآءَ: اگر وہ فقیر ہوں  گے۔} ارشاد فرمایا کہ اگر نکاح کرنے والے فقیر ہوں  گے تو  اللہ تعالیٰ انہیں  اپنے فضل سے غنی کردے گا۔ اس غَناء کے بارے میں  مفسرین کے چند قول ہیں :

(1)… اس غناء سے مراد قَناعَت ہے۔

(2)…اس سے مرادکفایت ہے کہ ایک کا کھانا دو کے لئے کافی ہوجائے جیسا کہ حضرت جابر بن عبد اللہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ایک شخص کا کھانا دو کو کافی ہے۔‘‘( مسلم، کتاب الاشربۃ، باب فضیلۃ المواساۃ فی الطعام القلیل۔۔۔ الخ، ص۱۱۴۰، الحدیث: ۱۷۹(۲۰۵۹))

(3)… ا س غناء سے شوہر اور بیوی کے دو رِزْقوں  کا جمع ہوجانا یا نکاح کی برکت سے فراخی حاصل ہونا مراد ہے۔( مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۳۲، ص۷۷۹، خازن، النور، تحت الآیۃ: ۳۲، ۳ / ۳۵۰، ملتقطاً)

تنگدستی دُورہونے اور فراخ دستی حاصل ہونے کا ذریعہ:

            اس آیت سے معلوم ہو اکہ نکاح کی برکت سے تنگدستی دور ہوجاتی اور فراخ دستی حاصل ہو تی ہے۔ کثیر احادیث میں  بھی اس چیز کو بیان کیاگیا ہے، ترغیب کے لئے 6احادیث درج ذیل ہیں ۔

(1)… حضرت ابوہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا: ’’تین شخصوں  کی  اللہ تعالیٰ مدد فرمائے گا۔ (1) اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں  جہاد کرنے والا۔ (2)مُکاتَب (غلام) کہ (کِتابَت کی رقم) ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ (3)پارسائی کے ارادے سے نکاح کرنے والا۔‘‘( ترمذی، کتاب فضاءل الجہاد، باب ما جاء فی المجاہد والناکح والمکاتب۔۔۔ الخ، ۳ / ۲۴۷، الحدیث: ۱۶۶۱)

(2)…حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم نکاح کے ذریعے رِزْق تلاش کرو۔‘‘( مسند الفردوس، باب الالف، ۱ / ۸۸، الحدیث: ۲۸۲)

(3) …حضرت عروہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ انور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم عورتوں  سے نکاح کرو کیونکہ وہ تمہارے پاس ( اللہ تعالیٰ کی طرف سے رِزْق اور) مال لائیں  گی۔‘‘( مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب النکاح، فی التزویج من کان یأمر بہ ویحثّ علیہ، ۳ / ۲۷۱، الحدیث: ۱۰)

(4) …حضرت جابر بن عبد اللہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ ایک شخص نے بارگاہِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں  حاضر ہو کر اپنی تنگدستی کی شکایت کی تو آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسے نکاح کرنے کا حکم ارشاد فرمایا۔( تاریخ بغداد، باب محمد، ۳۰۷-محمد بن احمد بن نصر  ابو جعفر۔۔۔ الخ، ۱ / ۳۸۲)

 (5) …حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے فرمایا:  اللہ عَزَّوَجَلَّ نے جو تمہیں  نکاح کا حکم فرمایا، تم اس کی اِطاعت کرو اس نے جو غنی کرنے کا وعدہ کیا ہے پورا فرمائے گا۔  اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اگر وہ فقیر ہوں  گے تو  اللہ عَزَّوَجَلَّ اُنہیں  اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔‘‘( تفسیر ابن ابی حاتم، النور، تحت الآیۃ: ۳۲، ۸ / ۲۵۸۲)

 (6)…حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں : ’’مجھے ا س شخص پر تعجب ہوتا ہے جو نکاح کے بغیر غنی ہونے کی کوشش کر رہا ہے حالانکہ  اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: ’’ اگر وہ فقیر ہوں  گے تو  اللہ عَزَّوَجَلَّ انہیں  اپنے فضل سے غنی کردے گا۔‘‘(خازن، النور، تحت الآیۃ: ۳۲، ۳ / ۳۵۰)

            نکاح کی وجہ سے غنی ہونے کی ایک نفسیاتی وجہ بھی ہے اور وہ یہ کہ اکیلا آدمی عموماً بے فکر ہوتا ہے لیکن جب شادی ہوجاتی ہے تو احساسِ ذمہ داری پیدا ہوجاتی ہے تو آدمی تَن دہی سے کوشش کرتا ہے جس کے نتیجے میں  اس کیلئے رزق کے دروازے ُکھل جاتے ہیں  اور اس بات کا ہزاروں  لوگوں  میں  مشاہدہ بھی ہے کہ شادی سے پہلے بے فکر وبے روزگاراور دوستوں  کے ساتھ وقت ضائع کررہے ہوتے ہیں  لیکن شادی کے بعد کام بھی شروع کردیتے ہیں  اور فضولیات سے بھی بچنا شروع کردیتے ہیں ۔

 

وَ لْیَسْتَعْفِفِ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ نِكَاحًا حَتّٰى یُغْنِیَهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖؕ-وَ الَّذِیْنَ یَبْتَغُوْنَ الْكِتٰبَ مِمَّا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوْهُمْ اِنْ عَلِمْتُمْ فِیْهِمْ خَیْرًا ﳓ وَّ اٰتُوْهُمْ مِّنْ مَّالِ اللّٰهِ الَّذِیْۤ اٰتٰىكُمْؕ-وَ لَا تُكْرِهُوْا فَتَیٰتِكُمْ عَلَى الْبِغَآءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاؕ-وَ مَنْ یُّكْرِهْهُّنَّ فَاِنَّ اللّٰهَ مِنْۢ بَعْدِ اِكْرَاهِهِنَّ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(33)

ترجمہ: کنزالعرفان

اورجو لوگ نکاح کرنے کی طاقت نہیں پاتے انہیں چاہیے کہ پاکدامنی اختیار کریں یہاں تک کہ اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی کردے اور تمہارے غلام اور لونڈیوں میں سے جو مال کما کر دینے کی شرط پر آزادی کے طلبگار ہوں تو تم انہیں (یہ معاہدہ) لکھ دو اگر تم ان میں کچھ بھلائی جانو اور تم ان کی اللہ کے اس مال سے مدد کروجواس نے تمہیں دیا ہے اورتم دنیوی زندگی کا مال طلب کرنے کیلئے اپنی کنیزوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو (خصوصاً) اگر وہ خود (بھی) بچنا چاہتی ہوں اور جو انہیں مجبور کرے گا تو بیشک اللہ ان کے مجبور کئے جانے کے بعد بہت بخشنے والا، مہربان ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لْیَسْتَعْفِفْ: اور چاہیے کہ پاکدامنی اختیار کریں ۔} اس آیت میں  ان لوگوں  کا حکم بیان کیا جا رہا ہے جو نکاح کرنےکی اِستطاعت نہیں  رکھتے چنانچہ ارشاد فرمایا کہ جو لوگ مَہر اور نان نفقہ میسر نہ ہونے کی وجہ سے نکاح کرنے کی استطاعت نہیں  رکھتے تو انہیں  چاہیے کہ حرام کاری سے بچے رہیں  یہاں  تک کہ  اللہ تعالیٰ انہیں  اپنے فضل سے مالدار کردے اور وہ مہرو نان نفقہ ادا کرنے کے قابل ہوجائیں ۔( مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۳۳، ص۷۷۹)

نکاح کی استطاعت نہ رکھنے والوں  سے متعلق2شرعی مسائل:

            یہاں  نکاح کی استطاعت نہ رکھنے والوں  کے بارے میں  دو شرعی مسائل ملاحظہ ہوں ،

(1)…اگر یہ ا ندیشہ ہے کہ نکاح کرے گا تو نان نفقہ نہ دے سکے گا یا جو ضروری باتیں  ہیں  ان کو پورا نہ کرسکے گا تو نکاح کرنا مکروہ ہے اور اگر ان باتوں  کا یقین ہو تو نکاح کرنا حرام ہے مگر نکاح کر لیا تو نکاح بہرحال ہو جائے گا۔

(2)…جو لوگ کسی وجہ سے نکاح کی استطاعت نہیں  رکھتے توانہیں  چاہئے کہ کثرت سے روزے رکھیں  جیساکہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اے جوانو! تم میں جوکوئی نکاح کی استطاعت رکھتا ہے وہ نکاح کرے کہ یہ اجنبی عورت کی طرفنظر کرنے سے نگاہ کو روکنے والا ہے اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا ہے اور جس میں  نکاح کی استطاعت نہیں  وہ روزے رکھے کہ روزہ شہوت کو توڑنے والا ہے۔‘‘( مسلم، کتاب النکاح، باب استحباب النکاح لمن تاقت نفسہ الیہ۔۔۔ الخ، ص۷۲۵، الحدیث: ۳(۱۴۰۰))

{وَ الَّذِیْنَ یَبْتَغُوْنَ الْكِتٰبَ: اور جو مال کما کر دینے کی شرط پر آزادی کے طلبگار ہوں ۔} آیت کے اس حصے میں  غلاموں  اور لونڈیوں  کے بارے میں  چند احکام بیان ہوئے ہیں ۔ان کا خلاصہ یہ ہے۔

(1)…جو غلام اور لونڈی مخصوص مقدار میں  مال کما کر دینے کی شرط پر آزادی کے طلبگار ہوں  تو انہیں  ا س کا معاہدہ لکھ دینا مستحب ہے، اس طرح کی آزادی کو شریعت کی اِصطلاح میں  کِتابَت اور ایسا معاہدہ کرنے والے غلام کو مُکاتَب کہتے ہیں  جبکہ جو مال دینا طے پائے اسے بَدَلِ کِتابَت کہتے ہیں ۔

(2)…غلاموں  اور لونڈیوں  کے ساتھ ایسا معاہدہ کرنا اس وقت مستحب ہے جب وہ امانت و دیانت اور کمائی پر قدرت رکھتے ہوں  تاکہ وہ حلال روزی سے مال حاصل کرکے آزاد ہوسکیں  اور اپنے آقا کو مال دے کر آزادی حاصل کرنےکے لئے بھیک نہ مانگتے پھریں ، اسی لئے حضرتِ سلمان فارسی رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے اپنے اس غلام کو مُکاتَب کرنے سے انکار فرمادیا جو بھیک مانگنے کے علاوہ کمائی کاکوئی ذریعہ نہ رکھتا تھا۔

(3)… مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ مکاتب غلاموں  کو زکوٰۃ وغیرہ دے کر ان کی مدد کریں  تاکہ وہ بَدَلِ کِتابَت دے کر اپنی گردن چھڑا سکیں  اور آزاد ہوسکیں ۔

          شانِ نزول : حویطب بن عبدالعزیٰ کے غلام صبیح نے اپنے مولیٰ سے کتابت کی درخواست کی، مولیٰ نے انکار کیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی تو حویطب نے اس کو سو دینار پر مکاتب کردیا اور ان میں  سے بیس اس کو بخش دیئے باقی اس نے ادا کردیئے۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۳۳، ۳ / ۳۵۱، ملخصاً)

            نوٹ:غلاموں  اور لونڈیوں  کو آزاد کرنے کے بارے میں  تفصیلی مسائل کی معلومات کے لئے بہارِ شریعت جلد 2حصہ9سے ’’آزاد کرنے کا بیان‘‘ مطالعہ فرمائیں ۔نیز یاد رہے کہ فی زمانہ عالمی سطح پر انسانوں  کو غلام یا لونڈی بنانے کا قانون ختم ہو چکا ہے۔

{وَ لَا تُكْرِهُوْا فَتَیٰتِكُمْ عَلَى الْبِغَآءِ: اورتم اپنی کنیزوں  کو بدکاری پر مجبور نہ کرو۔} شانِ نزول : عبد اللہ بن اُبی بن سلول منافق مال حاصل کرنے کے لئے اپنی کنیزوں  کو بدکاری پر مجبور کرتا تھا، ان کنیزوں  نے تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اس کی شکایت کی، اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی اور  اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ تم مال کے لالچ میں  اندھے ہو کر کنیزوں  کو بدکاری پر مجبور نہ کرو خصوصاً اگر وہ خود بھی بچنا چاہتی ہوں  اور جو انہیں  مجبور کرے گا تو بیشک  اللہ تعالیٰ ان کے مجبور کئے جانے کے بعد بہت بخشنے والا، مہربان ہے اوراس کا وبال گناہ پرمجبور کرنے والے پر ہے۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۳۳، ۳ / ۳۵۲-۳۵۳، ملخصاً)

زِنا پر مجبور کئے جانے کی تفصیل :

            علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  :زنا پر مجبور کیا جانااس وقت ثابت ہو گا جب کوئی جان سے مار دینے یا جسم کا کوئی عضو ضائع کر دینے کی دھمکی دے اور اگر (ایسی دھمکی نہ ہو بلکہ) تھوڑی بہت دھمکی ہو توزنا پر مجبور کیا جانا ثابت نہ ہوگا۔( روح البیان، النور، تحت الآیۃ: ۳۳، ۶ / ۱۵۰) اس مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ کوئی عورت سچے دل کے ساتھ زنا سے بچنا چاہتی ہے اور کوئی شخص اسے زنا نہ کرنے کی صورت میں  جان سے مار دینے یا اس کا کوئی عضو ضائع کر دینے یا شدید مار مارنے کی دھمکی دے رہا ہے اور عورت سمجھتی ہے کہ اگر میں  نے ا س کی بات نہ مانی تو یہ جو کہہ رہاہے وہ کر گزرے گا، اس صورت میں  وہ زنا کئے جانے پر مجبور شمار ہو گی اور اگر اس کے ساتھ زنا ہوا تو وہ گناہگار نہیں  ہو گی اور اگر دھمکی کی نوعیت ایسی نہیں  بلکہ قید کر دینے یا معمولی مار مارنے وغیرہ کی دھمکی ہے تو ایسی صورت میں  عورت زنا پر مجبور شمار نہ ہوگی اور زِنا ہونے کی صورت میں  گناہگار بھی ہو گی۔

عورتوں  کو زنا پر مجبور کرنے والے غور کریں :

            یاد رہے کہ اس آیتِ مبارکہ میں  جو کنیزوں  کو بدکاری پر مجبور کرنے سے منع فرمایا گیا، اس حکم میں  کنیزوں  کے ساتھ ساتھ آزاد عورتیں  بھی داخل ہیں  اور انہیں  بھی زنا پر مجبور کرنا منع ہے،نیز زنا پر مجبور کرنا دنیا کا مال طلب کرنے کیلئے ہو یا کسی اور غرض سے بہر صورت حرام اور شیطانی کام ہے اور آیت کے آخر سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ زنا پر مجبور کرنے والے گناہگار ہیں ۔ اسے سامنے رکھتے ہوئے ان لوگوں  کو اپنے طرزِ عمل پر غور کرنے کی شدید ضرورت ہے جو محنت مزدوری کر کے خود کما کر لانے سے جی چرانے کی بنا پر گھر کے اخراجات چلانے کیلئے یا اپنی خواہشات اور نشے کی لت پوری کرنے کیلئے کمینے پن کی حد پار کر دیتے اور اپنی بیویوں ، بیٹیوں  اور بہوؤں  وغیرہ کو زنا کروانے پر مجبور کرتے ہیں  تاکہ اس ذریعے سے حاصل ہونے والامال گھر کے اخراجات چلانے،اپنی خواہشات اور نشہ پورا کرنے میں  کام آئے، اسی طرح وہ لوگ بھی اپنی حالت پر غور کریں  جو عورتوں  کو ورغلا کر پہلے ان کی گندی تصاویر اور وڈیوز بنا لیتے ہیں ،یا ان کی نجی زندگی کے کچھ ایسے پہلو نوٹ کر لیتے ہیں  جن کا ظاہر ہو جانا عورت اپنے حق میں  شدید نقصان دہ سمجھتی ہے، پھر یہ لوگ ان چیزوں  کو منظر عام پر لانے کی دھمکیاں  دے کر انہیں  زنا کروانے پر مجبور کرتے رہتے ہیں ، ایسے لوگ یاد رکھیں  کہ جس عورت کے حق میں  شریعت کے اصولوں  کے مطابق زنا پر مجبور کیا جانا ثابت ہوا اسے تو  اللہ تعالیٰ مہربانی فرماتے ہوئے بخش دے گا لیکن زنا پر مجبور کرنے والا بہر حال گناہگار ہو گا اور اگر اس نے توبہ نہ کی اور اس چیز سے باز نہ آیا تووہ  اللہ تعالیٰ کے غضب اور جہنم کے دردناک عذاب میں  مبتلا ہو سکتا ہے۔  اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں  کو عقلِ سلیم اور ہدایت عطا فرمائے، اٰمین۔

وَ لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ اٰیٰتٍ مُّبَیِّنٰتٍ وَّ مَثَلًا مِّنَ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِیْنَ(34)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بیشک ہم نے تمہاری طرف روشن آیتیں اور تم سے پہلے لوگوں کا حال اور ڈر والوں کے لیے نصیحت نازل فرمائی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَقَدْ اَنْزَلْنَا: اور بیشک ہم نے اُتاریں ۔} اس آیت میں   اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک کے تین اوصاف بیان فرمائے ہیں :

(1)…قرآنِ پاک کی آیتیں  روشن اور مُفَصَّل ہیں ۔

 (2)…اس میں  سابقہ لوگوں  کی مثالیں  ہیں ۔اس کا ایک معنی یہ ہے کہ جس طرح تورات اور انجیل میں  حدود قائم کرنے کے احکام دئیے گئے اسی طرح قرآنِ مجید میں بھی دئیے گئے ہیں ۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ سابقہ اُمتوں  میں   اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے کی وجہ سے جن پر عذاب نازل ہوا ان کا ذکر قرآنِ پاک میں  ہے اور اسے ہم نے تمہارے لئے مثال بنا دیا تاکہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ اگر تم نے  اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے میں  اُن کی رَوِش اختیار کی تو تم پر بھی ویسا ہی عذاب نازل ہو سکتا ہے۔

(3)…مُتَّقِین کے لئے نصیحت ہے۔ متقین کا بطورِ خاص ا س لئے ذکر فرمایا کہ قرآن کی نصیحت سے یہی فائدہ حاصل کرتے ہیں۔(تفسیرکبیر، النور، تحت الآیۃ: ۳۴، ۸ / ۳۷۸)

قرآنِ مجید سے نصیحت حاصل کرنے کی ترغیب:

            اس آیت سے معلوم ہو اکہ قرآنِ مجید نصیحت حاصل کرنے کا بہت بڑ اذریعہ ہے اور ا س کی برکت سے دلوں  کی سختی دُور ہو جاتی، دلوں  پر چڑھا ہواگناہوں  کا زَنگ ختم ہوجاتا اور خشک آنکھوں  سے  اللہ تعالیٰ کے خوف کے سبب آنسو رواں  ہو جاتے ہیں ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’یہ دل ایسے زنگ آلود ہوتے رہتے ہیں  جیسے لوہا پانی لگنے سے زنگ آلود ہوجاتا ہے۔ عرض کی گئی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ان دلوں  کی صفائی کیا ہے؟ارشاد فرمایا: موت کی زیادہ یاد اور قرآنِ کریم کی تلاوت۔( شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی ادمان تلاوتہ، ۲ / ۳۵۲، الحدیث: ۲۰۱۴)

            لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ موت کو یاد کرنے کے ساتھ ساتھ قرآنِ مجید کی تلاوت کرے اور سُنے، قرآنِ کریم کو سمجھنے کی کوشش کرے، اس کی نصیحتوں  کو قبول کرے اور ظاہری و باطنی اعمال اور دیگر چیزوں  سے متعلق اس کے دئیے ہوئے احکامات پر عمل کرے۔

اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِیْهَا مِصْبَاحٌؕ-اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَةٍؕ-اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّیٌّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبٰرَكَةٍ زَیْتُوْنَةٍ لَّا شَرْقِیَّةٍ وَّ لَا غَرْبِیَّةٍۙ-یَّكَادُ زَیْتُهَا یُضِیْٓءُ وَ لَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌؕ-نُوْرٌ عَلٰى نُوْرٍؕ یَهْدِی اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِؕ-وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ(35)

ترجمہ: کنزالعرفان

اللہ آسمانوں اور زمینوں کو روشن کرنے والا ہے۔ اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق ہو جس میں چراغ ہے، وہ چراغ ایک فانوس میں ہے، وہ فانوس گویا ایک موتی کی طرح چمکتا ہوا ستارہ ہے جو زیتون کے برکت والے درخت سے روشن ہوتا ہے جو نہ مشرق والا ہے اور نہ مغرب والاہے۔ قریب ہے کہ اس کا تیل بھڑک اٹھے اگرچہ اسے آگ نہ چھوئے۔ نور پر نور ہے، اللہ اپنے نور کی راہ دکھاتا ہے جسے چاہتا ہے اور اللہ لوگوں کیلئے مثالیں بیان فرماتا ہے اور اللہ ہر شے کو خوب جاننے والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ: اللہآسمانوں  اور زمینوں  کا نور ہے۔} نور  اللہ تعالیٰ کے ناموں  میں  سے ایک نام ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا فرماتے ہیں : ’’آیت کے اس حصے کے معنی یہ ہیں  کہ  اللہ تعالیٰ آسمانوں  اور زمینوں کا ہادی ہے تو زمین و آسمان والے اس کے نور سے حق کی راہ پاتے ہیں  اور اس کی ہدایت سے گمراہی کی حیرت سے نجات حاصل کرتے ہیں ۔‘‘ بعض مفسرین نے فرمایا: ’’اس کے معنی یہ ہیں  کہ  اللہ تعالیٰ آسمانوں  اور زمینوں کو منور فرمانے والا ہے اور اُس نے آسمانوں  کو فرشتوں سے اور زمین کو انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے منور کیا۔‘‘(خازن، النور، تحت الآیۃ: ۳۵، ۳ / ۳۵۳)

{مَثَلُ نُوْرِهٖ: اس کے نور کی مثال۔} بعض مفسرین کے نزدیک  اللہ تعالیٰ کے نور سے مؤمن کے دل کی وہ نورانیت مراد ہے جس سے وہ ہدایت پاتا اور راہ یاب ہوتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا نے فرمایا کہ یہ  اللہ تعالیٰ کے اس نور کی مثال ہے جو اس نے مؤمن کو عطا فرمایا۔ بعض مفسرین نے اس نور سے قرآن مراد لیا اور ایک تفسیر یہ ہے کہ اس نور سے مراد سیّد ِکائنات، افضلِ موجودات، رحمت ِعالَم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں ۔

نور کی مثال کے مختلف معانی:

اہلِ علم نے اس آیت میں بیان کی گئی مثال کے کئی معنی بیان فرمائے ہیں ،ان میں  سے دو معنی درج ذیل ہیں ،

(1)… نور سے مراد ہدایت ہے اور معنی یہ ہیں  کہ  اللہ تعالیٰ کی ہدایت انتہائی ظہور میں  ہے کہ عالَمِ محسوسات میں  اس کی تشبیہ ایسے روشن دان سے ہو سکتی ہے جس میں  صاف شفاف فانوس ہو، اس فانوس میں  ایسا چراغ ہو جو نہایت ہی بہتر اور پاک صاف زیتون سے روشن ہوتا کہ اس کی روشنی نہایت اعلیٰ اور صاف ہو۔

(2)… یہ سید المرسلین، محمد ِمصطفٰی صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نورکی مثال ہے۔ اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا نے حضرت کعب احبار رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے فرمایا کہ اس آیت کے معنی بیان کرو۔ انہوں  نے فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مثال بیان فرمائی۔ روشندان (یعنی طاق) تو حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا سینہ شریف ہے اور فانوس، قلبِ مبارک اور چراغ، نبوت ہے جوکہ شجر ِنبوت سے روشن ہے اور اس نورِ محمدی کی روشنی کمالِ ظہور میں اس مرتبہ پر ہے کہ اگر آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے نبی ہونے کا بیان بھی نہ فرمائیں  جب بھی خَلْق پر ظاہر ہوجائے۔

اور حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ روشندان تو دو عالَم کے سردار صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا سینہ مبارک ہے اور فانوس قلب ِاَطہر اور چراغ وہ نور جو  اللہ تعالیٰ نے اس میں  رکھا کہ شرقی ہے نہ غربی نہ یہودی، نہ نصرانی، ایک شجرئہ مبارکہ سے روشن ہے، وہ شجر ہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں ۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کے دل کے نور پر نورِ محمدی، نور پر نور ہے۔

         حضرت محمد بن کعب قرظی رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے فرمایا کہ روشن دان اور فانوس تو حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں  اور چراغ حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور شجرۂ مبارکہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کہ اکثر انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آپ کی نسل سے ہیں  اور شرقی وغربی نہ ہونے کے یہ معنی ہیں  کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نہ یہودی تھے نہ عیسائی، کیونکہ یہود ی مغرب کی طرف نماز پڑھتے ہیں  اور عیسائی مشرق کی طرف۔ قریب ہے کہ محمد ِمصطفٰی صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مَحاسِن و کمالات نزولِ وحی سے پہلے ہی مخلوق پر ظاہر ہو جائیں ۔ نور پر نور یہ کہ نبی کی نسل سے نبی ہیں  اور نور ِمحمدی نورِ ابراہیمی پر ہے۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۳۵، ۳ / ۳۵۴) اس مثال کی تشریح میں  ان کے علاوہ اور بھی بہت اَقوال ہیں ۔

         اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں  عَلَیْہِ  رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن نے اس آیت کا خلاصہ ایک شعر میں  سمو دیا، چنانچہ فرماتے ہیں ،

شمع دل مشکوٰۃ تن سینہ زجاجہ نور کا

تیری صورت کے لئے آیا ہے سورہ نور کا

{مِنْ شَجَرَةٍ مُّبٰرَكَةٍ زَیْتُوْنَةٍ: برکت والے درخت زیتون سے۔} زیتون کا درخت انتہائی برکت والاہے کیونکہ اس میں  بہت سارے فوائد ہیں ، جیسے اس کا روغن جس کو زَیت کہتے ہیں انتہائی صاف اور پاکیزہ روشنی دیتا ہے۔سر میں  بھی لگایا جاتا ہے اور سالن کی جگہ روٹی سے بھی کھایا جاتا ہے۔ دنیا کے اور کسی تیل میں  یہ وصف نہیں ۔ زیتون کے درخت کےپتے نہیں  گرتے۔ یہ درخت نہ سرد ملک میں  واقع ہے نہ گرم ملک میں بلکہ ان کے درمیان ملک شام ہے کہ نہ اُسے گرمی سے نقصان پہنچے نہ سردی سے اور وہ نہایت عمدہ و اعلیٰ ہے اور اس کے پھل انتہائی مُعْتَدِل ہیں ۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۳۵، ۳ / ۳۵۳-۳۵۴، ملخصاً)

         زیتون سے متعلق حضرت ابو اسید رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’زیتون کھاؤ اور اس کا تیل استعمال کرو یہ مبارک درخت ہے۔‘‘(ترمذی، کتاب الاطعمۃ، باب ما جاء فی اکل الزیت، ۳ / ۳۳۷، الحدیث: ۱۸۵۹)

فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰهُ اَنْ تُرْفَعَ وَ یُذْكَرَ فِیْهَا اسْمُهٗۙ-یُسَبِّحُ لَهٗ فِیْهَا بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ(36)

ترجمہ: کنزالعرفان

ان گھروں میں ہے جن کی تعظیم کرنے اوران میں اللہ کا نام ذکر کئے جانے کا اللہ نے حکم دیا ہے، ان میں صبح و شام اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فِیْ بُیُوْتٍ: گھروں  میں ۔} اس آیت کا تعلق اس سے پہلے والی آیت کے ساتھ ہے اور معنی یہ ہے کہ نورِ الٰہی کی مثال اس طاق کی طرح ہے جوان گھروں  میں  ہے جنہیں  بنانے، اُن کی تعظیم و تطہیر کرنے اوران میں   اللہ تعالیٰ کا نام ذکر کئے جانے کا  اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اُن گھروں  سے مسجدیں  مرادہیں ۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۳۶، ۳ / ۳۵۵)

مسجدسے متعلق4احادیث:

            آیت کی مناسبت سے یہاں  مسجد بنانے کے حکم، مسجد بنانے کے فضائل اور انہیں  پاک صاف رکھنے سے متعلق 4احادیث ملاحظہ ہوں ،

(1)… حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا نے فرمایا: مسجدیں  زمین میں   اللہ تعالیٰ کے گھر ہیں ، یہ آسمان والوں  کے لئے ایسے روشن ہوتی ہیں  جیسے زمین والوں  کے لئے آسمان کے ستارے روشن ہوتے ہیں ۔( معجم الکبیر، ومن مناقب عبد  اللہ بن عباس واخبارہ، ۱۰ / ۲۶۲، الحدیث: ۱۰۶۰۸)

(2)…حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مَحلُّوں  میں  مسجدیں  تعمیر کرنے اور انہیں  پاک صاف رکھنے کا حکم دیا ہے۔( ابو داؤد، کتاب الصلاۃ، باب اتخاذ المساجد فی الدور، ۱ / ۱۹۷، الحدیث: ۴۵۵)

(3)…حضرت عمر فاروق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو  اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لئے مسجد بنائے  اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں  گھر بناتا ہے۔‘‘( ابن ماجہ، کتاب المساجد والجماعات، باب من بنی للّٰہ مسجداً، ۱ / ۴۰۷، الحدیث: ۷۳۵)

(4)… حضرت واثلہ بن اسقع رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اپنی مسجدوں کو بچوں ،پاگلوں ، (مسجد میں ) خرید و فروخت کرنے،شور کرنے، حد جاری کرنے اور تلواریں  ننگی کرنے سے محفوظ رکھو۔‘‘( ابن ماجہ، کتاب المساجد والجماعات، باب ما یکرہ فی المساجد، ۱ / ۴۱۵، الحدیث: ۷۵۰)

{یُسَبِّحُ لَهٗ:  اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں ۔} تسبیح سے مراد نمازیں  ہیں ،صبح کی تسبیح سے فجر اور شام سے ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نمازیں  مراد ہیں ۔( مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۳۶، ص۷۸۲)

صبح یا شام مسجد میں جانے کی فضیلت:

             حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو صبح یا شام مسجد میں  گیا  اللہ تعالیٰ جنت میں  ا س کے لئے مہمانی کا اہتمام کرے گا جب بھی وہ صبح یا شام کو جائے۔‘‘( بخاری، کتاب الاذان، باب فضل من غدا الی المسجد وراح، ۱ / ۲۳۷، الحدیث: ۶۶۲)

رِجَالٌۙ-لَّا تُلْهِیْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَیْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوةِ وَ اِیْتَآءِ الزَّكٰوةِ ﭪ–یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْهِ الْقُلُوْبُ وَ الْاَبْصَارُ(37)لِیَجْزِیَهُمُ اللّٰهُ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَ یَزِیْدَهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖؕ-وَ اللّٰهُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ(38)

ترجمہ: کنزالعرفان

وہ مرد جن کو تجارت اور خریدوفروخت اللہ کے ذکر اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے سے غافل نہیں کرتی، وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس میں دل اور آنکھیں اُلَٹ جائیں گے۔تاکہ اللہ انہیں ان کے بہتر کاموں کا بدلہ دے اور اپنے فضل سے انہیں مزید عطا فرمائے اور اللہ جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے رزق عطا فرماتا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{رِجَالٌ:  مرد۔} اس آیت میں  نور سے ہدایت حاصل کرنے والوں  کے چند ظاہری و باطنی اعمال ذکر فرمائے گئے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ نور سے ہدایت حاصل کرنے والے وہ مرد ہیں  جنہیں  تجارت اور خریدوفروخت  اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کے قلبی و لسانی ذکر اور نماز کے اوقات پر مسجدوں  کی حاضر ی سے، نماز قائم کرنے اور انہیں  وقت پر ادا کرنے سے اور زکوٰۃ کووقت پر دینے سے غافل نہیں  کرتی۔( مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۷۸۳، خازن، النور، تحت الآیۃ: ۳۷، ۳ / ۳۵۵، ملتقطاً)

نماز سے متعلق صحابہ ٔکرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ کا حال:

            حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا بازار میں  تھے، مسجد میں  نماز کے لئے اقامت کہی گئی تو آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے دیکھا کہ بازار والے اُٹھے اور دوکانیں  بند کرکے مسجد میں  داخل ہوگئے۔ یہ دیکھ کرآپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے فرمایا کہ آیت ’’رِجَالٌۙ-لَّا تُلْهِیْهِمْ‘‘ ایسے ہی لوگوں  کے حق میں  ہے۔( تفسیر ابن ابی حاتم، النور، تحت الآیۃ: ۳۷، ۸ / ۲۶۰۷) سُبْحَانَ اللّٰہ! ان مقدس ہستیوں  کےنزدیک نما زکی اہمیت عملی طور پر تجارت، کاروبار اور دوکانداری سے بڑھ کر تھی اسی لئے یہ اقامت کی آواز سنتے ہی سب کچھ بند کر کے نماز کے لئے حاضر ہوجاتے تھے اور اب کے مسلمانوں  کا حال سب کو معلوم ہے کہ دوکان کے پاس مسجد ہونے کے باوجود جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کے لئے حاضر ہونے کی بجائے اپنی دوکانداری میں  مصروف رہتے ہیں  اور اس اندیشے سے بھی نماز کے لئے حاضر نہیں  ہوتے کہ پیچھے سے کوئی گاہک آ جائے اور وہ خالی چلا جائے۔  اللہ تعالیٰ انہیں  نماز کی اہمیت سمجھنے اور اسے وقت پر، جماعت کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔

وقت پر اور جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کے 3فضائل:

             آیت کی مناسبت سے یہاں  وقت پر اور جماعت کے ساتھ نما زادا کرنے کے 3 فضائل ملاحظہ ہوں ،

(1)…حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں ، میں  نے رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سوال کیا:اعمال میں   اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کیا ہے؟ ارشادفرمایا: ’’وقت کے اندر نماز۔‘‘( بخاری، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب فضل الصلاۃ لوقتہا، ۱ / ۱۹۶، الحدیث: ۵۲۷)

(2)…حضرت عثمان غنی رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے کامل وضو کیا، پھر نمازِ فرض کے لیے چلا اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھی تواس کے گناہ بخش دئیے جائیں  گے۔‘‘(صحیح ابن خزیمہ،کتاب الامامۃ فی الصلاۃ،باب فضل المشی الی الجماعۃ متوضیاً۔۔۔الخ،۲ / ۳۷۳، الحدیث: ۱۴۸۹)

(3)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’منافقین پر سب سے زیادہ گراں  نماز عشا اورفجر ہے اور وہ جانتے کہ ان میں  کیا ہے؟ تو گھسٹتے ہوئے آتے۔ بیشک میں  نے ارادہ کیا کہ نماز قائم کرنے کا حکم دوں  پھر کسی کو حکم فرماؤں  کہ لوگوں  کو نماز پڑھائے اور میں  اپنے ہمراہ کچھ لوگوں  کو جن کے پاس لکڑیوں  کے گٹھے ہوں  ان کے پاس لے کر جاؤں ، جو نماز میں  حاضر نہیں  ہوتے اور ان کے گھر اُن پر آگ سے جلا دوں ۔‘‘( صحیح مسلم،کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ،باب فضل صلاۃ الجماعۃ۔۔۔الخ،ص۳۲۷، الحدیث: ۲۵۲(۶۵۱))

زکوٰۃ ادا کرنے کے فضائل:

            قرآن وحدیث میں  زکوۃ ادا کرنے کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں ، یہاں  ایک آیت اور ایک حدیث پاک ملاحظہ ہو،چنانچہ  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ لَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْۚ-وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ‘‘(بقرہ:۲۷۷)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے اورانہوں  نے اچھے کام کئے اور نماز قائم کی اور زکوٰۃ دی ان کااجران کے رب کے پاس ہے اور ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں  گے۔

اورحضرت جابر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے اپنے مال کی زکوۃ ادا کر دی توبیشک ا س کے مال کا شر اُس سے چلا گیا۔‘‘( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۴۳۱، الحدیث: ۱۵۷۹)

عورت کے لئے گھر میں  نماز پڑھنا زیادہ فضیلت کاباعث ہے:

            یاد رہے کہ اس آیت میں  بطورِ خاص مردوں  کا ذکر اس لئے ہوا کہ عورتوں  پر جمعہ یا جماعت کے ساتھ دیگر نمازوں  کی ادائیگی کے لئے مسجد میں  حاضر ہونا لازم نہیں ۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۳۷، ۳ / ۳۵۵)     عورت کے لئے گھر میں  نماز پڑھنا زیادہ فضیلت کا حامل ہے، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’عورت کا دالان یعنی بڑے کمرے میں  نماز پڑھنا، صحن میں  نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور کوٹھری میں  نماز ادا کرنا دالان میں  نماز ادا کرنے سے بہتر ہے۔‘‘( ابو داؤد، کتاب الصلاۃ، باب التشدید فی ذلک، ۱ / ۲۳۵، الحدیث: ۵۷۰)

{یَخَافُوْنَ: ڈرتے ہیں ۔} آیت کی ابتداء میں  جن مردوں  کے اعمال ذکر فرمائے ان کے بارے میں  ارشاد فرمایا کہ وہ اس دن سے ڈرتے ہیں  جس میں  دل اور آنکھیں  اُلٹ جائیں  گی۔ یعنی وہ فرمانبردار بندے جو ذکر و طاعت میں  نہایت مُسْتَعِد رہتے ہیں  اور عبادت کی ادائیگی میں  سرگرم رہتے ہیں ، اس حُسنِ عمل کے باوجود وہ اس دن سے خائِف رہتے ہیں  اور سمجھتے ہیں  کہ ان سے  اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا نہ ہوسکا۔ آیت میں  قیامت کے دن کا ایک حال بتایا گیا کہ ا س دن دل اور آنکھیں  اُلٹ جائیں  گے۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ دلوں  کا اُلٹ جانا یہ ہے کہ شدتِ خوف اور اِضطراب سے دل اُلٹ کر گلے تک چڑھ جائیں  گے، نہ باہر نکلیں  نہ نیچے اُتریں  اور آنکھیں  اُوپر چڑھ جائیں  گی یا ا س کے یہ معنی ہیں کہ کفار کے دل کفر وشک سے ایمان و یقین کی طرف پلٹ جائیں  گے اور آنکھوں  سے پردے اُٹھ جائیں  گے۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۳۷، ۳ / ۳۵۵-۳۵۶)

{ لِیَجْزِیَهُمُ اللّٰهُ: تاکہ  اللہ انہیں  بدلہ دے۔} یعنی  اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے ان نیک کاموں  میں  اس لئے مشغول ہوتے ہیں  تاکہ  اللہ تعالیٰ انہیں  ان کے بہتر اَعمال کا ثواب عطا کرے اور صرف یہی نہ ہو بلکہ  اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں  مزید بھی عطا کرے اور  اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے بے حساب رِزْق عطا فرماتا ہے۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۳۸، ۳ / ۳۵۶)

وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍۭ بِقِیْعَةٍ یَّحْسَبُهُ الظَّمْاٰنُ مَآءًؕ-حَتّٰۤى اِذَا جَآءَهٗ لَمْ یَجِدْهُ شَیْــٴًـا وَّ وَجَدَ اللّٰهَ عِنْدَهٗ فَوَفّٰىهُ حِسَابَهٗؕ-وَ اللّٰهُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ(39)

ترجمہ: کنزالعرفان

اورکافروں کے اعمال ایسے ہیں جیسے کسی بیابان میں دھوپ میں پانی کی طرح چمکنے والی ریت ہو، پیاسا آدمی اسے پانی سمجھتا ہے یہاں تک جب وہ اس کے پاس آتا ہے تو اسے کچھ بھی نہیں پاتا اوروہ اللہ کو اپنے قریب پائے گا تو اللہ اسے اس کا پورا حساب دے گا اور اللہ جلد حساب کرلینے والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا: اور جو کافر ہوئے۔} اس سے پہلی آیات میں   اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں  کے حالات بیان فرمائے اور ا س آیت سے کافروں  کے بارے میں  بیان فرمایا کہ وہ آخرت میں  شدید خسارے کا شکار ہوں  گے اور دنیا میں  بھی انہیں  طرح طرح کی ظلمتوں  کا سامنا ہو گا۔اسی سلسلے میں یہاں  دو مثالیں  بیان کی گئیں ، اس آیت میں  ذکر کی گئی مثال کا خلاصہ یہ ہے کہ کفار کے ظاہری اچھے اَعمال کی مثال ایسی ہے جیسے کسی بیابان میں  دھوپ میں  پانی کی طرح چمکنے والی ریت ہو، پیاسا آدمی اسے پانی سمجھ کر اس کی تلاش میں  چلا اورجب وہاں  پہنچا تو پانی کا نام و نشان نہ تھا تو وہ سخت مایوس ہو گیا ایسے ہی کافر اپنے خیال میں  نیکیاں  کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ  اللہ تعالیٰ سے اس کا ثواب پائے گا، لیکن جب میدانِ قیامت میں  پہنچے گا تو ثواب نہ پائے گا بلکہ عذابِ عظیم میں  گرفتار ہوگا اور اس وقت اس کی حسرت اور اس کا غم اس پیاس سے بدرجہا زیادہ ہوگا۔( تفسیرکبیر، النور، تحت الآیۃ: ۳۹، ۸ / ۳۹۹، خازن، النور، تحت الآیۃ: ۳۹، ۳ / ۳۵۶، ملتقطاً)

کفار کے لئے بیان کی گئی مثال میں  مسلمانوں  کے لئے نصیحت:

            اس آیت میں  ان مسلمانوں  کے لئے بھی بڑی عبرت و نصیحت ہے جو  اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں  کو ا س کے حکم کی نافرمانی اور مخالفت کرنے میں  صرف کرتے ہیں ، پھر عادت و رسم، رِیاکاری و دِکھلاوے کے طور پر، اور غفلت کے ساتھ نیک اَعمال کرتے ہیں  اور جہالت کی وجہ سے یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں  کہ وہ نیک کام کر رہے ہیں  حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ شیطان نے ان کے لئے ان کے اعمال کو مُزَیَّن کر دیا اور ان کے اعمال کی مثال صحراء میں  چمکنے والی ریت کی طرح ہے، اسی طرح وہ اپنے اعمال کے بارے میں  یہ گمان کر رہے ہوتے ہیں  کہ ان نیک اعمال کی وجہ سے  اللہ تعالیٰ ان پر کوئی غضب و جلال نہ فرمائے گا اور ان کے لئے جہنم کی آگ کو ٹھنڈا کر دیاجائے گا، لیکن جب انہیں  موت آئے گی تو معاملہ ان کے گمان سے انتہائی برعکس ہوگا،قیامت کے دن میزانِ عمل میں  ان کے اعمال کاکوئی وزن نہ ہوگا،  اللہ تعالیٰ ان کے بُرے اعمال کی وجہ سے ان پر غضب فرمائے گا اور جس سزا کے یہ حق دار ہیں  وہ سزا انہیں  دے گا۔ لہٰذا ہر عقلمند انسان کو چاہئے کہ اس مثال کو سمجھے اور اس سے نصیحت حاصل کرتے ہوئے اپنے اعمال کی اصلاح کی طرف بھرپور توجہ دے۔

اَوْ كَظُلُمٰتٍ فِیْ بَحْرٍ لُّجِّیٍّ یَّغْشٰىهُ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ سَحَابٌؕ-ظُلُمٰتٌۢ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍؕ-اِذَاۤ اَخْرَ جَ یَدَهٗ لَمْ یَكَدْ یَرٰىهَاؕ-وَ مَنْ لَّمْ یَجْعَلِ اللّٰهُ لَهٗ نُوْرًا فَمَا لَهٗ مِنْ نُّوْرٍ(40)

ترجمہ: کنزالعرفان

یا جیسے کسی گہرے سمندر میں تاریکیاں ہوں جس کو اوپر سے ایک موج نے ڈھانپ لیا ہو، اس موج پر ایک اورموج ہو، (پھر) اس (دوسری) موج پر بادل ہوں ۔ اندھیرے ہی اندھیرے ہیں ایک کے اوپر دوسرا اندھیرا ہے کہ جب کوئی اپنا ہاتھ نکالے تو اسے اپنا ہاتھ بھی دکھائی دیتا معلوم نہ ہواور جس کیلئے اللہ نور نہ بنائے اس کے لیے کوئی نور نہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَوْ كَظُلُمٰتٍ: یا جیسے تاریکیاں  ہوں ۔} اس آیت میں  کفار کے بُرے اعمال کی مثال بیان گئی،اس کا خلاصہ یہ ہے کہ کافروں  کے بُرے اعمال ایسے ہوں  گے جیسے کسی گہرے سمندر میں  تاریکیاں  ہوں  جس کو اوپر سے ایک موج نے ڈھانپ لیا ہو، اس موج پر ایک دوسری موج ہو، پھراس دوسری موج پر بادل ہوں ، اندھیرے ہی اندھیرے ہیں  کہ ایک اندھیرا دریا کی گہرائی کا، اس پر ایک اور اندھیرا تہ بہ تہ موجوں  کا، اس پر اور اندھیرا بادلوں  کی گھری ہوئی گھٹا کا، ان اندھیریوں  میں  شدت کا یہ عالم کہ جو اس میں  ہو، وہ اپنا ہاتھ نکالے تو اسے اپنا ہاتھ بھی دکھائی دیتا معلوم نہ ہو حالانکہ اپنا ہاتھ انتہائی قریب اور اپنے جسم کا جزو ہے جب وہ بھی نظر نہ آئے تو اور دوسری چیز کیا نظر آئے گی۔ ایسا ہی کفار کاحال ہے کہ وہ تین اندھیروں  یعنی باطل اِعتقاد، ناحق قول اور قبیح عمل کی تاریکیوں  میں  گرفتار ہے۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ دریا کے کنڈے اور اس کی گہرائی سے کافر کے دل کو اور موجوں  سے جہل، شک اور حیرت کو جو کافر کے دل پر چھائے ہوئے ہیں  اور بادلوں  سے مُہر کو جواُن کے دِلوں  پر ہے تشبیہ دی گئی۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۴۰، ۳ / ۳۵۶-۳۵۷)

{وَ مَنْ لَّمْ یَجْعَلِ اللّٰهُ لَهٗ نُوْرًا فَمَا لَهٗ مِنْ نُّوْرٍ: اور جس کیلئے  اللہ نور نہ بنائے اس کے لیے کوئی نور نہیں ۔} یعنی جسے  اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید کے نور سے ہدایت دینا اور قرآنِ کریم پر ایمان لانے کی توفیق دینا نہ چاہے تو اسے اصلاً کوئی ہدایت نہیں  دے سکتا۔( روح البیان، النور، تحت الآیۃ: ۴۰، ۶ / ۱۶۳)

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ یُسَبِّحُ لَهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الطَّیْرُ صٰٓفّٰتٍؕ-كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهٗ وَ تَسْبِیْحَهٗؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَفْعَلُوْنَ(41)

ترجمہ: کنزالعرفان

کیا تم نے نہ دیکھا کہ جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہیں وہ سب اور پرندے (اپنے) پَر پھیلائے ہوئے اللہ کی تسبیح کرتے ہیں سب کواپنی نماز اور اپنی تسبیح معلوم ہے اور اللہ ان کے کاموں کوخوب جاننے والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَمْ تَرَ: کیا تم نے نہ دیکھا۔} اس رکوع میں   اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت اور قدرت پر دلائل بیان فرمائے اور ان کے بعد منافقین کا حال بیان فرمایا ہے۔اس آیت میں  حضور سیِّدُ الْمرسلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ خبر دینے کے لئے خطاب فرمایا گیا کہ  اللہ تعالیٰ نے انہیں  نور کے اعلیٰ مراتب پر فائض فرمایا ہے اور ان کے سامنے ملکوت و ملک کے انتہائی باریک اور مخفی ترین اسرار بیان فرمائے ہیں ،چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کو مضبوط اور قوی مشاہدے، صریح وحی اورصحیح اِستدلال کے ذریعے اس چیز کا یقینی علم حاصل ہے کہ آسمانوں  اور زمین میں موجود تمام مخلوق اور ان کے درمیان پرندے اپنے پَر پھیلائے ہوئے  اللہ تعالیٰ کی ذات، صفات اور اَفعال میں  ہر اس نَقْص و عیب سے پاکی بیان کر رہے ہیں  جو  اللہ تعالیٰ کی شانِ جلیل کے لائق نہیں ۔ ان میں  سے ہر ایک اپنی نماز اور اپنی تسبیح جانتا ہے اور  اللہ تعالیٰ نے نماز و تسبیح کا جسے جو طریقہ سکھایا اسی کے مطابق وہ عمل کرتاہے۔ (اگرچہ ہمیں  وہ طریقہ دکھائی نہ دے یا سمجھ نہ آئے۔)( ابو سعود، النور، تحت الآیۃ: ۴۱، ۴ / ۹۸، تفسیر سمرقندی، النور، تحت الآیۃ: ۴۱، ۲ / ۴۴۳، ملتقطاً)

وَ لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۚ-وَ اِلَى اللّٰهِ الْمَصِیْرُ(42)

ترجمہ: کنزالعرفان

اورآسمانوں اور زمین کی بادشاہت اللہ ہی کے لیے ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ: اور آسمانوں  اور زمین کی بادشاہت  اللہ ہی کے لیے ہے۔} ارشاد فرمایا کہ آسمانوں  اور زمین کی بادشاہت کسی اور کے لئے نہیں  بلکہ صرف  اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے کیونکہ وہی ان کا خالق ہے اور وہی ان میں  ہر طرح کا تَصَرُّف فرمانے کی قدرت رکھتا ہے اور مخلوق کوفنا ہونے کے بعد جب دوبارہ زندہ کیا جائے گا تو سب نے صرف  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  ہی لوٹنا ہے لہٰذا ہر عقلمند انسان کو چاہئے کہ صرف ایسے قوت والے مالک کی ہی عبادت کرے اور زبان و دل سے اسی کی پاکی بیان کرے۔(روح البیان، النور، تحت الآیۃ: ۴۲، ۶ / ۱۶۴)

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ یُزْجِیْ سَحَابًا ثُمَّ یُؤَلِّفُ بَیْنَهٗ ثُمَّ یَجْعَلُهٗ رُكَامًا فَتَرَى الْوَدْقَ یَخْرُ جُ مِنْ خِلٰلِهٖۚ-وَ یُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ جِبَالٍ فِیْهَا مِنْۢ بَرَدٍ فَیُصِیْبُ بِهٖ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَصْرِفُهٗ عَنْ مَّنْ یَّشَآءُؕ-یَكَادُ سَنَا بَرْقِهٖ یَذْهَبُ بِالْاَبْصَارِﭤ(43)

ترجمہ: کنزالعرفان

کیا تم نے نہ دیکھا کہ اللہ نرمی کے ساتھ بادل کو چلاتا ہے پھر انہیں آپس میں ملا دیتا ہے پھر انہیں تہہ در تہہ کردیتا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ اس کے درمیان میں سے بارش نکلتی ہے اور وہ آسمان میں موجود برف کے پہاڑوں سے اولے اُتارتا ہے پھر جس پر چاہتا ہے اس پرانہیں ڈال دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے اس سے انہیں پھیر دیتا ہے قریب ہے کہ اس کی بجلی کی چمک آنکھیں لے جائے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَمْ تَرَ: کیا تم نے نہ دیکھا۔} اس آیت میں  حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ساتھ ہر عقلمند سے بھی خطاب ہے کیونکہ جو ان چیزوں  میں  غورو فکر کرے گا تو وہ جان لے گا اور جاننے والے کا علم و یقین مزید بڑھ جائے گا کہ  اللہ تعالیٰ قدرت والا،حکمت والا ہے۔ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے’’کیا تم نے نہ دیکھا کہ  اللہ تعالیٰ جس سر زمین اور جن شہروں کی طرف چاہے نرمی کے ساتھ بادل کو چلاتا ہے، پھر انہیں  آپس میں  ملا دیتا ہے اور ان کے جدا جدا ٹکڑوں  کو یک جا کردیتا ہے، پھر انہیں  تہ در تہ کردیتا ہے، تو تم دیکھتے ہو کہ اس کے درمیان میں  سے بارش نکلتی ہے اور  اللہ تعالیٰ آسمان میں  موجود برف کے پہاڑوں  سے اولے اُتارتا ہے، پھر جس پر چاہتا ہے اس پر ڈال دیتا ہے اور جس کے جان و مال کو چاہتا ہے ان سے ہلاک و تباہ کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے اس سے اولوں  کوپھیر دیتا ہے اور اُس کے جان و مال کو محفوظ رکھتا ہے، قریب ہے کہ اس بادل کی بجلی کی چمک آنکھوں  کے نور کو لے جائے اور روشنی کی تیزی سے آنکھوں  کو بے کار کردے۔آگ ٹھنڈک اور پانی کی ضد ہے اور آگ کا ٹھنڈک سے ظاہر ہونا ایک شے کا اپنی ضد سے ظاہر ہونا ہے اور یہ کسی قادر و حکیم کی قدرت کے بغیر ممکن نہیں ۔( صاوی، النور، تحت الآیۃ: ۴۳، ۴ / ۱۴۱۰-۱۴۱۱، مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۴۳، ص۷۸۴-۷۸۵، خازن، النور، تحت الآیۃ: ۴۳، ۳ / ۳۵۷، تفسیرکبیر، النور، تحت الآیۃ: ۴۳، ۸ / ۴۰۴-۴۰۵، ملتقطاً)

{وَ یُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ جِبَالٍ فِیْهَا مِنْۢ بَرَدٍ: اور وہ آسمان میں  موجود برف کے پہاڑوں  سے اولے اُتارتا ہے۔} امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  ’’اس آیت کے بارے میں  مفسرین کے دو قول ہیں ، (1)آسمان میں  اولوں  کے پہاڑ ہیں  جنہیں   اللہ تعالیٰ نے اسی طرح پیدا فرمایا ہے، پھر وہ ان پہاڑوں  میں  سے جتنے اولے چاہتا ہےنازل فرماتا ہے۔ یہ اکثر مفسرین کا قول ہے۔ (2)آسمان سے مراد حقیقی آسمان نہیں  بلکہ وہ باد ل ہے جو لوگوں  کے سروں  پر بلند ہے، اسے بلندی کی وجہ سے آسمان فرمایا گیا کیونکہ ’’سمائ‘‘اس چیز کو کہتے ہیں  جو تجھ سے بلند ہے اور تیرے اوپر ہے۔  اللہ تعالیٰ اس بادل سے اولے نازل فرماتا ہے، جبکہ پہاڑوں  سے بڑے بڑے بادل مراد ہیں  کیونکہ وہ بڑا ہونے کی وجہ سے پہاڑوں  کے مشابہ ہیں ، جیسے مال کی وسعت کی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ فلاں  آدمی مال کے پہاڑوں  کا مالک ہے (اسی طرح یہاں  بادلوں  کو بڑا ہونے کی وجہ سے پہاڑوں  کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے) اور یہ مفسرین کہتے ہیں  کہ اولے جما ہوا پانی ہیں  جسے  اللہ تعالیٰ نے بادلوں  میں  پیدا فرمایا ہے، پھر وہ انہیں  زمین کی طرف نازل فرماتا ہے۔ مفسرین فرماتے ہیں  کہ پہلا قول زیادہ مناسب ہے کیونکہ آسمان ایک مخصوص جسم کا نام ہے اور اسے بادل کا نام قرار دینا مجازی طورپر ہے اور جس طرح یہ درست ہے کہ  اللہ تعالیٰ بادلوں  میں  پانی رکھے،پھر اسے اولوں  کی صورت میں  نازل فرمائے تو بلا شبہ یہ بھی صحیح ہے کہ آسمان میں  اولوں  کے پہاڑ ہوں  اور جب دونوں  کاموں  کا  اللہ تعالیٰ کی قدرت میں  ہونا صحیح ہے تو اس آیت کے ظاہری معنی کو ترک کرنے کی کوئی وجہ نہیں ۔( تفسیرکبیر، النور، تحت الآیۃ: ۴۳، ۸ / ۴۰۵)

            یاد رہے کہ امام عبد اللہ بن عمر بیضاوی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  نے’’ تفسیر بیضاوی‘‘ میں ، علامہ شہاب الدین احمد بن عمر خفاجی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  نے بیضاوی کی شرح ’’عنایۃ القاضی‘‘ میں  اور محمد بن مصلح الدین رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  نے تفسیر بیضاوی پر اپنے حاشیے’’محی الدین شیخ زادہ‘‘ میں ، امام ابو سعود محمد بن محمد رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  نے’’تفسیر ابو سعود ‘‘میں  اور علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  نے’’ تفسیر روح البیان ‘‘میں  دوسرے قول کو اختیار فرمایا ہے کہ یہاں  آسمان سے مراد بادل ہیں ۔

وَ اللّٰهُ خَلَقَ كُلَّ دَآبَّةٍ مِّنْ مَّآءٍۚ-فَمِنْهُمْ مَّنْ یَّمْشِیْ عَلٰى بَطْنِهٖۚ-وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّمْشِیْ عَلٰى رِجْلَیْنِۚ-وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّمْشِیْ عَلٰۤى اَرْبَعٍؕ-یَخْلُقُ اللّٰهُ مَا یَشَآءُؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(45)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اللہ نے زمین پر چلنے والا ہر جاندار پانی سے بنایا تو ان میں کوئی اپنے پیٹ کے بل چلتا ہے اور ان میں کوئی دو پاؤں پر چلتا ہے اور ان میں کوئی چار پاؤں پر چلتا ہے۔ اللہ جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے۔ بیشک اللہ ہر شے پر قادر ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اللّٰهُ خَلَقَ كُلَّ دَآبَّةٍ مِّنْ مَّآءٍ: اور  اللہ نے زمین پر چلنے والا ہر جاندار پانی سے بنایا۔} اس سے پہلی آیات میں  آسمانوں  اور زمین کے احوال سے اور آسمانی آثارسے  اللہ تعالیٰ کی قدرت و وحدانیت پر دلائل ذکر کئے گئے اور اس آیت سے جانداروں  کے احوال سے  اللہ تعالیٰ کی قدرت و وحدانیت پر اِستدلال کیا جارہا ہے۔اس کا خلاصہ یہ ہے کہ  اللہ تعالیٰ نے جانداروں  کی تمام اَجناس کو پانی کی جنس سے پیدا کیا اور پانی ان سب کی اصل ہے اور اپنی اصل میں  متحد ہونے کے باوجود ان سب کا حال ایک دوسرے سے کس قدر مختلف ہے،یہ کائنات کو تخلیق فرمانے والے کے علم و حکمت اور اس کی قدرت کے کمال کی روشن دلیل ہے کہ اس نے پانی جیسی چیز سے ایسی عجیب مخلوق پیدا فرمادی۔مزید فرمایا کہ ان جانداروں  میں  کوئی اپنے پیٹ کے بل چلتا ہے جیسا کہ سانپ، مچھلی اور بہت سے کیڑے اور ان میں  کوئی دو پاؤں  پر چلتا ہے جیسا کہ آدمی اور پرندے اور ان میں  کوئی چار پاؤں  پر چلتا ہے جیسا کہ چوپائے اور درندے۔  اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے اور جیسے چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے۔ بیشک  اللہ عَزَّوَجَلَّ ہر شے پر قادر ہے تو کچھ بھی اس کے لئے مشکل نہیں ۔( تفسیرکبیر،النور، تحت الآیۃ: ۴۵،۸ / ۴۰۶-۴۰۷، مدارک، النور،تحت الآیۃ:۴۵، ص۷۸۵، خازن، النور، تحت الآیۃ: ۴، ۳ / ۳۵۸، ملتقطاً)

لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اٰیٰتٍ مُّبَیِّنٰتٍؕ-وَ اللّٰهُ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(46)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک ہم نے صاف بیان کرنے والی آیتیں نازل فرمائیں اور اللہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ کی طرف ہدایت دیتا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اٰیٰتٍ مُّبَیِّنٰتٍ: بیشک ہم نے صاف بیان کرنے والی آیتیں  نازل فرمائیں ۔} ارشاد فرمایا کہ بیشک ہم نے صاف بیان کرنے والی آیتیں  یعنی قرآنِ کریم نازل فرمایاجس میں  ہدایت و احکام اور حلال و حرام کا واضح بیان ہے اور  اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ کی طرف ہدایت دیتا ہے اور سیدھی راہ جس پر چلنے سے  اللہ تعالیٰ کی رضا اور آخرت کی نعمت میسر ہو، وہ دین ِاسلام ہے۔(خازن، النور، تحت الآیۃ: ۴۶، ۳ / ۳۵۸)

            قرآنِ پاک نازل کرنے کا ذکر فرمانے کے بعدبتایا جارہا ہے کہ انسان تین فرقوں  میں  تقسیم ہوگئے۔ ایک وہ جنہوں  نے ظاہری طور پر حق کی تصدیق کی اور باطنی طور پر اس کی تکذیب کرتے رہے، وہ منافق ہیں ۔ دوسرا وہ جنہوں  نے ظاہری طور پر بھی تصدیق کی اور باطنی طور پر بھی مُعْتَقِد رہے، یہ مخلص لوگ ہیں ۔ تیسرا وہ جنہوں  نے ظاہر ی طور پربھی تکذیب کی اور باطنی طور پر بھی، وہ کفار ہیں ۔ اگلی آیات میں  ترتیب سے ان کا ذکر فرمایا جارہا ہے۔( مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۴۶، ص۷۸۶)

لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اٰیٰتٍ مُّبَیِّنٰتٍؕ-وَ اللّٰهُ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(46)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک ہم نے صاف بیان کرنے والی آیتیں نازل فرمائیں اور اللہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ کی طرف ہدایت دیتا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اٰیٰتٍ مُّبَیِّنٰتٍ: بیشک ہم نے صاف بیان کرنے والی آیتیں  نازل فرمائیں ۔} ارشاد فرمایا کہ بیشک ہم نے صاف بیان کرنے والی آیتیں  یعنی قرآنِ کریم نازل فرمایاجس میں  ہدایت و احکام اور حلال و حرام کا واضح بیان ہے اور  اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ کی طرف ہدایت دیتا ہے اور سیدھی راہ جس پر چلنے سے  اللہ تعالیٰ کی رضا اور آخرت کی نعمت میسر ہو، وہ دین ِاسلام ہے۔(خازن، النور، تحت الآیۃ: ۴۶، ۳ / ۳۵۸)

            قرآنِ پاک نازل کرنے کا ذکر فرمانے کے بعدبتایا جارہا ہے کہ انسان تین فرقوں  میں  تقسیم ہوگئے۔ ایک وہ جنہوں  نے ظاہری طور پر حق کی تصدیق کی اور باطنی طور پر اس کی تکذیب کرتے رہے، وہ منافق ہیں ۔ دوسرا وہ جنہوں  نے ظاہری طور پر بھی تصدیق کی اور باطنی طور پر بھی مُعْتَقِد رہے، یہ مخلص لوگ ہیں ۔ تیسرا وہ جنہوں  نے ظاہر ی طور پربھی تکذیب کی اور باطنی طور پر بھی، وہ کفار ہیں ۔ اگلی آیات میں  ترتیب سے ان کا ذکر فرمایا جارہا ہے۔( مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۴۶، ص۷۸۶)

وَ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالرَّسُوْلِ وَ اَطَعْنَا ثُمَّ یَتَوَلّٰى فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَؕ-وَ مَاۤ اُولٰٓىٕكَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ(47)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور (منافقین) کہتے ہیں : ہم اللہ اور رسول پر ایمان لائے اور ہم نے اطاعت کی پھر ان میں سے ایک گروہ اس کے بعد پھر جاتا ہے اور (حقیقت میں ) وہ مسلمان نہیں ہیں 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ یَقُوْلُوْنَ: اور کہتے ہیں ۔} اس آیت میں  انسانوں  کے پہلے گروہ کے بارے میں  بتایا گیا کہ وہ کہتے ہیں  ہم  اللہ تعالیٰ اور رسول صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لائے اور ہم نے ان کی اطاعت کی، پھر ان میں  سے ایک گروہ اس اقرار کے بعد پھر جاتا ہے اور اپنے قول کی پابندی نہیں  کرتا اورحقیقت میں  وہ مسلمان نہیں  منافق ہیں  کیونکہ ان کے دل ان کی زبانوں  کے مُوَافِق نہیں۔(جلالین، النور، تحت الآیۃ: ۴۷، ص۳۰۰، ملخصاً)

وَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ مُّعْرِضُوْنَ(48)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ رسول ان کے درمیان فیصلہ فرما دے تو اسی وقت ان میں سے ایک فریق منہ پھیر نے لگتا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ: اور جب انہیں   اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ بشر نامی منافق کازمین کے معاملے میں  ایک یہودی سے جھگڑا تھا، یہودی جانتا تھا کہ اس معاملہ میں  وہ سچا ہے اور اس کو یقین تھا کہ رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حق و عدل کا فیصلہ فرماتے ہیں ، اِس لئے اُس نے خواہش کی کہ ا س مقدمے کا فیصلہ رسولِ کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کرایا جائے۔ لیکن منافق بھی جانتا تھا کہ وہ باطل پر ہے اورسرکارِ دو عالَم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عدل و انصاف میں  کسی کی رُو رِعایت نہیں  فرماتے، اس لئے وہ حضورِ انور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فیصلہ پر تو راضی نہ ہوا اور کعب بن اشرف یہودی سے فیصلہ کرانے کااصرار کیا اور تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں  کہنے لگا کہ وہ ہم پر ظلم کریں  گے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔( مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۴۸، ص۷۸۶)

آیت ’’وَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ‘‘ سے معلوم ہونے والے اُمور:

            اس آیت سے دو باتیں  معلوم ہوئیں :

(1)…حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ ہے اور ان کے ہاں  حاضری  اللہ تعالیٰ کے حضور حاضری ہے کیونکہ ان لوگوں  کو حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف بلایا گیاتھا، جسے  اللہ تعالیٰ نے فرمایا،  اللہ و رسول کی طرف بلایا گیا۔

(2)… حضورِ انور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حکم  اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جس کے خلاف اپیل ناممکن ہے اورحضورِ اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم سے منہ موڑنا رب تعالیٰ کے حکم سے منہ موڑنا ہے۔

وَ اِنْ یَّكُنْ لَّهُمُ الْحَقُّ یَاْتُوْۤا اِلَیْهِ مُذْعِنِیْنَﭤ(49)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اگر فیصلہ ان کیلئے ہوجائے تو اس کی طرف خوشی خوشی جلدی سے آتے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِنْ: اور اگر۔} اس آیت میں  کفار و منافقین کا حال بیان کیا گیا کہ وہ بارہا تجربہ کرچکے تھے اور انہیں  کامل یقین تھا کہ سید المرسلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فیصلہ سراسر حق اور عدل و انصاف پر مبنی ہوتا ہے اس لئے ان میں  جو سچا ہوتا وہ تو خواہش کرتا تھا کہ حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کا فیصلہ فرمائیں  اور جو حق پر نہ ہوتا وہ جانتا تھا کہ رسولِ اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سچی عدالت سے وہ اپنی ناجائز مراد نہیں  پاسکتا اس لئے وہ حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فیصلہ سے ڈرتا اور گھبراتا تھا۔( مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۴۹، ص۷۸۶)

اَفِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ اَمِ ارْتَابُوْۤا اَمْ یَخَافُوْنَ اَنْ یَّحِیْفَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ وَ رَسُوْلُهٗؕ-بَلْ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ(50)

ترجمہ: کنزالعرفان

کیا ان کے دلوں میں بیماری ہے؟ یا انہیں شک ہے ؟یا کیا وہ اس بات سے ڈرتے ہیں کہ اللہ اور اس کا رسول ان پر ظلم کریں گے ؟ بلکہ وہ خود ہی ظالم ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَفِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ: کیا ان کے دلوں  میں  بیماری ہے؟} اس آیت میں  منافقین کے اِعراض کی قباحت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ کیا ان کے دلوں  میں  کفر و منافقت کی بیماری ہے؟ یا انہیں  ہمارے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت میں  شک ہے ؟یا کیا وہ اس بات سے ڈرتے ہیں  کہ  اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان پر ظلم کریں  گے ؟ایسا ہرگز نہیں  ہے،کیونکہ یہ وہ خوب جانتے ہیں  کہ رسولِ کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فیصلہ حق و قانون کے خلاف ہو ہی نہیں  سکتا اور کوئی بددیانت آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عدالت سے غلط فیصلہ کروانے میں  کامیاب نہیں  ہوسکتا، اسی وجہ سے وہ آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فیصلہ سے اِعراض کرتے ہیں  اور وہ حق سے اِعراض کرنے کی بنا پر خود ہی اپنی جانوں  پر ظلم کرنے والے ہیں ۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۵۰، ۳ / ۳۵۹، مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۵۰، ص۷۸۶، ملتقطاً)

اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَاؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(51)

ترجمہ: کنزالعرفان

مسلمانوں کی بات تو یہی ہے کہ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تا کہ رسول ان کے درمیان فیصلہ فرمادے تو وہ عرض کریں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی او ریہی لوگ کامیاب ہونے والے ہ

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ: مسلمانوں  کی بات تو یہی ہے۔} اس آیت میں   اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں  کو شریعت کا ادب سکھاتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ مسلمانوں  کو ایسا ہونا چاہئے کہ جب انہیں   اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف بلایا جائے تا کہ رسولِ اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کے درمیان  اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے احکامات کے مطابق فیصلہ فرمادیں  تو وہ عرض کریں  کہ ہم نے بُلاوا      سُنا اور اسے قبول کر کے اطاعت کی او رجو ان صفات کے حامل ہیں  وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں ۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۵۱، ۳ / ۳۵۹، مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۵۱، ص۷۸۷، ملتقطاً)

دین ودنیا میں  کامیابی حاصل ہونے کا ذریعہ :

            اس سے معلوم ہوا کہ سید المرسلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم کے سامنے اپنی عقل کے گھوڑے نہ دوڑائے جائیں  اور نہ ہی آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم کو قبول کرنے یا نہ کرنے کے معاملے میں  صرف اپنی عقل کو معیار بنایا جائے بلکہ جس طرح ایک مریض اپنے آپ کو ڈاکٹر کے سپرد کر دیتا ہے اور اس کی دی ہوئی دوائی کو چون وچرا کئے بغیر استعمال کرتا ہے اسی طرح خود کوحضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حوالے کر دینا اور آپ کے ہر حکم کے سامنے سر ِتسلیم خم کر دینا چاہئے کیونکہ ہماری عقلیں  ناقص ہیں  اور تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عقلِ مبارک وحی کے نور سے روشن اور کائنات کی کامل ترین عقل ہے۔ اگر اس پر عمل ہو گیا تو پھر دین و دنیا میں  کامیابی نصیب ہو گی۔

وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَخْشَ اللّٰهَ وَ یَتَّقْهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَ(52)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور اللہ سے ڈرے اوراس (کی نافرمانی) سے ڈرے تو یہی لوگ کامیاب ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ: اور جو  اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جو فرائض میں   اللہ تعالیٰ کی اور سُنّتوں  میں  اس کے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کرے اور ماضی میں   اللہ تعالیٰ کی ہونے والی نافرمانیوں  کے بارے میں   اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور آئندہ کے لئے پرہیز گاری اختیار کرے تو ایسے لوگ ہی کامیاب ہیں ۔( مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۵۲، ص۷۸۷)

اُخروی کامیابی کے اسباب کی جامع آیت:

            یہ آیتِ مبارکہ جَوَامِعُ الْکَلِمْ میں  سے ہے۔ اس کے الفاظ اگرچہ کم ہیں  لیکن اُخروی کامیابی کے تمام اسباب اس میں  جمع کر دئیے گئے ہیں ۔

ایک عیسائی کے قبولِ اسلام کا سبب:

            ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ مسجد ِنبوی شریف میں  کھڑے تھے، اسی دوران روم کے دِہقانوں  میں  سے ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہنے لگا: ’’میں  گواہی دیتا ہوں  کہ  اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود نہیں  اور میں  گواہی دیتا ہوں  کہ بے شک محمد صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ۔‘‘حضرت عمر فاروق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے اس سے فرمایا: ’’کیا تمہارے اسلام قبول کرنے کا کوئی خاص سبب ہے؟‘‘ اس نے عرض کی : جی ہاں ۔ میں  نے تورات، انجیل، زبور اور دیگر انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے صحائف کا مطالعہ کیا ہوا ہے۔میں  نے ایک قیدی کو قرآنِ پاک کی ایک آیت پڑھتے ہوئے سنا جو سابقہ تمام کتابوں  میں  دئیے گئے احکامات کی جامع ہے، اس سے میں  نے جان لیا کہ قرآنِ پاک واقعی  اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔حضرت عمر فاروق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے ا س سے دریافت فرمایا کہ وہ کون سی آیت ہے؟تو اس نے یہ آیت تلاوت کی ’’وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَخْشَ اللّٰهَ وَ یَتَّقْهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَ‘‘ حضرت عمر فاروق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے فرمایا: ’’حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ہے کہ مجھے جَوَامِعُ الْکَلِمْ عطا کئے گئے ہیں ۔‘‘( تفسیرقرطبی، النور، تحت الآیۃ: ۵۲، ۶ / ۲۲۷، الجزء الثانی عشر)

وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ لَىٕنْ اَمَرْتَهُمْ لَیَخْرُجُنَّؕ-قُلْ لَّا تُقْسِمُوْاۚ-طَاعَةٌ مَّعْرُوْفَةٌؕ-اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ(53)

ترجمہ: کنزالعرفان

اورانہوں نے پوری کوشش سے اللہ کی قسمیں کھائیں کہ اگر آپ انہیں حکم دو گے تو وہ ضرور نکلیں گے۔ تم فرماؤ : قسمیں نہ کھاؤ، شریعت کے مطابق اطاعت ہونی چاہیے، بیشک اللہ تمہارے اعمال سے خبردار ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ: او رانہوں  نے پوری کوشش کرکے  اللہ کی قسمیں  کھائیں ۔} اس آیت سے دوبارہ منافقین کا تذکرہ شروع کیا گیا۔ جب  اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا کہ منافقین رسولِ کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے احکام کو پسند نہیں  کرتے تو منافقین حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  حاضر ہو کر کہنے لگے:  اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم!اگر آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمیں  حکم دیں  کہ ہم اپنے گھروں  سے، اپنے مالوں  اور اپنی عورتوں  کے پاس سے نکل جائیں  تو ہم ضرور نکل جائیں  گے اور اگر آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمیں  جہاد کرنے کا حکم دیں  تو ہم جہاد کریں  گے،جب ہمارا یہ حال ہے تو ہم آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم سے کیسے راضی نہ ہوں  گے۔ اس پر  اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرمائیں  کہ تم قسمیں  نہ کھاؤ، تمہیں  اس کی بجائے شریعت کے مطابق اطاعت کرنی چاہیے، بیشک  اللہ تعالیٰ تمہارے تمام پوشیدہ اَعمال سے خبردار ہے،وہ تمہیں  ضرور رُسوا کرے گا اور تمہاری منافقت کی سزا دے گا۔( تفسیرکبیر، النور، تحت الآیۃ: ۵۳، ۸ / ۴۱۱-۴۱۲، خازن، النور، تحت الآیۃ: ۵۳، ۳ / ۳۵۹، ملتقطاً)

قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَۚ-فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْهِ مَا حُمِّلَ وَ عَلَیْكُمْ مَّا حُمِّلْتُمْؕ-وَ اِنْ تُطِیْعُوْهُ تَهْتَدُوْاؕ-وَ مَا عَلَى الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ(54)

ترجمہ: کنزالعرفان

تم فرماؤ: اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو پھر اگر تم منہ پھیرو تو رسول کے ذمے وہی تبلیغ ہے جس کی ذمے داری کا بوجھ ان پر رکھا گیا ہے اور تم پر وہ (اطاعت) لازم ہے جس کا بوجھ تم پر رکھا گیاہے اور اگر تم رسول کی فرمانبرداری کرو گے تو ہدایت پاؤ گے اور رسول کے ذمے صرف صاف صاف تبلیغ کردینا لازم ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قُلْ: تم فرماؤ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان قسمیں  کھانے والوں  سے فرمادیں  کہ تم سچے دل اور سچی نیت سے  اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کرو۔ اگر تم  اللہ تعالیٰ اور ا س کے رسول صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت و فرمانبرداری سے منہ پھیرو گے تو اس میں  ان کا نہیں  بلکہ تمہارا اپناہی نقصان ہے کیونکہ رسولِ اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ذمے صرف دین کی تبلیغ اور احکامِ الٰہی کا پہنچا دینا ہے اور جب انہوں  نے یہ ذمہ داری اچھی طرح نبھا دی ہے تو وہ اپنے فرض سے عہد ہ برآ ہوچکے اور تمہیں  چونکہ رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت و فرمانبرداری کا پابند کیا گیا ہے لہٰذا تم پر یہ لازم ہے۔ ا گراس سے روگردانی کرو گے تو  اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اس کی ناراضی کا تمہیں  ہی سامنا کرنا پڑے گا اور اگر تم رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فرمانبرداری کرو گے تو ہدایت پاؤ گے اور رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ذمے صرف صاف صاف تبلیغ کردینا لازم ہے، تمہاری ہدایت ان کے ذمہ داری نہیں ۔( تفسیر طبری، النور ، تحت الآیۃ : ۵۴ ، ۹ / ۳۴۲، خازن، النور، تحت الآیۃ: ۵۴، ۳ / ۳۵۹-۳۶۰، مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۵۴، ص۷۸۷، ملتقطاً)

حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت قبولیت کی چابی ہے :

          علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں : تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت قبولیت کے دروازے کی چابی ہے اور اطاعت کی فضیلت پر یہ بات تیری رہنمائی کرتی ہے کہ اصحابِ کہف کے کتّے نے جب  اللہ تعالیٰ کی طاعت میں  اصحابِ کہف کی پیروی کی تو  اللہ تعالیٰ نے اس سے جنت کا وعدہ فرمایا اور جب اطاعت کرنے والوں  کی پیروی کرنے کی یہ برکت ہے تو خود اطاعت کرنے والوں  کے بارے میں  تیر ا کیا گمان ہے۔ اور حضرت امام احمد بن حنبل رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے جب حمام میں  لوگوں  کے درمیان سَتْرِ عورت کھولنے کے معاملے میں  شرعی حکم کی رعایت کی (یعنی وہاں  پردہ کرکے نہانے کا حکم ہے اور آپ نے اس پر عمل کیا) تو ان سے خواب میں  کہا گیا :شرعی حکم کی رعایت کرنے کی وجہ سے  اللہ تعالیٰ نے آپ کو لوگوں  کا امام بنا دیا ہے۔( روح البیان، النور، تحت الآیۃ: ۵۴، ۶ / ۱۷۲-۱۷۳)

وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ۪-وَ لَیُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِیْنَهُمُ الَّذِی ارْتَضٰى لَهُمْ وَ لَیُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًاؕ-یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِكُوْنَ بِیْ شَیْــٴًـاؕ-وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ(55)

ترجمہ: کنزالعرفان

اللہ نے تم میں سے ایمان والوں اور اچھے اعمال کرنے والوں سے وعدہ فرمایا ہے کہ ضرورضرور انہیں زمین میں خلافت دے گا جیسی ان سے پہلوں کوخلافت دی ہے اور ضرورضرور اِن کے لیے اِن کے اُس دین کو جما دے گا جو ان کے لیے پسند فرمایا ہے اور ضرور ضروران کے خوف کے بعد ان( کی حالت)کو امن سے بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے، میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے اور جو اس کے بعد ناشکری کرے تو وہی لوگ نافرمان ہیں۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَعَدَ اللّٰهُ :  اللہ نے وعدہ فرمایا ہے۔} اس آیت میں   اللہ تعالیٰ نے انسانوں  کے دوسرے گروہ یعنی مخلص مؤمنوں  کا ذکر فرمایاہے۔ آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وحی نازل ہونے سے لے کر دس سال تک مکہ مکرمہ میں  صحابہ ٔکرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ کے ساتھ قیام فرمایا اور شب و روز کفار کی طرف سے پہنچنے والی ایذاؤں  پر صبر کیا، پھر  اللہ تعالیٰ کے حکم سے مدینہ طیبہ کو ہجرت فرمائی اور انصار کے مکانات کو اپنی سکونت سے سرفراز کیا، مگر قریش اس پر بھی باز نہ آئے، آئے دن ان کی طرف سے جنگ کے اعلان ہوتے اور طرح طرح کی دھمکیاں  دی جاتیں ۔صحابہ ٔکرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ ہر وقت خطرہ میں  رہتے اور ہتھیار ساتھ رکھتے۔ ایک روز ایک صحابی رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے فرمایا کبھی ایسا بھی زمانہ آئے گا کہ ہمیں  امن میسرہو اور ہتھیاروں  کے بوجھ سے ہم سبکدوش ہوں ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ارشاد فرمایا کہ  اللہ تعالیٰ نے تم میں  سے ایمان والوں  اور اچھے اعمال کرنے والوں  سے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ وہ ضرورانہیں  زمین میں  خلافت دے گا جیسی ان سے پہلوں  یعنی حضرت داؤد اور حضرت سلیمان وغیرہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوخلافت دی ہے اور جیسا کہ مصر و شام کے جابر کافروں  کوہلاک کرکے بنی اسرائیل کو خلافت دی اور ان ممالک پر اُن کو مُسلَّط کیااور  اللہ تعالیٰ ضرور اِن کے لیے دین ِاسلام کو تمام اَدیان پر غالب فرمادے گا اور ضرور ان کے خوف کے بعد ان کی حالت کو امن سے بدل دے گا۔ چنانچہ یہ وعدہ پورا ہوا اور سرزمین ِعرب سے کفار مٹادیئے گئے، مسلمانوں  کا تَسلُّط ہوا، مشرق و مغرب کے ممالک  اللہ تعالیٰ نے اُن کے لئے فتح فرمائے، قیصر وکسریٰ کے ممالک اور خزائن اُن کے قبضہ میں  آئے اورپوری دنیا پر اُن کا رُعب چھا گیا۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۵۵، ۳ / ۳۶۰، مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۵۵، ص۷۸۸، ملتقطاً)

خلافت ِراشدہ کی دلیل:

         علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں :اس آیت میں  حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ اور آپ کے بعد ہونے والے خلفائِ راشدین رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ کی خلافت کی دلیل ہے کیونکہ ان کے زمانے میں  عظیم فتوحات ہوئیں  اور کسریٰ وغیرہ بادشاہوں  کے خزانے مسلمانوں  کے قبضہ میں  آئے اور امن، قوت و شوکت اور دین کا غلبہ حاصل ہوا۔(خازن، النور، تحت الآیۃ: ۵۵، ۳ / ۳۶۰)

         ترمذی اور ابوداؤد کی حدیث میں  ہے کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’خلافت میرے بعد تیس سال ہے پھر ملک ہوگا۔‘‘( ترمذی، کتاب الفتن، باب ما جاء فی الخلافۃ، ۴ / ۹۷، الحدیث: ۲۲۳۳، ابو داؤد، کتاب السنّۃ، باب فی الخلفاء، ۴ / ۲۷۸، الحدیث: ۴۶۴۶)اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کی خلافت دو برس تین ماہ، حضرت عمر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی عَنْہُ کی خلافت دس سال چھ ماہ، حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کی خلافت بارہ سال اور حصرت علی مرتضیٰ کَرَّمَ  اللہ  تَعَالٰی  وَجْہَہُ الْکَرِیْم کی خلافت چار سال نو ماہ اور حضرت امام حسن رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کی خلافت چھ ماہ ہوئی۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۵۵، ۳ / ۳۶۱)

{وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ: اور جو اس کے بعد ناشکری کرے۔} یعنی جو اس وعدے کے بعد نعمت کی ناشکری کرے گا تو وہی فاسق ہیں کیونکہ انہوں  نے اہم ترین نعمت کی ناشکری کی اور اسے حقیر سمجھنے پر دلیر ہوئے۔مفسرین فرماتے ہیں  کہ اس نعمت کی سب سے پہلی جو ناشکری ہوئی وہ حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کو شہید کرنا ہے۔( مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۵۵، ص۷۸۸)

وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ(56)لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مُعْجِزِیْنَ فِی الْاَرْضِۚ-وَ مَاْوٰىهُمُ النَّارُؕ-وَ لَبِئْسَ الْمَصِیْرُ(57)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور نمازقائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور رسول کی فرمانبرداری کرتے رہو اس امید پر کہ تم پر رحم کیا جائے۔ ہرگز کافروں کو یہ خیال نہ کرو کہ وہ ہمیں زمین میں عاجز کرنے والے ہیں اور ان کا ٹھکانہ آ گ ہے اور بیشک وہ کیا ہی بُری لوٹنے کی جگہ ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ: اور نمازقائم رکھو۔} ارشاد فرمایا کہ اے لوگو!نماز کو اس کے ارکان و شرائط کے ساتھ قائم رکھو، اسے ضائع نہ کرو اور جو زکوۃ  اللہ تعالیٰ نے تم پر فرض فرمائی ہے اسے ادا کرو اور احکامات وممنوعات میں  اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حبیب رسول صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے اور  اللہ تعالیٰ تمہیں  اپنے عذاب سے نجات دے۔( تفسیرطبری، النور، تحت الآیۃ: ۵۶، ۹ / ۳۴۴)

{لَا تَحْسَبَنَّ: ہرگز گمان نہ کرو۔} یعنی ان کفار نا بکار کا زمین میں  امن سے رہنا اس وجہ سے نہیں  کہ وہ رب کے قابو سے باہر ہیں  بلکہ یہ رب تعالیٰ کی مہلت ہے لہٰذا ان کے بارے میں  یہ خیال نہ کرو کہ یہ ہماری پکڑ سے بھاگ کر زمین میں  ہمیں  عاجز کر دیں  گے، ان کا ٹھکانہ جہنم کی آگ ہے اور بیشک وہ کیا ہی بُری لوٹنے کی جگہ ہے۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِیَسْتَاْذِنْكُمُ الَّذِیْنَ مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ وَ الَّذِیْنَ لَمْ یَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلٰثَ مَرّٰتٍؕ-مِنْ قَبْلِ صَلٰوةِ الْفَجْرِ وَ حِیْنَ تَضَعُوْنَ ثِیَابَكُمْ مِّنَ الظَّهِیْرَةِ وَ مِنْۢ بَعْدِ صَلٰوةِ الْعِشَآءِ۫ؕ-ثَلٰثُ عَوْرٰتٍ لَّكُمْؕ-لَیْسَ عَلَیْكُمْ وَ لَا عَلَیْهِمْ جُنَاحٌۢ بَعْدَهُنَّؕ-طَوّٰفُوْنَ عَلَیْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلٰى بَعْضٍؕ-كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰیٰتِؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ(58)

ترجمہ: کنزالعرفان

اے ایمان والو!تمہارے غلام اور تم میں سے جو بالغ عمر کو نہیں پہنچے، انہیں چاہیے کہ تین اوقات میں، فجر کی نماز سے پہلے اور دوپہر کے وقت جب تم اپنے کپڑے اُتار رکھتے ہو اور نمازِ عشاء کے بعد (گھر میں داخلے سے پہلے) تم سے اجازت لیں۔ یہ تین اوقات تمہاری شرم کے ہیں۔ ان تین اوقات کے بعد تم پر اور ان پر کچھ گناہ نہیں۔ وہ تمہارے ہاں ایک دوسرے کے پاس بار بار آنے والے ہیں۔ اللہ تمہارے لئے یونہی آیات بیان کرتا ہے اور اللہ علم والا، حکمت وا لا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: اے ایمان والو!۔} شانِ نزول:حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک انصاری غلام مِدْلَج بن عمرو کو دوپہر کے وقت حضرت عمرفاروق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کو بلانے کے لئے بھیجا، وہ غلام اجازت لئے بغیر ویسے ہی حضرت عمر فاروق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کے مکان میں  چلا گیا اور اس وقت حضرت عمر فاروق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ بے تکلف اپنے دولت سرائے میں  تشریف فرما تھے۔ غلام کے اچانک چلے آنے سے آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کے دِل میں  خیال پیدا ہوا کہ کاش غلاموں  کو اجازت لے کر مکانوں میں  داخل ہونے کا حکم ہوتا۔ اس پر یہ آیۂ کریمہ نازل ہوئی۔اس آیت میں  غلاموں ، باندیوں  اور بلوغت کے قریب لڑکے، لڑکیوں  کو تین اوقات میں  گھر میں  داخل ہونے سے پہلے اجازت لینے کا حکم دیا گیا۔ وہ تین اوقات یہ ہیں ۔

(1)…فجر کی نماز سے پہلے۔ کیونکہ یہ خواب گاہوں  سے اُٹھنے اورشب خوابی کا لباس اُتار کر بیداری کے کپڑے پہننےکا وقت ہے۔

(2)… دوپہر کے وقت، جب لوگ قیلولہ کرنے کے لئے اپنے کپڑے اُتار کر رکھ دیتے اور تہ بند باندھ لیتے ہیں ۔

(3)… نماز عشاء کے بعد،کیونکہ یہ بیداری کی حالت میں  پہنا ہوا لباس اُتارنے اورسوتے وقت کا لباس پہننے کاٹائم ہے۔

            یہ تین اوقات ایسے ہیں  کہ اِن میں  خلوت و تنہائی ہوتی ہے، بدن چھپانے کا بہت اہتمام نہیں  ہوتا، ممکن ہے کہ بدن کا کوئی حصہ ُکھل جائے جس کے ظاہر ہونے سے شرم آتی ہے، لہٰذا اِن اوقات میں  غلام اور بچے بھی بے اجازت داخل نہ ہوں  اور اُن کے علاوہ جو ان لوگ تمام اوقات میں  اجازت حاصل کریں ، وہ کسی وقت بھی اجازت کے بغیر داخل نہ ہوں ۔ ان تین وقتوں  کے سوا باقی اوقات میں  غلام اور بچے بے اجازت داخل ہوسکتے ہیں  کیونکہ وہ کام اور خدمت کیلئے ایک دوسرے کے پاس بار بار آنے والے ہیں  تو اُن پر ہر وقت اجازت طلب کرنا لازم ہونے میں  حرج پیدا ہوگا اور شریعت میں  حرج کو دُور کیا گیا ہے۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۵۸، ۳ / ۳۶۱-۳۶۲، مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۵۸، ص۷۸۹، ملتقطاً)

لڑکا اور لڑکی کب بالغ ہوتے ہیں ؟

          یاد رہے کہ لڑکے اور لڑکی میں جب بلوغت کے آثارظاہر ہوں  مثلاً لڑکے کو احتلام ہو اور لڑکی کوحیض آئے اس وقت سے وہ بالغ ہیں  اور اگر بلوغت کے آثار ظاہر نہ ہوں  تو پندرہ برس کی عمر پوری ہونے سے بالغ سمجھے جائیں  گے۔( فتاویٰ رضویہ، ۱۲ / ۳۹۹، ملخصاً)

وَ اِذَا بَلَغَ الْاَطْفَالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ فَلْیَسْتَاْذِنُوْا كَمَا اسْتَاْذَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْؕ-كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ(59)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور جب تم میں سے لڑکے جوانی کی عمر کو پہنچ جائیں تو وہ بھی (گھر میں داخل ہونے سے پہلے) اسی طرح اجازت مانگیں جیسے ان سے پہلے (بالغ ہونے) والوں نے اجازت مانگی۔ اللہ تم سے اپنی آیتیں یونہی بیان فرماتا ہے اور اللہ علم والا، حکمت والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِذَا بَلَغَ الْاَطْفَالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ: اور جب تم میں  سے لڑکے جوانی کی عمر کو پہنچ جائیں ۔} اس آیت میں  ارشاد فرمایا: جب تمہارے یا قریبی رشتہ داروں  کے چھوٹے لڑکے جوانی کی عمر کو پہنچ جائیں  تو وہ بھی تمام اوقات میں  گھر میں  داخل ہونے سے پہلے اسی طرح اجازت مانگیں  جیسے ان سے پہلے بڑے مردوں  نے اجازت مانگی۔  اللہ تعالیٰ اپنے دین کے شرعی احکام اسی طرح بیان فرماتا ہے جیسے ا س نے لڑکوں  کے اجازت طلب کرنے کا حکم بیان فرمایا اور  اللہ تعالیٰ مخلوق کی تمام مصلحتوں  کو جانتا ہے اور وہ اپنی مخلوق کے معاملات کی تدبیر فرمانے میں  حکمت والا ہے۔( تفسیرطبری، النور، تحت الآیۃ: ۵۹، ۹ / ۳۴۸)

گھر میں  اجازت لے کر داخل ہونے کی ایک حکمت:

            گھر میں  اجازت لے کر داخل ہونے کی بے شمار حکمتیں  ہیں ، ان میں  سے ایک یہاں  ذکر کی جاتی ہے۔ چنانچہ حضرت عطا بن یسار رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ ایک شخص نے رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دریافت کیا : کیا میں  اپنی ماں  کے پاس جاؤں  تو اس سے بھی اجازت لوں ۔ حضورِ اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ہاں ۔ انہوں  نے عرض کی:میں  تو اس کے ساتھ اسی مکان میں  رہتا ہی ہوں ۔ حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اجازت لے کر اس کے پاس جاؤ، انہوں  نے عرض کی: میں  اس کی خدمت کرتا ہوں  (یعنی بار بار آنا جانا ہوتا ہے، پھر اجازت کی کیا ضرورت ہے؟) رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’اجازت لے کر جاؤ، کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ اسے بَرَہْنَہ دیکھو؟‘‘ عرض کی: نہیں ، فرمایا: تو اجازت حاصل کرو۔( موطا امام مالک، کتاب الاستءذان، باب الاستءذان، ۲ / ۴۴۶، الحدیث: ۱۸۴۷)

             اسی حکم سے کچھ اور احکام کی حکمت بھی سمجھ آتی ہے جیسے باپ یا بھائی اگر بیٹیوں  یا بہنوں  کو جگانے کیلئے کمرے میں  جائیں  تو کمرے کے باہر سے آواز دیں  اور جگائیں  کہ بلااجازت اندر جانا نامناسب ہے کیونکہ حالت ِ نیند میں  بعض اوقات بدن سے کپڑے ہٹ جاتے ہیں ۔

وَ الْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَآءِ الّٰتِیْ لَا یَرْجُوْنَ نِكَاحًا فَلَیْسَ عَلَیْهِنَّ جُنَاحٌ اَنْ یَّضَعْنَ ثِیَابَهُنَّ غَیْرَ مُتَبَرِّجٰتٍۭ بِزِیْنَةٍؕ-وَ اَنْ یَّسْتَعْفِفْنَ خَیْرٌ لَّهُنَّؕ-وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(60)

ترجمہ: کنزالعرفان

اورگھروں میں بیٹھ رہنے والی وہ بوڑھی عورتیں جنہیں نکاح کی کوئی خواہش نہیں ان پر کچھ گناہ نہیں کہ اپنے اوپر کے کپڑے اُتار رکھیں جبکہ زینت کو ظاہر نہ کررہی ہوں اور اِن کا اس سے بھی بچنا ان کے لیے سب سے بہتر ہے اور اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ الْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَآءِ: اورگھروں  میں  بیٹھ رہنے والی بوڑھی عورتیں ۔} ا س آیت میں  بوڑھی عورتوں  کے بارے میں  فرمایا گیاکہ ایسی بوڑھی عورتیں  جن کی عمر زیادہ ہو چکی ہو اور ان سے اولاد پیدا ہونے کی امید نہ رہی ہو اور عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے انہیں  نکاح کی کوئی خواہش نہ ہو تو ان پر کچھ گناہ نہیں  کہ وہ اپنے اوپر کے کپڑے یعنی اضافی چادر وغیرہ اُتار کر رکھ دیں  جبکہ وہ اپنی زینت کی جگہوں  مثلا بال، سینہ اورپنڈلی وغیرہ کو ظاہر نہ کررہی ہوں  اور ان بوڑھی عورتوں کا اس سے بھی بچنا اور اضافی چادر وغیرہ پہنے رہنا ان کے لیے سب سے بہترہے اور  اللہ تعالیٰ سننے والا، جاننے والاہے۔( مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۶۰، ص۷۹۰، ملخصاً)

            مفسرین فرماتے ہیں  کہ یہ حکم ایسی بوڑھی عورتوں  کے لئے ہے جنہیں  دیکھنے سے مردوں  کو شہوت نہ آئے، اگر بڑھاپے کے باوجود عورت کا اتنا حسن وجمال قائم ہے کہ اسے دیکھنے سے شہوت آتی ہو تو وہ ا س آیت کے حکم میں  داخل نہیں ۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۶۰، ۳ / ۳۶۲)

 فتوے پر عمل کرنے سے تقوے پر عمل کرنا زیادہ اَولیٰ ہے :

            اس آیت سے معلوم ہو اکہ جب کسی کام میں  فتنے کا اندیشہ باقی نہ رہے تو شریعت ا س کے حکم میں  سختی ختم کر دیتی ہے اور ا س کے معاملے میں  آسان حکم اور کچھ رخصت دے دیتی ہے،البتہ اس رخصت و اجاز ت کے باوجود تقو ی و پرہیزگاری کی وجہ سے اسی سابقہ حکم پر عمل کرنا زیادہ بہتر ہے۔

 

لَیْسَ عَلَى الْاَعْمٰى حَرَجٌ وَّ لَا عَلَى الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلَى الْمَرِیْضِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ اَنْ تَاْكُلُوْا مِنْۢ بُیُوْتِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اٰبَآىٕكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اُمَّهٰتِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اِخْوَانِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اَخَوٰتِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اَعْمَامِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ عَمّٰتِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اَخْوَالِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ خٰلٰتِكُمْ اَوْ مَا مَلَكْتُمْ مَّفَاتِحَهٗۤ اَوْ صَدِیْقِكُمْؕ-لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَاْكُلُوْا جَمِیْعًا اَوْ اَشْتَاتًاؕ-فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ تَحِیَّةً مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُبٰرَكَةً طَیِّبَةًؕ-كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ(61)

ترجمہ: کنزالعرفان

اندھے اور لنگڑے اور بیمار پر کوئی پابندی نہیں اور تم پر بھی کوئی پابندی نہیں کہ تم کھاؤاپنی اولاد کے گھروں سے یا اپنے باپ کے گھروں یا اپنی ماں کے گھرسے یا اپنے بھائیوں کے گھروں یا اپنی بہنوں کے گھروں سے یا اپنے چچاؤں کے گھر وں سے یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے یا اپنے ماموؤں کے گھر وں سے یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے یا اس گھر سے جس کی چابیاں تمہارے قبضہ میں ہیں یا اپنے دوست کے گھر سے۔تم پر کوئی پابندی نہیں کہ تم مل کر کھاؤ یا الگ الگ۔ پھر جب گھروں میں داخل ہو تو اپنے لوگوں کو سلام کرو، (یہ) ملتے وقت کی اچھی دعا ہے، اللہ کے پاس سے مبارک پاکیزہ (کلمہ ہے) اللہ یونہی اپنی آیات تمہارے لئے بیان فرماتا ہے تاکہ تم سمجھو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَیْسَ عَلَى الْاَعْمٰى حَرَجٌ: اندھے پر کوئی پابندی نہیں ۔} اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں  تین قول ہیں  :

          پہلا قول :حضرت سعید بن مسیب رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے مروی ہے کہ صحابہ ٔکرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ جہاد کو جاتے تو اپنے مکانوں  کی چابیاں  نابینا ؤں ، بیماروں  اور اپاہجوں  کو دے جاتے جو ان عذروں  کے باعث جہاد میں  نہ جاسکتے اور انہیں اجازت دیتے کہ ان کے مکانوں  سے کھانے کی چیزیں  لے کر کھائیں ، لیکن وہ لوگ اس خیال سے اسے گوارا نہ کرتے کہ شاید یہ اُن کو دل سے پسند نہ ہو، اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور انہیں  اس کی اجازت د ی گئی۔

            دوسرا قول: یہ ہے کہ اندھے، اپاہج اور بیمار لوگ تندرستوں  کے ساتھ کھانے سے بچتے کہ کہیں  کسی کو نفرت نہ ہو، اس آیت میں  انہیں  تندرستوں  کے ساتھ کھانے کی اجازت دی گئی۔

          تیسرا قول: یہ ہے کہ جب کبھی اندھے، نابینا اوراپاہج کسی مسلمان کے پاس جاتے اور اس کے پاس اُن کے کھلانے کے لئے کچھ نہ ہوتا تو وہ انہیں  کسی رشتہ دار کے یہاں  کھلانے کے لئے لے جاتا، یہ بات ان لوگوں  کو گوارا نہ ہوتی، اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور انہیں  بتایا گیا کہ اس میں  کوئی حرج نہیں  ہے۔( مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۶۱، ص۷۹۱، خازن، النور، تحت الآیۃ: ۶۱، ۳ / ۳۶۳، ملتقطاً)

{وَ لَا عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ: اور تم پر بھی کوئی پابندی نہیں ۔} آیت کے ا س حصے سے گیارہ مقامات ایسے بتائے گئے جہاں  سے کھانا مباح ہے۔(1)اپنی اولاد کے گھروں  سے،کیونکہ اولاد کا گھر اپنا ہی گھر ہے۔ حدیث شریف میں  ہے کہ رسولِ کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا: ’’تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے۔‘‘( ابو داؤد، کتاب الاجارۃ، باب فی الرجل یأکل من مال ولدہ، ۳ / ۴۰۳، الحدیث: ۳۵۳۰) اسی طرح شوہر کے لئے بیوی کا اور بیوی کے لئے شوہر کا گھر بھی اپنا ہی گھر ہے۔(2) اپنے باپ کے گھروں  سے۔ (3) اپنی ماں  کے گھرسے۔ (4) اپنے بھائیوں  کے گھروں ۔(5)اپنی بہنوں  کے گھروں  سے۔(6) اپنے چچاؤں  کے گھر وں  سے۔(7) اپنی پھوپھیوں  کے گھروں  سے۔(8) اپنے ماموؤں  کے گھر وں  سے۔(9) اپنی خالاؤں  کے گھروں  سے۔(10) اس گھر سے جس کی چابیاں  تمہارے قبضہ میں  ہیں ۔حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا نے فرمایا کہ اس سے مراد آدمی کا وکیل اور اس کے معاملات کے انتظامات پر مامور شخص ہے۔ (11)اپنے دوست کے گھر سے۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۶۱، ۳ / ۳۶۳، مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۶۱، ص۷۹۱، جلالین، النور، تحت الآیۃ: ۶۱، ص۳۰۲، ملتقطاً)

کسی کی غیر موجودگی میں  یا اجازت کے بغیر اس کی چیز نہ کھائی جائے:

خلاصہ یہ ہے کہ ان سب لوگوں  کے گھر کھانا،کھانا جائز ہے خواہ وہ موجود ہوں  یا نہ ہوں  لیکن یہ اجازت ا س صورت میں  جب کہ وہ ا س پر رضامند ہوں  اور اگر وہ اس پر رضامند نہ ہو ں  تو اگرچہ وہ واضح طور پراجازت دے دیں  تب بھی ان کا کھانا،کھانا مکروہ ہے اور فی زمانہ تو یہی سمجھ آتا ہے کہ کسی کی غیر موجودگی میں  اور اجازت کے بغیر بالکل نہ کھائے کیونکہ ہمارے زمانے کے حالات میں  مادیت پرستی بہت بڑھ چکی ہے۔امام غزالی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں : ’’جب آدمی اپنے کسی دوست کے گھر جائے اورصاحبِ خانہ گھر      پر نہ ہو اور اِسے ا س کی دوستی پر کامل یقین ہو، نیز وہ آدمی جانتا ہو کہ ا س کا دوست اس کے کھانے پر خوش ہو گا تو وہ اپنے دوست کی اجازت کے بغیر کھا سکتا ہے کیونکہ اجازت سے مراد رضا مندی ہے اور بعض لوگ صراحتاً اجازت دے دیتے ہیں  اور اس اجازت پرقسم کھاتے ہیں  لیکن وہ دل سے راضی نہیں  ہوتے (لہٰذا اگر قرائن کے ذریعے تجھ پر یہ ظاہر ہو کہ اسے تیرا کھانا پسند نہیں  تو اس کا کھانا مت کھاؤ کہ) ایسے لوگوں  کا کھانا،کھانا مکروہ ہے۔‘‘( احیاء علوم الدین، کتاب آداب الاکل، الباب الثالث، آداب الدخول للطعام، ۲ / ۱۳)

            ابو البرکات عبد اللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں ہمارے اسلاف کا تو یہ حال تھا کہ آدمی اپنے دوست کے گھر اس کی غیر موجودگی میں  پہنچتا تو اس کی باندی سے اس کا تھیلا طلب کرتا اور جو چاہتا اس میں  سے لے لیتا، جب وہ دوست گھر آتا اور باندی اس کو خبر دیتی تو اس خوشی میں  وہ باندی کو آزاد کردیتا مگر اس زمانہ میں یہ فیاضی کہاں ؟ لہٰذا اب اجازت کے بغیرنہیں کھانا چاہئے۔( مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۶۱، ص۷۹۱)

{ اَنْ تَاْكُلُوْا جَمِیْعًا اَوْ اَشْتَاتًا: تم مل کر کھاؤ یا الگ الگ۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ قبیلہ بنی لیث بن عمرو کے لوگ تنہا بغیر مہمان کے کھانا نہ کھاتے تھے کبھی کبھی مہمان نہ ملتا تو صبح سے شام تک کھانا لئے بیٹھے رہتے، ان کے حق میں  یہ آیت نازل ہوئی۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۶۱، ۳ / ۳۶۴) اور فرمایا گیا کہ تم مل کر کھاؤ یا الگ الگ تم پر کوئی پابندی نہیں ۔

مہمان نوازی سے متعلق دو احادیث:

            آیت کے شانِ نزول سے معلوم ہوا کہ صحابہ ٔکرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ بڑے مہمان نواز ہو اکرتے تھے،اسی مناسبت سے یہاں  مہمان نوازی سے متعلق 2 احادیث ملاحظہ ہوں ۔

 (1)…حضرت ابو شریح کعبی رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جو شخص  اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، وہ مہمان کا اکرام کرے، ایک دن رات اس کا جائزہ ہے (یعنی ایک دن اس کی پوری خاطر داری کرے، اپنے مقدور بھر اس کے لیے تکلف کا کھانا تیار کرائے) اور ضیافت تین دن ہے (یعنی ایک دن کے بعد جو موجود ہو وہ پیش کرے) اور تین دن کے بعد صدقہ ہے، مہمان کے لیے یہ حلال نہیں  کہ اس کے یہاں  ٹھہرا ر ہے کہ اسے حرج میں  ڈال دے۔‘‘( بخاری، کتاب الادب، باب اکرام الضیف وخدمتہ ایّاہ بنفسہ، ۴ / ۱۳۶، الحدیث: ۶۱۳۵)

 (2)…حضرت ابو الاحوص رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ اپنے والد سے ر وایت کرتے ہیں ، کہتے ہیں : میں  نے عرض کی: یا رسولَ  اللہ !صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ فرمائیے کہ میں  ایک شخص کے یہاں  گیا، اس نے میری مہمانی نہیں  کی، اب وہ میرے یہاں  آئے تو اس کی مہمانی کروں  یا بدلا دوں ۔ ارشاد فرمایا: ’’بلکہ تم اس کی مہمانی کرو۔‘‘( ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی الاحسان والعفو، ۳ / ۴۰۵، الحدیث: ۲۰۱۳)

مل کر کھانے کے3فضائل:

            یہاں  آیت میں  مل کرکھانا کھانے کا ذکر ہوا اس مناسبت سے مل کر کھانے کے 3فضائل ملاحظہ ہوں :

(1)…حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مل کر کھاؤاورالگ الگ نہ کھاؤ کیونکہ برکت جماعت کے ساتھ ہے۔‘‘( ابن ماجہ، کتاب الاطعمۃ، باب الاجتماع علی الطعام، ۴ / ۲۱، الحدیث: ۳۲۸۷)

(2)…ایک مرتبہ صحابہ ٔکرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ نے بارگاۂ رسالت میں  عرض کی: یا رسولَ  اللہ !صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم کھانا تو کھاتے ہیں  لیکن سیر نہیں  ہوتے۔ ارشاد فرمایا: ’’تم الگ الگ کھاتے ہو گے۔‘‘ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ نے عرض کی:جی ہاں !رسولِ کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم مل بیٹھ کر کھانا کھایا کرو اور کھاتے وقت بِسْمِ  اللہ پڑھ لیا کرو تمہارے لئے کھانے میں  برکت دی جائے گی۔‘‘( ابو داؤد، کتاب الاطعمۃ، باب فی الاجتماع علی الطعام، ۳ / ۴۸۶، الحدیث: ۳۷۶۴)

(3)…حضرت جابر بن عبد اللہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند وہ کھانا ہے جسے کھانے والے زیادہ ہوں ۔‘‘( شعب الایمان،الثامن والستون من شعب الایمان۔۔۔الخ، فصل فی التکلّف للضیف عند القدرۃ علیہ، ۷ / ۹۸، الحدیث: ۹۶۲۰)

{فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوْتًا: پھر جب گھروں  میں  داخل ہو۔} ارشاد فرمایا کہ پھر جب گھروں  میں  داخل ہو تو اپنے لوگوں  کو سلام کرو، یہ ملتے وقت کی اچھی دعا ہے اور  اللہ تعالیٰ کے پاس سے مبارک پاکیزہ کلمہ ہے۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۶۱، ۳ / ۳۶۴)

گھر میں  داخل ہوتے وقت سلام کرنے سے متعلق دو شرعی مسائل:

            یہاں  گھر میں  داخل ہوتے وقت اہلِ خانہ کو سلام کرنے سے متعلق دو شرعی مسائل ملاحظہ ہوں :

(1)… جب آدمی اپنے گھر میں  داخل ہو تو اپنے اہلِ خانہ کو سلام کرے اور ان لوگوں  کو جو مکان میں  ہوں  بشرطیکہ وہ مسلمان ہوں ۔

(2)… اگر خالی مکان میں  داخل ہو جہاں  کوئی نہیں  ہے تو کہے: ’’ اَلسَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ وَرَحْمَۃُ  اللہ وَبَرَکَاتُہٗ اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ  اللہ الصَّالِحِیْنَ اَلسَّلَامُ عَلٰی اَہْلِ الْبَیْتِ وَرَحْمَۃُ  اللہ وَبَرَکَاتُہٗ ‘‘ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا نے فرمایا کہ مکان سے یہاں  مسجدیں  مُراد ہیں ۔ امام نخعی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  کہ جب مسجد میں  کوئی نہ ہو تو کہے ’’ اَلسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ  اللہ صَلَّی  اللہ  عَلَیْہِ  وَسَلَّمْ۔( الشفا، القسم الثانی، الباب الرابع فی حکم الصلاۃ علیہ، فصل فی الموطن التی یستحبّ فیہا الصلاۃ والسلام۔۔۔ الخ، ص۶۷، الجزء الثانی)

            ملا علی قاری رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  نے شفا شریف کی شرح میں  لکھا کہ خالی مکان میں  سرکارِ دو عالَم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر سلام عرض کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اہلِ اسلام کے گھروں  میں  روحِ اقدس جلوہ فرما ہوتی ہے۔( شرح الشفا، القسم الثانی، الباب الرابع فی حکم الصلاۃ علیہ والتسلیم، فصل فی الموطن التی یستحبّ فیہا الصلاۃ والسلام، ۲ / ۱۱۸)

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اِذَا كَانُوْا مَعَهٗ عَلٰۤى اَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ یَذْهَبُوْا حَتّٰى یَسْتَاْذِنُوْهُؕ-اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَاْذِنُوْنَكَ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۚ-فَاِذَا اسْتَاْذَنُوْكَ لِبَعْضِ شَاْنِهِمْ فَاْذَنْ لِّمَنْ شِئْتَ مِنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمُ اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(62)

ترجمہ: کنزالعرفان

ایمان والے تو وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائیں اور جب کسی ایسے کام پر رسول کے ساتھ ہوں جو انہیں (رسولُ اللہ کی بارگاہ میں ) جمع کرنے والا ہو تواس وقت تک نہ جائیں جب تک ان سے اجازت نہ لے لیں ۔ بیشک وہ جو آپ سے اجازت مانگتے ہیں وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں پھر (اے محبوب!) جب وہ اپنے کسی کام کے لیے آپ سے (جانے کی) اجازت مانگیں تو ان میں جسے تم چاہو اجازت دے دو اور ان کے لیے اللہ سے معافی مانگو، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ: ایمان والے تو وہی ہیں ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت سے مقصود مخلص مؤمنوں  کی تعریف اور منافقوں  کی مذمت بیان کرنا ہے،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ ایمان والے تو وہی ہیں  جو  اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لائیں  اور جب کسی ایسے کام پر رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ہوں  جو انہیں  رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  جمع کرنے والا ہو جیسے کہ جہاد، جنگی تدبیر، جمعہ، عیدین، مشورہ اور ہر اجتماع جو  اللہ تعالیٰ کے لئے ہو، تواس وقت تک نہ جائیں  جب تک ان سے اجازت نہ لے لیں  یا وہ خود انہیں  اجازت نہ دے دیں ۔ بیشک وہ جو آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اجازت مانگتے ہیں  وہی ہیں  جو  اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لاتے ہیں ، ان کا اجازت چاہنا فرمانبرداری کا نشان اور صحتِ ایمان کی دلیل ہے۔ پھر اے محبوب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جب وہ اپنے کسی کام کے لیے آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جانے کی اجازت مانگیں  تو ان میں  جسے تم چاہو اجازت دے دو اور ان کے لیے  اللہ تعالیٰ سے معافی مانگو، بیشک  اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔( صاوی، النور، تحت الآیۃ: ۶۲، ۴ / ۱۴۲۰-۱۴۲۱، مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۶۲، ص۷۹۲، ملتقطاً)

آیت ’’اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ‘‘ سے معلوم ہونے والے اہم اُمور:

             اس آیت سے چند باتیں  معلوم ہوئیں ۔

(1) …حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مجلس پاک کا ادب یہ ہے کہ وہاں  سے اجازت کے بغیر نہ جائیں ، اسی لئے اب بھی روضۂ مُطَہَّر ہ پر حاضری دینے والے رخصت ہوتے وقت اَلْوِداعی سلام عرض کرتے ہوئے اجازت طلب کرتے ہیں ۔

(2)…اس آیت سے دربارِ رسول صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ادب بھی معلوم ہوا کہ آئیں  بھی اجازت لے کر اورجائیں  بھی اِذن حاصل کرکے، جیسا کہ غلاموں  کا مولیٰ کے دربار میں  طریقہ ہوتا ہے۔

(3)…سلطانِ کونین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دربار کے آداب خود رب تعالیٰ سکھاتا ہے بلکہ اسی نے ادب کے قوانین بنائے۔

(4)…سرکارِ دو عالم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اجازت دینے یا نہ دینے میں  مختار ہیں ۔

(5)… حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شفاعت برحق ہے کہ رب تعالیٰ نے حضورِ انور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو شفاعت کا حکم دیا ہے۔

(6)… اللہ تعالیٰ مسلمانوں  پر بڑامہربان ہے کہ اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہ ِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ان کے لئے دعائے خیر کا حکم دیتا ہے۔

(7)…ہر مؤمن سید المرسلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شفاعت کا      محتاج ہے کیونکہ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ  تَعَالٰی عَنْہُمْ جو اَولیائُ  اللہ کے سردار ہیں  ان کے متعلق شفاعت کا حکم دیا گیا تو اوروں  کا کیا پوچھنا۔

(8)… اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ افضل یہی ہے کہ حاضر رہیں  اور اجازت طلب نہ کریں ۔ یاد رہے کہ اساتذہ و مشائخ اور دینی پیشواؤں  کی مجلس سے بھی اجازت کے بغیر نہ جانا چاہیے۔

لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ-قَدْ یَعْلَمُ اللّٰهُ الَّذِیْنَ یَتَسَلَّلُوْنَ مِنْكُمْ لِوَاذًاۚ-فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖۤ اَنْ تُصِیْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ یُصِیْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(63)

ترجمہ: کنزالعرفان

۔ (اے لوگو!) رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ بنالو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے، بیشک اللہ ان لوگوں کو جانتا ہے جو تم میں سے کسی چیز کی آڑ لے کر چپکے سے نکل جاتے ہیں تو رسول کے حکم کی مخالفت کرنے والے اس بات سے ڈریں کہ انہیں کوئی مصیبت پہنچے یا انہیں دردناک عذاب پہنچے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَا تَجْعَلُوْا: نہ بنالو۔} ارشاد فرمایا کہ اے لوگو!میرے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پکارنے کو آپس میں  ایسا نہ بنالو جیسے تم ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔اس کا ایک معنی یہ ہے کہ اے لوگو!میرے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پکارنے کو آپس میں  ایسا معمولی نہ بنالو جیسے تم میں  سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے کیونکہ جسے رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پکاریں  اس پر جواب دینا اور عمل کرنا واجب اور ادب سے حاضر ہونا لازم ہوجاتا ہے اور قریب حاضر ہونے کے لئے اجازت طلب کر ے اور اجازت سے ہی واپس ہو۔دوسرا معنی یہ ہے کہ اے لوگو! میرے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نام لے کر نہ پکارو بلکہ تعظیم،تکریم، توقیر، نرم آواز کے ساتھ اور عاجزی و انکساری سے انہیں  ا س طرح کے الفاظ کے ساتھ پکارو: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ، یَانَبِیَّ اللّٰہِ، یَاحَبِیْبَ اللّٰہِ، یَااِمَامَ الْمُرْسَلِیْنَ، یَارَسُوْلَ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، یَاخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ظاہری حیاتِ طیبہ میں  اور وصالِ ظاہری کے بعد بھی انہیں  ایسے الفاظ کے ساتھ نِدا کرنا جائز نہیں  جن میں  ادب و تعظیم نہ ہو۔یہ بھی معلوم ہو اکہ جس نے بارگاہِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حقیر سمجھا وہ کافر ہے اور دنیا وآخرت میں  ملعون ہے۔( بیضاوی، النور، تحت الآیۃ: ۶۳، ۴ / ۲۰۳، خازن، النور، تحت الآیۃ: ۶۳، ۳ / ۳۶۵، صاوی، النور، تحت الآیۃ: ۶۳، ۴ / ۱۴۲۱، ملتقطاً)

            اسی لئے نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ’’یا محمد‘‘ کہہ کر پکارنے کی اجازت نہیں ۔ لہٰذا اگر کسی نعت وغیرہ میں  اس طرح لکھا ہوا ملے تو اسے تبدیل کردینا چاہیے۔

            نوٹ:حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ’’یا محمد‘‘ کہہ کر پکارنے سے متعلق مزید تفصیل ’’صراط الجنان‘‘ کی جلد1،صفحہ48پر ملاحظہ فرمائیں ۔

{قَدْ یَعْلَمُ اللّٰهُ: بیشک  اللہ جانتا ہے۔} شانِ نزول :جمعہ کے دن منافقین پر مسجد میں  ٹھہر کر نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خطبے کا سُننا گراں  ہوتا تھا تو وہ چپکے چپکے، آہستہ آہستہ صحابہ ٔکرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ کی آڑ لے کر سرکتے سرکتے مسجد سے نکل جاتے تھے، اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ بیشک  اللہ تعالیٰ ان لوگوں  کو جانتا ہے جو تم میں سے کسی چیز کی آڑ لے کر چپکے سے نکل جاتے ہیں  تو میرے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم سے اِعراض کرنے والے اور ان کی اجازت کے بغیر چلے جانے والے اس بات سے ڈریں  کہ انہیں  دنیا میں  تکلیف، قتل، زلزلے، ہولناک حوادث، ظالم بادشاہ کا مُسلَّط ہونا یا دل کا سخت ہو کر معرفت ِالٰہی سے محروم رہنا وغیرہ کوئی مصیبت پہنچے یا انہیں  آخرت میں  دردناک عذاب پہنچے۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۶۳، ۳ / ۳۶۵، مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۶۳، ص۷۹۲، ملتقطاً)

اَلَاۤ اِنَّ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-قَدْ یَعْلَمُ مَاۤ اَنْتُمْ عَلَیْهِؕ-وَ یَوْمَ یُرْجَعُوْنَ اِلَیْهِ فَیُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوْاؕ-وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ(64)

ترجمہ: کنزالعرفان

سُن لو!بیشک اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، بیشک وہ جانتا ہے جس حال پر تم ہو اور اس دن کو (جانتا ہے) جس میں لوگ اس کی طرف پھیرے جائیں گے تو وہ انہیں بتادے گا جو کچھ انہوں نے کیا اور اللہ ہر شے کو جاننے والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَا: سُن لو!} اس آیت میں   اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت و شان بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ سن لو!جو کچھ آسمانوں  اور زمین میں  ہے سب کا مالک  اللہ تعالیٰ ہی ہے، بیشک وہ تمہارے ہر اُس حال کو جانتا ہے جس پر تم ہو یعنی ایمان پر ہویا نفاق پر اور وہ اس دن کوجانتا ہے جس میں  لوگ اس کی طرف جزا کے لئے پھیرے جائیں  گے اور وہ دن روزِ قیامت ہے تو وہ انہیں  بتادے گا جو کچھ اچھا بُرا عمل انہوں  نے کیا اور  اللہ تعالیٰ ہر شے کو جاننے والا ہے اس سے کچھ چھپا نہیں ۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۶۴، ۳ / ۳۶۵، مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۶۴، ص۷۹۳، ملتقطاً)




Scroll to Top