سُوْرَۃ نُوح

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ اَنْ اَنْذِرْ قَوْمَكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(1)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا کہ اس وقت سے پہلے اپنی قوم کو ڈرا کہ ان پر دردناک عذاب آئے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ : بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا۔} حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم بتوں  کی پُجاری تھی ، اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجااور انہیں  یہ حکم دیاکہ وہ اپنی قوم کو پہلے سے ہی ڈرادیں  کہ اگر وہ ایمان نہ لائے تو ان پر دنیا و آخرت کا دردناک عذاب آئے گا تاکہ ان کے لئے اصلاً کوئی عذر باقی نہ رہے۔یاد رہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام وہ سب سے پہلے رسول ہیں  جنہوں  نے کفار کو تبلیغ کی اور سب سے پہلے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر ہی دُنْیَوی عذاب آیا۔( سمرقندی، نوح، تحت الآیۃ: ۱، ۳ / ۴۰۶، جلالین، نوح، تحت الآیۃ: ۱، ص۴۷۳، روح البیان، نوح، تحت الآیۃ: ۱، ۱۰ / ۱۷۱، ملتقطاً)

          نوٹ:لوگوں  میں  مذہبی اختلاف کی ابتداء اور کفار کی طرف اَنبیاء اور رُسل عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  مبعوث فرمائے جانے کی شروعات کا بیان سورۂ بقرہ کی آیت نمبر213اور سورۂ یونس کی آیت نمبر19 کے تحت مذکور تفسیر میں  گزر چکا ہے اور حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ سورۂ اعراف ، سورۂ ہود اور ان کے علاوہ متعدد سورتوں  میں  بیان ہو چکا ہے۔

قَالَ یٰقَوْمِ اِنِّیْ لَكُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ(2)اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اتَّقُوْهُ وَ اَطِیْعُوْنِ(3)یَغْفِرْ لَكُمْ مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ وَ یُؤَخِّرْكُمْ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّىؕ-اِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ اِذَا جَآءَ لَا یُؤَخَّرُۘ-لَوْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(4)

ترجمہ: کنزالعرفان

اس نے فرمایا: اے میری قوم!بیشک میں تمہارے لیے کھلاڈر سنانے والا ہوں ۔کہ اللہ کی بندگی کرو اور اس سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔وہ تمہارے کچھ گناہ بخش دے گا اور ایک مقررہ مدت تک تمہیں مہلت دے گا بیشک اللہ کی مقررہ مدت جب آجائے تو اسے پیچھے نہیں کیا جاتا ۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر تم جانتے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ قَالَ یٰقَوْمِ: اس نے فرمایا: اے میری قوم!} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات میں  حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کی طرف سے اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کے بارے میں  بیان کیا گیا ہے،چنانچہ ان آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا کہ’’ اے میری قوم!میں  تمہیں  اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب سے کھلاڈر سنانے والا ہوں  اور تمہیں  حکم دیتا ہوں  کہ تم اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیّت کا اقرار کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ اوراس کی نافرمانیوں  سے بچ کراس سے ڈرو تا کہ وہ تم پر غضب نہ فرمائے اور ان تمام باتوں  میں  میرا حکم مانو جنہیں  کرنے کا کہوں  اور جنہیں  کرنے سے منع کروں ۔ اگر تم نے میرے احکامات کی تعمیل کی اور جو چیزیں  دے کر میں  تمہاری طرف بھیجا گیا ہوں ، تم نے ان کی تصدیق کی تو اللّٰہ تعالیٰ تمہارے کچھ وہ گناہ بخش دے گا جو تم سے ایمان لانے تک صادر ہوئے ہوں  گے یا وہ گناہ بخش دے گا جو بندوں  کے حقوق سے متعلق نہ ہوں  گے اور اللّٰہ تعالیٰ موت کے وقت تک تمہیں  مہلت دے گا کہ اس دوران تم پر قحط وغیرہ کی صورت میں  کوئی عذاب نہ فرمائے گا لہٰذا تم عذاب آنے سے پہلے اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت و عبادت کرنے میں  جلدی کر لو کیونکہ جب اللّٰہ تعالیٰ کا وعدہ آجاتا ہے تو اسے مُؤخَّر نہیں  کیا جاتا ، اگر تم اس بات کو جانتے تو ضرور ایمان لے آتے۔( خازن ، نوح ، تحت الآیۃ : ۲-۴ ، ۴ / ۳۱۱ ، مدارک، نوح، تحت الآیۃ: ۲-۴، ص۱۲۸۲، ابن کثیر، نوح، تحت الآیۃ: ۲-۴، ۸ / ۲۴۵، ملتقطاً)

قَالَ رَبِّ اِنِّیْ دَعَوْتُ قَوْمِیْ لَیْلًا وَّ نَهَارًا(5)فَلَمْ یَزِدْهُمْ دُعَآءِیْۤ اِلَّا فِرَارًا(6)وَ اِنِّیْ كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوْۤا اَصَابِعَهُمْ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ وَ اسْتَغْشَوْا ثِیَابَهُمْ وَ اَصَرُّوْا وَ اسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًا(7)ثُمَّ اِنِّیْ دَعَوْتُهُمْ جِهَارًا(8)ثُمَّ اِنِّیْۤ اَعْلَنْتُ لَهُمْ وَ اَسْرَرْتُ لَهُمْ اِسْرَارًا(9)

ترجمہ: کنزالعرفان

عرض کی: اے میرے رب!بیشک میں نے اپنی قوم کو رات دن دعوت دی۔تو میرے بلانے سے ان کے بھاگنے میں ہی اضافہ ہوا۔اوربیشک میں نے جتنی بار انہیں بلایاتا کہ توانہیں بخش دے توانہوں نے اپنے کانوں میں اپنی انگلیاں ڈال لیں اور اپنے کپڑے اوڑھ لیے اوروہ ڈٹ گئے اور بڑا تکبر کیا۔پھر یقینا میں نے انہیں بلند آواز سے دعوت دی۔پھر یقینا میں نے ان سے اعلانیہ بھی کہا اور آہستہ خفیہ بھی کہا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ قَالَ رَبِّ: عرض کی: اے میرے رب!۔} یہاں  سے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف سے اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  کی گئی مُناجات بیان فرمائی گئی ہیں  چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی چار آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم تک اللّٰہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا اوراس چیز سے ڈرایا جس سے ڈرانے کا اللّٰہ تعالیٰ نے حکم دیا تھاتو قوم نے ان کی بات نہ مانی اور حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے جو احکامات لے کر آئے تھے انہیں  رد کر دیا،اس پر حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  عرض کی: ’’اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، (تو جانتا ہے کہ) میں  نے اپنی قوم کو رات دن تیری توحید اور تیری عبادت کی طرف بلایا،تیرے عذاب اور تیری قدرت سے ڈرایا لیکن (ان کے طبعی فتور کی بنا پر) میرے بلانے سے ان کے بھاگنے میں  ہی اضافہ ہوا اور جتنی انہیں  ایمان لانے کی ترغیب دی گئی اُتنی ہی اِن کی سرکشی بڑھتی گئی اور میں  نے جتنی بار انہیں  تیری وحدانیَّت کا اقرار کرنے، تیرے احکامات پر عمل کرنے اور تیرے علاوہ تمام معبودوں  سے براء ت کا اظہار کرنے کی طرف بلایاتا کہ توانہیں  بخش دے توانہوں  نے اپنے کانوں  میں  انگلیاں  ڈال لیں  تاکہ میری دعوت کو سن نہ سکیں  اور اپنے کپڑے اوڑھ لیے اور منہ چُھپالئے تاکہ مجھے دیکھ نہ سکیں  کیونکہ انہیں  اللّٰہ تعالیٰ کے دین کی طرف نصیحت کرنے والے کو دیکھنا بھی گوارا نہ تھا اور وہ اپنے شرک و کفر پر ڈٹ گئے اور بڑا تکبُّر کیا اور میری دعوت کو قبول کرنا اپنی شان کے خلاف جانا۔ پھر میں  نے انہیں  محفلوں  میں  ا س طرف بلند آواز سے ا علانیہ بلایا جس طرف بلانے کا تو نے مجھے حکم دیاتھا، پھر میں  نے ان سے اعلانیہ بھی کہا اور اعلانیہ دعوت دینے کی تکرار بھی کی اور ایک ایک سے آہستہ اور خفیہ بھی کہا اور دعوت دینے میں  کوئی کسر نہ چھوڑی۔( تفسیر طبری ، نوح ، تحت الآیۃ : ۵-۹ ، ۱۲ / ۲۴۷-۲۴۸، مدارک، نوح، تحت الآیۃ: ۵-۹، ص۱۲۸۳، خازن، نوح، تحت الآیۃ: ۵-۹، ۴ / ۳۱۲، ملتقطاً)

فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْؕ-اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًا(10)یُّرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْكُمْ مِّدْرَارًا(11)وَّ یُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ وَ یَجْعَلْ لَّكُمْ جَنّٰتٍ وَّ یَجْعَلْ لَّكُمْ اَنْهٰرًاﭤ(12)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو میں نے کہا: (اے لوگو!) اپنے رب سے معافی مانگو، بیشک وہ بڑا معاف فرمانے والا ہے۔وہ تم پر موسلا دھار بارش بھیجے گا۔اور مالوں اور بیٹوں سے تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لیے باغات بنادے گا اور تمہارے لیے نہریں بنائے گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ : تو میں  نے کہا: اپنے رب سے معافی مانگو۔} یہاں  سے یہ بتایاگیا ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو ترغیب دلا کر بھی اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  کفر و شرک سے توبہ کرنے کی دعوت دی ، چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کاخلاصہ یہ ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم لمبے عرصے تک آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلاتی رہی تو اللّٰہ تعالیٰ نے اُن سے بارش روک دی اور چالیس سال تک ان کی عورتوں  کو بانجھ کردیا، ان کے مال ہلاک ہوگئے اور جانور مرگئے، جب ان کا یہ حال ہوا تو حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا: ’’اے لوگو! تم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ کفر و شرک کرنے پر اس سے معافی مانگو اور اللّٰہ تعالیٰ پر ایمان لا کر اس سے مغفرت طلب کرو تاکہ اللّٰہ تعالیٰ تم پر اپنی رحمتوں  کے دروازے کھول دے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت اور عبادت میں  مشغول ہونا خیر و برکت اور وسعت ِرزق کا سبب ہوتا ہے اور کفر سے دنیا بھی برباد ہو جاتی ہے، بیشک اللّٰہ تعالیٰ اُسے بڑا معاف فرمانے والا ہے جو (سچے دل سے) اس کی بارگاہ میں  رجوع کرے، اگر تم توبہ کر لو گے اور اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیَّت کا اقرار کرکے صرف اسی کی عبادت کرو گے تو وہ تم پر موسلا دھار بارش بھیجے گا اور مال اور بیٹوں  میں  اضافے سے تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لیے باغات بنادے گا اور تمہارے لیے نہریں  بنائے گا تاکہ ان سے تم اپنے باغات اور کھیتیوں  کو سیراب کرو۔( تفسیر طبری ، نوح ، تحت الآیۃ : ۱۰-۱۲ ، ۱۲ / ۲۴۹ ، خازن ، نوح ، تحت الآیۃ: ۱۰-۱۲، ۴ / ۳۱۲، مدارک، نوح، تحت الآیۃ: ۱۰-۱۲، ص۱۲۸۳، ملتقطاً)

اِستغفار کرنے کے دینی اور دُنْیَوی فوائد

             اس سے معلوم ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  اِستغفار کرنے اور اپنے گناہوں  سے توبہ کرنے سے بے شمار دینی اور دُنْیَوی فوائد حاصل ہوتے ہیں ۔اِستغفار کرنے کے بارے میں ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے

وَ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ یَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا (النساء:۱۱۰)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو کوئی برا کام کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللّٰہ سے مغفرت طلب کرے تو اللّٰہ کو بخشنے والا مہربان پائے گا۔

            اورارشاد فرمایا:’’ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ‘‘(انفال:۳۳)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللّٰہ انہیں  عذاب دینے والا نہیں  جبکہ وہ بخشش مانگ رہے ہیں ۔

            اور ارشاد فرمایا: ’’وَ اَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ یُمَتِّعْكُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى‘‘ (ہود:۳)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور یہ کہ اپنے رب سے معافی مانگو پھر اس کی طرف توبہ کروتو وہ تمہیں  ایک مقررہ مدت تک بہت اچھا فائدہ دے گا۔

             حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا: وَ یٰقَوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ یُرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْكُمْ مِّدْرَارًا وَّ یَزِدْكُمْ قُوَّةً اِلٰى قُوَّتِكُمْ (ہود:۵۲)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اے میری قوم! تم اپنے رب سے معافی مانگو پھر اس کی بارگاہ میں  توبہ کرو تووہ تم پرموسلادھار بارش بھیجے گا اور تمہاری قوت کے ساتھ مزید قوت زیادہ کرے گا۔

             اورحضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ   اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے استغفار کو اپنے لئے ضروری قرار دیا تو اللّٰہ تعالیٰ اسے ہر غم اور تکلیف سے نجات دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں  سے اسے وہم وگمان بھی نہ ہو گا۔( ابن ماجہ، کتاب الادب، باب الاستغفار، ۴ / ۲۵۷، الحدیث: ۳۸۱۹)

            یاد رہے کہ اولاد کے حصول،بارش کی طلب،تنگدستی سے نجات اور پیداوار کی کثرت کے لئے استغفار کرنا بہت مُجَرَّبْ قرآنی عمل ہے۔اسی سلسلے میں  یہاں  دو حکایات ملاحظہ ہوں ،چنانچہ حضرت ِامامِ حسن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ایک مرتبہ حضرت امیر ِمعاویہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس تشریف لے گئے تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے حضرت امیر ِمعاویہ    رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ایک ملازم نے کہا کہ میں  مالدار آدمی ہوں  مگر میرے ہاں کوئی اولاد نہیں ، مجھے کوئی ایسی چیز بتائیے جس سے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ مجھے اولاد دے۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: استغفار پڑھا کرو۔ اس نے استغفار کی یہاں  تک کثرت کی کہ روزانہ سا ت سو مرتبہ استغفار پڑھنے لگا، اس کی برکت سے اس شخص کے ہاں  دس بیٹے ہوئے، جب یہ بات حضرت امیر ِمعاویہ   رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو معلوم ہوئی تو انہوں  نے اس شخص سے فرمایا کہ تو نے حضرتِ امام حسن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے یہ کیوں  نہ دریافت کیا کہ یہ عمل حضور نے کہاں  سے فرمایا ۔دوسری مرتبہ جب اس شخص کو حضرتِ امام حسن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تو اس نے یہ دریافت کیا ۔حضرتِ امام حسن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ تو نے حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا قول نہیں  سنا جو اُنہوں نے فرمایا: ’’ وَ یَزِدْكُمْ قُوَّةً اِلٰى قُوَّتِكُمْ ‘‘ اور حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ ارشاد نہیں  سنا: یُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ ۔( مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۵۲، ص۵۰۲)

            اسی طرح حضرت حسن بصری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے بارش کی قلت کی شکایت کی ، آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اسے استغفار کرنے کا حکم دیا، دوسرا شخص آیا اور اس نے تنگ دستی کی شکایت کی تو اسے بھی یہی حکم فرمایا، پھر تیسرا شخص آیا اور اُس نے نسل کم ہونے کی شکایت کی تو اس سے بھی یہی فرمایا، پھر چوتھا شخص آیا اور اس نے اپنی زمین کی پیداوار کم ہونے کی شکایت کی تو اس سے بھی یہی فرمایا ۔حضرت ربیع بن صبیح رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  جو کہ وہاں  حاضر تھے انہوں  نے عرض کی: آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس چند لوگ آئے اور انہوں  نے طرح طرح کی حاجتیں  پیش کیں ، آپ نے سب کو ایک ہی جواب دیا کہ استغفار کرو؟تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان کے سامنے یہ آیات پڑھیں: ’’اِسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْؕ-اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًاۙ(۱۰)یُّرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْكُمْ مِّدْرَارًاۙ(۱۱)وَّ یُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ وَ یَجْعَلْ لَّكُمْ جَنّٰتٍ وَّ یَجْعَلْ لَّكُمْ اَنْهٰرًا‘‘(خازن، نوح، تحت الآیۃ: ۱۰-۱۱، ۴ / ۳۱۲، تفسیر ثعلبی، نوح، تحت الآیۃ: ۱۲، ۱۰ / ۴۴)

مَا لَكُمْ لَا تَرْجُوْنَ لِلّٰهِ وَقَارًا(13)وَ قَدْ خَلَقَكُمْ اَطْوَارًا(14)

ترجمہ: کنزالعرفان

تمہیں کیا ہواکہ تم اللہ سے عزت کی امید نہیں رکھتے۔ حالانکہ اس نے تمہیں کئی حالتوں سے گزار کربنایا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{مَا لَكُمْ لَا تَرْجُوْنَ لِلّٰهِ وَقَارًا :  تمہیں  کیا ہواکہ تم اللّٰہ سے عزت کی امید نہیں  رکھتے۔} یہاں  سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف سے ترغیب دینے کی بنا ء پربھی ان کی قوم نے نصیحت حاصل نہ کی تو حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعوت دینے کا ایک اور انداز اختیار کیا،چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا: ’’تمہیں  کیا ہوا ہے کہ تم اللّٰہ تعالیٰ پر ایمان لا کر اس سے عزت حاصل کرنے کی امید نہیں  رکھتے حالانکہ اس نے تمہیں  کئی حالتوں  سے گزار کربنایا کہ پہلے تم نطفہ کی صورت میں  ہوئے ،پھر تمہیں  خون کا لوتھڑا بنایا،پھر گوشت کا ٹکڑا بنایا یہاں  تک کہ ا س نے تمہاری خِلقت کا مل کی، اور تمہارا اپنی تخلیق میں  نظر کرنا ایسی چیز ہے جو کہ اللّٰہ  تعالیٰ کی خالقِیَّت، قدرت اور اس کی وحدانیَّت پر ایمان لانے کوو اجب کرتی ہے۔( خازن، نوح، تحت الآیۃ: ۱۳-۱۴، ۴ / ۳۱۲-۳۱۳، مدارک، نوح، تحت الآیۃ: ۱۳-۱۴، ص۱۲۸۴، ملتقطاً)

اَلَمْ تَرَوْا كَیْفَ خَلَقَ اللّٰهُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا(15)وَّ جَعَلَ الْقَمَرَ فِیْهِنَّ نُوْرًا وَّ جَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا(16)

ترجمہ: کنزالعرفان

کیا تم نے دیکھا نہیں کہ اللہ نے ایک دوسرے کے اوپر کیسے سات آسمان بنائے ؟اور ان میں چاند کو روشن کیا اور سورج کو چراغ بنایا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اَلَمْ تَرَوْا: کیا تم نے دیکھا نہیں  ۔} حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو اپنی جانوں  میں  غور کرنے کی دعوت دینے کے بعد عالَم اور ا س کے عجائبات میں  غور کرنے کی دعوت دی، چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا: ’’ کیا تم نہیں  دیکھتے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ایک دوسرے کے اوپر کیسے سات آسمان بنائے اور ان آسمانوں  میں  چاند کو روشن کیا اور سورج کو چراغ بنایا کہ وہ دنیا کو روشن کرتا ہے اور دنیا والے اس کی روشنی میں  ایسے ہی دیکھتے ہیں  جیسے گھر والے چراغ کی روشنی میں  دیکھتے ہیں ۔ سورج کی روشنی چاند کے نور سے مضبوط تر ہے جیساکہ ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’ هُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَآءً وَّ الْقَمَرَ نُوْرًا ‘‘(یونس:۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: وہی ہے جس نے سورج کو روشنی اور چاند کونور بنایا۔

( مدارک ، نوح ، تحت الآیۃ : ۱۵-۱۶، ص۱۲۸۴، خازن، نوح، تحت الآیۃ: ۱۵-۱۶، ۴ / ۳۱۳، البحر المحیط، نوح، تحت الآیۃ: ۱۵-۱۶، ۸ / ۳۳۴، ملتقطاً)

وَ اللّٰهُ اَنْۢبَتَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَبَاتًا(17)ثُمَّ یُعِیْدُكُمْ فِیْهَا وَ یُخْرِجُكُمْ اِخْرَاجًا(18)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اللہ نے تمہیں سبزے کی طرح زمین سے اُگایا۔پھر تمہیں اسی میں لوٹائے گا اور تمہیں دوبارہ نکالے گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ اللّٰهُ: اور اللّٰہ نے۔} یہاں  سے دوبارہ انسان کی تخلیق سے اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت پر دلیل پیش کی ، چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے تمہارے باپ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو زمین سے پیدا کیا اور تم انہی کی اولاد ہو، پھر اللّٰہ تعالیٰ تمہیں  موت کے بعد اسی میں  لوٹائے گا اور تمہیں  قیامت کے دن اس سے دوبارہ نکالے گا۔( تفسیر کبیر، نوح، تحت الآیۃ: ۱۷، ۱۰ / ۶۵۴، سمرقندی، نوح، تحت الآیۃ: ۱۷-۱۸، ۳ / ۴۰۷-۴۰۸، ملتقطاً)

وَ اللّٰهُ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ بِسَاطًا(19)لِّتَسْلُكُوْا مِنْهَا سُبُلًا فِجَاجًا(20)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اللہ نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا بنایا۔تاکہ تم اس کے وسیع راستوں میں چلو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اللّٰهُ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ بِسَاطًا: اور اللّٰہ نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا بنایا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قوم کو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی نعمتیں  یاد دلاتے ہوئے فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا بنایا تاکہ تم اس کے وسیع راستوں  میں  اس طرح (بآسانی) چلو جس طرح آدمی اپنے بستر پر چلتا ہے۔( تفسیر طبری، نوح، تحت الآیۃ: ۱۹-۲۰، ۱۲ / ۲۵۲، مدارک، نوح، تحت الآیۃ: ۱۹-۲۰، ص۱۲۸۴، ملتقطاً)

قَالَ نُوْحٌ رَّبِّ اِنَّهُمْ عَصَوْنِیْ وَ اتَّبَعُوْا مَنْ لَّمْ یَزِدْهُ مَالُهٗ وَ وَلَدُهٗۤ اِلَّا خَسَارًا(21)وَ مَكَرُوْا مَكْرًا كُبَّارًا(22)وَ قَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِهَتَكُمْ وَ لَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّ لَا سُوَاعًا ﳔ وَّ لَا یَغُوْثَ وَ یَعُوْقَ وَ نَسْرًاﭤ(23)

ترجمہ: کنزالعرفان

نوح نے عرض کی، اے میرے رب!بیشک انہوں نے میری نافرمانی کی اور ایسے کے پیچھے لگ گئے جس کے مال اور اولاد نے اس کے نقصان ہی کو بڑھایا۔اور انہوں نے بہت بڑا مکرو فریب کیا ۔اورانہوں نے کہا:تم اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑنا اور ہرگز وَدّ اور سُواع اور یَغُوث اور یَعُوق اور نَسْر (نامی بتوں ) کو نہ چھوڑنا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ قَالَ نُوْحٌ: نوح نے عرض کی۔} حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو اللّٰہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی اور طرح طرح کے دلائل سے انہیں  تنبیہ کی ،اب یہاں  سے ان لوگوں  کی مختلف قَولی اور فعلی قباحتیں  بیان کی جا رہی ہیں ،چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  عرض کی ’’اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، بیشک انہوں  نے میری نافرمانی کی اور میں  نے انہیں  جو ایمان لانے اور اِستغفار کرنے کا حکم دیا تھا اِس کو اُنہوں نے نہ مانا اور میری نافرمانی کرنے میں اِن کے عام غریب اور چھوٹے لوگ اُن سرکش رئیسوں  اور مال و اولاد والوں  کی پیروی کرنے لگے جن کے مال اور اولاد نے اُن کے نقصان ہی کو بڑھایا اور وہ مال کے غرور میں  مست ہو کر کفر و سرکشی میں  بڑھتے رہے اور ان امیر لوگوں  نے بہت بڑے مکرو فریب کئے کہ انہوں نے مجھے جھٹلایا، لوگوں  کو ایمان قبول کرنے اور میری دعوت سننے سے روکا،مجھے اور میری پیروی کرنے والوں  کو ایذائیں  پہنچائیں ۔( تفسیرکبیر،نوح،تحت الآیۃ: ۲۱، ۱۰ / ۶۵۵، خازن، نوح، تحت الآیۃ: ۲۱-۲۲، ۴ / ۳۱۳، مدارک، نوح، تحت الآیۃ: ۲۱-۲۲، ص۱۲۸۴، ملتقطاً)

مال اور اولاد کی کثرت راہِ راست پر ہونے کی دلیل نہیں :

            اس سے معلوم ہوا کہ مال اور اولاد کی کثرت کسی کے راہِ راست پر ہونے کی دلیل نہیں  بلکہ اکثر اوقات مال اور اولاد کی زیادتی دینی گمراہی اور اُخروی ہلاکت کا سبب بن جاتی ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے مال اور اولاد کے بارے میں  ارشاد فرمایا ہے:

’’وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌۙ-وَّ اَنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِیْمٌ‘‘(انفال:۲۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جان لوکہ تمہارے مال اور تمہاری اولادایک امتحان ہے اوریہ کہ اللّٰہ کے پاس بڑا ثواب ہے۔

             اور کفار کے مال و اولاد کے بارے میں  ارشاد فرمایا: ’’فَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُهُمْؕ-اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ تَزْهَقَ اَنْفُسُهُمْ وَ هُمْ كٰفِرُوْنَ‘‘(توبہ:۵۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو تمہیں  ان کے مال اور ان کی اولاد تعجب میں  نہ ڈالیں ، اللّٰہ یہی چاہتا ہے کہ اِن چیزوں  کے ذریعے دنیا کی زندگی میں اِن سے راحت و آرام دور کردے اور کفر کی حالت میں  اِن کی روح نکلے۔

            اور مال اور اولاد کے حوالے سے مسلمانوں  کو حکم ارشاد فرمایا:’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِۚ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ‘‘(منافقون:۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں  اللّٰہ کے ذکر سے غافل نہ کردیں  اور جو ایسا کرے گاتو وہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں ۔

            لہٰذا مسلمانوں  کو چاہئے کہ کافروں  کے مال و دولت اور آسائشوں  کو دیکھ کر ان سے مرعوب نہ ہوں  اور اپنے مال اور اولاد کی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے ذکر سے غافل نہ ہوں  بلکہ اس کی اطاعت و فرمانبرداری اور عبادت گزاری میں  مصروف رہیں ۔

{وَ قَالُوْا: اورانہوں  نے کہا۔} یعنی اور مالدار کافروں  نے اپنی عوام سے کہا کہ (حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وجہ سے) اپنے معبودوں  کی عبادت ہر گز ترک نہ کرنا اور ہرگز وَدّ ، سُواع ، یَغُوث، یَعُوق اور نَسْر کو نہ چھوڑنا۔

وَدّ اور سُواع وغیرہ بتوں  کی تاریخی حیثیت:

            وَدّ اور سُواع وغیرہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے ان بتوں  کے نام ہیں  جنہیں  وہ پوجتے تھے۔ اُن لوگوں  کے بُت تو بہت تھے مگر یہ پانچ اُن کے نزدیک بڑی عظمت والے تھے ا س لئے بطورِ خاص ان پانچوں  کا یہاں  ذکر کیا گیا۔ و َدّمرد کی صورت پر تھا ، سُواع عورت کی صورت پر ، یَغوث شیر کی شکل میں ، یَعوق گھوڑے کی شکل میں اور نَسر گدھ کی شکل میں  تھا۔بعض مفسرین کے نزدیک یہ بُتحضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم سے منتقل ہو کر عرب میں  پہنچے اور مشرکین کے قبائل میں سے ایک ایک نے ایک ایک بُت کو اپنے لئے خاص کرلیا، جیسا کہ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ ان بتوں  کو طوفان نے مٹی میں  دفن کر دیا تھا تو وہ اس وقت سے مدفون ہی رہے یہاں  تک کہ شیطان نے عرب کے مشرکین کے لئے انہیں  زمین سے نکال دیا۔( خازن، نوح، تحت الآیۃ: ۲۳، ۴ / ۳۱۳-۳۱۴، مدارک، نوح، تحت الآیۃ: ۲۳، ص۱۲۸۵، ملتقطاً)

            اورصحیح بخاری میں  ہے، حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا  فرماتے ہیں  کہ جو بُت حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم میں  پوجے جاتے تھے وہی بعد میں  اہلِ عرب نے اپنے معبود بنا لئے،چنانچہ وَدّ بنی کلب کا بُت تھا جو دَوْمَۃُ الْجَنْدَلْ کے مقام پر رکھا ہو اتھا۔ سُواع بنی ہُذَیل کا بُت تھا، یَغُوث بنی مراد کا بُت تھا ،پھر بنی غُطَیف کا جو سَبا کے پاس جوف میں  تھا۔ یَعُوق ہمدان کا بُت تھا اور نَسْر ذوالکلاع کی آل حِمْیَرْ کا بُت تھا۔ یہ (یعنی وَدّ اور سُواع وغیرہ) حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے نیک آدمیوں  کے نام ہیں ،جب وہ وفات پا گئے تو شیطان نے ان کے دلوں  میں  یہ بات ڈالی کہ جن جگہوں  پر وہ اللّٰہ والے بیٹھا کرتے تھے وہاں  ان کے مُجَسَّمے بنا کر رکھ دو اور ان بتوں  کے نام بھی ان نیک لوگوں  کے نام پر ہی رکھ دو۔لوگوں  نے عقیدت کے طور پر ایسا کر دیا لیکن ان کی پوجا نہیں  کرتے تھے،جب وہ لوگ دنیا سے چلے گئے اور علم بھی کم ہو گیا تو ان مجسموں  کی پوجا ہونے لگ گئی۔( بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ انّا ارسلنا، باب ودّاً ولا سواعاً ولا یغوث ویعوق، ۳ / ۳۶۴، الحدیث: ۴۹۲۰)

             بعض مفسرین فرماتے ہیں  کہ اہلِ عرب تک وہ بُت نہیں  پہنچے بلکہ ان بتوں  کے نام پہنچے اور عرب والوں  نے ان ناموں  کے بعض بُت تراش لئے اور ان کی پوجا کرنے لگ گئے کیونکہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے طوفان کے زمانے میں  دنیا تَہَس نَہَس ہو گئی تھی تو یہ بُت کس طرح باقی رہ سکتے ہیں  اور (جب وہ باقی نہیں  رہے تو) اہلِ عرب کی طرف کس طرح منتقل ہوسکتے ہیں  اور یہ کہنا بھی ممکن نہیں  کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان بتوں  کو کشتی میں  رکھ لیا ہو گا کیونکہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تو بُت شِکَن تھے لہٰذا یہ کس طرح کہا جاسکتا ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بتوں  کی حفاظت کی کوشش کرتے ہوئے انہیں  کشتی میں  رکھ لیا تھا۔( تفسیر کبیر، نوح، تحت الآیۃ: ۲۳، ۱۰ / ۶۵۷، روح البیان، نوح، تحت الآیۃ: ۲۳، ۱۰ / ۱۸۱، ملتقطاً)

            حضرت محمد بن کعب قرظی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  : وَدّ اور سُواع وغیرہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بیٹوں  کے نام ہیں  ،یہ بہت عبادت گزار تھے، جب ان میں  سے ایک شخص کا انتقال ہوا تو لوگ اس پر شدید غمزدہ ہوئے ، یہ حال دیکھ کر شیطان (انسانی شکل میں ) ان کے پاس آیا اور کہا:تم اپنے ساتھی پر غمگین ہو؟ لوگوں  نے جواب دیا: ہاں ۔اس نے کہا:کیا میں  تمہارے لئے اس جیسی تصویر بنا دوں  جسے تم نماز پڑھتے وقت اپنے سامنے رکھ لینا اور جب تم اسے دیکھو تو وہ ساتھی تمہیں  یاد آجائے (اور تمہارے دل کو سکون نصیب ہو) لوگوں  نے کہا: ہمیں  یہ پسند نہیں  کہ نماز پڑھتے وقت ہمارے سامنے کوئی ایسی چیز ہو۔شیطان نے کہا :تو پھر تم اسے مسجد کے آخری کونے میں  رکھ دو۔لوگوں  نے کہا: ہاں  یہ ٹھیک ہے ۔چنانچہ شیطان نے ان کے لئے تصویر بنا دی اور جب پانچوں  اَشخاص کا انتقال ہو گیا تو شیطان نے سب کی تصویریں  بنا کر مسجد کے کونے میں  رکھ دیں ،پھر ایک وقت وہ آیا کہ لوگوں  نے اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت چھوڑ کر ان تصویروں  کی پوجا شروع کر دی یہاں  تک کہ اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بھیجا جنہوں  نے ان لوگوں  کو اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیّت اور عبادت کی طرف دعوت دی۔( روح المعانی، نوح، تحت الآیۃ: ۲۳، ۱۵ / ۱۲۲، ملخصاً)

وَ قَدْ اَضَلُّوْا كَثِیْرًا ﳛ وَ لَا تَزِدِ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا ضَلٰلًا(24)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بیشک انہوں نے بہت سے لوگوں کوگمراہ کردیا اور تو ظالموں کی گمراہی میں ہی اضافہ کر۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ قَدْ اَضَلُّوْا كَثِیْرًا: اور بیشک انہوں  نے بہت سے لوگوں  کوگمراہ کردیا۔} حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جب اپنی قوم کے رئیسوں  کی وہ بات بیان کی جو انہوں  نے اپنی پیروی کرنے والوں  سے کہی تھی تو اس کے بعد عرض کی:اور بیشک انہوں  نے بہت سے لوگوں  کوگمراہ کردیا ہے۔اس کا ایک معنی یہ ہے کہ یہ بُت بہت سے لوگوں  کیلئے گمراہی کا سبب بنے ہیں  اوردوسرا معنی یہ ہے کہ قوم کے رئیسوں  نے بتوں  کی عبادت کرنے کا حکم دے کر بہت سے لوگوں کو گمراہ کردیا ہے۔ اورجب حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو وحی کے ذریعے معلوم ہو گیا کہ جو لوگ ایمان لاچکے ہیں  ان کے علاوہ قوم میں  سے اور لوگ ایمان لانے والے نہیں  ،تب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ دعا کی کہ اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، تو بتوں  کی پوجا کرنے والے مشرکین کی گمراہی میں  ہی اضافہ کر اور اب انہیں  ایمان لانے کی توفیق ہی نہ دے۔( تفسیر کبیر، نوح، تحت الآیۃ: ۲۴، ۱۰ / ۶۵۸، خازن، نوح، تحت الآیۃ: ۲۴، ۴ / ۳۱۴، ملتقطاً)

مِمَّا خَطِیْٓــٴٰـتِهِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا ﳔ فَلَمْ یَجِدُوْا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْصَارًا(25)

ترجمہ: کنزالعرفان

وہ اپنی خطاؤں کی وجہ سے ڈبودیئے گئے پھر آگ میں داخل کیے گئے تو انہوں نے اپنے لیے اللہ کے مقابلے میں کوئی مددگار نہ پائے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ مِمَّا خَطِیْٓــٴٰـتِهِمْ اُغْرِقُوْا: وہ اپنی خطاؤں  کی وجہ سے ڈبودیئے گئے۔} حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا کلام ذکر کرنے کے بعد اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ وہ لوگ اپنی خطاؤں  کی وجہ سے طوفان میں ڈبودیئے گئے، پھر غرق ہونے کے بعد آگ میں  داخل کیے گئے تو انہوں  نے اللّٰہ تعالیٰ کے مقابلے میں  کوئی مددگار نہ پائے جو انہیں  اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب سے بچاسکتے۔( جلالین، نوح، تحت الآیۃ: ۲۵، ص۴۷۵)

 قبر کا عذاب برحق ہے

            اس آیت سے ثابت ہوا کہ قبر کا عذاب برحق ہے کیونکہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم غرق ہونے کے بعد ہی آگ میں  داخل کر دی گئی اور یہ بات واضح ہے کہ یہ جہنم کی آگ نہیں  ہو سکتی کیونکہ اس آگ میں  کفار قیامت کے دن ہی داخل کئے جائیں  گے اور ابھی قیامت واقع نہیں  ہوئی۔ یاد رہے کہ بعض گناہگار مسلمانوں  یا کفار پر ہونے والا قبر کا عذاب زمین میں  دفن ہونے پر ہی مَوقوف نہیں  بلکہ جس انسان کو عذاب ہونا ہے وہ جہاں  بھی مرے اور مرنے کے بعد اس کاجسم کہیں  بھی ہو اسے عذاب ہو گا کیونکہ عذابِ قبر سے مراد وہ عذاب ہے جو مرنے کے بعد ہو چاہئے مردہ زمین میں  دفن ہو یا نہ ہو اور اس عذاب کو عذابِ قبر اس لئے کہتے ہیں  کہ زیادہ تر مُردے زمین میں  ہی دفن کئے جاتے ہیں ۔

گناہگار مسلمانوں  کے لئے عبرت اور نصیحت کا مقام

          اس آیت میں  ان مسلمانوں  کے لئے بھی بڑی نصیحت اور عبرت ہے جو نیکیوں  سے دور اورگناہوں  میں  مصروف رہتے ہیں  کیونکہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر طوفان کا عذاب آنے کی وجہ ان کے گناہ تھے، لہٰذا گناہ کرنے والوں  کو ڈر جانا چاہئے کہ کہیں  گناہوں  کی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ ان کی بھی دنیا میں  ہی گرفت نہ فرما لے،پھر انہیں  قبر و آخرت کے عذاب میں  مبتلا کر دے اور اگر گناہوں  کی وجہ سے ایمان برباد ہو گیا اور کفر کی حالت میں  موت واقع ہوئی تو پھر ہمیشہ کے لئے جہنم کا عذاب بھگتنا پڑے گا۔اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ قَوْمَ نُوْحٍ لَّمَّا كَذَّبُوا الرُّسُلَ اَغْرَقْنٰهُمْ وَ جَعَلْنٰهُمْ لِلنَّاسِ اٰیَةًؕ-وَ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِیْنَ عَذَابًا اَلِیْمًا‘‘ ( فرقان:۳۷)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور نوح کی قوم کو جب انہوں  نے رسولوں  کو جھٹلایاتو ہم نے انہیں  غرق کردیا اور انہیں  لوگوں  کے لیے نشانی بنادیا اور ہم نے ظالموں  کے لیے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔

             اور ارشاد فرمایا: ’’بَلٰى مَنْ كَسَبَ سَیِّئَةً وَّ اَحَاطَتْ بِهٖ خَطِیْٓــٴَـتُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ‘‘(بقرہ:۸۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: کیوں  نہیں ، جس نے گناہ کمایا اور اس کی خطا نے اس کا گھیراؤ کرلیا تو وہی لوگ جہنمی ہیں ، وہ ہمیشہ اس میں  رہیں  گے۔

 اللّٰہ تعالیٰ ہمیں  اپنے اعمال کی اصلاح کرنے ،گناہوں  سے بچنے اور نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔

وَ قَالَ نُوْحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْاَرْضِ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ دَیَّارًا(26)اِنَّكَ اِنْ تَذَرْهُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَكَ وَ لَا یَلِدُوْۤا اِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا(27)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور نوح نے عرض کی، اے میرے رب!زمین پر کافروں میں سے کوئی بسنے والا نہ چھوڑ۔بیشک اگر تو انہیں چھوڑدے گا تویہ تیرے بندوں کو گمراہ کردیں گے اور یہ اولاد بھی ایسی ہی جنیں گے جو بدکار ،بڑی ناشکری ہوگی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ قَالَ نُوْحٌ رَّبِّ: اور نوح نے عرض کی، اے میرے رب!} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آنے کے بعد اور کئی صدیوں  تک تبلیغ کرنے کے باوجود قوم کے کفر پر ہی قائم رہنے کی وجہ سے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یقین ہو گیا کہ یہ لوگ ہدایت پر آنے والے نہیں  تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  عرض کی ’’اے میرے پروردگار! عَزَّوَجَلَّ، زمین پر ان لوگوں  میں  سے کوئی بسنے والا نہ چھوڑ جنہوں  نے تیرے ساتھ کفر کیا اور تیری طرف سے آنے والے احکامات کا انکار کیا۔بیشک اگر تو ان سب کو یا ان میں  سے بعض کو زمین پر چھوڑدے گا اور ہلاک نہ فرمائے گا تویہ تیرے بندوں  کو راہِ حق سے گمراہ کردیں  گے اوریہ اولاد بھی ایسی ہی جنیں  گے جو بدکار اوربڑی ناشکری ہوگی۔( روح البیان، نوح، تحت الآیۃ: ۲۶-۲۷، ۱۰ / ۱۸۴)

رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا وَّ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِؕ-وَ لَا تَزِدِ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا تَبَارًا(28)

ترجمہ: کنزالعرفان

اے میرے رب !مجھے اور میرے ماں باپ کو اور میرے گھر میں حالتِ ایمان میں داخل ہونے والے کو اور سب مسلمان مردوں اور سب مسلمان عورتوں کوبخش دے اور کافروں کی تباہی میں اضافہ فرمادے

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ: اے میرے رب! مجھے بخش دے۔} کفار کے خلاف دعا کرنے کے بعد حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے لئے، اپنے والدین اور مومن مَردوں  اور عورتوں  کے لئے دعا کرتے ہوئے اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  عرض کی: اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، مجھے اور میرے ماں  باپ کو اور میرے گھر میں  ایمان کی حالت میں  داخل ہونے والے کو اور قیامت تک آنے والے سب مسلمان مَردوں  اور سب مسلمان عورتوں  کوبخش دے اور کافروں  کی تباہی میں  اضافہ فرما دے۔ چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا قبول فرمائی اوران کی قوم کے تمام کفار کو عذاب سے ہلاک کردیا۔حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ اللّٰہ تعالیٰ نے کفار کے بارے میں  حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا قبول فرما لی لہٰذا یہ ممکن نہیں  کہ انہوں  نے جو دعا مسلمانوں  کے بارے میں  فرمائی اسے اللّٰہ تعالیٰ قبول نہ فرمائے۔( خازن، نوح، تحت الآیۃ: ۲۸، ۴ / ۳۱۴-۳۱۵، مدارک، نوح، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۱۲۸۶، ملتقطاً)

انتقال کر جانے والوں  کے لئے مغفرت کی دعا کرنی چاہئے:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے والدین مومن تھے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ انتقال کر جانے والے مسلمانوں  کے لئے مغفرت کی دعا کرنی چاہئے کہ اس سے انہیں  فائدہ ہو تا ہے۔ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ   اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میت قبر میں  ڈوبتے ہوئے فریادی کی طرح ہی ہوتی ہے کہ ماں  ،باپ، بھائی یا دوست کی دعائے خیر پہنچنے کی منتظر رہتی ہے،پھر جب اسے دعا پہنچ جاتی ہے تو اسے یہ دعا دنیا اور اس کی تمام نعمتوں  سے زیادہ پیاری ہوتی ہے اور اللّٰہ تعالیٰ زمین والوں  کی دعا سے قبر والوں  کو پہاڑوں  کی مانند ثواب دیتا ہے اور یقیناً زندہ کا مُردوں کے لیے تحفہ ان کے لیے دعائے مغفرت ہے۔( شعب الایمان، الرابع والستون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی زیارۃ القبور، ۷ / ۱۶، الحدیث: ۹۲۹۵)

 

Scroll to Top