سُوْرَۃ ق

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

قٓ ۫ۚ-وَ الْقُرْاٰنِ الْمَجِیْدِ(1)بَلْ عَجِبُوْۤا اَنْ جَآءَهُمْ مُّنْذِرٌ مِّنْهُمْ فَقَالَ الْكٰفِرُوْنَ هٰذَا شَیْءٌ عَجِیْبٌ(2)

ترجمہ: کنزالعرفان

ق، عزت والے قرآن کی قسم۔ بلکہ انہیں اس بات پر تعجب ہوا کہ ان کے پاس انہی میں سے ایک ڈر سنانے والا تشریف لایا تو کافر کہنے لگے: یہ تو عجیب بات ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قٓ } یہ حروفِ مُقَطَّعات میں  سے ایک حرف ہے ،اس کی مراد اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے ۔

{وَ الْقُرْاٰنِ الْمَجِیْدِ: عزت والے قرآن کی قسم۔}اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ عزت والے قرآن کی قسم!ہم جانتے ہیں  کہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر کفار ِمکہ ایمان نہیں  لائے بلکہ انہیں  اس بات پر تعجب ہوا کہ ان کے پاس انہی میں  سے ایک ڈر سنانے والا تشریف لایا جس کی عدالت و امانت اور صدق و راست بازی کو وہ خوب جانتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں  کہ ایسی صفات کا حامل شخص سچا نصیحت کرنے والا ہوتا ہے، اس کے باوجود ان لوگوں  کا سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ڈر سنانے سے تعجب و انکار کرنا قابلِ حیرت ہے۔( خازن، ق، تحت الآیۃ: ۱-۲، ۴ / ۱۷۴، مدارک، ق، تحت الآیۃ: ۱-۲، ص۱۱۵۹، ملتقطاً)

قرآنِ مجید عزت والا ہے :

اس آیت میں  قرآنِ مجید کو عزت والا فرمایاگیا ،یہ دنیامیں بھی عزت والاہے کہ تمام کلاموں  پر فائق ہے او ر آخرت میں  بھی عزت والا کہ اپنے ماننے والے کی شفاعت فرمائے گااور اس کی شفاعت اللہ تعالیٰ قبول بھی فرمائے گا۔

ءَاِذَا مِتْنَا وَ كُنَّا تُرَابًاۚ-ذٰلِكَ رَجْعٌۢ بَعِیْدٌ(3)قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُصُ الْاَرْضُ مِنْهُمْۚ-وَ عِنْدَنَا كِتٰبٌ حَفِیْظٌ(4)

ترجمہ: کنزالعرفان

کیا جب ہم مرجائیں اور مٹی ہوجائیں گے (تو اس کے بعد پھر زندہ کئے جائیں گے) یہ پلٹنا دور ہے۔ ہم جانتے ہیں جو کچھ زمین ان سے گھٹاتی ہے اور ہمارے پاس ایک یاد رکھنے والی کتاب ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ءَاِذَا مِتْنَا وَ كُنَّا تُرَابًا: کیا جب ہم مرجائیں  اور مٹی ہوجائیں  گے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کفارِ مکہ نے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے پر بھی تعجب کیا اور کہا: مرنے کے بعدجب ہمارے جسم کے اَجزاء زمین میں  بکھر جائیں گے اور ہم بوسیدہ ہو کر مٹی ہو جائیں  گے تو پھر کیسے ممکن ہے کہ جیسا ابھی ہمارا جسم ہے اور جس طرح ابھی ہم زندہ ہیں  دوبارہ اسی طرح ہمارا جسم بن جائے اور ہم پھر سے زندہ ہو جائیں  ،اس کا واقع ہونا عقلی طور پربعید ہے اور ایسا ہوتا کبھی دیکھا نہیں  گیا۔کفارِ مکہ کی اس بات کا رد کرتے اور انہیں  جواب دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے’’اُن کے جسم کے جو حصے، گوشت، خون اور ہڈیاں  وغیرہ زمین کھا جاتی ہے ان میں  سے کوئی چیز ہم سے چھپی نہیں  بلکہ ہم ان کے بدن کے ہر حصے کے بارے میں  جانتے ہیں  کہ وہ بکھر کر کہا ں گیا اور کس چیز میں  مل گیا، اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارے پاس ایک یاد رکھنے والی کتاب لوحِ محفوظ ہے جس میں  ان کے اَسمائ، اَعداد اور جو کچھ ان کے جسم میں  سے زمین نے کھایا سب درج،لکھا ہو ااور محفوظ ہے۔جب ہمارے علم کا یہ حال ہے اور ہم انہیں  ویسے ہی زندہ کرنے پر قادر بھی ہیں  جیسے پہلے تھے تو پھر انہیں  پہلے کی طرح دوبارہ زندہ کر دیا جانا عقل سے کیسے دور ہے۔( ابن کثیر ، ق ، تحت الآیۃ : ۳-۴، ۷ / ۳۶۹ ، ابو سعود ، ق، تحت الآیۃ: ۳-۴، ۵ / ۶۱۷، خازن، ق، تحت الآیۃ: ۳-۴، ۴ / ۱۷۴-۱۷۵، ملتقطاً)

انسان کا جسم مرنے کے بعد مٹی ہو جائے گا:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ مرنے کے بعد انسان کا جسم مٹی ہو جائے گا،اس سلسلے میں  یاد رہے کہ انسان کبھی خاک نہیں  ہوتا بلکہ ا س کا بدن خاک ہو جاتا ہے اور وہ بھی سارا بدن نہیں  ہوتا بلکہ اس کے کچھ باریک اصلی اجزاء جنہیں  ’’عُجُبُ الذَّنْب‘‘ کہتے ہیں  ،وہ جلتے اور گلتے نہیں  بلکہ ہمیشہ باقی رہتے ہیں  اور قیامت کے دن انہی اجزا پر جسم کو دوبارہ بنایا جائے گا ،جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’انسا ن کے جسم میں  ایک ایسی ہڈی ہے جسے مٹی کبھی نہیں  کھا سکے گی اور قیامت کے دن اسی پر (بدن کی) ترکیب کی جائے گی ۔صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ ہڈی کون سی ہے؟ ارشاد فرمایا’’عُجُبُ الذَّنْب‘‘۔(مسلم، کتاب الفتن واشراط السّاعۃ، باب مابین النّفختین، ص۱۵۸۱، الحدیث: ۱۴۳(۲۹۵۵))

            اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  ـ:انسان کبھی خاک نہیں  ہوتا بدن خاک ہوجاتا ہے، اور وہ بھی کُل نہیں  ، کچھ اجزائے اصلیہ دقیقہ جن کو عُجُبُ الذَّنْب کہتے ہیں ، وہ نہ جلتے ہیں  نہ گلتے ہیں  ہمیشہ باقی رہتے ہیں  ، اُنھیں  پر روز ِقیامت ترکیب ِجسم ہوگی۔( فتاوی رضویہ، ۹ / ۶۵۸)

 انبیاء،شہداء اوراولیاء اپنے اَجسام اور کفنوں  کے ساتھ زندہ ہیں:

            یاد رہے کہ بعض عام مومنین اور دیگر انتقال کر جانے والوں  کے اَجسام قبر میں  اگرچہ سلامت نہیں  رہتے البتہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، شہداء اور اولیاء ِعظام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کے مبارک جسم قبروں  میں  سلامت رہتے ہیں ، چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اہلِسنَّت کے نزدیک انبیاء وشہداء عَلَیْہِمُ التَّحِیَّۃُ وَ الثَّنَاء اپنے اَبدانِ شریفہ سے زندہ ہیں  بلکہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ابدانِ لطیفہ زمین پر حرام کئے گئے ہیں  کہ وہ ان کو کھائے، اسی طرح شہداء و اولیاء عَلَیْہِمُ الرَّحْمَۃُ وَ الثَّنَاء کے اَبدان وکفن بھی قبور میں  صحیح و سلامت رہتے ہیں  وہ حضرات روزی ورزق دئیے جاتے ہیں ۔

            علامہ سبکی شفاء السقام میں  لکھتے ہیں :شہداء کی زندگی بہت اعلیٰ ہے، زندگی اور رزق کی یہ قسم ان لوگوں  کو حاصل نہیں  ہوتی جوان کے ہم مرتبہ نہیں  اور انبیاء کی زندگی سب سے اعلیٰ ہے اس لیے کہ وہ جسم وروح دونوں  کے ساتھ ہے جیسی کہ دنیا میں  تھی اور ہمیشہ رہے گی۔( شفاء السقام، الباب التاسع فی حیاۃ الانبیاء علیہم الصلاۃ والسلام، الفصل الرابع، ص۴۳۱)

            اور قاضی ثناءُاللہ صاحب پانی پتی تذکرۃُ الموتٰی میں  لکھتے ہیں : اَولِیاءُاللہ کا فرمان ہے کہ ہماری روحیں  ہمارے جسم ہیں ۔ یعنی ان کی اَرواح جسموں  کا کام دیا کرتی ہیں  اور کبھی اَجسام انتہائی لطافت کی وجہ سے ارواح کی طرح ظاہر ہوتے ہیں  کہتے ہیں  کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ  کا سایہ نہ تھا۔ ان کی ارواح زمین آسمان اور جنت میں  جہاں  بھی چاہیں  آتی جاتی ہیں ، اس لیے قبروں  کی مٹی ان کے جسموں  کو نہیں  کھاتی ہے بلکہ کفن بھی سلامت رہتا ہے۔ ابنِ ابی الدنیا نے مالک سے روایت کی ہے کہ مومنین کی ارواح جہاں  چاہتی ہیں  سیر کرتی ہیں ۔ مومنین سے مراد کاملین ہیں  ، حق تعالیٰ ان کے جسموں  کو روحوں  کی قوت عطا فرماتا ہے تو وہ قبروں  میں  نماز ادا کرتے اور ذکر کرتے ہیں  اور قرآنِ کریم پڑھتے ہیں ۔( تذکرۃ الموتیٰ والقبور اردو، ص۷۵)

            اور شیخُ الہند محدّثِ دہلوی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ شرح مشکوٰۃ میں  فرماتے ہیں :اللہ تعالیٰ کے اولیاء اس دارِفانی سے دارِ بقا کی طرف ُکوچ کرگئے ہیں  اور اپنے پروردگار کے پاس زندہ ہیں ، انھیں  رزق دیا جاتاہے، وہ خوش حال ہیں ، اور لوگوں  کو اس کا شعور نہیں ۔( اشعۃ اللمعات، کتاب الجہاد، باب حکم الاسرائ، ۳ / ۴۲۳-۴۲۴)

            اور علامہ علی قاری شرح مشکوٰۃ میں  لکھتے ہیں : اَولِیائُ اللہ کی دونوں  حالتوں  (حیات ومَمات) میں  اصلاً فرق نہیں ، اسی لیے کہا گیا ہے کہ وہ مرتے نہیں  بلکہ ایک گھر سے دوسرے گھر میں  تشریف لے جاتے ہیں (مرقاۃ المفاتیح، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، الفصل الثالث، ۳ / ۴۵۹-۴۶۰، تحت الحدیث: ۱۳۶۶)۔( فتاوی رضویہ، ۹ / ۴۳۱-۴۳۳)

انتقال کے بعد اولیاءِکرام کی زندگی کے5    واقعات:

            علامہ جلا ل الدین سیوطی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے شرح الصُّدُور میں  انتقال کے بعد اولیائے کرام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ  کے بارے میں  چند مُستَنَد رِوایات لکھی ہیں  اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے انہیں  فتاویٰ رضویہ میں  بھی نقل فرمایا ہے ،ان میں  سے5روایات درج ذیل ہیں :

(1)…مشہور ولی حضرت ابو سعید خراز رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  :میں  مکہ مُعَظَّمَہ میں  تھا، بابِ بنی شیبہ پر ایک جوان مردہ پڑا پایا، جب میں  نے اس کی طرف نظر کی تو مجھے دیکھ مسکرایا اورکہا: اے ابو سعید!کیاتم نہیں  جانتے کہ اللہ  تعالیٰ کے پیارے زندہ ہیں  اگر چہ مرجائیں ، وہ تو یہی ایک گھر سے دوسرے گھر میں  منتقل کئے جاتے ہیں ۔( شرح الصدور، باب زیارۃ القبور وعلم الموتی بزوارہم… الخ، تنبیہ، ص۲۰۷)

(2)…حضرت سیدی ابو علی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : میں  نے ایک فقیر کو قبر میں  اتارا، جب کفن کھولا توان کا سرخاک پر رکھ دیا کہ اللہ  تعالیٰ ان کی غُربَت پر رحم کرے۔ فقیر نے آنکھیں  کھول دیں  اور مجھ سے فرمایا:اے ابو علی!تم مجھے اس کے سامنے ذلیل کرتے ہو جو میرے ناز اٹھا تا ہے۔میں  نے عرض کی:اے میرے سردار!کیا موت کے بعد زندگی ہے؟ آپ نے فرمایا :میں  زندہ ہوں ، اور خدا کا ہر پیارا زندہ ہے، بیشک وہ وجاہت وعزت جو مجھے قیامت کے دن ملے گی اس سے میں  تیری مدد کروں  گا۔( شرح الصدور، باب زیارۃ القبور وعلم الموتی بزوارہم… الخ، تنبیہ، ص۲۰۸، ملتقطاً)

(3)… حضرت ابراہیم بن شیبان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  :میرا ایک جوان مرید فوت ہوگیاتو مجھے سخت صدمہ ہوا، جب میں  اسے غسل دینے کے لئے بیٹھاتوگھبراہٹ میں  بائیں  طرف سے ابتداء کی،اس جوان مرید نے وہ کروٹ ہٹا کر اپنی دائیں  کروٹ میری طرف کر دی۔ میں  نے کہا:اے بیٹے!تو سچا ہے، مجھ سے غلطی ہوئی۔(شرح الصدور، باب زیارۃ القبور وعلم الموتی بزوارہم… الخ، تنبیہ، ص۲۰۸)

(4)… حضرت ابو یعقو ب سوسی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  :میں  نے ایک مرید کو نہلانے کے لیے تختے پر لِٹایا تو اس نے میرا انگوٹھا پکڑلیا۔ میں  نے اس سے کہا:اے بیٹے!میرا ہاتھ چھوڑ دے ،بے شک میں  جانتا ہوں  کہ تو مردہ نہیں ، یہ تو صرف مکان بدلنا ہے،اس لئے میرا ہاتھ چھوڑدے ۔(شرح الصدور، باب زیارۃ القبور وعلم الموتی بزوارہم… الخ، تنبیہ، ص۲۰۸)

(5)… حضرت ابو یعقو ب سوسی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  :مکہ مُعَظَّمَہ میں  ایک مرید نے مجھ سے کہا:اے میرے پیر ومرشد!میں  کل ظہر کے وقت مرجاؤں  گا، حضرت ،ایک اشرفی لیں ، آدھی میں  میرا دفن اور آدھی میں  میرا کفن کریں ۔ جب دوسرا دن ہوا اور ظہر کا وقت آیا تو ،مذکورہ مرید نے آ کر طواف کیا، پھر کعبے سے ہٹ کر لیٹا اور انتقال کر گیا،جب میں  نے اسے قبر میں  اتارا تو ا س نے آنکھیں  کھول دیں ۔ میں  نے کہا:کیا موت کے بعدزندگی ہے ؟ اس نے کہا:میں  زندہ ہوں  اور اللہ تعالیٰ کا ہر دوست زندہ ہے۔( شرح الصدور، باب زیارۃ القبور وعلم الموتی بزوارہم… الخ، تنبیہ، ص۲۰۸، ملتقطاً)

لوحِ محفوظ اللہ تعالیٰ کے علم کے لئے نہیں :

            آیت نمبر3کے آخر میں  بیان ہو اکہ اللہ تعالیٰ کے پاس ایک یاد رکھنے والی کتاب ہے،اس کتاب سے لوحِ محفوظ مراد ہے اور یاد رہے کہ لوحِ محفوظ اللہ تعالیٰ کے علم کے لئے نہیں  ہے کیونکہ لوحِ محفوظ میں  تو سب کچھ خود اللہ کے علم سے ہے لہٰذا لوحِ محفوظ خاص بندوں  کو علم دینے کے لئے ہے، لہٰذاجن فرشتوں  کے پاس یا جن انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاءِ عظام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کے علم میں  وہ کتاب ہے انہیں  ان سب باتوں  کی خبر ہے ۔

بَلْ كَذَّبُوْا بِالْحَقِّ لَمَّا جَآءَهُمْ فَهُمْ فِیْۤ اَمْرٍ مَّرِیْجٍ(5)

ترجمہ: کنزالعرفان

بلکہ انہوں نے حق کو جھٹلایا جب وہ ان کے پاس آیا تو وہ ایک ایسی بات میں ہیں جسے قرار نہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{بَلْ كَذَّبُوْا بِالْحَقِّ: بلکہ انہوں نے حق کو جھٹلایا۔} اس آیت میں  حق سے مراد نبوت ہے جس کے ساتھ روشن معجزات ہیں  یا اس سے مراد قرآنِ مجیدہے اور آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کفارِ مکہ نے صرف تعجب ہی نہیں  کیابلکہ ا س سے کہیں  زیادہ خطرناک کام بھی کیا کہ جب ان کے پاس حق آیا تو انہوں  نے سوچے سمجھے بغیر اسے جھٹلا دیا اور وہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور قرآنِ مجید سے متعلق ایک ایسی بات میں  پڑے ہوئے ہیں  جسے قرار نہیں  اور وہ یہ ہے کہ کبھی نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو شاعر ،کبھی جادو گر اور کبھی کاہِن کہتے ہیں  ،اسی طرح قرآنِ پاک کو کبھی شعر،کبھی جادو اور کبھی کہانَت کہتے ہیں،کسی ایک بات پر قائم نہیں  رہتے۔( روح البیان، ق، تحت الآیۃ: ۵، ۹ / ۱۰۵-۱۰۶، مدارک، ق، تحت الآیۃ: ۵، ص۱۱۶۰، جلالین، ق، تحت الآیۃ: ۵، ص۴۲۹، ملتقطاً)

اَفَلَمْ یَنْظُرُوْۤا اِلَى السَّمَآءِ فَوْقَهُمْ كَیْفَ بَنَیْنٰهَا وَ زَیَّنّٰهَا وَ مَا لَهَا مِنْ فُرُوْجٍ(6)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو کیا انہوں نے اپنے اوپر آسمان کو نہ دیکھا ہم نے اسے کیسے بنایا اور سجایا اور اس میں کہیں کوئی شگاف نہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَفَلَمْ یَنْظُرُوْۤا اِلَى السَّمَآءِ فَوْقَهُمْ: تو کیا انہوں  نے اپنے اوپر آسمان کو نہ دیکھا۔} اس آیت سے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے پر اللہ تعالیٰ کے قادر ہونے کے بارے میں  دلائل دئیے جا رہے ہیں  ،چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب کافروں  نے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کا انکار کیا اُ س وقت کیا انہوں  نے اپنے اوپر آسمان کو نہ دیکھا جس کی تخلیق میں  ہماری قدرت کے آثار نمایاں  ہیں  تاکہ وہ اس بات میں  غور کرتے کہ ہم نے اسے کیسے اونچا اور بڑا بنایا اورستونوں  کے بغیر بلند کیااوراسے روشن ستاروں  سے سجایا اور اس میں  کہیں  کوئی شگاف نہیں ،کہیں  کوئی عیب اور کمی نہیں  (تو جو رب تعالیٰ اتنے بڑے آسمان کو بنا سکتا ہے اور ظاہری اسباب کے بغیر اسے بلند کر سکتا اوراس میں  ستاروں  کو روشن کر سکتا ہے اور اتنے طویل و عریض آسمان کو کسی شگاف اور نقص و عیب کے بغیر بنا سکتا ہے وہی رب تعالیٰ مُردوں  کو دوبارہ زندہ کر دے تو اس میں  کیا بعید ہے؟)۔( مدارک، ق، تحت الآیۃ: ۶، ص۱۱۶۰، روح البیان، ق، تحت الآیۃ: ۶، ۹ / ۱۰۶، ملتقطاً)

وَ الْاَرْضَ مَدَدْنٰهَا وَ اَلْقَیْنَا فِیْهَا رَوَاسِیَ وَ اَنْۢبَتْنَا فِیْهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍۭ بَهِیْجٍ(7)تَبْصِرَةً وَّ ذِكْرٰى لِكُلِّ عَبْدٍ مُّنِیْبٍ(8)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور زمین کو ہم نے پھیلایا اور اس میں مضبوط پہاڑ ڈالے اور اس میں ہربارونق جوڑا اگایا۔ ہر رجوع کرنے والے بندے کیلئے بصیرت اور نصیحت کیلئے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ الْاَرْضَ مَدَدْنٰهَا: اور زمین کو ہم نے پھیلایا۔} اس آیت میں  اللہ تعالیٰ کے قادر ہونے کی دوسری دلیل بیان کی جا رہی ہے ،چنانچہ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کیا ان کافروں  نے زمین کی طرف نہیں  دیکھا کہ ہم نے زمین کوپانی کی سطح پر (اس طرح) پھیلایا (کہ پانی میں  گھل کر فنا نہیں  ہوتی ورنہ مٹی پانی میں  گھل جاتی ہے) اورزمین پر بڑے بڑے پہاڑ کھڑے کردئیے ہیں تاکہ زمین قائم رہے اور اس میں  ہر سبزے ،پھلوں  اور پھولوں  کے جوڑے اُگائے جو دیکھنے میں  خوبصورت لگتے ہیں  (تو جو رب تعالیٰ زمین کو پیدا فرما سکتا،پہاڑوں  کے ذریعے اسے قائم رکھ سکتا اور ا س میں  نَشْوْ ونَما کی قوت پیدا کر سکتا ہے تو مُردوں  کو دوبارہ زندہ کر دینا اس کی قدرت سے کہاں  بعید ہے)۔(جمل، ق، تحت الآیۃ: ۷، ۷ / ۲۵۸، روح البیان، ق، تحت الآیۃ: ۷، ۹ / ۱۰۷، ملقتطاً)

{تَبْصِرَةً وَّ ذِكْرٰى: بصیرت اور نصیحت کیلئے۔} یعنی آسمان و زمین اور ان سے متعلق بیان کی گئی تمام چیزیں  ہر اس بندے کے لئے بصیرت اور نصیحت حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں  جو اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی انوکھی چیزوں  اور خلقت کے عجائبات میں  غورو فکر کرکے اس کی طرف رجوع کرنے والاہو۔

وَ نَزَّلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً مُّبٰرَكًا فَاَنْۢبَتْنَا بِهٖ جَنّٰتٍ وَّ حَبَّ الْحَصِیْدِ(9)وَ النَّخْلَ بٰسِقٰتٍ لَّهَا طَلْعٌ نَّضِیْدٌ(10)رِّزْقًا لِّلْعِبَادِۙ-وَ اَحْیَیْنَا بِهٖ بَلْدَةً مَّیْتًاؕ- كَذٰلِكَ الْخُرُوْجُ(11)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ہم نے آسمان سے برکت والا پانی اتارا تو اس سے باغات اور کاٹا جانے والا اناج اُگایا۔ اور کھجور کے لمبے درخت (اگائے) جن کے گچھے اوپر نیچے تہہ لگے ہوئے ہیں ۔ بندوں کی روزی کے لیے اور ہم نے اس سے مردہ شہرکو زندہ کیا۔ یونہی (قبروں سے تمہارا) نکلنا ہوگا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ نَزَّلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً مُّبٰرَكًا: اور ہم نے آسمان سے برکت والا پانی اتارا۔} یہاں  سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کی تیسری دلیل بیان کی جا رہی ہے ،چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم نے آسمان سے بارش کا پانی اتارا جس سے ہر چیز کی زندگی بھی ہے اور بہت خیرو برکت بھی ۔ تو اس پانی سے باغ اُگائے اور وہ اناج اُگایا جسے ہر سال بویا اور کاٹا جاتا ہے جیسے گند م اور جَووغیرہ اور خاص طور پر کھجور کے لمبے درخت اُگائے جن کے گچھے اوپر نیچے تہہ لگے ہوئے ہیں  اور یہ چیزیں  بندوں  کی روزی کے لیے اُگائی ہیں  اور ہم نے بارش کے پانی سے اُس شہر کی سر زمین کو جس کے نباتات خشک ہوچکے تھے پھرسے سبزہ زار کردیا اور جس طرح ہم نے بنجر زمین کو سر سبز و شاداب کیا اسی طرح قبروں  سے تمہارا نکلنا ہوگا تو اللہ تعالیٰ کی قدرت کے یہ آثار دیکھ کر مرنے کے بعد پھر زندہ ہونے کا کیوں  انکار کرتے ہو۔(مدارک، ق، تحت الآیۃ:۹-۱۱،ص۱۱۶۰، خازن، ق، تحت الآیۃ: ۹-۱۱، ۴ / ۱۷۵، جلالین، ق، تحت الآیۃ: ۹-۱۱، ص۴۲۹-۴۳۰، ملتقطاً)

كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّ اَصْحٰبُ الرَّسِّ وَ ثَمُوْدُ(12)وَ عَادٌ وَّ فِرْعَوْنُ وَ اِخْوَانُ لُوْطٍ(13)وَّ اَصْحٰبُ الْاَیْكَةِ وَ قَوْمُ تُبَّعٍؕ-كُلٌّ كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ وَعِیْدِ(14)

ترجمہ: کنزالعرفان

ان (کفارِ مکہ) سے پہلے نوح کی قوم اور رس (نامی کنویں ) والوں نے اور ثمودنے جھٹلایا۔ اور عاد اور فرعون نے اور لوط کے ہم قوم لوگوں نے۔ اور جنگل والوں اور تبع کی قوم نے، ان سب نے رسولوں کو جھٹلایا تو میرے عذاب کا وعدہ ثابت ہوگیا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ: ان سے پہلے نوح کی قوم نے جھٹلایا۔} یہاں  سے ان سابقہ قوموں  کا حال اور انجام بیان کیا جا رہاہے جنہوں  نے اپنے رسولوں  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا تاکہ ان کے حال اور وبال سے کفارِ مکہ نصیحت حاصل کریں  اور ا س کے ساتھ ساتھ انہیں  سابقہ قوموں  کی ہلاکت اور عذاب سے ڈرایا بھی گیا ہے ،چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ ان کفارِ مکہ سے پہلے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم اور رَس والوں  اور حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم ثمودنے اپنے رسولوں  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا ،اسی طرح حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم عاد اور فرعون نے ، حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ہم قوم لوگوں  نے اور حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے جنگل والوں  اور تُبَّع نامی بادشاہ کی قوم نے ، ان سب نے اپنے رسولوں  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا تو ان پر میرے عذاب کا وعدہ ثابت ہوگیا،لہٰذا اے اہلِ مکہ !تم بھی سابقہ قوموں  جیسے عذاب سے ڈرو اور میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نہ جھٹلاؤ۔

            اس میں  حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے تسلی بھی ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کفارِ مکہ کے جھٹلانے سے غمزدہ نہ ہو ں  کیونکہ آپ سے پہلے تشریف لانے والے رسولوں  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ بھی ان کی قوم کے لوگ اسی طرح کیا کرتے تھے ، لہٰذا جس طرح انہوں  نے صبر کیا اسی طرح آپ بھی صبر فرمائیں ، (نیز ہم ہمیشہ رسولوں  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مدد فرماتے اور ان کے دشمنوں  پر عذاب کرتے رہے ہیں  تو آپ کی بھی مدد فرمائیں  گے اور آپ کے دشمنوں  کو بھی عذاب میں  مبتلا کریں  گے)۔( تفسیرکبیر، ق، تحت الآیۃ: ۱۲-۱۴، ۱۰ / ۱۳۲، جلالین، ق، تحت الآیۃ: ۱۲-۱۴، ص۴۳۰، روح البیان، ق، تحت الآیۃ: ۱۲-۱۴، ۹ / ۱۰۹-۱۱۱، ملتقطاً)

اَفَعَیِیْنَا بِالْخَلْقِ الْاَوَّلِؕ-بَلْ هُمْ فِیْ لَبْسٍ مِّنْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ(15)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو کیا ہم پہلی بار بنانے کی وجہ سے تھک گئے؟ بلکہ وہ نئی پیدائش کے متعلق شبے میں ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَفَعَیِیْنَا بِالْخَلْقِ الْاَوَّلِ: تو کیا ہم پہلی بار بنانے کی وجہ سے تھک گئے؟} اس صورت کی ابتدا میں  یہ بیان کیا گیا تھا کہ کفارِ مکہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کا انکار کرتے ہیں  اور اب یہاں  سے ان منکروں  کے انکار کا جواب دیاجارہاہے کہ کیا ہم پہلی بار بنانے کی وجہ سے تھک گئے ہیں  جس کی وجہ سے دوبارہ پیدا کرنا ہمارے لئے دشوار ہے؟ ہم تھکے ہر گز نہیں  بلکہ وہ لوگ موت کے بعد پیدا کئے جانے سے متعلق شبے میں  ہیں ۔( تفسیرکبیر، ق، تحت الآیۃ: ۱۵، ۱۰ / ۱۳۳، خازن، ق، تحت الآیۃ: ۱۵، ۴ / ۱۷۶، ملتقطاً)

کفارِ مکہ کی انتہائی جہالت:

            کفارِ مکہ اس بات کا اقرار کرتے تھے کہ مخلوق کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا،اس کے باوجود وہ اس بات کو محال اور بعید سمجھتے ہیں  کہ اللہ تعالیٰ مخلوق کو دوبارہ پیدا فرمائے گا۔یہ ان کی کمال جہالت تھی کیونکہ ایجاد کے مقابلے میں  دوبارہ بنانا ظاہرنظر میں  زیادہ آسان ہے اور یہ لوگ ایجاد پر تو قدرت مان رہے ہیں  اور اس سے زیادہ آسان پر قدرت کا انکار کر رہے ہیں ۔

وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَ نَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهٖ نَفْسُهٗ ۚۖ-وَ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ(16)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بیشک ہم نے آدمی کو پیدا کیا اور ہم جانتے ہیں جو وسوسہ اس کا نفس ڈالتا ہے اور ہم دل کی رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ: اور بیشک ہم نے آدمی کو پیدا کیا۔} اس آیت میں  اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کے علم کا حال بیان کیا گیا ہے چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم نے انسان کو پیدا کیا اور یہ اللہ تعالیٰ کے قادر ہونے کی ایک اعلیٰ دلیل ہے اور ہم اس وَسْوَسے تک کو بھی جانتے ہیں  جواس کا نفس ڈالتا ہے اور اس کے پوشیدہ اَحوال اور دلوں  کے رازہم سے چھپے ہوئے نہیں  ہیں اور ہم اپنے علم اور قدرت کے اعتبار سے انسان کے دل کی رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں  اور بندے کے حال کو خود اس سے زیادہ جاننے والے ہیں  ۔

            علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  :وَرِید وہ رگ ہے جس سے خون جاری ہو کر بدن کے ہر جُزْوْ میں  پہنچتا ہے ،یہ رگ گردن میں  ہے اورآیت کے معنی یہ ہیں  کہ انسان کے اَجزاء ایک دوسرے سے پردے میں ہیں  مگر اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز پردے میں  نہیں ۔( تفسیر خازن، ق، تحت الآیۃ: ۱۶، ۴ / ۱۷۶)

اِذْ یَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّیٰنِ عَنِ الْیَمِیْنِ وَ عَنِ الشِّمَالِ قَعِیْدٌ(17)

ترجمہ: کنزالعرفان

جب اس سے لینے والے دو فرشتے لیتے ہیں ،ایک دائیں جانب اور دوسرا بائیں جانب بیٹھا ہوا ہے۔



تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِذْ یَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّیٰنِ:  جب اس سے لینے والے دو فرشتے لیتے ہیں ۔} یعنی ہم اس وقت بھی انسان کے دل کی رگ سے زیادہ اس کے قریب ہوتے ہیں  جب انسان کا ہر عمل اور ہر بات لکھنے پر مامور دو فرشتے ا س کا ہر قول اور فعل لکھ لیتے ہیں  ،ان میں  سے ایک فرشتہ دائیں  جانب نیکیاں  لکھنے کیلئے اور دوسرا بائیں  جانب برائیاں  لکھنے کیلئے بیٹھا ہوا ہے۔

اس سے معلوم ہو اکہ اللہ تعالیٰ فرشتوں  کے لکھنے سے بھی بے نیاز ہے کیونکہ وہ سب سے زیادہ پوشیدہ چیز کو بھی جاننے والا ہے اور نفس کے وسوسے تک اس سے چھپے نہیں  ہیں  البتہ یاد رہے کہ فرشتوں  کا لکھنا حکمت کے تقاضے کے مطابق ہے کہ قیامت کے دن ہر شخص کے اعمال نامے اس کے ہاتھ میں  دے دیئے جائیں ۔(خازن، ق، تحت الآیۃ: ۱۷، ۴ / ۱۷۶، مدارک، ق، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۱۱۶۱، ملتقطاً)

مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْهِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ(18)

ترجمہ: کنزالعرفان

وہ زبان سے کوئی بات نہیں نکالتامگر یہ کہ ایک محافظ فرشتہ اس کے پاس تیار بیٹھاہوتا ہے

تفسیر: ‎صراط الجنان

{مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ: جو بات وہ زبان سے نکالتا ہے۔} یعنی بندہ جو بات زبان سے نکالتا ہے اسے لکھنے کیلئے ایک محافظ فرشتہ اس کے پاس تیار ہوتا ہے خواہ وہ بندہ کہیں  بھی ہو۔

اعمال لکھنے والے فرشتوں  سے متعلق3اَہم باتیں :

            یہاں  اعمال لکھنے والے فرشتوں  سے متعلق تین باتیں  ملاحظہ ہوں ،

(1)… قضائے حاجت اور جماع کے وقت فرشتے آدمی کے پاس سے ہٹ جاتے ہیں  ۔

(2)… ان دونوں  حالتوں میں  آدمی کو بات کرنا جائز نہیں  تاکہ اسے لکھنے کے لئے فرشتوں  کو اس حالت میں  اس سے قریب ہونے کی تکلیف نہ ہو۔

(3)… یہ فرشتے آدمی کی ہر بات حتّٰی کہ بیماری کی حالت میں  کراہنا تک لکھتے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ صرف وہی چیزیں  لکھتے ہیں  جن میں  اجرو ثواب یا گرفت و عذاب ہو۔

وَ جَآءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّؕ-ذٰلِكَ مَا كُنْتَ مِنْهُ تَحِیْدُ(19)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور موت کی سختی حق کے ساتھ آگئی ، یہ وہ ہے جس سے تو بھاگتا تھا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ جَآءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ: اور موت کی سختی حق کے ساتھ آگئی۔} اس سے پہلی آیات میں  مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کے منکروں  کارد فرمایا گیا اوراللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت اور علم کا حال بیان فرما کر ان کے خلاف دلائل قائم فرمائے اور اب یہاں  سے انہیں  بتایا جاتا ہے کہ وہ جس چیز کا انکار کرتے ہیں  وہ عنقریب اُن کی موت اور قیامت کے وقت پیش آنے والی ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہ موت کی سختی حق کے ساتھ آگئی جس کی شدت انسان پر غشی طاری کر دیتی اور ا س کی عقل پر غالب آ جاتی ہے اور سکرات کی حالت میں  مرنے والے سے کہا جاتا ہے کہ یہ وہ موت ہے جس سے تو بھاگتا تھا۔

نوٹ:یہاں  آیت میں  موت کی سختی آنے کو ماضی کے صیغہ کے ساتھ بیان فرما کر اس کا قریب ہونا ظاہر کیا گیا ہے اورحق سے مراد حقیقی طور پرموت آنا ہے یااس سے مراد آخرت کا معاملہ ہے جس کا انسان خود معائنہ کرتا ہے ،یااس سے مراد انجامِ کار سعادت اور شقاوت ہے۔( ابو سعود، ق، تحت الآیۃ: ۱۹، ۵ / ۶۲۱، خازن، ق، تحت الآیۃ: ۱۹، ۴ / ۱۷۶، ملتقطاً)

نوٹ:یہاں  اگرچہ بطورِ خاص مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کا انکار کرنے والوں  کا رد ہے البتہ عمومی طور پر اس میں  ہر مسلمان کے لئے بھی نصیحت ہے کیونکہ اسے بھی موت ضرور آنی ہے اوراسے بھی نزع کی سختیوں  کا سامنا ہو گا، لہٰذا اسے چاہئے کہ اپنی موت اور اس وقت کے حالات کو سامنے رکھے اور اپنی آخرت کو بہتر سے بہتر بنانے کی خوب کوشش کرے اور کسی حال میں  بھی اپنی موت سے غافل نہ ہو۔

نزع کی تکلیف کا حال:

یہاں  آیت میں  موت کی سختی کا ذکر ہوا ،اس کے بارے میں  امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ـ: نزع اس تکلیف کا نام ہے جو صرف روح پر اترتی ہے اور تمام اَعضاء کو گھیرلیتی ہے حتّٰی کہ بدن میں  روح کے جتنے اَجزاء ہیں  ان سب کو درد محسوس ہوتا ہے۔اگر کسی شخص کو کانٹا چبھ جائے تو اس سے پہنچنے والا درد رُوح کے صرف اس جز کو پہنچتا ہے جو اس عُضْوْ سے ملا ہوا ہے جس میں  کانٹا چبھتا ہے اور (اس کے مقابلے میں ) جلنے کا اثر زیادہ ہوتا ہے کیونکہ آگ کے اجزاء بدن کے تمام اَجزاء میں  سَرایَت کر جاتے ہیں  جس کی وجہ سے جلنے والے عُضْوْ کا کوئی ظاہری اور باطنی جز آگ سے محفوظ نہیں  رہتا،اس لئے گوشت کے تمام اَجزا ء میں  پھیلے ہوئے روح کے اجزاء جلنے کی تکلیف کو محسوس کرتے ہیں  جبکہ زخم صرف اسی جگہ کو پہنچتا ہے جس تک (کانٹا اور تلوار وغیرہ کا) لوہا پہنچا اس لئے جلنے کی تکلیف زیادہ اور زخم کی تکلیف کم ہوتی ہے اورنزع کی تکلیف نفسِ روح پر حملہ آور ہوتی اور تمام اَعضاء کو گھیر لیتی ہے کیونکہ ہر رگ ، ہر پٹھے، بدن کے ہر حصے، ہر چوٹ ،ہر بال کی جڑ اور کھال کے نیچے سے حتّٰی کہ سر کی چوٹی سے قدم تک ہر جگہ سے روح کو نکالا جاتا ہے، اس لئے تم اس کے کَرب اور تکلیف کا حال نہ پوچھو، حتّٰی کہ بزرگوں  نے فرمایا :موت، تلوار کی مار، آرے کے چیرنے اور قینچی کی کاٹ سے زیادہ سخت ہے کیونکہ بدن کو تلوار سے کاٹا جائے تو صرف اس لیے تکلیف ہوتی ہے کہ بدن کا روح سے تعلق ہے تو جب صرف روح ہی کو صدمہ پہنچے تو کس قدر تکلیف ہوگی۔

         نیزجب کسی شخص کو مارا جاتا ہے تو وہ مدد بھی مانگ سکتا ہے اور چیخ بھی سکتا ہے کیونکہ اس کے دل اور زبان میں  طاقت موجود ہوتی ہے لیکن مرنے والے کی آواز اور چیخ و پکار سخت تکلیف کی وجہ سے ختم ہوجاتی ہے کیونکہ روح نکلنے کی بے انتہاء تکلیف ہوتی ہے اور یہ دل پر سوار ہوکر پوری قوت کو ختم کردیتی ہے، مرنے والے کے اعضاء کمزور پڑجاتے اوراس میں  مدد مانگنے کی طاقت باقی نہیں  رہتی۔ یہ تکلیف عقل کو بھی ڈھانپ لیتی ،اوسان خطا کردیتی اور زبان کوبولنے سے روک دیتی ہے۔ موت کے وقت انسان چاہتا ہے کہ روئے، چلائے اور مدد مانگے، لیکن وہ ایسا نہیں  کرسکتا اور اگر کچھ قوت باقی رہتی بھی ہے تو روح نکلنے کے وقت اس کے حلق اور سینے سے غَرغَرہ کی آواز سنائی دیتی ہے، اس کا رنگ بدل کر مٹیالا ہوجاتا ہے گویا اس سے وہی مٹی ظاہر ہوئی جس سے وہ بنا تھا اور جو اس کی اصل فطرت ہے، اس کی رگیں  کھینچ لی جاتی ہیں  حتّٰی کہ آنکھوں  کے ڈھیلے پلکوں  کی طرف اٹھ جاتے ہیں ، ہونٹ سکڑ جاتے ہیں  ، زبان اپنی جڑ کی طرف کھنچ جاتی ہے اور انگلیاں  سبز ہوجاتی (اور ٹھنڈی پڑجاتی) ہیں  تو ایسے بدن کا حال نہ پوچھو جس کی ہر رگ کھینچ لی گئی ہو (ذرا غور کرو کہ) ایک رگ کھینچی جانے سے سخت تکلیف ہوتی ہے تواس وقت کیا حال ہوگا جب درد میں  مبتلا روح کو بھی کھینچ لیا جائے اور کسی ایک رگ سے نہیں  بلکہ تمام رگوں  سے اسے کھینچا جاتا ہے،پھر ایک ایک کر کے ہر عضو میں  موت واقع ہوتی ہے ، پہلے اس کے قدم ٹھنڈے پڑتے ہیں  پھر پنڈلیاں  اور پھر رانیں  ٹھنڈی پڑ جاتی ہیں  اور ہر عضو میں  نئی سختی اور شدت پیدا ہوتی ہے حتّٰی کہ گلے تک نوبت پہنچتی ہے اوراس وقت اس کی نظر دنیا اور دنیا والوں  سے پھر جاتی ہے ، اس پر توبہ کا دروازہ بند ہوجاتا ہے اور اسے حسرت و ندامت گھیرلیتی ہے۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الباب الثالث، ۵ / ۲۰۷-۲۰۸)

موت سے فرار ممکن نہیں :

زیرِ تفسیر آیت کے آخری حصے سے معلوم ہو اکہ موت سے فرار ممکن نہیں  بلکہ یہ بہر صورت آ کر ہی رہے گی۔ موت کے بارے میں  ایک اورمقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’ نَحْنُ قَدَّرْنَا بَیْنَكُمُ الْمَوْتَ‘‘(واقعہ:۶۰)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: ہم نے تم میں  موت مقرر کردی۔

اور ارشاد فرماتا ہے :

’’كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِ- ثُمَّ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ‘‘(عنکبوت:۵۷)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: ہر جان کو موت کا مز ہ چکھنا ہے پھر ہماری ہی طرف تم پھیرے جاؤگے۔

اور ارشاد فرماتا ہے :

’’ اَیْنَ مَا تَكُوْنُوْا یُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَ لَوْ كُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَةٍ‘‘(النساء:۷۸)

ترجمۂ  کنزُالعِرفان: تم جہاں  کہیں  بھی ہو گے موت تمہیں  ضرور پکڑ لے گی اگرچہ تم مضبوط قلعوں  میں  ہو۔

         اور ارشاد فرماتا ہے :

’’وَ هُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖ وَ یُرْسِلُ عَلَیْكُمْ حَفَظَةًؕ-حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَ هُمْ لَا یُفَرِّطُوْنَ‘‘(انعام:۶۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہی اپنے بندوں  پرغالب ہے اور وہ تم پر نگہبان بھیجتا ہے یہاں  تک کہ جب تم میں  کسی کو موت آتی ہے تو ہمارے فرشتے اس کی روح قبض کرتے ہیں اور وہ کوئی کوتاہی نہیں  کرتے۔

         اور ارشاد فرماتا ہے :

’’قُلْ اِنَّ الْمَوْتَ الَّذِیْ تَفِرُّوْنَ مِنْهُ فَاِنَّهٗ مُلٰقِیْكُمْ ثُمَّ تُرَدُّوْنَ اِلٰى عٰلِمِ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ‘‘(جمعہ:۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم فرماؤ: بیشک وہ موت جس سے تم بھاگتے ہو وہ ضرور تمہیں  ملنے والی ہے پھر تم اس کی طرف پھیرے جاؤ گے جو ہر غیب اور ظاہر کا جاننے والا ہے پھر وہ تمہیں  تمہارے اعمال بتادے گا۔

جب اللہ تعالیٰ نے ہم میں  موت مقرر کر دی اور ہر جان نے موت کا ذائقہ ضرور چکھنا ہے اور بندہ چاہے مضبوط ترین مکانات میں  چلا جائے وہاں  بھی موت اسے ضرور پکڑ لے گی اور اللہ تعالیٰ کے فرشتے روح قبض کرنے میں  کوئی کوتاہی نہیں  کرتے تو پھر موت سے غافل رہنا،نزع کی حالت میں  طاری ہونے والی سختیوں  کی فکر نہ کرنا اور موت کے بعد برزخ اور حشر کی زندگی کے لئے کوئی تیاری نہ کرنا انتہائی نادانی ہے،اے انسان!

وَ نُفِخَ فِی الصُّوْرِؕ-ذٰلِكَ یَوْمُ الْوَعِیْدِ(20)وَ جَآءَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّعَهَا سَآىٕقٌ وَّ شَهِیْدٌ(21)لَقَدْ كُنْتَ فِیْ غَفْلَةٍ مِّنْ هٰذَا فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَآءَكَ فَبَصَرُكَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌ(22)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور صُور میں پھونک ماری جائے گی ،یہ عذاب کی وعید کادن ہے۔ اور ہر جان یوں حاضر ہوگی کہ اس کے ساتھ ایک ہانکنے والا اور ایک گواہ ہوگا۔ بیشک تو اس سے غفلت میں تھا تو ہم نے تجھ سے تیراپردہ اٹھادیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ نُفِخَ فِی الصُّوْرِ: اور صُور میں  پھونک ماری جائے گی۔} موت کا ذکر کرنے کے بعد اب یہاں  سے قیامت واقع ہونے کا ذکر کیا جا رہا ہے ،چنانچہ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن دوسری بار صور میں  پھونک ماری جائے گی تاکہ مرجانے والے دوبارہ زندہ ہو جائیں  (اور اس وقت فرمایا جائے گا) یہ وہ دن ہے جس میں  کافروں  کو عذاب دینے کا اللہ تعالیٰ نے ان سے وعدہ فرمایا تھا۔( خازن، ق، تحت الآیۃ: ۲۰، ۴ / ۱۷۶)

{وَ جَآءَتْ كُلُّ نَفْسٍ: اور ہر جان حاضر ہوگی۔} یہاں  سے قیامت کے ہَولناک واقعات اور حالات بیان کئے جا رہے ہیں  ،چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن ہر جان یوں  حاضر ہوگی کہ اس کے ساتھ ایک فرشتہ چَلانے والا ہوگا جواسے میدانِ محشر کی طرف ہانکے گا اور ایک گواہ ہوگا جو اس کے عملوں کی گواہی دے گا۔

            یہاں  آیت میں  ہانکنے والے اور گواہ سے مراد کون ہے ،اس کے بارے میں  حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  : ہانکنے والا فرشتہ ہوگا اور گواہ خود اس کا اپنا نفس ہو گا۔امام ضحاک کا قول ہے کہ ہانکنے والا فرشتہ ہے اور گواہ اپنے بدن کے اَعضاء ہاتھ پائوں  وغیرہ ہوں  گے ۔ حضرتِ عثمانِ غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے برسرِ منبر فرمایا کہ ’’ہانکنے والا بھی فرشتہ ہے اور گواہ بھی فرشتہ ہے۔( خازن، ق، تحت الآیۃ: ۲۱، ۴ / ۱۷۶، جمل، ق، تحت الآیۃ: ۲۱، ۷ / ۲۶۵، ملتقطاً)

{لَقَدْ كُنْتَ فِیْ غَفْلَةٍ مِّنْ هٰذَا: بیشک تو اس سے غفلت میں  تھا۔} یعنی قیامت کے دن کافر سے کہا جائے گا:بیشک تو دنیا میں  اس قیامت کا منکر تھا تو آج ہم نے تجھ سے وہ پردہ اٹھادیا جو تیرے دل ، کانوں  اور آنکھوں  پر پڑا ہواتھا اور اس کی وجہ سے آج تیری نگاہ تیز ہے کہ تو ان چیزوں  کو دیکھ رہا ہے جن کا دنیا میں  انکار کرتا تھا۔( خازن، ق، تحت الآیۃ: ۲۲، ۴ / ۱۷۷)

وَ قَالَ قَرِیْنُهٗ هٰذَا مَا لَدَیَّ عَتِیْدٌﭤ(23)اَلْقِیَا فِیْ جَهَنَّمَ كُلَّ كَفَّارٍ عَنِیْدٍ(24)مَّنَّاعٍ لِّلْخَیْرِ مُعْتَدٍ مُّرِیْبِﹰ(25)الَّذِیْ جَعَلَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ فَاَلْقِیٰهُ فِی الْعَذَابِ الشَّدِیْدِ(26)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اس کاساتھی فرشتہ کہے گا:یہ ہے جو میرے پاس تیار موجود ہے۔۔(حکم ہوگا) تم دونوں ہر بڑے ناشکرے ہٹ دھرم کوجہنم میں ڈال دو۔ جو بھلائی سے بہت روکنے والا، حد سے بڑھنے والا، شک کرنے والاہے۔ جس نے اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ٹھہرایا تم دونوں اسے سخت عذاب میں ڈال دو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ قَالَ قَرِیْنُهٗ: اور اس کاساتھی فرشتہ کہے گا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ کافر کا ساتھی فرشتہ جو اس کے اعمال لکھنے والا اور اس پر گواہی دینے والا ہے، کہے گا:یہ اس کا اعمال نامہ ہے جو میرے پاس تیار موجود ہے۔ (اس اعمال نامے کے مطابق) اللہ تعالیٰ دو فرشتوں  کوحکم فرمائے گا:تم دونوں  ہر اس شخص کو جہنم میں  ڈال دوجو بڑا ناشکرا، ہٹ دھرم، بھلائی سے بہت روکنے والا، حد سے بڑھنے والا اور دین میں شک کرنے والاہے اور جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور معبود ٹھہرایا،تو تم دونوں  اسے سخت عذاب میں  ڈال دو۔( خازن، ق، تحت الآیۃ: ۲۳-۲۶، ۴ / ۱۷۷، مدارک، ق، تحت الآیۃ: ۲۳-۲۶، ص۱۱۶۲، ملتقطاً)

قَالَ قَرِیْنُهٗ رَبَّنَا مَاۤ اَطْغَیْتُهٗ وَ لٰـكِنْ كَانَ فِیْ ضَلٰلٍۭ بَعِیْدٍ(27)قَالَ لَا تَخْتَصِمُوْا لَدَیَّ وَ قَدْ قَدَّمْتُ اِلَیْكُمْ بِالْوَعِیْدِ(28)مَا یُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ وَ مَاۤ اَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ(29)

ترجمہ: کنزالعرفان

اس کا ساتھی شیطان کہے گا: اے ہمارے رب! میں نے اسے سرکش نہیں بنایا تھا،ہاں یہ خود ہی دور کی گمراہی میں تھا۔ اللہ فرمائے گا: میرے پاس نہ جھگڑو ،میں پہلے ہی تمہاری طرف عذاب کی وعید بھیج چکا تھا۔ میرے ہاں بات بدلتی نہیں اور نہ میں بندوں پر ظلم کرنے والا ہوں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ قَرِیْنُهٗ: اس کے ساتھی شیطان نے کہا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب قیامت کے دن کافرکوجہنم میں  ڈالنے کا حکم دیا جائے گاتو اس وقت وہ کہے گا: اے ہمارے رب !مجھے اس شیطان نے وَرْغَلایا اور کبھی بھی راہِ راست پرچلنے نہ دیا ،ا س لئے میں  بے قصور ہوں ۔اس پروہ شیطان جو دنیا میں  اس پر مُسلَّط تھا، کہے گا: اے ہمارے رب!میں  نے اسے کبھی بھی سر کشی پر مجبورنہیں  کیاتھا بلکہ میں  تواسے فقط مشورہ دیتااوریہ اس پرعمل کرتا رہا اور گمراہی کی عمیق وادیوں  میں  جاگرا،لہٰذا میں  اس سے بَری ہوں  ۔ اس پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: میرے پاس نہ جھگڑو کیونکہ جزا کے مقام اور حساب کی جگہ میں  جھگڑا کچھ نفع نہیں  دے گا اورمیں  نے پہلے ہی اپنی کتابوں  میں  اور اپنے رسولوں  کی زبان سے یہ وعید بھیج دی تھی کہ جو سرکشی کرے گا اسے میں  عذاب دوں  گا اور ا س وعید کے بعد میں  نے تمہارے لئے کوئی حجت باقی نہیں  چھوڑی اور یاد رکھو کہ میرے ہاں  بات بدلتی نہیں  اس لئے تم یہ طمع نہ کرو کہ میں  نے کافروں  کو جہنم میں  داخل کرنے کی جو وعید سنائی تھی اسے میں  بدل دوں  گااور نہ ہی میری یہ شان ہے کہ میں  کسی کو جرم کے بغیر سزا دے کراس پر ظلم کروں ۔( خازن، ق، تحت الآیۃ: ۲۷-۲۹، ۴ / ۱۷۷، مدارک، ق، تحت الآیۃ: ۲۷-۲۹، ص۱۱۶۲-۱۱۶۳، ملتقطاً)

{مَا یُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ: میرے ہاں  بات بدلتی نہیں ۔} یاد رہے کہ دعا اور نیک کام سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک تقدیرِ مُبْرَم حقیقی نہیں  بدلتی بلکہ وہ تبدیلی ہمارے علم کے لحاظ سے ہوتی ہے، لہٰذا اس آیت میں اور حدیث میں  کہ دعا سے قضا بدل جاتی ہے، تعارُض نہیں۔

یَوْمَ نَقُوْلُ لِجَهَنَّمَ هَلِ امْتَلَاْتِ وَ تَقُوْلُ هَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ(30)

ترجمہ: کنزالعرفان

جس دن ہم جہنم سے فرمائیں گے: کیا تو بھر گئی؟ وہ عرض کرے گی: کیاکچھ اور زیادہ ہے؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یَوْمَ نَقُوْلُ لِجَهَنَّمَ: جس دن ہم جہنم سے فرمائیں  گے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی قوم کے سامنے اس دن کا ذکر فرمائیں  جس دن ہم جہنم سے فرمائیں  گے: کیا تو ان لوگوں  سے بھر گئی جنہیں  تجھ میں  ڈالا گیا ہے ؟ وہ بڑے ادب سے عرض کرے گی: ابھی نہیں  بھری بلکہ مجھ میں  اور بھی گنجائش ہے۔آیت کے آخری حصے کے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں  کہ اب مجھ میں  گنجائش باقی نہیں  بلکہ میں  بھر چکی ہوں ،نیزیاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہنم سے وعدہ فرمایا ہے کہ اسے جنوں  اور انسانوں  سے بھردے گا، اس وعدہ کی تحقیق کے لئے جہنم سے یہ سوال فرمایا جائے گا۔( روح البیان، ق، تحت الآیۃ: ۳۰، ۹ / ۱۲۶-۱۲۷، مدارک، ق، تحت الآیۃ: ۳۰، ص۱۱۶۳)

            یہاں  جہنم کے بھرنے سے متعلق ایک حدیث ِپاک ملاحظہ ہو،چنانچہ حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جہنم میں  مسلسل (جنّوں  اور انسانوں  کو) ڈالا جائے گا اور جہنم عرض کرے گی :کیا کچھ اور ہیں  ؟حتّٰی کہ ربُّ الْعِزَّت اس میں  (اپنی شان کے لائق) اپنا قدم رکھ دے گا،پھر جہنم کا ایک حصہ دوسرے حصے سے مل جائے گا اور وہ عرض کرے گی:بس بس،تیری عزت اور تیرے کرم کی قسم!اور جنت میں  مسلسل جگہ زیادہ رہے گی ،پھر اللہ تعالیٰ ایک مخلوق پیدا فرمائے گا جسے جنت کے اضافی حصے میں  رکھے گا۔( مسلم، کتاب الجنّۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب النّار یدخلہا الجبّارون… الخ، ص۱۵۲۵، الحدیث: ۳۸(۲۸۴۸))

وَ اُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِیْنَ غَیْرَ بَعِیْدٍ(31)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور جنت پرہیزگاروں کے قریب لائی جائے گی ، ان سے دور نہ ہوگی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِیْنَ غَیْرَ بَعِیْدٍ: اور جنت پرہیزگاروں  کے قریب لائی جائے گی ، ان سے دور نہ ہوگی۔} کافروں  کاحال بیان کرنے کے بعد اب مؤمنین کاحال بیان کیا جارہاہے ،چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن جنت ان لوگوں  کے قریب لائی جائے گی جو دنیا میں  کفر اور گناہوں  سے بچتے رہے اور جنت ان سے دور نہ ہو گی بلکہ وہ جنت میں  داخل ہونے سے پہلے ا س کی طرف دیکھ رہے ہوں  گے۔( روح البیان، ق، تحت الآیۃ: ۳۱، ۹ / ۱۳۰)

هٰذَا مَا تُوْعَدُوْنَ لِكُلِّ اَوَّابٍ حَفِیْظٍ(32)

ترجمہ: کنزالعرفان

۔(کہا جائے گا:) یہ ہے وہ (جنت) جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا رہا ،ہر رجوع کرنے والے، حفاظت کرنے والے کے لیے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{هٰذَا مَا تُوْعَدُوْنَ: یہ وہ ہے جس کاتم سے وعدہ کیا جاتا رہا۔} جب جنت قریب لائی جائے گی تو مُتّقی لوگوں  سے کہا جائے گا:یہ وہ جنت ہے جس کا رسولوں  کے ذریعے دنیا میں  تم سے وعدہ کیا جاتا اور یہ وعدہ ہر اس شخص کے لئے ہے جو رجوع کرنے والا اور حفاظت کرنے والا ہے ۔

            آیت میں  ’’رجوع کرنے والے‘‘سے مراد کون ہے اس کے بارے میں  مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں  ،ان میں  سے تین قول درج ذیل ہیں  ،

(1)…اس سے مراد وہ شخص ہے جو مَعْصِیَت و نافرمانی کو چھوڑ کر اطاعت اختیار کرے۔

(2)…حضرت سعید بن مسیب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  ’’اَوَّابٍ‘‘ وہ ہے جو گناہ کرے پھر توبہ کرے، پھر اس سے گناہ صادر ہو پھر توبہ کرے ۔

(3)…اس سے مراد وہ شخص ہے جو تنہائی میں  اپنے گناہوں  کو یاد کر کے ان سے مغفرت طلب کرے۔

            اسی طرح ’’حفاظت کرنے والے‘‘ سے کون مراد ہے ،اس کے بارے میں  بھی مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں ، ان میں  سے چار قول درج ذیل ہیں 

(1)…اس سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم کا لحاظ رکھے۔

(2)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  : اس سے مراد وہ شخص ہے جو اپنے آپ کو گناہوں  سے محفوظ رکھے اوراُن سے استغفار کرے ۔

(3)… اس سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کی امانتوں  اور اس کے حقوق کی حفاظت کرے۔

(4)… اس سے مراد وہ شخص ہے جو طاعات کا پابند ہو، خدا اور رسول کے حکم بجالائے اور اپنے نفس کی نگہبانی کرے یعنی ایک دم بھی یادِ الٰہی سے غافل نہ ہو۔( خازن، ق، تحت الآیۃ: ۳۲، ۴ / ۱۷۸)

مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ وَ جَآءَ بِقَلْبٍ مُّنِیْبِﹰ(33)ادْخُلُوْهَا بِسَلٰمٍؕ-ذٰلِكَ یَوْمُ الْخُلُوْدِ(34)لَهُمْ مَّا یَشَآءُوْنَ فِیْهَا وَ لَدَیْنَا مَزِیْدٌ(35)

ترجمہ: کنزالعرفان

جو رحمٰن سے بن دیکھے ڈرا اور رجوع کرنے والے دل کے ساتھ آیا۔ ۔ (ان سے فرمایا جائے گا) سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤ ،یہ ہمیشہ رہنے کا دن ہے۔ ان کے لیے جنت میں وہ تمام چیزیں ہوں گی جو وہ چاہیں گے اور ہمارے پاس اس سے بھی زیادہ ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ: جو رحمٰن سے بن دیکھے ڈرا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دیکھے بغیر اس سے ڈرتا اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے اور ایسے دل کے ساتھ آتا ہے جو اخلاص مند، اطاعت گزار اور صحیح العقیدہ ہو،ایسے لوگوں  سے قیامت کے دن فرمایا جائے گا: بے خوف و خَطر، امن اور اطمینان کے ساتھ جنت میں  داخل ہو جاؤ نہ تمہیں  عذاب ہو گا اور نہ تمہاری نعمتیں  زائل ہوں  گی،یہ جنت میں  ہمیشہ رہنے کا دن ہے اور اب نہ فنا ہے نہ موت۔( روح البیان، ق، تحت الآیۃ: ۳۳-۳۴، ۹ / ۱۳۱-۱۳۲، خازن، ق، تحت الآیۃ: ۳۳-۳۴، ۴ / ۱۷۸، ملتقطاً)

             ا س سے معلوم ہوا کہ جنتی لوگوں  کا بہت عزت و عظمت کے ساتھ جنت میں  داخلہ ہو گا ۔

{وَ لَدَیْنَا مَزِیْدٌ: اور ہمارے پاس اس سے بھی زیادہ ہے۔} یعنی اہلِ جنت جو طلب کریں  گے ہمارے پاس اس سے بھی زیادہ ہے ۔یہاں  زیادہ سے مراد اللہ تعالیٰ کا دیدار اور اس کی تجلّی ہے جس سے وہ لوگ ہر جمعہ کو دارِکرامت میں  نوازے جائیں  گے۔( خازن، ق، تحت الآیۃ: ۳۵، ۴ / ۱۷۸)

وَ كَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْنٍ هُمْ اَشَدُّ مِنْهُمْ بَطْشًا فَنَقَّبُوْا فِی الْبِلَادِؕ-هَلْ مِنْ مَّحِیْصٍ(36)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ان سے پہلے ہم نے کتنی قوموں کوہلاک فرمادیا، وہ گرفت میں ان سے زیادہ سخت تھیں تو انہوں نے شہروں میں کوشش کی کہ کیا کوئی بھاگنے کی جگہ ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ كَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْنٍ: اور ان سے پہلے ہم نے کتنی قوموں  کوہلاک فرما دیا۔} اس سے پہلی آیات میں  جہنم کے دردناک عذاب سے ڈرایا گیا اور اب یہاں  سے دنیا میں  آنے والے عذاب سے کفارِ مکہ کو ڈرایا جا رہا ہے، چنانچہ اس آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کفارِ مکہ سے پہلے اپنے رسولوں  کو جھٹلانے والی کتنی قوموں کو ہم نے ہلاک فرمادیا ، وہ لوگ ان کافروں  سے زیادہ طاقتور اور زبردست تھے اور انہوں  نے ہمارے عذاب سے بچنے کے لئے بہت سے شہروں  میں  پناہ تلاش کرنا چاہی مگر کوئی ایسی جگہ نہ پائی جہاں  ہمارے عذاب سے انہیں  پناہ مل سکے تو کفارِمکہ کو چاہئے کہ سابقہ امتوں  کے طرزِ عمل پر چلنے سے باز رہیں  ورنہ اِن کا انجام بھی اُن جیسا ہوسکتا ہے۔

اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَى السَّمْعَ وَ هُوَ شَهِیْدٌ(37)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک اس میں نصیحت ہے اس کے لیے جو دِل رکھتا ہو یا کان لگائے اوروہ متوجہ ہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى: بیشک اس میں  نصیحت ہے۔} یعنی اس سور ت میں  سابقہ امتوں  کی ہلاکت وغیرہ کا جو بیان ہوا اس میں  بیشک اُس شخص کے لیے نصیحت ہے جو (حق قبول کرنے والا) دِل رکھتا ہو یا قرآن اور نصیحت کو توجہ سے سنے اوردل و دماغ سے متوجہ وحاضر ہو۔( روح البیان، ق، تحت الآیۃ: ۳۷، ۹ / ۱۳۵، ملخصاً)

            اس سے معلوم ہواکہ وعظ و نصیحت اور عبرت سے وہی فائدہ اٹھا سکتا ہے جس کے پاس عبرت پکڑنے والا دل ہو،غور سے سننے والے کان ہوں  اور وہ دل سے حاضر رہ کر وعظ و نصیحت سنے ۔حضرت شبلی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  کہ قرآن کی نصیحتوں  سے فیض حاصل کرنے کے لئے دل ایسے حاضرہونا چاہیے کہ اس میں  پلک جھپکنے کی مقدار بھی غفلت نہ آئے۔

وَ لَقَدْ خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَا فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ﳓ وَّ مَا مَسَّنَا مِنْ لُّغُوْبٍ(38)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بیشک ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے چھ دن میں بنایا اور ہمیں کوئی تھکاوٹ نہ ہوئی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَقَدْ خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَا فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ: اور بیشک ہم نے آسمانوں  اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے چھ دن میں  بنایا۔} شانِ نزول : مفسرین فرماتے ہیں  کہ یہ آیت ان یہودیوں  کے رد میں  نازل ہوئی جو یہ کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین اور ان کے درمیان موجودکائنات کو چھ دن میں  بنایا جس میں  سے پہلا دن اتوار اور آخری دن جمعہ ہے، پھر وہ (مَعَاذَاللہ) تھک گیا اور ہفتے کے دن اس نے عرش پر لیٹ کر آرام کیا۔( خازن، ق، تحت الآیۃ: ۳۸، ۴ / ۱۷۹)اس آیت میں  ان کا رد ہے کہ اللہ تعالیٰ تھکنے سے پاک ہے اور وہ ا س پرقادر ہے کہ ایک آن میں  سارا عالَم بنادے لیکن وہ چونکہ ہر چیز کو حکمت کے تقاضے کے مطابق ہستی عطا فرماتا ہے اس لئے ا س نے کائنات کو چھ دن میں  تخلیق فرمایا۔

            ا س سے معلوم ہوا کہ کائنات کو چھ دن میں پیدا فرمانا کمزوری یا تھکن کی بنا پر نہ تھا بلکہ اس آہستگی میں  ہزارہا حکمتیں  تھیں ، اور بندوں  کو تعلیم تھی کہ ہم قادر ہو کر جلدی نہیں  کرتے تم مجبور ہونے کے باوجود کیوں  جلد بازی کرتے ہو۔

فَاصْبِرْ عَلٰى مَا یَقُوْلُوْنَ وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَ قَبْلَ الْغُرُوْبِ(39)وَ مِنَ الَّیْلِ فَسَبِّحْهُ وَ اَدْبَارَ السُّجُوْدِ(40)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو ان کی باتوں پر صبر کرو اور سورج طلوع ہونے سے پہلے اور غروب ہونے سے پہلے اپنے رب کی تعریف کرتے ہوئے اس کی پاکی بیان کرو۔ اور رات کے کچھ حصے میں اس کی تسبیح کرو اور نمازوں کے بعد۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاصْبِرْ عَلٰى مَا یَقُوْلُوْنَ: تو ان کی باتوں  پر صبر کرو۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شان میں  یہودیوں  کا یہ کلمہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بہت ناگوار ہوا اور شدید غضب کی وجہ سے چہرۂ مبارک پر سرخی نمودار ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی تسکین فرمائی اور خطاب ہوا:اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ان یہودیوں  کی باتوں  پر صبر کریں  بے شک آپ کا رب ان کا قول سن رہا ہے اور وہ انہیں  ا س کی سزا دے گااورآپ سورج طلوع ہونے سے پہلے اور غروب ہونے سے پہلے یعنی فجر ، ظہر اور عصر کے وقت اپنے رب کی تعریف کرتے ہوئے اس کی پاکی بیان کریں  اور رات کے کچھ حصے یعنی مغرب ،عشاء اور تہجُّد کے وقت میں  اس کی تسبیح کریں  اور نمازوں  کے بعدبھی تسبیح کریں ۔

نمازوں  کے بعد تسبیح کی فضیلت:

         آیت کے آخر میں  نماز وں  کے بعد بھی تسبیح کرنے کا فرمایا گیا،یہاں  اس کی ایک فضیلت ملاحظہ ہو،چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص ہر نماز کے بعد 33 مرتبہ سُبْحَانَ اللہِ ، 33 مرتبہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ، 33 مرتبہ اَللہُ اَکْبَراور 1 مرتبہ ’’ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللہ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَ لَہُ الْحَمْدُ وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر‘‘ پڑھے، اس کے گناہ بخشے جائیں  گے خواہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر (یعنی بہت ہی کثیر) ہوں۔(مسلم،کتاب المساجد ومواضع الصّلاۃ،باب استحباب الذّکر بعد الصّلاۃ…الخ، ص۳۰۱، الحدیث: ۱۴۶ (۵۹۷))

وَ اسْتَمِـعْ یَوْمَ یُنَادِ الْمُنَادِ مِنْ مَّكَانٍ قَرِیْبٍ(41)یَّوْمَ یَسْمَعُوْنَ الصَّیْحَةَ بِالْحَقِّؕ-ذٰلِكَ یَوْمُ الْخُرُوْجِ(42)اِنَّا نَحْنُ نُحْیٖ وَ نُمِیْتُ وَ اِلَیْنَا الْمَصِیْرُ(43)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور کان لگا کر سنو جس دن ایک قریب کی جگہ سے پکارنے والا پکارے گا۔ جس دن لوگ حق کے ساتھ ایک چیخ سنیں گے ، یہ (قبروں سے) باہر آنے کادن ہوگا۔ بیشک ہم زندگی دیتے ہیں اور ہم موت دیتے ہیں اور ہماری طرف ہی پھرنا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اسْتَمِـعْ یَوْمَ یُنَادِ الْمُنَادِ: اور کان لگا کر سنو جس دن پکارنے والاپکارے گا۔} یہاں  سے قیامت کے اَحوال بیان کئے جا رہے ہیں  ،چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے مُخاطَب!میں  قیامت کے جو اَحوال تمہارے سامنے بیان فرما رہا ہوں  اسے غور سے سنو ، جس دن ایک قریب کی جگہ سے پکارنے والا پکارے گا۔اس آیت میں  قریب کی جگہ سے بیتُ المقدس کا صَخْرہ مراد ہے جو آسمان کی طرف زمین کا سب سے قریبی مقام ہے۔پکارنے والے سے مراد حضرت اسرافیل عَلَیْہِ السَّلَام ہیں  اورآپ کی ندا یہ ہوگی: اے گلی ہوئی ہڈیو! بکھرے ہوئے جوڑو !ریزہ ریزہ شدہ گوشتو!پَراگندہ بالو! اللہ تعالیٰ تمہیں  فیصلہ کے لئے جمع ہونے کا حکم دیتا ہے۔( جمل مع جلالین، ق، تحت الآیۃ: ۴۱، ۷ / ۲۷۳-۲۷۴)

{ یَوْمَ یَسْمَعُوْنَ الصَّیْحَةَ بِالْحَقِّ: جس دن لوگ حق کے ساتھ ایک چیخ سنیں  گے۔} اس چیخ سے مراد دوسرا نَفخہ ہے اور جس دن سب لوگ یہ ندا اور چیخ سنیں  گے وہ قبروں  سے باہر آنے کادن ہو گا۔

{ اِنَّا نَحْنُ نُحْیٖ وَ نُمِیْتُ: بیشک ہم زندگی دیتے ہیں  اور ہم موت دیتے ہیں ۔} ارشاد فرمایا کہ بے شک ہم ہی دنیا میں  زندگی اور موت دیتے ہیں  اور آخرت میں  جزاء و سزا کے لئے سب لوگوں  کو ہماری بارگاہ میں  ہی حاضر ہونا ہے ۔

یَوْمَ تَشَقَّقُ الْاَرْضُ عَنْهُمْ سِرَاعًاؕ-ذٰلِكَ حَشْرٌ عَلَیْنَا یَسِیْرٌ(44)

ترجمہ: کنزالعرفان

۔ جس دن زمین ان پرسے پھٹ جائے گی تو وہ جلدی کرتے ہوئے نکلیں گے ،یہ حشر ہم پر آسان ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یَوْمَ تَشَقَّقُ الْاَرْضُ عَنْهُمْ سِرَاعًا: جس دن زمین ان پرسے پھٹ جائے گی تو وہ جلدی کرتے ہوئے نکلیں  گے۔} یعنی جب دوسراصُورپھونکاجائے گاتو قبر کی زمین پھٹ جائے گی اور مُردے میدانِ محشرکی طرف دوڑتے جائیں  گے، یہ قبروں  سے زندہ ہو کر نکلنا حشر ہے اوریہ ہمارے لئے بہت آسان ہے۔

قیامت کے دن سب سے پہلے کس سے زمین شَق ہو گی:

         حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:سب سے پہلامیں  ہوں  جس سے زمین شق ہوگی ۔پھرابوبکرصدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اورپھرعمرفاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ پھرمیں  اہلِ بقیع کے پاس جاؤں  گااورانہیں  میرے ساتھ اٹھایاجائے گا۔پھرمیں  اہلِ مکہ کا انتظار کروں  گا۔(مستدرک، کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ ق، ۳ / ۲۶۸، الحدیث: ۳۷۸۴)

نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَقُوْلُوْنَ وَ مَاۤ اَنْتَ عَلَیْهِمْ بِجَبَّارٍ۫- فَذَكِّرْ بِالْقُرْاٰنِ مَنْ یَّخَافُ وَعِیْدِ(45)

ترجمہ: کنزالعرفان

ہم خوب جان رہے ہیں جو وہ کہہ رہے ہیں اور تم ان پر جبر کرنے والے نہیں ہوتو اس شخص کو قرآن سے نصیحت کرو جو میری دھمکی سے ڈرے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَقُوْلُوْنَ: ہم خوب جان رہے ہیں  جو وہ کہہ رہے ہیں ۔} یعنی اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کفارِ قریش کا آپ کو جھٹلانا،قیامت کا انکار کرنا، ہماری قدرت میں  تَرَدُّد کرنا ہم سے چھپا ہوانہیں  ہے اور ہم ان سب کو اس کی سزا دیں  گے اور آپ ان پر جبر کرنے والے نہیں  کہ انہیں  طاقت کے ذریعے اسلام میں  داخل کر دیں  بلکہ آپ کی ذمہ داری دعوت دینا اور سمجھا دینا ہے، لہٰذا آپ قرآنِ مجید کے ذریعے کافروں  کو میرے عقاب سے، غافلوں  کو میرے عذاب سے اور اطاعت گزاروں  کو میرے عتاب سے ڈرائیں ۔



Scroll to Top