سُوْرَۃ القَلَم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نٓ وَ الْقَلَمِ وَ مَا یَسْطُرُوْنَ(1)
ترجمہ: کنزالعرفان
نٓ، قلم اور اس کی قسم جو لکھتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{نٓ} یہ حروفِ مُقَطَّعات میں سے ایک حرف ہے ،اس کی مراد اللّٰہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔
{وَ الْقَلَمِ وَ مَا یَسْطُرُوْنَ: قلم اور ان کے لکھے کی قسم۔} ایک قول یہ ہے کہ اس آیت میں قلم سے مراد وہ قلم ہے جس سے لوگ لکھتے ہیں اور ’’ان کے لکھے ‘‘ سے مراد لوگوں کی دینی تحریریں ہیں ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ قلم سے مراد وہ قلم ہے جس سے فرشتے لکھتے ہیں اور’’ ان کے لکھے ‘‘سے بنی آدم کے اعمال کے نگہبان فرشتوں کا لکھا مراد ہے یا ان فرشتوں کا لکھا مراد ہے جو لوحِ محفوظ سے عالَم میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات اپنے صحیفوں میں لکھتے ہیں ۔تیسرا قول یہ ہے کہ اس قلم سے وہ قلم مراد ہے جس سے لوحِ محفوظ پر لکھاگیا،یہ نوری قلم ہے اور اس کی لمبائی زمین و آسمان کے فاصلے کے برابر ہے،اور’’ ان کے لکھے‘‘ سے لوحِ محفوظ پر لکھا ہوا مراد ہے۔( مدارک،القلم،تحت الآیۃ:۱، ص۱۲۶۶، خازن، ن، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۲۹۳، جمل، القلم، تحت الآیۃ: ۱،۸ / ۷۱-۷۲، ملتقطاً)
اس قلم نے اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے لوحِ محفوظ پر قیامت تک ہونے والے تمام اُمور لکھ دیئے ہیں ،جیسا کہ حضرت عبادہ بن صامت رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللّٰہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا فرمایا اورا س سے فرمایا لکھ۔وہ عرض گزار ہوا:اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، میں کیا لکھوں ؟ ارشاد فرمایا: ’’جو کچھ ہو چکا اور جو اَبد تک ہو گا سب کی تقدیر لکھ دے۔( ترمذی، کتاب القدر، ۱۷-باب، ۴ / ۶۲، الحدیث: ۲۱۶۲)
اور سننِ ابو داؤد کی روایت میں ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے قلم سے ارشاد فرمایا’’قیامت تک جو چیزیں ہوں گی سب کی تقدیریں لکھ دے۔( ابو داؤد، کتاب السنۃ،باب القدر، ۴ / ۲۹۸، الحدیث: ۴۷۰۰)
مَاۤ اَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُوْنٍ(2)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم اپنے رب کے فضل سے ہر گز مجنون نہیں ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{مَاۤ اَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُوْنٍ: تم اپنے رب کے فضل سے ہرگز مجنون نہیں ہو۔} کفار نے نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں (گستاخی کرتے ہوئے) کہا:
’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْ نُزِّلَ عَلَیْهِ الذِّكْرُ اِنَّكَ لَمَجْنُوْنٌ‘‘(حجر:۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے وہ شخص جس پر قرآن نازل کیا گیا ہے! بیشک تم مجنون ہو۔
اللّٰہ تعالیٰ نے قسم ارشاد فرما کر ان کی بد گوئی کا رد کرتے ہوئے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرمایا: ’’اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، قلم اور ان کے لکھے کی قسم! آپ مجنون نہیں ہیں کیونکہ آپ پر آپ کے رب تعالیٰ کا فضل ہے اور اس کا لطف و کرم آپ کے شاملِ حال ہے ،اس نے آپ پر انعام و احسان فرمائے ،نبوت اور حکمت عطا کی ، مکمل فصاحت ، کامل عقل، پاکیزہ خصائل اور پسندیدہ اَخلاق عطا کئے، مخلوق کے لئے جس قدر کمالات ہونا ممکن ہیں وہ سب علیٰ وجہِ الکمال عطا فرمائے اور ہر عیب سے آپ کی بلند صفات ذات کو پاک رکھا اوران چیزوں کے ہوتے ہوئے آپ مجنون کیسے ہو سکتے ہیں ۔(خازن، ن، تحت الآیۃ: ۲، ۴ / ۲۹۳،تفسیر کبیر، القلم، تحت الآیۃ: ۲، ۱۰ / ۶۰۰،ملتقطاً)
تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت و شان:
یہاں ایک نکتہ قابلِ ذکر ہے کہ قرآنِ پاک میں بکثرت مقامات پر انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کفار کی جاہلانہ گفتگو کا ذکر ہے جس کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بدبخت طرح طرح سے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بارگاہ میں سخت کلامی اوربیہودہ گوئی کرتے اور وہ مُقَدّس حضرات اپنے عظیم حِلم اور فضل کے لائق انہیں جواب دیتے، لیکن حضورسیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمتِ والا میں کفار نے جو زبان درازی کی ہے اس کا جواب زمین و آسمان کی سلطنت کے مالک رب تعالیٰ نے خود دیا ہے اور محبوبِ اکرم، مطلوبِ اعظم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف سے خوددفاع فرمایا ہے اورطرح طرح سے حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی (کفار کے الزامات سے) پاکی اور براء ت ارشاد فرمائی ہے اور بکثرت مقامات پر دشمنوں کے الزامات دور کرنے پر قسم یاد فرمائی ،یہاں تک کہ غنی اور غنی کرنے والے رب تعالیٰ نے ہر جواب سے حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بے نیاز کر دیا،اور اللّٰہ تعالیٰ کا جواب دینا حضورِ اَنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خود جواب دینے سے بدرجَہا حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لیے بہتر ہوااور یہ وہ مرتبۂ عُظمیٰ ہے جس کی کوئی انتہاء نہیں ۔( فتاوی رضویہ، ۳۰ / ۱۶۲-۱۶۴، ملخصاً)
سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مبارک عقل:
نیز کفار کے اس اعتراض سے ان کی جہالت اور بیوقوفی بھی واضح ہے کیونکہ مجنون وہ ہوتا ہے جس کی عقل سلامت نہ رہے جبکہ اللّٰہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عقل مبارک تو ایسی تھی کہ کسی بشر میں اس کی مثال ملنا ممکن ہی نہیں اور اللّٰہ تعالیٰ نے جیسی عقل آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو عطا فرمائی ہے ویسی کسی اور کو عطا ہی نہیں کی تو پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف جنون کی نسبت کرنا جہالت کے سوا اور کیا ہے۔عقل کی تعریف اور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عقل مبار ک کے بارے میں بیان کرتے ہوئے حضرت علامہ شیخ عبد الحق محدّثِ دہلوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’عقل کی حقیقت کے بارے میں لوگوں کا اختلاف ہے، (لغت کی کتاب) قاموس میں کہا گیا ہے کہ عقل،چیزوں کے حسن و قباحت اور ان کے کمال و نقصان کی صفات کے علم کا نام ہے اور یہ علم عقل کے نتائج اور ثمرات سے حاصل ہوتا ہے اور عقل ایسی قوت ہے جو اس علم کا مَبداء اور سرچشمہ ہے۔اور بیان کیا کہ کہا جاتا ہے کہ انسان کی حرکات و سَکَنات میں محمود ہَیئت کا نام عقل ہے،حالانکہ یہ بھی عقل کے خواص اور آثار کی قسم سے ہے۔ (عقل کی تعریف کے بارے میں ) قولِ حق جسے علماء نے بیان کیا ،یہ ہے کہ عقل ایک روحانی نور ہے جس سے ضروری اور نظری علوم معلوم ہوتے ہیں اور عقل کے وجودکا آغاز بچے کی پیدائش کے ساتھ ہے،پھر وہ رفتہ رفتہ نشو و نَما پاتا ہے یہاں تک کہ بالغ ہونے کے وقت کامل ہو جاتا ہے اور حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عقل اور علم میں کمال کے اس مرتبے پر تھے کہ آپ کے علاوہ کوئی بشر اس درجے تک نہیں پہنچا،اللّٰہ تعالیٰ نے جو کچھ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر فیضان فرمایا ان میں سے بعض پر عقول و اَفکار حیران ہیں اور جو بھی آپ کے اَحوال کی کَیفِیَّتوں اور آپ کی صفاتِ حمیدہ اور محاسنِ اَفعال کی تلاش و جُستجو کرتا ہے اور جوامع الکَلِم، حسنِ شمائل،نادر ولطیف خصائل،لوگوں کی سیاسی تدبیر،شرعی اَحکام کا اظہار وبیان،آدابِ جلیلہ کی تفاصیل،اَخلاقِ حسنہ کی ترغیب و تحریص،آسمانی کتابوں اور ربانی صحیفوں پر آپ کا عمل،گزشتہ امتوں کے تاریخی حالات،سابقہ دنوں کے اَحوال،کہاوتوں اور ان کے وقائع اور احوال کا بیان،اہلِ عرب جو کہ چوپایوں اور درندوں کی مانند تھے، جن کی طبیعتیں جہل و جفا اور نادانی و شقاوت کی بنا پر مُتَنَفِّر اور دور رہنے والی تھیں ، ان کی اصلاح و تدبیر،ان کے ظلم و جفا اور ایذا و تکلیفوں پر آپ کا صبر و تحَمُّل،پھر ان کوعلم و عمل،حسنِ اَخلاق اور اعمال میں انتہائی درجے تک پہنچانا،انہیں دنیا و آخرت کی سعادتوں سے بہرہ ور کرناپھر کس طرح ان کا ان سعادتوں کو اپنے نفسوں پر اختیار کرنا اوران کا اپنے گھروں ،دوستوں ،عزیزوں کو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خوشنودی کی خاطر چھوڑ دینا۔ ان سب چیزوں کا اگر کوئی مطالعہ کرے تو وہ جان لے گا کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عقل کامل اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا عمل کس مرتبہ و مقام پر تھا۔جو بھی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَحوال شریف کو ابتداء سے انتہاء تک مطالعہ کرے گا وہ دیکھے گا کہ پروردگارِ عالَم نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کتنا علم عطا فرمایا اور آپ پر ا س کا کتنا فیضان ہے اورمَاکَانَ وَمَا یَکُوْنُ یعنی گزشتہ و آئندہ کے علوم و اَسرار بدیہی طور پر کس طرح حاصل ہیں تو وہ شک و شُبہ اور وہم و خیال کے بغیر علمِ نبوت کو جان لے گا۔چنانچہ حق تعالیٰ نے حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ کی مدح و ثنا اور وفورِ علم کے بارے میں فرمایا:
’’وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُؕ-وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ عَظِیْمًا‘‘(نساء:۱۱۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور آپ کو وہ سب کچھ سکھا دیا جو آپ نہ جانتے تھے اور آپ پر اللّٰہ کافضل بہت بڑا ہے۔
حضرت وہب بن منبہ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ جو کہ تابعی ، سندکے حوالے سے قابلِ اعتماد ،ہمیشہ سچ بولنے والے عالِم، صاحب ِکتب واَخبار تھے’’فرماتے ہیں کہ میں نے مُتَقَدِّمین کی 71کتابیں پڑھی ہیں ،میں نے ان تما م کتابوں میں پایا کہ حق سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی نے دنیا کے آغاز سے لے کر دنیا کے انجام تک تما م لوگوں کو جس قدر عقلیں عطا فرمائی ہیں ان سب کی عقلیں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عقلِ مبارک کے مقابلے میں یوں ہیں جیسے دنیا بھر کے ریگستانوں کے مقابلے میں ایک ذرہ ہے ،آپ کی رائے ان سب سے افضل و اعلیٰ ہے۔
عوارفُ المعارف میں بعض علماء سے نقل کیا ہے’’پوری عقل کے سو حصے ہیں ،ان میں سے ننانوے حصے حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں ہیں اور ایک حصہ تما م مسلمانوں میں ہے۔
بندۂ مسکین کہتا ہے (یعنی شیخ عبد الحق محدّثِ دہلوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ) کہ اگر وہ یوں کہیں کہ عقل کے ہزار حصے ہیں جن میں سے نو سو ننانوے حصے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں ہیں اور ایک حصہ تمام لوگوں میں ہے تو اس کی بھی گنجائش ہے، ا س لئے کہ جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں بے انتہاء کمال ثابت ہے تو (آپ کی شان میں معبود ہونے کے علاوہ) جو کچھ بھی کہا جائے گا بجا ہو گا۔اس پر اگر حاسدوں کا سینہ جلے اور گمراہوں کادل تنگ ہوتو اس کا کوئی علاج نہیں اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَؕ ‘‘(کوثر:۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے محبوب! بیشک ہم نے تمہیں بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں ۔
اور فرمایا: ’’ اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ‘‘(کوثر:۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک جو تمہارا دشمن ہے وہی ہر خیر سے محروم ہے۔
(مدارج النبوہ، باب دوم دربیان اخلاق وصفا، وصل دربیان عقل وعلم، ۱ / ۵۳)
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کیا خوب فرماتے ہیں :
ملکِ خاصِ کبریا ہو
مالکِ ہر ما سوا ہو
کوئی کیا جانے کہ کیا ہو
عقلِ عالَم سے ورا ہو
وَ اِنَّ لَكَ لَاَجْرًا غَیْرَ مَمْنُوْنٍ(3)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور یقینا تمہارے لیے ضرور بے انتہا ثواب ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِنَّ لَكَ لَاَجْرًا غَیْرَ مَمْنُوْنٍ: اور یقینا تمہارے لیے ضرور بے انتہا ثواب ہے۔} ار شاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ضرور تمہارے لیے رسالت کی تبلیغ، نبوت کے اِظہار ،مخلوق کو اللّٰہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے اور کفار کی ان بے ہودہ باتوں ، اِفتراؤں اور طعنوں پر صبر کرنے کا بے انتہاء ثواب ہے لہٰذا کفار جو آپ کی طرف جنون کی نسبت کر رہے ہیں آپ اسے خاطر میں نہ لائیے اور رسالت کی تبلیغ کے اہم کام کو جاری رکھئے۔( خازن، ن، تحت الآیۃ: ۳، ۴ / ۲۹۴)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں : ’’حق جَلَّ وَ عَلَا نے فرمایا:
’’وَ اِنَّ لَكَ لَاَجْرًا غَیْرَ مَمْنُوْنٍ‘‘
اور بے شک تیرے لیے اجر بے پایاں ہے۔
کہ تو ان دیوانوں کی بدزبانی پر صبر کرتا اور حِلم وکرم سے پیش آتا ہے ۔مجنون تو چلتی ہوا سے اُلجھا کرتے ہیں ، تیرا سا حِلم وصبر کوئی تمام عالَم کے عقلاء میں تو بتادے ۔( فتاوی رضویہ، ۳۰ / ۱۶۴)
رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ملنے والا ثواب:
یاد رہے کہ تمام مسلمانوں کی نیکیوں کا ثواب اضافے در اضافے کے ساتھ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نامۂ اعمال میں درج ہوتا ہے،مثال کے طور پررسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جتنے لوگوں کو مسلمان کیا تو انہیں مسلمان کرنے کا ثواب حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ملے گا اور ان کے تمام نیک اعمال کا ثواب ان کے ساتھ ساتھ حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بھی ملے گا،اسی طرح ان مسلمانوں نے آگے جتنے لوگوں کو مسلمان کیا تواُن کو مسلمان کرنے کا اور ان کی نیکیوں کاثواب اِن مسلمانوں کو بھی ملے گا اور ان کے ثواب کے ساتھ مل کر اضافے کے ساتھ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بھی ملے گا ،اسی طرح قیامت تک سلسلہ در سلسلہ جتنے لوگ مسلمان ہوتے جائیں گے اور نیک اعمال کرتے جائیں گے سب کے مسلمان ہونے اور نیک اعمال کرنے کا ثواب بے انتہا اضافے کے ساتھ سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بھی ملے گا۔اسی طرح کا مضمون علامہ عبد الرؤف مناوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے’’ فیض القدیر‘‘ کی جلد نمبر11 کے صفحہ نمبر5789 پر امام مقریزی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے حوالے سے ذکر کیا ہے۔اور ہدایت کی دعوت دینے والوں اور دین میں اچھا طریقہ جاری کرنے والوں کے بارے میں حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے ہدایت کی دعوت دی اسے اس ہدایت کی پیروی کرنے والوں کے برابر اجر ملے گا اور ان کے اجروں میں کوئی کمی نہیں ہو گی اور جس شخص نے کسی گمراہی کی دعوت دی اسے اس گمراہی کی پیروی کرنے والوں کے برابر گناہ ہو گا اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔(مسلم، کتاب العلم، باب من سنّ سنۃ حسنۃ… الخ، ص۱۴۳۸، الحدیث: ۱۶(۲۶۷۴))
اورحضرت جریر بن عبداللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جس شخص نے مسلمانوں میں کسی نیک طریقے کی ابتداء کی اور ا س کے بعد ا س طریقے پر عمل کیا گیا تو اس طریقے پر عمل کرنے والوں کا اجر بھی ا س کے نامۂ اعمال میں لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے اجر میں کمی نہیں ہو گی اور جس شخص نے مسلمانوں میں کسی برے طریقے کی ابتداء کی اور ا س کے بعد ا س طریقے پر عمل کیا گیا تو ا س طریقے پر عمل کرنے والوں کاگناہ بھی اس شخص کے نامۂ اعمال میں لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔( مسلم، کتاب العلم، باب من سنّ سنۃ حسنۃ… الخ، ص۱۴۳۷، الحدیث: ۱۵(۱۷۱۰))
سیّد العالَمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا صبر،حِلم اور عَفْوْ و درگُزر:
یہاں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صبر، حِلم اور عَفْوْ و در ُگزر کی کچھ جھلک ملاحظہ ہو، چنانچہ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں مذکور ہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کسی سے اپنی ذات کا بدلہ نہیں لیا بلکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ زیادتی کرنے والوں کے عمل پر حِلم اور صبر کا مظاہرہ کرتے اوران سے در گزر فرماتے حتّٰی کہ جان کے دشمنوں کو بھی معاف کر دیا کرتے تھے، چنانچہ یہاں اِختصار کے ساتھ اس کی چار مثالیں ملاحظہ ہوں :
(1)… لبید بن اعصم یہودی نے جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر جادو کیا تو اس کے بارے میں معلوم ہوجانے کے باوجود بھی اسے کوئی سزا نہ دی۔
(2)… یہودی عورت زینب نے گوشت میں زہر ملا کر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کھلا دیا تو اپنی ذات کی وجہ سے اس سے کوئی بدلہ نہ لیا البتہ جب اس زہر کے اثر سے ایک صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ انتقال فرما گئے تو اس عورت پر شرعی سزا نافذ فرمائی ۔
(3)…غورث بن حارث نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو شہید کرنے کی کوشش کی تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس پر غالب آ جانے کے باوجود اسے معاف کر دیا۔
(4)…کفارِ مکہ نے وہ کونسا ایساظالمانہ برتاؤ تھا جو آپ کے ساتھ نہ کیا ہو لیکن فتحِ مکہ کے دن جب یہ سب جَبّارانِ قریش مہاجرین و اَنصار کے لشکروں کے محاصرہ میں مجبور ہو کر حرمِ کعبہ میں خوف اور دہشت سے کانپ رہے تھے اور انتقام کے ڈر سے ان کے جسم کا رُوآں رُوآں لرز رہا تھا تو رسولِ رحمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان مجرموں کو یہ فرما کر چھوڑ دیا کہ جاؤ آج تم سے کوئی مُؤاخذہ نہیں ،تم سب آزاد ہو۔
مختصر یہ کہ حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پوری سیرتِ طیبہ میں صبر، حِلم اور عَفْو و درگُزر کی اتنی مثالیں موجود ہیں کہ جنہیں شمار کیا جائے تو ایک انتہائی ضخیم کتاب مُرَتَّب ہو سکتی ہے۔
وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(4)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک تم یقینا عظیم اخلاق پر ہو ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ: اور بیشک تم یقینا عظیم اَخلاق پر ہو۔} علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’یہ آیت گویا کہ ’’مَاۤ اَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُوْنٍ‘‘ کی تفسیر ہے کیونکہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قابلِ تعریف اَخلاق اور پسندیدہ اَفعال آپ کی ذاتِ مبارکہ سے ظاہر تھے اور جس کی ایسی شان ہو اس کی طرف جنون کی نسبت کرنا درست نہیں ۔( خازن، ن، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۲۹۴)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں :حق جَلَّ وَ عَلَا نے فرمایا:’’وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ‘‘ اور بے شک تو بڑے عظمت والے ادب تہذیب پر ہے کہ ایک حِلم وصبر کیا ،تیری جوخصلت ہے اِس درجہ عظیم و باشوکت ہے کہ اَخلاقِ عاقلانِ جہان مُجْتَمع ہو کر اس کے ایک شِمّہ (یعنی قلیل مقدار) کو نہیں پہنچتے ،پھر اس سے بڑھ کراندھا کون جو تجھے ایسے لفظ سے یاد کرے۔(فتاوی رضویہ، ۳۰ / ۱۶۴-۱۶۵)
حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مبارک اَخلاق:
اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَخلاقِ کریمہ کے بارے میں بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
’’فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْۚ-وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ‘‘(ال عمران:۱۵۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو اے حبیب! اللّٰہ کی کتنی بڑی مہربانی ہے کہ آپ ان کے لئے نرم دل ہیں اور اگر آپ تُرش مزاج ،سخت دل ہوتے تو یہ لوگ ضرورآپ کے پاس سے بھاگ جاتے۔
اور حضرت جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللّٰہ تعالیٰ نے اخلاق کے درجات مکمل کرنے اور اچھے اعمال کے کمالات پورے کرنے کے لیے مجھ کو بھیجا۔( شرح السنہ، کتاب الفضائل، باب فضائل سید الاولین والآخرین…الخ، ۷ / ۹، الحدیث: ۳۵۱۶)
اورحضرت سعد بن ہشام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے دریافت کیا:اے اُمُّ المؤمنین! رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا، مجھے رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَخلاق کے بارے میں بتائیے۔حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے فرمایا: ’’کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ؟میں نے عرض کی: کیوں نہیں ! تو آپ نے ارشاد فرمایا: ’’رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا خُلْق قرآن ہی تو ہے۔( مسلم ، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب جامع صلاۃ اللیل… الخ، ص۳۷۴، الحدیث: ۱۳۹(۷۴۶))
اورعلامہ عبد المصطفٰی اعظمی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں : ’’حضور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ محاسنِ اَخلاق کے تمام گوشوں کے جامع تھے۔ یعنی حِلم و عَفْو،رحم و کرم، عدل و انصاف، جود و سخا، ایثار و قربانی، مہمان نوازی، عدمِ تشدُّد، شجاعت، ایفائِ عہد، حسنِ معاملہ، صبروقناعت، نرم گفتاری، خوش روئی، ملنساری، مساوات، غمخواری، سادگی و بے تکلُّفی، تواضع واِنکساری اور حیاداری کی اتنی بلند منزلوں پر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فائز و سرفراز ہیں کہ حضرت عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے ایک جملے میں اس کی صحیح تصویر کھینچتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’ کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنَ ‘‘ یعنی تعلیماتِ قرآن پر پورا پورا عمل یہی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَخلاق تھے۔( سیرتِ مصطفٰی، ص۶۰۰)
اورعلامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا اَخلاق تمام اَخلاقی اچھائیوں کا جامع ہے اور اللّٰہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا شکر، حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خُلَّت، حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اخلاص، حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے وعدے کی سچائی،حضرت یعقوب اور حضرت ایوب عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا صبر، حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا عذر ،حضرت سلیمان اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عاجزی اور ان کے علاوہ تمام ابنیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اَخلاق عطا فرمائے اور یہ وہ مقام ہے جو تمام انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں سے صرف سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو عطا ہوا ہے۔( روح البیان، ن ، تحت الآیۃ: ۴، ۱۰ / ۱۰۶)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کیا خوب فرماتے ہیں :
ترے خُلق کو حق نے عظیم کہا تری خِلق کو حق نے جمیل کیا
کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا ترے خالقِ حسن واَدا کی قسم
علم اور عمل دونوں اعتبار سے کامل اور جامع شخصیت:
یہاں ایک نکتہ قابلِ ذکر ہے،اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے علم مبارک کے بارے میں ارشاد فرمایا:
’’وَ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُؕ-وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ عَظِیْمًا‘‘(النساء:۱۱۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللّٰہ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی اور آپ کو وہ سب کچھ سکھا دیا جو آپ نہ جانتے تھے اور آپ پر اللّٰہ کا فضل بہت بڑا ہے۔
اور اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے عمل مبارک کے بارے میں ارشاد فرمایا:
’’وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک تم یقینا عظیم اخلاق پر ہو۔
اس سے معلوم ہوا کہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ علم اور عمل دونوں اعتبار سے کامل اور جامع ہیں۔
سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَخلاقِ کریمہ سے متعلق ایک عظیم واقعہ:
ویسے تواَحادیث اور سیرت کی کتابوں میں سیّدالمرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَخلاقِ کریمہ کے بے شمار واقعات مذکور ہیں جنہیں اِختصار کے ساتھ بھی یہاں بیان کرنا ممکن نہیں ، البتہ ہم ایک ایساواقعہ ذکر کرتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بڑے تو بڑے سہی چھوٹے بچے تک بھی تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَخلاقِ کریمہ سے بہت مُتأثّر تھے اور کسی صورت بھی آپ کے دامنِ اقدس سے جدائی انہیں برداشت نہ تھی۔چنانچہ حضرت زید بن حارثہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ زمانۂ جاہلیَّت میں اپنی والدہ کے ساتھ ننھیال جارہے تھے کہ بنو قین نے وہ قافلہ لوٹ لیا اور حضرت زید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو مکہ میں لاکر بیچ دیا۔ حکیم بن حزام نے اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے لئے ان کو خریدلیا۔ جب حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نکاح حضرت خدیجہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے ہوا تو انہوں نے زید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں بطورِ ہدیہ پیش کر دیا۔ حضرت زید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے والد کو ان کی جدائی کا بہت صدمہ تھا اور وہ حضرت زید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی جدائی میں اَشعار پڑھتے اور روتے ہوئے ڈھونڈتے پھر اکرتے تھے۔ اتفاق سے ان کی قوم کے چند لوگوں کا حج کی غرض سے مکہ جانا ہوا تووہاں انہوں نے حضرت زید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو پہچان لیا اورجب وہ حج سے واپس گئے تو انہوں نے حضرت زید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی خیر و خبران کے باپ کو سنائی ۔حضرت زید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے باپ اور چچا فدیہ کی رقم لے کر ان کو غلامی سے چھڑانے کی خاطر مکہ مکرمہ میں حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں پہنچے اور عرض کیا: اے ہاشم کی اولاد! اپنی قوم کے سردار! تم لوگ حرم کے رہنے والے ہو اور اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے گھر کے پڑوسی ہو،تم خود قیدیوں کو رہا کراتے ہو، بھوکوں کو کھانا کھلاتے ہو۔ ہم اپنے بیٹے کی طلب میں تمہارے پا س پہنچے ہیں ہم پر احسان فرماؤ اور کرم کرو۔ فدیہ قبول کرو اور اس کو رہا کردو بلکہ جو فدیہ ہو اس سے زیادہ لے لو۔ حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: بس اتنی سی بات ہے!عرض کیا حضور! بس یہی عرض ہے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: زیدکو بلا ؤاور اس سے پوچھ لو اگر وہ تمہارے ساتھ جانا چاہے تو بغیر فدیہ ہی کے وہ تمہاری نذرہے اور اگر نہ جانا چاہے تو میں ایسے شخص پر جَبر نہیں کرسکتا جو خود نہ جاناچاہے ۔چنانچہ حضرت زید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بلائے گئے اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: تم ان کو پہچانتے ہو ؟عرض کی:جی ہاں پہچانتا ہوں یہ میرے باپ ہیں اور یہ میرے چچا۔ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ میرا حال بھی تمہیں معلوم ہے۔ اب تمہیں اختیار ہے کہ میرے پاس رہنا چاہو تو میرے پاس رہو، ان کے ساتھ جانا چاہوتو اجازت ہے۔ حضرت زید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا :حضور!میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مقابلے میں بھلا کس کو پسند کرسکتا ہوں ، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میرے لئے باپ کی جگہ بھی ہیں اور چچا کی جگہ بھی ہیں ۔ ان دونوں باپ چچا نے کہا کہ زید! غلامی کو آزادی پر ترجیح دیتے ہو؟باپ چچا اور سب گھر والوں کے مقابلہ میں غلام رہنے کو پسند کرتے ہو؟ حضرت زید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ ہاں ! میں نے ان میں ایسی بات دیکھی ہے جس کے مقابلے میں کسی چیزکو بھی پسند نہیں کرسکتا۔ حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جب یہ جواب سنا تو ان کو گودمیں لے لیا اور فرمایا کہ میں نے اس کو اپنا بیٹا بنا لیا۔حضرت زید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے باپ اور چچا بھی یہ منظر دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور خوشی سے ان کو چھوڑ کرواپس چلے گئے۔( الاصابہ فی تمییز الصحابہ، حرف الزای المنقوطۃ، زید بن حارثۃ بن شراحیل الکعبی، ۲ / ۴۹۵)
اَخلاقِ حَسنہ کی تعلیم:
حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اخلاقِ کریمہ کی عظمت و بزرگی کا ایک پہلو اس سے بھی واضح ہوتا ہے کہ آپ نے اپنی امت کو بھی اَخلاقِ حَسنہ اپنانے کی تعلیم اور ترغیب دی ہے ،اس سے متعلق یہاں 4اَحادیث ملاحظہ ہوں ،چنانچہ
(1)…حضرت جابر بن سمرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مسلمانوں میں سب سے زیادہ اچھا وہ ہے جس کے اَخلاق سب سے زیادہ اچھے ہیں ۔( مسند امام احمد، مسند البصریین، حدیث جابر بن سمرۃ، ۷ / ۴۱۰، الحدیث: ۲۰۸۷۴)
(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بندہ حسنِ اخلاق کی وجہ سے دن میں روزہ رکھنے اور رات میں قیام کرنے والوں کا درجہ پا لیتا ہے۔( معجم الاوسط،باب المیم، من اسمہ محمد، ۴ / ۳۷۲، الحدیث: ۶۲۸۳)
(3)…حضرت ابو درداء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میزانِ عمل میں حسنِ اخلاق سے زیادہ وزنی کوئی چیز نہیں ۔( ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی حسن الخلق، ۴ / ۳۳۲، الحدیث: ۴۷۹۹)
(4)…حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تین مرتبہ یہ ارشاد فرمایا’’کیا میں تمہیں اس شخص کے بارے میں نہ بتاؤں جو قیامت کے دن تم میں سب سے زیادہ مجھے محبوب اور سب سے زیادہ میری مجلس کے قریب گا۔ہم نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیوں نہیں ! ارشاد فرمایا’’یہ وہ شخص ہو گا جس کے اَخلاق تم میں سب سے زیادہ اچھے ہوں گے ۔( مسند امام احمد، مسند عبد اللّٰہ بن عمرو بن العاص، ۲ / ۶۷۹، الحدیث: ۷۰۵۶)
فَسَتُبْصِرُ وَ یُبْصِرُوْنَ(5)بِاَیِّكُمُ الْمَفْتُوْنُ(6)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو جلد ہی تم بھی دیکھ لو گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے۔ کہ تم میں کون مجنون تھا۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَسَتُبْصِرُ: تو جلد ہی تم بھی دیکھ لو گے۔} اس سے پہلی آیات میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر لگائے گئے کفار کے الزام کا جواب دیا اور اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت و شان کو بیان کیا اور اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جب دنیا میں ان پر آپ کے معاملے کی حقیقت ظاہر ہوگی اور آپ کفار کو قتل کر کے اور ان کے مال بطورِ غنیمت حاصل کر کے ان پر غالب ہوں گے اور جب قیامت کے دن حق باطل سے ممتاز ہو جائے گا تو آپ بھی جان جائیں گے اور کفارِ مکہ بھی جان لیں گے کہ جنون آپ پر تھا یا وہ خود مجنون اور پاگل تھے۔( جلالین مع صاوی،ن القلم، تحت الآیۃ: ۵-۶، ۶ / ۲۲۱۱-۲۲۱۲)
اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِهٖ۪-وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ(7)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک تمہارا رب ہی خوب جانتا ہے اسے جو اس کی راہ سے بہکا اور وہ ہدایت والوں کو بھی خوب جانتا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِهٖ: بیشک تمہارا رب ہی خوب جانتا ہے اسے جو اس کی راہ سے بہکا۔} یعنی اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آ پ کا رب عَزَّوَجَلَّ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو حقیقت میں مجنون ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو میرے راستے سے بہک گئے کیونکہ انہوں نے اپنی عقلوں سے فائدہ نہیں اٹھایا اور جو کچھ رسول لے کر آئے ان میں اپنی عقلوں کو استعمال نہیں کیا، اور آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ ان لوگوں کو بھی خوب جانتا ہے جو در حقیقت عقلمند ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو میرے راستے پر ہیں ۔( مدارک، القلم، تحت الآیۃ: ۷، ص۱۲۶۷، البحر المحیط، القلم، تحت الآیۃ: ۷، ۸ / ۳۰۳، ملتقطاً)
فَلَا تُطِعِ الْمُكَذِّبِیْنَ(8)وَدُّوْا لَوْ تُدْهِنُ فَیُدْهِنُوْنَ(9)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو تم جھٹلانے والوں کی بات نہ سننا۔ انہوں نے تو یہی خواہش رکھی کہ کسی طرح تم نرمی کرو تو وہ بھی نرم پڑجائیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَلَا تُطِعِ الْمُكَذِّبِیْنَ: تو تم جھٹلانے والوں کی بات نہ سننا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جب آپ پر یہ سب واضح ہو چکا ہو تو آپ اُن کی اِس بات کونہ ماننے پر ثابت قدم رہیں کہ آپ انہیں (شرک سے روکنے اوربتوں کی مذمت کرنے سے) باز آجائیں تاکہ ہم بھی آپ کی (مخالفت کرنے سے) باز آجائیں ،کیونکہ ان مشرکین کی خواہش اور آرزو یہ ہے کہ آپ اپنے دین میں ان کے لئے اس طرح نرمی کرلیں کہ آپ ان کی بات مان کر ان کے بتوں کی پوجا کر لیں تو وہ بھی آپ کی بات مان کر آپ کے رب تعالیٰ کی عبادت کے معاملے میں نرمی کر لیں گے۔( روح البیان،ن، تحت الآیۃ: ۸-۹، ۱۰ / ۱۰۹، ابو سعود، ن، تحت الآیۃ: ۸-۹، ۵ / ۷۵۳، تفسیر طبری، ن، تحت الآیۃ: ۸-۹، ۱۰ / ۱۰۹، ملتقطاً)
{وَدُّوْا لَوْ تُدْهِنُ فَیُدْهِنُوْنَ: انہوں نے تو یہی خواہش رکھی کہ کسی طرح تم نرمی کرو تو وہ بھی نرم پڑجائیں ۔} مُداہَنَت یہ ہے کہ اپنی دنیا کی خاطر دین کے احکام میں خلافِ شرع نرمی برتنا جیسے لالچ کی وجہ سے یا کسی کے مرتبے کی رعایت کرتے ہوئے اسے برائی سے منع نہ کرنا یا منع کرنے پر قدرت نہ ہونے کی صورت میں اس کی برائی کو دل میں برا نہ جاننا اور مدارات یہ ہے کہ دین یا دنیا کی بہتری کے لئے کسی کے ساتھ دُنْیَوی معاملات سر انجام دینا جیسے کسی فاسق و گناہگار شخص کے گناہ کو دل میں برا جانتے ہوئے اس کے شر سے بچنے کے لئے یا اس نیت سے اس کے ساتھ نرم لہجے سے گفتگو کرنا اور خوش روئی سے پیش آنا کہ یہ اچھے اَخلاق سے مُتأثّر ہو کر گناہوں سے باز آ جائے گا۔
ہر مسلمان کو دین کے معاملے میں پختہ ہونا چاہئے:
لہٰذا ہر مسلمان کو اپنے دین کے معاملے میں پختہ ہو نا چاہیے اور دین کے معاملات میں کسی طرح کی نرمی اور رعایت سے کام نہیں لینا چاہئے لیکن افسوس کہ آج کل مسلمان اپنے نفسانی معاملات میں تو انتہائی سختی سے کام لیتے ہیں اور کسی طرح کی رعایت کرنے پر تیار نہیں ہوتے جبکہ دین کے معاملے میں بہت نرم اور پِلپِلے نظر آتے ہیں ،کسی کو برائی کرتے ہوئے،اسلام کے احکامات کوپامال کرتے ہوئے اور اسلام کے احکامات کا مذاق اُڑاتے ہوئے دیکھ کر، اسے روکنے پر قادر ہونے کے باوجوداس کی رعایت کرتے ہوئے یا کسی لالچ کی وجہ سے اسے نہیں روکتے اور جب کسی سے اپنی ذات کو تکلیف پہنچے یاان کا کوئی نقصان کر بیٹھے تو خوب شور مچاتے ہیں اور بعض مسلمان کہلانے والے تو ایسے ہیں کہ یہودیوں ،عیسائیوں اور دیگر کفار سے دوستی اور محبت کے رشتے قائم کرتے ، ان کی خاطراسلام کے بعض احکامات پر عمل کرنا چھوڑتے ، ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ان کی مذہبی رسومات کا اہتمام کرتے ، ان کے ہاں ان کی مذہبی رسومات میں شرکت کرتے ،انہیں مساجد میں بلوا کراور مسلمانوں سے اونچا بٹھا کر مسلمانوں کو ان کی تقریریں سنواتے اور ان سے اتحاد اور یگانگت کرنے کی کوششیں کرتے اوردیگر مسلمانوں کو اس کی ترغیب دینے کے لئے باقاعدہ پروگرام منعقد کرتے ہیں حالانکہ اللّٰہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کفار و مشرکین سے دوستی کرنے اوران سے محبت کا رشتہ اُستوار کرنے سے منع کیا اور اس سے بچنے کا حکم دیا ہے اور کفار سے دوستی اور محبت کرنے کو منافقوں کی خصلت بتایا ہے، چنانچہ منافقوں کی اس خصلت کو بیان کرتے ہوئے اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ نَافَقُوْا یَقُوْلُوْنَ لِاِخْوَانِهِمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَىٕنْ اُخْرِجْتُمْ لَنَخْرُجَنَّ مَعَكُمْ وَ لَا نُطِیْعُ فِیْكُمْ اَحَدًا اَبَدًاۙ-وَّ اِنْ قُوْتِلْتُمْ لَنَنْصُرَنَّكُمْؕ-وَ اللّٰهُ یَشْهَدُ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ‘‘(حشر:۱۱)
ترجمۂکنزُالعِرفان: کیا تم نے منافقوں کو نہ دیکھا کہ اپنے اہلِ کتاب کافر بھائیوں سے کہتے ہیں کہ قسم ہے اگر تم نکالے گئے تو ضرور ہم تمہارے ساتھ نکلیں گے اور ہرگز تمہارے بارے میں کسی کا کہنا نہ مانیں گے اور اگر تم سے لڑائی کی گئی تو ہم ضرور تمہاری مدد کریں گے اور اللّٰہ گواہی دیتاہے کہ یقینا وہ ضرور جھوٹے ہیں ۔
اور مسلمانوں سے ارشاد فرمایا:
’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَكُمْ هُزُوًا وَّ لَعِبًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ الْكُفَّارَ اَوْلِیَآءَۚ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ‘‘(مائدہ:۵۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! جن لوگوں کو تم سے پہلے کتاب دی گئی ان میں سے وہ لوگ جنہوں نے تمہارے دین کو مذاق اور کھیل بنالیا ہے انہیں اور کافر وں کو اپنا دوست نہ بناؤ اور اگر ایمان رکھتے ہو تو اللّٰہ سے ڈرتے رہو۔
اور ارشاد فرمایا: ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَؕ- اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ عَلَیْكُمْ سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا‘‘(النساء:۱۴۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بناؤ۔ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اپنے اوپر اللّٰہ کے لئے صریح حجت قائم کرلو۔
اور ارشاد فرمایا: ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْۤا اٰبَآءَكُمْ وَ اِخْوَانَكُمْ اَوْلِیَآءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْاِیْمَانِؕ-وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ‘‘(توبہ:۲۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اپنے باپ اور اپنے بھائیوں کو دوست نہ سمجھو اگر وہ ایمان کے مقابلے میں کفر کوپسند کریں اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی کرے گا تو وہی ظالم ہیں ۔
اور ارشاد فرمایا:
’’ لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَۚ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰهِ فِیْ شَیْءٍ اِلَّاۤ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقٰىةًؕ-وَ یُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗؕ-وَ اِلَى اللّٰهِ الْمَصِیْرُ‘‘(ال عمران:۲۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: مسلمان مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں اور جو کوئی ایسا کرے گاتو اس کا اللّٰہ سے کوئی تعلق نہیں مگر یہ کہ تمہیں ان سے کوئی ڈر ہو اور اللّٰہ تمہیں اپنے غضب سے ڈراتا ہے اور اللّٰہ ہی کی طرفلوٹنا ہے۔
اور کفار سے دوستی کرنے والے منافقوں کے بارے میں ارشاد فرمایا: ’’بَشِّرِ الْمُنٰفِقِیْنَ بِاَنَّ لَهُمْ عَذَابًا اَلِیْمَا ﰳ ۙ (۱۳۸)الَّذِیْنَ یَتَّخِذُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَؕ-اَیَبْتَغُوْنَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَاِنَّ الْعِزَّةَ لِلّٰهِ جَمِیْعًا‘‘(النساء:۱۳۸،۱۳۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: منافقوں کو خوشخبری دوکہ ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ وہ جو مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے ہیں ۔ کیا یہ ان کے پاس عزت ڈھونڈتے ہیں ؟ تو تمام عزتوں کا مالک اللّٰہ ہے۔
اور برائی ہوتی دیکھ کر اس سے نہ روکنے والوں کے بارے میں حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’اللّٰہ تعالیٰ کی حدود میں نرمی برتنے والے اور ان میں مبتلاء ہونے والے کی مثال ان لوگوں جیسی ہے جنہوں نے کشتی میں قرعہ اندازی کی تو بعض کے حصے میں نیچے والا حصہ آیا اور بعض کے حصے میں اوپر والا،نیچے والوں کو پانی کے لئے اوپر والوں کے پاس جانا ہوتا تھا،اوپر والوں (کو نیچے والوں کے پانی لے کر گزرنے کی وجہ سے اَذِیَّت پہنچی اور انہوں ) نے اسے زحمت شمار کیا تو نیچے والوں (میں سے ایک شخص) نے کلہاڑہ لیا اور کشتی کے نچلے حصے میں سوراخ کرنے لگا،اوپر والے اس کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ تجھے کیا ہو گیا ہے؟ اس نے کہا:میری وجہ سے تمہیں تکلیف ہوتی تھی اور پانی کے بغیر گزارا نہیں (اس لئے میں کشتی میں سوراخ کر رہا ہوں تاکہ مجھے پانی حاصل ہو جائے اور تمہاری تکلیف دور ہوجائے) پس اگر انہوں نے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا تو اسے (ڈوبنے سے) بچا لیا اور خود بھی بچ جائیں گے اور اگر اسے چھوڑ دیا (اور سوراخ کرنے سے منع نہیں کیا) تو اسے ہلاک کر یں گے اور اپنی جانوں کو ہلاک کر بیٹھیں گے۔( بخاری، کتاب الشہادات، باب القرعۃ فی المشکلات، ۲ / ۲۰۸، الحدیث: ۲۶۸۶)
اورحضرت اُمِّ سلمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے،رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’عنقریب تم پر ایسے بادشاہ مُسلَّط ہوں گے جن سے تم نیکی بھی دیکھو گے اور برائی بھی،تو جس نے ان کی برائی کو بُرا کہا وہ بَری ہوا اور جس نے (ان کی بُرائی کو برا کہنے کی قدرت نہ رکھنے وجہ سے اس برائی کو دل سے) برا سمجھاوہ بھی (ان کی برائی میں شریک ہونے کے وبال سے) سلامت رہا البتہ جو (دل سے ان کی برائی پر) راضی ہوا اور اس نے (ان کی) پیروی کی تو وہ ہلاک ہوا۔( ترمذی، کتاب الفتن، ۷۸-باب، ۴ / ۱۱۷، الحدیث: ۲۲۷۲)
اللّٰہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقلِ سلیم عطا فرمائے اور اپنے دین پر پختگی اور اس کے احکامات پر مضبوطی سے عمل کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
نوٹ:کفار و مشرکین سے تعلقات رکھنے کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے فتاویٰ رضویہ کی جلد نمبر 14میں موجود اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنّت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے رسالے ’’اَلْمَحَجَّۃُ الْمُؤْتَمِنَہْ فِیْ آیَۃِ الْمُمْتَحِنَہْ ‘‘ (غیر مسلموں سے تعلقات رکھنے کی شرعی حدود کا تفصیلی بیان) کا مطالعہ فرمائیں ۔
وَ لَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِیْنٍ(10)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہر ایسے آدمی کی بات نہ سننا جو بڑا قسمیں کھانے والا، ذلیل۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ: اور ہر ایسے آدمی کی بات نہ سننا جو بڑا قسمیں کھانے والا۔} اس سے پہلی آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے مشرکین کی بات ماننے سے منع کیا اور اس ممانعت میں تمام کفار داخل ہیں ،اب یہاں کفر کے علاوہ مزید عیوب بیان کر کے دوبارہ منع کیا جا رہا ہے کہ جس کافر میں یہ عیب ہوں ا س کی بات بطورِ خاص نہ مانی جائے۔یہاں آیت میں دو عیب بیان کئے گئے ہیں ۔
(1)… وہ ’’حَلَّافٍ‘‘ ہے۔ حَلّاف اسے کہتے ہیں جو حق اور باطل دونوں طرح کے معاملات میں بہت زیادہ قسمیں کھاتا ہو۔
(2)…وہ ذلیل ہے،کیونکہ بات بات پر قسمیں کھانے والا اور جھوٹی قسمیں کھانے والا لوگوں کی نگاہوں میں ذلیل ہوتا ہے۔( تفسیر کبیر، القلم، تحت الآیۃ: ۱۰، ۱۰ / ۶۰۳-۶۰۴، ملخصاً)
یاد رہے کہ جمہور مفسرین کے نزدیک ا س آیت سے لے کر آیت نمبر 16تک جو مذموم اوصاف بیان کئے گئے ،یہ ولید بن مغیرہ کے ہیں ،جبکہ بعض مفسرین کا قول یہ ہے کہ یہ اوصاف اسود بن عبد یَغُوث ،یا اخنس بن شریق ،یا ابو جہل بن ہشام کے ہیں ۔( صاوی، القلم، تحت الآیۃ: ۱۰، ۶ / ۲۲۱۲-۲۲۱۳)
بات بات پر قسمیں اٹھانے والے نصیحت حاصل کریں :
اس آیت سے ان مسلمانو ں کو بھی نصیحت حاصل کرنی چاہئے کہ جو بات بات پر اللّٰہ تعالیٰ کی یا قرآن کی قسمیں اٹھانا شروع کر دیتے ہیں اور بسا اوقات جھوٹے ہونے کے باوجود بھی کثرت کے ساتھ قسمیں کھاتے نظر آتے ہیں تاکہ کسی طرح ان کی بات کو سچ مان لیا جائے اور ان کے ا س عمل کی وجہ سے لوگوں کی نظروں میں ان کی جو عزت اور مقام بنتا ہے وہ سب اچھی طرح جانتے ہیں ۔زیادہ قسمیں کھانے اور قسموں کو دھوکا دینے اور فساد برپا کرنے کا ذریعہ بنانے سے منع کرتے ہوئے اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:’’وَ لَا تَجْعَلُوا اللّٰهَ عُرْضَةً لِّاَیْمَانِكُمْ‘‘(بقرہ:۲۲۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اپنی قسموں کی وجہ سے اللّٰہ کے نام کو آڑ نہ بنالو۔
اور ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ لَا تَتَّخِذُوْۤا اَیْمَانَكُمْ دَخَلًۢا بَیْنَكُمْ فَتَزِلَّ قَدَمٌۢ بَعْدَ ثُبُوْتِهَا وَ تَذُوْقُوا السُّوْٓءَ بِمَا صَدَدْتُّمْ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِۚ-وَ لَكُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ‘‘(نحل:۹۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اورتم اپنی قسموں کو اپنے درمیان دھوکے اور فساد کا ذریعہ نہ بناؤورنہ قدم ثابت قدمی کے بعد پھسل جائیں گے اور تم اللّٰہ کے راستے سے روکنے کی وجہ سے سزا کا مزہ چکھو گے اور تمہارے لئے بہت بڑا عذاب ہوگا۔
اورقسموں کے بدلے دنیا کا ذلیل مال لینے والوں کے بارے ارشاد فرماتا ہے: ’’اِنَّ الَّذِیْنَ یَشْتَرُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَ اَیْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِیْلًا اُولٰٓىٕكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ وَ لَا یُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ وَ لَا یَنْظُرُ اِلَیْهِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ لَا یُزَكِّیْهِمْ۪-وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ‘‘(ال عمران:۷۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ لوگ جو اللّٰہ کے وعدے اور اپنی قسموں کے بدلے تھوڑی سی قیمت لیتے ہیں ، اِن لوگوں کے لئے آخرت میں کچھ حصہ نہیں اور اللّٰہ قیامت کے دن نہ توان سے کلام فرمائے گااور نہ ان کی طرف نظر کرے گااور نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔
اللّٰہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت اور عقلِ سلیم عطا فرمائے،اٰمین۔
هَمَّازٍ مَّشَّآءٍۭ بِنَمِیْمٍ(11)
ترجمہ: کنزالعرفان
سامنے سامنے بہت طعنے دینے والا، چغلی کے ساتھ ادھر ادھر بہت پھرنے والا۔
تفسیر: صراط الجنان
{هَمَّازٍ: بہت طعنے دینے والا۔} اس آیت میں بھی دو عیب بیان کئے گئے ہیں :
(1)… وہ ’’هَمَّازٍ‘‘ ہے۔ ہَمّاز اس شخص کو کہتے ہیں جو لوگوں کے سامنے ان کے بکثرت عیب نکالے یا بہت طعنے دے۔( قرطبی، القلم، تحت الآیۃ: ۱۱، ۹ / ۱۷۳، الجزء الثامن عشر، ملخصاً)
عیب جوئی کرنے اور طعنے دینے کی مذمت:
ایسے شخص کے بارے میں اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَیْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ‘‘(ہُمَزَہ:۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اس کے لیے خرابی ہے جو لوگوں کے منہ پر عیب نکالے۔
اور حضرت راشد بن سعد مقرانی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’معراج کی رات میں کچھ عورتوں اور مَردوں کے پاس سے گزرا جو ان کی پستانوں کے ساتھ لٹکے ہوئے تھے۔میں نے کہا:اے جبریل! عَلَیْہِ السَّلَام، یہ کون لوگ ہیں ؟ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ وہ مرد اور عورتیں ہیں جو لوگوں کے سامنے بہت عیب نکالتے اور طعنے دیا کرتے تھے۔( شعب الایمان ، الرابع و الاربعون من شعب الایمان… الخ ، فصل فیما ورد من الاخبار فی التشدید… الخ ، ۵ / ۳۰۹، الحدیث: ۶۷۵۰)
(2)… وہ چغلی کے ساتھ ادھر ادھر بہت پھرنے والا ہے۔
چغلی کی تعریف اور اس کی مذمت:
چغلی کی تعریف یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان فساد ڈالنے کے لئے ایک کی بات دوسرے تک پہنچانا۔( الزواجر عن اقتراف الکبائر، الباب الثانی، الکبیرۃ الثانیۃ والخمسون بعد المأتین: النمیمۃ، ۲ / ۴۶)
اَحادیث میں چغل خوری کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے ،یہاں ان میں سے 3اَحادیث ملاحظہ ہوں ،
(1)… حضرت حذیفہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، میں نے حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ ’’ چغل خور جنت میں نہیں جائے گا۔( مسلم، کتاب الایمان، باب بیان غلظ تحریم النمیمۃ، ص۶۶، الحدیث: ۱۶۸(۱۰۵))
(2)… حضرت عبد الرحمٰن بن غنم اشعری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللّٰہ تعالیٰ کے بہترین بندے وہ ہیں کہ جب ان کو دیکھا جائے تواللّٰہ تعالیٰ یا د آجائے اوراللّٰہ تعالیٰ کے بد ترین بندے چغلی کھانے کے لئے اِدھر اُدھر پھرنے والے، دوستوں کے درمیان جدائی ڈالنے والے اور بے عیب لوگوں کی خامیاں نکالنے والے ہیں۔(مسندامام احمد،مسندالشامیین،حدیث عبد الرحمٰن بن غنم الاشعری رضی اللّٰہ تعالی عنہ،۶ / ۲۹۱،الحدیث:۱۸۰۲۰)
(3)…حضرت علاء بن حارث رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’منہ پر بُرا بھلا کہنے والوں ، پیٹھ پیچھے عیب جوئی کرنے والوں ، چغلی کھانے والوں اور بے عیب لوگوں میں عیب تلاش کرنے والوں کو اللّٰہ تعالیٰ (قیامت کے دن) کتوں کی شکل میں جمع فرمائے گا۔( التوبیخ والتنبیہ لابی الشیخ الاصبہانی، باب البہتان وماجاء فیہ، ص۲۳۷، الحدیث: ۲۱۶)
مَّنَّاعٍ لِّلْخَیْرِ مُعْتَدٍ اَثِیْمٍ(12)
ترجمہ: کنزالعرفان
بھلائی سے بڑا روکنے والا، حد سے بڑھنے والا،بڑا گناہگار۔
تفسیر: صراط الجنان
{مَنَّاعٍ لِّلْخَیْرِ: بھلائی سے بڑا روکنے والا۔} اس آیت میں اس کافر کے تین عیوب بیان کئے گئے ہیں :
(1)… وہ بھلائی سے بڑا روکنے والا ہے۔اس سے مراد یہ ہے کہ وہ( ایسا) بخیل ہے کہ نہ خود نیک کاموں میں خرچ کرتا ہے اور نہ دوسرے کو نیک کاموں میں خرچ کرنے دیتا ہے۔حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اس کے معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ بھلائی سے روکنے سے مقصود اسلام سے روکنا ہے کیونکہ ولید بن مغیرہ اپنے بیٹوں اور رشتہ داروں سے کہتا تھا کہ اگر تم میں سے کوئی اسلام میں داخل ہوا تو میں اُسے اپنے مال میں سے کچھ نہ دوں گا۔
(2)… لوگوں پر ظلم کرنے میں حد سے بڑھنے والا ہے۔
(3)…سخت گناہگار ہے۔(خازن ، ن ، تحت الآیۃ : ۱۲ ، ۴ / ۲۹۵ ، صاوی، القلم، تحت الآیۃ: ۱۲، ۶ / ۲۲۱۳، قرطبی، القلم، تحت الآیۃ: ۱۲، ۹ / ۱۷۴، الجزء الثامن عشر، تفسیر کبیر، القلم، تحت الآیۃ: ۱۲، ۱۰ / ۶۰۴، ملتقطاً)
عُتُلٍّۭ بَعْدَ ذٰلِكَ زَنِیْمٍ(13)
ترجمہ: کنزالعرفان
سخت مزاج، اس کے بعد ناجائز پیداوار ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{عُتُلٍّ: سخت مزاج۔} اس آیت میں اس کافر کے دو عیب بیان کئے گئے ہیں کہ وہ طبعی طور پر بد مزاج اور بد زبان ہے اور ان تمام عیوب سے بڑھ کر ا س کاعیب یہ ہے کہ وہ ناجائز پیداوار ہے تو اس سے خبیث اَفعال کے صادر ہونے میں کیا تعجب ہے۔
ابو البرکات عبداللّٰہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’مروی ہے کہ ولید بن مغیرہ نے اپنی ماں سے جا کر کہا : محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) نے میرے بارے میں دس باتیں بیان فرمائی ہیں ،ان میں سے 9 کے بارے میں تومیں جانتا ہوں کہ وہ مجھ میں موجود ہیں لیکن ان کی یہ بات کہ میں ناجائز پیداوار ہوں ، اس کا حال مجھے معلوم نہیں ، اب تو مجھے سچ سچ بتادے (کہ اصل حقیقت کیا ہے)ورنہ میں تیری گردن ماردوں گا۔ اِس پر اُس کی ماں نے کہا کہ ’’تیرا باپ نامرد تھا ،ا س لئے مجھے یہ اندیشہ ہوا کہ جب وہ مرجائے گا تو اس کا مال دوسرے لوگ لے جائیں گے، تو(اس چیز سے بچنے کے لئے ) میں نے ایک چَرواہے کو اپنے پاس بلالیا اورتو اس چرواہے کی اولاد ہے۔( مدارک، القلم، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۱۲۶۷)
سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شانِ محبوبیّت:
اس سے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فضیلت ،شانِ محبوبیّت اور بارگاہِ الٰہی میں آپ کا مقام معلوم ہوتا ہے کہ ولید نے اللّٰہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں ایک جھوٹا کلمہ کہا تھا کہ (مَعَاذَاللّٰہ) آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مجنون ہیں ، اس کے جواب میں اللّٰہ تعالیٰ نے اس کے دس وہ عیوب ظاہر فرمادیئے جو واقعی ا س میں موجود تھے اور ان میں سے ایک عیب یعنی حرامی ہونا ایسا تھا کہ یہ اس آیت کے نازل ہونے سے ہی معلوم ہوا ورنہ اب تک ا س کے بارے میں سب یہی سمجھتے تھے کہ وہ خاندانِ قریش سے ہے ۔
نوٹ:یاد رہے کہ یہاں تک 9 عیب بیان ہوئے جبکہ دسویں عیب کا ذکر اگلی آیات میں ہے۔
اَنْ كَانَ ذَا مَالٍ وَّ بَنِیْنَﭤ(14)اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِ اٰیٰتُنَا قَالَ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ(15)
ترجمہ: کنزالعرفان
اس بنا پر (بات نہ مانو) کہ وہ مال اور بیٹوں والا ہے۔جب اس پر ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہتا ہے کہ اگلوں کی کہانیاں ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَنْ كَانَ ذَا مَالٍ وَّ بَنِیْنَ: کہ وہ مال اور بیٹوں والا ہے۔} اس آیت کا تعلق اسی سورت کی آیت نمبر 10 سے بھی ہو سکتا ہے۔اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہو گا کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ان عیبوں کے ہونے کے ساتھ آ پ اس کافر کی بات نہ مانیں کہ وہ مالدار اور بیٹوں والا ہے۔اور اس آیت کا تعلق اس کے بعد والی آیت سے بھی ہو سکتا ہے۔اس صورت میں ا س آیت اور اس کے بعد والی آیت کا معنی یہ ہو گا کہ وہ کافرمال اور اولاد والا ہے ، تو اسے چاہئے تھا کہ ان نعمتوں کی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا اور ایمان لاتا لیکن ا س لعین نے شکر کرنے کی بجائے مال اور اولاد کی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار کرنا شروع کر دیا اور جب ا س کے سامنے قرآنِ پاک کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو وہ کہتا ہے کہ یہ اگلوں کی جھوٹی کہانیاں ہیں ۔( مدارک ، القلم ، تحت الآیۃ : ۱۴- ۱۵ ، ص۱۲۶۷ ، صاوی ، القلم ، تحت الآیۃ : ۱۴-۱۵، ۶ / ۲۲۱۴، جمل، القلم، تحت الآیۃ: ۱۴-۱۵، ۸ / ۷۵، ملتقطاً)
اس صورت میں یہ ولید بن مغیرہ کادسواں عیب بنتاہے جبکہ مجموعی طور پر آیت نمبر8سے لے کر یہاں تک سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دشمنوں کے 10سے زیادہ عیب بیان کئے گئے ہیں ۔
سَنَسِمُهٗ عَلَى الْخُرْطُوْمِ(16)
ترجمہ: کنزالعرفان
قریب ہے کہ ہم اس کی سور کی سی تھوتھنی پر داغ دیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{سَنَسِمُهٗ عَلَى الْخُرْطُوْمِ: قریب ہے کہ ہم اس کی سور کی سی تھوتھنی پر داغ دیں گے۔} اس آیت میں اس کافر کے لئے وعید بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ہم اس کی سور کی سی تھوتھنی پر داغ کر اس کا چہرہ بگاڑ دیں گے اوراس کی بدباطنی کی علامت اس کے چہرے پر نمودار کردیں گے تاکہ یہ اس کیلئے عار کا سبب ہو۔ یہ خبر دنیا میں ا س طرح پوری ہوئی کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اس کے عیوب بیان کر کے اسے ایسا ذلیل و رُسواکیا کہ جس طرح داغ کبھی ختم نہیں ہوتا اسی طرح اس کی ذلت بھی کبھی ختم نہ ہوئی اور آخرت میں یہ خبر اس طرح پوری ہوگی کہ جہنم میں داخل کرنے سے پہلے ا س کے چہرے کو سیاہ کر دیا جائے گا یا اللّٰہ تعالیٰ اس کی ناک پر ایسی علامت بنا دے گا جس سے اہلِ محشر پہچان لیں گے کہ یہی وہ کافر ہے جو دین ِحق کا انکار کرنے میں اور رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عداوت رکھنے میں پیش پیش تھا۔( جلالین، ن ، تحت الآیۃ : ۱۶ ، ص۴۶۹ ، خازن ، ن، تحت الآیۃ: ۱۶، ۴ / ۲۹۶، تفسیر کبیر، القلم، تحت الآیۃ: ۱۶، ۱۰ / ۶۰۶، ملتقطاً)
اِنَّا بَلَوْنٰهُمْ كَمَا بَلَوْنَاۤ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِۚ-اِذْ اَقْسَمُوْا لَیَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِیْنَ(17)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک ہم نے انہیں جانچا جیسا باغ والوں کو جانچا تھا جب انہوں نے قسم کھائی کہ ضرور صبح ہوتے اس باغ کو کاٹ لیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّا بَلَوْنٰهُمْ كَمَا بَلَوْنَاۤ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ: بیشک ہم نے ان کو جانچا جیسا باغ والوں کو جانچا تھا۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ہم نے کفارِ مکہ کو مال اور دولت شکر ادا کرنے کے لئے دی تھی نہ کہ تکبُّر و سرکشی کرنے کے لئے، تو جب انہوں نے تکبر کیا اور میرے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دشمنی مول لی تو ہم نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ا س دعا سے کہ یارب! عَزَّوَجَلَّ، انہیں ایسی قحط سالی میں مبتلا کر جیسی حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانہ میں ہوئی تھی،نیز کفارِ مکہ کو بھوک اور قحط کے ذریعے آزمائش میں مبتلا کر دیا گیاجیسا کہ باغ والوں کو کیا تھا۔چنانچہ کفارِ مکہ قحط کی مصیبت میں اس قدر مبتلا کئے گئے کہ وہ بھوک کی شدّت میں مُردار اور ہڈیاں تک کھاگئے ۔
باغ والوں کا واقعہ:
اس آیت میں جس باغ کی مثال دے کر ا س کا واقعہ بیان کیا گیااس کا نام ضردان تھا ، یہ باغ یمن کے شہر صنعاء سے دو فرسنگ(یعنی 6میل) کے فاصلے پر سر ِراہ واقع تھا ۔اس باغ کا مالک ایک نیک مرد تھا اور وہ باغ کے پھل کثرت سے فُقراء کو دیتا تھا،اس کی عادت یہ تھی کہ جب باغ میں جاتا تو فقراء کو بلالیتا اورتمام گرے پڑے پھل فقراء لے لیتے ۔پھر باغ میں بستر بچھادیئے جاتے اورجب پھل توڑے جاتے تو جتنے پھل بستروں پر گرتے وہ بھی فقراء کو دے دیئے جاتے اور جو خالص اپنا حصہ ہوتا اس سے بھی وہ دسواں حصہ فقراء کو دے دیتا، اسی طرح کھیتی کاٹتے وقت بھی اس نے فقراء کے حقوق بہت زیادہ مقرر کئے ہوئے تھے۔ اس کے انتقال کے بعد اس کے تین بیٹے وارث ہوئے، انہوں نے باہم مشورہ کیا کہ مال قلیل ہے اور کنبہ بہت زیادہ ہے اس لئے اگر والد کی طرح ہم بھی خیرات جاری رکھیں تو تنگ دست ہوجائیں گے۔اس پر انہوں نے آپس میں مل کر قسمیں کھائیں کہ صبح سویرے لوگوں کے اٹھنے سے پہلے ہی باغ میں چل کر پھل توڑ لیں گے تاکہ مسکینوں کو خبر نہ ہو۔( تفسیرقرطبی،القلم، تحت الآیۃ: ۱۷، ۹ / ۱۸۰، الجزء الثامن عشر، مدارک، القلم، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۱۲۶۸، خازن، ن، تحت الآیۃ: ۱۷، ۴ / ۲۹۶، ملتقطاً)
وَ لَا یَسْتَثْنُوْنَ(18)فَطَافَ عَلَیْهَا طَآىٕفٌ مِّنْ رَّبِّكَ وَ هُمْ نَآىٕمُوْنَ(19)فَاَصْبَحَتْ كَالصَّرِیْمِ(20)فَتَنَادَوْا مُصْبِحِیْنَ(21)اَنِ اغْدُوْا عَلٰى حَرْثِكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰرِمِیْنَ(22)فَانْطَلَقُوْا وَ هُمْ یَتَخَافَتُوْنَ(23)اَنْ لَّا یَدْخُلَنَّهَا الْیَوْمَ عَلَیْكُمْ مِّسْكِیْنٌ(24)وَّ غَدَوْا عَلٰى حَرْدٍ قٰدِرِیْنَ(25)فَلَمَّا رَاَوْهَا قَالُوْۤا اِنَّا لَضَآلُّوْنَ(26)بَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَ(27)قَالَ اَوْسَطُهُمْ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ لَوْ لَا تُسَبِّحُوْنَ(28)قَالُوْا سُبْحٰنَ رَبِّنَاۤ اِنَّا كُنَّا ظٰلِمِیْنَ(29)فَاَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍ یَّتَلَاوَمُوْنَ(30)قَالُوْا یٰوَیْلَنَاۤ اِنَّا كُنَّا طٰغِیْنَ(31)عَسٰى رَبُّنَاۤ اَنْ یُّبْدِلَنَا خَیْرًا مِّنْهَاۤ اِنَّاۤ اِلٰى رَبِّنَا رٰغِبُوْنَ(32)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اِنْ شَآءَ اللہ نہیں کہہ رہے تھے۔تو اس باغ پر تیرے رب کی طرف سے ایک پھیری کرنے والا پھیری کر گیا جبکہ وہ سو رہے تھے۔تو صبح کے وقت وہ باغ سیاہ رات کی طرح ہوگیا۔پھر انہوں نے صبح ہوتے ایک دوسرے کو پکارا۔کہ اگر تم کاٹنا چاہتے ہو تو صبح سویرے اپنی کھیتی پر چلو۔تو وہ چلے اور آپس میں آہستہ آہستہ کہتے جاتے تھے۔کہ ہرگز آج کوئی مسکین تمہارے پاس باغ میں آنے نہ پائے۔اور وہ خود کو روکنے پر قادرسمجھتے ہوئے صبح سویرے چلے۔ پھر جب انہوں نے اس باغ کو دیکھا توکہنے لگے:بیشک ہم ضرور راستہ بھٹک گئے ہیں ۔بلکہ ہم محروم ہوگئے ہیں ۔ان میں جو بہتر تھا اس نے کہا: کیا میں تم سے نہیں کہتا تھا کہ تم تسبیح کیوں نہیں کرتے؟انہوں نے کہا: ہمارا رب پاک ہے، بیشک ہم ظالم تھے۔پھر وہ ایک دوسرے کی طرف ملامت کرتے متوجہ ہوئے۔بولے: ہائے ہماری خرابی، بیشک ہم سرکش تھے۔امید ہے کہ ہمارا رب ہمیں اس سے بہتر بدل دے یقینا(اب) ہم اپنے رب کی طرف ہی رغبت رکھنے والے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَا یَسْتَثْنُوْنَ: اور اِنْ شَآءَ اللّٰہ نہیں کہہ رہے تھے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی 14آیات میں اس واقعے کا بقیہ حصہ بیان کیا گیا ہے،اس کاخلاصہ یہ ہے کہ انہوں نے صبح سویرے پھل توڑنے کی قسم کھائی اور اِنْ شَآءَ اللّٰہ کہنا بھول گئے۔ پھر یہ لوگ تو قسمیں کھا کر سوگئے اور ا س باغ پر اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے رات میں ایک آگ آئی جو اسے تباہ کر گئی اور صبح کے وقت تک وہ باغ جل کرسیاہ رات کی طرح ہوگیا اوران لوگوں کو ا س کی کچھ خبر نہ ہوئی ۔یہ صبح سویرے اٹھے اور ایک دوسرے کو پکارا کہ اگر تم باغ کا پھل کاٹنا چاہتے ہو تو صبح منہ اندھیرے اپنی کھیتی پر چلو۔ چنانچہ وہ لوگ باغ کی طرف چلے اور ا س دوران آپس میں آہستہ آہستہ کہتے جاتے تھے کہ ہرگز آج کوئی مسکین تمہارے باغ میں آنے نہ پائے اوروہ اپنے آپ کو اس ارادہ پرقادرسمجھتے ہوئے صبح سویرے چلے کہ کسی مسکین کو اندرنہ آنے دیں گے اور وہ تمام پھل اپنے قبضہ میں لائیں گے ۔پھر جب باغ کے قریب پہنچے اور انہوں نے اس باغ کو دیکھا کہ وہ جل چکا ہے اور اس میں پھل کا نام ونشان نہیں توکہنے لگے:بیشک ہم کسی اور باغ پر پہنچ گئے ہیں کیونکہ ہمارا باغ تو بہت پھل دار ہے ۔پھر جب غور کیا اور اس کے درو دیوار کو دیکھا اور پہچان لیا کہ یہ اپنا ہی باغ ہے تو کہنے لگے: ہم راستہ نہیں بھولے بلکہ حق دار مسکینوں کو روکنے کی نیت کر کے ہم خوداس کے پھل سے محروم ہوگئے ہیں ۔ ان میں سے جو عقلمند تھا اس نے کہا: کیا میں تم سے نہیں کہتا تھا کہ تم اللّٰہ تعالیٰ کی تسبیح کیوں نہیں کرتے اور اس برے ارادے سے توبہ کیوں نہیں کرتے اور اللّٰہ تعالیٰ کی نعمت کا شکر کیوں نہیں بجالاتے ؟ اس پرسب نے کہا:ہمارا رب عَزَّوَجَلَّ پاک ہے ،بیشک ہم ظالم تھے ، اوراس وقت وہ ملامت کرتے ہوئے ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوئے اور آخر کار ان سب نے اعتراف کیا کہ ہم سے خطا ہوئی اور ہم حد سے تجاوُز کرگئے۔وہ کہنے لگے: ہائے ہماری خرابی، بے شک ہم سرکش تھے کہ ہم نے اللّٰہ تعالیٰ کی نعمت کا شکر نہ کیا اور اپنے باپ دادا کے نیک طریقے کو چھوڑدیا، امید ہے کہ ہمارا رب عَزَّوَجَلَّ ہمیں اس سے بہتر بدل دے ،اب ہم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف ہی رغبت رکھنے والے ہیں اور اس کے عَفْوو کرم کی امید رکھتے ہیں ۔ان لوگوں نے سچے دل سے اور اخلاص کے ساتھ توبہ کی تو اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں اِس کے بدلے اُس سے بہتر باغ عطا فرمایا جس کا نام’’ باغِ حیوان‘‘ تھا اور اس میں کثیر پیداوارہوئی۔( خازن، ن، تحت الآیۃ: ۱۸-۳۲، ۴ / ۲۹۶-۲۹۷، مدارک، القلم، تحت الآیۃ: ۱۸-۳۲، ص۱۲۶۸-۱۲۶۹، ملتقطاً)
كَذٰلِكَ الْعَذَابُؕ-وَ لَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُۘ-لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ(33)
ترجمہ: کنزالعرفان
سزا ایسی ہی ہوتی ہے اور بیشک آخرت کی سزا سب سے بڑی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر لوگ جانتے۔
تفسیر: صراط الجنان
{كَذٰلِكَ الْعَذَابُ: سزا ایسی ہی ہوتی ہے۔} اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے کفارِ مکہ کو اپنے عذاب سے ڈراتے ہوئے فرمایا کہ اے کفارِ مکہ ! جس طرح ہم نے باغ والوں کے ساتھ کیا اسی طرح جو ہماری حدوں سے تجاوُز کرے اور ہمارے حکم کی مخالفت کرے اس کے لئے بھی ہماری سزا ایسی ہی ہوتی ہے ،لہٰذا ہوش میں آؤ اور اپنا انجام خود سوچ لو کہ یہ تو دنیا کی سزا ہے اور بیشک آخرت کی سزا سب سے بڑی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر لوگ آخرت کے عذاب کو جانتے اور اس سے بچنے کے لئے اللّٰہ تعالیٰ اور ا س کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فرمانبرداری کرتے ۔
اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ(34)اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ كَالْمُجْرِمِیْنَﭤ(35)مَا لَكُمْٙ-كَیْفَ تَحْكُمُوْنَ(36)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک ڈر والوں کے لیے ان کے رب کے پاس چین کے باغ ہیں ۔توکیا ہم مسلمانوں کو مجرموں جیسا کردیں ۔ تمہیں کیا ہوا؟ کیسا حکم لگاتے ہو؟
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ: بیشک ڈر والوں کے لیے۔} ارشاد فرمایا کہ کفر اور گناہوں سے بچنے والوں کے لئے آخرت میں ان کے رب عَزَّوَجَلَّ کے پاس ایسے باغ ہیں جن میں صرف نعمتیں ہی ہیں اور وہ دنیا کی نعمتوں کی طرح بدمزہ اور زائل ہونے کے خوف سے پاک ہیں ۔( ابو سعود، ن، تحت الآیۃ: ۳۴، ۵ / ۷۵۶)
{اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ كَالْمُجْرِمِیْنَ: توکیا ہم مسلمانوں کو مجرموں جیسا کردیں ۔} شانِ نزول : جب اوپر والی آیت نازل ہوئی تو مشرکین نے مسلمانوں سے کہا کہ جس طرح ہمیں دنیا میں آسائش حاصل ہے اسی طرح اگر ہم مرنے کے بعد پھر اُٹھائے بھی گئے تو آخرت میں بھی ہم تم سے اچھے رہیں گے اور ہمارا ہی درجہ بلند ہوگا ، اس پر یہ آیات نازل ہوئیں اور اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ کیا ہم نجات حاصل ہونے اور درجات ملنے کے معاملے میں مسلمانوں کو کافروں جیسا کردیں گے اور اُن مخلص فرمانبرداروں کو اِن سرکش باغیوں پر فضیلت نہ دیں گے! ہمارے بارے میں ایسا فاسد گمان رکھتے ہو،تمہیں کیا ہوا اور تم اپنی جہالت کی وجہ سے کیسا حکم لگا رہے ہو، تمہاری حالت سے تو ایسالگ رہا ہے جیسے جزا کا معاملہ تمہارے سپرد ہے اور تم اس میں جو چاہے فیصلہ کر لو ۔( مدارک، القلم، تحت الآیۃ: ۳۵-۳۶، ص۱۲۶۹، روح البیان، ن، تحت الآیۃ: ۳۵-۳۶، ۱۰ / ۱۱۹، ملتقطاً)
اس سے معلوم ہو اکہ کافر اور مسلمان برابر نہیں بلکہ یہ دو الگ الگ قومیں ہیں ۔
اَمْ لَكُمْ كِتٰبٌ فِیْهِ تَدْرُسُوْنَ(37)اِنَّ لَكُمْ فِیْهِ لَمَا تَخَیَّرُوْنَ(38)
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا تمہارے لیے کوئی کتاب ہے جس میں تم (ایسی بات)پڑھتے ہو۔ کہ تمہارے لیے قیامت کے دن میں ضروروہ سب کچھ ہے جو تم پسند کرو۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَمْ لَكُمْ كِتٰبٌ: کیا تمہارے لیے کوئی کتاب ہے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ اے اللّٰہ تعالیٰ کے انعامات میں مسلمانوں اور کافروں کو برابر سمجھنے والو! کیا اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی فرشتہ تمہارے پاس ایسی کتاب لے کر نازل ہو اہے جس میں لکھا ہو کہ تمہارے لئے (قیامت کے دن) وہ سب کچھ ہے جو تم پسند کرو اور اس میں سے پڑھ کر تم یہ بات کہتے ہو؟( تفسیر طبری، القلم، تحت الآیۃ: ۳۷-۳۸، ۱۲ / ۱۹۶)
اَمْ لَكُمْ اَیْمَانٌ عَلَیْنَا بَالِغَةٌ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِۙ-اِنَّ لَكُمْ لَمَا تَحْكُمُوْنَ(39)
ترجمہ: کنزالعرفان
یا تمہارے لیے ہم پر قیامت کے دن تک پہنچتی ہوئی کچھ قسمیں ہیں کہ ضرور تمہیں وہی کچھ ملے گا جو تم فیصلہ کرو گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَمْ لَكُمْ اَیْمَانٌ عَلَیْنَا بَالِغَةٌ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ: یا تمہارے لیے ہم پر قیامت کے دن تک پہنچتی ہوئی کچھ قسمیں ہیں۔} ارشاد فرمایا کہ اے کافرو!کیا ہم تمہارے بارے میں ایسی قسمیں فرما چکے ہیں جو قیامت تک ہم پر لاز م ہیں اور ہم ان قسموں سے اس دن نکلیں گے جس دن ہم تمہارے لئے یہ حکم کر دیں کہ آج تمہیں وہ سب کچھ ملے گا جو تم اپنے لئے اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک خیر و کرامت کا دعویٰ کرتے ہو؟( مدارک، القلم، تحت الآیۃ: ۳۹، ص۱۲۷۰، خازن، ن، تحت الآیۃ: ۳۹، ۴ / ۲۹۸، ملتقطاً)
سَلْهُمْ اَیُّهُمْ بِذٰلِكَ زَعِیْمٌ(40)اَمْ لَهُمْ شُرَكَآءُۚۛ-فَلْیَاْتُوْا بِشُرَكَآىٕهِمْ اِنْ كَانُوْا صٰدِقِیْنَ(41)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم ان سے پوچھو کہ ان میں کون اس کا ضامن ہے؟یا ان کیلئے کچھ شریک ہیں تو وہ اپنے شریکوں کو لے آئیں اگر سچے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{سَلْهُمْ: تم ان سے پوچھو۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خطاب کرتے ہوئے ارشادفرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان کفار سے پوچھیں کہ ان میں سے کون اس بات کا ضامن ہے کہ آخرت میں انہیں مسلمانوں سے بہتر یا اُن کے برابر ملے گا یا ان کے پاس کچھ شریک ہیں جو اس دعوے میں ان کی موافقت کررہے ہیں اور وہ ان کے ذمہ دار بنے ہیں ، اگر وہ اپنے دعوے میں سچے ہیں تو اپنے ان شریکوں کو لے آئیں ۔حقیقت یہ ہے کہ وہ خود بھی سمجھتے ہیں کہ وہ باطل پر ہیں ، نہ اُن کے پاس کوئی ایسی کتاب ہے جس میں یہ مذکور ہو جو وہ کہتے ہیں ، نہ ان کے بارے میں اللّٰہ تعالیٰ کا کوئی عہد ہے، نہ ان کا کوئی ضامن اورنہ ہی کوئی ان سے موافقت کرتا ہے ۔( مدارک، القلم، تحت الآیۃ: ۴۰-۴۱، ص۱۲۷۰، جلالین، ن، تحت الآیۃ: ۴۰-۴۱، ص۴۷۰، ملتقطاً)
یَوْمَ یُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّ یُدْعَوْنَ اِلَى السُّجُوْدِ فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ(42)خَاشِعَةً اَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌؕ-وَ قَدْ كَانُوْا یُدْعَوْنَ اِلَى السُّجُوْدِ وَ هُمْ سٰلِمُوْنَ(43)
ترجمہ: کنزالعرفان
جس دن معاملہ بڑا سخت ہوجائے گا اور کافروں کوسجدے کی طرف بلایا جائے گا تو وہ (اس کی) طاقت نہ رکھیں گے۔ان کی نگاہیں نیچی ہوں گی ،ان پر ذلت چڑھ رہی ہوگی اوربیشک انہیں (دنیا میں ) سجدے کی طرف بلایا جاتا تھا جبکہ وہ تندرست تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{یَوْمَ یُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ: جس دن معاملہ بڑا سخت ہوجائے گا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین اپنے شریکوں کو ا س دن لے آئیں جس دن ایک ساق کھولی جائے گی تاکہ وہ انہیں فائدہ پہنچائیں اور ان کی سفارش کریں اور(قیامت کے دن) کفار و منافقین کو ان کے ایمان کے امتحان اور دنیا میں سجدہ ریز نہ ہو نے پر ڈانٹ ڈپٹ کے طور پر سجدے کی طرف بلایا جائے گا تو وہ سجدہ نہ کرسکیں گے کیونکہ ان کی پشتیں تانبے کے تختے کی طرح سخت ہوجائیں گی اور اس وقت ان کا حال یہ ہو گا کہ دنیا میں ایمان قبول نہ کرنے اور سجدوں کو ترک کرنے پر شرم وندامت سے ان کی نگاہیں نیچی ہوں گی،ان کے چہرے سیاہ ہو جائیں گے اور ان پر ذلت چڑھ رہی ہوگی حالانکہ انہیں رسولوں کی (مُقَدّس) زبانوں سے دنیا میں سجدے کی طرف بلایا جاتا تھا اور اذانوں اور تکبیروں میں حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ، حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ کے ساتھ انہیں نماز اور سجدے کی دعوت دی جاتی تھی لیکن یہ تندرست ہونے کے باوجود سجدہ نہ کرتے تھے اور ان کے اسی عمل کا یہ نتیجہ ہے جو یہاں سجدے سے محروم رہے ۔
یاد رہے کہ جمہور علماء کے نزدیک یہاں آیت میں ساق کھلنے سے مراد وہ شدت اور سختی ہے جو قیامت کے دن حساب اور جزا کے لئے پیش آئے گی اور اس وقت کے بارے میں حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ قیامت میں وہ بڑا سخت وقت ہے ۔ آیت کا دوسرا معنیٰ یہ ہے کہ یہاں محاورے والا معنیٰ مراد نہیں ہے بلکہ یہ معنی ہے کہ جس دن ساق یعنی پنڈلی کھولی جائے گی۔ اس معنیٰ کے اعتبار سے یہ آیت مُتشابہات میں سے ہے اور قرآنِ پاک یا اَحادیث میں مذکور مُتشابہات کے بارے میں اَسلا ف کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ان کے معنیٰ میں کلام نہیں کرتے اور یہ فرماتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور اس سے جو مراد ہے وہ اللّٰہ تعالیٰ کے سپرد کرتے ہیں ۔( خازن،ن، تحت الآیۃ: ۴۲-۴۳، ۴ / ۲۹۸،۳۰۱، مدارک، القلم، تحت الآیۃ: ۴۲-۴۳، ص۱۲۷۰، جمل، القلم، تحت الآیۃ:۴۲-۴۳،۸ / ۸۳-۸۴، عمدۃ القاری،کتاب تفسیر القرآن، سورۃ ن والقلم، باب یوم یکشف عن ساق، ۱۳ / ۴۳۲، تحت الحدیث: ۴۹۱۹، ملتقطاً)
نماز میں سُستی کرنے والے مسلمانوں کے لئے عبرت و نصیحت:
یہاں آیت میں بیان کی گئی وعید اگرچہ کفار اور منافقین کے لئے ہے کہ انہیں سجدے کی طرف بلایا جائے گا تو وہ اس کی طاقت نہیں رکھیں گے کیونکہ دنیا میں انہیں خدا کے سامنے جھکنے کی طرف بلایا جاتا تھا تو یہ انکار کرتے تھے، یہ اگرچہ کفار کے بارے میں ہے لیکن اس میں ان مسلمانوں کے لئے بھی بہت عبرت اور نصیحت ہے جو شرعی عذر نہ ہو نے کے باوجودنماز ادا نہیں کرتے بلکہ بعض اوقات نماز ہی قضا کر دیتے ہیں یا سرے سے نماز پڑھتے ہی نہیں ۔ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کاحکم دیتے ہوئے ایک مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ‘‘(بقرہ:۴۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔
اور نماز ادا کرنے میں سُستی کرنے والوں کے بارے میں فرماتا ہے: ’’اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ هُوَ خَادِعُهُمْۚ-وَ اِذَا قَامُوْۤا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰىۙ-یُرَآءُوْنَ النَّاسَ وَ لَا یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِیْلًا‘‘(نساء:۱۴۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک منافق لوگ اپنے گمان میں اللّٰہ کو فریب دینا چاہتے ہیں اور وہی انہیں غافل کرکے مارے گا اور جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں توبڑے سست ہوکر لوگوں کے سامنے ریاکاری کرتے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں اور اللّٰہ کو بہت تھوڑا یاد کرتے ہیں ۔
اور نمازیں قضا کر کے پڑھنے والوں کے بارے میں فرماتا ہے: ’’ فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَۙ(۴) الَّذِیْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ‘‘(ماعون:۴،۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو ان نمازیوں کے لئے خرابی ہے۔جو اپنی نماز سے غافل ہیں ۔
اور نمازیں ضائع کرنے والوں کے بارے میں فرماتا ہے: ’’فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَ اتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا ‘‘(مریم:۵۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو ان کے بعد وہ نالائق لو گ ان کی جگہ آئے جنہوں نے نمازوں کو ضائع کیا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کی تو عنقریب وہ جہنم کی خوفناک وادی غی سے جا ملیں گے۔
اورحضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’منافقین پر سب سے زیادہ گراں نماز عشا اور فجر ہے اوراگر وہ جانتے کہ اس میں کیا ہے؟ تو گھسٹتے ہوئے آتے اور بیشک میں نے ارادہ کیا کہ نماز قائم کرنے کا حکم دوں پھر کسی کو حکم فرماؤں کہ لوگوں کو نماز پڑھائے اور میں اپنے ہمراہ کچھ لوگوں کو جن کے پاس لکڑیوں کے گٹھے ہوں ان کے پاس لے کر جاؤں جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے اور ان کے گھر اُن پر آگ سے جلا دوں۔( مسلم ، کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ ، باب فضل صلاۃ الجماعۃ و بیان التشدید فی التخلف عنہا ، ص ۳۲۷ ، الحدیث: ۲۵۲(۶۵۱))
اورحضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کی، یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اسلام میں سب سے زیادہ اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب کیا چیز ہے؟ارشاد فرمایا ’’وقت میں نماز پڑھنا اور جس نے نماز چھوڑی اس کا کوئی دین نہیں ۔ نماز دین کا ستون ہے۔( شعب الایمان، باب الحادی والعشرون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۳ / ۳۹، الحدیث: ۲۸۰۷)
اور حضرت ابو سعید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے قصداً نماز چھوڑی تو اس کا نام جہنم کے اس دروازے پر لکھ دیا جاتا ہے جس سے وہ جہنم میں داخل ہو گا۔( حلیۃ الاولیاء،۳۹۰- مسعر بن کدام، ۷ / ۲۹۹، الحدیث: ۱۰۵۹۰)
اور حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا: ’’سب سے پہلے قیامت کے دن بندے سے نماز کا حساب لیا جائے گا، اگر یہ درست ہوئی تو باقی اعمال بھی ٹھیک رہیں گے اور یہ بگڑی تو سبھی بگڑے۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۵۰۴، الحدیث: ۱۸۵۹)
اللّٰہ تعالیٰ ہرمسلمان کو پابندی کے ساتھ اور صحیح طریقے سے با جماعت نماز ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور نماز کی ادائیگی میں سُستی اور کاہلی سے محفوظ فرمائے ،اٰمین۔
فَذَرْنِیْ وَ مَنْ یُّكَذِّبُ بِهٰذَا الْحَدِیْثِؕ-سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَ(44)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو جو اس بات کو جھٹلاتا ہے اسے مجھ پر چھوڑ دو عنقریب ہم انہیں آہستہ آہستہ وہاں سے لے جائیں گے جہاں سے انہیں خبر بھی نہ ہوگی۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَذَرْنِیْ وَ مَنْ یُّكَذِّبُ بِهٰذَا الْحَدِیْثِ: تو جو اس بات کو جھٹلاتا ہے اسے مجھ پر چھوڑ دو۔} اس سے پہلی آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے کفار کو قیامت کے دن کی ہَولناکی کا خوف دلایا اور اب انہیں ڈر سنانے میں اضافہ کرتے ہوئے اپنے عذاب سے ڈرایا اور اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جب آخرت میں کفار کا حال یہ ہو گا تو جو اس قرآنِ مجید کو جھٹلاتا ہے اس کے معاملے کو مجھ پر چھوڑ دیں ، میں اسے سزا دوں گا اورآپ اس کے معاملے میں اپنے دل کو رنجیدہ نہ کریں ۔ قریب ہے کہ ہم کفار کو آہستہ آہستہ اپنے عذاب کی طرف وہاں سے لے جائیں گے جہاں سے انہیں خبر بھی نہ ہوگی کہ گناہوں اور نافرمانیوں کے باوجود انہیں صحت اور رزق سب کچھ ملتا رہے گا اور وہ اللّٰہ تعالیٰ کے رزق کو گناہوں میں زیادتی کا ذریعہ بنا لیں گے اور ہم انہیں اِستغفار اور توبہ کرنا بھلا دیں گے ،یوں رفتہ رفتہ عذاب ان کے قریب ہوتاجائے گا۔( تفسیر کبیر ، القلم ، تحت الآیۃ : ۱۰، ۱۰ / ۶۱۵، مدارک، القلم، تحت الآیۃ: ۴۴، ص۱۲۷۰، خازن، ن، تحت الآیۃ: ۴۴، ۴ / ۳۰۱، ملتقطاً)
نافرمانیوں کے باوجود نعمتیں ملنا اللّٰہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر بھی ہوسکتی ہے:
اس سے معلوم ہوا کہ نافرمانیوں کے باوجود دنیا کی نعمتیں ملتی رہنا بلکہ ان میں مزید اضافہ ہونا اللّٰہ تعالیٰ کے فضل کی بجائے اس کی کوئی خفیہ تدبیر بھی ہو سکتی ہے۔ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَیْءٍؕ-حَتّٰۤى اِذَا فَرِحُوْا بِمَاۤ اُوْتُوْۤا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ‘‘(انعام:۴۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: پھر جب انہوں نے ان نصیحتوں کو بھلا دیاجو انہیں کی گئی تھیں توہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دئیے یہاں تک کہ جب وہ اس پرخوش ہوگئے جو انہیں دی گئی تو ہم نے اچانک انہیں پکڑلیاپس اب وہ مایوس ہیں ۔
اورحضرت عقبہ بن عامر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب تم یہ دیکھو کہ بندے کے گناہوں پر قائم ہونے کے باوجود اللّٰہ تعالیٰ اسے ا س کی پسند کی دُنْیَوی نعمتیں عطا کر رہا ہے تو(جان لو کہ )یہ اس کے حق میں اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے اِستدراج (یعنی خفیہ تدبیر) ہے۔( مسند امام احمد،مسند الشامیین،حدیث عقبۃ بن عامر الجہنی عن النبیصلی اللّٰہ علیہ وسلم،۶ / ۱۲۲،الحدیث:۱۷۳۱۳)
لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ اسے جب بھی کوئی نعمت ملے تو ا س پر اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور اگر اس سے کوئی گناہ سَرزَد ہو جائے تو توبہ و اِستغفار کرنے میں دیر نہ کرے۔
وَ اُمْلِیْ لَهُمْؕ-اِنَّ كَیْدِیْ مَتِیْنٌ(45)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور میں انہیں ڈھیل دوں گا، بیشک میری خفیہ تدبیر بہت پکی ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اُمْلِیْ لَهُمْ: اور میں انہیں ڈھیل دوں گا۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ میں ان کفار کو ان کی موت آنے تک ڈھیل دوں گا ا س لئے انہیں جلد سزا نہیں دوں گا ، بے شک میرا عذاب بہت سخت ہے۔دوسری تفسیر یہ ہے کہ میں ان کفار کو لمبی عمر عطا کر کے اور ان کی موت میں تاخیر کر کے انہیں ڈھیل دوں گا تاکہ وہ اور گناہ کر لیں لیکن وہ لوگ سمجھ رہے ہوں گے کہ ان کی عمر لمبی ہونا ان کے حق میں بہتر ہے،بیشک میری خفیہ تدبیر بہت پکی ہے۔( خازن، ن، تحت الآیۃ: ۴۵، ۴ / ۳۰۱، روح البیان، ن، تحت الآیۃ: ۴۵، ۱۰ / ۱۲۵، ملتقطاً)
کافروں کو لمبی عمر ملنے کی حقیقت اور مسلمانوں کے لئے نصیحت:
کافروں کو لمبی عمر ملنے اور مہلت دئیے جانے کے بارے میں ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنَّمَا نُمْلِیْ لَهُمْ خَیْرٌ لِّاَنْفُسِهِمْؕ-اِنَّمَا نُمْلِیْ لَهُمْ لِیَزْدَادُوْۤا اِثْمًاۚ-وَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ‘‘(ال عمران:۱۷۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کافر ہرگز یہ گمان نہ رکھیں کہ ہم انہیں جومہلت دے رہے ہیں یہ ان کے لئے بہتر ہے ، ہم توصرف اس لئے انہیں مہلت دے رہے ہیں کہ ان کے گناہ اور زیادہ ہوجائیں اور ان کے لئے ذلت کا عذاب ہے۔
اور ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَۚۖ(۱۸۲) وَ اُمْلِیْ لَهُمْؕ-اِنَّ كَیْدِیْ مَتِیْنٌ‘‘(اعراف:۱۸۲۔۱۸۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تو عنقریب ہم انہیں آہستہ آہستہ (عذاب کی طرف) لے جائیں گے جہاں سے انہیں خبر بھی نہ ہوگی۔ اور میں انہیں ڈھیل دوں گا بیشک میری خفیہ تدبیر بہت مضبوط ہے۔
اور ارشاد فرماتا ہے : ’’قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًاؕ(۱۰۳) اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ هُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا ‘‘(کہف:۱۰۳،۱۰۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم فرماؤ: کیا ہم تمہیں بتادیں کہ سب سے زیادہ ناقص عمل والے کون ہیں ؟وہ لوگ جن کی ساری کوشش دنیا کی زندگی میں برباد ہو گئی حالانکہ وہ یہ گمان کررہے ہیں کہ وہ اچھا کام کررہے ہیں ۔
ان آیات کو سامنے رکھتے ہوئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے ڈرتا رہے ،گناہوں پر اللّٰہ تعالیٰ کی گرفت ،اپنے نیک اعمال ضائع ہو جانے اور برا خاتمہ ہونے پر خوفزدہ رہے۔اللّٰہ تعالیٰ اپنی خفیہ تدبیر سے متعلق ارشاد فرتا ہے: ’’اَفَاَمِنَ اَهْلُ الْقُرٰۤى اَنْ یَّاْتِیَهُمْ بَاْسُنَا بَیَاتًا وَّ هُمْ نَآىٕمُوْنَؕ(۹۷) اَوَ اَمِنَ اَهْلُ الْقُرٰۤى اَنْ یَّاْتِیَهُمْ بَاْسُنَا ضُحًى وَّ هُمْ یَلْعَبُوْنَ(۹۸)اَفَاَمِنُوْا مَكْرَ اللّٰهِۚ-فَلَا یَاْمَنُ مَكْرَ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ‘‘(اعراف:۹۷۔۹۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: کیا بستیوں والے اس بات سے بے خوف ہوگئے کہ ان پر ہمارا عذاب رات کو آئے جب وہ سورہے ہوں ۔ یا بستیوں والے اس بات سے بے خوف ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب دن کے وقت آجائے جب وہ کھیل میں پڑے ہوئے ہوں ۔ کیا وہ اللّٰہ کی خفیہ تدبیر سے بے خوف ہیں تو اللّٰہ کی خفیہ تدبیر سے صرف تباہ ہونے والے لوگ ہی بے خوف ہوتے ہیں ۔
اورحضرت بلال بن سعید رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’اے لوگو!اللّٰہ تعالیٰ سے حیاء کیاکرو،اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو،اللّٰہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے بے خوف نہ ہو جاؤ اور اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ۔( شعب الایمان، الحادی عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۱ / ۴۸۰، الحدیث: ۷۷۰)
اورامام بیہقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’بندے کو اللّٰہ تعالیٰ سے اس قدر خوفزدہ نہیں ہو جانا چاہئے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت سے ہی مایوس ہو جائے اور بندے کو اللّٰہ تعالیٰ سے اتنی امید بھی نہیں لگا لینی چاہئے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے ہی بے خوف ہو جائے یا اللّٰہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے پر بے باک ہو جائے۔( شعب الایمان، الثانی عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۲، تحت الحدیث: ۱۰۵۸)
صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ جیسے عظیم حضرات اللّٰہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے بہت خوف زدہ رہا کرتے تھے، چنانچہ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’میں نے ایک مرتبہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو سنا کہ وہ اپنے آپ کو مُخا طَب کر کے فرما رہے تھے:’’واہ واہ! (اے) عمر بن خطاب (تو) مسلمانوں کا امیر (بن چکا) ہے۔ خدا کی قسم !تم اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو ورنہ وہ تمہیں اپنے عذاب میں مبتلا کر دے گا۔( مؤطا امام مالک، کتاب الکلام، باب ما جاء فی التقی، ۲ / ۴۶۹، الحدیث: ۱۹۱۸)
جب بارگاہِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جنت کا پروانہ حاصل کر لینے والے قطعی جنتی حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا اللّٰہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے ڈرنے کے معاملے میں یہ حال ہے تو ہم جیسے لوگوں کو خود ہی غور کر لینا چاہئے کہ ہمیں اللّٰہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے کس قدر ڈرنا چاہئے۔حضرت بشر حافی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے تھے: ’’ہم نے لوگوں کو ا س طرح پایا کہ ان کے اچھے اعمال پہاڑوں کی طرح ہیں لیکن ا س کے باوجود وہ دھوکے میں نہیں ہیں اور تم لوگوں کے پاس کوئی عمل نہیں اور تم دھوکے میں مبتلا ہو،اللّٰہ کی قسم!ہماری باتیں زاہدوں کی باتوں جیسی ہیں اور ہمارے اَعمال مُتکبِّرین اور منافقین کے اعمال جیسے ہیں ۔( تنبیہ المغترین، الباب الاول، ومن اخلاقہم رضی اللّٰہ عنہم کثرۃ خوفہم من اللّٰہ تعالی فی حال بدایتہم۔۔۔ الخ ص۴۹) اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اپنی خفیہ تدبیر سے ہر دم خوف زدہ رہنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
اَمْ تَسْــٴَـلُهُمْ اَجْرًا فَهُمْ مِّنْ مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُوْنَ(46)
ترجمہ: کنزالعرفان
یا کیا تم ان سے اجرت مانگتے ہو کہ وہ تاوان کے بوجھ میں دبے ہوئے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَمْ تَسْــٴَـلُهُمْ اَجْرًا: یا کیا تم ان سے اجرت مانگتے ہو۔} ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا آپ رسالت کی تبلیغ پر ان سے کوئی اجرت مانگتے ہیں کہ انہیں اپنے مالوں سے وہ تاوان ادا کرنابھاری پڑ رہا ہے اور وہ اسی تاوان کے بھاری بوجھ کے نیچے دبے ہونے کی وجہ سے ایمان نہیں لارہے اور جب ایسابھی نہیں ہے تو پھر ایمان قبول کرنے سے اِعراض کرنے کا ان کے پاس کیا عذر ہے۔( خازن، ن، تحت الآیۃ: ۴۶، ۴ / ۳۰۱، روح البیان، ن، تحت الآیۃ: ۴۶، ۱۰ / ۱۲۶، ملتقطاً)
اَمْ عِنْدَهُمُ الْغَیْبُ فَهُمْ یَكْتُبُوْنَ(47)
ترجمہ: کنزالعرفان
یا ان کے پاس غیب کا علم ہے کہ وہ لکھ رہے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَمْ عِنْدَهُمُ الْغَیْبُ: یا ان کے پاس غیب کا علم ہے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا ان کفار کے پاس لوحِ محفوظ ہے جس میں آئندہ ہونے والے واقعات کی خبریں ہیں اور یہ لوگ اس میں موجودباتیں لکھ رہے ہیں اور ا س بنا ء پر آپ سے جھگڑ رہے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ کفر کرنے کے باوجود اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ایمان والوں سے اعلیٰ درجہ رکھتے ہیں ؟( تفسیر طبری، القلم، تحت الآیۃ: ۴۷، ۱۲ / ۲۰۲)
فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَ لَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوْتِۘ-اِذْ نَادٰى وَ هُوَ مَكْظُوْمٌﭤ(48)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو تم اپنے رب کے حکم تک صبرکر و اور مچھلی والے کی طرح نہ ہونا جب اس نے اس حال میں پکارا کہ وہ بہت غمگین تھا۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ: تو تم اپنے رب کے حکم تک صبر کرو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کفار کو مہلت دینے اور ان کے خلاف آپ کی مدد کو مُؤخّر کرنے کے معاملے میں آپ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حکم کا انتظار کریں اور ان کی طرف سے پہنچنے والی ایذاؤں پر صبر کریں ۔( خازن، ن، تحت الآیۃ: ۴۸، ۴ / ۳۰۱، مدارک، القلم، تحت الآیۃ: ۴۸، ص۱۲۷۱، ملتقطاً)
{وَ لَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوْتِ: اور مچھلی والے کی طرح نہ ہونا۔} اس آیت ا ور اس کے بعد والی دو آیات کے شانِ نزول کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ جب اُحد کے میدان میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پیٹھ پھیر کر بھاگنے والے مسلمانوں کے خلاف دعا کرنے کا اراد ہ فرمایا تو یہ آیات نازل ہوئیں اور ایک قول یہ ہے کہ جب حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ثقیف والوں کے خلاف دعا کا ارادہ فرمایا تو یہ آیات نازل ہوئیں اور اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی قوم پر جلدی عذاب نازل کرنے کے معاملے میں مچھلی والے کی طرح نہ ہونا تاکہ کہیں ان کی طرح آپ بھی آزمائش میں مبتلاء نہ ہو جائیں اور وہ وقت یاد کریں جب اُس نے اِس حال میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کوپکارا کہ وہ مچھلی کے پیٹ میں بہت غمگین تھا۔یاد رہے کہ یہاں مچھلی والے سے مراد حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں۔(تفسیرکبیر، القلم، تحت الآیۃ: ۴۸، ۱۰ / ۶۱۶، خازن، ن، تحت الآیۃ: ۴۸، ۴ / ۳۰۱، مدارک، القلم، تحت الآیۃ: ۴۸، ص۱۲۷۱، ملتقطاً)
لَوْ لَاۤ اَنْ تَدٰرَكَهٗ نِعْمَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ لَنُبِذَ بِالْعَرَآءِ وَ هُوَ مَذْمُوْمٌ(49)فَاجْتَبٰىهُ رَبُّهٗ فَجَعَلَهٗ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(50)
ترجمہ: کنزالعرفان
اگر اس کے رب کی نعمت اسے نہ پالیتی تو وہ ضرور چٹیل میدان میں پھینک دیا جاتااور وہ ملامت کیا ہوا ہوتا۔تو اسے اس کے رب نے چن لیا اور اپنے قربِ خاص کے حقداروں میں کرلیا۔
تفسیر: صراط الجنان
{لَوْ لَاۤ اَنْ تَدٰرَكَهٗ نِعْمَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ: اگر اس کے رب کی نعمت اسے نہ پالیتی۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اگر حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے رب عَزَّوَجَلَّ کی رحمت ان کی دستگیری نہ کرتی اور اللّٰہ تعالیٰ اُن کے عذر اور دعا کو قبول فرما کر ان پر انعام نہ فرماتا تو وہ ضرور ملامت کئے ہوئے مچھلی کے پیٹ سے چٹیل میدان میں پھینک دیئے جاتے لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ اللّٰہ تعالیٰ نے ان پر رحمت فرمائی اور وہ بغیر ملامت کئے ہوئے مچھلی کے پیٹ سے باہر تشریف لائے ۔دوسری تفسیر یہ ہے کہ اگر حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے رب عَزَّوَجَلَّ کی رحمت ان کی دستگیری نہ فرماتی تو وہ قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں ہی رہتے ،پھر وہ ضرور ملامت کئے ہوئے میدانِ حشر میں پھینک دیئے جاتے۔( مدارک، القلم، تحت الآیۃ: ۴۹، ص۱۲۷۱، تفسیر کبیر، القلم، تحت الآیۃ: ۴۹، ۱۰ / ۶۱۷، ملتقطاً)
{فَاجْتَبٰىهُ رَبُّهٗ: تو اسے اس کے رب نے چن لیا۔} یعنی حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دعا کرنے اور اپنا عذر پیش کرنے کی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں چن لیا اور ان کی نیکی کی صفات کو مزید ترقی دی ار انہیں ہر ایسا کام کرنے سے محفوظ کر دیا جسے چھوڑ دینابہتر ہو۔( مدارک، القلم، تحت الآیۃ: ۵۰، ص۱۲۷۱، روح البیان، ن، تحت الآیۃ: ۵۰، ۱۰ / ۱۲۶-۱۲۷، ملتقطاً)
وَ اِنْ یَّكَادُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَیُزْلِقُوْنَكَ بِاَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ وَ یَقُوْلُوْنَ اِنَّهٗ لَمَجْنُوْنٌﭥ(51)وَ مَا هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ(52)
ترجمہ: کنزالعرفان
اوربیشک کافر جب قرآن سنتے ہیں تو ایسے معلوم ہوتا ہے کہ گویا اپنی آنکھوں سے نظر لگا کر تمہیں ضرورگرادیں گے اور وہ کہتے ہیں :یہ ضرور عقل سے دور ہیں ۔حالانکہ وہ تو تمام جہانوں کے لیے نصیحت ہی ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِنْ یَّكَادُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا: اور بیشک ضرور کافر تو ایسے معلوم ہوتے ہیں ۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کافر جب قرآن سنتے ہیں اور بغض و عداوت کی نگاہوں سے آپ کو گھور گھور کر دیکھتے ہیں تو ایسے معلوم ہوتا ہے کہ گویا اپنی آنکھوں کے ساتھ نظر لگا کر تمہیں اپنی جگہ سے گرادیں گے اور جب آپ کو قرآنِ کریم پڑھتے دیکھتے ہیں تو حسد و عناد اور لوگوں کو نفرت دلانے کیلئے آپ کی شان میں کہتے ہیں یہ ضرور عقل سے دور ہیں حالانکہ جس قرآن کی وجہ سے وہ لوگ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف جُنون کی نسبت کر رہے ہیں وہ تو جِنّوں کیلئے بھی اور انسانوں کے لئے بھی نصیحت ہی ہے لہٰذا وہ شخصیت مجنون کس طرح ہو سکتی ہے جو قرآن جیسی کتاب لے کر آئی ہو۔شانِ نزول: منقول ہے کہ عرب میں بعض لوگ نظر لگانے میں شہرہ آفاق تھے اور ان کی یہ حالت تھی کہ دعویٰ کرکے نظر لگاتے تھے اور جس چیز کو اُنہوں نے نقصان پہنچانے کے ارادے سے دیکھا تو وہ دیکھتے ہی ہلاک ہوگئی ،ایسے بہت سے واقعات اُن کے تجربہ میں آچکے تھے ا س لئے کفار نے اُن سے کہا کہ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نظر لگائیں تو ان لوگوں نے حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بڑی تیز نگاہوں سے دیکھا اور کہا کہ ہم نے اب تک نہ ایسا آدمی دیکھا اور نہ ایسی دلیلیں دیکھیں ۔ اِن لوگوں کا کسی چیز کو دیکھ کر حیرت کرنا ہی ستم ہوتا تھا لیکن اُن کی یہ تمام جدوجہد ان کی طرف سے دن رات کی جانے والی دیگر سازشوں اور فریب کاریوں کی طرح بے کار گئی اور اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اُن کے شر سے محفوظ رکھا اور یہ آیت نازل ہوئی۔( خازن، ن، تحت الآیۃ: ۵۱-۵۲، ۴ / ۳۰۲، مدارک، القلم، تحت الآیۃ: ۵۱-۵۲، ص۱۲۷۱-۱۲۷۲، ملتقطاً)
نظر کی حقیقت اور نظر ِبد کا علاجـ:
اس سے معلوم ہوا کہ نظر واقعی لگ جاتی ہے ،اَحادیث میں بھی اس چیز کو بیان کیا گیا ہے چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’نظر کا لگ جانا درست ہے۔(بخاری، کتاب الطب، باب العین حق، ۴ / ۳۲، الحدیث: ۵۷۴۰)
اورحضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’نظر حق ہے اور اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت لے جاتی تو وہ نظر ہوتی اور جب تم سے (اعضاء) دھونے کا کہا جائے تو دھو دو۔( مسلم، کتاب السلام، باب الطب والمرض والرقی، ص۱۲۰۲، الحدیث: ۴۲(۲۱۸۸))
اورحضرت جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک نظر (کا اثریہاں تک ہو جاتا ہے کہ وہ) آدمی کو قبر میں داخل کر دیتی ہے اور اونٹ کو ہنڈیا میں ڈال دیتی ہے۔(مسند شہاب، ۶۷۸-انّ العین لتدخل الرجل القبر، ۲ / ۱۴۰، الحدیث: ۱۰۵۷)
زیر ِتفسیر آیت نظر ِبد کے علاج کے لیے اکسیرہے۔چنانچہ حضرت حسن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ جس کو نظر لگے اس پر یہ آیت پڑھ کر دم کردی جائے۔( ابو سعود، ن، تحت الآیۃ: ۵۱، ۵ / ۷۵۹)
{وَ مَا هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ: حالانکہ وہ تو تمام جہانوں کے لیے نصیحت ہی ہیں ۔} اس آیت کا ایک معنی اوپر بیان ہو ا کہ قرآنِ مجید جِنّوں اور انسانوں سبھی کے لئے نصیحت ہے اوربعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہاں ’’هُوَ ‘‘ ضمیر کا مِصداق رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں اور’’ذِكْرٌ‘‘ فضل و شرف کے معنی میں ہے ،اس صورت میں اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمام جہانوں کیلئے شرف ہیں توان کی طرف جنون کی نسبت کس طرح کی جا سکتی ہے ۔( ابو سعود، ن، تحت الآیۃ: ۵۲، ۵ / ۷۵۹، مدارک، القلم، تحت الآیۃ: ۵۲، ص۱۲۷۲، ملتقطاً)