سُوْرَۃُ القَمَر
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَ انْشَقَّ الْقَمَرُ(1)
ترجمہ: کنزالعرفان
قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ: قیامت قریب آگئی۔} یعنی قیامت کے نزدیک ہونے کی نشانی ظاہر ہوگئی کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معجزہ سے چاند دو ٹکڑے ہو کر پھٹ گیا۔ چاند کا دو ٹکڑے ہونا جس کا اس آیت میں بیان ہے ،یہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے روشن معجزات میں سے ہے ۔ (خازن، القمر، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۲۰۱)
اشارے سے چاند چیر دیا:
صحاح ستہ کی کثیر اَحادیث میں اس عظیم معجزے کے مختلف پہلو بیان کئے گئے ہیں ،چنانچہ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : اہل ِمکہ نے حضور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ایک معجزہ دکھانے کی درخواست کی تو حضورپُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے چاند ٹکڑے کرکے دکھایا۔( بخاری،کتاب المناقب،باب سؤال المشرکین ان یریہم النبیّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آیۃ۔۔۔الخ،۲ / ۵۱۱،الحدیث:۳۶۳۷)
حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانہ میں چاند دو ٹکڑے ہو کر پھٹا ،ایک ٹکڑا پہاڑ کے اوپر اور دوسرا ٹکڑا اس کے نیچے، تب رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا گواہ رہو۔( بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ اقتربت الساعۃ القمر، باب وانشقّ القمر۔۔۔ الخ، ۳ / ۳۳۹، الحدیث: ۴۸۶۴)
حضرت جبیر بن مطعم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ’’جب نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے چاند دو ٹکڑے کر کے دکھایا تو کفارِ قریش نے کہا: محمد (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) نے جادو سے ہماری نظر بند کردی ہے، اس پر ان کی جماعت کے لوگوں نے کہا کہ اگر یہ ہماری نظر بندی ہے تو باہر کہیں بھی کسی کو چاند کے دو حصے نظر نہ آئے ہوں گے۔ اب جو قافلے آنے والے ہیں اُن کی جستجورکھو اور مسافروں سے دریافت کرو،اگر دوسرے مقامات سے بھی چاند کا ٹکڑے ہونا دیکھا گیا ہے تو بے شک معجزہ ہے ۔چنانچہ سفر سے آنے والوں سے دریافت کیا تواُنہوں نے بیان کیا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ اس روز چاند کے دوحصے ہوگئے تھے ۔( ترمذی،کتاب التفسیر،باب ومن سورۃ القمر،۵ / ۱۸۹، الحدیث: ۳۳۰۰، جامع الاصول فی احادیث الرسول، حرف النون، الکتاب الاول، الباب الخامس، الفصل السابع، ۱۱ / ۳۶۷، الحدیث: ۸۹۳۷)اب مشرکین کو انکار کی گنجائش نہ رہی لیکن وہ جاہلانہ طور پر اسے جادو ہی جادو کہتے رہے۔
ان کے علاوہ صحاح ستہ کی اوراَحادیث میں بھی اس عظیم معجزے کا بیان ہے اوریہ خبر شہرت کے اس درجہ تک پہنچ گئی ہے کہ اس کا انکار کرنا عقل و انصاف سے دشمنی اور بے دینی ہے۔
وَ اِنْ یَّرَوْا اٰیَةً یُّعْرِضُوْا وَ یَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ(2)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اگر کفار کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو منہ پھیرلیتے ہیں اور کہتے ہیں : یہ تو کوئی دائمی جادو ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ اِنْ یَّرَوْا اٰیَةً: اور اگر کفار کوئی نشانی دیکھتے ہیں ۔} اس آیت میں کفارِ مکہ کی ایک عادت بیان کی گئی کہ وہ اگر اللہ تعالیٰ کی قدرت اور ا س کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صداقت اور نبوت پر دلالت کرنے والی کوئی نشانی جیسے چاند کا دو ٹکڑے ہونا یا کوئی اور نشانی دیکھتے ہیں تو اس نشانی میں غور کر کے اس کی حقیقت جاننے ،اس کی تصدیق کرنے اور نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے سے منہ پھیرلیتے ہیں اور کہتے ہیں : محمد (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) جو کچھ ہمیں دکھا رہے ہیں یہ تو کوئی دائمی طاقتورجادو ہے۔( مدارک، القمر، تحت الآیۃ: ۲، ص۱۱۸۵، روح البیان، القمر، تحت الآیۃ: ۲، ۹ / ۲۶۷، ملتقطاً)
کفارِ مکہ کی ہٹ دھرمی:
اس آیت میں کفارِ مکہ کا جو حال بیان ہوا کہ ان کا مطالبہ پورا بھی کر دیا جائے تو بھی یہ ایمان نہیں لاتے ،اس کا بیان اور آیات میں بھی کیا گیا ہے،جیسے کفارِ مکہ نے کہا کہ
’’ وَ لَنْ نُّؤْمِنَ لِرُقِیِّكَ حَتّٰى تُنَزِّلَ عَلَیْنَا كِتٰبًا نَّقْرَؤُهٗ‘‘( بنی اسرائیل:۹۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم تمہارے چڑھ جانے پر بھی ہرگز ایمان نہ لائیں گے جب تک ہم پر ایک کتاب نہ اتارو جوہم پڑھیں ۔
ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’وَ لَوْ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ كِتٰبًا فِیْ قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوْهُ بِاَیْدِیْهِمْ لَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ هٰذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ‘‘(انعام:۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اگر ہم کاغذ میں کچھ لکھا ہوا آپ پر اتار دیتے پھر یہ اسے چھو لیتے تب بھی کافر کہہ دیتے کہ یہ تو کھلا جادو ہے۔
کفارِ مکہ نے نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا:
’’ تُسْقِطَ السَّمَآءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَیْنَا كِسَفًا‘‘(بنی اسرائیل:۹۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم ہم پر آسمان ٹکڑے ٹکڑے کر کے گرا دو جیسا تم نے کہا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’ وَ اِنْ یَّرَوْا كِسْفًا مِّنَ السَّمَآءِ سَاقِطًا یَّقُوْلُوْا سَحَابٌ مَّرْكُوْمٌ‘‘(طور:۴۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اگر وہ آسمان سے کوئی ٹکڑا گرتاہوا دیکھیں گے تو کہیں گے کہ یہ تہہ درتہہ بادل ہے۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: ’’ وَ لَوْ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَابًا مِّنَ السَّمَآءِ فَظَلُّوْا فِیْهِ یَعْرُجُوْنَۙ(۱۴) لَقَالُوْۤا اِنَّمَا سُكِّرَتْ اَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُوْرُوْنَ‘‘(حجر:۱۴،۱۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اگر ہم ان کے لیے آسمان میں کوئی دروازہ کھول دیتے تاکہ دن کے وقت اس میں چڑھ جاتے۔جب بھی وہ یہی کہتے کہ ہماری نگاہوں کو بند کردیا گیا ہے بلکہ ہم ایسی قوم ہیں جن پر جادو کیا ہواہے۔
کفارِ مکہ نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا کہ اگر آپ سچے ہیں تو ہمارے مُردوں کو زندہ کردیجئے تاکہ ہم ان سے پوچھیں کہ آپ جو فرماتے ہیں وہ حق ہے یا نہیں اور ہمیں فرشتے دکھائیے جو ہمارے سامنے آپ کے رسول ہونے کی گواہی دیں یا اللہ اور فرشتوں کو ہمارے سامنے لائیے۔ ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’وَ لَوْ اَنَّنَا نَزَّلْنَاۤ اِلَیْهِمُ الْمَلٰٓىٕكَةَ وَ كَلَّمَهُمُ الْمَوْتٰى وَ حَشَرْنَا عَلَیْهِمْ كُلَّ شَیْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوْا لِیُؤْمِنُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ وَ لٰـكِنَّ اَكْثَرَهُمْ یَجْهَلُوْنَ‘‘(انعام:۱۱۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اگر ہم ان کی طرف فرشتے اُتاردیتے اور مردے ان سے باتیں کرتے اور ہم ہر چیز ان کے سامنے جمع کردیتے جب بھی وہ ایمان لانے والے نہ تھے مگر یہ کہ خدا چاہتا لیکن ان میں اکثر لوگ جاہل ہیں ۔
وَ كَذَّبُوْا وَ اتَّبَعُوْۤا اَهْوَآءَهُمْ وَ كُلُّ اَمْرٍ مُّسْتَقِرٌّ(3)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور انہوں نے جھٹلایا اور اپنی خواہشوں کے پیچھے ہوئے اور ہر کام قرار پاچکا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ كَذَّبُوْا: اور انہوں نے جھٹلایا۔} ارشاد فرمایا کہ کفار ِمکہ نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اوران معجزات کو جھٹلایا جو انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے اور وہ اپنی ان باطل خواہشوں کے پیچھے ہوئے جو شیطان نے ان کے دل میں ڈال دی تھیں (کہ اگر انہوں نے نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معجزات کی تصدیق کی تو اُن کی سرداری تمام عالَم میں مانی جائے گی اور قریش کی کچھ بھی عزت اور قدر باقی نہ رہے گی۔) اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ہر کام اپنے وقت پر ہونے ہی والا ہے، کوئی اس کو روکنے والا نہیں اورسرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دین غالب ہو کر رہے گا۔( ابو سعود، القمر، تحت الآیۃ: ۳، ۵ / ۶۵۳، بغوی، القمر، تحت الآیۃ: ۳، ۴ / ۲۳۵-۲۳۶، ملتقطاً)
وَ لَقَدْ جَآءَهُمْ مِّنَ الْاَنْۢبَآءِ مَا فِیْهِ مُزْدَجَرٌ(4)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ان کے پاس وہ خبریں آچکیں جن میں کافی ڈانٹ ڈپٹ تھی۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ جَآءَهُمْ مِّنَ الْاَنْۢبَآءِ: اور بیشک ان کے پاس وہ خبریں آچکیں۔} ارشاد فرمایا کہ کفارِ مکہ کے پاس قرآنِ پاک کے ذریعے پچھلی امتوں کے ان لوگوں کی خبریں آ چکی ہیں جو اپنے رسولوں کو جھٹلانے کی وجہ سے ہلاک کر دئیے گئے اور ان خبروں میں کفارِ مکہ کے لئے کفر اور تکذیب سے کافی روک اورانتہا درجہ کی نصیحت تھی۔( جلالین، القمر، تحت الآیۃ: ۴، ص۴۴۰، مدارک، القمر، تحت الآیۃ: ۴، ص۱۱۸۵، ملتقطاً)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ ان لوگوں کے حالات معلوم کرنا عبرت اور نصیحت حاصل کرنے کے لئے بہت فائدہ مند ہے جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کے ساتھ کفر کرنے کی وجہ سے ہلاک کر دئیے گئے۔
حِكْمَةٌۢ بَالِغَةٌ فَمَا تُغْنِ النُّذُرُ(5)
ترجمہ: کنزالعرفان
۔(یہ قرآن) انتہاء کو پہنچی ہوئی حکمت ہے تو (ایسوں کو) ڈر انے والے امور فائدہ نہیں دیتے۔
تفسیر: صراط الجنان
{حِكْمَةٌۢ بَالِغَةٌ: انتہاء کو پہنچی ہوئی حکمت۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ یہ قرآن انتہاء کو پہنچی ہوئی حکمت سے بھرپور ہے تو جب کافر ڈرسنانے والوں کی مخالفت کریں گے اور انہیں جھٹلائیں گے تو یہ انہیں کیا فائدہ دیں گے۔ (خازن، القمر، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۲۰۲)اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
’’ قُلِ انْظُرُوْا مَا ذَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-وَ مَا تُغْنِی الْاٰیٰتُ وَ النُّذُرُ عَنْ قَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُوْنَ‘‘(یونس:۱۰۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم فرماؤ: تم دیکھو کہ آسمانوں اور زمین میں کیا کیا (نشانیاں ) ہیں اور نشانیاں اور رسول ان لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں دیتے جو ایمان نہیں لاتے۔
دوسرا معنی یہ ہے کہ یہ قرآن انتہاء کو پہنچی ہوئی حکمت سے بھرپور ہے تو (کافروں کو پھربھی) ڈر انے والے اُمور جیسے سابقہ امتوں پر آنے والے عذابات نے فائدہ نہ دیا۔( جلالین مع صاوی، القمر، تحت الآیۃ: ۵، ۶ / ۲۰۶۱)
فَتَوَلَّ عَنْهُمْۘ- یَوْمَ یَدْعُ الدَّاعِ اِلٰى شَیْءٍ نُّكُرٍ(6)خُشَّعًا اَبْصَارُهُمْ یَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ كَاَنَّهُمْ جَرَادٌ مُّنْتَشِرٌ(7)مُّهْطِعِیْنَ اِلَى الدَّاعِؕ- یَقُوْلُ الْكٰفِرُوْنَ هٰذَا یَوْمٌ عَسِرٌ(8)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو تم ان سے منہ پھیرلو، جس دن پکارنے والا ایک سخت انجان بات کی طرف بلائے گا۔۔(تو)ان کی آنکھیں نیچے جھکی ہوئی ہوں گی ۔قبروں سے یوں نکلیں گے گویا وہ پھیلی ہوئی ٹڈیاں ہیں ۔اس بلانے والے کی طرف دوڑتے ہوئے کافر کہیں گے: یہ بڑاسخت دن ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَتَوَلَّ عَنْهُمْ: تو تم ان سے منہ پھیرلو۔}یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ،ان کفار کی سرکشی کا نتیجہ یہ ہے کہ آپ ان سے منہ پھیر لیں کیونکہ وہ نصیحت کرنے اور ڈر سنانے سے عبرت حاصل کرنے والے نہیں ۔ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت جہاد والی آیت سے منسوخ ہو چکی ہے اور ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں کیونکہ ا س کا معنی یہ ہے کہ اے حبیب ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ،آپ ان کفار سے منہ پھیر لیں اور ان سے کلام کرنے کی بجائے ان کے ساتھ جہاد فرمائیں ۔( مدارک، القمر، تحت الآیۃ: ۶، ص۱۱۸۵،جلالین مع صاوی، ا لقمر، تحت الآیۃ: ۶، ۶ / ۲۰۶۱، ملتقطاً)
{ یَوْمَ یَدْعُ الدَّاعِ اِلٰى شَیْءٍ نُّكُرٍ: جس دن پکارنے والا ایک سخت انجان بات کی طرف بلائے گا۔} آیت کے اس حصے اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، آپ وہ دن یاد کریں جب حضرت اسرافیل عَلَیْہِ السَّلَام بیتُ الْمَقْدِس کی چٹان پر کھڑے ہو کرایک ایسی سخت انجان بات کی طرف بلائیں گے کہ اس جیسی سختی کبھی لوگوں نے نہ دیکھی ہوگی اور وہ بات قیامت اور حساب کی ہَولناکی ہے۔اس وقت لوگوں کا حال یہ ہو گا کہ ان کی نگاہیں جھکی ہوئی ہوں گی اور وہ اپنی قبروں سے اس حال میں نکلیں گے کہ کثرت کی وجہ سے گویا وہ ہر طرف پھیلی ہوئی ٹڈیاں ہیں اوروہ خوف اور حیرت کی وجہ سے یہ نہیں جانتے ہوں گے کہ کہاں جائیں ،حضرت اسرافیل عَلَیْہِ السَّلَام کی آواز کی طرف دوڑتے ہوئے ان میں سے کافر کہیں گے: یہ کافروں پر بڑاسخت دن ہے۔( خازن ، القمر ، تحت الآیۃ : ۶-۸ ، ۴ / ۲۰۲-۲۰۳، مدارک، القمر، تحت الآیۃ: ۶-۸، ص۱۱۸۵-۱۱۸۶،جلالین مع صاوی، القمر، تحت الآیۃ: ۶-۸، ۶ / ۲۰۶۱-۲۰۶۲، ملتقطاً)
ان آیات میں قیامت قائم ہوتے وقت کی جو حالت بیان کی گئی اس کا ذکر کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللہتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ وَ نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَاِذَا هُمْ مِّنَ الْاَجْدَاثِ اِلٰى رَبِّهِمْ یَنْسِلُوْنَ(۵۱)قَالُوْا یٰوَیْلَنَا مَنْۢ بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَاﱃ هٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمٰنُ وَ صَدَقَ الْمُرْسَلُوْنَ‘‘(یس:۵۱،۵۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور صورمیں پھونک ماری جائے گی تو اسی وقت وہ قبروں سے اپنے رب کی طرف دوڑتے چلے جائیں گے ۔کہیں گے: ہائے ہماری خرابی! کس نے ہمیں ہماری نیند سے جگادیا؟ یہ وہ ہے جس کا رحمٰن نے وعدہ کیا تھا اور رسولوں نے سچ فرمایاتھا۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرماتا ہے:
’’ یَوْمَ یَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ سِرَاعًا كَاَنَّهُمْ اِلٰى نُصُبٍ یُّوْفِضُوْنَۙ(۴۳) خَاشِعَةً اَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌؕ-ذٰلِكَ الْیَوْمُ الَّذِیْ كَانُوْا یُوْعَدُوْنَ‘‘(معارج:۴۳،۴۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: جس دن قبروں سے جلدی کرتے ہوئے نکلیں گے گویا وہ نشانوں کی طرف لپک رہے ہیں ۔ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی، ان پر ذلت چڑھ رہی ہوگی، یہ ان کا وہ دن ہے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا تھا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کی سختیوں اور ہَولناکیوں سے امن نصیب فرمائے،اٰمین۔
قیامت کا دن کافروں پر سخت ہوگا جبکہ کامل ایمان والوں پر سخت نہیں ہو گا:
آیت نمبر8 سے معلوم ہوا کہ قیامت کا دن کافروں پر سخت ہو گا اور کامل ایمان والوں پر سخت نہیں ہو گا۔ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے کفار کے بارے میں ارشاد فرمایا:
’’ اَلْمُلْكُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّ لِلرَّحْمٰنِؕ-وَ كَانَ یَوْمًا عَلَى الْكٰفِرِیْنَ عَسِیْرًا‘‘(فرقان:۲۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اس دن سچی بادشاہی رحمٰن کی ہوگی اور کافروں پر وہ بڑا سخت دن ہوگا۔
اور ارشاد فرمایا:
’’ فَاِذَا نُقِرَ فِی النَّاقُوْرِۙ(۸) فَذٰلِكَ یَوْمَىٕذٍ یَّوْمٌ عَسِیْرٌۙ(۹) عَلَى الْكٰفِرِیْنَ غَیْرُ یَسِیْرٍ‘‘(مدثر:۸-۱۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: پھر جب صور میں پھونکا جائے گا۔تو وہ دن سخت دن ہوگا ۔کافروں پر آسان نہیں ہوگا۔
اور نیک اعمال کرنے والے مومنین کے بارے میں ارشاد فرمایا:
’’ مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ خَیْرٌ مِّنْهَاۚ-وَ هُمْ مِّنْ فَزَعٍ یَّوْمَىٕذٍ اٰمِنُوْنَ‘‘(نمل:۸۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو نیکی لائے اس کے لیے اس سے بہتر صلہ ہے اور وہ اس دن کی گھبراہٹ سے امن و چین میں ہوں گے۔
اور ارشاد فرمایا:
’’ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ یَوْمَىٕذٍ خَیْرٌ مُّسْتَقَرًّا وَّ اَحْسَنُ مَقِیْلًا‘‘(فرقان:۲۴)
ترجمہٗ کنزُالعِرفان: جنت والے اس دن ٹھکانے کے اعتبار سے بہتر اور آرام کے اعتبار سے سب سے اچھے ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان خوش نصیب حضرات کے گروہ میں شامل فرمائے جنہیں قیامت کے دن امن اور چین نصیب ہو گا،اٰمین۔
كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ فَكَذَّبُوْا عَبْدَنَا وَ قَالُوْا مَجْنُوْنٌ وَّ ازْدُجِرَ(9)فَدَعَا رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ(10)
ترجمہ: کنزالعرفان
ان سے پہلے نوح کی قوم نے جھٹلایا تو انہوں نے ہمارے بندے کو جھوٹا کہا اور کہنے لگے: یہ پاگل ہے اور نوح کوجھڑکا گیا ۔تو اس نے اپنے رب سے دعا کی کہ میں مغلوب ہوں تو تو (میرا) بدلہ لے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ : ان سے پہلے نوح کی قوم نے جھٹلایا ۔} اس آیت سے اللہ تعالیٰ نے سابقہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعات بیان فرمائے ہیں تاکہ ان کے حالات سن کر اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖوَسَلَّمَ کو تسلی حاصل ہو۔ اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کفارِ قریش سے پہلے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوجھٹلایا اورانہوں نے ہمارے بندے کو جھوٹا کہا اور انہیں دھمکی دی کہ اگر تم اپنے وعظ و نصیحت اوردین کی دعوت دینے سے باز نہ آئے تو ہم تمہیں قتل کردیں گے اور سَنگسار کر ڈالیں گے اور ان کی شان میں کہنے لگے: یہ پاگل ہے اور انہوں نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دین کی دعوت دینے پرجھڑکا تو (بہت عرصہ ان کی اَذِیَّتوں پرصبر کرنے کے بعد)حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے دعا کی کہ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ ، میں مغلوب ہوں تو تو ان سے میرا بدلہ لے۔( خازن، القمر، تحت الآیۃ: ۹-۱۰، ۴ / ۲۰۳، مدارک، القمر، تحت الآیۃ: ۹-۱۰، ص۱۱۸۶، ملتقطاً)
فَفَتَحْنَاۤ اَبْوَابَ السَّمَآءِ بِمَآءٍ مُّنْهَمِرٍ(11)وَّ فَجَّرْنَا الْاَرْضَ عُیُوْنًا فَالْتَقَى الْمَآءُ عَلٰۤى اَمْرٍ قَدْ قُدِرَ(12)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو ہم نے زور کے بہتے پانی سے آسمان کے دروازے کھول دئیے ۔اور زمین کو چشمے کرکے بہا دیا تو پانی اس مقدار پرمل گیا جو مقدر تھی۔
تفسیر: صراط الجنان
{ فَفَتَحْنَاۤ اَبْوَابَ السَّمَآءِ بِمَآءٍ مُّنْهَمِرٍ: تو ہم نے زور کے بہتے پانی سے آسمان کے دروازے کھول دئیے۔} جب حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا مانگی تو اللہتعالیٰ نے ان کی قوم پر عذاب بھیج دیا ،اسی عذاب کا ذکر کرتے ہوئے اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں ارشاد فرمایا کہ ہم نے زور کے بہتے پانی سے آسمان کے دروازے کھول دئیے اور وہ پانی چالیس دن تک نہ تھما اور زمین سے اس قدر پانی نکالاکہ زمین چشموں کی طرح ہوگئی اور آسمان سے برسنے والے اور زمین سے ابلنے والے دونوں پانی اس مقدار پر مل گئے جو ان کیلئے مقدّر تھی اور لوحِ محفوظ میں لکھی ہوئی تھی کہ طوفان اس حد تک پہنچے گا۔( خازن، القمر، تحت الآیۃ: ۱۱-۱۲، ۴ / ۲۰۳، مدارک، القمر، تحت الآیۃ: ۱۱-۱۲، ص۱۱۸۶، ملتقطاً)
وَ حَمَلْنٰهُ عَلٰى ذَاتِ اَلْوَاحٍ وَّ دُسُرٍ(13)تَجْرِیْ بِاَعْیُنِنَاۚ-جَزَآءً لِّمَنْ كَانَ كُفِرَ(14)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم نے نوح کو تختوں اور کیلوں والی (کشتی)پر سوار کیا ۔جوہماری نگاہوں کے سامنے بہہ رہی تھی (سب کچھ)اس ( نوح )کو جزا دینے کیلئے(ہوا) جس کے ساتھ کفر کیا گیا تھا۔
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ حَمَلْنٰهُ: اور ہم نے نوح کو سوار کیا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں اللہتعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ جب حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر عذاب آیا تو ہم نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو تختوں اور کیلوں والی ایسی کشتی پر سوار کیاجوہماری حفاظت میں بہہ رہی تھی اور حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نجات دینا اور ان کی کافر قوم کو غرق کر دینا اس پیارے نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جزا دینے کیلئے ہوا جس کے ساتھ کفر کیا گیا تھا۔( خازن، القمر، تحت الآیۃ: ۱۳-۱۴، ۴ / ۲۰۳)
وَ لَقَدْ تَّرَكْنٰهَاۤ اٰیَةً فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ(15)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم نے اس واقعہ کو نشانی بناچھوڑا تو ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا؟
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ لَقَدْ تَّرَكْنٰهَاۤ اٰیَةً: اور ہم نے اسے نشانی بناچھوڑا ۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ ہم نے اس واقعہ کو کہ کفار غرق کرکے ہلاک کردیئے گئے اور حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نجات دی گئی،آنے والی امتوں کے لئے نشانی بنا چھوڑا تو ہے کوئی دھیان کرنے والا جو اس واقعہ سے نصیحت اور عبرت حاصل کرے۔دوسری تفسیر یہ ہے کہ ہم نے اس کشتی کو آنے والی امتوں کیلئے نشانی بناچھوڑا تو ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا جو اس سے نصیحت حاصل کرے۔
حضرت قتادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کشتی کو جزیرہ کی سرزمین میں اور بعض مفسرین کے نزدیک جو دی پہاڑ پر مدتوں باقی رکھا یہاں تک کہ ہماری اُمت کے پہلے لوگوں نے بھی اس کشتی کو دیکھا۔( خازن، القمر، تحت الآیۃ: ۱۵، ۴ / ۲۰۳، مدارک، القمر، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۱۱۸۷،ملتقطاً)
فَكَیْفَ كَانَ عَذَابِیْ وَ نُذُرِ(16)
ترجمہ: کنزالعرفان
تومیرا عذاب اور میرا ڈرانا کیسا ہوا؟
تفسیر: صراط الجنان
{ فَكَیْفَ كَانَ: تو کیسا ہوا۔} یعنی اے حبیب ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ،(آپ دیکھیں کہ )اللہتعالیٰ اور اس کے رسول کو جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا!کیا میرے رسول کو جھٹلانے والوں کو عذاب پہنچا، یا نہیں! اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ،جب آپ کو ان کے حالات معلوم ہو چکے تو آپ(کفار کی اَذِیَّتوں پر) صبر کیجئے ،آپ کے (ساتھ کفار کے) معاملے کا انجام بھی اسی طرح ہو گا جیسے سابقہ رسولوں (کے ساتھ کفر کرنے والوں ) کا ہوا۔( تفسیرکبیر، القمر، تحت الآیۃ: ۱۶، ۱۰ / ۲۹۹-۳۰۰، ملخصاً)
وَ لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ(17)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ہم نے قرآن کو یاد کرنے / نصیحت لینے کیلئے آسان فرمادیا تو ہے کوئی یاد کرنے / نصیحت لینے والا؟
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ: اور بیشک ہم نے قرآن کو یاد کرنے / نصیحت لینے کیلئے آسان فرمادیا۔}اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اے حبیب ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ،بے شک ہم نے عبرت اور نصیحت حاصل کرنے کے لئے آپ کی قوم کی زبان میں قرآنِ مجیدنازل فرما کر ان کے لئے آسان کر دیااور طرح طرح کی نصیحتوں اور عبرتوں سے قرآن کو بھر دیا اورا س میں وعدوں اور وعیدوں کوبیان کر دیا تو ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا جو اس سے نصیحت حاصل کرے۔
دوسری تفسیر یہ ہے کہ بیشک ہم نے قرآن کو یاد کرنے کے لئے آسان کر دیا تو ہے کوئی جو اِسے یادکرے۔( ابو سعود، القمر، تحت الآیۃ: ۱۷،۵ / ۶۵۵، مدارک، القمر، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۱۱۸۷، ملتقطاً)
قرآنِ مجید یاد کرنے والے کے لئے آسان ہے :
حضرت علامہ مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت میں قرآنِ کریم کی تعلیم حاصل کرنے،قرآنِ پاک کی تعلیم دینے، اس میں مشغول رہنے اور اسے حفظ کرنے کی ترغیب ہے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قرآنِ پاک یاد کرنے والے کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد ہوتی ہے اور اس کو حفظ کرنا سہل وآسان فرما دینے ہی کا ثمرہ ہے کہ عربی، عجمی،بڑے حتّٰی کہ بچے تک بھی اس کو یاد کرلیتے ہیں اور اس کے علاوہ کوئی مذہبی کتاب ایسی نہیں ہے جو یاد کی جاتی ہو اور سہولت سے یاد ہوجاتی ہو ۔( خزائن العرفان، القمر، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۹۷۷ ،ملخصاً)
حضرتِ انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ قرآن سننے والے سے دنیاکی مصیبتیں دور کر دیتا ہے اور قرآن پڑھنے والے سے آخرت کی مصیبتیں دُور کر دیتا ہے۔ قرآنِ پاک کی ایک آیت سننا سونے کے خزانے سے بہتر ہے اور ا س کی ایک آیت پڑھنا عرش کے نیچے موجود چیزوں سے افضل ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا وہ کلام ہے جو اس نے مخلوق پیدا کرنے سے پہلے فرمایا تو جس نے قرآن میں اِلحاد کیا(یعنی بے دینی کا کوئی معاملہ کیا) یا قرآن کے بارے میں اپنی رائے سے کچھ کہا تو اس نے کفر کیا اور اگر اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک کو لوگوں کی زبانوں پر آسان نہ فرما دیتا کوئی شخص بھی رحمٰن کے کلام کا تَکَلُّم کرنے پر قادر نہ ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’ وَ لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک ہم نے قرآن کو یاد کرنے کے لیے آسان فرمادیا تو ہے کوئی یاد کرنے والا؟( مسند الفردوس، باب الیاء، ۵ / ۲۵۹، الحدیث: ۸۱۲۲)
كَذَّبَتْ عَادٌ فَكَیْفَ كَانَ عَذَابِیْ وَ نُذُرِ(18)
ترجمہ: کنزالعرفان
عاد نے جھٹلایا تو میرا عذاب اور میرا ڈرانا کیسا ہوا؟
تفسیر: صراط الجنان
{ كَذَّبَتْ عَادٌ: عاد نے جھٹلایا ۔} حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان کرنے کے بعد قومِ عاد کا واقعہ بیان کیا گیاکیونکہ عاد ،ارم بن سام بن حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں سے تھا۔اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قومِ عاد نے اپنے نبی حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا،اس پر وہ عذاب میں مبتلا کئے گئے تو ان پر میرا عذاب آنا کیسا ہوا اور میرے عذاب سے ڈردلانے کے فرامین کیسے ہوئے جو عذاب نازل ہونے سے پہلے ان کے پاس آچکے تھے۔( جلالین مع صاوی، القمر، تحت الآیۃ: ۱۸، ۶ / ۲۰۶۴-۲۰۶۵)
اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیْحًا صَرْصَرًا فِیْ یَوْمِ نَحْسٍ مُّسْتَمِرٍّ(19)تَنْزِعُ النَّاسَۙ- كَاَنَّهُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ مُّنْقَعِرٍ(20)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک ہم نے ان پر ایسے دن میں ایک سخت آندھی بھیجی جس کی نحوست (ان پر) ہمیشہ کے لیے رہی۔ وہ آندھی لوگوں کو یوں اکھیڑ مارتی تھی گویا وہ اکھڑی ہوئی کھجوروں کے سوکھے تنے ہوں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{ اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیْحًا صَرْصَرًا : بیشک ہم نے ان پر ایک سخت آندھی بھیجی۔} اس آیت سے قومِ عاد پر آنے والے عذاب کی کیفِیَّت بیان کی جا رہی ہے،چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ بے شک ہم نے قومِ عاد پر ایسے دن میں ایک بہت تیز چلنے والی ،نہایت ٹھنڈی اور سخت سناٹے والی آندھی بھیجی جس کی نحوست ان پر ہمیشہ کے لیے رہی حتّٰی کہ ان میں سے کوئی نہ بچا اوروہ سب ہلاک ہوگئے ۔وہ آندھی لوگوں کوزمین سے یوں اکھیڑ دیتی تھی گویا وہ اکھڑی ہوئی کھجوروں کے سوکھے تنے ہوں اور پھر سر کے بل انہیں زمین پر ا س طرح دے مارتی کہ ان کے سر تن سے جدا ہو جاتے تھے اور جس دن وہ آندھی آئی تھی وہ دن مہینے کا آخری بدھ تھا۔( جلالین مع صاوی، القمر، تحت الآیۃ: ۱۹-۲۰، ۶ / ۲۰۶۵، خازن، القمر، تحت الآیۃ: ۱۹-۲۰، ۴ / ۲۰۴، ملتقطاً)
نوٹ: بعض لوگ مہینے کے آخری بدھ کو منحوس کہتے ہیں اوراس کی دلیل کے طور پر یہ آیت پیش کرتے ہیں ،مگر یہ غلط ہے کیونکہ اس بدھ کی نحوست صرف قومِ عاد کے لئے تھی۔
فَكَیْفَ كَانَ عَذَابِیْ وَ نُذُرِ(21)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو میرا عذاب اور میرا ڈرانا کیسا ہوا.
تفسیر: صراط الجنان
{ فَكَیْفَ كَانَ عَذَابِیْ: تو کیسا ہوا میرا عذاب۔} علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ قومِ عاد کے واقعہ میں دو مرتبہ ’’فَكَیْفَ كَانَ عَذَابِیْ وَ نُذُرِ‘‘ فرمائے جانے کی ایک وجہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے مقام پر دُنْیَوی عذاب کا ذکر ہے اور ا س مقام پر اُخروی عذاب کا ذکر ہے ،جیسا کہ ایک اور مقام پر ان کا واقعہ بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیْحًا صَرْصَرًا فِیْۤ اَیَّامٍ نَّحِسَاتٍ لِّنُذِیْقَهُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاؕ-وَ لَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَخْزٰى وَ هُمْ لَا یُنْصَرُوْنَ‘‘(حٰم السجدۃ: ۱۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو ہم نے ان پر (ان کے)منحوس دنوں میں ایک تیزآندھی بھیجی تاکہ دنیا کی زندگی میں ہم انہیں رسوائی کا عذاب چکھائیں اور بیشک آخرت کا عذاب زیادہ رسوا کن ہے اور ان کی مدد نہ ہوگی۔
اور ایک قول یہ نقل کیا ہے کہ پہلے مقام پر قومِ عاد کو ان کی ہلاکت سے پہلے ڈرایا گیا ہے اور ا س مقام پر قومِ عاد کی ہلاکت کے بعددوسروں کو ان پر آنے والے عذاب سے ڈرایا گیا ہے۔( روح البیان، القمر، تحت الآیۃ: ۲۱، ۹ / ۲۷۶)
وَ لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ(22)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ہم نے قرآن یاد کرنے / نصیحت لینے کیلئے آسان کردیا تو ہے کوئی یاد کرنے / نصیحت لینے والا؟
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ: اور بیشک ہم نے قرآن یاد کرنے/نصیحت لینے کیلئے آسان کردیا۔} قرآنِ پاک کے علاوہ جتنی آسمانی کتابیں نازل ہوئیں وہ صرف انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو زبانی یاد تھیں اور ان کی امت کے لوگ صرف دیکھ کر ہی ان کی تلاوت کر سکتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کو یہ خصوصیت عطا فرمائی ہے کہ ان میں چھوٹوں سے لے کر بڑوں تک بے شمار ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں قرآنِ پاک زبانی یاد ہے۔ حدیث ِقُدسی میں ہے،اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرمایا: ’’جَعَلْت مِنْ اُمَّتِکَ اَقْوَامًا قُلُوْبُہُمْ اَنَاجِیْلُہُمْ‘‘(تہذیب الاثار للطبری، مسند عبد اللّٰہ بن عباس رضی اللّٰہ عنہ، ۲ / ۴۳۳، السفر الاول، الحدیث: ۷۲۷) اس کی وضاحت کچھ یوں ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، میں آپ کی امت میں ایسے لوگ پیدا کروں گا جن کے دلوں میں قرآن اس طرح محفوظ ہو گا جیسے سابقہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے دلوں میں انجیل محفوظ تھی۔
كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ بِالنُّذُرِ(23)
ترجمہ: کنزالعرفان
ثمود نے ڈر سنانے والوں (رسولوں ) کو جھٹلایا.
تفسیر: صراط الجنان
{ كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ بِالنُّذُرِ: ثمود نے ڈر سنانے والوں (رسولوں ) کو جھٹلایا۔}اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ قومِ ثمود نے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرانے والی باتوں اوران نصیحتوں کو جھٹلایا جو انہوں نے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے سنی تھیں ۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ قومِ ثمود نے اپنے نبی حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعوت کا انکار کرکے اور ان پر ایمان نہ لا کر انہیں جھٹلایا۔
یاد رہے کہ قومِ ثمود نے اگرچہ صرف حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا تھا مگرچونکہ ایک نبی کا انکار سارے نبیوں کا انکار شمار ہوتا ہے کیونکہ سب کا عقیدہ ایک ہی ہے اس لئے یہاں آیت میں جمع کا صیغہ ’’ اَلنُّذُر‘‘ ذکر کیا گیا۔( ابو سعود، القمر، تحت الآیۃ: ۲۳، ۵ / ۶۵۶، ملتقطاً)
فَقَالُوْۤا اَبَشَرًا مِّنَّا وَاحِدًا نَّتَّبِعُهٗۤۙ-اِنَّاۤ اِذًا لَّفِیْ ضَلٰلٍ وَّ سُعُرٍ(24)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو انہوں نے کہا:کیا ہم اپنے میں سے ہی ایک آدمی کی تابعداری کریں جب تو ہم ضرور گمراہی اور دیوانگی میں ہیں.
تفسیر: صراط الجنان
{ فَقَالُوْۤا: تو انہوں نے کہا۔ } حضرت صالحعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کے لوگوں سے فرمایا تھا کہ اگر تم نے میری پیروی نہ کی تو تم گمراہ اوربے عقل ہو۔ اس پر ان لوگوں نے کہا کہ ہم اپنے میں سے ہی ایک آدمی کے کس طرح تابع ہوجائیں حالانکہ ہماری تعداد بہت زیادہ ہے اور وہ اکیلا ہے،یونہی وہ نہ تو بادشاہ ہے اور نہ ہی کوئی سردار ہے، ہم ایسا نہیں کریں گے کیونکہ اگر ایسا کریں جب تو ہم ضرور گمراہی اور دیوانگی میں ہیں ۔(مدارک، القمر، تحت الآیۃ: ۲۴، ص۱۱۸۸، جلالین، القمر، تحت الآیۃ: ۲۴، ص۴۴۱، ملتقطاً)
ءَاُلْقِیَ الذِّكْرُ عَلَیْهِ مِنْۢ بَیْنِنَا بَلْ هُوَ كَذَّابٌ اَشِرٌ(25)سَیَعْلَمُوْنَ غَدًا مَّنِ الْكَذَّابُ الْاَشِرُ(26)
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا ہم سب میں سے (صرف)اس پر وحی ڈالی گئی؟ بلکہ یہ بڑا جھوٹا ،متکبر ہے۔بہت جلد کل جان جائیں گے کہ کون بڑا جھوٹا،متکبر تھا۔
تفسیر: صراط الجنان
{ ءَاُلْقِیَ الذِّكْرُ عَلَیْهِ مِنْۢ بَیْنِنَا: کیا ہم سب میں سے (صرف)اس پر وحی ڈالی گئی؟۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم ثمود نے انہیں جھٹلاتے ہوئے کہا کہ کیا ہم سب میں سے صرف حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر وحی نازل کی گئی ہے حالانکہ ہم میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کے پاس دولت کی کثرت ہے اور ان کا حال بھی بہت اچھا ہے۔ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ بڑا جھوٹا ،مُتکبِّر ہے کہ نبوت کا دعویٰ کرکے بڑاآدمی بننا چاہتا ہے۔ ( مَعَاذَ اللہ)اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا کہ’’جب وہ حضرت صالحعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کئے جائیں گے تو بہت جلد خود ہی جان جائیں گے کہ ان میں سے کون بڑا جھوٹا اور مُتکبِّرتھا۔(روح البیان ، القمر ، تحت الآیۃ: ۲۵-۲۶ ، ۹ / ۲۷۷ ، خازن ، القمر ، تحت الآیۃ: ۲۵-۲۶ ، ۴ / ۲۰۴، جلالین، القمر، تحت الآیۃ: ۲۵-۲۶، ص۴۴۱، ملتقطاً)
اِنَّا مُرْسِلُوا النَّاقَةِ فِتْنَةً لَّهُمْ فَارْتَقِبْهُمْ وَ اصْطَبِرْ(27)وَ نَبِّئْهُمْ اَنَّ الْمَآءَ قِسْمَةٌۢ بَیْنَهُمْۚ-كُلُّ شِرْبٍ مُّحْتَضَرٌ(28)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک ہم ان کی آزمائش کیلئے اونٹنی کوبھیجنے والے ہیں تو (اے صا لح!)تم ان کا انتظار کرو اور صبر کرو۔ اور انہیں خبر دے دو کہ ان کے درمیان پانی تقسیم ہے ، ہر باری پر وہ حاضر ہو جس کی باری ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ اِنَّا مُرْسِلُوا النَّاقَةِ: بیشک ہم اونٹنی کوبھیجنے والے ہیں ۔}اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے یہ کہا تھا کہ آپ پتھر سے ایک اونٹنی نکال دیجئے۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اُن کے ایمان قبول کرنے کی شرط مقرر فرماکر یہ بات منظور کرلی تھی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اونٹنی بھیجنے کا وعدہ کرتے ہوئے ارشادفرمایا کہ بیشک ہم ان کی آزمائش کیلئے اونٹنی کوبھیجنے والے ہیں تو اے صالح!عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ، تم اس بات کا انتظار کروکہ وہ کیا کرتے ہیں اور اُن کے ساتھ کیاکیاجاتا ہے اوراُن کی ایذا پر صبر کرو اور انہیں خبر دے دو کہ ان کے درمیان پانی کی باری تقسیم کی گئی ہے کہ ایک دن اونٹنی کا ہے اور ایک دن ان کا ہے ،لہٰذاجو دن اونٹنی کا ہے اُس دن صرف اونٹنی ہی پانی پینے آئے ا ور جو دن قوم کا ہے اُس دن قوم پانی لینے آئے۔( خازن، القمر، تحت الآیۃ: ۲۷-۲۸، ۴ / ۲۰۴، جلالین، القمر، تحت الآیۃ: ۲۷-۲۸، ص۴۴۱-۴۴۲، ملتقطاً)
فَنَادَوْا صَاحِبَهُمْ فَتَعَاطٰى فَعَقَرَ(29)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو انہوں نے اپنے ساتھی کو پکارا: تو اس نے (اونٹنی کو)پکڑا پھر (اس کی) کونچیں کاٹ دیں ۔تفسیر: صراط الجنان
{ فَنَادَوْا صَاحِبَهُمْ: تو انہوں نے اپنے ساتھی کو پکارا۔} قومِ ثمود ایک عرصہ تک اس طریقے پر قائم رہی ،پھر انہیں اپنی چراگاہوں میں اور مویشیوں پر پانی کی تنگی کی وجہ سے افسوس ہوا تو وہ لوگ اونٹنی کو قتل کرنے پر متفق ہو گئے اور ا س کام کے لئے اپنے ساتھی کو پکارا جس کا نام قدار بن سالف تھا، تو اس نے اونٹنی کوپکڑا اور تیز تلوار سے اس کی کونچیں کاٹ دیں اور اسے قتل کر ڈالا۔( جلالین مع صاوی، القمر، تحت الآیۃ: ۲۹، ۶ / ۲۰۶۷، ملخصاً)
فَكَیْفَ كَانَ عَذَابِیْ وَ نُذُرِ(30)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو میرا عذاب اور میرا ڈرانا کیسا ہوا؟
تفسیر: صراط الجنان
{ فَكَیْفَ كَانَ عَذَابِیْ وَ نُذُرِ: تو میرا عذاب اور میرا ڈرانا کیسا ہوا؟} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ میرا عذاب اور میرے ڈرکے فرمان جو عذاب نازل ہونے سے پہلے ان کے پاس میری طرف سے آئے تھے اور اپنے موقع پر واقع ہوئے وہ کیسے ہوئے۔( جلالین، القمر، تحت الآیۃ: ۳۰، ص۴۴۲)
دوسری تفسیر یہ ہے کہ اے کفارِ قریش! جب میں نے قومِ ثمود کو عذاب دیا تو انہیں میرا عذاب دینا کیسا ہوا؟ کیا میں نے انہیں زلزلے سے ہلاک نہیں کیا اور میں نے جس عذاب سے انہیں ہلاک کیا اس سے بعد والی امتوں کو میرا ڈرانا کیسا ہوا!( تفسیر طبری، القمر، تحت الآیۃ: ۳۰، ۱۱ / ۵۶۱)
اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ صَیْحَةً وَّاحِدَةً فَكَانُوْا كَهَشِیْمِ الْمُحْتَظِرِ(31)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک ہم نے ان پر ایک زور دار چیخ بھیجی تو اسی وقت وہ باڑ بنانے والے شخص کی بچ جانے والی روندی ہوئی خشک گھاس کی طرح ہوگئے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ صَیْحَةً وَّاحِدَةً: بیشک ہم نے ان پر ایک زور دار چیخ بھیجی ۔} اس آیت میں قومِ ثمود پر آنے والے عذاب کی کیفِیَّت بیان کی گئی ہے، چنانچہ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جس دن انہوں نے اونٹنی کو قتل کیا تو اس کے چوتھے دن ان پر حضرت جبریلعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ایک زور دار چیخ ماری جس کی وجہ سے ان کی حالت ایسے ہو گئی جس طرح چرواہے جنگل میں اپنی بکریوں کی حفاظت کے لئے گھاس کا نٹوں کا اِحاطہ بنالیتے ہیں ، اس میں سے کچھ گھاس بچی رہ جاتی ہے اور وہ جانوروں کے پاؤں میں روند کر ریزہ ریزہ ہوجاتی ہے۔(صاوی، القمر، تحت الآیۃ: ۳۱، ۶ / ۲۰۶۷، مدارک، القمر، تحت الآیۃ: ۳۱، ص۱۱۸۸، ملتقطاً)
وَ لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ(32)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ہم نے قرآن کویاد کرنے / نصیحت لینے کیلئے آسان کردیا تو ہے کوئی یاد کرنے / نصیحت لینے والا؟
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ: اور بیشک ہم نے قرآن کویاد کرنے / نصیحت لینے کیلئے آسان کردیا ۔} اس آیت کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ ہم نے اس شخص کے لئے قرآنِ پاک کو آسان کر دیا جو اس سے نصیحت حاصل کرنا چاہے تو ہے کوئی ایسا شخص جو قرآن سے نصیحت حاصل کرے اور ان تمام چیزوں کو چھوڑ دے جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ۔( تفسیر طبری، القمر، تحت الآیۃ: ۳۲، ۱۱ / ۵۶۳)
قرآنِ پاک یاد کرنے کا حکم اورفضائل:
قرآنِ پاک کی ایک آیت حفظ کرنا ہر مُکَلَّف مسلمان پر فرضِ عَین ہے اور پورا قرآن مجید حفظ کرنا فرضِ کفایہ ہے اور سورۂ فاتحہ اور ایک دوسری چھوٹی سورت یا اس کے مثل، مثلاً تین چھوٹی آیتیں یا ایک بڑی آیت کو حفظ کرنا واجبِ عَین ہے۔( ردالمحتار مع درالمختار، کتاب الصلاۃ، ۲ / ۳۱۵)
اَحادیث میں قرآنِ مجید یاد کرنے کے بہت فضائل بیان ہوئے ہیں ،ترغیب کے لئے یہاں دو اَحادیث درج ذیل ہیں ،
(1)…حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے قرآن پڑھا اور اس کو یاد کرلیا، اس کے حلال کو حلال سمجھا اور حرام کو حرام جانا، اس کے گھر والوں میں سے دس ایسے شخصوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ اس کی شفاعت قبول فرمائے گا جن پر جہنم واجب ہوچکا تھا۔(ترمذی، کتاب فضائل القرآن، باب ما جاء فی فضل قاریٔ القرآن، ۴ / ۴۱۴، الحدیث: ۲۹۱۴)
(2)…حضرت عبداللہبن عمرو رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’صاحب ِقرآن سے کہا جائے گا کہ پڑھ اور چڑھ اوراسی طرح ترتیل کے ساتھ پڑھ جس طرح دنیا میں ترتیل کے ساتھ پڑھتا تھا،آخری آیت جو تو پڑھے گا، وہاں تیری منزل ہے۔( ابو داؤد، کتاب الوتر، باب استحباب الترتیل فی القراء ۃ، ۲ / ۱۰۴، الحدیث: ۱۴۶۴)
اللہ تعالیٰ ہمیں قرآنِ مجید یاد کرنے اور اپنے بچوں کو یاد کروانے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطٍۭ بِالنُّذُرِ(33)اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ حَاصِبًا اِلَّاۤ اٰلَ لُوْطٍؕ-نَجَّیْنٰهُمْ بِسَحَرٍ(34)نِّعْمَةً مِّنْ عِنْدِنَاؕ-كَذٰلِكَ نَجْزِیْ مَنْ شَكَرَ(35)
ترجمہ: کنزالعرفان
لوط کی قوم نے ڈر سنانے والوں (رسولوں ) کو جھٹلایا۔بیشک ہم نے ان پر ایک پتھراؤ بھیجا سوائے لو ط کے گھر والوں کے، ہم نے انہیں رات کے آخری پہر بچالیا۔اپنے پاس سے احسان فرماکر، ہم یونہی شکر کرنے والے کو صلہ دیتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{ كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطٍۭ بِالنُّذُرِ: لوط کی قوم نے ڈر سنانے والوں (رسولوں ) کو جھٹلایا۔} یہاں سے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کا حال بیان فرمایاگیا کہ انہوں نے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا انکار کر کے سب رسولوں کو جھٹلایا کیونکہ ایک نبی کا انکار کرناگویا تمام پیغمبروں کا انکار ہے۔
{ اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ حَاصِبًا: بیشک ہم نے ان پر ایک پتھراؤ بھیجا۔} یہاں سے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر آنے والے عذاب اور ان کی ہلاکت کے بارے میں بتایا گیا،چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے اور ان کاانکار کرنے کی سزا میں ہم نے ان لوگوں پر چھوٹے چھوٹے سنگریزے برسائے اورہم نے اپنے پاس سے احسان فرماکرحضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی دونوں صاحب زادیوں کو اس عذاب سے محفوظ رکھا اور انہیں صبح ہونے سے پہلے بچا لیا، اور یہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لانے والوں کی خصوصیت نہیں بلکہ ہم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر کرنے والے ہر بندے کو یونہی صلہ دیتے ہیں کہ انہیں مشرکین کے ساتھ عذاب نہیں دیتے ۔ یاد رہے کہ شکر گزار بندہ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لائے اور ان کی اطاعت کرے۔( جلالین مع صاوی، القمر، تحت الآیۃ: ۳۴-۳۵، ۶ / ۲۰۶۸، خازن، القمر، تحت الآیۃ: ۳۴-۳۵، ۴ / ۲۰۵، ملتقطاً)
وَ لَقَدْ اَنْذَرَهُمْ بَطْشَتَنَا فَتَمَارَوْا بِالنُّذُرِ(36)وَ لَقَدْ رَاوَدُوْهُ عَنْ ضَیْفِهٖ فَطَمَسْنَاۤ اَعْیُنَهُمْ فَذُوْقُوْا عَذَابِیْ وَ نُذُرِ(37)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک اس نے انہیں ہماری گرفت سے ڈرایا تو انہوں نے ڈر کے فرامین میں شک کیا۔انہوں نے اسے اس کے مہمانوں کے متعلق پھسلانا چاہا تو ہم نے ان کی آنکھوں کو مٹا دیا (اورفرمایا)میرے عذاب اور میرے ڈر کے فرامین کا مزہ چکھو۔
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ لَقَدْ اَنْذَرَهُمْ بَطْشَتَنَا: اور بیشک اس نے انہیں ہماری گرفت سے ڈرایا۔} یعنی حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں ہماری گرفت اورہمارے عذاب سے ڈرایا تو انہوں نے ڈر کے فرمانوں میں شک کیااور ان کی تصدیق کرنے کی بجائے انہیں جھٹلانے لگے۔( خازن، القمر، تحت الآیۃ: ۳۶، ۴ / ۲۰۵)
{ وَ لَقَدْ رَاوَدُوْهُ عَنْ ضَیْفِهٖ: انہوں نے اسے اس کے مہمانوں کے متعلق پھسلانا چاہا ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت لوطعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے انہیں ان کے معزز مہمانوں کے متعلق پھسلانا چاہا اور حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا کہ آپ ہمارے اور اپنے مہمانوں کے درمیان د خل اندازی نہ کریں اور انہیں ہمارے حوالے کردیں ۔ حضرت لوطعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے یہ بات فاسد نیت اور خبیث ارادے سے کہی تھی۔حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مہمان فرشتے تھے، انہوں نے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا کہ آپ اُنہیں چھوڑ دیجئے اورگھر میں آنے دیجئے ۔ جیسے ہی وہ گھر میں آئے تو حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے ایک دستک دی تو ہم نے ان کی آنکھوں کو مٹا دیا جس سے وہ فوراً اندھے ہوگئے اور ان کہ آنکھیں ایسی ناپید ہوگئیں کہ ان کا نشان بھی باقی نہ رہا اور چہرے سپاٹ ہوگئے ۔وہ لوگ حیرت زدہ مارے مارے پھرتے تھے اور دروازہ ان کے ہاتھ نہ آتا تھا، حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اُنہیں دروازے سے باہر کیا۔اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعے ان سے ارشاد فرمایا کہ میرے عذاب اور میرے ڈر کے فرمانوں کا مزہ چکھو جو تمہیں حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے سنائے تھے۔(خازن، القمر،تحت الآیۃ:۳۷، ۴ / ۲۰۵، مدارک، القمر، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۱۱۸۹، جلالین، القمر، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۴۴۲، ملتقطاً)
وَ لَقَدْ صَبَّحَهُمْ بُكْرَةً عَذَابٌ مُّسْتَقِرٌّ(38)فَذُوْقُوْا عَذَابِیْ وَ نُذُرِ(39)وَ لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ(40)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک صبح سویرے ان پر ٹھہرنے والا عذاب آیا۔تومیرے عذاب اور میرے ڈر کے فرمانوں کا مزہ چکھو۔ اور بیشک ہم نے قرآن کویاد کرنے /نصیحت لینے کیلئے آسان کردیا تو ہے کوئی یاد کرنے /نصیحت لینے والا؟
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ لَقَدْ صَبَّحَهُمْ بُكْرَةً: اور بیشک صبح سویرے ان پر آیا۔} ارشاد فرمایا کہ بے شک حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر صبح سویرے ٹھہرنے والا عذاب آیا جو کہ آخرت تک باقی رہے گا۔مراد یہ ہے کہ دُنْیَوی عذاب بَرزخی عذاب سے اور برزخی عذاب اُخروی عذاب سے ملا ہوا ہے لہٰذا نفسِ عذاب دائمی اور قائم ہے۔ اس آیت سے عذابِ قبر کا ثبوت بھی ہوتا ہے کیونکہ اگر عذابِ قبر حق نہ ہوتو ان کا عذاب مُسْتقر یعنی ٹھہرنے والا نہیں رہتا۔
{ فَذُوْقُوْا عَذَابِیْ وَ نُذُرِ: تومیرے عذاب اور میرے ڈر کے فرمانوں کا مزہ چکھو۔} دوسری بار یہ بات ا س لئے فرمائی گئی کہ ان پر عذاب دو مرتبہ نازل ہوا تھا ،پہلا عذاب خاص ان لوگوں پر ہو اتھا جو حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے گھر میں داخل ہوئے تھے اور دوسرا عذاب سب کو عام تھا۔( تفسیر کبیر، القمر، تحت الآیۃ: ۳۹، ۱۰ / ۳۱۸ ،م
وَ لَقَدْ جَآءَ اٰلَ فِرْعَوْنَ النُّذُرُ(41)كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا كُلِّهَا فَاَخَذْنٰهُمْ اَخْذَ عَزِیْزٍ مُّقْتَدِرٍ(42)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک فرعونیوں کے پاس ڈر سنانے والے (رسول) آئے۔انہوں نے ہماری سب نشانیوں کو جھٹلا دیا تو ہم نے ان پرایسی گرفت کی جیسی ایک عزت والے ، عظیم قدرت والے کی گرفت کی شان ہوتی ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ لَقَدْ جَآءَ: اور بیشک آئے۔} یہاں سے فرعون اور ا س کی قوم کا واقعہ بیان کیا جا رہا ہے ،چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ بیشک فرعونیوں کے پاس اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرانے والے رسول حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آئے تو فرعونی اُن پر ایمان نہ لائے اورانہوں نے ہماری ان سب نشانیوں کو جھٹلادیا جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دی گئیں تھیں تو ہم نے اس جھٹلانے کی وجہ سے ان پر عذاب کے ساتھ ایسی گرفت کی جیسی ایک عزت والے ، عظیم قدرت والے کی گرفت ہوتی ہے کہ قدرت والے کی پکڑ سے کوئی چھڑا نہیں سکتا۔( روح البیان، القمر، تحت الآیۃ: ۴۱-۴۲، ۹ / ۲۸۱-۲۸۲، ملخصاً)
{ فَاَخَذْنٰهُمْ اَخْذَ عَزِیْزٍ مُّقْتَدِرٍ: تو ہم نے ان پرایسی گرفت کی جیسی ایک عزت والے ، عظیم قدرت والے کی گرفت کی شان ہوتی ہے۔} سابقہ امتوں نے جب اللہتعالیٰ کے ساتھ شرک کر کے ،اس کے رسول کو جھٹلا کر اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں میں مصروف رہ کر اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب سے ڈرانے کے فرمان آنے اور مہلت ملنے کے باوجود اپنی حالت کو نہ سدھارا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی بہت سخت گرفت فرمائی اورسابقہ امتوں کی تباہی و بربادی کے واقعات سنانے سے مقصود اس امت کے لوگوں کو اس بات سے ڈرانا ہے کہ اگر انہوں نے بھی ان جیسے اعمال اختیار کئے، اللہ اور اس کے رسول کے فرامین کو پسِ پُشت ڈالا تو ان کی بھی بڑی سخت گرفت ہو سکتی ہے ۔جیسا کہ ایک اور مقام پر اللہتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ كَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَاۤ اَخَذَ الْقُرٰى وَ هِیَ ظَالِمَةٌؕ-اِنَّ اَخْذَهٗۤ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ‘‘(ہود:۱۰۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور تیرے رب کی گرفت ایسی ہی ہوتی ہے جب وہ بستیوں کو پکڑتا ہے جبکہ وہ بستی والے ظالم ہوں بیشک اس کی پکڑ بڑی شدید دردناک ہے۔
اور ارشاد فرماتا ہے: ’’اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّمَنْ خَافَ عَذَابَ الْاٰخِرَةِؕ-ذٰلِكَ یَوْمٌ مَّجْمُوْعٌۙ-لَّهُ النَّاسُ وَ ذٰلِكَ یَوْمٌ مَّشْهُوْدٌ‘‘(ہود:۱۰۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اس میں اُس کیلئے نشانی ہے جو آخرت کے عذاب سے ڈرے۔ وہ ایسا دن ہے جس میں سب لوگ اکٹھے ہوں گے اور وہ دن ایسا ہے جس میں ساری مخلوق موجود ہوگی۔
اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’بے شک اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتا رہتا ہے اور جب اس کی پکڑ فرما لیتا ہے تو پھر اسے مہلت نہیں دیتا۔پھر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ آیت تلاوت فرمائی :
’’ وَ كَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَاۤ اَخَذَ الْقُرٰى وَ هِیَ ظَالِمَةٌؕ-اِنَّ اَخْذَهٗۤ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ‘‘(ہود:۱۰۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور تیرے رب کی گرفت ایسی ہی ہوتی ہے جب وہ بستیوں کو پکڑتا ہے جبکہ وہ بستی والے ظالم ہوں بیشک اس کی پکڑ بڑی شدید دردناک ہے۔( بخاری، کتاب التفسیر، باب وکذٰلک اخذ ربّک …الخ، ۳ / ۲۴۷، الحدیث: ۴۶۸۶)
لہٰذا اس امت کے ہر ایک فرد کو ان آیات میں غور کرنا چاہئے اور ہر ایک کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نافرمانی سے بچے تاکہ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے محفوظ رہے۔
اَكُفَّارُكُمْ خَیْرٌ مِّنْ اُولٰٓىٕكُمْ اَمْ لَكُمْ بَرَآءَةٌ فِی الزُّبُرِ(43)
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا تمہارے کافر اُن (پہلوں )سے بہتر ہیں یا کتابوں میں تمہارے لئے نجات لکھی ہوئی ہے؟
تفسیر: صراط الجنان
{اَكُفَّارُكُمْ خَیْرٌ مِّنْ اُولٰٓىٕكُمْ: کیا تمہارے کافر ان سے بہتر ہیں ۔} اس آیت میں کفارِ مکہ کو ڈراتے ہوئے فرمایا گیا کہ اے اہلِ مکہ! کیا تمہارے کافر حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم، عاد،ثمود،حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم اور فرعون کی قوم سے زیادہ طاقتور اور توانا ہیں یا وہ کفر و عناد میں کچھ ان سے کم ہیں ۔ مراد یہ ہے کہ تم سے پہلے کے کافر تم سے زیادہ مضبوط اور طاقتور تھے ،اس کے باوجود ان کی سرکشی کی بنا پر جو کچھ ان کے ساتھ ہو اوہ تم نے سن لیا ،توکیا تمہیں یہ امید ہے کہ تمہیں ان جیساعذاب نہیں ہو گا حالانکہ تمہارا حال ان سے بہت بدتر ہے، یا یہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کتابوں میں تمہارے لئے نجات لکھی ہوئی ہے کہ تمہارے کفر کی گرفت نہ ہوگی اور تم عذابِ الٰہی سے امن میں رہو گے اوراس وجہ سے تم اپنے کفر و سرکشی پر ڈٹے ہوئے ہو۔ایسا تو ہر گز نہیں ہے۔( خازن، القمر، تحت الآیۃ: ۴۳، ۴ / ۲۰۵، مدارک، القمر، تحت الآیۃ: ۴۳، ص۱۱۸۹، روح البیان، القمر، تحت الآیۃ: ۴۳، ۹ / ۲۸۲، ملتقطاً)
اَمْ یَقُوْلُوْنَ نَحْنُ جَمِیْعٌ مُّنْتَصِرٌ(44)سَیُهْزَمُ الْجَمْعُ وَ یُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ(45)
ترجمہ: کنزالعرفان
یا وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم سب بدلہ لے لیں گے۔عنقریب سب بھگادیئے جائیں گے اور وہ پیٹھ پھیردیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَمْ یَقُوْلُوْنَ: یا وہ یہ کہتے ہیں ۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کیا کفارِ قریش اپنی جہالت اور قوت و شوکت کی وجہ سے یہ کہتے ہیں کہ ہم سب مل کرمحمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے بدلہ لیں گے ؟ اللہتعالیٰ نے ان کا رد کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ عنقریب کفارِ مکہ کے گروہ میں شامل سب لوگ بھگادیئے جائیں گے اور وہ پیٹھ پھیر دیں گے اور اس طرح بھاگیں گے کہ ان میں سے ایک بھی قائم نہ رہے گا۔شانِ نزول:جب غزوۂ بدر کے دن ابوجہل نے کہا کہ ہم سب مل کر بدلہ لیں گے تو یہ آیت نازل ہوئی ’’ سَیُهْزَمُ الْجَمْعُ وَ یُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ‘‘ اور سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے زرہ پہن کر یہ آیت تلاوت فرمائی اور پھر ایسا ہی ہوا کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو فتح نصیب ہوئی اور کفار کو ہزیمت و شکست سے دوچارہونا پڑا۔(جلالین مع صاوی ، القمر ، تحت الآیۃ : ۴۴ – ۴۵ ، ۶ / ۲۰۶۹ – ۲۰۷۰، روح البیان، القمر، تحت الآیۃ: ۴۴-۴۵، ۹ / ۲۸۲، ملتقطاً)
بعض علماء کے نزدیک یہ آیت مدنی ہے اور بعض کے نزدیک مکی ہے ،ان دونوں اَقوال میں تطبیق اس طرح ممکن ہے کہ یہ آیت ایک مرتبہ مکے میں اور ایک مرتبہ مدینے میں نازل ہوئی ۔
بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَ السَّاعَةُ اَدْهٰى وَ اَمَرُّ(46)
ترجمہ: کنزالعرفان
بلکہ ان کا وعدہ قیامت ہے اور قیامت سب سے زیادہ سخت اور سب سے زیادہ کڑوی ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ: بلکہ ان کا وعدہ قیامت ہے۔} یعنی بدر کی شکست کفارِ مکہ کا پورا عذاب نہیں بلکہ اس عذاب کے بعد انہیں قیامت کے دن اصل عذاب کا وعدہ ہے اور قیامت سب سے زیادہ سخت اور سب سے زیادہ کڑوی ہے کہ دُنْیَوی عذاب کے مقابلے میں اس کا عذاب بہت زیادہ سخت ہے کیونکہ دُنْیَوی عذاب جیسے قید ہونا،قتل ہونا اور شکست کھانا وغیرہ تو اُخروی عذاب کی ایک جھلک ہے۔( روح البیان، القمر، تحت الآیۃ: ۴۶، ۹ / ۲۸۲-۲۸۳)
اِنَّ الْمُجْرِمِیْنَ فِیْ ضَلٰلٍ وَّ سُعُرٍ(47)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک مجرم گمراہی اور دیوانگی میں ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ الْمُجْرِمِیْنَ: بیشک مجرم ۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ بے شک اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے والے، اس کے رسولوں کو جھٹلانے والے ، مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے پر اللہ تعالیٰ کی قدرت کا اور حشر کاانکار کرنے والے مشرکین دنیا میں گمراہ اور دیوانے ہیں کہ نہ سمجھتے ہیں اور نہ راہ یاب ہوتے ہیں ۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ تمام مشرکین دنیا میں حق سے گمراہ ہیں اور آخرت میں جہنم میں ہوں گے۔(تفسیر کبیر، القمر، تحت الآیۃ: ۴۷، ۱۰ / ۳۲۴-۳۲۵، روح البیان، القمر، تحت الآیۃ: ۴۷، ۹ / ۲۸۳، ملتقطاً)
یَوْمَ یُسْحَبُوْنَ فِی النَّارِ عَلٰى وُجُوْهِهِمْؕ-ذُوْقُوْا مَسَّ سَقَرَ(48)
ترجمہ: کنزالعرفان
جس دن وہ آگ میں اپنے چہروں کے بل گھسیٹے جائیں گے ( فرمایا جائے گا)، دوزخ کا چھونا چکھو۔
تفسیر: صراط الجنان
{یَوْمَ یُسْحَبُوْنَ فِی النَّارِ عَلٰى وُجُوْهِهِمْ: جس دن وہ آگ میں اپنے چہروں کے بل گھسیٹے جائیں گے۔} اس آیت ِمبارکہ میں کفار کو جہنم میں منہ کے بل گھسیٹے جانے کا ذکر ہے اور حدیث ِپاک میں بعض ایسے مسلمانوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے جنہیں منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے یہ سنا ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے جس شخص کے متعلق فیصلہ کیا جائے گا وہ شہید ہو گا،اس کو بلایا جائے گا اور اسے ا س کی نعمتیں دکھائی جائیں گی،جب وہ ان نعمتوں کو پہچان لے گا تو (اللہ تعالیٰ) ارشاد فرمائے گا’’تم نے ان نعمتوں کے بدلے میں کیا کام کیا؟وہ عرض کرے گا:میں نے تیری راہ میں جہاد کیا حتی کہ شہید ہو گیا۔اللہ تعالیٰ فرمائے گا:تو جھوٹ بولتا ہے ،بلکہ تو نے اس لئے جہاد کیا تھا تاکہ تجھے بہادر کہا جائے ،لہٰذا وہ تجھے کہہ دیا گیا۔پھر اسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈالنے کا حکم دیا جائے گا حتّٰی کہ اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔پھر ایک ایسے شخص کو بلایا جائے گا جس نے علم حاصل کیا،لوگوں کو تعلیم دی اور قرآن پڑھا،اسے اس کی نعمتیں دکھائی جائیں گی،جب وہ ان نعمتوں کو پہچان لے گا تو (اللہ تعالیٰ)اس سے ارشاد فرمائے گا’’تم نے ان نعمتوں کے بدلے میں کیا کام کیا؟وہ عرض کرے گا:میں نے علم حاصل کیا اور اس علم کو سکھایا اور تیرے لئے قرآن پڑھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا’’تو جھوٹ بولتا ہے،تم نے ا س لئے علم حاصل کیا تاکہ تجھے عالِم کہا جائے ،تم نے قرآن اس لئے پڑھا تاکہ تجھے قاری کہا جائے،سو تمہیں (عالم اور قاری) کہہ دیا گیا۔پھر اسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈالنے کا حکم دیا جائے گا یہاں تک کہ اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔پھر ایک ایسے شخص کو بلایا جائے گا جس پر اللہ تعالیٰ نے وسعت کی اورا سے ہر قسم کا مال عطا فرمایا،اسے بھی اس کی نعمتیں دکھائی جائیں گی اور جب وہ ان نعمتوں کو پہچان لے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا’’تم نے ان نعمتوں کے بدلے میں کیا کام کیا؟وہ عرض کرے گا:میں نے ہر اس راستے میں مال خرچ کیا جس میں مال خرچ کرنا تجھے پسند ہے۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا’’تو جھوٹ بولتا ہے،تم نے یہ کام اس لئے کئے تاکہ تجھے سخی کہا جائے ،لہٰذا وہ تمہیں کہہ دیا گیا پھر اسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈالنے کا حکم دیا جائے گا حتّٰی کہ اسے بھی جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔( مسلم، کتاب الامارۃ، باب من قاتل للریاء والسمعۃ استحق النار، ص۱۰۵۵، الحدیث: ۱۵۲(۱۹۰۵))
اِنَّا كُلَّ شَیْءٍ خَلَقْنٰهُ بِقَدَرٍ(49)وَ مَاۤ اَمْرُنَاۤ اِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍۭ بِالْبَصَرِ(50)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک ہم نے ہر چیز ایک اندازہ سے پیدا فرمائی۔اور ہمارا کام تو صرف ایک بات ہے جیسے پلک جھپکنا ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّا كُلَّ شَیْءٍ خَلَقْنٰهُ بِقَدَرٍ: بیشک ہم نے ہر چیز ایک اندازہ سے پیدا فرمائی۔} ارشاد فرمایا کہ بیشک ہم نے ہر چیز حکمت کے تقاضے کے مطابق ایک اندازے سے پیدا فرمائی ہے۔( مدارک، القمر، تحت الآیۃ: ۴۹، ص۱۱۹۰)شانِ نزول: یہ آیت ان لوگوں کے رد میں نازل ہوئی جو اللہ تعالیٰ کی قدرت کے منکر ہیں اورنئے واقعات کوستاروں وغیرہ کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔
تقدیر کے مُنکروں کے بارے میں اَحادیث:
یہاں تقدیر کے منکر لوگوں کے بارے میں دو اَحادیث ملاحظہ ہوں ،
(1)…حضرت حذیفہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ہر امت میں مجوسی ہوتے تھے اور اس امت کے مجوسی وہ لوگ ہیں جو کہیں گے کہ تقدیر کوئی چیز نہیں ۔ان میں سے کوئی مر جائے تو اس کے جنازے میں شریک نہ ہونا اور جو ان میں سے بیمار پڑے اس کی عیادت نہ کرنا،وہ دجال کے ساتھی ہیں اور اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ وہ انہیں دجال کے ساتھ ملا دے۔( ابو داؤد، کتاب السنۃ، باب الدلیل علی زیادۃ الایمان ونقصانہ، ۴ / ۲۹۴، الحدیث: ۴۶۹۲)
(2)…حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’بے شک اس امت کے مجوسی وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی تقدیر کا انکار کرتے ہیں ،اگر وہ لوگ بیمار ہو جائیں تو ان کی عیادت نہ کرنا،اگر وہ مر جائیں تو ان کے جنازے میں حاضر نہ ہو نا اور اگر تمہاری ان سے ملاقات ہو جائے تو انہیں سلام تک نہ کرنا۔( ابن ماجہ، کتاب السنۃ، باب فی القدر، ۱ / ۷۰، الحدیث: ۹۲)
یاد رہے کہ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر ایمان لائے اور تقدیر کے بارے میں بحث نہ کرے کہ یہ ایمان کی بربادی کا سبب بن سکتی ہے۔حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ تقدیر کی اچھائی اور برائی پر ایمان نہ لائے،اسی طرح جب تک وہ یہ نہ جان لے کہ جو مصیبت اسے پہنچی ہے وہ اس سے ٹلنے والی نہ تھی اور جو مصیبت اس سے ٹل گئی وہ اسے پہنچنے والی نہ تھی۔( ترمذی، کتاب القدر، باب ماجاء انّ الایمان بالقدر خیرہ وشرّہ، ۴ / ۵۷، الحدیث: ۲۱۵۱)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم تقدیر کے بارے میں ایک دوسرے سے بحث کر رہے تھے (یہ دیکھ کر) آپ کو اتنا جلال آیا کہ چہرۂ اَقدس ایسے سرخ ہو گیا جیسے آپ کے مبارک رخساروں پر انار نچوڑ دیا گیا ہو۔آپ نے فرمایا’’کیا تمہیں اس بات کا حکم دیاگیا ہے یا اسی بات کے لئے میں تمہاری طرف بھیجا گیا ہوں ؟تم سے پہلے لوگوں نے جب اس (تقدیر کے) بارے میں اختلاف کیا تو وہ ہلاک ہو گئے،میں تمہیں قسم دے کر کہتا ہوں کہ اس کے بارے میں مت جھگڑو۔( ترمذی، کتاب القدر، باب ماجاء من التشدید فی الخوض فی القدر، ۴ / ۵۱، الحدیث: ۲۱۴۰)
جب صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ جیسی عظیم ہستیوں کو تقدیر کے بارے میں بحث کرنے سے روک دیا گیا تو ہمیں اس سے بدرجہ اَوْلیٰ باز رہنا چاہئے۔
{وَ مَاۤ اَمْرُنَاۤ اِلَّا وَاحِدَةٌ: اور ہمارا کام تو صرف ایک بات ہے۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ہم جس چیز کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمائیں تو وہ ہمارے صرف ایک مرتبہ حکم فرمانے کے ساتھ ہی اتنی دیر میں ہو جاتی ہے جتنی دیر تم میں سے کسی کو پلک جھپکنے میں لگتی ہے۔( مدارک، القمر، تحت الآیۃ: ۵۰، ص۱۱۹۰)
وَ لَقَدْ اَهْلَكْنَاۤ اَشْیَاعَكُمْ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ(51)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ہم نے تمہارے جیسے (بہت سے گروہ)ہلاک کردئیے تو ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ اَهْلَكْنَاۤ اَشْیَاعَكُمْ: اور بیشک ہم نے تمہارے جیسے (بہت سے گروہ)ہلاک کردئیے۔}اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جھٹلانے والے کفارِ قریش سے فرمایا کہ اے کفارِ قریش!بے شک ہم نے پہلی امتوں میں سے بہت سے کفار کے گروہ ہلاک کردئیے ہیں، وہ بھی تمہاری طرح اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرتے اور اس کے رسولوں کو جھٹلاتے تھے تو تم میں کوئی ایساشخص ہے جو ان کے انجام سے عبرت اور نصیحت حاصل کرے۔(تفسیر طبری، القمر، تحت الآیۃ: ۵۱، ۱۱ / ۵۷۰)
وَ كُلُّ شَیْءٍ فَعَلُوْهُ فِی الزُّبُرِ(52)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور انہوں نے جو کچھ کیا وہ سب کتابوں میں موجودہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ كُلُّ شَیْءٍ فَعَلُوْهُ: اور انہوں نے جو کچھ کیا ۔} مزید ارشاد فرمایا کہ اے کفارِ قریش!پہلی امتوں میں سے تم جیسے کفار نے جو کچھ کیا وہ سب ان کتابوں میں موجود ہے جنہیں ان پر مقرر فرشتوں نے لکھا ہے۔بعض مفسرین نے اس آیت کے یہ معنی بھی بیان کئے ہیں کہ بندوں کے تمام اَفعال اَعمال لکھنے والے فرشتوں کے صحیفوں میں موجود ہیں ۔( تفسیر طبری، القمر، تحت الآیۃ: ۵۲، ۱۱ / ۵۷۰،جلالین، القمر، تحت الآیۃ: ۵۲، ص۴۴۳، ملتقطاً)
امام فخرالدین رازی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پہلی امتوں کے کفار کی ہلاکت کے بعد ان کا کام ختم نہیں ہو گیا بلکہ ان کی ہلاکت تو ان کا وہ عذاب ہے جو ان پر دنیا میں آیا اوران کا اُخروی عذاب ابھی آئے گا جو کہ اِن کے اُن اعمال کے بدلے میں تیار کیا گیا ہے جو ان کے اعمال ناموں میں لکھے ہوئے ہیں۔(تفسیر کبیر، القمر، تحت الآیۃ: ۵۲، ۱۰ / ۳۳۰)
وَ كُلُّ صَغِیْرٍ وَّ كَبِیْرٍ مُّسْتَطَرٌ(53)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہر چھوٹی اوربڑی چیز لکھی ہوئی ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ كُلُّ صَغِیْرٍ وَّ كَبِیْرٍ مُّسْتَطَرٌ: اور ہر چھوٹی اوربڑی چیز لکھی ہوئی ہے۔ } یعنی چھوٹے اور بڑے تمام اعمال اپنی تفصیل کے ساتھ لوحِ محفوظ میں لکھے ہو ئے ہیں ۔ (روح البیان، القمر، تحت الآیۃ: ۵۳، ۹ / ۲۸۵)
سب کے لئے نصیحت:
ان آیات میں ہر مسلمان کے لئے بڑی نصیحت ہے کہ اس کے تمام اعمال لوحِ محفوظ میں لکھے ہوئے ہیں اور اَعمال لکھنے والے فرشتے بھی اپنے صحیفوں میں اس کا ہر ہر عمل لکھ رہے ہیں اورپھر قیامت کے دن ہر شخص ان اعمال ناموں کو اپنے سامنے پائے گا ۔اس نازک ترین مرحلے کی منظر کشی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ وُضِعَ الْكِتٰبُ فَتَرَى الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْهِ وَ یَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ هٰذَا الْكِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَةً وَّ لَا كَبِیْرَةً اِلَّاۤ اَحْصٰىهَاۚ-وَ وَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًاؕ-وَ لَا یَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا‘‘(کہف:۴۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور نامہ اعمال رکھا جائے گا تو تم مجرموں کو دیکھو گے کہ اس میں جو( لکھا ہوا) ہوگا اس سے ڈررہے ہوں گے اورکہیں گے: ہائے ہماری خرابی! اس نامہ اعمال کو کیاہے کہ اس نے ہر چھوٹے اور بڑے گناہ کو گھیرا ہوا ہے اور لوگ اپنے تمام اعمال کو اپنے سامنے موجود پائیں گے اور تمہارا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔
اور ارشاد فرماتا ہے: ’’یَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ مُّحْضَرًا ﳝ- وَّ مَا عَمِلَتْ مِنْ سُوْٓءٍۚۛ-تَوَدُّ لَوْ اَنَّ بَیْنَهَا وَ بَیْنَهٗۤ اَمَدًۢا بَعِیْدًاؕ-وَ یُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗؕ-وَ اللّٰهُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ‘‘(ال عمران:۳۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: (یاد کرو)جس دن ہر شخص اپنے تمام اچھے اور برے اعمال اپنے سامنے موجود پائے گا توتمنا کرے گاکہ کاش اس کے درمیان اور اس کے اعمال کے درمیان کوئی دور دراز کی مسافت(حائل) ہوجائے اور اللہ تمہیں اپنے عذاب سے ڈراتا ہے اور اللہبندوں پربڑامہربان ہے۔
لہٰذا ہرایک کو چاہئے کہ وہ چھوٹے بڑے تمام گناہوں سے بچے اور جو گناہ سرزد ہو چکے ان سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سچی توبہ کر لے۔حضرت یحییٰ بن معاذ رازی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’جسے یہ معلوم ہے کہ اس کے اعمال قیامت کے دن ا س کے سامنے پیش کئے جائیں گے اور ان اعمال کے مطابق اسے جزا دی جائے گی تو اسے چاہئے کہ اپنے کام درست کرنے کی کوشش کرے اور اپنے اعمال میں اخلاص پیدا کرے اور جو گناہ اس سے ہو چکے ان سے لازمی توبہ کر لے۔( روح البیان، القمر، تحت الآیۃ: ۵۳، ۹ / ۲۸۵)اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ نَهَرٍ(54)فِیْ مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِیْكٍ مُّقْتَدِرٍ(55)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک پرہیزگار لوگ باغوں اور نہروں میں ہوں گے۔ عظیم قدرت والے بادشاہ کے حضورسچ کی مجلس میں ہوں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ: بیشک پرہیزگار لوگ۔}اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں مُتّقی لوگوں کی جزاء بیان کی گئی ہے کہ بے شک وہ لوگ جو کفر اور گناہوں سے بچے رہے ،وہ ایسے عظیم الشّان باغوں میں ہوں گے جن میں موجود نعمتوں اور ان لوگوں کے لئے تیار کی گئی چیزوں کے اوصاف بیان سے باہر ہیں اسی طرح ان کے باغوں اور گھروں میں پانی، شراب، شہد اور دودھ کی نہریں ہوں گی اور وہ عظیم قدرت والے بادشاہ کی بارگاہ کے مُقَرّب ہوں گے۔(روح البیان، القمر، تحت الآیۃ: ۵۴-۵۵، ۹ / ۲۸۵، ملخصاً)
جو باغ اور نہریں مُتّقی لوگوں کے لئے تیار کی گئی ہیں ان کا حال بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:
’’مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَؕ-فِیْهَاۤ اَنْهٰرٌ مِّنْ مَّآءٍ غَیْرِ اٰسِنٍۚ-وَ اَنْهٰرٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُهٗۚ-وَ اَنْهٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشّٰرِبِیْنَ ﳛ وَ اَنْهٰرٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّىؕ-وَ لَهُمْ فِیْهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ وَ مَغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ‘‘(سورہ محمد:۱۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اس جنت کا حال جس کا پرہیزگاروںسے وعدہ کیا گیا ہے یہ ہے کہ اس میں خراب نہ ہونے والے پانی کی نہریں ہیں اور ایسے دودھ کی نہریں ہیں جس کا مزہ نہبدلے اور ایسی شراب کی نہریں ہیں جو پینے والوں کیلئے سراسرلذت ہے اور صاف شفاف شہد کی نہریں ہیں اور ان کے لیے اس میں ہر قسم کے پھل اوران کے رب کی طرف سے مغفرت ہے ۔