سُوْرَۃُ القَصَص

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

ترجمہ: کنزالعرفان

اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ، رحمت والاہے ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ بِسْمِ اللّٰهِ: اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔(کنز العمال، کتاب الاذکار،   الباب السابع  فی تلاوۃ  القراٰن  وفضائلہ،  الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷،  الجزءالاول، الحدیث:۲۴۸۸)

 لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔

{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے  ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)

 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:

       علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

 (1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔

(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام جو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔

(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔

(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔

(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔

(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔

طٰسٓمّٓ(1)تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ الْمُبِیْنِ(2)

ترجمہ: کنزالعرفان

طسم۔ یہ روشن کتاب کی آیتیں ہیں 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ طٰسٓمّٓ} یہ حروفِ مُقَطَّعات میں  سے ایک حرف ہے ،اس کی مراد اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔

{تِلْكَ اٰیٰتُ: یہ آیتیں  ہیں ۔} یعنی اس سورت کی آیتیں  اس روشن کتاب کی آیتیں  ہیں  جس میں  حلا ل و حرام کے احکام، حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کی صداقت ،پہلو ں  اور بعد والوں  کی خبروں  کا بیان ہے اور اس کتاب کی شان یہ ہے کہ وہ حق و باطل میں  فرق کر دیتی ہے ۔یہاں  روشن کتاب سے مراد قرآن مجید ہے یا اس سے لوحِ محفوظ مراد ہے ۔(تفسیرکبیر، القصص، تحت الآیۃ: ۲، ۸ / ۵۷۷، جلالین، القصص، تحت الآیۃ: ۲، ص۳۲۶، ملتقطاً)

لوحِ محفوظ اور قرآن مجید کے روشن کتاب ہونے میں  فرق:

یاد رہے کہ لوحِ محفوظ کو بھی کتاب ِمُبین فرمایا جاتا ہے، اور قرآن کریم کو بھی،البتہ ان دونوں  میں  فرق یہ ہے کہ لوحِ محفوظ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے خاص مقبول بندوں  پر ہی ظاہر ہے جبکہ قرآنِ کریم ہر مومن کے لئے ظاہر ہے اگرچہ اس کے اَسرار و رُموز کی معرفت بھی خاص بندوں  کے ساتھ خاص ہے۔

نَتْلُوْا عَلَیْكَ مِنْ نَّبَاِ مُوْسٰى وَ فِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ لِقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ(3)

ترجمہ: کنزالعرفان

ہم تمہارے سامنے حق کے ساتھ موسیٰ اور فرعون کی خبرپڑھتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{نَتْلُوْا عَلَیْكَ مِنْ نَّبَاِ: ہم تمہارے سامنے خبرپڑھتے ہیں ۔} ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم آپ کے سامنے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور فرعون کی سچی خبر ان لوگوں  کے لئے پڑھتے ہیں  جو ایمان رکھتے ہیں  ۔یہاں  ایمان والوں  کا بطورِ خاص اس لئے ذکر کیا گیا کہ یہی ان واقعات سے حاصل ہونے والی نصیحت کو قبول کرتے ہیں  ۔نیز یاد رہے کہ ا س سورت سے پہلے 19سورتوں  میں  حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ ذکر ہو چکا ہے اور اس سورت کے بعد مزید 17سورتوں  میں  آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ مذکور ہے۔اتنی کثرت سے آپ کا واقعہ ذکر کرنے کی ایک وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ اس میں  حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کی خاص دلیل تھی کیونکہ آپ بغیر پڑھے اور تاریخ دانوں  کے پاس بیٹھے بغیرایسے سچے واقعات بیان کر رہے تھے اور یہ وحی کے بغیر ممکن نہیں ۔ دوسری وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ عرب میں  حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور فرعون کے واقعات خاص و عام میں  بہت مشہور تھے ، اور ان واقعات میں  بنی اسرائیل نے بہت سی غلط باتیں  ملا دی تھیں ، اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ واقعات قرآن کریم میں  جگہ جگہ مختلف طریقوں  سے بیان کئے تاکہ اس کے غلط اور صحیح پہلو ایک دوسرے سے ممتاز ہو جائیں ۔

اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الْاَرْضِ وَ جَعَلَ اَهْلَهَا شِیَعًا یَّسْتَضْعِفُ طَآىٕفَةً مِّنْهُمْ یُذَبِّحُ اَبْنَآءَهُمْ وَ یَسْتَحْیٖ نِسَآءَهُمْؕ-اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ(4)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک فرعون نے زمین میں تکبر کیا تھا اور اس کے لوگوں کے مختلف گروہ بنادئیے تھے ان میں ایک گروہ (بنی اسرائیل) کو کمزورکر رکھا تھا،ان کے بیٹوں کو ذبح کرتا اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھتاتھا، بیشک وہ فسادیوں میں سے تھا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الْاَرْضِ: بیشک فرعون نے زمین میں  تکبر کیا تھا۔} یعنی مصر کی سرزمین میں  فرعون کا غلبہ تھا اور وہ ظلم و تکبر میں  انتہا کو پہنچ گیا تھا حتّٰی کہ اس نے اپنی عَبْدِیَّت اور بندہ ہونا بھی بھلا دیا تھا ۔فرعون نے مصر میں  رہنے والے لوگوں  کے مختلف گروہ بنادئیے تھے اوران کے درمیان عداوت اوربغض ڈال دیاتاکہ وہ کسی ایک بات پرجمع نہ ہوسکیں  اور اس نے ان گروہوں  میں  سے بنی اسرائیل کوکمزور اورا پنا خادم بناکررکھا ہواتھا ۔بنی اسرائیل کے ساتھ اس کا سلوک یہ تھا کہ وہ ان کے ہاں  پیدا ہونے والے بیٹوں  کو ذبح کردیتا اور ان کی لڑکیوں  کو خدمت گاری کے لئے زندہ چھوڑ دیتا تھا۔ بیٹوں  کو ذبح کرنے کا سبب یہ تھا کہ کاہنوں  نے اس سے یہ کہہ دیا تھا کہ بنی اسرائیل میں  ایک بچہ پیدا ہو گا جو تیری بادشاہت کے زوال کا باعث ہو گا، اس لئے وہ ایسا کرتا تھا اور یہ اس کی انتہائی حماقت تھی کیونکہ اگر وہ اپنے خیال میں  کاہنوں  کو سچا سمجھتا تھا تو یہ بات ہونی ہی تھی، لڑکوں  کو قتل کر دینے سے کوئی نتیجہ نہ ملتا اور اگر وہ انہیں  سچا نہیں  جانتا تھا تو یہ اس کے نزدیک ایک لغو بات تھی اور لغوبات کا لحاظ کرنا اور بیٹوں  کو قتل کرنا کسی طرح درست نہ تھا۔ بیشک وہ بنی اسرائیل کے بیٹوں  کو قتل کر کے فساد کرنے والوں  میں  سے تھا۔( مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۴، ص۸۶۰، تفسیرابو سعود، القصص، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۲۲۳۲۲۴، ملتقطاً)

حکمرانی قائم رکھنے کیلئے فرعون کا طریقہ اور موجودہ دور کے حکمرانوں   کا طرز ِعمل:

             حکمرانی قائم رکھنے کے لئے رعایا کو مختلف گروہوں  میں  تقسیم کر دینا اور ان میں  باہم بغض و عداوت ڈال دینا فرعون جیسے بدترین کافر کا طریقہ ہے اور دیکھاجائے تویہی طریقہ ہمارے دورمیں  بھی رائج ہے ،مسلم اور غیر مسلم دونوں  طرح کے حکمران لوگوں  کومختلف مسائل میں  الجھائے رکھتے ہیں  تاکہ لوگ ان مسائل ہی سے نہ نکل پائیں  اوران کی حکمرانی قائم رہے اور اس طرزِ عمل کے نتیجے میں  ان حکمرانوں  کا جو حال ہوتا ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں  عقلِ سلیم اور ہدایت عطا فرمائے،اٰمین۔

وَ نُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَى الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَ نَجْعَلَهُمْ اَىٕمَّةً وَّ نَجْعَلَهُمُ الْوٰرِثِیْنَ(5)وَ نُمَكِّنَ لَهُمْ فِی الْاَرْضِ وَ نُرِیَ فِرْعَوْنَ وَ هَامٰنَ وَ جُنُوْدَهُمَا مِنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَحْذَرُوْنَ(6)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ہم چاہتے تھے کہ ان لوگوں پر احسان فرمائیں جنہیں زمین میں کمزوربنا یاگیا تھااور انہیں پیشوا بنائیں اور انہیں (ملک و مال کا) وارث بنائیں ۔اور انہیں زمین میں اقتداردیں اور فرعون اور ہامان اور ان کے لشکروں کو وہی دکھادیں جس کا انہیں ان کی طرف سے خطرہ تھا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ نُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ: اور ہم چاہتے تھے کہ احسان فرمائیں ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ فرعون نے تو بنی اسرائیل کو کمزور بنا کر رکھا ہوا تھا لیکن اللہ تعالیٰ یہ چاہتا تھا کہ وہ بنی اسرائیل کو فرعون کی سختی سے نجات دے کر ان پر احسان فرمائے اور انہیں  پیشوا بنائے کہ وہ لوگوں  کو نیکی کی راہ بتائیں  اور لوگ نیکی میں  ان کی اقتدا کریں  اور اللہ تعالیٰ وہ تمام اَملاک و اَموال ان کمزور بنی اسرائیل کو دیدے جو فرعون اور اس کی قوم کی ملکیت میں  تھے اور اللہ تعالیٰ انہیں  مصر و شام کی سرزمین میں  اقتدار دے اور فرعون و ہامان اور ان کے لشکروں  کو وہی دکھادے جس کا انہیں  بنی اسرائیل کی طرف سے خطرہ تھااور ا س سے بچنے کی وہ بھرپور کوشش کر رہے تھے یعنی بنی اسرائیل کے ایک فرزند کے ہاتھ سے ان کی سلطنت کا زوال ہونا اور ان لوگوں  کا ہلاک ہو جانا۔(مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۵-۶، ص۸۶۰-۸۶۱، روح البیان، القصص، تحت الآیۃ: ۵-۶، ۶ / ۳۸۱، ملتقطاً)

          یاد رہے کہ آیت نمبر5میں  وراثت سے مراد شرعی میراث نہیں  کیونکہ مومن کافر کا وارث نہیں  ہوتا بلکہ یہاں  وراثت کے وسیع مفہوم میں  سے ایک معنی مراد ہے یعنی موت کے بعد اس کی سلطنت کا وارث ہونا۔

وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰۤى اُمِّ مُوْسٰۤى اَنْ اَرْضِعِیْهِۚ-فَاِذَا خِفْتِ عَلَیْهِ فَاَلْقِیْهِ فِی الْیَمِّ وَ لَا تَخَافِیْ وَ لَا تَحْزَنِیْۚ-اِنَّا رَآدُّوْهُ اِلَیْكِ وَ جَاعِلُوْهُ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ(7)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ہم نے موسیٰ کی ماں کو اِلہام فرمایا کہ اسے دودھ پلا پھر جب تجھے اس پر خوف ہو تو اسے دریا میں ڈال دے اور خوف نہ کر اور غم نہ کر ،بیشک ہم اسے تیری طرف پھیر لائیں گے اور اسے رسولوں میں سے بنائیں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰۤى اُمِّ مُوْسٰى: اور ہم نے موسیٰ کی ماں  کو اِلہام فرمایا۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی والدہ کا نام یوحانذ ہے اورآپ لاوی بن یعقوب کی نسل سے ہیں  ۔ اللہ تعالی نے انہیں  خواب یا فرشتے کے ذریعے یا ان کے دل میں  یہ بات ڈال کر الہام فرمایا کہ تم حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دودھ پلاؤ،پھر جب تجھے اس پر خوف ہو کہ ہمسائے واقف ہو گئے ہیں  ،وہ شکایت کریں  گے اور فرعون اس فرزند ِاَرْجْمند کو قتل کرنے کے درپے ہو جائے گا تو بے خوف و خطراسے مصر کے دریا نیل میں  ڈال دے اوراس کے غرق ہوجانے اور ہلاک ہوجانے کا اندیشہ اور اس کی جدائی کا غم نہ کر ،بیشک ہم اسے تیری طرف پھیر لائیں  گے اور اسے رسولوں  میں  سے بنائیں  گے ۔چنانچہ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا چند روز حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دودھ پلاتی رہیں ، اس عرصے میں  نہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام روتے تھے، نہ ان کی گود میں  کوئی حرکت کرتے تھے اورنہ آپ کی بہن کے سوا اور کسی کو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ولادت کی اطلاع تھی اور جب آپ کو فرعون کی طرف سے اندیشہ ہوا تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوایک صندوق میں  رکھ کر جو خاص طور پر اس مقصد کے لئے بنایا گیا تھا،رات کے وقت دریائے نیل میں  بہا دیا ۔( خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۷، ۳ / ۴۲۳، مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۷، ص۸۶۱، جلالین، القصص، تحت الآیۃ: ۷، ص ۳۲۶، ملتقطاً)

 اللہ تعالیٰ کے اولیاء کو بھی غیب کا علم عطا ہوتا ہے:

             اس سے معلو م ہوا کہ حضرت یو حانذ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کو حسب ِذَیل باتیں  بتائی گئی تھیں ،

(1)… حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ابھی وفات نہ پائیں  گے ۔

 (2)…حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پرورش وہ خود کریں  گی۔

(3)…حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام رسول بنائے جائیں  گے۔

            یہ سب مستقبل کی خبریں  غیب کے علوم میں  سے ہیں  اوراس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے اولیاء کو بھی غیب کا علم عطا ہوتا ہے۔

فَالْتَقَطَهٗۤ اٰلُ فِرْعَوْنَ لِیَكُوْنَ لَهُمْ عَدُوًّا وَّ حَزَنًاؕ-اِنَّ فِرْعَوْنَ وَ هَامٰنَ وَ جُنُوْدَهُمَا كَانُوْا خٰطِـٕیْنَ(8)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو اسے فرعون کے گھر والوں نے اٹھالیا تاکہ وہ ان کیلئے دشمن اور غم بنے، بیشک فرعون اور ہامان اور ان کے لشکر خطا کار تھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَالْتَقَطَهٗۤ اٰلُ فِرْعَوْنَ: تو اسے فرعون کے گھر والوں  نے اٹھالیا۔} یعنی جس رات حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی والدہ نے آپ کو دریا میں  ڈالا اس کی صبح کو فرعون کے گھر والوں  نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے صندوق کو دریا ئے نیل سے اپنے محل میں  آنے والی نہر سے اٹھا لیا اور اس صندوق کو فرعون کے سامنے رکھا ،جب اسے کھولا گیا تو اس میں  سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام برآمد ہوئے جو اپنے انگوٹھے سے دودھ چوس رہے تھے ۔فرعون کے گھر والوں  نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اٹھایا۔ (اٹھانے کا مقصد یہ نہیں  تھا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام ان کیلئے دشمن اور غم کا باعث بنیں  لیکن اِس اٹھانے کا انجام و نتیجہ یہ بنا۔ عربی زبان میں  آیت میں  مذکور ’’لام‘‘ کو ’’لامِ عاقِبَت‘‘ کہتے ہیں ۔) فرعون ،اس کا وزیر ہامان اور ان کے لشکر نافرمان تھے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں  یہ سزا دی کہ انہیں  ہلاک کرنے والے دشمن کی انہی سے پر ورش کرائی۔( جلالین، القصص، تحت الآیۃ: ۸، ص۳۲۶، مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۸، ص۸۶۲، ملتقطاً)

وَ قَالَتِ امْرَاَتُ فِرْعَوْنَ قُرَّتُ عَیْنٍ لِّیْ وَ لَكَؕ-لَا تَقْتُلُوْهُ ﳓ عَسٰۤى اَنْ یَّنْفَعَنَاۤ اَوْ نَتَّخِذَهٗ وَلَدًا وَّ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ(9)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور فرعون کی بیوی نے کہا: یہ بچہ میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، اسے قتل نہ کرو شاید یہ ہمیں نفع دے یا ہم اسے بیٹا بنالیں اور وہ بے خبرتھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ قَالَتِ امْرَاَتُ فِرْعَوْنَ: اور فرعون کی بیوی نے کہا۔} جب فرعون نے اپنی قوم کے لوگوں  کی طرف سے ورغلائے جانے کی بنا پر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تو فرعون کی بیوی نے اس سے کہا: یہ بچہ میری اور تیری آنکھوں  کی ٹھنڈک ہے،تم اسے قتل نہ کرو، شاید یہ ہمیں  نفع دے یا ہم اسے بیٹا بنالیں کیونکہ یہ اسی قابل ہے ۔ فرعون کی بیوی آسیہ بہت نیک خاتون تھیں ، انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نسل سے تھیں ،غریبوں  اور مسکینوں  پر رحم و کرم کرتی تھیں ، انہوں  نے فرعون سے یہ بھی کہا کہ یہ بچہ سال بھر سے زیادہ عمر کا معلوم ہوتا ہے اور تو نے اس سال کے اندر پیدا ہونے والے بچوں  کے قتل کا حکم دیا ہے ،اس کے علاوہ معلوم نہیں  یہ بچہ دریا میں  کس سرزمین سے یہاں  آیا ہے اور تجھے جس بچے سے اندیشہ ہے وہ اسی ملک کے بنی اسرائیل سے بتایا گیا ہے، لہٰذا تم اسے قتل نہ کرو۔ آسیہ کی یہ بات ان لوگوں  نے مان لی حالانکہ وہ اس انجام سے بے خبرتھے جو ان کا ہونے والا تھا ۔( جلالین، القصص، تحت الآیۃ: ۹، ص۳۲۶، خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۹، ۳ / ۴۲۵، ملتقطاً)

وَ اَصْبَحَ فُؤَادُ اُمِّ مُوْسٰى فٰرِغًاؕ-اِنْ كَادَتْ لَتُبْدِیْ بِهٖ لَوْ لَاۤ اَنْ رَّبَطْنَا عَلٰى قَلْبِهَا لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ(10)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور صبح کے وقت موسیٰ کی ماں کا دل بے قرار ہوگیا، بیشک قریب تھا کہ وہ اسے ظاہر کردیتی اگر ہم اس کے دل کو مضبوط نہ کرتے کہ وہ (ہمارے وعدے پر) یقین رکھنے والوں میں سے رہے ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اَصْبَحَ فُؤَادُ اُمِّ مُوْسٰى فٰرِغًا:  اور صبح کے وقت موسیٰ کی ماں  کا دل بے قرار ہوگیا۔} یعنی جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی والدہ نے سنا کہ ان کے فرزند فرعون کے ہاتھ میں  پہنچ گئے ہیں  تو یہ سن کر آپ کا دل بے قرار ہوگیا اووَ قَالَتْ لِاُخْتِهٖ قُصِّیْهِ٘-فَبَصُرَتْ بِهٖ عَنْ جُنُبٍ وَّ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ(11)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اس کی ماں نے اس کی بہن سے کہا: اس کے پیچھے چلی جا تو وہ بہن اسے دور سے دیکھتی رہی اور ان (فرعونیوں ) کو خبر نہ تھی

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ قَالَتْ لِاُخْتِهٖ: اور اس کی ماں  نے اس کی بہن سے کہا۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی والدہ نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بہن مریم سے کہا: تم حال معلوم کرنے کے لئے اس کے پیچھے چلی جاؤ ،چنانچہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بہن آپ کے پیچھے چلتی رہی اور آپ کو دور سے دیکھتی رہی اور ان فرعونیوں کو اس بات کی خبر نہ تھی کہ یہ اس بچے کی بہن ہے اور اس کی نگرانی کررہی ہے۔( خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۱۱، ۳ / ۴۲۶)

ر بیشک قریب تھا کہ وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ظاہر کردیتیں  اور ممتا کی محبت کے جوش میں  ہائے میرے بیٹا! ہائے میرے بیٹا! پکار اُٹھتیں  ۔ اگر ہم ا س بات کااِلہام کر کے اس کے دل کو مضبوط نہ کرتے کہ وہ ہمارے اس وعدے پر یقین رکھنے والوں  میں  سے رہے جو ہم کر چکے ہیں  کہ تیرے اس فرزند کو تیری طرف پھیر لائیں  گے تواس سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا راز ظاہر ہوجاتا۔( خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۱۰، ۳ / ۴۲۵۴۲۶، مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۸۶۲۸۶۳، ملتقطاً)

وَ حَرَّمْنَا عَلَیْهِ الْمَرَاضِعَ مِنْ قَبْلُ فَقَالَتْ هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰۤى اَهْلِ بَیْتٍ یَّكْفُلُوْنَهٗ لَكُمْ وَ هُمْ لَهٗ نٰصِحُوْنَ(12)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ہم نے پہلے ہی سب دائیاں اس پر حرام کردی تھیں تو موسیٰ کی بہن نے کہا: کیا میں تمہیں ایسے گھر والے بتادوں جو تمہارے اس بچہ کی ذمہ داری لے لیں اور وہ اس کے خیر خواہ بھی ہوں ؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ حَرَّمْنَا عَلَیْهِ الْمَرَاضِعَ مِنْ قَبْلُ: اور ہم نے پہلے ہی سب دائیاں  اس پر حرام کردی تھیں ۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے پہلے ہی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو منع کر دیا تھا کہ وہ اپنی والدہ کے علاوہ کسی اور کا دودھ نوش نہ فرمائیں ۔ چنانچہ جس قدر دائیاں  حاضر کی گئیں  ان میں  سے کسی کی چھاتی آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے منہ میں  نہ لی، اس سے ان لوگوں  کو بہت فکر ہوئی کہ کہیں  سے کوئی ایسی دائی مُیَسَّر آئے جس کا دودھ آپ پی لیں ۔ دائیوں  کے ساتھ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ہمشیرہ بھی یہ حال دیکھنے چلی گئی تھیں  اور صورتِ حال دیکھ کر انہوں  نے کہا :کیا میں  تمہیں  ایسے گھر والے بتادوں جوتمہارے اس بچے کی ذمہ داری لے لیں  اور وہ اس کے خیر خواہ بھی ہوں ؟ فرعونیوں  نے یہ بات منظور کر لی ، چنانچہ آپ اپنی والدہ کو بلالائیں ۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام فرعون کی گود میں  تھے اور دودھ کے لئے رورہے تھے اورفرعون آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شفقت کے ساتھ بہلارہا تھا۔ جب آپ کی والدہ تشریف لائیں  اور آپ نے اُن کی خوشبو پائی تو آپ کو قرار آگیا اور آپ نے ان کا دودھ نوش فرما لیا۔فرعون نے کہا :تم اس بچے کی کیا لگتی ہو کہ اُس نے تیرے سوا کسی کے دودھ کو منہ بھی نہ لگایا؟ انہوں  نے کہا :میں  ایک عورت ہوں ، پاک صاف رہتی ہوں ،میرا دودھ خوشگوار ہے، جسم خوشبودار ہے، اس لئے جن بچوں کے مزاج میں  نَفاست ہوتی ہے وہ اور عورتوں  کا دودھ نہیں  لیتے ہیں  جبکہ میرا دودھ پی لیتے ہیں ۔ فرعون نے بچہ انہیں  دیا اور دودھ پلانے پر انہیں  مقرر کرکے فرزند کو اپنے گھرلے جانے کی اجازت دی ،چنانچہ آپ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کواپنے مکان پر لے آئیں ۔اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہوا اس وقت انہیں  اطمینانِ کامل ہوگیا کہ یہ فرزندِ اَرْجْمند ضرور نبی ہوں  گے، اللہ تعالیٰ اس وعدہ کا ذکر فرماتا ہے۔( خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۱۲، ۳ / ۴۲۶، مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۸۶۳، ملتقطاً)

فَرَدَدْنٰهُ اِلٰۤى اُمِّهٖ كَیْ تَقَرَّ عَیْنُهَا وَ لَا تَحْزَنَ وَ لِتَعْلَمَ اَنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّ لٰـكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ(13)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو ہم نے اسے اس کی ماں کی طرف لوٹا دیا تا کہ ماں کی آنکھ ٹھنڈی ہو اور وہ غم نہ کھائے اور جان لے کہ الله کا وعدہ سچا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ فَرَدَدْنٰهُ اِلٰۤى اُمِّهٖ: تو ہم نے اسے اس کی ماں  کی طرف لوٹا دیا۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کی ماں  کی طرف لوٹا دیا تا کہ بچے کوپا کر ماں کی آنکھ ٹھنڈی ہو اور وہ اپنے فرزند کی جدائی کا غم نہ کھائے اور وہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے لیکن اکثر لوگ یہ بات نہیں  جانتے اوراس سے متعلق شک میں  رہتے ہیں  ۔

         حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنی والدہ کے پاس دودھ پینے کے زمانہ تک رہے اور اس عرصے میں  فرعون انہیں  ایک اشرفی روز دیتا رہا۔ دودھ چھوٹنے کے بعد حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی والدہ آپ کو فرعون کے پاس لے آئیں  اوراس کے بعد آپ وہاں  پرورش پاتے رہے ۔( جلالین، القصص، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۳۲۷، مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۸۶۳، ملتقطاً)

وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَ اسْتَوٰۤى اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًاؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(14)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور جب موسیٰ اپنی جوانی کو پہنچے اور بھرپورہوگئے تو ہم نے اسے حکمت اور علم عطا فرمایا اور ہم نیکوں کو ایسا ہی صلہ دیتے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَ اسْتَوٰى: اور جب اپنی جوانی کو پہنچے اور بھرپور ہوگئے۔} گزشتہ آیات میں  حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ولادت اوران کی غیبی حفاظت کابیان تھااب اس آیت ِمبارکہ سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی جوانی کے کچھ احوال بیان کیے جارہے ہیں  کہ جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عمرشریف 30سال سے زیادہ ہوگئی تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوعلم وحکمت سے نوازا۔

            یہاں  حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو علم ِلَدُنی ملاتھا جواستاد کے واسطے کے بغیر آپ کو عطا ہوا ،جیسا کہ ’’اٰتَیْنٰهُ‘‘ فرمانے سے معلوم ہوا اوریہ علم آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نبوت عطا کئے جانے سے پہلے دیا گیا، اور یہ بھی یاد رہے کہ یہاں  حکم اورعلم سے مراد نبوت نہیں  کیونکہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نبوت تو مَدیَن سے مصر آتے ہوئے راستہ میں  عطا ہوئی ۔ نیز حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام شروع سے ہی صالح،نیک، متقی، پرہیز گار تھے۔

آیت ’’ وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:

            اس آیت ِمبارکہ سے دو مسئلے معلوم ہوئے ،

(1)… انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ السَّلَام ظہورِ نبوت اور کتاب ِالٰہی ملنے سے پہلے ہی متقی ، صالح اور اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار ہوتے ہیں ۔ ہمارے حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر جب قرآن کی پہلی آیت اتری تو اس وقت آپ غارِحراء میں  اِعتکاف اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں  مشغول تھے۔

(2)… نیک اعمال کی برکت سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کامل علم ملتا ہے اور عالم کے عمل میں  برکت ہوتی ہے۔ لہٰذا علماء کو چاہیے کہ وہ نیک اعمال بکثرت کیا کریں ۔

وَ دَخَلَ الْمَدِیْنَةَ عَلٰى حِیْنِ غَفْلَةٍ مِّنْ اَهْلِهَا فَوَجَدَ فِیْهَا رَجُلَیْنِ یَقْتَتِلٰنِ ﱪ هٰذَا مِنْ شِیْعَتِهٖ وَ هٰذَا مِنْ عَدُوِّهٖۚ-فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِیْ مِنْ شِیْعَتِهٖ عَلَى الَّذِیْ مِنْ عَدُوِّهٖۙ-فَوَكَزَهٗ مُوْسٰى فَقَضٰى عَلَیْهِ ﱪ قَالَ هٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِیْنٌ(15)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور (ایک دن موسیٰ) شہروالوں کی (دوپہر کی) نیند کے وقت شہرمیں داخل ہوئے تو اس میں دو مردوں کو لڑتے ہوئے پایا۔ ایک موسیٰ کے گروہ سے تھا اور دوسرا اس کے دشمنوں میں سے تھا تو وہ جو موسیٰ کے گروہ میں سے تھا اس نے موسیٰ سے اس کے خلاف مدد مانگی جو اس کے دشمنوں سے تھا تو موسیٰ نے اس کے گھونسا مارا تو اس کا کام تمام کردیا۔ (پھر) فرمایا: یہ شیطان کی طرف سے ہواہے۔ بیشک وہ کھلا گمراہ کرنے والا دشمن ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ دَخَلَ الْمَدِیْنَةَ عَلٰى حِیْنِ غَفْلَةٍ مِّنْ اَهْلِهَا: اور شہروالوں  کی نیند کے وقت شہرمیں  داخل ہوئے۔} آیت کے اس حصے سے متعلق یہاں  دو باتیں  ملاحظہ ہوں ،

(1)…حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جس شہر میں  داخل ہوئے ا س کے بارے میں  ایک قول یہ ہے کہ وہ شہر ’’مَنْف‘‘ تھا جو کہ مصر کی حدود میں  واقع ہے ۔اس لفظ کی اصل مَافَہ ہے، قبطی زبان میں  اس لفظ کے معنی ہیں  30۔یہ وہ پہلا شہر ہے جو حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر طوفان کاعذاب آنے کے بعد آباد ہوا۔ اس سرزمین میں  مصربن حام نے اقامت کی، یہ اقامت کرنے والے کل 30 افرادتھے اس لئے اس شہر کا نام مافہ ہوا، پھر عربی زبان میں  اسے ’’مَنْف‘‘ پکارا جانے لگا۔دوسرا قول یہ ہے کہ وہ شہر حابین تھا جو مصر سے دو فرسنگ (یعنی 6 میل) کے فاصلہ پر واقع تھا ۔ تیسرا قول یہ ہے کہ وہ شہر عین شمس تھا۔( جمل، القصص، تحت الآیۃ: ۱۵، ۶ / ۱۳، خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۱۵، ۳ / ۴۲۷، ملتقطاً)

(2)…شہرمیں  حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پوشیدہ طور پر داخل ہونے کا سبب یہ تھا کہ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جوان ہوئے تو آپ نے حق کا بیان اور فرعون اور فرعونیوں  کی گمراہی کا رد شروع کیا اور فرعونیوں  کے دین کی ممانعت فرمائی ۔ بنی اسرائیل کے لوگ آپ کی بات سنتے اور آپ کی پیروی کیا کرتے تھے۔آہستہ آہستہ اس بات کا چرچا ہوا اور فرعونیوں  نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تلاش شرع کر دی ،اس لئے آپ جس بستی میں  داخل ہوتے تو ایسے وقت داخل ہوتے جب وہاں  کے لوگ غفلت میں  ہوں ۔ حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ (جس دن حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام شہر میں  داخل ہوئے) وہ دِن عید کا تھا اورلوگ اپنے لَہو و لَعب میں  مشغول تھے۔ (یعنی غفلت سے مراد سونا نہیں  بلکہ ان کا کھیل تماشے میں  مشغول ہونا تھا۔)( مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۸۶۴، خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۱۵، ۳ / ۴۲۷، ملتقطاً)

{فَوَجَدَ فِیْهَا رَجُلَیْنِ یَقْتَتِلٰنِ:  تو اس میں  دو مردوں  کو لڑتے ہوئے پایا۔} یعنی جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام شہر میں  داخل ہوئے تو آپ نے اس میں  دو مردوں  کو لڑتے ہوئے پایا۔ ان میں  سے ایک حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے گروہ بنی اسرائیل میں سے تھا اور دوسرا ان کے دشمنوں  یعنی فرعون کی قوم قِبطیوں  میں  سے تھا ،یہ اسرائیلی پر جَبر کر رہا تھا تاکہ وہ اس پر لکڑیوں  کا انبار لاد کر فرعون کے کچن میں  لے جائے ،چنانچہ جو مرد حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے گروہ میں  سے تھا اس نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اس کے خلاف مدد مانگی جو اس کے دشمنوں  سے تھا، تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے پہلے اس قِبطی سے کہا :تو اسرائیلی پر ظلم نہ کر اور اس کو چھوڑ دے ،لیکن وہ باز نہ آیا اور بدزبانی کرنے لگا تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس کو اس ظلم سے روکنے کے لئے گھونسا مارا تووہ گھونسا کھاتے ہی مر گیا۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اسے ریت میں  دفن کر دیا اور آپ کا ارادہ اسے قتل کرنے کا نہ تھا،پھر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’اس قبطی کا اسرائیلی پر ظلم کرنا جو اس کی ہلاکت کا باعث ہوا،یہ کام شیطان کی طرف سے ہواہے اور بیشک وہ کھلا گمراہ کرنے والا دشمن ہے۔ایک قول یہ ہے کہ اس آیت میں  ’’هٰذَا‘‘ سے اس قتل کی طرف اشارہ ہے جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے بلا ارادہ ہوا ، یعنی قبطی کو قتل کرنے کا کام (در حقیقت ) شیطان کی طرف سے ہوا۔ (خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۱۵، ۳ / ۴۲۷، مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۸۶۴)اس بات کی مزید وضاحت اگلی آیت کی تفسیر میں  موجود ہے۔

قَالَ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْ لِیْ فَغَفَرَ لَهٗؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(16)

ترجمہ: کنزالعرفان

موسیٰ نے عرض کی: اے میرے رب!میں نے اپنی جان پر زیادتی کی تو تومجھے بخش دے تو الله نے اسے بخش دیا بیشک وہی بخشنے والا مہربان ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ: عرض کی: اے میرے رب!میں  نے اپنی جان پر زیادتی کی۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ کلام عاجزی اور اِنکساری کے طور پر ہے کیونکہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کوئی مَعْصِیَت سرزد نہیں  ہوئی۔ یاد رہے کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام معصوم ہیں ، ان سے گناہ نہیں  ہوتے اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا قبطی کو مارنا در اصل ظلم دور کرنا اور مظلوم کی امداد کرنا تھا اور یہ کسی دین میں  بھی گناہ نہیں  ،پھر بھی اپنی طرف تقصیر کی نسبت کرنا اور استغفار چاہنا یہ اللہ تعالیٰ کے مُقَرَّب بندوں کا دستور ہی ہے۔( تفسیرکبیر، القصص، تحت الآیۃ: ۱۶، ۸ / ۵۸۵، ابو سعود، القصص، تحت الآیۃ: ۱۶، ۴ / ۲۲۸، قرطبی، القصص، تحت الآیۃ: ۱۶، ۷ / ۱۹۸، الجزء الثالث عشر، ملتقطاً)

قَالَ رَبِّ بِمَاۤ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ فَلَنْ اَكُوْنَ ظَهِیْرًا لِّلْمُجْرِمِیْنَ(17)

ترجمہ: کنزالعرفان

عرض کی: اے میرے رب!تو نے میرے اوپر جو احسان کیا ہے اس کی قسم کہ اب ہرگز میں مجرموں کا مددگار نہ ہوں گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ رَبِّ: عرض کی: اے میرے رب!} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عرض کی :اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، جیساکہ میری تقصیر کی بخشش فرما کرتو نے میرے اوپر احسان کیا ہے تو اب مجھ پر یہ کرم بھی فرما کہ مجھے فرعون کی صحبت اور اس کے یہاں  رہنے سے بھی بچا کیونکہ اس کے ہمراہ رہنے والوں  میں  شمار کیا جانا بھی ایک طرح کا مدد گار ہونا ہے اور میں  ہرگز مجرموں  کا مددگار نہ ہوں  گا۔( مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۸۶۴)

وَ جَآءَ رَجُلٌ مِّنْ اَقْصَا الْمَدِیْنَةِ یَسْعٰى٘-قَالَ یٰمُوْسٰۤى اِنَّ الْمَلَاَ یَاْتَمِرُوْنَ بِكَ لِیَقْتُلُوْكَ فَاخْرُ جْ اِنِّیْ لَكَ مِنَ النّٰصِحِیْنَ(20)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک (مومن) شخص دوڑ تا ہواآیا ،کہا: اے موسیٰ!بیشک دربار والے آپ کے بارے میں مشورہ کررہے ہیں کہ آپ کوقتل کردیں تو آپ نکل جائیں ۔بیشک میں آپ کے خیرخواہوں میں سے ہوں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ جَآءَ رَجُلٌ مِّنْ اَقْصَا الْمَدِیْنَةِ یَسْعٰى: اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑ تا ہواآیا۔} جب فرعون نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قتل کر نے کا حکم جاری کر دیا اور فرعونی آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تلاش میں  نکل پڑے تو یہ خبر سن کر شہر کے پرلے کنارے کی طرف سے قریبی راستے پر ایک شخص جسے اٰلِ فرعون کا مومن کہتے ہیں  ، دوڑ تا ہوا آیا اور ا س نے کہا: اے موسیٰ! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، بیشک فرعون کے درباروالے آپ کے بارے میں  مشورہ کررہے ہیں  کہ آپ کوقتل کردیں  تو آپ جلد از جلد شہر سے نکل جائیں ۔بیشک میں  آپ کے خیرخواہوں  میں  سے ہوں  اور یہ بات خیر خواہی اور مَصلحت اندیشی سے کہتا ہوں۔(جلالین، القصص، تحت الآیۃ: ۲۰، ص۳۲۸، مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۲۰، ص۸۶۵، ملتقطاً)

فَخَرَ جَ مِنْهَا خَآىٕفًا یَّتَرَقَّبُ٘-قَالَ رَبِّ نَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ(21)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر موسیٰ شہر سے ڈرتے ہوئے انتظار کرتے ہوئے نکلے ۔موسیٰ نے عرض کی: اے میرے رب! مجھے ظالموں سے نجات دیدے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَخَرَ جَ مِنْهَا خَآىٕفًا یَّتَرَقَّبُ:پھر شہر سے ڈرتے ہوئے انتظار کرتے ہوئے نکلے۔} جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کواس صورتحال کاعلم ہواتوآپ نے اس شہر سے ہجرت کرنے کاارادہ کرلیااور یہاں  سے مَدیَن کی طرف رختِ سفرباندھاکیونکہ مدین ایساعلاقہ تھاجوفرعون کی مملکت سے باہرتھااوراس کے علاوہ آبادبھی تھااورقریب بھی تھا۔

آیت ’’فَخَرَ جَ مِنْهَا خَآىٕفًا‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:

         اس آیت سے چند مسئلے معلوم ہوئے ،

(1)… خطرناک جگہ سے نکل جانا اور جان بچانے کی تدبیر کرنا انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے۔

(2)… اسباب پر عمل کرنا اور تدبیراختیار کرنا توکّل کے خلاف نہیں ۔

(3)… حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مار سے قبطی کا مر جانا ایسافعل نہیں  تھا جس کی وجہ سے قصاص لازم ہوتا اور اگر وہ صورت ایسی ہوتی جس میں  قصاص لازم ہوتاتو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام شہر سے نکلنے کی بجائے خود اپنے آپ کو قصاص کے لئے پیش فرمادیتے ۔

 (4)… کبھی مصیبت بندے کو اچھی طرف لے جاتی ہے۔ جیسے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بظاہر فرعون کی وجہ سے شہر چھوڑ رہے تھے مگر درحقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف جا رہے تھے۔ آپ کا یہ سفر بہت فتح اور کامیابی کا پیش خیمہ ہوا، حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی صحبت ، نیک بیوی اور نبوت کا عطا ہونا سب اسی سفر میں  آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مَرحمت ہوا۔

وَ لَمَّا تَوَجَّهَ تِلْقَآءَ مَدْیَنَ قَالَ عَسٰى رَبِّیْۤ اَنْ یَّهْدِیَنِیْ سَوَآءَ السَّبِیْلِ(22)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور جب وہ مدین کی طرف متوجہ ہوئے توکہا :عنقریب میرا رب مجھے سیدھا راستہ بتائے گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَمَّا تَوَجَّهَ تِلْقَآءَ مَدْیَنَ: اور جب وہ مدین کی طرف متوجہ ہوئے۔} مدین و ہ مقام ہے جہاں  حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تشریف رکھتے تھے ،اس کو مدینِ ابنِ ابراہیم کہتے ہیں ، مصر سے یہاں  تک آٹھ روز کی مسافت ہے، یہ شہر فرعون کی سلطنت کی حدود سے باہر تھا، حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس کا رستہ بھی نہ دیکھا تھا ،نہ کوئی سواری ساتھ تھی ،نہ توشہ نہ کوئی ہمراہی ،راستے میں  درختوں  کے پتوں  اور زمین کے سبزے کے سوا خوراک کی اور کوئی چیز نہ ملتی تھی۔ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مدین کی طرف جانے کا ارادہ کیا تویوں کہا :عنقریب میرا رب عَزَّوَجَلَّ مجھے مدین تک  پہنچنے کا سیدھا راستہ بتائے گا،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ بھیجا جو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مدین تک لے گیا۔( جلالین، القصص، تحت الآیۃ: ۲۲، ص۳۲۸، خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۲۲، ۳ / ۴۲۸۴۲۹، ملتقطاً)

وَ لَمَّا وَرَدَ مَآءَ مَدْیَنَ وَجَدَ عَلَیْهِ اُمَّةً مِّنَ النَّاسِ یَسْقُوْنَ ٘۬-وَ وَجَدَ مِنْ دُوْنِهِمُ امْرَاَتَیْنِ تَذُوْدٰنِۚ-قَالَ مَا خَطْبُكُمَاؕ-قَالَتَا لَا نَسْقِیْ حَتّٰى یُصْدِرَ الرِّعَآءُٚ-وَ اَبُوْنَا شَیْخٌ كَبِیْرٌ(23)فَسَقٰى لَهُمَا ثُمَّ تَوَلّٰۤى اِلَى الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ اِنِّیْ لِمَاۤ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ(24)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور جب وہ مدین کے پانی پر تشریف لائے تووہاں لوگوں کے ایک گروہ کو دیکھا کہ اپنے جانوروں کو پانی پلارہے ہیں اور ان کے دوسری طرف دو عورتوں کو دیکھاجو اپنے جانوروں کو روک رہی ہیں ۔ موسیٰ نے فرمایا: تم دونوں کا کیا حال ہے؟ وہ بولیں : ہم پانی نہیں پلاتیں جب تک سب چرواہے پلاکر پھیر نہ لے جائیں اور ہمارے باپ بہت بوڑھے ہیں ۔ تو موسیٰ نے ان دونوں کے جانوروں کو پانی پلا دیا پھر سائے کی طرف پھرے اور عرض کی: اے میرے رب!میں اس خیر (کھانے) کی طرف محتاج ہوں جو تو میرے لیے اتارے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَمَّا وَرَدَ مَآءَ مَدْیَنَ: اور جب وہ مدین کے پانی پر تشریف لائے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مدین پہنچے تو شہر کے کنارے پر موجود ایک کنوئیں  پر تشریف لائے جس سے وہاں  کے لوگ پانی لیتے اور اپنے جانوروں  کو سیراب کرتے تھے ۔وہاں  آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے لوگوں  کے ایک گروہ کو دیکھا کہ وہ اپنے جانوروں  کو پانی پلارہے ہیں  اور ان لوگوں  سے علیحدہ دوسری طرف دو عورتیں  کھڑی ہیں جو اپنے جانوروں  کواس انتظار میں  روک رہی ہیں  کہ لوگ پانی پلا کرفارغ ہو جائیں  اور کنواں  خالی ہو کیونکہ کنوئیں  کو مضبوط اور طاقتور لوگوں  نے گھیر رکھا تھا اوران کے ہجوم میں  عورتوں  سے ممکن نہ تھا کہ وہ اپنے جانوروں  کو پانی پلا سکیں ۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا: تم دونوں  اپنے جانوروں  کو پانی کیوں  نہیں  پلاتیں ؟ انہوں  نے کہا: جب تک سب چرواہے اپنے جانوروں  کو پانی پلاکر واپس نہیں  لے جاتے تب تک ہم پانی نہیں  پلاتیں  کیونکہ نہ ہم مردوں  کے مجمع میں  جا سکتی ہیں  نہ پانی کھینچ سکتی ہیں  اورجب یہ لوگ اپنے جانوروں  کو پانی پلا کر واپس ہو جاتے ہیں  تو حوض میں  جو پانی بچ جاتا ہے وہ ہم اپنے جانوروں  کو پلا لیتی ہیں  اور ہمارے باپ بہت ضعیف ہیں ،وہ خود یہ کام نہیں  کر سکتے اس لئے جانوروں  کو پانی پلانے کی ضرورت ہمیں  پیش آئی۔ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان کی باتیں  سنیں  تو آپ کو رحم آیا اور وہیں  دوسرا کنواں  جو اس کے قریب تھا اور ایک بہت بھاری پتھر اس پر رکھاہوا تھا جسے بہت سے آدمی مل کر ہٹا سکتے تھے، آپ نے تنہا اسے ہٹا دیا اور ان دونوں  خواتین کے جانوروں  کو پانی پلا دیا ۔اس وقت دھوپ اور گرمی کی شدت تھی اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کئی روز سے کھانا نہیں  کھایا تھا جس کی وجہ سے بھوک کا غلبہ تھا، اس لئے جانوروں  کو پانی پلانے کے بعد آرام حاصل کرنے کی غرض سے ایک درخت کے سائے میں  بیٹھ گئے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  عرض کی: اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، میں  اس کھانے کی طرف  محتاج ہوں  جو تو میرے لیے اتارے۔( خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۲۳۲۴، ۳ / ۴۲۹، مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۲۳۲۴، ص۸۶۵۸۶۶، ملتقطاً)

فَجَآءَتْهُ اِحْدٰىهُمَا تَمْشِیْ عَلَى اسْتِحْیَآءٍ٘-قَالَتْ اِنَّ اَبِیْ یَدْعُوْكَ لِیَجْزِیَكَ اَجْرَ مَا سَقَیْتَ لَنَاؕ-فَلَمَّا جَآءَهٗ وَ قَصَّ عَلَیْهِ الْقَصَصَۙ – قَالَ لَا تَخَفْٙ- نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ(25)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو ان دونوں لڑکیوں میں سے ایک حضرت موسیٰ کے پاس شرم سے چلتی ہوئی آئی (اور) کہا: میرے والد آپ کو بلارہے ہیں تاکہ آپ کو اس کا م کی مزدوری دیں جوآپ نے ہمارے جانوروں کو پانی پلایا ہے۔ تو جب موسیٰ اس (والد) کے پاس آئے اور اسے (اپنے) واقعات سنائے تواس نے کہا: ڈرو نہیں ، آپ ظالموں سے نجات پاچکے ہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَجَآءَتْهُ اِحْدٰىهُمَا تَمْشِیْ عَلَى اسْتِحْیَآءٍ٘: توان دونوں  میں سے ایک حضرت موسیٰ کے پاس شرم سے چلتی ہوئی آئی۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو باقاعدہ کھانا تناوُل فرمائے پورا ہفتہ گزر چکا تھا، اس عرصے میں  کھانے کا ایک لقمہ تک نہ کھایا اورشکم مبارک پُشْتِ اقدس سے مل گیا تھا، اس حالت میں  آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّ سے غذا طلب کی اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  نہایت قرب و منزلت رکھنے کے باوجود انتہائی عاجزی اور اِنکساری کے ساتھ روٹی کا ایک ٹکڑا طلب کیا اور جب وہ دونوں  صاحب زادیاں  اس دن بہت جلد اپنے مکان پر واپس تشریف لے آئیں  تو ان کے والد ماجد نے فرمایا’’ آج اس قدر جلد واپس آ جانے کا کیا سبب ہوا ؟انہوں  نے عرض کی: ہم نے کنویں  کے پاس ایک نیک مرد پایا، اس نے ہم پر رحم کیا اور ہمارے جانوروں  کو سیراب کر دیا اس پر ان کے والد صاحب نے ایک صاحبزادی سے فرمایا کہ جاؤ اور اس نیک مرد کو میرے پاس بلا لاؤ ۔ چنانچہ ان دونوں  میں  سے ایک صاحب زادی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس چہرہ آستین سے ڈھکے، جسم چھپائے، شرم سے چلتی ہوئی آئی ۔ یہ بڑی صاحبزادی تھیں ، ان کا نام صفوراء ہے اور ایک قول یہ ہے کہ وہ چھوٹی صاحبزادی تھیں ۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس پہنچ کر انہوں  نے کہا:میرے والد آپ کو بلارہے ہیں  تاکہ آپ کو اس کام کی مزدوری دیں  جوآپ نے ہمارے جانوروں  کو پانی پلایا ہے۔حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اجرت لینے پر تو راضی نہ ہوئے لیکن حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زیارت اور ان سے ملاقات کرنے کے ارادے سے چلے اور ان صاحبزادی صاحبہ سے فرمایا کہ آپ میرے پیچھے رہ کر رستہ بتاتی جائیے۔ یہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے پردہ کے اہتمام کے لئے فرمایا اور اس طرح تشریف لائے ۔جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس پہنچے تو کھانا حاضر تھا، حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’بیٹھئے کھانا کھائیے۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان کی یہ بات منظور نہ کی اور فرمایا’’میں  اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں ۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’کھانا نہ کھانے کی کیا وجہ ہے، کیا آپ کو بھوک نہیں  ہے؟ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’ مجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ یہ کھانا میرے اُس عمل کا عِوَض نہ ہو جائے جو میں  نے آپ کے جانوروں  کو پانی پلا کر انجام دیا ہے، کیونکہ ہم وہ لوگ ہیں  کہ نیک عمل پر عوض لینا قبول نہیں  کرتے۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’اے جوان! ایسا نہیں  ہے، یہ کھانا آپ کے عمل کے عوض میں  نہیں  بلکہ میری اور میرے آباؤ اَجداد کی عادت ہے کہ ہم مہمان نوازی کیا کرتے ہیں  اور کھانا کھلاتے ہیں ۔یہ سن کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بیٹھ گئے اور آپ نے کھانا تناول فرمایا اور ا س کے بعد تمام واقعات و احوال جو فرعون کے ساتھ گزرے تھے، اپنی ولادت شریف سے لے کر قبطی کے قتل اور فرعونیوں  کے آپ کے درپے جان ہونے تک ، سب حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے بیان کر دیئے ۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’فرعون اور فرعونیوں  سے ڈریں  نہیں ، اب آپ ظالموں  سے نجات پاچکے ہیں  کیونکہ یہاں  مدین میں  فرعون کی حکومت و سلطنت نہیں ۔( خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۲۵، ۳ / ۴۲۹۴۳۰، مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۲۴۲۵، ص۸۶۶۸۶۷، ملتقطاً)

قَالَتْ اِحْدٰىهُمَا یٰۤاَبَتِ اسْتَاْجِرْهُ٘-اِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْاَمِیْنُ(26)قَالَ اِنِّیْۤ اُرِیْدُ اَنْ اُنْكِحَكَ اِحْدَى ابْنَتَیَّ هٰتَیْنِ عَلٰۤى اَنْ تَاْجُرَنِیْ ثَمٰنِیَ حِجَجٍۚ-فَاِنْ اَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِنْدِكَۚ-وَ مَاۤ اُرِیْدُ اَنْ اَشُقَّ عَلَیْكَؕ-سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(27)

ترجمہ: کنزالعرفان

ان میں سے ایک نے کہا: اے میرے باپ!ان کو ملازم رکھ لو بیشک آپ کا بہتر نوکر وہ ہوگا جو طاقتور اور امانتدار ہو۔ ۔ (انہوں نے) فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ اپنی دونوں بیٹیوں میں سے ایک کے ساتھ اس مہر پر تمہارا نکاح کردوں کہ تم آٹھ سال تک میری ملازمت کرو پھر اگر تم دس سال پورے کردو تووہ (اضافہ) تمہاری طرف سے ہوگا اور میں تمہیں مشقت میں ڈالنا نہیں چاہتا۔ ان شآء اللہ عنقریب تم مجھے نیکوں میں سے پاؤ گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَتْ اِحْدٰىهُمَا یٰۤاَبَتِ اسْتَاْجِرْهُ: ان میں  سے ایک نے کہا: اے میرے باپ!ان کو ملازم رکھ لو۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کھاناوغیرہ کھاچکے اورگفتگو بھی کرلی تو حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ایک بیٹی نے عرض کی،اباجان آپ انھیں  اجرت پر ملازم رکھ لیں  کہ یہ ہماری بکریاں  چرایا کریں  اور یہ کام ہمیں  نہ کرنا پڑے، بے شک اچھاملازم وہی ہوتاہے جو طاقتور بھی ہو اور امانتدار بھی ہو۔اس پرحضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی صاحب زادی سے دریافت کیا کہ تمہیں  ان کی قوت و امانت کا کیسے علم ہوا؟ صاحب زادی نے عرض کی : قوت تو اس سے ظاہر ہے کہ اُنہوں  نے تنہا کنوئیں  پر سے وہ پتھر اُٹھالیا جس کو دس سے کم آدمی نہیں  اُٹھا سکتے اور امانت اس سے ظاہر ہے کہ اُنہوں  نے ہمیں  دیکھ کر سرجھکالیا اور نظر نہ اُٹھائی اور ہم سے کہا کہ تم پیچھے چلو ایسا نہ ہو کہ ہوا سے تمہارا کپڑا اڑے اور بدن کا کوئی حصہ نمودار ہو۔ یہ سن کر حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا: ’’میں  چاہتا ہوں  کہ اپنی دونوں  بیٹیوں  میں  سے ایک کے ساتھ اس مہر پرتمہارا نکاح کردوں  کہ تم آٹھ سال تک میری ملازمت کرو پھر اگر تم دس سال پورے کردو تو یہ اضافہ تمہاری طرف سے مہربانی ہو گی اور تم پر واجب نہ ہو گا اور میں  تم پرکوئی اضافی مشقت نہیں  ڈالنا چاہتا۔ اِنْ شَآءَاللہ عنقریب تم مجھے نیکوں  میں  سے پاؤ گے تو میری طرف سے معاملے میں  اچھائی اور عہد کو پورا کرنا ہی ہو گا۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالیٰ کی توفیق و مددپر بھروسہ کرنے کے لئے اِنْ شَآءَ اللہ فرمایا۔( بغوی، القصص، تحت الآیۃ: ۲۶-۲۷، ۳ / ۳۸۰، مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۲۶-۲۷، ص۸۶۷-۸۶۸، ملتقطاً)

سورۂ قصص کی اِس آیت سے چند چیزیں  معلوم ہوئیں  ، یہ کہ اگرچہ سنت یہ ہے کہ پیغامِ نکاح لڑکے کی طرف سے ہو لیکن یہ بھی جائز ہے کہ لڑکی والوں  کی طرف سے ہو۔ مزید یہ کہ لڑکی کے لئے مالدار لڑکا تلاش کرنے کی بجائے دیندار اور شریف لڑکا تلاش کیا جائے۔ جیسے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مسافر تھے، مالدار نہ تھے، مگر آپ کی دینداری اور شرافت ملاحظہ فرما کر حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی صاحبزادی کا نکاح آپ سے کردیا۔

صوفیاءِ کرام فرماتے ہیں کہ بظاہر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے بکریاں چروانا تھا ، مگر درحقیقت ان کو اپنی صحبت ِپاک میں رکھ کر کَلِیْمُ اللہ بننے کی صلاحیت پیدا کرنا تھا،لہٰذا یہ آیت صوفیاءِ کرام کے چِلّوں اور مرشد کے گھر رہ کر ان کی خدمت کرنے کی بڑی دلیل ہے۔

قَالَ ذٰلِكَ بَیْنِیْ وَ بَیْنَكَؕ-اَیَّمَا الْاَجَلَیْنِ قَضَیْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَیَّؕ-وَ اللّٰهُ عَلٰى مَا نَقُوْلُ وَكِیْلٌ(28)

ترجمہ: کنزالعرفان

موسیٰ نے جواب دیا: یہ میرے اور آپ کے درمیان (معاہدہ طے) ہے۔ میں ان دونوں میں سے جو بھی مدت پوری کردوں تو مجھ پر کوئی زیادتی نہیں ہوگی اور ہماری اس گفتگو پر الله نگہبان ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ ذٰلِكَ بَیْنِیْ وَ بَیْنَكَ:  حضرت موسیٰ نے جواب دیا: یہ میرے اور آپ کے درمیان ہے۔} حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بات سن کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جواب دیا’’میرے اور آپ کے درمیان یہ معاہدہ طے ہے اور ہم دونوں  ا س معاہدے کی پوری طرح پاسداری کریں  گے البتہ جب میں  8 یا 10 سال دونوں  میں  سے ملازمت کی جو مدت پوری کر دوں  تو اس سے زیادہ مدت تک ملازمت کرنے کا مجھ سے کوئی مطالبہ نہ ہو گا، اور ہمارے اس معاہدے پر اللہ تعالیٰ نگہبان ہے لہٰذا ہم میں  سے کسی ایک کے لئے بھی اس معاہدے سے پھرنے کی کوئی راہ نہیں ۔

         جب معاہدہ مکمل ہوچکا تو حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی صاحبزادی کو حکم دیا کہ وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ایک عصاء دیں  جس سے وہ بکریوں  کی نگہبانی کریں  اور درندوں کو ان سے دور کریں ۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے کئی عصا موجود تھے ،صاحبزادی صاحبہ کا ہاتھ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے عصاء پر پڑا جو آپ جنت سے لائے تھے اور انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس کے وارث ہوتے چلے آئے تھے ، یہاں  تک کہ وہ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس پہنچا تھا۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ عصاء حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دے دیا۔(خازن ، القصص ، تحت الآیۃ : ۲۸ ، ۳ / ۴۳۱ ، مدارک ، القصص ، تحت الآیۃ : ۲۸، ص۸۶۸، روح البیان، القصص، تحت الآیۃ: ۲۸، ۶ / ۳۹۹، جلالین، القصص، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۳۲۹، ملتقطاً)

فَلَمَّا قَضٰى مُوْسَى الْاَجَلَ وَ سَارَ بِاَهْلِهٖۤ اٰنَسَ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ نَارًاۚ-قَالَ لِاَهْلِهِ امْكُثُوْۤا اِنِّیْۤ اٰنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّیْۤ اٰتِیْكُمْ مِّنْهَا بِخَبَرٍ اَوْ جَذْوَةٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُوْنَ(29)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر جب موسیٰ نے اپنی مدت پوری کردی اور اپنی بیوی کو لے کر چلے تو کوہِ طور کی طرف ایک آگ دیکھی۔ آپ نے اپنی گھر والی سے فرمایا: تم ٹھہرو ، بیشک میں نے ایک آگ دیکھی ہے، شاید میں وہاں سے کچھ خبر لاؤ ں یا تمہارے لیے کوئی آگ کی چنگاری لاؤں تاکہ تم گرمی حاصل کرو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَلَمَّا قَضٰى مُوْسَى الْاَجَلَ وَ سَارَ بِاَهْلِهٖ: پھر جب موسیٰ نے اپنی مدت پوری کردی اور اپنی بیوی کو لے کر چلے۔} جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ملازمت کی مدت پوری کر دی تو حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے آپ کا نکاح اپنی بڑی صاحبزادی صفورا سے کردیا ۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دس سال کی میعاد پوری فرمائی تھی، جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بڑی میعاد یعنی دس سال پورے کئے۔ پھرآپ نے حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے مصر کی طرف واپس جانے کی اجازت چاہی تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اجازت دیدی ،چنانچہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنی زوجہ کوان کے والد کی اجازت سے مصر کی طرف لے کر چلے ۔ سفر کے دوران جب آپ ایک جنگل میں  تھے، اندھیری رات تھی ، سردی شدت کی پڑ رہی تھی اور راستہ گم ہو گیا تھا تو اس وقت آپ نے کوہِ طور کی طرف ایک آگ دیکھی ،اسے دیکھ کر آپ نے اپنی گھر والی سے فرمایا’’ تم یہاں  ٹھہرو ، بیشک میں  نے ایک آگ دیکھی ہے، شاید میں  وہاں  سے راستے کی کچھ خبر لاؤ ں  کہ کدھر جانا ہے یا تمہارے لیے کوئی آگ کی چنگاری لے آؤں  تاکہ تم اس سے گرمی حاصل کرسکو۔(خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۲۹، ۳ / ۴۳۱، جلالین مع جمل، القصص، تحت الآیۃ: ۲۹، ۶ / ۲۴، ملتقطاً)

فَلَمَّاۤ اَتٰىهَا نُوْدِیَ مِنْ شَاطِئِ الْوَادِ الْاَیْمَنِ فِی الْبُقْعَةِ الْمُبٰرَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ اَنْ یّٰمُوْسٰۤى اِنِّیْۤ اَنَا اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ(30)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر جب آگ کے پاس آئے تو برکت والی جگہ میں میدان کے دائیں کنارے سے ایک درخت سے انہیں ندا کی گئی :اے موسیٰ!بیشک میں ہی الله ہوں ،سارے جہانوں کاپالنے والاہوں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَلَمَّاۤ اَتٰىهَا: پھر جب آگ کے پاس آئے۔ } جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنی زوجہ محترمہ کو اس جگہ چھوڑ کر آگ کے پاس آئے تو برکت والی جگہ میں  میدان کے اس کنارے سے جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دائیں  ہاتھ کی طرف تھا، ایک درخت سے انہیں  ندا کی گئی :اے موسیٰ!بیشک میں  ہی اللہ ہوں ،سارے جہانوں  کاپالنے والاہوں ۔ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے سرسبز درخت میں  آ گ دیکھی تو جان لیا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا یہ کسی کی قدرت نہیں  اور بے شک جو کلام انہوں  نے سنا ہے اس کا مُتَکَلِّم اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ یہ بھی منقول ہے کہ یہ کلام حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے صرف اپنے مبارک کانوں  ہی سے نہیں  بلکہ اپنے جسمِ اقدس کے ہر ہر جُزْوْ سے سنا ،اور جس درخت سے انہیں  ندا کی گئی وہ عناب کا درخت تھا یا عوسج کا (جو کہ ایک خاردار درخت ہے اور اکثر جنگلوں  میں  ہوتا ہے۔)( خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۳۰، ۳ / ۴۳۱۴۳۲، مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۳۰، ص۸۶۹، ملتقطاً)

وَ اَنْ اَلْقِ عَصَاكَؕ-فَلَمَّا رَاٰهَا تَهْتَزُّ كَاَنَّهَا جَآنٌّ وَّلّٰى مُدْبِرًا وَّ لَمْ یُعَقِّبْؕ-یٰمُوْسٰۤى اَقْبِلْ وَ لَا تَخَفْ- اِنَّكَ مِنَ الْاٰمِنِیْنَ(31)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور یہ کہ تم اپنا عصا ڈال دو تو جب اسے لہراتا ہوا دیکھا گویا کہ سانپ ہے تو حضرت موسیٰ پیٹھ پھیر کر چلے اور مڑ کر نہ دیکھا۔ (ہم نے فرمایا:) اے موسیٰ! سامنے آؤ اورنہ ڈرو ،بیشک تم امن والوں میں سے ہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اَنْ اَلْقِ عَصَاكَ: اور یہ کہ تم اپنا عصاڈال دو۔} کوہِ طور پر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے یہ فرمایا گیا کہ تم اپنا عصا نیچے رکھ دو، چنانچہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عصا نیچے رکھ دیا تووہ سانپ بن گیا اور جب اسے لہراتا ہوا دیکھا گویا کہ سانپ ہے تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس سے خوفزدہ ہوئے اور اس طرح پیٹھ پھیر کر چلے کہ آپ نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ تب انہیں  ندا کی گئی ’’ اے موسیٰ! سامنے آؤ اور ڈرو نہیں  ،بیشک تم امن والوں  میں  سے ہو اور تمہیں  کوئی خطرہ نہیں۔(مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۳۱، ص۸۶۹، خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۳۱، ۳ / ۴۳۲، ملتقطاً)

اُسْلُكْ یَدَكَ فِیْ جَیْبِكَ تَخْرُ جْ بَیْضَآءَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓءٍ٘-وَّ اضْمُمْ اِلَیْكَ جَنَاحَكَ مِنَ الرَّهْبِ فَذٰنِكَ بُرْهَانٰنِ مِنْ رَّبِّكَ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡىٕهٖؕ-اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ(32)

ترجمہ: کنزالعرفان

اپنا ہاتھ گریبان میں ڈالو تووہ بغیر کسی مرض کے سفید چمکتا ہوا نکلے گا اور خوف دور کرنے کیلئے اپنا ہاتھ اپنے ساتھ ملالو تو تیرے رب کی طرف سے فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف یہ دو بڑی دلیلیں ہیں ،بیشک وہ نافرمان لوگ ہیں 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اُسْلُكْ یَدَكَ فِیْ جَیْبِكَ: اپنا ہاتھ گریبان میں  ڈالو۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے مزید فرمایا گیا کہ اپنا ہاتھ اپنی قمیص کے گریبان میں  ڈال کر نکالو تووہ کسی مرض کے بغیر سفید اور سورج کی شعاع کی طرح چمکتا ہوا نکلے گا۔ چنانچہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنا دست ِمبارک گریبان میں  ڈال کر نکالا تو اس میں  ایسی تیز چمک تھی جس سے نگاہیں  جھپک گئیں ۔اس کے بعد ارشاد فرمایا: ’’اور خوف دور کرنے کیلئے اپنا ہاتھ اپنے ساتھ ملالو تاکہ ہاتھ اپنی اصلی حالت پر آئے اور خوف دور ہو جائے۔ یہاں  جس خوف کا ذکر ہوا اس کے سبب کے بارے میں  ایک قول یہ ہے کہ ہاتھ کی چمک دیکھ کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دل میں  خوف پیدا ہوا اور اس خوف کو دور کرنے کے لئے یہ طریقہ ارشاد فرمایا گیا ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے وہی خوف مراد ہے جو سانپ کو دیکھنے سے پیدا ہو اتھا،اسے آیت میں  بیان کئے گئے طریقے سے دور کیا گیا ۔پھر ارشاد فرمایا کہ عصا اور روشن ہاتھ تیرے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے فرعون اور اس کے درباریوں  کی طرف تمہاری رسالت کی دو بڑی دلیلیں  ہیں  ،بیشک وہ نافرمان لوگ ہیں  اور وہ ظلم و سرکشی کی حد پار کر چکے ہیں ۔( مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۳۲، ص۸۶۹، خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۳۲، ۳ / ۴۳۲، جلالین، القصص، تحت الآیۃ: ۳۲، ص۳۳۰، ملتقطاً)

قَالَ رَبِّ اِنِّیْ قَتَلْتُ مِنْهُمْ نَفْسًا فَاَخَافُ اَنْ یَّقْتُلُوْنِ(33)وَ اَخِیْ هٰرُوْنُ هُوَ اَفْصَحُ مِنِّیْ لِسَانًا فَاَرْسِلْهُ مَعِیَ رِدْاً یُّصَدِّقُنِیْۤ٘-اِنِّیْۤ اَخَافُ اَنْ یُّكَذِّبُوْنِ(34)

ترجمہ: کنزالعرفان

موسیٰ نے عرض کی: اے میرے رب!میں نے ان میں سے ایک شخص کو قتل کردیا تھا تو مجھے ڈر ہے کہ وہ مجھے قتل کردیں گے۔ اور میرا بھائی ہارون اس کی زبان مجھ سے زیادہ صاف ہے تو اسے میری مدد کے لیے رسول بنا تاکہ وہ میری تصدیق کرے ، بیشک مجھے ڈر ہے کہ وہ مجھے جھٹلائیں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ رَبِّ: موسیٰ نے عرض کی: اے میرے رب!} جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عصا اور روشن نشانیوں  کے ساتھ فرعون اور ا س کی قوم کی طرف رسول بن کر جانے کا حکم ہوا تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عرض کی: اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، فرعونیوں  میں  سے ایک شخص میرے ہاتھ سے مارا گیا تھا، تو مجھے ڈر ہے کہ ا س کے بدلے میں  وہ مجھے قتل کردیں  گے۔(تفسیرکبیر، القصص، تحت الآیۃ: ۳۳، ۸ / ۵۹۶، جلالین، القصص، تحت الآیۃ: ۳۳، ص۳۳۰، ملتقطاً)

{وَ اَخِیْ هٰرُوْنُ هُوَ اَفْصَحُ مِنِّیْ لِسَانًا: اور میرا بھائی ہارون اس کی زبان مجھ سے زیادہ صاف ہے۔} حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بڑے بھائی تھے اور بچپن میں  فرعون کے ہاں  انگارہ منہ میں  رکھ لینے کی وجہ سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زبان شریف میں  لکنت آ گئی تھی اس لئے آپ نے فرمایا کہ میرے بھائی حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زبان مجھ سے زیادہ صاف ہے تو اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، اسے میری مدد کے لئے فرعون اور ا س کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیج تاکہ وہ حق بات کومزید واضح کر کے اور حق کے دلائل بیان کر کے میری تصدیق کرے ، بے شک مجھے ڈر ہے کہ فرعون اور ا س کی قوم کے لوگ مجھے جھٹلائیں  گے اور میری دعوت کو قبول نہیں  کریں  گے ۔( روح البیان، القصص، تحت الآیۃ: ۳۴، ۶ / ۴۰۴، ملتقطاً)

سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فصاحت:

اس آیت میں  حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی فصاحت اور زبان کی صفائی کا ذکر ہوا، اگرچہ اس سے مراد زبان میں  لکنت نہ ہونا اور صحیح صحیح بات کرنا ہے لیکن لفظ ِ فصاحت کی مناسبت سے یہاں  تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زبانِ اقدس کی فصاحت کابیان کیا جاتا ہے ،چنانچہ علامہ عبد الحق محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  :حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زبان مبارک کی فصاحت، کلام میں جامع الفاظ ،انوکھا اظہارِ بیان، حیرت انگیزاحکامات اور فیصلے اتنے زیادہ ہیں  کہ شا ید ہی کوئی غورو فکر کرنے والا شخص ان کا اِحاطہ کر سکے ،آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اوصاف کا بیان اور ان کے بیان کازبان کے ساتھ اظہار ممکن ہی نہیں  ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے زیادہ فصیح اور شیریں  بیان دوسرا پیدا ہی نہیں  فرمایا۔ایک مرتبہ حضرت عمر بن خطاب نے عرض کی : یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، نہ تو آپ کہیں  باہر تشریف لے گئے اور نہ آپ نے لوگوں  میں  نشست و بَرخاست رکھی ،پھر آپ ایسی فصاحت کہاں  سے لائے ہیں ؟آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی لغت اور اصطلاح جو ناپید اور فنا ہو چکی تھی،اسے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام میرے پاس لے کر آئے ،جسے میں  نے یاد کر لیا ہے۔نیز آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میرے رب عَزَّوَجَلَّ نے مجھے ادب سکھایا تو میرے ادب کو بہت اچھا کر دیا۔

عربیت کا وہ علم جو عربی زبان اور اس کی فصاحت و بلاغت سے تعلق رکھتا ہے اسے ادب کہتے ہیں ۔( مدارج النبوہ، باب اول در بیان حسن وخلقت وجمال، بیان فصاحت شریف، ۱ / ۱۰)

اور علامہ عبد المصطفٰی اعظمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَسَلَّمَ کی زبانِ اقدس وحیِ الٰہی کی ترجمان اور سر چشمۂ آیات ومَخزنِ معجزات ہے ،اس کی فصاحت و بلاغت اس قدر حد ِاِعجاز کو پہنچی ہوئی ہے کہ بڑے بڑے فُصحاء و بُلغاء آپ کے کلام کو سن کر دنگ رہ جاتے تھے۔ (اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں 🙂

ترے آگے یوں  ہیں  دبے لَچے فصحاء عرب کے بڑے بڑے

 کوئی جانے منہ میں  زباں  نہیں ، نہیں  بلکہ جسم میں  جاں  نہیں

آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَسَلَّمَ کی مُقَدَّس زبان کی حکمرانی اور شان کا یہ اعجاز تھا کہ زبان سے جو فرمادیا وہ ایک آن میں  معجزہ بن کر عالَمِ وجود میں  آ گیا۔ (اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں 🙂

وہ زباں  جس کو سب کُن کی کُنجی کہیں

اس کی نافذ حکومت پہ لاکھوں  سلام

اس کی پیاری فصاحت پہ بے حد درود

اس  کی  دلکش  بلاغت  پہ  لاکھوں   سلام

(سیرت مصطفٰی، شمائل وخصائل، زبان اقدس، ص۵۷۵-۵۷۶)

آیت ’’وَ اَخِیْ هٰرُوْنُ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:

         اس آیت سے دو مسئلے معلوم ہوئے ،

(1)… اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندوں  کی مدد لینا انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے جیسے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام نے حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مدد لی۔

(2)… بزرگوں  کی دعا سے و ہ نعمت ملی سکتی ہے جو کسی اور سے نہیں  مل سکتی، جیسے حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا سے ہے ۔

یاد رہے کہ نبوت اللہ تعالیٰ کی عطا ہے اور وہ جسے چاہتا ہے یہ عطا فرماتا ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری کے بعد اب قیامت تک کسی کو نبوت نہیں  مل سکتی کیونکہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِوَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ آخری نبی ہیں  اور آپ کی آمد پر اللہ تعالیٰ نے نبوت کاسلسلہ ختم فرما دیا ہے ، البتہ اب بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کے مُقَرَّب بندوں  کی دعا سے ولایت، علم ،اولاد اور سلطنت مل سکتی ہے۔

قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِاَخِیْكَ وَ نَجْعَلُ لَكُمَا سُلْطٰنًا فَلَا یَصِلُوْنَ اِلَیْكُمَاۚۛ-بِاٰیٰتِنَاۤۚۛ-اَنْتُمَا وَ مَنِ اتَّبَعَكُمَا الْغٰلِبُوْنَ(35)

ترجمہ: کنزالعرفان

الله نے فرمایا:عنقریب ہم تیرے بازو کو تیرے بھائی کے ذریعے قوت دیں گے اور تم دونوں کو غلبہ عطا فرمائیں گے تو وہ ہماری نشانیوں کے سبب تم دونوں کا کچھ نقصان نہ کرسکیں گے ۔تم دونوں اور تمہاری پیروی کرنے والے غالب آئیں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِاَخِیْكَ: فرمایا:عنقریب ہم تیرے بازو کو تیرے بھائی کے ذریعے قوت دیں  گے۔} اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا قبول فرمائی اور ان سے ارشاد فرمایا’’ہم تیرے بھائی کے ذریعے تمہیں  قوت دیں  گے اورتمہاری مدد کریں  گے اور ہم تم دونوں  کو غلبہ وتَسَلُّط عطا فرمائیں  گے اور دشمنوں  کے دلوں  میں  تمہاری ہیبت بٹھا دیں  گے،لہٰذا تم فرعون اور اس کی قوم کے پاس جاؤ،وہ لوگ ہماری نشانیوں  کے سبب تم دونوں  کا کچھ نقصان نہ کرسکیں  گے بلکہ تم دونوں  اور تمہاری پیروی کرنے والے ہی ان پر غالب آئیں گے۔( تفسیرطبری، القصص، تحت الآیۃ: ۳۵، ۱۰ / ۷۳، مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۳۵، ص۸۷۰، ملتقطاً)

فَلَمَّا جَآءَهُمْ مُّوْسٰى بِاٰیٰتِنَا بَیِّنٰتٍ قَالُوْا مَا هٰذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ مُّفْتَرًى وَّ مَا سَمِعْنَا بِهٰذَا فِیْۤ اٰبَآىٕنَا الْاَوَّلِیْنَ(36)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر جب موسیٰ ان کے پاس ہماری روشن نشانیاں لے کر آئے تو (فرعونیوں نے) کہا: یہ تو صرف ایک بناوٹی جادو ہے اور ہم نے اپنے اگلے باپ داداؤں میں یہ (بات کبھی) نہیں سنی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَلَمَّا جَآءَهُمْ مُّوْسٰى بِاٰیٰتِنَا: پھر جب موسیٰ ان کے پاس ہماری روشن نشانیاں  لے کر آئے۔} ارشاد فرمایاکہ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرعون اور اس کی قوم کے پاس ہماری روشن نشانیاں  لے کر آئے توان نشانیوں  کا مشاہدہ کرنے کے بعد ان لوگوں  نے کہا: یہ تو صرف ایک بناوٹی جادو ہے۔ان بدنصیبوں  نے معجزات کا انکار کر دیا اور ان کو جادو بتا دیا اور ان کی ا س بات کا مطلب یہ تھا کہ جس طرح جادو کی تمام اَقسام باطل ہوتی ہیں  اسی طرح (مَعَاذَ اللہ) یہ معجزات بھی ہیں  ۔فرعونیوں  نے مزید یہ کہاکہ جو دعوت آپ ہمیں  دے رہے ہیں  وہ ایسی نئی ہے کہ ہمارے آباؤ اَجداد میں  بھی ایسی نہیں  سنی گئی تھی ۔( مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۳۶، ص۸۷۰، تفسیرطبری، القصص، تحت الآیۃ: ۳۶، ۱۰ / ۷۳، ملتقطاً)

وَ قَالَ مُوْسٰى رَبِّیْۤ اَعْلَمُ بِمَنْ جَآءَ بِالْهُدٰى مِنْ عِنْدِهٖ وَ مَنْ تَكُوْنُ لَهٗ عَاقِبَةُ الدَّارِؕ-اِنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ(37)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور موسیٰ نے فرمایا: میرا رب خوب جانتا ہے جو اس کے پاس سے ہدایت لائے اور جس کے لیے آخرت کے گھر کا(اچھا)انجام ہوگا۔ بیشک ظالم کامیاب نہیں ہوں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ قَالَ مُوْسٰى: اور موسیٰ نے فرمایا۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان کے جواب میں  ارشاد فرمایا کہ میرا رب عَزَّوَجَلَّ اسے خوب جانتا ہے جو ہم میں  سے حق پر ہے اور جسے اللہ تعالیٰ نے نبوت کے ساتھ سرفراز فرمایا ہے اور اسے بھی خوب جانتا ہے جس کے لیے آخرت کا گھر ہوگااور وہ وہاں  کی نعمتوں  اور رحمتوں  کے ساتھ نوازا جائے گا، اگر تمہارے گمان کے مطابق میرے دکھائے ہوئے معجزات جادو ہیں  اور میں  نے انہیں  اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر کے جھوٹ بولا ہے تو اللہ تعالیٰ مجھے یہ کبھی عطا نہ فرماتا کیونکہ وہ غنی اور حکمت والا ہے اور اس کی یہ شان نہیں  کہ وہ کسی جھوٹے اور جادو گر کو رسول بنا کر بھیجے ۔ بے شک کفر کر کے اپنی جانوں  پر ظلم کرنے والے کامیاب نہیں  ہوں  گے اور کافروں  کو آخرت کی کامیابی مُیَسَّر نہیں  ۔( مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۸۷۰)

وَ قَالَ فِرْعَوْنُ یٰۤاَیُّهَا الْمَلَاُ مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرِیْۚ-فَاَوْقِدْ لِیْ یٰهَامٰنُ عَلَى الطِّیْنِ فَاجْعَلْ لِّیْ صَرْحًا لَّعَلِّیْۤ اَطَّلِعُ اِلٰۤى اِلٰهِ مُوْسٰىۙ-وَ اِنِّیْ لَاَظُنُّهٗ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ(38)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور فرعون نے کہا: اے درباریو!میں تمہارے لیے اپنے سوا کوئی خدا نہیں جانتا تو اے ہامان! میرے لیے گارے پر آگ جلا پھر میرے لئے ایک اونچا محل بناؤ، شاید میں موسیٰ کے خدا کو جھانک لوں اور بیشک میں تو اسے جھوٹوں میں سے ہی سمجھتا ہوں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ قَالَ فِرْعَوْنُ:  اور فرعون نے کہا۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرعون کو جو اللہ تعالیٰ کی وَحْدانیَّت پر ایمان لانے اور صرف اسی کی عبادت کرنے کی دعوت دی تھی، ا س کا انکار کرتے ہوئے فرعون نے اپنے دربار میں  موجود لوگوں  سے کہا: اے درباریو!میں  تمہارے لیے اپنے سوا کوئی خدا نہیں  جانتا جس کی تم عبادت کرو۔پھر اس نے اپنے وزیر ہامان سے کہا کہ اے ہامان!میرے لیے گارے پر آگ جلا کر اینٹ تیار کرو، پھر میرے لئے ایک انتہائی اونچا محل بناؤ، شاید میں  موسیٰ کے خدا کو جھانک لوں  اور بیشک میں  توموسیٰ کو اپنے اس دعوے میں جھوٹوں  میں  سے ہی سمجھتا ہوں  کہ اس کا ایک معبود ہے جس نے اسے اپنا رسول بنا کر ہماری طرف بھیجا ہے ۔

         فرعون نے یہ گمان کیا تھا کہ (مَعَاذَ اللہ) اللہ تعالیٰ کے لئے بھی مکان ہے اور وہ جسم ہے کہ اس تک پہنچنا اس کے لئے ممکن ہو گا ،اس لئے اس نے ہامان کو عمارت بنانے کا حکم دیا اور اپنے ارادے کا اظہار کیا،چنانچہ ہامان نے فرعون کے حکم پر عمل کرنے کے لئے ہزارہاکاریگر اور مزدور جمع کئے، اینٹیں  بنوائیں  اور تعمیراتی سامان جمع کر کے اتنی بلند عمارت بنوائی کہ دنیا میں  اس کے بر ابر کوئی عمارت بلند نہ تھی۔ کہتے ہیں  کہ دنیا میں  سب سے پہلے اینٹ بنانے والا ہامان ہے، یہ صَنعت اس سے پہلے نہ تھی۔(خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۳۸، ۳ / ۴۳۳، مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۳۸، ص۸۷۱، ملتقطاً)

وَ اسْتَكْبَرَ هُوَ وَ جُنُوْدُهٗ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَ ظَنُّوْۤا اَنَّهُمْ اِلَیْنَا لَا یُرْجَعُوْنَ(39)فَاَخَذْنٰهُ وَ جُنُوْدَهٗ فَنَبَذْنٰهُمْ فِی الْیَمِّۚ-فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظّٰلِمِیْنَ(40)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اس نے اور اس کے لشکریوں نے زمین میں بے جا تکبر کیا اوروہ سمجھے کہ انہیں ہماری طرف پھرنا نہیں ۔ تو ہم نے اسے اور اس کے لشکر کو پکڑ کر دریا میں پھینک دیا تو دیکھو ظالموں کا کیسا انجام ہوا؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اسْتَكْبَرَ هُوَ وَ جُنُوْدُهٗ فِی الْاَرْضِ: اور اس نے اور اس کے لشکریوں  نے زمین میں  تکبر کیا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ فرعون اور اس کے لشکریوں  نے مصر کی سر زمین میں  بے جا تکبر کیا اور حق کو نہ مانا اور باطل پر رہے اوروہ یہ سمجھ بیٹھے کہ انہیں  اپنے اعمال کے حساب اور ان کی جزا کے لئے ہماری طرف لوٹ کر نہیں  آناتو ہم نے فرعون اور اس کے لشکر کو پکڑ کر دریا میں  پھینک دیا اور وہ سب غرق ہو گئے ،تو اے قرآن پڑھنے والو! دیکھو ظالموں  کا کیسا انجام ہوا ؟ اور ان کے دردناک انجام سے عبرت حاصل کرو۔( خازن،القصص،تحت الآیۃ:۳۹۴۰،۳ / ۴۳۳۴۳۴، مدارک،القصص،تحت الآیۃ:۳۹۴۰،ص۸۷۱۸۷۲، ملتقطاً)

         یہ وہ بنیادی مقصد ہے جس کیلئے یہ سارا واقعہ بیان کیا گیا کہ گزشتہ قوموں  کے واقعات اور ان کے عروج و زوال سے عبرت حاصل کی جائے اور اپنی حالت کو سدھارا جائے ۔ افسوس!فی زمانہ لوگ اس مقصد سے انتہائی غفلت کا شکار ہیں  اور سابقہ قوموں  کی عملی حالت اور ان کے عبرت ناک انجام سے نصیحت حاصل نہیں  کرتے۔ اللہ تعالیٰ انہیں  عقل ِسلیم عطا فرمائے ،اٰمین۔

وَ جَعَلْنٰهُمْ اَىٕمَّةً یَّدْعُوْنَ اِلَى النَّارِۚ-وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ لَا یُنْصَرُوْنَ(41)وَ اَتْبَعْنٰهُمْ فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا لَعْنَةًۚ-وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ هُمْ مِّنَ الْمَقْبُوْحِیْنَ(42)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور انہیں ہم نے پیشوا بنادیا کہ آگ کی طرف بلاتے ہیں اور قیامت کے دن ان کی مدد نہیں کی جائے گی۔ اور اس دنیا میں ہم نے ان کے پیچھے لعنت لگادی اور قیامت کے دن وہ قبیح (بُری) حالت والوں میں سے ہوں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ جَعَلْنٰهُمْ اَىٕمَّةً یَّدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ: اور انہیں  ہم نے پیشوا بنادیا کہ آگ کی طرف بلاتے ہیں ۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے فرعون اور ا س کی قوم کو دنیا میں  لوگوں  کا پیشوا بنا دیا کہ وہ کفر اور گناہوں کی دعوت دیتے ہیں  جس کی وجہ سے وہ  عذابِ جہنم کے مستحق ہوں  اور جو ان کی اطاعت کرے وہ بھی جہنمی ہو جائے اور قیامت کے دن کسی بھی طرح ان سے عذاب دور کر کے ان کی مدد نہیں  کی جائے گی۔ (خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۴۱، ۳ / ۴۳۴)

لوگوں  کو گمراہی اور بد عملی کی دعوت دینے والوں  کا انجام:

            اس آیت کے مِصداق آج کل کے وہ لوگ بھی ہیں  جو لوگوں  کو کفر و گمراہی اور بدعملی کی طرف بلاتے ہیں ،ان پر اپنے ا س عمل کا گناہ ہو گا اور جو لوگ ان کی پیروی کر رہے ہیں  وہ بھی گناہگار ہوں  گے اور دعوت دینے والوں  کے کندھوں  پر اپنے عمل کے گناہ کے علاوہ ان کی پیروی کرنے والوں  کے گناہوں  کا بوجھ الگ ہوگا۔لوگوں  کو گمراہ کرنے والوں  کے بارے میں  ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’ لِیَحْمِلُوْۤا اَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً یَّوْمَ الْقِیٰمَةِۙ-وَ مِنْ اَوْزَارِ الَّذِیْنَ یُضِلُّوْنَهُمْ بِغَیْرِ عِلْمٍؕ-اَلَا سَآءَ مَا یَزِرُوْنَ‘‘(نحل:۲۵)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اس لئے کہ قیامت کے دن اپنے پورے بوجھ اور کچھ ان لوگوں  کے گناہوں  کے بوجھ اُٹھائیں  جنہیں  اپنی جہالت سے گمراہ کر رہے ہیں ۔ سن لو! یہ کیا ہی بُرا بوجھ اُٹھاتے ہیں ۔

            اور حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے ہدایت کی دعوت دی اسے ا س ہدایت کی پیروی کرنے والوں  کے برابر اجر ملے گا اور پیروی کرنے والوں  کے اجروں  میں  کوئی کمی نہ ہو گی اور جس شخص نے کسی گمراہی کی دعوت دی اسے اس گمراہی کی پیروی کرنے والوں  کے برابر گناہ ہو گا اور پیروی کرنے والوں  کے گناہوں  میں  کوئی کمی نہ ہو گی۔( مسلم، کتاب العلم، باب من سنّ سنّۃ حسنۃ او سیّئۃ۔۔۔ الخ، ص۱۴۳۹، الحدیث: ۱۶(۲۶۷۴))

             اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں  کو اپنے حال پر رحم کھانے اور اپنے اس برے عمل سے باز آجانے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔

{وَ اَتْبَعْنٰهُمْ: اور ہم نے ان کے پیچھے (لعنت) لگادی۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے اس دنیا میں  فرعون اور اس کی قوم پر رسوائی اور رحمت سے دوری لازم کر دی اور قیامت کے دن وہ لوگ بری حالت والوں  میں  سے ہوں  گے۔( مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۴۲، ص۸۷۲)

وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَآىٕرَ لِلنَّاسِ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ(43)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی اس کے بعد کہ ہم نے پہلی قوموں کوہلاک فرمادیاتھا (موسیٰ کو وہ کتاب دی) جس میں لوگوں کے دلوں کی آنکھیں کھولنے والی باتیں اور ہدایت اور رحمت ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ: اور بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی۔} اس سے پہلی آیات میں  فرعون اور اس کی قوم کا انجام اور ان پر اللہ تعالیٰ کا ہونے والا غضب بیان کیا گیا اور اب یہاں  وہ احسان اور انعام بیان کیا جا رہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر فرمایا ۔ چنانچہ اس آیت میں  ارشاد فرمایاکہ بے شک پہلی قوموں  جیسے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم،قومِ عاد اور قومِ ثمود وغیرہ کو ہلاک کرنے کے بعد ہم نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کتاب تورات عطا فرمائی جس میں  لوگوں  کے دلوں  کی آنکھیں  کھولنے والی باتیں  ہیں  تاکہ وہ بصیرت کی نگاہ سے انہیں  پڑھ کر ہدایت حاصل کریں  اور یہ اس کے لئے گمراہی سے ہدایت ہے جو اس کے احکامات پر عمل کرے اور اس کے لئے رحمت ہے جو ا س پر ایمان لائے اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یہ کتاب اس لئے عطا فرمائی تاکہ لوگ اس کے مَواعظ سے نصیحت حاصل کریں ۔( البحر المحیط، القصص، تحت الآیۃ: ۴۳، ۷ / ۱۱۵، خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۴۳، ۳ / ۴۳۴، ملتقطاً)

وَ مَا كُنْتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِیِّ اِذْ قَضَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسَى الْاَمْرَ وَ مَا كُنْتَ مِنَ الشّٰهِدِیْنَ(44)وَ لٰـكِنَّاۤ اَنْشَاْنَا قُرُوْنًا فَتَطَاوَلَ عَلَیْهِمُ الْعُمُرُۚ-وَ مَا كُنْتَ ثَاوِیًا فِیْۤ اَهْلِ مَدْیَنَ تَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِنَاۙ-وَ لٰـكِنَّا كُنَّا مُرْسِلِیْنَ(45)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور تم اس وقت طور کی مغربی جانب میں نہ تھے جب ہم نے موسیٰ کی طرف حکم بھیجا اور اس وقت تم موجود نہ تھے۔ لیکن (ہوا یہ) کہ ہم نے بہت سی قومیں پیدا کیں تو ان کی عمریں لمبی ہوگئیں اور نہ تم اہلِ مدین میں ان پر ہماری آیتیں پڑھتے ہوئے مقیم تھے لیکن ہم رسول بھیجنے والے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مَا كُنْتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِیِّ : اورتم اس وقت طور کی مغربی جانب میں  نہ تھے۔} اس سے پہلی آیات میں  حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حیرت انگیز واقعات بیان ہوئے اور اب یہاں  سے وہ انعام بیان کیا جا رہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں  حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ان واقعات کی وحی فرمائی اور ان غیبی علوم کے ساتھ خاص فرمایا جو آپ نہیں  جانتے تھے، چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے انبیاء کے سردار! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جب ہم نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف رسالت کاپیغام بھیجا،ان سے کلام فرمایا اورانہیں  اپنی بارگاہ میں قرب عنایت کیاتھا،اس وقت آپ وہاں  حاضر نہ تھے،لیکن ہوا یہ کہ ہم نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد بہت سی امتیں  پیدا کیں  اور جب ان کی عمریں  لمبی ہوگئیں  تو وہ اللہ تعالیٰ کا عہد بھول گئے اور انہوں  نے اس کی فرمانبرداری ترک کر دی اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم سے عالَم کے سردار،حبیب ِ خدا ،محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حق میں  اور آپ پر ایمان لانے کے متعلق عہد لئے تھے اور جب طویل زمانہ گزرا اور امتوں  کے بعد امتیں  گزرتی چلی گئیں  تو وہ لوگ ان عَہدوں  کو بھول گئے اور انہیں  پورا کرنا ترک کر دیا ، اور اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، نہ ہی آپ مَدیَن والوں  میں  ان کے سامنے ہماری آیتیں  پڑھتے ہوئے مقیم تھے ،تو ہم نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا،آپ کو علم دیا اور پہلوں  کے حالات پر مُطَّلع کیا تاکہ آپ لوگوں  کے سامنے ان واقعات کو بیان فرمائیں  اور اگر اللہ تعالیٰ آپ کوان کی خبر نہ دیتا تو آپ از خود ان واقعات کے بارے میں  نہ جان سکتے تھے اور نہ ہی لوگوں  کو بتا سکتے تھے ۔( البحر المحیط، القصص، تحت الآیۃ: ۴۴-۴۵، ۷ / ۱۱۶-۱۱۷، مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۴۴-۴۵، ص۸۷۲- ۸۷۳، خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۴۴-۴۵، ۳ / ۴۳۴)

وَ مَا كُنْتَ بِجَانِبِ الطُّوْرِ اِذْ نَادَیْنَا وَ لٰـكِنْ رَّحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّاۤ اَتٰىهُمْ مِّنْ نَّذِیْرٍ مِّنْ قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ(46)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور نہ تم اس وقت طور کے کنارے پرتھے جب ہم نے (موسیٰ کو) ندا فرمائی ،لیکن تمہارے رب کی طرف سے رحمت ہے تاکہ تم اس قوم کو ڈراؤ جس کے پاس تم سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا یہ امید کرتے ہوئے کہ وہ نصیحت حاصل کریں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مَا كُنْتَ بِجَانِبِ الطُّوْرِ: اور نہ تم اس وقت طور کے کنارے پرتھے۔} ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اور نہ آپ اس وقت کوہِ طور کے کنارے پرتھے جب ہم نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو تورات عطا فرمانے کے بعدندا فرمائی ،لیکن یہ آپ کے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے رحمت ہے کہ ا س نے آپ کو غیبی علوم عطا فرمائے جن سے آپ گزشتہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اورسابقہ امتوں  کے احوال بیان فرمارہے ہیں  اور آپ کا ان اُمور کی خبر دیناآپ کی نبوت کی روشن اور ظاہر دلیل ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو غیبی علوم اس لئے عطا فرمائے تاکہ آپ اس قوم کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرائیں  جس کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں  آیا اور انہیں  یہ امید کرتے ہوئے ڈرائیں  کہ وہ نصیحت حاصل کریں ۔( خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۴۶، ۳ / ۴۳۴۴۳۵، مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۴۶، ص۸۷۳، ملتقطاً)

         یاد رہے کہ کفارِ مکہ کے پاس نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پہلے کوئی رسول تشریف نہیں  لائے اور عرب میں  حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد سے لے کر سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تک کوئی رسول تشریف نہیں لائے اور اہلِ کتاب کے پاس حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد سے لے کر حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تک کوئی رسول تشریف نہیں  لائے اورسیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جس طرح کفارِ مکہ کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرانے والے ہیں ، اسی طرح اہل ِعرب ،اہل ِکتاب ،بلکہ پوری دنیا کے لوگوں  کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرانے والے ہیں ۔

وَ لَوْ لَاۤ اَنْ تُصِیْبَهُمْ مُّصِیْبَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْهِمْ فَیَقُوْلُوْا رَبَّنَا لَوْ لَاۤ اَرْسَلْتَ اِلَیْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِـعَ اٰیٰتِكَ وَ نَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ(47)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ لوگوں کو ان کے ہاتھوں کے آگے بھیجے ہوئے اعمال کی وجہ سے (جب جہنم کی) مصیبت پہنچتی تووہ کہتے: اے ہمارے رب!تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا کہ ہم تیری آیتوں کی پیروی کرتے اور ایمان والوں میں سے ہوجاتے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَوْ لَا: اور اگر یہ بات نہ ہوتی۔} اس آیت کامطلب یہ ہے کہ اگر کسی قوم کی طرف رسول بھیجنے سے پہلے ہی ان کے کفر اور گناہوں  کی وجہ سے ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی سختی آجاتی یا ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوتا تو وہ لوگ یہ عذر پیش کر سکتے تھے کہ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، ہم پر سختی اور عذاب نازل کرنے سے پہلے تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں  نہیں  بھیجا تاکہ ہم تیری دلیلوں  کو مانتے اور اپنے رسول پر جو کتاب تو نازل فرماتا ا س کی آیتوں  کی پیروی کرتے، صرف تیرے ہی معبود ہونے پر ایمان لاتے اور تیرے رسول کی اَحکامات اور ممنوعات میں  تصدیق اورا طاعت کرتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسا نہیں  کیا بلکہ اس نے عذاب نازل کرنے سے پہلے لوگوں  کی طرف اپنے رسول بھیجے تاکہ ان کی تبلیغ اور کوششوں  کے بعد جب اپنے کفر اور گناہوں  پر قائم رہنے والوں  کو ان کے اعمال کی سزا ملے تو وہ مذکورہ بالا عذر پیش نہ کر سکیں ۔

         اس کے ہم معنی وہ آیتِ مبارکہ ہے جس میں  اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’ وَ لَوْ اَنَّاۤ اَهْلَكْنٰهُمْ بِعَذَابٍ مِّنْ قَبْلِهٖ لَقَالُوْا رَبَّنَا لَوْ لَاۤ اَرْسَلْتَ اِلَیْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِـعَ اٰیٰتِكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ نَّذِلَّ وَ نَخْزٰى‘‘(طہ:۱۳۴)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اگر ہم انہیں رسول کے آنے سے پہلے کسی عذاب سے ہلاک کردیتے تو ضرور کہتے: اے  ہمارے رب! تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں  نہ بھیجا کہ ہم ذلیل و رسوا ہونے سے پہلے تیری آیتوں  کی پیروی کرتے؟

فَلَمَّا جَآءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوْا لَوْ لَاۤ اُوْتِیَ مِثْلَ مَاۤ اُوْتِیَ مُوْسٰىؕ-اَوَ لَمْ یَكْفُرُوْا بِمَاۤ اُوْتِیَ مُوْسٰى مِنْ قَبْلُۚ-قَالُوْا سِحْرٰنِ تَظٰهَرَاٙ۫-وَ قَالُوْۤا اِنَّا بِكُلٍّ كٰفِرُوْنَ(48)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر جب ان کے پاس ہماری طرف سے حق آیاتو انہوں نے کہا: اس (نبی) کو اس جیسا کیوں نہ دیدیا گیا جیسا موسیٰ کو دیا گیا تھا؟ کیا انہوں نے ا س کا انکار نہیں کیاتھا جو پہلے موسیٰ کو دیاگیا؟ انہوں نے کہا : یہ دو جادو ہیں جو ایک دوسرے کے مددگار ہیں اور انہوں نے کہا : بیشک ہم ان سب کا انکار کرنے والے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَلَمَّا جَآءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا: پھر جب ان کے پاس ہماری طرف سے حق آیا۔} اس سے پہلی آیت میں  بیان کیا گیا کہ خوف کے وقت کافر کہیں  گے کہ اے ہمارے رب!تونے ہماری طرف کوئی رسول کیوں  نہ بھیجا تاکہ ہم تیری آیتوں  کی پیروی کرتے اور اس آیت میں  رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بھیجے جانے کے بعد کفارِ مکہ کا حال بیان کیا جا رہا ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ جب کفارِمکہ کے پاس ہماری طرف سے محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لائے تو انہوں  نے کہا: اس نبی (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کو اس جیسا کیوں  نہ دیدیا گیا جیسا (حضرت) موسیٰ (عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام) کو دیا گیا تھا؟ یعنی انہیں  قرآنِ کریم یکبارگی کیوں  نہیں  دیا گیا جیسا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پوری توریت ایک ہی بار میں  عطا کی گئی تھی؟ یا اس کے یہ معنی ہیں  کہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو عصا اور روشن ہاتھ جیسے وہ معجزات کیوں  نہ دیئے گئے جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دئیے گئے تھے؟اس کا پس ِمنظر یہ ہے کہ یہودیوں  نے کفارِ قریش کو پیغام بھیجا کہ وہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سے معجزات طلب کریں  ۔جب کفارِ قریش نے ایسا کیا تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ جن یہودیوں  نے یہ سوال کرنے کا کہا ہے کیا وہ خود روشن نشانیوں  کے باوجود حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اور جو انہیں  اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا ہے اس کے منکر نہ ہوئے اور جب یہ خود اس کے منکر ہیں  جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دیا گیا تو کس منہ سے اس کا مطالبہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کرنے کا کہہ رہے ہیں ۔بعض مفسرین فرماتے ہیں  کہ کفارِ قریش تمام انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے منکر تھے اور جب انہوں  نے (یہودیوں  کے کہنے پر) رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جیسے معجزات طلب کئے تو ا س پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا’’ کیا کفارِ مکہ نے اس کا انکار نہیں  کیا تھا جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دیا گیا اورجب یہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دئیے جانے والے معجزات کے منکر ہیں  تو پھر ان جیسے معجزات کا مطالبہ کیوں  کر رہے ہیں !( تفسیرکبیر، القصص، تحت الآیۃ: ۴۸، ۸ / ۶۰۵-۶۰۶، خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۴۸، ۳ / ۴۳۵، ملتقطاً)

{قَالُوْا سِحْرٰنِ: انہوں  نے کہا تھا کہ یہ دو جادو ہیں ۔} مکہ کے مشرکین نے مدینہ کے یہودی سرداروں  کے پاس قاصدبھیج کر دریافت کیا کہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں  سابقہ کتابوں  میں  کوئی خبر ہے؟ انہوں  نے جواب دیا کہ ہاں ! حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نعت و صفت ان کی کتاب توریت میں  موجود ہے۔ جب یہ خبر کفارِ قریش کو پہنچی تو وہ توریت اور قرآن کے بارے میں  کہنے لگے کہ یہ دونوں  جادو ہیں  اور ان میں  سے ایک دوسرے کی مددگار ہے ۔ قرآن مجید کی ایک دوسری قراء ت کے اعتبار سے معنی یہ ہوں  گے کہ کفار نے کہا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اورحضرت محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دونوں  جادو گر ہیں  اور ان میں  سے ایک دوسرے کا مُعین و مددگار ہے۔ مزید کفارِ مکہ نے یہ کہا کہ بیشک ہم تورات کے بھی منکر ہیں  اور قرآن کے بھی ،حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا بھی انکار کرتے ہیں  اور محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا بھی۔( خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۴۸، ۳ / ۴۳۵)

قُلْ فَاْتُوْا بِكِتٰبٍ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ هُوَ اَهْدٰى مِنْهُمَاۤ اَتَّبِعْهُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(49)فَاِنْ لَّمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَكَ فَاعْلَمْ اَنَّمَا یَتَّبِعُوْنَ اَهْوَآءَهُمْؕ-وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوٰىهُ بِغَیْرِ هُدًى مِّنَ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ(50)

ترجمہ: کنزالعرفان

تم فرماؤ: اگر تم سچے ہو تو الله کے پاس سے کوئی کتاب لے آؤ جو ان دونوں کتابوں سے زیادہ ہدایت والی ہو میں اس کی پیروی کرلوں گا۔ پھر اگر وہ یہ تمہاری بات قبول نہ کریں تو جان لو کہ بس وہ اپنی خواہشو ں ہی کی پیروی کررہے ہیں اور اس سے بڑھ کر گمراہ کون جو الله کی طرف سے ہدایت کے بغیر اپنی خواہش کی پیروی کرے ۔بیشک الله ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قُلْ فَاْتُوْا بِكِتٰبٍ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ: تم فرماؤ: تو اللہ کے پاس سے کوئی کتاب لے آؤ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ کفارِ مکہ کے انکار کرنے پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا’’اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان کافروں  سے فرما دیں  کہ اگر تم اپنے اس قول میں  سچے ہو کہ تورات اور قرآن کریم جادو ہیں  تو اللہ تعالیٰ کے پاس سے کوئی ایسی کتاب لے آؤ جو ان دونوں  کتابوں  سے زیادہ ہدایت والی ہو،اگر تم ایسی کتاب لے آئے تو میں  اس کی پیروی کرلوں  گا۔یہاں  یہ تنبیہ فرمائی گئی کہ کفار ایسی کتاب لانے سے بالکل عاجز ہیں  ،چنانچہ اگلی آیت میں  ارشاد فرمایاجاتا ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، پھر اگر وہ کفار یہ تمہاری بات قبول نہ کریں  اور ایسی کتاب نہ لاسکیں  تو آپ جان لیں  کہ یہ کفر کی جس سواری پر سوار ہیں  اس کی ان کے پاس کوئی حجت نہیں  ہے اور بس وہ اپنی خواہشو ں  ہی کی پیروی کررہے ہیں  حالانکہ اس سے بڑھ کر گمراہ کوئی نہیں  جو خلافِ ہدایت اپنی خواہش کی پیروی کرے ۔بیشک اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں  کو اپنے دین کی طرف ہدایت نہیں  دیتا ۔( خازن،القصص،تحت الآیۃ: ۴۹۵۰، ۳ / ۴۳۵۵۳۶، روح البیان، القصص، تحت الآیۃ: ۴۹۵۰، ۶ / ۴۱۲، ملتقطاً)

وَ لَقَدْ وَصَّلْنَا لَهُمُ الْقَوْلَ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَﭤ(51)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بیشک ہم نے ان کے لیے کلام مسلسل بھیجا تا کہ وہ نصیحت مانیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَقَدْ وَصَّلْنَا لَهُمُ الْقَوْلَ: اور بیشک ہم نے ان کے لیے کلام مسلسل بھیجا۔} ارشاد فرمایاکہ بیشک ہم قرآنِ مجید کو ایک ہی بار میں  نازل کرنے پر قادر ہیں  لیکن ہم نے کفارِ قریش کے لیے اپناکلام مسلسل بھیجا اور قرآنِ کریم ان کے پاس لگاتار اور مسلسل آیا جس میں  جنّت کے وعدے، جہنّم کے عذاب کی وعید،سابقہ قوموں  کے واقعات ،عبرتوں  اور نصیحتوں پر مشتمل آیات نازل ہوئیں  تاکہ یہ لوگ بار بار سن کر سمجھ سکیں  اور ایمان لائیں  تو ہمارا قرآن مجید کو تھوڑا تھوڑا نازل کرنا ان کی مَصلحت کی وجہ سے ہے اور وہ لوگ کس قدر جاہل ہیں  جو اپنی مصلحت کی مخالفت کر تے ہوئے قرآن مجید کو ایک ہی بار میں  نازل کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔

اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِهٖ هُمْ بِهٖ یُؤْمِنُوْنَ(52)

ترجمہ: کنزالعرفان

جن لوگوں کو ہم نے اس (قرآن) سے پہلے کتاب دی وہ اس پر ایمان لاتے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِهٖ: جن لوگوں  کو ہم نے اس (قرآن) سے پہلے کتاب دی۔} شانِ نزول :یہ آیت اہلِ کتاب کے مومن حضرات حضرت عبد اللہ بن سلام اور ان کے اصحاب کے حق میں  نازِل ہوئی اور ایک قول یہ ہے کہ یہ ان انجیل والوں کے حق میں  نازِل ہوئی جو حبشہ سے آ کر سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لائے۔ یہ چالیس حضرات تھے جو حضرت جعفر بن ابی طالب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ آئے ،جب انہوں  نے مسلمانوں  کی حاجت اور معاش کی تنگی دیکھی تو بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں  عرض کی: ہمارے پاس مال ہیں  ،حضور اجازت دیں  تو ہم واپس جا کر اپنے مال لے آئیں  اور ان سے مسلمانوں  کی خدمت کریں ۔ حضورپُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اجازت دی اور وہ جا کر اپنے مال لے آئے اور ان سے مسلمانوں  کی خدمت کی ۔ ان کے حق میں  یہ آیات ’’مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ‘‘ تک نازل ہوئیں ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ یہ آیتیں  80 اہلِ کتاب کے حق میں  نازل ہوئیں  جن میں  40 نجران کے،32 حبشہ کے اور8 شام کے تھے۔( خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۵۲، ۳ / ۴۳۶)

وَ اِذَا یُتْلٰى عَلَیْهِمْ قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِهٖۤ اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّنَاۤ اِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلِهٖ مُسْلِمِیْنَ(53)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور جب ان پر یہ قرآن پڑھاجاتاہے توکہتے ہیں : ہم اس پر ایمان لائے، بیشک یہی ہمارے رب کے پا س سے حق ہے۔ ہم اس (قرآن) سے پہلے ہی فرمانبردار ہو چکے تھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِذَا یُتْلٰى عَلَیْهِمْ: اور جب ان پر یہ قرآن پڑھا جاتا ہے ۔} یہاں  ان لوگوں  کا وصف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا کہ جب ان کے سامنے قرآنِ مجید کی آیتیں  پڑھی جاتی ہیں  تو یہ کہتے ہیں :ہم اس پر ایمان لائے، بیشک یہی ہمارے رب عَزَّوَجَلَّ کے پا س سے حق ہے۔ ہم اس قرآن کے نازل ہونے سے پہلے ہی فرمانبردار ہو چکے تھے اور ہم حبیبِ خدا، محمد ِ مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بر حق نبی ہونے پر ایمان رکھتے تھے کیونکہ توریت و انجیل میں  ان کا ذکر موجود ہے۔(خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۵۳، ۳ / ۴۳۶)

اُولٰٓىٕكَ یُؤْتَوْنَ اَجْرَهُمْ مَّرَّتَیْنِ بِمَا صَبَرُوْا وَ یَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ(54)

ترجمہ: کنزالعرفان

ان کو ان کا اجر دُگنا دیا جائے گاکیونکہ انہوں نے صبر کیا اور یہ برائی کو بھلائی سے دور کرتے ہیں اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے کچھ ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اُولٰٓىٕكَ یُؤْتَوْنَ اَجْرَهُمْ مَّرَّتَیْنِ: ان کو ان کا اجر دُگنا دیا جائے گا۔} ارشاد فرمایا کہ ان لوگوں  کو دگنا اجر دیاجائے گا کیونکہ وہ پہلی کتاب پر بھی ایمان لائے اور قرآ نِ پاک پر بھی اوریہ ان کے اس صبر کا بدلہ ہے جو انہوں  نے اپنے دین پر اور مشرکین کی طرف سے پہنچنے والی ایذاؤں  پر کیا۔

دُگنا اجر پانے والے لوگ:

            اس آیت میں  دُگنا اجر پانے والے حضرات کا بیان ہوا اور حدیث ِپاک میں  ان کے علاوہ مزید ایسے افراد کا بھی ذکر ہے جنہیں  دگنا اجر ملے گا، چنانچہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ تین قسم کے لوگ ایسے ہیں  جنہیں  دو اجر ملیں  گے، (1)اہلِ کتاب کا وہ شخص جو اپنے نبی پر بھی ایمان لایا اورسیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر بھی۔ (2) وہ غلام جس نے اللہ تعالیٰ کا حق بھی ادا کیا اور اپنے آقا کا بھی۔(3) وہ شخص جس کے پاس باندی تھی جس سے وہ قربت کرتا تھا، پھر اس کو اچھی طرح ادب سکھایا، اچھی تعلیم دی اور آزاد کر کے اس سے نکاح کر لیا تو اس کے لئے بھی دو اجر ہیں ۔( مشکاۃ المصابیح، کتاب الایمان، الفصل الاول، ۱ / ۲۳، الحدیث: ۱۰، مسلم، کتاب الایمان، باب وجوب الایمان برسالۃ نبیّنا۔۔۔ الخ، ص۹۰، الحدیث: ۲۴۱(۱۵۴))

{وَ یَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ: اور یہ بُرائی کو بھلائی سے دُور کرتے ہیں ۔} یہاں  ان اہلِ کتاب کا ایک وصف یہ بیان کیاگیا کہ وہ برائی کو بھلائی سے دور کرتے ہیں  ،اس سے مراد یہ ہے کہ وہ طاعت سے مَعصِیَت کو اور حِلم سے ایذاء کو دور کرتے ہیں  ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  :اس سے مراد یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی وَحْدانیّت کی گواہی دینے سے شرک کو دور کرتے ہیں  ۔آیت کے آخر میں  ان کا یہ وصف بیان کیا گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے رزق میں  سے کچھ اس کی راہ میں  صدقہ کرتے ہیں ۔( مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۵۴، ص۸۷۴، خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۵۴، ۳ / ۴۳۶، ملتقطاً)

وَ اِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْهُ وَ قَالُوْا لَنَاۤ اَعْمَالُنَا وَ لَكُمْ اَعْمَالُكُمْ٘-سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ٘-لَا نَبْتَغِی الْجٰهِلِیْنَ(55)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور جب بیہودہ بات سنتے ہیں اس سے منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں : ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال ہیں ۔ بس تمہیں سلام، ہم جاہلوں کا ساتھ نہیں چاہتے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْهُ: اور جب بیہودہ بات سنتے ہیں  اس سے منہ پھیر لیتے ہیں ۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ مکہ کے مشرکین اہلِ کتاب میں  سے ایمان لانے والوں  کو گالیاں  دیتے اور ان سے کہتے کہ تمہارا ستیاناس ہو، تم نے اپنے پرانے دین کو چھوڑ دیا۔ان کے اس طرزِ عمل پر ایمان لانے والے اہلِ کتاب ان سے منہ پھیر لیتے ہیں  اور یوں  کہتے ہیں :ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں  اور تمہارے لیے تمہارے اعمال ہیں ۔ بس تمہیں  دُور ہی سے سلام ہے اور ہم جاہلوں  کے ساتھ دوستی نہیں  کرنا چاہتے ۔دوسری تفسیر یہ ہے کہ مشرک لوگ مکہ مکرمہ کے ایمانداروں  کو ان کا دین ترک کرنے اور اسلام قبول کرنے پر گالیاں  دیتے اور بُرا کہتے، یہ حضرات ان کی بیہودہ باتیں  سن کر اِعراض فرماتے اور ان سے کہتے ہیں  کہ ہمارے لئے ہمارا دین ہے اور تمہارے لئے تمہارا دین ہے ، ہم تمہاری بیہودہ باتوں  اور گالیوں  کے جواب میں  گالیاں  نہ دیں  گے اور ہم جاہلوں  کے ساتھ میل جول نشست و بَرخاست نہیں  چاہتے کیونکہ ہمیں  جاہلانہ حرکات گوارا نہیں ۔( روح البیان، القصص، تحت الآیۃ: ۵۵، ۶ / ۴۱۴، خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۵۵، ۳ / ۴۳۶، ملتقطاً)

اِنَّكَ لَا تَهْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰـكِنَّ اللّٰهَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُۚ-وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ(56)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک ایسا نہیں ہے کہ تم جسے چاہو اسے اپنی طرف سے ہدایت دیدو لیکن الله جسے چاہتا ہے ہدایت دیدیتا ہے اور وہ ہدایت والوں کوخوب جانتا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّكَ لَا تَهْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ: بیشک ایسا نہیں  ہے کہ تم جسے چاہو اسے اپنی طرف سے ہدایت دیدو۔} مفسرین کا اس بات پر اجماع ہے کہ یہ آیت ابو طالب کے بارے میں  نازل ہوئی ۔صحیح مسلم میں  حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے اس آیت کا شانِ نزول یوں  مذکور ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے چچا (ابو طالب) سے اس کی موت کے وقت فرمایا: اے چچا! ’’لَآ اِلٰـہَ اِلَّااللہ‘‘کہو، میں  تمہارے لئے قیامت کے دن گواہ ہوں  گا۔ اس نے (صاف انکار کر دیا اور) کہا:اگر مجھے قریش کی طرف سے عیب لگائے جانے کا اندیشہ نہ ہوتا (کہ موت کی سختی سے گھبرا کر مسلمان ہو گیا ہے) تو میں  ضرور ایمان لا کر تمہاری آنکھ ٹھنڈی کرتا ۔اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت ِکریمہ نازل فرمائی۔( خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۵۶، ۳ / ۴۳۷، تفسیر کبیر، القصص، تحت الآیۃ: ۵۶، ۹ / ۵، ملتقطاً) اور ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنے چچا کے ایمان نہ لانے کا غم نہ کریں ،آپ اپنا تبلیغ کا فریضہ ادا کرچکے، ہدایت دینا اور دل میں  ایمان کا نور پیدا کرنا یہ آپ کا فعل نہیں  بلکہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں  ہے اور اسے خوب معلوم ہے کہ کسے یہ دولت دے گا اور کسے اس سے محروم رکھے گا۔(مسلم، کتاب الایمان، باب الدلیل علی صحّۃ اسلام من حضرہ الموت۔۔۔ الخ، ص۳۴، الحدیث: ۴۱-۴۲(۲۵))

ابو طالب کے ایمان سے متعلق اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی تحقیق:

         اعلیٰ حضرت ،مُجَدِّدِ دین وملت شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن ابو طالب کے ایمان سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں  ارشاد فرماتے ہیں :اس میں  شک نہیں  کہ ابو طالب تمام عمر حضور سیّد المرسَلین ،سیّد الاَوّلین والآخِرین، سیّد الاَبرار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَعَلٰی اٰلِہٖ وَسَلَّمَ اِلٰی یَوْمِ الْقرار کی حفظ و حمایت وکفالت و نصرت میں  مصروف رہے۔ اپنی اولاد سے زیادہ حضور کو عزیز رکھا اور اس وقت میں  ساتھ دیا کہ ایک عالَم حضور کا دشمن ِجاں  ہوگیاتھااور حضور کی محبت میں  اپنے تمام عزیزوں  قریبیوں  سے مخالفت گواراکی،سب کو چھوڑدینا قبول کیا،کوئی دقیقہ غمگساری و جاں  نثاری کا نامَرعی نہ رکھا (یعنی ہر لمحے غمگساری اور جاں  نثاری کی)، اور یقیناً جانتے تھے کہ حضور افضل المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اللہ کے سچے رسول ہیں ، ان پر ایمان لانے میں  جنت اَبدی اور تکذیب میں  جہنم دائمی ہے، بنوہاشم کو مرتے وقت وصیت کی کہ محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی تصدیق کرو فلاح پاؤ گے، نعت شریف میں  قصائدان سے منقول ،اور اُن میں  براہِفراست وہ اُمور ذکر کیے کہ اس وقت تک واقع نہ ہوئے تھے (بلکہ) بعد ِ بعثت شریف ان کا ظہور ہوا،یہ سب احوال مطالعۂ اَحادیث و مُراجعت ِکتب ِسِیَر (یعنی سیرت کی کتابوں  کی طرف رجوع کرنے ) سے ظاہر۔مگر مُجَرَّداِن اُمور سے ایمان ثابت نہیں  ہوتا۔ کاش یہ افعال واقوال اُن سے حالت ِاسلام میں صادر ہوتے تو سیدنا عباس بلکہ ظاہراً سیدنا حمزہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے بھی افضل قرار پاتے اور افضل الاَعمام حضور افضل الاَنام عَلَیْہِ وَعَلٰی اٰلِہٖ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَالسَّلَام (یعنی تمام انسانوں  سے افضل حضورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کے سب سے افضل چچا) کہلائے جاتے ۔ تقدیر ِالہٰی نے بربنا اُس حکمت کے جسے وہ جانے یا اُس کا رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، انہیں  گروہِ مسلمین و غلامانِ شفیع المذنبین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ میں  شمار کیا جانا منظور نہ فرمایا۔ فَاعْتَبِرُوْا یٰۤاُولِی الْاَبْصَارِ۔ (تو اے عقل رکھنے والو! ان کے حال سے عبرت حاصل کرو) صرف معرفت گو کیسی ہی کمال کے ساتھ ہو ایمان نہیں ۔(فتاویٰ رضویہ،رسالہ: شرح المطالب فی مبحث ابی طالب، ۲۹ / ۶۶۱)

مزید فرماتے ہیں : ’’آیاتِ قرآنیہ و اَحادیثِ صحیحہ، مُتوافرہ ،مُتظافرہ (یعنی بکثرت صحیح احادیث) سے ابو طالب کا کفر پر مرنا اور دمِ واپسیں  ایمان لانے سے انکار کرنا اور عاقبت کا ر اصحابِ نار سے ہونا ایسے روشن ثبوت سے ثابت جس سے کسی سنی کو مجالِ دم زدن نہیں ۔( فتاویٰ رضویہ،رسالہ: شرح المطالب فی مبحث ابی طالب، ۲۹ / ۶۵۷-۶۵۸)

وَ قَالُـوْۤا اِنْ نَّتَّبِـعِ الْهُدٰى مَعَكَ نُتَخَطَّفْ مِنْ اَرْضِنَاؕ-اَوَ لَمْ نُمَكِّنْ لَّهُمْ حَرَمًا اٰمِنًا یُّجْبٰۤى اِلَیْهِ ثَمَرٰتُ كُلِّ شَیْءٍ رِّزْقًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ(57)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور (کافر) کہتے ہیں : (اے محمد!) اگر ہم تمہارے ساتھ (مل کر) ہدایت کی پیروی کریں تو ہمیں ہماری سرزمین سے اچک لیا جائے گا ۔ کیا ہم نے انہیں امن و امان والی جگہ حرم میں ٹھکانہ نہ دیاجس کی طرف ہر چیز کے پھل لائے جاتے ہیں (جو) ہماری طرف کا رزق ہے لیکن ان میں اکثر جانتے نہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ قَالُوْا: اور (کافر) کہتے ہیں ۔} شانِ نزول:یہ آیت حارث بن عثمان بن نوفل بن عبد ِمناف کے بارے میں  نازل ہوئی ،اس نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا تھا کہ یہ بات تو ہم یقین سے جانتے ہیں  کہ جو آپ فرماتے ہیں  وہ حق ہے، لیکن اگر ہم آپ کے دین کی پیروی کریں  گے تو ہمیں  ڈر ہے کہ عرب کے لوگ ہمیں  شہر بدر کر دیں  گے اور ہمیں  ہمارے وطن میں  نہ رہنے دیں  گے اور عرب کی سرزمین سے ایک دم ہمیں  نکال دیں  گے ۔ اس آیت میں  اس بات کا جواب دیا گیا کہ کیا ہم نے انہیں  امن و امان والی جگہ حرم میں  ٹھکانا نہ دیا جہاں  کے رہنے والے قتل و غارت گری سے امن میں  ہیں  اور جہاں  جانوروں  اور سبزوں  تک کو امن ہے اورجس کی طرف مختلف ممالک سے ہر چیز کے پھل لائے جاتے ہیں  جوہماری طرف کا رزق ہے، لیکن ان میں  اکثر کو علم نہیں اور وہ اپنی جہالت کی وجہ سے نہیں  جانتے کہ یہ روزی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے،انہیں  اگر یہ سمجھ ہوتی تو یہ بات جان جاتے کہ خوف اور امن بھی اسی کی طرف سے ہے اور ایمان لانے کی صورت میں  شہر بدر کئے جانے کا خوف نہ کرتے۔( خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۵۷، ۳ / ۴۳۷، مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۵۷، ص۸۷۵، ملتقطاً)

وَ كَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْیَةٍۭ بَطِرَتْ مَعِیْشَتَهَاۚ-فَتِلْكَ مَسٰكِنُهُمْ لَمْ تُسْكَنْ مِّنْۢ بَعْدِهِمْ اِلَّا قَلِیْلًاؕ-وَ كُنَّا نَحْنُ الْوٰرِثِیْنَ(58)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور کتنے شہر ہم نے ہلاک کردئیے جو اپنے عیش پر اِترانے لگے تھے تو یہ ان کے مکانات ہیں جن میں ان کے بعد بہت کم رہائش رکھی گئی اور ہم ہی وارث ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ كَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْیَةٍۭ: اور کتنے شہر ہم نے ہلاک کردئیے۔} یہاں  کفارِ مکہ کو ایسی قوموں  کے خراب انجام سے خوف دلایا جارہا ہے جن کا حال اِن کی طرح تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں  پاتے اور شکر کرنے کی بجائے ان نعمتوں  پر اِتراتے تو وہ اپنی سرکشی کی وجہ سے ہلاک کر دیئے گئے اور یہ ان کے مکان ہیں  جن کے آثار اب بھی باقی ہیں  اور عرب کے لوگ اپنے سفروں  میں  انہیں  دیکھتے ہیں  کہ ان مکانات میں  ہلاک ہونے والوں  کے بعد بہت کم رہائش رکھی گئی کہ کوئی مسافر یا راہ گزر ان میں  تھوڑی دیر کے لئے ٹھہر جاتا ہے ،پھر یہ اسی طرح خالی پڑے رہتے ہیں  ۔ وہاں  کے رہنے والے ایسے ہلاک ہوئے کہ ان کے بعد ان کا کوئی جانشین باقی نہ رہا اور اب اللہ تعالیٰ کے سوا ان مکانوں  کا کوئی وارث نہیں  کیونکہ مخلوق کی فنا کے بعد وہی سب کا وارث ہے ۔( مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۵۸، ص۸۷۵، خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۵۸، ۳ / ۴۳۷، ملتقطاً)

معاشرے کوامن و امان کا گہوارہ بنانے کاذریعہ:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ نبی عَلَیْہِ السَّلَام کی اطاعت سے امن نصیب ہوتا اور نبی عَلَیْہِ السَّلَام کی مخالفت سے ہلاکت ہوتی ہے،جبکہ کفار ِمکہ نے الٹا سمجھ لیا کہ حضورپُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت سے بد امنی ہو گی اور مخالفت سے امن ملے گا حالانکہ تاریخ اس کے برعکس ہے اور تاریخ سے ادنیٰ سی واقفیت رکھنے والا شخص بھی یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ جن لوگوں  نے اپنے نبی عَلَیْہِ السَّلَام کی اطاعت کی انہوں  نے دنیا میں  امن پایا اور وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ رہے اور جو لوگ اپنے نبی عَلَیْہِ السَّلَام کی اطاعت سے رُوگَردانی کرتے رہے اور ان کی مخالفت پر کمر بستہ رہے وہ انتہائی خوفناک عذابوں  کے ذریعے ہلاک کر دئیے گئے ۔اسی بات کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں  اپنے معاشرے میں پائی جانے والی بد امنی کی وجوہات اور اسباب پر بھی دل سے غور کرنا چاہئے اور بطورِ خاص اس پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے سوچناچاہئے کہ کہیں  یہ ہمارا تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعلیمات اور احکامات پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ تو نہیں  ،اگر ایسا ہے اور یقینا ایسا ہی ہے تو مسلمانوں  پر لازم ہے کہ وہ اپنی اطاعت نہ کرنے کی رَوِش کو ترک کر دیں  اور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی کامل اطاعت و فرمانبرداری شروع کر دیں ، اِنْ شَآءَ اللہ برسوں  نہیں  ، مہینوں  میں  بلکہ دنوں  میں  ہمارا معاشرہ امن وامان کا گہوارہ بن جائے گا۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔

گناہ کرنے میں  لوگوں  کی بجائے اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے:

            اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے میں  لوگوں  کی پکڑ اور ان کی سزا سے خوف کھانا جبکہ اللہ تعالیٰ کی گرفت اور عذاب سے بے خوف ہونا کفار کا طریقہ ہے، لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے معاملے میں  لوگوں  کی بجائے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرے اور اس سے کسی بھی حال میں  بے پرواہ نہ ہو۔اعلیٰ حضرت امام ا حمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں  :

چھپ کے لوگوں  سے کئے جس کے گناہ

وہ خبردار ہے کیا ہونا ہے

ارے او مجرم بے پَروا دیکھ

سر پہ تلوار ہے کیا ہونا ہے

وَ مَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرٰى حَتّٰى یَبْعَثَ فِیْۤ اُمِّهَا رَسُوْلًا یَّتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِنَاۚ-وَ مَا كُنَّا مُهْلِكِی الْقُرٰۤى اِلَّا وَ اَهْلُهَا ظٰلِمُوْنَ(59)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور تمہارا رب شہروں کو ہلاک کرنے والا نہیں ہے جب تک ان کے مرکزی شہر میں رسول نہ بھیجے جو ان پر ہماری آیتیں پڑھے اور ہم شہروں کو ہلاک کرنے والے نہیں ہیں مگر (اسی وقت) جب ان کے رہنے والے ظالم ہوں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرٰى حَتّٰى یَبْعَثَ فِیْۤ اُمِّهَا رَسُوْلًا: اور تمہارا رب شہروں  کو ہلاک کرنے والا نہیں  ہے جب تک ان کے مرجع شہر میں  رسول نہ بھیجے۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کے رب عَزَّوَجَلَّ کی شان یہ ہے کہ وہ شہروں  کواس وقت تک ہلاک نہیں  فرماتا جب تک ان کے مرکزی مقام میں  رسول نہ بھیج دے جو اِن میں  رہنے والوں  کے سامنے ہماری آیتیں  پڑھے اور انہیں  تبلیغ کرے اور اس بات کی خبر دیدے کہ اگر وہ ایمان نہ لائیں  گے تو اِن پر عذاب نازل کیا جائے گا تاکہ اِن پر حجت لازم ہو جائے اور ان کے لئے عذر کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے ۔ اور ہم شہروں  کو اسی وقت ہلاک کرتے ہیں  جب ان میں  رہنے والے لوگ ظالم ہوں ، رسول کوجھٹلاتے ہوں ، اپنے کفر پر قائم ہوں  اور اس سبب سے وہ عذاب کے مستحق ہوں  ۔بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس آیت میں  مرکزی شہر سے مراد مکہ مکرمہ ہے اور رسول سے مراد نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں  کیونکہ آپ آخری نبی ہیں ۔( مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۵۹، ص۸۷۵۵۷۶، خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۵۹، ۳ / ۴۳۷، ملتقطاً)

موجودہ زمانے کے کفار کو نصیحت:

            اس آیت سے معلوم ہو اکہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری سے پہلے کی وہ بستیاں  جو اجڑی ہوئی اور ویران نظر آرہی ہیں  اور فی زمانہ بھی ان میں  سے کئی بستیوں  کے آثار باقی ہیں ، یہ بغیرکسی وجہ کے تباہ وبرباد نہیں  کی گئیں  بلکہ ان میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھیجے جنہوں  نے ان میں  رہنے والوں  تک اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا اور انہیں  کفر و شرک چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو ماننے اور صرف اسی کی عبادت کرنے کی دعوت دی، لیکن جب وہاں  کے رہنے والوں  نے اللہ تعالیٰ کے رسولوں  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بات ماننے کی بجائے انہیں  جھٹلایااور اپنے کفروشرک پراَڑے رہے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے اس ظلم کی وجہ سے انہیں  ہلاک اور ان کے شہروں  اور بستیوں  کوتباہ وبربادکردیا۔

وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَمَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتُهَاۚ-وَ مَا عِنْدَ اللّٰهِ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰىؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(60)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور (اے لوگو!) جو کچھ چیز تمہیں دی گئی ہے تو وہ دنیوی زندگی کا سازو سامان اور اس کی زینت ہے اور جو (ثواب) الله کے پاس ہے وہ بہتر اور زیادہ باقی رہنے والاہے تو کیا تم سمجھتے نہیں ؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ: اور (اے لوگو!) جو کچھ چیز تمہیں  دی گئی ہے۔} یہاں  بطورِ خاص کفارِ مکہ سے اور عمومی طور پر تمام لوگوں  سے فرمایا گیا کہ اے لوگو! جو کچھ چیز تمہیں  دی گئی ہے تو وہ دُنْیَوی زندگی کا سازو سامان اور اس کی زینت ہے جس کی بقا بہت تھوڑی اور جس نے آخر کار فنا ہونا ہے اور جو ثواب اور آخرت کے مَنافع اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں  وہ بہتر اور زیادہ باقی رہنے والے ہیں  کیونکہ یہ تمام پریشانیوں  سے خالی اور کبھی ختم نہ ہونے والے ہیں ، تو کیا تم میں  عقل نہیں  کہ اتنی بات سمجھ سکو کہ جو چیزباقی رہنے والی ہے وہ فنا ہو جانے والی سے بہتر ہے اور تم بہتر چیز کو اختیار کر سکو اورا سے ترجیح دو جو ہمیشہ باقی رہے گی اور اس کی نعمتیں  کبھی ختم نہ ہوں  گی۔( قرطبی، القصص،تحت الآیۃ: ۶۰، ۷ / ۲۲۷، الجزء الثالث عشر، مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۶۰، ص۸۷۶، خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۶۰، ۳ / ۴۳۷۴۳۸، تفسیرطبری، القصص، تحت الآیۃ: ۶۰، ۱۰ / ۹۱، ملتقطاً)

آخرت پر دنیا کو ترجیح دینے والا نادان ہے:

            اس آیت سے معلوم ہو اکہ جو شخص دُنْیَوی سازوسامان،عیش وعشرت اور زیب وزینت کو اُخروی نعمتوں  اور آسائشوں  پر ترجیح دے وہ بے عقل اور نادان ہے کیونکہ وہ عارضی اور ختم ہو جانے والی چیز کو ا س پر ترجیح دے رہا ہے جو ہمیشہ رہنے والی اور کبھی ختم نہ ہونے والی ہے ۔ایسے شخص کے لئے درج ذیل آیات میں  بڑی عبرت ہے جو اصل کے اعتبار سے تو کفار کیلئے ہیں  لیکن اپنے کئی پہلوؤں  کے اعتبار سے مسلمانوں  کیلئے بھی درسِ نصیحت و عبرت ہیں ، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’ مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَیْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِیْهَا وَ هُمْ فِیْهَا لَا یُبْخَسُوْنَ(۱۵)اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ ﳲ وَ حَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْهَا وَ بٰطِلٌ مَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ‘‘(ہود:۱۵،۱۶)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو دنیا کی زندگی اوراس کی زینت چاہتا ہو توہم دنیا میں  انہیں  ان کے اعمال کا پورا بدلہ دیں  گےاورانہیں  دنیا میں  کچھ کم نہ دیا جائے گا۔ یہ وہ لوگ ہیں  جن کے لیے آخرت میں  آگ کے سوا کچھ نہیں  اور دنیا میں  جو کچھ انہوں نے کیا وہ سب برباد ہوگیا اور ان کے اعمال باطل ہیں ۔

            اور ارشاد فرماتا ہے: ’’مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهٗ فِیْهَا مَا نَشَآءُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَۚ-یَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا(۱۸)وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَ سَعٰى لَهَا سَعْیَهَا وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىٕكَ كَانَ سَعْیُهُمْ مَّشْكُوْرًا‘‘(بنی اسراء یل:۱۸،۱۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو جلدی والی (دنیا) چاہتا ہے تو ہم  جسے چاہتے ہیں  اس کیلئے دنیا میں  جو چاہتے ہیں  جلد دیدیتے ہیں  پھر ہم نے اس کیلئے جہنم بنارکھی ہے جس میں  وہ مذموم، مردود ہوکر داخل ہوگا۔ اور جو آخرت چاہتا ہے اوراس کیلئے  ایسی کوشش کرتا ہے جیسی کرنی چاہیے اور وہ ایمان والا بھی ہو تو یہی وہ لوگ ہیں  جن کی کوشش کی قدر کی جائے گی۔

            اور ارشاد فرماتا ہے:

’’فَاِذَا جَآءَتِ الطَّآمَّةُ الْكُبْرٰى٘ۖ(۳۴)یَوْمَ یَتَذَكَّرُ الْاِنْسَانُ مَا سَعٰىۙ(۳۵)وَ بُرِّزَتِ الْجَحِیْمُ لِمَنْ یَّرٰى(۳۶)فَاَمَّا مَنْ طَغٰىۙ(۳۷)وَ اٰثَرَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَاۙ(۳۸)فَاِنَّ الْجَحِیْمَ هِیَ الْمَاْوٰىؕ(۳۹)وَ اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰىۙ(۴۰)فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاْوٰى‘‘(نازعات:۳۴۔۴۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: پھر جب وہ عام سب سے بڑی مصیبت آئے گی۔ اس دن آدمی یاد کرے گا جو اس نے کوشش کی تھی۔ اور جہنم ہر دیکھنے والے کیلئے ظاہر کر دی جائے گی۔ تو وہ جس  نے سرکشی کی۔ اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی۔ تو بیشک جہنم ہی اس کا ٹھکانا ہے۔ اور وہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا۔ تو بیشک جنت ہی ٹھکانا ہے۔

            لہٰذا اے انسان!

’’وَ ابْتَغِ فِیْمَاۤ اٰتٰىكَ اللّٰهُ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ وَ لَا تَنْسَ نَصِیْبَكَ مِنَ الدُّنْیَا وَ اَحْسِنْ كَمَاۤ اَحْسَنَ اللّٰهُ اِلَیْكَ وَ لَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ‘‘(قصص۷۷)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو مال تجھے اللہ نے دیا ہے اس  کے ذریعے آخرت کا گھر طلب کر اور دنیا سے اپنا حصہ نہ بھول اور احسان کر جیسا اللہ نے تجھ پر احسان کیا اور زمینمیں  فساد نہ کر، بے شک اللہ فسادیوں  کو پسند نہیں  کرتا۔

            افسوس!فی زمانہ مسلمانوں  کی اکثریت بھی دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے کی بے عقلی اور نادانی کا شکار ہے اور ان میں  سے بعض کا حال یہ ہوچکا ہے کہ دنیا کا ما ل حاصل کرنے کیلئے لوگوں  کو دھمکیاں  دینے ،انہیں  اغوا کر کے تاوانوں  کا مطالبہ کرنے ،اسلحے کے زور پر مال چھیننے حتّٰی کے مال حاصل کرنے کی خاطر لوگوں  کو جان تک سے مار دینے میں  لگے ہوئے ہیں ، الغرض دنیا کا مال اوراس کا عیش و عشرت حاصل کرنا ان کی اَوّلین ترجیح بنا ہوا ہے اور اس کے لئے وہ ہر سطح پر جانے کو تیار ہیں  اور اپنی آخرت سے متعلق انہیں  ذرہ بھر بھی پرواہ نہیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں  ہدایت اور عقلِ سلیم عطا فرمائے، اٰمین۔

اَفَمَنْ وَّعَدْنٰهُ وَعْدًا حَسَنًا فَهُوَ لَاقِیْهِ كَمَنْ مَّتَّعْنٰهُ مَتَاعَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ثُمَّ هُوَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ مِنَ الْمُحْضَرِیْنَ(61)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو وہ شخص جس سے ہم نے اچھا وعدہ کیا ہوا ہے پھر وہ اس (وعدے) سے ملنے والا (بھی) ہے کیا وہ اس شخص جیسا ہے جسے ہم نے (صرف) دنیوی زندگی کا سازوسامان فائدہ اٹھانے کو دیا ہو پھر وہ قیامت کے دن گرفتار کرکے حاضر کئے جانے والوں میں سے ہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَفَمَنْ وَّعَدْنٰهُ وَعْدًا حَسَنًا: تو وہ شخص جس سے ہم نے اچھا وعدہ کیا ہوا ہے۔} ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! تم اس بات پر غور کرو کہ وہ شخص جس سے ہم نے ا س کے ایمان اور طاعت پر جنت کے ثواب کا اچھا وعدہ کیا ہوا ہے، پھر وہ اس وعدے کو پانے والا بھی ہے ،کیا وہ اس شخص جیسا ہے جسے ہم نے صرف دُنْیَوی زندگی کا سازوسامان فائدہ اٹھانے کو دیا ہو اور یہ ساز و سامان عنقریب زائل ہوجانے والا ہو، پھر وہ قیامت کے دن گرفتار کرکے حاضر کئے جانے والوں  میں  سے ہو!یہ دونوں  ہرگز برابر نہیں  ہو سکتے۔ مفسرین فرماتے ہیں  کہ جسے اچھا وعدہ دیا گیا اس سے مراد مومن ہے اور دوسرے شخص سے کافر مراد ہے۔( روح البیان، القصص، تحت الآیۃ: ۶۱، ۶ / ۴۲۰، جلالین، القصص، تحت الآیۃ: ۶۱، ص۳۳۲، ملتقطاً)

دنیا کا طلبگار اور آخرت کا خواہش مند برابر نہیں :

         اس سے معلوم ہواکہ جو شخص صرف دنیا کا طلبگار اور آخرت سے بے پرواہ ہے وہ ا س شخص جیسا نہیں  جودنیا کی زندگی اور ا س کے عیش و عشرت پر قناعت کرنے کی بجائے آخرت کی اچھی زندگی کا خواہش مند اور وہاں  کی عظیم الشّان دائمی نعمتیں  حاصل کرنے کی کوشش میں  لگا ہوا ہے۔نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ دنیا کا وہ عیش و عشرت جس کے بعد بندہ عذاب میں  مبتلا ہو جائے، کسی طرح بھی اس قابل نہیں  کہ اسے آخرت پر ترجیح دی جائے اور نہ ہی کوئی عقل مند انسان ایسا کر سکتا ہے۔

وَ یَوْمَ یُنَادِیْهِمْ فَیَقُوْلُ اَیْنَ شُرَكَآءِیَ الَّذِیْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ(62)قَالَ الَّذِیْنَ حَقَّ عَلَیْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنَا هٰۤؤُلَآءِ الَّذِیْنَ اَغْوَیْنَاۚ-اَغْوَیْنٰهُمْ كَمَا غَوَیْنَاۚ-تَبَرَّاْنَاۤ اِلَیْكَ٘-مَا كَانُوْۤا اِیَّانَا یَعْبُدُوْنَ(63)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور یاد کروجس دن( الله) انہیں ندا کرے گا تو فرمائے گا: کہاں ہیں میرے وہ شریک جنہیں تم سمجھتے تھے۔ وہ لوگ جن پر قول ثابت ہوچکا ہے وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! یہی ہیں وہ جنہیں ہم نے گمراہ کیا۔ ہم نے انہیں ایسے ہی گمراہ کیا جیسے ہم خود گمراہ ہوئے تھے۔ ہم(ان سے) بیزار ہوکر تیری طرف رجوع لاتے ہیں ، یہ ہماری عبادت نہ کرتے تھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ یَوْمَ یُنَادِیْهِمْ: اور یاد کروجس دن(اللہ) انہیں  ندا کرے گا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مشرکوں  کو ڈانٹتے ہوئے ندا کرے گا اور ان سے فرمائے گا’’وہ کہاں  ہیں  جنہیں  تم دنیا میں  میرا شریک سمجھتے تھے۔ یہ ندا سن کرعام کفار کی بجائے گمراہوں  کے سردار اور کفر کے پیشوا جن پر جہنم کا عذاب واجب ہوچکا ہے، کہیں  گے : اے ہمارے رب! یہی ہماری پیروی کرنے والے وہ لوگ ہیں  جنہیں  ہم نے شرک کی طرف بلا کر گمراہ کیا۔ ہم نے انہیں  گمراہ کیا تو یہ اسی طرح گمراہ ہو گئے جیسے ہم خود گمراہ ہوئے تھے ۔اس سے ان کی مراد یہ ہوگی کہ جیسے ہم اپنے اختیار سے گمراہ ہوئے اسی طرح یہ بھی اپنے ہی اختیار سے گمراہ ہوئے کیونکہ ہم نے تو صرف انہیں  بہکایا تھا گمراہی پر مجبور نہیں  کیا تھااس لئے ہماری اور ان کی گمراہی میں  کوئی فرق نہیں  ۔ ہم ان سے اور جس کفر کو انہوں  نے اختیار کیا اس سے بیزار ہوکر تیری طرف رجوع لاتے ہیں ، یہ ہماری عبادت نہ کرتے تھے بلکہ یہ اپنی خواہشوں  کے پَرستار اور اپنی شہوات کے اطاعت گزار تھے۔(مدارک، القصص،تحت الآیۃ:۶۲-۶۳،ص۸۷۶-۸۷۷، روح البیان، القصص،تحت الآیۃ:۶۲-۶۳، ۶ / ۴۲۱، ملتقطاً)

وَ قِیْلَ ادْعُوْا شُرَكَآءَكُمْ فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَهُمْ وَ رَاَوُا الْعَذَابَۚ-لَوْ اَنَّهُمْ كَانُوْا یَهْتَدُوْنَ(64)

 ترجمہ:کنزالعرفان

اور ان سے فرمایا جائے گا: اپنے شریکوں کو پکارو تو وہ اِنہیں پکاریں گے تو وہ اُنہیں جواب نہ دیں گے اور یہ عذاب دیکھیں گے۔ کیا اچھا ہوتا اگر یہ ہدایت حاصل کرلیتے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ قِیْلَ ادْعُوْا شُرَكَآءَكُمْ فَدَعَوْهُمْ: اور ان سے فرمایا جائے گا: اپنے شریکوں  کو پکارو تو وہ اِنہیں  پکاریں  گے۔} یعنی بتوں  کے پجاریوں  سے فرمایا جائے گا:ان بتوں  کو پکارو، جنہیں  تم اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے تھے تاکہ وہ تمہیں  جہنم کے عذاب سے بچائیں ۔چنانچہ وہ ان بتوں  کو پکاریں  گے لیکن وہ انہیں  جواب نہ دیں  گے اور یہ پجاری عذاب دیکھیں  گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا ہی اچھا ہوتا اگر یہ لوگ دنیا میں  گمراہ ہونے کی بجائے ہدایت حاصل کرلیتے تاکہ آخرت میں  عذاب نہ دیکھتے ۔( مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۶۴، ص۸۷۷، روح البیان، القصص، تحت الآیۃ: ۶۴، ۶ / ۴۲۱، ملتقطاً)

وَ یَوْمَ یُنَادِیْهِمْ فَیَقُوْلُ مَا ذَاۤ اَجَبْتُمُ الْمُرْسَلِیْنَ(65)فَعَمِیَتْ عَلَیْهِمُ الْاَنْۢبَآءُ یَوْمَىٕذٍ فَهُمْ لَا یَتَسَآءَلُوْنَ(66)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور جس دن ( الله) انہیں ندافرمائے گا تو فرمائے گا: (اے لوگو!) تم نے رسولوں کو کیا جواب دیا تھا؟ تو اس دن ان پر خبریں اندھی ہوجائیں گی تو وہ ایک دوسرے سے نہیں پوچھیں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ یَوْمَ یُنَادِیْهِمْ: اور جس دن انہیں  ندافرمائے گا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کفار کو ڈانٹتے ہوئے فرمائے گا: ’’تم نے ان رسولوں  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کیا جواب دیا تھاجو تمہاری طرف بھیجے گئے تھے اورتمہیں  حق کی دعوت دیتے تھے ؟تو اس دن کفار کو کچھ یاد نہ رہے گا کہ انہوں  نے کیا جواب دیا تھا اور کوئی عذر اور حجت انہیں  نظر نہ آئے گی تو وہ ایک دوسرے سے نہیں  پوچھیں  گے اور انتہائی دہشت کی وجہ سے ساکت رہ جائیں  گے یا کوئی کسی سے اس لئے نہ پوچھے گا کہ جواب سے عاجز ہونے میں  سب کے سب برابر ہیں  خواہ وہ تابع ہوں  یا مَتبوع ، کافر ہوں  یا کافر گَر ۔ (خازن، القصص،تحت الآیۃ:۶۵۶۶، ۳ / ۴۳۸، روح البیان، القصص، تحت الآیۃ: ۵۶۶۶، ۶ / ۴۲۱۴۲۲، ملتقطاً)

         ایک دوسری روایت میں  ہے جو کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے منقول ہے  کہ کوئی آدمی نہیں  ہوگامگر اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس سے تنہائی میں  بات کرے گا (یعنی بندہ لوگوں  سے جدا ہوگا)۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرمائے گااے ابنِ آدم !کس چیز نے تجھے مجھ سے دھوکے میں  ڈالا؟ اے ابنِ آدم!تونے رسولوں  کوکیاجواب دیا؟اے ابنِ آدم! تونے اپنے علم پرکیا عمل کیا؟( حلیۃ الاولیاء، ذکر الصحابۃ من المہاجرین، عبد اللّٰہ بن مسعود، ۱ / ۱۸۰، الحدیث: ۴۱۲)

فَاَمَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَعَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنَ مِنَ الْمُفْلِحِیْنَ(67)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو وہ جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور اچھا کام کیا تو قریب ہے کہ وہ کامیاب ہونے والوں میں سے ہوگا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاَمَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ: تو وہ جس نے توبہ کی اور ایمان لایا۔} اس سے پہلی آیات میں  عذاب پانے والے کفار کا حال بیان ہوا اور اب یہاں  سے کفار کو دنیا میں  توبہ کی ترغیب دی جا رہی ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا جس شخص نے دنیا میں  شرک سے توبہ کرلی اور اللہ تعالیٰ پر اور جو کچھ اس کی طرف سے نازل ہواہے اس پرایمان لے آیااوراس نے نیک کام کیے تو قریب ہے کہ وہ کامیاب ہونے والوں  میں  سے ہوگا۔( تفسیرکبیر، القصص، تحت الآیۃ: ۶۷، ۹ / ۱۰، مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۶۷، ص۸۷۷، ملتقطاً)

وَ رَبُّكَ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ وَ یَخْتَارُؕ-مَا كَانَ لَهُمُ الْخِیَرَةُؕ-سُبْحٰنَ اللّٰهِ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ(68)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور تمہارا رب پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے اور (جو چاہتا ہے) پسند کرتاہے ۔ان (مشرکوں ) کا کچھ اختیار نہیں ۔ الله ان کے شرک سے پاک اور بلندوبالا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ رَبُّكَ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ وَ یَخْتَارُ: اور تمہارا رب پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے اور پسند کرتا ہے۔} شانِ نزول: یہ آیت ان مشرکین کے جواب میں  نازل ہوئی جنہوں  نے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نبوت کے لئے کیوں  منتخب فرمایا ہے اور یہ قرآن مکہ اور طائف کے کسی بڑے شخص پر کیوں  نہ اُتارا؟یہ کلام کرنے والا ولید بن مغیرہ تھا اور بڑے آدمی سے وہ اپنے آپ کو اور عروہ بن مسعود ثقفی کو مراد لیتا تھا۔ اس کے جواب میں  یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ رسولوں  کا بھیجنا ان لوگوں  کے اختیار سے نہیں  بلکہ اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہے، اپنی حکمت وہی جانتا ہے انہیں  اُس کی مرضی میں  دخل دینے کی کیا مجال ہے۔( روح البیان، القصص، تحت الآیۃ: ۶۸، ۶ / ۴۲۳، خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۶۸، ۳ / ۴۳۹، ملتقطاً)

وَ رَبُّكَ یَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُوْرُهُمْ وَ مَا یُعْلِنُوْنَ(69)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور تمہارا رب جانتا ہے جو ان کے سینے چھپائے ہوئے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ رَبُّكَ یَعْلَمُ: اور تمہارا رب جانتا ہے۔} ارشاد فرمایاکہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کا رب ان کے کفر اوران کی آپ سے عداوت کو جانتا ہے جسے یہ لوگ اپنے سینوں  میں  چھپائے ہوئے ہیں  اور ان کی وہ باتیں  بھی جانتا ہے جو یہ اپنی زبانوں  سے ظاہر کرتے ہیں  جیسے آپ کی نبوت پر اعتراض کرنا اور قرآن پاک کو جھٹلانا۔ (روح البیان، القصص، تحت الآیۃ: ۶۹، ۶ / ۴۲۵، جلالین، القصص، تحت الآیۃ: ۶۹، ص۳۳۳، ملتقطاً)اور جب اللہ تعالیٰ ان کے باطن اور ظاہر کو جانتا ہے تو وہی انہیں  ان کی حرکتوں  کی سزا دے گا۔

وَ هُوَ اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَؕ-لَهُ الْحَمْدُ فِی الْاُوْلٰى وَ الْاٰخِرَةِ٘-وَ لَهُ الْحُكْمُ وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ(70)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور وہی الله ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ دنیا اور آخرت میں اسی کیلئے تمام تعریفیں ہیں اور اسی کا حکم ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ هُوَ اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ: اور وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔} ارشاد فرمایا کہ وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں  ۔ دنیا اور آخرت میں  اسی کیلئے تمام تعریفیں  ہیں  کہ اس کے اولیاء د نیا میں  بھی اس کی حمد کرتے ہیں  اور آخرت میں  بھی اس کی حمد سے لذت اٹھائیں  گے اور ہر چیز میں  اسی کا حکم ،فیصلہ اور قضاء نافذ و جاری ہے اور اے لوگو! قیامت کے دن اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے تو وہ تمہیں  تمہارے اعمال کی جزا دے گا۔( خازن، القصص،تحت الآیۃ:۷۰، ۳ / ۴۳۹، جلالین، القصص،تحت الآیۃ: ۷۰، ص۳۳۳، تفسیر سمرقندی، القصص، تحت الآیۃ: ۷۰، ۲ / ۵۲۴، ملتقطاً)

قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰهُ عَلَیْكُمُ الَّیْلَ سَرْمَدًا اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ مَنْ اِلٰهٌ غَیْرُ اللّٰهِ یَاْتِیْكُمْ بِضِیَآءٍؕ-اَفَلَا تَسْمَعُوْنَ(71)

ترجمہ: کنزالعرفان

تم فرماؤ: بھلا دیکھو کہ اگر الله تم پر قیامت تک ہمیشہ رات ہی بنادے تو الله کے سوا کون دوسرا معبود ہے جو تمہارے پاس روشنی لائے گا تو کیا تم سنتے نہیں ؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قُلْ اَرَءَیْتُمْ: تم فرماؤ: بھلا دیکھو۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ مکہ والوں  سے فرما دیں  :تم مجھے اس بات کا جواب دو کہ اگر اللہ تعالیٰ سورج کو طلوع ہونے سے روک کریا اسے بے نور کر کے تم پر قیامت تک ہمیشہ رات ہی رکھے اور دن نکالے ہی نہیں  جس میں  تم اپنی معاشی سرگرمیاں  انجام دے سکو تو اللہ تعالیٰ کے سوا کون دوسرا معبود ہے جو یہ قدرت رکھتا ہو کہ تمہارے پاس دن کی روشنی لے آئے، تو کیا تم اس کلام کو ہوش کے کانوں  سے سنتے نہیں  اور اس میں  غورو فکر نہیں  کرتے تا کہ تم پر اللہ تعالیٰ کی قدرت واضح ہو جائے اور تم شرک سے باز آکر ا س کی وحدانیّت پر ایمان لے آؤ ۔( روح البیان، القصص، تحت الآیۃ: ۷۱، ۶ / ۴۲۶، جلالین، القصص، تحت الآیۃ: ۷۱، ص۳۳۳، ملتقطاً)

قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰهُ عَلَیْكُمُ النَّهَارَ سَرْمَدًا اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ مَنْ اِلٰهٌ غَیْرُ اللّٰهِ یَاْتِیْكُمْ بِلَیْلٍ تَسْكُنُوْنَ فِیْهِؕ-اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ(72)

ترجمہ: کنزالعرفان

تم فرماؤ: بھلا دیکھو کہ اگر الله تم پرقیامت تک ہمیشہ دن ہی بنا دے تو الله کے سوا اورکون معبود ہے جو تمہارے پاس رات لے آئے جس میں تم آرام کرو تو کیا تم دیکھتے نہیں ؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قُلْ اَرَءَیْتُمْ: تم فرماؤ: بھلا دیکھو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ مکہ والوں  سے یہ بھی فرما دیں : تم مجھے یہ بتاؤ کہ اگر اللہ تعالیٰ سورج کوآسمان کے درمیان روک کر قیامت تک ہمیشہ دن ہی رکھے اور رات ہونے ہی نہ دے تو اللہ تعالیٰ کے سوا اورکون معبود ہے جو یہ قدرت رکھتا ہو کہ وہ تمہارے پاس رات لے آئے جس میں  تم آرام کرسکو اور دن میں  جو کام اور محنت کی تھی اس کی تھکن دور کرسکو ۔ تو کیا تم دیکھتے نہیں کہ تم کتنی بڑی غلطی میں  ہو جو اس کے ساتھ دوسروں  کو شریک کرتے ہو اور تمہیں  چاہئے کہ اپنی اس غلطی کا احساس کر کے ا س سے باز آجاؤ۔( جلالین، القصص، تحت الآیۃ: ۷۲، ص۳۳۳، روح البیان، القصص، تحت الآیۃ: ۷۲، ۶ / ۴۲۷، ملتقطاً)

وَ مِنْ رَّحْمَتِهٖ جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ لِتَسْكُنُوْا فِیْهِ وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(73)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اس نے اپنی رحمت سے تمہارے لیے رات اور دن بنائے کہ رات میں آرام کرو اور(دن میں ) اس کا فضل تلاش کرو اور تاکہ تم (اس کا) شکر ادا کرو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مِنْ رَّحْمَتِهٖ جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ: اور اس نے اپنی رحمت سے تمہارے لیے رات اور دن بنائے۔} ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے تمہارے لیے رات اور دن بنائے تاکہ تم رات میں  آرام کرو، اپنے بدنوں  کو راحت پہنچاؤ اور دن بھر کی محنت و مشقت سے ہونے والی تھکن دور کرو اور دن میں  روزی تلاش کرو جو کہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اورتم اپنی معاشی و کاروباری سرگرمیاں  انجام دو اور تم پر یہ رحمت فرمانے کی حکمت یہ کہ تم اس کی وجہ سے اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کا حق مانو،اس کی وحدانیّت کا اقرار کرو اورصرف اسی کی عبادت کر کے اس کی نعمتوں  کا شکر بجا لاؤ۔( تفسیرطبری، القصص، تحت الآیۃ: ۷۳، ۱۰ / ۹۸)

وَ یَوْمَ یُنَادِیْهِمْ فَیَقُوْلُ اَیْنَ شُرَكَآءِیَ الَّذِیْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ(74)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور یاد کروجس دن ( الله) انہیں ندا کرے گا تو فرمائے گا: کہاں ہیں میرے وہ شریک جنہیں تم (میرا شریک) سمجھتے تھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ یَوْمَ یُنَادِیْهِمْ: اور یاد کروجس دن انہیں  ندا کرے گا۔} یہاں  سے مشرکین کا اُخروی حال بیان کیا جا رہا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ و ہ دن یاد کریں  جس دن اللہ تعالیٰ ان مشرکوں  کو ندا کرے گا تو فرمائے گا:اے مشرکو!جنہیں  تم دنیا میں  میرا شریک سمجھتے تھے وہ کہاں  ہیں ؟تاکہ آج کے دن وہ تمہیں  نجات دیں  اور عذاب سے تمہیں  چھٹکارا دلائیں ۔یہ ندا سن کر کفار کے غم میں  اورا ضافہ ہو جائے گا۔( تفسیرکبیر، القصص، تحت الآیۃ: ۷۴، ۹ / ۱۳، تفسیرطبری، القصص، تحت الآیۃ: ۷۴، ۱۰ / ۹۸، ملتقطاً)

وَ نَزَعْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِیْدًا فَقُلْنَا هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ فَعَلِمُوْۤا اَنَّ الْحَقَّ لِلّٰهِ وَ ضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ(75)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ہم ہر امت میں سے ایک گواہ نکال لیں گے پھر فرمائیں گے : اپنی دلیل لاؤ تو وہ جان لیں گے کہ حق الله ہی کیلئے ہے اور ان سے ان کی بنائی ہوئی جھوٹی باتیں گم ہوجائیں گی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ نَزَعْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِیْدًا: اور ہم ہر امت میں  سے ایک گواہ نکال لیں  گے۔} یعنی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ہر امت میں  سے ایک گواہ نکال کر لائے گا جو کہ اس امت کے رسول ہوں  گے اور وہ اپنی اپنی اُمتوں  پراس بات کی گواہی دیں  گے کہ انہوں  نے ان لوگوں  تک اللہ تعالیٰ کے پیغام پہنچائے اور انہیں  نصیحتیں  کیں  ۔ پھر اللہ تعالیٰ ہر امت سے ارشاد فرمائے گا: دنیا میں  شرک اور رسولوں  کی مخالفت کرناجو تمہارا شیوہ تھا، اس کے صحیح ہونے پر تمہارے پاس جو دلیل ہے وہ پیش کرو۔ تواس دن وہ جان لیں  گے کہ اِلٰہ اور معبود ہونے کا حق صرف اللہ تعالیٰ ہی کیلئے ہے اور اس میں  اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں  ،اوردنیا میں  جو وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرا کر اور ان شریکوں  کو اپنی شفاعت کرنے والا بتا کر جھوٹی باتیں  بناتے تھے ،ان کی یہ سب باتیں  ضائع ہو جائیں  گی۔(مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۷۵، ص۸۷۹، جلالین، القصص، تحت الآیۃ: ۷۵، ص۳۳۳، ملتقطاً)

اِنَّ قَارُوْنَ كَانَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰى فَبَغٰى عَلَیْهِمْ۪-وَ اٰتَیْنٰهُ مِنَ الْكُنُوْزِ مَاۤ اِنَّ مَفَاتِحَهٗ لَتَنُوْٓاُ بِالْعُصْبَةِ اُولِی الْقُوَّةِۗ-اِذْ قَالَ لَهٗ قَوْمُهٗ لَا تَفْرَحْ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْفَرِحِیْنَ(76)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک قارون موسیٰ کی قوم سے تھا پھر اس نے قوم پر زیادتی کی اور ہم نے اس کو اتنے خزانے دئیے جن کی کنجیاں (اُٹھانا) ایک طاقتور جماعت پر بھاری تھیں ۔ جب اس سے اس کی قوم نے کہا:اِترا ؤنہیں ، بیشک الله اِترانے والوں کو پسندنہیں کرتا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ قَارُوْنَ كَانَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰى: بیشک قارون موسیٰ کی قوم میں  سے تھا۔} اس سے پہلے آیت نمبر60میں  کفارِ مکہ سے فرمایا گیا تھا کہ تمہیں  جو چیز دی گئی ہے وہ صرف دُنْیَوی زندگی کا سامان اور ا س کی زینت ہے اور اب یہاں  سے بیان فرمایا جا رہا ہے کہ قارون کو بھی دُنْیَوی زندگی کا سامان دیا گیا اور اُس نے اِس پر غرور کیا تو وہ بھی فرعون کی طرح عذاب سے نہ بچ سکاتو اے مشرکو!تم قارون اور فرعون سے زیادہ مال اور تعداد نہیں  رکھتے اور فرعون کو ا س کے لشکر و مال نے عذاب سے بچنے میں  کوئی فائدہ نہ دیا اسی طرح قارون کو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے رشتہ داری اور ا س کے کثیر خزانوں  نے کوئی نفع نہ دیا تو تم کس چیز کے بھروسے پر رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جھٹلا رہے اور ان پر ایمان لانے سے منہ موڑرہے ہو۔یاد رکھو!اگر تم بھی اپنی رَوِش سے باز نہ آئے تو تمہارا انجام بھی فرعون ا ور قارون سے مختلف نہ ہو گا۔( تفسیر قرطبی، القصص، تحت الآیۃ: ۷۶، ۷ / ۲۳۲، الجزء الثالث عشر، ملتقطاً)

قارون کا مختصر تعارف ، ا س کے خزانوں  کا حال اور ا س کی رَوِش:

            یہاں  اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کی مناسبت سے قارون کامختصر تعارف ،اس کے خزانوں  کا حال اور اس کی روش ملاحظہ ہو،چنانچہ مفسرین فرماتے ہیں  کہ قارون حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے چچا یصہر کا بیٹا تھا۔ انتہائی خوب صورت اور حسین شکل کا آدمی تھا ،اسی لئے اسے مُنَوَّر کہتے تھے۔ بنی اسرائیل میں  توریت کا سب سے بہتر قاری تھا۔ ناداری کے زمانے میں  نہایت عاجزی کرنے والا اوربااخلاق تھا۔دولت ہاتھ آتے ہی اس کا حال تبدیل ہوا اور یہ بھی سامری کی طرح منافق ہوگیا۔کہا گیا ہے کہ فرعون نے اسے بنی اسرائیل پر حاکم بنا دیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اتنے خزانے دئیے تھے کہ ان کی چابیاں اُٹھانا ایک طاقتور جماعت پر بھاری پڑتاتھا اور یہ لوگ خزانوں  کی وزنی چابیاں  اٹھا کر تھک جایا کرتے تھے ۔جب قارون سوار ہو کر نکلتا توکئی خچروں  پر اس کے خزانوں  کی چابیاں  لادی جاتی تھیں ۔جب اس سے بنی اسرائیل کے مومن حضرات نے کہا:اے قارون!تم اپنے مال کی کثرت پر اِترا ؤنہیں ، بیشک اللہ تعالیٰ اِترانے والوں  کو پسندنہیں  کرتااور اللہ تعالیٰ نے تجھے جو مال دیا ہے اس کے ذریعے تو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں  کا شکر کر کے اور مال کو خدا کی راہ میں  خرچ کر کے آخرت کا گھر طلب کر اور دنیا سے اپنا حصہ نہ بھول بلکہ دنیا میں  آخرت کے لئے عمل کر تاکہ تو عذاب سے نجات پائے کیونکہ دنیا میں  انسان کا حقیقی حصہ یہ ہے کہ وہ صدقہ اور صلہ رحمی وغیرہ کے ذریعے آخرت کے لئے عمل کرے اور تو اللہ تعالیٰ کے بندوں  کے ساتھ اسی طرح احسان کر جیسا اللہ تعالیٰ نے تجھ پر احسان کیا اور گناہوں  کا اِرتکاب کر کے، نیز ظلم ، بغاوت اور سرکشی کر کے زمین میں  فساد نہ کر، بے شک اللہ تعالیٰ فسادیوں  کو پسند نہیں  کرتا۔( مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۷۶۷۷، ص۸۷۹، ابو سعود، تحت الآیۃ: ۷۶۷۷، ۴ / ۲۴۴۲۴۵، خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۷۶۷۷، ۳ / ۴۴۰، ملتقطاً)

خوش ہونے اور خوشی منانے سے متعلق 3شرعی احکام:

             آیت نمبر76میں  قارون کے اترانے یعنی فخر وتکبر کے طور پر خوش ہونے کا ذکر ہوا،اس مناسبت سے یہاں  خوش ہونے اور خوشی منانے سے متعلق 3شرعی احکام ملاحظہ ہوں :

(1)… شیخی کی خوشی یعنی اترانا حرام ہے،لیکن شکر کی خوشی عبادت ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْا‘‘(یونس:۵۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم فرماؤ: اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر ہی خوشی منانی چاہیے ۔

(2)…جرم کرکے خوش ہونا حرام ہے جبکہ عبادت کرکے خوش ہونا بہتر ہے۔

(3)… ناجائز طریقے سے خوشی منانا حرام ہے جیسے خوشی سے ناچنا شروع کر دیناجبکہ جائز طور سے خوشی منانا اچھا ہے جیسے خوشی میں  صدقہ کرنا وغیرہ۔

تکبر میں مبتلا ہونے کا ایک سبب:

            اسی آیت سے معلوم ہو اکہ مال و دولت کی کثرت فخر ،غرور اور تکبر میں  مبتلا ہونے کاایک سبب ہے۔امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ تکبر کے اسباب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’تکبر کا پانچواں  سبب مال ہے اور یہ بادشاہوں  کے درمیان ان کے خزانوں  اور تاجروں  کے درمیان ان کے سامان کے سلسلے میں  ہوتا ہے، اسی طرح دیہاتیوں  میں  زمین اور آرائش والوں  میں  لباس اور سواری میں  ہوتا ہے۔ مالدار آدمی، فقیر کو حقیر سمجھتا اور اس پر تکبر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تو مسکین اور فقیر ہے، اگر میں  چاہوں  تو تیرے جیسے لوگو ں  کو خریدلوں ، میں  تو تم سے اچھے لوگوں  سے خدمت لیتا ہوں ، تو کون ہے؟ اور تیرے ساتھ کیا ہے؟ میرے گھر کا سامان تیرے تمام مال سے بڑھ کر ہے اور میں  تو ایک دن میں  اتنا خرچ کردیتا ہوں  جتنا تو سال بھر میں  نہیں  کھاتا۔

            وہ یہ تمام باتیں  اس لیے کرتا ہے کہ مالدارہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے جب کہ اس شخص کو فقر کی وجہ سے حقیر جانتا ہے اور یہ سب کچھ اس لیے ہوتا ہے کہ وہ فقر کی فضیلت اور مالداری کے فتنے سے بے خبر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

’’فَقَالَ لِصَاحِبِهٖ وَ هُوَ یُحَاوِرُهٗۤ اَنَا اَكْثَرُ مِنْكَ مَالًا وَّ اَعَزُّ نَفَرًا‘‘(کہف:۳۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو اس نے اپنے ساتھی سے کہا اور وہ  اس سے فخر و غرور کی باتیں  کرتا رہتا تھا۔ (اس سے کہا) میں  تجھ  سے زیادہ مالدار ہوں  اور افراد کے اعتبار سے زیادہ طاقتور ہوں ۔

             حتّٰی کہ دوسرے نے جواب دیا:

’’اِنْ تَرَنِ اَنَا اَقَلَّ مِنْكَ مَالًا وَّ وَلَدًاۚ(۳۹)فَعَسٰى رَبِّیْۤ اَنْ یُّؤْتِیَنِ خَیْرًا مِّنْ جَنَّتِكَ وَ یُرْسِلَ عَلَیْهَا حُسْبَانًا مِّنَ السَّمَآءِ فَتُصْبِحَ صَعِیْدًا زَلَقًاۙ(۴۰)اَوْ یُصْبِحَ مَآؤُهَا غَوْرًا فَلَنْ تَسْتَطِیْعَ لَهٗ طَلَبًا‘‘(کہف:۳۹۔۴۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اگر تو مجھے اپنے مقابلے میں  مال اور اولاد میں  کم دیکھ رہا ہے۔ تو قریب ہے کہ میرا رب مجھے تیرے باغ سے بہتر عطا فرما دے اور تیرے باغ پر آسمان سے بجلیاں گرادے تو وہ چٹیل میدان ہوکر رہ جائے۔ یا اس باغ کا پانی  زمین میں  دھنس جائے پھر تو اسے ہرگز تلاش نہ کرسکے۔

            تو اس پہلے شخص کا قول مال اور اولاد کے ذریعے تکبر کے طور پر تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے اس کے انجام کا یوں  ذکر فرمایا:

’’یٰلَیْتَنِیْ لَمْ اُشْرِكْ بِرَبِّیْۤ اَحَدًا‘‘(کہف:۴۲)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے کاش!میں  نے اپنے رب کےساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہوتا۔

            قارون کا تکبر بھی اسی انداز کا تھا۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذم الکبر والعجب، بیان ما بہ التکبر، ۳ / ۴۳۲)

مال و دولت کی وجہ سے پیدا ہونے والے تکبر کا علاج:

            امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’(مال و دولت،پیرو کاروں  اور مددگاروں  کی کثرت کی وجہ سے تکبر کرنا) تکبر کی سب سے بری قسم ہے ،کیونکہ مال پر تکبر کرنے والا اس شخص کی طرح ہے جو اپنے گھوڑے اور مکان پر تکبر کرتا ہے اب اگر اس کا گھوڑا مرجائے یا مکان گرجائے تو وہ ذلیل و رُسوا ہوتاہے اور جو شخص بادشاہوں  کی طرف سے اختیارات پانے پر تکبر کرتاہے اپنی کسی ذاتی صفت پر نہیں  ، تو وہ اپنا معاملہ ایسے دل پر رکھتا ہے جو ہنڈیا سے بھی زیادہ جوش مارتا ہے، اب اگر اس سلسلے میں  کچھ تبدیلی آجائے تو وہ مخلوق میں  سے سب سے زیادہ ذلیل ہوتا ہے اور ہر وہ شخص جو خارجی اُمور کی وجہ سے تکبر کرتاہے اس کی جہالت ظاہر ہے کیونکہ مالداری پر تکبر کرنے والا آدمی اگر غور کرے تو دیکھے گا کہ کئی یہودی مال و دولت اور حسن وجمال میں  اس سے بڑھے ہوئے ہیں ، تو ایسے شرف پر افسوس ہے جس میں  یہودی تم سے سبقت لے جائیں  اور ایسے شرف پر بھی افسوس ہے جسے چور ایک لمحے میں  لے جائیں  اور اس کے بعد وہ شخص ذلیل اور مُفلِس ہوجائے۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذم الکبر والعجب، بیان الطریق فی معالجۃ الکبر واکتساب التواضع لہ، ۳ / ۴۴۴) اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں  کو مال و دولت کی وجہ سے پیدا ہونے والے تکبر سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

وَ ابْتَغِ فِیْمَاۤ اٰتٰىكَ اللّٰهُ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ وَ لَا تَنْسَ نَصِیْبَكَ مِنَ الدُّنْیَا وَ اَحْسِنْ كَمَاۤ اَحْسَنَ اللّٰهُ اِلَیْكَ وَ لَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ(77)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور جو مال تجھے الله نے دیا ہے اس کے ذریعے آخرت کا گھر طلب کر اور دنیا سے اپنا حصہ نہ بھول اور احسان کر جیسا الله نے تجھ پر احسان کیا اور زمین میں فساد نہ کر، بے شک الله فسادیوں کو پسند نہیں کرتا۔

  تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَا تَنْسَ نَصِیْبَكَ مِنَ الدُّنْیَا: اور دنیا سے اپنا حصہ نہ بھول۔} آیت کے اس حصے کی تفسیر میں  یہ بھی کہا گیا ہے کہ اے قارون! تواپنی صحت ، قوت ، جوانی اور دولت کو نہ بھول بلکہ تجھے ان کے ساتھ آخرت طلب کرنی چاہئے۔( خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۷۷، ۳ / ۴۴۰)

پانچ چیزوں  کو پانچ سے پہلے غنیمت سمجھیں :

         اس سے معلوم ہو اکہ انسان کو اپنی صحت،قوت جوانی اور دولت اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں  استعمال کر کے ضائع نہیں  کرنی چاہئے بلکہ انہیں  اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری میں  استعمال کرنا چاہئے اور اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں  کے ذریعے اپنی آخرت کو سنوارنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : ’’سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک شخص کو نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’پانچ چیزوں  کو پانچ سے پہلے غنیمت سمجھو۔(1) جوانی کو بڑھاپے سے پہلے ،(2) تندرستی کو بیماری سے پہلے ،(3)دولت مندی کو ناداری سے پہلے ،(4) فراغت کو مصروفیت سے پہلے ، (5)زندگی کو موت سے پہلے۔( مستدرک، کتاب الرقاق، نعمتان مغبون فیہما کثیر من الناس۔۔۔ الخ، ۵ / ۴۳۵، الحدیث: ۷۹۱۶)

قَالَ اِنَّمَاۤ اُوْتِیْتُهٗ عَلٰى عِلْمٍ عِنْدِیْؕ-اَوَ لَمْ یَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَهْلَكَ مِنْ قَبْلِهٖ مِنَ الْقُرُوْنِ مَنْ هُوَ اَشَدُّ مِنْهُ قُوَّةً وَّ اَكْثَرُ جَمْعًاؕ-وَ لَا یُسْــٴَـلُ عَنْ ذُنُوْبِهِمُ الْمُجْرِمُوْنَ(78)

ترجمہ: کنزالعرفان

۔ (قارون نے) کہا: یہ تو مجھے ایک علم کی بنا پرملا ہے جو میرے پاس ہے اور کیا اسے یہ نہیں معلوم کہ الله نے اس سے پہلے وہ قومیں ہلاک فرمادیں جو زیادہ طاقتوراور زیادہ مال جمع کرنے والی تھیں اور مجرموں سے ان کے گناہوں کی پوچھ گچھ نہیں کی جاتی ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ اِنَّمَاۤ اُوْتِیْتُهٗ عَلٰى عِلْمٍ عِنْدِیْ:کہا :یہ تو مجھے ایک علم کی بنا پرملا ہے جو میرے پاس ہے۔} قارون نے نصیحت کرنے والوں  کو جواب دیتے ہوئے کہا: یہ مال تو مجھے ایک علم کی بنا پرملا ہے جو میرے پاس ہے۔ اس علم سے کیا مراد ہے اس کے بارے میں  مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ اس سے توریت کا علم مرادہے ۔ایک قول یہ ہے کہ اس سے علم ِکیمیا مراد ہے جو قارون نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے حاصل کیا تھا اور اس کے ذریعے سے وہ (ایک نرم دھات) رانگ کو چاندی اور تانبے کو سونا بنالیتا تھا ۔ایک قول یہ ہے کہ اس سے تجارت ، زراعت اور پیشوں کا علم مراد ہے۔( روح البیان، القصص، تحت الآیۃ: ۷۸، ۶ / ۴۳۱۴۳۲، خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۷۸، ۳ / ۴۴۱، ملتقطاً)

خود پسندی کی حقیقت اور اس کی مذمت:

            قارون کے ان جملوں  میں  خود پسندی کا عُنْصر بالکل واضح ہے۔خود پسندی کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اس بات کا اظہار کرے کہ اسے نیک عمل کی توفیق یا نعمت اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی چیز مثلاً نفس یا مخلوق سے حاصل ہوئی ہے۔خود پسندی کی ضد احسان ہے اور احسان کا مطلب یہ ہے کہ بندہ ا س بات کا اظہار کرے کہ اسے نیک عمل کی توفیق یا نعمت اللہ تعالیٰ کی توفیق اور تائید سے حاصل ہوئی ہے۔( منہاج العابدین، العقبۃ السادسۃ، القادح الثانی: العجب، ص۱۷۹)

            یاد رہے کہ خود پسندی ایک ایسی باطنی بیماری ہے جس کی وجہ سے بندہ اللہ تعالیٰ کی توفیق اور تائید سے محروم ہو جاتا ہے اور جب بندہ اللہ تعالیٰ کی توفیق اور تائید سے محروم ہو جائے تو بہت جلد ہلاک و برباد ہو جاتا ہے ۔اس کی مذمت کے حوالے سے یہاں  4اَحادیث اور بزرگانِ دین کے2 اَقوال ملاحظہ ہوں ۔

(1)…حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تین چیزیں  ہلاکت میں  ڈالنے والی ہیں ۔(1)بخل جس کی پیروی کی جائے۔(2)نفسانی خواہشات جن کی اتباع کی جائے۔ (3) آدمی کا اپنے آپ کو اچھا سمجھنا۔( شعب الایمان، الحادی عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۱ / ۴۷۱، الحدیث: ۷۴۵)

(2)… حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: اگر اللہ تعالیٰ کے بندوں  میں  سے کوئی بندہ آسمان و زمین والوں  کے عمل کے برابر نیکی اور تقویٰ لے کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  حاضر ہو اور اس میں  یہ تین برائیاں  ہوں (1)خود پسندی۔ (2)مومنوں  کو ایذا دینا۔ (3) اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا۔ تو ا س کے اعمال کا وزن ایک ذرے کے برابر بھی نہ ہو گا۔(مسند الفردوس، باب العین، ۳ / ۳۶۴، الحدیث: ۵۱۰۲)

(3)…حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’خود پسندی اگر کسی مرد کی صورت میں  ہوتی تو وہ انتہائی بدصورت مرد ہوتا۔(مسند الفردوس، باب العین، ۳ / ۳۴۰، الحدیث: ۵۰۲۶)

(4)…حضرت حسن بن علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،رسول اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ خود پسندی ستّر سال کے اعمال برباد کر کے رکھ دیتی ہے۔(کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، حرف العین، العجب، ۲ / ۲۰۵، الحدیث: ۷۶۶۶، الجزء الثالث)

(5)…حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَاللہ تَعَالٰیوَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں : ’’توفیق بہترین قائد ہے،حسنِ اخلاق بہترین دوست ہے، عقل بہترین ساتھی ہے،ادب بہترین میراث ہے اور خود پسندی سے زیادہ شدید کوئی وحشت نہیں ۔(شعب الایمان، الثالث والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی فضل العقل، ۴ / ۱۶۱، الحدیث: ۴۶۶۱)

(6)…حضرت یحیٰ بن معاذ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’تم خود پسندی سے بچو کیونکہ یہ خود پسندی کرنے والے کو ہلاک کر دیتی ہے اور بے شک خود پسندی نیکیوں  کو اس طرح کھا جاتی جیسے آگ لکڑیوں  کو کھا جاتی ہے۔(شعب الایمان، السابع والاربعون من شعب الایمان۔۔۔الخ،فصل فی الطبع علی القلب،۵ / ۴۵۲،روایت نمبر: ۷۲۴۸)

             اللہ تعالیٰ ہمیں  اس ہلاکت خیز باطنی مرض سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔خود پسندی کے بارے میں  تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے امام غزالی کی مشہور تصنیف ’’احیاء العلوم‘‘ کی تیسری جلد اور’’ منہاج العابدین‘‘ سے ’’عجب کا بیان‘‘ مطالعہ فرمائیں ۔

{اَوَ لَمْ یَعْلَمْ: اور کیا اسے نہیں  معلوم۔} قارون کا خیال تھا کہ چونکہ میرے پاس علم، زر، زور ،جتھا، جماعت بہت کافی ہے اس لئے مجھے کوئی نقصان نہیں  پہنچا سکتا اور نہ مجھ پر عذابِ الٰہی آسکتا ہے ۔ اس کے اس خیال کی تردید اس آیت میں  فرمائی گئی،کہ تجھ سے پہلے کے کفار تجھ سے زیادہ طاقتور،مالدار، ہنر مند اورجتھے والے تھے۔ مگر نبی کی مخالفت کی وجہ سے جو عذاب آیا تو اسے کوئی دورنہ کرسکا تو تو کیوں  اپنی قوت اور مال کی کثرت پر غرور کرتا ہے؟ کیا تو جانتا نہیں  کہ اس کاانجام ہلاکت ہے؟

{وَ لَا یُسْــٴَـلُ عَنْ ذُنُوْبِهِمُ الْمُجْرِمُوْنَ: اور مجرموں  سے ان کے گناہوں  کی پوچھ گچھ نہیں  کی جاتی۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ مجرموں  کو سزا دیتا ہے تو اسے ان کے گناہ دریافت کرنے کی حاجت نہیں  کیونکہ وہ ان کا حال جانتا ہے۔ لہٰذا دوسرے وقت میں  ان سے جو پوچھاجائے گا وہ معلومات کیلئے نہیں  بلکہ ڈانٹ ڈپٹ کے لئے ہوگا۔(تفسیرکبیر، القصص، تحت الآیۃ: ۷۸، ۹ / ۱۶، روح البیان، القصص، تحت الآیۃ: ۷۸، ۶ / ۴۳۳، ملتقطاً)

فَخَرَ جَ عَلٰى قَوْمِهٖ فِیْ زِیْنَتِهٖؕ-قَالَ الَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا یٰلَیْتَ لَنَا مِثْلَ مَاۤ اُوْتِیَ قَارُوْنُۙ-اِنَّهٗ لَذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ(79)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو وہ اپنی زینت میں اپنی قوم کے سامنے نکلا تو دنیاوی زندگی کے طلبگار کہنے لگے: اے کاش ہمیں بھی ایسا مل جاتا جیسا قارون کو ملا بیشک یہ بڑے نصیب والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَخَرَ جَ عَلٰى قَوْمِهٖ فِیْ زِیْنَتِهٖ: تو وہ اپنی زینت میں  اپنی قوم کے سامنے نکلا۔} منقول ہے کہ ایک مرتبہ ہفتے کے دن قارون بہت جاہ وجلال سے اس طرح نکلا کہ خود سونے کی زین ڈالے ہوئے سفید رنگ کے خچر پر ارغوانی جوڑا پہنے سوار تھا اور اس کے ساتھ ہزاروں  لونڈی غلام زیوروں  سے آراستہ ، ریشمی لباس پہنے اور سجے ہوئے گھوڑوں  پر سوار تھے۔ جب لوگوں  نے اس کی اس زینت کو دیکھا تو ان میں  سے جو دنیا میں  رغبت رکھتے اور دُنْیَوی زندگی کے طلبگار تھے، وہ کہنے لگے: اے کاش ہمیں  بھی ایسی شان و شوکت اورمال و دولت مل جاتی جیسی قارون کو دنیا میں  ملی ہے۔ بیشک یہ بڑے نصیب والا ہے۔

            مفسرین فرماتے ہیں  کہ یہاں  دنیا میں  رغبت رکھنے والوں  سے بنی اسرائیل کے مسلمان مراد ہیں  ۔ ان کی یہ تمنا بشری تقاضے سے تھی اور یہ کفر یا گناہِ کبیرہ نہیں ۔( روح البیان، القصص، تحت الآیۃ: ۷۹، ۶ / ۴۳۳، تفسیر کبیر، القصص، تحت الآیۃ: ۷۹، ۹ / ۱۲، جلالین، القصص، تحت الآیۃ: ۷۹، ص۳۳۴، ملتقطاً)

رشک اور حسد کا شرعی حکم:

             خیال رہے کہ دُنْیَوی نعمتوں  میں  غِبْطہ کرنا یعنی کسی کی دولت وغیرہ پر ا س کے زوال کی خواہش کے بغیر رشک کرنا اور اس میں  برابری کی تمنا کرنا بھی اس صورت میں  منع ہے جب کہ دنیا یا مال کی محبت کے طور پر ہو ،اگر ایسا نہیں  تو یہ تمنا جائز ہے، البتہ حسد یعنی یہ تمنا کرنا کہ دوسرے سے نعمت زائل ہوکر اسے مل جائے ،یہ مُطْلَقاً حرام ہے۔

وَ قَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَیْلَكُمْ ثَوَابُ اللّٰهِ خَیْرٌ لِّمَنْ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًاۚ-وَ لَا یُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا الصّٰبِرُوْنَ(80)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور جنہیں علم دیا گیا تھا انہوں نے کہا: تمہاری خرابی ہو، الله کا ثواب بہتر ہے اس آدمی کے لیے جو ایمان لائے اور اچھے کام کرے اور یہ انہیں کو دیا جائے گا جو صبر کرنے والے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ قَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ: اور جنہیں  علم دیا گیا تھا انہوں  نے کہا۔} یعنی بنی اسرائیل کے علماء جو کہ آخرت کے اَحوال کا علم رکھتے اور دنیا سے بے رغبت تھے، انہوں  نے تمنا کرنے والوں  سے کہا:اے دنیا کے طلبگارو! تمہاری خرابی ہو، جو آدمی ایمان لائے اور اچھے کام کرے ا س کے لئے آخرت میں  اللہ تعالیٰ کا ثواب اس دولت سے بہتر ہے جو دنیا میں  قارون کو ملی اور یہ انہیں  کو ملتا ہے جو صبر کرنے والے ہیں ۔ یعنی نیک عمل کرناصبرکرنے والوں  ہی کا حصہ ہے اور اس کا ثواب وہی پاتے ہیں  ۔( خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۸۰، ۳ / ۴۴۱، روح البیان، القصص، تحت الآیۃ: ۸۰، ۶ / ۴۳۴، ملتقطاً)

غافلوں  اور علم والوں  کا حال:

         معلوم ہوا کہ دنیا داروں  کی دنیا کو لالچ کی نظر سے دیکھنا اور انہیں  ملنے والی دنیا کی تمنا کرناغافل لوگوں  کا کام ہے جبکہ اہلِ علم حضرات دنیا سے بے رغبت رہتے ، آخرت میں  ملنے والے ثواب پر نظر رکھتے اور یہ ثواب پانے کی امید رکھتے ہوئے نیک اعمال کرتے اور گناہوں  سے باز رہتے ہیں  اور ا س کے ساتھ ساتھ دوسروں  کو بھی دنیا کے عیش وعشرت کے حصول کی تمنا کرنے کی بجائے اُخروی ثواب پانے کے لئے کوششیں  کرنے کی طرف راغب کرتے ہیں ۔ لہٰذا عوام کو چاہئے کہ ایسی غفلت کا شکار ہونے سے بچیں  اور اہلِ علم حضرات کو چاہئے کہ خود بھی زہد و تقویٰ کے پیکر بنیں  اور عوام کو بھی اپنی اصلاح کی طرف راغب کرنے کی کوششیں  کریں ۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

فَخَسَفْنَا بِهٖ وَ بِدَارِهِ الْاَرْضَ- فَمَا كَانَ لَهٗ مِنْ فِئَةٍ یَّنْصُرُوْنَهٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِۗ-وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُنْتَصِرِیْنَ(81)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو ہم نے اسے اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسادیا تو اس کے پاس کوئی جماعت نہ تھی جو الله کے مقابلے میں اس کی مدد کرتی اور نہ وہ خود (اپنی) مدد کرسکا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَخَسَفْنَا بِهٖ وَ بِدَارِهِ الْاَرْضَ: تو ہم نے اسے اور اس کے گھر کو زمین میں  دھنسادیا۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے قارون اور اس کے گھر کو زمین میں  دھنسادیا تو اس کے پاس کوئی جماعت نہ تھی جو اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں  اس سے عذاب دور کر کے اس کی مدد کرتی اور نہ ہی وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے بدلہ لے سکا۔( مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۸۱، ص۸۸۱)

قارون اور اس کے خزانوں  کو زمین میں  دھنسائے جانے کا واقعہ:

          قارون اور اس کے گھر کو زمین میں  دھنسانے کا واقعہ سیرت و واقعات بیان کرنے والے علماء نے یہ ذکر کیا ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بنی اسرائیل کو دریا کے پار لے جانے کے بعد قربانیوں  کا انتظام حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سپرد کر دیا۔ بنی اسرائیل اپنی قربانیاں  حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس لاتے اور وہ ان قربانیوں  کو مَذبَح میں  رکھتے جہاں  آسمان سے آگ اتر کر ان کو کھالیتی۔قارون کو حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اس منصب پر حسد ہوا اس نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا: رسالت تو آپ کی ہوئی اور قربانی کی سرداری حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی، میں  کچھ بھی نہ رہا حالانکہ میں  توریت کا بہترین قاری ہوں  ،میں  اس پر صبر نہیں  کرسکتا۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’یہ منصب حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو میں  نے خود سے نہیں  دیا بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے دیا ہے۔ قارون نے کہا: خدا کی قسم !میں  آپ کی تصدیق نہ کروں  گا جب تک آپ مجھے اس بات کا ثبوت نہ دکھا دیں ۔اس کی بات سن کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بنی اسرائیل کے سرداروں  کو جمع کیا اور ان سے فرمایا: ’’اپنی لاٹھیاں  لے آؤ۔وہ لاٹھیاں  لے آئے تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اُن سب کو اپنے خیمے میں  جمع کیا اور رات بھر بنی اسرائیل ان لاٹھیوں  کا پہرہ دیتے رہے۔ صبح کو حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا عصا سرسبز و شاداب ہوگیا اور اس میں  پتے نکل آئے ۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’اے قارون! تو نے یہ دیکھا ؟قارون نے کہا: یہ آپ کے جادو سے کچھ عجیب نہیں  ۔حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس کے ساتھ اچھی طرح پیش آتے رہے لیکن وہ آپ کو ہر وقت ایذا دیتا تھا اور اس کی سرکشی و تکبر اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ عداوت دم بدم ترقی پر تھی۔ ایک مرتبہ اس قارون نے ایک مکان بنایا جس کا دروازہ سونے کا تھا اور اس کی دیواروں  پر سونے کے تختے نصب کئے ،بنی اسرائیل صبح و شام اس کے پاس آتے، کھانے کھاتے، باتیں  بناتے اور اُسے ہنسایا کرتے تھے۔

            جب زکوٰۃ کا حکم نازل ہوا تو قارون حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس آیا تو اُس نے آپ سے طے کیا کہ درہم و دینار اورمویشی وغیرہ میں  سے ہزارواں  حصہ زکوٰۃ دے گا، لیکن جب گھر جا کراس نے حساب کیا تو اس کے مال میں  سے اتنا بھی بہت کثیر ہوتا تھا ،یہ دیکھ کراس کے نفس نے اتنی بھی ہمت نہ کی اور اس نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو جمع کرکے کہا : تم نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ہر بات میں  اطاعت کی ،اب وہ تمہارے مال لینا چاہتے ہیں  تو تم اس بارے میں  کیا کہتے ہو؟ اُنہوں  نے کہا: آپ ہمارے بڑے ہیں  ،جو آپ چاہیں  حکم دیجئے۔ قارون نے کہا: فلانی بدچلن عورت کے پاس جاؤ اور اس سے ایک معاوضہ مقرر کرو کہ وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر تہمت لگائے،ایسا ہوا تو بنی اسرائیل حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو چھوڑ دیں  گے۔ چنانچہ قارون نے اس عورت کو ہزار دینار ،ایک ہزار درہم اور بہت سے وعدے کرکے یہ تہمت لگانے پر تیار کرلیا اور دوسرے دن بنی اسرائیل کو جمع کرکے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس آیا اور کہنے لگا: بنی اسرائیل آپ کا انتظار کررہے ہیں  کہ آپ انہیں  وعظ و نصیحت فرمائیں ۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تشریف لائے اور بنی اسرائیل میں  کھڑے ہو کر آپ نے فرمایا: ’’اے بنی اسرائیل !جو چوری کرے گا اس کے ہاتھ کاٹے جائیں  گے، جو بہتان لگائے گا اسے 80 کوڑے لگائے جائیں  گے اور جو زنا کرے گا اوراس کی بیوی نہیں  ہے تو اسے سو کوڑے مارے جائیں  گے اور اگر بیوی ہے تو اس کو سنگسار کیا جائے گا یہاں  تک کہ مرجائے ۔یہ سن کرقارون کہنے لگا : یہ حکم سب کے لئے ہے خواہ آپ ہی ہوں  ۔حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’خواہ میں  ہی کیوں  نہ ہوں ۔ قارون نے کہا: بنی اسرائیل کا خیال ہے کہ آپ نے فلاں  بدکار عورت کے ساتھ بدکاری کی ہے ۔حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: ’’اسے بلاؤ۔ وہ آئی تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’اس کی قسم جس نے بنی اسرائیل کے لئے دریا پھاڑ ا اور اس میں  راستے بنائے اور توریت نازل کی، تو جو بات سچ ہے وہ کہہ دے ۔وہ عورت ڈر گئی اور اللہ تعالیٰ کے رسول پر بہتان لگا کر اُنہیں  ایذاء دینے کی جرأت اُسے نہ ہوئی اور اُس نے اپنے دل میں  کہا کہ اس سے توبہ کرنا بہتر ہے اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عرض کیا کہ جو کچھ قارون کہلانا چاہتا ہے، اللہ تعالیٰ کی قسم یہ جھوٹ ہے اور اُس نے آپ پر تہمت لگانے کے عِوَض میں  میرے لئے کثیر مال مقرر کیا ہے۔

            حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حضور روتے ہوئے سجدہ میں  چلے گئے اور یہ عرض کرنے لگے :یا رب! عَزَّوَجَلَّ، اگر میں  تیرا رسول ہوں  تو میری وجہ سے قارون پر غضب فرما ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وحی فرمائی کہ میں  نے زمین کو آپ کی فرمانبرداری کرنے کا حکم دیا ہے، آپ اسے جو چاہیں  حکم دیں ۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بنی اسرائیل سے فرمایا: ’’اے بنی اسرائیل! اللہ تعالیٰ نے مجھے قارون کی طرف بھی اسی طرح رسول بناکربھیجا ہے جیسا فرعون کی طرف بھیجا تھا، لہٰذا جو قارون کا ساتھی ہو وہ اس کے ساتھ اس کی جگہ ٹھہرا رہے اور جو میرا ساتھی ہو وہ ا س سے جدا ہوجائے ۔یہ سن کر سب لوگ قارون سے جدا ہوگئے اور دو شخصوں  کے علاوہ کوئی قارون کے ساتھ نہ رہا ۔پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے زمین کو حکم دیا کہ انہیں  پکڑ لے، تو وہ لوگ گھٹنوں  تک دھنس گئے۔ پھر آپ نے یہی فرمایا تو وہ کمر تک دھنس گئے۔ آپ یہی فرماتے رہے حتّٰی کہ وہ لوگ گردنوں  تک دھنس گئے۔ اب وہ بہت منتیں  کرتے تھے اور قارونآپ کو اللہ تعالیٰ کی قسمیں  اور رشتہ داری کے واسطے دیتا تھا ،مگر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس طرف توجہ نہ فرمائی یہاں  تک کہ وہ لوگ بالکل دھنس گئے اور زمین برابر ہوگئی۔ حضرت قتادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ وہ لوگ قیامت تک دھنستے ہی چلے جائیں  گے۔ بنی اسرائیل نے قارون اور ا س کے ساتھیوں  کا حشر دیکھ کر کہا: حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قارون کے مکان ، اس کے خزانے اور اَموال حاصل کرنے کی وجہ سے اس کے لئے بددعا کی ہے۔ یہ سن کرآپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو اس کا مکان ، اس کے خزانے اور اموال سب زمین میں  دھنس گئے۔(خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۸۱، ۳ / ۴۴۲۴۴۳، مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۸۱، ص۸۸۱، ملتقطاً)

وَ اَصْبَحَ الَّذِیْنَ تَمَنَّوْا مَكَانَهٗ بِالْاَمْسِ یَقُوْلُوْنَ وَیْكَاَنَّ اللّٰهَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ وَ یَقْدِرُۚ-لَوْ لَاۤ اَنْ مَّنَّ اللّٰهُ عَلَیْنَا لَخَسَفَ بِنَاؕ-وَیْكَاَنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الْكٰفِرُوْنَ(82)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور گزشتہ کل جو اس کے مقام و مرتبہ کی آرزو کرنے والے تھے وہ کہنے لگے: عجیب بات ہے کہ الله اپنے بندوں میں سے جس کیلئے چاہتا ہے رزق وسیع کرتا ہے اورتنگ فرمادیتا ہے۔ اگر الله ہم پر احسان نہ فرماتا تو ہمیں بھی دھنسادیتا۔بڑی عجیب بات ہے کہ کافرکامیاب نہیں ہوتے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اَصْبَحَ الَّذِیْنَ تَمَنَّوْا مَكَانَهٗ بِالْاَمْسِ: اور گزشتہ کل جو اس کے مقام و مرتبہ کی آرزو کرنے والے تھے۔} یعنی جو لوگ قارون کے مال ودولت دیکھ کراس کے خواہش مند تھے، جب انہوں  نے قارون کاعِبْرَتْناک انجام دیکھاتو وہ اپنی اس آروز پر نادم ہو کر کہنے لگے :عجیب بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں  میں  سے جس کیلئے چاہتا ہے رزق وسیع کر دیتا ہے اور جس کے لئے چاہتا ہے تنگ فرمادیتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں  ایمان کی دولت عطا فرما کر ہم پراحسان نہ فرماتا تو ہم بھی قارون کی طرح زمین میں  دھنسادئیے جاتے ۔بڑی عجیب بات ہے کہ کافر کامیاب نہیں  ہوتے اور انہیں  اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات نہیں  ملتی۔( روح البیان، القصص، تحت الآیۃ: ۸۲، ۶ / ۴۳۶، خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۸۲، ۳ / ۴۴۳، ملتقطاً)

تِلْكَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَ لَا فَسَادًاؕ-وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِیْنَ(83)

ترجمہ: کنزالعرفان

یہ آخرت کا گھر ہم ان لوگوں کے لیے بناتے ہیں جو زمین میں تکبر اور فساد نہیں چاہتے اوراچھا انجام پرہیزگاروں ہی کیلئے ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{تِلْكَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ: یہ آخرت کا گھر۔} ارشاد فرمایا کہ آخرت کا گھر جنت جس کی خبریں  تم نے سنیں  اور جس کے اوصاف تم تک پہنچے ،اس کا مستحق ہم ان لوگوں کو بناتے ہیں  جو زمین میں  نہ تو ایمان لانے سے تکبر کرتے ہیں  اورنہ ایمان لانے والوں  پر بڑائی چاہتے ہیں  اور نہ ہی گناہ کر کے فساد چاہتے ہیں  اور آخرت کااچھا انجام پرہیزگاروں  ہی کیلئے ہے۔( روح البیان ، القصص ، تحت الآیۃ : ۸۳ ، ۶ / ۴۳۸ ، قرطبی، القصص، تحت الآیۃ: ۸۳، ۷ / ۲۴۰، الجزء الثالث عشر، ملتقطاً)

تکبر کرنے اور فساد پھیلانے سے بچیں :

            اس آیت سے معلوم ہواکہ تکبر کرنا اور فساد پھیلانااتنے برے کام ہیں  کہ ان کی وجہ سے بندہ جنت جیسی عظیم نعمت سے محروم رہ سکتا ہے جبکہ عاجزی و اِنکساری کرنا اور معاشرے میں  امن و سکون کی فضا پیدا کرنا اتنے عظیم کام ہیں  کہ ان کی بدولت بندہ جنت جیسی انتہائی عظمت و شان والی نعمت پا سکتا ہے، لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے قول اور فعل سے کسی طرح تکبر کا اظہار نہ کرے ،یونہی معاشرے میں  گناہ اور ظلم و زیادتی کے ذریعے فساد پھیلانے کی کوشش نہ کرے۔ حضرت عیاض بن حمار رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ نے مجھے وحی فرمائی (میں  تم لوگوں  کو حکم دوں ) کہ اِنکسار ی کرو حتّٰی کہ تم میں  سے کوئی کسی پر فخر نہ کرے اور نہ کوئی کسی پر ظلم کرے۔( مسلم ، کتاب الجنّۃ و صفۃ نعیمہا و اہلہا ، باب الصفات التی یعرف بہا فی الدنیا اہل الجنّۃ ۔۔۔ الخ ، ص ۱۵۳۳ ، الحدیث: ۶۴(۲۸۶۵))

مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ خَیْرٌ مِّنْهَاۚ-وَ مَنْ جَآءَ بِالسَّیِّئَةِ فَلَا یُجْزَى الَّذِیْنَ عَمِلُوا السَّیِّاٰتِ اِلَّا مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(84)

ترجمہ: کنزالعرفان

جو نیکی لائے گااس کے لیے اس سے بہتربدلہ ہے اور جو برائی لائے توبراکام کرنے والوں کو اتنا ہی بدلہ دیا جائے گا جتنا وہ کرتے تھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ خَیْرٌ مِّنْهَا: جو نیکی لائے گااس کے لیے اس سے بہتربدلہ ہے۔} یعنی قیامت کے دن جو شخص ایمان اور نیک اعمال لے کر بارگاہِ الٰہی میں  حاضر ہو گا تو اس کے لئے اس نیکی سے بہتر بدلہ ہے کہ اسے ایک نیکی کا ثواب کم ازکم دس گنا ملے گا اور زیادہ کی کوئی حد نہیں  ،پھر یہ ملنے والا ثواب دائمی ہے ، کبھی فنا نہ ہو گا اور یہ ثواب اس کے خیال و گمان سے بالا تر ہو گا اور جو برے اعمال لے کرحاضر ہو گا تو براکام کرنے والوں  کو اتنا ہی بدلہ دیا جائے گا جتنا وہ کرتےتھے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت سے اسے اس کے گناہوں  کے مطابق ہی سز املے ،گی اس میں  اضافہ نہ ہو گا۔( روح البیان، القصص، تحت الآیۃ: ۸۴، ۶ / ۴۳۹)

اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لَرَآدُّكَ اِلٰى مَعَادٍؕ-قُلْ رَّبِّیْۤ اَعْلَمُ مَنْ جَآءَ بِالْهُدٰى وَ مَنْ هُوَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(85)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک جس نے آپ پر قرآن فرض کیا ہے وہ آپ کو لوٹنے کی جگہ ضرور واپس لے جائے گا ۔تم فرماؤ: میرا رب خوب جانتا ہے جو ہدایت لایا ہے اوراسے بھی جو کھلی گمراہی میں ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ: بیشک جس نے آپ پر قرآن فرض کیا ہے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بے شک جس نے آپ پر قرآنِ مجید کی تلاوت اور تبلیغ کرنا اور اس کے اَحکام پر عمل کرنا لازم کیا ہے وہ آپ کو لوٹنے کی جگہ مکہ مکرمہ میں  ضرور واپس لے جائے گا ۔مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو فتح ِمکہ کے دن مکہ مکرمہ میں  بڑی شان و شوکت، عزت و وقار اور غلبہ و اِقتدار کے ساتھ داخل کرے گا، وہاں  کے رہنے والے سب آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زیرِ فرمان ہوں  گے، شرک اور اس کے حامی ذلیل و رسوا ہوں  گے ۔

شانِ نزول:یہ آیت ِکریمہ جُحْفَہ کے مقام پر اس وقت نازِل ہوئی جب رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرتے ہوئے وہاں  پہنچے اور آپ کو اپنے اور اپنے آباء کی ولادت گاہ مکہ مکرمہ کا شوق ہوا تو حضرت جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام آئے اور انہوں  نے عرض کی: کیا حضور کو اپنے شہر مکہ مکرمہ کا شوق ہے ؟ارشاد فرمایا: ’’ہاں ۔ انہوں  نے عرض کی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

’’ اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لَرَآدُّكَ اِلٰى مَعَادٍ‘‘

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک جس نے آپ پر قرآن فرض کیاہے وہ آپ کو لوٹنے کی جگہ ضرور واپس لے جائے گا ۔

یاد رہے کہ اس آیت میں  مذکور لفظ ’’مَعَادٍ‘‘ کی ایک تفسیر اوپر بیان ہوئی کہ اس سے مراد مکہ مکرمہ ہے اور بعض مفسرین نے اس سے موت ، قیامت اور جنت بھی مراد لی ہے ۔(مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۸۵، ص۸۸۲، خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۸۵، ۳ / ۴۴۳-۴۴۴، ملتقطاً)

{قُلْ رَّبِّیْۤ اَعْلَمُ: تم فرماؤ :میرا رب خوب جانتا ہے۔} شانِ نزول: آیتِ مبارکہ کا یہ حصہ ان کفارِ مکہ کے جواب میں  نازِل ہواجنہوں  نے سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں  مَعَاذَ اللہ یہ کہا: ’’اِنَّکَ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ‘‘ یعنی آپ ضرور کھلی گمراہی میں  ہیں ۔ان کے جواب میں  اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایاکہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرما دیں  کہ میرا رب عَزَّوَجَلَّ اسے خوب جانتا ہے جو ہدایت لایا ہے اوراسے بھی خوب جانتا ہے جو کھلی گمراہی میں  ہے ۔یعنی میرا رب عَزَّوَجَلَّ جانتا ہے کہ میں  ہدایت لایا ہوں  اور میرے لئے اس کا اجر و ثواب ہے جبکہ مشرکین کھلی گمراہی میں  ہیں  اور وہ سخت عذاب کے مستحق ہیں ۔( خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۸۵، ۳ / ۴۴۴، مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۸۵، ص۸۸۳، ملتقطاً)

وَ مَا كُنْتَ تَرْجُوْۤا اَنْ یُّلْقٰۤى اِلَیْكَ الْكِتٰبُ اِلَّا رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ ظَهِیْرًا لِّلْكٰفِرِیْنَ(86)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور تم امید نہ رکھتے تھے کہ تمہاری طرف کوئی کتاب بھیجی جائے گی لیکن تمہارے رب کی طرف سے رحمت ہے تو تم ہرگز کافروں کا مددگار نہ ہونا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مَا كُنْتَ تَرْجُوْۤا اَنْ یُّلْقٰۤى اِلَیْكَ الْكِتٰبُ: اور تم امید نہ رکھتے تھے کہ تمہاری طرف کوئی کتاب بھیجی جائے گی۔}ممکن ہے کہ اس آیت کا ظاہری معنی مراد ہو،اس صورت میں  آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ اے حبیب ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے علاوہ کسی اور سبب سے قرآن مجید ملنے کی امید نہ رکھتے تھے، اور جب اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے آپ کی طرف قرآن مجید نازل فرمایا ہے تو آپ پہلے کی طرح اب بھی کافروں  کے مددگار نہ ہونے پر قائم رہیں۔

          یہ بھی ممکن ہے کہ یہاں  بظاہر خطاب حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہو اور مراد آپ کی امت ہو، یعنی نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کو یہ توقّع نہ تھی کہ انہیں  یہ کتاب عطا کی جائے گی لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صدقے ان پر رحمت فرمائی اور ان کی طرف قرآن مجید جیسی عظیم الشّان کتاب بھیجی، تواے بندے!جب تمہیں  ایسی عظیم نعمت ملی ہے تو تم ہر گز کافروں  کے مددگار نہ ہونا بلکہ ان سے جدا رہنا اور ان کی مخالفت کرتے رہنا۔

حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو وحی نازل ہونے سے پہلے اپنی نبوت کی خبر تھی:

            یاد رہے کہ اس آیت سے یہ ہر گز ثابت نہیں  ہوتا کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ وحی نازل ہونے سے پہلے اپنی نبوت سے خبردار نہیں  تھے کیونکہ یہاں  ظاہری اَسباب کے لحاظ سے وحی نازل ہونے کی امید کی نفی ہے اور کثیر دلائل سے یہ بات ثابت ہے کہ وحی نازل ہونے سے پہلے بھی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنی نبوت کی خبر رکھتے تھے ،جیسے بحیرا راہب نے بچپن ہی میں  آپ کی نبوت کی خبر دے دی تھی،نسطورا راہب نے جوانی میں  آپ کی نبوت کی خبر دی اور حضرت جابر بن سمرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میں  مکہ میں  ایک پتھر کو پہچانتا ہوں  جو میری بِعثَت (اعلانِ نبوت) سے پہلے مجھ پر سلام عرض کیا کرتا تھا اور میں  اب بھی اسے پہچانتا ہوں ۔( مسلم، کتاب الفضائل، باب فضل نسب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔۔۔ الخ، ص۱۲۴۹، الحدیث: ۲(۲۲۷۷))

            حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  :صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کے لئے نبوت کب واجب ہوئی؟ارشاد فرمایا: ’’جس وقت حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام روح اور جسم کے درمیان تھے۔( ترمذی ، کتاب المناقب عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، باب ما جاء فی فضل النبیصلی اللّٰہ علیہ وسلم ، ۵ / ۳۵۱ ، الحدیث: ۳۶۲۹)

            ان تمام اَحادیث میں  اس بات کی مضبوط دلیل ہے کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو وحی نازل ہونے سے پہلے اپنے نبی ہونے کا علم تھا،لہٰذا یہ نظرِیّہ ہر گز درست نہیں  کہ حضورِ انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو وحی نازل ہونے کے بعد اپنے نبی ہونے کا علم ہو اتھا۔

وَ لَا یَصُدُّنَّكَ عَنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ بَعْدَ اِذْ اُنْزِلَتْ اِلَیْكَ وَ ادْعُ اِلٰى رَبِّكَ وَ لَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ(87)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ہرگز وہ تمہیں الله کی آیتوں سے نہ روکیں اس کے بعد کہ وہ تمہاری طرف نازل کی جاچکی ہیں اور اپنے رب کی طرف بلاؤ اور ہرگز شرک والوں میں سے نہ ہونا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَا یَصُدُّنَّكَ عَنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ: اور ہرگز وہ تمہیں اللہ کی آیتوں  سے نہ روکیں ۔} ارشاد فرمایاکہ جب اللہ تعالیٰ کی آیتیں  تمہاری طرف نازل ہو چکی ہیں  تو اس کے بعد ہر گزتم قرآن مجید کے معاملے میں  کفار کی گمراہ کُن باتوں  کی طرف توجہ نہ کرنا اور انہیں  ٹھکرا دینا اور تم مخلوق کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیَّت پر ایمان لانے اور اس کی عبادت کرنے کی دعوت دو اور ہرگز شرک کرنے والوں  کی مدد اور موافقت کر کے ان میں  سے نہ ہونا۔حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ یہ خطاب ظاہر میں  نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ہے اوراس سے مراد مومنین ہیں ۔( جلالین، القصص، تحت الآیۃ: ۸۷، ص۳۳۴، خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۸۷، ۳ / ۴۴۴، ملتقطاً)

وَ لَا تَدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَۘ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۫-كُلُّ شَیْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗؕ-لَهُ الْحُكْمُ وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ(88)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور الله کے ساتھ دوسرے خدا کی عبادت نہ کر ،اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔اس کی ذات کے سوا ہر چیز فانی ہے ، اسی کا حکم ہے اور اسی کی طرف تم پھیرے جاؤ گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَا تَدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ: اور اللہ کے ساتھ دوسرے خدا کی عبادت نہ کر۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جس طرح آپ پہلے بھی اللہ تعالیٰ کی ہی عبادت کر رہے تھے اسی طرح آئندہ بھی کرتے رہیں  اور اسی پر قائم رہیں  کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی عبادت کا مستحق نہیں  اور اس کے معبود ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ اس کی ذات کے سوا ہر چیز فانی بِالذّات ہے،دوسری دلیل یہ ہے کہ مخلوق کے درمیان اسی کا حکم نافذ ہے اور تیسری دلیل یہ ہے کہ آخرت میں  اسی کی طرف تمام لوگ پھیرے جائیں  گے اور وہی اعمال کی جزا دے گا۔یہاں  بھی یہ ممکن ہے کہ بظاہر خطاب رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہو اور سنایا امت کو جا رہاہو۔

Scroll to Top