سُوْرَۃُ القَارِعَة

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْقَارِعَةُ(1)مَا الْقَارِعَةُ(2)وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا الْقَارِعَةُﭤ(3)

ترجمہ: کنزالعرفان

وہ دل دہلادینے والی۔وہ دل دہلادینے والی کیاہے؟اور تجھے کیا معلوم کہ وہ دل دہلادینے والی کیاہے؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلْقَارِعَةُ: وہ دل دہلادینے والی۔} قارعہ قیامت کے ناموں  میں  سے ایک نام ہے اور ا س کا یہ نام اس لئے رکھا گیا کہ اس کی دہشت ،ہَولْناکی اور سختی سے (تمام انسانوں  کے) دل دہل جائیں  گے اور بعض مفسرین فرماتے ہیں  کہ حضرت اسرافیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی آواز کی وجہ سے قیامت کو ’’قارِعہ ‘‘ کہتے ہیں  کیونکہ جب وہ صُور میں  پھونک ماریں  گے تو ان کی پھونک کی آواز کی شدت سے تمام مخلوق مر جائے گی۔ (خازن، القارعۃ، تحت الآیۃ:۱، ۴ / ۴۰۳)

{وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا الْقَارِعَةُ: اور تجھے کیا معلوم کہ وہ دل دہلادینے والی کیاہے؟} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی  عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ،آپ قیامت کی ہَولْناکی، شدت اور دہشت کو ہماری طرف سے آنے والی وحی کے ذریعے ہی جان سکتے ہیں ۔تو یہاں  وحی کے بغیر قیامت کی ہَولْناکی کے علم کی نفی ہے(نہ کہ مُطلَق علم کی نفی ہے)۔( صاوی، القارعۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۶ / ۲۴۱۳)

یَوْمَ یَكُوْنُ النَّاسُ كَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوْثِ(4)

ترجمہ: کنزالعرفان

جس دن آدمی پھیلے ہوئے پروانوں کی طرح ہوں گے ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یَوْمَ یَكُوْنُ النَّاسُ كَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوْثِ: جس دن آدمی پھیلے ہوئے پروانوں کی طرح ہوں  گے۔} یعنی جس طرح پروانے شعلے پر گرتے وقت مُنتَشِر ہوتے ہیں  اور ان کے لئے کوئی ایک جہت مُعَیَّن نہیں  ہوتی بلکہ ہر ایک دوسرے کے خلاف جہت سے جاتا ہے یہی حال قیامت کے دن مخلوق کے اِنتشار کا ہو گا کہ جب انہیں  قبروں  سے اٹھایا جائے گا تو وہ پھیلے ہوئے پروانوں کی طرح مُنتَشِر ہوں  گے اور ہر ایک دوسرے کے خلاف جہت کی طرف جا رہا ہو گا۔( خازن، القارعۃ، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۴۰۳)

             یاد رہے کہ اس آیت میں  قبروں  سے اٹھتے وقت مخلوق کے اِنتشار کو پھیلے ہوئے پروانوں  کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جبکہ ان آیات: ’’یَوْمَ یَدْعُ الدَّاعِ اِلٰى شَیْءٍ نُّكُرٍۙ(۶)خُشَّعًا اَبْصَارُهُمْ یَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ كَاَنَّهُمْ جَرَادٌ مُّنْتَشِرٌ‘‘( قمر:۶،۷)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: جس دن پکارنے والا ایک سخت انجان بات کی طرف بلائے گا۔(تو)ان کی آنکھیں  نیچے جھکی ہوئی ہوں گی۔ قبروں  سے یوں  نکلیں  گے گویا وہ پھیلی ہوئی ٹڈیاں  ہیں  ۔

            میں  مخلوق کی کثرت کی وجہ سے انہیں  پھیلی ہوئی ٹڈیوں  سے تشبیہ دی گئی ہے ۔

وَ تَكُوْنُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ الْمَنْفُوْشِﭤ(5)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور پہاڑ رنگ برنگی دھنکی ہوئی اون کی طرح ہوجائیں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ تَكُوْنُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ الْمَنْفُوْشِ: اور پہاڑ رنگ برنگی دھنکی ہوئی اون کی طرح ہوجائیں  گے۔} یعنی دل دہلا دینے والی قیامت کی ہَولْناکی اور دہشت سے بلند و بالا اور مضبوط ترین پہاڑوں  کا یہ حال ہو گا کہ وہ ریزہ ریزہ ہو کر ہوا میں  اس طرح اڑتے پھریں  گے جس طرح رنگ برنگی اُون کے ریزے دُھنتے وقت ہوا میں  اڑتے ہیں  تو ا س وقت کمزور انسان کا حال کیا ہو گا!( خازن، القارعۃ، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۴۰۳، روح البیان، القارعۃ، تحت الآیۃ: ۵، ۱۰ / ۵۰۰، ملتقطاً)

فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ(6)فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍﭤ(7)وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ(8)فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌﭤ(9)وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْﭤ(10)نَارٌ حَامِیَةٌ(11)

ترجمہ: کنزالعرفان

توبہرحال جس کے ترازو بھاری ہوں گے ۔وہ تو پسندیدہ زندگی میں ہوگا۔اور بہرحال جس کے ترازو ہلکے پڑیں گے۔تو اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہوگا۔اور تجھے کیا معلوم کہ وہ کیا ہے؟ ایک شعلے مارتی آگ ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ: توبہرحال جس کے ترازو بھاری ہوں  گے۔} قیامت کا حال ذکر کرنے کے بعد یہاں  سے قیامت کے دن مخلوق کی دو قسمیں  بیان فرمائی گئیں،چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی5آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن حق کی پیروی کرنے کی وجہ سے جس کی نیکیوں کے ترازو بھاری ہوں  گے اوراس کے وزن دار نیک عمل زیادہ ہوں  گے وہ تو جنت کی پسندیدہ زندگی میں ہوگا اور جس کی نیکیوں  کے ترازو اس وجہ سے ہلکے پڑیں گے کہ وہ باطل کی پیروی کیا کرتا تھا تو اس کا ٹھکانا ہاویہ ہوگا اور تجھے کیا معلوم کہ وہ کیا ہے؟ وہ ایک شعلے مارتی آگ ہے جس میں  انتہا کی سوزش اور تیزی ہے۔

یہاں اعمال کے وزن سے متعلق دو باتیں ذہن نشین رہیں:

(1)…اعمال کا وزن کئے جانے کے بارے میں  ایک قول یہ ہے کہ قیامت کے دن مومن کی نیکیاں  اچھی صورت میں  لا کر میزان میں  رکھی جائیں  گی ،اگر وہ غالب ہوئیں  تو اس کے لئے جنت ہے اور کافر کی برائیاں  بدترین صورت میں  لا کر میزان میں  رکھی جائیں  گی اور ا س کی تول ہلکی پڑے گی کیونکہ کفار کے اعمال باطل ہیں  ان کا کچھ وزن نہیں  تو انہیں  جہنم میں  داخل کیا جائے گا،اورایک قول یہ ہے کہ قیامت کے دن صرف مومنوں  کے اعمال کا وزن کیا جائے گا تو جس مومن کی نیکیاں  برائیوں  پر غالب ہوئیں  وہ جنت میں  داخل ہو گا اور جس کے گناہ نیکیوں  پر غالب ہوئے تو وہ جہنم میں  داخل ہو گا اور اپنے گناہوں  کی سزا پوری ہونے کے بعد جہنم سے نکال کر جنت میں  داخل کر دیا جائے گا یا اللّٰہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم اور اپنی رحمت سے اسے معاف کر کے جنت میں  داخل کر دے گا جبکہ کفار کے اعمال کا وزن نہیں  کیا جائے گا جیساکہ اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’ فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا‘‘(کہف:۱۰۵)

فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ(6)فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍﭤ(7)وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ(8)فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌﭤ(9)وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْﭤ(10)نَارٌ حَامِیَةٌ(11)

ترجمہ: کنزالعرفان

توبہرحال جس کے ترازو بھاری ہوں گے ۔وہ تو پسندیدہ زندگی میں ہوگا۔اور بہرحال جس کے ترازو ہلکے پڑیں گے۔تو اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہوگا۔اور تجھے کیا معلوم کہ وہ کیا ہے؟ ایک شعلے مارتی آگ ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ: توبہرحال جس کے ترازو بھاری ہوں  گے۔} قیامت کا حال ذکر کرنے کے بعد یہاں  سے قیامت کے دن مخلوق کی دو قسمیں  بیان فرمائی گئیں،چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی5آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن حق کی پیروی کرنے کی وجہ سے جس کی نیکیوں کے ترازو بھاری ہوں  گے اوراس کے وزن دار نیک عمل زیادہ ہوں  گے وہ تو جنت کی پسندیدہ زندگی میں ہوگا اور جس کی نیکیوں  کے ترازو اس وجہ سے ہلکے پڑیں گے کہ وہ باطل کی پیروی کیا کرتا تھا تو اس کا ٹھکانا ہاویہ ہوگا اور تجھے کیا معلوم کہ وہ کیا ہے؟ وہ ایک شعلے مارتی آگ ہے جس میں  انتہا کی سوزش اور تیزی ہے۔

یہاں اعمال کے وزن سے متعلق دو باتیں ذہن نشین رہیں:

(1)…اعمال کا وزن کئے جانے کے بارے میں  ایک قول یہ ہے کہ قیامت کے دن مومن کی نیکیاں  اچھی صورت میں  لا کر میزان میں  رکھی جائیں  گی ،اگر وہ غالب ہوئیں  تو اس کے لئے جنت ہے اور کافر کی برائیاں  بدترین صورت میں  لا کر میزان میں  رکھی جائیں  گی اور ا س کی تول ہلکی پڑے گی کیونکہ کفار کے اعمال باطل ہیں  ان کا کچھ وزن نہیں  تو انہیں  جہنم میں  داخل کیا جائے گا،اورایک قول یہ ہے کہ قیامت کے دن صرف مومنوں  کے اعمال کا وزن کیا جائے گا تو جس مومن کی نیکیاں  برائیوں  پر غالب ہوئیں  وہ جنت میں  داخل ہو گا اور جس کے گناہ نیکیوں  پر غالب ہوئے تو وہ جہنم میں  داخل ہو گا اور اپنے گناہوں  کی سزا پوری ہونے کے بعد جہنم سے نکال کر جنت میں  داخل کر دیا جائے گا یا اللّٰہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم اور اپنی رحمت سے اسے معاف کر کے جنت میں  داخل کر دے گا جبکہ کفار کے اعمال کا وزن نہیں  کیا جائے گا جیساکہ اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’ فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا‘‘(کہف:۱۰۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: پس ہم ان کے لیے قیامت کے دنکوئی وزن قائم نہیں کریں  گے۔

(خازن، القارعۃ، تحت الآیۃ: ۶-۱۰، ۴ / ۴۰۳، مدارک، القارعۃ، تحت الآیۃ: ۶-۱۰، ص۱۳۷۰، ملتقطاً)

         البتہ اس بارے میں  تحقیق یہ ہے کہ جن کافروں  کو اللّٰہ تعالیٰ جلد دوزخ میں  ڈالناچاہے گاانہیں  اعمال کے وزن کے بغیر دوزخ میں  ڈال دے گا اور بقیہ کافروں  کے اعمال کا وزن کیاجائے گا اسی طرح بعض مسلمانوں  کو اللّٰہ تعالیٰ اعمال کا وزن کئے بغیر بے حساب جنت میں  داخل کر دے گا۔

(2)…قیامت کے دن میزان قائم کیا جانا اور اعمال کا وزن ہونا حق ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’وَالْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸)وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ‘‘(اعراف:۸، ۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:  اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے تو جن کے پلڑے بھاری ہوں  گے تو وہی لوگ فلاح پانےوالے ہوں  گے۔ اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں  گے تو وہی لوگ ہیں  جنہوں  نے اپنی جانوں  کوخسارے میں  ڈالا اس وجہ سے کہ وہ ہماری آیتوں  پر ظلم کیا کرتے تھے۔

پس ہم ان کے لیے قیامت کے دنکوئی وزن قائم نہیں کریں  گے۔

(خازن، القارعۃ، تحت الآیۃ: ۶-۱۰، ۴ / ۴۰۳، مدارک، القارعۃ، تحت الآیۃ: ۶-۱۰، ص۱۳۷۰، ملتقطاً)

         البتہ اس بارے میں  تحقیق یہ ہے کہ جن کافروں  کو اللّٰہ تعالیٰ جلد دوزخ میں  ڈالناچاہے گاانہیں  اعمال کے وزن کے بغیر دوزخ میں  ڈال دے گا اور بقیہ کافروں  کے اعمال کا وزن کیاجائے گا اسی طرح بعض مسلمانوں  کو اللّٰہ تعالیٰ اعمال کا وزن کئے بغیر بے حساب جنت میں  داخل کر دے گا۔

(2)…قیامت کے دن میزان قائم کیا جانا اور اعمال کا وزن ہونا حق ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’وَالْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸)وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ‘‘(اعراف:۸، ۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:  اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے تو جن کے پلڑے بھاری ہوں  گے تو وہی لوگ فلاح پانےوالے ہوں  گے۔ اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں  گے تو وہی لوگ ہیں  جنہوں  نے اپنی جانوں  کوخسارے میں  ڈالا اس وجہ سے کہ وہ ہماری آیتوں  پر ظلم کیا کرتے تھے۔

Scroll to Top