سُوْرَۃ الرَّعْد
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
ترجمہ: کنزالعرفان
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ، رحمت والاہے ۔
تفسیر: صراط الجنان
{ بِسْمِ اللّٰهِ: اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔(کنز العمال، کتاب الاذکار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول، الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔
{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)
’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل
علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں
(1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام جو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔
الٓـمّٓرٰ- تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِؕ-وَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ وَ لٰـكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یُؤْمِنُوْنَ(1)
ترجمہ: کنزالعرفان
’’المر‘‘، یہ کتاب کی آیتیں ہیں اور وہ جو تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے وہ حق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے
تفسیر: صراط الجنان
{الٓـمّٓرٰ:} یہ حروفِ مُقَطّعات میں سے ایک حرف ہے، اس کی مراد اللّٰہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔
{وَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ:اور وہ جو تمہاری طرف نازل کیا گیا۔} مشرکینِ مکہ کہتے تھے کہ یہ کلام محمد مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کاہے اور انہوں نے خود بنایا ہے، اس آیت میں ان کا رد کرتے ہوئے اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ یہ قرآن جو رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ان کے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے نازل کیا گیا حق ہے، اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں لیکن اکثر اہلِ مکہ اس بات پر ایمان نہیں لاتے کہ قرآن اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ (خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۱، ۳ / ۵۱، جلالین، الرعد، تحت الآیۃ: ۱، ص۲۰۰، ملتقطاً)
اَللّٰهُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَؕ-كُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّىؕ-یُدَبِّرُ الْاَمْرَ یُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّكُمْ بِلِقَآءِ رَبِّكُمْ تُوْقِنُوْنَ(2)
ترجمہ: کنزالعرفان
اللہ وہی ہے جس نے آسمانوں کو ستونوں کے بغیر بلند کیا جنہیں تم دیکھ سکو پھراس نے عرش پر اِستوا فرمایا جیسا اس کی شان کے لائق ہے اور سورج اور چاند کو کام میں لگادیا ۔ ہر ایک، ایک مقرر کئے ہوئے وعدہ تک چلتا رہے گا، اللہ کام کی تدبیر فرماتا ہے، تفصیل سے نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرلو۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَللّٰهُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ:اللّٰہ وہی ہے جس نے آسمانوں کو بلند کیا۔} اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت کے دلائل اور اپنی قدرت کے عجائب بیان فرمائے جو کہ اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیت پر دلالت کرتے ہیں ۔
آسمانوں کو ستونوں کے بغیر بلند کرنے کے معنی
آسمانوں کو ستونوں کے بغیر بلند کرنے کے دو معنی ہوسکتے ہیں ۔ (1)آسمانوں کو بغیر ستونوں کے بلند کیا جیسا کہ تم ان کو دیکھتے ہو یعنی حقیقت میں کوئی ستون ہی نہیں ہے ۔(2) یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ تمہارے دیکھنے میں آنے والے ستونوں کے بغیر بلند کیا ،اس صورت میں آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ ستون تو ہیں مگر تمہارے دیکھنے میں نہیں آتے۔ پہلا قول صحیح تر ہے اور یہی جمہور کا قول ہے۔ (خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۲، ۳ / ۵۱-۵۲، جمل، الرعد، تحت الآیۃ: ۲، ۴ / ۹۲، ملتقطاً)
{ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ:پھراس نے عرش پر استوا فرمایا۔} اللّٰہ تعالیٰ کے اپنی شان کے مطابق عرش پر استوا فرمانے کی تفصیل سورۂ اعراف کی آیت نمبر 54 کی تفسیر میں گزر چکی ہے۔
{وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ:اور سورج اور چاند کو کام میں لگا دیا۔} یعنی اپنے بندوں کے مَنافع اور ان کی ضروریات کوپورا کرنے کے لئے سورج اور چاند کو کام پر لگا دیا اوروہ حکم کے مطابق گردش میں ہیں ۔ سورج اور چاند میں سے ہر ایک، ایک مقرر کئے ہوئے وعدے یعنی دنیا کے فنا ہونے تک چلتا رہے گا۔ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ اَجَلٍ مُّسَمًّى سے سورج اور چاند کے درجات اور منازِل مراد ہیں یعنی وہ اپنے منازل اور درجات میں ایک حد تک گردش کرتے ہیں اس سے تجاوز نہیں کرسکتے ۔ اس کی تحقیق یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے سورج اور چاند میں سے ہر ایک کے لئے حرکت میں تیزی اور آہستگی کی ایک مخصوص مقدار کے ساتھ خاص جہت کی طرف خاص گردش مقرر فرمائی ہے۔ (مدارک، الرعد، تحت الآیۃ: ۲، ص۵۴۹، خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۲، ۳ / ۵۲، ملتقطاً)
{یُدَبِّرُ الْاَمْرَ:اللّٰہ کام کی تدبیر فرماتا ہے۔}اس میں بھی اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت کے کمال اور اس کی رحمت کی دلیل ہے کیونکہ پوری مخلوق اللّٰہ تعالیٰ کی تدبیر اور رحمت کی محتاج ہے اور سب اللّٰہ تعالیٰ کی قضا، قدرت اور قہر کے تحت داخل ہیں۔( خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۲، ۳ / ۵۲)
{یُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ: تفصیل سے نشانیاں بیان کرتا ہے۔} یعنی اللّٰہ تعالیٰ اپنی وحدانیت اور قدرت کے کمال پر دلالت کرنے والی نشانیاں تفصیل سے بیان فرماتا ہے اور اس میں حکمت یہ ہے کہ تم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی ملاقات کا یقین کرلو اور جان لو کہ جو ذات انسان کے معدوم ہونے کے بعد اسے موجود کرنے پر قادر ہے تو وہ انسان کو موت دینے کے بعد زندہ کرنے پر بھی قادر ہے۔ (خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۲، ۳ / ۵۲)
وَ هُوَ الَّذِیْ مَدَّ الْاَرْضَ وَ جَعَلَ فِیْهَا رَوَاسِیَ وَ اَنْهٰرًاؕ-وَ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ جَعَلَ فِیْهَا زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ یُغْشِی الَّیْلَ النَّهَارَؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ(3)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور وہی ہے جس نے زمین کو پھیلایا اور اس میں پہاڑاور نہریں بنائیں اور زمین میں ہر قسم کے پھل دو دو طرح کے بنائے ، وہ رات سے دن کو چھپا لیتا ہے، بیشک اس میں غور وفکر کرنے والوں کیلئے نشانیاں ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ هُوَ الَّذِیْ مَدَّ الْاَرْضَ:اور وہی ہے جس نے زمین کو پھیلایا ۔} اس سے پہلی آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت اور قدرت کے کمال پر آسمانی دلائل یعنی آسمانوں کے ستونوں کے بغیر بلند ہونے اور سورج و چاند کے اَحوال کا ذکر فرمایا جبکہ اس آیت میں زمینی دلائل کا ذکر فرمایا ہے۔ ان دلائل کا خلاصہ یہ ہے۔ (1) اللّٰہ تعالیٰ نے زمین کو پانی کی سطح پر پھیلایا۔ (2) زمین میں مضبوط پہاڑ نصب فرمائے۔ (3) مخلوق کے فائدے کیلئے زمین میں نہریں جاری فرمائیں ۔ (4) زمین میں ہر قسم کے پھل دو دو طرح کے بنائے یعنی سیاہ اور سفید، کھٹے اور میٹھے ، چھوٹے اور بڑے، خشکی اور باغات کے، گرم اور سرد، تر اور خشک وغیرہ۔ (5) اللّٰہ تعالیٰ دن کو رات کے اندھیرے سے اور رات کو دن کی روشنی سے چھپا دیتا ہے۔ بیشک ان عجیب و غریب صنعتوں میں غور وفکر کرنے والوں کیلئے نشانیاں ہیں جنہیں دیکھ کر وہ سمجھ جائیں گے کہ یہ تمام آثار، بنانے والے ، حکمت والے اور قدرت والے کے وجود پر دلالت کرتے ہیں ۔ (خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۵۲، مدارک، الرعد، تحت الآیۃ: ۳، ص۵۴۹، ملتقطاً)
آیت’’ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ‘‘سے معلوم ہونے والے مسائل:
ا س سے دو مسئلے معلوم ہوئے
(1)… سارا جہان سمجھدار کے لئے معرفت ِالٰہی کا دفتر ہے ،
(2)… فکر اور غور و خوض اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے، ایک ساعت کی فکر ہزار برس کے ذکر سے افضل ہے۔
وَ فِی الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ وَّ جَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّ زَرْعٌ وَّ نَخِیْلٌ صِنْوَانٌ وَّ غَیْرُ صِنْوَانٍ یُّسْقٰى بِمَآءٍ وَّاحِدٍ- وَ نُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلٰى بَعْضٍ فِی الْاُكُلِؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ(4)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور زمین کے مختلف حصے ہیں جو ایک دوسرے کے قریب قریب ہیں اور انگوروں کے باغ ہیں اور کھیتی اور کھجور کے درخت ہیں ایک جڑ سے اگے ہوئے اور الگ الگ اگے ہوئے ،سب کو ایک ہی پانی دیا جا تا ہے اور پھلوں میں ہم ایک کو دوسرے سے بہتر بناتے ہیں ، بیشک اس میں عقل مندوں کے لیے نشانیاں ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ فِی الْاَرْضِ قِطَعٌ:اور زمین کے مختلف حصے ہیں ۔} آیت کی ابتدا میں فرمایا کہ زمین کے مختلف حصے ہیں یعنی جو ایک دوسرے سے ملے ہوئے، ان میں سے کوئی قابلِ زراعت ہے کوئی ناقابلِ زراعت، کوئی پتھریلا ، کوئی ریتیلا، اس کے بعد ایک منفرد انداز میں قدرتِ الٰہی کا بیان فرمایا کہ ایک ہی پانی اور ایک ہی زمین سے قریب قریب ہونے کے باوجود اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ مختلف رنگ، خوشبو، ذائقے، سائز اور قسم کے پھل پیدا فرماتا ہے پھر ان میں سے ہر ایک میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی قدرت کی نشانیاں ہیں کہ ایک ہی درخت پر اُگنے والا کوئی پھل چھوٹا، کوئی بڑا، کوئی میٹھا، کوئی کھٹا اور اس کے علاوہ کیا کیا باریکیاں ایک ایک دانے میں رکھی گئی ہیں وہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّہی بہتر جانتا ہے۔
بنی آدم کے دلوں کی ایک مثال:
حضرت حسن بصری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ایک نکتے کے طور پر فرماتے ہیں ’’اس آیت میں بنی آدم کے دلوں کی ایک مثال بیان کی گئی ہے کہ جس طرح زمین ایک تھی اس کے مختلف حصے ہوئے ،ان پر آسمان سے ایک ہی پانی برسا تو اس سے مختلف قسم کے پھل پھول، بیل بوٹے، اچھے اور برے پیدا ہوئے ، اِسی طرح آدمی حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پیدا کئے گئے، ان پر آسمان سے ہدایت اُتری، اس ہدایت سے بعض دل نرم ہوئے اور ان میں خشوع وخضوع پیدا ہوا، بعض سخت ہوگئے اور کھیل کود اور لَغویات میں مبتلا ہوگئے تو جس طرح زمین کے حصے اپنے پھول پھل میں مختلف ہیں اس طرح انسانی دل اپنے آثار،انوار اور اَسرار میں مختلف ہیں۔ (صاوی، الرعد، تحت الآیۃ: ۴، ۳ / ۹۹۰، مدارک، الرعد، تحت الآیۃ: ۴، ص۵۵۰، ملتقطاً)
وَ اِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ ءَاِذَا كُنَّا تُرٰبًا ءَاِنَّا لَفِیْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ ﱟ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ الْاَغْلٰلُ فِیْۤ اَعْنَاقِهِمْۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(5)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اگر تم تعجب کرو تو تعجب والی چیزتو ان کا یہ کہنا ہے کہ کیا جب ہم مٹی ہو جائیں گے تو کیا ہم پھر نئے سرے سے بنائے جائیں گے۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کا انکار کیا اور یہی ہیں جن کی گردنوں میں طوق ہوں گے اور یہی جہنمی ہیں ،اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِنْ تَعْجَبْ:اور اگر تم تعجب کرو۔} یعنی اے حبیب!صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر آپ صادق و امین معروف ہونے کے باوجود کفار کے جھٹلانے کی وجہ سے تعجب کررہے ہیں تو اس سے بڑھ کر تعجب کے قابل تو ان کا یہ کہنا ہے کہ جب ہم مرنے کے بعد مٹی ہو جائیں گے تو کیا ہم پھر نئے سرے سے ویسے ہی بنائے جائیں گے جیسے ہم مرنے سے پہلے تھے۔ یہ بات ان کی سمجھ میں نہ آئی کہ جس نے ابتداء ً بغیر مثال کے پیدا کردیا اس کو دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کا انکار کیا ، ان کا انجام یہ ہوگا کہ بروزِ قیامت ان کی گردنوں میں طوق ہوں گے، یہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے اوراس سے نہ کبھی نکل سکیں گے اور نہ انہیں وہاں موت آئے گی۔ (خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۵، ۳ / ۵۳، جلالین، الرعد، تحت الآیۃ: ۵، ص۲۰۰، ملتقطاً)
وَ یَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالسَّیِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ وَ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمُ الْمَثُلٰتُؕ-وَ اِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلٰى ظُلْمِهِمْۚ-وَ اِنَّ رَبَّكَ لَشَدِیْدُ الْعِقَابِ(6)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور رحمت سے پہلے تم سے عذاب کا جلدی مطالبہ کرتے ہیں حالانکہ ان سے پہلے عبرتناک سزائیں گزر چکی ہیں اور بیشک تمہارا رب تو لوگوں کے ظلم کے باوجود بھی انہیں ایک قسم کی معافی دینے والا ہے اور بیشک تمہارے رب کا عذاب سخت ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالسَّیِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ:اور رحمت سے پہلے تم سے عذاب کا جلدی مطالبہ کرتے ہیں ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مکہ کے مشرکین مذاق اڑاتے ہوئے آپ سے عافیت اور سلامتی کے بدلے جلدی عذاب نازل ہونے کا مطالبہ کرتے ہیں حالانکہ ان سے پہلے اپنے رسولوں کو جھٹلانے والی امتوں کی عبرتناک سزائیں گزر چکی ہیں ، ان کا حال دیکھ کر انہیں عبرت حاصل کرنی چاہئے اور اے حبیب!صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ تو لوگوں کے شرک کے باوجود بھی ایک طرح کی معافی دینے والا ہے کہ ان کے عذاب میں جلدی نہیں فرماتا اور انہیں مہلت دیتا ہے تو ان لوگوں کو تو اس مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے توبہ کرنی چاہیے اور کفروشرک سے باز آجانا چاہیے اور ہرگز ہرگز غافل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ جب عذاب نازل فرماتا ہے تو اس کا عذاب بھی بڑا سخت ہوتا ہے۔ (خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۶، ۳ / ۵۳-۵۴)
اللّٰہ تعالیٰ کاعَفْو دیکھ کر غافل نہیں ہونا چاہئے:
اس سے معلوم ہوا کہ ہمارے ایک سے ایک بڑے گناہ کے باوجود اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے فوری پکڑ نہ ہونا اور جلد سزا نہ ملنا اللّٰہ تعالیٰ کا عفو و درگزر اور اس کی رحمت ہے اور اس کے نتیجے میں ہونا یہ چاہئے کہ بندہ اپنے گناہوں سے تائب ہو کر اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری والے کاموں میں مصروف ہو جائے اور اس کی رحمت دیکھ کر ہر گز غفلت کا شکار نہ ہو کیونکہ وہ رحیم و کریم ہے تو جبّار و قَہّار بھی ہے ،و ہ عفو ودرگزر کرنے والا ہے تو پکڑ و گرفت فرمانے والا بھی ہے، وہ گناہوں کوبخشنے والا ہے تو گناہوں پر سزا اور عذاب دینے والا بھی ہے، لیکن افسوس! ہمارا حال اس کے انتہائی برعکس نظر آرہا ہے کہ ہم اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی طرف سے ملنے والی مہلت سے فائدہ اٹھانے کی بجائے اپنی نافرمانی اور سرکشی والی عادت کو مزید پختہ کئے جا رہے ہیں اور اس بات کو اپنے حاشیۂ خیال تک میں لانے کو تیار نہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت وسیع ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا عذاب بھی بہت سخت ہے۔
اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَ رَبُّكَ الْغَفُوْرُ ذُو الرَّحْمَةِؕ-لَوْ یُؤَاخِذُهُمْ بِمَا كَسَبُوْا لَعَجَّلَ لَهُمُ الْعَذَابَؕ-بَلْ لَّهُمْ مَّوْعِدٌ لَّنْ یَّجِدُوْا مِنْ دُوْنِهٖ مَوْىٕلًا(کہف:۵۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور تمہارا رب بڑا بخشنے والا،رحمت وا لا ہے۔ اگر وہ لوگوں کو ان کے اعمال کی بنا پر پکڑ لیتا تو جلد ان پر عذاب بھیج دیتا بلکہ ان کے لیے ایک وعدے کا وقت ہے جس کے سامنے کوئی پناہ نہ پائیں گے۔
اور ارشاد فرماتا ہے:
نَبِّئْ عِبَادِیْۤ اَنِّیْۤ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُۙ(۴۹)وَ اَنَّ عَذَابِیْ هُوَ الْعَذَابُ الْاَلِیْمُ(حجر: ۴۹، ۵۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:میرے بندوں کو خبردو کہ بیشک میں ہی بخشنےوالا مہربان ہوں ۔ اوربیشک میرا ہی عذاب دردناک عذاب ہے۔
حضرت شداد بن اوس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کا مُحاسبہ کرے اور موت کے بعد کے لئے عمل کرے اور عاجز وہ ہے جو اپنے آپ کو خواہشات کے پیچھے لگا کر رکھے اور اللّٰہ تعالیٰ سے امید رکھے۔ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۲۵-باب، ۴ / ۲۰۷، الحدیث: ۲۴۶۷)
حضرت یحییٰ بن معاذرَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں’’میرے نزدیک سب سے بڑا دھوکہ یہ ہے کہ معافی کی امید پر ندامت کے بغیر آدمی گناہوں میں بڑھتا جائے ،اطاعت کے بغیر اللّٰہ تعالیٰ کے قرب کی توقع رکھے ،جہنم کا بیج ڈال کر جنت کی کھیتی کا منتظر رہے،گناہوں کے ساتھ عبادت گزار لوگوں کے گھر کا طالب ہو،عمل کے بغیر جزا کا انتظار کرے اور زیادتی کے باوجود اللّٰہ تعالیٰ سے(مغفرت کی) تمنا کرے۔(احیاء علوم الدین، کتاب الخوف والرجاء، بیان حقیقۃ الرجاء، ۴ / ۱۷۶)
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اپنے عفو سے غافل نہ ہونے، اپنے عذاب سے ڈرتے رہنے اور اپنی آخرت کو بہتر بنانے کے لئے نیک اعمال کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ اٰیَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖؕ-اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّ لِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ(7)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور کا فر کہتے ہیں : ان پر ان کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیو ں نہیں اتری ؟(اے حبیب!) تم تو ڈر سنانے والے ہو اور ہر قوم کے ہادی ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا:اور کا فر کہتے ہیں ۔} یعنی کفارِ مکہ کہتے ہیں کہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ان کے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ویسی نشانی کیوں نہیں اتری جیسی حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر نازل ہوئی۔( ابوسعود، الرعد، تحت الآیۃ: ۷، ۳ / ۱۴۹)
کافروں کا عناد اور نا انصافی:
کافروں کا یہ قول نہایت بے ایمانی کا قول تھا کیونکہ جتنی آیات نازل ہوچکی تھیں اور جتنے معجزات دکھائے جا چکے تھے سب کو انہوں نے کالعدم قرار دے دیا، یہ انتہا درجہ کی ناانصافی اور حق دشمنی ہے۔ جب دلائل قائم ہوچکیں اور ناقابلِ انکار شواہد پیش کردیئے جائیں اور ایسے دلائل سے مُدّعا ثابت کردیا جائے جس کے جواب سے مخالفین کے تمام اہلِ علم و ہنر عاجز اور حیران رہیں اور انہیں لب ہلانا ،زبان کھولنا محال ہوجائے ،توایسے روشن دلائل ،واضح شواہد اور ظاہر معجزات کودیکھ کر یہ کہہ دینا کہ کوئی نشانی کیوں نہیں اُترتی؟ روزِ روشن میں دن کا انکار کردینے سے بھی زیادہ بدتر اور باطل تر ہےاور حقیقت میں یہ حق کو پہچان کر اس سے عناد اور فرار ہے کیونکہ کسی دعوے پر جب مضبوط دلیل قائم ہوجائے پھر اس پر دوبارہ دلیل قائم کرنی ضروری نہیں رہتی اور ایسی حالت میں دلیل طلب کرنا عناد اور مخالفت ہوتا ہے اورجب تک پہلی دلیل کو رد نہ کردیا جائے کوئی شخص دوسری دلیل طلب کرنے کا حق نہیں رکھتا اور اگر یہ سلسلہ قائم کردیا جائے کہ ہر شخص کے لئے نئی دلیل قائم کی جائے جس کو وہ طلب کرے اور وہی نشانی لائی جائے جو وہ مانگے تو نشانیوں کا سلسلہ کبھی ختم نہ ہوگا، اس لئے اللّٰہ تعالیٰ کی حکمت یہ ہے کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ایسے معجزات دیئے جاتے ہیں جن سے ہر شخص ان کی صداقت اور نبوت کا یقین کرسکے اور بہت سے معجزات اس قسم کے ہوتے ہیں کہ جس میں اُن کی امت اور ان کے زمانے کے لوگ زیادہ مشق و مہارت رکھتے ہیں جیسے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانہ میں جادو کا علم اپنے کمال کو پہنچاہوا تھا اور اس زمانے کے لوگ جادو کے بڑے ماہرِ کامل تھے تو حضر ت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو وہ معجزہ عطا ہوا جس نے جادو کو باطل کردیا اور جادوگروں کو یقین دلا دیا کہ جو کمال حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دکھایا وہ رَبّانی نشان ہے ،جادو سے اس کا مقابلہ ممکن نہیں ۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے میں طب انتہائی عروج پر تھی اس لئے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شفائے اَمراض اور مردے زندہ کرنے کا وہ معجزہ عطا فرمایا جس سے طب کے ماہرین عاجز ہوگئے اور وہ اس یقین پر مجبور تھے کہ یہ کام طب سے ناممکن ہے ، لہٰذا یقینا یہ قدرتِ الہٰی کازبردست نشان ہے۔ اسی طرح سرکارِ دوعالَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانۂ مبارکہ میں عرب کی فصاحت و بلاغت اَوجِ کمال پرپہنچی ہوئی تھی اور وہ لوگ خوش بیانی میں عالَم پر فائق تھے ،سرورِعالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اللّٰہ تعالیٰ نے وہ معجزہ عطا فرمایا جس نے اُنہیں عاجزو حیران کردیا اوراُن کے بڑے سے بڑے لوگ اور اُن کے اہلِ کمال کے گروہ قرآنِ کریم کے مقابل ایک چھوٹی سی عبارت پیش کرنے سے بھی عاجز و قاصر رہے اور قرآن کے اس کمال نے یہ ثابت کردیا کہ بیشک یہ رَبّانی عظیم نشان ہے اور اس کا مثل بنا لا نا بشری قوت کیلئے ممکن نہیں ،اس کے علاوہ اور صدہا معجزات رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پیش فرمائے جنہوں نے ہر طبقہ کے انسانوں کو آپ کی رسالت کی صداقت کا یقین دلادیا، ان معجزات کے ہوتے ہوئے یہ کہہ دینا کہ کوئی نشانی کیوں نہیں اُتری کس قدر عناد اور حق سے مکرنا ہے۔( تفسیرکبیر، الرعد، تحت الآیۃ: ۷، ۷ / ۱۳، ملخصاً)
{اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُنْذِرٌ:تم تو ڈر سنانے والے ہو۔} یعنی اے حبیب!صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اپنی نبوت کے دلائل پیشکرنے اور اطمینان بخش معجزات دکھا کر اپنی رسالت ثابت کردینے کے بعد احکامِ الہٰیہ پہنچانے اور خدا عَزَّوَجَلَّ کا خوف دلانے کے سوا آپ پر کچھ لازم نہیں اور ہر ہر شخص کے لئے اس کی طلب کردہ جدا جدا نشانیاں پیش کرنا آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ضروری نہیں جیسا کہ آپ سے پہلے ہادیوں یعنی انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا طریقہ رہا ہے۔(ابوسعود، الرعد، تحت الآیۃ: ۷، ۳ / ۱۴۹-۱۵۰، ملخصاً)
{وَ لِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ: اور ہر قوم کے ہادی ہو۔} حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کا ایک قول یہ ہے کہ اس آیت میں ’’ہادی ‘‘ سے مراد اللّٰہ تعالیٰ ہے ۔ اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کی ذمہ داری ڈر سنانا ہے جبکہ ہدایت دینے والا اللّٰہ تعالیٰ ہے ،وہ جسے چاہے ہدایت عطا فرما دے۔دوسرا قول یہ ہے کہ ’’ہادی‘‘سے مراد رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں اور آیت کا معنی یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،تم تو ڈر سنانے والے ہو اور ہر قوم کے ہادی ہو۔ (خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۷، ۳ / ۵۴)
بعض مفسرین کے نزدیک آیت کے معنی یہ ہیں کہ ہر قوم کے لئے ہادی یعنی انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہوئے ہیں ،وہ اپنی قوموں کو ان کی من مانی نشانیوں کی بجائے ان نشانیوں کے ساتھ دین کی طرف ہدایت دیتے اور اللّٰہ تعالیٰ کی طرف بلاتے تھے جو خصوصی طور پر انہیں عطا ہوئی تھیں ۔(مدارک، الرعد، تحت الآیۃ: ۷، ص۵۵۰)
اَللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ اُنْثٰى وَ مَا تَغِیْضُ الْاَرْحَامُ وَ مَا تَزْدَادُؕ-وَ كُلُّ شَیْءٍ عِنْدَهٗ بِمِقْدَارٍ(8)عٰلِمُ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ الْكَبِیْرُ الْمُتَعَالِ(9)
ترجمہ: کنزالعرفان
اللہ جانتا ہے جو ہرمادہ کے پیٹ میں ہے اور جو پیٹ کم اور زیادہ ہوتے ہیں اور ہر چیز اس کے پاس ایک اندازے سے ہے۔وہ ہر غیب اور ظاہر کو جاننے والا، سب سے بڑا، بلند شان والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَللّٰهُ یَعْلَمُ:اللّٰہ جانتا ہے ۔}اس سے پہلی آیات میں کفار ِمکہ نے ان نشانیوں کے علاوہ نشانی طلب کی تھی جو رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ انہیں دکھا چکے تھے چنانچہ رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں اللّٰہ تعالیٰ کی عظیم قدرت اوراس کے کمالِ علم کی خبر دیتے ہوئے فرمایا کسی مادہ کے پیٹ میں جو کچھ ہے اللّٰہ تعالیٰ اس کے بارے میں جانتا ہے کہ وہ نر ہے یا مادہ ، ایک ہے یا زیادہ اور اس کی تخلیق پوری ہو چکی یا نہیں اور اللّٰہ تعالیٰ یہ بھی جانتا ہے کہ کس کے پیٹ کا بچہ جلدی پیدا ہو گا اور کس کا دیر میں ۔ بعض مفسرین نے یہ بھی کہا ہے پیٹ کے گھٹنے بڑھنے سے بچے کا مضبوط ، خِلقت میں پورا اور ناقص ہونا مراد ہے۔(خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۸، ۳ / ۵۴)
کیا جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے رحم میں بچے کے بارے میں جاننا قرآن کے خلاف ہے؟
اس کے بارے میں جاننے کے لئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی یہ تحریر انتہائی مفید ہے، چنانچہ ماؤں کے رحم سے متعلق چند آیات ذکر کرنے کے بعد آپ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ آیاتِ کریمہ میں مولیٰ سُبْحٰنَہٗ وَتَعَالٰی اپنے بے پایاں علوم کے بے شمار اقسام سے ایک سہل قسم کابہت اجمالی ذکر فرماتا ہے کہ ہرمادہ کے پیٹ میں جوکچھ ہے سب کا سارا حال (جیسے) پیٹ رہتے وقت اور اس سے پہلے اور پیدا ہوتے اور پیٹ میں رہتے اور جو کچھ اس پر گزرا اور گزرنے والا ہے، جتنی عمرپائے گا، جوکچھ کام کرے گا، جب تک پیٹ میں رہے گا، اس کا اندرونی بیرونی ایک ایک عضو ، ایک ایک پرزہ جوصورت دیا گیا، جو دیا جائے گا ، ہر ہر رونگٹا جو مقدار، مساحت ،وزن پائے گا، بچے کی لاغری، فربہی، غذا، حرکت ِخفیفہ زائدہ، انبساط، انقباض اور زیادت وقلت ِخون، طمث وحصولِ فضلات وہوا و رطوبات وغیرہا کے باعث آن آن پرپیٹ جو سمٹتے پھیلتے ہیں ،غرض ذرہ ذرہ سب اسے معلوم ہے، ان میں کہیں نہ تخصیص ذکورت وانوثت کاذکر، نہ مطلق علم کی نفی وحصر، تویہ مہمل ومختل اعتراض پادر ہوا کہ بعض پادریانِ پادر بند ہوا کی تازہ گھڑت ہے۔ اس کااصل منشا معنی آیات میں بے فہمی محض یاحسب ِعادت دیدہ ودانستہ کلامِ الہٰی پرافترا وتہمت ہے۔ قرآنِ عظیم نے کس جگہ فرمایا ہے کہ کوئی کبھی کسی مادہ کے حمل کو کسی طرح تدبیر سے اتنا معلوم نہیں کرسکتا کہ نرہے یا مادہ، اگر کہیں ایسا فرمایا ہو تو نشان دو، اور جب یہ نہیں توبعض وقت بعض اناث کے بعض حمل کابعض حال بعض تدابیر سے بعض اشخاص نے بعد جہل طویل وعجز مدیدبعض آلات بیجان کا فقیر ومحتاج ہوکر اس فانی وزائل وبے حقیقت نام کے ایک ذرہ علم وقدرت سے (کہ وہ بھی اسی بارگاہ علیم وقدیر سے حصہ رسد چندروز سے چندروز کے لئے پائے اورا ب بھی اسی کے قبضہ واقتدار میں ہیں کہ بے اس کے کچھ کام نہ دیں ) اگر صحرا سے ذرہ سمندر سے قطرہ معلوم کرلیا تو یہ آیاتِ کریمہ کے کس حرف کا خلاف ہوا؟
وہ خود فرماتاہے:
’’یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْۚ-وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَ‘‘(بقرہ:۲۵۵)
اللّٰہ جانتاہے جوان کے آگے ہے اورجوکچھ پیچھے اوروہ نہیں پاتے اس کے علم سے کسی چیزکو مگرجتنی وہ چاہے۔
تمام جہان میں روزِ اول سے ابدالآباد تک جس نے جوکچھ جانا یا جانے گا سب اسی اِلَّا بِمَاشَآءکے استثناء میں داخل ہے جس کے لاکھوں کروڑوں سربفلک کشیدہ پہاڑوں سے ایک نہایت قلیل وذلیل وبے مقدار ذرہ یہ آلہ بھی ہے، ایسا ہی اعتراض کرنا ہو تو بے گنتی گزشتہ وآئندہ باتوں کاجوعلم ہم کو ہے اسی سے کیوں نہ اعتراض کرے جو صیغہ ’’یَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِ‘‘میں ہے کہ اللّٰہ جانتاہے جوکچھ مادہ کے پیٹ میں ہے بعینہٖ وہی صیغہ’’ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ‘‘میں ہے کہ اللّٰہ جانتاہے جوکچھ گزرا اورجوکچھ ان کے پیچھے ہے۔ جب ان بے شمار علوم تاریخی وآسمانی ملنے میں کسی عاقل منصف کے نزدیک اس آیت کاکچھ خلاف نہ ہوا ،نہ تیرہ سوبرس سے آج تک کسی پادری صاحب کوان علوم کے باعث اس آیۃ کریمہ پرلب کشائی کاجنون اچھلا تواب ایک ذرا سی آلیا نکال کر اس آیت کا کیا بگاڑ متصور ہوسکتا ہے، ہاں عقل نہ ہو تو بندہ مجبور ہے یاانصاف نہ ملے تو انکھیارا بھی کور ہے ۔ وَلَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاﷲِ الْعَلِیِّ الْعَظِیمْ۔(فتاویٰ رضویہ، ۲۶ / ۴۷۰-۴۷۱)
نوٹ:علومِ ارحام سے تعلق رکھنے والی آیات سے متعلق مزید تفصیل جاننے کے لئے فتاویٰ رضویہ کی 26ویں جلد میں موجود رسالہ ’’اَلصَّمْصَام عَلٰی مُشَکِّکٍ فِیْ اٰیَۃِ عُلُوْمِ الْاَرْحَام‘‘ (علوم ارحام سے متعلق آیات کی تفسیر)کا مطالعہ فرمائیں ۔
{وَ كُلُّ شَیْءٍ عِنْدَهٗ بِمِقْدَارٍ:اور ہر چیز اس کے پاس ایک اندازے سے ہے۔} یعنی ہر چیز کی ایک مقدار ہے اور کوئی چیز اپنی مقدار سے کم یا زیادہ نہیں ہوسکتی۔(مدارک، الرعد، تحت الآیۃ: ۸،ص۵۵۱) یہی مضمون قرآنِ پاک کی اور آیات میں بھی بیان ہوا ہے جیساکہ سورۂ قمر میں ہے
’’اِنَّا كُلَّ شَیْءٍ خَلَقْنٰهُ بِقَدَرٍ‘‘(قمر:۴۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ہم نے ہر چیز ایک اندازہ سے پیدا فرمائی۔
اور سورہ ٔفرقان میں ہے
’’وَ خَلَقَ كُلَّ شَیْءٍ فَقَدَّرَهٗ تَقْدِیْرًا‘‘(فرقان:۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس نے ہر چیز کوپیدا فرمایاپھر اسے ٹھیک اندازے پر رکھا۔
{عٰلِمُ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ:وہ ہر غیب اور ظاہر کو جاننے والا۔} یعنی جو چیزیں ہمارے لئے غیب ہیں اور جو چیزیں ہمارے سامنے ظاہر ہیں اللّٰہ تعالیٰ ان سب کو جانتا ہے، ورنہ اللّٰہ تعالیٰ کے لئے تو کوئی بھی چیز غیب نہیں ۔ اللّٰہ تعالیٰ ازل سے ابد تک ہر کمال سے مُتّصِف ہے اور ہر طرح کے نقص سے پاک ہے۔(صاوی، الرعد، تحت االآیۃ: ۹، ۳ / ۹۹۳)
سَوَآءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَ مَنْ جَهَرَ بِهٖ وَ مَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍۭ بِالَّیْلِ وَ سَارِبٌۢ بِالنَّهَارِ(10)
ترجمہ: کنزالعرفان
برابر ہیں تم میں جو آہستہ بات کرے اور جوبلند آواز سے کہے اور جو رات میں چھپا ہے اور جو دن میں راستے پر چلتا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{سَوَآءٌ:برابر ہیں ۔} یعنی دل کی چھپی او رزبان سے اعلانیہ کہی ہوئی باتیں اور رات کو چھپ کر کئے ہوئے عمل اور دن کو ظاہری طور پر کئے ہوئے کام سب اللّٰہ تعالیٰ جانتا ہے، کوئی اس کے علم سے باہر نہیں ۔(جلالین، الرعد، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۲۰۱)
عمل میں اخلاص پیدا کرنے اور دونوں جہاں کی سعادت حاصل کرنے کا طریقہ:
علامہ صاوی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :جس نے بھی اس آیت میں غورو فکر کیا اور اس کے تقاضوں کےمطابق عمل کیا تو اس کے عمل میں اخلاص آ ہی جائے گا ،پھر وہ عبادت چاہے اعلانیہ کرے یا پوشیدہ طور پر ،دن میں کرے یا رات میں سب اس کے نزدیک برابر ہو گا کیونکہ جب وہ یہ بات اپنے ذہن میں رکھے گا کہ میراہر حال اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے علم میں ہے اور اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے کوئی بھی چیز پوشیدہ نہیں تو وہ اپنے ظاہر اور باطن میں کوئی ایسا کام کرنے کی جرأت نہ کرے گا جس سے اللّٰہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ (صاوی، الرعد، تحت االآیۃ: ۱۰، ۳ / ۹۹۳)
اورامام غزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ایک دانشمند کا قول ہے کہ انسان جتنا تنگدستی سے ڈرتا ہے، اگر اتنا جہنم سے ڈرتا تو دونوں سے نجات پالیتا اور جتنی اسے دولت سے محبت ہے اگر جنت سے اسے اتنی محبت ہوتی تو دونوں کو پالیتا اور جتنا ظاہر میں لوگوں سے ڈرتا ہے اگراتنا باطن میںاللّٰہ تعالیٰ سے ڈرتا تو دونوں جہانوں میں سعید شمار ہوتا۔(احیاء علوم الدین، کتاب الفقر والزہد، بیان فضیلۃ الفقر مطلقاً، ۴ / ۲۴۵) ترغیب کے لئے یہاں ایک حکایت ملاحظہ فرمائیں ۔
میرا رب عَزَّوَجَلَّ مجھے دیکھ رہا ہے:
حضرت اسلم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اکثر رات کے وقت مدینہ منورہ کا دورہ فرماتے تاکہ اگر کسی کو کوئی حاجت ہو تو اسے پورا کریں ، ایک رات میں بھی ان کے ساتھ تھا، آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ چلتے چلتے اچانک ایک گھر کے پاس رک گئے، اندر سے ایک عورت کی آواز آ رہی تھی کہ ’’بیٹی دودھ میں تھوڑا سا پانی ملا دو ۔ لڑکی یہ سن کر بولی ’’امی جان ! کیا آپ کو معلوم نہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حکم جاری فرمایا ہے کہ کوئی بھی دودھ میں پانی نہ ملائے۔ ماں نے یہ سن کر کہا: بیٹی! اب تو تمہیں حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نہیں دیکھ رہے، انہیں کیا معلوم کہ تم نے دودھ میں پانی ملایا ہے، جاؤ اور دودھ میں پانی ملا دو۔ لڑکی نے یہ سن کر کہا:’’ خدا کی قسم! میں ہر گز ایسا نہیں کرسکتی کہ ان کے سامنے تو ان کی فرمانبرداری کروں اور ان کی غیر موجود گی میں ان کی نافرمانی کروں، اس وقت اگر چہ مجھے حضرت عمربن خطاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نہیں دیکھ رہے، لیکن میرا رب عَزَّوَجَلَّ تو مجھے دیکھ رہا ہے، میں ہر گز دودھ میں پانی نہیں ملاؤں گی ۔ حضرت عمرفاروق رَضِی َاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ماں بیٹی کے درمیان ہونے والی تمام گفتگو سن لی تھی ۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس لڑکی کے شادی شدہ ہونے کے بارے میں معلومات حاصل کیں تو پتا چلا کہ ابھی اس کی شادی نہیں ہوئی ۔ چنا نچہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس لڑکی کے گھر اپنے صاحبزادے حضرت عاصم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے شادی کے لئے پیغام بھیجا تو انہوں نے بخوشی قبول کرلیا۔ اس طرح حضرت عاصم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی شادی اس لڑکی سے ہوگئی اور پھر ان کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی جس سے حضرت عمر بن عبدالعزیز رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی ولادت ہوئی۔(عیون الحکایات، الحکایۃ الثانیۃ عشرۃ، ص۲۸-۲۹، ملخصاً)
لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَیْنِ یَدَیْهِ وَ مِنْ خَلْفِهٖ یَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْؕ-وَ اِذَاۤ اَرَادَ اللّٰهُ بِقَوْمٍ سُوْٓءًا فَلَا مَرَدَّ لَهٗۚ-وَ مَا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّالٍ(11)
ترجمہ: کنزالعرفان
آدمی کے لیے اس کے آگے اور اس کے پیچھے بدل بدل کر باری باری آنے والے فرشتے ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی نگہبانی کرتے ہیں ۔ بیشک اللہ کسی قوم سے اپنی نعمت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلیں اور جب اللہ کسی قوم کے ساتھ برائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے کوئی پھیرنے والا نہیں اور اس کے سوا ان کا کوئی حمایتی نہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ:آدمی کے لیے بدل بدل کر باری باری آنے والے فرشتے ہیں ۔} جمہور مفسرین کے نزدیک ان فرشتوں سے دن اور رات میں حفاظت کرنے والے فرشتے مراد ہیں ، انہیں بدل بدل کر باری باری آنے والا اس لئے کہا گیا کہ جب رات کے فرشتے آتے ہیں تو دن کے فرشتے چلے جاتے ہیں اور دن کے فرشتے آتے ہیں تو رات کے فرشتے چلے جاتے ہیں ۔( تفسیرکبیر، الرعد، تحت الآیۃ: ۱۱، ۷ / ۱۷)
فجر اور عصر کی نماز پڑھنے کا فائدہ:
فرشتوں کی یہ تبدیلی فجر اور عصر کی نماز کے وقت ہوتی ہے اور جو لوگ یہ دونوں نمازیں ادا کرتے ہیں انہیں یہ فائدہ حاصل ہو جاتا ہے کہ فرشتوں کی تبدیلی کے وقت وہ حالتِ نماز میں ہوتے ہیں ،چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’رات اور دن کے فرشتے تم میں باری باری آتے رہتے ہیں اور نمازِ فجر اور نمازِ عصر میں اکٹھے ہوتے ہیں پھر جو تمہارے پاس آئے تھے وہ اوپر چڑھ جاتے ہیں تو ان کا رب عَزَّوَجَلَّ ان سے پوچھتا ہے حالانکہ وہ انہیں خوب جانتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟ فرشتے عرض کرتے ہیں ’’ہم نے انہیں چھوڑا تو وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ہم ان کے پاس گئے تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔(بخاری، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب فضل صلاۃ العصر، ۱ / ۲۰۳، الحدیث: ۵۵۵، مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب فضل صلاتی الصبح والعصر والمحافظۃ علیہما، ص۳۱۷، الحدیث: ۲۱۰(۶۳۲))
{یَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ:اللّٰہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں ۔} امام مجاہد رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ہر بندے کے ساتھ ایک فرشتہ حفاظت پرمامور ہے جو سوتے جاگتے جن و اِنس اور موذی جانوروں سے اس کی حفاظت کرتا ہے اور ہر ستانے والی چیز کو اس سے روک دیتا ہے سوائے اس کے جس کا پہنچنا مَشِیَّت میں ہو۔(خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۱۱، ۳ / ۵۵)
اللّٰہ تعالیٰ کے نیک بندے بھی حفاظت کرتے ہیں :
اس سے معلوم ہوا کہ جسے اللّٰہ تعالیٰ حفاظت کرنے کی قدرت عطا فرمائے وہ بھی حفاظت کر سکتے ہیں اور کرتے بھی ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ کی عطا سے حفاظت کرنے کی قدرت رکھنے کے باوجود کسی کوجو اَذِیَّت یا تکلیف پہنچ جاتی ہے اُس کی وجہ یہ ہے کہ اُس کا پہنچنا اللّٰہ تعالیٰ کی مشیت میں ہوتا ہے اور جو چیز اللّٰہ تعالیٰ کی مشیت میں ہو اللّٰہ تعالیٰ کے نیک بندے اس کے خلاف نہیں کرتے، لہٰذا اللّٰہ تعالیٰ کے نیک بندوں کو اللّٰہ تعالیٰ کی عطا سے بلاؤں اور آفتوں سے حفاظت کرنے والا ماننا اور ان سے حفاظت کی اِلتجا کرنا درست ہے اور اگر التجا کے باوجود حفاظت نہ ہو تو ان کے خلاف زبانِ طعن دراز کرنا غلط و باطل ہے ۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کیا خوب فرماتے ہیں
تم ہو حفیظ و مغیث کیا ہے وہ دشمن خبیث
تم ہو تو پھر خوف کیا تم پہ کروڑوں درود
{اِنَّ اللّٰهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ:بیشک اللّٰہ کسی قوم سے اپنی نعمت نہیں بدلتا ۔}اس آیت میں قدرت کا ایک قانون بیان کیا گیا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اس وقت تک کسی قوم سے اپنی عطا کردہ نعمت واپس نہیں لیتا جب تک وہ قوم خود اپنے اچھے اعمال کو برے اعمال سے تبدیل نہ کر دے۔(صاوی، الرعد، تحت الآیۃ: ۱۱، ۳ / ۹۹۴)
قوموں کے زوال سے متعلق اللّٰہ تعالیٰ کا قانون:
قدرت کا یہی اٹل قانون سورۂ اَنفال کی اس آیت میں بھی بیان ہو چکا ہے
’’ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ لَمْ یَكُ مُغَیِّرًا نِّعْمَةً اَنْعَمَهَا عَلٰى قَوْمٍ حَتّٰى یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ‘‘ (انفال:۵۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: یہ اس وجہ سے ہے کہ اللّٰہ کسی نعمت کو ہرگز نہیں بدلتا جو اس نے کسی قوم کو عطا فرمائی ہو جب تک وہ خود ہی اپنی حالت کو نہ بدلیں ۔
اسلامی تاریخ میں اس قانون کی بے شمار مثالیں موجود ہیں جیسے ماضی بعید میں دنیا کے تین برِّ اعظموں پر نافذ مسلم حکومت کا ختم ہو جانا، 800 سال تک اسپین پر حکومت کے بعد وہاں سے سلطنت ِ اسلامیہ کے سورج کا غروب ہوجانا، اَسلاف کی بے شمار قربانیوں کے بعد حاصل ہونے والے مسلمانوں کے پہلے قبلے ’’بیتُ المقدس‘‘ کا یہودیوں کے قبضے میں چلے جانا، اسلام کی متحد حکومت کا بیسیوں ٹکڑوں میں تقسیم ہو جانا اور ماضی قریب میں پاکستان کے دوٹکڑے ہوجانا، عراق اور افغانستان پر غیروں کا قبضہ ہو جانا ،مسلم دنیا کا کافر حکومتوں کی دست نگر ہو جانا اس قانونِ قدرت کی واضح مثالیں ہیں ۔ اللّٰہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقلِ سلیم عطا فرمائے،اٰمین۔هُوَ الَّذِیْ یُرِیْكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَّ طَمَعًا وَّ یُنْشِئُ السَّحَابَ الثِّقَالَ(12)
ترجمہ: کنزالعرفان
وہی ہے جو تمہیں بجلی دکھاتا ہے اس حال میں کہ تم ڈرتے ہویا امید کرتے ہو اور وہ بھاری بادل پیدا فرماتا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{هُوَ الَّذِیْ یُرِیْكُمُ الْبَرْقَ:وہی ہے جو تمہیں بجلی دکھاتا ہے۔} اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی عظیم قدرتوں میں سے ایک ایسی چیز کابیان فرمایا ہے کہ جو ایک اعتبار سے نعمت ہے اور ایک اعتبار سے عذاب ہے ۔آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ رب عَزَّوَجَلَّ وہی ہے جواپنے بندوں کو بجلی دکھاتا ہے اس حال میں کہ بعض لوگ بجلی گرنے سے ڈر رہے ہوتے ہیں اور بعض لوگ بارش کی امید کر رہے ہوتے ہیں ۔ (خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۱۲، ۳ / ۵۶، روح البیان، الرعد، تحت الآیۃ: ۱۲، ۴ / ۳۵۲، ملتقطاً)
دل میں خوف اور امید دونوں رکھے جائیں :
یاد رہے کہ بارش مقیم اور مسافر دونوں کے لئے کبھی نقصان کا سبب ہوتی ہے کہ اس سے ان کے مال و اسباب اور ذخیرہ کی ہوئی گندم وغیرہ خراب ہو جاتی ہے اور کبھی فائدے کا باعث ہوتی ہے کہ مسافر کو اپنی ضروریات میں استعمال کے لئے پانی مل جاتا ہے اور مقیم کی فصلوں وغیرہ کی نشوونما ہو جاتی ہے اسی طرح بجلی کا چمکنا بھی مقیم اور مسافر دونوں کے لئے فائدے اور نقصان کا باعث ہوتا ہے لہٰذا ہر انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے دل میں خوف اور امید دونوں رکھے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ کبھی وہ چیز لاتا ہے کہ جس میں ظاہری اعتبار سے تو شر ہوتا ہے لیکن درحقیقت اس میں بھلائی ہوتی ہے اور کبھی وہ چیز لاتا ہے کہ جس میں ظاہری اعتبار سے تو بھلائی ہوتی ہے لیکن درحقیقت اس میں شر ہوتا ہے۔(صاوی، الرعد، تحت الآیۃ: ۱۲، ۳ / ۹۹۵، ملخصاً)
امید اور خوف کی حقیقت:
اگر مستقبل میں کسی چیز کے پائے جانے کا احتمال ہے اور وہ دل پر غالب ہے تو اسے انتظار اور توقُّع کہتے ہیں اور جس کا انتظار ہے اگر وہ ایسی ناپسندیدہ ہے جس سے دل میں دکھ اور تکلیف پیدا ہوتی ہے تو اسے خوف کہتے ہیں اور جس کا انتظار ہے اگر وہ پسندیدہ ہے اور دل کا اس سے تعلق پیدا ہوچکا ہے اور اس سے دل کو لذت و آرام پہنچ رہا ہے تو اسے رَجا یعنی امید کہتے ہیں تو گویا کہ امید دل کی راحت کانام ہے جو محبوب چیز کے انتظار سے حاصل ہوتی ہے، لیکن یہ محبوب چیز جس کی توقع کی جا رہی ہے اس کا کوئی سبب ہونا چاہئے ، اب اگر اس کا انتظار اکثر اسباب کے ساتھ ہے تو اس پرامید کا لفظ صادق آتا ہے اور اگر اسباب بالکل نہ ہوں یا اِضطراب کے ساتھ ہوں توامید کے مقابلے میں اس پر دھوکے کا لفظ زیادہ صادق آتا ہے اور اگر اسباب کا وجود بھی معلوم نہ ہو اور ان کی نفی کا علم بھی نہ ہو تو اس کے انتظار پر تمنا کا نام زیادہ صادق آتا ہے کیوں کہ یہ انتظار کسی سبب کے بغیر ہے الغرض کوئی بھی حالت ہو امیداور خوف کانام اسی پر صادق آتا ہے جس میں تَرَدُّد ہو اور جس کے بارے میں یقین ہو اس پر صادق نہیں آتا کیوں کہ طلوعِ آفتاب کے وقت نہیں کہا جاتا کہ مجھے طلوعِ آفتاب کی امید ہے اورغروب کے وقت یہ نہیں کہا جاتا کہ مجھے غروبِ آفتاب کا خوف ہے کیوں کہ یہ دونوں باتیں قطعی ہیں۔( احیاء علوم الدین، کتاب الخوف والرجاء، ۴ / ۱۷۴-۱۷۵)
مغفرت کی امید کی حقیقت:
امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں’’اَربابِ قلوب جانتے ہیں کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے اور دل زمین کی طرح ہے، ایمان اس میں بیج کی حیثیت رکھتا ہے اور عبادات زمین کو الٹ پلٹ کرنے، صاف کرنے ، نہریں کھودنے اور ان (زمینوں ) کی طرف پانی جاری کرنے کی طرح ہیں اور وہ دل جو دنیا میں غرق اور ڈوبا ہوا ہے اُس بنجر زمین کی طرح ہے جس میں بیج پھل نہیں لاتا اور قیامت کا دن فصل کاٹنے کا دن ہے اور ہر شخص وہی کچھ کاٹے گا جو اس نے بویا ہوگا ۔ ۔ ۔تو مناسب یہی ہے کہ بندے کی امید ِمغفرت کو کھیتی والے پر قیاس کیا جائے کہ جو شخص اچھی زمین حاصل کرتا ہے اور اس میں عمدہ بیج ڈالتا ہے جو نہ تو خراب ہوتا ہے اور نہ ہی بدبودار، اور پھر اس کی تمام ضروریات کو پورا کرتا ہے اور وہ وقت پر پانی دینا پھر زمین کو کانٹوں اور گھاس پھونس نیز ان تمام خرابیوں سے پاک کرنا ہے جو بیج کو بڑھنے سے روکتی یا خراب کر دیتی ہیں ، پھر وہ اللّٰہ تعالیٰ کے فضل کا منتظر ہوکر بیٹھ جائے کہ وہ زمین کو بجلی کی گرج اور دیگر مُفسد آفات سے بچائے گا یہاں تک کہ کھیتی اپنی تکمیل کو پہنچ جائے تو اس انتظار کو امید کہتے ہیں ۔ اور اگر سخت زمین میں بیج ڈالے جو شور زَدہ ہو اور بلندی پر ہو جس تک پانی نہیں پہنچ سکتا اور بیج کی پرواہ بھی نہ کرے، پھر اس کے کٹنے کا انتظار کرے تو اس انتظار کو امید نہیں کہتے بلکہ بیوقوفی اور دھوکہ کہتے ہیں اور اگر اچھی زمین میں بیج ڈالا لیکن اس میں پانی نہیں ہے اب وہ بارش کے انتظار میں ہے اور یہ ایسا وقت ہے جس میں عام طور پر بارش نہیں برستی اور نہ ہی اس میں کوئی رکاوٹ ہوتی ہے تو اس انتظار کو امید نہیں بلکہ تمنا کہتے ہیں تو گویا امید کا لفظ کسی ایسی محبوب چیز کے انتظار پر صادق آتا ہے جس کے لیے وہ تمام اسباب تیار کردیئے گئے جو بندے کے اختیار میں ہیں اور صرف وہی اَسباب باقی رہ گئے جو بندے کے اختیار میں نہیں ہیں اور وہ اللّٰہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کی وجہ سے تمام نقصان دِہ اور فاسد کرنے والے اسباب کھیتی سے دور ہوجاتے ہیں ، پس جب بندہ ایمان کا بیج ڈالتا ہے اور اس کو عبادات کا پانی پلاتا ہے دل کو بد اَخلاقی کے کانٹوں سے پاک کرتا ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کے فضل کامرتے دم تک منتظر رہتا ہے، حسنِ خاتمہ جو کہ مغفرت تک پہنچاتا ہے اس کا انتظار کرتا ہے تو یہ انتظار حقیقی امید ہے اور یہ ذاتی طور پر قابلِ تعریف ہے اور موت تک اسبابِ ایمان کے مطابق اسبابِ مغفرت کی تکمیل کے لیے قیام اور دوام کا باعث ہے، اور اگر ایمان کے بیج کو عبادات کا پانی نہ دیاجائے یا دل کو برے اَخلاق سے مُلَوَّث چھوڑ دیا جائے اور دنیاوی لذت میں مُنْہَمِک ہوجائے، پھر مغفرت کا انتظار کرے تو اس کا انتظار ایک بیوقوف اور دھوکے میں مبتلا شخص کا انتظار ہے۔(احیاء علوم الدین، کتاب الخوف والرجاء، ۴ / ۱۷۵)
{وَ یُنْشِئُ السَّحَابَ الثِّقَالَ: اور وہ بھاری بادل پیدا فرماتا ہے۔} اس آیت کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ پانی سے بوجھل بادلوں کو پیدا فرمانا بھی اللّٰہ تعالیٰ ہی کی قدرت ہے۔(تفسیرکبیر، الرعد، تحت الآیۃ: ۱۲، ۷ / ۲۲)
وَ یُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهٖ وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ مِنْ خِیْفَتِهٖۚ-وَ یُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ فَیُصِیْبُ بِهَا مَنْ یَّشَآءُ وَ هُمْ یُجَادِلُوْنَ فِی اللّٰهِۚ-وَ هُوَ شَدِیْدُ الْمِحَالِﭤ(13)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور رعد اس کی حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرتا ہے اور اس کے خوف سے فرشتے بھی (تسبیح کرتے ہیں ۔) اور وہ کڑک بھیجتا ہے تو اسے جس پر چاہتا ہے ڈال دیتا ہے حالانکہ وہ لوگ اللہ کے بارے میں جھگڑرہے ہوتے ہیں اور وہ سخت پکڑنے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهٖ:اور گرج اس کی حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرتی ہے۔} گرج یعنی بادل سے جو آواز پیدا ہوتی ہے اس کے تسبیح کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اس آواز کا پیدا ہونا خالق، قادر، ہر نقص سے پاک ذات کے وجود کی دلیل ہے ۔ ایک قول یہ ہے کہ رَعد کی تسبیح سے یہ مراد ہے کہ اس آواز کو سن کر اللّٰہ تعالیٰ کے بندے اس کی تسبیح کرتے ہیں ۔ بعض مفسرین کا قو ل یہ ہے کہ رعد ایک فرشتہ کا نام ہے جو بادل پرما مور ہے، وہ اس کو چلاتا ہے اور بادل سے جو آواز سنی جاتی ہے وہ رعد نامی فرشتے کی تسبیح ہے ۔ (خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۱۳، ۳ / ۵۶، مدارک، الرعد، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۵۵۲، ملتقطاً)
وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَسْتَ مُرْسَلًاؕ-قُلْ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًۢا بَیْنِیْ وَ بَیْنَكُمْۙ-وَ مَنْ عِنْدَهٗ عِلْمُ الْكِتٰبِ(43)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور کافر کہتے ہیں : تم رسول نہیں ہو۔ تم فرماؤ: میرے اور تمہارے درمیان اللہ کافی گواہ ہے اور ہر وہ آدمی گواہ ہے جس کے پاس کتاب کا علم ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا:اور کافر کہتے ہیں ۔} جب کفار نے حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے رسول ہونے کا انکار کیا تو اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی نبوت کا انکار کرنے والے کافروں سے فرما دیں کہ میرے اور تمہارے درمیان اللّٰہ تعالیٰ گواہ کافی ہے جس نے میرے ہاتھوں میں غالب کر دینے والے معجزات اورنشانیاں ظاہر فرمائیں اور ان کے ذریعے میرے نبی ہونے کی شہادت دی نیز میری نبوت پر ہر اُس آدمی کی گواہی کافی ہے جس کے پاس کتاب کا علم ہے خواہ وہ یہودیوں کے علماء میں سے توریت کا جاننے والا ہو یا عیسائیوں میں سے انجیل کا عالم ،وہ نبی کریمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت کو اپنی کتابوں میں دیکھ کر جانتا ہے، اِن علماء میں سے اکثر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت کی گواہی دیتے ہیں۔(خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۴۳، ۳ / ۷۳)
علم کی افضلیت:
اللّٰہ تعالیٰ نے علما کی گواہی اپنے ساتھ بیان فرمائی،اس سے علم کی افضلیت معلوم ہوئی، اس کے علاوہ اور آیات میں بھی اللّٰہ تعالیٰ نے علم کی افضیلت کو بیان فرمایا ہے ،چنانچہ ایک مقام پر ارشاد فرمایا
’’قَالَ الَّذِیْ عِنْدَهٗ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتٰبِ اَنَا اٰتِیْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْكَ طَرْفُكَ‘‘ (نمل:۴۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اس نے عرض کی جس کے پاس کتاب کا علم تھاکہ میں اسے آپ کی بارگاہ میں آپ کے پلک جھپکنے سے پہلے لے آؤں گا۔
ا س میں بیان ہوا کہ علم کی وجہ سے انہیں (یعنی حضرت آصف بن برخیا رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُکو) یہ قدرت حاصل ہوئی ۔ دوسرے مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’وَ قَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَیْلَكُمْ ثَوَابُ اللّٰهِ خَیْرٌ لِّمَنْ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًاۚ-وَ لَا یُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا الصّٰبِرُوْنَ‘‘ (قصص:۸۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جنہیں علم دیا گیا تھا انہوں نے کہا: تمہاری خرابی ہو، اللّٰہ کا ثواب بہتر ہے اس آدمی کے لیے جو ایمان لائے اور اچھے کام کرے اور جنت انہیں کو دی جائے گی جو صبر کرنے والے ہیں ۔
اس میں بیان ہوا کہ آخرت کی عظیم قدر علم کے ذریعے معلوم ہوتی ہے .
نیز یہاں علم دین کی عظمت اور مراتبِ علماء کے بیان پر مشتمل ایک حدیث پاک بھی ملاحظہ ہو،چنانچہ حضرت ابو درداء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص علم کی طلب میں کوئی راستہ چلے گا تو اللّٰہ تعالیٰ اسے جنت کے راستوں میں سے ایک راستہ پر چلائے گااور بے شک فرشتے طالب علم کی خوشی کے لئے اپنے پروں کو بچھادیتے ہیں اور بے شک عالم کے لئے آسمانوں اور زمینوں کی تمام چیزیں اور پانی کے اندر مچھلیاں مغفرت کی دعا کرتی ہیں اور یقینا عالم کی فضیلت عابد کے اوپر ایسی ہی ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر ہے اور یقین رکھو کہ علماء انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامْ کے وارث ہیں اور ان کی میراث دینار و درہم نہیں بلکہ ان کی میراث تو علم ہی ہے تو جس نے اسے حاصل کیا اُس نے(میراث کا) بہت بڑا حصہ پالیا۔(سنن ابی داود، کتاب العلم، باب الحث علی طلب العلم، ۳ / ۴۴۴، الحدیث:۳۶۴۱
یاد رہے کہ گرج اور کڑک کی آواز اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ایک وعید ہے لہٰذا جب اس کی آواز سنیں تو اپنی دنیوی گفتگو روک کر اللّٰہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہو جائیں اور اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب سے اس کی پناہ مانگیں ، چنانچہ حضرت عبداللّٰہ بن زبیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا جب گرج کی آواز سنتے تو آپ گفتگو چھوڑ کر یہ آیت پڑھتے ’’وَ یُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهٖ وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ مِنْ خِیْفَتِهٖ‘‘پھر فرماتے: بے شک یہ زمین والوں کے لئے شدید وعید ہے۔ (سنن الکبری للبیہقی، کتاب صلاۃ الاستسقاء، باب ما یقول اذا سمع الرعد، ۳ / ۵۰۵، الحدیث: ۶۴۷۱)
حضرت عبداللّٰہ بن عمررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ،جب نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ گرج اور کڑک کی آواز سنتے تو یہ دعا مانگتے ’’اَللّٰہُمَّ لَا تَقْتُلْنَا بِغَضَبِکَ وَلَا تُہْلِکْنَا بِعَذَابِکَ وَعَافِنَا قَبْلَ ذٰلِکَ‘‘ یعنی اے اللّٰہ ! ہمیں اپنے غضب سے نہ مارنا اور اپنے عذاب سے ہلاک نہ کرنا اور ہمیں اپنا عذاب نازل ہونے سے پہلے عافیت عطا فرما۔ (ترمذی، کتاب الدعوات، باب ما یقول اذا سمع الرعد، ۵ / ۲۸۰، الحدیث: ۳۴۶۱)
حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جب تم گرج کی آواز سنو تو اللّٰہ تعالیٰ کا ذکر کرنا شروع کر دو کیونکہ یہ ذکر کرنے والے کو نہیں پہنچتی۔ (معجم الکبیر، عطاء عن ابن عباس، ۱۱ / ۱۳۲، الحدیث: ۱۱۳۷۱)
{وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ مِنْ خِیْفَتِهٖ:اور فرشتے اس کے ڈر سے۔} اس سے مراد وہ فرشتے ہیں جو بادلوں پر مامو ر فرشتے کے مددگار ہیں یا اس سے تمام ملائکہ مراد ہیں اور آیت کا معنی یہ ہے کہ فرشتے اللّٰہ تعالیٰ کی ہیبت اور اس کے جلال سے اس کی تسبیح کرتے ہیں ۔ (جلالین مع صاوی، الرعد، تحت الآیۃ: ۱۳، ۳ / ۹۹۵)
{وَ یُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ:اور وہ کڑک بھیجتا ہے۔} صَاعِقَہْ اس شدید آواز کو کہتے ہیں جو آسمان وزمین کے درمیان سے اترتی ہے، پھر اس میں آگ پیدا ہوجاتی ہے یا عذاب یا موت اور وہ شدید آواز اپنی ذات میں ایک ہی چیز ہے اور یہ تینوں چیزیں اسی سے پیدا ہوتی ہیں ۔ شانِ نزول:حضرت حسن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے عرب کے ایک نہایت سرکش کافر کو اسلام کی دعوت دینے کے لئے اپنے چند صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو بھیجا، انہوں نے اس کافر کو دعوت دی تو وہ کہنے لگا ’’محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کا رب کون ہے جس کی تم مجھے دعوت دیتے ہو۔ کیا وہ سونے کا ہے یا چاندی کا ، لوہے کا ہے یا تانبے کا؟ مسلمانوں کو یہ بات بہت گراں گزری اور انہوں نے واپس آکرحضورِ اقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کیا کہ ایسا بڑا کافر، سیاہ دل اور سرکش دیکھنے میں نہیں آیا۔ حضور پُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ اس کے پاس پھر جاؤ۔ اس نے پھر وہی گفتگو کی اور اتنا مزید کہا کہ کیا محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کی دعوت قبول کرکے میں ایسے رب کو مان لوں جسے نہ میں نے دیکھا نہ پہچانا ؟یہ حضرات پھر واپس ہوئے اور انہوں نے عرض کی کہ حضور! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اس کی خباثت تو اور ترقی پر ہے۔ ارشاد فرمایا ’’ پھر جاؤ۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم حکم کی تعمیل کرتے ہوئے پھر گئے ،جس وقت اس سے گفتگو کررہے تھے اور وہ ایسی ہی سیاہ دلی کی باتیں بک رہا تھا تو ایک بادل آیا، اس سے بجلی چمکی اور کڑک پیدا ہوئی ، کچھ دیر بعد بجلی گری اور اس کافر کو جلا دیا۔ یہ حضرات اس کے پاس بیٹھے رہے اور جب وہاں سے واپس ہوئے تو راستے میں انہیں صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی ایک اور جماعت ملی ،وہ کہنے لگے’’کہیے ،وہ شخص جل گیا ؟ان حضرات نے کہا ’’آپ لوگوں کو کیسے معلوم ہوگیا ؟انہوں نے فرمایا ’’ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس وحی آئی ہے۔ ’’وَ یُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ فَیُصِیْبُ بِهَا مَنْ یَّشَآءُ وَ هُمْ یُجَادِلُوْنَ فِی اللّٰهِ‘‘(خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۱۳، ۳ / ۵۷)
بعض مفسرین نے ذکر کیا ہے کہ یہ آیت عامر بن طفیل اور اَرْبَد بن ربیعہ کے بارے میں نازل ہوئی ۔عامر بن طفیل نے اربد بن ربیعہ سے کہا کہ محمد (مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) کے پاس چلو، میں انہیں باتوں میں لگاؤں گا اور تم پیچھے سے تلوار سے حملہ کر دینا ۔یہ مشورہ کرکے وہ حضوراقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس آئے اور عامر نے حضورِ انورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے گفتگو شروع کی، بہت طویل گفتگو کے بعد کہنے لگا کہ اب ہم جاتے ہیں اور ایک لشکرِ جَرار آپ پر لائیں گے۔ یہ کہہ کر وہ چلا آیا اور باہر آکر اربد سے کہنے لگا کہ تو نے تلوار کیوں نہیں ماری ؟اُس نے کہا جب میں تلوار مارنے کا ارادہ کرتا تھا تو تو درمیان میں آجاتا تھا۔ رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان لوگوں کے نکلتے وقت یہ دعا فرمائی ۔ ’’اَللّٰھُمَّ اکْفِہِمَا بِمَا شِئْتَ ‘‘ جب یہ دونوں مدینہ شریف سے باہر آئے تو اُن پر بجلی گری، اربد جل گیا اور عامر بھی اسی راہ میں بہت بدتر حالت میں مرا ۔(ابو سعود، الرعد، تحت الآیۃ: ۱۳، ۳ / ۱۵۳، ملتقطاً)
لَهٗ دَعْوَةُ الْحَقِّؕ-وَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ لَا یَسْتَجِیْبُوْنَ لَهُمْ بِشَیْءٍ اِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّیْهِ اِلَى الْمَآءِ لِیَبْلُغَ فَاهُ وَ مَا هُوَ بِبَالِغِهٖؕ-وَ مَا دُعَآءُ الْكٰفِرِیْنَ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ(14)
ترجمہ: کنزالعرفان
اسی کا پکارنا سچا ہے اور اُس کے سوا جن کو یہ (کافر) پکارتے ہیں وہ ان کی کچھ بھی نہیں سنتے مگر اس کی طرح جو پانی کے سامنے اپنی ہتھیلیاں پھیلائے بیٹھا ہے کہ اس کے منہ میں پہنچ جائے حالانکہ وہ ہرگز اس تک نہ پہنچے گااور کافروں کا پکارنا گمراہی میں ہی ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{لَهٗ دَعْوَةُ الْحَقِّ:اسی کا پکارنا سچا ہے۔} اس سے مراد یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کرنا اور ’’لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کی گواہی دینا حق ہے یاا س کا معنی یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ دعاقبول کرتا ہے اور اُسی سے دعا کرنا سزاوار ہے۔ (تفسیرکبیر، الرعد، تحت الآیۃ: ۱۴، ۷ / ۲۴، ملخصاً)
{وَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ:اور اُس کے سوا جن کو یہ پکارتے ہیں ۔} یعنی کفار جو بتوں کی عبادت کرتے ہیں اور اُن سے مرادیں مانگتے ہیں وہ ان کی کچھ بھی نہیں سنتے ،ان کی مثال تو اس شخص کی طرح ہے جو پانی کے سامنے اپنی ہتھیلیاں پھیلائے اس لئے بیٹھا ہے کہ پانی خود ہی اس کے منہ میں پہنچ جائے تو ہتھیلیاں پھیلانے اور بلانے سے پانی کنوئیں سے نکل کر اس کے منہ میں کبھی نہیں آئے گا کیونکہ پانی کو نہ علم ہے نہ شعور کہ جس کی وجہ سے وہ اس کی حاجت اور پیاس کو جان لے اور اس کے بلانے کو سمجھے اور پہچان لے، نہ پانی میں یہ قدرت ہے کہ اپنی جگہ سے حرکت کرے اور اپنے طبعی تقاضے کے خلاف اُوپر چڑھ کر بلانے والے کے منہ میں پہنچ جائے ،یہی حال بتوں کا ہے کہ نہ انہیں بت پرستوں کے پکارنے کی خبر ہے نہ اُن کی حاجت کا شعور اورنہ وہ اُن کونفع پہنچانے پر کچھ قدرت رکھتے ہیں ۔ (روح البیان، الرعد، تحت الآیۃ: ۱۴، ۴ / ۳۵۵)
{وَ مَا دُعَآءُ الْكٰفِرِیْنَ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ:اور کافروں کا پکارنا گمراہی میں ہی ہے۔} یعنی کافروں کا بتوں کو پکارنا بے کار ہے کیونکہ یہ ان سے طلب کررہے ہیں کہ جو خود نفع پہنچانے اور نقصان دور کرنے کا اختیار ہی نہیں رکھتے جبکہ اللّٰہ تعالیٰ کو پکارنا بے کار نہیں بلکہ وہ اگر چاہے تو ان کی دعائیں قبول بھی فرما لیتا ہے، دنیوی معاملات سے متعلق مانگی ہوئی دعاؤں کا قبول کرلینا تو ظاہر ہے اور اگر وہ جنت کی دعا مانگیں تو اللّٰہ تعالیٰ انہیں ایمان کی توفیق عطا فرما سکتا ہے ۔ (صاوی، الرعد، تحت الآیۃ: ۱۴، ۳ / ۹۹۷)
وَ لِلّٰهِ یَسْجُدُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ طَوْعًا وَّ كَرْهًا وَّ ظِلٰلُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ(15)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جو آسمانوں اور زمین میں ہیں سب خوشی سے ، خواہ مجبور ہو کراللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور ان کے سائے ہر صبح و شام ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لِلّٰهِ یَسْجُدُ:اللّٰہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں ۔} یعنی آسمانوں میں جتنے فرشتے ہیں اور زمین میں جتنے اہلِ ایمان ہیں سب خوشی سے جبکہ کافر و منافق شدت اور تنگی کی حالت میں مجبور ہو کراللّٰہ تعالیٰ ہی کو سجدہ کرتے ہیں ۔ (مدارک، الرعد، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۵۵۳)اور سجدے کرنے کا ایک معنی یہاں یہ ہے کہ وہ حکمِ الٰہی کے سامنے بے بس ہیں اور اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ جیسے چاہے ان میں تَصَرُّف فرماتا ہے اور سب اللّٰہ تعالیٰ کے قانونِ فطرت کے پابند ہیں ۔
تنبیہ:اس آیت کو پڑھنے اور سننے سے سجدہ واجب ہو جاتا ہے ۔سجدۂ تلاوت سے متعلق مسائل کی تفصیلی معلومات کے لئے بہار شریعت حصہ 4 سے ’’سجدۂ تلاوت کا بیان‘‘ مطالعہ فرمائیں ۔
{وَ ظِلٰلُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ:اور ان کے سائے ہر صبح و شام۔} سایوں کے سجدہ کرنے سے بھی یہی مراد ہے کہ ان کے سائے بھی اوّل تا آخر اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کے پابند ہیں جتنا وہ چاہتا ہے بڑھا دیتا ہے اور جتنا چاہتا ہے گھٹا دیتا ہے۔ سائے تو سارا دن ہی ہوتے ہیں لیکن آیت میں صبح اور شام کا بطورِ خاص اس لئے ذکر فرمایا گیا کہ ان دو اَوقات میں سایوں کا چھوٹا یا بڑا ہونا واضح طور پر نظر آتا ہے ۔
قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-قُلِ اللّٰهُؕ-قُلْ اَفَاتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِیَآءَ لَا یَمْلِكُوْنَ لِاَنْفُسِهِمْ نَفْعًا وَّ لَا ضَرًّاؕ-قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الْاَعْمٰى وَ الْبَصِیْرُ ﳔ اَمْ هَلْ تَسْتَوِی الظُّلُمٰتُ وَ النُّوْرُ ﳛ اَمْ جَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَآءَ خَلَقُوْا كَخَلْقِهٖ فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَیْهِمْؕ-قُلِ اللّٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَیْءٍ وَّ هُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ(16)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ: آسمانوں اور زمین کا رب کون ہے؟ تم خود ہی فرما دو:’ ’اللہ ‘‘ تم فرما ؤ: تو (اے لوگو) کیا تم نے اس کے سوا مدد گار بنارکھے ہیں جواپنے لئے نفع اور نقصان کے مالک نہیں ہیں ۔ تم فرما ؤ: کیا اندھا اور آنکھ والابرابر ہوجائیں گے؟ یا کیا اندھیرے اورروشنی برابر ہوجائیں گے؟یاکیا انہوں نے اللہ کے لیے ایسے شریک ٹھہرا لئے ہیں جنہوں نے اللہ کی تخلیق کی طرح کچھ پیدا کیا ہو؟ تو ان کافروں کوپیدا کرنے کا معاملہ ایک جیسا لگا ہو ۔تم فرما ؤ :اللہ ہر شےکا خالق ہے اور وہ اکیلا سب پر غالب ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ:تم فرماؤ۔} یعنی اے حبیب ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان مشرکین سے فرما ئیں جو بتوں کی عبادت کرتے ہیں کہ زمین و آسمان کا مالک کون ہے؟ ان کے معاملات کی تدبیر کون فرماتا ہے اور ان دونوں کو پیدا کرنے والا کون ہے؟ اگر وہ جواب نہ دیں تو آپ خود ہی فرما دیں کہ زمین و آسمان کا رب اللّٰہ تعالیٰ ہے، کیونکہ اس سوال کا اس کے سوا اور کوئی جواب ہی نہیں اور مشرکین بھی غیرُ اللّٰہ کی عبادت کرنے کے باوجود اس بات کااقرار کرتے ہیں کہ آسمان و زمین کا خالق اللّٰہ تعالیٰ ہے ۔جب یہ امر مُسَلَّم ہے تو اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ مشرکین سے فرما دیں کہ کیا تم نے زمین و آسمان کے رب کے سوا بتوں کو مدد گار بنا رکھا ہے حالانکہ وہ بت اپنے لئے نفع اور نقصان کے مالک نہیں ہیں ؟ جب اُن کی بے قدرتی اور بیچارگی کا یہ عالَم ہے تو وہ دوسرے کو کیا نفع و نقصان پہنچاسکتے ہیں ۔ ایسوں کو معبود بنانا اور اس کے بالمقابل خالق ،رازق ،قوی اور قادر کو چھوڑدینا انتہا درجے کی گمراہی ہے۔ (خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۱۶، ۳ / ۵۹، روح البیان، الرعد، تحت الآیۃ: ۱۶،۴ / ۳۵۷، مدارک، الرعد، تحت الآیۃ: ۱۶، ص۵۵۳، ملتقطاً)
{قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الْاَعْمٰى وَ الْبَصِیْرُ:تم فرما ؤ: کیا اندھا اور آنکھ والابرابر ہوجائیں گے؟ } آیت کے اس حصے میں اللّٰہ تعالیٰ نے بتوں کو پوجنے والے مشرکین اور اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے مومنین کی ایک مثال بیان فرمائی ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ فرما دیں کیا اندھا اور آنکھ والا برابر ہو سکتے ہیں یا اندھیرے اور روشنی برابر ہوجائیں گے ؟تو جس طرح اندھا اور آنکھ والا برابر نہیں ہو سکتے اسی طرح کافر اور مومن بھی برابر نہیں ہو سکتے اور جس طرح اندھیرے اور روشنی برابر نہیں ہو سکتے اسی طرح کفر و شرک اور ایمان بھی برابر نہیں ہو سکتے۔کافر کو اندھے جیسا اس لئے فرمایا گیا ہے کہ اندھا انسان درست راستے پر نہیں چلتا اسی طرح کافر بھی سیدھے راستے پر نہیں چلتا۔ (خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۱۶، ۳ / ۶۰)
{اَمْ جَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَآءَ:کیا انہوں نے اللّٰہ کے لیے شریک ٹھہرا لئے ہیں ۔} آیت کے اس حصے میں ایک اور طریقے سے بت پرستوں کا رد کیا گیا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ مشرکین جو بتوں کو اللّٰہ تعالیٰ کا شریک قرار دیتے ہیں کیا ان کے علم میں ہے کہ بتوں نے بھی کوئی مخلوق پیدا کی ہے جس کی وجہ سے انہیں یہ شبہ ہو گیا کہ بت بھی خالق ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ بھی خالق ہے اور جب اللّٰہ تعالیٰ اپنے خالق ہونے کی وجہ سے عبادت کا مستحق ہے تو یہ بت بھی ا س وجہ سے عبادت کے مستحق ٹھہرے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مشرکین یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ بتوں نے کسی بھی چیز کو پیدا نہیں کیا تو جب حق بات یہی ہے تو مشرکین کا بتوں کو عبادت میں اللّٰہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرانا جہالت کے سوا اور کیا ہو سکتاہے۔او رحقیقت یہی ہے کہ ہر شے کا خالق اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ہے اور وہی سب پر غالب ہے اورسب کچھ اسی کی قدرت اور اختیار میں ہے۔ (تفسیرکبیر، الرعد، تحت الآیۃ: ۱۶، ۷ / ۲۶-۲۷، خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۱۶، ۳ / ۶۰، ملتقطاً)دنیا و آخرت میں جو کچھ کسی کے پاس ہے یا ہوگا وہ سب اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے دینے سے ہے اور ہوگا۔ جیسے فرشتوں کی عظیم قوتیں ، انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاء رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم کی عظیم طاقتیں ، معجزات و کرامات اور یونہی دنیا میں لوگوں کی بادشاہتیں ، مِلکِیَّتیں ، حکومتیں وغیرہا سب اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے دینے سے ہے۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے ارادے کے بغیر کوئی ایک ذرے کا بھی مالک و مختار نہیں بن سکتا۔
اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَسَالَتْ اَوْدِیَةٌۢ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَدًا رَّابِیًاؕ-وَ مِمَّا یُوْقِدُوْنَ عَلَیْهِ فِی النَّارِ ابْتِغَآءَ حِلْیَةٍ اَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثْلُهٗؕ-كَذٰلِكَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْحَقَّ وَ الْبَاطِلَ ﱟ فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْهَبُ جُفَآءًۚ-وَ اَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْكُثُ فِی الْاَرْضِؕ-كَذٰلِكَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَﭤ(17)
ترجمہ: کنزالعرفان
اس نے آسمان سے پانی اتارا تو نالے اپنی اپنی گنجائش کی بقدر بہہ نکلے تو پانی کی رَو اُس پر ابھرےہوئے جھاگ اٹھا لائی اور زیور یا کوئی دوسرا سامان بنانے کیلئے جس پروہ آگ دہکاتے ہیں اس سے بھی ویسے ہی جھاگ اٹھتے ہیں ۔ اللہ اسی طرح حق اور باطل کی مثال بیان کرتا ہے تو جھاگ تو ضائع ہوجاتا ہے اور وہ (پانی) جو لوگوں کو فائدہ دیتا ہے وہ زمین میں باقی رہتا ہے ۔اللہ یوں ہی مثالیں بیان فرماتا ہے ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً:اس نے آسمان سے پانی اتارا۔} اس سے پہلی آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے مومن اور کافر کو آنکھ والے اور اندھے سے ،ایمان ا ور کفر کو روشنی اور اندھیرے سے تشبیہ دی تھی جبکہ اس آیت میں ایمان اور کفر کی ایک اور مثال بیان فرمائی ہے۔ (تفسیرکبیر، الرعد، تحت الآیۃ: ۱۷، ۷ / ۲۹) اس مثال کا خلاصہ یہ ہے کہ باطل اس جھاگ کی طرح ہوتا ہے جو ندیوں میں ان کی وسعت کے مطابق بہتے پانی کی سطح پر اور سونا، چاندی ،تانبہ،پیتل وغیرہ پگھلی ہوئی معدنیات کی مائع سطح پر ظاہر ہوتی ہے جبکہ حق جھاگ کے علاوہ باقی بچ جانے والی اصل چیز کی طرح ہوتا ہے تو جس طرح بہتے پانی یا پگھلی ہوئی معدنیات کی سطح پرجھاگ ظاہر ہوکر جلدی زائل ہو جاتی ہے ایسے ہی باطل اگرچہ کتنا ہی ابھر جائے اور بعض حالتوں اور وقتوں میں جھاگ کی طرح حد سے اُونچا ہوجائے لیکن انجام کار مٹ جاتا ہے اور حق اصل چیز اور صاف جوہر کی طرح باقی و ثابت رہتا ہے۔( مدارک، الرعد، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۵۵۴، ملخصاً)
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس آیت میں مذکور مثال کی بہت اچھی وضاحت فرمائی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’اس آیت میں پانی سے مراد قرآن پاک اور ندیوں سے مراد بندوں کے دل ہیں یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی کبریائی ، جلالت اور احسان کے آسمان سے رحمت کاپانی یعنی قرآن پاک بندوں کے دلوں کی ندیوں میں نازل فرمایا تو جس طرح ندیوں میں پانی جگہ پاتا ہے اسی طرح دلوں میں قرآنی علوم کے انوار جگہ پاتے ہیں اور جس طرح ندیوں میں ان کی گنجائش اور وسعت کے اعتبار سے پانی کم یا زیادہ ہوتا ہے اسی طرح دلوں کی پاکیزگی اور نجاست،قوت ِفہم کی زیادتی اور کمی کے اعتبار سے ان میں قرآن پاک کے انوار کم اور زیادہ ہوتے ہیں ۔اور جس طرح بہتے پانی کی سطح پر ابھرنے والی جھاگ اور پگھلی ہوئی معدنیات کی سطح پر ظاہر ہونے والا میل کچیل جلدی زائل ہو جاتا ہے اسی طرح قرآن مجید کے مَضامین میں بظاہر جو شکوک و شبہات ہوتے ہیں وہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ارشادات اور علمائے کرام کے بیانات سے جلدی زائل ہو جاتے ہیں اور عقائد،شرعی احکام کی تصریحات،ہدایات اور علمی نِکات باقی رہ جاتے ہیں ۔ (تفسیرکبیر، الرعد، تحت الآیۃ: ۱۷، ۷ / ۲۹، ملخصاً)
لِلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمُ الْحُسْنٰىﳳ-وَ الَّذِیْنَ لَمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَهٗ لَوْ اَنَّ لَهُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا وَّ مِثْلَهٗ مَعَهٗ لَافْتَدَوْا بِهٖؕ-اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ سُوْٓءُ الْحِسَابِ ﳔ وَ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُؕ-وَ بِئْسَ الْمِهَادُ(18)
ترجمہ: کنزالعرفان
جن لوگوں نے اپنے رب کا حکم مانا انہیں کے لیے بھلائی ہے اور جنہوں نے اس کا حکم نہ مانا (ان کا حال یہ ہوگا کہ) اگر زمین میں جو کچھ ہے وہ سب اور اس جیسا اور اِس کے ساتھ ہوتا تو اپنی جان چھڑانے کو دے دیتے۔ ان کے لئے برا حساب ہوگا اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{لِلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمُ الْحُسْنٰى:جن لوگوں نے اپنے رب کا حکم مانا انہیں کے لیے بھلائی ہے۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کیا ، اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لائے تو انہیں کے لئے بھلائی یعنی جنت ہے اور جو لوگ اپنے کفر و شرک پر قائم رہے، ان کا حال یہ ہو گا کہ یہ اس قدر خوفناک اور تکلیف دِہ حالت میں ہوں گے کہ اس سے جان چھڑانے کیلئے اگر زمین میں جو کچھ ہے وہ سب اور اس جیسا اور اس کے ساتھ ہوتا تو قیامت کے دن جہنم کے عذاب سے اپنی جانوں کو بچانے کے لئے فدیے کے طور پر دیدیتے لیکن ان کی جان پھر بھی نہ چھوٹتی۔
حساب کی سختی کا خوف:
اس آیت میں اگرچہ کفار کے حساب میں سختی کئے جانے کا ذکر ہے لیکن جداگانہ طور پر مسلمانوں کو بھی حساب کی سختی کے معاملے میں ڈرایا گیا ہے ، حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں ۔حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جس سے قیامت کے دن حساب لیا گیا وہ عذاب میں مبتلا ہو گیا۔ میں نے عرض کی ’’کیا اللّٰہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ عنقریب ان سے آسان حساب لیا جائے گا(یعنی مُطلقاً حساب پر تو پکڑ نہیں ہوگی بلکہ سخت حساب کی صورت میں ہوگی اس پر) رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’یہ (نرمی سے لیا جانے والا حساب حقیقت میں ) حساب نہیں ہے بلکہ حساب کے لئے پیش ہونا ہے، (اور) جس سے قیامت کے دن حساب میں(جَرح و اعتراض کے ساتھ) سوال و کلام کیا گیا تو اسے عذاب دیا جائے گا۔ (مسلم، کتاب الجنّۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب اثبات الحساب، ص۱۵۳۷، الحدیث: ۷۹(۲۸۷۶))
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں ’’ میں نے رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنی بعض نمازوں میں فرماتے ہوئے سنا ’’اَللّٰہُمَّ حَاسِبْنِیْ حِسَابًا یَّسِیْرًا‘‘ اے اللّٰہ ! مجھ سے آسان حساب لے ۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تومیں نے عرض کی’’یا رسولَ اللّٰہ !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آسان حساب کیا چیز ہے ؟ ارشاد فرمایا ’’آسان حساب یہ ہے کہ اس کے نامۂ اعمال پر نظر کرا دی جائے پھر اسے معافی دیدی جائے۔ اے عائشہ! رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا، جس سے حساب میں اس دن جرح کرلی گئی وہ ہلاک ہوجائے گا۔ (مسند امام احمد، مسند السیدۃ عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا، ۹ / ۳۰۳، الحدیث: ۲۴۲۷۰)
لہٰذا ہمیں بھی اپنے حساب کے بارے میں فکر کرنی چاہئے اور ایسے اعمال اختیار کرنے چاہئیں جن کی برکت سے اللّٰہ تعالیٰ حساب میں آسانی فرماتا ہے، ترغیب کے لئے ایک روایت ذکر کی جاتی ہے۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرورِ عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تین اوصاف جس شخص میں ہوں گے اللّٰہ تعالیٰ اس کے حساب میں آسانی فرمائے گا اور اپنی رحمت سے اسے جنت میں داخل فرما دے گا۔صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی’’یا رسولَ اللّٰہ !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ، وہ کون سے اوصاف ہیں ؟ ارشاد فرمایا ’’جو تمہیں محروم کرے تم اسے عطا کرو، جوتم سے رشتہ داری ختم کرے تم اس سے صلہ رحمی کرو اورجو تم پر ظلم کرے تم ا سے معاف کردو ۔جب تم ایسا کرو گے تو اللّٰہ تعالیٰ اپنی رحمت سے تمہیں جنت میں داخل فرما دے گا۔ (مسند البزار، مسند ابی ہریرۃ، ۱۵ / ۲۱۹، الحدیث: ۸۶۳۵)
اَفَمَنْ یَّعْلَمُ اَنَّمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ اَعْمٰىؕ-اِنَّمَا یَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ(19)الَّذِیْنَ یُوْفُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَ لَا یَنْقُضُوْنَ الْمِیْثَاقَ(20)
ترجمہ: کنزالعرفان
وہ آدمی جو یہ جانتا ہے کہ جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کے پاس سے نازل کیا گیا ہے وہ حق ہے تو کیا وہ اس جیسا ہے جو اندھا ہے؟صرف عقل والے ہی نصیحت مانتے ہیں ۔وہ جو اللہ کا عہد پورا کرتے ہیں اور معاہدے کو توڑتے نہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَفَمَنْ یَّعْلَمُ:تو کیا وہ جو جانتا ہے۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ آدمی جو یہ جانتا ہے کہ جو کچھ رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، وہ حق ہے اور وہ اس پر ایمان لاتا اور اس کے مطابق عمل کرتا ہے تو کیا وہ اس جیسا ہے جودل کا اندھا ہے؟ جوحق کو جانتا ہے نہ قرآن پر ایمان لاتا ہے اور نہ ہی اس کے مطابق عمل کرتا ہے۔حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’ یہ آیت حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور ابوجہل کے بارے میں نازل ہوئی۔ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت حضرت عمار بن یاسر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور ابو جہل کے بارے میں نازل ہوئی۔(خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۱۹، ۳ / ۶۲)
علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ان آیات میں اگرچہ حضرت حمزہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی اچھی صفات پر ان کی تعریف کی گئی اور ان صفات کے بدلے بھلائی کا وعدہ فرمایا گیا اور ابو جہل کی بری صفات کی مذمت کی گئی اور ان بری صفات کے بدلے برے انجام کی وعید سنائی گئی لیکن چونکہ اعتبار الفاظ کے عموم کا ہوتا ہے نہ کہ سبب ِنزول کی خصوصیت کا لہٰذاحضرت حمزہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے لئے وعدے کی آیات میں قیامت تک آنے والے وہ تمام لوگ بھی شامل ہیں جو حضرت حمزہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے نقشِ قدم پر چلیں گے اور ان جیسی صفات اپنائیں گے یونہی ابو جہل کے لئے وعید کی آیات میں قیامت تک آنے والے وہ تمام افراد داخل ہیں جو ابو جہل کے نقش قدم پر چلیں گے۔(صاوی، الرعد، تحت الآیۃ: ۱۹، ۳ / ۱۰۰۰)
{اِنَّمَا یَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ:صرف عقل والے ہی نصیحت مانتے ہیں ۔} یعنی قرآن کی نصیحتیں وہی قبول کرتے ہیں اور ان نصیحتوں پر وہی عمل کرتے ہیں جو عقلمند ہیں اور ان کی عقل وہم کے عارضے سے صاف ہے۔ (روح البیان، الرعد، تحت الآیۃ: ۱۹، ۴ / ۳۶۳)
{اَلَّذِیْنَ یُوْفُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ:وہ جو اللّٰہ کا عہد پورا کرتے ہیں ۔} یعنی آخرت کا اچھا انجام انہیں کے لئے ہے جو اللّٰہ تعالیٰ سے کیا ہوا عہد پورا کرتے ہیں کہ اس کی ربوبیت کی گواہی دیتے ہیں اور اس کا حکم مانتے ہیں ۔ اللّٰہ تعالیٰ سے کئے ہوئے عہد اور ان معاہدوں کو توڑتے نہیں جو انہوں نے لوگوں کے ساتھ کئے ہوئے ہیں ۔(روح البیان، الرعد، تحت الآیۃ: ۲۰، ۴ / ۳۶۳)
وَ الَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَ یَخَافُوْنَ سُوْٓءَ الْحِسَابِﭤ(21)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور وہ جواسے جوڑتے ہیں جس کے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا اور اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور برے حساب سے خوفزدہ ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ:اور وہ جو جوڑتے ہیں ۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی تمام کتابوں اور اس کے کل رسولوں پر ایمان لاتے ہیں ،بعض کو مان کر اور بعض سے منکر ہو کر ان میں تفریق نہیں کرتے ۔یا یہ معنی ہے کہ رشتہ داری کے حقوق کی رعایت رکھتے ہیں اور رشتہ داری نہیں توڑتے۔ اسی میں رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قرابتیں اور ایمانی قرابتیں بھی داخل ہیں ۔ سادات کرام کا احترام ،مسلمانوں کے ساتھ محبت واحسان، ان کی مدد کرنا، اُن کی طرف سے مُدافَعت کرنا، اُن کے ساتھ شفقت سے پیش آنا، سلام اور دعا کرنا، مسلمان مریضوں کی عیادت کرنا، اپنے دوستوں ، خادموں ہمسایوں اورسفر کے ساتھیوں کے حقوق کی رعایت کرنا بھی اس میں داخل ہے۔ (خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۲۱، ۳ / ۶۲-۶۳، مدارک، الرعد، تحت الآیۃ: ۲۱، ص۵۵۶، ملتقطاً)
صلہ رحمی اور حسنِ سلوک سے متعلق اَحادیث:
آیت کی تفسیر کی مناسبت سے ترغیب کے لئے چند اَحادیث یہاں بیان کی جاتی ہیں ۔
(1)…حضرت جُبَیر بن مُطْعَم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’رشتہ داری توڑنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔ (بخاری، کتاب الادب، باب اثم القاطع، ۴ / ۹۷، الحدیث: ۵۹۸۴)
(2)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس کو یہ بات اچھی لگتی ہے کہ اس کا رزق فراخ ہو اور اس کی عمر دراز ہو جائے تو اسے چاہئے کہ صلہ رحمی کیا کرے۔ (بخاری، کتاب الادب، باب من بسط لہ فی الرزق بصلۃ الرحم، ۴ / ۹۷، الحدیث: ۵۹۸۵)
(3)… حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بدلہ لینے والا صلہ رحمی کرنے والا نہیں بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس سے رشتہ توڑا جائے تو وہ اسے جوڑے۔(بخاری، کتاب الادب، باب لیس الواصل بالمکافیئ، ۴ / ۹۸، الحدیث: ۵۹۹۱)
(4)…حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،سرکار ِدو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’و ہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی تعظیم نہ کرے اور اچھی باتوں کا حکم نہ کرے اور بری باتوں سے منع نہ کرے۔ (ترمذی، کتاب البرّ والصلۃ، باب ما جاء فی رحمۃ الصبیان، ۳ / ۳۶۹، الحدیث: ۱۹۲۸)
(5)…حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک ساتھیوں میں وہ بہتر ہے، جو اپنے ساتھی کا خیر خواہ ہو اور پڑوسیوں میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک وہ بہتر ہے، جو اپنے پڑوسی کا خیر خواہ ہو۔(ترمذی، کتاب البرّ والصلۃ، باب ما جاء فی حقّ الجوار، ۳ / ۳۷۹، الحدیث: ۱۹۵۱)
(6)… حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضور پُر نورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرے اور نہ اسے ظالم کے حوالے کرے۔ جو شخص اپنے بھائی کی حاجت روائی میں رہتا ہے تواللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اس کی حاجت روائی میں رہتا ہے ۔ جو شخص مسلمان سے کسی ایک تکلیف کو دور کردے تو اللّٰہ تعالیٰ قیامت کی تکالیف میں سے ا س کی ایک تکلیف دور کردے گا ۔ جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللّٰہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ (بخاری، کتاب المظالم والغصب، باب لا یظلم المسلم المسلم ولا یسلمہ، ۲ / ۱۲۶، الحدیث: ۲۴۴۲)
(7)…حضرت معاذ بن انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے کسی منافق کے مقابلے میں مومن کی حمایت کی تو اللّٰہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی حمایت میں ایک فرشتہ کھڑ ا کرے گا جو اسے دوزخ کی آگ سے بچائے گا اور جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام لگائے تو اللّٰہ تعالیٰ اسے جہنم کے پل پر روک لے گا یہاں تک کہ وہ اپنے کہنے کے مطابق عذاب پا لے۔ (ابو داؤد، کتاب الادب، باب من ردّ عن مسلم غیبۃ، ۴ / ۳۵۴، الحدیث: ۴۸۸۳)
{وَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ:اور اپنے رب سے ڈرتے ہیں ۔}یعنی اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ کئے ہوئے عہد کو پورا کرنے اور صلہ رحمی وغیرہ جن چیزوں کا اللّٰہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے انہیں بجا لانے کے ساتھ ساتھ اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرتے بھی ہوں ۔ (خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۲۱، ۳ / ۶۳)
خوفِ خدا کے فضائل:
قرآن و حدیث میں اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرنے کے فضائل بکثرت بیان کئے گئے ہیں ۔ترغیب کے لئے چند آیات اور اَحادیث بیان کی جاتی ہیں ۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے
’’وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ‘‘ (رحمٰن: ۴۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے اس کے لیے دو جنتیں ہیں ۔
ایک مقام پر ارشاد فرمایا
’’وَ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُتَّقِیْنَ‘‘ (الز خرف:۳۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور آخرت تمہارے رب کے پا س پرہیزگاروں کے لیے ہے۔
ایک جگہ ارشاد فرمایا
’’ اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍ‘‘ (الحجر:۴۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ڈر نے والے باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔
حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس مومن بندے کی آنکھوں سے اللّٰہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے آنسو نکلیں اگرچہ وہ مکھی کے سر کے برابر ہوں ، پھر وہ آنسو بہہ کر اس کے چہرے پر آ جائیں تو اللّٰہ تعالیٰ اسے جہنم پر حرام کر دیتا ہے۔(ابن ماجہ، الزہد، باب الحزن والبکاء ،۴ / ۴۶۷، الحدیث: ۴۱۹۷)
حضرت عباس بن عبد المطلب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جب اللّٰہ تعالیٰ کے خوف سے بندے کا بدن لرزنے لگے تو اس کے گناہ ایسے جھڑتے ہیں جیسے سوکھے ہوئے درخت سے اس کے پتے جھڑتے ہیں(شعب الایمان، الحادی عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۱ / ۴۹۱، الحدیث: ۸۰۳)۔ ([1])
{وَ یَخَافُوْنَ سُوْٓءَ الْحِسَابِ:اور برے حساب سے خوفزدہ ہیں ۔} یعنی خصوصی طور برے حساب سے خوفزدہ ہیں اور حساب کا وقت آنے سے پہلے خود اپنے نفسوں سے محاسبہ کرتے ہیں ۔(مدارک، الرعد، تحت الآیۃ: ۲۱، ص۵۵۶)
اعمال کا محاسبہ کرنے کی ترغیب:
عقلمند انسان وہی ہے کہ جواپنے اعمال کا محاسبہ کرتا رہے اور نفس و شیطان کے بہکاوے میں آ کر اپنے اعمال کے محاسبے سے غافل نہ ہو۔ قرآن و حدیث میں اپنے اعمال کے محاسبے کی بہت ترغیب دی گئی ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے
’’ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ لْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ‘‘(الحشر:۱۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللّٰہ سے ڈرو اور ہر جان دیکھے کہ اس نے کل (قیامت) کے لیے آگے کیا بھیجا ہے ۔
حضرت شداد بن اوس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،حضور پُر نورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’عقلمند وہ شخص ہے جو اپنا محاسبہ کرے اورموت کے بعد کے لئے عمل کرے، جبکہ عاجز وہ ہے جو اپنے آپ کو خواہشات کے پیچھے لگا دے اور اللّٰہ تعالیٰ سے امید رکھے۔(ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۲۵-باب، ۴ / ۲۰۷، الحدیث: ۲۴۶۷)
امام ترمذی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں’’اس حدیث میں مذکور الفاظ ’’مَنْ دَانَ نَفْسَہٗ‘‘ کا مطلب قیامت کے حساب سے پہلے (دنیا ہی میں ) نفس کا محاسبہ کرنا ہے۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ اپنے نفسوں کا محاسبہ کرو ا س سے پہلے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے اور بڑی پیشی کے لئے تیار ہو جاؤ۔ قیامت کے دن اس آدمی کا حساب آسان ہو گا جس نے دنیا ہی میں اپنا حساب کر لیا۔ حضرت میمون بن مہران رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ بندہ اس وقت تک پرہیز گار شمار نہیں ہوتا جب تک اپنے نفس کا ایسے محاسبہ نہ کرے جیسے اپنے شریک سے کرتا ہے کہ اس نے کہاں سے کھایا اور کہاں سے پہنا۔(ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۲۵-باب، ۴ / ۲۰۷)
امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’جس طرح تاجر دنیا میں ایک ایک پیسے کا حساب کر کے کمی زیادتی کے راستوں کی حفاظت کرتا ہے حتّٰی کہ اسے اس میں کچھ بھی نقصان نہیں ہوتا تو اسے چاہئے کہ نفس کے معمولی سے نقصان اور مکر وفریب سے بھی بچے کیونکہ یہ بڑا دھوکے باز اور مکار ہے لہٰذا پہلے اس سے پورے دن کی گفتگو کا صحیح جواب طلب کرے اور اپنے نفس سے اس بات کا خود حساب لے جس کا قیامت کے دن دوسرے لیں گے، اسی طرح نظر بلکہ دل کے خیالات اور وسوسوں ، اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے ، سونے حتّٰی کہ خاموشی کا حساب بھی لے کہ اس نے خاموشی کیوں اختیار کی تھی اور سکون کے بارے میں پوچھ گچھ کرے کہ اس کا کیا مقصد تھا، جب ان تمام باتوں کا علم ہو جائے جو نفس پر واجب تھیں اور اس کے نزدیک صحیح طور پر ثابت ہو جائے کہ کس قدر واجب کی ادائیگی ہوئی ہے تو اس قدر کا حساب ہو گیا، اب جو باقی رہ گیا اسے نفس کے ذمہ لکھ لے اور اسے دل کے کاغذ پر بھی لکھ دے جیسے اپنے شریک کے ذمہ باقی حساب کو دل پر بھی لکھتا ہے اور حسابو کتاب کے رجسٹر میں بھی۔پھر جب نفس قرضدار ٹھہرا تو ممکن ہے کہ اس سے قرض وصول کرے ، کچھ تاوان کے ذریعے، کچھ اس کی واپسی سے اور بعض کے حوالے سے اسے سزا دے اور یہ سب کچھ حساب کی تحقیق کے بعد ہی ممکن ہے تاکہ جس قدر واجب باقی ہے اس کی تمیز ہو سکے اور جب یہ بات معلوم ہو جا ئے تو اب اس سے مطالبہ اور تقاضا کرنا چاہئے اور اسے چاہئے کہ اپنے تمام ظاہری اور باطنی اَعضاء کے حوالے سے اپنے نفس سے ایک ایک دن کی ہر گھڑی کا حساب کرے۔( احیاء علوم الدین، کتاب المراقبۃ والمحاسبۃ، بیان حقیقۃ المحاسبۃ بعد العمل، ۵ / ۱۳۹)
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین
وَ الَّذِیْنَ صَبَرُوا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً وَّ یَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ(22)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور وہ جنہوں نے اپنے رب کی رضا کی طلب میں صبر کیا اور نماز قائم رکھی اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے ہماری راہ میں پوشیدہ اور اعلانیہ خرچ کیا اور برائی کو بھلائی کے ساتھ ٹالتے ہیں انہیں کے لئے آخرت کا اچھا انجام ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الَّذِیْنَ صَبَرُوْا:اور وہ جنہوں نے صبر کیا ۔} یعنی نیکیوں اور مصیبتوں پر صبر کیا اور گناہوں سے باز رہے۔
صبر کے 3 مراتب:
علامہ صاوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’ ’صبر کے تین مرتبے ہیں ۔ (1)گناہ سے صبر کرنا یعنی گناہ سے بچنا۔ (2) نیکیوں پر صبرکرنا یعنی اپنی طاقت کے مطابق ہمیشہ نیک اعمال کرنا۔ (3) مصیبتوں پر صبر کرنا۔ ان سب سے اعلیٰ مرتبہ یہ ہے کہ شہوات یعنی نفسانی خواہشات سے صبر کرنا کیونکہ یہ اولیاء اور صدیقین کا مرتبہ ہے۔ (جلالین مع صاوی، الرعد، تحت الآیۃ: ۲۲، ۳ / ۱۰۰۱)
صبر کی اَقسام:
آیت میں اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کی طلب میں صبر کرنے کی قید لگائی گئی، اس کی وجہ یہ ہے کہ صبر کی دوقسمیں ہیں۔
(1)…مذموم صبر۔ انسان کبھی صبر اس لئے کرتا ہے تاکہ اس کے بارے میں کہا جائے کہ مصیبتیں برداشت کرنے پر اس کا صبر کتنا کامل اور مضبوط ہے اور کبھی ا س لئے صبر کرتا ہے تاکہ لوگ بے صبری کا مظاہرہ کرنے پر اسے ملامت نہ کریں اور دشمن ا س کی بے صبری پر نہ ہنسیں ۔ ان تمام اُمور میں اگرچہ ظاہری طور پر صبر ہی کیا جارہا ہے لیکن یہ اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کی طلب میں نہیں بلکہ غیرُ اللّٰہ کے لئے کیا گیا ہے،اس لئے یہ صبر مذموم ہیں اور اس آیت کے تحت داخل نہیں ۔
(2)…قابل تعریف صبر۔ یہ وہ صبر ہے کہ جو انسان اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کرے اور جو مصیبتیں نازل ہوئیں ان پر صبر کرنے کا اجر و ثواب اللّٰہ تعالیٰ ہی سے طلب کرے۔ یہی صبر ا س آیت کے تحت داخل ہے یعنی انہوں نے نازل ہونے والی مصیبتوں پر اللّٰہ تعالیٰ کی تعظیم کی وجہ سے اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے صبر کیا۔ (خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۲۲، ۳ / ۶۳)
رضائے الہٰی کے لئے صبر کرنے کی فضیلت:
اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی نیت سے صبر کرنے کی بہت فضیلت ہے، اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙ(۱۵۵) الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۙ-قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ (البقرہ:۱۵۵ ،۱۵۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور صبر کرنے والوں کوخوشخبری سنا دو۔وہ لوگ کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں : ہم اللّٰہ ہی کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے’’جب میں اپنے کسی بندے کو دو محبوب چیزوں (یعنی آنکھوں ) کے ذریعے آزماتا ہوں ، پھر وہ صبر کرے توان کے بدلے میں اسے جنت دیتا ہوں ۔(بخاری، کتاب المرضی، باب فضل من ذہب بصرہ، ۴ / ۶، الحدیث: ۵۶۵۳)
سرکارِ دو عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللّٰہ تعالیٰ قیامت کے دن ہر مخلوق کو جمع فرمائے گا تو ایک اعلان کرنے والا یہ اعلان کرے گا کہ فضیلت والے کہاں ہیں ؟ کچھ لوگ کھڑے ہوں گے اور جلدی جلدی جنت کی طرف چلنا شروع کر دیں گے۔ فرشتے ان سے ملاقات کر کے دریافت کریں گے ’’ہم تمہیں جنت کی طرف تیزی سے جاتا ہو ادیکھ رہے ہیں ، تم کون ہو؟ وہ کہیں گے ’’ہم فضیلت والے ہیں ؟فرشتے کہیں گے ’’تمہاری فضیلت کیا ہے؟ وہ کہیں گے ’’ہم پر جب ظلم کیا جاتا تو ہم صبر کرتے تھے، جب ہم سے برا سلوک کیا جاتا تو ہم درگزر کرتے تھے۔ جب ہم سے جہالت کا برتاؤ کیا جاتا تو ہم برداشت کرتے تھے۔ فرشتے کہیں گے ’’جنت میں داخل ہو جاؤ کہ عمل کرنے والوں کا اجر بہت اچھا ہے۔ پھر اعلان کرنے والا یہ اعلان کرے گا کہ صبر کرنے والے کہاں ہیں ؟ کچھ لوگ کھڑے ہوں گے اور جلدی جلدی جنت کی طرف چلنا شروع کر دیں گے۔ فرشتے ان سے ملاقات کر کے دریافت کریں گے ’’ہم تمہیں جنت کی طرف تیزی سے جاتا ہو ادیکھ رہے ہیں ، تم کون ہو؟ وہ کہیں گے ’’ہم صبر کرنے والے ہیں ۔ فرشتے پوچھیں گے ’’تمہارا صبر کیا تھا؟ وہ کہیں گے ’’ہم اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے پر اور اللّٰہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے سے صبر کیا کرتے تھے ۔ فرشتے کہیں گے ’’جنت میں داخل ہو جاؤ کہ عمل کرنے والوں کا اجر بہت اچھا ہے۔ (المطالب العالیہ، کتاب الفتن، باب شفاعۃ المؤمنین، ۸ / ۷۰۲، الحدیث: ۴۵۷۸)
{وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ:اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے ہماری راہ میں خرچ کیا ۔} حضرت حسن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’اس سے مراد فرض زکوٰۃ دینا ہے۔ اگر زکوٰۃ ادا نہ کرنے کی تہمت لگنے کا اندیشہ نہ ہو تو چھپا کر زکوٰۃ ادا کرنا بہتر ہے اور اگر زکوٰۃ ادا نہ کرنے کی تہمت لگنے کا اندیشہ ہو تو بہتر یہ کہ اعلانیہ زکوٰۃ ادا کرے۔ ایک قول یہ ہے کہ چھپا کر زکوٰۃ دینے سے مراد وہ ہے جو اپنی ذاتی نکال رہا ہے اور اعلانیہ دینے سے مراد وہ ہے جوبادشاہ کو دے رہا ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ چھپا کر دینے سے مراد نفلی صدقات ہیں اور اعلانیہ دینے سے مراد فرض زکوٰۃ ہے۔ (خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۲۲، ۳ / ۶۳)
راہِ خدا میں خرچ کرنے سے اللّٰہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو:
اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے خرچ کرنے کی نسبت لوگوں کی طرف اور رزق دینے کی نسبت اپنی ذات کی طرف فرمائی، اس سے معلوم ہوا کہ لوگ اللّٰہ تعالیٰ کی عطا میں اس کے وکیل ہیں اور اس عطا میں تَصَرُّف کرنے کا اختیار رکھتے ہیں اس لئے انہیں چاہئے کہ خرچ کرنے میں اپنی ذات یا مخلوق کا لحاظ نہ رکھیں بلکہ وکیل بنانے والی ذات رب تعالیٰ کی رضا کا لحاظ رکھیں اور لوگوں کی طرف سے شکریے اور تعریف کا لالچ نہ رکھیں بلکہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ثواب ملنے کی امید رکھیں۔
{وَ یَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ:اور برائی کو بھلائی کے ساتھ ٹالتے ہیں ۔} یعنی برائی کو بھلائی سے ٹالتے ہیں اور بدکلامی کا جواب شیریں سُخنی سے دیتے ہیں اور جو انہیں محروم کرتا ہے اس پر عطا کرتے ہیں جب اُن پر ظلم کیا جاتا ہے تو معاف کرتے ہیں ، جب اُن سے تعلق توڑا جاتا ہے تو ملاتے ہیں اور جب گناہ کربیٹھیں تو توبہ کرتے ہیں ، جب ناجائز کام دیکھتے ہیں تو اُسے بدل دیتے ہیں ،جہل کے بدلے حِلم اور ایذا کے بدلے صبر کرتے ہیں ۔ (مدارک، الرعد، تحت الآیۃ: ۲۲، ص۵۵۶)سُبْحَانَ اللّٰہ! یہ کتنے پیارے اوصاف ہیں ،دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو یہ اوصاف اپنانے کی توفیق عطا فرمائے ۔
{اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ:انہیں کے لئے آخرت کا اچھا انجام ہے۔} یعنی جو یہ نیک اعمال بجا لائے گا اس کے لئے آخرت کا اچھا انجام یعنی جنت ہے۔(خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۲۲، ۳ / ۶۴)
جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَهَا وَ مَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَآىٕهِمْ وَ اَزْوَاجِهِمْ وَ ذُرِّیّٰتِهِمْ وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْهِمْ مِّنْ كُلِّ بَابٍ(23)سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِﭤ(24)
ترجمہ: کنزالعرفان
وہ ہمیشہ رہنے کے باغات ہیں ان میں وہ لوگ داخل ہوں گے اور ان کے باپ دادا اور بیویوں اور اولاد میں سے جولائق ہوں گے اور ہر دروازے سے فرشتے ان کے پاس یہ کہتے آئیں گے۔ تم پر سلامتی ہو کیونکہ تم نے صبر کیا تو آخر ت کا اچھا انجام کیا ہی خوب ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{جَنّٰتُ عَدْنٍ:وہ ہمیشہ رہنے کے باغات ہیں ۔ }یعنی اوپر والی آیات میں مذکور اوصاف کے حامل حضرات ہمیشہ قائم و دائم رہنے والے باغات میں داخل ہوں گے اور ان کے باپ دادا، بیویوں اور اولاد میں سے وہ لوگ بھی ان باغات میں داخل ہوں گے جو ایمان لائے اگرچہ اُن لوگوں نے اِن حضرات جیسے عمل نہ کئے ہوں جب بھی اللّٰہ تعالیٰ اِن کے اکرام کے لئے باپ دادا وغیرہ کو اِن کے درجہ میں داخل فرمائے گا اور ان کے پاس فرشتے روزانہ دن اور رات میں تین مرتبہ تحائف اور اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کی بشارتیں لے کر جنت کے ہر دروازے سے تعظیم و تکریم کرتے ہوئے آئیں گے اور کہیں گے’’ تم پر سلامتی ہو ، یہ اس کا ثواب ہے جو تم نے گناہوں سے بچنے اور اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے پر صبر کیا تو آخر ت کا اچھا انجام کیا ہی خوب ہے۔ (خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۲۳، ۳ / ۶۴، مدارک، الرعد، تحت الآیۃ: ۲۳، ص۵۵۶، جلالین، الرعد، تحت الآیۃ: ۲۳-۲۴، ص۲۰۳، ملتقطاً)
وَ الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِیْثَاقِهٖ وَ یَقْطَعُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِۙ-اُولٰٓىٕكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَ لَهُمْ سُوْٓءُ الدَّارِ(25)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور وہ جو اللہ کا عہد اسے پختہ کرنے کے بعد توڑدیتے ہیں اور جسے جوڑنے کا اللہ نے حکم فرمایا ہے اسے کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں ان کیلئے لعنت ہی ہے اور اُن کیلئے برا گھر ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ:اور وہ جو اللّٰہ کا عہد توڑ دیتے ہیں ۔} اس سے پہلی آیات میں اللّٰہ تعالیٰ نے سعادتمندوں کے احوال اور جو کرامتیں اور بھلائیاں ان کے لئے تیار فرمائی ہیں ان کا ذکر فرمایا، اس کے بعد اللّٰہ تعالیٰ بد بختوں کے احوال اور ان کے لئے جو سزائیں تیار فرمائی ہیں ان کا ذکر فرما رہا ہے۔ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ اللّٰہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا اعتراف کر کے اور ایمان لانے کا عہد قبول کر کے اللّٰہ تعالیٰ کے ا س حکم کی مخالفت کرتے ہیں اوراللّٰہ تعالیٰ نے جو صلہ رحمی کرنے اور رشتہ داری جوڑنے کا حکم دیا ہے اسے توڑتے ہیں ،کفر اور گناہوں کا ارتکاب کر کے زمین میں فساد پھیلاتے ہیں ان کے لئے قیامت کے دن اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری ہے اور اُن کیلئے برا گھر یعنی جہنم ہے۔ (خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۲۵، ۳ / ۶۴-۶۵، ملخصاً)
اَللّٰهُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یَقْدِرُؕ-وَ فَرِحُوْا بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَاؕ-وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا مَتَاعٌ(26)
ترجمہ: کنزالعرفان
اللہ جس کے لیے چاہتا ہے رزق وسیع کردیتا ہے اور تنگ کردیتا ہے اور کا فر دنیا کی زندگی پر خوش ہوگئے حالانکہ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں ایک حقیر سی شے ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَللّٰهُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ:اللّٰہ جس کے لیے چاہتا ہے رزق وسیع کردیتا ہے۔} یعنی اللّٰہ تعالیٰ اپنے فضل سے بندوں میں سے جسے چاہے وسیع رزق دے کر غنی کر دیتا ہے اور جسے چاہے اس کے رزق میں تنگی فرما کر اسے فقیر بنا دیتا ہے۔( خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۲۶، ۳ / ۶۵)
رزق میں برابری نہ ہونے کی حکمتیں :
یاد رہے کہ دنیا میں اللّٰہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو ایک جیسارزق عطا نہیں فرمایا ،بعض لوگ غریب ہیں ،بعض مُتَوسِّط اور بعض امیر، اس میں اللّٰہ تعالیٰ کی بے شمار حکمتیں ہیں ، ان میں سے دو حکمتیں یہاں ذکر کی جاتی ہیں ۔
(1)…اللّٰہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں ارشاد فرمایا
’’وَ لَوْ بَسَطَ اللّٰهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهٖ لَبَغَوْا فِی الْاَرْضِ وَ لٰكِنْ یُّنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا یَشَآءُؕ-اِنَّهٗ بِعِبَادِهٖ خَبِیْرٌۢ بَصِیْرٌ‘‘ (الشوری:۲۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اگر اللّٰہ اپنے سب بندوں کیلئے رزق وسیع کردیتا تو ضرور زمین میں فساد پھیلاتے لیکن وہ ایک مقدار سے جتنا چاہتا ہے اتارتا ہے ، بیشک وہ بندوں سے خبردار،دیکھنے والاہے۔
(2)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ میرے بعض مومن بندے ایسے ہیں کہ جن کے ایمان کی بھلائی مالدار ہونے میں ہے، اگر میں انہیں مالدار نہ کروں تو وہ کفر میں مبتلا ہو جائیں گے اور میرے بعض مومن بندے ایسے ہیں کہ ان کے ایمان کی بھلائی مالدار نہ ہونے میں ہے، اگر میں انہیں مالدار کر دوں تو وہ کفر میں مبتلا ہو جائیں گے۔ (ابن عساکر، حرف الکاف فی آباء من اسمہ ابراہیم، ابراہیم بن ابی کریمۃ الصیداوی، ۷ / ۹۶)
{وَ فَرِحُوْا بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا:اور کا فر دنیا کی زندگی پر خوش ہوگئے۔} یعنی مشرکین پر جب اللّٰہ تعالیٰ نے رزق وسیع فرمایا تو انہوں نے شر پھیلانا شروع کر دیا اور وہ تکبر میں مبتلا ہو گئے حالانکہ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں ایک حقیر سی شے ہے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ دُنیوی نعمتوں پر فخریَہ خوش ہونا کفار کا طریقہ ہے اور ناجائز ہے جبکہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے شکریہ کے طور پر خوش ہونامومنوں کا طریقہ ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے
’’قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْا‘‘ (یونس:۵۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:تم فرماؤ: اللّٰہ کے فضل اور اس کی رحمت پر ہی خوشی منانی چاہیے۔
دنیوی اور اُخروی زندگی میں فرق:
یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ دنیا کی زندگی وہ ہے جواللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے غفلت میں گزرے، یہ بری ہے اور قرآن و حدیث میں اسی کی مذمت ہے اور جو زندگی آخرت کی تیار ی میں گزرے وہ بفضلہ تعالیٰ اُخروی زندگی ہے، یہی حیاتِ طیّبہ ہے ۔ امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ہر وہ چیز جو آخرت کے اعمال پر مددگار ہو جیسے ضروری غذااور موٹے کپڑوں کا ایک جوڑا اور ہر وہ چیز جس کا انسان کے باقی رہنے اور اس کی صحت کے لئے ہونا ضروری ہے اور اس کے ذریعے وہ علم و عمل تک پہنچتا ہے تو یہ (چیز) دنیا نہیں ہے کیونکہ یہ علم و عمل کے لئے مددگار ہے اور اس کے لئے وسیلہ ہے توانسا ن جب اسے علم و عمل پر مدد حاصل کرنے کے لئے اختیار کرتا ہے تو وہ دنیا کے لئے نہیں لیتا اور نہ ہی وہ اس وجہ سے دنیا دار کہلاتا ہے اور اگر (ان چیزوں سے) محض دنیا کا فوری فائدہ اور لذت مطلوب ہواور تقویٰ پر مدد کاحصول مقصودنہ ہو تو اب (ان چیزوں کا حصول) دنیا میں شمار ہو گا۔ (احیاء علوم الدین، کتاب ذمّ الدنیا، بیان حقیقۃ الدنیا وماہیتہا فی حق العبد، ۳ / ۲۷۱)
مومن و کافراور فاسق و پرہیز گار کی زندگی میں فرق:
مومن و کافراور فاسق و پرہیز گار کی زندگیوں میں بڑا فرق ہے، بعض لوگ سوتے ہوئے بھی جاگتے ہیں اور بعض جاگتے ہوئے بھی سوتے ہیں ۔ بعض جیتے جی مرے ہوئے ہیں اوربعض مر کر بھی زندہ ہیں ۔
وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ اٰیَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖؕ-قُلْ اِنَّ اللّٰهَ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَهْدِیْۤ اِلَیْهِ مَنْ اَنَابَ(27)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور کافر کہتے ہیں : ان پر ان کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں اتری؟ تم فرماؤ: بیشک اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور اسے اپنی راہ دکھاتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرتاہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا:اور کافر کہتے ہیں ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کفار ِمکہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہتے تھے کہ آپ پر ویسی نشانی کیوں نہیں اتری جیسی حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر نازل ہوئی تاکہ وہ آپ کی صداقت پر نشانی اور دلیل ہوتی ۔ اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرما دیں ’’بیشک اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے کہ ایسا آدمی نشانیاں اور معجزات نازل ہونے کےبعد بھی یہ کہتا رہتا ہے کہ کوئی نشانی کیوں نہیں اُتری ؟کوئی معجزہ کیوں نہیں آیا؟ الغرض کثیر معجزات دیکھنے کے باوجود گمراہ رہتا ہے لہٰذا اگر اللّٰہ تعالیٰ ہدایت نہ دے تواسے معجزات اور نشانیوں کی کثرت کوئی فائدہ نہ دے گی اور اللّٰہ تعالیٰ اپنی راہ اسے دکھاتا ہے جو دل سے اور کامل طور پر اللّٰہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے۔ (خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۲۷، ۳ / ۶۵، روح البیان، الرعد، تحت الآیۃ: ۲۷،۴ / ۳۷۲، ابوسعود، الرعد، تحت الآیۃ: ۲۷، ۳ / ۱۶۳، ملتقطاً)
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ تَطْمَىٕنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِكْرِ اللّٰهِؕ-اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُﭤ(28)
ترجمہ: کنزالعرفان
۔(ان لوگوں کو ہدایت دیتا ہے) جو ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کی یاد سے چین پاتے ہیں ، سن لو! اللہ کی یاد ہی سے دل چین پاتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُ:سن لو! اللّٰہ کی یاد ہی سے دل چین پاتے ہیں ۔} یعنی اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت و فضل اور اس کے احسان و کرم کو یاد کرکے بے قرار دلوں کو قرار اور اطمینان حاصل ہوتا ہے ۔ یونہی اللّٰہ تعالیٰ کی یاد محبت ِ الٰہی اور قرب ِ الٰہی کا عظیم ذریعہ ہے اور یہ چیزیں بھی دلوں کے قرار کا سبب ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ بھی کہا جائے تو یقینا درست ہوگا کہ ذکرِ الٰہی کی طبعی تاثیر بھی دلوں کا قرار ہے ، اسی لئے پریشان حال آدمی جب پریشانی میں اللّٰہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے تواس کے دل کو قرار آنا شروع ہوجاتا ہے ،یونہی قرآن بھی ذِکْرُ اللّٰہ ہے اور اس کے دلائل دلوں سے شکوک و شبہات دور کرکے چین دیتے ہیں ، یونہی دعا بھی ذِکْرُ اللّٰہ ہے اور اس سے بھی حاجتمندوں کو سکون ملتا ہے اور اسمائے الٰہی اور عظمتِ الٰہی کا تذکرہ بھی ذِکْرُ اللّٰہ ہے اور اس سے بھی محبانِ خدا کے دلوں کو چین ملتا ہے۔
اللّٰہ تعالیٰ کے ذکر سے متعلق دو اہم باتیں :
(1)…امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : حضرت عثمان مغربی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے ان کے ایک مرید نےعرض کی :کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دل کی رغبت کے بغیر بھی میری زبان سے اللّٰہ تعالیٰ کا ذکر جاری رہتا ہے، انہوں نے فرمایا: یہ بھی تو شکر کا مقام ہے کہ تمہارے ایک عُضْو (یعنی زبان) کو اللّٰہ تعالیٰ نے ذِکر کی توفیق بخشی ہے۔
(2)…جس کا دل اللّٰہ تعالیٰ کے ذکر میں نہیں لگتا اسے بعض اوقات شیطان وسوسہ ڈالتا ہے کہ جب تیرا دل اللّٰہ تعالیٰ کے ذکر میں نہیں لگتا تو خاموش ہو جا کہ ایسا ذکر کرنا بے ادبی ہے۔ اس شیطانی وسوسے سے بچنا چاہیے۔ امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس وسوسے کا جواب دینے والے لوگ تین قسم کے ہیں ۔ ایک قسم ان لوگوں کی ہے جو ایسے موقع پر شیطان سے کہتے ہیں :خوب توجہ دلائی، اب میں تجھے بیزار کرنے کے لئے دل کوبھی حاضر کرتا ہوں ، اس طرح شیطان کے زخموں پر نمک پاشی ہو جاتی ہے۔ دوسرے وہ احمق ہیں جو شیطان سے کہتے ہیں : تو نے ٹھیک کہا جب دل ہی حاضر نہیں تو زبان ہلائے جانے سے کیا فائدہ! اور یوں وہ اللّٰہ تعالیٰ کے ذکر سے خاموش ہو جاتے ہیں ۔ یہ نادان سمجھتے ہیں کہ ہم نے عقلمندی کا کام کیا حالانکہ انہوں نے شیطان کو اپناہمدرد سمجھ کر دھوکا کھا لیا ہے۔ تیسرے وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں :اگرچہ ہم دل کو حاضر نہیں کر سکتے مگر پھر بھی زبان کو اللّٰہ تعالیٰ کے ذکر میں مصروف رکھنا خاموش رہنے سے بہتر ہے، اگرچہ دل لگا کر ذکر کرنا اس طرح کے ذکر سے کہیں بہتر ہے۔ (کیمیائے سعادت، رکن چہارم: منجیات، اصل اول در توبہ، ۲ / ۷۷۱)
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ طُوْبٰى لَهُمْ وَ حُسْنُ مَاٰبٍ(29)
ترجمہ: کنزالعرفان
وہ لوگ جو ایمان لائے اور اچھے عمل کئے ان کیلئے خوشی اور اچھا انجام ہے ۔
تفسیر: صراط الجنان
{طُوْبٰى لَهُمْ وَ حُسْنُ مَاٰبٍ:ان کیلئے خوشی اور اچھا انجام ہے ۔} اس آیت میں مذکور لفظ ’’طوبیٰ ‘‘ کے بارے میں مختلف اَقوال ہیں ، بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ طوبیٰ سے مراد راحت ونعمت اور شادمانی و خوش حالی کی بشارت ہے۔ حضرت سعید بن جبیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ طوبیٰ حبشی زبان میں جنت کا نام ہے۔ حضرت ابوہریرہ اور دیگر صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے مروی ہے کہ طوبیٰ جنت کے ایک درخت کا نام ہے جس کا سایہ تمام جنتوں میں پہنچے گا۔ حضرت عبید بن عمیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’یہ درخت جنّتِ عَدن میں ہے اور اس کی جڑ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ایوانِ مُعَلّٰی میں اور اس کی شاخیں جنت کے ہر بالا خانے اور محل میں ہیں ، اس میں سیاہی کے سوا ہر قسم کے رنگ اور خوش نمائیاں ہیں ،ہر طرح کے پھل اورمیوے اس میں پھلے ہیں ، اس کی جڑ سے کافور اور سَلسبیل کی نہریں رواں ہیں ۔( خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۲۹، ۳ / ۶۵)
كَذٰلِكَ اَرْسَلْنٰكَ فِیْۤ اُمَّةٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهَاۤ اُمَمٌ لِّتَتْلُوَاۡ عَلَیْهِمُ الَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ وَ هُمْ یَكْفُرُوْنَ بِالرَّحْمٰنِؕ-قُلْ هُوَ رَبِّیْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۚ-عَلَیْهِ تَوَكَّلْتُ وَ اِلَیْهِ مَتَابِ(30)
ترجمہ: کنزالعرفان
اسی طرح ہم نے تمہیں اس امت میں بھیجا جس سے پہلے کئی امتیں گزر گئیں تاکہ تم انہیں پڑھ کر سناؤ جو ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی ہے حالانکہ وہ رحمٰن کے منکر ہورہے ہیں ۔ تم فرماؤ : وہ میرا رب ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور اسی کی طرف میرا رجوع ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{كَذٰلِكَ اَرْسَلْنٰكَ فِیْۤ اُمَّةٍ:اسی طرح ہم نے تمہیں اس امت میں بھیجا ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جس طرح آپ سے پہلے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو گزشتہ امتوں کی طرف بھیجا اسی طرح آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس امت کی طرف بھیجاتو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اُمت سب سے آخری اُمت ہے اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خاتَم الانبیاء ہیں ، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بڑی شان سے رسالت عطا کی تاکہ آپ اپنی امت کو قرآنِ پاک اور وہ شرعی احکام پڑھ کر سنائیں جو ہم نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف وحی فرمائے ہیں حالانکہ وہ رحمٰن کے منکر ہورہے ہیں ۔ شانِ نزول:حضرت قتادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور مقاتل وغیرہ کا قول ہے کہ یہ آیت صلحِ حدیبیہ میں نازل ہوئی جس کا مختصر واقعہ یہ ہے کہ سہیل بن عمر وجب صلح کے لئے آیا اور صلح نامہ لکھنے پر اتفاق ہوگیا تو حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے فرمایا لکھو ، بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم کفار نے اس میں جھگڑا کیا اور کہا کہ آپ ہمارے دستور کے مطابق ’’بِاِسْمِکَ اللّٰھُمَّ‘‘ لکھوائیے، اس کے متعلق آیت میں ارشاد ہوتا ہے کہ وہ رحمٰن کے منکر ہورہے ہیں ۔ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،آپ ان سے فرما دیں کہ رحمٰن تو وہی ہے جس کی معرفت سے تم انکار کر رہے ہو، وہ میرا رب عَزَّوَجَلَّ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، میں نے اپنے تمام اُمور میں اسی پر بھروسہ کیااور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں ۔ (خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۳۰، ۳ / ۶۶، ملخصاً)وَ لَوْ اَنَّ قُرْاٰنًا سُیِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ اَوْ قُطِّعَتْ بِهِ الْاَرْضُ اَوْ كُلِّمَ بِهِ الْمَوْتٰىؕ-بَلْ لِّلّٰهِ الْاَمْرُ جَمِیْعًاؕ-اَفَلَمْ یَایْــٴَـسِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ لَّوْ یَشَآءُ اللّٰهُ لَهَدَى النَّاسَ جَمِیْعًاؕ-وَ لَا یَزَالُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا تُصِیْبُهُمْ بِمَا صَنَعُوْا قَارِعَةٌ اَوْ تَحُلُّ قَرِیْبًا مِّنْ دَارِهِمْ حَتّٰى یَاْتِیَ وَعْدُ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ(31)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اگر کوئی ایسا قرآن آتا جس سے پہاڑ ٹل جاتے یا زمین پھٹ جاتی یا مردوں سے باتیں کی جاتیں (جب بھی یہ کافر نہ مانتے) بلکہ سب کام اللہ ہی کے اختیار میں ہیں تو کیا مسلمان اس بات سے ناامید نہ ہوگئے کہ اگر اللہ چاہتا تو سب آدمیوں کو ہدایت دیدیتا اور کافروں کو ان کے عمل کی وجہ سے ہمیشہ ہلا دینے والی مصیبت پہنچتی رہے گی یا آپ ان کے گھروں کے نزدیک اتریں گے یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ آجائے بیشک اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَوْ اَنَّ قُرْاٰنًا سُیِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ:اور اگر کوئی ایسا قرآن آتا جس سے پہاڑ ٹل جاتے۔} شانِ نزول:کفارِ قریش نے حضور پُر نورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا تھا کہ اگر آپ یہ چاہیں کہ ہم آپ کی نبوت مانیں اور آپ کی پیروی کریں تو آپ قرآن شریف پڑھ کراس کی تاثیر سے مکہ مکرمہ کے پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹا دیجئے تاکہ ہمیں کھیتی باڑی کرنے کے لئے وسیع میدان مل جائیں اور زمین پھاڑ کر چشمہ جاری کیجئے تاکہ ہم کھیتوں اور باغوں کو ان سے سیراب کریں اورقُصَی بن کلاب وغیرہ ہمارے مرے ہوئے باپ دادا کو زندہ کردیجئے تاکہ وہ ہم سے کہہ جائیں کہ آپ نبی ہیں ۔ اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی اور بتادیا گیا کہ یہ حیلے بہانے کرنے والے کسی حال میں بھی ایمان لانے والے نہیں ۔ سب کام اللّٰہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہیں ،تو ایمان وہی لائے گا جس کو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ چاہے اور توفیق دے اس کے سوا اور کوئی ایمان لانے والا نہیں اگرچہ انہیں وہی نشانیاں دکھا دی جائیں جو وہ طلب کررہے ہیں ۔ (روح البیان، الرعد، تحت الآیۃ: ۳۱، ۴ / ۳۷۶، جلالین، الرعد، تحت الآیۃ: ۳۱، ص۲۰۴، ملتقطاً)
نورِ قرآن سے فائدہ اٹھانے کا طریقہ:
اس سے معلوم ہو اکہ قرآنِ مجید کے انوار کو نگاہِ بصیرت سے دیکھنا ہی حقیقی طور پر فائدہ مند ہے کیونکہ کفار قرآن کریم کے نور کو نگاہ ِبصیرت سے نہیں دیکھتے تھے اسی لئے وہ اس کے بر حق ہونے کی بُرہان کا مشاہدہ نہ کر سکے اور حق قبول کرنے سے محروم رہ گئے، اس لئے جو یہ چاہتا ہے کہ اس کا دل قرآن عظیم کے نور سے منور ہوجائے اور قرآنی آیات کی تاثیر اس پر اثر کرے تو وہ نگاہِ بصیرت سے قرآن شریف کی تلاوت کرے اور اسے سمجھ کر پڑھے اور ا س میں دئیے گئے احکام پر عمل کرے اور ممنوعات سے باز رہے تو اِنْ شَآءَ اللّٰہ اس کا دل قرآن پاک کے نور سے جگمگا اٹھے گا اور وہ اس کی آیات کی تاثیر اپنے ظاہر اور باطن میں دیکھ لے گا۔
{اَفَلَمْ یَایْــٴَـسِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:تو کیا مسلمان اس بات سے ناامید نہ ہوگئے ۔}اس آیت میں ان مسلمانوں کو جواب دیاگیا جنہوں نے کفار کے نئی نئی نشانیاں طلب کرنے پر یہ چاہا تھا کہ جو کافر بھی کوئی نشانی طلب کرے وہی اس کو دکھادی جائے، اس میں اُنہیں بتادیا گیا کہ جب زبردست نشانیاں آچکیں اور شکوک وشبہات کی تمام راہیں بند کردی گئیں ، دین کی حقانیت روز ِروشن سے زیادہ واضح ہوچکی، ان واضح دلائل کے باوجود لوگ مکر گئے اور حق کا اِعتراف نہ کیا تو اس سے ظاہر ہوگیا کہ وہ عناد کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں اور عناد رکھنے والا کسی دلیل سے بھی مانا نہیں کرتا تو مسلمانوں کو اب ان سے حق قبول کرنے کی کیا امید؟ کیا اب تک ان کے عناد کا مشاہدہ کر کے ،واضح نشانیوں اور دلائل سے ان کا اِعراض کرنا دیکھ کر بھی ان سے قبولِ حق کی امید رکھی جاسکتی ہے؟ البتہ اب ان کے ایمان لانے اور مان جانے کی یہی صورت ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ انہیں مجبور کردے اور ان کا اختیار سَلب فرمالے ،لیکن اللّٰہ تعالیٰ اس طرح کی ہدایت چاہتا تو تمام آدمیوں کو عطا فرمادیتا اور کوئی کافر نہ رہتا مگر آزمائش اور امتحان کے گھر کی حکمت اس کا تقاضا نہیں کرتی۔ (روح البیان، الرعد، تحت الآیۃ: ۳۱، ۴ / ۳۷۷، ملخصاً)
{وَ لَا یَزَالُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا:اور کافروں کو ہمیشہ۔} یعنی کفار اپنے کفر اور خبیث اعمال کی وجہ سے طرح طرح کے حَوادث و مَصائب اور آفتوں اور بلاؤں میں مبتلا رہیں گے ،کبھی قحط میں ، کبھی لٹنے میں ، کبھی مارے جانے میں ،کبھی قید میں ، چنانچہ سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے کے کفار انہی چیزوں میں گرفتار ہوتے رہے۔
{اَوْ تَحُلُّ قَرِیْبًا مِّنْ دَارِهِمْ:یاآپ ان کے گھروں کے نزدیک اتریں گے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ حدیبیہ کے دن ان کے گھروں کے نزدیک اپنے لشکر کے ساتھ اتریں گے یہاں تک کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے فتح و نصرت کا، رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کا دین غالب ہونے کا اور مکہ مکرمہ کی فتح کا وعدہ پورا ہوجائے، بے شک اللّٰہ تعالیٰ اپنے وعدے کے خلاف نہیں فرماتا۔ (خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۳۱، ۳ / ۶۷، مدارک، الرعد، تحت الآیۃ: ۳۱، ص۵۵۸، ملتقطاً)
وَ لَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَاَمْلَیْتُ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوْا ثُمَّ اَخَذْتُهُمْ- فَكَیْفَ كَانَ عِقَابِ(32)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک آپ سے پہلے رسولوں کا مذاق اڑایا گیا تو میں نے کافروں کو ڈھیل دی پھر میں نے انہیں پکڑلیا تو میرا عذاب کیسا تھا؟
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِكَ:اور بیشک آپ سے پہلے رسولوں کا مذاق اڑایا گیا۔} کفار ِمکہ نے جب ان معجزات کا مطالبہ مذاق اڑانے کے طور پر کیا تو یہ نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قلبِ اطہر پر بہت گراں گزرا اور ان باتوں سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بہت اَذِیّت اور تکلیف پہنچی تو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دینے کے لئے یہ آیت نازل فرمائی تاکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنی قوم کے ان جاہلانہ مطالبوں پر صبر فرمائیں ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے حبیب!صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جس طرح آپ کی قوم نے آپ کا مذاق اڑانے کی نیت سے نشانیاں طلب کی ہیں اسی طرح باقی انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوموں نے بھی ان کا مذاق اُڑایا تھا ، پھر میں نے کافروں کوکچھ دنوں کیلئے ڈھیل دینے کے بعد عذاب میں گرفتار کر دیااور دنیا میں انہیں قحط ،قتل اور قید کی مصیبتوں میں مبتلا کر دیا اور آخرت میں اُن کے لئے جہنم کا عذاب ہے۔(تفسیرکبیر، الرعد، تحت الآیۃ: ۳۲، ۷ / ۴۴، خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۳۲، ۳ / ۶۷، ملتقطاً)
علماء و مبلغین کیلئے درس:
اس آیت میں علماء و مبلغین کیلئے درس ہے کہ راہِ خدا میں تکالیف برداشت کرنا انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا طریقہ ہے اس لئے اگر انہیں راہِ خدا میں کسی تکلیف اور پریشانی کا سامنا ہو تو انہیں چاہئے کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حالات اور ان کی سیرت کو سامنے رکھتے ہوئے صبر و تَحَمُّل کا مظاہرہ کریں ،اللّٰہ تعالیٰ نے چاہا تو ان کی تکالیف جلد دور ہو جائیں گی۔
عظمت ِاولیاء:
علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیا رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کا مذاق اڑانا بد بختی کی علامت ہے۔ حدیثِ قُدسی میں ہے،اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’جس نےمیرے کسی ولی کی توہین کی تو اس نے مجھ سے جنگ کا اعلان کر دیا۔ (معجم الاسط، باب الالف، من اسمہ احمد، ۱ / ۱۸۴، الحدیث: ۶۰۹) یعنی جس نے میرے اولیا میں سے کسی کو اذیت دی یا کسی کو غضب دلایا تو اس نے مجھ سے جنگ کی ۔
مزید فرماتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ کے اولیا سے محبت رکھنا، ان سے قلبی تعلقات قائم کرنا اور ان کی صحبت اختیار کرنا اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ نفع مند اعمال میں سے ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کے اولیا سے بغض و عداوت رکھنا، انہیں حقیر سمجھنا اور ان پر اعتراضات کرنا اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ نقصان دینے والے اعمال میں سے ہے۔ (روح البیان، الرعد، تحت الآیۃ: ۳۲، ۴ / ۳۷۸) اس سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو اللّٰہ تعالیٰ کے اولیا کے بارے میں نازیبا کلمات کہتے، ان کی توہین کرتے، ان سے عداوت و دشمنی رکھتے اور ان پر اعتراضات کرتے ہیں ۔ اللّٰہ تعالیٰ انہیں ہدایت عطا فرمائے، اٰمین۔
اَفَمَنْ هُوَ قَآىٕمٌ عَلٰى كُلِّ نَفْسٍۭ بِمَا كَسَبَتْۚ-وَ جَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَآءَؕ-قُلْ سَمُّوْهُمْؕ-اَمْ تُنَبِّــٴُـوْنَهٗ بِمَا لَا یَعْلَمُ فِی الْاَرْضِ اَمْ بِظَاهِرٍ مِّنَ الْقَوْلِؕ-بَلْ زُیِّنَ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوْا مَكْرُهُمْ وَ صُدُّوْا عَنِ السَّبِیْلِؕ-وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ(33)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو کیا وہ خدا جو ہر شخص پر اس کے اعمال کی نگرانی رکھتا ہے (وہ بتوں جیسا ہے؟ ہرگز نہیں ) اور وہ لوگ اللہ کے شریک ٹھہراتے ہیں ۔تم فرماؤ: تم ان کا نام تو لو (کہ وہ کون ہیں جو خدا کے شریک ہیں )بلکہ تم اللہ کو وہ بات بتاتے ہو جسے وہ زمین میں جانتا ہی نہیں ہے یا یونہی ایک اوپری بات بلکہ کافروں کیلئے ان کا فریب خوشنما بنا دیا گیا اور انہیں راستے سے روک دیا گیا اور جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَفَمَنْ هُوَ قَآىٕمٌ عَلٰى كُلِّ نَفْسٍۭ بِمَا كَسَبَتْ:تو کیا وہ جو ہر شخص پر اس کے اعمال کی نگرانی رکھتا ہے۔}اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے مکہ کے مشرکین کا رد اور انہیں زَجر و توبیخ فرمائی ہے۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ’’اللّٰہ تعالیٰ جو کہ ہر شخص کا محافظ اور اسے رزق دینے والا ہے، اسے جانتا اور ا س کے اچھے برے اعمال کو بھی جانتا ہے، نیکیاں کرنے والے کو ثواب دینے والا اور گناہ کرنے والے کو سزا دینے والا ہے کیا وہ اُن بتوں کی مثل ہوسکتا ہے جو ایسے نہیں ؟بلکہ وہ تو اپنے آپ سے بھی عاجز ہیں اور جو خود سے عاجز ہوں وہ دوسروں کو کیانفع یا نقصان پہنچا سکیں گے ، لہٰذا عبادت کامستحق صرف اللّٰہ تعالیٰ ہے نہ کہ وہ بت جنہیں مشرکین اللّٰہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہیں ۔ (خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۳۳، ۳ / ۶۷)
{قُلْ سَمُّوْهُمْ:تم فرماؤ: تم ان کا نام تو لو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرمائیں کہ تم جن بتوں کو عبادت کا مستحق ٹھہراتے ہو ان کی حقیقت تو بیان کرو کہ ان کا تعلق کس جنس سے ہے اور وہ کس قسم سے تعلق رکھتے ہیں ؟ پھرغور کرو کہ کیا وہ عبادت کے لائق ہو سکتے ہیں ؟یقینا نہیں لہٰذا تمہارے اس شرک کا مطلب یہ نکلا کہ تم اللّٰہ تعالیٰ کو اس کے شریک کی خبر دے رہے ہو حالانکہ اللّٰہ تعالیٰ زمین میں اپنا کوئی شریک موجود نہ ہونے کی وجہ سے اسے جانتا ہی نہیں ، اگر اللّٰہ تعالیٰ کا کوئی شریک ہو سکتا تو اللّٰہ تعالیٰ کواس کا علم ضرور ہوتا کیونکہ اس کا علم ہر چیز کو محیط ہے اورجو اللّٰہ تعالیٰ کے علم میں نہ ہو وہ محض باطل ہے لہٰذا اللّٰہ تعالیٰ کے لئے شریک ہونا بھی باطل اورغلط ہے۔ یاد رہے کہ اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ کے علم کی نفی نہیں کی گئی بلکہ اللّٰہ تعالیٰ کا شریک ہونے کی نفی کی گئی ہے۔ (خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۳۳، ۳ / ۶۷-۶۸، صاوی، الرعد، تحت الآیۃ: ۳۳، ۳ / ۱۰۰۷، ملتقطاً)
لَهُمْ عَذَابٌ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ لَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَشَقُّۚ-وَ مَا لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ وَّاقٍ(34)
ترجمہ: کنزالعرفان
ان کیلئے دنیا کی زندگی میں عذاب ہے اور آخرت کا عذاب یقینا زیادہ سخت ہے اور انہیں اللہ سے بچانے والا کوئی نہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{لَهُمْ عَذَابٌ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا:ان کیلئے دنیا کی زندگی میں عذاب ہے۔} یعنی ان کیلئے دنیا کی زندگی میں قتل اور قید وغیرہ کا عذاب ہے اور آخرت کا عذاب یقینا دنیا کے عذاب کے مقابلے میں زیادہ سخت ہے اور انہیں اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں ۔
جہنم کے عذاب کی سختیاں :
اس آیتِ مبارکہ میں بیان کی گئی وعید اگرچہ کافروں کے بارے میں ہے لیکن اس میں ان مسلمانوں کے لئے بھی بڑی عبرت ہے جو اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت و عبادت سے انتہائی دور اور اس کی نافرمانی میں بہت مصروف ہیں ، اگر ان کے گناہوں کی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں جہنم میں ڈال دیا تو ان کا جوحال ہو گا اس کا اندازہ لگانا انتہائی مشکل ہے، مزید عبرت حاصل کرنے کے لئے عذابِ جہنم کی سختیوں کے بیان پر مشتمل امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا یہ کلام بغور پڑھئے، چنانچہ آپ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اے اپنے نفس سے غافل اور اس فانی اور مٹ جانے والی دنیا پر دھوکہ کھانے والے شخص! اُس چیز کی فکر نہ کر جسے چھوڑ کر جانے والا ہے بلکہ اپنے فکر کی لگام کو اس کی طرف موڑ دے جو تیری منزل ہے ، کیونکہ تجھے بتایا گیا کہ سب لوگوں کو جہنم پر سے گزرنا پڑے گا، کہا گیا ہے:
’’وَ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَاۚ-كَانَ عَلٰى رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِیًّاۚ(۷۱) ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ نَذَرُ الظّٰلِمِیْنَ فِیْهَا جِثِیًّا‘‘(مریم:۷۱، ۷۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور تم میں سے ہرایک دوزخ پر سے گزرنے والاہے۔یہ تمہارے رب کے ذمہ پر حتمی فیصلہ کی ہوئی بات ہے۔ پھر ہم ڈر نے والوں کو بچالیں گے اور ظالموں کو اس میں گھٹنوں کے بل گرے ہوئے چھوڑ دیں گے۔
تو تجھے وہاں جانے کا یقین ہونا چاہئے اور چونکہ نجات کے بارے میں شک ہے ا س لئے تو اپنے دل میں اُس مقام کے ہولناک منظر کا شعور بیدار کر کہ شاید تو اس سے نجات کے لیے تیاری کرے ،نیز مخلوق کے حال میں غور و فکر کر کہ قیامت کے مَصائب میں سے ان پر جو کچھ گزرا اس کی وجہ سے وہ کَرب اور پریشانیوں میں ہوں گے اور اس بات کے منتظر ہوں گے کہ انہیں سفارش کرنے والوں کی شفاعت کی خبر ملے کہ اچانک مجرموں کو شاخ در شاخ اندھیرے گھیرلیں گے اور لپٹ جانے والی آگ ان پر چھا جائے گی ،وہ اس کی آواز اور جھنجھناہٹ سنیں گے جو اس کے سخت غیظ و غضب پر دلالت کر رہی ہوگی ،اس وقت مجرموں کو اپنی ہلاکت کا یقین ہوجائے گا اور لوگ گھٹنوں کے بل گر جائیں گے حتّٰی کہ جو لوگ بچ جائیں گے ان کو برے انجام کا خوف ہوگا اور جہنم کے فرشتوں میں سے ایک آواز دیتے ہوئے کہے گا: اے فلاں بن فلاں ! جو دنیا میں لمبی امید کی وجہ سے ٹال مٹول سے کام لیتا تھا اور تو نے برے اعمال میں عمر کو ضائع کردیا، پھر وہ لوہے کے گُرز لے کر اس کی طرف دوڑیں گے اور اس کو طرح طرح کی دھمکیاں دیں گے، نیز اسے سخت عذاب کی طرف لے جائیں گے اور گہرے جہنم میں اوندھا پھینک دیں گے، وہ کہیں گے:
’’ذُقْ ﳐ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْكَرِیْمُ‘‘(دخان:۴۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: چکھ۔ تو توبڑا عزت والا، کرم والاہے۔
پس وہ اسے ایسے گھر میں قید کردیں گے جس کے کنارے تنگ، راستے تاریک اور مقاماتِ ہلاکت پوشیدہ ہوں گے ، (کافر) قیدی وہاں ہمیشہ رہے گا (جبکہ مسلمان قیدی اپنی سزا پوری ہونے تک وہاں رہے گا) اور اس میں بھڑکتی ہوئی آگ جلائی جائے گی وہاں ان کا مشروب کھولتا ہو اپانی اور ٹھکانہ جہنم ہوگا آگ کے فرشتے ان کو گرز ماریں گے اور آگ ان کو جمع کرے گی ، وہاں وہ موت کی تمنا کریں گے لیکن اس سے چھوٹ نہیں سکیں گے، ان کے پاؤں پیشانی کے بالوں سے بندھے ہوں گے اور گناہوں کی تاریکی کے باعث ان کے چہرے سیاہ ہوں گے وہ ہرکنارے سے پکاریں گے اور چیخیں چلائیں گے اور (جہنم کے فرشتے سے) کہیں گے اے مالک! ہم سے عذاب کا وعدہ پورا ہوچکا ہے، بیڑیاں ہم پر بھاری ہوگئی ہیں اے مالک! ہمارے چمڑے پک چکے ہیں ، اے مالک! ہمیں یہاں سے نکالو ہم کبھی بھی گناہ نہیں کریں گے۔
دوزخ کے فرشتے کہیں گے: نہیں ! امن کے دن چلے گئے، اب ذلت کے گھر سے نکل نہیں سکتے ،اس میں پھٹکار کے ساتھ پڑے رہو اور باتیں نہ کرو اگر تمہیں یہاں سے نکال بھی دیا جائے تو جس کام سے تمہیں روکا گیا تم دوبارہ وہی کام کرو گے، اس وقت وہ نا امید ہوجائیں گے اور اللّٰہ تعالیٰ کے مقابل جو باتیں کی ہوں گی اُن پر اِنہیں افسوس ہوگا، لیکن اب نہ تو ان کو ندامت نجات دے گی اور نہ ہی افسوس کا کوئی فائدہ ہوگا بلکہ انہیں طوق پہنا کر چہروں کے بل اوندھا گرادیا جائے گا،ان کے اوپرنیچے، دائیں اور بائیں آگ ہی آگ ہوگی، وہ آگ میں ڈوبے ہوئے ہوں گے ،ان کا کھانا آگ، پینا آگ، لباس آگ اور بچھونا آگ ہو گا اور وہ آگ کے ٹکڑوں ، تارکول کے لباس،گرزوں کے ساتھ مارے جانے اور بھاری بیڑیوں کے درمیان ہوں گے ،وہ دوزخ کے تنگ راستوں میں چلیں گے اور جہنم کی سیڑھیوں سے ہجوم کے ساتھ اتریں گے اور ان کے اَطراف و جوانب میں پریشان پھر رہے ہوں گے، آگ ان پر اس طرح جوش مار رہی ہوگی جس طرح ہنڈیا میں ابال آتا ہے۔ وہ تباہی اور بربادی کے ساتھ آواز دے رہے ہوں گے، جب وہ ہلاکت کا لفظ بولیں گے تو ان کے سروں پر گرم پانی ڈالا جائے گا جس سے ان کے پیٹوں کے اندر کا سب کچھ اور چمڑے پگھل جائیں گے، ان کے لیے لوہے کے گرز ہوں گے جن سے ان کی پیشانیاں چور چور ہوجائیں گی اور ان کے مونہوں سے پیپ نکلنے لگے گی۔ پیاس کی وجہ سے جگر پھٹ جائیں گے اور آنکھوں کے ڈھیلے چہروں پر نکل پڑیں گے اور رخساروں کے اوپر سے گوشت گرجائے گا اور ان کے اعضا سے چمڑے اور بال بھی سب گرجائیں گے ،جب ان کے چمڑے پک جائیں گے تو ان کو دوسرے چمڑوں سے بدل دیا جائے گا۔ان کی ہڈیاں گوشت سے خالی ہوجائیں گی اور اب روحوں کا مرکز صرف رگیں اور پٹھے ہوں گے اور اس آگ کی لپیٹ میں ان کی آواز آرہی ہوگی، اس کے ساتھ ساتھ وہ موت کی تمنا کریں گے لیکن ان کو موت نہیں آئے گی۔
(اے لوگو! ذرا) سوچو، اگر تم ان کو دیکھو تو تمہاری کیا کیفیت ہو گی حالانکہ ان کے چہرے کوئلے سے بھی زیادہ سیاہ ہوگئے، آنکھوں کی بینائی چلی گئی اور زبانیں گُنگ ہوگئیں ، پٹھے اور ہڈیاں ٹوٹ پھوٹ گئیں ،کان کٹے ہوئے، چمڑے پھٹے ہوئے ، ہاتھوں کو گردنوں سے باندھا ہوا اور پاؤں کو پیشانیوں کے ساتھ جمع کیا ہواہوگا ،وہ آگ پر چہروں کے ساتھ چلتے ہوں گے اور لوہے کے کانٹے آنکھ کے ڈھیلے سے روندتے ہوں گے، آگ کا شعلہ ان کے اندر کے اجزا میں دوڑتا ہوگا اور جہنم کے سانپ اور بچھو ان کے ظاہر اَعضا سے لپٹے ہوں گے۔ یہ ان کے بعض حالات ہیں ۔(احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الشطر الثانی، القول فی صفۃ جہنّم واہوالہا وانکالہا، ۵ / ۲۹۲-۲۹۳)الامان والحفیظ، الامان والحفیظ۔ اے اللّٰہ! عَزَّوَجَلَّ، ہمیں شفاعت کرنے والوں کے سردار کی شفاعت نصیب فرما اوراپنے حبیب کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے امت کے غم میں بہنے والے آنسوؤں کے صدقے جہنم کے عذاب سے نجات عطا فرما،اٰمین۔
مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَؕ-تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُؕ-اُكُلُهَا دَآىٕمٌ وَّ ظِلُّهَاؕ-تِلْكَ عُقْبَى الَّذِیْنَ اتَّقَوْا ﳓ وَّ عُقْبَى الْكٰفِرِیْنَ النَّارُ(35)
ترجمہ: کنزالعرفان
جس جنت کا پرہیزگاروں سے وعدہ کیا گیا ہے اس کا حال یہ ہے کہ اس کے نیچے نہریں جاری ہیں ، اس کے پھل اور اس کا سایہ ہمیشہ رہنے والا ہے۔یہ پرہیزگاروں کا انجام ہے اور کافروں کا انجام آگ ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ:جس جنت کا پرہیزگاروں سے وعدہ کیا گیا ہے۔}اس سے پہلی آیت میںاللّٰہ تعالیٰ نے دنیااور آخرت میں کفار کے عذاب میں مبتلا ہونے کا ذکر فرمایا اور اس آیت میں مسلمانوں کے ثواب کاذکر فرمایا ہے۔(تفسیرکبیر، الرعد، تحت الآیۃ: ۳۵، ۷ / ۴۶)
جنت کے تین اوصاف:
اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے جنت کے تین اوصاف بیان فرمائے ہیں ۔
(1)…جنت کے نیچے سے نہریں جاری ہیں ۔ ان نہروں کی تفصیل اس آیت میں بیان کی گئی ہے۔
’’مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَؕ-فِیْهَاۤ اَنْهٰرٌ مِّنْ مَّآءٍ غَیْرِ اٰسِنٍۚ-وَ اَنْهٰرٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُهٗۚ-وَ اَنْهٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشّٰرِبِیْنَ ﳛ وَ اَنْهٰرٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّى‘‘ (محمد:۱۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اس جنت کا حال جس کا پرہیزگاروں سے وعدہ کیا گیا ہے یہ ہے کہ اس میں خراب نہ ہونے والے پانی کی نہریں ہیں اور ایسے دودھ کی نہریں ہیں جس کا مزہ نہ بدلے اور ایسی شراب کی نہریں ہیں جو پینے والوں کیلئے لذت (بخش) ہے اور صاف شفاف شہد کی نہریں ہیں ۔
(2، 3)…جنت کے پھل اور اس کا سایہ ہمیشہ رہنے والاہے۔یعنی جنت کے میوے اور اس کا سایہ دائمی ہے ان میں سے کوئی ختم اور زائل ہونے والا نہیں ۔ جنت کا حال عجیب ہے کہ اس میں نہ سورج ہے نہ چاندلیکن پھر بھی تاریکی نہیں نیز سورج اور چاند نہیں لیکن پھر بھی سایہ ہے۔
وَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَفْرَحُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مِنَ الْاَحْزَابِ مَنْ یُّنْكِرُ بَعْضَهٗؕ-قُلْ اِنَّمَاۤ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰهَ وَ لَاۤ اُشْرِكَ بِهٖؕ-اِلَیْهِ اَدْعُوْا وَ اِلَیْهِ مَاٰبِ(36)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جنہیں ہم نے کتاب دی وہ اس پر خوش ہوتے جو آپ کی طرف نازل کیا گیا ہے اور ان گروہوں میں کچھ وہ ہیں جو اس قرآن کے بعض حصے کا انکار کرتے ہیں ۔تم فرماؤ :مجھے تو یہی حکم ہے کہ میں اللہ کی عبادت کروں اور اس کا شریک نہ ٹھہراؤں ، میں اسی کی طرف بلاتا ہوں اور اسی کی طرف مجھے پھرنا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ:اور جنہیں ہم نے کتاب دی۔} حضرت حسن اور حضرت قتادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ اس آیت میں کتاب سے مراد قرآنِ پاک اور جنہیں کتاب دی گئی ان سے مراد صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم ہیں ۔ قرآن نازل ہونے پر خوش ہونے سے مراد یہ ہے کہ قرآن نازل ہونے سے اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیت، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت اور مرنے کے بعد اٹھائے جانے سے متعلق مزید احکام نازل ہوتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں خوشی ہوتی ہے۔ اَحزاب سے یہودیوں ، عیسائیوں اور مشرکین کے وہ گروہ مراد ہیں جو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عداوت میں سرشار ہیں اور اُنہوں نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پرچڑھائیاں کی ہیں ۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ کتاب سے مراد تورات اور انجیل ہے اور جنہیں کتاب دی گئی ان سے مراد وہ یہودی اور عیسائی ہیں جو اسلام سے مشرف ہوئے جیسے کہ حضرت عبداللّٰہ بن سلام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ وغیرہ اور حَبشہ و نَجران کے عیسائی۔ قرآن پاک نازل ہونے پر یہ ا س لئے خوش ہوتے کہ یہ قرآن پاک پر ایمان لائے اور انہوں نے اس کی تصدیق کی۔ احزاب سے ایمان لانے والوں کے علاوہ بقیہ یہودی ، عیسائی اور وہ تما م مشرکین مراد ہیں جو قرآن کے بعض حصے کا انکار کرتے ہیں ۔ یہودیوں اور عیسائیوں کو قرآن پاک کے بعض حصے کا انکار کرنے والاا س لئے کہا گیا کہ یہ قرآن پاک کے ان واقعات اور بعض احکام کو مانتے تھے جوابھی تک ان کی کتابوں میں بھی موجود تھے البتہ رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت سے متعلق جن اَحکام کو انہوں نے تبدیل کر دیا تھا ان کا انکار کرتے تھے جبکہ مشرکین کو قرآن پاک کے بعض حصے کا انکار کرنے والا اس لئے کہا گیا کہ یہ اللّٰہ تعالیٰ کو مانتے تھے اور رحمٰن کا انکار کرتے تھے جیساکہ صلحِ حدیبیہ کے موقع پر انہوں نے کہا تھا کہ ہم رحمٰن کو نہیں جانتے ۔ (خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۳۶، ۳ / ۶۸-۶۹، مدارک، الرعد، تحت الآیۃ: ۳۶، ص۵۵۹، ملتقطاً)
وَ كَذٰلِكَ اَنْزَلْنٰهُ حُكْمًا عَرَبِیًّاؕ-وَ لَىٕنِ اتَّبَعْتَ اَهْوَآءَهُمْ بَعْدَ مَا جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِۙ-مَا لَكَ مِنَ اللّٰهِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا وَاقٍ(37)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اسی طرح ہم نے اس قرآن کو عربی فیصلے کی صورت میں اتارا اور اے سننے والے! اگر تو ان کی خواہشوں پر چلے گااس کے بعد کہ تیرے پاس علم آچکا تو اللہ کے آگے نہ تیرا کوئی حمایتی ہوگا اور نہ کوئی بچانے والا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ كَذٰلِكَ اَنْزَلْنٰهُ حُكْمًا عَرَبِیًّا:اور اسی طرح ہم نے اس کو عربی حکم کی صورت میں اتارا۔} یعنی جس طرح پہلے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اُن کی زبانوں میں احکام دیئے تھے اسی طرح ہم نے یہ قرآن آپ کی زبان عربی میں نازل فرمایا۔ قرآنِ کریم کو حکم اس لئے فرمایا کہ اس میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت ، اس کی توحید ،اس کے دین کی طرف دعوت ، تمام تکالیف و احکام اور حلال و حرام کا بیان ہے۔ بعض علما نے فرمایا’’ چونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے تمام مخلوق پر قرآن شریف کے قبول کرنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کا حکم فرمایا اس لئے اس کا نام حکم رکھا ۔ (خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۳۷، ۳ / ۶۹)
{وَ لَىٕنِ اتَّبَعْتَ اَهْوَآءَهُمْ:اور اے سننے والے! اگر تو ان کی خواہشوں پر چلے گا۔} حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں اس آیت میں بظاہرخطاب حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہے لیکن اس سے مراد آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت ہے۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے سننے والے! مضبوط دلائل اور قطعی حجتوں کے ذریعے حق بات کا علم آ جانے کے باوجود اگر تو نے کافروں کی پیروی کی جو اپنے دین کی طرف بلاتے ہیں (اور ان کی خواہشوں پر چلا) تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے آگے نہ تیرا کوئی حمایتی ہوگا اور نہ اس سے کوئی بچانے والا۔ (تفسیرکبیر، الرعد، تحت الآیۃ: ۳۷، ۷ / ۴۹، مدارک، الرعد، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۵۵۹، ملتقطاً)
کفار کی خواہشوں پر چلنے والوں کو نصیحت:
اس آیت میں موجودہ دور کے ان لوگوں کے لئے بڑی عبرت اور نصیحت ہے جو کافروں کی خواہشات پر چلتے ہوئے اسلام کے بنیادی اور ضروری احکام کی اہمیت کو مسلمانوں کی نظر میں کم کرنے کی اور قرآن و حدیث کی غلط تشریحات کر کے مسلمانوں کے دین و ایمان کو برباد کرنے کی کو ششوں میں مصروف ہیں ، یہودیوں ، عیسائیوں اور دیگر کافروں کی خالص مذہبی تقریبات میں نہ صرف خود شرکت کرتے، انہیں تحائف اور مبارک بادیں دیتے ہیں بلکہ ان تقریبات کو میڈیا کے ذریعے اس انداز میں عوام تک پہنچاتے ہیں جیسے یہ بھی اسلام کی تعلیمات کا ایک حصہ ہو، اسی طرح ان لوگوں کے لئے بھی بڑی عبرت ہے جو کافروں کی خواہش کے مطابق مسلمانوں میں فحاشی، عُریانی، بے راہ روی، بے پردگی ، عورتوں کی مادر پِدر آزادی کوعام کرنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں ۔ یونہی ان اَربابِ اقتدار کے لئے بھی بڑی عبرت ہے جو کافروں کی خواہشات کو عملی جامہ پہناتے ہوئے اور ان کے اشارہِ ابرو پر سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے مسلمانوں کی جان و مال ، عزت و آبرو اور ملک و ملت کو برباد کرنے کے لئے اپنے ملک میں کافروں کو ہر طرح کی سہولت دیتے اور اپنے ہی ملک میں ہر طرح کی عیاشی کے ذرائع مہیا کرتے ہیں ،انہیں غور کر لینا چاہئے کہ جب یہ اپنے اعمال کے حساب کے لئے اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے تو وہاں اپنے کئے ہوئے جرموں کا حساب کس طرح دیں گے اور اگر اللّٰہ تعالیٰ نے ان پراپنا غضب فرمایا اور ان کے لئے عذابِ جہنم کا حکم سنادیا تو اس وقت کون ان کی حمایت کرے گا اور کون انہیں اللّٰہ تعالیٰ کے دردناک عذاب سے بچائے گا اور اس وقت دنیا کی کونسی سپر پاور ان کے کام آئے گی؟
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ وَ جَعَلْنَا لَهُمْ اَزْوَاجًا وَّ ذُرِّیَّةًؕ-وَ مَا كَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ یَّاْتِیَ بِاٰیَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِؕ-لِكُلِّ اَجَلٍ كِتَابٌ(38)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ہم نے تم سے پہلے رسول بھیجے اور ان کے لیے بیویاں اور بچے بنائے اور کسی رسول کا کام نہیں کہ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی نشانی لے آئے ۔ ہر وعدے کیلئے ایک لکھی ہوئی (مدت) ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ: اور بیشک ہم نے تم سے پہلے رسول بھیجے۔ }اس آیت میں کفار کی طرف سے نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت پر کئے گئے اعتراضات کے جواب دئیے گئے ہیں ۔
پہلا اعتراض: اللّٰہ تعالیٰ مخلوق کی طرف جو بھی رسول بھیجے تو اس کا فرشتوں میں سے ہونا ضروری ہے۔ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پہلے جتنے بھی انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام گزرے ہیں سب انسان ہی تھے نہ کہ فرشتے، جب گزشتہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے انسان ہونے کی وجہ سے ان کی نبوت پر کوئی اعتراض نہیں تو رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے انسان ہونے کی وجہ سے ان کی نبوت پر اعتراض کیوں ہے۔
دوسرا اعتراض:اگریہ اللّٰہ تعالیٰ کے رسول ہوتے تو کثیر عورتوں سے نکاح نہ کرتے بلکہ عورتوں سے اِعراض کر کے زُہد کی حالت میں زندگی گزارتے۔ اس کا یہ جواب دیا گیا کہ رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پہلے جتنے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام گزرے ہیں ان میں سے اکثر کی کثیر بیویاں اور اولاد تھی۔ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی 300 بیویاں اور 700 باندیاں تھیں ۔ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی100 بیویاں تھیں ۔ جب بیویوں کی اتنی کثیر تعداد کے باوجود ان کی نبوت میں کوئی فرق نہیں پڑا تو حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی چند اَزواجِ مُطہرات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کی وجہ سے ان کی نبوت میں کیسے فرق آ سکتا ہے۔
تیسرا اعتراض: اگر یہ اللّٰہ تعالیٰ کے رسول ہیں تو پھر ہم ان سے جو معجزہ بھی طلب کریں تو وہ انہیں دکھانا چاہئے تھا، لہٰذا جب معاملہ ا س کے برخلاف نظر آیا تو ہم نے جان لیا کہ یہ اللّٰہ تعالیٰ کے رسول نہیں ۔ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ دلیل دینے اور عذر زائل کرنے کے لئے ایک معجزہ دکھا دینا ہی کافی ہے، ایک یا ایک سے زیادہ معجزات دکھانا اللّٰہ تعالیٰ کی مَشِیَّت پر موقوف ہے، اگر وہ چاہے تو زیادہ معجزات ظاہر فرما دے اور چاہے تو ظاہر نہ فرمائے لہٰذا س پر کسی کو اعتراض کا کوئی حق حاصل نہیں ۔
چوتھا اعتراض: حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کفار کواس بات سے ڈرایا تھا کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے کفار پرعذاب نازل ہو گا اور مسلمانوں کی مدد کی جائے گی، لیکن جب وہ عذاب مُؤخر ہوا اورا س کی کوئی نشانی کفار کو نظر نہ آئی تو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت میں طعن کرتے ہوئے کہنے لگے کہ اگر یہ سچے نبی ہوتے تو ان کا جھوٹ ظاہر نہ ہوتا۔ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ کفار پر عذاب نازل ہونا اور اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے مقبول بندوں کے لئے فتح و نصرت کا ظاہر ہونا اللّٰہ تعالیٰ نے مُعَیَّن اوقات کے ساتھ خاص فرما دیا ہے اور ہر نئے ہونے والے کام کا ایک وقت معین ہے لہٰذا مخصوص وقت آنے سے پہلے وہ نیا کا م ظاہر نہ ہو گا۔ جب اصل بات یہ ہے تو وعیدوں کے مؤخر ہونے کی وجہ سے رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا کِذب کیسے ثابت ہو سکتا ہے؟(تفسیرکبیر، الرعد، تحت الآیۃ: ۳۸، ۷ / ۴۹-۵۰، صاوی، الرعد، تحت الآیۃ: ۳۸، ۳ / ۱۰۰۹-۱۰۱۰، ملتقطاً)
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ وَ جَعَلْنَا لَهُمْ اَزْوَاجًا وَّ ذُرِّیَّةًؕ-وَ مَا كَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ یَّاْتِیَ بِاٰیَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِؕ-لِكُلِّ اَجَلٍ كِتَابٌ(38)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ہم نے تم سے پہلے رسول بھیجے اور ان کے لیے بیویاں اور بچے بنائے اور کسی رسول کا کام نہیں کہ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی نشانی لے آئے ۔ ہر وعدے کیلئے ایک لکھی ہوئی (مدت) ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ: اور بیشک ہم نے تم سے پہلے رسول بھیجے۔ }اس آیت میں کفار کی طرف سے نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت پر کئے گئے اعتراضات کے جواب دئیے گئے ہیں ۔
پہلا اعتراض: اللّٰہ تعالیٰ مخلوق کی طرف جو بھی رسول بھیجے تو اس کا فرشتوں میں سے ہونا ضروری ہے۔ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پہلے جتنے بھی انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام گزرے ہیں سب انسان ہی تھے نہ کہ فرشتے، جب گزشتہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے انسان ہونے کی وجہ سے ان کی نبوت پر کوئی اعتراض نہیں تو رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے انسان ہونے کی وجہ سے ان کی نبوت پر اعتراض کیوں ہے۔
دوسرا اعتراض:اگریہ اللّٰہ تعالیٰ کے رسول ہوتے تو کثیر عورتوں سے نکاح نہ کرتے بلکہ عورتوں سے اِعراض کر کے زُہد کی حالت میں زندگی گزارتے۔ اس کا یہ جواب دیا گیا کہ رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پہلے جتنے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام گزرے ہیں ان میں سے اکثر کی کثیر بیویاں اور اولاد تھی۔ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی 300 بیویاں اور 700 باندیاں تھیں ۔ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی100 بیویاں تھیں ۔ جب بیویوں کی اتنی کثیر تعداد کے باوجود ان کی نبوت میں کوئی فرق نہیں پڑا تو حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی چند اَزواجِ مُطہرات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کی وجہ سے ان کی نبوت میں کیسے فرق آ سکتا ہے۔
تیسرا اعتراض: اگر یہ اللّٰہ تعالیٰ کے رسول ہیں تو پھر ہم ان سے جو معجزہ بھی طلب کریں تو وہ انہیں دکھانا چاہئے تھا، لہٰذا جب معاملہ ا س کے برخلاف نظر آیا تو ہم نے جان لیا کہ یہ اللّٰہ تعالیٰ کے رسول نہیں ۔ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ دلیل دینے اور عذر زائل کرنے کے لئے ایک معجزہ دکھا دینا ہی کافی ہے، ایک یا ایک سے زیادہ معجزات دکھانا اللّٰہ تعالیٰ کی مَشِیَّت پر موقوف ہے، اگر وہ چاہے تو زیادہ معجزات ظاہر فرما دے اور چاہے تو ظاہر نہ فرمائے لہٰذا س پر کسی کو اعتراض کا کوئی حق حاصل نہیں ۔
چوتھا اعتراض: حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کفار کواس بات سے ڈرایا تھا کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے کفار پرعذاب نازل ہو گا اور مسلمانوں کی مدد کی جائے گی، لیکن جب وہ عذاب مُؤخر ہوا اورا س کی کوئی نشانی کفار کو نظر نہ آئی تو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت میں طعن کرتے ہوئے کہنے لگے کہ اگر یہ سچے نبی ہوتے تو ان کا جھوٹ ظاہر نہ ہوتا۔ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ کفار پر عذاب نازل ہونا اور اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے مقبول بندوں کے لئے فتح و نصرت کا ظاہر ہونا اللّٰہ تعالیٰ نے مُعَیَّن اوقات کے ساتھ خاص فرما دیا ہے اور ہر نئے ہونے والے کام کا ایک وقت معین ہے لہٰذا مخصوص وقت آنے سے پہلے وہ نیا کا م ظاہر نہ ہو گا۔ جب اصل بات یہ ہے تو وعیدوں کے مؤخر ہونے کی وجہ سے رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا کِذب کیسے ثابت ہو سکتا ہے؟(تفسیرکبیر، الرعد، تحت الآیۃ: ۳۸، ۷ / ۴۹-۵۰، صاوی، الرعد، تحت الآیۃ: ۳۸، ۳ / ۱۰۰۹-۱۰۱۰، ملتقطاً)
یَمْحُوا اللّٰهُ مَا یَشَآءُ وَ یُثْبِتُ ۚۖ-وَ عِنْدَهٗۤ اُمُّ الْكِتٰبِ(39)
ترجمہ: کنزالعرفان
اللہ جو چاہتا ہے مٹادیتا ہے اور برقرار رکھتا ہے اور اصل لکھا ہوا اسی کے پاس ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{یَمْحُوا اللّٰهُ مَا یَشَآءُ:اللّٰہ جو چاہتا ہے مٹادیتا ہے۔} حضرت سعید بن جبیر اور حضرت قتادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ جن احکام کو چاہتا ہے منسوخ فرماتا ہے اور جنہیں چاہتا ہے باقی رکھتا ہے۔ حضرت سعید بن جبیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا ایک قول یہ بھی ہے کہ بندوں کے گناہوں میں سے اللّٰہ تعالیٰ جو چاہتا ہے مغفرت فرما کر مٹادیتا ہے اور جوچاہتا ہے ثابت رکھتا ہے۔ حضرت عکرمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا قول ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ توبہ سے جس گناہ کو چاہتا ہے مٹاتا ہے اور اس کی جگہ نیکیاں قائم فرماتا ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں ان کے علاوہ اور بھی بہت سے اقوال ہیں ۔( خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۳۹، ۳ / ۷۰-۷۱)
{وَ عِنْدَهٗۤ اُمُّ الْكِتٰبِ:اور اصل لکھا ہوا اسی کے پاس ہے۔} ایک قول یہ ہے کہ آیت میں مذکور اُمُّ الکتاب سے مراد اللّٰہ تعالیٰ کا علم ہے جو کہ اَزل سے ہی ہر چیز کا اِحاطہ کئے ہوئے ہے ۔دوسرا قول یہ ہے کہ اُمُّ الکتاب سے لوحِ محفوظ مراد ہے جس میں تمام کائنات اور عالَم میں ہونے والے جملہ حوادِث و واقعات اور تمام اَشیا لکھی ہوئی ہیں اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ (صاوی، الرعد، تحت الآیۃ: ۳۹، ۳ / ۱۰۱۰، مدارک، الرعد، تحت الآیۃ: ۳۹، ص۵۶۰، ملتقطاً)
سعادت مندی کی فکر:
ہمارے بزرگانِ دین نیک اعمال کی کثرت کے باوجود اپنی سعادت مندی اور بد بختی سے متعلق بہت فکر مند رہا کرتے تھے، چنانچہ حضرت ابو عثمان نہدی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ خانہ کعبہ کا طواف کر رہے تھے، میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا’’اے اللّٰہ! اگر تو نے مجھے سعادت مندوں میں لکھا ہے تو مجھے ان میں برقرار رکھ اور اگر مجھے بد بختوں میں لکھا ہے تو میرا نام (بد بختوں کی فہرست سے) مٹا دے اور مجھے سعادت مندوں میں لکھ دے، کیونکہ تو جو چاہے مٹاتا ہے اور جو چاہے برقرار رکھتا ہے اور اصل لکھا ہوا تیرے ہی پاس ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذکار، قسم الافعال، الادعیۃ المطلقۃ، ۱ / ۲۸۶، روایت نمبر: ۵۰۴۲)
حضرت اعمش رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :میں نے حضرت شقیق رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو اس طرح کہتے ہوئے سنا کہ’’ اے اللّٰہ! اگر تو نے ہمیں اپنے پاس بدبختوں میں لکھا ہے تو ہمارا نام وہاں سے مٹا دے اور ہمیں سعادت مندوں میں لکھ دے اور اگر تو نے ہمیں سعادت مندوں میں لکھا ہے تو ہمیں اس پر برقرار رکھ کیونکہ تو جو چاہے مٹاتا ہے اور جو چاہے برقرار رکھتا ہے اور اصل لکھا ہوا تیرے ہی پاس ہے۔ (المطالب العالیہ، کتاب التفسیر، سورۃ الرعد، ۸ / ۲۴۷، روایت نمبر: ۳۷۳۶)
وَ اِنْ مَّا نُرِیَنَّكَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّكَ فَاِنَّمَا عَلَیْكَ الْبَلٰغُ وَ عَلَیْنَا الْحِسَابُ(40)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور (اے حبیب!) اگر ہم تمہیں کوئی وعدہ دکھا د یں جو ہم ان سے کررہے ہیں یاہم تمہیں پہلے ہی وفات دیدیں تو آپ پر توبہرحال تبلیغ کرنا لازم ہے اور حساب لینا ہمارے ذمے ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِنْ مَّا نُرِیَنَّكَ:اور اگر ہم تمہیں دکھا د یں ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم کافروں کوعذاب دینے کا جو وعدہ کر رہے ہیں ،اس میں سے کوئی وعدہ آپ کو آپ کی زندگی میں ہی دکھا دیں یا وہ وعدہ دکھانے سے پہلے ہی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو وفات دے دیں تو دونوں صورتیں ممکن ہیں لیکن آپ کی ذمہ داری بہرحال تبلیغ فرمانا ہے اور صرف یہی آپ کی ذمہ داری ہے ، بقیہ قیامت کے دن ان کا حساب لینا اور ان کے اعمال کی جزا دینا یہ ہمارے ذمے ہے لہٰذا آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کافروں کے اِعراض کرنے سے رنجیدہ نہ ہوں اور ان کے عذاب کی جلدی نہ کریں ۔(خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۴۰، ۳ / ۷۱، مدارک، الرعد، تحت الآیۃ: ۴۰، ص۵۶۰، ملتقطاً)
اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّا نَاْتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ اَطْرَافِهَاؕ-وَ اللّٰهُ یَحْكُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهٖؕ-وَ هُوَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ(41)
ترجمہ: کنزالعرفان
کیایہ کافر دیکھتے نہیں کہ ہم ہر طرف سے ان کی زمین کم کر رہے ہیں اور اللہ حکم فرماتا ہے، اس کے حکم کو کوئی پیچھے کرنے والا نہیں اور وہ بہت جلد حساب لے لیتا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَوَ لَمْ یَرَوْا:کیایہ کافر دیکھتے نہیں ۔} یعنی جن کفارِ مکہ نے سرورِ عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے نشانیاں دکھانے کا مطالبہ کیاہے ، کیا وہ دیکھتے نہیں ہم ہر طرف سے ان کی آبادیاں کم کرتے آ رہے ہیں اور شرک کی زمین کی وسعت مسلسل کم کررہے ہیں اور حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے کفار کے گردو پیش کی اَراضی یکے بعد دیگرے فتح ہوتی چلی جاتی ہے اور یہ اس بات کی صریح دلیل ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مدد فرماتا ہے اور اُن کے لشکر کو فتح مند کرتا ہے اور اُن کے دین کو غلبہ دیتا ہے۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا حکم نافذ ہے، کسی کی مجال نہیں کہ اس میں چوں چِرا، یا کوئی تبدیلی کرسکے ۔جب وہ اسلا م کو غلبہ دینا اور کفر کو پَست کرنا چاہے تو کس کی تاب و مجال ہے کہ اس کے حکم میں دخل دے سکے اور وہ جس کا محاسبہ کرنا چاہے تو اس سے بہت جلد حساب لے لیتا ہے۔ (خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۴۱، ۳ / ۷۱-۷۲، مدارک، الرعد، تحت الآیۃ: ۴۱، ص۵۶۰، ملتقطاً)
اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت سے منہ موڑنا بربادی کا سبب ہے:
اس سے معلوم ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت سے منہ موڑنا دنیا میں بھی بربادی لاتا ہے اورنافرمانوں پر زمین اپنی وسعت کے باوجود تنگ ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس میں مسلمانوں کے لئے بھی بڑی عبرت ہے کہ جب مسلمان اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری پر مضبوطی سے قائم ہوئے تو اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں زمین میں غلبہ و اِقتدار عطا فرمایا اور مسلمان زمین کی وسعتوں پر چھا گئے اور جب مسلمانوں نے اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری سے منہ موڑا تو ان کی آبادیاں بھی ہر طرف کم ہونے لگ گئیں اور اسلامی سرزمین کی وسعت رفتہ رفتہ کم ہو نے لگ گئی ،کفار نے مسلمانوں کی بے عملی، بے اتفاقی اور داخلی اِنتشار واِفتراق سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے مفتوحہ علاقے چھین لئے اور وہاں بسنے والے مسلمانوں کو دینِ اسلام چھوڑ دینے پر مجبور کر دیا اور جنہوں نے دینِ اسلام کو چھوڑنے سے انکار کیا توانہیں طرح طرح کی اَذِیَّتیں دے کر شہید کر دیا یا اس سرزمین سے ہی نکال دیا۔ افسوس! آج بھی مسلمان اسی روش پر چلتے اور اپنی سابقہ تاریخ سے عبرت پکڑنےکی بجائے اسے ہی دوبارہ دہراتے نظر آ رہے ہیں ۔ حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس امت میں پانچ مخصوص لوگوں کی طرف سے فساد آئے گا۔ (1) علماء۔ (2) مجاہدین۔ (3) زُہاد۔ (4) تُجار۔ (5) حکمران۔ علماء انبیاء کے وارث ہیں ، زہاد زمین کے ستون ہیں ، مجاہدین زمین میں اللّٰہ تعالیٰ کے لشکر ہیں ، تجار امت میں اللّٰہ تعالیٰ کے امین ہیں اور حکمران چرواہے ہیں تو جب عالم، دین کو نیچے اور مال کو اوپر رکھے گا تو پھر جاہل کس کی پیروی کرے گا اور جب زاہد، دنیا کی طرف راغب ہوگا تو توبہ کرنے والا کس کی پیروی کرے گا اور جب غازی لالچ میں پڑ جائے گا تو وہ دشمن پر کامیابی کیسے حاصل کرے گا اور جب تاجر خیانت کرنے لگے گا تو امانت کیسے حاصل ہو گی اور جب چرواہا ہی بھیڑیا بن جائے گا تو چرنے والے کیسے ملیں گے۔ (روح البیان، الرعد، تحت الآیۃ: ۴۱، ۴ / ۳۸۹)
وَ قَدْ مَكَرَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلِلّٰهِ الْمَكْرُ جَمِیْعًاؕ -یَعْلَمُ مَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍؕ- وَ سَیَعْلَمُ الْكُفّٰرُ لِمَنْ عُقْبَى الدَّارِ(42)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ان سے پہلے لوگ فریب کرچکے ہیں تو ساری خفیہ تدبیر کا مالک تو اللہ ہی ہے ۔وہ جانتا ہے جو کچھ کوئی جان عمل کمائے اور عنقریب کافر جان لیں گے کہ آخرت کا اچھا انجام کس کے لئے ہے؟
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَدْ مَكَرَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ:اور ان سے پہلے لوگ فریب کرچکے ہیں ۔} اس آیت میں رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ مشرکینِ مکہ سے پہلے گزری ہوئی اُمتوں کے کفار اپنے انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ مقابلہ کرچکے ہیں جیسے نمرود نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ، فرعون نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ اور یہودیوں نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ مقابلہ کیا اوران مقابلوں میں ہر طرح کی چالیں چلیں لیکن پھر بھی ناکام و نامراد ہوئے کیونکہ اصل تدبیر کا مالک تواللّٰہ تعالیٰ ہی ہے پھر اس کی مشیت کے بغیرکسی کی کیا چل سکتی ہے اور جب حقیقت یہ ہے تو مخلوق کا کیا اندیشہ۔
وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَسْتَ مُرْسَلًاؕ-قُلْ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًۢا بَیْنِیْ وَ بَیْنَكُمْۙ-وَ مَنْ عِنْدَهٗ عِلْمُ الْكِتٰبِ(43)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور کافر کہتے ہیں : تم رسول نہیں ہو۔ تم فرماؤ: میرے اور تمہارے درمیان اللہ کافی گواہ ہے اور ہر وہ آدمی گواہ ہے جس کے پاس کتاب کا علم ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا:اور کافر کہتے ہیں ۔} جب کفار نے حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے رسول ہونے کا انکار کیا تو اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی نبوت کا انکار کرنے والے کافروں سے فرما دیں کہ میرے اور تمہارے درمیان اللّٰہ تعالیٰ گواہ کافی ہے جس نے میرے ہاتھوں میں غالب کر دینے والے معجزات اورنشانیاں ظاہر فرمائیں اور ان کے ذریعے میرے نبی ہونے کی شہادت دی نیز میری نبوت پر ہر اُس آدمی کی گواہی کافی ہے جس کے پاس کتاب کا علم ہے خواہ وہ یہودیوں کے علماء میں سے توریت کا جاننے والا ہو یا عیسائیوں میں سے انجیل کا عالم ،وہ نبی کریمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت کو اپنی کتابوں میں دیکھ کر جانتا ہے، اِن علماء میں سے اکثر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت کی گواہی دیتے ہیں۔(خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۴۳، ۳ / ۷۳)
علم کی افضلیت
اللّٰہ تعالیٰ نے علما کی گواہی اپنے ساتھ بیان فرمائی،اس سے علم کی افضلیت معلوم ہوئی، اس کے علاوہ اور آیات میں بھی اللّٰہ تعالیٰ نے علم کی افضیلت کو بیان فرمایا ہے ،چنانچہ ایک مقام پر ارشاد فرمایا
’’قَالَ الَّذِیْ عِنْدَهٗ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتٰبِ اَنَا اٰتِیْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْكَ طَرْفُكَ‘‘ (نمل:۴۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اس نے عرض کی جس کے پاس کتاب کا علم تھاکہ میں اسے آپ کی بارگاہ میں آپ کے پلک جھپکنے سے پہلے لے آؤں گا۔
ا س میں بیان ہوا کہ علم کی وجہ سے انہیں (یعنی حضرت آصف بن برخیا رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُکو) یہ قدرت حاصل ہوئی ۔ دوسرے مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’وَ قَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَیْلَكُمْ ثَوَابُ اللّٰهِ خَیْرٌ لِّمَنْ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًاۚ-وَ لَا یُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا الصّٰبِرُوْنَ‘‘ (قصص:۸۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جنہیں علم دیا گیا تھا انہوں نے کہا: تمہاری خرابی ہو، اللّٰہ کا ثواب بہتر ہے اس آدمی کے لیے جو ایمان لائے اور اچھے کام کرے اور جنت انہیں کو دی جائے گی جو صبر کرنے والے ہیں ۔
اس میں بیان ہوا کہ آخرت کی عظیم قدر علم کے ذریعے معلوم ہوتی ہے ۔
نیز یہاں علم دین کی عظمت اور مراتبِ علماء کے بیان پر مشتمل ایک حدیث پاک بھی ملاحظہ ہو،چنانچہ حضرت ابو درداء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص علم کی طلب میں کوئی راستہ چلے گا تو اللّٰہ تعالیٰ اسے جنت کے راستوں میں سے ایک راستہ پر چلائے گااور بے شک فرشتے طالب علم کی خوشی کے لئے اپنے پروں کو بچھادیتے ہیں اور بے شک عالم کے لئے آسمانوں اور زمینوں کی تمام چیزیں اور پانی کے اندر مچھلیاں مغفرت کی دعا کرتی ہیں اور یقینا عالم کی فضیلت عابد کے اوپر ایسی ہی ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر ہے اور یقین رکھو کہ علماء انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامْ کے وارث ہیں اور ان کی میراث دینار و درہم نہیں بلکہ ان کی میراث تو علم ہی ہے تو جس نے اسے حاصل کیا اُس نے(میراث کا) بہت بڑا حصہ پالیا۔(سنن ابی داود، کتاب العلم، باب الحث علی طلب العلم، ۳ / ۴۴۴، الحدیث:۳۶۴۱)