سُوْرَۃ الرَّحْمَٰن
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلرَّحْمٰنُ(1)عَلَّمَ الْقُرْاٰنَﭤ(2)
ترجمہ: کنزالعرفان
رحمٰن نے قرآن سکھایا۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلرَّحْمٰنُ: رحمٰن۔} اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ جب سورۂ فرقان کی آیت نمبر60 نازل ہوئی جس میں رحمٰن کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا توکفارِ مکہ نے کہا کہ رحمٰن کیا ہے ہم نہیں جانتے ،اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۃُ الرّحمٰن نازل فرمائی کہ رحمٰن جس کا تم انکار کرتے ہو وہی ہے جس نے قرآن نازل فرمایا ۔اور ایک قول یہ ہے کہ اہل ِمکہ نے جب کہا کہ محمد (مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کو کوئی بشر سکھاتا ہے تو یہ آیت نازل ہوئی اور اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی نے فرمایا کہ رحمٰن نے قرآن اپنے حبیب محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سکھایا۔ (خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۱-۲، ۴ / ۲۰۸،ملخصاً)
سورہِ رحمٰن کی آیت نمبر1اور 2سے حاصل ہونے والی معلومات:
اِس معنی کے اعتبار سے ان آیات سے 5باتیں معلوم ہوئیں ،
(1)…قرآنِ پاک اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے اسی لئے سب سے پہلے اس کا ذکر فرمایا۔
(2)… حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس قرآن پاک بظاہر حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے واسطے سے آیا لیکن در حقیقت اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو قرآن سکھایا ۔
(3)…مخلوق میں سے حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا کوئی استاد نہیں بلکہ آپ کا علم مخلوق کے واسطے کے بغیر اللہ تعالیٰ کی عطا سے ہے۔
(4)… حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو قرآنِ پاک کے مُتَشابہات کا علم بھی دیا گیا ہے کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے سارا قرآن اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سکھادیا تو اس میں متشابہات کا علم بھی آگیا کہ یہ بھی قرآنِ پاک کا حصہ ہی ہیں۔
(5)…اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو تمام اَشیاء کے نام سکھائے،جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا‘‘(بقرہ:۳۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھادیے۔
حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو زِرہ بنانا سکھائی ،چنانچہ ارشاد فرمایا:
’’وَ عَلَّمْنٰهُ صَنْعَةَ لَبُوْسٍ لَّكُمْ‘‘(انبیاء:۸۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے تمہارے فائدے کیلئے اسے (جنگی) لباس کی صنعت سکھا دی۔
حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پرندوں کی زبان سکھائی ،جیسا کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ا س کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:
’’ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ‘‘(نمل:۱۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے لوگو!ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے۔
حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو طب ، تورات اور انجیل کا علم عطا فرمایا، ارشادِباری تعالیٰ ہے:
’’وَ یُعَلِّمُهُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَ‘‘(اٰل عمران:۴۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللہ اسے کتاب اور حکمت اور توریت اور انجیل سکھائے گا۔
حضرت خضر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو علمِ لدُنی عطا فرمایا،چنانچہ ارشاد فرمایا:
’’وَ عَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا‘‘(کہف:۶۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اسے اپنا علم لدنی عطا فرمایا۔
اور اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جو کچھ سکھایا اس کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ
’’ اَلرَّحْمٰنُۙ(۱) عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: رحمٰن نے، قرآن سکھایا۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
’’وَ اِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْاٰنَ مِنْ لَّدُنْ حَكِیْمٍ عَلِیْمٍ‘‘(نمل:۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور (اے محبوب!) بیشک آپ کو حکمت والے، علم والے کی طرف سے قرآن سکھایا جاتا ہے۔
اور ایک جگہ واضح طور پر فرمادیا کہ
’’وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ‘‘(النساء:۱۱۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور آپ کو وہ سب کچھ سکھا دیا جو آپ نہ جانتے تھے۔
اس سے معلوم ہوا کہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کاعلم تمام اَنبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بلکہ تمام مخلوق سے زیادہ ہے۔
خَلَقَ الْاِنْسَانَ(3)عَلَّمَهُ الْبَیَانَ(4)
ترجمہ: کنزالعرفان
انسان کو پیدا کیا۔ اسے بیان سکھایا
تفسیر: صراط الجنان
{خَلَقَ الْاِنْسَانَ: انسان کو پیدا کیا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں ’’انسان‘‘ اور’’ بیان‘‘ کے مِصداق کے بارے میں مفسرین کے مختلف قول ہیں ۔ ایک قول یہ ہے کہ یہاں انسان سے مراد دو عالَم کے سردار محمد مصطفی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں اور بیان سے’’مَاکَانَ وَمَا یَکُوْنُ‘‘یعنی جو کچھ ہو چکا اور جو کچھ آئندہ ہو گا، کا بیان مراد ہے کیونکہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اَوّلین و آخرین اور قیامت کے دن کی خبریں دیتے تھے۔ ایک قول یہ ہے کہ یہاں انسان سے مراد حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں اور بیان سے مراد تمام چیزوں کے اَسماء اور تما م زبانوں کا بیان مراد ہے اور ایک قول یہ ہے کہ یہاں انسان سے اس کی جنس یعنی حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی تمام اولاد مراد ہے اور بیان سے مراد گفتگو کی صلاحیت ہے جس کی وجہ سے انسان دیگر حیوانوں سے ممتاز ہوتا ہے۔( خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۳-۴، ۴ / ۲۰۸، صاوی، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۳-۴، ۶ / ۲۲۷۳-۲۲۷۴، ملتقطاً)
اَلشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ(5)
ترجمہ: کنزالعرفان
سورج اور چاند حساب سے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ: سورج اور چاند حساب سے ہیں ۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آسمانی نعمتوں میں دو ایسی نعمتیں بیان فرمائیں جو ظاہری طور پر نظر آتی ہیں اوروہ نعمتیں سورج اور چاند ہیں ،ان نعمتوں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر سورج نہ ہوتا تو اندھیرا کبھی ختم ہی نہ ہوتا اور اگر چاند نہ ہوتا تو بہت ساری ظاہری نعمتیں ختم ہو کر رہ جاتیں اور ان کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ سورج اور چاند مُعَیّن اندازے کے ساتھ اپنے اپنے بُروج اور مَنازل میں حرکت کرتے ہیں کیونکہ اگر سورج حرکت کرنے کی بجائے ایک ہی جگہ کھڑ ارہے تو ا س سے کوئی بھی فائدہ نہیں اٹھا سکتا اور اگر ا س کی گردش لوگوں کو معلوم نہ ہو تو وہ معاملات ٹھیک طرح سے سر انجام نہیں دے سکتے اور ان کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اوقات کے حساب سالوں اور مہینوں کاشمارانہیں کی رفتارسے ہوتا ہے۔( تفسیرکبیر، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۵، ۱۰ / ۳۳۹، مدارک، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۵، ص۱۱۹۱، ملتقطاً)
وَّ النَّجْمُ وَ الشَّجَرُ یَسْجُدٰنِ(6)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بغیر تنے والی نباتات اور درخت سجدہ کرتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ النَّجْمُ وَ الشَّجَرُ یَسْجُدٰنِ: اور بغیر تنے والی نباتات اور درخت سجدہ کرتے ہیں ۔} یہاں ’’نجم‘‘ سے مراد زمین سے پیدا ہونے والی وہ نباتا ت ہیں جو تنا نہیں رکھتیں جیسے سبزہ اور انگور کی بیل وغیرہ اور ’’شجر‘‘ سے مراد وہ نباتات ہیں جو تنا ر کھتی ہیں جیسے گندم ،جَو اور درخت وغیرہ اور ان کے سجدہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ ان کے سائے سجدہ کرتے ہیں ،اس کی تائید اس آیت سے بھی ہوتی ہے: ’’ اَوَ لَمْ یَرَوْا اِلٰى مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَیْءٍ یَّتَفَیَّؤُا ظِلٰلُهٗ عَنِ الْیَمِیْنِ وَ الشَّمَآىٕلِ سُجَّدًا لِّلّٰهِ وَ هُمْ دٰخِرُوْنَ‘‘(نحل:۴۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کیا انہوں نے اس طرف نہ دیکھا کہ اللہ نے جوچیز بھی پیدا فرمائی ہے اس کے سائے اللہ کو سجدہ کرتے ہوئے دائیں اور بائیں جھکتے ہیں اور وہ سائے عاجزی کررہے ہیں ۔
اوربعض مفسرین نے فرمایا کہ سجدہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے فرمانبردار ہیں ۔( ابو سعود، الرحمٰن،تحت الآیۃ: ۶، ۵ / ۶۶۰ ، تفسیرکبیر، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۶، ۱۰ / ۳۴۱، خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۶، ۴ / ۲۰۸-۲۰۹، ملتقطاً)
سبزے اور درختوں کی اہمیّت:
یاد رہے کہ سبزے اوردرخت زمین پر اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمتیں ہیں اور ان نعمتوں کی اہمیت کا کچھ اندازہ یوں لگا سکتے ہیں کہ اگر یہ نہ ہوں تو انسان رزق کے وافر حصے سے محروم ہو جائے گا اور جانوروں کا گوشت کھانے کو تَرس جائے گا کیونکہ جانوروں کی نَشوونُما انہیں سے ہوتی ہے اور جب یہ سبزے نہ ہوں گے تو جانور کیسے پلیں بڑھیں گے اور جب جانور پلیں بڑھیں گے نہیں تو انسان ان کا گوشت کہاں سے حاصل کریں گے۔
وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَ(7)اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ(8)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور آسمان کو اللہ نے بلند کیا اور ترازو رکھی۔ کہ تولنے میں نا انصافی نہ کرو۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا: اور آسمان کو اللہ نے بلند کیا۔} اللہ تعالیٰ نے آسمان کو محل اور رتبے کے اعتبار سے بلند پیدا فرمایا ہے۔ محل کے اعتبار سے بلندی تو ظاہر ہے کہ آسمان زمین سے اونچا ہے جبکہ رتبے کے اعتبار سے آسمان کی بلندی یہ ہے کہ وہ فرشتوں کا مَسکن ہے اور یہیں سے اللہ تعالیٰ کے اَحکام صادر ہوتے ہیں ۔ (ابو سعود، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۷، ۵ / ۶۶۱ ، ملخصاً)
{وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَ: اور ترازو رکھی۔} ایک قول یہ ہے کہ یہاں میزان سے مراد عدل کرنا ہے،اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (مخلوق کے درمیان تمام معاملات میں ) عدل کرنے کا حکم دیا ہے ۔اور ایک قول یہ ہے کہ میزان سے مراد وہ تمام آلات ہیں جن سے اَشیاء کا وزن کیا جائے اور اُن کی مقداریں معلوم ہوسکیں جیسے ترازو ،اَشیاء ناپنے کے آلات اور پیمانے وغیرہ۔اس صورت میں آیت کے اس حصے اور اس کے بعد والی آیت کامعنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر اَشیاء ناپنے اور تولنے کے آلات پیدا فرمائے اور اپنے بندوں پر لین دین کے معاملات میں عدل قائم رکھنے اور برابر ی کرنے کے اَحکام نافذ فرمائے تاکہ وہ ناپ تول میں نا انصافی نہ کریں اور کسی کی حق تَلفی نہ ہو۔( خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۷-۸، ۴ / ۲۰۹، مدارک، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۷-۸، ص۱۱۹۲، ملتقطاً)
ناپنے تولنے کے آلات کی اہمیت:
اللہ تعالیٰ کی جس نعمت کا بیان اس آیت میں ہوا ا س کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے با آسانی لگا یاجاسکتا ہے کہ لوگ اپنے ساتھ غَبن اور دھوکہ دِہی پسند نہیں کرتے اور نہ ہی کوئی اس بات پر راضی ہوتا ہے کہ دوسرا شخص کسی چیز میں اس پر غالب آ جائے چاہے وہ چیز معمولی سی ہی کیوں نہ ہو، لہٰذا اگر ناپ تول کے معاملات میں عدل و انصاف اور برابری نہ ہو تو معاشرے میں جو جھگڑے اور فسادات برپا ہوں گے اور آپس میں جو بغض و عناد پیدا ہوگا وہ کسی عقلمند سے ڈھکا چھپا نہیں ۔
حضرت قتادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اسی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ’’اے انسان !تو دوسروں کے ساتھ اسی طرح انصاف کر جس طرح تجھے پسند ہے کہ تیرے ساتھ انصاف کیا جائے اور تو دوسروں کو اسی طرح پورا پورا ناپ تول کر دے جیسے تجھے پورا پورا ناپ تول کر لینا پسند ہے کیونکہ عدل و انصاف ہی سے لوگوں کے حالات درست رہ سکتے ہیں ۔( تفسیر طبری، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۸، ۱۱ / ۵۷۶)
وَ اَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَ(9)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور انصاف کے ساتھ تول قائم کرو اور وزن نہ گھٹاؤ
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ: اور انصاف کے ساتھ تول قائم کرو۔} یعنی جب تم لوگوں کے لئے کوئی چیز ناپو یا تولو تو انصاف کے ساتھ ناپ تول کرو اور اس چیز کا وزن کم نہ کرو۔
ناپ تول میں انصاف کرنے کا حکم دیاگیا:
ناپ تول میں انصاف کرنے کا حکم دیتے ہوئے ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ اَوْفُوا الْكَیْلَ اِذَا كِلْتُمْ وَ زِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا‘‘(بنی اسرائیل:۳۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جب ماپ کرو تو پورا ماپ کرو اور بالکل صحیح ترازو سے وزن کرو۔ یہ بہتر ہے اور انجام کے اعتبار سے اچھا ہے۔
اور ارشاد فرماتا ہے:
’’اَوْفُوا الْكَیْلَ وَ لَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُخْسِرِیْنَۚ(۱۸۱) وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِۚ(۱۸۲) وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ‘‘(شعراء:۱۸۱۔۱۸۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: (اے لوگو!) ناپ پورا کرو اورناپ تول کو گھٹانے والوں میں سے نہ ہوجاؤ۔ اور بالکل درست ترازوسے تولو۔ اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم کرکے نہ دو اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو۔
اور کم ناپنے تولنے والوں کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: ’’وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَۙ(۱) الَّذِیْنَ اِذَا اكْتَالُوْا عَلَى النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ٘ۖ(۲) وَ اِذَا كَالُوْهُمْ اَوْ وَّ زَنُوْهُمْ یُخْسِرُوْنَؕ(۳) اَلَا یَظُنُّ اُولٰٓىٕكَ اَنَّهُمْ مَّبْعُوْثُوْنَۙ(۴) لِیَوْمٍ عَظِیْمٍۙ(۵) یَّوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘(مطففین:۱۔۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: کم تولنے والوں کیلئے خرابی ہے۔ وہ لوگ کہ جب دوسرے لوگوں سے ناپ لیں توپورا وصول کریں ۔ اور جب انہیں ناپ یا تول کردیں توکم کردیں ۔ کیا یہ لوگ یقین نہیں رکھتے کہ انہیں اٹھایا جائے گا۔ ایک عظمت والے دن کے لیے۔ جس دن سب لوگ ربُّ العالمین کے حضور کھڑے ہوں گے۔
اور حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہماری طرف توجہ فرمائی اور ارشاد فرمایا ’’اے مہاجرین! جب تم پانچ باتوں میں مبتلا کر دئیے جاؤ اور میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں کہ تم ان باتوں کو پاؤ۔پہلی بات یہ ہے کہ جب کسی قوم میں بے حیائی کے کام اعلانیہ ہونے لگ جائیں تو ان میں طاعون اور وہ بیماریاں عام ہو جاتی ہیں جو پہلے کبھی ظاہر نہ ہوئی تھیں ۔دوسری بات یہ ہے کہ جب لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگ جاتے ہیں تو ان پر قحط اور مصیبتیں نازل ہوتی ہیں اور بادشاہ ان پر ظلم کرتے ہیں ۔تیسری بات یہ ہے کہ جب لوگ زکوٰۃ کی ادائیگی چھوڑ دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بارش کو روک دیتا ہے،اگر زمین پر چوپائے نہ ہوتے تو آسمان سے پانی کا ایک قطرہ بھی نہ گرتا۔چوتھی بات یہ ہے کہ جب لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے عہد کو توڑ دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان پران کے غیروں میں سے دشمنوں کو مُسلّط کر دیتا ہے تو وہ ان کا مال وغیرہ چھین لیتے ہیں ۔پانچویں بات یہ ہے کہ جب مسلمان حکمران اللہ تعالیٰ کے قانون کو چھوڑ کردوسرا قانون اور اللہ تعالیٰ کے اَحکام میں سے کچھ لیتے اور کچھ چھوڑتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے درمیان اختلاف پیدا فرما دیتا ہے۔( ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب العقوبات، ۴ / ۳۶۷، الحدیث: ۴۰۱۹)
وَ الْاَرْضَ وَ ضَعَهَا لِلْاَنَامِ(10)فِیْهَا فَاكِهَةٌ ﭪ–وَّ النَّخْلُ ذَاتُ الْاَكْمَامِ(11)وَ الْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ وَ الرَّیْحَانُ(12)فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ(13)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اس نے مخلوق کے لیے زمین رکھی۔ اس میں پھل میوے اور غلاف والی کھجوریں ہیں ۔ اور بھوسے والااناج اور خوشبو دار پھول ہیں ۔ تو (اے جن و انسان!) تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الْاَرْضَ وَ ضَعَهَا لِلْاَنَامِ: اور اس نے مخلوق کے لیے زمین رکھی۔} ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس مخلوق کے لئے زمین کو فرش کی طرح بچھا دیا جو ا س میں رہتی اور بستی ہے تاکہ وہ اس میں آرام کریں اور فائدے اٹھائیں ۔
{فِیْهَا فَاكِهَةٌ: اس میں پھل میوے ہیں ۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں اللہ تعالیٰ نے چندوہ مَنافع بیان فرمائے ہیں جو ا س نے مخلوق کے لئے زمین میں پیدا فرمائے ہیں ،ان آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ زمین میں بے شمار اَقسام کے پھل میوے اور غلاف والی کھجوریں ہیں جن میں بہت برکت ہے اوربھوسے والااناج جیسے گندم اور جو وغیرہ پیدا فرمایا ہے ، بھوسے کا فائدہ یہ ہے کہ اس میں اناج دیر تک محفوظ رہے گا اور جب تم اناج استعمال کر لوتو وہ بھوسا تمہارے جانوروں کے چارے میں کام آئے گااور زمین میں طرح طرح کے خوشبو دار پھول پیدا فرمائے تاکہ ان کی خوشبو سونگھ کر تمہیں فرحت حاصل ہواور وہ پھول تمہاری زیب و زینت میں کام آئیں ۔
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: تواے جن و انسان!تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن و اِنس کے گروہ!جو نعمتیں تمہارے سامنے بیان کی گئیں ،ان میں سے تم دونوں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟( تفسیر طبری، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۱۳، ۱۱ / ۵۸۱)
ہدایت اور نصیحت کرنے کا بہترین اُسلوب:
اس سورۂ مبارکہ میں یہ آیت 31 بار آئی ہے اور اس سورت میں بار بار نعمتوں کا ذکر فرما کر یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ تم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمت کو جھٹلائو گے ؟یہ ہدایت اور نصیحت کرنے کا بہترین اُسلوب ہے اور اس اُسلوب کو اختیار کرنے کا مقصد یہ ہے کہ سننے والے کے نفس کو تنبیہ ہو اور اسے اپنے جرم اور کوتاہی کا حال معلوم ہوجائے کہ اُس نے کس قدر نعمتوں کو جھٹلایا ہے اور اسے اپنے کرتوتوں پر شرم آئے اوراس طرح وہ نعمتوں کاشکر ادا کرنے اور فرمانبرداری کرنے کی طرف مائل ہو اور یہ سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ کی اس پربے شمار نعمتیں ہیں ۔
حضرت جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے پاس تشریف لائے اور ان کے سامنے سورۂ رحمٰن شروع سے لے کر آخر تک پڑھی۔صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ یہ سورت سن کر خاموش رہے تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’میں نے یہ سورت جِنّات کو سنائی تو انہوں نے تم سے اچھا جواب دیا، جب میں یہ آیت ’’فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ‘‘ پڑھتا تووہ کہتے: اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ، ہم تیری کسی نعمت کو بھی نہیں جھٹلاتے اورتمام تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں ۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الرحمٰن، ۵ / ۱۹۰، الحدیث: ۳۳۰۲)
خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ(14)
ترجمہ: کنزالعرفان
اس نے انسان کو ٹھیکری جیسی بجنے والی سوکھی مٹی سے پیدا کیا۔
تفسیر: صراط الجنان
{خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ: اس نے انسان کو ٹھیکری کی طرح بجنے والی سوکھی مٹی سے پیدا کیا۔} یہاں انسان سے مراد حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیدائش کی کَیفِیّت کا ایک انداز بیان فرمایاہے ،
قرآنِ پاک میں دیگر مقامات پرآپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیدائش کی کیفیت کے اور انداز بھی بیان فرمائے گئے ہیں ،چنانچہ ایک مقام پر ارشاد فرمایا:
’’هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ‘‘(مؤمن:۶۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے بنایا۔
ایک مقام پر ارشاد فرمایا:
’’وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِیْنٍ‘‘(مؤمنون:۱۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک ہم نے انسان کو چنی ہوئی مٹی سے بنایا۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
’’اِنَّا خَلَقْنٰهُمْ مِّنْ طِیْنٍ لَّازِبٍ‘‘(صافات:۱۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ہم نے ا نہیں چپکنے والی مٹی سے بنایا۔
ایک مقام پر ارشاد فرمایا:
’’ وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ‘‘(حجر:۲۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک ہم نے انسان کوخشک بجتی ہوئی مٹی سے بنایا جو ایسے سیاہ گارے کی تھی جس سے بُو آتی تھی۔
ان سب آیات کا معنی ایک ہی ہے اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیدائش سے پہلے ہر قسم کی مٹی جمع فرمائی گئی ، پھر اسے پانی سے گوندھا گیا تو وہ مٹی ایسا سیاہ گارہ بن گئی جس سے بو آتی تھی، اس سے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا جسم مبارک بنایا اورجب وہ مٹی خشک ہو گئی تو ہوا گزرنے کی وجہ سے ٹھیکری کی طرح بجنے لگی۔
وَ خَلَقَ الْجَآنَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ(15)فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ(16)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اس نے جن کوبغیر دھویں والی آگ کے خالص شعلے سے پیدا کیا۔ تو (اے جن و انسان!) تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
تفسیر: صراط الجنان
{وَ خَلَقَ الْجَآنَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ: اور اس نے جن کوبغیر دھویں والی آگ کے خالص شعلے سے پیدا کیا۔} یہاں جن سے مراد ابلیس ہے۔( جلالین، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۴۴۴)
ابلیس کو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پہلے آگ سے پیدا فرمایا،جیسا کہ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’وَ الْجَآنَّ خَلَقْنٰهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّارِ السَّمُوْمِ‘‘(حجر:۲۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے اس سے پہلے جن کو بغیر دھویں والی آگ سے پیدا کیا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا،ابلیس کو خالص آگ سے پیدا کیا گیا اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس طرح پیدا کیا گیا جس طرح تمہارے سامنے (اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ) بیان کیا۔( مسلم، کتاب الزہد والرقائق، باب فی احادیث متفرقۃ، ص۱۵۹۷، الحدیث: ۶۰(۲۹۹۶))
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: تواے جن و انسان!تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن و انسان کے گروہ!تمہاری تخلیق کی مختلف ہَیئتوں میں اللہ تعالیٰ نے تم پر جو نعمتیں فرمائیں حتّٰی کہ تمہیں مُرَکَّبات میں سے افضل اور کائنا ت کا خلاصہ بنا دیا،ان میں سے تم دونوں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟(بیضاوی، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۱۶، ۵ / ۲۷۵)
رَبُّ الْمَشْرِقَیْنِ وَ رَبُّ الْمَغْرِبَیْنِ(17)فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ(18)
ترجمہ: کنزالعرفان
وہ دونوں مشرقوں کا رب ہے اور دونوں مغربوں کا رب ہے۔ تو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
تفسیر: صراط الجنان
{رَبُّ الْمَشْرِقَیْنِ: وہ دونوں مَشرقوں کا رب ہے۔} اس آیت میں دونوں مشرق اور دونوں مغرب سے گرمیوں اور سردیوں کے موسم میں سورج طلوع اور غروب ہونے کے دونوں مقام مراد ہیں ۔( خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۱۷، ۴ / ۲۱۰)
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: تو تم دونوں اپنے رب کی کونسی نعمتوں کوجھٹلاؤ گے؟} یعنی سردی اور گرمی کے دونوں مشرقوں اور مغربوں میں جو بے شمار فوائد ہیں جیسے ہوا کا مُعتدل ہونا،مختلف موسموں جیسے سردی گرمی بہار اور خزاں کا آنا اور ہر موسم کی مناسبت سے مختلف چیزوں کا پیدا ہونا وغیرہ ،توان میں سے تم دونوں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟( بیضاوی، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۱۸، ۵ / ۲۷۵)
مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِ(19)بَیْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّا یَبْغِیٰنِ(20)فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ(21)یَخْرُ جُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَ الْمَرْجَانُ(22)فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ(23)
ترجمہ: کنزالعرفان
اس نے دو سمندر بہائے کہ دونوں ملے ہوئے (لگتے) ہیں ۔ ان کے درمیان ایک آڑ ہے کہ وہ ایک دوسرے کی طرف بڑھ نہیں سکتے۔ توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟ ان سمندروں سے موتی اور مرجان (موتی) نکلتا ہے۔ توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
تفسیر: صراط الجنان
{مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ: اس نے دو سمندر بہائے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میٹھے اور کھاری دو ایسے سمندر بہائے کہ دیکھنے میں ان کی سطح آپس میں ملی ہوئی لگتی ہے کیونکہ ان کے درمیان فاصلہ کرنے کے لئے ظاہری طور پر کوئی چیز حائل نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ان کے درمیان ایک آڑ ہے جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کی طرف بڑھ نہیں سکتے بلکہ ہر ایک اپنی حد پر رہتا ہے اور دونوں میں سے کسی کا ذائقہ بھی تبدیل نہیں ہوتا حالانکہ پانی کی خاصیت یہ ہے کہ وہ دوسرے پانی میں فوراً مل جاتا ہے اور ا س کا ذائقہ بھی تبدیل کر دیتا ہے۔
میٹھے اور کھاری سمندروں کا ذکر:
ان سمندروں کا ذکر کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’وَ هُوَ الَّذِیْ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ هٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّ هٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌۚ-وَ جَعَلَ بَیْنَهُمَا بَرْزَخًا وَّ حِجْرًا مَّحْجُوْرًا‘‘(فرقان:۵۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہی ہے جس نے دو سمندروں کو ملا دیا (ان میں ) یہ (ایک) میٹھا نہایت شیریں ہے اور یہ (ایک) کھاری نہایت تلخ ہے اور ان کے بیچ میں اس نے ایک پردہ اور روکی ہوئی آڑ بنادی۔
اور ارشاد فرمایا:
’’وَ مَا یَسْتَوِی الْبَحْرٰنِ ﳓ هٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ سَآىٕغٌ شَرَابُهٗ وَ هٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌؕ-وَ مِنْ كُلٍّ تَاْكُلُوْنَ لَحْمًا طَرِیًّا وَّ تَسْتَخْرِجُوْنَ حِلْیَةً تَلْبَسُوْنَهَاۚ-وَ تَرَى الْفُلْكَ فِیْهِ مَوَاخِرَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ‘‘(فاطر:۱۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور دونوں سمندر برابر نہیں (ان میں سے ایک) یہ میٹھا خوب میٹھا ہے اس کا پانی خوشگوارہے اور یہ (دوسرا) نمکین بہت کڑوا ہے اور (ان دونوں سمندروں میں سے) ہر ایک سے تم (مچھلی کا) تازہ گوشت کھاتے ہو اور وہ زیور (قیمتی موتی) نکالتے ہو جسے تم پہنتے ہو اور تو کشتیوں کو اس میں پانی کو چیرتے ہوئے دیکھے گا تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو اور تاکہ تم شکر ادا کرو۔
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن و انسان کے گروہ! اللہ تعالیٰ نے میٹھے اور کھاری دو سمندر بہا کر اور ان میں تمہارے پہننے کا زیور رکھ کر تم پر جوا نعام کیا ،تم ان نعمتوں میں سے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟( تفسیر طبری، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۲۱، ۱۱ / ۵۸۸)
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن اور انسان کے گروہ!اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ان سمندروں میں مَنافع پیدا فرما کر تم پر جو انعام کیا تم ان نعمتوں میں سے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟( تفسیر طبری، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۲۳، ۱۱ / ۵۹۰)
وَ لَهُ الْجَوَارِ الْمُنْشَــٴٰـتُ فِی الْبَحْرِ كَالْاَعْلَامِ(24)فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ(25)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور دریا میں پہاڑوں جیسی اٹھی ہوئی کشتیاں اسی کی ہیں ۔توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَهُ الْجَوَارِ الْمُنْشَــٴٰـتُ فِی الْبَحْرِ كَالْاَعْلَامِ: اور دریا میں پہاڑوں جیسی اٹھی ہوئی کشتیاں اسی کی ہیں ۔} یعنی جن چیزوں سے وہ کشتیاں بنائی گئیں وہ بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کیں اور ان کو ترکیب دینے اور کشتی بنانے اور کاریگری کرنے کی عقل بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کی اور دریاؤں میں ان کشتیوں کا چلنا اور تیرنا یہ سب اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ہے۔(ابو سعود، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۲۴، ۵ / ۶۶۳)
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن اور انسان کے گروہ !اللہ تعالیٰ نے تمہارے فائدے کے لئے سمندر میں (پہاڑوں کی مانند) بڑی بڑی کشتیاں جاری فرما کر تم پر جو انعام فرمایا ،تم ان نعمتوں میں سے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟( تفسیر طبری، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۲۵، ۱۱ / ۵۹۱)
كُلُّ مَنْ عَلَیْهَا فَانٍ(26)وَّ یَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَ الْاِكْرَامِ(27)فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ(28)
ترجمہ: کنزالعرفان
زمین پر جتنی مخلوق ہے سب فنا ہونے والی ہے۔ اور تمہارے رب کی عظمت اور بزرگی والی ذات باقی رہے گی۔توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
تفسیر: صراط الجنان
{كُلُّ مَنْ عَلَیْهَا فَانٍ: زمین پر جتنی مخلوق ہے سب فنا ہونے والی ہے۔} یعنی زمین پر جتنے جاندار ہیں سب ہلاک ہونے والے ہیں کیونکہ دنیا میں انسان (اور دیگر جانداروں ) کا وجود عارضی ہے لہٰذا وہ باقی نہیں رہے گا اور جو چیز باقی نہ رہے وہ فانی ہوتی ہے۔( خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۲۶، ۴ / ۲۱۰)
ہر جاندار کو ایک دن دنیا سے رخصت ضرور ہونا ہے:
تفسیر روح البیان میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو فرشتوں نے کہا کہ انسان ہلاک ہو گئے اور جب یہ آیت ’’ كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِ‘‘ نازل ہوئی تو فرشتوں کو اپنی موت کا بھی یقین ہو گیا۔( روح البیان، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۲۶، ۹ / ۲۹۷-۲۹۸)
{وَ یَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَ الْاِكْرَامِ: اور تمہارے رب کی عظمت اور بزرگی والی ذات باقی رہے گی۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، زمین پر موجود تمام مخلوق فنا ہو جائے گی اور صرف تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی ذات باقی رہے گی جو عظمت و کِبریائی والی ہے اور وہ اپنی عظمت و جلالت کے باوجود اپنے اَنبیاء، اولیاء اور اہلِ ایمان پر لطف وکرم فرمائے گااور مخلوق کے فنا ہونے کے بعد انہیں دوبارہ زندہ کرے گا اور انہیں اَبدی زندگی عطا فرمائے گا۔( خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۲۷، ۴ / ۲۱۱، ملتقطاً)
سورہِ رحمٰن کی آیت نمبر27کے آخری الفاظ ’’ ذُو الْجَلٰلِ وَ الْاِكْرَامِ‘‘ کی برکت:
اس آیت کے آخری الفاظ کو اپنی دعا میں شامل کرنے کی برکت سے دعا قبول ہو جاتی ہے،چنانچہ حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اس دعا ’’یَا ذَا الْجَلَالِ وَ الْاِکْرَام‘‘ کو لازم پکڑ لو اور اس کی کثرت کیا کرو۔( ترمذی، کتاب الدعوات، ۹۱-باب، ۵ / ۳۱۱، الحدیث: ۳۵۳۵)
اورحضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرے جو ’’یَاذَاالْجَلَالِ وَالْاِکْرَام‘‘ کہہ رہا تھا،آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس سے ارشاد فرمایا: ’’بے شک تیری دعا قبول کر لی جائے گی تودعا مانگ۔( مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الدعاء،ما ذکر فیمن سأل النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان یعلّمہ ما یدعو بہ فعلّمہ،۷ / ۵۶،الحدیث:۷)
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی جو نعمتیں سب کے فنا ہونے پر مُرَتَّب ہیں جیسے دوبارہ زندہ ہونا، دائمی زندگی ملنا اور ہمیشہ باقی رہنے والی نعمتیں عطا ہونا وغیرہ،تم دونوں ان میں سے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟( بیضاوی، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۲۸، ۵ / ۲۷۶)
فنا ہونا بھی ایک اعتبار سے نعمت ہے:
حضرت عبداللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’فنا ہونااس اعتبار سے نعمت ہے کہ ایمان والے موت کے بعد اَبدی اور سَرمدی نعمتوں کو پا ئیں گے۔( مدارک، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۱۱۹۳)
جیسا کہ حضرت ابو قتادہ بن ربعی انصاری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آپ نے فرمایا: ’’مُسْتَرِیْحٌ وَمُسْتَرَاحٌ مِنْہُ‘‘ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مُسْتَرِیْحٌ اور مُسْتَرَاحٌ مِنْہ سے کیا مراد ہے؟ارشاد فرمایا: ’’مومن بندہ جب مرتا ہے تو وہ مصیبتوں سے نجات پا کر اللہ تعالیٰ کی آغوشِ رحمت میں جانا چاہتا ہے اور بدکار آدمی جب مرتا ہے تو اس کے مر جانے سے اللہ تعالیٰ کے بندے ،شہر، درخت اور جانور بھی راحت پانا چاہتے ہیں۔(بخاری، کتاب الرقاق، باب سکرات الموت، ۴ / ۲۵۰، الحدیث: ۶۵۱۲)
اور حضرت یحییٰ بن معاذ رازی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’موت کو خوش آمدید ہو کیونکہ یہ وہ چیز ہے جو حبیب کو حبیب کے قریب کر دیتی ہے۔( مدارک، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۱۱۹۳)
یَسْــٴَـلُهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-كُلَّ یَوْمٍ هُوَ فِیْ شَاْنٍ(29)فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ(30)
ترجمہ: کنزالعرفان
آسمانوں اور زمین میں جتنے ہیں سب اسی کے سوالی ہیں ، وہ ہر دن کسی کام میں ہے۔ توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
تفسیر: صراط الجنان
{یَسْــٴَـلُهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ: آسمانوں اور زمین میں جتنے ہیں سب اسی کے سوالی ہیں ۔} یعنی آسمانوں میں رہنے والے فرشتے ہوں یا زمین پر بسنے والے جن ، انسان یا اور کوئی مخلوق ،الغرض کوئی بھی اللہ تعالیٰ سے بے نیاز نہیں بلکہ سب کے سب اس کے فضل کے محتاج ہیں اور زبانِ حال اورقال سے اسی کی بارگاہ کے سوالی ہیں ۔اس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کمال کی طرف اشارہ ہے کہ ہر مخلوق چاہے وہ کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو، وہ اپنی ضروریّات کو ازخود پورا کرنے سے عاجز ہے اور اللہ تعالیٰ کی محتاج ہے۔( خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۲۹، ۴ / ۲۱۱، جلالین، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۲۹، ص۴۴۴، ملتقطاً)
{كُلَّ یَوْمٍ هُوَ فِیْ شَاْنٍ: وہ ہر دن کسی کام میں ہے۔} اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ آیت ان یہودیوں کے رد میں نازل ہوئی جو کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہفتے کے دن کوئی کام نہیں کرتا،چنانچہ اس آیت میں ان کے قول کا باطل ہونا ظاہر فرمایا گیا ۔ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر وقت اپنی قدرت کے آثار ظاہر فرماتا ہے، کسی کو روزی دیتا ہے، کسی کو مارتا ہے اور کسی کو زندہ کرتا ہے، کسی کو عزت دیتا ہے اورکسی کو ذلت میں مبتلا کر دیتا ہے، کسی کو مالدار کرتا ہے اور کسی کو محتاج، کسی کے گناہ بخشتا ہے اور کسی کی تکلیف دور کرتا ہے۔( جلالین، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۲۹، ص۴۴۴، خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۲۹، ۴ / ۲۱۱، ملتقطاً)
یہاں اسی سے متعلق دو اَحادیث اور ایک حکایت ملاحظہ ہو،
(1)…حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس آیت ’’ كُلَّ یَوْمٍ هُوَ فِیْ شَاْنٍ‘‘کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ : ’’اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ گناہ بخشتا ہے، مَصائب و آلام دور کرتا ہے،کسی قوم کو بلندی عطا فرماتا ہے اور کسی قوم کو پَستی سے دوچار کر دیتا ہے۔( ابن ماجہ، کتاب السنّۃ، باب فیما انکرت الجہمیّۃ، ۱ / ۱۳۳، الحدیث: ۲۰۲)
(2)…حضرت عبید بن عمیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے اس آیت ’’ كُلَّ یَوْمٍ هُوَ فِیْ شَاْنٍ‘‘ کے بارے میں مروی ہے ’’اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ پریشان حال کی پریشانی دور کرتا ہے،دعاکرنے والے کی دعا قبول فرماتا ہے ،مریض کو شفا دیتا ہے اور مانگنے والے کو عطا کرتا ہے۔( مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الزہد، کلام عبید بن عمیر، ۸ / ۲۲۸، الحدیث: ۹)
منقول ہے کہ ایک بادشاہ نے اپنے وزیر سے اس آیت کے معنی دریافت کئے تو اُس نے ایک دن کی مہلت چاہی اور انتہائی پریشان و غمزدہ ہو کر اپنے مکان پر چلا آیا۔ اس کے ایک حبشی غلام نے وزیر کو پریشان دیکھ کر کہا: اے میرے آقا !آپ کو کیا مصیبت پیش آئی ہے ؟بیان توکیجئے ۔جب وزیر نے ساری بات ا س کے سامنے بیان کر دی تو غلام نے کہا’’میں اس کے معنی بادشاہ کو سمجھادوں گا۔ وزیر نے اس حبشی غلام کو بادشاہ کے سامنے پیش کیا تو غلام نے کہا: اے بادشاہ! اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں ، مردے سے زندہ نکالتا ہے اور زندے سے مردہ ، بیمار کو تندرستی دیتا ہے اور تندرست کو بیمار کرتا ہے، مصیبت زدہ کو رہائی دیتا ہے اور بے غموں کو مصیبت میں مبتلا کرتا ہے، عزت والوں کو ذلیل کرتا ہے اور ذلیلوں کو عزت دیتا ہے ،مالداروں کو محتاج کرتا ہے اور محتاجوں کو مالدار بنا تا ہے۔بادشاہ کوغلام کا جواب بہت پسند آیا اور اس نے وزیر کو حکم دیا کہ اس غلام کو وزارت کی خِلعت پہنادے۔ غلام نے وزیر سے کہا :اے آقا !یہ بھی اللہ تعالیٰ کی ایک شان ہے۔( مدارک، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۲۹، ص۱۱۹۴)
نوٹ :اس مقام پر ایک بات ذہن نشین رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کیلئے’’ مصروف‘‘ اور’’ مشغول ‘‘کا لفظ استعمال نہیں کرسکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ ان اوصاف سے پاک ہے۔
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن و انسان کے گروہ!اللہ تعالیٰ کے جوا حسانات بیان ہوئے ان کا مشاہدہ کرنے کے باوجودتم دونوں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟( ابو سعود، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۳۰، ۵ / ۶۶۴)
سَنَفْرُغُ لَكُمْ اَیُّهَ الثَّقَلٰنِ(31)فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ(32)
ترجمہ: کنزالعرفان
اے جنوں اور انسانوں کے گروہ !ابھی ہم تمہارے حساب کا قصد فرمائیں گے۔ توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
تفسیر: صراط الجنان
{اَیُّهَ الثَّقَلٰنِ: اے جن اور انسانوں کے گروہ!۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں کو خوف دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے جن اور انسانوں کے گروہ! عنقریب ہم تم سے حساب لینے اور تمہیں تمہارے اعمال کی جزا دینے کا قصد فرمائیں گے ۔
جِنّات اور انسانوں کو ’’ ثَقَـلَانِ‘‘ فرمانے کی وجوہات:
مفسرین نے جنوں اور انسانوں کو ’’ ثَقَـلَانِ‘‘ فرمائے جانے کی مختلف وجوہات بیان کی ہیں ،ان میں تین وجوہات درج ذَیل ہیں :
(1)… زمین پر موجود دیگر مخلوق کے مقابلے میں صرف جنوں اور انسانوں کو شرعی اَحکام کا مُکَلَّف بنایا گیا،ان کی اس عظمت کی وجہ سے انہیں ’’ ثَقَـلَانِ‘‘ فرمایا گیا ۔
(2)…زندگی اور موت دونوں صورتوں میں زمین پر ان کا وزن ہے، اس لئے انہیں ’’ ثَقَـلَانِ‘‘ فرمایا گیا ۔
(3)…انہیں ’’ ثَقَـلَانِ‘‘ اس لئے فرمایا گیا کہ یہ گناہوں کی وجہ سے بھاری ہیں ۔( قرطبی، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۳۱، ۹ / ۱۲۵، الجزء السابع عشر، ملخصاً)
تمام انسانوں کے لئے نصیحت:
اس آیت میں تمام انسانوں کے لئے نصیحت ہے کہ دنیا میں وہ جیسے چاہیں زندگی گزاریں لیکن مرنے کے بعد انہیں بہر حال اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے کئے ہوئے اعمال کا حساب دینا ہو گااور پھر جس طرح کے عمل کئے ہوں گے اسی طرح کی جزا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملے گی ۔
نوٹ:اس مقام پر ایک بات ذہن نشین رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے لئے ’’فارغ ‘‘کا لفظ استعمال نہیں کر سکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ مصروفیت اور فراغت کے وصف سے پاک ہے ۔اس لئے یہاں آیت میں ’’ سَنَفْرُغُ‘‘ سے ا س کا حقیقی معنی ’’فراغت ‘‘مراد نہیں بلکہ اس کا مجازی معنی ’’قصد کرنا‘‘ مراد ہے۔
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن اور انسان کے گروہ!اللہ تعالیٰ کا دیگر نعمتیں عطا کرنے کے ساتھ ساتھ قیامت کے دن اعمال کے حساب کے معاملے میں تمہیں تنبیہ کرنا بھی ایک نعمت ہے ،توتم دونوں اپنے اقوال اور اعمال کے ذریعے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟(ابو سعود، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۳۲، ۵ / ۶۶۴، ملخصاً)
سَنَفْرُغُ لَكُمْ اَیُّهَ الثَّقَلٰنِ(31)فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ(32)
ترجمہ: کنزالعرفان
اے جنوں اور انسانوں کے گروہ !ابھی ہم تمہارے حساب کا قصد فرمائیں گے۔ توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
تفسیر: صراط الجنان
{اَیُّهَ الثَّقَلٰنِ: اے جن اور انسانوں کے گروہ!۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں کو خوف دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے جن اور انسانوں کے گروہ! عنقریب ہم تم سے حساب لینے اور تمہیں تمہارے اعمال کی جزا دینے کا قصد فرمائیں گے ۔
جِنّات اور انسانوں کو ’’ ثَقَـلَانِ‘‘ فرمانے کی وجوہات:
مفسرین نے جنوں اور انسانوں کو ’’ ثَقَـلَانِ‘‘ فرمائے جانے کی مختلف وجوہات بیان کی ہیں ،ان میں تین وجوہات درج ذَیل ہیں :
(1)… زمین پر موجود دیگر مخلوق کے مقابلے میں صرف جنوں اور انسانوں کو شرعی اَحکام کا مُکَلَّف بنایا گیا،ان کی اس عظمت کی وجہ سے انہیں ’’ ثَقَـلَانِ‘‘ فرمایا گیا ۔
(2)…زندگی اور موت دونوں صورتوں میں زمین پر ان کا وزن ہے، اس لئے انہیں ’’ ثَقَـلَانِ‘‘ فرمایا گیا ۔
(3)…انہیں ’’ ثَقَـلَانِ‘‘ اس لئے فرمایا گیا کہ یہ گناہوں کی وجہ سے بھاری ہیں ۔( قرطبی، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۳۱، ۹ / ۱۲۵، الجزء السابع عشر، ملخصاً)
تمام انسانوں کے لئے نصیحت:
اس آیت میں تمام انسانوں کے لئے نصیحت ہے کہ دنیا میں وہ جیسے چاہیں زندگی گزاریں لیکن مرنے کے بعد انہیں بہر حال اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے کئے ہوئے اعمال کا حساب دینا ہو گااور پھر جس طرح کے عمل کئے ہوں گے اسی طرح کی جزا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملے گی ۔
نوٹ:اس مقام پر ایک بات ذہن نشین رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے لئے ’’فارغ ‘‘کا لفظ استعمال نہیں کر سکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ مصروفیت اور فراغت کے وصف سے پاک ہے ۔اس لئے یہاں آیت میں ’’ سَنَفْرُغُ‘‘ سے ا س کا حقیقی معنی ’’فراغت ‘‘مراد نہیں بلکہ اس کا مجازی معنی ’’قصد کرنا‘‘ مراد ہے۔
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن اور انسان کے گروہ!اللہ تعالیٰ کا دیگر نعمتیں عطا کرنے کے ساتھ ساتھ قیامت کے دن اعمال کے حساب کے معاملے میں تمہیں تنبیہ کرنا بھی ایک نعمت ہے ،توتم دونوں اپنے اقوال اور اعمال کے ذریعے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟(ابو سعود، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۳۲، ۵ / ۶۶۴، ملخصاً)
یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ فَانْفُذُوْاؕ-لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ(33)فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ(34)
ترجمہ: کنزالعرفان
اے جنوں اور انسانوں کے گروہ! اگر تم سے ہوسکے کہ آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل جاؤ تو نکل جاؤ،تم جہاں نکل کر جاؤ گے (وہاں ) اسی کی سلطنت ہے۔ توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
تفسیر: صراط الجنان
{یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ: اے جنوں اور انسانوں کے گروہ!} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم میری قضاء سے بھاگ سکتے ہو،میری سلطنت اور میرے آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل سکتے ہو تو ان سے نکل جاؤ اور اپنی جانوں کو میرے عذاب سے بچا لو لیکن تم ا س بات پر قادر ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ تم جہاں بھی جاؤ گے وہیں میری سلطنت ہے۔یہ حکم جنوں اور انسانوں کا عجز ظاہر کرنے کے لئے دیا گیا ہے۔(ابو سعود، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۳۳، ۵ / ۶۶۴، جلالین، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۳۳، ص۴۴۴، ملتقطاً)
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن اور انسان کےگروہ! اللہ تعالیٰ نے سزا دینے پر قادر ہونے کے باوجود تمہیں تنبیہ کر کے،اپنے عذاب سے ڈرا کر، تم پر آسانی فرما کر اور تمہیں معافی سے نواز کر تم پر جو انعامات فرمائے، تم دونوں ان میں سے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟( ابو سعود، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۳۴، ۵ / ۶۶۴، ملخصاً)
یُرْسَلُ عَلَیْكُمَا شُوَاظٌ مِّنْ نَّارٍ ﳔ وَّ نُحَاسٌ فَلَا تَنْتَصِرٰنِ(35)فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ(36)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم پر آگ کا بغیر دھویں والا خالص شعلہ اور بغیر شعلے والا کالا دھواں بھیجا جائے گا توتم ایک دوسرے کی مدد نہ کرسکو گے۔ توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
تفسیر: صراط الجنان
{یُرْسَلُ عَلَیْكُمَا شُوَاظٌ مِّنْ نَّارٍ ﳔ وَّ نُحَاسٌ: تم پر آگ کا بغیر دھویں والا خالص شعلہ اور بغیر شعلے والا کالا دھواں بھیجا جائے گا۔} ارشاد فرمایا کہ اے (کافر) جن اور انسان!قیامت کے دن جب تم قبروں سے نکلو گے تو تم پر آگ کا بغیر دھویں والا خالص شعلہ اور بغیر شعلے والا کالا دھواں بھیجا جائے گا تو اس وقت تم اس عذاب سے نہ بچ سکو گے اور نہ آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرسکوگے بلکہ یہ آگ کا شعلہ اور دھواں تمہیں محشرکی طرف لے جائیں گے ۔(مدارک، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۳۵، ص۱۱۹۵، خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۳۵، ۴ / ۲۱۲، جلالین، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۳۵، ص۴۴۴، ملتقطاً)
صدرُ الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں: حضرت مترجم قُدِّسَ سِرُّہٗ (یعنی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰیعَلَیْہ)نے فرمایا: ’’ لَپَٹ (یعنی شعلے) میں دھواں ہو تو اس کے سب اجزاء جلانے والے نہ ہوں گے کہ (اس میں ) زمین کے (وہ) اجزاء شامل ہیں جن سے دھواں بنتا ہے اور دھوئیں میں لپٹ ہو تو وہ پورا سیاہ اور اندھیرا نہ ہوگا کہ لپٹ کی رنگت شامل ہے، ان پر بے دھوئیں کی لپٹ بھیجی جائے گی جس کے سب اجزاء جلانے والے (ہوں گے) اور بے لپٹ کا دھواں (بھیجا جائے گا) جو سخت کالا، اندھیرا (ہوگا) اور (ہم اس عذاب سے) اسی کے وجہ کریم کی پناہ (چاہتے ہیں )۔(خزائن العرفان، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۳۵، ص۹۸۳)
یاد رہے کہ پہلے سے اس کی خبر دے دینا یہ بھی اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم ہے تاکہ اس کی نافرمانی سے باز رہ کر اپنے آپ کو اس بلاسے بچا یاجا سکے۔
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن اور انسان کے گروہ!کافر اور گناہگار کا انجام پہلے سے بیان کر دینا اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم اور نعمت ہے تو تم دونوں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟( ابو سعود، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۳۶، ۵ / ۶۶۵)
فَاِذَا انْشَقَّتِ السَّمَآءُ فَكَانَتْ وَرْدَةً كَالدِّهَانِ(37)فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ(38)
ترجمہ: کنزالعرفان
پھر جب آسمان پھٹ جائے گا تو گلاب کے پھول جیسا (سرخ) ہوجائے گا جیسے سرخ چمڑا۔ توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
تفسیر: صراط الجنان
{فَاِذَا انْشَقَّتِ السَّمَآءُ: پھر جب آسمان پھٹ جائے گا۔} ارشاد فرمایا کہ پھر جب قیامت کے دن آسمان اس طرح پھٹ جائے گا کہ جگہ جگہ سے چیرا ہوا ہو گا اورا س کا رنگ گلاب کے پھول کی طرح اورایسا سرخ ہو گا جیسے بکرے کی رنگی ہوئی کھال ہوتی ہے تو یہ ایسا ہَولْناک منظر ہوگا جسے بول کر بیان نہیں کیا جا سکتا۔( روح البیان، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۳۷، ۹ / ۳۰۲، ملخصاً)
قیامت کے ہَولْناک مَناظِر کے بارے میں پڑھ کر رونا:
امام جلال الدین سیوطی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنی مشہور تفسیر’’درمنثور‘‘ میں نقل کرتے ہیں ’’ایک مرتبہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک نوجوان کے پاس سے گزرے ،وہ نوجوان یہ آیت ’’فَاِذَا انْشَقَّتِ السَّمَآءُ فَكَانَتْ وَرْدَةً كَالدِّهَانِ‘‘ پڑھ رہا تھا،آپ وہیں رک گئے اور دیکھا کہ اس نوجوان پر کپکپی طاری ہو گئی ہے اور آنسؤوں نے اس کا گلا بند کر دیا ہے ،وہ روتا رہا اور یہی کہتا رہا:اس دن میری خرابی ہو گی جس دن آسمان پھٹ جائے گا۔سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس نوجوان سے فرمایا ’’اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، تیرے رونے کی وجہ سے فرشتے بھی روئے ہیں ۔( در منثور، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۳۷، ۷ / ۷۰۳)
اس سے معلوم ہوا کہ قرآنِ مجید میں جہاں کہیں قیامت کے ہَولْناک مناظر بیان کئے گئے ہیں ،ان کی تلاوت کرتے وقت خوفزدہ ہونا ہمارے بزرگانِ دین کا طریقہ ہے ،لہٰذا ہمیں بھی چاہئے کہ ایسے مقامات کی تلاوت کرتے وقت دل میں خوف پیدا کرنے اور آنسوبہانے کی کوشش کرنی اور اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگنی چاہئے کہ وہ ہمیں قیامت کی ہَولْناکْیوں اور شدّتوں میں امن و سکون نصیب فرمائے ،اٰمین۔
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی جب قیامت کے دن آسمان اللہ تعالیٰ کی ہَیبت سے پھٹ جائیں گے اور اللہ تعالیٰ مخلوق کے حساب کا حکم دے گا تو اس وقت وہی تمہیں قیامت کے دن کی ہَولْناکْیوں سے نجات دے گا ،تو اے جن و انسان!تم دونوں اس نعمت کا انکار کس طرح کر سکتے ہو۔( تفسیر سمرقندی، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۳۸، ۳ / ۳۰۹)
فَیَوْمَىٕذٍ لَّا یُسْــٴَـلُ عَنْ ذَنْۢبِهٖۤ اِنْسٌ وَّ لَا جَآنٌّ(39)فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ(40)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو اس دن کسی آدمی اور جِن سے اس کے گناہ کے متعلق نہیں پوچھا جائے گا۔توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
تفسیر: صراط الجنان
{فَیَوْمَىٕذٍ: تو اس دن۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ جب لوگ قبروں سے اُٹھائے جائیں گے اور آسمان پھٹے گا تو اس دن فرشتے مجرموں سے دریافت نہیں کریں گے بلکہ ان کی صورتیں دیکھ کر ہی انہیں پہچان لیں گے اور ان سے سوال دوسرے وقت میں ہوگا جب کہ لوگ حساب کے مقام میں جمع ہوں گے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ جس دن آسمان پھٹے گا تو اس دن قبروں سے نکلتے ہی فوراًکسی آدمی اور جن سے اس کے گناہ کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گابلکہ جب وہ حساب کی جگہ میں اکٹھے ہوں گے تو اس وقت ان سے پوچھا جائے گا۔(خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۳۹، ۴ / ۲۱۲، روح البیان، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۳۹، ۹ / ۳۰۳، صاوی، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۳۹، ۶ / ۲۰۸۰، ملتقطاً)
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن اور انسان کے گروہ!تمہیں ان چیزوں کی خبر دینا جن سے ڈر کر تم گناہوں سے باز آ جاؤ اور دنیا میں ہی اللہ تعالیٰ کی اطاعت کر لو،یہ بھی اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے، توتم دونوں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟( ابو سعود، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۴۰، ۵ / ۶۶۵، ملتقطاً)
یُعْرَفُ الْمُجْرِمُوْنَ بِسِیْمٰىهُمْ فَیُؤْخَذُ بِالنَّوَاصِیْ وَ الْاَقْدَامِ(41)فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ(42)
ترجمہ: کنزالعرفان
مجرم اپنے چہروں سے پہچانے جائیں گے توانہیں پیشانی اور پاؤں سے پکڑا جائے گا۔ توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
تفسیر: صراط الجنان
{یُعْرَفُ الْمُجْرِمُوْنَ بِسِیْمٰىهُمْ: مجرم اپنے چہروں سے پہچانے جائیں گے۔} ارشاد فرمایا کہ (قیامت کے دن) مجرم اپنے چہروں سے اس طرح پہچانے جائیں گے کہ اُن کے منہ کالے اور آنکھیں نیلی ہوں گی، تو حساب کے بعد جہنم کے خازن انہیں پکڑیں گے اور ان کے ہاتھ گردن سے باندھ دیں گے اور ان کے پاؤں پیٹھ کے پیچھے سے لا کر پیشانیوں سے ملادیں گے، پھر انہیں چہروں کے بل گھسیٹ کرجہنم میں ڈال دیں گے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ بعض مجرم پیشانیوں سے گھسیٹے جائیں گے اوربعض پاؤں سے گھسیٹ کر جہنم میں ڈالے جائیں گے۔( خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۴۱، ۴ / ۲۱۳، تفسیر سمرقندی، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۴۱، ۳ / ۳۰۹، ملتقطاً)
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن اور انسان کے گروہ!فرشتوں کا تم میں سے مجرموں اوراطاعت گزاروں کو ان کی علامات سے پہچان لینا اور صرف مجرموں کو ذلت اور توہین سے دوچار کرنا اور اطاعت گزاروں کو محفوظ رکھنا اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے ، توتم دونوں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟( تفسیر طبری، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۴۲، ۱۱ / ۶۰۰)
هٰذِهٖ جَهَنَّمُ الَّتِیْ یُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُوْنَ(43)یَطُوْفُوْنَ بَیْنَهَا وَ بَیْنَ حَمِیْمٍ اٰنٍ(44)فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ(45)
ترجمہ: کنزالعرفان
یہ وہ جہنم ہے جسے مجرم جھٹلاتے تھے۔ جہنمی جہنم اور انتہائی کھولتے ہوئے پانی میں چکر لگائیں گے۔ توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
تفسیر: صراط الجنان
{هٰذِهٖ جَهَنَّمُ: یہ وہ جہنم ہے۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ وہ جہنم جسے مجرم جھٹلاتے تھے وہ ان سے دور نہیں بلکہ ان کے قریب ہے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ جب کفار جہنم کے قریب ہوں گے تو اس وقت جہنم کے خازن ان سے کہیں گے کہ یہ وہ جہنم ہے جسے تم دنیا میں جھٹلاتے تھے۔ (تفسیرکبیر، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۴۳، ۱۰ / ۳۶۸، تفسیر سمرقندی، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۴۳، ۳ / ۳۰۹، ملتقطاً)
{یَطُوْفُوْنَ: جہنمی چکر لگائیں گے۔} اس آیت میں جہنمیوں کا حال بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ جہنمی جہنم اور اس کے انتہائی کَھولتے ہوئے پانی میں چکر لگائیں گے۔اس کی ایک صورت یہ ہو گی کہ جب وہ جہنم کی آگ سے جل بُھن کر فریاد کریں گے تو اُنہیں اس جگہ لے جایا جائے گا جہاں کھولتے ہوئے پانی کا چشمہ ہے، وہاں انہیں جلتا اورکَھولتا ہواپانی پلایا جائے گا اور جب اس عذاب پر فریاد کریں گے تو انہیں اس جگہ لے جایا جائے گا جہاں آگ کا عذاب ہے۔دوسری صورت یہ ہو گی کہ جہنمیوں پر بھوک کا عذاب مُسلّط کیا جائے گا ،جب وہ کھانے کے لئے چیخیں گے تو انہیں تھوہڑ کھلایا جائے گااور وہ ان کے حَلق میں چبھ جائے گا، تب پانی کے لئے شور مچائیں گے تو پھر انہیں وہاں لے جایا جائے گا جہاں کَھولتے پانی کا چشمہ ہے۔جب وہ پانی اپنے چہرے کے قریب کریں گے تو ان کے چہرے کا گوشت گل کر اس میں گر پڑے گا ،پھر اسے پئیں گے تو وہ ان کے پیٹوں میں جوش مارے گا اور ان میں موجود ہر چیز نکال دے گا۔پھر ان پر بھوک مُسلّط کی جائے گی اور وہ اسی طرح جہنم کے ایک طبقے سے دوسرے طبقے میں چکر لگائیں گے۔( خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۴۴، ۴ / ۲۱۳، جلالین، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۴۴، ص۴۴۵، تفسیر سمرقندی، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۴۴، ۳ / ۳۰۹، ملتقطاً)
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن اور انسان کے گروہ!اللہ تعالیٰ کا اپنی نافرمانی کے اس انجام سے دنیا میں ہی آگاہ فرمادینا بھی اس کی نعمت ہے، توتم دونوں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ(46)فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ(47)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے اس کے لیے دو جنتیں ہیں ۔ توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ: اور جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے۔} یہاں سے اللہ تعالیٰ نے وہ نعمتیں بیان فرمائی ہیں جو ا س نے اپنی بارگاہ میں کھڑے ہونے سے ڈرنے والے متقی اور مومن بندوں کے لئے تیار فرمائی ہیں ۔
اس آیت کاایک معنی یہ ہے کہ جسے دنیا میں قیامت کے دن اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حضور حساب کی جگہ میں حساب کے لئے کھڑے ہونے کا ڈر ہو اور وہ گناہوں کو چھوڑ دے اور فرائض کی بجا آوری کرے تو ا س کے لئے آخرت میں دو جنتیں ہیں ۔( مدارک، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۴۶، ص۱۱۹۵، خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۴۶، ۴ / ۲۱۳، ملتقطاً)
اس معنی کی تائید اس آیتِ مبارکہ سے بھی ہوتی ہے،ارشادِ باری تعالیٰ ہے
’’وَ اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰىۙ(۴۰) فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاْوٰى‘‘(نازعات:۴۰،۴۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا۔تو بیشک جنت ہی ٹھکانہ ہے۔
دوسرا معنی یہ ہے کہ جو اس بات سے ڈرے کہ اس کے تمام اعمال اللہ تعالیٰ جانتا ہے اوروہ اس کے اعمال کی نگرانی رکھتا ہے اور اس خوف کی وجہ سے وہ بندہ گناہ چھوڑ دے تو ا س کے لئے آخرت میں دو جنتیں ہیں ۔
اس معنی کی تائید اس آیت سے بھی ہوتی ہے:
’’ اَفَمَنْ هُوَ قَآىٕمٌ عَلٰى كُلِّ نَفْسٍۭ بِمَا كَسَبَتْ‘‘(رعد:۳۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو کیا وہ خدا جو ہر شخص پر اس کے اعمالکی نگرانی رکھتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرنے والے کودو جنتیں ملنے کی وجوہات:
دو جنتوں سے مراد جنت ِعَدن اور جنت ِنعیم ہے اوردو جنتیں ملنے کی وجوہات مفسرین نے مختلف بیان فرمائی ہیں ۔
(1)… ایک جنت اللہ تعالیٰ سے ڈر نے کا صلہ ہے اور ایک نفسانی خواہشات ترک کرنے کا صلہ ہے ۔
(2)…ایک جنت اس کے درست عقیدہ رکھنے کا صلہ ہے اور ایک جنت اس کے نیک اعمال کا صلہ ہے ۔
(3)…ایک جنت اس کے فرمانبرداری کرنے کا صلہ ہے اور ایک جنت گناہ چھوڑ دینے کا صلہ ہے۔
(4)…ایک جنت ثواب کے طور پر ملے گی اور ایک جنت اللہ تعالیٰ کے فضل کے طور پر ملے گی ۔
(5)…ایک جنت اس کی رہائش کے لئے ہو گی اور دوسری جنت اس کی بیویوں کی رہائش کے لئے ہو گی۔( خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۴۶، ۴ / ۲۱۳، صاوی، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۴۶، ۶ / ۲۰۸۱، ملتقطاً)
اللہ تعالیٰ کا خوف بڑی اعلیٰ نعمت ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا خوف بڑی اعلیٰ نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو اپنا خوف نصیب کرے۔
امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے زمانۂ مبارک میں ایک نوجوان بہت متقی و پرہیز گار و عبادت گزار تھا، حتّٰی کہ حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ بھی اس کی عبادت پر تعجب کیا کرتے تھے ۔وہ نوجوان نمازِ عشاء مسجد میں ادا کرنے کے بعداپنے بوڑھے باپ کی خدمت کرنے کے لئے جایا کرتا تھا ۔ راستے میں ایک خوبرُو عورت اسے اپنی طرف بلاتی اور چھیڑتی تھی، لیکن یہ نوجوان اس پر توجہ دئیے بغیر نگاہیں جھکائے گزر جایا کرتا تھا ۔ آخر کار ایک دن وہ نوجوان شیطان کے ورغلانے اور اس عورت کی دعوت پر برائی کے ارادے سے اس کی جانب بڑھا، لیکن جب دروازے پر پہنچا تو اسے اللہ تعالیٰ کا یہی فرمانِ عالیشان یاد آ گیا:
’’ اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّهُمْ طٰٓىٕفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَكَّرُوْا فَاِذَاهُمْ مُّبْصِرُوْنَ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان:بیشک جب شیطان کی طرف سےپرہیزگاروں کو کوئی خیال آتا ہے تو وہ فوراًحکمِ خدا یاد کرتے ہیں پھراسی وقت ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں ۔
اس آیتِ پاک کے یاد آتے ہی اس کے دل پر اللہ تعالیٰ کا خوف اس قدر غالب ہوا کہ وہ بے ہوش ہو کر زمین پر گر گیا ۔جب یہ بہت دیر تک گھر نہ پہنچا تو اس کا بوڑھا باپ اسے تلاش کرتا ہوا وہاں پہنچا اور لوگوں کی مدد سے اسے اٹھوا کر گھر لے آیا۔ ہوش آنے پر باپ نے تمام واقعہ دریافت کیا ،نوجوان نے پورا واقعہ بیان کر کے جب اس آیت ِ پاک کا ذکر کیا، تو ایک مرتبہ پھر اس پر اللہ تعالیٰ کا شدید خوف غالب ہوا ،اس نے ایک زور دار چیخ ماری اور اس کا دم نکل گیا۔ راتوں رات ہی اس کے غسل و کفن ودفن کا انتظام کر دیاگیا۔ صبح جب یہ واقعہ حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ اُس کے باپ کے پاس تَعْزِیَت کے لئے تشریف لے گئے اور اس سے فرمایا کہ ’’ آپ نے ہمیں اطلاع کیوں نہیں دی ؟(تا کہ ہم بھی جنازے میں شریک ہو جاتے) ۔اس نے عرض کی ’’امیر المومنین!اس کاانتقال رات میں ہوا تھا(اور آپ کے آرام کا خیال کرتے ہوئے بتانامناسب معلوم نہ ہوا)۔ آپ نے فرمایا کہ ’’مجھے اس کی قبر پر لے چلو۔‘‘ وہاں پہنچ کر آپ نے یہ آیتِ مبارکہ پڑھی: ’’وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو اپنے رب کے حضور کھڑےہونے سے ڈرے اس کے لیے دو جنتیں ہیں ۔
تو قبر میں سے اس نوجوان نے جواب دیتے ہوئے کہا: یا امیرَ المومنین!بیشک میرے رب نے مجھے دو جنتیں عطا فرمائی ہیں ۔‘‘(ابن عساکر، ذکر من اسمہ عمرو، عمرو بن جامع بن عمرو بن محمد۔۔۔ الخ، ۴۵ / ۴۵۰، ذمّ الہوی، الباب الثانی و الثلاثون فی فضل من ذکر ربّہ فترک ذنبہ، ص۱۹۰-۱۹۱)
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن اور انسان کے گروہ! جب اللہ تعالیٰ نے تمہارے اعمال کے ثواب کے لئے جنت بنائی ہے تو تم دونوں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟( تفسیر سمرقندی، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۴۷، ۳ / ۳۱۰)
ذَوَاتَاۤ اَفْنَانٍ(48)فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ(49)
ترجمہ: کنزالعرفان
شاخوں والی ہیں ۔ توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
تفسیر: صراط الجنان
{ذَوَاتَاۤ اَفْنَانٍ: شاخوں والی ہیں ۔} یہاں سے ان دو جنتوں کے اوصاف بیان کئے جا رہے ہیں، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ ان جنتوں کا ایک وصف یہ ہے کہ وہ دونوں جنتیں پھلوں سے لدی ہوئی شاخوں والی ہیں اور ہر شاخ میں قِسم قِسم کے میوے ہیں ۔( روح البیان، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۴۸، ۹ / ۳۰۶، ملخصاً)
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن اور انسان کے گروہ! اطاعت گزاروں کو ایسا ثواب دے کر اللہ تعالیٰ نے جو تم پر انعام فرمایا تو ان میں سے تم دونوں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟( تفسیر طبری، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۴۹، ۱۱ / ۶۰۴)
فِیْهِمَا عَیْنٰنِ تَجْرِیٰنِ(50)فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ(51)
ترجمہ: کنزالعرفان
ان میں دو چشمے بہہ رہے ہیں ۔ توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
تفسیر: صراط الجنان
{فِیْهِمَا عَیْنٰنِ تَجْرِیٰنِ: ان میں دو چشمے بہہ رہے ہیں ۔} یہاں ان جنتوں کا ایک اور وصف بیان ہوا کہ ان میں سے ہر ایک جنت میں صاف اور میٹھے پانی کے دو چشمے بہہ رہے ہیں ،ان میں سے ایک کانام تسنیم اور دوسرے کا نام سَلسَبیل ہے۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ ایک چشمہ خراب نہ ہونے والے پانی کا ہے اور ایک چشمہ ایسی شراب کا ہے جو پینے والوں کے لئے لذّت بخش ہے۔( صاوی، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۵۰، ۶ / ۲۰۸۲)
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن اور انسان کے گروہ!اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ چشمے عطا کر کے تمہاری نعمت میں اضافہ فرمایا تو تم اس کی قدرت اور نعمت کا انکار کیسے کر سکتے ہو اور تم دونوں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟ (تفسیر سمرقندی، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۵۱، ۳ / ۳۱۰)
فِیْهِمَا مِنْ كُلِّ فَاكِهَةٍ زَوْجٰنِ(52)فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ(53)
ترجمہ: کنزالعرفان
ان دونوں جنتوں میں ہر پھل کی دو دو قسمیں ہیں ۔توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
تفسیر: صراط الجنان
{فِیْهِمَا مِنْ كُلِّ فَاكِهَةٍ زَوْجٰنِ: ان دونوں جنتوں میں ہر پھل کی دو دو قسمیں ہیں ۔} دو قسموں سے مراد یہ ہے کہ بعض وہ پھل ہیں جو دنیا میں دیکھے گئے اور بعض و ہ عجیب و غریب پھل ہیں جو اس سے پہلے کبھی نہ دیکھے گئے۔ یااس سے مراد یہ ہے کہ بعض پھل خشک ہیں اور بعض تر ۔یا یہ مراد ہے کہ بعض پھل خالص میٹھے ہیں اور بعض ترشی کی طرف مائل ہیں۔( روح البیان، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۵۲، ۹ / ۳۰۶)
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن اور انسان کے گروہ! تم ان لذیذ نعمتوں میں سے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟( روح البیان، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۵۳، ۹ / ۳۰۷)
مُتَّكِـٕیْنَ عَلٰى فُرُشٍۭ بَطَآىٕنُهَا مِنْ اِسْتَبْرَقٍؕ-وَ جَنَا الْجَنَّتَیْنِ دَانٍ(54)فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ(55)
ترجمہ: کنزالعرفان
۔(جنتی) ایسے بچھونوں پر تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے جن کے اندرونی حصے موٹے ریشم کے ہیں اور دونوں جنتوں کے پھل جھکے ہوئے ہوں گے۔توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
تفسیر: صراط الجنان
{مُتَّكِـٕیْنَ عَلٰى فُرُشٍ: بچھونوں پر تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے۔} یعنی جنتی لوگ بادشاہوں کی طرح آرام اور راحت سے ایسے بچھونوں پر ٹیک لگاکر بیٹھے ہوئے ہوں گے جن کے اندرونی حصے موٹے ریشم کے ہوں گے ۔( روح البیان، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۵۴، ۹ / ۳۰۷)
حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’جب ا س بچھونے کے اندرونی حصے کا یہ حال ہے تو ظاہری حصے کا کیا حال ہو گا۔
اورحضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے ان بچھونوں کے اندرونی حصے کا حال تو بیان کر دیا لیکن ظاہری حصے کا بیان نہیں کیا کیونکہ زمین میں کوئی ایسی چیز ہے ہی نہیں جس سے ان کے ظاہری حصوں کا حال پہچانا جا سکے۔ (خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۵۴، ۴ / ۲۱۳)
{وَ جَنَا الْجَنَّتَیْنِ دَانٍ: اور دونوں جنتوں کا پھل جھکاہوا ہے۔} یعنی ان دونوں جنتوں کا پھل اتنا قریب ہو گا کہ کھڑا، بیٹھا اور لیٹا ہر شخص اسے چن لے گا جبکہ دنیا کے پھلوں میں یہ خاصیت نہیں ہے۔حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ درخت اتنا قریب ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کے پیارے بندے کھڑے یابیٹھے جیسے چاہیں گے اس کا پھل چن لیں گے۔( خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۵۴، ۴ / ۲۱۴)
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن اور انسان کے گروہ!ان لذیذ اور باقی رہنے والی نعمتوں میں سے تم دونوں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟(روح البیان، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۵۵، ۹ / ۳۰۷)
فِیْهِنَّ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِۙ-لَمْ یَطْمِثْهُنَّ اِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَ لَا جَآنٌّ(56)فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ(57)
ترجمہ: کنزالعرفان
ان جنتوں میں وہ عورتیں ہیں کہ شوہر کے سوا کسی کو آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتیں ،جنہیں ان کے شوہروں سے پہلے نہ کسی آدمی نے چھوا اور نہ کسی جن نے۔ توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
تفسیر: صراط الجنان
{فِیْهِنَّ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ: ان جنتوں میں وہ عورتیں ہیں کہ شوہر کے سوا کسی کو آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتیں ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ان جنتوں کے محلات میں جنّتی مَردوں کے لئے ایسی بیویاں ہوں گی جو اپنے شوہر کے علاوہ کسی اور کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھیں گی اور ان میں سے ہر ایک اپنے شوہر سے کہے گی: مجھے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی عزت و جلال کی قسم! جنت میں مجھے کوئی چیز تجھ سے زیادہ اچھی نہیں معلوم ہوتی، تو اس خدا عَزَّوَجَلَّ کی حمد ہے جس نے تمہیں میرا شوہر بنایا اور مجھے تمہاری بیوی بنایا ۔اور وہ بیویاں ایسی ہوں گی کہ انہیں ان کے جنتی شوہروں کے علاوہ نہ کسی آدمی نے چھوا ہوگا اور نہ ہی کسی جن نے ۔ ان بیویوں سے مراد حورِعِین ہیں کیونکہ وہ جنت میں پیدا کی گئی ہیں ، اس لئے ان کے شوہروں کے سوا انہیں کسی نے نہیں چھوا۔بعض مفسرین نے فرمایا ان سے مراد دنیا کی عورتیں ہیں، انہیں دوبارہ کنواریاں پیدا کیا جائے گا اور اس پیدائش کے بعد انہیں ان کے شوہروں کے علاوہ کسی اور نے نہ چھوا ہو گا۔( روح البیان، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۵۶، ۹ / ۳۰۷-۳۰۸، خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۵۶، ۴ / ۲۱۴، ملتقطاً)
آیت ’’ فِیْهِنَّ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ‘‘سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے چند باتیں معلوم ہوئیں ۔
(1)… تقویٰ اور شرم و حیا عورت کابہت بڑا کمال ہے۔
(2)… اجنبی عورت کا متقی پرہیز گار مرد سے بھی پردہ ہے کیونکہ جنت میں سب متقی ہوں گے، مگر ان سے بھی پردہ ہو گا۔
(3)… پردہ اللہ تعالیٰ کی وہ نعمت ہے جو جنت میں بھی ہو گی۔
(4)…حوریں پیدا ہو چکی ہیں اور جنت کی تمام نعمتوں کی طرح وہ بھی موجود ہیں ۔
(5)… حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اگرچہ جنت میں رہے اور وہاں کی نعمتیں کھائیں ، مگر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حوروں کی طرف مائل نہ ہوئے کیونکہ حوریں صرف جزا کے طور پر ملیں گی ۔
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن اور انسان کے گروہ!اللہ تعالیٰ نے تمہاری طبیعت کے موافق تمہارے لئے بیویاں بنائیں اور وہ تمہارے علاوہ کسی اور کی طرف نہیں دیکھتیں تو تم اللہ تعالیٰ کا انکار کس طرح کرتے ہو اور تم دونوں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟( تفسیر سمرقندی، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۵۷، ۳ / ۳۱۰)
كَاَنَّهُنَّ الْیَاقُوْتُ وَ الْمَرْجَانُ(58)فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ(59)
ترجمہ: کنزالعرفان
گویا وہ لعل اور مرجان (موتی) ہیں ۔ توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
تفسیر: صراط الجنان
{كَاَنَّهُنَّ الْیَاقُوْتُ وَ الْمَرْجَانُ: گویا وہ لعل اور مرجان (موتی) ہیں ۔} یعنی جنتی حوریں صفائی اور خوش رنگی میں لعل اور مونگے پتھرکی طرح ہیں ۔ (مدارک، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۵۸، ص۱۱۹۶)
جنّتی حوروں کی صفائی اور خوش رنگی:
جنتی حوروں کے بارے میں حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جنتی عورتوں کی پنڈلیوں کی سفیدی ستر جوڑوں کے نیچے سے نظر آئے گی یہاں تک کہ پنڈلیوں کا گودا بھی نظر آئے گا اور یہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’ كَاَنَّهُنَّ الْیَاقُوْتُ وَ الْمَرْجَانُ‘‘ اور یاقوت ایک ایسا پتھر ہے کہ اگر اس میں دھاگہ ڈال کر باہر سے دیکھنا چاہو تو دیکھ سکتے ہو۔( ترمذی، کتاب صفۃ الجنّۃ والنار، باب فی صفۃ نساء اہل الجنّۃ، ۴ / ۲۳۹، الحدیث: ۲۵۴۱)
اورحضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ حورِعِین کی پنڈلی کا مغز (لباس کے) ستر جوڑوں کے نیچے گوشت اور ہڈی کے پیچھے سے اس طرح نظر آتا ہے جس طرح شیشے کی صراحی میں سرخ شراب نظر آتی ہے۔(کتاب الجامع فی آخر المصنف، باب الجنّۃ وصفتہا، ۱۰ / ۳۴۵، الحدیث: ۲۱۰۳۱)
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن اور انسان کے گروہ!اللہ تعالیٰ نے تمہاری نگاہوں کی لذّت ان حوروں کو دیکھنے میں رکھی تو تم اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت اور اس کی نعمت کا انکار کس طرح کر سکتے ہو اور تم دونوں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟( تفسیر سمرقندی، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۵۹، ۳ / ۳۱۱)
هَلْ جَزَآءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ(60)فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ(61)
ترجمہ: کنزالعرفان
نیکی کا بدلہ نیکی ہی ہے۔ توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
تفسیر: صراط الجنان
{هَلْ جَزَآءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ: نیکی کا بدلہ نیکی ہی ہے۔} یعنی جو (قیامت کے دن) اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کھڑے ہونے سے ڈرا اور دنیا میں اس نے اچھے عمل کئے اور اپنے رب تعالیٰ کی فرمانبرداری کی تو آخرت میں اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ اس طرح احسان فرمائے گا کہ اسے اس کی دُنْیَوی نیکیوں پر وہ جزا عطا فرمائے گا جو ان آیات میں بیان ہوئی۔(تفسیر طبری، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۶۰، ۱۱ / ۶۰۹)
اورحضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرما تے ہیں کہ جو ’’لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللہ‘‘ کا قائل ہو اورنبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شریعت پر عامل ہو تو اس کی جزا ء جنت ہے۔( خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۶۰، ۴ / ۲۱۴)
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن اور انسان کے گروہ! تم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی نعمت کا انکار کس طرح کر سکتے ہو حالانکہ اس نے تمہاری نیکی کا ثواب جنت رکھی اور اسے تمہارے سامنے بیان کر دیا تاکہ تم نیک اعمال کر کے اللہ تعالیٰ کے ثواب اور اس کے احسان کو پا لو۔( تفسیر سمرقندی، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۶۱، ۳ / ۳۱۱)
وَ مِنْ دُوْنِهِمَا جَنَّتٰنِ(62)فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ(63)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ان کے علاوہ دو جنتیں (اور) ہیں ۔توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مِنْ دُوْنِهِمَا جَنَّتٰنِ: اور ان کے سوا دو جنتیں اور ہیں ۔} یعنی جن دو جنتوں کا ذکر اوپر گزرا ان کے علاوہ دو جنتیں اور بھی ہیں مگر یہ دونوں ان پہلی جنتوں سے مرتبے ، مقام اور فضیلت میں کم ہیں ۔( روح البیان، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۶۲، ۹ / ۳۱۰، ملخصاً)
حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’دو جنتیں تو ایسی ہیں جن کے برتن اور سامان چاندی کے ہیں اور دو جنتیں ایسی ہیں کہ جن کے برتن اور سامان سونے کے ہیں ۔( بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ الرحمٰن، باب ومن دونہما جنّتان، ۳ / ۳۴۴، الحدیث: ۴۸۷۸)
امام ضحاک رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰیعَلَیْہفرماتے ہیں ’’پہلی دو جنتیں سونے اور چاندی کی اور دُوسری دو جنتیں یاقوت اور زَبَرجَد کی ہیں ۔( خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۶۲، ۴ / ۲۱۵)
جن جنتوں کا اس آیت میں بیان ہواان کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ یہ دائیں جانب والوں کے لئے ہیں کیونکہ ان کا مرتبہ ان لوگوں سے کم ہے جو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کھڑے ہونے سے ڈرتے ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ یہ دونوں جنتیں بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کھڑے ہونے سے ڈرنے والوں کے لئے ہیں ۔( صاوی، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۶۲، ۶ / ۲۰۸۴)
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن و انسان کے گروہ! اللہ تعالیٰ نے پہلے متقی لوگوں کے لئے دو جنتوں کا ذکر فرمایا اور اب ان کی فضیلت و کرامت میں اضافہ کرتے ہوئے دو اور جنتوں کا ذکر فرمایا تو تم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے فضل و کرامت کا انکار کس طرح کر سکتے ہو۔( تفسیر سمرقندی، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۶۳، ۳ / ۳۱۱)
مُدْهَآ مَّتٰنِ(64)فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ(65)
ترجمہ: کنزالعرفان
وہ دونوں جنتیں نہایت سبز درختوں کی وجہ سے سیاہی کی جھلک دے رہی ہیں ۔ توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
تفسیر: صراط الجنان
{مُدْهَآ مَّتٰنِ: وہ دونوں جنتیں نہایت سبز درختوں کی وجہ سے سیاہی کی جھلک دے رہی ہیں ۔} اس آیت میں ان جنتوں کا وصف بیان کیا گیا ہے کہ ان کے درختوں کے پتے اتنے سبز ہیں کہ وہ سیاہی کی جھلک دے رہے ہیں۔
سبز رنگ کافائدہ:
یہ انتہائی خوشنما رنگ ہے اور نورِ نظر کے لئے بہت مفید ہے۔حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’سبز رنگ کی طرف دیکھنے سے بصارت میں اضافہ ہوتا ہے۔( مسند الشہاب، الباب الاول، النظر الی الخضرۃ یزید فی البصر۔۔۔ الخ، ۱ / ۱۹۳، الحدیث: ۲۸۹)
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن اور انسانوں کے گروہ! اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے سبز جنتیں بنائیں کیونکہ سبز رنگ کی طرف دیکھنے سے بصارت میں اضافہ ہوتا ہے تو تم ا س کی وحدانیّت کا انکار کس طرح کر سکتے ہو۔( تفسیر سمرقندی، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۶۵، ۳ / ۳۱۱)
فِیْهِمَا عَیْنٰنِ نَضَّاخَتٰنِ(66)فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ(67)
ترجمہ: کنزالعرفان
ان میں دو چھلکتے ہوئے چشمے ہیں ۔ توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
تفسیر: صراط الجنان
{فِیْهِمَا عَیْنٰنِ نَضَّاخَتٰنِ: ان میں دو چھلکتے ہوئے چشمے ہیں ۔} یعنی ان دونوں جنتوں میں پانی کے چھلکتے ہوئے دو چشمے ہیں جن کا پانی ٹوٹتا نہیں ۔
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ان دونوں جنتوں میں اہلِ جنت پر خیرو برکت کے ساتھ پانی کے دو چھلکتے ہوئے چشمے ہیں۔
اورحضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ان دونوں جنتوں میں اللہ تعالیٰ کے پیاروں پر مشک اور کافور (کی خوشبو) کے ساتھ پانی کے دو چھلکتے ہوئے چشمے ہیں ۔
اورحضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’اہلِ جنت کے گھروں میں مشک اور عنبر (کی خوشبو) کے ساتھ پانی کے دوچھلکتے ہوئے چشمے ہیں ۔( خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۶۶، ۴ / ۲۱۵)
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن اور انسان کے گروہ! تم میں سے نیک اعمال کرنے والوں کو ایسا عظیم ثواب عطا کر کے اللہ تعالیٰ نے تم پر انعام کیا توتم دونوں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟( تفسیر طبری، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۶۷، ۱۱ / ۶۱۳)
فِیْهِمَا فَاكِهَةٌ وَّ نَخْلٌ وَّ رُمَّانٌ(68)فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ(69)
ترجمہ: کنزالعرفان
ان جنتوں میں میوے اور کھجوریں اور انار ہیں ۔ توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
تفسیر: صراط الجنان
{وَ نَخْلٌ وَّ رُمَّانٌ: اور کھجوریں اور انار۔} یعنی جنتوں میں ہر طرح کے میوے ہوں گے۔کھجورا ور انار اگرچہ میوے میں داخل ہے لیکن ان کی فضیلت اور شرف کی وجہ سے انہیں خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے۔( خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۶۸، ۴ / ۲۱۵)
کھجور اور انار کے فضائل:
یہاں آیت میں کھجور اورا نار کا بطورِ خاص ذکر کیا گیا ،اسی مناسبت سے ہم یہاں کھجور اور انار کے چند فضائل بیان کرتے ہیں ،چنانچہ
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ درختوں میں سے ایک ایسا بھی ہے جس کے پتے نہیں گرتے اور اس کی مثال ایک مسلمان جیسی ہے،مجھے بتاؤ وہ کونسا ہے؟لوگ جنگل کے درختوں کے بارے میں سوچنے لگے اور مجھے خیال آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے لیکن مجھے (بولنے سے) شرم آئی (کیونکہ اس وقت بڑے بڑے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ موجود تھے) پھر لوگ عرض گزار ہوئے کہ یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ خود بتادیجئے کہ وہ کونسا درخت ہے؟ارشاد فرمایا:وہ کھجور کا درخت ہے۔( بخاری، کتاب العلم، باب قول المحدّث: حدّثنا او اخبرنا۔۔۔ الخ، ۱ / ۳۷، الحدیث: ۶۱)
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں ،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اے عائشہ! رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا، جس گھر میں کھجوریں نہ ہوں وہ لوگ بھوکے ہیں ،اے عائشہ! رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا، جس گھر میں کھجوریں نہ ہوں وہ لوگ بھوکے ہیں ،آپ نے یہ کلمات دو یاتین بار ارشاد فرمائے۔( مسلم، کتاب الاشربۃ، باب فی ادخال التمر ونحوہ من الاقوات للعیال، ص۱۱۳۱، الحدیث: ۱۵۳(۲۰۴۶))
مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا’’مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ زمین میں ایسا کوئی انار نہیں جس کے دانوں میں جنتی انار کے دانوں سے پیوندکاری نہ کی گئی ہو۔( معجم ا لکبیر، ومن مناقب عبد اللّٰہ بن عباس واخبارہ، ۱۰ / ۲۶۳، الحدیث: ۱۰۶۱۱)
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن اور انسان کے گروہ! اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ایسے پھل پیدا کئے جنہیں کھانے سے تمہیں لذت حاصل ہوتی ہے توتم دونوں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟( روح البیان، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۶۹، ۹ / ۳۱۲، ملخصاً)
فِیْهِنَّ خَیْرٰتٌ حِسَانٌ(70)فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ(71)
ترجمہ: کنزالعرفان
ان میں اچھے اخلاق والی، حسین شکل والی عورتیں ہیں ۔ توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
تفسیر: صراط الجنان
{فِیْهِنَّ: ان میں عورتیں ہیں ۔} یعنی ان دونوں جنتوں میں اخلاق کے اعتبار سے اچھی اورصورت کے اعتبار سے حسین و جمیل عورتیں ہیں ۔ (جلالین، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۷۰، ص۴۴۵)
حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’جنت میں حورِ عِین یہ نغمہ گائیں گی ’’نَحْنُ الْخَیْرَاتُ الْحِسَانُ حُبِسْنَا لِاَزْوَاجٍ کِرَامٍ‘‘ ہم اچھی سیرت اور اچھی صورت والیاں ہیں ،ہم معزز و محترم شوہروں کے لئے روکی گئی ہیں ۔( مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الجنّۃ، ما ذکر فی الجنّۃ وما فیہا ممّا اعدّ لاہلہا، ۸ / ۷۲، الحدیث: ۳۵)
اچھی عادت اچھی صورت سے افضل ہے:
یہاں اَخلاقی اچھائی کو اللہ تعالیٰ نے پہلے ذکر کیا ، اس سے معلوم ہوا کہ اچھی عادت اچھی صورت سے افضل ہے، لہٰذا نکاح کے لئے کسی عورت کا رشتہ دیکھتے وقت اس کے حسن وجمال کے مقابلے میں اس کی اچھی سیرت ،اس کے اچھے کردار،اس کی دینداری اور اس کی اچھی عادات کو زیادہ ترجیح دینی چاہئے۔اَحادیث میں بھی اسی چیز کی ترغیب دی گئی ہے ، چنانچہ ا س سے متعلق تین اَحادیث ملاحظہ ہوں ۔
(1)… حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے تھے کہ تقوے کے بعد مومن کے لیے نیک بیوی سے بہتر کوئی چیز نہیں ۔ اگر وہ اسے حکم کرتا ہے تو وہ اطاعت کرتی ہے اور اسے دیکھے تو وہ خوش کر دیتی ہے اور اس پر قسم کھا بیٹھے تو قسم سچی کر دیتی ہے اور اگر کہیں کو چلا جائے تو اپنے نفس اور شوہر کے مال میں بھلائی کرتی ہے (یعنی اس میں خیانت نہیں کرتی اور نہ ہی اسے ضائع کرتی ہے)۔( ابن ماجہ، کتاب النکاح، باب افضل النساء، ۲ / ۴۱۴، الحدیث: ۱۸۵۷)
(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’عورت سے نکاح چار باتوں کی وجہ سے کیا جاتا ہے (یعنی نکاح میں ان چار باتوں کا لحاظ ہوتا ہے) (1)مال (2)حسب نسب (3)حسن وجمال اور(4)دین ۔اور تم دین والی کو ترجیح دو۔( بخاری، کتاب النکاح، باب الاکفّاء فی الدِّین، ۳ / ۴۲۹، الحدیث: ۵۰۹۰)
(3)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جو کسی عورت سے اس کی عزت کی وجہ سے نکاح کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کی ذلت میں اضافہ کرے گا اور جو کسی عورت سے اس کے مال کے سبب نکاح کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کی محتاجی ہی بڑھائے گا اور جو کسی عورت سے اس کے حسب کی بنا پرنکاح کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے کمینہ پن میں اضافہ فرمائے گا اور جو اس لیے نکاح کرے کہ اِدھر اُدھر نگاہ نہ اُٹھے اور پاک دامنی حاصل ہو یا صِلۂ رحم کرے تو اللہ تعالیٰ اس مرد کے لیے اس عورت میں برکت دے گا اور عورت کے لیے مرد میں برکت دے گا۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: ابراہیم، ۲ / ۱۸، الحدیث: ۲۳۴۲)
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن اور انسان کے گروہ! اللہ تعالیٰ نے تمہارے سامنے جنّتی عورتوں کے اوصاف بیان کر کے تم پر انعام فرمایا توتم دونوں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟( روح البیان، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۷۱، ۹ / ۳۱۳، ملخصاً)
حُوْرٌ مَّقْصُوْرٰتٌ فِی الْخِیَامِ(72)فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ(73)
ترجمہ: کنزالعرفان
خیموں میں پردہ نشین حوریں ہیں ۔ توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
تفسیر: صراط الجنان
{حُوْرٌ: حوریں ۔} ارشاد فرمایا کہ ان جنتوں میں خیموں میں پردہ نشین حوریں ہیں جو کہ اپنی شرافت اور کرامت کی وجہ سے ان خیموں سے باہر نہیں نکلتیں ۔ (خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۷۲، ۴ / ۲۱۵)
جنتی حور اور ا س کے خیموں کا حال:
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اگر جنتی عورتوں میں سے زمین کی طرف کسی ایک کی جھلک پڑجائے تو آسمان وزمین کے درمیان کی تمام فضا روشن ہوجائے اور خوشبو سے بھر جائے۔( بخاری، کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنّۃ والنار، ۴ / ۲۶۴، الحدیث: ۶۵۶۸)
اورحضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’مؤمن کے لئے جنت میں ایک کھوکْھلے موتی کا خیمہ ہو گا، اس کی لمبائی 60میل ہو گی، مؤمن کے ا ہل ِخانہ بھی اس میں رہیں گے ،مؤمن ان کے پاس (حقِ زوجیّت ادا کرنے کے لئے) چکر لگائے گا اور ان میں سے بعض بعض کو نہیں دیکھ سکیں گے۔( مسلم،کتاب الجنّۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا،باب فی صفۃ خیام الجنّۃ وما للمؤمنین فیہا من الاہلین،ص۱۵۲۲،الحدیث: ۲۳(۲۸۳۸))
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن اور انسان کے گروہ! اللہ تعالیٰ نے وہ نعمتیں پیدافرمائیں جو تمہارے لئے پردہ نشین اور (دوسروں سے) چھپی ہوئی ہیں توتم دونوں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟( روح البیان، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۷۳، ۹ / ۳۱۳)
لَمْ یَطْمِثْهُنَّ اِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَ لَا جَآنٌّ(74)فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ(75)
ترجمہ: کنزالعرفان
ان کے شوہروں سے پہلے انہیں نہ کسی آدمی نے چھوا اور نہ کسی جن نے۔توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
تفسیر: صراط الجنان
{لَمْ یَطْمِثْهُنَّ اِنْسٌ قَبْلَهُمْ: ان کے شوہروں سے پہلے انہیں نہ کسی آدمی نے چھوا۔} یعنی جیسے اُن دوجنتوں کی حوریں اپنے جنتی شوہروں کے علاوہ جن و اِنس کے چھونے سے محفوظ تھیں ایسے ہی اِن دونوں جنتوں کی حوریں بھی محفوظ ہیں ،لہٰذاآیت میں تکرار نہیں ۔
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن اور انسان کے گروہ! اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے جنت میں وہ نعمتیں تیار کیں جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا اور نہ ہی کسی انسان کے دل پر ان کا خیال گزرا توتم دونوں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی ان نعمتوں کو جھٹلاؤگے یا ان کے علاوہ دوسری نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔( جمل، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۷۵، ۷ / ۳۸۲)
مُتَّكِـٕیْنَ عَلٰى رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَّ عَبْقَرِیٍّ حِسَانٍ(76)فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ(77)
ترجمہ: کنزالعرفان
۔ (جنتی) سبزقالینوں اور انتہائی خوبصورت بچھونوں پرتکیہ لگائے ہوئے ہوں گے۔ توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
تفسیر: صراط الجنان
{مُتَّكِـٕیْنَ: تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے۔} اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرنے والوں کو جو دو جنتیں عطا ہوں گی ان کے جنتی بچھونوں کا ظاہری حال بیان نہیں کیا گیا جیساکہ آیت نمبر54میں گزرا ،کیونکہ ان بچھونوں کی شان بہت بلند ہے اور ان کا ظاہری حال عقل اور فہم کے اِدراک سے باہر ہے جبکہ دوسری دو جنتوں میں اہلِ جنت کو جو بچھونے عطا ہوں گے ان کا ظاہری حال یہاں بیان کر دیاگیا کہ وہ سبز اور مُنَقّش ہوں گے ،اس سے ان بچھونوں میں فرق صاف ظاہر ہو رہا ہے۔( روح البیان، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۷۶، ۹ / ۳۱۵، ملخصاً)
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن اور انسان کے گروہ! تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کے علاوہ تم پر کوئی احسان فرمانے والا نہیں ،توتم دونوں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟( جمل، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۷۷، ۷ / ۳۸۳)
تَبٰرَكَ اسْمُ رَبِّكَ ذِی الْجَلٰلِ وَ الْاِكْرَامِ(78)
ترجمہ: کنزالعرفان
تمہارے رب کا نام بڑی برکت والا ہے جو عظمت اور بزرگی والاہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{تَبٰرَكَ اسْمُ رَبِّكَ: تمہارے رب کا نام بڑی برکت والا ہے۔} اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی باقی رہے گی اور دنیا کی تمام نعمتیں فانی ہیں ۔نیزاللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت و بزرگی بیان فرما کر آخرت کی نعمتوں کے بیان کا اختتام فرمایا۔( خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۷۸، ۴ / ۲۱۶)
نماز کے بعد پڑھی جانے والی ایک دعا:
حضرت ثوبان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نماز سے فارغ ہونے کے بعد تین بار اِستغفار کرتے اور فرماتے’’اَللّٰہمَّ اَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْکَ السَّلَامُ تَبَارَکْتَ ذَا الْجَلَالِ وَالْاِکْرَامْ‘‘ یعنی اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، تو سلام ہے اور تجھ سے سلامتی ہے اور تو برکت والا ہے (اے) جلالت اور بزرگی والے۔( مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ و بیان صفتہ ، ص ۲۹۷ ، الحدیث: ۱۳۵ (۵۹۱))