سُوْرَۃ الرُّوم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
ترجمہ: کنزالعرفان
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ، رحمت والاہے ۔
تفسیر: صراط الجنان
{ بِسْمِ اللّٰهِ: اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔(کنز العمال، کتاب الاذکار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول، الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔
{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)
’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:
علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :
(1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام جو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔
الٓمّٓ(1)غُلِبَتِ الرُّوْمُ(2)
ترجمہ: کنزالعرفان
الم۔ رومی مغلوب ہوگئے۔
صراط الجنان تفسیر
{الٓمّٓ} یہ حروفِ مُقَطَّعات میں سے ایک حرف ہے ،اس کی مراد اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔
{غُلِبَتْ: مغلوب ہوگئے۔} شانِ نزول :ایران اور روم کے درمیان جنگ جاری تھی اورچونکہ ایران کے رہنے والے مجوسی تھے، اس لئے عرب کے مشرکین اُن کا غلبہ پسند کرتے تھے جبکہ رومی اہلِ کتاب تھے، اس لئے مسلمانوں کو اُن کا غلبہ اچھا معلوم ہوتا تھا۔ایک مرتبہ ایران کے بادشاہ خسرو پرویز نے رومیوں سے جنگ کرنے کے لئے اپنا لشکر بھیجا تو رو م کے بادشاہ قیصر نے بھی ا س کے مقابلے کے لئے اپنا لشکر بھیج دیا۔شام کی سرزمین کے قریب جب ان لشکروں کا آپس میں مقابلہ ہواتو ایرانی لشکر رومی فوجیوں پر غالب آ گیا اور انہیں شکست دے دی۔ مسلمانوں نے جب یہ خبر سنی تو انہیں بہت گراں گزری جبکہ کفار ِمکہ اس سے خوش ہو کر مسلمانوں سے کہنے لگے کہ تم بھی اہلِ کتاب ہو اور عیسائی بھی اہلِ کتاب ہیں اور ہم بھی اُمّی ہیں اور فارس والے بھی اُمّی ، ہمارے بھائی یعنی فارس والے تمہارے بھائیوں یعنی رومیوں پر غالب آگئے ہیں اورجب ہماری تمہاری جنگ ہوگی تو ہم بھی تم پر غالب آ جائیں گے۔ اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں اور اِن میں خبر دی گئی کہ چند سال میں پھر رومی فارس والوں پر غالب آجائیں گے اور یہ غیبی خبرسیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت صحیح ہونے اور قرآنِ کریم کے اللہ تعالیٰ کا کلام ہونے کی روشن دلیل ہے۔
حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا یقین:
جب یہ آیتیں نازل ہوئیں تو انہیں سن کر حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے کفارِ مکہ میں جا کر اعلان کر دیا کہ اے مکہ والو! تم اس وقت کی جنگ کے نتیجے سے خوش مت ہو ،ہمیں ہمارے نبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے رومیوں کے غلبے کی خبر دے دی ہے، خدا کی قسم! رومی ضرور فارس والوں پر غلبہ پائیں گے۔ اُبی بن خلف کافر یہ سن کر آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے سامنے کھڑا ہوگیا ،پھر اس کے اور آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے درمیان سو سو اونٹ کی شرط لگ گئی کہ اگر نو سال میں رومی فارس والوں پر غالب نہ آئے تو حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اُبی بن خلف کو سو اونٹ دیں گے اور اگر رومی غالب آجائیں تو اُبی بن خلف حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو سو اونٹ دے گا۔ جب یہ شرط لگی اس وقت تک جوئے کی حرمت نازل نہ ہوئی تھی۔سات سال کے بعد اس خبر کی سچائی ظاہر ہوئی اور صلحِ حُدَیْبِیَہ یا جنگ ِ بدر کے دن رومی فارس والوں پر غالب آگئے ، رومیوں نے مدائن میں اپنے گھوڑے باندھے اور عراق میں رومیہ نامی ایک شہر کی بنیاد رکھی ۔ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے شرط کے اُونٹ اُبی بن خلف کی اولاد سے وصول کرلئے کیونکہ وہ اس عرصے میں مرچکا تھا اورسرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو حکم دیا کہ شرط کے مال کو صدقہ کردیں ۔( خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۴۵۷–۴۵۸، مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۴، ص۹۰۱، ملتقطاً)
حَربی کفار کے ساتھ خرید و فروخت سے متعلق ایک مسئلہ:
اما م اعظم ابوحنیفہ اورامام محمدرَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمَاکے نزدیک حَربی کفار کے ساتھ عقودِ فاسدہ و غیرہ جائز ہیں اور حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا شرط لگانے والا واقعہ ان کی دلیل ہے ۔یاد رہے کہ اس مسئلے کی کچھ تفصیلات ہیں اس لئے عوامُ النّاس کو چاہئے کہ علمائے کرام سے اس مسئلے کی تفصیل معلوم کئے بغیر از خود اس پر عمل نہ کریں ۔
فِیْۤ اَدْنَى الْاَرْضِ وَ هُمْ مِّنْۢ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَیَغْلِبُوْنَ(3)فِیْ بِضْعِ سِنِیْنَ۬ؕ-لِلّٰهِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَ مِنْۢ بَعْدُؕ-وَ یَوْمَىٕذٍ یَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ(4)بِنَصْرِ اللّٰهِؕ-یَنْصُرُ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ(5)
ترجمہ: کنزالعرفان
قریب کی زمین میں اور وہ اپنی شکست کے بعد عنقریب غالب آجائیں گے۔ چند سالوں میں ۔ پہلے اور بعدحکم الله ہی کا ہے اور اس دن ایمان والے خوش ہوں گے۔ الله کی مدد سے۔وہ جس کی چاہے مدد کرتا ہے اور وہی غالب، مہربان ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فِیْۤ اَدْنَى الْاَرْضِ: قریب کی زمین میں ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کے ابتدائی حصے کا خلاصہ یہ ہے کہ شام کی اس سرزمین میں رومی مغلوب ہوگئے جو فارس سے قریب تر ہے اور رومی اپنی شکست کے بعد عنقریب چند سالوں میں ایرانیوں پرغالب آجائیں گے جن کی حد 9 سال ہے۔مشہور روایت کے مطابق رومیوں کے مغلوب ہونے کے سات سال بعد ہی رومی ایرانیوں پر غالب آ گئے تھے ۔( خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۳–۴، ۳ / ۴۵۸، تفسیر قرطبی، الروم، تحت الآیۃ: ۴، ۷ / ۴، الجزء الرابع عشر، ملتقطاً)
رومیوں کے غالب آنے کی مدت مُبْہَم رکھنے کی حکمت:
یہاں آیت میں رومیوں کے غالب آنے کی مُعَیَّن مدت ذکرنہیں کی گئی،اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’آیت میں رومیوں کے غالب آنے کی مدت کو ا س لئے مُبْہَم رکھا گیا تاکہ کفار ہر وقت رعب میں رہیں اور ان کے دلوں میں خوف بیٹھا رہے۔( صاوی، الروم، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۱۵۷۵)
حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو رومیوں کے غالب آنے کی مدت معلوم تھی:
یاد رہے کہ آیت میں رومیوں کے غالب آنے کی مُعَیَّن مدت ذکر نہ کرنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بھی اس مدت کا علم نہیں دیاگیا تھا ، آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو وہ مدت بتا دی گئی تھی البتہ اسے ظاہر کرنے کی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے آپ نے اسے ظاہر نہیں فرمایا تھا، جیسا کہ امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’ اللہ تعالیٰ نے رومیوں کے غالب آنے کا سال، مہینہ، دن اور وقت بھی اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بتا دیا تھا البتہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس کے اظہار کی اجازت نہ تھی۔( تفسیرکبیر، الروم، تحت الآیۃ: ۴، ۹ / ۸۰)
{لِلّٰهِ الْاَمْرُ: اللہ ہی کا حکم ہے۔} یعنی رومیوں کے غلبہ سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی اللہ تعالیٰ ہی کا حکم چل رہا ہے۔
مراد یہ ہے کہ پہلے فارس والوں کا غلبہ ہونا اور دوبارہ رومیوں کا غالب ہوجانا یہ سب اللہ تعالیٰ کے حکم ،ارادے اوراس کی قضا و قدر سے ہے کیونکہ جنگ میں جو مغلوب ہو جائے تو وہ کمزور ہو جاتا ہے اور کمزوری کے بعد دوبارہ غالب آجانا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا غلبہ اس کی اپنی طاقت و قوت کے بل بوتے پر نہیں کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو وہ پہلی بار ہی مغلوب نہ ہوتا ۔( خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۴، ۳ / ۴۵۸، صاوی، الروم، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۱۵۷۵، ملتقطاً)
{وَ یَوْمَىٕذٍ یَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ: اور اس دن ایمان والے خوش ہوں گے۔} آیت کے اس حصے اور اس کے بعد والی آیت کے ابتدائی حصے کا خلاصہ یہ ہے کہ جب رومی ایرانیوں پر غالب آئیں گے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے غلبے کا جو وعدہ فرمایا ہے وہ پورا ہو گا تو اس دن ایمان والے اللہ تعالیٰ کی مدد سے خوش ہوں گے کہ اُس نے کتابیوں کو غیر کتابیوں پر غلبہ دیا۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے مراد یہ ہے کہ مسلمانوں نے کفار کو رومیوں کے غالب آنے کی جو خبر دی تھی وہ سچی ثابت ہوئی ۔ چنانچہ ایک روایت کے مطابق جب بدر کے دن مسلمان مشرکوں پر غالب ہوئے تو انہیں خوشی ہوئی اور اسی دن رومیوں کے غالب آنے کی خبر ملنے پر بھی مسلمان خوش ہوئے،اور ایک روایت کے مطابق صلحِ حُدَیْبِیَہ کے موقع پر رومی ایرانیوں پر غالب آئے اور بیعت ِرضوان کے دن جب مسلمانوں کو اس کی خبر ملی تو وہ خوش ہوئے۔( مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۴–۵، ص۹۰۲، خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۴–۵، ۳ / ۴۵۸–۴۵۹، تفسیر قرطبی، الروم، تحت الآیۃ: ۳، ۷ / ۶، الجزء الرابع عشر، ملتقطاً)
وَعْدَ اللّٰهِؕ-لَا یُخْلِفُ اللّٰهُ وَعْدَهٗ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ(6)یَعْلَمُوْنَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ۚۖ-وَ هُمْ عَنِ الْاٰخِرَةِ هُمْ غٰفِلُوْنَ(7)
ترجمہ: کنزالعرفان
الله کا وعدہ ہے۔ الله اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ۔ آنکھوں کے سامنے کی دنیوی زندگی کو جانتے ہیں اور وہ آخرت سے بالکل غافل ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَعْدَ اللّٰهِ: اللہ کا وعدہ۔} یعنی اللہ تعالیٰ نے رومیوں کے فارس والوں پر غالب آنے کا وعدہ فرمایاہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی شان یہ ہے کہ وہ ا پنے کسی وعدے کے خلاف نہیں کرتا کیونکہ اس کا کلام سچا ہے اور اس کا جھوٹ بولنا قطعی طور پر محال ہے، لیکن اکثر کفار اپنی جہالت کی وجہ سے ا س بات سے بے علم ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ پورا فرماتا ہے۔( خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۶، ۳ / ۴۵۹، تفسیر قرطبی، الروم، تحت الآیۃ: ۶، ۷ / ۷، الجزء الرابع عشر، روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۶، ۷ / ۷، ملتقطاً)
{یَعْلَمُوْنَ: جانتے ہیں ۔} اس آیت میں کفارکے علم کی حد بیان کی گئی کہ وہ لوگ بس اپنے معاشی معاملات کے بارے جانتے ہیں کہ کیسے کام کئے جائیں ، کس طرح تجارت کی جائے اور کس وقت باغبانی اور کاشتکاری کی جائے اور کب کٹائی کی جائے، جبکہ وہ اپنی آخرت سے بالکل غافل ہیں ،نہ اس میں کوئی غوروفکر کرتے ہیں اور نہ ہی اس کے بارے میں معلومات رکھتے ہیں ۔( خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۷، ۳ / ۴۵۹)
موجودہ دور میں مسلمانوں کی علمی اور عملی حالت:
اس آیت میں کفار کی جو علمی اور عملی حالت بیان کی گئی ا سے سامنے رکھتے ہوئے غور کیا جائے تو فی زمانہ عمومی طور پر مسلمانوں کی علمی اور عملی حالت بھی ایسی ہی نظر آتی ہے کہ یہ مال کمانے کے نت نئے طریقے اور ذرائع تو بہت اچھی طرح جانتے ہیں اور اس میں جائز ناجائز کی بھی پرواہ نہیں کرتے جبکہ اپنی آخرت کے معاملے میں انتہائی غفلت کا شکار نظر آتے ہیں ،اپنی موت،قبر اور حشر کے معاملات کے بارے میں غورو فکر نہیں کرتے اور عقائد، عبادات اور معاملات میں سے جن چیزوں کا سیکھنا فرض ہے اس کی معلومات نہیں رکھتے۔یہ تو عام مسلمانوں کا حال ہے جبکہ خواص میں شمار کئے جانے والوں میں سے اکثر کا حال بھی کچھ کم افسوس ناک نہیں ، علماء کہلانے والوں کی بڑی تعداد حقیقت میں عالِم ہی نہیں اور پیر کہلانے والوں کی بڑی تعداد خود محتاجِ تربیت ہے اور یہ دونوں قسم کے حضرات عوام کو تعلیم و تربیت دینے کی بجائے جہالت و جرأت دے رہے ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو عقل ِسلیم عطا فرمائے اور انہیں اپنا اصلی مقصد سمجھنے اور اپنی علمی وعملی حالت سدھارنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اَوَ لَمْ یَتَفَكَّرُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ- مَا خَلَقَ اللّٰهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَاۤ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ اَجَلٍ مُّسَمًّىؕ-وَ اِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ بِلِقَآئِ رَبِّهِمْ لَكٰفِرُوْنَ(8)
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا انہوں نے اپنے دلوں میں غوروفکر نہیں کیا کہ الله نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کو حق اور ایک مقررہ مدت کے ساتھ پیدا کیااور بیشک بہت سے لوگ اپنے رب سے ملنے کے منکر ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَوَ لَمْ یَتَفَكَّرُوْا: کیا انہوں نے غورو فکر نہیں کیا۔} اس سے پہلی آیات میں کفار کے حوالے سے بیان ہوا کہ وہ اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن کے منکر ہیں اور اب یہاں سے وہ اسباب بیان کئے جا ر ہے ہیں جن سے بندہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کی طرف راغب ہو سکتا ہے اور اسے آخرت کے بارے میں علم بھی مل سکتا ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ کفارِ مکہ کی نظر صرف دُنْیَوی زندگی کی زیب و زینت پر ہے اور وہ اپنے دلوں میں غور و فکر نہیں کرتے،اگر وہ ایسا کرتے تو جان لیتے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان،زمین اور جو مخلوقات ان کے درمیان ہے،ان سب کو بیکار اور باطل نہیں بنایا بلکہ ان میں بے شمار حکمتیں رکھی ہیں تاکہ لوگ ان میں غور و فکر کر کے انہیں بنانے والے کے وجود اور ا س کی وحدانیَّت پر اِستدلال کریں اور اس کی قدرت و صفات کو پہچانیں اور اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کو ہمیشہ کے لئے نہیں بنایا بلکہ ان کے لئے ایک مدت مُعَیَّن کر دی ہے اور جب وہ مدت پوری ہوجائے گی تو یہ چیزیں فنا ہو جائیں گی اور وہ مدت قیامت قائم ہونے کا وقت ہے۔بیشک بہت سے لوگ آخرت سے غافل ہونے اور آخرت کی معرفت دلانے والی چیزوں میں غور وفکر نہ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اعمال کے حساب،ان کی جزا اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کے منکر ہیں ۔( روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۸، ۷ / ۹–۱۰، مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۸، ص۹۰۲–۹۰۳، ملتقطاً)
اَوَ لَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْؕ-كَانُوْۤا اَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَّ اَثَارُوا الْاَرْضَ وَ عَمَرُوْهَاۤ اَكْثَرَ مِمَّا عَمَرُوْهَا وَ جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِؕ-فَمَا كَانَ اللّٰهُ لِیَظْلِمَهُمْ وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَﭤ(9)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور کیا انہوں نے زمین میں سفر نہ کیا کہ دیکھتے کہ ان سے پہلے لوگوں کا انجام کیسا ہوا؟وہ ان سے زیادہ طاقتور تھے اور انہوں نے زمین میں ہل چلائے اوراُنہوں نے زمین کواُس سے زیادہ آباد کیا جتنا اِنہوں نے آباد کیاہے اور اُن کے رسول اُن کے پاس روشن نشانیاں لائے تو الله کی یہ شان نہ تھی کہ ان پر ظلم کرتاہاں وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَوَ لَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ: اور کیا انہوں نے زمین میں سفر نہ کیا۔} یعنی کیا اللہ تعالیٰ کو جھٹلانے والے اور آخرت سے غافل کفار نے زمین میں سفر نہیں کیا تاکہ وہ دیکھ لیتے کہ ان سے پہلے رسولوں کو جھٹلانے والے لوگوں کا انجام کیا ہوا، رسولوں کو جھٹلانے کی وجہ سے انہیں ہلاک کر دیا گیا اور اب ان کے اجڑے ہوئے دیار اور ان کی ہلاکت وبر بادی کے آثار، عبرت کاسامان ہیں ۔ان قوموں کا حال یہ تھا کہ وہ لوگ اہل ِمکہ سے زیادہ طاقتور تھے اور انہوں نے زمین میں ہل چلائے اور زمین کواُس سے زیادہ آباد کیا جتنا اِن اہلِ مکہ نے آباد کیاہے، لیکن جب اُن کے رسول اُن کے پاس روشن نشانیاں لے کر آئے تو وہ اُن پر ایمان نہ لائے،اس کی وجہ سے ان کا انجام یہ ہو ا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ہلاک کردیا اور اللہ تعالیٰ کی یہ شان نہ تھی کہ وہ ان کے حقوق کم کرکے اور انہیں جرم کے بغیر ہلاک کرکے ان پر ظلم کرتا، ہاں رسولوں کی تکذیب کرنے کی وجہ سے اپنے آپ کو عذاب کا مستحق بنا کروہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔(تفسیر طبری، الروم، تحت الآیۃ: ۹، ۱۰ / ۱۷۰، جلالین، الروم، تحت الآیۃ: ۹، ص۳۴۱، خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۹، ۳ / ۴۵۹، ملتقطاً)
ثُمَّ كَانَ عَاقِبَةَ الَّذِیْنَ اَسَآءُوا السُّوْٓ اٰۤى اَنْ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ كَانُوْا بِهَا یَسْتَهْزِءُوْنَ(10)
ترجمہ: کنزالعرفان
پھربرائی کرنے والوں کا انجام سب سے برا ہوا کیونکہ انہوں نے الله کی آیتوں کو جھٹلایا اور وہ ان آیتوں کا مذاق اڑاتے تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ثُمَّ كَانَ عَاقِبَةَ الَّذِیْنَ اَسَآءُوا السُّوْٓ اٰى: پھربرائی کرنے والوں کا انجام سب سے برا ہوا۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ گناہوں کااِرتکاب کرتے رہنے والوں کا انجام یہ ہو اکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی،حتّٰی کہ برے اعمال کی وجہ سے وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کو جھٹلانے لگے اور ان آیتوں کا مذاق اڑانے لگ گئے ۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے برے اعمال کئے (یعنی کفر کیا تو) ان کا انجام سب سے برا ہوا کہ دنیا میں انہیں (عذاب نازل کر کے) ہلاک کر دیا گیا اور آخرت میں ان کے لئے جہنم ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے رسولوں پر نازل ہونے والی آیتوں کو جھٹلایا اور وہ ان آیتوں کا مذاق اڑاتے تھے۔(بیضاوی، الروم، تحت الآیۃ: ۱۰، ۴ / ۳۲۹، خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۱۰، ۳ / ۴۵۹–۴۶۰، ابوسعود، الروم، تحت الآیۃ: ۱۰، ۴ / ۲۷۱، روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۱۰، ۷ / ۱۱، ملتقطاً)
بد عقیدگی اور گناہوں کا بنیادی سبب:
اس آیت کی پہلی تفسیر سے معلوم ہو اکہ برے اعمال پر اِصرار کی وجہ سے انسان برے عقیدے اختیار کر جاتا ہے۔ لہٰذا ہر ایک کو برے اعمال سے بچنے کی شدید حاجت ہے تاکہ وہ بد عقیدگی سے محفوظ رہے ۔کفر سے بچنے کیلئے گناہوں سے بچنا چاہیے اور گناہوں سے بچنے کیلئے مُشتَبَہ چیزوں سے بچنا چاہیے۔ اس سلسلے میں یہ حدیثِ پاک ملاحظہ کریں ۔ چنانچہ حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’حلال بھی ظاہر ہے اور حرام بھی ظاہر ہے اور ان کے درمیان کچھ مُشتَبَہ چیزیں ہیں جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے، تو جو شُبہات سے بچے گا وہ اپنا دین اور اپنی عزت بچالے گا اورجوشبہات میں پڑے گا وہ حرام میں مبتلا ہو جائے گا ، جس طرح کوئی شخص کسی چراگاہ کی حدود کے گرد چَرائے توقریب ہے کہ وہ جانور ا س چراگاہ میں بھی چر لیں ۔ سنو ہر بادشاہ کی چراگاہ کی ایک حد ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں ۔(مسلم، کتاب المساقاۃ، باب اخذ الحلال وترک الشبہات، ص۸۶۲، الحدیث: ۱۰۷(۱۵۹۹))
اَللّٰهُ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ ثُمَّ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ(11)
ترجمہ: کنزالعرفان
الله پہلے بناتا ہے پھر وہ دوبارہ بنائے گا پھر ا س کی طرف تم پھیرے جاؤ گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَللّٰهُ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ: اللہ پہلے بناتا ہے۔} یعنی اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کو پہلی بار پیدا فرماتا ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک اور مدد گار نہیں ، بلکہ اس نے اکیلے ہی اپنی قدرت ِکاملہ سے مخلوق کو پیدا فرمایا ہے ، پھر وہ اسے فنا اور معدوم کرنے کے بعد (قیامت کے دن) دوبارہ نئے سرے سے اسی طرح درست بنائے گا جیسے پہلی بار بنایا تھا،پھر دوبارہ بننے کے بعدتمام مخلوق اسی کی طرف لوٹائی جائے گی اور سب کو جمع کیا جائے گا تاکہ ان کے درمیان فیصلہ کیا جائے اور اللہ تعالیٰ برائی کرنے والوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دے گا اور نیکی کرنے والوں کو نہایت اچھا صلہ عطا فرمائے گا۔( تفسیر طبری، الروم، تحت الآیۃ: ۱۱، ۱۰ / ۱۷۱)
وَ یَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ یُبْلِسُ الْمُجْرِمُوْنَ(12)وَ لَمْ یَكُنْ لَّهُمْ مِّنْ شُرَكَآىٕهِمْ شُفَعٰٓؤُا وَ كَانُوْا بِشُرَكَآىٕهِمْ كٰفِرِیْنَ(13)وَ یَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ یَوْمَىٕذٍ یَّتَفَرَّقُوْنَ(14)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جس دن قیامت قائم ہو گی مجرم مایوس ہوجائیں گے۔ اور ان کے شریک ان کے سفارشی نہ ہوں گے اور وہ اپنے شریکوں سے منکر ہو جائیں گے۔ اور جس دن قیامت قائم ہو گی اس دن لوگ الگ ہو جائیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ: اور جس دن قیامت قائم ہوگی۔} یہاں سے قیامت کے دن مجرموں کی کیفیت بیان کی جا رہی ہے ۔اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ جس دن قیامت قائم ہو گی تو مجرموں کو کسی نفع اور بھلائی کی امید باقی نہ رہے گی۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ جس دن قیامت قائم ہو گی تو مجرموں کا کلام مُنقَطع ہوجائے گا اور وہ خاموش رہ جائیں گے، کیونکہ اُن کے پاس پیش کرنے کے قابل کوئی حجت نہ ہوگی۔تیسری تفسیر یہ ہے کہ جس دن قیامت قائم ہو گی تو ا س دن مجرم رُسوا ہوں گے۔یاد رہے کہ یہاں آیت میں مجرموں سے مراد مشرکین ہیں ۔( خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۱۲، ۳ / ۴۶۰، روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۱۲، ۷ / ۱۲، جلالین، الروم، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۳۴۱، مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۹۰۳، ملتقطاً)
{وَ لَمْ یَكُنْ لَّهُمْ مِّنْ شُرَكَآىٕهِمْ شُفَعٰٓؤُا: اور ان کے شریک ان کے سفارشی نہ ہوں گے۔} یعنی سفارش کی امید پر مشرکین جن بتوں کو پوجتے تھے وہ قیامت کے دن ان کی سفارش کر کے انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نہ بچائیں گے اور مشرکین اپنے معبودوں سے مایوس ہو کر ان کا انکار کر دیں گے اور ان سے براء ت کا اظہار کریں گے۔( روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۱۳، ۷ / ۱۲، جلالین، الروم، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۳۴۲، ملتقطاً)
{وَ یَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ: اور جس دن قیامت قائم ہو گی۔} ارشاد فرمایا کہ جس دن قیامت قائم ہو گی اس دن مسلمان اور کافر ایک دوسرے سے ایسے الگ الگ ہو جائیں گے کہ آئندہ پھر کبھی جمع نہ ہوں گے اور یہ اس طرح ہو گا کہ حساب کے بعد اہل ِجنت کوجنت میں داخل کر دیا جائے گا اور کفار کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔( جلالین، الروم، تحت الآیۃ: ۱۴، ص۳۴۲، خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۱۴، ۳ / ۴۶۰، ملتقطاً) اس کی مزیدتفصیل اگلی آیات میں ہے۔
فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَهُمْ فِیْ رَوْضَةٍ یُّحْبَرُوْنَ(15)وَ اَمَّا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ لِقَآئِ الْاٰخِرَةِ فَاُولٰٓىٕكَ فِی الْعَذَابِ مُحْضَرُوْنَ(16)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو و ہ جو ایمان لائے اورانہوں نے اچھے کام کئے تو وہ (جنت کے) باغ میں خوش رکھے جائیں گے۔ اور جو کافر ہوئے اور انہوں نے ہماری آیتوں اور آخرت کے ملنے کو جھٹلایا تووہ عذاب میں حاضر کئے جائیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: تو و ہ جو ایمان لائے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں مومن اور کافر کے الگ الگ ہونے کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔اس آیت میں فرمایا گیا کہ جو لوگ ایمان لائے اورانہوں نے اچھے کام کئے توجنت کے باغات میں ان کا اِکرام کیا جائے گا جس سے وہ خوش ہوں گے ۔ایک قول یہ ہے کہ یہ خاطر داری جنتی نعمتوں کے ساتھ ہوگی اور ایک قول یہ بھی ہے کہ خاطر داری سے مراد سَماع ہے کہ انہیں طَرب اَنگیز یعنی شادمانی کے نغمات سنائے جائیں گے جواللہ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی کی تسبیح پر مشتمل ہوں گے۔(مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۹۰۴، خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۱۵، ۳ / ۴۶۰، روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۱۵، ۷ / ۱۳، ملتقطاً)
جنت میں شادمانی کے نغمات کن لوگوں کو سنائے جائیں گے ؟
جولوگ دنیا میں گانے باجے سننے سے بچنے والے اورلَہو لَعب اور آلاتِ موسیقی سے دور رہنے والے ہوں گے توان خوش نصیب حضرات کوجنت میں شادمانی کے نغمات سنائے جائیں گے ، جیساکہ حضرت جابر بن عبد اللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب قیامت کا دن آئے گا تو اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا’’وہ لوگ کہاں ہیں جو اپنے کانوں اور اپنی آنکھوں کو شیطان کے آلاتِ موسیقی سے بچایا کرتے تھے،انہیں الگ کر دو،چنانچہ انہیں مشک اور عنبر کی کتابوں میں الگ کر دیا جائے گا۔پھر اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرمائے گا ’’انہیں میری تسبیح ،تحمید اور تہلیل سناؤ تو وہ فرشتے ایسی آوازوں سے اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کریں گے جیسی سننے والوں نے نہ سنی ہو گی۔( در منثور، الروم، تحت الآیۃ: ۱۵، ۶ / ۴۸۷)
{وَ اَمَّا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا: اور جو کافر ہوئے۔} یعنی جو کافر ہوئے اور انہوں نے ہماری آیتوں اور آخرت کے دن دوبارہ زندہ کئے جانے اور حساب و جزا کا انکار کیا تووہ عذاب میں داخل کر دئیے جائیں گے اور اس عذاب میں نہ تخفیف ہو گی اور نہ ہی وہ اس سے کبھی نکلیں گے ۔( مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۱۶، ص۹۰۴)
فَسُبْحٰنَ اللّٰهِ حِیْنَ تُمْسُوْنَ وَ حِیْنَ تُصْبِحُوْنَ(17)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو الله کی پاکی بیان کرو جب شام کرو اور جب صبح کرو۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَسُبْحٰنَ اللّٰهِ: تو اللہ کی پاکی بیان کرو۔} یعنی اے عقل مندو! جب تم نے نیک اعمال کرنے والے مومنوں کو ملنے والا ثواب اور نعمتیں یونہی جھٹلانے والے کفار کو ہونے والے عذاب کے بارے میں جان لیا تو تم صبح شام ہر ا س چیز سے اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرو جو ا س کی شان کے لائق نہیں ۔یہاں اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرنے سے متعلق مفسرین کا ایک قول یہ بھی ہے کہ ا س سے مراد نماز ادا کرنا ہے۔حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے دریافت کیا گیا کہ کیا پانچ نمازوں کا بیان قرآنِ پاک میں ہے؟آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: ہاں اور یہ آیتیں تلاوت فرمائیں اور فرمایا کہ ان میں پانچوں نمازیں اور اُن کے اوقات مذکور ہیں ۔(روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۱۷، ۷ / ۱۶، مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۹۰۴، خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۱۷، ۳ / ۴۶۰، ملتقطاً)
اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور تسبیح بیان کرنے کے فضائل:
اَحادیث میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور تسبیح بیان کرنے کی بہت سی فضیلتیں وارد ہیں ،یہاں ان میں سے دو فضائل ملاحظہ ہوں :
(1)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’دو کلمے ایسے ہیں جو زبان پر ہلکے ہیں ، میزانِ عمل میں بھاری ہیں اور اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہیں ۔ (وہ دو کلمے یہ ہیں 🙂 ’’سُبْحَانَ اللہ وَ بِحَمْدِہٖ، سُبْحَانَ اللہ الْعَظِیْم‘‘۔(بخاری، کتاب الایمان والنذور، باب اذا قال: واللّٰہ لا اتکلّم الیوم فصلّی۔۔۔ الخ، ۴ / ۲۹۷، الحدیث: ۶۶۸۲)
(2)… حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ اللہ تعالیٰ نے کلام میں سے چار چیزوں کو پسند فرما لیا ہے۔ (1)سُبْحَانَ اللہ، (2)اَلْحَمْدُ لِلّٰہ، (3)لَآ اِلٰـہَ اِلَّااللہ، (4) اللہ اَکْبَر۔ جس نے ’’سُبْحَانَ اللہ‘‘ کہا تو اللہ تعالیٰ ا س کیلئے بیس نیکیاں لکھ دیتا ہے اور اس کے بیس گناہ مٹا دیتا ہے ۔ جس نے ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہ‘‘ کہا تو ا س کے لئے بھی اسی کی مثل ہے۔ جس نے ’’لَآ اِلٰـہَ اِلَّااللہ‘‘ کہا تو اس کے لئے بھی اسی کی مثل ہے اور جس نے اپنی طرف سے ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰـلَمِیْن‘‘ کہا تو اس کے لئے تیس نیکیاں لکھی جائیں گی اور ا س کے تیس گناہ مٹا دئیے جائیں گے۔(مسند امام احمد، مسند ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ، ۳ / ۱۶۶، الحدیث: ۸۰۱۸)
{حِیْنَ تُمْسُوْنَ وَ حِیْنَ تُصْبِحُوْنَ: جب شام کرو اور جب صبح کرو۔} دوسرے قول کے مطابق اس آیت میں تین نمازوں کا بیان ہوا، شام میں مغرب اور عشاء کی نمازیں آگئیں جبکہ صبح میں نمازِ فجر آ گئی۔(خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۱۷، ۳ / ۴۶۰)
وَ لَهُ الْحَمْدُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ عَشِیًّا وَّ حِیْنَ تُظْهِرُوْنَ(18)
ترجمہ: کنزالعرفان
اوراسی کیلئے تعریف ہے آسمانوں اور زمین میں اور اس وقت جب دن کا کچھ حصہ باقی ہو اور جب تم دوپہر کرو۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ عَشِیًّا وَّ حِیْنَ تُظْهِرُوْنَ: اور جب دن کا کچھ حصہ باقی ہو اور جب تم دوپہر کرو۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ جب کچھ دن باقی ہو اور جب تم دوپہر کرو تو ا س وقت تسبیح کرو۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ جب کچھ دن باقی ہو اور جب تم دوپہر کرو تو ا س وقت نماز ادا کرو۔ ا س میں نمازِ عصر اور نمازِ ظہر کا بیان ہوا۔
نماز کے لئے یہ پانچ اوقات مقرر فرمائے جانے کی حکمت:
یاد رہے کہ نماز کے لئے یہ پانچ اَوقات ا س لئے مقرر فرمائے گئے کہ افضل اعمال وہ ہیں جو ہمیشہ ہوں اور انسان یہ قدرت نہیں رکھتا کہ اپنے تمام اوقات نماز میں صَرف کرے کیونکہ اس کے ساتھ کھانے پینے وغیرہ کے حوائج و ضرورِیّات ہیں تو اللہ تعالیٰ نے بندوں پر عبادت میں تخفیف فرمائی اور دن کے شروع،درمیان اور آخر میں جبکہ رات کے شروع اور آخر میں نمازیں مقرر کیں تاکہ ان اوقات کے اندر نماز میں مشغول رہنا دائمی عبادت کے حکم میں ہو۔(روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۱۸، ۷ / ۱۶، مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۱۸، ص۹۰۴، خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۱۸، ۳ / ۴۶۰، ملتقطاً)
یُخْرِ جُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ یُخْرِ جُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَ یُحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَاؕ-وَ كَذٰلِكَ تُخْرَجُوْنَ(19)
ترجمہ: کنزالعرفان
وہ زندہ کوبے جان سے نکالتاہے اور بے جان کو زندہ سے نکالتا ہے اور زمین کو اس کے مردہ ہونے کے بعدزندہ کرتا ہے اور یوں ہی تم نکالے جاؤ گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{یُخْرِ جُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ: وہ زندہ کو مردے سے نکالتاہے۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ زندہ کوبے جان سے جیسے کہ پرندے کو انڈے سے ، انسان کو نطفے سے اور مومن کو کافر سے نکالتاہے اور بے جان کو زندہ سے جیسے کہ انڈے کو پرندے سے ،نطفے کو انسان سے اورکافر کو مومن سے نکالتا ہے اور زمین کو خشک ہوجانے کے بعد بارش برسا کر اور اس سے سبزہ اُگا کرزندہ کرتا ہے اور ا ن چیزوں کو نکالنے کی طرح تم بھی (قیامت کے دن) قبروں سے دوبارہ زندہ کر کے حساب کے لئے نکالے جاؤ گے۔(مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۹۰۴، خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۱۹، ۳ / ۴۶۱، ملتقطاً)
سورہِ روم کی آیت نمبر17، 18، 19 کی فضیلت:
حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے صبح کے وقت یہ کہہ دیا:’’فَسُبْحٰنَ اللّٰهِ حِیْنَ تُمْسُوْنَ وَ حِیْنَ تُصْبِحُوْنَ(۱۷)وَ لَهُ الْحَمْدُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ عَشِیًّا وَّ حِیْنَ تُظْهِرُوْنَ(۱۸)یُخْرِ جُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ یُخْرِ جُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَ یُحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَاؕ-وَ كَذٰلِكَ تُخْرَجُوْنَ‘‘ تو اُس دن میں جو نیکی ا س سے چھوٹ گئی اس کا ثواب پالے گا اور جو شام کے وقت یہ کہہ دے تو اس رات میں جو نیکی اس سے چھوٹ گئی اس کا ثواب پا لے گا ۔( ابو داؤد، کتاب الادب، باب ما یقول اذا اصبح، ۴ / ۴۱۴، الحدیث: ۵۰۷۶)
مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’نیکی چھوٹ جانے سے مراد نوافل نیکیاں چھوٹ جانا ہیں یا فرائض عبادات میں نقصان (یعنی کمی) رہ جانا ہے، یعنی ر ب تعالیٰ اس آیتِ کریمہ کی برکت سے بہت سی نفلی نیکیوں کا اجر عطا فرمائے گا، اور اگر آج دن رات کے فرائض میں کچھ نقصان واقع ہوگیا ہوگا تو رب تعالیٰ نقصان پورا فرمادے گا۔ اس حدیث کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تمام فرائض وواجبات چھوڑ دو صرف یہ ہی آیت صبح شام پڑھ لیا کرو۔(مراٰۃ المناجیح، کتاب الدعوات، باب ما یقول عند الصباح والمساء والمنام، الفصل الاول، ۴ / ۳۳-۳۴)
وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ اِذَاۤ اَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُوْنَ(20)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اس کی نشانیوں سے ہے کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر جبھی تم انسان ہوجو دنیا میں پھیلے ہوئے ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مِنْ اٰیٰتِهٖ: اور اس کی نشانیوں سے ہے۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیَّت اور قدرت پرانسان کی پیدائش سے اِستدلا ل کیا جا رہا ہے،اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا اور جیتا جاگتا انسان بنایا اور مٹی ایک بے جان چیز ہے جس میں حیات اور حرکت کا کوئی اثر نہیں ہے،پھر یہی نہیں بلکہ تمہارے اندر شعور اور عقل پیدا کی،خیالات ،احساسات اور جذبات پیدا کئے ،گفتگو کرنے اور چیزوں میں تَصَرُّف کرنے کی قدرت دی اور یہ سب چیزیں مٹی کا بنیادی جُزْو نہیں ہیں ،پھرتم لوگ اپنی اور اپنی صفات کی پیدائش کے بعد مختلف اَغراض و مَقاصد کی وجہ سے دنیا میں پھیلے ہوئے ہو۔اگر تم ان چیزوں میں غور کرو گے تو تم پر ظاہر ہو جائے گا کہ جس نے انسان کو پیدا کیا وہ واحد ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور وہ کامل قدرت رکھتا ہے اور جو مٹی جیسی بے جان چیز سے جیتا جاگتا انسان بنانے کی قدرت رکھتا ہے وہ انسانوں کی موت کے بعد انہیں دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قادر ہے۔( صاوی، الروم، تحت الآیۃ: ۲۰، ۴ / ۱۵۷۸، تفسیرکبیر، الروم، تحت الآیۃ: ۲۰، ۹ / ۸۹–۹۰، روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۲۰، ۷ / ۱۹، ملتقطاً)
نوٹ:آیت میں جو یہ فرمایا گیا’’ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ‘‘اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی اصل حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مٹی سے پیدا کیااور جب انہیں مٹی سے پیدا کیا گیا ہے تو گویا کہ دیگر انسانوں کو بھی مٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔
انسان کی مرحلہ وار تخلیق کا بیان:
یہاں آیت کے ابتدائی حصے میں انسان کی مرحلہ وار تخلیق کا اِجمالی بیان ہے ، جبکہ اس کا تفصیلی بیان اس آیت میں ہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَّ غَیْرِ مُخَلَّقَةٍ لِّنُبَیِّنَ لَكُمْؕ-وَ نُقِرُّ فِی الْاَرْحَامِ مَا نَشَآءُ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْۤا اَشُدَّكُمْۚ-وَ مِنْكُمْ مَّنْ یُّتَوَفّٰى وَ مِنْكُمْ مَّنْ یُّرَدُّ اِلٰۤى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَیْلَا یَعْلَمَ مِنْۢ بَعْدِ عِلْمٍ شَیْــٴًـاؕ-‘‘( حج:۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے لوگو!اگر تمہیں قیامت کے دن اُٹھنے کے بارے میں کچھ شک ہو تو (اس بات پر غور کرلو کہ) ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر پانی کی ایک بوند سے پھرجمے ہوئے خون سے پھر گوشت کی بوٹی سے جس کی شکل بن چکی ہوتی ہے اور ادھوری بھی ہوتی ہے تاکہ ہم تمہارے لیے اپنی قدرت کو ظاہر فرمائیں اور ہم ماؤں کے پیٹ میں جسے چاہتے ہیں اسے ایک مقرر مدت تک ٹھہرائے رکھتے ہیں پھر تمہیں بچے کی صورت میں نکالتے ہیں پھر (عمر دیتے ہیں ) تا کہ تم اپنی جوانی کو پہنچو اور تم میں کوئی پہلے ہی مرجاتا ہے اور کوئی سب سے نکمی عمر کی طرف لوٹایا جاتا ہے تاکہ (بالآخر) جاننے کے بعد کچھ نہ جانے۔
تخلیق کے ان مَراحل میں غوروفکر کرنے سے انسان اللہ تعالیٰ کی قدرت اور وحدانیَّت کی معرفت حاصل کر سکتا ہے اور کفار میں سے جو شخص انصاف کی نظر سے ان میں غوروفکر کرے گا تو کوئی بعید نہیں کہ وہ ایمان اور ہدایت کی عظیم سعادت سے سرفراز ہوجائے ۔
وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَیْهَا وَ جَعَلَ بَیْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةًؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ(21)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اس کی نشانیوں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے تاکہ تم ان کی طرف آرام پاؤ اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت رکھی۔ بے شک ا س میں غوروفکر کرنے والوں کیلئے نشانیاں ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مِنْ اٰیٰتِهٖ: اور اس کی نشانیوں سے ہے۔} ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے عورتیں بنائیں جو (شرعی نکاح کے بعد) تمہاری بیویاں بنتی ہیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور اگر اللہ تعالیٰ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں صرف مرد پیدا فرماتا اور عورتوں کوان کے علاوہ کسی دوسری جنس جیسے جِنّات یا حیوانات سے پیدا فرماتا تو مردوں کو عورتوں سے سکون حاصل نہ ہوتا بلکہ ان میں نفرت پیدا ہوتی کیونکہ دو مختلف جنسوں کے افراد میں ایک دوسرے کی طرف میلان نہیں ہوتا اور وہ ایک دوسرے سے سکون حاصل نہیں کر سکتے،پھر انسانوں پر اللہ تعالیٰ کی یہ کمال رحمت ہے کہ مردوں کے لئے ان کی جنس سے عورتیں بنانے کے ساتھ ساتھ شوہر اور بیوی کے دمیان محبت اور رحمت رکھی کہ پہلی کسی معرفت اور کسی قرابت کے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور ہمدردی ہوجاتی ہے۔ بے شک ا ن چیزوں میں غوروفکر کرنے والوں کیلئے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور قدرت پر دلالت کرنے والی نشانیاں ہیں ،اگر وہ ان میں غور کریں گے تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ جس نے دنیا کے نظام کو اس احسن انداز میں قائم رکھا ہوا ہے صرف وہی عبادت کا مستحق اور کامل قدرت والا ہے۔( تفسیرکبیر، الروم، تحت الآیۃ: ۲۱، ۹ / ۹۱-۹۲، ابن کثیر، الروم، تحت الآیۃ: ۲۱، ۶ / ۲۷۸، مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۲۱، ص۹۰۵، خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۲۱، ۳ / ۴۶۱، ملتقطاً)
اسلامی معاشرے اور مغربی معاشرے میں خاندانی نظام میں اختلاف کی وجہ سے ہونے والا فرق:
اسلامی معاشرے میں خاندانی نظام قائم کرنے اور اسے برقرار رکھنے کو خاص اہمیت دی گئی ہے اور اس نظام کی عمارت چونکہ مرد اور عورت کے درمیان شوہر اور بیوی کے رشتے کی بنیاد پر ہی کھڑی ہو سکتی ہے ،اس لئے اسلامی معاشرے میں اس بنیاد کو مضبوط تر بنانے کے خصوصی اقدامات کئے گئے ہیں ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ عورت اور مرد کے ازدواجی رشتے میں ذہنی اور قلبی سکون اور باہمی ذمہ داریوں کی تقسیم کو اصل بنیاد بنایا اور ازدواجی تعلقات قائم کرنےکو ذہنی سکون حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہونے کی حیثیت دی ہے اور جب شوہر کو اپنی بیوی سے ذہنی سکون ملے گا تو ان کی باہمی زندگی پُر سکون ہو گی اور جب میاں بیوی ایک دوسرے کیلئے اطمینان و سکون کا ذریعہ ہوں گے تو ان سے بننے والا خاندان بھی خوشیوں بھرا ہو گا اور جب ہر خاندان اس دولت سے مالا مال ہو گا تو معاشرہ خود ہی امن و سکون کا گہوارہ بن جائے گا ۔ یہاں ہرصاحبِ عقل آدمی ا س بات کا مشاہدہ کر سکتا ہے کہ معاشرے میں جہاں اسلامی تعلیمات پر عمل ہوتا ہے وہاں سکون اور چین نظر آتا ہے اور جہاں عمل نہیں ہوتا وہاں بے چینی اور بے اطمینانی پیداہوجاتی ہے چنانچہ اسلامی معاشرے کے مقابلے میں جب مغربی معاشرے پر نظر ڈالی جائے تو اس میں بسنے والے ذہنی سکون کی دولت سے محروم نظر آتے ہیں ،اس کی وجہ یہ نہیں کہ ان کے دُنْیَوی علوم و فنون اور ٹیکنالوجی کی ترقی میں کوئی کمی باقی ہے جس کی بنا پر وہ بے سکون ہیں یا ان کے پاس مال و دولت کی کمی ہے جس کی وجہ سے وہ معاشی پریشانیوں کا شکار ہو کر ذہنی سکون سے محروم ہیں بلکہ تمام تر ترقی ، دولت،آسائشوں اور سہولتوں کی بَہُتات ہونے کے باوجود مغربی معاشرے میں بسنے والوں کے ذہنی سکون سے محروم ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے صرف جنسی تسکین اور شہوت کی آسودگی کو بنیاد بنایا،جس کے لئے انہوں نے عورت کو بے راہ رَوی کی آزادی دیدی اور مرد کو یہ اختیار دیا کہ وہ کسی بھی عورت کے ساتھ اس کی رضا مندی سے جنسی تعلقات قائم کر لے ، جب مغربی معاشرے میں ذہنی سکون کی بجائے جنسی تسکین کو بنیاد بنایا گیا اور عورت کی حیثیت محض جنسی تسکین کا آلہ ہونے کی رکھی گئی تو ا س کا نتیجہ یہ ہوا کہ ا س معاشرے میں عورتوں ،کنواری لڑکیوں اور بچیوں کا ناجائز بچوں کی مائیں بننا عام ہوگیا،حرامی بچوں کی پیدائش اور انہیں قتل کر دئیے جانے کی وارداتوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا،طلاقوں کی شرح بہت بڑھ گئی ،خاندانی نظام تباہ ہو کر رہ گیا،نفسیاتی اور ذہنی اَمراض میں مبتلا افراد کی تعداد بڑھنا شروع ہوگئی اور آج یہ حال ہے کہ ذہنی اور نفسیاتی امراض کے ہسپتال سب سے زیادہ وہاں ہیں ، ذہنی مریضوں اور دماغی سکون کی دوائیں کھانے والو ں کی تعداد بھی وہیں سب سے زیادہ ہے اور پاگل خانوں کی زیادہ تعداد بھی وہیں پرہے۔ لہٰذامسلمانوں کو چاہئے کہ مغربی معاشرے کی اندھی پیروی کرکے اپنا ذہنی سکون اور خاندانی نظام تباہی کے دہانے پر لانے کی بجائے ان کے حالات سے عبرت حاصل کریں اور اسلامی معاشرے کے اصول و قوانین پر عمل پیرا ہو کر ذہنی سکون حاصل کرنے اور خاندانی نظام کو تباہ ہونے سے بچانے کی بھرپور کوشش کریں ۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
عورت اپنے شوہر کے آرام اور سکون کا لحاظ رکھے:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو شوہر کے سکون اور آرام کے لئے پیدا فرمایا ہے اور عورت سے سکون حاصل کرنے کا ایک ذریعہ شرعی نکاح کے بعد ازدواجی تعلق قائم کرنا ہے،لہٰذا عورتوں کو چاہئے کہ اگر کوئی شرعی یا طبعی عذر نہ ہو تو اپنے شوہر کو ازدواجی تعلق قائم کرنے سے منع نہ کریں اور شوہروں کو بھی چاہئے کہ اپنی بیویوں کے شرعی یا طبعی عذر کا لحاظ رکھیں ۔جو عورت کسی عذر کے بغیر اپنے شوہر کو ازدواجی تعلق قائم کرنے سے منع کر دیتی ہے اس کے لئے درج ذیل دو اَحادیث میں بڑی عبرت ہے،چنانچہ
(1)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اس ذات کی قسم ! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے،جس شخص نے اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلایا اور بیوی آنے سے انکار کر دے تو اللہ تعالیٰ اس وقت تک اس عورت سے ناراض رہتا ہے جب تک ا س کا شوہر اس سے راضی نہ ہو جائے۔( مسلم، کتاب النکاح، باب تحریم امتناعہا من فراش زوجہا، ص۷۵۳، الحدیث: ۱۲۱(۱۴۳۶))
(2)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر مرد اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ نہ آئے اور مرد بیوی سے ناراض ہو جائے تو صبح تک فرشتے اس عورت پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔(مسلم، کتاب النکاح، باب تحریم امتناعہا من فراش زوجہا، ص۷۵۳، الحدیث: ۱۲۲(۱۴۳۶))
وَ مِنْ اٰیٰتِهٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافُ اَلْسِنَتِكُمْ وَ اَلْوَانِكُمْؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّلْعٰلِمِیْنَ(22)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا اختلاف اس کی نشانیوں میں سے ہے، بے شک اس میں علم والوں کے لئے نشانیاں ہیں
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مِنْ اٰیٰتِهٖ: اور اس کی نشانیوں سے ہے۔} اس سے پہلی دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی وہ نشانیاں بیان فرمائیں جو انسان کی اپنی ذات میں ہیں جبکہ ا س آیت میں خارجی کائنات کی تخلیق اور انسان کی لازمی صفات سے اپنی وحدانیّت پر اِستدلال فرمایا ہے۔آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے لوگو! آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا اختلاف اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ہے کہ تم آسمان کی طرف دیکھو کہ وہ انتہائی وسیع اور بلند ہے، اس میں رات کے وقت ستارے روشن ہوتے اور یہ آسمان کی زینت ہیں ،اسی طرح زمین کی طرف دیکھو کہ کتنی طویل و عریض ہے ، پانی کی طرح نرم نہیں بلکہ سخت ہے،اس پر پُر ہَیبت پہاڑ نَصب ہیں ،اس میں وسیع و عریض میدان ،گھنے جنگلات اور ریت کے ٹیلے ہیں ،دریا اور سمندر جاری ہیں ،نباتات کا ایک سلسلہ قائم ہے ،لہلہاتے ہوئے زرخیز کھیت، پھلوں سے لدے اور پھولوں کے مہکتے ہوئے باغات ہیں ۔یونہی تم اپنی زبانوں کے اختلاف پر غور کرو کہ کوئی عربی بولتا ہے ،کوئی فارسی اورکوئی ان کے علاوہ دوسری زبان بولتا ہے۔ایسے ہی تم اپنے رنگوں پر غور کرو کہ کوئی گورا ہے، کوئی کالا ، کوئی گندمی حالانکہ تم سب کی اصل ایک ہے اور تم سب حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد ہو۔ اسی طرح تم اپنی جسمانی ساخت پر غور کرو کہ ہر انسان کی دو آنکھیں ،دو اَبرو،ایک ناک ، ایک پیشانی،ایک منہ اور دو گالیں ہیں اور انسانوں کی تعداد اربوں میں ہونے کے باوجود کسی کا رنگ ، چہرہ اور نقش دوسرے سے پورا پورا نہیں ملتا بلکہ ہر ایک دوسرے سے جدا ہی نظر آتا ہے اور اگر ہر ایک کی شکل اور آواز ایک جیسی ہوتی تو ایک دوسرے کی پہچان مشکل ہو جاتی اور بے شمار مَصلحتیں ختم ہو کر رہ جاتیں ، اچھے اَخلاق والے اور برے اخلاق والے میں ،دوست اور دشمن میں ، قریبی اور دور والے میں اِمتیاز نہ ہو پاتا۔اب تم یہ بتاؤ کہ کیا یہ سب چیزیں خود ہی وجود میں آ گئیں ہیں یا یہ محض اتفاق ہے ، یا یہ چند خداؤں نے مل کر یہ کارنامہ سر انجام دیاہے ،اگر ایسا ہے تو پھر آسمان و زمین میں ہزاروں سال سے اس قدر نظم اور تسلسل کیوں قائم ہے اور اس میں کبھی اختلاف کیوں نہیں ہوا،ان زبانوں ،رنگوں اور شکلوں کا خالق کون ہے؟اگر تم علم اور انصاف کی نظر سے دیکھو گے تو جان لوگے کہ یہ سب صرف اللہ تعالیٰ کی قدرت کا شاہکار ہیں ۔( تفسیرکبیر، الروم، تحت الآیۃ: ۲۲، ۹ / ۹۲، ابن کثیر، الروم، تحت الآیۃ: ۲۲، ۶ / ۲۷۹، خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۲۲، ۳ / ۴۶۱ –۴۶۲، مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۲۲، ص۹۰۵، ملتقطاً)
اس کائنات کا کامل قدرت رکھنے والا ایک ہی خالق موجود ہے:
یاد رہے کہ یہ کائنات نہ تو کسی سبب اور علت کے بغیر اپنے طبعی تقاضوں سے وجود میں آئی ہے اور نہ ہی اس کا انتہائی مَربوط اور مُتناسِب نظام کسی چلانے والے کے بغیر چل رہا ہے بلکہ ایک ایسی ذات ضرور موجود ہے جس نے اپنی کامل قدرت سے ا س کائنات اور اس میں موجود طرح طرح کے عجائبات کو پیدا فرمایا اور وہی ذات انتہائی عالیشان طریقے سے اس کے نظام کو چلارہی ہے ، جیسے ہم ایک دانے یا گٹھلی کو تر زمین میں دباتے ہیں تو ایک مخصوص مدت کے بعد اس سے کچھ شاخیں نکلتی ہیں ،اوپر والی شاخ زمین سے باہر نکل کر ایک تَناوَر درخت بن جاتی ہے اور نیچے والی شاخ اس درخت کی جڑیں بن جاتی ہیں ، اس درخت کی طرف دیکھیں تو اس کا تنا بھی لکڑی کا ہے اور جڑیں بھی لکڑی کی ہیں ، تنا اوپر کی طرف جاتا ہے اور جڑیں نیچے کی طرف جارہی ہیں ،اب اگر لکڑی کا طبعی تقاضا اوپر کی طرف جانا ہے تو جڑیں نیچے کیوں جاتی ہیں اور اگر اس کا تقاضا نیچے جانا ہے تو تنا اوپر کیوں جاتاہے ؟ ایک ہی لکڑی ہونے کے باوجود تنے کے اوپر جانے اور جڑوں کے نیچے جانے سے معلوم ہوا کہ لکڑی کا اپنا طبعی تقاضا کچھ نہیں ہے بلکہ درخت کی لکڑی پر کسی اور ذات کا تَصَرُّف ہے جس کی قدرت کامل ہے، اسی نے لکڑی کے جس حصے کو چاہا اوپر اٹھا دیا اور جس حصے کو چاہا نیچے جھکا دیا۔( تفسیرکبیر، الانعام، تحت الآیۃ: ۹۵، ۵ / ۷۱–۷۲، ملخصاً)
یونہی اس کائنات کے نظام کو دیکھیں تو نظر آئے گا کہ روزانہ سورج ایک مقررہ جِہَت سے طلوع ہوتا ہے اور ایک مقررہ جِہَت میں غروب ہو جاتا ہے، دن کے بعد رات آتی اور رات کے بعد دن نکل آتا ہے،ہر سال اپنے اپنے موسموں میں کھیتیاں پروان چڑھتی ہیں ،پھول اپنے وقت پر کِھلتے ہیں ،پھل اپنی مدت پر نکلتے ہیں ،پوری دنیا میں ایک خاص طریقے سے ہی انسان پیدا ہو رہے اور مخصوص مدت کے بعد مر رہے ہیں ،حشراتُ الارض سے لے کر درندوں تک،چرندوں سے لے کر پرندوں تک ہر ایک کی ساخت اور تخلیق اس کے حال کے مطابق ہے اور ان کی ضرورت کے تمام اَعضاء ان میں موجود ہیں ،ہر ایک کی غذا اوراسے حاصل کرنے کا طریقہ مختلف ہے اورہر علاقے میں رہنے والے کا مزاج اسی علاقے کے ماحول کے مطابق ہے، تو کائنات کایہ مَربوط اور حسِین نظام،حکیمانہ تدبیر اور ہر مخلوق کے حال کی رعایت دیکھ کر کوئی عقلمند ہرگز یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ کسی خالق اور انتظام فرمانے والے کے بغیر خود بخود عدم سے وجود میں آ گیا اور علم و حکمت کا یہ عجیب و غریب کارخانہ کسی چلانے والے کے بغیر چل رہاہے بلکہ اسے یہ اقرار کرنا پڑے گا کہ اس کائنات کا کوئی ایک خالق موجود ہے اور وہ کامل قدرت ،علم اور حکمت والا ہے اور اس عظمت و شان کا مالک اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں ۔سرِ دست یہاں اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کے موجود ہونے پر دلالت کرنے والی دو چیزیں ذکر کی ہیں ورنہ کائنات کے ذرے ذرے میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات پر دلالت کرنے والی علامات اور نشانیاں موجود ہیں ۔
وَ مِنْ اٰیٰتِهٖ مَنَامُكُمْ بِالَّیْلِ وَ النَّهَارِ وَ ابْتِغَآؤُكُمْ مِّنْ فَضْلِهٖؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّسْمَعُوْنَ(23)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور رات اور دن میں تمہارا سونا اور اس کا فضل تلاش کرنا اس کی نشانیوں میں سے ہے ،بے شک اس میں سننے والوں کے لئے نشانیاں ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مِنْ اٰیٰتِهٖ: اور اس کی نشانیوں میں سے ہے۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیّت پر انسان کی ان صفات سے اِستدلال فرمایا ہے جو انسان سے جدا ہو جاتی ہیں ، چنانچہ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے لوگو! رات اور دن میں تمہارا سونا اور اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کرنا اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہیں عادت کے مطابق رات میں نیند آتی ہے اور ضرورت کے وقت تم دن میں بھی سوجاتے ہوجس سے تھکن دور ہوتی اور تمہارے بدن کو راحت حاصل ہوتی ہے، یونہی دن میں تم سفر کرتے اور اپنی معیشت کے اسباب کو تلاش کر تے ہو،تو غور کرو کہ تم پر نیند کون طاری کرتا ہے اور نیند کا یہ معمول کس نے بنایا ہے اور تمہیں معیشت کے اسباب تلاش کرنے کی ہمت اور صلاحیت کس نے دی ہے؟اگرتم لاپرواہی اور ضدسے کام نہ لو تو تمہیں یہی کہنا پڑے گا کہ ہزاروں برس سے انسانوں کا یہ معمول اوران کا یہ فطری نظام صرف اسی اللہ تعالیٰ کا پیدا کیا ہوا ہے جو یکتا معبود ہے اوراس کی قدرت کامل ہے ۔( تفسیرکبیر، الروم، تحت الآیۃ: ۲۳، ۹ / ۹۳، روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۲۳، ۷ / ۲۱–۲۲، خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۲۳، ۳ / ۴۶۲، ملتقطاً)
اس آیت میں مرنے کے بعد اٹھائے جانے پر بھی دلیل موجودہے اور وہ یہ کہ سونے والا مردہ کی مانند ہے تو جو ذات سونے والے کو بیدار کرنے پر قادر ہے تو وہ مرنے والے کو دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قادر ہے۔
وَ مِنْ اٰیٰتِهٖ یُرِیْكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَّ طَمَعًا وَّ یُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَیُحْیٖ بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَاؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ(24)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہیں ڈرانے اور (بارش کی) امید دلانے کیلئے بجلی دکھاتا ہے اور آسمان سے پانی اتارتا ہے تو ا س کے ذریعے زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کرتا ہے۔بیشک اس میں عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مِنْ اٰیٰتِهٖ: اور اس کی نشانیوں میں سے ہے۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خارجی کائنات کے عارضی اوصاف سے اپنی قدرت اور مرنے کے بعد اٹھائے جانے پر اِستدلال فرمایاہے ،چنانچہ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا تمہیں ڈرانے اور امید دلانے کے لئے بجلی دکھانا اور آسمان سے پانی اتار کر بنجر زمین کو سرسبزو شاداب کر دینا ا س کی قدرت کی نشانیوں میں سے ہے کہ جب بادلوں میں بجلی چمکتی ہے تو بسا اوقات تم خوفزدہ ہو جاتے ہو کہ کہیں یہ گر کر نقصان نہ پہنچا دے اور کبھی تمہیں اس سے یہ امید ہوتی ہے کہ اب بارش برسے گی نیزجب اللہ تعالیٰ بارش نازل فرماتا ہے تو اس کے پانی سے بنجر زمین سرسبز وشاداب ہو کر لہلہانے لگتی ہے ،کھیتیاں پھلنے پھولنے لگتی اورباغات میں درخت پھلوں سے بھرنے لگتے ہیں ،یہ چیزیں دیکھ کر حقیقی طور پر غورو فکر کرنے والے اس نظام کو چلانے والے کی معرفت حاصل کرتے ہیں کہ برس ہا برس سے زمینوں کی سیرابی اوران کی سرسبزی و شادابی کا یہی نظام ہے اور ا س نظام کے تَسَلسُل اور یکسانِیّت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسے بنانے والا اور اسے چلانے والا موجود ہے اور وہ واحد ہے اور ا س کی قدرت کامل ہے اور اس میں یہ نشانی بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ جس طرح مردہ زمین کو زندہ فرماتا ہے اسی طرح ایک دن مردہ انسانوں کو بھی زندہ فرمائے گا۔( ابن کثیر، الروم، تحت الآیۃ: ۲۴، ۶ / ۲۷۹، تفسیرکبیر، الروم، تحت الآیۃ: ۲۴، ۹ / ۹۳–۹۴، روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۲۴، ۷ / ۲۴، ملتقطاً)
وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ تَقُوْمَ السَّمَآءُ وَ الْاَرْضُ بِاَمْرِهٖؕ-ثُمَّ اِذَا دَعَاكُمْ دَعْوَةً ﳓ مِّنَ الْاَرْضِ اِذَاۤ اَنْتُمْ تَخْرُجُوْنَ(25)وَ لَهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-كُلٌّ لَّهٗ قٰنِتُوْنَ(26)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اس کی نشانیوں سے ہے کہ اس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں پھر جب تمہیں زمین سے ایک ند افرمائے گا جبھی تم نکل پڑو گے۔ اور اسی کی ملکیت میں ہیں جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہیں سب اس کے زیرِ حکم ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مِنْ اٰیٰتِهٖ: اور اس کی نشانیوں سے ہے۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خارجی کائنات کے ان اوصاف سے اپنی قدرت اور وحدانیّت پر اِستدلال فرمایا جو جدا نہیں ہوتے ۔اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور ا س کی وحدانیّت کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ قیامت آنے تک آسمان و زمین کا اسی ہَیئت پر قائم رہنا اللہ تعالیٰ کے حکم اور ارادے سے ہے۔دوسرا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے آسمان اور زمین بغیر کسی سہارے کے قائم ہیں ۔یہ معنی حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے منقول ہے۔( تفسیرکبیر، الروم، تحت الآیۃ: ۲۵، ۹ / ۹۴، روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۲۵، ۷ / ۲۵، خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۲۵، ۳ / ۴۶۲، ملتقطاً)
آسمان و زمین کا ا س طرح قائم ہونااس بات کی دلیل ہے کہ انہیں قائم کرنے والا کوئی ایک ہے اور وہ اسباب سے بے نیاز ہے اور وہ صرف اللہ تعالیٰ ہے جس کے حکم سے یہ دونوں قائم ہیں ۔
{ثُمَّ اِذَا دَعَاكُمْ دَعْوَةً ﳓ مِّنَ الْاَرْضِ: پھر جب تمہیں زمین سے ایک ند افرمائے گا۔} یعنی اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ جب تمہیں قبروں سے ایک ندا فرمائے گا تواسی وقت تم اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنی قبروں سے زندہ ہو کر نکل پڑو گے ۔
ندا فرمانے اور قبروں سے زندہ ہو کر نکلنے کی صورت:
ندا فرمانے اور قبروں سے زندہ ہو کر نکلنے کی صورت یہ ہو گی کہ حضرت اسرافیل عَلَیْہِ السَّلَام قبر والوں کو اُٹھانے کے لئے (دوسری بار) صور پھونکیں گے اور کہیں گے کہ اے قبر والو! کھڑے ہو جاؤ، تو اَوّلین وآخرین میں سے کوئی ایسا نہ ہوگا جو نہ اُٹھے۔(جلالین، الروم، تحت الآیۃ: ۲۵، ص۳۴۲، مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۲۵، ص۹۰۶، ملتقطاً)
جیسا کہ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ
’’وَ نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰهُؕ-ثُمَّ نُفِخَ فِیْهِ اُخْرٰى فَاِذَا هُمْ قِیَامٌ یَّنْظُرُوْنَ‘‘(زمر:۶۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اورصور میں پھونک ماری جائے گی تو جتنے آسمانوں میں ہیں اور جتنے زمین میں ہیں سب بیہوش ہو جائیں گے مگر جسے اللہ چاہے پھر دوسری مرتبہ اس میں پھونک ماری جائے گی تواسی وقت وہ دیکھتے ہوئے کھڑے ہوجائیں گے۔
اور فرماتا ہے کہ
’’وَ نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَاِذَا هُمْ مِّنَ الْاَجْدَاثِ اِلٰى رَبِّهِمْ یَنْسِلُوْنَ‘‘(یٰس:۵۱)
ترجمہ کنزُالعِرفان: اور صورمیں پھونک ماری جائے گی تو اسی وقت وہ قبروں سے اپنے رب کی طرف دوڑتے چلے جائیں گے۔
اور صور کے بارے میں فرماتا ہے:
’’اِنْ كَانَتْ اِلَّا صَیْحَةً وَّاحِدَةً فَاِذَا هُمْ جَمِیْعٌ لَّدَیْنَا مُحْضَرُوْنَ‘‘(یٰس:۵۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: وہ تو صرف ایک چیخ ہوگی تو اسی وقت وہ سب کے سب ہمارے حضور حاضر کردئیے جائیں گے۔
اور فرماتا ہے:
’’فَاِنَّمَا هِیَ زَجْرَةٌ وَّاحِدَةٌۙ(۱۳) فَاِذَا هُمْ بِالسَّاهِرَةِ‘‘(النازعات:۱۳،۱۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو وہ (پھونک) تو ایک جھڑکنا ہی ہے۔ تو فوراً وہ کھلے میدان میں آپڑے ہوں گے۔
{وَ لَهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ: اور اسی کی ملکیت میں ہیں جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہیں ۔} یعنی آسمانوں اورزمین میں موجود ہر چیز کا حقیقی مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے اور اس ملکیت میں کو ئی دوسرا کسی طرح بھی اس کا شریک نہیں اور ان میں موجود ہر چیز اللہ تعالیٰ کے زیرِ حکم ہے۔( روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۲۶، ۷ / ۲۶)
وَ هُوَ الَّذِیْ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ وَ هُوَ اَهْوَنُ عَلَیْهِؕ-وَ لَهُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰى فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۚ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(27)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور وہی ہے جو اول بناتا ہے پھر اسے دوبارہ بنائے گا اور (تمہاری عقلوں کے اعتبار سے) دوسری مرتبہ بنانا الله پرپہلی مرتبہ بنانے سے زیادہ آسان ہے اور آسمانوں اور زمین میں سب سے بلند شان اسی کی ہے اور وہی عزت والا حکمت والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ هُوَ الَّذِیْ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ: اور وہی ہے جو اوّل بناتا ہے۔} یعنی اللہ تعالیٰ ہی مخلوق کو پہلی بارپیدا فرماتا ہے اور اس کے ہلاک ہوجانے کے بعد پھر اسے قیامت کے دن دوبارہ بنائے گا اورتمہاری عقلوں کے اعتبار سے تو دوسری مرتبہ بنانا اللہ تعالیٰ پرپہلی مرتبہ بنانے سے زیادہ آسان ہونا چاہیے اگرچہ اللہ تعالیٰ کیلئے دونوں برابر ہیں کیونکہ انسانوں کا تجربہ اور اُن کی رائے یہی بتاتی ہے کہ کسی چیز کو دوبارہ بنانا اسے پہلی بار بنانے سے سہل ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے لئے مخلوق کو دوبارہ بنانا توکچھ بھی دشوار نہیں ، پھر تم دوبارہ زندہ کئے جانے کا انکار کیوں کرتے ہو؟ آیت کے آخر میں ارشاد فرمایا کہ آسمانوں اور زمین میں سب سے بلند شان اسی کی ہے کہ اس جیسا کوئی نہیں وہ بر حق معبود ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہی عزت والا، حکمت والا ہے۔( خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۲۷، ۳ / ۴۶۲، جلالین، الروم، تحت الآیۃ: ۲۷، ص۳۴۲–۳۴۳، مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۲۷، ص۹۰۶–۹۰۷، ملتقطاً)
ضَرَبَ لَكُمْ مَّثَلًا مِّنْ اَنْفُسِكُمْؕ-هَلْ لَّكُمْ مِّنْ مَّا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ مِّنْ شُرَكَآءَ فِیْ مَا رَزَقْنٰكُمْ فَاَنْتُمْ فِیْهِ سَوَآءٌ تَخَافُوْنَهُمْ كَخِیْفَتِكُمْ اَنْفُسَكُمْؕ-كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ(28)
ترجمہ: کنزالعرفان
الله نے تمہارے لئے خود تمہارے اپنے حال سے ایک مثال بیان فرمائی ہے (وہ یہ کہ) ہم نے تمہیں جو رزق دیا ہے کیا تمہارے غلاموں میں سے کوئی اس میں تمہارا اس طرح شریک ہے کہ تم اور وہ اس رزق میں برابر شریک ہوجاؤ۔ تم ان غلاموں (کی شرکت) سے اسی طرح ڈرتے ہو جیسے تم آپس میں ایک دوسرے سے ڈرتے ہو۔ ہم عقل والوں کے لئے اسی طرح مفصل نشانیاں بیان فرماتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{ضَرَبَ لَكُمْ مَّثَلًا مِّنْ اَنْفُسِكُمْ: اللہ نے تمہارے لئے خود تمہارے اپنے حال سے ایک مثال بیان فرمائی ہے۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لئے ایک مثال بیان فرمائی ہے جو مخلوق میں سے کسی کو اللہ تعالیٰ کا شریک قرار دیتے ہیں ۔اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اے مشرکو! اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے خود تمہارے اپنے حال سے ایک مثال بیان فرمائی ہے اوروہ مثال یہ ہے کہ ہم نے تمہیں جو مال و دولت اور رزق دیا ہے کیا تمہارے غلاموں میں سے کوئی اس میں تمہارا اس طرح شریک ہے کہ آقا اور غلام کو اس مال و مَتاع میں تَصَرُّف کرنے کا یکساں حق حاصل ہو اور ایسا حق ہو کہ تم اپنے مال و متاع میں ان غلاموں کی اجازت کے پابند ہو کہ ان کی اجازت کے بغیر تَصَرُّف کرنے سے اسی طرح ڈرو جیسے تم آپس میں ایک دوسرے (کے مشترکہ مال میں بغیر اجازت تصرف کرنے) سے ڈرتے ہو۔( جلالین، الروم، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۳۴۳، مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۹۰۷، ابو سعود، الروم، تحت الآیۃ: ۲۸، ۴ / ۲۷۷–۲۷۸، ملتقطاً)
دوسری تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے خود تمہارے اپنے حال سے ایک مثال بیان فرمائی ہے اور وہ مثال یہ کہ ہم نے تمہیں جو مال و اَسباب دیا ہے، کیا تمہارے غلاموں میں سے کوئی اس میں تمہارا اس طرح شریک ہے کہ تم اور وہ اس مال و اَسباب میں برابر کے شریک ہوں ؟ حالانکہ تمہارا حال تو یہ ہے کہ تم اپنے مال و اَسباب میں ان غلاموں کے شریک ہونے سے اسی طرح ڈرتے ہو جیسے تم آزادلوگوں کے اپنے مال میں شریک ہونے سے ڈرتے ہو۔ خلاصہ یہ ہے کہ جب تم کسی بھی صورت میں اپنے غلاموں کو اپنا شریک بنانا پسند نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو اس کا شریک کیسے قرار دیتے ہو؟ حالانکہ جنہیں تم اپنا معبود قرار دیتے ہو وہ سب تو اس کے بندے اور مملوک ہیں ۔
{كَذٰلِكَ: اسی طرح۔} یعنی جس طرح ہم نے یہاں مُفَصَّل نشانی بیان فرمائی اسی طرح ہم ان لوگوں کے لئے مفصل نشانیاں بیان کرتے ہیں جو اَشیاء میں غوروفکر کرنے کے لئے اپنی عقل استعمال کرتے ہیں ۔ نشانیوں کا تفصیلی بیان عمومی طور پر تو سب کے لئے ہے البتہ عقل استعمال کرنے والوں کا بطورِ خاص اس لئے ذکر کیا گیا کہ یہی لوگ در حقیقت نشانیوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔( ابو سعود، الروم، تحت الآیۃ: ۲۸، ۴ / ۲۷۸)
بَلِ اتَّبَعَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْۤا اَهْوَآءَهُمْ بِغَیْرِ عِلْمٍۚ-فَمَنْ یَّهْدِیْ مَنْ اَضَلَّ اللّٰهُؕ-وَ مَا لَهُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ(29)
ترجمہ: کنزالعرفان
بلکہ ظالموں نے جہالت سے اپنی خواہشوں کی پیروی کی تو جس کو الله نے گمراہ کیا ہو اسے کون ہدایت دے سکتا ہے؟ اور ان کا کوئی مدد گار نہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{بَلِ اتَّبَعَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْۤا اَهْوَآءَهُمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ: بلکہ ظالموں نے جہالت سے اپنی خواہشوں کی پیروی کی۔} یعنی جن ظالموں نے اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرایا انہوں نے جہالت سے اپنی خواہشوں کی پیروی کی اور کسی دلیل کے بغیر اللہ تعالیٰ کے لئے شریک ثابت کردیا تو جسے اللہ تعالیٰ نے گمراہ کر دیا ہو اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا اور مشرکوں کے لئے کوئی مدد گار نہیں جو انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچا سکے۔( تفسیرکبیر، الروم، تحت الآیۃ: ۲۹، ۹ / ۹۸، جلالین، الروم، تحت الآیۃ: ۲۹، ص۳۴۳، ملتقطاً)
فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًاؕ-فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْهَاؕ-لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِؕ-ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُۗۙ-وَ لٰـكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ(30)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو ہرباطل سے الگ ہو کر اپنا چہرہ الله کی اطاعت کیلئے سیدھا رکھو۔ (یہ) الله کی پیدا کی ہوئی فطرت (ہے) جس پر اس نے لوگوں کوپیدا کیا ۔ الله کے بنائے ہوئے میں تبدیلی نہ کرنا۔ یہی سیدھا دین ہے مگر بہت سے لوگ نہیں جانتے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا: تو ہرباطل سے الگ ہو کر اپنا چہرہ اللہ کی اطاعت کیلئے سیدھا رکھو۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا کہ جب معاملہ واضح ہو گیا، اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت (روزِ روشن کی طرح) عیاں ہو چکی اور بہت سے مشرک اپنے ضدوعداوت کی وجہ سے ہدایت حاصل نہ کریں گے تو آپ ان مشرکوں کی طرف کوئی اِلتفات نہ فرمائیں اور اللہ تعالیٰ کے دین پر خلوص،اِستقامت اور اِستقلال کے ساتھ قائم رہیں۔( تفسیرکبیر، الروم، تحت الآیۃ: ۳۰، ۹ / ۹۸، خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۳۰، ۳ / ۴۶۳، ملتقطاً)
{فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْهَا: اللہ کی پیدا کی ہوئی فطرت جس پر اس نے لوگوں کوپیدا کیا۔} اس آیت میں فطرت سے مراد دین ِاسلام ہے اور معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو ایمان پر پیدا کیا،جیسا کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی حدیث میں ہے ’’ہر بچہ فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے۔( بخاری، کتاب الجنائز، باب اذا اسلم الصبی فمات ہل یصلی علیہ۔۔۔ الخ، ۱ / ۴۵۷، الحدیث: ۱۳۵۸، مسلم، کتاب القدر، باب کلّ مولود یولد علی الفطرۃ۔۔۔ الخ، ص۱۴۲۸، الحدیث: ۲۲(۲۶۵۸))
یعنی اسی عہد پر پیدا کیا جاتاہے جو اللہ تعالیٰ نے ان سے ’’اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ‘‘ فرما کر لیا ہے،تو دنیامیں جو بھی بچہ پیدا ہوتا ہے وہ اسی اقرار پر پیدا ہوتا ہے اگرچہ بعد میں وہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کی عبادت کرنے لگ جائے ۔
بعض مفسرین کے نزدیک فطرت سے مراد خِلقَت ہے اور معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو توحید اور دین ِاسلام قبول کرنے کی صلاحیت کے ساتھ پیدا کیا ہے اور فطری طور پر انسان نہ ا س دین سے منہ موڑ سکتا ہے اور نہ ہی اس کاانکار کر سکتا ہے کیونکہ یہ دین ہر اعتبار سے عقلِ سلیم سے ہم آہنگ اور صحیح فہم کے عین مطابق ہے اور لوگوں میں سے جو گمراہ ہو گا وہ جنّوں اور انسانوں کے شَیاطین کے بہکانے سے گمراہ ہوگا۔( خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۳۰، ۳ / ۴۶۳، مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۳۰، ص۹۰۸، روح المعانی، الروم، تحت الآیۃ: ۳۰، ۱۱ / ۵۶، ملتقطاً)
حضرت عیاض بن حمار رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’( اللہ تعالیٰ فرماتا ہے)میں نے اپنے تمام بندوں کواس حال میں پیدا کیا کہ وہ باطل سے دور رہنے والے تھے، بے شک ان کے پاس شیطان آئے اور ان کو دین سے پھیر دیا اور جو چیزیں میں نے ان پر حلال کی تھیں وہ انہوں نے ان پر حرام کر دیں اور ان کو میرے ساتھ شرک کرنے کا حکم دیا حالانکہ میں نے اس شرک پر کوئی دلیل نازل نہیں کی۔( مسلم، کتاب الجنّۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب الصفات التی یعرف بہا فی الدنیا اہل الجنّۃ واہل النار، ص۱۵۳۲، الحدیث: ۶۳(۲۸۶۵))
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ہر بچہ فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے،پھر اس بچے کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنالیتے ہیں ۔( بخاری، کتاب الجنائز، باب اذا اسلم الصبی فمات ہل یصلی علیہ۔۔۔ الخ، ۱ / ۴۵۷، الحدیث: ۱۳۵۸، مسلم، کتاب القدر، باب کلّ مولود یولد علی الفطرۃ۔۔۔ الخ، ص۱۴۲۸، الحدیث: ۲۲(۲۶۵۸))
{لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ: اللہ کی بنائی ہوئی چیزمیں تبدیلی نہ کرنا۔} اس کا ایک معنی یہ ہے کہ تم شرک کر کے اللہ تعالیٰ کے دین میں تبدیلی نہ کرو بلکہ اسی دین پر قائم رہو جس پر اس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔دوسرا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس کامل خِلقَت پر تمہیں پیدا فرمایا ہے تم اس میں تبدیلی نہ کرو۔
{ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ: یہی سیدھا دین ہے۔} یعنی اللہ تعالیٰ کا دین ہی سیدھا دین ہے جس میں کوئی ٹیڑھا پن نہیں مگر بہت سے لوگ اس کی حقیقت کو نہیں جانتے تو اے لوگو! تم اسی دین پر قائم رہو ۔
مُنِیْبِیْنَ اِلَیْهِ وَ اتَّقُوْهُ وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ لَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ(31)
ترجمہ: کنزالعرفان
اس کی طرف توبہ کرتے ہوئے اور اس سے ڈرو اور نماز قائم رکھو اور مشرکوں میں سے نہ ہونا۔
تفسیر: صراط الجنان
{مُنِیْبِیْنَ اِلَیْهِ: اس کی طرف توبہ کرتے ہوئے۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دین پر قائم رہو اور اس کی طرف توبہ کرتے ہوئے اور اس کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے اپنا چہرہ دین ِاسلام کیلئے سیدھا رکھو اورا س کی مخالفت کرنے سے ڈرو اور نماز کی شرائط اور حقوق کی رعایت کرتے ہوئے وقت پراسے ادا کرو اور ایمان قبول کر لینے کے بعد اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہ کرو۔( روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۳۱، ۷ / ۳۲–۳۳، تفسیرکبیر، الروم، تحت الآیۃ: ۳۱، ۹ / ۹۹، ملتقطاً)
مِنَ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَهُمْ وَ كَانُوْا شِیَعًاؕ-كُلُّ حِزْبٍۭ بِمَا لَدَیْهِمْ فَرِحُوْنَ(32)
ترجمہ: کنزالعرفان
ان لوگوں میں سے (نہ ہونا) جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیااور خود گروہ گروہ بن گئے۔ ہر گروہ اس پر خوش ہے جو اس کے پاس ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{مِنَ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَهُمْ: ان لوگوں میں سے (نہ ہونا) جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔} یعنی ان مشرک لوگوں میں سے نہ ہونا جنہوں نے معبود کے بارے میں اختلاف کرکے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیااور خود گروہ گروہ بن گئے۔ان میں سے ہر گروہ اپنے مذہب پر خوش ہے اور اپنے باطل کو حق گمان کرتا ہے۔( جلالین، الروم، تحت الآیۃ: ۳۲، ص۳۴۳، مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۳۲، ص۹۰۸، ملتقطاً)
یاد رہے کہ اس آیت کا اسلامی فُقہاء کے اختلاف سے کچھ تعلق نہیں ۔ حنفی ،شافعی ،مالکی اور حنبلی ہونا دین میں اختلاف نہیں بلکہ فروعی مسائل میں اختلاف ہے اور یہ اختلاف بھی نَفسانِیّت کی وجہ سے نہیں بلکہ تحقیق کی بنا پر ہے ۔ البتہ اس آیت میں گمراہ فرقے ضرور داخل ہیں خواہ وہ پرانے زمانے کے ہوں یا نئے زمانے کے۔وَ اِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرٌّ دَعَوْا رَبَّهُمْ مُّنِیْبِیْنَ اِلَیْهِ ثُمَّ اِذَاۤ اَذَاقَهُمْ مِّنْهُ رَحْمَةً اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ بِرَبِّهِمْ یُشْرِكُوْنَ(33)لِیَكْفُرُوْا بِمَاۤ اٰتَیْنٰهُمْؕ-فَتَمَتَّعُوْاٙ-فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ(34)اَمْ اَنْزَلْنَا عَلَیْهِمْ سُلْطٰنًا فَهُوَ یَتَكَلَّمُ بِمَا كَانُوْا بِهٖ یُشْرِكُوْنَ(35)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جب لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے رب کو ا س کی طرف رجوع کرتے ہوئے پکارتے ہیں پھرجب وہ انہیں اپنے پاس سے رحمت کا مزہ چکھاتا ہے تواس وقت ان میں سے ایک گروہ اپنے رب کا شریک ٹھہرانے لگتا ہے۔ تاکہ ہمارے دئیے ہوئے کی ناشکری کریں تو فائدہ اٹھالو تو عنقریب تم جان لو گے۔ یا کیاہم نے ان پر کوئی دلیل اتاری ہے کہ وہ دلیل انہیں ہمارے شریک بتا رہی ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرٌّ: اور جب لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب شرک کرنے والوں کو مرض ، قحط یا اس کے علاوہ اور کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف رجوع کرتے ہوئے اسے ہی پکارتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ بت ان کی مصیبت ٹال دینے کی قدرت نہیں رکھتے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ انہیں اس تکلیف سے خلاصی عنایت کرکے اور راحت عطا فرماکر اپنے پاس سے رحمت کا مزہ چکھاتا ہے تونتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس وقت ان میں سے ایک گروہ عبادت میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کا شریک ٹھہرانے لگتا ہے اور ہمارے دئیے ہوئے مال اور رزق کی ناشکری کرنے لگتا ہے ، تو اے کافرو!دنیا کی نعمتوں سے چند روزفائدہ اٹھالو ، عنقریب تم جان لو گے کہ آخرت میں تمہارا کیا حال ہوتا ہے اور اس دنیا طلبی کا کیا نتیجہ نکلنے والا ہے۔(روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۳۳–۳۴، ۷ / ۳۷، مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۳۳–۳۴، ص۹۰۹، خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۳۳–۳۴، ۳ / ۴۶۴، ملتقطاً)
اس سے معلوم ہوا کہ آرام میں اللہ تعالیٰ کو بھول جانا اور تکلیف میں اسے یاد کرنا کفار کا طریقہ ہے، لہٰذا مسلمانوں کو ا س سے بچنا چاہئے اور غمی، خوشی ہر حال میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے رہنا چاہئے ۔
{اَمْ اَنْزَلْنَا عَلَیْهِمْ سُلْطٰنًا: یا کیاہم نے ان پر کوئی دلیل اتاری ہے۔} یعنی کیا ہم نے مشرکوں پر کوئی حجت یا کوئی کتاب اتاری ہے کہ وہ انہیں ہمارے شریک بتا رہی ہے اور شرک کرنے کا حکم دیتی ہے، ایسا ہر گز نہیں ہے،ان کے پاس اپنے شرک کی نہ کوئی حجت ہے نہ کوئی سند بلکہ وہ کسی بے سند و دلیل ہی ایسا کررہے ہیں ۔( خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۳۵، ۳ / ۴۶۴، جلالین، الروم، تحت الآیۃ: ۳۵، ص۳۴۳، ملتقطاً)
وَ اِذَاۤ اَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً فَرِحُوْا بِهَاؕ-وَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْهِمْ اِذَا هُمْ یَقْنَطُوْنَ(36)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جب ہم لوگوں کو رحمت کا مزہ دیتے ہیں تواس پر خوش ہو جاتے ہیں اور اگر انہیں ان کے ہاتھوں کے آگے بھیجے ہوئے اعمال کی وجہ سے کوئی برائی پہنچے تواس وقت وہ نا امید ہو جاتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذَاۤ اَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً: اور جب ہم لوگوں کو رحمت کا مزہ دیتے ہیں ۔} یعنی جب ہم لوگوں کو تندرستی اور وسعتِ رزق کا مزہ دیتے ہیں تو وہ اس پر خوش ہو جاتے ہیں اور ا س کی وجہ سے اِتراتے ہیں اور اگر انہیں ان کی مَعْصِیَت اور ان کے گناہوں کی وجہ سے کوئی برائی پہنچے تواس وقت وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نا امید ہو جاتے ہیں اور یہ بات مومن کی شان کے خلاف ہے کیونکہ مومن کا حال یہ ہے کہ جب اُسے نعمت ملتی ہے تو وہ شکر گزاری کرتا ہے اور جب اسے سختی پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کا اُمیدوار رہتا ہے۔( مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۳۶، ص۹۰۹، خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۳۶، ۳ / ۴۶۴، ملتقطاً)اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یَقْدِرُؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ(37)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور کیا انہوں نے نہ دیکھا کہ الله رزق وسیع فرماتا ہے جس کے لئے چاہتا ہے اور تنگ فرمادیتا ہے، بیشک اس میں ایمان والوں کیلئے نشانیاں ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَوَ لَمْ یَرَوْا: اور کیا انہوں نے نہ دیکھا۔} یعنی کیا مشرکوں نے ا س چیز کا مشاہدہ نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ جس کے لئے چاہتا ہے رزق وسیع فرما دیتا ہے اور جس کے لئے چاہتا ہے رزق تنگ فرما دیتا ہے۔ رزق کی وسعت میں حکمت یہ ہے کہ وسیع رزق میں اس شخص کی بھلائی ہوتی ہے یا ا س کا امتحان مقصود ہوتاہے کہ وہ اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے یا نہیں اور رزق کی تنگی میں حکمت یہ ہے کہ اس شخص کے نظام کی درستی تھوڑے رزق میں ہوتی ہے یااس کا امتحان مقصود ہوتا ہے کہ وہ رزق کی تنگی پر صبر کرتا ہے یا نہیں ۔بے شک رزق کی اس تنگی اور وسعت میں ایمان والوں کیلئے نشانیاں ہیں اور وہ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کمال اور حکمت پر اِستدلال کرتے ہیں ۔( روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۳۷، ۷ / ۳۸، ملخصاً)
فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ٘-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(38)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو رشتے دار کو ا س کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو بھی۔ یہ ان لوگوں کیلئے بہتر ہے جو الله کی رضا چاہتے ہیں اور وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ: تو رشتے دار کو ا س کا حق دو۔} یعنی اے وہ شخص! جسے اللہ تعالیٰ نے وسیع رزق دیا،تم اپنے رشتے دار کے ساتھ حسن ِسلوک اور احسان کر کے ا س کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو صدقہ دے کر اور مہمان نوازی کرکے اُن کے حق بھی دو۔رشتہ داروں ، مسکینوں اور مسافرو ں کے حقوق ادا کرنا ان لوگوں کیلئے بہتر ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے ثواب کے طالب ہیں اور وہی لوگ آخرت میں کامیاب ہونے والے ہیں ۔(مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۳۸، ص۹۰۹، روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۳۸، ۷ / ۳۹، خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۳۸، ۳ / ۴۶۵، ملتقطاً)
آیت ’’فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ‘‘ سے متعلق دو باتیں :
یہاں اس آیت سے متعلق دو باتیں ملاحظہ ہوں :
(1)…اس آیت سے مَحْرَم رشتہ داروں کے نَفَقہ کا وُجوب ثابت ہوتا ہے (جبکہ وہ محتاج ہوں )۔(مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۳۸، ص۹۰۹)
(2)…اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص رشتہ دارو ں سے حسنِ سلوک اور صدقہ و خیرات ،نام و نَمو د اور رسم کی پابندی کی وجہ سے نہیں بلکہ محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کرے وہی ثواب کا مستحق ہے۔
وَ مَاۤ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاۡ فِیْۤ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِۚ-وَ مَاۤ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُضْعِفُوْنَ(39)
ترجمہ: کنزالعرفان
اورجومال تم (لوگوں کو) دو تاکہ وہ لوگوں کے مالوں میں بڑھتا رہے تو وہ الله کے نزدیک نہیں بڑھتا اور جو تم الله کی رضا چاہتے ہوئے زکوٰۃ دیتے ہو تو وہی لوگ (اپنے مال) بڑھانے والے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ مَاۤ اٰتَیْتُمْ: اورجو مال تم لوگوں کودو۔} ایک قول یہ ہے کہ اس آیت میں وہی سود مراد ہے جسے سورہ ٔبقرہ کی آیت نمبر279میں حرام فرمایاگیاہے یعنی تم قرض دے کر جو سود لیتے ہو اور اپنے مالوں میں اضافہ کرتے ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اضافہ نہیں ہے اور ایک قول یہ ہے کہ یہاں وہ تحفے مراد ہیں جو اس نیت سے دئیے جاتے تھے کہ جسے تحفہ دیا وہ اس سے زیادہ دے گا،چنانچہ مفسرین فرماتے ہیں کہ لوگوں کا دستور تھا کہ وہ دوست اَحباب اور شناسائی رکھنے والوں کو یا اور کسی شخص کو اس نیت سے ہدیہ دیتے تھے کہ وہ انہیں اس سے زیادہ دے گا یہ جائز تو ہے لیکن اس پر ثواب نہ ملے گا اور اس میں برکت نہ ہوگی کیونکہ یہ عمل خالصتاً اللہ تعالیٰ کے لئے نہیں ہوا۔( روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۳۹، ۷ / ۴۱)
نیوتا اور تحفہ دینے والوں کے لئے نصیحت:
اس آیت میں ان لوگوں کے لئے بڑی نصیحت ہے جو شادی بیاہ وغیرہ پر اپنے عزیز رشتہ داروں یا دوست احباب کو نیوتا اور تحائف وغیرہ دیتے ہیں لیکن اس سے ان کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا نہیں ہوتا بلکہ یا تو اس لئے دیتے ہیں کہ لوگ زیادہ دینے پر ان کی خوب تعریف کریں ،یا اس لئے دیتے ہیں کہ خاندان میں ان کی ناک اونچی رہے، یا صرف اس لئے دیتے ہیں کہ انہیں پانچ کے دس ہزار ملیں ،ایسے لوگ ثواب کے مستحق نہیں ہیں ۔
{وَ مَاۤ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ: اور جو تم اللہ کی رضا چاہتے ہوئے زکوٰۃ دیتے ہو۔} یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہوئے زکوٰۃ اور دیگر صدقات دیتے ہیں کہ اس سے بدلہ لینا مقصود ہو تا ہے نہ نام و نمود تو ان ہی لوگوں کا اجرو ثواب زیادہ ہوگا اورانہیں ایک نیکی کا ثواب دس ُگنا زیادہ دیا جائے گا۔( روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۳۹، ۷ / ۴۲، خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۳۹، ۳ / ۴۶۵، مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۳۹، ص۹۰۹، ملتقطاً)
زکوٰۃ اور صدقات اللہ تعالیٰ کی رضاحاصل کرنے کیلئے دئیے جائیں :
معلوم ہوا کہ اپنے مال کی زکوٰۃ دی جائے یا دیگر نفلی صدقات نکالے جائیں ،سب میں صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مقصد ہونا چاہئے تاکہ اس پر انہیں کثیراجر و ثواب ملے اوریہ مقصد نہ ہو کہ اس کے بدلے میں زکوٰۃ لینے والا ان کی خوب آؤ بھگت کرے ،ان کا خدمت گار بن کر رہے اور ان کا ہر کام ایک ہی اشارے پر بجالائے ،ہر وقت ان کا احسان مند رہے ، لوگوں میں ان کے نام کا خوب چرچا ہو اور لوگ ان کے صدقات وغیرہ کی کثرت پر تعریفوں کے پل باندھیں ۔ اگر اس مقصد سے زکوٰۃ اور صدقات وغیرہ دئیے تو ثواب ملنا تو دور کی بات الٹا اس کے گناہوں کا میٹر تیز ہوجاتا ہے، لہٰذا زکوٰۃ دی جائے یا صدقات بہر صورت صرف اللہ تعالیٰ کی رضاحاصل کرنے کے لئے ہواس کے علاوہ کوئی اور مقصد نہ ہو۔ نیز جو لوگ زکوٰۃ کے حقداروں کو زکوٰۃ اور صدقات وغیرہ دیتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ایسا کر رہے ہیں ،پھر اگر انہیں ان لوگوں سے کوئی ذاتی کام پڑ جائے اور وہ کسی وجہ سے نہ کر پائیں یا کرنے سے انکار کر دیں تو یہ انہیں حق دار ہونے کے باوجود زکوٰۃ اور صدقات وغیرہ دینا بند کر دیتے ہیں کیونکہ وہ ان کا ذاتی کام نہیں کر سکے ۔ایسے حضرات اپنے دل کی حالت پر خود ہی غور کر لیں کہ اگر واقعی انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے زکوٰۃ اور صدقات دئیے تھے تو ذاتی کام نہ ہو سکنے کی وجہ سے انہیں زکوٰۃ اور صدقات دینا بند کیوں کر رہے ہیں ؟ ریاکاری بڑا نازک معاملہ ہے ۔ بہت سے لوگ بے تَوَجُّہی میں بھی اس کا شکار ہوتے ہیں لہٰذا ہر شخص کواپنے حال پر غور کرتے رہنا چاہیے۔
اَللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ یُمِیْتُكُمْ ثُمَّ یُحْیِیْكُمْؕ-هَلْ مِنْ شُرَكَآىٕكُمْ مَّنْ یَّفْعَلُ مِنْ ذٰلِكُمْ مِّنْ شَیْءٍؕ-سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ(40)
ترجمہ: کنزالعرفان
الله ہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیاپھر تمہیں روزی دی پھر تمہیں مارے گا پھر تمہیں زندہ کرے گا کیا تمہارے شریکوں میں بھی کوئی ایسا ہے جو ان کاموں میں سے کچھ کرسکے۔ الله ان کے شرک سے پاک اور بلندوبالا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ: اللہ ہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ پیدا کرنا ،روزی دینا ،مارنا اور زندہ کرنا یہ سب کام اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں ، توکیا جن بتوں کو تم اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہو، اُن میں بھی کوئی ایسا ہے جو ان میں سے کوئی کام کر سکے؟جب اس کے جواب سے مشرکین عاجز ہوگئے اور اُنہیں دَم مارنے کی مجال نہ ہوئی تو ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان کے شرک سے پاک اور بلندوبالا ہے۔( مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۴۰، ص۹۱۰)
ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ(41)
ترجمہ: کنزالعرفان
خشکی اور تری میں فساد ظاہر ہوگیاان برائیوں کی وجہ سے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمائیں تاکہ الله انہیں ان کے بعض کاموں کا مزہ چکھائے تاکہ وہ باز آجائیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ: خشکی اور تری میں فساد ظاہر ہوگیا۔} یعنی شرک اور گناہوں کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد جیسے قحط سالی ، بارش کا رک جانا، پیداوار کی قلت ، کھیتیوں کی خرابی ، تجارتوں کے نقصان ، آدمیوں اور جانوروں میں موت ، آتش زدگی کی کثرت ، غرق اور ہر شے میں بے برکتی ، طرح طرح کی بیماریاں ، بے سکونی، وغیرہ ظاہر ہو گئی اور ان پریشانیوں میں مبتلا ہونا اس لئے ہے تاکہ اللہ تعالیٰ انہیں آخرت سے پہلے دنیا میں ہی ان کے بعض برے کاموں کا مزہ چکھائے تاکہ وہ کفر اور گناہوں سے باز آجائیں اوران سے توبہ کر لیں ۔( مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۴۱، ص۹۱۰، جلالین، الروم، تحت الآیۃ: ۴۱، ص۳۴۴، ملتقطاً)
پریشانیوں اور مصیبتوں میں مبتلا ہونے کا سبب:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ گناہوں کی وجہ سے لوگ ہزاروں قسم کی پریشانیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور صحیح اَحادیث سے بھی ثابت ہے کہ کسی قوم میں اِعلانیہ بے حیائی پھیل جانے کی وجہ سے ان میں طاعون اور مختلف اَمراض عام ہو جاتے ہیں ۔ناپ تول میں کمی کرنے کی وجہ سے قحط آتا اور ظالم حاکم مقرر ہوتے ہیں ۔زکوٰۃ نہ دینے کی وجہ سے بارش رکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا عہد توڑنے کی وجہ سے دشمن مُسَلَّط ہو جاتا ہے۔لوگوں کے مالوں پر جَبری قبضہ کرنے کی وجہ سے اور اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق حکمرانوں کے فیصلے نہ کرنے کی وجہ سے لوگوں کے درمیان قتل و غارت گری ہوتی ہے اور سود خوری کی وجہ سے زلزلے آتے اور شکلیں بگڑ جاتی ہیں ۔( روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۴۱، ۷ / ۴۶–۴۷، ملخصاً)
آیت اور اَحادیث کے خلاصے کو سامنے رکھتے ہوئے ہر ایک کو چاہئے کہ وہ موجودہ صورتِ حال پر غور کر لے کہ فی زمانہ بے حیائی عام ہونا،ناپ تول میں کمی کرنا ، لوگوں کے اَموال پر جبری قبضے کرنا،زکوٰۃ نہ دینا،جوا اورسود خوری وغیرہ، الغرض وہ کونسا گناہ ہے جو ہم میں عام نہیں اور شائد انہی اعمال کا نتیجہ ہے کہ آج کل لوگ ایڈز، کینسر اور دیگر جان لیوا اَمراض میں مبتلا ہیں ،ظالم حکمران ان پرمقرر ہیں ،بارش رک جانے یا حد سے زیادہ آنے کی آفت کا یہ شکار ہیں ، دشمن ان پر مُسَلَّط ہوتے جارہے ہیں ، قتل و غارت گری ان میں عام ہو چکی ہے، زلزلوں ،طوفانوں اور سیلاب کی مصیبتوں میں یہ پھنسے ہوئے ہیں ،تجارتی خسارے اور ہر چیز میں بے برکتی کا رونا یہ رو رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عقل ِسلیم عطا کرے اور اپنی بگڑی عملی حالت سدھارنے کی توفیق عطافرمائے۔
یہاں بہت سے لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ کافروں کے ممالک جہاں کفر و شرک اور زنا و گناہ سب کچھ عام ہے وہاں فساد کیوں نہیں ہے تو اس کے دو جواب ہیں ، اول یہ کہ کفار کو دنیا میں کئی اعتبار سے مہلت ملی ہوئی ہے لہٰذا وہ اس مہلت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور دوسرا جواب یہ ہے کہ فساد اور بربادی صرف مال کے اعتبار سے نہیں ہوتی بلکہ بیماریوں اور ذہنی پریشانیوں بلکہ اور بھی ہزاروں اعتبار سے بھی ہوتی ہے ، اب ذرا کفارکے ممالک میں جنم لینے والی اور پھیلنے والی نئی نئی بیماریوں کی معلومات جمع کرلیں یونہی یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ پاگل خانے، ذہنی مریض، دماغی سکون کی دواؤں کااستعمال، دماغی اَمراض کے مُعا لِجین، ذہنی مریضوں کے ادارے اور نفسیاتی ہسپتال بھی انہی کفار کے ممالک میں ہیں اور اسی طرح دنیا میں سب سے زیادہ طلاقیں ، ناجائز اولادیں ، بوڑھے والدین کو اولڈ ہومز میں پھینک کر بھول جانے کے واقعات ،یونہی دنیا میں سب سے زیادہ خودکشیاں بھی انہی ممالک میں ہیں ، جو ظاہرا ًتو بڑے خوشحال نظر آتے ہیں لیکن اندر سے گل سڑ رہے ہیں ۔
قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلُؕ-كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّشْرِكِیْنَ(42)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ: زمین پر چل کر دیکھو کہ ان سے پہلے لوگوں کا کیسا انجام ہوا؟ ان میں اکثر لوگ مشرک تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ: تم فرماؤ: زمین پر چل کر دیکھو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ فرما دیں کہ اے مشرکو! تم (اپنے سفر کے دوران) عذاب یافتہ قوموں کی سرزمین پر چل کر عبرت کی نگاہ سے دیکھ لو کہ تم سے پہلے برے لوگوں کا انجام کیسا ہوا؟ان میں اکثر لوگ مشرک اور باقی لوگ دیگرگناہوں میں مبتلا تھے تو جب انہیں ان کےشرک اور گناہوں کی وجہ سے ہلاک اور بربادکر دیا گیا تو کفارِ قریش اور دیگر مشرکوں میں سے جو اُن کے طریقے کو اختیار کئے ہوئے ہیں اور اپنے کفر پر قائم ہیں ،یہ بھی ان کی طرح ہلاک اور برباد کر دئیے جا سکتے ہیں ، لہٰذا انہیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈریں اور اپنے کفر و شرک سے باز آجائیں ۔( روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۴۲، ۷ / ۴۷، ملخصاً)
فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّیْنِ الْقَیِّمِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا مَرَدَّ لَهٗ مِنَ اللّٰهِ یَوْمَىٕذٍ یَّصَّدَّعُوْنَ(43)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو اس دن کے آنے سے پہلے اپنا منہ دینِ مستقیم کیلئے سیدھا کرلو جس دن کو الله کی طرف سے ٹلنا نہیں ہے۔اس دن لوگ الگ الگ ہوجائیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّیْنِ الْقَیِّمِ: تو اپنا منہ دین ِمستقیم کیلئے سیدھا کرلو۔} اس آیت میں خطاب نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہے اور مراد آپ اور آپ کی امت ہے اور معنی یہ ہیں کہ قیامت کا دن آنے سے پہلے پہلے دینِ اسلام پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہیں ، دینِ اسلام کو پھیلانے میں مشغول رہیں اور کافروں کے ایمان نہ لانے پر غمزدہ نہ ہوں اورقیامت کا دن ایسا ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ٹلنا نہیں ہے اوراس دن حساب کے بعد لوگ الگ الگ ہو جائیں گے کہ جنتی جنت کی طرف اور دوزخی دوزخ کی طرف چلے جائیں گے۔( مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۴۳، ص۹۱۰، جلالین مع صاوی، الروم، تحت الآیۃ: ۴۳، ۴ / ۱۵۸۵–۱۵۸۶، ملتقطاً)
مَنْ كَفَرَ فَعَلَیْهِ كُفْرُهٗۚ-وَ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِاَنْفُسِهِمْ یَمْهَدُوْنَ(44)
ترجمہ: کنزالعرفان
جس نے کفر کیا تو اس کے کفر کا وبال اسی پرہے اور جو اچھا کام کریں وہ اپنے ہی کیلئے تیاری کر رہے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{مَنْ كَفَرَ فَعَلَیْهِ كُفْرُهٗ: جس نے کفر کیا تو اس کے کفر کا وبال اسی پرہے۔} یعنی جس نے دنیا میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کیا تو اس کے کفر کا وبال اسی پرہے کہ اس کے کفر سے دوسرے نہ پکڑے جائیں گے بلکہ خود وہی پکڑا جائے گا اور جو اچھا کام کریں وہ اپنے فائدے ہی کیلئے تیاری کر رہے ہیں کہ جنت کے درجات میں راحت و آرام پائیں گے۔( روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۴۳، ۷ / ۴۷، ملخصاً)
ہمارے اعمال کا فائدہ یا نقصان ہمیں ہی ہو گا:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اعمال سے بے نیاز ہے اور ہم جو اچھا یا برا عمل کریں گے ا س کا فائدہ یا نقصان ہمیں ہی ہو گا،اسی چیز کو بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ- وَ اِنْ اَسَاْتُمْ فَلَهَا‘‘(بنی اسرائیل:۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اگر تم بھلائی کرو گے تو تم اپنے لئے ہی بہتر کرو گے اور اگر تم برا کرو گے تو تمہاری جانوں کیلئے ہی ہوگا۔
اورارشاد فرماتا ہے:
’’ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهٖ وَ مَنْ اَسَآءَ فَعَلَیْهَاؕ-وَ مَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ‘‘(حم السجدہ:۴۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو نیکی کرتا ہے وہ اپنی ذات کیلئے ہی کرتا ہے اور جو برائی کرتا ہے تو اپنے خلاف ہی وہ برا عمل کرتا ہے اور تمہارا رب بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔
اور جس طرح آخرت میں اچھے عمل کا فائدہ اور برے عمل کا نقصان عمل کرنے والے کوہو گا اسی طرح قبر میں بھی اچھے برے اعمال کا فائدہ اور نقصان اسے ہی ہو گا ۔جس کے عمل اچھے ہوں گے تو وہ اسے قبر میں اُنْسِیَّت پہنچائیں گے، اس کی قبر وسیع اور منور کر دیں گے اور اسے قبر میں دہشتوں اور مصیبتوں سے محفوظ رکھیں گے اور جس کے عمل برے ہوں گے تو وہ اسے قبر میں دہشت زدہ کریں گے،اس کی قبر کو تنگ اور اندھیری کر دیں گے اور اسے دہشتوں ، مصیبتوں اور عذاب سے نہ بچائیں گے۔ لہٰذا ہرایک کو چاہئے کہ وہ اپنی زندگی کو غنیمت جانتے ہوئے زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرے تاکہ یہ قبر کی طویل اور حشر کی نہ ختم ہونے والی زندگی میں اس کے کام آئیں اور وہ خود کوکفر،گمراہی ،بد مذہبی اور دیگر گناہوں سے بچائے تاکہ قبر و حشر میں اپنے برے اعمال کے نقصان سے محفوظ رہے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
اترتے چاند ڈھلتی چاندنی جو ہوسکے کرلے
اندھیرا پاکھ آتا ہے یہ دو دن کی اجالی ہے
اندھیرا گھر، اکیلی جان، دَم گھٹتا، دل اُکتاتا
خدا کو یاد کر پیارے وہ ساعت آنے والی ہے
لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْ فَضْلِهٖؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْكٰفِرِیْنَ(45)
ترجمہ: کنزالعرفان
تا کہ الله ان لوگوں کو اپنے فضل سے جزا عطا فرمائے جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے ۔بیشک وہ کافروں کوپسندنہیں کرتا۔
تفسیر: صراط الجنان
{لِیَجْزِیَ: تا کہ اللہ جزا عطا فرمائے۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ جولوگ اچھا کام اور نیک عمل کر رہے ہیں وہ اپنے ہی فائدے کے لئے کر رہے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے نیک اعمال کرنے والے مسلمانوں کو جزا عطا فرمائے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ قیامت کے دن لوگو ں کو اس لئے الگ الگ کر دیا جائے گا تاکہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان لوگوں کو صلہ عطا فرمائے جنہوں نے ایمان قبول کیا اور نیک اعمال کئے۔بے شک اللہ تعالیٰ کافروں کوپسندنہیں کرتا بلکہ وہ کافر سے ناراض ہے اور اسے سخت سزا دے گا۔( قرطبی، الروم، تحت الآیۃ: ۴۵، ۱۴ / ۳۲، الجزء الرابع عشر، جلالین، الروم، تحت الآیۃ: ۴۵، ص۳۴۴، روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۴۵، ۷ / ۴۸، ملتقطاً)
نیک اعما ل کی جز املنا محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے:
اس سے معلوم ہوا کہ بندے کو ا س کے نیک اعمال کا صلہ دینا اور نیک اعمال کے بدلے اسے ثواب اور جزا دینا اللہ تعالیٰ پر لازم نہیں اور وہ نیک لوگوں کو ان کی نیکیوں کا جو بھی اجر عطا فرمائے گا وہ صرف اس کا فضل و کرم ہے.
وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ یُّرْسِلَ الرِّیَاحَ مُبَشِّرٰتٍ وَّ لِیُذِیْقَكُمْ مِّنْ رَّحْمَتِهٖ وَ لِتَجْرِیَ الْفُلْكُ بِاَمْرِهٖ وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(46)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ وہ خوشخبری دیتی ہوئی ہوائیں بھیجتا ہے اور تاکہ تمہیں اپنی رحمت کا مزہ چکھائے اور تاکہ اس کے حکم سے کشتی چلے اورتاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو اور تاکہ تم شکر گزار ہوجاؤ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مِنْ اٰیٰتِهٖ: اور اس کی نشانیوں میں سے ہے۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور قدرت کی نشانیوں میں سے ہے کہ وہ بارش اور پیداوار کی کثرت کی خوشخبری دیتی ہوئی ہوائیں بھیجتا ہے اور وہ اس لئے ہوائیں بھیجتا ہے تاکہ تمہیں اپنی رحمت یعنی بارش کا مزہ چکھائے اور وہ اس لئے ہوائیں بھیجتا ہے تاکہ ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے حکم سے دریا میں کشتی چلے اور تم سمندر ی سفر کے ذریعے اس کا فضل یعنی رزق تلاش کرو اور ا س لئے کہ تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا حق مانو اوراس کی وحدانیت پر ایمان لا کر شکر گزار بندے بن جاؤ۔( خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۴۶، ۳ / ۴۶۶، جلالین، الروم، تحت الآیۃ: ۴۶، ص۳۴۴، روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۴۶، ۷ / ۴۹–۵۰، ملتقطاً)
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ رُسُلًا اِلٰى قَوْمِهِمْ فَجَآءُوْهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَانْتَقَمْنَا مِنَ الَّذِیْنَ اَجْرَمُوْاؕ-وَ كَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ(47)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ہم نے تم سے پہلے کتنے رسول ان کی قوم کی طرف بھیجے تو وہ ان کے پا س کھلی نشانیاں لائے پھر ہم نے مجرموں سے انتقام لیا اور مسلمانوں کی مدد کرناہمارے ذمہ ٔکرم پر ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ رُسُلًا اِلٰى قَوْمِهِمْ: اور بیشک ہم نے تم سے پہلے کتنے رسول ان کی قوم کی طرف بھیجے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جس طرح ہم نے آپ کو آ پ کی قوم کی طرف بھیجا اسی طرح ہم نے آپ سے پہلے کتنے رسول ان کی قوم کی طرف بھیجے اور جس طرح آپ اپنی قوم کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے اسی طرح وہ رسول بھی اپنی قوموں کے پا س کھلی نشانیاں لائے جواُن رسولوں کی رسالت کی تصدیق پر واضح دلیل تھیں ، لیکن ان کی قوم میں سے بعض لوگ ایمان لائے اور بعض نے کفر کیا۔پھر ان رسولوں پر ایمان نہ لانے کی وجہ سے ہم نے مجرموں سے انتقام لیا کہ دنیا میں اُنہیں عذاب میں مبتلا کرکے ہلاک کردیا اور اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مسلمانوں کو نجات دینا اور کافروں کو ہلاک کرنا ہمارے ذمہ ِکرم پرہے۔ آیت کے آخری حصے میں نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو آخرت کی کامیابی اور دشمنوں پر فتح و نصرت کی بشارت دی گئی ہے۔( ابو سعود، الروم، تحت الآیۃ: ۴۷، ۴ / ۲۸۲، خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۴۷، ۳ / ۴۶۶، مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۴۷، ص۹۱۱، ملتقطاً)
مسلمان بھائی کی آبرو بچانے کی فضیلت:
حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو مسلمان اپنے بھائی کی آبرو بچائے گا اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن جہنم کی آگ سے بچائے گا، یہ فرما کرسرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
’’كَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: مسلمانوں کی مدد کرناہمارے ذمۂ کرم پر ہے۔(شرح السنہ، کتاب البرّ والصلۃ، باب الذبّ عن المسلمین، ۶ / ۴۹۴، الحدیث: ۳۴۲۲)
اَللّٰهُ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ فَتُثِیْرُ سَحَابًا فَیَبْسُطُهٗ فِی السَّمَآءِ كَیْفَ یَشَآءُ وَ یَجْعَلُهٗ كِسَفًا فَتَرَى الْوَدْقَ یَخْرُ جُ مِنْ خِلٰلِهٖۚ-فَاِذَاۤ اَصَابَ بِهٖ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖۤ اِذَا هُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ(48)وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ یُّنَزَّلَ عَلَیْهِمْ مِّنْ قَبْلِهٖ لَمُبْلِسِیْنَ(49)
ترجمہ: کنزالعرفان
الله ہی ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے تووہ ہوائیں بادل ابھارتی ہیں پھر الله اس بادل کو آسمان میں جیساچاہتا ہے پھیلا دیتا ہے اور (کبھی) اسے ٹکڑے ٹکڑے کردیتا ہے تو تو دیکھتاہے کہ اس کے بیچ میں سے بارش نکلتی ہے پھر جب اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس تک وہ بارش پہنچاتا ہے توجبھی وہ خوش ہوجاتے ہیں ۔ اگرچہ اس بارش کے اتارے جانے سے پہلے وہ بڑے ناامید ہوتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَللّٰهُ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ: اللہ ہی ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اپنی حکمت کے موافق ہواؤں کو بھیجتا ہے تو وہ ہوائیں بادل اٹھا کر لاتی ہیں ، پھر اللہ تعالیٰ اپنی مَشِیَّت کے مطابق کبھی اس بادل کو آسمان میں پھیلا دیتا ہے کہ ہر طرف بادل چھائے ہوتے ہیں اورکبھی اسے ٹکڑے ٹکڑے کردیتا ہے کہ کہیں بادل اور کہیں خالی جگہ ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس بادل کے بیچ میں سے بارش نکلتی نظر آتی ہے، پھر جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جن کے شہروں اور سرزمین کی طرف چاہتا ہے ان تک وہ بارش پہنچاتا ہے اور جب بارش ہوتی ہے تو وہ بندے خوش ہوجاتے ہیں حالانکہ اس بارش کے نازل کئے جانے سے پہلے وہ لوگ بارش ہونے سے بڑے ناامید ہو چکے ہوتے ہیں ۔ (مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۴۸–۴۹، ص۹۱۱، روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۴۸–۴۹، ۷ / ۵۱، ملتقطاً)
فَانْظُرْ اِلٰۤى اٰثٰرِ رَحْمَتِ اللّٰهِ كَیْفَ یُحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَاؕ-اِنَّ ذٰلِكَ لَمُحْیِ الْمَوْتٰىۚ-وَ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(50)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو الله کی رحمت کے نشانات دیکھو کہ وہ کس طرح زمین کو مردہ ہونے کے بعد زندہ کرتا ہے بیشک وہ مردوں کو زندہ کرنے والا ہے اور وہ ہر شے پر قادر ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَانْظُرْ اِلٰۤى اٰثٰرِ رَحْمَتِ اللّٰهِ: تو اللہ کی رحمت کے نشانات دیکھو۔} ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! اللہ تعالیٰ کی رحمت یعنی بارش نازل ہونے پر مُرَتَّب ہونے والے نشانات دیکھو کہ بارش زمین کو سیراب کرتی ہے ،پھر اس سے سبزہ نکلتا ہے، سبزے سے پھل پیدا ہوتے ہیں اور پھلوں میں غذائیت ہوتی ہے اور اس سے جانداروں کے جسمانی نظام کو مدد پہنچتی ہے اور یہ دیکھو کہ اللہ تعالیٰ یہ سبزے اور پھل پیدا کرکے کس طرح خشک ہوجانے والی زمین کوسرسبز و شاداب بنا دیتا ہے اور جس نے خشک زمین کوسرسبز کر دیا وہ بے شک مُردوں کو زندہ کرے گا اور وہ ہراس چیز پر قادر ہے جو اس کی قدرت کے تحت آنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔( روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۵۰، ۷ / ۵۲، ابو سعود، الروم، تحت الآیۃ: ۵۰، ۴ / ۲۸۳ ، مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۵۰، ص۹۱۲، ملتقطاً)
وَ لَىٕنْ اَرْسَلْنَا رِیْحًا فَرَاَوْهُ مُصْفَرًّا لَّظَلُّوْا مِنْۢ بَعْدِهٖ یَكْفُرُوْنَ(51)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اگر ہم کوئی ہوابھیجیں جس سے وہ کھیتی کو زرد دیکھیں تو ضرور اس کے بعد ناشکری کرنے لگیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَىٕنْ اَرْسَلْنَا رِیْحًا: اور اگر ہم کوئی ہوابھیجیں ۔} اس سے پہلی آیات میں بیان ہواکہ بارش رک جانے سے لوگ مایوس ہوجاتے ہیں اور بارش ہوتی دیکھ کر خوش ہو جاتے ہیں اور اس آیت میں بیان فرمایا کہ ان کی یہ حالت ہمیشہ نہیں رہتی بلکہ اگر ہم کوئی ایسی ہو ابھیجیں جو کھیتی اور سبزے کے لئے نقصان دِہ ہو،پھر وہ کھیتی کو سرسبز و شاداب ہونے کے بعد زرد دیکھیں تو ضرور کھیتی زرد ہونے کے بعد ناشکری کرنے لگیں گے اور پہلی نعمت سے بھی مکر جائیں گے۔ مراد یہ ہے کہ ان لوگوں کی حالت یہ ہے کہ جب انہیں رحمت پہنچتی ہے، رزق ملتا ہے تو وہ خوش ہوجاتے ہیں اور جب کوئی سختی آتی ہے، کھیتی خراب ہو تی ہے توپہلی نعمتوں سے بھی مکر جاتے ہیں حالانکہ انہیں چاہئے تو یہ تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ پر توکّل کرتے اور جب نعمت پہنچتی توشکر بجالاتے اور جب بلا آتی توصبر کرتے اور دعا و اِستغفار میں مشغول ہوجاتے۔(تفسیرکبیر، الروم، تحت الآیۃ: ۵۱، ۹ / ۱۰۹، ابو سعود، الروم، تحت الآیۃ: ۵۱، ۴ / ۲۸۳، روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۵۱، ۷ / ۵۴، ملتقطاً)
فَاِنَّكَ لَا تُسْمِـعُ الْمَوْتٰى وَ لَا تُسْمِـعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ(52)
ترجمہ: کنزالعرفان
پس بیشک تم مُردوں کو نہیں سناسکتے اور نہ بہروں کو پکار سنا سکتے ہو جب وہ پیٹھ دے کر پھر یں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَاِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى: پس بیشک تم مُردوں کو نہیں سناسکتے۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے حبیبِ اکرم،سَرورِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کافروں کی محرومی اور ان کے ایمان نہ لانے پر رنجیدہ نہ ہوں کیونکہ جن کے دل مرچکے اور ان سے کسی طرح حق بات کو قبول کرنے کی توقُّع نہیں رہی ،آپ انہیں حق بات نہیں سنا سکتے، اسی طرح جو لوگ حق بات سننے سے بہرے ہوں اور بہرے بھی ایسے کہ پیٹھ دے کر پھر گئے اور ان سے کسی طرح سمجھنے کی اُمید نہیں تو آپ ان بہروں کو حق کی کوئی پکار نہیں سنا سکتے ۔
اس آیت سے بعض لوگوں نے مُردوں کے نہ سننے پر اِستدلال کیا ہے مگر یہ استدلال صحیح نہیں کیونکہ یہاں مردوں سے مراد موت کا شکار ہونے والے لوگ نہیں بلکہ مردہ دل کفار مراد ہیں جن کے دل مرے ہوئے ہیں جو دُنْیَوی زندگی تو رکھتے ہیں مگر وعظ ونصیحت سے فائدہ حاصل نہیں کرتے ،اس لئے انہیں مُردوں سے تشبیہ دی گئی کیونکہ مردے عمل کے مقام سے گزر گئے ہوتے ہیں اور وہ وعظ و نصیحت سے فائدہ حاصل نہیں کر سکتے۔ لہٰذا اس آیت سے مردوں کے نہ سننے پر دلیل پیش کرنا درست نہیں اور بکثرت اَحادیث سے مُردوں کا سننا اور اپنی قبروں پر زیارت کیلئے آنے والوں کو پہچاننا ثابت ہے۔
وَ مَاۤ اَنْتَ بِهٰدِ الْعُمْیِ عَنْ ضَلٰلَتِهِمْؕ-اِنْ تُسْمِـعُ اِلَّا مَنْ یُّؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا فَهُمْ مُّسْلِمُوْنَ(53)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور نہ تم اندھو ں کو ان کی گمراہی سے سیدھا راستہ دکھا سکتے ہو تو تم اسی کو سناسکتے ہو جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں پھر وہ فرمانبردار ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَاۤ اَنْتَ بِهٰدِ الْعُمْیِ عَنْ ضَلٰلَتِهِمْ: اور نہ تم اندھو ں کو ان کی گمراہی سے سیدھا راستہ دکھا سکتے ہو۔} یہاں بھی اندھوں سے دل کے اندھے مراد ہیں ۔ (مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۵۳، ص۹۱۲)
{اِنْ تُسْمِعُ اِلَّا مَنْ یُّؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا: تو تم اسی کو سناسکتے ہو جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں ۔} اس سے پہلی آیات میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دل کے مُردوں ، بہروں اوراندھوں کوسناسکنے کی نفی کی گئی جبکہ اس آیت میں نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے اللہ تعالیٰ کی آیتوں پر ایمان لانے والوں کو سناسکنا ثابت کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مومن (دل کا) زندہ ہے اور سن سکتا ہے کیونکہ جب مومن کے دل پر دلائل کی بارش ہوتی ہے تو اس میں سچے عقائد پیدا ہوتے ہیں اور جب وہ وعظ و نصیحت سنتا ہے تو اس سے نیک افعال صادر ہوتے ہیں۔(تفسیرکبیر، الروم، تحت الآیۃ: ۵۳، ۹ / ۱۱۱، ملخصاً)
اَللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ ضُؔعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ ضُؔعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ ضُؔعْفًا وَّ شَیْبَةًؕ-یَخْلُقُ مَا یَشَآءُۚ-وَ هُوَ الْعَلِیْمُ الْقَدِیْرُ(54)
ترجمہ: کنزالعرفان
الله ہی ہے جس نے تمہیں کمزور پیدا فرمایا پھر تمہیں کمزوری کے بعد قوت بخشی پھر قوت کے بعد کمزوری اور بڑھاپا دیا ۔ وہ جوچاہتا ہے پیدا کرتا ہے ،وہی علم والا،بڑی قدرت والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ ضُؔعْفٍ: اللہ ہی ہے جس نے تمہیں کمزور پیدا فرمایا۔} اس آیت میں انسان کے مختلف احوال کی طرف اشارہ کیا گیاہے کہ پہلے وہ ماں کے پیٹ میں ایک لوتھڑا تھا، پھر بچہ بن کر پیدا ہوا اورشِیر خوار رہا ،یہ اَحوال انتہائی ضُعف اور کمزوری کے ہیں ۔ پھر تمہیں بچپن کی کمزوری کے بعد جوانی کی قوت عطا فرمائی،پھر جوانی کی قوت کے بعد کمزوری اور بڑھاپا دیا۔ اللہ تعالیٰ جس چیزکو چاہے پیدا کرتا ہے اور کمزوری ، قوت ، جوانی اور بڑھاپا یہ سب اللہ تعالیٰ کے پیدا کئے سے ہیں جو ظاہری اسباب کے اعتبار سے ایک طبعی عمل ہے لیکن حقیقت میں ارادہ ِ الٰہی کی وجہ سے ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق اور اندازِ تخلیق کو جانتا ہے اور اسے ایک حال سے دوسرے حال کی طرف بدلنے پربڑی قدرت رکھنے والا ہے۔
وَ یَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ یُقْسِمُ الْمُجْرِمُوْنَ ﳔ مَا لَبِثُوْا غَیْرَ سَاعَةٍؕ-كَذٰلِكَ كَانُوْا یُؤْفَكُوْنَ(55)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جس دن قیامت قائم ہو گی مجرم قسم کھائیں گے کہ وہ تو صرف ایک گھڑی ہی رہے ہیں ۔ اسی طرح وہ اوندھے جاتے تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ: اور جس دن قیامت قائم ہوگی۔} ارشاد فرمایا کہ جس دن قیامت قائم ہو گی ا س دن مجرم قسم کھا کر کہیں گے کہ وہ صرف ایک گھڑی ہی ٹھہرے ہیں یعنی آخرت کو دیکھ کر مجرم کو دنیا یا قبر میں رہنے کی مدت بہت تھوڑی معلوم ہوگی ،اس لئے وہ اس مدت کو ایک گھڑی سے تعبیرکریں گے۔ مزیدفرمایا کہ اسی طرح وہ پھیرے جاتے تھے یعنی ایسے ہی دنیا میں غلط اور باطل باتوں پر جمتے اور حق سے پھرتے تھے اور مرنے کے بعد اٹھائے جانے کا انکار کرتے تھے جیسا کہ اب قبر یا دنیا میں ٹھہرنے کی مدت کو قسم کھا کر ایک گھڑی بتارہے ہیں ۔ ان کی اس قسم سے اللہ تعالیٰ انہیں تمام اہلِ مَحشر کے سامنے رسوا کرے گا اور سب دیکھیں گے کہ ایسے مجمعِ عام میں قسم کھا کر ایسا صریح جھوٹ بول رہے ہیں۔(خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۵۵، ۳ / ۴۶۷، مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۵۵، ص۹۱۳، ملتقطاً)
وَ قَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَ الْاِیْمَانَ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ اِلٰى یَوْمِ الْبَعْثِ٘-فَهٰذَا یَوْمُ الْبَعْثِ وَ لٰكِنَّكُمْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(56)
ترجمہ: کنزالعرفان
اورجنہیں علم اور ایمان دیا گیا وہ کہیں گے:بیشک الله کے لکھے ہوئے میں تم مرنے کے بعد اٹھنے کے دن تک رہے ہو تو یہ مرنے کے بعد اٹھنے کا دن ہے لیکن تم نہ جانتے تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَ الْاِیْمَانَ: اورجنہیں علم اور ایمان دیا گیا وہ کہیں گے۔} یعنی انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، فرشتے اور مومنین اُن کا رد کریں گے اور فرمائیں گے کہ تم جھوٹ کہتے ہو۔بے شک جو اللہ تعالیٰ نے اپنے سابق علم میں لوحِ محفوظ میں لکھا ہوا ہے کہ تم مرنے کے بعد اٹھنے کے دن تک وہاں ٹھہرے ہو اور اب جہاں تم موجود ہو وہ مرنے کے بعد اٹھنے کا دن یعنی قیامت کا دن ہے جس کاتم دنیا میں انکار کرتے تھے ،اور تم نہ جانتے تھے کہ یہ حق ہے اور ضرور واقع ہوگا۔ اب تم نے جان لیاکہ وہ دن آگیا اور اس کا آنا حق تھا لیکن ا ب اس وقت کا جاننا تمہیں کوئی نفع نہ دے گا۔( خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۵۶، ۳ / ۴۶۷، مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۵۶، ص۹۱۳، ملتقطاً
فَیَوْمَىٕذٍ لَّا یَنْفَعُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَعْذِرَتُهُمْ وَ لَا هُمْ یُسْتَعْتَبُوْنَ(57)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو ا س دن ظالموں کوان کا معافی مانگنا نفع نہ دے گا اور نہ ان سے رجوع کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَیَوْمَىٕذٍ: تو ا س دن۔} یعنی قیامت کے دن ظالموں کوان کا معافی مانگنا کوئی نفع نہ دے گا اور نہ اُن سے یہ کہا جائے گا کہ توبہ کرکے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو راضی کرلو جیسا کہ دنیا میں ان سے توبہ طلب کی جاتی تھی کیونکہ اس وقت توبہ اور طاعت مقبول نہیں ۔( روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۵۷، ۷ / ۵۹)
گناہگار مسلمانوں کے لئے نصیحت :
اس آیت میں ان گناہگار مسلمانوں کے لئے بھی نصیحت ہے کہ جو اپنی زندگی کے قیمتی لمحات گناہوں میں صَرف کر رہے ہیں اور اُن سے توبہ کی طرف اِن کا دل مائل نہیں ہو رہا،انہیں اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ اگر توبہ کئے بغیر مر گئے تو آخرت میں گناہوں پر پکڑ بھی ہو سکتی ہے اور توبہ کا وقت دنیا کی زندگی ہے ،آخرت میں توبہ کرنا کچھ کام نہ دے گا، لہٰذاانہیں چاہئے کہ اپنی زندگی کو غنیمت جان کر موت سے پہلے اپنے اعمال کا مُحاسبہ کر لیں اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں گناہوں سے سچی توبہ کر کے نیک اعمال میں مصروف ہو جائیں ۔کثیر اَحادیث میں اس کی بہت ترغیب دی گئی ہے، یہاں ان میں سے 3اَحادیث ملاحظہ ہوں ،چنانچہ
(1)… حضرت جابر بن عبد اللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو! مرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کر لو اور مشغولیّت سے پہلے نیک اعمال میں جلدی کرلو۔( ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب فی فرض الجمعۃ، ۲ / ۵، الحدیث: ۱۰۸۱)
(2)…حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک شخص سے نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو۔ (1)بڑھاپے سے پہلے جوانی کو۔(2) بیماری سے پہلے تندرستی کو۔(3) فقیری سے پہلے مالداری کو۔ (4) مشغولیّت سے پہلے فُرصت کو۔ (5) اور اپنی موت سے پہلے زندگی کو۔(مستدرک، کتاب الرقاق، نعمتان مغبون فیہما کثیر من الناس۔۔۔ الخ، ۵ / ۴۳۵، الحدیث: ۷۹۱۶)
(3)… حضرت شداد بن اوس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’عقلمند وہ شخص ہے جو اپنا مُحاسبہ کرے اورموت کے بعد کے لئے عمل کرے، جبکہ عاجز وہ ہے جو اپنے آپ کو خواہشات کے پیچھے لگا دے اور اللہ تعالیٰ سے امید رکھے۔
امام ترمذی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’اس حدیث میں مذکور الفاظ ’’مَنْ دَانَ نَفْسَہٗ‘‘ کا مطلب قیامت کے حساب سے پہلے (دنیا ہی میں ) نَفس کا محاسبہ کرنا ہے۔
حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ اپنے نفسوں کا محاسبہ کرو ا س سے پہلے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے اور بڑی پیشی کے لئے تیار ہو جاؤ۔قیامت کے دن اس آدمی کا حساب آسان ہو گا جس نے دنیا ہی میں اپنا حساب کر لیا۔
حضرت میمون بن مہران رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ بندہ اس وقت تک پرہیز گار شمار نہیں ہوتا جب تک اپنے نفس کا ایسے محاسبہ نہ کرے جیسے اپنے شریک کا کرتا ہے کہ اس نے کہاں سے کھایا اور کہاں سے پہنا۔( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ۔۔۔ الخ، ۲۵-باب، ۴ / ۲۰۷، الحدیث: ۲۴۶۷)
اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کواپنے اعمال کا محاسبہ کرنے، گناہوں سے بچنے ،توبہ کرنے اور نیک اعمال میں مصروف ہونے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
وَ لَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِیْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍؕ-وَ لَىٕنْ جِئْتَهُمْ بِاٰیَةٍ لَّیَقُوْلَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا مُبْطِلُوْنَ(58)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ہم نے لوگوں کے لئے اس قرآن میں ہر قسم کی مثال بیان فرمائی اور اگر تم ان کے پاس کوئی نشانی لاؤ تو ضرور کافر کہیں گے تم تو نہیں مگر باطل پر۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِیْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ: اور بیشک ہم نے لوگوں کے لئے اس قرآن میں ہر قسم کی مثال بیان فرمائی۔} یعنی ہم نے ا س قرآن میں لوگوں کے لئے ہر طرح کی مثال بیان فرما دی جس کی انہیں دین اور دنیا میں حاجت ہے اور اس میں غورو فکر اور تَدَبُّر کرنے والا ہدایت اور نصیحت حاصل کر سکتا ہے اور مثالیں اس لئے بیان فرمائی گئیں کہ کافروں کو تنبیہ ہو اور انہیں عذاب سے ڈرانا اپنے کمال کو پہنچے ،لیکن انہوں نے اپنی سیاہ باطنی اور سخت دلی کے باعث کچھ بھی فائدہ نہ اٹھایا بلکہ جب کوئی آیت ِقرآن آئی اس کو جھٹلا دیا اور اس کا انکار کر دیا۔( روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۵۸، ۷ / ۶۰، مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۵۸، ص۹۱۳–۹۱۴، ملتقطاً)
گناہ کے تین درجے:
صُوفیاء فرماتے ہیں کہ گناہ کے تین درجے ہیں ۔ ادنیٰ درجہ یہ کہ مجرم اپنے آپ کو گنہگار جانتا ہوا گناہ کرے اور سمجھانے پر کم از کم شرمندہ ہو جائے اس کی معافی اِنْ شَاءَ اللہ ہو جائے گی۔ اس سے اوپر درجہ یہ ہے کہ انسان اپنے گناہ سے لاپروا ہو جائے۔ گناہ کرے، نادم نہ ہو، کبھی یہ سوچے بھی نہیں کہ میں کیا کر رہا ہوں ۔ اس بیماری سے شفاء بمشکل ہوتی ہے ۔اس کے اوپر یہ کہ اپنے گناہوں کو اچھا سمجھے، دوسروں کی نیکیوں کو برا جانے ،گناہوں پر فخرکرے اور نیکیوں پر طعنہ کرے، یہ دل کی مُہر کا باعث ہے ۔ یہاں آیت میں کفار کا یہی تیسرا درجہ بیان ہوا ہے۔
كَذٰلِكَ یَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ(59)فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّ لَا یَسْتَخِفَّنَّكَ الَّذِیْنَ لَا یُوْقِنُوْنَ(60)
ترجمہ: کنزالعرفان
اسی طرح اللہ جاہلوں کے دلوں پرمہر لگا دیتا ہے۔ تو صبر کرو بے شک الله کا وعدہ سچا ہے اور یقین نہ کرنے والے تمہیں طیش پر نہ ابھاریں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{كَذٰلِكَ: اسی طرح۔} یعنی جس طرح ان لوگوں کے دلوں پر مہر لگا دی اسی طرح ان جاہلوں کے دلوں پر بھی اللہ تعالیٰ مہر لگا دیتا ہے جن کے بارے میں جانتا ہے کہ وہ گمراہی اختیار کریں گے اور حق والوں کو باطل پر بتائیں گے۔(جلالین، الروم، تحت الآیۃ: ۹، ص۳۴۵، مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۵۹، ص۹۱۴، ملتقطاً)
{فَاصْبِرْ: تو صبر کرو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اِن کفار کی ایذا اور عداوت پر صبر کریں ، بے شک آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مدد فرمانے کا اور دین ِاسلام کو تمام دینوں پر غالب کرنے کا اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ فرمایا وہ سچا ہے اور یہ وعدہ ضرور پورا ہوگا اور یہ لوگ جنہیں آخرت کا یقین نہیں ہے اور قیامت کے دن دوبارہ زندہ کئے جانے اور حساب کے منکر ہیں ، ان کی شِدّتیں اور ان کے انکار اور اُن کی نالائق حرکات آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے طیش اوررنج کا باعث نہ ہوں اور ایسا نہ ہو کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اُن کے حق میں عذاب کی دعا کرنے میں جلدی فرمادیں ۔(مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۶۰، ص۹۱۴، خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۶۰، ۳ / ۴۶۸، ملتقطاً)