سُوْرَۃ الرَّحْمَٰن

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

وَ الصّٰٓفّٰتِ صَفًّا(1)فَالزّٰجِرٰتِ زَجْرًا(2)

ترجمہ: کنزالعرفان

ان کی قسم جو باقاعدہ صفیں باندھے ہوئے ہیں ۔ پھر ان کی قسم جو جھڑک کر چلانے والے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ الصّٰٓفّٰتِ صَفًّا: ان کی قسم جو باقاعدہ صفیں  باندھے ہوئے ہیں ۔} اس آیت میں  اللہ تعالیٰ نے چند گروہوں  کی قسم یاد فرمائی،ان کے بارے میں  مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ ان سے مراد فرشتوں  کے گروہ ہیں  جو نمازیوں  کی طرح صف بستہ ہو کر اللہ تعالیٰ کے حکم کے منتظر رہتے ہیں ۔دوسرا قول یہ ہے کہ ان سے علماء ِدین کے گروہ مراد ہیں  جو تَہَجُّد اور تمام نمازوں  میں  صفیں  باندھ کر عبادت میں  مصروف رہتے ہیں  ۔تیسرا قول یہ ہے کہ ان سے مراد غازیوں  کے گروہ ہیں  جو راہِ خدا میں  صفیں  باندھ کر دشمنانِ حق کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں ۔( مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۱، ص۹۹۷، ملخصاً)

 جہاد میں  اور نماز میں  صفیں  باندھنے والوں  کی فضیلت:

            یہاں  صف باندھنے والوں  کی قسم ارشاد فرمانے سے معلوم ہو اکہ صف باندھنا بہت اہمیت اور فضیلت کا باعث ہے، اسی مناسبت سے یہاں  جہاد میں  صف باند ھ کر لڑنے کی اور نماز میں  صف باندھنے کی فضیلت ملاحظہ ہو، چنانچہ جہاد میں  صفیں  باندھ کر لڑنے والوں  کے بارے میں  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :

’’اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِهٖ صَفًّا كَاَنَّهُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ‘‘(الصف:۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اللہ ان لوگوں  سے محبت فرماتا ہے جو اس کی راہ میں  اس طرح صفیں  باندھ کر لڑتے ہیں  گویا وہ سیسہ پلائی دیوار ہیں۔

            اور نماز میں  صف باندھنے کے بارے میں حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبیٔ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’(اے لوگو!) نماز میں  صف کو قائم کرو کیونکہ صف کو قائم کرنا نماز کے حسن میں  سے ہے۔( بخاری، کتاب الاذان، باب اقامۃ الصفّ من تمام الصلاۃ، ۱ / ۲۵۷، الحدیث: ۷۲۲)

{فَالزّٰجِرٰتِ زَجْرًا: پھر ان کی قسم جو جھڑک کر چلانے والے ہیں ۔} اس سے پہلی آیت میں  صفیں  بنانے والوں کی تفسیر میں  ذکر کردہ تین اَقوال میں  سے پہلے قول کے مطابق یہاں  جھڑک کر چلانے والوں  سے مراد وہ فرشتے ہیں  جو بادل پر مقرر ہیں  اور اس کو حکم دے کر چلاتے ہیں  اور دوسرے قول کے مطابق ان سے علماء مراد ہیں جو وعظ و نصیحت سے لوگوں  کو جھڑک کریعنی بعض اوقات موقع محل اور موضوع کی مناسبت سخت الفاظ کے ساتھ دین کی راہ پرچلاتے ہیں  اور تیسرے قول کے مطابق ان سے غازی مراد ہیں  جو گھوڑوں  کو ڈپٹ کر جہاد میں  چلاتے ہیں ۔( مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۲، ص۹۹۷، ملخصاً)

فَالتّٰلِیٰتِ ذِكْرًا(3)اِنَّ اِلٰهَكُمْ لَوَاحِدٌﭤ(4)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر قرآن کی تلاوت کرنے والوں کی قسم۔ بیشک تمہارا معبود ضرور ایک ہے۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَالتّٰلِیٰتِ ذِكْرًا: پھر قرآن کی تلاوت کرنے والوں  کی قسم۔} اس آیت میں  بھی قرآنِ مجید کی تلاوت کرنے والوں  سے مراد وہ فرشتے ہیں  جو نماز میں  تلاوت کرتے ہیں  ، یا وہ علماء مراد ہیں  جو اپنے درس اوربیانات میں  قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے ہیں  یا وہ غازی مراد ہیں  جو جہاد کرتے وقت قرآنِ پاک کی تلاوت کرتے ہیں ۔( مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۳، ص۹۹۷، ملخصاً)

تلاوتِ قرآن بڑی اعلیٰ عبادت ہے:

            اس آیت میں  اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک کی تلاوت کرنے والوں  کی قسم یاد فرمائی ،اس سے معلوم ہوا کہ تلاوتِ قرآن بڑی اعلیٰ عبادت ہے ، لہٰذا اسے سفر وحَضر کسی حال میں  بھی نہ چھوڑا جائے۔ترغیب کے لئے یہاں  اس سے متعلق دو اَحادیث ملاحظہ ہوں ،

(1)…حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم اپنی آنکھوں  کو عبادت میں  سے ان کا حصہ دیا کرو۔عرض کی گئی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، عبادت میں  سے آنکھوں  کا حصہ کیا ہے؟ارشاد فرمایا: ’’دیکھ کرقرآنِ پاک کی تلاوت کرنا، اس (کی آیات اور معانی) میں  غورو فکر کرنا اور اس میں  ذکر کئے گئے عجائبات پڑھتے وقت نصیحت حاصل کرنا۔( شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی القراء ۃ من المصحف، ۲ / ۴۰۸، الحدیث: ۲۲۲۲)

(2)…حضرت عبادہ بن صامت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میرے امتی کی افضل عبادت قرآنِ پاک کی تلاوت کرنا ہے۔( نوادر الاصول، الاصل الخامس والخمسون والمائتان، ۲ / ۱۰۴۱، الحدیث: ۱۳۴۳)

            اللہ تعالیٰ ہمیں  قرآنِ عظیم کی تلاوت کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

{اِنَّ اِلٰهَكُمْ: بیشک تمہارا معبود۔} کفارِ مکہ تعجب کے طور پر نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں  کہا کرتے تھے کہ

’’ اَجَعَلَ الْاٰلِهَةَ اِلٰهًا وَّاحِدًا ۚۖ-اِنَّ هٰذَا لَشَیْءٌ عُجَابٌ‘‘(سورۃ ص:۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: کیا اس نے بہت سارے خداؤں  کو ایک خدا کردیا؟بیشک یہ ضروربڑی عجیب بات ہے۔

            اس پر اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا چیزوں  کی قسم یاد فرما کر ان کی عظمت و شرافت بھی بیان کر دی اور بتوں  کے پجاریوں  کا رد کرتے ہوئے فرمادیا کہ اے اہلِ مکہ! بیشک تمہارا معبود ضرور ایک ہے،اس کا کوئی شریک نہیں  ،لہٰذا تم بتوں  کو اپنا معبود قرار نہ دو۔حقیقی اعتبار سے اس آیت میں  تمام انسانوں سے خطاب کیا گیا ہے۔( خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۱۴، روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۴، ۷ / ۴۴۶، ملتقطاً)

رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَا وَ رَبُّ الْمَشَارِقِﭤ(5)

ترجمہ: کنزالعرفان

آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب ہے اور مشرقوں کامالک ہے۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ: آسمانوں  اور زمین کامالک ہے۔} اس آیت میں  بیان فرمایا کہ آسمان اور زمین اور ان کی درمیانی کائنات اور تمام حدودو جِہات سب کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے تو کوئی دوسرا کس طرح عبادت کا مستحق ہوسکتا ہے، لہٰذا وہ شریک سے مُنَزَّہ ہے۔(روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۵، ۷ / ۴۴۷، خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۱۴، ملتقطاً)

ربُّ العالَمین کی بارگاہ میں  سیّد المرسَلین کا مقام:

            یہاں  ایک نکتہ قابلِ ذکر ہے کہ ان آیات میں  اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیّت اور اپنی صفات کوآیات میں  مذکور چیزوں  کی قسم کے ساتھ بیان کیا جبکہ قرآنِ پاک میں  ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت و رسالت کو جب بیان کیا تو کسی جگہ قرآن کی قسم اور کسی جگہ اپنی رَبُوبِیّت کی قسم کے ساتھ بیان فرمایا، جیسا کہ سورۂ یٰسین میں  ارشاد فرمایا:

’’وَ الْقُرْاٰنِ الْحَكِیْمِۙ(۲) اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ‘‘(یس:۲، ۳)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: حکمت والے قرآن کی قسم۔بیشک تم  رسولوں  میں  سے ہو۔

            سورۂ  نساء میں  ارشاد فرمایا:’’فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ‘‘(النساء:۶۵)

 ترجمہ ٔکنزُالعِرفان: تو اے حبیب! تمہارے رب کی قسم، یہ لوگ مسلمان نہ ہوں  گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں  تمہیں  حاکم نہ بنالیں ۔

            اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  حضور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مقام بہت بلند ہے۔

{وَ رَبُّ الْمَشَارِقِ: اور مشرقوں  کامالک ہے۔} اس آیت میں  جمع کا صیغہ ’’مَشَارِق‘‘ ذکر کیا گیاہے،اس کے بارے میں  مفسر سُدِّی کا قول ہے کہ چونکہ سورج طلوع ہونے کی 360 جگہیں  ہیں  اسی طرح سورج غروب ہونے کی بھی 360 جگہیں  ہیں  اورہر روز سورج نئی جگہ سے طلوع ہوتا اور نئی جگہ میں  غروب ہوتا ہے (اس لئے یہاں  جمع کا صیغہ ذکر ہوا۔)(خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۱۴)

            علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:  اس آیت میں  ’’مَشَارِق‘‘ جمع کا صیغہ ہر روز کے مشرق اور مغرب کے اعتبار سے ذکر کیا گیا ہے کیونکہ سال میں  سورج طلوع اور غروب ہونے کی 360جگہیں  ہیں  اور ہر روز سورج ان میں  سے ایک مشرق سے طلوع ہوتا ہے، اسی طرح ہر روز ایک مغرب میں  غروب ہوتا ہے۔سور ہِ رحمٰن کی آیت میں  جو ’’الْمَشْرِقَیْنِ‘‘ اور ’’الْمَغْرِبَیْنِ‘‘ تثنیہ کا صیغہ ذکر کیا گیا ہے ، یہ گرمیوں  اور سردیوں  کے موسم میں  سورج طلوع اور غروب ہونے کے اعتبار سے ہے اور سورہِ مُزّمِّل کی آیت میں  جو ’’مَشْرِق‘‘ اور ’’مَغْرِب‘‘ واحد کا صیغہ ذکر کیا گیا ہے یہ ہر سال کے مشرق اور مغرب کے اعتبار سے ہے۔(صاوی، الصافات، تحت الآیۃ: ۵، ۵ / ۱۷۳۱)

            علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اور علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ سورہِ مزمل کی آیت میں  ’’مَشْرِق‘‘ اور ’’مَغْرِب‘‘ واحد کا صیغہ ذکر کیا گیا ہے یہ اس اعتبار سے ہے کہ یہاں  مشرق اور مغرب کی جہت مراد ہے۔(خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۱۴-۱۵، روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۵، ۷ / ۴۴۷)

اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنْیَا بِزِیْنَةِ ﹰالْكَوَاكِبِ(6)وَ حِفْظًا مِّنْ كُلِّ شَیْطٰنٍ مَّارِدٍ(7)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک ہم نے نیچے کے آسمان کوستاروں کے سنگھار سے آراستہ کیا۔اور ہر سرکش شیطان سے حفاظت کیلئے۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنْیَا: بیشک ہم نے نیچے کے آسمان کو آراستہ کیا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں  آسمان کو ستاروں  سے سجانے کے دو فوائد بیان کئے گئے ہیں ۔

(1)…زینت کے لئے۔چنانچہ ارشاد فرمایا کہ بیشک ہم نے نیچے کے آسمان کوجو دوسرے آسمانوں  کی بہ نسبت زمین سے قریب تر ہے، ستاروں  کے سنگھار سے آراستہ کیا کیونکہ دیکھنے والے کو سارے ستارے پہلے آسمان پر ایسے محسوس ہوتے ہیں  جیسے کسی چادر پر رنگ برنگ موتی بکھرے ہوئے ہیں ۔

(2)…سرکش شیطانوں  سے آسمان کی حفاظت کیلئے ۔چنانچہ ارشاد فرمایا کہ ہم نے آسمان کو ہر ایک نافرمان شیطان سے محفوظ رکھنے کیلئے ستاروں  سے سجایاکہ جب شَیاطین آسمان پر جانے کا ارادہ کریں  تو فرشتے شِہاب مار کر ان کو دور کردیں۔(تفسیرکبیر،الصافات، تحت الآیۃ:۶، ۹ / ۳۱۷، خازن، والصافات،تحت الآیۃ: ۶-۷، ۴ / ۱۵، صاوی، الصافات، تحت الآیۃ: ۶-۷، ۵ / ۱۷۳۱-۱۷۳۲، ملتقطاً)

لَا یَسَّمَّعُوْنَ اِلَى الْمَلَاِ الْاَعْلٰى وَ یُقْذَفُوْنَ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ(8)دُحُوْرًا وَّ لَهُمْ عَذَابٌ وَّاصِبٌ(9)اِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ فَاَتْبَعَهٗ شِهَابٌ ثَاقِبٌ(10)

ترجمہ: کنزالعرفان

وہ شیاطین عالمِ بالا کی طرف کان نہیں لگاسکتے اور انہیں ہرجانب سے مارا جاتا ہے۔ ۔ (انہیں ) بھگانے کیلئے اور ان کے لیے ہمیشہ کا عذاب ہے۔مگر جو ایک آدھ بار (کوئی بات) اُچک کر لے چلے تو روشن انگارا اس کے پیچھے لگ جاتا ہے۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَا یَسَّمَّعُوْنَ اِلَى الْمَلَاِ الْاَعْلٰى: وہ شَیاطین عالَمِ بالا کی طرف کان نہیں  لگاسکتے۔} شَیاطین آسمان کے قریب جاتے اور بعض اوقات فرشتوں  کا کلام سن کر اس کی خبر کاہنوں  کو دیتے اور کاہن اس بنا پر غیب کی باتیں  جاننے کا دعویٰ کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے شِہاب کے ذریعے شیطانوں  کو آسمان تک پہنچنے سے روک دیا۔ چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات میں  ارشاد فرمایا کہ شَیاطین آسمان کے فرشتوں  کی باتیں  سننے کیلئے عالَمِ بالا کی طرف کان نہیں  لگاسکتے اور وہ آسمان کے فرشتوں کی گفتگو نہیں  سن سکتے اور جب وہ گفتگو سننے کی نیت سے آسمان کی طرف جائیں  توانہیں دور کرنے کیلئے ہر طرف سے انگاروں  کے ساتھ مارا جاتا ہے،یہ ان کا دنیا میں عارضی عذاب ہے جبکہ آخرت میں  ان کے لیے ہمیشہ کا عذاب ہے، اور اگر کوئی شیطان ایک آدھ بار فرشتوں  کی کوئی بات سن کربھاگنے لگے تو روشن انگارا اسے جلانے یاایذا پہنچانے کے لئے اس کے پیچھے لگ جاتا ہے ۔(خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۸-۱۰، ۴ / ۱۵، مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۸-۱۰، ص۹۹۸، جلالین، الصافات، تحت الآیۃ: ۸-۱۰، ص۳۷۳، ملتقطاً)

فَاسْتَفْتِهِمْ اَهُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمْ مَّنْ خَلَقْنَاؕ-اِنَّا خَلَقْنٰهُمْ مِّنْ طِیْنٍ لَّازِبٍ(11)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو ان سے پوچھو،کیا اِن لوگوں کی پیدائش زیادہ مضبوط ہے یا ہماری (دوسری) مخلوق کی۔ بیشک ہم نے انہیں چپکنے والی مٹی سے بنایا۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاسْتَفْتِهِمْ: تو ان سے پوچھو۔} کفارِ مکہ دوبارہ زندہ کئے جانے کو عقلی طور پر محال سمجھتے تھے تواس آیت میں  اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا کہ آپ کفارِ مکہ سے پوچھیں ’’ کیا اِن کی پیدائش زیادہ مضبوط ہے یا ہماری دوسری مخلوق مثلاًآسمان،زمین اور فرشتوں  وغیرہ کی؟ تو جس قادرِ برحق کو آسمان و زمین جیسی عظیم مخلو ق کو پیدا کر دینا کچھ بھی مشکل اور دشوار نہیں  تو انسانوں  کو پیدا کرنا اس پر کیا مشکل ہوسکتا ہے۔بیشک ہم نے ا نسانوں  کوچپکنے والی مٹی سے بنایا،یہ ان کے کمزور ہونے کی ایک اور دلیل ہے کہ ان کی پیدائش کا اصل مادہ مٹی ہے جو کوئی شدت اور قوت نہیں  رکھتی اور اس میں  ان پر ایک اور دلیل قائم فرمائی گئی ہے کہ چپکتی مٹی ان کا مادہِ پیدائش ہے تو اب جسم کے گل جانے اور حد یہ ہے کہ مٹی ہوجانے کہ بعد اُس مٹی سے پھر دوبارہ پیدائش کو وہ کیوں  ناممکن جانتے ہیں  ،جب مادہ موجود اور بنانے والا موجود توپھر دوبارہ پیدائش کیسے محال ہوسکتی ہے۔ (مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۱، ص۹۹۸-۹۹۹، ملخصاً)

بَلْ عَجِبْتَ وَ یَسْخَرُوْنَ(12)وَ اِذَا ذُكِّرُوْا لَا یَذْكُرُوْنَ(13)وَ اِذَا رَاَوْا اٰیَةً یَّسْتَسْخِرُوْنَ(14)وَ قَالُوْۤا اِنْ هٰذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ(15)

ترجمہ: کنزالعرفان

بلکہ تم نے تعجب کیااور وہ مذاق اڑاتے ہیں ۔اورجب انہیں سمجھایا جائے تو سمجھتے نہیں ۔ اور جب کوئی نشانی دیکھتے ہیں توٹھٹھا کرتے ہیں ۔ اور کہتے ہیں یہ تو کھلا جادوہی ہے۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{بَلْ عَجِبْتَ: بلکہ تم نے تعجب کیا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ نے کفار ِمکہ کے انکار پر تعجب کیا کہ آپ کی رسالت اور مرنے کے بعد اٹھنے پر دلالت کرنے والی واضح نشانیاں  اور دلائل ہونے کے باوجود وہ کس طرح انکار کرتے ہیں  اور وہ کفار آپ کا اور آپ کے تعجب کرنے کا یا مرنے کے بعد اٹھنے کامذاق اڑاتے ہیں ، اور جب انہیں  کسی چیز کے ذریعے سمجھایا جائے تو سمجھتے نہیں  ،اور جب چاند کے ٹکڑے ہونا وغیرہ کوئی نشانی دیکھتے ہیں  تو مذاق کرتے ہیں  اور کہتے ہیں  یہ تو کھلا جادوہی ہے۔(مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۲-۱۵، ص۹۹۹)

ءَاِذَا مِتْنَا وَ كُنَّا تُرَابًا وَّ عِظَامًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ(16)اَوَ اٰبَآؤُنَا الْاَوَّلُوْنَﭤ(17)قُلْ نَعَمْ وَ اَنْتُمْ دَاخِرُوْنَ(18)

ترجمہ: کنزالعرفان

کیا جب ہم مر کر مٹی اور ہڈیاں ہوجائیں گے توکیا ہم ضرور اٹھائے جائیں گے؟ اور کیا ہمارے اگلے باپ دادا بھی؟ تم فرماؤ: ہاں اور اس وقت تم ذلیل و رسوا ہوگے۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ءَاِذَا مِتْنَا وَ كُنَّا تُرَابًا وَّ عِظَامًا: کیا جب ہم مر کر مٹی اور ہڈیاں  ہوجائیں  گے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں  کفارِ مکہ کا ایک سوال ذکر کیا گیا ہے کہ کیا ہمیں  مرنے کے بعد دوبارہ ضرور زندہ کیا جائے گا حالانکہ ہم تو مٹی ہو چکے ہوں  گے اور ہماری صرف ہڈیاں  باقی ہوں  گی،اور کیا ہمارے اگلے باپ دادا کو بھی دوبارہ زندہ کیا جائے گا حالانکہ انہیں  مرے ہوئے ایک زمانہ گزر چکا ہے۔کفار کے نزدیک چونکہ اُن کے باپ دادا کا زندہ کیا جانا خود اُن کے زندہ کئے جانے سے زیادہ بعید تھا اس لئے انہوں  نے یہ کہا ۔( صاوی، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۶، ۵ / ۱۷۳۳-۱۳۳۴، مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۶-۱۷، ص۹۹۹، ملتقطاً)

{قُلْ: تم فرماؤ۔} اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا کہ آپ ان کفار سے فرما دیں  کہ ’’ہاں ! تم سب دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے اور اس وقت تمہارا حال یہ ہو گا کہ تم ذلیل و رُسوا ہوگے۔(روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۸، ۷ / ۴۵۲، ملخصاً)

فَاِنَّمَا هِیَ زَجْرَةٌ وَّاحِدَةٌ فَاِذَا هُمْ یَنْظُرُوْنَ(19)وَ قَالُوْا یٰوَیْلَنَا هٰذَا یَوْمُ الدِّیْنِ(20)هٰذَا یَوْمُ الْفَصْلِ الَّذِیْ كُنْتُمْ بِهٖ تُكَذِّبُوْنَ(21)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو وہ تو ایک جھڑک ہی ہوگی تو جبھی وہ دیکھنے لگیں گے۔اور کہیں گے: ہائے ہماری خرابی! یہ بدلے کا دن ہے۔ یہ وہ فیصلے کا دن ہے جسے تم جھٹلاتے تھے۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاِنَّمَا هِیَ زَجْرَةٌ وَّاحِدَةٌ: تو وہ تو ایک جھڑک ہی ہوگی۔} اس آ یت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ دوبارہ زندہ کرنے کا ارادہ فرمائے گاتو وہ نَفخۂ ثانیہ کی ایک ہی ہَولناک آوازہو گی اوروہ اسی وقت زندہ ہوکر اپنے اَفعال اور پیش آنے والے اَحوال دیکھنے لگیں  گے اور کہیں  گے: ہائے ہماری خرابی! فرشتے ان سے کہیں  گے کہ’’ یہ انصاف کا دن ہے، یہ حساب و جزا کا دن ہے اوریہ وہ فیصلے کا دن ہے جسے تم دنیا میں  جھٹلاتے تھے ۔( مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۹-۲۱، ص۹۹۹، جلالین، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۹-۲۱، ص۳۷۴، ملتقطاً)

قیامت کے18 نام اور ان کی وجوہِ تَسْمِیَہ:

            آیت نمبر21 سے معلوم ہوا کہ قیامت کے بہت سے نام ہیں  اور یہ نام اس دن کے کاموں  کے لحاظ سے ہیں ، ان میں  سے قرآنِ پاک میں  ذکرکردہ کچھ نام یہاں  مذکور ہیں ،

(1)… قیامت کا دن قریب ہے کیونکہ ہر وہ چیز جس کا آنا یقینی ہے وہ قریب ہے، ا س اعتبار سے اسے ’’یَوْمَ الْاٰزِفَةِ‘‘ یعنی قریب آنے والادن کہتے ہیں ۔

(2)…دنیا میں  قیامت کے عذاب کی وعید سنائی گئی ہے،اس اعتبار سے اسے ’’ یَوْمُ الْوَعِیْدِ‘‘ یعنی عذاب کی وعیدکا دن کہتے ہیں ۔

(3)…اس دن اللہ تعالیٰ سب کودوبارہ زندہ فرمائے گا ا س لئے وہ ’’یَوْمُ الْبَعْثِ‘‘ یعنی مرنے کے بعد زندہ ہونے کا دن ہے۔

(4)…اس دن لوگ اپنی قبروں  سے نکلیں  گے اس لئے وہ ’’یَوْمُ الْخُرُوْجِ‘‘ یعنی نکلنے کا دن ہے ۔

(5)…ا س دن اللہ تعالیٰ سب لوگوں  کو حشر کے میدا ن میں  جمع فرمائے گا اس لئے وہ ’’یَوْمُ الْجَمْع‘‘ اور ’’یَوْمُ الْحَشْر‘‘ یعنی جمع ہونے اور اکٹھا ہونے کا دن ہے ۔

(6)… اس دن تمام مخلوق حاضرہو گی اس لئے وہ ’’یَوْمٌ مَّشْهُوْدٌ‘‘ یعنی حاضری کا دن ہے۔

(7)…اس دن تمام مخلوق کے اعمال کا حساب ہو گا اس لئے وہ ’’یَوْمُ الْحِسَابِ‘‘ یعنی حساب کا دن ہے۔

(8)… اس دن بدلہ دیا جائے گااور انصاف کیا جائے گا لہٰذا وہ ’’ یَوْمُ الدِّیْنِ‘‘ یعنی بدلے اور انصاف کا دن ہے۔

(9)… دہشت،حساب اور جزاء کے اعتبار سے وہ بڑا دن ہے ،اس لئے اسے ’’یَوْمٌ عَظِیْمٌ‘‘ یعنی بڑا دن کہتے ہیں ۔

(10)… اس دن لوگوں  کا فیصلہ یا ان میں  فاصلہ اور جدائی ہو جائے گی اس لئے وہ ’’ یَوْمُ الْفَصْلِ‘‘ یعنی فیصلے یا فاصلے کا دن ہے۔

(11)… قیامت کے دن چونکہ کفار کے لئے اصلا ًکوئی بھلائی نہ ہوگی ، ا س اعتبار سے اسے ’’ یَوْمٌ عَقِیْمٌ‘‘ یعنی بانجھ دن کہتے ہیں ۔

(12)…برے حساب اور عذاب کے اعتبار سے وہ دن کافروں  پر بہت سخت ہو گا ،اس لئے اسے ’’ یَوْمٌ عَسِیْرٌ‘‘ یعنی بڑا سخت دن کہتے ہیں۔

(13)…اس دن مجرم عذاب میں  گھیرلئے جائیں  گے اس لئے وہ ’’ یَوْمٌ مُّحِیْطٌ‘‘ یعنی گھیر لینے والا دن ہے۔

(14)…اس دن کفار و مشرکین کو دردناک عذاب ہو گا ،اس اعتبار سے اسے ’’ یَوْمٌ اَلِیْمٌ‘‘ یعنی دردناک دن کہتے ہیں ۔

 (15)…اس دن کی سختی کے اعتبار سے اسے ’’ یَوْمٍ كَبِیْرٍ‘‘ یعنی بڑی سختی والا دن کہتے ہیں ۔

(16)…اس دن لوگ نادم اور مغموم ہوں  گے ،اس اعتبار سے اسے ’’ یَوْمُ الْحَسْرَةِ‘‘ یعنی حسرت زدہ ہونے کا دن کہتے ہیں۔

(17)…قیامت کے دن روحیں  اور اَجسام ملیں  گے،زمین والے اور آسمان والے ملیں  گے، غیر ِخدا کی عبادت کرنے والے اور ان کے معبودملیں  گے،عمل کرنے والے اور اعمال ملیں  گے،پہلے اور آخری لوگ ملیں  گے،ظالم اور مظلوم ملیں  گے اور جہنمی عذاب دینے والے فرشتوں  کے ساتھ ملیں  گے ا س اعتبار سے اسے ’’یَوْمُ التَّـلَاقْ‘‘ یعنی ملنے کا دن کہتے ہیں ۔

(18)…قیامت کے دن مختلف اعتبارات سے جنّتیوں  کی جیت اور کفار کی شکست ظاہر ہو جائے گی ا س لئے اسے ’’یَوْمُ التَّغَابُنْ‘‘ یعنی ہار ظاہر ہونے کا دن کہتے ہیں  ۔

            امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  :جن اُمور کا قرانِ مجید میں  ذکر ہے ان میں  سے ایک قیامت ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کے مَصائب کا ذکر کیا اور ا س کے بہت سے نام ذکر فرمائے تاکہ تم ا س کے ناموں  کی کثرت سے اس کے معانی کی کثرت پر مطلع ہو جاؤ،زیادہ ناموں  کا مقصد ناموں  اور اَلقاب کو بار بار ذکر کرنا نہیں  بلکہ اس میں  عقلمند لوگوں  کے لئے تنبیہ ہے کیونکہ قیامت کے ہر نام کے تحت ایک راز ہے اور ا س کے ہر وصف کے تحت ایک معنی ہے ، تو تجھے اس کے معانی کی معرفت اور پہچان حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الشطر الثانی، صفۃ یوم القیامۃ ودواہیہ واسامیہ، ۵ / ۲۷۵)

            نوٹ:یہاں  جو نام ذکر کئے گئے ان کے علاوہ قیامت کے اور نام بھی قرآنِ مجید میں  مذکور ہیں  ،نیزقیامت کے مزید ناموں  اور اس دن لوگوں  کوپیش آنے والے مَصائب کے بارے میں  تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے احیاء العلوم جلد4کا مطالعہ فرمائیں ۔

اُحْشُرُوا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا وَ اَزْوَاجَهُمْ وَ مَا كَانُوْا یَعْبُدُوْنَ(22)مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَاهْدُوْهُمْ اِلٰى صِرَاطِ الْجَحِیْمِ(23)

ترجمہ: کنزالعرفان

ظالموں اور ان کے ساتھیوں کواور جن کی یہ اللہ کے سواپوجا کرتے تھے ان سب کو اکٹھا کردو۔ پھر ان سب کو دوزخ کا راستہ دکھاؤ۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اُحْشُرُوا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا: ظالموں  کو اکٹھا کردو۔} اس آیت اورا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں  کو حکم دے گا کہ ظالموں  اور ان کے ساتھیوں  کواور اللہ تعالیٰ کے سواجن بتوں کی یہ پوجا کرتے تھے ان سب کو ایک ہی جگہ اکٹھا کردو،پھران سب کو جہنم کا راستہ دکھاؤ۔ اس آیت میں  ظالموں  سے مراد کافر ہیں  اور اُن کے ساتھیوں  سے مراد وہ شَیاطین ہیں جو دنیا میں  ان کے ہم نشین اور پاس رہتے تھے ۔ہر ایک کافر اپنے شیطان کے ساتھ ایک ہی زنجیر میں  جکڑدیا جائے گا اور حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ ساتھیوں  سے مراداس کی جنس کے دوسرے افراد ہیں ۔( خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۲۲-۲۳، ۴ / ۱۶، قرطبی، الصافات، تحت الآیۃ: ۲۲-۲۳، ۸ / ۵۵، الجزء الخامس عشر، ملتقطاً)

            یعنی ہر کافر اپنی ہی قسم کے کفار کے ساتھ ہانکا جائے گا،جیسے بت پرست بت پرستوں کے ساتھ اور آتش پرست آتش پرستوں  کے ساتھ۔

وَ قِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْـٴُـوْلُوْنَ(24)مَا لَكُمْ لَا تَنَاصَرُوْنَ(25)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور انہیں ٹھہراؤ، بیشک ان سے پوچھ گچھ کی جائے گی۔ ۔ (کہا جائے گا:) تمہیں کیا ہوا؟ تم ایک دوسرے کی مدد کیوں نہیں کرتے؟

صراط الجنان: تفسیر ‎

{وَ قِفُوْهُمْ: اور انہیں ٹھہراؤ۔} جب کفار جہنم کے قریب پہنچیں گے تو فرشتوں سے کہا جائے گا کہ انہیں پل صراط کے پاس  ٹھہراؤ، بیشک ان سے ابھی پوچھ گچھ کی جائے گی۔( قرطبی،الصافات،تحت الآیۃ:۲۴، ۸ / ۵۵، الجزء الخامس عشر،  خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۲۴، ۴ / ۱۶، ملتقطاً)

قیامت کے دن ہونے والی پوچھ گچھ:

یاد رہے کہ قیامت کے دن جہنم کے خازن بھی مشرکین سے سوال کریں گے ، جیسا کہ سورہ ِزُمر میں ارشادِ باری تعالیٰ  ہے:’’وَ سِیْقَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى جَهَنَّمَ زُمَرًاؕ-حَتّٰۤى اِذَا جَآءُوْهَا فُتِحَتْ اَبْوَابُهَا وَ قَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَاۤ اَلَمْ یَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ یَتْلُوْنَ عَلَیْكُمْ اٰیٰتِ رَبِّكُمْ وَ یُنْذِرُوْنَكُمْ لِقَآءَ یَوْمِكُمْ هٰذَاؕ-قَالُوْا بَلٰى وَ لٰكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ‘‘(زمر:۷۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کافروں کو گروہ در گروہ جہنم کی طرف ہانکا جائے گا یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے توجہنم کے دروازے کھولے جائیں گے اور اس کے داروغہ ان سے کہیں گے: کیا تمہارے پاس تمہیں میں سے وہ رسول نہ آئے تھے جو تم پر تمہارے رب کی آیتیں پڑھتے تھے اور تمہیں تمہارے اِس دن کی ملاقات سے ڈراتے تھے؟ وہ کہیں گے: کیوں نہیں مگر عذاب کا قول کافروں پر ثابت ہوگیا۔

اور کفار کے علاوہ بھی ہر ایک سے اس کے اَقوال اور اَفعال کے بارے میں پوچھ گچھ ہو گی۔ حضرت ابو بَرزہ اسلمی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت کے دن بندہ اپنی جگہ سے ا س وقت تک ہل نہ سکے گا جب تک اس سے چار باتیں نہ پوچھ لی جائیں۔(1)اس کی عمر کہ کس کام میں گزری۔ (2) اس کا علم کہ اس پر کیا عمل کیا ۔(3) اُس کا مال کہ کہاں سے کمایا کہاں خرچ کیا ۔(4) اس کا جسم کہ اس کو کس کام میں لایا۔( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب فی القیامۃ، ۴ / ۱۸۸، الحدیث: ۲۴۲۵)

حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس بلانے والے نے کسی چیز (یعنی شرک اور گناہ) کی طرف بلایا ہو گا تو قیامت کے دن وہ ٹھہرا رہے گا اور اس چیز سے چمٹا ہوگا اور اس سے جدا نہ ہو گااگرچہ ایک ہی آدمی کو بلایا ہو،پھر آپ نے یہ آیات تلاوت فرمائیں : ’’وَ قِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْـُٔوْلُوْنَۙ(۲۴) مَا لَكُمْ لَا تَنَاصَرُوْنَ‘‘۔(ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الصافات، ۵ / ۱۵۶، الحدیث: ۳۲۳۹)

لہٰذا ان روایات کو سامنے رکھتے ہوئے مسلمانوں کو بھی اپنے اَقوال اور اَعمال کے بارے میں ہونے والی پوچھ گچھ کے بارے میں فکر کرنی چاہئے اور کسی صورت بھی اس حوالے سے غفلت کا شکار نہیں ہوناچاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا کی زندگی میں ہی اپنے اُخروی حساب اور سوالات کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

{مَا لَكُمْ: تمہیں کیا ہوا؟۔} یعنی جہنم کے خازن ڈانٹتے ہوئے مشرکین سے کہیں گے کہ آج تمہیں کیا ہوا،تم ایک دوسرے کی مدد کیوں نہیں کرتے حالانکہ دنیا میں تم ایک دوسرے کی مدد کرنے پر بہت گھمنڈرکھتے تھے۔(جلالین مع صاوی، الصافات، تحت الآیۃ: ۲۵، ۵ / ۱۷۳۵)

قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے شفاعت فرمائیں  گے:

یاد رہے کہ قیامت کے دن مشرکین ایک دوسرے کی مدد نہ کر سکیں گے جبکہ اَنبیاء و اَولیاء و صُلحاء اللہ تعالیٰ کے اِذن سے اہلِ ایمان کی شفاعت فرما کر ان کی مدد فرمائیں گے،جیسا کہ اللہ  تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَىٕذٍۭ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَؕ۠(۶۷) یٰعِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَ وَ لَاۤ اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَ‘‘(زخرف:۶۷،۶۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اس دن گہرے دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے سوائے پرہیز گاروں کے۔ (ان سے فرمایا جائے گا) اے میرے بندو! آج نہ تم پر خوف ہے اور نہ تم غمگین ہوگے۔

اور ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ لَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَهٗؕ-حَتّٰۤى اِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِهِمْ قَالُوْا مَا ذَاۙ-قَالَ رَبُّكُمْؕ-قَالُوا الْحَقَّۚ-وَ هُوَ الْعَلِیُّ الْكَبِیْرُ‘‘(سبا:۲۳)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللہ کے پاس شفاعت کام نہیں دیتی مگر (اس کی) جس کے لیے وہ اجازت دیدے یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور فرمادی جاتی ہے تووہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں : تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے؟ تو وہ کہتے ہیں : حق فرمایا ہے اور وہی بلندی والا، بڑائی والاہے۔

            البتہ یاد رہے کہ بزرگانِ دین کی شفاعت کی امید پر اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری چھوڑ دینا،اس کے عذاب سے بے خوف ہوجانا اورگناہوں میں مبتلا رہناکسی صورت درست نہیں ہے ۔امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:شفاعت کی امید پر گناہوں میں مبتلا ہونا اور تقویٰ کو چھوڑدینا ایسے ہے جیسے کوئی مریض کسی ایسے ماہر ڈاکٹر پر اعتماد کر کے بد پرہیزی میں مبتلا ہو جائے جو اس کا قریبی عزیز اور اس پر شفقت کرنے والا ہو جیسے باپ یا بھائی وغیرہ ، اور یہ اعتماد جہالت ہے کیونکہ ڈاکٹر کی کوشش ،اس کی ہمت اور مہارت بعض بیماریوں کے ازالے میں نفع دیتی ہے تمام بیماریوں کے ازالے کے لئے نہیں،لہٰذا محض ڈاکٹرپر اعتماد کرکے مُطْلَقاً پرہیز کو ترک کردینا جائز نہیں ۔ طبیب کا اثر ہوتا ہے لیکن معمولی اَمراض اور مُعتدل مزاج کے غلبہ کے وقت ہوتا ہے، اس لئے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور صلحاءِ عظام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کی عنایت ِشفاعت اپنوں اور غیروں کے لئے اسی انداز میں ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے خوف اور پرہیز کو ترک نہیں کرنا چاہئے اور اسے کیسے ترک کرسکتے ہیں جبکہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد سب سے بہتر صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ تھے، لیکن وہ آخرت کے خوف سے تمنّا کرتے تھے کہ کاش وہ چوپائے ہوتے، حالانکہ ان کا تقویٰ کا مل ، اعمال عمدہ اور دل صاف تھے اور نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جنت کا خصوصی وعدہ بھی سن چکے تھے اور وہ تمام مسلمانوں کے لئے عمومی طور پر شفاعت کے بارے میں بھی جانتے تھے، لیکن انہوں نے اس پر بھروسہ نہیں کیا اور ان کے دلوں سے خوف اور خشو ع جدا نہیں ہوا اور جو لوگ صحابیّت کے درجے پر بھی فائز نہیں اور انہیں اسلام لانے میں سبقت بھی حاصل نہیں وہ کس طرح خود پسندی میں مبتلا ہوسکتے ہیں اوروہ کیسے شفاعت پر بھروسہ کر کے بیٹھ سکتے ہیں۔(احیاء علوم الدین، کتاب ذمّ الکبر والعجب، الشطر الثانی، بیان اقسام ما بہ العجب وتفصیل علاجہ، ۳ / ۴۶۰-۴۶۱)

بَلْ هُمُ الْیَوْمَ مُسْتَسْلِمُوْنَ(26)وَ اَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍ یَّتَسَآءَلُوْنَ(27)قَالُوْۤا اِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَاْتُوْنَنَا عَنِ الْیَمِیْنِ(28)قَالُوْا بَلْ لَّمْ تَكُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ(29)وَ مَا كَانَ لَنَا عَلَیْكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍۚ-بَلْ كُنْتُمْ قَوْمًا طٰغِیْنَ (30) فَحَقَّ عَلَیْنَا قَوْلُ رَبِّنَاۤ ﳓ اِنَّا لَذَآىٕقُوْنَ (31) فَاَغْوَیْنٰكُمْ اِنَّا كُنَّا غٰوِیْنَ (32)

ترجمہ: کنزالعرفان

بلکہ وہ آج گردن جھکائے ہوئے ہوں گے۔اور ان میں ایک دوسرے کی طرف آپس میں سوال کرتے ہوئے متوجہ ہوگا۔ پیروکارکہیں گے: تم ہمارے پاس طاقت و قوت سے آتے تھے۔سردار کہیں گے: بلکہ تم خود ہی ایمان والے نہیں تھے۔اور ہمارا تم پر کچھ قابو نہ تھابلکہ تم سرکش لوگ تھے۔تو ہم پر ہمارے رب کی بات ثابت ہوگئی (کہ) ہم ضرور مزہ چکھیں گے۔ تو ہم نے تمہیں گمراہ کیا ، بیشک ہم خود گمراہ تھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{بَلْ هُمْ: بلکہ وہ۔} اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن کفارعاجز و ذلیل ہو کر گردن جھکائے ہوئے ہوں  گے اور کوئی حیلہ انہیں  کام نہ آئے گا۔( خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۲۶، ۴ / ۱۷، ملخصاً)

{وَ اَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍ: اور ان میں  ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوگا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی پانچ آیات میں  قیامت کے دن کفار کا آپس میں  ہونے والا مُکالمہ بیان کیا گیا ہے۔اس کا خلاصہ یہ ہے کہ سردار اور ان کی پیروی کرنے والے آپس میں  سوال کرتے ہوئے ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوں گے اور پیروی کرنے والے اپنے سرداروں  سے کہیں  گے:دنیا میں تم ہمیں  اپنی طاقت اور قوت کے زور پر گمراہی پر آمادہ کرتے تھے اور ہم تمہارے خوف کی وجہ سے گمراہی کا راستہ اختیار کرنے پر مجبورہو گئے۔اس پر کفار کے سردار کہیں  گے کہ’’ ہم نے تم پر کوئی زبردستی نہیں  کی کہ اس کی وجہ سے تم ہماری پیروی کرنے پر مجبور ہو گئے ہوبلکہ تم پہلے ہی سے کافر اور سرکش تھے اور اپنے اختیارسے خود ہی ایمان سے اِعراض کرچکے تھے۔اب ہم پر ہمارے رب عَزَّوَجَلَّ کی وہ بات ثابت ہوگئی جو اُس نے فرمائی تھی کہ’’ میں  ضرور جہنم کوجنوں  اور انسانوں  سے بھروں  گا۔لہٰذا اس کے عذاب کا مزہ گمراہوں  کو بھی اور گمراہ کرنے والوں  کو بھی ضرور چکھنا ہے،ہم خود گمراہ تھے تو ہمارے پاس سے گمراہی ہی مل سکتی تھی، تم ہمار ے پاس آئے ہی کیوں۔(خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۲۷-۳۲، ۴ / ۱۷، مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۲۷-۳۲، ص۱۰۰۰، ملتقطاً)

          نوٹ: میدانِ محشر میں  کفار کااسی طرح کاایک مُکالمہ سورۂ سبا کی آیت نمبر31میں  بھی گزر چکا ہے۔

فَاِنَّهُمْ یَوْمَىٕذٍ فِی الْعَذَابِ مُشْتَرِكُوْنَ(33)اِنَّا كَذٰلِكَ نَفْعَلُ بِالْمُجْرِمِیْنَ(34)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو اس دن وہ سب کے سب عذاب میں شریک ہیں ۔ مجرموں کے ساتھ ہم ایسا ہی کرتے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاِنَّهُمْ یَوْمَىٕذٍ: تو اس دن وہ۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن گمراہ بھی اور انہیں  گمراہ کرنے والے سردار بھی سب عذاب میں  شریک ہو ں  گے اگرچہ ان کے عذاب کی کَیفِیّت میں  فرق ہو گا کیونکہ یہ سب لوگ دنیا میں  گمراہی میں  شریک تھے اور ہم نے گمراہوں  اور گمراہ کرنے والوں  کے ساتھ جو کیا کہ عذاب میں  انہیں  جمع کر دیا،مجرموں  کے ساتھ ہم ایسا ہی کرتے ہیں ۔( مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۳۳-۳۴، ص۱۰۰۰، روح المعانی، الصافات، تحت الآیۃ: ۳۳-۳۴، ۱۲ / ۱۱۲، روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۳۳-۳۴، ۷ / ۴۵۶، ملتقطاً)

اِنَّهُمْ كَانُوْۤا اِذَا قِیْلَ لَهُمْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُۙ-یَسْتَكْبِرُوْنَ(35)وَ یَقُوْلُوْنَ اَىٕنَّا لَتَارِكُوْۤا اٰلِهَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُوْنٍﭤ(36)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک جب ان سے کہا جاتا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تووہ تکبر کرتے تھے۔ اور کہتے تھے کیا ہم ایک دیوانے شاعر کی وجہ سے اپنے معبودوں کو چھوڑدیں ۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّهُمْ كَانُوْۤا اِذَا قِیْلَ لَهُمْ: بیشک جب ان سے کہا جاتا تھا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں  کفار کے عذاب میں  مبتلا ہونے کا سبب بیان کیا گیا ہے کہ جب ان سے کہا جاتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں  تووہ تکبر کرتے تھے اورنہ توحید قبول کرتے اورنہ ہی اپنے شرک سے باز آتے بلکہ کہتے تھے کہ کیا ہم ایک دیوانے شاعر یعنی محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کہنے پراپنے معبودوں  کو چھوڑدیں ؟( خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۳۵-۳۶، ۴ / ۱۷، مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۳۵-۳۶، ص۱۰۰۰، ملتقطاً)

            حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں  لوگوں  سے جہاد کرتا رہوں  یہاں  تک کہ وہ ’’لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللہ‘‘ کہہ لیں  اور جس نے ’’لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللہ‘‘ کہہ لیا تو اس نے شرعی حق کے علاوہ اپنا مال اور اپنی جان مجھ سے بچا لی اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں  (ایمان قبول کرنے سے) تکبر کرنے والوں  کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’اِنَّهُمْ كَانُوْۤا اِذَا قِیْلَ لَهُمْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُۙ-یَسْتَكْبِرُوْنَ‘‘ اور( جبکہ مسلمانوں  کے بارے میں  اسی کلمہ طیبہ کے حوالے سے )فرمایا: ’’اِذْ جَعَلَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْحَمِیَّةَ حَمِیَّةَ الْجَاهِلِیَّةِ فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوٰى وَ كَانُوْۤا اَحَقَّ بِهَا وَ اَهْلَهَا‘‘(فتح:۲۶)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:(اے حبیب! یاد کریں ) جب کافروں  نے اپنے دلوں  میں  زمانہ جاہلیت کی ہٹ دھرمی جیسی ضد رکھی تو اللہ نے اپنا اطمینان اپنے رسول اور ایمان والوں  پر اتارا اور پرہیزگاری کا کلمہ ان پر لازم فرمادیا اور مسلمان اس کلمہ کے زیادہ حق دار اور اس کے اہل تھے۔

            اور وہ کلمہ ’’لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللہ‘‘ ہے۔ (معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۳۴۹، الحدیث: ۱۲۷۲)

بَلْ جَآءَ بِالْحَقِّ وَ صَدَّقَ الْمُرْسَلِیْنَ(37)

ترجمہ: کنزالعرفان

بلکہ وہ تو حق لائے ہیں اور انہوں نے رسولوں کی تصدیق فرمائی ہے۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{بَلْ جَآءَ بِالْحَقِّ: بلکہ وہ تو حق لائے ہیں ۔} اس آیت میں  اللہ تعالیٰ نے کفار کی بات کا رد کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ یہ نبی دیوانے اور شاعر نہیں ،بلکہ وہ تو حق لائے ہیں  اور انہوں  نے دین، توحید اورشرک کی نفی میں  اپنے سے پہلے رسولوں  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تصدیق فرمائی ہے۔( خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۳۷، ۴ / ۱۷، روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۳۷، ۷ / ۴۵۷، ملتقطاً)

اِنَّكُمْ لَذَآىٕقُوا الْعَذَابِ الْاَلِیْمِ(38)وَ مَا تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(39)اِلَّا عِبَادَ اللّٰهِ الْمُخْلَصِیْنَ(40)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک تم ضرور دردناک عذاب چکھنے والے ہو۔ تو تمہیں تمہارے اعمال ہی کا بدلہ دیا جائے گا۔ مگر جو اللہ کے چُنے ہوئے بندے ہیں ۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّكُمْ: بیشک تم۔} اس آیت اور اس کے بعدوالی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جن کافروں  نے تاجدار ِرسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف شاعری اور جنون کی نسبت کی ،ان سے فرمایا گیا کہ بیشک تم ضرور آخرت میں  دردناک عذاب چکھنے والے ہو اور تم جو دنیا میں  شرک اور تکذیب کر آئے ہو تمہیں  اسی کا بدلہ دیا جائے گا۔( تفسیر طبری، الصافات، تحت الآیۃ: ۳۸-۳۹، ۱۰ / ۴۸۳، خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۳۸-۳۹،۴ / ۱۷، ملتقطاً)

{اِلَّا: مگر۔} اس آیت میں  مخلص بندوں  کا عذاب کے حکم سے اِستثناء کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ البتہ جو اللہ تعالیٰ کے چنے ہوئے یعنی ایمان اوراخلاص والے بندے ہیں  وہ درد ناک عذاب نہیں  چکھیں  گے اور ان کے حساب میں  سوال وکلام نہ ہو گا بلکہ اگر ان سے کوئی خطا سرزد ہوئی ہو گی تو ا س سے در گزر کر دیا جائے گا اور انہیں  ایک نیکی کا بدلہ دس سے لے کر سات سو گنا یا اس سے جتنا زیادہ اللہ تعالیٰ چاہے دیا جائے گا۔( ابن کثیر، الصافات، تحت الآیۃ: ۴۰، ۷ / ۱۰)

اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ رِزْقٌ مَّعْلُوْمٌ(41)فَوَاكِهُۚ-وَ هُمْ مُّكْرَمُوْنَ(42)فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ(43)عَلٰى سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ(44)

ترجمہ: کنزالعرفان

ان کے لیے وہ روزی ہے جو معلوم ہے۔ پھل میوے ہیں اور وہ معزز ہوں گے۔ چین کے باغوں میں ۔ تختوں پر آمنے سامنے ہوں گے۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ رِزْقٌ: ان کے لیے روزی ہے۔} اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت قبول کرنے سے انکار کرنے اور رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کے انکار پر قائم رہنے والوں  کا حال بیان کرنے کے بعد یہاں  سے ایمان والے مخلص بندوں  کے ثواب کی کیفِیَّت بیان کی جا رہی ہے،چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی 3آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ ایمان والے مخلص بندوں  کے لئے جنت میں  وہ روزی ہے جو (قرآن کے ذریعے) معلوم (ہوچکی) ہے یا جو ہمارے علم میں  ہے اور وہ روزی پھل میوے ہیں  جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے جنت میں  پیدا فرمائے ہیں  اور وہ انتہائی نفیس، لذیذ،خوش ذائقہ، خوشبودار اور خوش منظر ہوں  گے اور یہ روزی انتہائی عزت و تعظیم کے ساتھ انہیں  پیش کی جائے گی اور وہ چین کے باغوں  میں  ایک دوسرے سے مانوس اور مَسرورتختوں  پر آمنے سامنے ہوں  گے۔( تفسیر کبیر، الصافات ، تحت الآیۃ: ۴۱- ۴۴، ۹ / ۳۳۲ ، تفسیر طبری ، الصافات ، تحت الآیۃ: ۴۱-۴۴، ۱۰ / ۴۸۴، مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۴۱-۴۴، ص۱۰۰۱، خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۴۱-۴۴، ۴ / ۱۷، ملتقطاً)

یُطَافُ عَلَیْهِمْ بِكَاْسٍ مِّنْ مَّعِیْنٍ(45)بَیْضَآءَ لَذَّةٍ لِّلشّٰرِبِیْنَ(46)لَا فِیْهَا غَوْلٌ وَّ لَا هُمْ عَنْهَا یُنْزَفُوْنَ(47)

ترجمہ: کنزالعرفان

خالص شراب کے جام کے ان پر دَور ہوں گے۔سفید رنگ کی شراب ہوگی، پینے والوں کے لیے لذت بخش ہوگی۔ نہ اس میں عقل کی خرابی ہوگی اور نہ وہ اس سے نشے میں لائے جائیں گے۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یُطَافُ عَلَیْهِمْ: ان پر دَور ہوں  گے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات میں  ا یمان والے مخلص بندوں  کو جنت میں  ملنے والی شراب اور ا س کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں  ،چنانچہ ان آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جنتی شراب کی پاکیزہ نہریں  ان کی نگاہوں کے سامنے جاری ہوں  گی اور وہ خالص شراب ہوگی جس کے جام کے ان پر دَور ہوں  گے، اس شراب کے اوصاف یہ ہیں  ۔(1)دودھ سے بھی زیادہ سفید رنگ کی شراب ہوگی۔(2)پینے والوں  کے لیے لذت بخش ہوگی، جبکہ دنیا کی شراب میں  یہ وصف نہیں  بلکہ وہ بدبودار اور بدذائقہ ہوتی ہے اور پینے والا اس کو پیتے وقت منہ بگاڑ تا رہتا ہے۔(3) جنتی شراب میں  خُمار نہیں  ہے جس سے عقل میں  خَلَل آئے۔(4) جنتی اس شراب سے نشے میں  نہیں آئیں  گے۔ جبکہ دنیا کی شراب میں  یہ اوصاف نہیں  بلکہ اس میں  بہت سے فسادات اور عیب ہیں  ،اس سے پیٹ میں  بھی درد ہوتا ہے اور سر میں  بھی، پیشاب میں  بھی تکلیف ہوجاتی ہے، طبیعت متلانے لگتی ہے، قے آتی ہے، سر چکراتا ہے اور عقل ٹھکانے نہیں  رہتی۔( خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۴۵-۴۷، ۴ / ۱۷-۱۸، جلالین، الصافات، تحت الآیۃ: ۴۵-۴۷، ص۳۷۵، ملتقطاً)

وَ عِنْدَهُمْ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ عِیْنٌ(48)كَاَنَّهُنَّ بَیْضٌ مَّكْنُوْنٌ(49)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ان کے پاس نگاہیں نیچی رکھنے والی ،بڑی آنکھوں والی (بیویاں ) ہوں گی۔ گویاوہ پوشیدہ رکھے ہوئے انڈے ہیں ۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ عِنْدَهُمْ: اور ان کے پاس۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں  ایمان والے مخلص بندوں  کوجنت میں  ملنے والی حوروں  کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں  ۔ وہ اوصاف یہ ہیں ۔(1)وہ حوریں شوہروں  کے سوا دوسری طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھیں  گی کہ اس کے نزدیک اس کاشوہر ہی صاحب ِحسن اور پیارا ہے۔ (2)بڑی اور خوبصورت آنکھوں  والی ہوں  گی۔(3) وہ گردوغبار سے پاک اوراس قدر صاف شفاف اور سفید ہوں  گی گویا کہ وہ چھپا کر رکھے ہوئے انڈے ہیں۔(جلالین، الصافات، تحت الآیۃ: ۴۸-۴۹، ص۳۷۵، خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۴۸-۴۹، ۴ / ۱۸، ملتقطاً)

فَاَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍ یَّتَسَآءَلُوْنَ(50)قَالَ قَآىٕلٌ مِّنْهُمْ اِنِّیْ كَانَ لِیْ قَرِیْنٌ(51)یَّقُوْلُ اَىٕنَّكَ لَمِنَ الْمُصَدِّقِیْنَ(52)ءَاِذَا مِتْنَا وَ كُنَّا تُرَابًا وَّ عِظَامًا ءَاِنَّا لَمَدِیْنُوْنَ(53)قَالَ هَلْ اَنْتُمْ مُّطَّلِعُوْنَ(54)فَاطَّلَعَ فَرَاٰهُ فِیْ سَوَآءِ الْجَحِیْمِ(55)قَالَ تَاللّٰهِ اِنْ كِدْتَّ لَتُرْدِیْنِ(56)وَ لَوْ لَا نِعْمَةُ رَبِّیْ لَكُنْتُ مِنَ الْمُحْضَرِیْنَ(57)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر جنتی آپس میں سوال کرتے ہوئے ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوں گے۔ ان میں سے ایک کہنے والاکہے گا:بیشک میرا ایک ساتھی تھا۔ ۔ (مجھ سے) کہا کرتاتھا : کیا تم تصدیق کرنے والوں میں سے ہو؟ کیا جب ہم مرجائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں ہوجائیں گے تو کیا ہمیں جزا سزا دی جائے گی؟ جنتی کہے گا: کیا تم جھانک کر دیکھو گے؟ تو وہ جھانکے گا تو اس ساتھی کو بھڑکتی آگ کے درمیان میں دیکھے گا۔وہ جنتی کہے گا: خدا کی قسم، قریب تھا کہ تو ضرور مجھے ہلاک کردیتا۔اوراگر میرے رب کا احسان نہ ہوتا تو ضرور میں بھی پکڑ کر حاضر کیا جاتا۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍ: پھر جنتی ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوں  گے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی 7 آیات میں  بیان کی گئی اہلِ جنت کی باہمی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ جنتی شرابِ طَہور پینے کے دوران آپس میں  سوال کرتے ہوئے ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوں  گے کہ دنیا میں  کیا حالات اور واقعات پیش آئے۔ان میں  سے ایک کہنے والاکہے گا: دنیا میں میرا ایک ساتھی تھا جو مرنے کے بعد اُٹھنے کا منکر تھا اور اس کے بارے میں  طنز کے طور پرمجھ سے کہا کرتا تھا کہ کیا تم مرنے کے بعد اُٹھنے کو سچ مانتے ہو؟اورکیا جب ہم مرجائیں  گے اور مٹی اور ہڈیاں  ہوجائیں  گے تو کیا ہمیں  جزا سزا دی جائے گی اور ہم سے حساب لیا جائے گا ؟ یہ بیان کرکے وہ جنتی اپنے جنتی دوستوں  سے کہے گا:کیا تم جھانک کر دیکھو گے کہ میرے اس ہم نشین کا جہنم میں  کیا حال ہے۔وہ جواب دیں  گے کہ تم ہم سے زیادہ اسے جانتے ہو ۔ پھرجب وہ جھانکے گا تو اپنے اس دنیا کے ساتھی کو بھڑکتی آگ کے درمیان میں  دیکھے گا کہ عذاب کے اندر گرفتار ہے ،تو وہ جنتی اس سے کہے گا: خدا کی قسم! قریب تھا کہ تو ضرورمجھے بھی راہ ِراست سے بہکا کر ہلاک کردیتا ۔ اوراگر میرے رب عَزَّوَجَلَّ کا احسان نہ ہوتا اور وہ اپنی رحمت و کرم سے مجھے تیرے بہکانے سے محفوظ نہ رکھتا اور اسلام پر قائم رہنے کی توفیق نہ دیتا تو ضرور میں  بھی تیرے ساتھ جہنم میں موجود ہوتا۔( خازن، و الصافات ، تحت الآیۃ: ۵۰- ۵۷، ۴ / ۱۸ ، مدارک ، الصافات ، تحت الآیۃ: ۵۰- ۵۷، ص ۱۰۰۲، جلالین، الصافات، تحت الآیۃ: ۵۰-۵۷، ص۳۷۵، ملتقطاً)

اَفَمَا نَحْنُ بِمَیِّتِیْنَ(58)اِلَّا مَوْتَتَنَا الْاُوْلٰى وَ مَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِیْنَ(59)اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(60)لِمِثْلِ هٰذَا فَلْیَعْمَلِ الْعٰمِلُوْنَ(61)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو کیا ہم مریں گے نہیں ؟ سوائے ہماری پہلی موت کے اور ہمیں عذاب نہیں دیا جائے گا۔بیشک یہی بڑی کامیابی ہے۔ ایسی ہی کامیابی کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَفَمَا نَحْنُ بِمَیِّتِیْنَ: تو کیا ہم مریں  گے نہیں ؟} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب موت ذبح کردی جائے گی تو اہل ِجنت فرشتوں  سے کہیں  گے :کیا ہم دنیا میں  ہو جانے والی پہلی موت کے سوا مریں  گے نہیں  اور ہمیں  عذاب نہیں  دیا جائے گا؟ فرشتے کہیں  گے: نہیں  یعنی اب تمہیں  کبھی موت نہیں  آئے گی۔ اس پر جنتی کہیں  گے کہ بیشک یہ بڑی کامیابی ہے جو ہمیں  نصیب ہوئی ۔یاد رہے کہ اہلِ جنت کا یہ دریافت کرنا اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ساتھ لذّت حاصل کرنے کیلئے ہوگا اور اس لئے ہوگا تاکہ وہ دائمی حیات کی نعمت اور عذاب سے مامون ہونے کے احسان پر اللہ کی نعمت کو یاد کریں  اور اس ذکر سے انہیں  سُرور حاصل ہوگا۔( خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۵۸-۶۰، ۴ / ۱۸، مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۵۸-۶۰، ص۱۰۰۲، ملتقطاً)

{لِمِثْلِ هٰذَا: ایسی ہی کامیابی کے لیے۔} اس آیت میں  اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے بدلے ثواب اور اُخروی انعامات حاصل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے کہ عمل کرنے والوں  کو ایسی ہی کامیابی کے لیے عمل کرنا چاہیے۔( خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۶۱، ۴ / ۱۸-۱۹)

اُخروی کامیابی کے لئے ہی عمل کرنا چاہئے:

            اس آیت ِمبارکہ سے معلوم ہوا کہ اصل اور حقیقی کامیابی یہ ہے کہ قیامت کے دن انسان کو جہنم کے عذاب سے بچا لیا جائے اور جنت میں  داخل کر دیا جائے، لہٰذا اسی کامیابی کو حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہئے ۔نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے عملِ مبارک میں  بھی اس کی ترغیب موجود ہے، چنانچہ حضرت براء بن عازب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،میں  رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دست ِاَقدس میرے ہاتھ میں  تھا،اسی دوران آپ نے ایک جنازہ دیکھا تو آپ جلدی جلدی چلنے لگے حتّٰی کہ قبر کے پاس پہنچ کر گھٹنوں  کے بل بیٹھ گئے اور اتنا روئے کہ آپ کے مبارک آنسوؤں  سے مٹی تر ہو گئی، پھر ارشاد فرمایا:

’’لِمِثْلِ هٰذَا فَلْیَعْمَلِ الْعٰمِلُوْنَ‘‘

ترجمۂ کنزُالعِرفان: ایسی ہی کامیابی کیلئے عمل کرنے والوں  کو عمل کرنا چاہیے۔( در منثور، الصافات، تحت الآیۃ: ۶۱، ۷ / ۹۵)

            اور ہمارے دیگر بزرگانِ دین بھی اسی کی ترغیب دیتے رہے ہیں  ،چنانچہ منقول ہے کہ حضرت عبداللہ بن مبارک رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے وفات کے وقت آنکھیں  کھولیں  ،پھر مسکرائے اور فرمایا:

’’لِمِثْلِ هٰذَا فَلْیَعْمَلِ الْعٰمِلُوْنَ‘‘

ترجمۂ کنزُالعِرفان: ایسی ہی کامیابی کے لیے عمل کرنے والوں  کو عمل کرنا چاہیے۔( تاریخ دمشق، حرف المیم فی اسماء آباء العبادلۃ، عبد اللّٰہ بن المبارک بن واضح۔۔۔ الخ، ۳۲ / ۴۷۶)

            حضرت سفیان بن عیینہ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  :میں  نے حضرت سفیان ثوری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو خواب میں  دیکھا گویا کہ وہ جنت میں  ایک درخت سے دوسرے درخت کی طرف پرواز کر رہے ہیں  اور یہ فرما رہے ہیں :

ؔ’’لِمِثْلِ هٰذَا فَلْیَعْمَلِ الْعٰمِلُوْنَ‘‘

ترجمۂ کنزُالعِرفان: ایسی ہی کامیابی کے لیے عمل کرنے والوں  کو عمل کرنا چاہیے۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الشطر الاول، الباب الثامن، بیان منامات المشایخ۔۔۔ الخ، ۵ / ۲۶۶)

            اللہ تعالیٰ ہمیں  بھی اپنی آخرت کو کامیاب بنانے کے لئے زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔

اَذٰلِكَ خَیْرٌ نُّزُلًا اَمْ شَجَرَةُ الزَّقُّوْمِ(62)اِنَّا جَعَلْنٰهَا فِتْنَةً لِّلظّٰلِمِیْنَ(63)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو یہ مہمان نوازی بہتر ہے یا زقوم کادرخت؟ بیشک ہم نے اس درخت کو ظالموں کے لئے آزمائش بنادیا ہے۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَذٰلِكَ خَیْرٌ نُّزُلًا: تو یہ مہمان نوازی بہتر ہے۔} یعنی جنت کی نعمتیں  ، لذتیں  ،وہاں  کے نفیس و لطیف کھانے اور مشروبات ، دائمی عیش اور بے ا نتہا راحت و سُرور بہتر ہے یا جہنم میں  ملنے والا زَقوم کا درخت جو نہایت تلخ، انتہائی بدبودار، حد درجہ کا بدمزہ اور سخت ناگوار ہے،اس سے دوزخیوں  کی میزبانی کی جائے گی اور ان کو اس کے کھانے پر مجبور کیا جائے گا۔( مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۶۲، ص۱۰۰۲، خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۶۲، ۴ / ۱۹، ملتقطاً)

جہنمی درخت زقوم کی کیفیت:

            حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر زقوم کے درخت کا ایک قطرہ بھی دنیا والوں  پر گرا دیا جائے تو ان کی زندگی برباد ہو جائے گی تو ان لوگوں  کا کیا حال ہو گا جن کا کھانا ہی زقوم ہو گا۔( ترمذی، کتاب صفۃ جہنم، باب ما جاء فی صفۃ شراب اہل النار، ۴ / ۲۶۳، الحدیث: ۲۵۹۴)

            اللہ تعالیٰ ہمارا ایمان سلامت رکھے اور جہنم کے اس عذاب سے ہماری حفاظت فرمائے،اٰمین۔

{اِنَّا جَعَلْنٰهَا: بیشک ہم نے اس درخت کو بنا دیا۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ بے شک ہم نے زقوم کے درخت کو آخرت میں  کافروں  کے لئے عذاب بنا دیا ہے اور دوسرا معنی یہ ہے کہ بیشک ہم نے اس درخت کو دنیا میں  کافروں  کیلئے آزمائش بنادیا ہے ۔ جب کفار نے جہنم میں اس درخت کے بارے میں  سنا تو وہ ا س کی وجہ سے فتنے میں  پڑگئے اوروہ فتنہ یہ کہ اس کے سبب قرآن اور نبوت پر طعن کرتے ہوئے کہنے لگے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ آگ میں  درخت ہو حالانکہ آگ تو درختوں  کو جلاڈالتی ہے ۔یہ لوگ اپنی جہالت کی وجہ سے جانتے نہیں  کہ جو رب تعالیٰ ایسا حیوان پیدا کرنے پر قدرت رکھتا ہے جو آگ میں  زندگی گزارتا اور آگ سے لذت حاصل کرتا ہے تو وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ آگ میں  درخت پیدا فرما دے اورا سے جلنے سے محفوظ رکھے ۔ (روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۶۳، ۷ / ۴۶۴-۴۶۵)

اِنَّهَا شَجَرَةٌ تَخْرُ جُ فِیْۤ اَصْلِ الْجَحِیْمِ (64)طَلْعُهَا كَاَنَّهٗ رُءُوْسُ الشَّیٰطِیْنِ (65)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک وہ ایک درخت ہے جو جہنم کی جڑ میں سے نکلتا ہے۔ اس کا شگوفہ ایسے ہے جیسے شیطانوں کے سرہوں ۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّهَا شَجَرَةٌ: بیشک وہ ایک درخت ہے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں  کافروں  کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرمایا گیا کہ بیشک زقوم ایک درخت ہے جو جہنم کی جڑ میں سے نکلتا ہے اور اس کی شاخیں  جہنم کے ہر طبقے میں  پہنچتی ہیں ، اس کا شگوفہ بد صورتی میں  ایسے ہے جیسے شیطانوں  کے سرہوں یعنی نہایت بدہیئت اور قبیح المَنظر ، سانپوں  کے پَھن کی طرح۔چونکہ کفار کا کفر دل میں  تھا اور بد اَعمالیاں  ظاہری جسم میں  اور وہ خود انسانی شکل میں  شیطان تھے۔ اس لئے انہیں  سزا بھی اسی قسم کی دی گئی ،نیز جب ا س درخت کا اصل عُنصر ہی آگ ہے تو آگ اسے کیسے جلائے گی؟( روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۶۴-۶۵، ۷ / ۴۶۵، ملخصاً)

فَاِنَّهُمْ لَاٰكِلُوْنَ مِنْهَا فَمَالِــٴُـوْنَ مِنْهَا الْبُطُوْنَﭤ(66)ثُمَّ اِنَّ لَهُمْ عَلَیْهَا لَشَوْبًا مِّنْ حَمِیْمٍ(67)ثُمَّ اِنَّ مَرْجِعَهُمْ لَاۡاِلَى الْجَحِیْمِ(68)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر بیشک وہ اس میں سے کھائیں گے پھر اس سے پیٹ بھریں گے۔پھر بیشک ان کے لیے اس پر کھولتے پانی کی ملاوٹ ہے۔ پھر بیشک ان کا لوٹنا ضرور بھڑکتی آگ کی طرف ہے۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاِنَّهُمْ لَاٰكِلُوْنَ مِنْهَا: پھر بیشک وہ اس میں  سے کھائیں  گے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں  جہنم میں  کفار کے کھانے اور مشروب کا بیان کیا گیا ہے ۔اس کا خلاصہ یہ ہے کہ کفار بھوک کی شدت سے مجبور ہو کر جہنمی تھوہڑ میں  سے کھائیں  گے ، یہاں  تک کہ اس سے ان کے پیٹ بھر جائیں  گے، وہ تھوہڑجلتا ہوگا اور ان کے پیٹوں  کو جلائے گا، اس کی سوزش سے پیاس کا غلبہ ہوگا اور وہ ایک عرصے تک تو پیاس کی تکلیف میں  رکھے جائیں گے۔ پھر جب پینے کو دیا جائے گا تو گرم کھولتا پانی، اس کی گرمی اور سوزش، اُس تھوہڑ کی گرمی اور جلن سے مل کر تکلیف و بے چینی اوربڑھادے گی۔(مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۶۶-۶۷، ص۱۰۰۳)

{ثُمَّ اِنَّ مَرْجِعَهُمْ: پھر بیشک ان کا لوٹنا۔} ارشاد فرمایا کہ پھر بیشک ان کا لوٹنا ضرور بھڑکتی آگ کی طرف ہے کیونکہ زقوم کھلانے اور گرم پانی پلانے کے لئے ان کو اپنے دَرکات یعنی عذاب کے مقام سے دوسرے درکات میں  لے جایا جائے گا اس کے بعد پھر اپنے درکات کی طرف لوٹائے جائیں  گے۔(مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۶۸، ص۱۰۰۳)

اِنَّهُمْ اَلْفَوْا اٰبَآءَهُمْ ضَآلِّیْنَ(69)فَهُمْ عَلٰۤى اٰثٰرِهِمْ یُهْرَعُوْنَ(70)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک انہوں نے اپنے باپ دادا کوگمراہ پایا۔ تو وہ انہیں کے نشانِ قدم پر دوڑائے جارہے ہیں ۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّهُمْ: بیشک انہوں  نے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں  کفار کے عذاب کامستحق ہونے کی وجہ بیان فرمائی گئی کہ اپنے باپ دادا کوگمراہ پانے کے باوجود وہ انہیں  کے نشانِ قدم پر دوڑے جارہے ہیں  اور گمراہی میں ان کی پیروی کرتے ہیں  جبکہ حق کے واضح دلائل سے آنکھیں بند کرلیتے ہیں  ۔ (مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۶۹-۷۰، ص۱۰۰۳، ملخصاً)

گمراہوں  کی پیروی ہلاکت میں  مبتلا ہونے کا سبب ہے :

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ جس طرح نیک بندوں  کی پیروی ہدایت حاصل ہونے کا ذریعہ ہے اسی طرح گمراہوں  کی پیروی ہلاکت میں  مبتلا ہونے کا سبب ہے ۔ اس آیت سے ان لوگوں  کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جن کے پاس غیر شرعی رسم ورواج کے صحیح ہونے کی دلیل صرف خاندان میں  عرصۂ دراز سے اسی طرح ہوتے آنا ہے یا آج تک کسی سے اس کا ناجائز ہونا نہ سننا ہے۔یونہی ان لوگوں  کے لئے بھی نصیحت ہے جو غیر عالم سے سنے ہوئے غلط مسائل پر عمل پیرا ہوتے ہیں  اور جب انہیں  درست مسائل بتائے جائیں  تو ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ ہم نے یہ مسئلہ اتنے لوگوں  سے سنا ہے اور ہمیں  آج تک کسی نے نہیں  کہاکہ یہ غلط ہے اور تم نے دو چار لفظ کیا پڑھ لئے اب ہمیں  سمجھانے بیٹھ گئے ہو ۔انہیں  چاہئے کہ رسم ورواج پر عمل کرنا ہو یا انہیں  کوئی شرعی مسئلہ درپیش ہو تو اپنے بڑے بوڑھوں  کے عمل اور عام لوگوں  کے جواب کو دلیل بنا کر پیش کرنے کی بجائے مُستَنَد سنی عالمِ دین سے شرعی رہنمائی لے کر ہی اس پر عمل کریں ۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں  کو ہدایت عطا فرمائے،آمین۔

وَ لَقَدْ ضَلَّ قَبْلَهُمْ اَكْثَرُ الْاَوَّلِیْنَ(71)وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا فِیْهِمْ مُّنْذِرِیْنَ(72)فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُنْذَرِیْنَ(73)اِلَّا عِبَادَ اللّٰهِ الْمُخْلَصِیْنَ(74)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بیشک ان سے پہلے بہت سے اگلے لوگ گمراہ ہوئے۔ اور بیشک ہم نے ان میں ڈر سنانے والے بھیجے۔ تو دیکھو ڈرائے جانے والوں کا کیسا انجام ہوا؟ مگر اللہ کے چُنے ہوئے بندے

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَقَدْ ضَلَّ قَبْلَهُمْ: اور بیشک ان سے پہلے گمراہ ہوئے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بیشک کفارِ قریش سے پہلے بہت سے اگلے لوگ اسی وجہ سے گمراہ ہوئے کہ اُنہوں  نے اپنے باپ دادا کی غلط راہ نہ چھوڑی اور حجت و دلیل سے کوئی فائدہ نہ اُٹھایا،اور بیشک ہم نے ان میں  انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھیجے جنہوں نے ان کو گمراہی اور بدعملی کے برے انجام کا خوف دلایا لیکن انہوں  نے اپنے جاہل باپ داداؤں کی پیروی نہ چھوڑی اورانبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا کہنا نہ مانا جس کی وجہ سے ان ڈرائے جانے والوں  کا انجام یہ ہوا کہ وہ عذاب سے ہلاک کر دئیے گئے جبکہ اللہ تعالیٰ کے چنے ہوئے ایمانداربندے عافیت میں  رہے اور انہوں نے اپنے اخلاص کے سبب عذاب سے نجات پائی۔ (مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۷۱-۷۴، ص۱۰۰۳، خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۷۱-۷۴، ۴ / ۱۹، ملتقطاً)

وَ لَقَدْ نَادٰىنَا نُوْحٌ فَلَنِعْمَ الْمُجِیْبُوْنَ(75)وَ نَجَّیْنٰهُ وَ اَهْلَهٗ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِیْمِ(76)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بیشک نوح نے ہمیں پکاراتو ہم کیا ہی اچھے جواب دینے والے ہیں ۔اور ہم نے اسے اور اس کے گھر والوں کو بڑی تکلیف سے نجات دی۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَقَدْ نَادٰىنَا نُوْحٌ: اور بیشک نوح نے ہمیں  پکارا۔} یہاں  سے اللہ تعالیٰ نے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے 7 واقعات بیان فرمائے،سب سے پہلے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان فرمایا اوراس کے بعد حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ،حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ، حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ، حضرت الیاس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ،حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ اور حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان فرمایا۔ان تما م واقعات کو بیان فرمانے سے مقصود حضور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دینا اور ان کی امت میں  سے کفر کرنے والوں  کو عذاب سے ڈرانا ہے۔( صاوی، الصافات، تحت الآیۃ: ۷۵، ۵ / ۱۷۴۲)

         جب حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کواپنی قوم کے ایمان قبول کرنے کی امید نہ رہی تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  دعا کی،

’’اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ‘‘(قمر:۱۰)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: میں  مغلوب ہوں  تو تومیرا بدلہ لے۔

         اور عرض کی:

’’رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْاَرْضِ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ دَیَّارًا(۲۶)اِنَّكَ اِنْ تَذَرْهُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَكَ وَ لَا یَلِدُوْۤا اِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا‘‘(نوح:۲۶، ۲۷)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے میرے رب! زمین پر کافروں میں  سے کوئی بسنے والا نہ چھوڑ۔ بیشک اگر تو انہیں  چھوڑ دے گا  تو یہ تیرے بندوں  کو گمراہ کر دیں  گے اور یہ اولاد بھی ایسی ہی جنیں  گے جو بدکار، بڑی ناشکری ہوگی۔

زیرِ تفسیر آیت میں  اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایاکہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ہمیں  پکارا اور ہم سے اپنی قوم پر عذاب نازل کرنے اور انہیں  ہلاک کر دینے کی درخواست کی تو ہم کیا ہی اچھے جواب دینے والے ہیں  کہ ہم نے اُن کی دعا قبول کی اور دشمنوں  کے مقابلے میں  ان کی مدد کی اور اُن کے دشمنوں  سے پورا انتقام لیا کہ انہیں  غرق کرکے ہلاک کردیا۔( مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۷۵، ص۱۰۰۳ ، جلالین، الصافات، تحت الآیۃ: ۷۵، ص۳۷۶، قرطبی، الصافات، تحت الآیۃ: ۷۵، ۸ / ۶۶، الجزء الخامس عشر، ملتقطاً)

{وَ نَجَّیْنٰهُ وَ اَهْلَهٗ: اور ہم نے اسے اور اس کے گھر والوں  کو نجات دی۔} یعنی ہم نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اور جو ان پر ایمان لایا انہیں  غرق ہونے سے نجات دی۔( مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۷۶، ص۱۰۰۳)

وَ جَعَلْنَا ذُرِّیَّتَهٗ هُمُ الْبٰقِیْنَ(77)وَ تَرَكْنَا عَلَیْهِ فِی الْاٰخِرِیْنَ(78)سَلٰمٌ عَلٰى نُوْحٍ فِی الْعٰلَمِیْنَ(79)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ہم نے اسی کی اولاد باقی رکھی۔ اور ہم نے بعد والوں میں اس کی تعریف باقی رکھی۔تمام جہان والوں میں نوح پر سلام ہو۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ جَعَلْنَا ذُرِّیَّتَهٗ: اور ہم نے اسی کی اولاد کو کر دیا۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد ہی باقی رکھی تو اب دنیا میں  جتنے انسان ہیں  سب حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نسل سے ہیں  ۔حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے کشتی سے اترنے کے بعد آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد اور ان کی بیویوں  کے علاوہ جتنے مرد و عورت تھے سبھی آگے کوئی نسل چلائے بغیر فوت ہوگئے ۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولادسے دنیا کی نسلیں  چلیں  ۔عرب ، فارس اور روم آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے فرزند سام کی اولاد سے ہیں  ۔ سوڈان کے لوگ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بیٹے حام کی نسل سے ہیں ۔ ترک اوریاجوج ماجوج وغیرہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے صاحب زادے یافث کی اولاد سے ہیں ۔( خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۷۷، ۴ / ۱۹-۲۰، مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۷۷، ص۱۰۰۳-۱۰۰۴، ملتقطاً)

{وَ تَرَكْنَا عَلَیْهِ: اور ہم نے اس کی تعریف باقی رکھی۔} یعنی حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد والے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اُن کی اُمتوں  میں  حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ذکرِ جمیل باقی رکھا۔( خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۷۸، ۴ / ۲۰)

 وفات کے بعد دنیا میں  ذکر ِخیر رہنا اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ وفات کے بعد دنیا میں  ذکر ِخیر رہنا اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے اور دنیا میں  لوگوں  کا اچھے الفاظ میں  یاد کرنا کس قدر باعثِ رحمت ہے اس کا اندازہ اس حدیثِ پاک سے لگایا جا سکتا ہے۔چنانچہ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ ایک جنازہ گزرا،لوگوں  نے اس کی تعریف کی توحضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’واجب ہوگئی ،واجب ہو گئی ،واجب ہو گئی۔ جب دوسرا جنازہ گزرا تو لوگوں  نے اس کی مذمت کی۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ واجب ہوگئی، واجب ہو گئی ،واجب ہو گئی۔حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میرے ماں  باپ آپ پر فدا ہوں ،ایک جنازہ گزرا اور لوگوں  نے  اس کی اچھائی بیان کی تو آپ نے تین بارفرمایا’’ واجب ہو گئی! اور ایک دوسرا جنازہ گزرا،لوگوں  نے  اس  کی برائی بیان کی تو بھی آپ نے تین بار فرمایا: ’’واجب ہو گئی !تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس جنازے کی تم نے تعریف کی اس  پر جنت واجب ہو گئی اور جس جنازے کی تم نے مذمت بیان کی ا س پر جہنم واجب ہو گئی ۔ تم زمین پر اللہ تعالیٰ کے گواہ ہو ، تم زمین پر اللہ تعالیٰ کے گواہ ہو، تم زمین پر اللہ تعالیٰ کے گواہ ہو۔( مسلم، کتاب الجنائز، باب فیمن یثنی علیہ خیر او شرّ من الموتی، ص۴۷۳، الحدیث: ۶۰(۹۴۹))

{سَلٰمٌ: سلام ہو۔} یعنی فرشتے ،جنات اور انسان سب حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر قیامت تک سلام بھیجتے رہیں  گے۔( مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۷۹، ص۱۰۰۴)

بچھو کے ڈنگ اور زہریلے جانوروں  سے محفوظ رہنے کاوظیفہ:   

          حضرت سعید بن مسیب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ جو شخص شام کے وقت یہ آیت ’’سَلٰمٌ عَلٰى نُوْحٍ فِی الْعٰلَمِیْنَ‘‘ پڑھ لیا کرے تو اسے بچھو نہیں  کاٹے گا۔( التمہید لابن عبد البر، سہیل بن ابی صالح، ۸ / ۵۶۵، تحت الحدیث: ۶۱۱)اور بعض بزرگوں  نے فرمایا کہ جو شخص یہ آیت صبح شام پڑھ لیا کرے وہ زہریلے جانوروں  سے امن میں  رہے اور اگر کشتی میں  سوار ہوتے وقت پڑھ لے تو ڈوبنے سے محفوظ رہے۔

اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(80)اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(81)ثُمَّ اَغْرَقْنَا الْاٰخَرِیْنَ(82)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک ہم نیکوں کوایسا ہی صلہ دیتے ہیں ۔ بیشک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہے۔ پھر ہم نے دوسروں کو ڈبو دیا۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّا كَذٰلِكَ: بیشک ہم ایسا ہی۔} یعنی حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا قبول فرما کر،ان کی نسل کو باقی رکھ کر، بعد والوں  میں  ان کی تعریف باقی چھوڑ کر اور تمام جہان والوں  میں ان پر سلام بھیج کر جو انہیں  مقام اور مرتبہ عطا کیا گیا اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نیکوں  کوایسا ہی صلہ دیتے ہیں ۔( صاوی، الصافات، تحت الآیۃ: ۸۰، ۵ / ۱۷۴۲، ملخصاً)

{اِنَّهٗ: بیشک وہ۔} یعنی حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نیک ہیں  کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں  میں  سے ہیں ۔اسے بیان کرنے سے مقصود یہ ہے کہ سب سے اعلیٰ درجہ اور سب سے زیادہ عزت کا مقام اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کی طاعت کے آگے سرِ تسلیم خَم کر دینا ہے۔پھر جو اِس ایمان و اطاعت میں  جتنا زیادہ ہے وہ اتنا ہی مُقَرّب ہے۔

{ثُمَّ اَغْرَقْنَا: پھر ہم نے ڈبو دیا۔} اس آیت کا تعلق آیت نمبر76کے ساتھ ہے اور معنی یہ ہے کہ ہم نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان پر ایمان لانے والوں  کو غرق ہونے سے نجات دی،پھر ان کی قوم کے تمام کافروں  کو غرق کر دیا۔

وَ اِنَّ مِنْ شِیْعَتِهٖ لَاِبْرٰهِیْمَ(83)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بیشک اسی (نوح) کے گروہ سے ابراہیم ہے۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِنَّ مِنْ شِیْعَتِهٖ: اور بیشک اسی کے گروہ سے۔} یہاں  سے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان کیا جارہا ہے۔اس آیت کا معنی یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دین و ملت اور انہیں  کے طریقے پر ہیں۔

         حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے درمیان دو ہزار سے زیادہ برس کے زمانے کا فرق ہے اور دونوں  حضرات کے درمیان جو زمانہ گزرا اس میں صرف دو نبی، حضرت ہود اورحضرت صالح عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تشریف لائے اور حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پہلے تین نبی، حضرت ادریس،حضرت شیث اور حضرت آدم عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تشریف لائے،اس طرح حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ساتویں  نبی ہیں ۔( خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۸۳، ۴ / ۲۰، مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۸۳، ص۱۰۰۴، صاوی، الصافات، تحت الآیۃ: ۸۳، ۵ / ۱۷۴۳، ملتقطاً)

اِذْ جَآءَ رَبَّهٗ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ(84)

ترجمہ: کنزالعرفان

جبکہ اپنے رب کے پاس سلامت دل لے کرحاضر ہوا۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِذْ جَآءَ رَبَّهٗ: جبکہ اپنے رب کے پاس حاضر ہوا۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت اور عبادت کی دعوت دی تو اس وقت ان کے دل میں اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص تھا اور انہوں نے دنیا کی ہر چیز سے اپنے دل کوفارغ کرلیا تھا۔(قرطبی، الصافات، تحت الآیۃ: ۸۴، ۸ / ۶۸، الجزء الخامس عشر، مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۸۴،  ص۱۰۰۴، ملتقطاً)

اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ وَ قَوْمِهٖ مَا ذَا تَعْبُدُوْنَ(85)اَىٕفْكًا اٰلِهَةً دُوْنَ اللّٰهِ تُرِیْدُوْنَﭤ(86)فَمَا ظَنُّكُمْ بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(87)

ترجمہ: کنزالعرفان

جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے فرمایاتم کیا پوجتے ہو؟ کیا بہتان باندھ کر اللہ کے سوا اور معبود چاہتے ہو؟ تو تمہارا رب العالمین پرکیا گمان ہے؟

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ وَ قَوْمِهٖ: جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے فرمایا۔} اس آیت اورا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم بتوں  کی پوجا کرتی تھی ،اس پر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے عرفی باپ آزر اور اپنی قوم سے عتاب کے طور پر فرمایا: ’’تم کس چیز کی عبادت کرتے ہو؟ کیا تم بہتان باندھ کر اللہ تعالیٰ کے سوا اور معبودوں کی عبادت کرتے ہو؟ تمہارا رب العالمین پرکیا گمان ہے کہ جب تم اس کے سوا دوسرے کی پوجا کرو گے تو کیا وہ تمہیں  عذاب دئیے بغیر چھوڑ دے گا، حالانکہ تم جانتے ہو کہ وہی در حقیقت نعمتیں  عطا کرنے والا اور عبادت کا مستحق ہے۔ قوم نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جواب دیا کہ ’’ کل کے دن ہماری عید ہے ،جنگل میں  میلہ لگے گا ،ہم نفیس کھانے پکا کر بتوں  کے پاس رکھ جائیں  گے اور میلے سے واپس آکر تَبَرُّک کے طور پر وہ کھانے کھائیں  گے۔ آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں  اور مجمع اور میلہ کی رونق دیکھیں  ،وہاں  سے واپس آ کر بتوں  کی زینت ، سجاوٹ اور ان کا بناؤ سنگار دیکھیں ، یہ تماشا دیکھنے کے بعد ہم سمجھتے ہیں  کہ آپ بت پرستی پر ہمیں  ملامت نہیں  کریں  گے۔( روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۸۵-۸۷، ۷ / ۴۶۹، خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۸۵-۸۷، ۴ / ۲۰، مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۸۵-۸۷، ص۱۰۰۴، جلالین، الصافات، تحت الآیۃ: ۸۵-۸۷، ص۳۷۶، ملتقطاً)

فَنَظَرَ نَظْرَةً فِی النُّجُوْمِ(88)فَقَالَ اِنِّیْ سَقِیْمٌ(89)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر اس نے ستاروں کوایک نگاہ دیکھا۔ تو کہا :میں بیمار ہونے والا ہوں ۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَنَظَرَ نَظْرَةً: پھر اس نے ایک نگاہ دیکھا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قوم کا جواب سن کر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھا ئی اور ایک نظر ستاروں  کی طرف ایسے دیکھا جیسے ستارہ شناس اور علمِ نجوم کے ماہر ستاروں  کے ملنے اور جدا ہونے کی جگہ کو دیکھاکرتے ہیں ،اس کے بعد فرمایا: ’’ میں  بیمار ہونے والا ہوں ۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم چونکہ ستاروں  کی بہت معتقد تھی ا س لئے وہ سمجھی کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ستاروں  سے اپنے بیمار ہونے کا حال معلوم کرلیا ہے۔( مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۸۸-۸۹، ص۱۰۰۴، ملخصاً)

نوٹ:یاد رہے کہ علمِ نجوم حق ہے اوریہ علم سیکھنے میں  مشغول ہونا منسوخ ہوچکا ہے۔

فَتَوَلَّوْا عَنْهُ مُدْبِرِیْنَ(90)فَرَاغَ اِلٰۤى اٰلِهَتِهِمْ فَقَالَ اَلَا تَاْكُلُوْنَ(91)مَا لَكُمْ لَا تَنْطِقُوْنَ(92)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو قوم کے لوگ اس سے پیٹھ پھیر کر چلے گئے۔ پھر آپ ان کے خداؤں کی طرف چھپ کر چلے پھر فرمایا:کیا تم کھاتے نہیں ؟ تمہیں کیا ہوا کہ تم بولتے نہیں ؟

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَتَوَلَّوْا عَنْهُ: تو قوم کے لوگ اس سے پھر گئے۔} جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ستاروں  کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ میں  بیمار ہونے والا ہوں  تو اس وقت آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے لوگ اپنی عید گاہ کی طرف پھر گئے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس لئے ساتھ لے کر نہ گئے تاکہ ان کے اعتقاد کے مطابق آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیماری اُڑ کر انہیں  نہ لگ جائے۔(روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۹۰، ۷ / ۴۷۰، خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۸۹-۹۰، ۴ / ۲۰، ملتقطاً)

{فَرَاغَ اِلٰۤى اٰلِهَتِهِمْ: پھر ان کے خداؤں  کی طرف چھپ کر چلے۔} جب قوم کے لوگ چلے گئے تو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان سے نگاہ بچاتے ہوئے ا ن کے بت خانے کی طرف چلے،پھر وہاں  جاکر بتوں  کا مذاق اڑاتے ہوئے ان سے فرمایا:کیا تم اس کھانے کو نہیں  کھاتے جو تمہارے سامنے وہ لوگ اس لئے رکھ گئے ہیں  تاکہ برکت والاہو جائے؟ ان بتوں  کی تعدادکافی زیادہ تھی،ان میں  سے بعض بت پتھر کے تھے،بعض لکڑی کے،بعض سونے کے،بعض چاندی کے، بعض تانبے کے،بعض لوہے کے اور بعض سیسے کے بنے ہوئے تھے،سب سے بڑا بت سونے کا بنا ہوا تھا اور اس پر جواہرات لگے ہوئے تھے ۔ (ابو سعود، الصافات، تحت الآیۃ: ۹۱،۴ / ۴۱۴، جمل، الصافات، تحت الآیۃ: ۹۱، ۶ / ۳۴۱، ملتقطاً)

{مَا لَكُمْ: تمہیں  کیا ہوا۔} جب بتوں  نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بات کا کوئی جواب نہ دیا تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا: ’’تمہیں  کیا ہوا کہ تم بولتے نہیں ؟ پھربھی بتوں  کی طرف سے کوئی جواب نہ آیااور وہ جواب ہی کیا دیتے کیونکہ وہ تو بے جان تھے۔

فَرَاغَ عَلَیْهِمْ ضَرْبًۢا بِالْیَمِیْنِ(93)فَاَقْبَلُوْۤا اِلَیْهِ یَزِفُّوْنَ(94)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو لوگوں سے نظر بچا کر دائیں ہاتھ سے انہیں مارنے لگے۔تو کافر اس کی طرف جلدی کرتے ہوئے آئے۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَرَاغَ عَلَیْهِمْ ضَرْبًا: تو لوگوں  سے نظر بچا کر انہیں  مارنے لگے۔} جب بتوں  نے بالکل کوئی جواب نہ دیا تو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے لوگوں  سے نظر بچا کر دائیں  ہاتھ میں  کلہاڑا اٹھا یا اور ان بتوں  کو مارنے لگے یہاں  تک کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بتوں  کو مار مار کر پارہ پارہ کردیا ۔(بحرالمیحط، الصافات، تحت الآیۃ:۹۳،۷ / ۳۵۱، قرطبی، الصافات، تحت الآیۃ: ۹۳،۸ / ۷۰، الجزء الخامس عشر، ملتقطاً)

          نوٹ:اس واقعہ کی تفصیل سورۂ اَنبیاء آیت نمبر57،58میں  بیان ہو چکی ہے۔

{فَاَقْبَلُوْۤا اِلَیْهِ: تو کافر اس کی طرف آئے۔} جب کافروں  کو اس بات کی خبر پہنچی تو وہ بہت جلد حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس آئے اور ان سے کہنے لگے کہ ہم تو ان بتوں  کو پوجتے ہیں  اورتم انہیں  توڑتے ہو۔( خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۹۴، ۴ / ۲۱، جلالین، الصافات، تحت الآیۃ: ۹۴، ص۳۷۶-۳۷۷، ملتقطاً)

قَالَ اَتَعْبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْنَ(95)وَ اللّٰهُ خَلَقَكُمْ وَ مَا تَعْمَلُوْنَ(96)

ترجمہ: کنزالعرفان

فرمایا: کیا تم ان کی عبادت کرتے ہوجنہیں خود تراشتے ہو؟ اور اللہ نے تمہیں اور تمہارے اعمال کوپیدا کیا ۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ: فرمایا۔}اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کچھ گفتگو کے بعد حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کافروں سے فرمایا: کیا تم ان بتوں کی عبادت کرتے ہوجنہیں تم خود اپنے ہاتھوں سے تراشتے ہو؟ حالانکہ تمہیں اور تمہارے اعمال کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور جوخالق ہے وہی در حقیقت عبادت کے لائق ہے جبکہ مخلوق کسی طرح بھی عبادت کی مستحق نہیں۔( روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۹۵-۹۶، ۷ / ۴۷۱)

قَالُوا ابْنُوْا لَهٗ بُنْیَانًا فَاَلْقُوْهُ فِی الْجَحِیْمِ(97)

ترجمہ: کنزالعرفان

قوم نے کہا: اس کے لیے ایک عمارت بناؤپھر اسے بھڑکتی آگ میں ڈال دو۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالُوْا: قوم نے کہا۔} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا جواب سن کر وہ لوگ حیران ہوگئے اور اُن سے کوئی جواب نہ بن پایا تو کہنے لگے کہ’’ اس کے لیے پتھر کی  لمبی چوڑی چار دیواری بناؤ ، پھر اس کو لکڑیوں  سے بھر دو اور ان میں  آگ لگادو، یہاں  تک کہ جب آگ زور پکڑلے تو پھرانہیں بھڑکتی آگ میں  ڈال دو۔( خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۹۷، ۴ / ۲۱، ملتقطاً) چنانچہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کی قوم نے انہیں  ایک کمرے میں  بند کر دیا اور ان کے لئے لکڑیاں  جمع کرنے لگ گئے اور سب نے جوش و خروش سے حصہ لیا ،جب انہوں  نے کثیر تعداد میں  لکڑیاں  جمع کر کے آگ لگائی تو ا س کے شعلے اتنے بلند ہوئے کہ اگر اس طرف سے کوئی پرندہ گزرتا تو وہ اس کی تپش سے جل جاتا تھا۔جب لوگوں  نے عمارت کے کنارے تک حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بلند کیا تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے سر اٹھا کر آسمان کی طر ف دیکھا، اس وقت آسمانوں ، زمینوں ، پہاڑوں  اور فرشتوں  نے فریاد کی: ’’اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، تیرے نام کو بلند کرنے کی پاداش میں  حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جَلایا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’مجھے یہ بات معلوم ہے،اگر وہ تمہیں پکارے تو تم ا س کی مدد کرنا ۔جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو عرض کی: ’’اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، تو واحد ہے اور میں  زمین میں  واحد ہوں  اور زمین میں  میرے علاوہ اور کوئی بندہ ایسا نہیں  جو تیری عبادت کرے۔مجھے اللہ تعالیٰ کافی ہے اور وہ بہت ہی اچھا کارساز ہے۔تب اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا: ’’یٰنَارُ كُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤى اِبْرٰهِیْمَ‘‘(الانبیاء:۶۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے آگ! ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجا۔( در منثور، الصافات، تحت الآیۃ: ۹۷، ۷ / ۱۰۱-۱۰۲)

          نوٹ:اس واقعے کی بعض تفصیل سورۂ اَنبیاء کی آیت نمبر68کی تفسیر میں  گزر چکی ہے۔

فَاَرَادُوْا بِهٖ كَیْدًا فَجَعَلْنٰهُمُ الْاَسْفَلِیْنَ(98)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو انہوں نے اس کے ساتھ فریب کرنا چاہا توہم نے انہیں نیچا کردیا۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاَرَادُوْا بِهٖ كَیْدًا: تو انہوں  نے اس کے ساتھ فریب کرنا چاہا۔} ارشاد فرمایا کہ کفارنے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو آگ میں  ڈال کر ان کے ساتھ فریب کرنا چاہا تو ہم نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس آگ میں  سلامت رکھ کر کفار کے فریب کو باطل کر کے انہیں  ذلیل کر دیا ۔( روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۹۸، ۷ / ۴۷۱، ملخصاً)

نوٹ:اس واقعہ کی مزید تفصیل سورۂ اَنبیاء آیت نمبر68تا70میں  گزر چکی ہے۔

وَ قَالَ اِنِّیْ ذَاهِبٌ اِلٰى رَبِّیْ سَیَهْدِیْنِ(99)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ابراہیم نے کہا: بیشک میں اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں ،اب وہ مجھے راہ دکھائے گا۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ قَالَ: اور فرمایا۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو آگ سے نجات عطا فرما دی تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے اہلِ خانہ کو ہجرت کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: بیشک میں  اس کفر کے مقام سے ہجرت کرکے وہاں  جانے والا ہوں  جہاں  جانے کا میرا رب عَزَّوَجَلَّ  حکم دے، اب وہ مجھے میرے مقصد کی طرف راہ دکھائے گا، چنانچہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سرزمینِ شام میں  ارضِ مُقَدَّسہ کے مقام پر پہنچے۔( روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۹۹، ۷ / ۴۷۲، جلالین، الصافات، تحت الآیۃ: ۹۹، ص۳۷۷، ملتقطاً)

 ہجرت اورفتنے کے اَیّام میں  گوشہ نشینی کی اصل:

            ابو عبداللہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’یہ آیت ِمبارکہ ہجرت اور (فتنے کے اَیام میں ) گوشہ نشینی کی اصل ہے اور سب سے پہلے جس نے ہجرت کی وہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں۔( تفسیر قرطبی، الصافات، تحت الآیۃ: ۹۹، ۸ / ۷۲، الجزء الخامس عشر)

            اورحضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’قریب ہے کہ مسلمان کا بہترین مال اس کی بکریاں  ہوں  گی جن کے پیچھے وہ پہاڑوں  کی چوٹیوں  اور چٹیل میدانوں  میں  اپنے دین کو فتنوں  سے بچانے کی خاطر بھاگتا پھرے گا۔( بخاری، کتاب الایمان، باب من الدِّین الفرار من الفتن، ۱ / ۱۸، الحدیث: ۱۹)

             اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے کہیں  جانا اللہ تعالیٰ کی طرف جانا ہے کیونکہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہجرت کر کے شام کی طرف تشریف لے گئے تھے ، لیکن آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ میں  اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف جانے والا ہوں۔

رَبِّ هَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(100)فَبَشَّرْنٰهُ بِغُلٰمٍ حَلِیْمٍ(101)

ترجمہ: کنزالعرفان

اے میرے رب! مجھے نیک اولاد عطا فرما۔ تو ہم نے اسے ایک بردبار لڑکے کی خوشخبری سنائی۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{رَبِّ: اے میرے رب!} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جب ارضِ مُقَدَّسہ کے مقام پر پہنچے تو اس وقت آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس اولاد نہیں  تھی ، چنانچہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  دعا کی: ’’اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، مجھے نیک اولاد عطا فرما جو کہ دینِ حق کی دعوت دینے اورتیری عبادت کرنے پر میری مددگار ہو اور پردیس میں  مجھے اس سے اُنسِیَّت حاصل ہو ۔( ابو سعود، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۴ / ۴۱۵)

نیک اولاد اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ نیک اولاد اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے، اس لئے جب بھی اللہ تعالیٰ سے اولاد کی دعا مانگی جائے تو نیک اور صالح اولاد کی دعا مانگنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے کامل ایمان والوں  کا ایک وصف یہ بیان فرمایا ہے کہ وہ نیک، صالح اورمتقی بیویوں  اور اولاد کی دعا نگتے ہیں تاکہ اُن کے اچھے عمل دیکھ کر نیز اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت دیکھ کر ان کی آنکھیں  ٹھنڈی اور دل خوش ہوں ، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا‘‘(فرقان:۷۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو عرض کرتے ہیں : اے ہمارے رب! ہماری بیویوں  اور ہماری اولاد سے ہمیں  آنکھوں  کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں  پرہیزگاروں  کا پیشوا بنا۔

{فَبَشَّرْنٰهُ: تو ہم نے اسے خوشخبری سنائی۔} اس آیت میں  حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوتین بشارتیں  دی گئیں۔ (1)ان کے ہاں  جو اولاد ہو گی وہ لڑکا ہو گا۔(2)وہ بالغ ہونے کی عمر کو پہنچے گا۔(3)وہ عقلمند اور بُردبار ہو گا۔( ابو سعود، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۴ / ۴۱۵)

حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا وصف:

             اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حلیم اور بُردبار لڑکے کی بشارت دی اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خود بھی حلیم تھے،جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِیْمٌ‘‘(توبہ:۱۱۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ابراہیم بہت آہ و زاری کرنے والا، بہت برداشت کرنے والا تھا۔

اورارشاد فرمایا: ’’اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِیْبٌ‘‘(ہود:۷۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ابراہیم بڑے تحمل والا ،بہتآہیں  بھرنے والا، رجوع کرنے والا ہے۔

 اللہ تعالیٰ کے مقبول بند وں  کو علومِ خَمسہ کی خبر دی جاتی ہے:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے مقبول بند وں  کو علوم ِخمسہ کی خبر دی جاتی ہے،کیونکہ بیٹے کی ولادت سے پہلے اس کی خبر دے دینا علمِ غیب بلکہ ان پانچ علوم میں  سے ہے جن کے علم کا اللہ تعالیٰ کے پاس ہونا بطورِ خاص قرآن میں  مذکور ہوا ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِۚ-وَ یُنَزِّلُ الْغَیْثَۚ-وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِؕ-وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّا ذَا تَكْسِبُ غَدًاؕ-وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌۢ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ‘‘(لقمان:۳۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس  ہے اور وہ بارش اتارتا ہے اور جانتا ہے جو کچھ ماؤں  کے پیٹ میں  ہے اور کوئی شخص نہیں  جانتا کہ وہ کل کیا کمائے گا اور کوئی شخص نہیں  جانتا کہ وہ کس زمین میں  مرے گا۔ بیشک اللہ علم والا، خبردار ہے۔

فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیْۤ اَرٰى فِی الْمَنَامِ اَنِّیْۤ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَا ذَا تَرٰىؕ-قَالَ یٰۤاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ٘-سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ(102)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر جب وہ اس کے ساتھ کوشش کرنے کے قابل عمر کو پہنچ گیا توابراہیم نے کہا: اے میرے بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تجھے ذبح کررہا ہوں ۔اب تو دیکھ کہ تیری کیا رائے ہے ؟بیٹے نے کہا: اے میرے باپ! آپ وہی کریں جس کا آپ کو حکم دیاجارہا ہے۔ اِنْ شَاءَاللہ عنقریب آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْیَ: پھر جب وہ اس کے ساتھ کوشش کرنے کے قابل عمر کو پہنچ گیا۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو فرزندعطا فرمایا ،وہ پلتے بڑھتے جب اس عمر تک پہنچ گئے جس میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی حاجت اور ضروریات میں ان کے ساتھ کام کرنے کے قابل ہو گئے تو ان سے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا’’ اے میرے بیٹے! میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کررہا ہوں اور انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے خواب حق ہوتے ہیں اور ان کے افعال اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوا کرتے ہیں ، اب تو دیکھ لے کہ تیری کیا رائے ہے؟ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ اس لئے کہا تھا کہ ان کے فرزند کو ذبح ہونے سے وحشت نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کے لئے رغبت کے ساتھ تیار ہوجائیں، چنانچہ اس فرزندِ اَرْجْمند نے اللہ تعالیٰ کی رضا پر فدا ہونے کا کمالِ شوق سے اظہار کرتے ہوئے فرمایا’’ اے میرے باپ! آپ وہی کریں جس کا آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم دیاجارہا ہے۔اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو عنقریب آپ مجھے ذبح پرصبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔( ابو سعود، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۴ / ۴۱۵-۴۱۶، خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۴ / ۲۲، جلالین، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ص۳۷۷، ملتقطاً)

یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی

سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی

فَلَمَّاۤ اَسْلَمَا وَ تَلَّهٗ لِلْجَبِیْنِ(103)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو جب ان دونوں نے (ہمارے حکم پر) گردن جھکادی اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹایا (اس وقت کا حال نہ پوچھ)۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَلَمَّاۤ اَسْلَمَا: تو جب ان دونوں  نے (ہمارے حکم پر) گردن جھکادی۔} جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے فرزند نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے سر ِتسلیم خم کر دیا اور جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ  وَالسَّلَام نے اپنے فرزند کو ذبح کرنے کا ارادہ فرمایا تو ان کے فرزند نے عرض کی’’اے والد ِمحترم ! اگر آپ نے مجھے ذبح کرنے کا ارادہ کر لیا ہے تو پہلے مجھے رسیوں  کے ساتھ مضبوطی سے باندھ لیں  تاکہ میں  تڑپ نہ سکوں  اور اپنے کپڑے بھی سمیٹ لیں  تاکہ میرے خون کے چھینٹے آپ پر نہ پڑیں  اور میرا اجر کم نہ ہو کیونکہ موت بہت سخت ہوتی ہے اور اپنی چھری کو اچھی طرح تیز کر لیں  تا کہ وہ مجھ پر آسانی سے چل جائے اور جب آپ مجھے ذبح کرنے کے لئے لٹائیں  تو پہلو کے بل لٹانے کی بجائے پیشانی کے بل لٹائیں  کیونکہ مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ جب آپ کی نظر میرے چہرے پر پڑے گی تو ا س وقت آپ کے دل میں  رقت پیدا ہو گی اور وہ رقت اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل اور آپ کے درمیان حائل ہو سکتی ہے اور اگر آپ مناسب سمجھیں  تو میری قمیص میری ماں  کو دیدیں  تاکہ انہیں  تسلی ہو اور انہیں  مجھ پر صبر آ جائے ۔حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’ اے میرے بیٹے! تم اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے میں  میرے کتنے اچھے مددگار ثابت ہو رہے ہو۔ اس کے بعد فرزند کی خواہش کے مطابق پہلے اسے اچھی طرح باندھ دیا، پھر اپنی چھری کو تیز کیا اوراپنے فرزند کومنہ کے بل لٹا کر ان کے چہرے سے نظر ہٹا لی، پھر ان کے حَلق پر چھری چلادی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں  چھری کو پلٹ دیا،اس وقت انہیں  ایک ندا کی گئی ’’اے ابراہیم ! تم نے اپنے خواب کو سچ کر دکھایا اور اپنے فرزند کو ذبح کے لئے بے دریغ پیش کر کے اطاعت وفرمانبرداری کمال کو پہنچادی، بس اب اتنا کافی ہے،یہ ذبیحہ تمہارے بیٹے کی طرف سے فدیہ ہے اسے ذبح کر دو۔ یہ واقعہ منیٰ میں  واقع ہوا۔( بغوی، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ۴ / ۲۸-۲۹، مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ص۱۰۰۶، ملتقطاً)

             جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے فرزند کو ذبح کرنے کیلئے چلے تو شیطان ایک مرد کی صورت میں  حضرت ہاجرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کے پاس آیا اور کہنے لگا’’کیا آپ جانتی ہیں  کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آپ کے صاحبزادے کو لے کر کہاں  گئے ہیں ؟آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے فرمایا’’وہ اس گھاٹی میں  لکڑیاں  لینے کیلئے گئے ہیں ۔ شیطان نے کہا’’خدا کی قسم! ایسانہیں ،وہ تو آپ کے بیٹے کو ذبح کرنے کیلئے لے گئے ہیں ۔حضرت ہاجرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے فرمایا’’ہر گز ایسا نہیں  ہو سکتا کیونکہ وہ تو اپنے فرزند پر بہت شفقت کرتے اور اس سے بڑا پیار کرتے ہیں ۔ شیطان نے کہا’’ان کا گمان یہ ہے کہ انہیں  اللہ تعالیٰ نے اس بات کا حکم دیا ہے۔حضرت ہاجرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے فرمایا: ’’اگر انہیں  اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے تو پھر اس سے اچھی اور کیا بات ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے رب تعالیٰ کی اطاعت کریں ۔یہاں  سے نامراد ہو کر شیطان حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس پہنچا اور ان سے کہا ’’اے لڑکے!کیا تم جانتے ہو کہ آپ کے والد آپ کو کہاں  لے کر جا رہے ہیں ؟ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا’’ہم اپنے اہلِ خانہ کے لئے اس گھاٹی سے لکڑیاں  لینے جا رہے ہیں ۔ شیطان نے کہا: ’’خدا کی قسم! وہ آپ کو ذبح کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام نے فرمایا’’ وہ اس چیز کا ارادہ کیوں  رکھتے ہیں ؟شیطان نے کہا’’ان کے رب تعالیٰ نے انہیں  یہ حکم دیا ہے۔ حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایاپھر تو انہیں  اپنے رب تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنا چاہئے، مجھے بسر و چشم یہ حکم قبول ہے۔ جب شیطان نے یہاں  سے بھی منہ کی کھائی تو وہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس پہنچا اور کہنے لگے’’اے شیخ! آپ کہاں  جا رہے ہیں ؟حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’اس گھاٹی میں  اپنے کسی کام سے جارہا ہوں ۔ شیطان نے کہا’’اللہ کی قسم! میں  سمجھتا ہوں  کہ شیطان آپ کے خواب میں  آیا اور ا س نے آپ کو اپنا فرزند ذبح کرنے کا حکم دیا ہے۔اس کی بات سن کر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اسے پہچان لیا اور فرمایا’’اے دشمنِ خدا! مجھ سے دور ہٹ جا ،خدا کی قسم ! میں  اپنے رب تعالیٰ کے حکم کو ضرور پورا کروں  گا۔یہاں  سے بھی شیطان ناکام و نامراد ہی لوٹا۔( خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ۴ / ۲۳)

غریب و سادہ و رنگیں  ہے داستانِ حرم

نہایت اس کی حُسین ابتدا ہے اسماعیل

وَ نَادَیْنٰهُ اَنْ یّٰۤاِبْرٰهِیْمُ(104)قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْیَاۚ-اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(105)اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْبَلٰٓؤُا الْمُبِیْنُ(106)وَ فَدَیْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ(107)وَ تَرَكْنَا عَلَیْهِ فِی الْاٰخِرِیْنَ(108)سَلٰمٌ عَلٰۤى اِبْرٰهِیْمَ(109)كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(110)اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(111)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ہم نے اسے ندا فرمائی کہ اے ابراہیم!۔بیشک تو نے خواب سچ کردکھایاہم نیکی کرنے والوں کوایسا ہی صلہ دیتے ہیں ۔ بیشک یہ ضرور کھلی آزمائش تھی۔اور ہم نے اسماعیل کے فدیے میں ایک بڑا ذبیحہ دیدیا ۔ اور ہم نے بعد والوں میں اس کی تعریف باقی رکھی۔ابراہیم پرسلام ہو۔ہم نیکی کرنے والوں کوایسا ہی صلہ دیتے ہیں ۔ بیشک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں ۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ: ہم نیکی کرنے والوں کوایسا ہی صلہ دیتے ہیں ۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے صاحبزادے ا س اطاعت میں نیکی کرنے والے تھے تو جس طرح ہم نے ان دونوں نیک ہستیوں کو جزا دی اسی طرح ہم ہر نیکی کرنے والے کو جز ا دیں گے۔ (تفسیرکبیر، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ۹ / ۳۵۰)

{اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْبَلٰٓؤُا الْمُبِیْنُ: بیشک یہ ضرور کھلی آزمائش تھی۔} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جان، مال اور وطن کی قربانیاں  پہلے ہی پیش فرمادی تھیں  اور اب اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنے اس فرزند کو بھی قربانی کے لئے پیش کر دیا جسے اپنی آخری عمر میں  بہت دعاؤں  کے بعد پایا، جو گھر کا اجالا ، گود کا پالا اور آنکھوں  کا نور تھا اور یہ سب سے سخت آزمائش تھی۔

{وَ فَدَیْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ: اور ہم نے اسماعیل کے فدیے میں ایک بڑا ذبیحہ دیدیا۔} علامہ بیضاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  اس ذبیحہ کی شان بہت بلند ہونے کی وجہ سے اسے بڑا فرمایا گیا کیونکہ یہ اس نبی عَلَیْہِ السَّلَام کا فدیہ بنا جن کی نسل سے سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں۔(بیضاوی، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۵ / ۲۲)

وَ بَشَّرْنٰهُ بِاِسْحٰقَ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(112)وَ بٰرَكْنَا عَلَیْهِ وَ عَلٰۤى اِسْحٰقَؕ-وَ مِنْ ذُرِّیَّتِهِمَا مُحْسِنٌ وَّ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ مُبِیْنٌ(113)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ہم نے اسے اسحاق کی خوشخبری دی جو اللہ کے خاص قرب کے لائق بندوں میں سے ایک نبی ہے۔ اور ہم نے اس پر اور اسحاق پربرکت اتاری اور ان کی اولاد میں کوئی اچھا کام کرنے والاہے اور کوئی اپنی جان پر صریح ظلم کرنے والاہے۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ بَشَّرْنٰهُ بِاِسْحٰقَ: اور ہم نے اسے اسحاق کی خوشخبری دی۔} ذبح کا واقعہ بیان کرنے کے بعدحضرت اسحق عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خوشخبری دینااس بات کی دلیل ہے کہ ذبیح حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں ۔

{وَ بٰرَكْنَا عَلَیْهِ وَ عَلٰۤى اِسْحٰقَ: اور ہم نے اس پر اور اسحاق پربرکت اتاری۔} یعنی ہم نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت اسحاق عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر دینی اور دُنْیَوی ہر طرح کی برکت اتاری اور ظاہری برکت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں  کثرت کی اور حضرت اسحاق عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نسل سے حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے لے کر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تک بہت سے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مبعوث کئے۔(مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۱۳، ص۱۰۰۸)

{وَ مِنْ ذُرِّیَّتِهِمَا مُحْسِنٌ: اور ان کی اولاد میں  کوئی اچھا کام کرنے والاہے۔} یعنی ان دونوں  کی اولاد میں  سے کوئی ایمان لا کر اچھا کام کرنے والا ہے اور کوئی کفر کر کے اپنی جان پر صریح ظلم کرنے والاہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی باپ کے بکثرت فضائل والا ہونے سے اولاد کا بھی ویسا ہی ہونا لازم نہیں ، یہ اللہ تعالیٰ کی شانیں  ہیں  کہ کبھی نیک سے نیک پیدا کرتا ہے کبھی بد سے بد اور کبھی بد سے نیک ،تاکہ نہ اولاد کا بدہونا آباء کے لئے عیب ہو اورنہ آباء کی بَدی اولاد کے لئے باعث ِعار ہو ۔( مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۱۳، ص۱۰۰۸، خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۱۱۳، ۴ / ۲۴، ملتقطاً)

وَ لَقَدْ مَنَنَّا عَلٰى مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَ(114)وَ نَجَّیْنٰهُمَا وَ قَوْمَهُمَا مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِیْمِ(115)وَ نَصَرْنٰهُمْ فَكَانُوْا هُمُ الْغٰلِبِیْنَ(116)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بیشک ہم نے موسیٰ اور ہارون پر احسان فرمایا۔ اور انہیں اور ان کی قوم کو بہت بڑی سختی سے نجات بخشی۔ اور ہم نے ان کی مدد فرمائی تو وہی غالب ہوئے۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَقَدْ مَنَنَّا: اور بیشک ہم نے احسان فرمایا۔} یہاں  سے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر کئے گئے انعامات اور احسانات بیان کئے جارہے ہیں ،اس آیت میں  اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ بیشک ہم نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر احسان فرمایا کہ انہیں  نبوت و رسالت عنایت فرمائی اور اس کے علاوہ دینی اور دُنْیَوی نعمتوں  سے نوازا۔( صاوی، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۱۴، ۵ / ۱۷۴۸، ابو سعود، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۱۴، ۴ / ۴۱۸، ملتقطاً)

{وَ نَجَّیْنٰهُمَا وَ قَوْمَهُمَا: اور انہیں  اور ان کی قوم کو نجات بخشی۔} ایک احسان یہ فرمایا کہ ہم نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو بہت بڑی سختی سے نجات بخشی کہ انہیں  فرعون اور ا س کی قوم قِبطیوں  کے ظلم و ستم سے رہائی دی۔ بنی اسرائیل کی مَظلُومِیَّت کا سبب یہ ہواتھا کہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے آباء و اَجداد اپنے والد حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس ان کی سلطنت مصرمیں  تشریف لے آئے اور وہیں  قیام پذیر رہے، جب فرعون کی حکومت آئی تو اس نے تکبر و سرکشی کی اور بنی اسرائیل کو غلام بنا لیا اور انہیں  قبطیوں  کا خدمتگار بنا دیا۔( جلالین مع صاوی، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۱۵، ۵ / ۱۷۴۸)

{وَ نَصَرْنٰهُمْ: اور ہم نے ان کی مدد فرمائی۔} ایک احسان یہ فرمایا کہ ہم نے قبطیوں  کے مقابلے میں  دلائل اور معجزات کے ساتھ ان کی مدد فرمائی تو وہی فرعون اور اس کی قوم پر ہر حال میں غالب رہے اور آخر کار انہیں  سلطنت اور حکومت بھی عطا فرمائی۔(جلالین ، الصافات ، تحت الآیۃ : ۱۱۶ ، ص۳۷۷ ، مدارک ، الصافات ، تحت الآیۃ : ۱۱۶، ص۱۰۰۸، تفسیر کبیر، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۱۶، ۹ / ۳۵۲، ملتقطاً)

وَ اٰتَیْنٰهُمَا الْكِتٰبَ الْمُسْتَبِیْنَ(117)وَ هَدَیْنٰهُمَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ(118)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ہم نے ان دونوں کو روشن کتاب عطا فرمائی۔اور انہیں سیدھی راہ دکھائی۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اٰتَیْنٰهُمَا الْكِتٰبَ الْمُسْتَبِیْنَ: اور ہم نے ان دونوں کو روشن کتاب عطا فرمائی۔} ایک احسان یہ فرمایا کہ ہم نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو روشن کتاب عطا فرمائی جس کا بیان بلیغ اور وہ حدود و اَحکام وغیرہ کی جامع ہے ۔اس کتاب سے مراد توریت شریف ہے۔( جلالین، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۱۷، ص۳۷۷) جو کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بلاواسطہ عطا ہوئی اور حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واسطے سے عطا ہوئی۔

{وَ هَدَیْنٰهُمَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ: اور انہیں  سیدھی راہ دکھائی۔} ایک احسان یہ فرمایا کہ انہیں  عقلی اور سمعی دلائل سے دینِ حق پر مضبوطی سے قائم رہنے ، باطل سے بچے رہنے اور حق سے وابستہ رہنے کی توفیق عطا فرمائی۔(تفسیرکبیر، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۱۸، ۹ / ۳۵۲)

وَ تَرَكْنَا عَلَیْهِمَا فِی الْاٰخِرِیْنَ(119)سَلٰمٌ عَلٰى مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَ(120)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور پچھلوں میں ان کی تعریف باقی رکھی۔ موسیٰ اور ہارون پرسلام ہو۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ تَرَكْنَا عَلَیْهِمَا فِی الْاٰخِرِیْنَ: اور پچھلوں  میں  ان کی تعریف باقی رکھی۔} ایک احسان یہ فرمایا کہ بعد میں  آنے والوں  میں  ان کے اچھے ذکر کو باقی رکھا۔ یہاں  بعد میں  آنے والوں  سے مراد حضور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت ہے اور اچھے ذکر سے ان کی تعریف و توصیف اور ثناءِ جمیل مراد ہے۔( تفسیرکبیر، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۱۹، ۹ / ۳۵۲)

{سَلٰمٌ عَلٰى مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَ: موسیٰ اور ہارون پرسلام ہو۔} ا س آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ قیامت تک مخلوق ان دونوں  بزرگوں  پر سلام بھیجتی رہے گی اور ان کا ذکرِ خیر کرتی رہے گی۔( روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۲۰، ۷ / ۴۸۰)دوسرا معنی یہ ہے کہ خالق کی طرف سے وہ دونوں  ہمیشہ امن و سلامتی میں  رہیں  گے۔

اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(121)اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(122)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک نیکی کرنے والوں کوہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں ۔ بیشک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں ۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ: بیشک نیکی کرنے والوں  کوہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں ۔} یعنی جس طرح ہم نے فرعون کے مَظالِم سے نجات دے کر ، قِبطیوں  کے مقابلے میں  ان کی مدد کر کے،حدود و اَحکام کی جامع کتاب عطا فرما کر اور قیامت تک ذکر خیر باقی رکھ کے حضرتِ موسیٰ اور حضرتِ ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جز اعطا فرمائی اسی طرح ہم نیکی کرنے والوں  کو ایسا ہی صلہ دیتے ہیں ۔( صاوی، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۲۱، ۵ / ۱۷۴۹، ملخصاً)

         ا س سے معلوم ہوا کہ نیکی کرنے والوں  کو دیگر ثوابوں  کے علاوہ دنیا میں  ذکر ِخیر اور امن و سلامتی بھی عطا ہوتی ہے۔

{اِنَّهُمَا: بیشک وہ دونوں ۔} اس آیت سے اس بات پر تَنبیہ کرنا مقصود ہے کہ سب سے بڑی فضیلت اور سب سے اعلیٰ شرف کامل ایمان سے حاصل ہوتا ہے۔ (تفسیرکبیر، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۲۲، ۹ / ۳۵۲)

وَ اِنَّ اِلْیَاسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَﭤ(123)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بیشک الیاس ضرور رسولوں میں سے ہے۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِنَّ اِلْیَاسَ: اور بیشک الیاس۔} یہاں سے حضرت الیاس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ بیان کیا جارہا ہے۔ حضرت الیاس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں سے ہیں اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بہت عرصہ بعد بَعْلَبَکْ اور ان کے اطراف کے لوگوں  کی طرف مبعوث ہوئے۔

چار پیغمبروں کی ابھی تک ظاہری وفات نہیں ہوئی :

یاد رہے کہ چار پیغمبر ابھی تک زندہ ہیں ۔دو آسمان میں ،(1) حضرت ادریس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام (2) حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، اوردوزمین پر۔(1)حضرت خضر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام۔ (2) حضرت الیاس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام۔ حضرت خضر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سمندر پر اور حضرت الیاس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خشکی پر مُنْتَظِم ہیں۔ (روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۲۳، ۱۳۲، ۷ / ۴۸۱، ۴۸۳)جب قیامت قریب آئے گی تو اس وقت وفات پائیں گے اوربعض بزرگوں کی ان سے ملاقات بھی ہوئی ہے۔

اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَلَا تَتَّقُوْنَ(124)اَتَدْعُوْنَ بَعْلًا وَّ تَذَرُوْنَ اَحْسَنَ الْخَالِقِیْنَ(125)اللّٰهَ رَبَّكُمْ وَ رَبَّ اٰبَآىٕكُمُ الْاَوَّلِیْنَ(126)

ترجمہ: کنزالعرفان

جب اس نے اپنی قوم سے فرمایا: کیا تم ڈرتے نہیں ؟ کیا تم بعل (بت) کی پوجا کرتے ہواور بہترین خالق کوچھوڑتے ہو؟ اللہ جو تمہارا رب اور تمہارے اگلے باپ دادا کارب ہے۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖ: جب اس نے اپنی قوم سے فرمایا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت الیاس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا’’اے لوگو! کیا تمہیں  اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں  اور تم اللہ تعالیٰ کے علاوہ معبود کی عبادت کرنے پر ا س کے عذاب سے ڈرتے نہیں ؟کیا تم بعل کی پوجا کرتے ہو اور ا س سے بھلائیاں  طلب کرتے ہو جبکہ اس رب تعالیٰ کی عبادت کو ترک کرتے ہوجو بہترین خالق ہے اور وہ تمہارا رب ہے اور تمہارے اگلے باپ دادا کا بھی رب ہے ۔

            ’’بَعْل‘‘ اُن لوگوں کے بت کا نام تھاجو سونے کا بنا ہوا تھا ،اس کی لمبائی 20 گز تھی اور ا س کے چار منہ تھے، وہ لوگ اس کی بہت تعظیم کرتے تھے، جس مقام میں  وہ بت تھا اس جگہ کا نام ’’بک‘‘ تھا اس لئے ا س کا نام بَعلبک مشہور ہوگیا، یہ ملک شام کے شہروں  میں  سے ایک شہر ہے۔( تفسیرطبری، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۲۴-۱۲۵، ۱۰ / ۵۲۰، ابو سعود، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۲۵، ۴ / ۴۱۹، روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۲۴-۱۲۶، ۷ / ۴۸۱)

فَكَذَّبُوْهُ فَاِنَّهُمْ لَمُحْضَرُوْنَ(127)اِلَّا عِبَادَ اللّٰهِ الْمُخْلَصِیْنَ(128)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر انہو ں نے اسے جھٹلایا تو وہ ضرور پیش کئے جائیں گے۔ مگر اللہ کے چُنے ہوئے بندے۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَكَذَّبُوْهُ: پھر انہو ں  نے اسے جھٹلایا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قوم نے حضرت الیاس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا تو وہ اپنے جھٹلانے کی وجہ سے قیامت کے دن ضرور ہمارے عذاب میں حاضر کئے جائیں  گے اور ہمیشہ جہنم میں  رہیں  گے البتہ اس قوم میں  سے اللہ تعالیٰ کے وہ بَرگُزیدہ بندے جو حضرت الیاس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لائے انہوں  نے عذاب سے نجات پائی۔( روح البیان،الصافات،تحت الآیۃ:۱۲۷-۱۲۸،۷ / ۴۸۲، خازن،والصافات، تحت الآیۃ: ۱۲۷-۱۲۸، ۴ / ۲۶، ملتقطاً)

وَ تَرَكْنَا عَلَیْهِ فِی الْاٰخِرِیْنَ(129)سَلٰمٌ عَلٰۤى اِلْ یَاسِیْنَ(130)اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ (131) اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(132)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ہم نے بعد والوں میں اس کی تعریف باقی رکھی۔ الیاس پرسلام ہو۔ بیشک ہم نیکی کرنے والوں کوایسا ہی صلہ دیتے ہیں ۔ بیشک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہے۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{سَلٰمٌ عَلٰۤى اِلْ یَاسِیْنَ: الیاس پرسلام ہو۔} اِل یاسین بھی الیاس کی ایک لغت ہے۔ جیسے سینا اور سِیْنِیْن دونوں  ’’طورِ سینا ‘‘ ہی کے نام ہیں  ،ایسے ہی الیاس اور اِلْ یاسین ایک ہی ذات کے نام ہیں ۔اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت الیاس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر سلام ہو اور دوسرا معنی یہ ہے کہ قیامت تک بندے ان کے حق میں  دعا کرتے اور ان کی تعریف بیان کرتے رہیں  گے ۔( روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۳۰، ۷ / ۴۸۲، جلالین، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۳۰، ص۳۷۸، ملتقطاً)

وَ اِنَّ لُوْطًا لَّمِنَ الْمُرْسَلِیْنَﭤ(133)اِذْ نَجَّیْنٰهُ وَ اَهْلَهٗۤ اَجْمَعِیْنَ(134)اِلَّا عَجُوْزًا فِی الْغٰبِرِیْنَ(135)ثُمَّ دَمَّرْنَا الْاٰخَرِیْنَ(136)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بیشک لوط ضرور رسولوں میں سے ہے۔ جب ہم نے اسے اور اس کے سب گھر والوں کو نجات بخشی۔ مگر ایک بڑھیا پیچھے رہ جانے والوں میں ہوگئی۔ پھر دوسروں کو ہم نے ہلاک فرمادیا۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِنَّ لُوْطًا: اور بیشک لوط۔} یہاں  سے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ بیان کیا جا رہا ہے۔ اس آیت اور ا س کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اہلِ سدوم کی طرف نبی بنا کر بھیجا ،ان لوگوں  نے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شہید کرنے کا ارادہ کر لیا، اس وقت حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا مانگی’’اے میرے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، مجھے اورمیرے گھر والوں  کو ان لوگوں  کے عمل سے نجات دے۔اللہ تعالیٰ نے انہیں  اور ان کے سب گھر والوں  کو نجات بخشی البتہ ایک بڑھیا عذاب کے اندر رہ جانے والوں  میں  شامل ہو گئی ،یہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیوی ’’واہلہ‘‘ تھی جو کافرہ اور خائنہ تھی ،پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے کفار پر پتھر برسا کر اور ان کی بستیوں  کا تختہ الٹ کر سب کو ہلاک کر دیا۔( روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۳۳-۱۳۶، ۷ / ۴۸۴-۴۸۵، ملخصاً)

          نوٹ:حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ سورۂ ہود اور سورۂ شعراء میں  تفصیل سے گزر چکا ہے۔

وَ اِنَّكُمْ لَتَمُرُّوْنَ عَلَیْهِمْ مُّصْبِحِیْنَ(137)وَ بِالَّیْلِؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(138)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور (اے لوگو!) بیشک تم صبح کے وقت ان کے پاس سے گزرتے ہو۔ اور رات کے وقت (بھی ان بستیوں سے گزرتے ہو)۔ تو کیا تم سمجھتے نہیں ؟

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِنَّكُمْ: او ربیشک تم۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں کفارِ مکہ سے فرمایا گیا کہ اے کفارِ مکہ!تم ملک ِشام کی طرف اپنے کاروباری سفروں کے دوران صبح و شام ان بستیو ں سے گزرتے ہو اور ان کی ہلاکت و بربادی کے آثار کا تم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہو تو کیا تمہیں عقل نہیں کہ ان کی اجڑی ہوئی بستیوں سے عبرت حاصل کرو اور ا س بات سے ڈرو کہ جیسا عذاب اہلِ سدوم پر نازل ہوا ویسا تم پر بھی نازل ہو سکتا ہے کیونکہ جو رب تعالیٰ کفر اور تکذیب کی وجہ سے اہلِ سدوم کو ہلاک کرنے پر قادرہے تو اے کفارِمکہ! وہ تمہیں بھی ہلاک کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔( روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۳۷-۱۳۸، ۷ / ۴۸۵)

وَ اِنَّ یُوْنُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَﭤ(139)اِذْ اَبَقَ اِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ(140)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بیشک یونس ضرور رسولوں میں سے ہے۔ جب وہ بھری کشتی کی طرف نکل گیا۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِنَّ یُوْنُسَ: اور بیشک یونس۔} یہاں  سے حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان کیا جا رہا ہے۔آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا نام یونس بن متیٰ ہے۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں  سے ہیں ۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا لقب ذُو النُّون اور صَاحِبُ الْحُوْتْ ہے، آپ بستی نِیْنَوٰی کے نبی تھے جو مُوصَل کے علاقہ میں  دجلہ کے کنارے پر واقع تھی۔آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے چالیس سال ان لوگوں  کو بت پرستی چھوڑنے اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت کا اقرار کرنے کی دعوت دی لیکن انہوں  نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا اور اپنے شرک سے باز نہ آئے، تب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے انہیں  تین دن کے بعد عذاب آجانے کی خبردی ۔ (روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۳۹، ۷ / ۴۸۶)

{اِذْ اَبَقَ: جب وہ نکل گیا۔} حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو عذاب آ نے کی جو خبر دی تھی جب اس میں  تاخیر ہوئی تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنی قوم کے کفر و نافرمانی پر اِصرار کرنے کی وجہ سے غضبناک ہو کر اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر ہی ہجرت کے ارادے سے چل دئیے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ خیال کیا کہ اللہ تعالیٰ مجھ پر کوئی تنگی نہیں  کرے گااورنہ ہی اس فعل پرمجھ سے کوئی بازپُرس ہوگی۔ حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ہجرت کرنے اور غضبناک ہونے کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ لوگ اس شخص کو قتل کر دیتے تھے جس کا جھوٹاہونا ثابت ہو جائے، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام یقینی طور پر سچے تھے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے وحیِ الٰہی سے ہی انہیں  بتایاکہ اگر تم نے میری بات نہ مانی تو تم پر اللہ عَزَّوَجَلَّ  کا عذاب آئے گا لیکن چونکہ فی الحال عذاب آیا نہیں  تھا تو قوم کی نظر میں  آپ کا کہنا واقع کے خلاف تھا اسی لئے وہ آپ کے قتل کے درپے تھے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اسی اندیشے سے وہاں  سے چل دئیے حالانکہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے عذاب کا تو فرمایا تھا لیکن انہیں  کوئی مُتَعَیَّن وقت نہیں  بتایا تھا کہ جس پر آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو مَعَاذَ اللہ آپ کی قوم جھوٹا کہہ سکتی۔

            حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت وہب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کا قول ہے کہ حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے عذاب کا وعدہ کیا تھا،جب اس میں  تاخیر ہوئی تو (قتل سے بچنے کے لئے) آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اُن سے چھپ کر نکل گئے ، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دریائی سفر کا قصد کیا اور بھری کشتی پر سوار ہوگئے، جب کشتی دریا کے درمیان پہنچی تو ٹھہر گئی اور اس کے ٹھہرنے کا کوئی ظاہری سبب موجود نہ تھا۔ملاحوں  نے کہا: اس کشتی میں  اپنے مولا سے بھاگا ہوا کوئی غلام ہے ،قرعہ اندازی کرنے سے ظاہر ہوجائے گا کہ وہ کون ہے۔ چنانچہ قرعہ اندازی کی گئی توا س میں  آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہی کانام نکلا،اس پر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ میں  ہی وہ غلام ہوں ۔ اس کے بعد آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پانی میں  ڈال دیئے گئے کیونکہ ان لوگوں  کادستور یہی تھا کہ جب تک بھاگا ہوا غلام دریا میں  غرق نہ کردیاجائے اس وقت تک کشتی چلتی نہ تھی۔( خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۱۴۰، ۴ / ۲۶، مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۴۰، ص۱۰۰۹، ملتقطاً)

            علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :’’ حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے اجتہاد کی وجہ سے کشتی میں  سوار ہوئے تھے کیونکہ جب عذاب میں  تاخیر ہوئی تو حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یہ گمان ہوا کہ اگر وہ اپنی قوم میں  ٹھہرے رہے تو وہ انہیں  شہید کر دیں  گے کیونکہ ان لوگوں  کا دستوریہ تھا کہ جس کا جھوٹاہونا ثابت ہو جائے تو وہ اسے قتل کر دیتے تھے لہٰذا حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا کشتی میں  سوار ہونا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں  اور نہ ہی کوئی کبیرہ یا صغیرہ گنا ہ تھا اور مچھلی کے پیٹ میں  قید کر کے ان کا جو مُؤاخذہ ہوا وہ اَولیٰ کام کی مخالفت کی بنا پر ہوا کیونکہ ان کے لئے اَولیٰ یہی تھا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے حکم کا انتظار کرتے۔( صاوی، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۴۰، ۵ / ۱۷۵۲، ملخصاً)

فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِیْنَ(141)فَالْتَقَمَهُ الْحُوْتُ وَ هُوَ مُلِیْمٌ(142)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو کشتی والے نے قرعہ ڈالا تویونس دھکیلے جانے والوں میں سے ہوگئے۔ پھر انہیں مچھلی نے نگل لیا اور وہ اپنے آپ کو ملامت کررہے تھے۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَالْتَقَمَهُ الْحُوْتُ: پھر انہیں  مچھلی نے نگل لیا۔} جب حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام دریا میں  ڈال دئیے گئے تو انہیں  ایک بڑی مچھلی نے نگل لیا اور اس وقت آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا حال یہ تھا کہ آپ خودکو ا س بات پر ملامت کر رہے تھے کہ نکلنے میں  جلدی کیوں  کی اور قوم سے جدا ہونے میں  اللہ تعالیٰ کے حکم کا انتظار کیوں  نہ کیا۔ مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مچھلی کواِلہام فرمایا: ’’میں  نے حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو تیرے لئے غذا نہیں  بنایا بلکہ تیرے پیٹ کو اس کے لئے قید خانہ بنایا ہے لہٰذا تم نہ تو ان کی کوئی ہڈی توڑنا اور نہ ہی ان کے گوشت کو کاٹنا۔( روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۴۲، ۷ / ۴۸۷، ملخصاً)

فَلَوْ لَاۤ اَنَّهٗ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِیْنَ(143)لَلَبِثَ فِیْ بَطْنِهٖۤ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ(144)فَنَبَذْنٰهُ بِالْعَرَآءِ وَ هُوَ سَقِیْمٌ(145)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو اگر وہ تسبیح کرنے والا نہ ہوتا۔ توضرور اس دن تک اس مچھلی کے پیٹ میں رہتا جس دن لوگ اٹھائے جائیں گے۔ پھر ہم نے اسے میدان میں ڈال دیا اور وہ بیمار تھا۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَلَوْ لَاۤ اَنَّهٗ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِیْنَ: تو اگر وہ تسبیح کرنے والا نہ ہوتا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ذکر ِالٰہی کی کثرت کرنے والے اور مچھلی کے پیٹ میں  ’’لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ ﳓ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ‘‘ پڑھنے والے نہ ہو تے تو ضرورقیامت کے دن تک اس مچھلی کے پیٹ میں  رہتے۔( خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۱۴۳-۱۴۴، ۴ / ۲۷)

دعا قبول ہونے کا وظیفہ:

            حضرت سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مچھلی کے پیٹ میں  حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ دعا مانگی: ’’لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ ﳓ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ‘‘ اور جو مسلمان اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگے گا تو اس کی دعا قبول کی جائے گی۔( ابن عساکر، حرف السین فی آبائہم، عمر بن سعد بن ابی وقاص۔۔۔ الخ، ۴۵ / ۳۸)

            مفسرین فرماتے ہیں : ’’تم آسانی کے وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو تو وہ تمہیں  تمہاری سختی اور مصیبت کے وقت یاد کرے گا کیونکہ حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ تعالیٰ کے نیک بندے اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے تھے، جب وہ مچھلی کے پیٹ میں  گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں  فرمایا:

’’ فَلَوْ لَاۤ اَنَّهٗ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِیْنَۙ(۱۴۳) لَلَبِثَ فِیْ بَطْنِهٖۤ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ‘‘

ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو اگر وہ تسبیح کرنے والا نہ ہوتا۔ تو ضرور اس دن تک اس مچھلی کے پیٹ میں  رہتا جس دن لوگ اٹھائے جائیں  گے۔

             اس کے برعکس فرعون ساری زندگی تو سرکش، نافرمان اور اللہ تعالیٰ کو بھولا رہا لیکن جب وہ ڈوبنے لگا توخدا کو یاد کرکے کہنے لگا:

’’اٰمَنْتُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا الَّذِیْۤ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُوْۤا اِسْرَآءِیْلَ‘‘(یونس:۹۰)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: میں  اِس بات پر ایمان لایا کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں  جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں ۔

            تواللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’ ﰰ لْــٴٰـنَ وَ قَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ‘‘(یونس:۹۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: (اُسے کہا گیا)کیا اب (ایمان لاتے ہو؟) حالانکہ اس سے پہلے تو نافرمان رہا۔( تفسیرکبیر، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۴۳-۱۴۴، ۹ / ۳۵۷)

{فَنَبَذْنٰهُ بِالْعَرَآءِ: پھر ہم نے اسے میدان میں  ڈال دیا۔} جب حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا مانگی تواللہ تعالیٰ نے انہیں  مچھلی کے پیٹ سے نکال کر میدان میں  ڈال دیا اور مچھلی کے پیٹ میں  رہنے کی وجہ سے آپ ایسے کمزور، دبلے پتلے اور نازک ہوگئے تھے جیسے بچہ پیدائش کے وقت ہوتا ہے،آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جسم کی کھال نرم ہوگئی تھی اوربدن پر کوئی بال باقی نہ رہا تھا۔( روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۴۵، ۷ / ۴۸۸)

            حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مچھلی کے پیٹ میں  رہنے کی مدت کے بارے میں  مختلف اَقوال ہیں ۔ اُسی دن یا3دن یا7دن یا20دن یا40دن کے بعد آپ مچھلی کے پیٹ سے نکالے گئے ۔( جلالین، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۴۵، ص۳۷۸)

وَ اَنْۢبَتْنَا عَلَیْهِ شَجَرَةً مِّنْ یَّقْطِیْنٍ(146)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ہم نے اس پرکدو کا پیڑ اگادیا۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اَنْۢبَتْنَا عَلَیْهِ شَجَرَةً مِّنْ یَّقْطِیْنٍ: اور ہم نے اس پرکدو کا پیڑ اگادیا۔} جس جگہ حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مچھلی کے پیٹ سے باہرتشریف لائے وہاں  کوئی سایہ نہ تھا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر سایہ کرنے اور انہیں  مکھیوں  سے محفوظ رکھنے کے لئے کدو کا پیڑ اگا دیا اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے روزانہ ایک بکری آتی اور اپنا تھن حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دہنِ مبارک میں  دے کر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو صبح و شام دودھ پلا جاتی یہاں  تک کہ جسم مبارک کی جلد شریف یعنی کھال مضبوط ہوئی اور اپنے مقام سے بال اگ آئے اور جسم میں  توانائی آئی۔( خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۱۴۶، ۴ / ۲۷)

             یاد رہے کہ کدو کی بیل ہوتی ہے جو زمین پر پھیلتی ہے مگر یہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا معجزہ تھا کہ یہ کدو کا درخت قد والے درختوں  کی طرح شاخ رکھتا تھا اور اس کے بڑے بڑے پتوں  کے سائے میں  آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آرام کرتے تھے۔

بزرگانِ دین کی پسندیدہ سبزی:

             کدو (یعنی لوکی) کو تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بہت پسند فرماتے تھے ،جیسا کہ حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کدو شریف پسند فرماتے تھے۔( ابن ماجہ، کتاب الاطعمۃ، باب الدبّائ، ۴ / ۲۷، الحدیث: ۳۳۰۲)

            ایک مرتبہ کسی نے عرض کی: ’’یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کدو شریف بہت پسند فرماتے ہیں ۔رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ہاں ،یہ میرے بھائی حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا درخت ہے۔( بیضاوی، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۴۶، ۵ / ۲۷)

            یونہی صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ اور بزرگانِ دین رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ بھی کدو بہت پسند فرماتے تھے، چنانچہ حضرتِ انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ بیان فرماتے ہیں  کہ ایک درزی نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی کھانے کی دعوت کی ،میں  بھی حضورپُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ گیا ، جَوکی روٹی اور شور با حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے لایا گیا جس میں  کدو اور خشک کیا ہوا نمکین گوشت تھا، کھانے کے دوران میں  نے حضورِانور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دیکھا کہ پیالے کے کناروں  سے کدو کی قاشیں  تلاش کررہے ہیں ، اسی لئے میں  اس دن سے کدو پسند کرنے لگا۔( بخاری، کتاب البیوع، باب ذکر الخیّاط، ۲ / ۱۷، الحدیث: ۲۰۹۲)

            حضرت ابو طالوت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’میں  حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس حاضر ہوا،وہ کدو کھا رہے تھے اور فرما رہے تھے ’’اے درخت!تیری کیا شان ہے،تو مجھے کس قدر محبوب ہے (اور یہ محبت صرف) اس لئے (ہے) کہ رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تجھے محبوب رکھا کرتے تھے۔( ترمذی، کتاب الاطعمۃ، باب ما جاء فی اکل الدبّائ، ۳ / ۳۳۶، الحدیث: ۱۸۵۶)

             امامِ اعظم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے شاگردامام ابو یوسف رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے سامنے جب اِس روایت کا ذکر آیا کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کدو پسند فرماتے تھے ،تومجلس کے ایک شخص نے کہا:لیکن مجھے پسند نہیں  ۔یہ سن کر امام ابو یوسف رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے تلوار کھینچ لی اور ا س سے فرمایا: ’’جَدِّدِ الْاِیْمَانَ وَ اِلاَّ لَاَقْتُلَنَّکَ‘‘ تجدیدِ ایمان کر، ورنہ میں  تمہیں  قتل کئے بغیر نہ چھوڑوں  گا۔( مرقاۃالمفاتیح، کتاب الصلاۃ،باب الجماعۃ وفضلہا، الفصل الثالث، ۳ / ۱۶۶، تحت الحدیث: ۱۰۸۳۔)

کدو (لوکی) کے طبی فوائد:

            لوکی کا استعما ل نبیٔ  کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنت ہے ۔طب کے ماہرین نے اس کے بہت سے طبی فوائد بھی بیان کئے ہیں  ،یہاں  ان میں  سے 7طبی فوائد ملاحظہ ہوں ۔

(1)… لوکی میں  موجود قدرتی وٹامن سی ، سوڈیم ، پوٹاشیم اور فولاد نہ صرف طاقت بخش ثابت ہوتا ہے بلکہ اس کا روزانہ استعمال پیٹ کے مختلف اَمراض کے خلاف مُؤثّر حفاظت بھی فراہم کرتا ہے۔

(2)… لوکی میں  پائے جانے والے اَجزا کی تاثیر قدرتی طور پر ٹھنڈی ہوتی ہے جو گرمی کا اثر کم کرنے کے ساتھ ساتھ تھکن کا احساس بھی گھٹا دیتا ہے۔

(3)…لوکی کھانے سے خوب بھوک لگتی ہے اور کمزوری دور ہوتی ہے۔

 (4)… قبض کے مریضوں  کے لئے لوکی بہت فائدہ مند ہے ۔

(5)… کدو جگر کے درد کو دور کرنے میں  مفید ہے۔

(6)… پیشاب کے امراض، معدے کے امراض اور یرقان کے مرض میں  بہت فائدہ دیتا ہے۔

(7)… اس کے بیجوں  کا تیل دردِ سر اور سر کے بالوں  کیلئے بہت مفید ہے اور نیند لاتا ہے۔

وَ اَرْسَلْنٰهُ اِلٰى مِائَةِ اَلْفٍ اَوْ یَزِیْدُوْنَ(147)فَاٰمَنُوْا فَمَتَّعْنٰهُمْ اِلٰى حِیْنٍﭤ(148)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ہم نے اسے ایک لاکھ بلکہ زیادہ آدمیوں کی طرف بھیجا۔ تو وہ ایمان لے آئے تو ہم نے انہیں ایک وقت تک فائدہ اٹھانے دیا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اَرْسَلْنٰهُ: اور ہم نے اسے بھیجا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پہلے کی طرح موصل کی سرزمین میں  قومِ نِینَویٰ کے ایک لاکھ بلکہ اس سے کچھ زیادہ آدمیوں  کی طرف انتہائی عزت واحترام کے ساتھ بھیجا،انہوں  نے عذاب کے آثار دیکھ کر توبہ کر لی تھی ، پھر حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دوبارہ تشریف لانے پر باقاعدہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیعت کی اور اللہ تعالیٰ نے آخری عمر تک انہیں  آسائش کے ساتھ رکھا ۔

       نوٹ: حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی توبہ کا بیان سورۂ یونس آیت نمبر98میں  گزر چکا ہے اور اس واقعہ کا بیان سورۂ انبیاء کی آیت نمبر 87،88میں  بھی گزرچکا ہے۔

فَاسْتَفْتِهِمْ اَلِرَبِّكَ الْبَنَاتُ وَ لَهُمُ الْبَنُوْنَ(149)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو ان سے پوچھو، کیا تمہارے رب کے لیے بیٹیاں ہیں اور ان کیلئے بیٹے ہیں ؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاسْتَفْتِهِمْ: تو ان سے پوچھو۔} اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تسلی کے لئے گزشتہ نبیوں  اور رسولوں  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعات بیان فرمانے کے بعد ان آیات میں  قبیلہ جُہَیْنَہ اور بنی سلمہ وغیرہ کفار کے اس عقیدے ’’فرشتے اللہ کی بیٹیاں  ہیں ‘‘کا رد کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان کفار سے پوچھیں  کہ کیا تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کے لیے بیٹیاں  ہیں اور ان کیلئے بیٹے ہیں ؟تم اپنے لئے تو بیٹیاں  گوارا نہیں  کرتے اور انہیں  بُری جانتے ہواور پھر ایسی چیز کو خدا کی طرف منسوب کرتے ہو ۔( تفسیر قرطبی ، الصافات ، تحت الآیۃ : ۱۴۹ ، ۸ / ۹۸ ، الجزء الخامس عشر ، خازن ، و الصافات، تحت الآیۃ: ۱۴۹، ۴ / ۲۷، ملتقطاً)

کفار کا اپنی بیٹیوں  سے نفرت کا حال

             کفار خود بیٹیوں  سے کس قدر نفرت کرتے اور انہیں  اپنے لئے کتنا باعث ِعار سمجھتے تھے، ا س کا حال بیان کرتے ہوئے ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا

’’وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِالْاُنْثٰى ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا وَّ هُوَ كَظِیْمٌۚ(۵۸) یَتَوَارٰى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْٓءِ مَا بُشِّرَ بِهٖؕ-اَیُمْسِكُهٗ عَلٰى هُوْنٍ اَمْ یَدُسُّهٗ فِی التُّرَابِؕ-اَلَا سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ‘‘(نحل:۵۸،۵۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جب ان میں  کسی کو بیٹی ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو دن بھر اس کا منہ کالا رہتا ہے اور وہ  غصے سے بھرا ہوتا ہے۔ اس بشارت کی برائی کے سبب لوگوں  سے چھپا پھرتا ہے۔ کیا اسے ذلت کے ساتھ رکھے گا یا اسے مٹی میں  دبا دے گا؟ خبردار! یہ کتنا برا فیصلہ کررہے ہیں ۔

            اور یہ کتنا افسوس کا مقام ہے کہ جس چیز سے وہ اتنی نفرت کرتے ہیں  اور اپنے لئے اتنا باعث ِعار سمجھتے ہیں  کہ اسے زندہ دفن کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں ، اسی چیز کو وہ اولاد ہی سے پاک رب تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’ اَلَكُمُ الذَّكَرُ وَ لَهُ الْاُنْثٰى(۲۱)تِلْكَ اِذًا قِسْمَةٌ ضِیْزٰى‘‘(النجم:۲۱،۲۲)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: کیا تمہارے لئے بیٹا اور اس کیلئے بیٹی ہے۔ جب تو یہ سخت بری تقسیم ہے۔

اَمْ خَلَقْنَا الْمَلٰٓىٕكَةَ اِنَاثًا وَّ هُمْ شٰهِدُوْنَ(150)اَلَاۤ اِنَّهُمْ مِّنْ اِفْكِهِمْ لَیَقُوْلُوْنَ(151)وَلَدَ اللّٰهُۙ-وَ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ(152)اَصْطَفَى الْبَنَاتِ عَلَى الْبَنِیْنَﭤ(153)مَا لَكُمْ- كَیْفَ تَحْكُمُوْنَ(154)اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ(155)اَمْ لَكُمْ سُلْطٰنٌ مُّبِیْنٌ(156)فَاْتُوْا بِكِتٰبِكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(157)

ترجمہ: کنزالعرفان

یا ہم نے ملائکہ کو عورتیں پیدا کیا اور وہ موجود تھے۔ خبردار! بیشک وہ اپنے بہتان سے یہ بات کہتے ہیں ۔ کہ اللہ کی اولاد ہے اور بیشک وہ ضرور جھوٹے ہیں ۔ کیا اللہ نے بیٹے چھوڑ کر بیٹیاں پسند کیں ۔ تمہیں کیا ہے؟تم کیسا حکم لگاتے ہو؟ تو کیا تم دھیان نہیں کرتے؟ یا تمہارے لیے کوئی کھلی دلیل ہے؟ تو اپنی کتاب لاؤاگر تم سچے ہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَمْ خَلَقْنَا الْمَلٰٓىٕكَةَ اِنَاثًا: یا ہم نے ملائکہ کو عورتیں  پیدا کیاتھا۔} کفار فرشتوں  کو عورتیں  سمجھتے تھے ،ان کی یہ بات اس وقت درست ثابت ہو سکتی ہے کہ انہوں  نے فرشتوں  کو پیدا ہوتے ہوئے دیکھا ہو،یا کسی نبی عَلَیْہِ السَّلَام نے انہیں  اس کی خبر دی ہو یا ان کے پاس اس کی کوئی واضح دلیل ہو۔پہلی صورت کا رد اسی آیت میں  ہے کہ کفار فرشتوں  کی پیدائش کے وقت وہاں  موجود نہیں  تھے لہٰذا ان کی بات درست نہیں  ۔اسی طرح ایک اور مقام پر کفار کے اس نظریے کا رد کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے

’’وَ جَعَلُوا الْمَلٰٓىٕكَةَ الَّذِیْنَ هُمْ عِبٰدُ الرَّحْمٰنِ اِنَاثًاؕ-اَشَهِدُوْا خَلْقَهُمْؕ-سَتُكْتَبُ شَهَادَتُهُمْ وَ یُسْــٴَـلُوْنَ‘‘(زخرف:۱۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور انہوں  نے فرشتوں  کو عورتیں  ٹھہرایاجو کہ رحمٰن کے بندے ہیں ۔ کیا یہ کفار ان کے بناتے وقت موجود تھے؟ ان کی گواہی لکھ لی جائے گی اور ان سے جواب طلب ہوگا۔

             دوسری صورت کا ردآیت نمبر151تا154 میں  فرمایا کہ انہیں  کسی نبی عَلَیْہِ السَّلَام نے خبر نہیں  دی بلکہ ان کے فاسدمذہب کی بنیاد صریح اور بد ترین بہتان پر ہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’ اَلَاۤ اِنَّهُمْ مِّنْ اِفْكِهِمْ لَیَقُوْلُوْنَۙ(۱۵۱) وَلَدَ اللّٰهُۙ-وَ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ(۱۵۲)اَصْطَفَى الْبَنَاتِ عَلَى الْبَنِیْنَؕ(۱۵۳) مَا لَكُمْ- كَیْفَ تَحْكُمُوْنَ‘‘

ترجمۂ کنزُالعِرفان: خبردار! بیشک وہ اپنے بہتان سے یہ بات کہتے ہیں ۔کہ اللہ کی اولاد ہے اور بیشک وہ ضرور جھوٹے ہیں ۔ کیا اللہ نے بیٹے چھوڑ کر بیٹیاں  پسند کیں ۔ تمہیں  کیا ہے؟ تم کیسا حکم لگاتے ہو؟

            اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا

’’اَفَاَصْفٰىكُمْ رَبُّكُمْ بِالْبَنِیْنَ وَ اتَّخَذَ مِنَ الْمَلٰٓىٕكَةِ اِنَاثًاؕ-اِنَّكُمْ لَتَقُوْلُوْنَ قَوْلًا عَظِیْمًا‘‘(بنی اسرائیل:۴۰)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: کیا تمہارے رب نے تمہارے لئے بیٹے چن لئے اور اپنے لیے فرشتوں  سے بیٹیاں  بنالیں ۔ بیشک تم بہت بڑی بات بول رہے ہو۔

          تیسری صورت یہ تھی کہ ان کے پاس اپنا عقیدہ ثابت کرنے کے لئے کوئی واضح دلیل ہوتی اور وہ ان کے پاس موجود نہیں ،اس کے بارے میں  آیت نمبر155تا157میں ارشاد فرمایا:

’’ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَۚ(۱۵۵) اَمْ لَكُمْ سُلْطٰنٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵۶) فَاْتُوْا بِكِتٰبِكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ‘‘

ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو کیا تم دھیان نہیں  کرتے؟یا تمہارے لیے کوئی کھلی دلیل ہے؟تو اپنی کتاب لاؤ اگر تم سچے ہو۔

            لہٰذا ثابت ہوا کہ فرشتوں  کو عورتیں  سمجھنے والا کفار کا نظریہ ہر اعتبار سے باطل ہے۔( تفسیرکبیر، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۵۰، ۹ / ۳۵۹، روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۵۰، ۷ / ۴۹۲، ملتقطاً)

وَ جَعَلُوْا بَیْنَهٗ وَ بَیْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًاؕ-وَ لَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ اِنَّهُمْ لَمُحْضَرُوْنَ(158)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور انہوں نے اللہ اور جنوں کے درمیان نسب کا رشتہ ٹھہرایااور بیشک جنوں کو معلوم ہے کہ ان کی پیشی کی جائے گی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ جَعَلُوْا بَیْنَهٗ وَ بَیْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًا: اور انہوں  نے اللہ اور جنوں  کے درمیان نسب کا رشتہ ٹھہرایا۔} بعض مشرکین کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے جِنّات میں  شادی کی جس سے فرشتے پیدا ہوئے۔ (مَعَاذَ اللہ) اس آیت میں  ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ مشرکین اللہ تعالیٰ اور جنوں  کے درمیان نسب کا رشتہ ٹھہرا کر کیسے عظیم کفر کے مُرتکِب ہوئے اور بیشک جنوں  کو معلوم ہے کہ یہ بے ہودہ بات کہنے والے ضرور جہنم میں  عذاب کے لئے حاضر کئے جائیں  گے۔بعض مفسرین کے نزدیک اس آیت میں  جِنّات سے مراد فرشتے ہیں  کیونکہ وہ لوگوں  کی نظروں سے پوشیدہ ہیں  اور کفار نے فرشتوں  اور اللہ تعالیٰ کے درمیان جو نسبی رشتہ ٹھہرایا اس سے مراد ان کا یہ کہنا ہے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں  ہیں۔(مَعَاذَ اللہ)(مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۵۸، ص۱۰۱۰-۱۰۱۱، جلالین، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۵۸، ص۳۷۹، ملتقطاً)

سُبْحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا یَصِفُوْنَ(159)اِلَّا عِبَادَ اللّٰهِ الْمُخْلَصِیْنَ(160)

ترجمہ: کنزالعرفان

اللہ اس سے پاک ہے جو یہ بتاتے ہیں ۔مگر اللہ کے چُنے ہوئے بندے ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{سُبْحٰنَ اللّٰهِ: اللہ پاک ہے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا ایک معنی یہ ہے مشرکین اللہ تعالیٰ کے بارے میں  جو باتیں  کہتے ہیں  اللہ تعالیٰ ان سے پاک ہے اور اللہ تعالیٰ کے چنے ہوئے ایماندار بندے ان تمام باتوں  سے اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتے ہیں  جو کفارِ نابَکار کہتے ہیں ۔دوسرا معنی یہ ہے کہ اللہ  تعالیٰ ان تمام بیہودہ باتوں  سے پاک ہے جو مشرکین ا س کے بارے میں  کہتے ہیں  نیز اللہ تعالیٰ کے چنے ہوئے مومن اور متقی بندے جہنم کے عذاب سے محفوظ رہیں  گے۔( مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۵۹-۱۶۰، ص۱۰۱۱، ملخصاً)

فَاِنَّكُمْ وَ مَا تَعْبُدُوْنَ(161)مَاۤ اَنْتُمْ عَلَیْهِ بِفٰتِنِیْنَ(162)اِلَّا مَنْ هُوَ صَالِ الْجَحِیْمِ(163)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو تم اور جنہیں تم( اللہ کے سوا) پوجتے ہو ۔ تم اس کے خلاف( کسی کو)فتنے میں ڈالنے والے نہیں ۔ مگر اسے جو بھڑکتی آگ میں داخل ہونے والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاِنَّكُمْ: تو تم۔} اس سے پہلی آیات میں  کفار کا مذہب فاسد ہونے پر دلائل بیان کئے گئے جبکہ اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات میں  فرمایا گیا کہ اے کفارِ مکہ!تمہارے سب کے سب بت اور تم اللہ تعالیٰ کے خلاف کسی کو گمراہ نہیں  کرسکتے، البتہ اسے گمراہ کر سکتے ہوجس کی قسمت ہی میں  یہ ہے کہ وہ اپنی بدکرداری کی وجہ سے جہنم کا مستحق ہو۔(تفسیر کبیر، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۶۱-۱۶۳، ۹ / ۳۶۱، مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۶۱-۱۶۳، ص۱۰۱۱، ملتقطاً)

وَ مَا مِنَّاۤ اِلَّا لَهٗ مَقَامٌ مَّعْلُوْمٌ(164)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور (فرشتے کہتے ہیں ) ہم میں ہر ایک کیلئے ایک جگہ مقررہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مَا مِنَّا: ہم میں  ہر ایک کیلئے۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اے کفار!جن فرشتوں  کو تم اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں  کہتے ہو، اللہ تعالیٰ اور فرشتوں  کے درمیان نسب ثابت کر کے ان کی عبادت کرتے ہو،ان فرشتوں  کا اقرار تو یہ ہے کہ ہم رب تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں  اور ہم سب کے مقامات علیحدہ ہیں  جہاں  رہ کر اس کی بتائی ہوئی عبادت کرتے ہیں ، اور جب وہ اپنی عَبْدِیَّت اور اللہ تعالیٰ کی معبودِیَّت کا اقرار کررہے ہیں  تو وہ اللہ تعالیٰ کی اولاد کس طرح ہو سکتے ہیں  ۔

          دوسری تفسیر یہ ہے کہ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے حضور سید المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم فرشتوں  کے گروہوں میں  سے ہر ایک کیلئے ایک جگہ مقرر ہے جس میں  وہ اپنے رب تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے۔حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ آسمانوں  میں  بالِشْت بھر بھی جگہ ایسی نہیں  ہے جس میں  کوئی فرشتہ نماز نہ پڑھتا ہو یا تسبیح نہ کرتا ہو۔( روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۶۴، ۷ / ۴۹۴-۴۹۵، خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۱۶۴، ۴ / ۲۸، ملتقطاً)

            حضرت ابو ذر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میں  وہ کچھ دیکھتا ہوں  جو تم نہیں  دیکھتے، میں  وہ باتیں  سنتا ہوں  جو تم نہیں  سنتے۔آسمان چَرچَرایا اورا س کا چرچرانا حق ہے،اس میں  چار انگلی جگہ بھی ایسی نہیں  جہاں  فرشتے اپنی پیشانی رکھے اللہ تعالیٰ کے لئے سجدے میں  نہ ہوں ۔( ترمذی، کتاب ا لزہد، باب فی قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لو تعلمون ما اعلم۔۔۔ الخ، ۴ / ۱۴۰، الحدیث: ۲۳۱۹)

وَّ اِنَّا لَنَحْنُ الصَّآفُّوْنَ(165)وَ اِنَّا لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُوْنَ(166)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بیشک ہم (حکم کے انتظار میں )صف باندھے ہوئے ہیں ۔ اور بیشک ہم (اس کی) تسبیح کرنے والے ہیں ۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِنَّا لَنَحْنُ الصَّآفُّوْنَ:اور بیشک ہم (حکم کے انتظار میں )صف باندھے ہوئے ہیں ۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ فرشتے کہتے ہیں: بیشک ہم اطاعت کے مقامات اور خدمت کی جگہوں میں پر پھیلائے اللہ تعالیٰ کے حکم کے منتظر ہیں ۔دوسری تفسیر یہ ہے کہ جس طرح لوگ زمین میں صفیں باند ھ کر نماز پڑھتے ہیں اسی طرح ہم (آسمان میں) صفیں باندھ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہیں ۔تیسری تفسیر یہ ہے کہ ہم عرش کے ارد گرد اللہ تعالیٰ کے حکم کے انتظار میں  صفیں  باندھے ہوئے ہیں ۔( ابو سعود ، الصافات ، تحت الآیۃ : ۱۶۵ ، ۴ / ۴۲۴ ، خازن ، و الصافات ، تحت الآیۃ : ۱۶۵،  ۴ / ۲۸، روح المعانی، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۶۵، ۱۲ / ۲۰۵، ملتقطاً)

{وَ اِنَّا لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُوْنَ: اور بیشک ہم (اس کی) تسبیح کرنے والے ہیں ۔} یعنی ہم اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرنے والے ہیں  کہ وہ ہر نقص و عیب سے پاک ہے۔

وَ اِنْ كَانُوْا لَیَقُوْلُوْنَ(167)لَوْ اَنَّ عِنْدَنَا ذِكْرًا مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ(168)لَكُنَّا عِبَادَ اللّٰهِ الْمُخْلَصِیْنَ(169)فَكَفَرُوْا بِهٖ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ(170)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بیشک کافرکہتے تھے۔اگر ہمارے پاس اگلوں کی کوئی نصیحت ہوتی۔ تو ضرور ہم اللہ کے چُنے ہوئے بندے ہوتے۔ تو اس کے منکر ہوئے تو عنقریب انہیں پتہ چل جائے گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِنْ كَانُوْا لَیَقُوْلُوْنَ: اور بیشک وہ کہتے تھے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ مکہ مکرمہ کے کفار و مشرکین تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری سے پہلے کہا کرتے تھے کہ اگر ہمیں  بھی پہلے لوگوں  پر نازل ہونے والی کتابوں  تورات اور انجیل کی طرح کوئی کتاب ملتی تو ضرور ہم اللہ تعالیٰ کے چنے ہوئے بندے ہوتے ،ہم اس کی اطاعت کرتے اور اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت بجالاتے اور جس طرح انہوں  نے جھٹلایا اس طرح ہم نہ جھٹلاتے اور جس طرح انہوں  نے مخالفت کی اس طرح ہم مخالفت نہ کرتے،پھر جب تمام کتابوں  سے افضل و اشرف اور اپنی مثل لانے سے عاجز کر دینے والی کتاب انہیں  ملی یعنی قرآن مجید نازل ہوا تو یہی لوگ اس کے منکر ہوگئے، پس عنقریب یہ لوگ اپنے کفر کا انجام جان لیں  گے۔ (مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۶۷-۱۷۰، ص۱۰۱۲، ملخصاً)

وَ لَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِیْنَ(171)اِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنْصُوْرُوْنَ(172)وَ اِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغٰلِبُوْنَ(173)فَتَوَلَّ عَنْهُمْ حَتّٰى حِیْنٍ(174)وَّ اَبْصِرْهُمْ فَسَوْفَ یُبْصِرُوْنَ(175)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بیشک ہمارے بھیجے ہوئے بندوں کے لیے ہمارا کلام گزر چکا ہے ۔ کہ بیشک انہی کی مدد کی جائے گی۔ اور بیشک ہمارا لشکرہی غالب ہوگا۔ تو ایک وقت تک تم ان سے منہ پھیر لو۔ اور انہیں دیکھتے رہو تو عنقریب وہ بھی دیکھیں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا: اور بیشک ہمارا کلام گزر چکا ہے۔} کفار کو ان کے انجام سے ڈرانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہاں  سے ایساکلام فرمایا ہے جس سے حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دل کو تَقْوِیَت حاصل ہو۔ چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی چار آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ بیشک ہمارے بھیجے ہوئے بندوں  کے لیے ہمارا کلام لوحِ محفوظ میں  لکھ دیا گیا ہے کہ بیشک انہی کی مدد کی جائے گی اورجس کی ہم مدد کریں  وہ کبھی مغلوب نہ ہو گا اور بیشک رسولوں  اور ان کی پیروی کرنے والے اہلِ ایمان کالشکرہی اپنے دشمنوں  پر دنیا اور آخرت میں غالب ہوگا ،تو اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جب آپ نے جان لیا کہ نصرت اور غلبہ آپ کا اورآپ کی پیروی کرنے والوں  کا ہو گا تو آپ ان مشرکین سے منہ پھیر لیں  اور ان کی اَذِیَّتوں  پر صبر فرمائیں یہاں  تک کہ آپ کو ان کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم دیدیا جائے اور جب ان پر عذاب نازل ہو تو انہیں  دیکھتے رہیں ، عنقریب وہ لوگ دنیا و آخرت میں طرح طرح کے عذاب دیکھیں  گے۔(تفسیرکبیر، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۷۱-۱۷۵، ۹ / ۳۶۳، روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۷۱-۱۷۵، ۷ / ۴۹۷- ۴۹۸، خازن، والصافات،تحت الآیۃ:۱۷۱-۱۷۵،۴ / ۲۹، مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۷۱-۱۷۵، ص۱۰۱۲، ملتقطاً)

اَفَبِعَذَابِنَا یَسْتَعْجِلُوْنَ(176)فَاِذَا نَزَلَ بِسَاحَتِهِمْ فَسَآءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِیْنَ(177)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو کیا ہمارے عذاب کی جلدی کرتے ہیں ؟ پھر جب ان کے صحن میں عذاب اترے گا تو ڈرائے جانے والوں کی کیا ہی بری صبح ہوگی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَفَبِعَذَابِنَا یَسْتَعْجِلُوْنَ: تو کیا ہمارے عذاب کی جلدی کرتے ہیں ؟} جب اس سے اوپر والی آیت نازل ہوئی تو کفار نے مذاق اڑانے کے طور پر کہا کہ یہ عذاب کب نازل ہوگا ؟اس کے جواب میں  یہ آیت نازل ہوئی۔اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کیا اس پختہ وعید کے بعد بھی کفار ہمارے عذاب کی جلدی کرتے ہیں ، پھر جب ان کے صحن میں  وہ عذاب اترے گا جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے تو ڈرائے جانے والوں  کی کیا ہی بُری صبح ہوگی۔( ابو سعود، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۷۶-۱۷۷، ۴ / ۴۲۵، روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۷۶-۱۷۷، ۷ / ۴۹۸- ۴۹۹، ملتقطاً)

وَ تَوَلَّ عَنْهُمْ حَتّٰى حِیْنٍ(178)وَّ اَبْصِرْ فَسَوْفَ یُبْصِرُوْنَ(179)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ایک وقت تک ان سے منہ پھیرلو۔ اورانہیں دیکھتے رہو تو عنقریب وہ بھی دیکھیں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ تَوَلَّ عَنْهُمْ: اور ان سے منہ پھیرلو۔} یہاں  دوبارہ یہ کلام عذاب کی وعید کوتاکید کے ساتھ بیان کرنے کے لئے کیا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آیت نمبر174اور175میں  کفار کے دُنْیَوی اَحوال کے بارے میں  کلام فرمایا گیا اور اب یہاں سے ان کے اُخروی اَحوال کے بارے میں  کلام فرمایا جارہا ہے۔اس صورت میں  آیات میں  تکرار نہیں  ہے۔(خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۱۷۸، ۴ / ۲۹)

سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا یَصِفُوْنَ(180)وَ سَلٰمٌ عَلَى الْمُرْسَلِیْنَ(181)وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(182)

ترجمہ: کنزالعرفان

تمہارا رب عزت والا ان تمام باتوں سے پاک ہے جو وہ بیان کرتے ہیں ۔اور رسولوں پر سلام ہو۔ اور تمام تعریفیں اس اللہ کیلئے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{سُبْحٰنَ رَبِّكَ: تمہارا رب پاک ہے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کا عزت والا رب ان تمام باتوں  سے پاک اور بَری ہے جو کافر اس کی شان میں  کہتے ہیں  اور اس کے لئے شریک اور اولاد ٹھہراتے ہیں ۔( تفسیر طبری، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۸۰، ۱۰ / ۵۴۳، ملخصاً)

{وَ سَلٰمٌ عَلَى الْمُرْسَلِیْنَ: اور رسولوں  پر سلام ہو۔} اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں  کے درمیان واسطہ اور وسیلہ چونکہ رسول ہیں  ا س لئے ان کی شان کے بارے میں  آگاہ کرتے ہوئے فرمایاکہ رسولوں  پر سلام ہو جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے توحید اور احکامِ شرع پہنچائے کیونکہ انسانی مَراتب میں  سب سے اعلیٰ مرتبہ یہ ہے کہ وہ خود کامل ہواور دوسروں  کی تکمیل کرے، یہ شان انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ہے ،لہٰذا ہر ایک پر ان حضرات کی پیروی اور ان کی اِقتدا لازم ہے۔( روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۸۱، ۷ / ۵۰۰، خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۱۸۱، ۴ / ۲۹، ملتقطاً)اور ہم چونکہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت ہیں  ا س لئے ہم پر ان کی پیروی لازم ہے۔

سورہِ صافّات کی آخری3آیات کی فضیلت

            سورہِ صافّات کی ان آخری 3آیات کی بہت فضیلت ہے ،چنانچہ

             حضرت ارقم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے ہر نماز کے بعد تین مرتبہ کہا: ’’سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا یَصِفُوْنَۚ(۱۸۰) وَ سَلٰمٌ عَلَى الْمُرْسَلِیْنَۚ(۱۸۱) وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘ ’’تو ا س نے اپنا اجر کا پیمانہ بھر لیا۔( معجم الکبیر، عبد اللّٰہ بن زید بن ارقم عن ابیہ، ۵ / ۲۱۱، الحدیث: ۵۱۲۴)

            اورحضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں ،جسے یہ پسند ہو کہ قیامت کے دن اسے اجر کا پیمانہ بھر بھر کے دیا جائے تو اسے چاہئے کہ اس کی مجلس کا آخری کلام یہ ہو:’’ سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا یَصِفُوْنَۚ(۱۸۰) وَ سَلٰمٌ عَلَى الْمُرْسَلِیْنَۚ(۱۸۱) وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘(تفسیر بغوی، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۸۲، ۴ / ۴۰)

Scroll to Top