سُوْرَۃ ص
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
صٓ وَ الْقُرْاٰنِ ذِی الذِّكْرِﭤ(1)بَلِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فِیْ عِزَّةٍ وَّ شِقَاقٍ(2)
ترجمہ: کنزالعرفان
ص، نصیحت والے قرآن کی قسم۔ بلکہ کافر تکبر اورمخالفت میں پڑے ہوئے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{ صٓ} یہ حروفِ مُقَطَّعات میں سے ایک حرف ہے، اس کی مراد اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔
{وَ الْقُرْاٰنِ ذِی الذِّكْرِ: اس نامور قرآن کی قسم۔} اس آیت میں مذکور لفظ ’’اَلذِّكْرِ‘‘ کا ایک معنی ہے عظمت، نامْوَری اور دوسرا معنی ہے نصیحت۔پہلے معنی کے اعتبار سے اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کی تفسیر یہ ہے کہ نامْوَر قرآن جو شرف والا اور اپنی مثل کلام لانے سے عاجز کر دینے والاہے ،اس قرآن کی قسم! کافر اس کا یقین کرنے اور حق کا اعتراف کرنے سے تکبر کرتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ اورا س کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مخالفت کرنے میں مصروف ہیں ۔ دوسرے معنی کے اعتبار سے اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کی تفسیر یہ ہے کہ اس نصیحت والے قرآن کی قسم جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ تمہیں نصیحت فرماتا ہے کہ جس طرح کفار مُتَعَدّد خدا مانتے ہیں در حقیقت ویسا ہے نہیں ، بلکہ کافر تکبُّر اور مخالفت میں پڑے ہوئے ہیں اور نبیٔ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عداوت رکھتے ہیں اس لئے حق کا اعتراف نہیں کرتے۔( مدارک، ص، تحت الآیۃ: ۱-۲، ص۱۰۱۴، تفسیر طبری، ص، تحت الآیۃ: ۱-۲، ۱۰ / ۵۴۴-۵۴۵، جلالین، ص، تحت الآیۃ: ۱-۲، ص۳۸۰، خازن، ص، تحت الآیۃ: ۱-۲، ۴ / ۳۰، ملتقطاً)
كَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ قَرْنٍ فَنَادَوْا وَّ لَاتَ حِیْنَ مَنَاصٍ(3)
ترجمہ: کنزالعرفان
ہم نے ان سے پہلے کتنی قومیں ہلاک کردیں تو وہ پکارنے لگے حالانکہ بھاگنے کا وقت نہ تھا۔
تفسیر: صراط الجنان
{كَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ قَرْنٍ: ہم نے ان سے پہلے کتنی قومیں ہلاک کردیں ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اسی تکبر اور انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مخالفت کے باعث ہم نے آپ کی قوم سے پہلے کتنی امتیں ہلاک کردیں اور جب ان پر عذاب نازل ہونے کا وقت آیا تو انہوں نے فریاد کی اور توبہ و اِستغفار کرنے لگے تاکہ اس عذاب سے نجات پا جائیں حالانکہ اس وقت بھاگنے اور عذاب سے نجات پانے کا وقت نہ تھا اور اس وقت ان کی فریاد بیکار تھی کیونکہ وہ وقت مایوس ہوجانے کا تھا ،لیکن کفارِ مکہ نے اُن کے حال سے عبرت حاصل نہ کی۔( جلالین، ص، تحت الآیۃ: ۳، ص۳۸۰، روح البیان، ص، تحت الآیۃ: ۳، ۸ / ۳، ملتقطاً)
وَ عَجِبُوْۤا اَنْ جَآءَهُمْ مُّنْذِرٌ مِّنْهُمْ٘-وَ قَالَ الْكٰفِرُوْنَ هٰذَا سٰحِرٌ كَذَّابٌ(4)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور انہیں اس بات پر تعجب ہوا کہ ان کے پاس انہیں میں سے ایک ڈر سنانے والا (رسول) تشریف لایااور کافروں نے کہا: یہ جادوگرہے، بڑا جھوٹا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ عَجِبُوْا: اور انہیں تعجب ہوا۔} یعنی کفارِ مکہ کو اس بات پر تعجب ہوا کہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ظاہری خِلقَت، باطنی اَخلاق،نسب اور شکل و صورت میں تو ہم جیسے انسان ہیں ،پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم میں سے صرف وہ رسالت جیسے بلند منصب کے حق دار ٹھہریں اور جب کفارتاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت و شان دیکھ کر حیران رہ گئے تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو (مَعَاذَ اللہ) جادوگر اور جھوٹا کہنے لگے ۔( روح البیان، ص، تحت الآیۃ: ۴، ۸ / ۴)
اَجَعَلَ الْاٰلِهَةَ اِلٰهًا وَّاحِدًا ۚۖ-اِنَّ هٰذَا لَشَیْءٌ عُجَابٌ(5)
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا اس نے بہت سارے خداؤں کو ایک خدا کردیا؟بیشک یہ ضروربڑی عجیب بات ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَجَعَلَ الْاٰلِهَةَ اِلٰهًا وَّاحِدًا: کیا اس نے بہت سارے خداؤں کو ایک خدا کردیا؟} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ جب حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اسلام لائے تو مسلمانوں کو خوشی ہوئی اور کافروں کو انتہائی رنج ہوا، ولید بن مغیرہ نے قریش کے پچیس سرداروں اور بڑے آدمیوں کو جمع کیا اور انہیں ابو طالب کے پاس لایا ۔ اُن سے کہا کہ تم ہمارے سردار اور بزرگ ہو، ہم تمہارے پا س اس لئے آئے ہیں کہ تم ہمارے اور اپنے بھتیجے کے درمیان فیصلہ کردو، ان کی جماعت کے چھوٹے درجے کے لوگوں نے جو شورش برپا کررکھی ہے وہ تم جانتے ہو۔ ابوطالب نے حضور سیّد ِعالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بلا کر عرض کی’’ یہ آپ کی قوم کے لوگ ہیں اور آپ سے صلح کرنا چاہتے ہیں ،آپ اُن کی طرف سے یک لَخت اِنحراف نہ کیجئے۔حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’یہ مجھ سے کیا چاہتے ہیں ؟ اُنہوں نے کہا : ہم اتنا چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں اور ہمارے معبودوں کے ذکر کوچھوڑ دیجئے، ہم آپ کے اور آپ کے معبود کو برا نہیں کہیں گے۔ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ کیا تم ایک کلمہ قبول کرسکتے ہو جس سے عرب و عجم کے مالک و فرمانْرَوا ہوجاؤ۔ ابوجہل نے کہا : ایک کیا، ہم ایسے دس کلمے قبول کرسکتے ہیں ۔سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’کہو ’’لَا ٓاِلٰـہَ اِلَّا اللہ‘‘ اس پر وہ لوگ اُٹھ گئے اور کہنے لگے کہ کیا انہوں نے بہت سے خداؤں کا ایک خدا کردیا ،اتنی بہت سی مخلوق کے لئے ایک خدا کیسے کافی ہوسکتا ہے،بیشک یہ ضروربڑی عجیب بات ہے کیونکہ آج تک ہمارے آباؤاَجداد جس چیز پر متفق رہے یہ اس کے خلاف ہے۔( خازن، ص، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۳۰، روح البیان، ص، تحت الآیۃ: ۵، ۸ / ۵، ملتقطاً)
وَ انْطَلَقَ الْمَلَاُ مِنْهُمْ اَنِ امْشُوْا وَ اصْبِرُوْا عَلٰۤى اٰلِهَتِكُمْ ۚۖ-اِنَّ هٰذَا لَشَیْءٌ یُّرَادُ(6)مَا سَمِعْنَا بِهٰذَا فِی الْمِلَّةِ الْاٰخِرَةِ ۚۖ-اِنْ هٰذَاۤ اِلَّا اخْتِلَاقٌ(7)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ان میں سے جو سردارتھے وہ( یہ کہتے ہوئے )چل پڑے کہ (اے لوگو! )تم بھی چلے جاؤ اور اپنے معبودوں پر ڈٹے رہو بیشک اس بات میں اس کی کوئی غرض ہے۔ ہم نے یہ بات پچھلے دین میں بھی نہیں سنی ۔ یہ صرف خود بنائی ہوئی جھوٹی بات ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ انْطَلَقَ الْمَلَاُ مِنْهُمْ: اور ان میں سے جو سردارتھے وہ چل پڑے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا جواب سن کر کفار ِقریش کے سردار ابوطالب کی مجلس سے آپس میں یہ کہتے ہوئے چل پڑے کہ اے لوگو!تم بھی یہاں سے چلے جاؤ اور اپنے معبودوں کی عبادت کرنے پر ڈٹے رہو اور یہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جو توحید کی بات کررہے ہیں اس میں ان کی کوئی ذاتی غرض پوشیدہ ہے اور یہ بات تو ہم نے پچھلے دین یعنی اپنے آباؤ اَجداد کے دین میں یا سب سے پچھلے دین، دینِ عیسائیّت میں بھی نہیں سنی ،کیونکہ عیسائی بھی تین خداؤں کے قائل تھے جبکہ یہ تو ایک ہی خدا بتاتے ہیں ، یہ صرف ان کی خود سے بنائی ہوئی جھوٹی بات ہے۔
ءَاُنْزِلَ عَلَیْهِ الذِّكْرُ مِنْۢ بَیْنِنَاؕ-بَلْ هُمْ فِیْ شَكٍّ مِّنْ ذِكْرِیْۚ-بَلْ لَّمَّا یَذُوْقُوْا عَذَابِﭤ(8)
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا ہمارے درمیان ان پر قرآن اتارا گیا ؟بلکہ وہ میری کتاب کے بارے شک میں ہیں بلکہ ابھی انہوں نے میرا عذاب نہیں چکھا
تفسیر: صراط الجنان
{ءَاُنْزِلَ عَلَیْهِ الذِّكْرُ مِنْۢ بَیْنِنَا: کیا ہمارے درمیان ان پر قرآن اتارا گیا؟} اہلِ مکہ نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے منصبِ نبوت پر حسد کرتے ہوئے کہا کہ ہم میں شرف و عزت والے آدمی موجود تھے، اُن میں سے تو کسی پر قرآن نہیں اُترا ،خاص حضرت محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ہی کیوں اترا حالانکہ وہ ہم سے بڑے اور ہم سے زیادہ عزت والے نہیں ۔ کفار کی ا س بات کا جواب دیتے ہوئے فرمایا گیا کہ ان کا یہ کہنااس وجہ سے نہیں کہ اگر رسول ان کا کوئی شرف و عزت والا آدمی ہوتا تو یہ اس کی پیروی کر لیتے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ وہ لوگ میری کتاب کے بارے شک میں ہیں کیونکہ وہ اسے لانے والے حضرت محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تکذیب کرتے ہیں اور یہ تکذیب بھی اس وجہ سے نہیں کہ ان کے پاس کوئی دلیل ہے بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ابھی تک انہوں نے میرا عذاب نہیں چکھا،اگر میرا عذاب چکھ لیتے تو یہ شک ، تکذیب اور حسد کچھ باقی نہ رہتا اور وہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تصدیق کرتے لیکن اس وقت کی تصدیق ان کے لئے مفید نہ ہوتی۔( جلالین، ص، تحت الآیۃ: ۸، ص۳۸۰، مدارک، ص، تحت الآیۃ: ۸، ص۱۰۱۵، ملتقطاً)
نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت سے دوری کی بنیادی وجہ
اس آیت سے معلوم ہو اکہ کفارِ مکہ کے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت اور فرمانبرداری نہ کرنے کی ایک وجہ دُنْیَوی عزت،وجاہت، شرافت اور مال دولت کی وسعت تھی،اور فی زمانہ بعض مسلمانوں کے اندر بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت و فرمانبرداری سے دوری کی بنیادی وجہ مالی وسعت اور دُنْیَوی عیش و عشرت کے سامان کی کثرت نظر آتی ہے، اللہ تعالیٰ انہیں قبر و آخرت کے عذاب سے ڈرنے اور اپنی اطاعت و عبادت کی توفیق عطا فرمائے،آمین۔
اَمْ عِنْدَهُمْ خَزَآىٕنُ رَحْمَةِ رَبِّكَ الْعَزِیْزِ الْوَهَّابِ(9)
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا ان کے پاس تمہارے عزت والے، بہت عطا فرمانے والے رب کی رحمت کے خزانے ہیں ؟
تفسیر: صراط الجنان
{اَمْ عِنْدَهُمْ خَزَآىٕنُ رَحْمَةِ رَبِّكَ: کیا وہ تمہارے رب کی رحمت کے خزانچی ہیں ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جو کفار آپ کی نبوت پر اعتراض کر رہے ہیں ، کیا وہ آپ کے رب کی رحمت کے خزانچی ہیں اور کیا نبوت کی کنجیاں ان کے ہاتھ میں ہیں کہ جسے چاہیں دیں اور جسے چاہیں نہ دیں ،وہ اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہیں ، اللہ تعالیٰ اور اس کی مالکِیّت کو نہیں جانتے ،وہ عزت والا بہت عطا فرمانے والا ہے،وہ اپنی حکمت کے تقاضے کے مطابق جسے جو چاہے عطا فرمائے اور اس نے اپنے حبیب محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نبوت عطا فرمائی تو کسی کو اس میں دخل دینے اورچوں چِرا کرنے کی کیا مجال ہے۔( مدارک، ص، تحت الآیۃ: ۹، ص۱۰۱۵، ملتقطاً)
اب کسی کو نبوت نہیں مل سکتی :
اس آیت سے معلوم ہوا کہ نبوت اللہ تعالیٰ کا خاص عطیہ ہے،وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے اس سعادت سے مشرف فرما دے، لیکن یہ یاد رہے کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری کے بعد اب کسی کو نبوت نہیں مل سکتی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نبوت کا سلسلہ ختم فرما دیا ہے،جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے
’’مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا‘‘(احزاب:۴۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں اور اللہ سب کچھ جاننے والاہے۔
اور حضرت ثوبان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ عنقریب میری امت میں تیس کذّاب ہوں گے، ان میں سے ہرایک کا یہ دعویٰ ہوگاکہ وہ نبی ہے حالانکہ میں سب سے آخری نبی ہوں اورمیرے بعدکوئی نبی نہیں ہے ۔( سنن ابوداؤد، کتاب الفتن والملاحم، باب ذکر الفتن ودلائلہا، ۴ / ۱۳۲، الحدیث: ۴۲۵۲)
نوٹ:ختمِ نبوت سے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے سورہِ اَحزاب کی آیت نمبر40کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں ۔
اَمْ لَهُمْ مُّلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَا- فَلْیَرْتَقُوْا فِی الْاَسْبَابِ(10)
ترجمہ: کنزالعرفان
یاکیا ان کے لیے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کی سلطنت ہے؟ پھر تو انہیں چاہیے کہ رسیوں کے ذریعے چڑھ جائیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَمْ لَهُمْ مُّلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَا: یاکیا ان کے لیے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کی سلطنت ہے؟} یعنی جو مشرکین تکبر اورمخالفت میں پڑے ہوئے ہیں کیا ان کے لیے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کی سلطنت ہے؟ اگر ایساہے تو اس صورت میں انہیں چاہیے کہ رسیوں کے ذریعے آسمانوں میں چڑھ جائیں اور ایسا اختیار ان کے پاس ہو تو جسے چاہیں وحی کے ساتھ خاص کریں اور کائنات کاانتظام اپنے ہاتھ میں لے لیں اور جب یہ کچھ نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ کے کاموں اور اس کے انتظامات میں دخل کیوں دیتے ہیں اور انہیں ایسی بے سرو پا باتیں کرنے کا کیا حق ہے؟(تفسیر طبری، ص، تحت الآیۃ: ۱۰، ۱۰ / ۵۵۴، جلالین، ص، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۳۸۰، مدارک، ص، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۱۰۱۵-۱۰۱۶، ملتقطاً)
جُنْدٌ مَّا هُنَالِكَ مَهْزُوْمٌ مِّنَ الْاَحْزَابِ(11)
ترجمہ: کنزالعرفان
یہ لشکروں میں سے ایک ذلیل لشکر ہے جسے یہاں شکست دیدی جائے گی۔
تفسیر: صراط الجنان
{جُنْدٌ: یہ ایک ذلیل لشکر ہے۔} کفار کو جواب دینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے ان سے مدد و نصرت کا وعدہ فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ان کفارِ قریش کی جماعت انہیں لشکروں میں سے ایک ہے جو آپ سے پہلے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مقابلے میں گروہ بن کر آیا کرتے تھے اور ان پر زیادتیاں کیا کرتے تھے، اسی وجہ سے وہ ہلاک کردیئے گئے اور یہی حال کفارِ قریش کا ہے کہ انہیں بھی شکست ہو گی ۔( خازن، ص، تحت الآیۃ: ۱۱، ۴ / ۳۱، مدارک، ص، تحت الآیۃ: ۱۱، ص۱۰۱۶، ملتقطاً)
حضرت قتادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں’’اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ میں اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مشرکین کی شکست کی خبر دیتے ہوئے فرمایا
’’سَیُهْزَمُ الْجَمْعُ وَ یُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ‘‘(قمر:۴۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: عنقریب سب بھگادیئے جائیں گے اور وہ پیٹھ پھیردیں گے۔
اور اس خبر کی صداقت غزوۂ بدر میں ظاہر ہو گئی۔( جمل، ص، تحت الآیۃ: ۱۱، ۶ / ۳۷۳)
كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّ عَادٌ وَّ فِرْعَوْنُ ذُو الْاَوْتَادِ(12)وَ ثَمُوْدُ وَ قَوْمُ لُوْطٍ وَّ اَصْحٰبُ لْــٴَـیْكَةِؕ-اُولٰٓىٕكَ الْاَحْزَابُ(13)اِنْ كُلٌّ اِلَّا كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ عِقَابِ(14)
ترجمہ: کنزالعرفان
نوح کی قوم اور عاد اور میخوں والا فرعون ان سے پہلے جھٹلا چکے ہیں ۔اور ثمود اور لوط کی قوم اور اَیکہ (نامی جنگل) والے۔ یہی گروہ ہیں ۔ ان میں کوئی ایسا نہیں جس نے رسولوں کو نہ جھٹلایا ہو تو میرا عذاب لازم ہوگیا۔
تفسیر: صراط الجنان
{كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ: ان سے پہلے نوح کی قوم جھٹلا چکی ہے۔} یہاں سے اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قلبی تسکین کے لئے پچھلے اَنبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوموں کا ذکر فرمایا ہے۔ اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم جنہیں حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے سینکڑوں سال تبلیغ فرمائی اور عاد جنہیں حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عرصۂ دراز تک تبلیغ فرمائی اور میخوں میں گاڑھ کرسزا دینے والا فرعون جو کسی پر غصہ کرتا تھا تو اُسے لِٹا کر اُس کے چاروں ہاتھ پاؤں کھینچ کر چاروں طرف کھونٹوں میں بندھو ا دیتا تھا، پھر اس کو پٹواتا اور اس پر طرح طرح کی سختیاں کرتا تھا،اور حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم ثمود اور حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم اور اَیکہ (نامی جنگل) والے جو حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم سے تھے،یہ سب کفارِ قریش سے پہلے اپنے رسولوں کوجھٹلا چکے ہیں ،یہی وہ گروہ ہیں جو اَنبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مقابلے میں جتھے باندھ کر آئے اورمشرکینِ مکہ انہیں گروہوں میں سے ہیں اوران لوگوں نے جب انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا تو ان پر میرا عذاب لازم ہوگیا اور جب پہلے کی طاقتورقومیں عذابِ الٰہی کے سامنے بے بس و لاچار ہوگئیں تواب کے کمزور کافر لوگوں پر جب میرا عذاب نازل ہو گا تو ان کا کیا حال ہو گا۔( روح البیان، ص، تحت الآیۃ: ۱۲-۱۴، ۸ / ۹-۱۰، خازن، ص، تحت الآیۃ: ۱۲-۱۴، ۴ / ۳۱-۳۲، ملتقطاً)
وَ مَا یَنْظُرُ هٰۤؤُلَآءِ اِلَّا صَیْحَةً وَّاحِدَةً مَّا لَهَا مِنْ فَوَاقٍ(15)
ترجمہ: کنزالعرفان
اوریہ ایک چیخ کا ہی انتظار کررہے ہیں جسے کوئی پھیرنے والا نہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَا یَنْظُرُ هٰۤؤُلَآءِ اِلَّا صَیْحَةً وَّاحِدَةً: اوریہ ایک چیخ کا ہی انتظار کررہے ہیں ۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے سابقہ امتوں کے عذابات کا ذکر فرمایا اور یہاں سے کفار ِقریش کے عذاب کا ذکر فرما رہا ہے،چنانچہ اس آیت میں ارشاد فرمایا کہ سابقہ ہلاک شدہ امتوں کی طرح کفر و تکذیب میں مبتلا کفارِقریش قیامت کے پہلے نَفخہ کی چیخ کا ہی انتظار کر رہے ہیں جو اُن کے عذاب کی مقررہ مدت ہے اور وہ چیخ ایسی ہے جسے کوئی پھیر نہیں سکتا۔( ابو سعود ، ص ، تحت الآیۃ : ۱۵، ۴ / ۴۳۱ ، خازن ، ص ، تحت الآیۃ : ۱۵ ، ۴ / ۳۲ ، مدارک، ص، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۱۰۱۶، ملتقطاً)
وَ قَالُوْا رَبَّنَا عَجِّلْ لَّنَا قِطَّنَا قَبْلَ یَوْمِ الْحِسَابِ(16)اِصْبِرْ عَلٰى مَا یَقُوْلُوْنَ وَ اذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوٗدَ ذَا الْاَیْدِۚ-اِنَّهٗۤ اَوَّابٌ(17)
ترجمہ: کنزالعرفان
اورانہوں نے کہا: اے ہمارے رب! ہمارا حصہ ہمیں حساب کے دن سے پہلے جلد دیدے۔ تم ان کی باتوں پر صبر کرو اور ہمارے نعمتوں والے بندے داؤد کو یاد کروبیشک وہ بڑا رجوع کرنے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَالُوْا: اورانہوں نے کہا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ نضر بن حارث نے مذاق اڑانے کے طور پر کہا’’اے ہمارے رب!جہنم کے عذاب کا ہمارا حصہ ہمیں حساب کے دن سے پہلے دنیا میں ہی جلد دیدے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا کہ آپ ان کفار کی باتوں پر صبر کریں اور ان کی اَذِیَّتوں کو برداشت کریں ۔ اس کے بعد فرمایا کہ ہمارے نعمتوں والے بندے حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یاد کریں بیشک وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف ہر حال میں رجوع کرنے والا ہے ۔ایک برگزیدہ نبی کو یاد کرنے کاحکم دینے کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت پر دل مضبوط ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح اپنے مقبول و محبوب بندوں کو اپنے فضل و کرم سے نوازتا ہے، لہٰذااگر حضور پُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کفار کی طرف سے ایذاء پہنچ رہی ہے تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ فضلِ الٰہی ان سب غموں کو دھودے گا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : ’’ ذَا الْاَیْدِ‘‘سے مراد یہ ہے کہ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام عبادت میں بہت قوت والے تھے۔( خازن، ص، تحت الآیۃ: ۱۶-۱۷، ۴ / ۳۲، مدارک، ص، تحت الآیۃ: ۱۶-۱۷، ص۱۰۱۶-۱۰۱۷، ملتقطاً)
حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عبادت کا حال
حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عبادت کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے (نفلی) روزے سب روزوں سے پسند ہیں ، (ان کا طریقہ یہ تھا کہ) وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن چھوڑ دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی (نفل) نماز سب نمازوں سے پسند ہے،وہ آدھی رات تک سوتے،تہائی رات عبادت کرتے ،پھر باقی چھٹا حصہ سوتے تھے۔( بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب احبّ الصلاۃ الی اللّٰہ صلاۃ داود۔۔۔ الخ، ۲ / ۴۴۸، الحدیث: ۳۴۲۰)
اور بعض اوقات اس طرح کرتے کہ ایک دن روزہ رکھتے ایک دن افطار فرماتے اور رات کے پہلے نصف حصہ میں عبادت کرتے اس کے بعد رات کی ایک تہائی آرام فرماتے پھر باقی چھٹا حصہ عبادت میں گزارتے۔( جلالین مع جمل، ص، تحت الآیۃ: ۱۷، ۶ / ۳۷۵)
سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عبادت کا حال:
یہاں حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عبادت کا حال بیان ہوا،اسی مناسبت سے یہاں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عبادت میں سے نماز اور روزہ کا حال بھی ملاحظہ ہو، چنانچہ علامہ عبد المصطفٰی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اعلانِ نبوت سے قبل بھی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غارِ حرا میں قیام و مُراقبہ اور ذکر و فکر کے طور پر خدا عَزَّوَجَلَّ کی عبادت میں مصروف رہتے تھے، نزولِ وحی کے بعد ہی آپ کو نماز کا طریقہ بھی بتا دیا گیا، پھر شب ِمعراج میں نمازِ پنجگانہ فرض ہوئی۔ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نمازِ پنجگانہ کے علاوہ نمازِ اِشراق، نماز ِچاشت،تَحِیَّۃُ الوضوئ، تَحِیَّۃُ المسجد، صلوٰۃُ الاَوَّابین وغیرہ سُنن و نوافل بھی ادا فرماتے تھے۔ راتوں کو اٹھ اٹھ کر نمازیں پڑھا کرتے تھے۔ تمام عمر نمازِ تہجد کے پابند رہے، راتوں کے نوافل کے بارے میں مختلف روایات ہیں ۔ بعض روایتوں میں یہ آیا ہے کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نمازِ عشاء کے بعد کچھ دیر سوتے ،پھر کچھ دیر تک اٹھ کر نماز پڑھتے پھر سو جاتے، پھر اٹھ کر نماز پڑھتے۔ غرض صبح تک یہی حالت قائم رہتی۔ کبھی دو تہائی رات گزر جانے کے بعد بیدار ہوتے اور صبح صادق تک نمازوں میں مشغول رہتے۔کبھی نصف رات گزر جانے کے بعد بسترسے اٹھ جاتے اور پھر ساری رات بستر پر پیٹھ نہیں لگاتے تھے اور لمبی لمبی سورتیں نمازوں میں پڑھا کرتے ،کبھی رکوع و سجود طویل ہوتا کبھی قیام طویل ہوتا۔ کبھی چھ رکعت،کبھی آٹھ رکعت ،کبھی اس سے کم کبھی اس سے زیادہ۔ اخیر عمر شریف میں کچھ رکعتیں کھڑے ہو کر کچھ بیٹھ کر ادا فرماتے، نمازِ وتر نمازِ تہجد کے ساتھ ادا فرماتے، رمضان شریف خصوصاً آخری عشرہ میں آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی عبادت بہت زیادہ بڑھ جاتی تھی۔ آپ ساری رات بیدار رہتے اور اپنی ازواجِ مُطَہّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ سے بے تعلق ہو جاتے تھے اور گھر والوں کو نمازوں کے لئے جگایا کرتے تھے اور عموماً اعتکاف فرماتے تھے۔ نمازوں کے ساتھ ساتھ کبھی کھڑے ہو کر، کبھی بیٹھ کر، کبھی سربسجود ہو کر نہایت آہ و زاری اور گِریہ و بُکا کے ساتھ گِڑگڑا گڑگڑا کر راتوں میں دعائیں بھی مانگا کرتے، رمضان شریف میں حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے ساتھ قرآنِ عظیم کا دور بھی فرماتے اور تلاوتِ قرآنِ مجید کے ساتھ ساتھ طرح طرح کی مختلف دعاؤں کا ورد بھی فرماتے تھے اور کبھی کبھی ساری رات نمازوں اور دعاؤں میں کھڑے رہتے یہاں تک کہ پائے اَقدس میں ورم آ جایا کرتا تھا۔
رمضان شریف کے روزوں کے علاوہ شعبان میں بھی قریب قریب مہینہ بھر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ روزہ دار ہی رہتے تھے۔ سال کے باقی مہینوں میں بھی یہی کَیفِیَّت رہتی تھی کہ اگر روزہ رکھنا شروع فرما دیتے تو معلوم ہوتا تھا کہ اب کبھی روزہ نہیں چھوڑیں گے ،پھر ترک فرما دیتے تو معلوم ہوتا تھا کہ اب کبھی روزہ نہیں رکھیں گے۔ خاص کر ہر مہینے میں تین دن اَیّامِ بِیض کے روزے، دو شَنبہ و جمعرات کے روزے، عاشوراء کے روزے، عشرۂ ذُوالحجہ کے روزے، شوال کے چھ روزے معمولاً رکھا کرتے تھے۔ کبھی کبھی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ’’صَومِ وصال‘‘ بھی رکھتے تھے، یعنی کئی کئی دن رات کا ایک روزہ، مگر اپنی امت کو ایسا روزہ رکھنے سے منع فرماتے تھے، بعض صحابہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کیا کہ یا رسولَ اللہ ! (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) آپ تو صومِ وصال رکھتے ہیں ۔ ارشاد فرمایا کہ تم میں مجھ جیسا کون ہے؟ میں اپنے رب کے دربار میں رات بسر کرتا ہوں اور وہ مجھ کو کھلاتا اور پلاتا ہے(بخاری، کتاب التمنی، باب ما یجوز من اللّو، ۴ / ۴۸۸، الحدیث: ۷۲۴۲)۔( سیرت مصطفٰی، شمائل وخصائل، نماز، روزہ، ص۵۹۵-۵۹۷)
تعریف کے قابل بندہ
ویسے تو ہر انسان اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے لیکن تعریف کے قابل وہ بندہ ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ خود فرما دے کہ یہ ہمارا بندہ ہے،اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنا بندہ فرمایا اور یہ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عظمت و شرافت اور فضیلت کی بہت بڑی دلیل ہے، یونہی اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوقرآنِ پاک میں کئی مقامات پر اپنا بندہ فرمایا،جیسے ایک مقام پر ارشاد فرمایا:
’’اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا یَوْمَ الْفُرْقَانِ‘‘(انفال:۴۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اگر تم اللہ پر اور اس پر ایمان رکھتے ہو جو ہم نے اپنے خاص بندے پر فیصلہ کے دن اتارا۔
اور ارشاد فرمایا
’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلٰى عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَ لَمْ یَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًا‘‘(الکھف:۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تمام تعریفیں اس اللہ کیلئے ہیں جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل فرمائی اور اس میں کوئی ٹیڑھ نہیں رکھی۔
اور ارشاد فرمایا
’’سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا‘‘(بنی اسرائیل:۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے خاص بندے کو رات کے کچھ حصے میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی۔ اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فضیلت کا کمال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنا بندہ فرماتا ہے اور اپنے بارے میں فرماتا ہے کہ میں ان کا رب ہوں ،چنانچہ ارشاد فرمایاکہ
’’فَوَرَبِّكَ لَنَسْــٴَـلَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَ‘‘(حجر:۹۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو تمہارے رب کی قسم !ہم ضرور انسب سے پوچھیں گے۔
اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهٗ یُسَبِّحْنَ بِالْعَشِیِّ وَ الْاِشْرَاقِ(18)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک ہم نے اس کے ساتھ پہاڑوں کو تابع کردیا کہ وہ شام اور سورج کے چمکتے وقت تسبیح کریں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهٗ: بیشک ہم نے اس کے ساتھ پہاڑوں کو تابع کردیا۔} یعنی اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے تابع کر دیا کہ جب شام اور سورج کے چمکتے وقت حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تسبیح کرتے تو پہاڑ بھی آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ مل کر تسبیح کرتے۔ (خازن، ص، تحت الآیۃ: ۱۸، ۴ / ۳۲، مدارک، ص، تحت الآیۃ: ۱۸، ص۱۰۱۷، ملتقطاً)
{بِالْعَشِیِّ وَ الْاِشْرَاقِ: شام اور سورج کے چمکتے وقت۔} اس آیت میں اِشراق و چاشْت کی نماز کا ثبوت ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے ایک مرتبہ لوگوں سے فرمایا’’کیا تم قرآنِ پاک میں چاشت کی نماز کا ذکر پاتے ہو؟انہوں نے جواب دیا: نہیں ۔ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: ’’اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهٗ یُسَبِّحْنَ بِالْعَشِیِّ وَ الْاِشْرَاقِ‘‘ اور فرمایا کہ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چاشت کی نماز ادا فرمایا کرتے تھے۔ ایک عرصے سے میرے دل میں چاشت کی نماز کے بارے میں کچھ الجھن تھی یہاں تک کہ میں نے اس کا ذکر اس آیت ’’یُسَبِّحْنَ بِالْعَشِیِّ وَ الْاِشْرَاقِ‘‘ میں پا لیا۔( تفسیرکبیر، ص، تحت الآیۃ: ۱۸، ۹ / ۳۷۵)
اِشراق و چاشت کی نماز کے فضائل
آیت کی مناسبت سے یہاں اِشراق و چاشت کی نماز ادا کرنے کے دو فضائل ملاحظہ ہوں ،
(1)… حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے فجر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی ،پھر وہ سورج طلوع ہونے تک بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا رہا،پھر اس نے دو رکعت نماز پڑھی تو اسے حج اور عمرے کا پورا پورا ثواب ملے گا۔( ترمذی،کتاب السفر،باب ذکر ما یستحبّ من الجلوس فی المسجد بعد صلاۃ الصبح۔۔۔الخ،۲ / ۱۰۰،الحدیث:۵۸۵)
(2)… حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے چاشت کی نماز کی بار ہ رکعتیں پڑھیں ، اس کے لئے اللہ تعالیٰ جنت میں سونے کا محل بنا دے گا۔( ترمذی، کتاب الوتر، باب ما جاء فی صلاۃ الضحی، ۲ / ۱۷، الحدیث: ۴۷۲)
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اِشراق اور چاشت کی نماز ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
وَ الطَّیْرَ مَحْشُوْرَةًؕ-كُلٌّ لَّهٗۤ اَوَّابٌ(19)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جمع کئے ہوئے پرندے ،سب اس کے فرمانبردار تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الطَّیْرَ مَحْشُوْرَةً: اور جمع کئے ہوئے پرندے۔} یعنی ہر جانب سے جمع کئے ہوئے پرندے حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے تابع کردئیے،پہاڑ اور پرندے سبھی آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے فرمانبردار تھے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ جب حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تسبیح کرتے تو پہاڑ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ تسبیح کرتے اور پرندے بھی آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس جمع ہو کر تسبیح کرتے۔( مدارک، ص، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۱۰۱۷)
نوٹ: حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے پہاڑوں اور پرندوں کی تسخیر کا ذکر سورۂ اَنبیاء ،آیت نمبر 79 اور سورۂ سبا،آیت نمبر10میں بھی گزر چکا ہے۔
وَ شَدَدْنَا مُلْكَهٗ وَ اٰتَیْنٰهُ الْحِكْمَةَ وَ فَصْلَ الْخِطَابِ(20)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم نے اس کی سلطنت کو مضبوط کیا اور اسے حکمت اور حق و باطل میں فرق کردینے والا علم عطا فرمایا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ شَدَدْنَا مُلْكَهٗ: اور ہم نے اس کی سلطنت کو مضبوط کیا۔} یعنی حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ نے وہ اَسباب و ذرائع عطا فرمائے جن کے ذریعے سلطنت مضبوط ہوتی ہے خواہ وہ لشکر کی صورت میں ہو یا ذاتی عظمت و ہیبت کی صورت میں ہو۔
{وَ اٰتَیْنٰهُ الْحِكْمَةَ وَ فَصْلَ الْخِطَابِ: اور اسے حکمت اور حق و باطل میں فرق کردینے والا علم عطا فرمایا۔} اس آیت میں حکمت سے مراد نبوت ہے اوربعض مفسرین نے حکمت سے عدل کرنا مراد لیا ہے جبکہ بعض نے اس سے کتابُ اللہ کا علم ،بعض نے فقہ اور بعض نے سنت مراد لی ہے۔اور قولِ فیصل سے قضا کا علم مراد ہے جوحق و باطل میں فرق وتمیز کردے۔(جمل، ص، تحت الآیۃ: ۲۰، ۶ / ۳۷۷، مدارک، ص، تحت الآیۃ: ۲۰، ص۱۰۱۷، ملتقطاً)
وَ هَلْ اَتٰىكَ نَبَؤُا الْخَصْمِۘ-اِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَ(21)اِذْ دَخَلُوْا عَلٰى دَاوٗدَ فَفَزِعَ مِنْهُمْ قَالُوْا لَا تَخَفْۚ-خَصْمٰنِ بَغٰى بَعْضُنَا عَلٰى بَعْضٍ فَاحْكُمْ بَیْنَنَا بِالْحَقِّ وَ لَا تُشْطِطْ وَ اهْدِنَاۤ اِلٰى سَوَآءِ الصِّرَاطِ(22)اِنَّ هٰذَاۤ اَخِیْ- لَهٗ تِسْعٌ وَّ تِسْعُوْنَ نَعْجَةً وَّلِیَ نَعْجَةٌ وَّاحِدَةٌ- فَقَالَ اَكْفِلْنِیْهَا وَ عَزَّنِیْ فِی الْخِطَابِ(23)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور کیا تمہارے پاس ان دعویداروں کی خبر آئی جب وہ دیوار کود کر مسجد میں آئے۔ جب وہ داؤد پر داخل ہوئے تو وہ ان سے گھبرا گیا۔ انہوں نے عرض کی: ڈرئیے نہیں ہم دو فریق ہیں ، ہم میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے تو ہم میں حق کے ساتھ فیصلہ فرمادیجئے اور حق کے خلاف نہ کیجئے گااور ہمیں سیدھی راہ بتادیں ۔ بیشک یہ میرا بھائی ہے اس کے پاس ننانوے دُنبیاں ہیں اور میرے پاس ایک دُنبی ہے۔ اب یہ کہتا ہے کہ وہ بھی میرے حوالے کردو اور اس نے اس بات میں مجھ پر زور ڈالا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ هَلْ اَتٰىكَ نَبَؤُا الْخَصْمِۘ: اور کیا تمہارے پاس ان دعویداروں کی خبر آئی۔} مشہور قول کے مطابق یہ آنے والے فرشتے تھے جو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی آزمائش کے لئے آئے تھے،اور انہوں نے جو یہ کہا ’’ہم میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے‘‘اس کے بارے میں صدرُ الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ ان کا یہ قول ایک مسئلہ کی فرضی شکل پیش کرکے جواب حاصل کرنا تھا اور کسی مسئلہ کے متعلق حکم معلوم کرنے کے لئے فرضی صورتیں مقرر کرلی جاتی ہیں اور مُعَیَّن اَشخاص کی طرف ان کی نسبت کردی جاتی ہے تاکہ مسئلہ کا بیان بہت واضح طریقہ پر ہواور اِبہام باقی نہ رہے۔ یہاں جو صورتِ مسئلہ ان فرشتوں نے پیش کی اس سے مقصود حضرت داؤد عَلَیْہِ السَّلَام کو توجہ دلانا تھی اس امر کی طرف جو انہیں پیش آیا تھا اور وہ یہ تھا کہ آپ کی ننانوے بیبیاں تھیں ، اس کے بعد آپ نے ایک اور عورت کو پیام دے دیا جس کو ایک مسلمان پہلے سے پیام دے چکا تھا لیکن آپ کا پیام پہنچنے کے بعد عورت کے اَعِزّہ واَقارب دوسرے کی طرف اِلتفات کرنے والے کب تھے ،آپ کے لئے راضی ہوگئے اور آپ سے نکاح ہوگیا۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس مسلمان کے ساتھ نکاح ہوچکا تھا آپ نے اس مسلمان سے اپنی رغبت کا اظہار کیا اور چاہا کہ وہ اپنی عورت کو طلاق دے دے، وہ آپ کے لحاظ سے منع نہ کرسکا اور اس نے طلاق دے دی ،آپ کا نکاح ہوگیا اور اس زمانہ میں ایسا معمول تھا کہ اگر کسی شخص کو کسی کی عورت کی طرف رغبت ہوتی تو اس سے اِستدعا کرکے طلاق دلوا لیتا اوربعدِعدت نکاح کرلیتا ،یہ بات نہ تو شرعاً ناجائز ہے نہ اس زمانہ کے رسم وعادت کے خلاف ،لیکن شانِ انبیاء بہت ارفع و اعلیٰ ہوتی ہے اس لئے یہ آپ کے مَنصبِ عالی کے لائق نہ تھا تو مرضی ٔالٰہی یہ ہوئی کہ آپ کو اس پر آگاہ کیا جائے اور اس کا سبب یہ پیدا کیا کہ ملائکہ مدعی (یعنی دعویٰ کرنے والے) اور مدعا علیہ (یعنی جس کے خلاف دعویٰ کیا جائے) کی شکل میں آپ کے سامنے پیش ہوئے۔( خزائن العرفان، ص، تحت الآیۃ: ۲۲، ص۸۴۰)
بزرگوں سے خلافِ شان واقع ہونے والے کام کی اصلاح کا طریقہ
اس سے معلوم ہوا کہ اگر بزرگوں سے کوئی لغزش صادر ہواور کوئی امر خلافِ شان واقع ہوجائے تو ادب یہ ہے کہ مُعتَرِضانہ زبان نہ کھولی جائے بلکہ اس واقعہ کی مثل ایک و اقعہ مُتَصَوَّر کرکے اس کی نسبت سائلانہ و مُستفتیانہ و مُستفیدانہ سوال کیا جائے اور ان کی عظمت و احترام کا لحاظ رکھا جائے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ مالک ومولیٰ اپنے اَنبیاء کی ایسی عزت فرماتا ہے کہ ان کو کسی بات پرآگا ہ کرنے کے لئے ملائکہ کو اس طریقِ ادب کے ساتھ حاضر ہونے کا حکم دیتا ہے۔(خزائن العرفان، ص، تحت الآیۃ: ۲۲، ص۸۴۰)
نوٹ:اِس آیت کی تفسیر میں جو بیان ہوا یہی حقیقت ِ حال ہے بقیہ جو اسرائیلی و یہودی روایات میں اس بارے میں بکواسات مروی ہیں وہ سب جھوٹ اور اِفتراء ہیں ۔
طبعی خوف نبوت کے مُنافی نہیں
یاد رہے کہ دیوار کود کر آنے والوں کو دیکھ کر حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا گھبرانا فطری اور طبعی تھا کیونکہ کسی شخص کا عادت کے برخلاف بے وقت اور پہرہ توڑ کر اس طرح آنا عام طور پر بُری نیت سے ہی ہوتا ہے اورجو خوف اور گھبراہٹ طبعی ہو وہ نبوت کے مُنافی نہیں ہوتی ۔
گفتگو کے آداب کی خلاف ورزی ہونے پر کیاکرنا چاہئے؟
دیوار کود کر آنے والوں نے آتے ہی اپنی بات شروع کر دی اور حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خاموشی کے ساتھ ان کی بات سنتے رہے، اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص گفتگو کے آداب کی خلاف ورزی کرے تو اسے فوراً ملامت اور ڈانٹ ڈپٹ کرنے کی بجائے پہلے اس کی بات سن لینی چاہئے تاکہ یہ معلوم ہو جائے کہ اس کے پاس اس کا کوئی جواز تھا یا نہیں اور اگر جواز نہ بھی ہو تو بھی ممکنہ حد تک صبر ہی کرنا چاہئے جیسا کہ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا۔رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آدابِ گفتگو کی خلاف ورزی ہونے پر در گرز کرتے اور صبر فرمایا کرتے تھے اور اس سلسلے میں حضرت زید بن سعنہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا واقعہ مشہور ہے کہ انہوں نے اسلام قبول کرنے سے پہلے ایک مرتبہ انتہائی سخت انداز میں حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کلام کیا لیکن حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے نہ صرف خود حِلم ،صبر اور عَفْوو درگزرکا مظاہرہ فرمایا بلکہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو بھی ان کے ساتھ نرمی کرنے کا حکم ارشاد فرمایا۔
قَالَ لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ اِلٰى نِعَاجِهٖؕ-وَ اِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ الْخُلَطَآءِ لَیَبْغِیْ بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍ اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ قَلِیْلٌ مَّا هُمْؕ-وَ ظَنَّ دَاوٗدُ اَنَّمَا فَتَنّٰهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهٗ وَ خَرَّ رَاكِعًا وَّ اَنَابَ(24)
ترجمہ: کنزالعرفان
داؤد نے فرمایا: بیشک تیری دنبی کو اپنی دنبیوں کے ساتھ ملانے کا سوال کرکے اس نے تجھ پر زیادتی کی ہے اور بیشک اکثر شریک ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں مگر ایمان والے اور اچھے کام کرنے والے اور وہ بہت تھوڑے ہیں ۔ اور داؤد سمجھ گئے کہ ہم نے تو صرف اسے آزمایا تھا تو اس نے اپنے رب سے معافی مانگی اور سجدے میں گر پڑا اور رجوع کیا۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ: داؤد نے فرمایا۔} حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعویٰ سن کر دوسرے فریق سے پوچھا تو اس نے اعتراف کر لیا ،آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعویٰ کرنے والے سے فرمایا کہ’’ بیشک تیری دنبی کو اپنی دنبیوں کے ساتھ ملانے کا سوال کرکے اس نے تجھ پر زیادتی کی ہے اور بیشک اکثر شریک ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں مگر ایمان والے اور اچھے کام کرنے والے کسی پر زیادتی نہیں کرتے لیکن وہ ہیں بہت تھوڑے۔ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی یہ گفتگو سن کر فرشتوں میں سے ایک نے دوسرے کی طرف دیکھا اور تَبَسُّم کرکے وہ آسمان کی طرف روانہ ہوگئے۔اب حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سمجھ گئے کہ اللہ تعالیٰ نے تو صرف انہیں آزمایا تھا اور دنبی ایک کِنایہ تھا جس سے مراد عورت تھی کیونکہ ننانوے عورتیں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس ہوتے ہوئے ایک اور عورت کی آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے خواہش کی تھی اس لئے دنبی کے پیرایہ میں سوال کیا گیا ،جب آپ نے یہ سمجھا تو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے معافی مانگی اور سجدے میں گر پڑے اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا۔( مدارک، ص، تحت الآیۃ: ۲۴، ص۱۰۱۹، خازن، ص، تحت الآیۃ: ۲۴، ۴ / ۳۵، ملتقطاً)
نوٹ: یاد رہے کہ یہ آیت ان آیات میں سے ہے جن کے پڑھنے اور سننے والوں پر سجدۂ تلاوت کرنا واجب ہو جاتا ہے۔یہاں ایک مسئلہ یاد رہے کہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز میں رکوع کرنا سجدئہ تلاوت کے قائم مقام ہوجاتا ہے جب کہ رکوع میں اس کی نیت کی جائے۔
اصلاح کرنے کا ایک طریقہ
اللہ تعالیٰ نے ا س معاملے میں وحی کے ذریعے اپنے پیارے نبی حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تربیت فرمانے کی بجائے جو خاص طریقہ اختیار فرمایا اس میں نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کرنے والے کے لئے بھی ہدایت کا سامان موجود ہے کہ جب وہ کسی کی اصلاح کرنے لگے تو اس وقت حکمت سے کام لے اور موقع کی مناسبت سے ایسا طریقہ اختیار کرے جس سے سامنے والا اپنی غلطی خود ہی محسوس کر لے ،اسے زبانی تنبیہ کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے اور اس کے لئے مثال بیان کرنے کا طریقہ اور کنایہ سے کام لینابہت مُؤثّر ہوتا ہے ،اس میں کسی کی دل آزاری بھی نہیں ہوتی اور اصل مقصود بھی حاصل ہو جاتا ہے۔
فَغَفَرْنَا لَهٗ ذٰلِكَؕ-وَ اِنَّ لَهٗ عِنْدَنَا لَزُلْفٰى وَ حُسْنَ مَاٰبٍ(25)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو ہم نے اسے یہ معاف فرمادیا اور بیشک اس کے لیے ہماری بارگاہ میں ضرور قرب اور اچھا ٹھکانہ ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَغَفَرْنَا لَهٗ ذٰلِكَ: تو ہم نے اسے یہ معاف فرما دیا۔} یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کا مقام و مرتبہ دیگر لوگوں کے مقابلے میں انتہائی بلند ہے اسی وجہ سے بہت سے وہ کا م جو دوسرے لوگوں کے لئے تو رَوا ہوتے ہیں لیکن انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شان اور ان کے مقام و مرتبے کے لائق نہیں ہوتے ،اسی لئے جب ان سے کوئی خلافِ شان کام واقع ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی بارگاہ کے ان مقبول بندوں کی تربیت فرما دیتا ہے اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں انتہاء درجے کی عاجزی و اِنکساری کرتے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ اور ا س کے مقبول بندوں کا معاملہ ہے، وہ جیسے چاہے اپنے مقبول بندوں کی تربیت فرمائے اور یہ جیسے چاہیں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عاجزی و اِنکساری کا اظہار کریں ، عام لوگوں کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ ان کے خلافِ شان کاموں اور ان پر کئے گئے عجز و اِنکسار کو بنیاد بنا کر ان کے خلاف زبانِ طعن دراز کریں اور ان کی عِصمَت پر اعتراضات کرنا شروع کر دیں ،یہ ایمان کے لئے زہر ِقاتل سے بھی زیادہ خطرناک ہے ،اس سے تمام مسلمانوں کو بچنا چاہئے ۔
یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِیْفَةً فِی الْاَرْضِ فَاحْكُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَ لَا تَتَّبِـعِ الْهَوٰى فَیُضِلَّكَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-اِنَّ الَّذِیْنَ یَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌۢ بِمَا نَسُوْا یَوْمَ الْحِسَابِ(26)
ترجمہ: کنزالعرفان
اے داؤد! بیشک ہم نے تجھے زمین میں (اپنا) نائب کیاتو لوگوں میں حق کے مطابق فیصلہ کر اور نفس کی خواہش کے پیچھے نہ چلنا ورنہ وہ تجھے اللہ کی راہ سے بہکادے گی بیشک وہ جو اللہ کی راہ سے بہکتے ہیں ان کے لیے سخت عذاب ہے اس بنا پر کہ انہوں نے حساب کے دن کو بھلا دیا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِیْفَةً فِی الْاَرْضِ: اے داؤد! بیشک ہم نے تجھے زمین میں (اپنا) نائب کیا۔} حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان کرنے کے بعد اس آیت میں ان کی زمینی خلافت کا ذکر فرمایا گیا، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے داؤد! بیشک ہم نے تجھے زمین میں اپنانائب مقرر کیا اور مخلوق کے کاموں کا انتظام کرنے پر آپ کو مامور کیا اور آپ کا حکم ان میں نافذ فرمایاتو لوگوں میں حق کے مطابق فیصلہ کرو اور (نفس کی) خواہش کے پیچھے نہ جانا ورنہ وہ تجھے اللہ تعالیٰ کی راہ سے بہکادے گی، بیشک وہ جو اللہ تعالیٰ کی راہ سے بہکتے ہیں ان کے لیے اس بنا پرسخت عذاب ہے کہ انہوں نے حساب کے دن کو بھلا دیا ہے اور وہ اس وجہ سے ایمان سے محروم رہے، اگر انہیں حساب کے دن کا یقین ہوتا تو اس کی تیاری سے اِعراض نہ کرتے اوردنیا ہی میں ایمان لے آتے۔ (تفسیرکبیر، ص، تحت الآیۃ: ۲۶، ۹ / ۳۸۶-۳۸۷، جلالین، ص، تحت الآیۃ: ۲۶، ص۳۸۲، ملتقطاً)
آیت ’’یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِیْفَةً فِی الْاَرْضِ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات
اس آیت سے تین باتیں معلوم ہوئیں
(1)… حکمران اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے اَحکام کے مطابق ہی چلیں اور اس سے باہر ہر گز نہ جائیں ۔
(2)…اسلامی ریاست کا بنیادی کام حق کو قائم کرنا ہے نیز حکمرانوں پر لازم ہے کہ تنازعات وغیرہ کا حق اور انصاف کے مطابق ہی فیصلہ کریں ۔
(3)…حکمران نفسانی خواہشات کی پیروی سے بچیں کہ یہی چیز راہِ حق اور عدل و انصاف سے دور کرتی ہے۔
وَ مَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَا بَاطِلًاؕ-ذٰلِكَ ظَنُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْاۚ-فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنَ النَّارِﭤ(27)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے بیکار پیدا نہیں کیا۔ یہ( بیکار پیدا کرنے کا خیال) کافروں کا گمان ہے تو کافروں کیلئے آگ سے خرابی ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَا بَاطِلًا: اور ہم نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے بیکار پیدا نہیں کیا۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے آسمان وزمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اسے بیکار پیدا نہیں کیا بلکہ اس لئے پیدا کیا ہے کہ زمین و آسمان میں ہماری عبادت کی جائے ،ہمارے اَحکامات کی پیروی کی جائے اور ممنوعات سے رکا جائے۔ یہ بیکار پیدا کرنے کا خیال کافروں کا گمان ہے اگرچہ وہ صراحتہً یہ نہ کہیں کہ آسمان و زمین اور تمام دنیا بے کار پیدا کی گئی ہے لیکن جب کہ وہ مرنے کے بعد اٹھائے جانے اور اعمال کی جزا ملنے کے منکر ہیں تو ا س کا نتیجہ یہی ہے کہ عالَم کی ایجاد کو عَبث اور بے فائدہ مانیں اور جب کافروں کا گمان یہ ہے تو ان کے لئے آگ سے خرابی ہے۔( تفسیر طبری ، ص ، تحت الآیۃ : ۲۷، ۱۰ / ۵۷۶، مدارک، ص، تحت الآیۃ: ۲۷، ص۱۰۲۰، روح البیان، ص، تحت الآیۃ: ۲۷، ۸ / ۲۴، ملتقطاً)
اِس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص صراحتًا کوئی بات نہ کہے لیکن اس کی کسی بات کا لازمی نتیجہ جو نکلتا ہو وہ اس کی طرف منسوب کیا جاسکتا ہے اور اس پر اصل بات کہنے کا ہی حکم لگایا جائے گاجیسے بہت سے لوگ ختمِ نبوت کے قائل ہونے کا نام لیتے ہیں لیکن باتیں ایسی کرتے ہیں جس کا لازمی نتیجہ انکار ِ ختمِ نبوت ہے تو انہیں منکرینِ ختمِ نبوت ہی کہا جائے گا۔
اَمْ نَجْعَلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَالْمُفْسِدِیْنَ فِی الْاَرْضِ٘-اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِیْنَ كَالْفُجَّارِ(28)
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا ہم ایمان لانے والوں اور اچھے اعمال کرنے والوں کو زمین میں فساد پھیلانے والوں کی طرح کردیں گے؟ یا ہم پرہیزگاروں کو نافرمانوں جیسا کردیں گے؟
تفسیر: صراط الجنان
{اَمْ نَجْعَلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَالْمُفْسِدِیْنَ فِی الْاَرْضِ: کیا ہم ایمان لانے والوں اور اچھے اعمال کرنے والوں کو زمین میں فساد پھیلانے والوں کی طرح کردیں گے؟} ارشاد فرمایا کہ کیا ہم ایمان لانے والوں اور اچھے اعمال کرنے والوں کو زمین میں کفر اور گناہوں کے ذریعے فساد پھیلانے والوں کی طرح کردیں گے؟ یا ہم پرہیزگاروں کو نافرمانوں جیسا کردیں گے؟ہم ہر گز ایسانہیں کریں گے کیونکہ یہ بات حکمت کے بالکل خلاف ہے جبکہ جو شخص جزا کا قائل نہیں وہ ضرورفساد کرنے اور اصلاح کرنے والے کو ، فاسق وفاجر اور متقی پرہیزگار کو برابر قرار دے گا اور ان میں کوئی فرق نہ کرے گا، کفار اس جہالت میں گرفتار ہیں ۔ اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ کفارِ قریش نے مسلمانوں سے کہا تھا کہ آخرت میں جو نعمتیں تمہیں ملیں گی وہی ہمیں بھی ملیں گی اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور ارشاد فرمایا گیا کہ نیک و بد،مومن و کافر کو برابر کردینا حکمت کے تقاضے کے مطابق نہیں کفار کا یہ خیال باطل ہے۔( روح البیان، ص، تحت الآیۃ: ۲۸، ۸ / ۲۴، مدارک، ص، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۱۰۲۰، خازن، ص، تحت الآیۃ: ۲۸، ۴ / ۳۸، ملتقطاً)
نیک لوگ گناہگاروں جیسے نہیں
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اچھے اعمال کرنے والے برے اعمال کرنے والوں کی طرح نہیں اور نیک لوگ گناہگاروں جیسے نہیں ،اب یہ ہم پر ہے کہ ہم نیکی کا راستہ اختیار کر کے اس کی جزا کے حق دار قرار پاتے ہیں یا برے اعمال کر کے ان کی سزا کے مستحق بنتے ہیں ۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ- وَ اِنْ اَسَاْتُمْ فَلَهَا‘‘(بنی اسرائیل:۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اگر تم بھلائی کرو گے تو تم اپنے لئے ہی بہتر کرو گے اور اگر تم برا کرو گے تو تمہاری جانوں کیلئے ہی ہوگا۔
اورحضرت ابو ذر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس طرح کانٹے سے انگور حاصل نہیں کیے جا سکتے اسی طرح فاسق و فاجر لوگ متقی اور پرہیز گار لوگوں کے مرتبے تک نہیں پہنچ سکتے ،نیکی اور برائی دو راستے ہیں ،ان میں سے جس راستے کو اختیار کرو گے ا س کے انجام تک پہنچ جاؤ گے۔( ابن عساکر، من سمّی بکنیتہ، حرف المیم، ابو المہاجر، ۶۷ / ۲۶۰)
اورحضرت ابو قلابہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’نیکی کبھی پرانی نہیں ہوتی اور گناہ بھلایا نہیں جاتا اور حساب لینے والے خداکو کبھی موت نہیں آئے گی، تم (نیک یا گناہگار) جیسے چاہو بن جاؤ،جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔( کتاب الجامع فی آخر المصنف، باب الاغتیاب والشتم، ۱۰ / ۱۸۹، الحدیث: ۲۰۴۳۰)
اللہ تعالیٰ ہمیں برے اعمال سے بچنے اور نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَیْكَ مُبٰرَكٌ لِّیَدَّبَّرُوْۤا اٰیٰتِهٖ وَ لِیَتَذَكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ(29)
ترجمہ: کنزالعرفان
۔ (یہ قرآن) ایک برکت والی کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور وفکر کریں اور عقلمند نصیحت حاصل کریں
تفسیر: صراط الجنان
{ كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَیْكَ مُبٰرَكٌ: ایک برکت والی کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے آپ کی طرف قرآنِ پاک ناز ل کیا ہے جس میں ان لوگوں کے لئے دُنْیَوی اور اُخروی کثیر مَنافع ہیں جو اس پر ایمان لائیں اور انہوں نے اس کے احکامات،حقائق اور اشارات پر عمل کیا۔ہم نے قرآنِ پاک کو اس لئے نازل کیاہے تاکہ (علم رکھنے والے) لوگ اس کی آیتوں کے معانی میں غور وفکر کریں اور ان کی تاویلات جان جائیں اور عقلمنداس سے نصیحت حاصل کریں ۔( روح البیان، ص، تحت الآیۃ: ۲۹، ۸ / ۲۵)
قرآنِ پاک کی آیات سے دینی اَحکام نکالنا ہر ایک کاکام نہیں :
قرآنِ پاک کی آیات سے نصیحت تو ہر ایک حاصل کرسکتا ہے لیکن اس سے دینی اَحکام نکالنااور اس کی باریکیوں تک رسائی حاصل کرنا ہر ایک کاکام نہیں بلکہ صرف ان کا کام ہے جو اعلیٰ درجے کی دینی عقل رکھتے ہیں یعنی ماہرعلماء اور خاص طور پر مُجتہدین ا س منصب کے اہل ہیں ، عوام کو چاہیے کہ قرآنِ پاک سے دینی مسائل نکالنے کی بجائے علماء سے مسائل سیکھیں تاکہ غلطیوں سے بچ سکیں ،اور یہ بھی معلوم ہوا کہ فقط قرآنِ پاک کی عربی عبارت کو پڑھ لینا نزولِ قرآن کے مقصد کو پورا کرنے کیلئے کافی نہیں بلکہ ا س کی آیات کے معنی اور ان کا مطلب سمجھنے کی کوشش بھی کرنی چاہئے تاکہ اس کی آیتوں میں غورو فکر کرنا،اس میں بیان کی گئی عبرت انگیز باتوں سے نصیحت حاصل کرنا اور اس میں بتائے گئے اَحکامات پر عمل کرنا ممکن ہو ،جبکہ فی زمانہ صورتِ حال یہ ہے کہ قرآنِ پاک سمجھنا اور اس میں غوروفکر کرنا تو بہت دور کی بات ہے یہاں تو قرآن پاک گھروں میں ہفتوں بلکہ مہینوں صرف جُزدان اورالماریوں کی زینت نظر آتا ہے اور اس کا خیال آجانے پر اس سے چمٹی ہو ئی گرد صاف کر کے دوبارہ اسی مقام پر رکھ دیا جاتا ہے اور اگر کبھی ا س کی تلاوت کی توفیق نصیب ہو جائے تو اس کے تَلَفُّظ کی ادائیگی کاحال بہت برا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے حالِ زار پر رحم فرمائے اور قرآنِ پاک صحیح طریقے سے پڑھنے ، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
وَ وَهَبْنَا لِدَاوٗدَ سُلَیْمٰنَؕ-نِعْمَ الْعَبْدُؕ-اِنَّهٗۤ اَوَّابٌﭤ(30)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم نے داؤد کوسلیمان عطا فرمایا، وہ کیا اچھا بندہ ہے بیشک وہ بہت رجوع کرنے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ وَهَبْنَا لِدَاوٗدَ سُلَیْمٰنَ: اور ہم نے داؤد کوسلیمان عطا فرمایا۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کو فرزند ِاَرْجْمند حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام عطا فرمایا،سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کیسا اچھا بندہ ہے ،بیشک وہ اللہ تعالیٰ کی طرف بہت رجوع کرنے والا اور تمام اوقات تسبیح و ذکر میں مشغول رہنے والا ہے۔( جلالین، ص، تحت الآیۃ: ۳۰، ص۳۸۲، ملخصاً) اس آیت سے معلوم ہوا کہ نیک بیٹا اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہے ۔
اِذْ عُرِضَ عَلَیْهِ بِالْعَشِیِّ الصّٰفِنٰتُ الْجِیَادُ(31)فَقَالَ اِنِّیْۤ اَحْبَبْتُ حُبَّ الْخَیْرِ عَنْ ذِكْرِ رَبِّیْۚ-حَتّٰى تَوَارَتْ بِالْحِجَابِﭨ(32)رُدُّوْهَا عَلَیَّؕ-فَطَفِقَ مَسْحًۢا بِالسُّوْقِ وَ الْاَعْنَاقِ(33)
ترجمہ: کنزالعرفان
جب اس کے سامنے شام کے وقت ایسے گھوڑے پیش کئے گئے جوتین پاؤں پر کھڑے (اور) چوتھے سم کا کنارہ زمین پر لگائے ہوئے تھے ، بہت تیز دوڑنے والے تھے۔تو سلیمان نے کہا: مجھے اپنے رب کی یاد کیلئے ان گھوڑوں کی محبت پسند آئی ہے (پھر انہیں چلانے کا حکم دیا) یہاں تک کہ وہ نگاہ سے پردے میں چھپ گئے۔۔(پھر حکم دیا کہ) انہیں میرے پاس واپس لاؤ تو ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے لگا۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِذْ عُرِضَ عَلَیْهِ: جب اس کے سامنے پیش کئے گئے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خدمت میں ظہر کی نماز کے بعد جہاد کے لئے ایک ہزار گھوڑے پیش کئے گئے تاکہ وہ انہیں دیکھ لیں اور ان کے اَحوال کی کَیفِیَّت سے واقف ہو جائیں ،ان گھوڑں میں خوبی یہ تھی کہ وہ تین پاؤں پر کھڑے اور چوتھے سم کا کنارہ زمین پر لگائے ہوئے تھے جو ایک خوبصورت انداز تھا اور وہ بہت تیز دوڑنے والے تھے ۔انہیں دیکھ کر حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا:’’میں ان سے اللہ تعالیٰ کی رضاء اور دین کی تَقْوِیَت و تائیدکے لئے محبت کرتا ہوں ، میری ان کے ساتھ محبت دُنْیَوی غرض سے نہیں ہے۔ پھرحضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں چلانے کا حکم دیا یہاں تک کہ وہ نظر سے غائب ہوگئے،پھر حکم دیا کہ انہیں میرے پاس واپس لاؤ، جب گھوڑے واپس پہنچے تو حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے لگے۔ اس ہاتھ پھیرنے کی چند وجوہات تھیں،
(1)… گھوڑوں کی عزت و شرف کا اظہار مقصود تھاکہ وہ دشمن کے مقابلے میں بہتر مددگار ہیں ۔
(2)… اُمورِ سلطنت کی خود نگرانی فرمائی تا کہ تمام حُکام مُستَعِد رہیں ۔
(3)… آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام گھوڑوں کے اَحوال اور ان کے اَمراض و عُیوب کے اعلیٰ ماہر تھے ان پر ہاتھ پھیر کر اُن کی حالت کا امتحان فرماتے تھے۔ بعض لوگوں نے ان آیات کی تفسیر میں بہت سے غلط اَقوال لکھ دیئے ہیں جن کی صحت پر کوئی دلیل نہیں اور وہ محض حکایات ہیں جو مضبوط دلائل کے سامنے کسی طرح قابلِ قبول نہیں اور یہ تفسیر جو ذکر کی گئی یہ الفاظ ِ قرآنی سے بالکل مطابق ہے۔( جلالین، ص، تحت الآیۃ: ۳۱-۳۳،ص۳۸۲، تفسیرکبیر، ص، تحت الآیۃ: ۳۱-۳۳، ۹ / ۳۸۹-۳۹۲، ملتقطاً)
وَ لَقَدْ فَتَنَّا سُلَیْمٰنَ وَ اَلْقَیْنَا عَلٰى كُرْسِیِّهٖ جَسَدًا ثُمَّ اَنَابَ(34)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ہم نے سلیمان کو آزمایااور اس کے تخت پر ایک بے جان بدن ڈال دیاپھر اس نے رجوع کی
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ فَتَنَّا سُلَیْمٰنَ: اور بیشک ہم نے سلیمان کوجانچا۔} علامہ ابو حیان محمد بن یوسف اندلسی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: ’’اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان نہیں فرمایا کہ جس آزمائش میں حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مبتلا کیا گیا وہ کیا تھی اور نہ ہی یہ بیان فرمایا ہے کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے تخت پر جس بے جان جسم کو ڈالا گیا اس کا مِصداق کون ہے،البتہ اس کی تفسیر کے زیادہ قریب وہ حدیث ہے جس میں حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اِنْ شَآ ءَ اللہ نہ کہنے کا ذکر ہے۔( البحرالمحیط، ص، تحت الآیۃ: ۳۴، ۷ / ۳۸۱)
وہ حدیث یہ ہے،حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا’’ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا تھا کہ میں آج رات میں اپنی 90 بیویوں کے پاس جاؤں گا،ان میں سے ہر ایک حاملہ ہوگی اور ہر ایک سے راہِ خدا میں جہاد کرنے والا سوار پیدا ہوگا،لیکن یہ فرماتے وقت زبانِ مبارک سے اِنْ شَآ ءَ اللہ تَعَالٰی نہ فرمایا تو ایک عورت کے علاوہ کوئی بھی عورت حاملہ نہ ہوئی اور اس کے ہاں بھی ناقص بچہ پیدا ہوا۔ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا’’اس کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، اگر حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اِنْ شَآ ءَ اللہ فرمایا ہوتا تو ان سب عورتوں کے ہاں لڑکے ہی پیدا ہوتے اور وہ راہِ خدا میں جہاد کرتے ۔( بخاری، کتاب الایمان والنذور، باب کیف کانت یمین النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ۴ / ۲۸۵، الحدیث: ۶۶۳۹)
نوٹ:ایک روایت میں ستر اور ایک روایت میں سو بیویوں کے پاس جانے کا بھی ذکر ہے۔
قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَهَبْ لِیْ مُلْكًا لَّا یَنْۢبَغِیْ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِیْۚ-اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ(35)
ترجمہ: کنزالعرفان
عرض کی: اے میرے رب !مجھے بخش دے اور مجھے ایسی سلطنت عطا فرماجو میرے بعد کسی کو لائق نہ ہوبیشک تو ہی بہت عطا فرمانے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ: عرض کی۔} حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اِنْ شَآءَ اللہ کہنے کی بھول پراِستغفار کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا اور بارگاہِ الہٰی میں عرض کی: اے میرے رب !مجھے بخش دے۔علامہ ابو حیان محمد بن یوسف اندلسی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’(مُستحب کاموں کے نہ کر سکنے پر بھی) اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عاجزی اور اِنکساری کا اظہار کر کے اس پر مغفرت طلب کرنا انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور صالحین کا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ایک ادب ہے تاکہ ان کے مقام ومرتبہ میں ترقی ہو ۔( البحرالمحیط، ص، تحت الآیۃ: ۳۵، ۷ / ۳۸۱)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’خدا کی قسم! میں دن میں ستر سے زیادہ مرتبہ اللہ تعالیٰ سے اِستغفار کرتا ہوں اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں۔(بخاری، کتاب الدعوات، باب استغفار النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی الیوم واللیلۃ، ۴ / ۱۹۰، الحدیث: ۶۳۰۷)
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’بعض اوقات (کسی مقرب) انسان سے افضل اور اولیٰ کام ترک ہو جاتا ہے تو اس وقت وہ مغفرت طلب کرنے کا محتاج ہوتا ہے کیونکہ نیک بندوں کی نیکیاں مُقَرَّب بندوں کے نزدیک ان کے اپنے حق میں برائیوں کا درجہ رکھتی ہیں ۔( تفسیرکبیر، ص، تحت الآیۃ: ۳۵، ۹ / ۳۹۴)
یعنی عام نیک آدمی جو نیک عمل کرتا ہے ، مُقَرَّب بندہ اس سے بہت بڑھ کر عمل کرتا ہے ، اگر وہ بھی عام نیک آدمی جیسا ہی عمل کرے تو اسے وہ اپنے حق میں برائی سمجھتا ہے کیونکہ اس کا مرتبہ یہ تھا کہ وہ اس سے بڑھ کر عمل کرتا۔
{وَهَبْ لِیْ مُلْكًا لَّا یَنْۢبَغِیْ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِیْ : اور مجھے ایسی سلطنت عطا فرماجو میرے بعد کسی کو لائق نہ ہو۔} حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے پہلے اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کی ،اس کے بعد ایسی سلطنت کی دعا مانگی جو ان کے بعد کسی کو لائق نہ ہو۔
بھلائیوں کے دروازے کھلنے کا سبب
اس سے معلوم ہو اکہ (دعا میں ) دینی مَقاصد کو دُنْیَوی مقاصد پر مُقَدّم رکھنا چاہئے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرنا دنیا میں بھلائیوں کے دروازے کھلنے کا سبب ہے۔حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بھی اپنی امت کو اس کی تلقین کی،چنانچہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرماتے ہیں
’’فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْؕ-اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًاۙ(۱۰) وَّ یُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ وَ یَجْعَلْ لَّكُمْ جَنّٰتٍ وَّ یَجْعَلْ لَّكُمْ اَنْهٰرًا‘‘(نوح:۱۰۔۱۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو میں نے کہا: (اے لوگو!) اپنے رب سے معافی مانگو، بیشک وہ بڑا معاف فرمانے والا ہے۔ وہ تم پر موسلا دھار بارش بھیجے گا۔ اور مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لیے باغات بنادے گا اور تمہارے لیے نہریں بنائے گا۔
اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا
’’وَ اْمُرْ اَهْلَكَ بِالصَّلٰوةِ وَ اصْطَبِرْ عَلَیْهَاؕ-لَا نَسْــٴَـلُكَ رِزْقًاؕ-نَحْنُ نَرْزُقُكَ‘‘(طہ:۱۳۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو اور خود بھی نماز پر ڈٹے رہو۔ ہم تجھ سے کوئی رزق نہیں مانگتے (بلکہ) ہم تجھے روزی دیں گے۔( تفسیرکبیر، ص، تحت الآیۃ: ۳۵، ۹ / ۳۹۴)
یاد رہے کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جو بے مثل سلطنت طلب کی وہ مَعَاذَ اللہ کسی حسد کی وجہ سے نہ تھی بلکہ اس سے مقصود یہ تھا کہ وہ سلطنت آپ کے لئے معجزہ ہو۔( مدارک، ص، تحت الآیۃ: ۳۵، ص۱۰۲۲)
فَسَخَّرْنَا لَهُ الرِّیْحَ تَجْرِیْ بِاَمْرِهٖ رُخَآءً حَیْثُ اَصَابَ(36)وَ الشَّیٰطِیْنَ كُلَّ بَنَّآءٍ وَّ غَوَّاصٍ(37)وَّ اٰخَرِیْنَ مُقَرَّنِیْنَ فِی الْاَصْفَادِ(38)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو ہم نے ہوا سلیمان کے قابومیں کردی کہ اس کے حکم سے نرم نرم چلتی جہاں وہ پہنچناچاہتے۔ اور ہر معماراور غوطہ خور جن کو۔ اور دوسرے بیڑیوں میں جکڑے ہوئے (جنوں کو سلیمان کے تابع کردیا)۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَسَخَّرْنَا لَهُ الرِّیْحَ: تو ہم نے ہوا اس کے قابومیں کردی۔} اس آیت اورا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا مانگی تو اللہ تعالیٰ نے ہوا آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قابو میں کردی کہ وہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حکم سے اور جہاں آپ چاہتے اس طرف فرمانبردار انہ طریقے پرنرم نرم چلتی، اور ہر معمار اور غوطہ خور جن آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے تابع کر دیا، معمار آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حکم سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مرضی کے مطابق عجیب و غریب عمارتیں تعمیر کرتا اور غوطہ خور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے سمندر سے موتی نکالتا۔ دنیا میں سب سے پہلے سمندر سے موتی نکلوانے والے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہی ہیں اور سرکش شیطان بھی آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے مُسَخّر کردیئے گئے جنہیں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ادب سکھانے اور فساد سے روکنے کے لئے بیڑیوں اور زنجیروں میں جکڑواکرقیدکردیتے تھے۔( خازن، ص، تحت الآیۃ: ۳۶-۳۸، ۴ / ۴۲، مدارک، ص، تحت الآیۃ: ۳۶-۳۸، ص۱۰۲۲، ملتقطاً)
جِنّات پر حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا تَصَرُّف:
یاد رہے کہ جِنّات پر حضورسیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بھی تَصَرُّف حاصل تھا،جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’گزشتہ رات ایک بڑا خبیث جن آ کر مجھے چھیڑنے لگا تاکہ وہ میری نماز کو مُنقطع کروا دے،پس اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر قادر کر دیا، چنانچہ میں نے ارادہ کیا کہ اسے مسجد کے ستونوں میں سے ایک ستون کے ساتھ باندھ دوں تاکہ صبح کے وقت تم سب اسے دیکھتے، پھر مجھے اپنے بھائی حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا یاد آگئی کہ ’’اے میرے رب! مجھے ایسی سلطنت عطا فرما جو میرے بعد کسی کے لائق نہ ہو۔تو میں نے اسے ذلیل و خوار کر کے لوٹا دیا۔( بخاری، کتاب احادیث الانبیائ، باب قول اللّٰہ تعالی: ووہبنا لداود سلیمان۔۔۔ الخ، ۲ / ۴۵۰، الحدیث: ۳۴۲۳)
اور ہوابھی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زیرِ تَصَرُّف تھی کیونکہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمام مخلوق کے رسول ہیں اوراس میں ہوا بھی داخل ہے، البتہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے تَصَرُّفات کا ظہور زیادہ ہوا۔
هٰذَا عَطَآؤُنَا فَامْنُنْ اَوْ اَمْسِكْ بِغَیْرِ حِسَابٍ(39)
ترجمہ: کنزالعرفان
یہ ہماری عطا ہے توتم احسان کرویا روک رکھو (تم پر) کوئی حساب نہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{هٰذَا عَطَآؤُنَا: یہ ہماری عطا ہے۔}اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا کہ یہ ہماری عطا ہے تو اب جس پرچاہو احسان کرو اور جس کسی سے چاہو روک رکھو تم پر کسی قسم کا کوئی حساب نہیں ۔( خازن، ص، تحت الآیۃ: ۳۹، ۴ / ۴۲) یعنی آپ کو دینے اور نہ دینے کا اختیار دیا گیا کہ جیسی مرضی ہو ویسے کریں ۔
اللہ تعالیٰ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دیتا ہے اور وہ مخلوق میں تقسیم کرتے ہیں :
اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ دیتا ہے اور وہ حضرات اللہ تعالیٰ کے حکم سے مخلوق میں تقسیم فرماتے ہیں اور اس تقسیم میں انہیں دینے اور نہ دینے کا مُطلَقاً اختیار ہوتا ہے۔ حدیث ِپاک میں بھی ہے کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اللہ تعالیٰ دیتا ہے اور میں تقسیم فرماتا ہوں ۔( بخاری، کتاب العلم، باب من یرد اللّٰہ بہ خیراً یفقّہہ فی الدین، ۱ / ۴۲، الحدیث: ۷۱)
دو اَحادیث ِ مبارکہ مزید ملاحظہ ہوں ،
(1)…حضرت ربیعہ بن کعب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :میں رات کے وقت رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں رہا کرتا اور آپ کے اِستنجاء اور وضو کے لئے پانی لاتا تھا،ایک مرتبہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’مانگ کیا مانگتا ہے۔میں نے عرض کی :میں آپ سے جنت کی رفاقت کا سوال کرتا ہوں ۔ارشاد فرمایا’’اس کے علاوہ اور کچھ؟میں نے عرض کی :مجھے یہی کافی ہے ۔ارشاد فرمایا’’پھر زیادہ سجدے کر کے میری مدد کرو۔( مسلم، کتاب الصلاۃ، باب فضل السجود والحثّ علیہ، ص۲۵۲، الحدیث: ۲۲۶(۴۸۹))
(2)…امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں : رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جب کوئی شخص سوال کرتا (تو اس وقت دو طرح کی صورتِ حال ہوتی) اگر حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دینا منظور ہوتا تو نَعم فرماتے یعنی اچھا ،اورنہ منظور ہوتا تو خاموش رہتے ، کسی چیز کو ’’لَا‘‘یعنی ’’نہ‘‘ نہ فرماتے تھے۔ایک روز ایک اَعرابی نے حاضر ہوکر سوال کیا توحضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خاموش رہے ، پھر سوال کیا تو خاموشی اختیار فرمائی، پھر سوال کیا تو اس پر حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا’’سَلْ مَا شِئْتَ یَا اَعْرَابِی‘‘اے اَعرابی! جو تیرا جی چاہے ہم سے مانگ۔ حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں :یہ حال دیکھ کر (کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمادیا ہے جو دل میں آئے مانگ لے) ہمیں اس اَعرابی پر رشک آیا ،ہم نے اپنے دل میں کہا: اب یہ حضورِ انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جنت مانگے گا ،لیکن اَعرابی نے کہا تو کیا کہا کہ’’ میں حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سواری کا اونٹ مانگتاہوں ۔ارشاد فرمایا:عطا ہوا ۔عرض کی:حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے زادِ سفر مانگتاہوں۔ ارشادفرمایا:عطاہوا۔ ہمیں اس کے ان سوالوں پر تعجب ہوا اور سیّدِ عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ اس اَعرابی کی مانگ اوربنی اسرائیل کی ایک بڑھیا کے سوال میں کتنا فرق ہے ۔ پھر حضو ر پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس کا ذکر ارشاد فرمایا کہ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دریا میں اترنے کا حکم ہوا اور وہ دریا کے کنارے تک پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے سواری کے جانوروں کے منہ پھیر دئیے کہ خود واپس پلٹ آئے ۔حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عرض کی: یااللہ! عَزَّوَجَلَّ، یہ کیا حال ہے ؟ارشاد ہوا:تم حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قبرکے پاس ہو ان کا جسم مبارک اپنے ساتھ لے لو۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قبر کا پتہ معلوم نہ تھا ،آپ نے لوگوں سے فرمایا: اگر تم میں سے کوئی حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قبر کے بارے میں جانتا ہو تو مجھے بتاؤ۔لوگوں نے عرض کی: ہم میں سے تو کوئی نہیں جانتا البتہ بنی اسرائیل کی ایک بڑھیا ہے ،ہو سکتا ہے کہ وہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قبر کے بارے میں جانتی ہو کہ وہ کہاں ہے۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس کے پاس آدمی بھیجا (جب وہ آ گئی تو اس سے) فرمایا: تجھے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قبر معلوم ہے ؟اس نے کہا:ہاں ۔ فرمایا:تو مجھے بتادے ۔اس نے عرض کی :خدا کی قسم میں اس وقت تک نہ بتاؤں گی جب تک آپ مجھے وہ عطا نہ فرما دیں جو کچھ میں آپ سے مانگوں ۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: تیری عرض قبول ہے ۔بڑھیانے عرض کی:میں آپ سے یہ مانگتی ہوں کہ جنت میں آپ کے ساتھ اس درجے میں رہوں جس درجے میں آپ ہوں گے۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: جنت مانگ لے۔ (یعنی تجھے یہی کافی ہے اتنا بڑا سوال نہ کر۔) بڑھیا نے کہا: خدا کی قسم میں نہ مانوں گی مگر یہی کہ آپ کے ساتھ رہوں ۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس سے یہی رد وبدل کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی:اے موسیٰ!وہ جو مانگ رہی ہے تم اسے وہی عطاکردو کہ اس میں تمہارا کچھ نقصان نہیں ۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اسے جنت میں اپنی رفاقت عطافرمادی اوراس نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قبر بتادی اورحضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نعش مبارک کو ساتھ لے کر دریا پار کرگئے۔(معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: محمد، ۵ / ۴۰۷، الحدیث: ۷۷۶۷، مکارم الاخلاق للخرائطی، القسم الثانی، الجزء الخامس، باب ما جاء فی السخاء والکرم والبذل من الفضل، ص۱۴۰۷، الحدیث: ۱۵۴، ملتقطاً)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنی تصنیف ’’الامن والعلٰی‘‘ میں یہ حدیث ِ پاک نقل کر کے اس کے تحت سات نِکات بیان فرمائے ہیں ،ان کا خلاصہ یہ ہے کہ حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اس ارشاد’’جو جی میں آئے مانگ‘‘میں صراحت کے ساتھ عموم موجود ہے کہ جو دل میں آئے مانگ لے ہم سب کچھ عطا فرمانے کا اختیار رکھتے ہیں ۔صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے اَعرابی کو اختیار ملنے پر رشک فرمایا،اس سے معلوم ہوا کہ ان کا عقیدہ یہی تھا کہ حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ہاتھ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے تمام خزانوں اور دنیا و آخرت کی ہر نعمت پر پہنچتا ہے یہاں تک کہ سب سے اعلیٰ نعمت یعنی جنت جسے چاہیں بخش دیں ۔اختیارِ عام ملنے کے بعد اَعرابی نے جو مانگا اس پر حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا تعجب فرمانا اور بنی اسرائیل کی بڑھیاکی مثال دینااس بات کی دلیل ہے کہ اگر وہ جنت کا اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ مانگتا تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ وہی اسے عطا فرما دیتے ۔بڑھیا کا حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے جنت میں ان کی رفاقت کا سوا ل کرنا اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ سوال سن کر غضب و جلال میں نہ آنا بلکہ اس سے یہ کہنا کہ ہم سے جنت مانگ لو اور اللہ تعالیٰ کا حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بڑھیا کی طلب کے مطابق عطا فرمانے کا حکم دینا اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا بڑھیا کو جنت میں اپنی رفاقت عطا فرما دینا،یہ سب شواہد اس بات کی دلیل ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کو بے پناہ اختیارات عطا فرماتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی عطا سے مخلوق میں جنت اور اس کے درجات تک تقسیم فرماتے ہیں ،اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مخلوق کا ان سے جنت اور اس کے اعلیٰ درجات مانگنا شرک ہر گز نہیں ہے۔(فتاوی رضویہ، رسالہ: الامن والعلی لناعتی المصطفٰی بدافع البلاء، ۳۰ / ۶۰۰-۶۰۴، ملخصاً)
وَ اِنَّ لَهٗ عِنْدَنَا لَزُلْفٰى وَ حُسْنَ مَاٰبٍ(40)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک اس کے لیے ہماری بارگاہ میں ضرور قرب اور اچھا ٹھکانہ ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِنَّ لَهٗ عِنْدَنَا: اور بیشک اس کے لیے ہماری بارگاہ میں ۔} اس سے پہلی آیات میں وہ نعمتیں بیان کی گئیں جو حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دنیا میں عطا کی گئیں اور اس آیت میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر آخرت میں کی جانے والی نعمتوں کا ذکر ہے، چنانچہ ارشا د فرمایا کہ دنیا میں اس عظیم سلطنت کے ساتھ ساتھ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے آخرت میں بھی ہماری بارگاہ میں قرب اور اچھا ٹھکانا ہے اور وہ ٹھکانہ جنت ہے۔(خازن، ص، تحت الآیۃ: ۴۰، ۴ / ۴۲-۴۳، روح البیان، ص، تحت الآیۃ: ۴۰، ۸ / ۳۹، ملتقطاً)
اس سے معلوم ہوا کہ انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بارگاہِ الٰہی میں بڑی عزت ووجاہت والے ہوتے ہیں ۔
وَ اذْكُرْ عَبْدَنَاۤ اَیُّوْبَۘ-اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الشَّیْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّ عَذَابٍﭤ(41)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کروجب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے شیطان نے تکلیف اور ایذاپہنچائی ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اذْكُرْ عَبْدَنَاۤ اَیُّوْبَ: اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو۔} اس سے پہلی آیات میں حضرت داؤد اور حضرت سلیمان عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان کیا گیا اوریہ دونوں وہ مبارک ہستیاں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے بے شمار نعمتیں عطا فرمائیں ،اب اس آیت میں حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ یاد دلایا جارہا ہے اور یہ وہ مبارک ہستی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے طرح طرح کی آزمائشوں کے ساتھ خاص فرمایا۔ ان واقعات کو بیان کرنے سے مقصود ان کی سیرت میں غوروفکر کرنا ہے، گویا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا’’اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی قوم کی جہالت پر صبر فرمائیں کیونکہ دنیا میں حضرت داؤد اور حضرت سلیمان عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے زیادہ نعمت، مال اور وجاہت والا کوئی نہیں تھا اور حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے زیادہ مشقت اور آزمائش میں مبتلا ہونے والا کوئی نہ تھا،آپ ان انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اَحوال میں غور فرمائیں تاکہ آپ جان جائیں کہ دنیا کے احوال کسی کے لئے ایک جیسے نہیں ہوتے اور یہ بھی جان جائیں کہ عقلمند کو مشکلات پر صبر کرنا چاہئے۔( تفسیرکبیر، ص، تحت الآیۃ: ۴۱، ۹ / ۳۹۶)
{اَنِّیْ مَسَّنِیَ الشَّیْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّ عَذَابٍ: مجھے شیطان نے تکلیف اور ایذاپہنچائی ہے۔} ایک قول یہ ہے کہ تکلیف اور ایذا سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیماری اور اس کے شَدائد مراد ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد بیماری کے دوران شیطان کی طرف سے ڈالے جانے والے وسوسے ہیں جو کہ ناکام ہی ثابت ہوئے۔
حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو آزمائش میں مبتلاء کئے جانے کے مختلف اَسباب بیان کئے گئے ہیں ،ابو البرکات عبداللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ نے کسی خطا کی وجہ سے حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو آزمائش میں مبتلا نہیں کیا بلکہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے درجات (مزید) بلند کرنے کیلئے آزمائش میں مبتلا کیا۔( مدارک، ص، تحت الآیۃ: ۴۱، ص۱۰۲۳)
اللہ تعالیٰ کے ادب اور تعظیم کا تقاضا:
یاد رہے کہ اچھے برے تمام افعال جیسے ایمان ،کفر ،اطاعت اور مَعصِیَت وغیرہ کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور ان افعال کو پیدا کرنے میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں ، برے افعال کو بھی اگرچہ اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہے لیکن اس کے ادب اور تعظیم کا تقاضا یہ ہے کہ کلام میں ان افعال کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف نہ کی جائے۔( تفسیر قرطبی، ص، تحت الآیۃ: ۴۱، ۸ / ۱۵۵، الجزء الخامس عشر)اسی ادب کی وجہ سے حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے تکلیف اور ایذا پہنچانے کی نسبت شیطان کی طرف فرمائی ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو آزماتا ہے
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو آزماتا ہے،حدیث پاک میں ہے،حضرت سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، سب سے زیادہ سخت آزمائش کس کی ہوتی ہے؟ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی، پھر اپنے درجے کے حساب سے مُقَرَّبِین کی۔آدمی کی آزمائش اس کے دین کے مطابق ہوتی ہے ،اگر دین میں مضبوط ہو تو سخت آزمائش ہوتی ہے اور اگر دین میں کمزور ہو تو اسی حساب سے آزمائش کی جاتی ہے،بندے کے ساتھ آزمائشیں ہمیشہ رہتی ہیں یہاں تک کہ وہ زمین پر اس طرح چلتا ہے کہ ا س پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔( ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی الصبر علی البلائ، ۴ / ۱۷۹، الحدیث: ۲۴۰۶)
نوٹ: حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیماری اور مال و اولاد کی ہلاکت کا تفصیلی بیان سورۂ انبیاء کی آیت نمبر83اور84 میں گزر چکا ہے۔
اُرْكُضْ بِرِجْلِكَۚ-هٰذَا مُغْتَسَلٌۢ بَارِدٌ وَّ شَرَابٌ(42)
ترجمہ: کنزالعرفان
۔ (ہم نے فرمایا:) زمین پر اپنا پاؤں مارو۔یہ نہانے اور پینے کیلئے پانی کا ٹھنڈا چشمہ ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اُرْكُضْ بِرِجْلِكَ: ہم نے فرمایا: زمین پر اپنا پاؤں مارو۔} اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا قبول فرمائی اور ان کی طرف وحی فرمائی کہ ’’ زمین پر اپنا پاؤں مارو۔چنانچہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے زمین پرپاؤں مارا تو اس سے میٹھے پانی کا ایک چشمہ ظاہر ہوااور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا گیا کہ یہ نہانے اور پینے کیلئے پانی کا ٹھنڈا چشمہ ہے۔چنانچہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس چشمے سے پانی پیا اور غسل کیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے تمام ظاہری و باطنی مرض اور تکلیفیں دور فرما دیں ۔( تفسیرکبیر ، ص ، تحت الآیۃ : ۴۲ ، ۹ / ۳۹۸ ، خازن ، ص ، تحت الآیۃ: ۴۲، ۴ / ۴۳، جلالین، ص، تحت الآیۃ: ۴۲، ص۳۸۳، ملتقطاً)
وَ وَهَبْنَا لَهٗۤ اَهْلَهٗ وَ مِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنَّا وَ ذِكْرٰى لِاُولِی الْاَلْبَابِ(43)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم نے اپنی رحمت کرنے اور عقلمندوں کی نصیحت کے لئے اسے اس کے گھر والے اور ان کے برابر اور عطا فرمادئیے ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ وَهَبْنَا لَهٗۤ اَهْلَهٗ: اور ہم نے اسے اس کے گھر والے عطا فرمادئیے۔} حضرت حسن اور حضرت قتادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی جو اولاد مرچکی تھی اللہ تعالیٰ نے اس کو دوبارہ زندہ کیا اور اپنے فضل و رحمت سے اتنے ہی اور عطا فرمائے۔( تفسیرطبری، ص، تحت الآیۃ: ۴۳، ۱۰ / ۵۹۰، ملخصاً)
{وَ ذِكْرٰى لِاُولِی الْاَلْبَابِ: اور عقلمندوں کی نصیحت کے لئے۔} یعنی ہم نے حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو آزمائش میں مبتلاء کیا تو انہوں نے صبر کیا،پھر ہم نے ان کی آزمائش ختم فرما دی اور ان کی تکلیفیں دور کر دیں تو انہوں نے شکر کیا، اس میں عقلمندوں کے لئے نصیحت ہے۔( خازن، ص، تحت الآیۃ: ۴۳، ۴ / ۴۳) کہ وہ مصیبت آنے پر واویلا کرنے کی بجائے صبر کریں اور مصیبت سے خلاصی پانے کے بعد اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کریں ۔
وَ خُذْ بِیَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِّهٖ وَ لَا تَحْنَثْؕ-اِنَّا وَجَدْنٰهُ صَابِرًاؕ-نِعْمَ الْعَبْدُؕ-اِنَّهٗۤ اَوَّابٌ(44)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور (فرمایا) اپنے ہاتھ میں ایک جھاڑو لے کر اس سے مار دو اور قسم نہ توڑو۔ بے شک ہم نے اسے صبر کرنے والا پایا ۔وہ کیا ہی اچھا بندہ ہے بیشک وہ بہت رجوع لانے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ خُذْ بِیَدِكَ ضِغْثًا: اور اپنے ہاتھ میں ایک جھاڑو لو۔} بیماری کے زمانہ میں حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زوجہ ایک بار کہیں کام سے گئیں تو دیر سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خدمت میں حاضر ہوئیں ، اس پر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام نے قسم کھائی کہ میں تندرست ہو کر تمہیں سو کوڑے ماروں گا۔جب حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام صحت یاب ہوئے تواللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام انہیں جھاڑو مار دیں اور اپنی قسم نہ توڑیں ،چنانچہ حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے سَو تیلیوں والا ایک جھاڑو لے کر اپنی زوجہ کو ایک ہی بار ماردیا ۔( بیضاوی، ص، تحت الآیۃ: ۴۴، ۵ / ۴۹، جلالین، ص، تحت الآیۃ: ۴۴،ص۳۸۳، ملتقطاً)
حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قسم کھانے کا ایک سبب اوپر بیان ہوا اور دوسرا سبب بیان کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : حضرت سیدنا ایوب عَلَیْہِ وَعَلٰی نَبِیِّنَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ تعالیٰ کے پیارے نبی ہیں کہ آزمائش واِبتلاء کے دور میں آپ کی پاکیزہ بیوی جن کا نام رحمہ بنت آفرائیم، یا میشا بنت ِیوسف بن یعقوب بن اسحٰق بن ابراہیم عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تھا، وہ آپ کیلئے محنت ومزدوری کرکے خوراک مہیا فرماتی تھیں ، ایک دن انہوں نے حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خدمت میں زیادہ کھانا پیش کیا تو حضرت ایوب عَلَیْہِ السَّلَام کو گمان ہوا کہ شاید وہ کسی کا مال خیانت کے ذریعہ حاصل کرلائی ہیں ،اس پر آپ کو غصہ آیا تو آپ نے قسم کھائی کہ اس کو ایک سو چھڑی ماروں گا۔( فتاوی رضویہ، رسالہ: الجوہر الثمین فی علل نازلۃ الیمین، ۱۳ / ۵۲۶) آگے کی تفصیل وہی ہے جو اوپر بیان ہوئی۔
حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زوجہ پر رحمت اورتخفیف کا سبب
مفسرین نے حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زوجہ پر اس رحمت اورتخفیف کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ بیماری کے زمانہ میں انہوں نے اپنے شوہر کی بہت اچھی طرح خدمت کی اور آپ کے شوہر آپ سے راضی ہوئے تو ا س کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے آپ پر یہ آسانی فرمائی۔( ابوسعود، ص، تحت الآیۃ: ۴۴، ۴ / ۴۴۴، ملخصاً)
شوہر کو خوش رکھنا بیوی کیلئے نہایت ثواب کا کام ہے اورتنگ کرنا اور ایذاء پہنچانا سخت گناہ ہے، ہمارے ہاں بعض اوقات معمولی سی بات پر بیویاں شوہر سے طلاق کا مطالبہ کردیتی ہیں ، اور یہ حرکت شوہر کیلئے نہایت تکلیف دِہ ہوتی ہے ،ایسی عورتوں کے لئے درج ذیل 3اَحادیث میں بھی بہت عبرت اور نصیحت ہے،چنانچہ
(1)…حضرت ثوبان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو عورت بغیر کسی حرج کے شوہر سے طلاق کا سوال کرے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔ (ترمذی، کتاب الطلاق واللعان، باب ما جاء فی المختلعات، ۲ / ۴۰۲، الحدیث: ۱۱۹۱)
(2)… حضرت ثوبان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا: ’’جس عورت نے بغیر کسی وجہ کے اپنے شوہر سے خلع لی تو وہ جنت کی خوشبو نہ سونگھ سکے گی۔ (ترمذی، کتاب الطلاق واللعان، باب ما جاء فی المختلعات، ۲ / ۴۰۲، الحدیث: ۱۱۹۰)
(3)…حضرت معاذ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’جب عورت اپنے شوہر کو دنیا میں ایذا دیتی ہے تو حورِعِین کہتی ہیں خدا تجھے قتل کرے اِسے ایذا نہ دے یہ تو تیرے پاس مہمان ہے عنقریب تجھ سے جدا ہو کر ہمارے پاس آئے گا۔( ابن ماجہ، کتاب النکاح، باب فی المرأۃ تؤذی زوجہا، ۲ / ۴۹۸، الحدیث: ۲۰۱۴)
اللہ تعالیٰ ایسی عورتوں کو عقلِ سلیم اور ہدایت عطا فرمائے،اٰمین۔
شرعی حیلوں کے جواز کا ثبوت
فقہاء ِکرام نے اس آیت سے شرعی حیلوں کے جواز پر اِستدلال کیا ہے ،چنانچہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے’’جو حیلہ کسی کا حق مارنے یا اس میں شبہ پیدا کرنے یا باطل سے فریب دینے کیلئے کیا جائے وہ مکروہ ہے اور جوحیلہ اس لئے کیا جائے کہ آدمی حرام سے بچ جائے یا حلال کو حاصل کر لے وہ اچھا ہے ۔ اس قسم کے حیلوں کے جائز ہونے کی دلیل اللہ عَزَّوَجَلَّ کا یہ فر مان ہے: ’’وَ خُذْ بِیَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِّهٖ وَ لَا تَحْنَثْ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور (فرمایا) اپنے ہاتھ میں ایک جھاڑو لے کر اس سے مار دو اور قسم نہ توڑو۔( فتاوی عالمگیری، کتاب الحیل، الفصل الاول، ۶ / ۳۹۰)
البتہ یاد رہے کہ قابلِ اعتماد مُفتیانِ کرام سے رہنمائی لئے بغیر عوامُ النّاس کو کوئی حیلہ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ بعض حیلوں کی شرعی طور پر اجازت نہیں ہوتی اور بعض اوقات حیلہ کرنے میں ایسی غلطی کر جاتے ہیں جس کی وجہ سے حیلہ ہوتا ہی نہیں ۔
{اِنَّا وَجَدْنٰهُ صَابِرًا: بے شک ہم نے اسے صبر کرنے والا پایا۔} یعنی بے شک ہم نے حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جان، اولاد اور مال میں آزمائش پر صبر کرنے والا پایا اورا س آزمائش نے انہیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکل جانے اورکسی مَعصِیَت میں مبتلا ہو جانے پر نہیں ابھارا۔وہ کیا ہی اچھا بندہ ہے بیشک وہ اللہ تعالیٰ کی طرف بہت رجوع لانے والا ہے۔( تفسیرطبری، ص، تحت الآیۃ: ۴۴، ۱۰ / ۵۹۱، بیضاوی، ص، تحت الآیۃ: ۴۴، ۵ / ۴۹، ملتقطاً)
حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام قیامت کے دن صبر کرنے والوں کے سردار ہوں گے۔( ابن عساکر، ذکر من اسمہ: ایوب، ایوب نبیّ اللّٰہ، ۱۰ / ۶۶)
وَ اذْكُرْ عِبٰدَنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ اُولِی الْاَیْدِیْ وَ الْاَبْصَارِ(45)اِنَّاۤ اَخْلَصْنٰهُمْ بِخَالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ(46)وَ اِنَّهُمْ عِنْدَنَا لَمِنَ الْمُصْطَفَیْنَ الْاَخْیَارِﭤ(47)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہمارے بندوں ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کویاد کرو جو قوت والے اور سمجھ رکھنے والے تھے۔ بیشک ہم نے انہیں ایک کھری بات سے چن لیا وہ اس(آخرت کے) گھر کی یاد ہے۔ اور بیشک وہ ہمارے نزدیک بہترین چُنے ہوئے بندوں میں سے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اذْكُرْ عِبٰدَنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ: اور ہمارے بندوں ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کویاد کرو۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہمارے عنایتوں والے خاص بندوں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، ان کے بیٹے حضرت اسحاق عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، اور ان کے بیٹے حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کویاد کریں کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے علمی اورعملی قوتیں عطا فرمائیں جن کی بنا پر انہیں اللہ تعالیٰ کی معرفت اور عبادات پر قوت حاصل ہوئی ۔ بیشک ہم نے انہیں ایک کھری بات سے چن لیا اور وہ بات آخرت کے گھر کی یاد ہے کہ وہ لوگوں کو آخرت کی یاد دلاتے ، کثرت سے آخرت کا ذکر کرتے اور دنیا کی محبت نے اُن کے دلوں میں جگہ نہیں پائی اور بیشک وہ ہمارے نزدیک بہترین چُنے ہوئے بندوں میں سے ہیں ۔( روح البیان ، ص ، تحت الآیۃ : ۴۵-۴۶ ، ۸ / ۴۶ ، مدارک، ص، تحت الآیۃ: ۴۵-۴۷، ص۱۰۲۴، خازن، ص، تحت الآیۃ: ۴۵-۴۷، ۴ / ۴۳-۴۴، ملتقطاً)
{وَ اِنَّهُمْ عِنْدَنَا: اور بیشک وہ ہمارے نزدیک۔} امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت سے علماء نے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عِصمَت (یعنی گناہ سے پاک ہونے) پر اِستدلال کیاہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں انہیں کسی قید کے بغیر اَخیار فرمایا اور یہ بہتری ان کے تمام اَفعال اور صفات کو عام ہے۔( تفسیرکبیر، ص، تحت الآیۃ: ۴۷، ۹ / ۴۰۰)
وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِﭤ(48)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اسماعیل اور یسع اور ذو الکفل کو یاد کرواورسب بہترین لوگ ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِ: اور اسماعیل اور یسع اور ذو الکفل کو یاد کرو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ حضرت اسماعیل، حضرت یَسَع اورحضرت ذو الکِفل عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے فضائل اور ان کے صبر کو یاد کریں تاکہ ان کی سیرت سے آپ کوتسلی حاصل ہو۔( خازن، ص، تحت الآیۃ: ۴۸، ۴ / ۴۴، ملخصاً) اور ان کی پاک خصلتوں سے لوگ نیکیوں کا ذوق و شوق حاصل کریں اوروہ سب بہترین لوگ ہیں ۔
یاد رہے کہ حضرت یَسَع عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بنی اسرائیل کے اَنبیاء میں سے ہیں ،انہیں حضرت الیاس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بنی اسرائیل پر اپنا خلیفہ مقرر کیا اور بعد میں انہیں نبوت سے سرفراز کیا گیا۔ حضرت ذو الکِفل عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت میں اختلاف ہے اور صحیح یہ ہے کہ وہ نبی ہیں ۔( روح البیان، ص، تحت الآیۃ: ۴۸، ۸ / ۴۷، صاوی، ص، تحت الآیۃ: ۴۸، ۵ / ۱۷۷۶، ملتقطاً)
هٰذَا ذِكْرٌؕ-وَ اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ لَحُسْنَ مَاٰبٍ(49)جَنّٰتِ عَدْنٍ مُّفَتَّحَةً لَّهُمُ الْاَبْوَابُ(50)مُتَّكِـٕیْنَ فِیْهَا یَدْعُوْنَ فِیْهَا بِفَاكِهَةٍ كَثِیْرَةٍ وَّ شَرَابٍ(51)وَ عِنْدَهُمْ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ اَتْرَابٌ(52)
ترجمہ: کنزالعرفان
یہ نصیحت ہے اور بیشک پرہیزگاروں کیلئے اچھا ٹھکانہ ہے۔ بسنے کے باغات ہیں جن کے سب دروازے ان کے لیے کھلے ہوئے ہیں ۔ ان میں تکیہ لگائے ہوں گے۔ان باغوں میں وہ بہت سے پھل میوے اور مشروب مانگیں گے۔ اور ان کے پاس ایسی بیویاں ہوں گی جو شوہر کے سوا کسی اور کی طرف آنکھ نہیں اٹھاتیں ، جو ہم عمر ہوں گی۔
تفسیر: صراط الجنان
{هٰذَا ذِكْرٌ: یہ نصیحت ہے۔} آیت کے اس حصے کا ایک معنی یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ قرآن جو ہم نے آپ کی طرف نازل کیا اس کے ذریعے ہم نے آپ کو اور آپ کی قوم کو نصیحت کی ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ اوپر والی آیات میں انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی جو سیرت بیان ہوئی یہ ان کا ذکرِ جمیل ہے جو ہمیشہ ہوتا رہے گا۔(تفسیرطبری، ص، تحت الآیۃ: ۴۹، ۱۰ / ۵۹۵، روح البیان، ص، تحت الآیۃ: ۴۹، ۸ / ۴۸، ملتقطاً)
{وَ اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ لَحُسْنَ مَاٰبٍ: اور بیشک پرہیزگاروں کیلئے اچھا ٹھکانہ ہے۔} آیت کے اس حصے اور ا س کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ بے شک وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فرائض کی ادائیگی میں اور اس کی نافرمانی سے بچنے میں اس کا خوف رکھا توان کیلئے آخرت میں اچھا ٹھکانہ ہے اور وہ اچھاٹھکانہ بسنے کے باغات ہیں ،جب وہ ان باغات کے دروازوں تک پہنچیں گے تو انہیں اپنے لئے کھلا ہو اپائیں گے ،فرشتے تعظیم وتکریم کے ساتھ ان کا استقبال کریں گے اور کہیں گے تم پر سلامتی ہو کیونکہ تم نے صبر کیا تو آخر ت کا اچھا انجام کیا ہی خوب ہے۔ ان باغات میں وہ نقش و نگار کئے ہوئے تختوں پرٹیک لگائے ہوں گے۔ان باغوں میں وہ بہت سے پھل میوے اور شراب مانگیں گے۔اور ان کے پاس ایسی بیویاں ہوں گی جو اپنے شوہر کے سوا کسی اور کی طرف نگاہ اٹھا کر نہ دیکھیں گی اور وہ سب عمرمیں برابر ہوں گی ایسے ہی حسن و جوانی میں بھی برابر ہوں گی، آپس میں محبت رکھنے والی ہوں گی، ایک کودوسرے سے بغض ، رشک اور حسد نہ ہو گا۔(تفسیرطبری ، ص ، تحت الآیۃ : ۴۹ ، ۱۰ / ۵۹۵ ، روح البیان ، ص ، تحت الآیۃ : ۴۹-۵۲، ۸ / ۴۸-۴۹، خازن، ص، تحت الآیۃ: ۴۹-۵۲، ۴ / ۴۴، ملتقطاً)
هٰذَا مَا تُوْعَدُوْنَ لِیَوْمِ الْحِسَابِ(53)اِنَّ هٰذَا لَرِزْقُنَا مَا لَهٗ مِنْ نَّفَادٍ(54)
ترجمہ: کنزالعرفان
یہ وہ ہے جس کا تمہیں حساب کے دن کیلئے وعدہ کیا جاتا ہے۔ بیشک یہ ہمارا رزق ہے ، اس کیلئے کبھی ختم ہونا نہیں ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{هٰذَا مَا تُوْعَدُوْنَ: یہ وہ ہے جس کا تمہیں وعدہ کیا جاتا ہے۔} یعنی فرشتے ان سے کہیں گے :اے پرہیزگارو!یہ ثواب اور نعمتیں وہ ہیں جن کا حساب کے دن کے لئے نبی عَلَیْہِ السَّلَام کی زبان سے تمہیں وعدہ کیا جاتا ہے ۔(روح البیان، ص، تحت الآیۃ: ۵۳، ۸ / ۴۹-۵۰)
{اِنَّ هٰذَا لَرِزْقُنَا: بیشک یہ ہمارا رزق ہے۔} یعنی پرہیزگاروں کے لئے جو اِنعام واِکرام ذکر کیا گیا یہ ہمارا عطا کردہ رزق ہے اوریہ ہمیشہ باقی رہے گا ۔
هٰذَاؕ-وَ اِنَّ لِلطّٰغِیْنَ لَشَرَّ مَاٰبٍ(55)جَهَنَّمَۚ-یَصْلَوْنَهَاۚ-فَبِئْسَ الْمِهَادُ(56)هٰذَاۙ-فَلْیَذُوْقُوْهُ حَمِیْمٌ وَّ غَسَّاقٌ(57)وَّ اٰخَرُ مِنْ شَكْلِهٖۤ اَزْوَاجٌﭤ(58)
ترجمہ: کنزالعرفان
۔ (نیکوں کیلئے تو) یہ (ہے) اور بیشک سرکشی کرنے والوں کیلئے برا ٹھکانہ ہے۔ جہنم ہے جس میں داخل ہوں گے تو وہ کیا ہی برا بچھوناہے۔ یہ کھولتا پانی اور پیپ ہے تو جہنمی اسے چکھیں ۔ اور اسی طرح کے دوسرے مختلف اقسام کے عذاب ہوں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{هٰذَا: یہ۔} اس سے پہلی آیات میں پرہیزگاروں کا ثواب بیان کیا گیا اور اس آیت سے سرکشی کرنے والوں کی سزا بیان کی جا رہی ہے تاکہ وعدے کے بعد وعید کا اور ترغیب کے بعد ڈرانے اور خوف دلانے کابیان ہو۔چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ ایمان والوں کا صلہ تو یہ ہے جو بیان ہوا اور اب اس کے مقابل سنو: بیشک اللہ تعالیٰ کے (حکم کے) خلاف سرکشی کرنے والوں اور ا س کے رسولوں کو جھٹلانے والوں کیلئے برا ٹھکانہ ہے،اور وہ برا ٹھکانہ جہنم ہے جس میں وہ قیامت کے دن داخل ہوں گے، تو وہ بھڑکنے والی آگ کیا ہی برا بچھوناہے کیونکہ وہی آگ ان کا فرش ہوگی۔جہنمیوں کیلئے یہ کھَولتا پانی اور پیپ ہے جو جہنمیوں کے جسموں اور ان کے سڑے ہوئے زخموں اور نجاست کے مقاموں سے بہے گی ،جلتی اوربدبودار ہو گی، تو وہ اسے چکھیں اور ان کے لئے اسی طرح کے ملتے جلتے قسم قسم کے عذاب ہوں گے۔( تفسیرکبیر ، ص ، تحت الآیۃ : ۵۵-۵۸، ۹ / ۴۰۳-۴۰۴، روح البیان، ص، تحت الآیۃ: ۵۵-۵۸، ۸ / ۵۰-۵۱، خازن، ص، تحت الآیۃ: ۵۵-۵۸، ۴ / ۴۴، ملتقطاً)
جہنمیوں کی پیپ کی کیفیت
حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اگر غَسّاق یعنی جہنمیوں کی پیپ کا ایک ڈول دنیا میں بہا دیا جائے تو پوری دنیا والے بد بو دار ہو جائیں ۔( ترمذی، کتاب صفۃ جہنّم، باب ما جاء فی صفۃ شراب اہل النار، ۴ / ۲۶۳، الحدیث: ۲۵۹۳)
هٰذَا فَوْجٌ مُّقْتَحِمٌ مَّعَكُمْۚ-لَا مَرْحَبًۢا بِهِمْؕ-اِنَّهُمْ صَالُوا النَّارِ(59)
ترجمہ: کنزالعرفان
ان سے کہا جائے گا یہ ایک اور فوج ہے جوتمہارے ساتھ دھنسی جارہی ہے ،انہیں کوئی خوش آمدید نہیں ،بیشک یہ آگ میں داخل ہورہے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{هٰذَا فَوْجٌ مُّقْتَحِمٌ مَّعَكُمْ: یہ ایک اور فوج ہے جوتمہارے ساتھ دھنسی جارہی ہے۔} حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ جب کافروں کے سردار جہنم میں داخل ہوں گے اور ان کے پیچھے پیچھے ان کی پیروی کرنے والے بھی جا رہے ہوں گے تو جہنم کے خازن ان سرداروں سے کہیں گے’’ یہ تمہاری پیروی کرنے والوں کی فوج ہے جو تمہاری طرح تمہارے ساتھ جہنم میں دھنسی جا رہی ہے۔‘‘کافر سردار جہنم کے خازن فرشتوں کو جواب دیتے ہوئے کہیں گے :ان پَیروکاروں کو (جہنم میں ) کھلی جگہ نہ ملے،بیشک ہماری طرح یہ بھی آگ میں داخل ہورہے ہیں۔(خازن، ص، تحت الآیۃ: ۵۹، ۴ / ۴۴-۴۵، ملخصاً)
قَالُوْا بَلْ اَنْتُمْ- لَا مَرْحَبًۢا بِكُمْؕ-اَنْتُمْ قَدَّمْتُمُوْهُ لَنَاۚ-فَبِئْسَ الْقَرَارُ(60)قَالُوْا رَبَّنَا مَنْ قَدَّمَ لَنَا هٰذَا فَزِدْهُ عَذَابًا ضِعْفًا فِی النَّارِ(61)
ترجمہ: کنزالعرفان
۔(پیروکار) کہیں گے بلکہ تمہیں کوئی خوش آمدید نہیں ۔تم ہی یہ مصیبت ہمارے آگے لائے ہوتو کیا ہی برا ٹھکانہ ہے۔ ۔ (پھر پیروکار) کہیں گے:اے ہمارے رب! جو یہ مصیبت ہمارے آگے لایا اسے آگ میں دُگنا عذاب بڑھا۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالُوْا: وہ کہیں گے۔} یعنی پیروکار اپنے سرداروں سے کہیں گے : بلکہ تمہیں کھلی جگہ نہ ملے۔ تم ہی یہ عذاب ہمارے آگے لائے ہو کیونکہ تم نے پہلے کفر اختیار کیا اور پھرہمیں بھی اس راہ پر چلایا تو جہنم بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔ (خازن، ص، تحت الآیۃ: ۶۰، ۴ / ۴۵) اس سے معلوم ہو اکہ اہلِ جنت آپس میں اتفاق اور محبت رکھیں گے جبکہ اہلِ جہنم آپس میں نا اتفاقی کا شکار ہوں گے۔
{قَالُوْا: وہ کہیں گے۔} یعنی پیروی کرنے والے کفار اپنے سرداروں کے متعلق بارگاہِ الٰہی میں عرض کریں گے کہ اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ، جو یہ عذاب ہمارے آگے لایا اسے آگ میں ہم سے دگنا عذاب دے کیونکہ وہ کافر بھی ہے اور کافر گَر بھی اور ہم صرف کافر ہیں ۔( روح البیان، ص، تحت الآیۃ: ۶۱، ۸ / ۵۲-۵۳، ملخصاً)
وَ قَالُوْا مَا لَنَا لَا نَرٰى رِجَالًا كُنَّا نَعُدُّهُمْ مِّنَ الْاَشْرَارِﭤ(62)اَتَّخَذْنٰهُمْ سِخْرِیًّا اَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْاَبْصَارُ(63)اِنَّ ذٰلِكَ لَحَقٌّ تَخَاصُمُ اَهْلِ النَّارِ(64)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور کہیں گے: ہمیں کیا ہوا کہ ہم ان مردوں کو نہیں دیکھ رہے جنہیں ہم برا شمار کرتے تھے۔ کیا ہم نے انہیں (ایسے ہی) ہنسی بنالیاتھا یا آنکھیں ان کی طرف سے پھر گئی تھیں ؟بیشک یہ دوزخیوں کا باہم جھگڑناضرور حق ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَالُوْا: اور وہ کہیں گے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب کفار جہنم میں غریب مسلمانوں کو نہ دیکھیں گے تو کفار کے سردار کہیں گے :ہمیں جہنم میں وہ غریب مسلمان نظر کیوں نہیں آ رہے جنہیں ہم دنیا میں برے لوگوں میں شمار کرتے تھے اور انہیں ہم اپنے دین کا مخالف ہونے کی وجہ سے شریر کہتے تھے اور غریب ہونے کی وجہ سے انہیں حقیر سمجھتے تھے ،پھرکہیں گے کہ کیا ہم نے انہیں مذاق نہ بنالیاتھا جبکہ حقیقت میں وہ ایسے نہ تھے اوروہ دوزخ میں آئے ہی نہیں ہیں نیزہمارا اُن کے ساتھ اِستہزاء کرنا اور اُ ن کا مذاق اڑانا باطل اور غلط تھا یا ہماری آنکھیں ان کی طرف سے پھر گئی تھیں اس لئے وہ ہمیں نظر نہ آئے ۔دوسری آیت کے آخری حصے کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ یا اُن کی طرف سے ہماری آنکھیں پھر گئیں اور دنیا میں ہم اُن کے مرتبے اور بزرگی کو نہ دیکھ سکے۔ (خازن، ص، تحت الآیۃ: ۶۲-۶۳، ۴ / ۴۵، ملخصاً) اس سے معلوم ہوا کہ کفار جہنم میں ایک دوسرے کو پہچانیں گے اور دنیا کی باتیں بھی یا دکریں گے۔
قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا مُنْذِرٌ ﳓ وَّ مَا مِنْ اِلٰهٍ اِلَّا اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ(65)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ:میں صرف ڈر سنانے والا ہوں اور کوئی معبود نہیں مگر ایک اللہ جوسب پر غالب ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ: تم فرماؤ۔} اس سورت کی ابتدا ء میں بیان ہو اکہ جب تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت،اپنی رسالت اور قیامت کے حق ہونے پر ایمان لانے کی دعوت دی تو کفار نے اپنی جہالت کا ثبوت پیش کرتے ہوئے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جادو گر اور جھوٹا کہا،پھر اللہ تعالیٰ نے مختلف انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعات بیان فرمائے تاکہ ان کی سیرت کو سامنے رکھتے ہوئے کفار کی جہالت پر صبر کرنا آسان ہو اور کفار اپنے کفر پر اِصرار اور جہالت کو چھوڑ کر ایمان قبول کرنے کی طرف راغب ہوں ، ان چیزوں کو بیان کرنے کے بعد اب پھر اللہ تعالیٰ وحدانیّت، رسالت اور مرنے کے بعد اٹھائے جانے کا بیان فرما رہا ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا: ’’اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کفارِ مکہ سے فرما دیں کہ میں صرف تمہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے کفر اور گناہوں کے بدلے عذاب کا ڈر سنانے والا ہوں اور یہ بھی فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود نہیں،وہ اکیلا ہے، وہ اپنی ذات، صفات اور افعال میں اصلًا شرک کو قبول نہیں کرتا،اس کی بارگاہ کے علاوہ اور کوئی جائے پناہ نہیں،وہ اپنے علاوہ ہرممکن چیز پر غالب ہے۔وہ آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان موجود تمام مخلوقات کا مالک ہے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اس کا کوئی شریک ہو اور اس کی شان یہ ہے کہ وہ عزت والا اوربڑا بخشنے والا ہے۔( تفسیرکبیر، ص، تحت الآیۃ: ۶۵، ۹ / ۴۰۶، روح البیان، ص، تحت الآیۃ: ۶۵، ۸ / ۵۵، ملتقطاً)
مخلوق کا خوف دور کرنے کا وظیفہ:
علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’جو کوئی ’’یَا قَہَّارُ‘‘ روزانہ ایک ہزار بار پڑھ لیا کرے تو اس کے دل سے مخلوق( کا خوف)دور ہو جائے گا۔(روح البیان، ص، تحت الآیۃ: ۶۵، ۸ / ۵۵)
رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَا الْعَزِیْزُ الْغَفَّارُ(66)
ترجمہ: کنزالعرفان
وہ آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا مالک ہے، عزت والا،بڑا بخشنے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَا: وہ آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا مالک ہے۔} امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت اور اس سے اوپر والی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی 5صفات بیان فرمائی ہیں : (1)واحد۔(2)قَہّار۔(3)رب۔(4) عزیز۔(5)غَفّار۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت وہ چیز ہے کہ جس کے بارے میں اہلِ حق اور مشرکین کے درمیان اختلاف ہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت ’’قَہّار ‘‘بیان فرما کر اپنی وحدانیّت پر اِستدلال فرمایا،اوریہ صفت اگرچہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت پر دلالت کرتی ہے لیکن صرف اسے سن کر لوگوں کے دلوں میں شدید خوف بیٹھ جاتا ،اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد اپنی تین وہ صفات بیان فرما دیں جو اس کی رحمت، فضل اور کرم پر دلالت کرتی ہیں ۔
پہلی صفت:وہ آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب ہے۔اس صفت کی کامل معرفت اس وقت حاصل ہو گی جب زمین و آسمان کی تخلیق اور عناصرِ اربعہ وغیرہ میں اللہ تعالیٰ کی حکمت کے آثار میں غور و فکر کیا جائے اور یہ ایک ایسا سمندر ہے جس کا کوئی ساحل ہی نہیں ،لہٰذا جب تم ان چیزوں کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ کی حکمت کے آثار میں غور کرو گے تو اس وقت اللہ تعالیٰ کے رب ہونے کو پہچان جاؤ گے۔
دوسری صفت: اللہ تعالیٰ عزیز یعنی عزت اور غلبے والا ہے۔اس صفت کو بیان کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رب ہونے کا سن کر کوئی یہ کہہ سکتا تھا کہ ہاں ! اللہ تعالیٰ رب تو ہے لیکن وہ ہر چیز پر قادر نہیں ،اللہ تعالیٰ نے اس بات کا جواب دے دیا کہ وہ عزیز ہے، یعنی ہر ممکن چیز پر قادر ہے اور وہ ہر چیز پر غالب ہے جبکہ اس پر کوئی چیز غالب نہیں ۔
تیسری صفت: اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والاہے۔اس صفت کو بیان کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ کوئی یہ بات کہہ سکتا تھا کہ ہاں اللہ تعالیٰ رب ہے اور وہ احسان فرمانے والا ہے لیکن وہ اطاعت گزاروں اور اخلاص کے ساتھ عبادت کرنے والوں پر احسان فرمانے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب بھی ا س طرح دے دیا کہ جو شخص 70 سال تک اپنے کفر پر قائم رہے ،پھر اپنے کفر سے (سچی) توبہ کر لے تو میں گناہگاروں کے زُمرے سے اس کا نام خارج کر دوں گا اور اپنے فضل و رحمت سے ا س کے تمام گناہوں پر پردہ ڈال دوں گا اور اسے نیک لوگوں کے مرتبے تک پہنچا دوں گا۔( تفسیرکبیر، ص، تحت الآیۃ: ۶۶، ۹ / ۴۰۷)
قُلْ هُوَ نَبَؤٌا عَظِیْمٌ(67)اَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُوْنَ(68)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ وہ ایک عظیم خبر ہے۔ تم اس سے منہ پھیرے ہوئے ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{هُوَ نَبَؤٌا عَظِیْمٌ: وہ ایک عظیم خبر ہے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ فرما دیں کہ قرآنِ پاک اور جو کچھ اس میں توحید، نبوت، قیامت، حشر اور جنت و دوزخ وغیرہ کے بارے میں بیان کیا گیا یہ عظیم الشّان خبر ہے اور اے کافرو! تمہارا حال یہ ہے کہ تم اس سے غفلت میں ہو کہ مجھ پر ایمان نہیں لاتے اور قرآنِ پاک اور میرے دین کو نہیں مانتے۔( روح البیان، ص، تحت الآیۃ: ۶۷-۶۸، ۸ / ۵۶، ملتقطاً)
مَا كَانَ لِیَ مِنْ عِلْمٍۭ بِالْمَلَاِ الْاَعْلٰۤى اِذْ یَخْتَصِمُوْنَ(69)
ترجمہ: کنزالعرفان
مجھے عالَمِ بالا کی کوئی خبر نہیں تھی جب وہ بحث کررہے تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِذْ یَخْتَصِمُوْنَ: جب وہ بحث کررہے تھے۔} بحث کرنے والوں کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ ان سے مراد وہ فرشتے ہیں جو حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے۔اس صورت میں یہ حضور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت صحیح ہونے کی ایک دلیل ہے، مُدّعا یہ ہے کہ اگر میں نبی نہ ہوتا توعالَمِ بالا میں فرشتوں کا حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں سوال و جواب کرنا مجھے کیا معلوم ہوتا ،اس کی خبر دینا میری نبوت اور میرے پاس وحی آنے کی دلیل ہے۔دوسرا قول یہ ہے کہ ان سے وہ فرشتے مراد ہیں جو اس چیز میں بحث کر رہے تھے کہ کون سے کام گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں ۔( قرطبی،ص،تحت الآیۃ:۶۹،۸ / ۱۶۶-۱۶۷،الجزء الخامس عشر، مدارک، ص، تحت الآیۃ: ۶۹، ص۱۰۲۷، ملتقطاً)
حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو عالَمِ بالا کے فرشتوں کی بحث کا علم عطا ہوا
اللہ تعالیٰ نے اس کا علم بھی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو عطا کیا جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا کہ میں اپنے بہترین حال میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے دیدار سے مشرف ہوا (حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ میرے خیال میں یہ واقعہ خواب کا ہے) حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اے محمد! (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) تمہیں معلوم ہے کہ عالَمِ بالا کے فرشتے کس بحث میں ہیں ۔میں نے عرض کی:’’نہیں ۔ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: پھر اللہ تعالیٰ نے اپنا دستِ رحمت و کرم میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھا اور میں نے اس کے فیض کا اثر اپنے قلب ِمبارک میں پایا تو آسمان و زمین کی تمام چیزیں میرے علم میں آگئیں پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اے محمد! (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کیا تم جانتے ہو کہ عالَمِ بالا کے فرشتے کس چیز کے بارے میں بحث کررہے ہیں ؟ میں نے عرض کی:’’ ہاں ،اے رب! عَزَّوَجَلَّ، میں جانتا ہوں ، وہ کَفّارات میں بحث کررہے ہیں اور کَفّارات یہ ہیں ، نمازوں کے بعد مسجدمیں ٹھہرنا ، پیدل جماعتوں کے لئے جانا ، جس وقت سردی وغیرہ کے باعث پانی کا استعمال ناگوار ہو اس وقت اچھی طرح وضو کرنا ۔جس نے یہ کیا اس کی زندگی بھی بہتر ،موت بھی بہتر اور وہ گناہوں سے ایسا پاک صاف نکلے گا جیسا اپنی ولادت کے دن تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’ اے محمد! (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) نماز کے بعد یہ دعا کیا کرو: ’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ وَتَرْکَ الْمُنْکَرَاتِ وَحُبَّ الْمَسَاکِیْنَ وَاِذَا اَرَدْتَّ بِعِبَادِکَ فِتْنَۃً فَاقْبِضْنِیْ اِلَیْکَ غَیْرَمَفْتُوْنْ‘‘۔(ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ ص، ۵ / ۱۵۸، الحدیث: ۳۲۴۴)
بعض روایتوں میں یہ ہے کہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’مجھ پر ہر چیز روشن ہوگئی اور میں نے پہچان لی۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ ص، ۵ / ۱۶۰، الحدیث: ۳۲۴۶)
اور ایک روایت میں ہے کہ جو کچھ مشرق و مغرب میں ہے سب میں نے جان لیا ۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ ص، ۵ / ۱۵۹، الحدیث: ۳۲۴۵)
علامہ علاؤ الدین علی بن محمد بن ابراہیم بغدادی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ جو کہ خازن کے نام سے معروف ہیں ، اپنی تفسیر میں ’’دونوں شانوں کے درمیان ہاتھ رکھنے اور ٹھنڈک محسوس ہونے ‘‘کے معنی یہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا سینۂ مبارک کھول دیا اور قلب شریف کومُنَوّر کردیا اور جن چیزوں کو کوئی نہ جانتا ہو ان سب کی معرفت آپ کو عطا کردی حتّٰی کہ آپ نے نعمت و معرفت کی ٹھنڈک اپنے قلب ِمبارک میں پائی اور جب قلب شریف منور ہوگیا اور سینہ ٔ پاک کھل گیا تو جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے وہ اللہ تعالیٰ کے بتانے سے جان لیا۔( خازن، ص، تحت الآیۃ: ۷۰، ۴ / ۴۶)
اِنْ یُّوْحٰۤى اِلَیَّ اِلَّاۤ اَنَّمَاۤ اَنَا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ(70)
ترجمہ: کنزالعرفان
مجھے تو یہی وحی ہوتی ہے کہ میں تو کھلا ڈر سنانے والاہی ہوں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنْ یُّوْحٰۤى اِلَیَّ: مجھے تو یہی وحی ہوتی ہے۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ میری طرف جو غیبی اُمور کی وحی کی جاتی ہے جن میں عالَمِ بالا کی خبریں بھی شامل ہیں وہ ا س لئے ہے تاکہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کوکھلا ڈر سناؤں ۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ مجھے صرف ا س چیز کا حکم دیا گیا ہے کہ میں عذابِ الٰہی کا کھلا ڈر سنا دوں اورخدا کا پیغام پہنچا دوں ،اس کے علاوہ اور کسی چیز کا مجھے حکم نہیں دیاگیا۔( ابوسعود، ص، تحت الآیۃ: ۷۰، ۴ / ۴۴۹، مدارک، ص، تحت الآیۃ: ۷۰، ص۱۰۲۷، ملتقطاً)
اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ طِیْنٍ(71)فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَ نَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ(72)فَسَجَدَ الْمَلٰٓىٕكَةُ كُلُّهُمْ اَجْمَعُوْنَ(73)اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اِسْتَكْبَرَ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(74)قَالَ یٰۤاِبْلِیْسُ مَا مَنَعَكَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّؕ-اَسْتَكْبَرْتَ اَمْ كُنْتَ مِنَ الْعَالِیْنَ(75)قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُؕ-خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ(76)قَالَ فَاخْرُ جْ مِنْهَا فَاِنَّكَ رَجِیْمٌ(77)وَّ اِنَّ عَلَیْكَ لَعْنَتِیْۤ اِلٰى یَوْمِ الدِّیْنِ(78)
ترجمہ: کنزالعرفان
جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں ۔ پھر جب میں اسے ٹھیک بنالوں اور اس میں اپنی خاص روح پھونکوں تو تم اس کے لیے سجدے میں پڑجانا۔ تو تمام فرشتو ں نے اکٹھے سجدہ کیا ۔ سوائے ابلیس کے ۔اس نے تکبر کیا اور وہ کافروں میں سے ہوگیا۔۔ (اللہ نے) فرمایا: اے ابلیس! تجھے کس چیز نے روکا کہ تو اسے سجدہ کرے جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا؟کیا تو نے تکبر کیاہے یا تو تھا ہی متکبروں میں سے ؟ اس نے کہا: میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اسے مٹی سے پیدا کیا۔ اللہ نے فرمایا: تو جنت سے نکل جا کہ بیشک تو دھتکارا ہوا ہے۔اور بیشک قیامت تک تجھ پر میری لعنت ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ: جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا۔} کفار ِمکہ چونکہ حسد اور تکبر کی بنا پرسیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جھگڑتے تھے ،اِس لئے یہاں ایک بار پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق اور ابلیس کے سجدہ نہ کرنے کا واقعہ بیان فرمایا تاکہ اسے سن کر وہ عبرت حاصل کریں اور اپنے حسد و تکبر سے باز آ جائیں ۔( تفسیرکبیر، ص، تحت الآیۃ: ۷۱، ۹ / ۴۰۹)
یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ سورۂ بقرہ کے چوتھے رکوع میں بیان ہوچکا ہے اور ا س کے علاوہ سورۂ اعراف،سورۂ حجر،سورۂ بنی اسرائیل اورسورۂ کہف میں بھی بیان ہو چکا ہے۔ اس آیت اور اس کے بعد والی سات آیات میں بیان کئے گئے واقعے کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں مٹی سے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پیدا کروں گا،پھر جب میں اس کی پیدائش مکمل کردوں اور اس میں اپنی خاص روح پھونک کر اسے زندگی عطا کردوں تو تم اس کے لیے سجدے میں چلے جانا ،جب حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق کے مراحل مکمل ہوئے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے تمام فرشتو ں نے اکٹھے سجدہ کیا لیکن ابلیس نے سجدہ نہ کیا،اس نے تکبُّر کیا اور وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں کافروں میں سے ہی تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے ابلیس! تجھے اس آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوسجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا؟کیا تو نے تکبر کیاہے یا تو (پہلے ہی) اس قوم میں سے تھاجن کا شیوہ ہی تکبر ہے۔ ابلیس نے کہا: میں اس سے بہتر ہوں کیونکہ تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اسے مٹی سے پیدا کیا ۔اس سے ابلیس کی مراد یہ تھی کہ اگر حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آگ سے پیداکئے جاتے اور میرے برابر بھی ہوتے جب بھی میں انہیں سجدہ نہ کرتا چہ جائیکہ ان سے بہتر ہو کر انہیں سجدہ کروں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تو جنت سے نکل جا کہ بیشک تو اپنی سرکشی ،نافرمانی اور تکبر کے باعث دھتکارا ہوا ہے اور بیشک قیامت تک تجھ پر میری لعنت ہے اور قیامت کے بعد لعنت بھی اور طرح طرح کے عذاب بھی ہیں ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی صورت بدل دی ،وہ پہلے حسین تھا بدشکل رُوسیاہ کردیا گیا اور اس کی نورانیّت سَلب کردی گئی۔( مدارک، ص، تحت الآیۃ: ۷۱-۷۸، ص۱۰۲۷-۱۰۲۸، خازن، ص، تحت الآیۃ: ۷۱-۷۸، ۴ / ۴۷، ملتقطاً)
قَالَ رَبِّ فَاَنْظِرْنِیْۤ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ(79)قَالَ فَاِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَ(80)اِلٰى یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ(81)
ترجمہ: کنزالعرفان
اس نے کہا: اے میرے رب! (اگرایسا ہی ہے) تو مجھے لوگوں کے اٹھائے جانے کے دن تک مہلت دے۔ اللہ نے فرمایا: پس بیشک تو مہلت والوں میں سے ہے۔ معین وقت کے دن تک ۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ رَبِّ: اس نے کہا: اے میرے رب!} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب شیطان مردود ہو گیا تو اس نے عرض کی ’’اے میرے رب!اگرایسا ہی ہے تو مجھے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام او ران کی اولاد کے فنا ہونے کے بعد جزا کے لئے اٹھائے جانے کے دن تک مہلت دے۔اس سے ابلیس کی مراد یہ تھی کہ وہ انسانوں کو گمراہ کرنے کے لئے فراغت پائے اور ان سے اپنا بغض خوب نکالے اور موت سے بالکل بچ جائے کیونکہ اُٹھنے کے بعد موت نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا: پس بیشک تو مُعَیّن وقت کے دن تک مہلت والوں میں سے ہے۔یہاں مُعَیّن وقت سے قیامت کے پہلے نَفخہ تک کا وقت مراد ہے کہ جسے مخلوق کی فنا کے لئے مُعَیّن فرمایا گیا ہے۔( روح البیان، ص، تحت الآیۃ: ۷۹-۸۱، ۸ / ۶۵)
نوٹ:ابلیس کے مہلت طلب کرنے کا بیان سورۂ اَعراف کی آیت نمبر14اور سورۂ حجر کی آیت نمبر36میں بھی گزر چکا ہے۔
قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَاُغْوِیَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَ(82)اِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِیْنَ(83)
ترجمہ: کنزالعرفان
اس نے کہا: تیری عزت کی قسم ضرور میں ان سب کو گمراہ کردوں گا۔مگر جو ان میں تیرے چنے ہوئے بندے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ: اس نے کہا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مہلت ملنے کے بعد ابلیس نے کہا: ’’یا رب! تیری عزت کی قسم ! میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد کے سامنے گناہوں کو سجا سنوار کر اور ان کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کر کے ان سب کو گمراہ کر دوں گا البتہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں سے جو تیرے چنے ہوئے بندے ہیں وہ میرے وار سے بچے رہیں گے ۔( روح البیان، ص، تحت الآیۃ: ۸۲-۸۳، ۸ / ۶۶)
اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور بہت سے صالحین پر شیطان کا داؤ نہیں چلتا کہ وہ ان سے گناہ یا کفر کرا دے۔
قَالَ فَالْحَقُّ٘-وَ الْحَقَّ اَقُوْلُ(84)لَاَمْلَــٴَـنَّ جَهَنَّمَ مِنْكَ وَ مِمَّنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ اَجْمَعِیْنَ(85)
ترجمہ: کنزالعرفان
اللہ نے فرمایا: تو حق (میری طرف سے ہی ہوتا ہے) اور میں حق ہی فرماتا ہوں ۔ بیشک میں ضرور جہنم بھردوں گاتجھ سے اور ان سب سے جو تیری پیروی کرنے والے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ: فرمایا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:’’تو سچ یہ ہے جو ہم ارشاد فرماتے ہیں اور میں سچ ہی فرماتا ہوں ، بیشک میں ضرور تجھ سے اور تیری ذُرِّیَّت سے اور انسانوں میں سے جتنے لوگ اپنے اختیار سے گمراہی میں تیری پیروی کریں گے ان سب سے جہنم بھر دوں گا۔ (روح البیان، ص، تحت الآیۃ: ۸۴-۸۵، ۸ / ۶۶)
قُلْ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِیْنَ(86)اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ(87)وَ لَتَعْلَمُنَّ نَبَاَهٗ بَعْدَ حِیْنٍ(88)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ: میں اِس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا اور میں جھوٹ گھڑنے والوں میں سے نہیں ہوں ۔ یہ تو سارے جہان والوں کیلئے نصیحت ہی ہے۔ اور ضرور ایک وقت کے بعد تم اس کی خبر جان لو گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ: تم فرماؤ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ مشرکین سے فرما دیں کہ میں وحی کی تبلیغ اور رسالت کی ادائیگی پر تم سے دنیا کا مال طلب نہیں کرتا بلکہ میں کسی اجرت کے بغیر تمہیں دین کی تعلیم دیتا ہوں اورمیں جھوٹ گھڑنے والوں میں سے نہیں ہوں کہ میں نے اپنی طرف سے نبوت کا دعویٰ کر دیا ہو اور قرآنِ پاک میں نے اپنے پاس سے بنا لیا ہو۔( روح البیان، ص، تحت الآیۃ: ۸۶، ۸ / ۶۷) بلکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا سردار بنایا ہے اور یہ قرآنِ پاک بھی اسی کی طرف سے نازل ہو اہے۔
عالم کو اگر مسئلہ معلوم نہ ہو تو وہ خاموش رہے اور اپنی طرف سے گھڑ کر نہ بتائے:
اس آیت سے اشارۃً معلوم ہوا کہ عالِم کو اگر کوئی مسئلہ معلوم نہ ہوتو وہ خاموشی اختیار کرے اور خود گھڑ کر نہ بتائے کہ یہ بھی تکَلُّف میں داخل ہے۔ حضرت مسروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ایک شخص کِندہ میں یہ بیان کر رہا تھا کہ قیامت کے دن ایک ایسا دھواں آئے گا جو منافقوں کے کانوں اور آنکھوں میں داخل ہو جائے گا اور اہلِ ایمان کو اس سے صرف اتنی تکلیف پہنچے گی جیسے زکام ہو جاتا ہے۔یہ سن کر ہم ڈر گئے، چنانچہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی خدمت میں حاضر ہو گیا اور وہ ٹیک لگائے ہوئے تھے (جب میں نے واقعہ بیان کیا ) تو وہ غضبناک ہوئے، پھر سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا’’جو کسی بات کو جانتا ہو تو کہے اور جو نہ جانتا ہو تو اسے کہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کیونکہ یہ بھی علم ہی سے ہے کہ جس بات کو نہ جانے تو کہہ دے کہ میں نہیں جانتا ،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا:
’’ قُلْ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِیْنَ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم فرماؤ: میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا اور میں جھوٹ گھڑنے والوں میں سے نہیں ہوں۔( بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ الم، ۳ / ۴۹۷، الحدیث: ۴۷۷۴)
حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے ایک خطبے میں فرمایا’’جو آدمی کسی چیز کا علم رکھتا ہو تو اسے چاہئے کہ وہ لوگوں کو سکھائے اور وہ بات کہنے سے بچے جس کا علم نہ رکھتا ہو ورنہ وہ دین سے نکل جائے گا اور تکَلُّف کرنے والوں میں سے ہو گا۔( سنن دارمی، المقدمۃ، باب فی الذی یفتی الناس فی کلّ ما یستفتی، ۱ / ۷۴، الحدیث: ۱۷۴)
اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{وَ لَتَعْلَمُنَّ نَبَاَهٗ: اور ضرور تم اس کی خبر جان لو گے۔} یعنی اے کفار مکہ! ضرور تم ایک وقت کے بعد قرآن کی خبروں کے حق اور سچا ہونے کو جان جاؤ گے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ ا س وقت سے مراد موت کے بعد کا وقت ہے اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے قیامت کا دن آ جانے کے بعد کا وقت مراد ہے۔( خازن، ص، تحت الآیۃ: ۸۸، ۴ / ۴۸)