سُوْرَۃُ السَّجْدَة

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

ترجمہ: کنزالعرفان

اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ، رحمت والاہے ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ بِسْمِ اللّٰهِ: اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔(کنز العمال، کتاب الاذکار،   الباب السابع  فی تلاوۃ  القراٰن  وفضائلہ،  الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷،  الجزءالاول، الحدیث:۲۴۸۸)

 لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔

{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے  ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)

 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:

       علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

 (1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔

(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام جو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔

(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔

(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔

(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔

(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔

الٓمّٓ(1)تَنْزِیْلُ الْكِتٰبِ لَا رَیْبَ فِیْهِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَﭤ(2)

ترجمہ: کنزالعرفان

الم۔ کتاب کا اتارنا بیشک پروردگار ِعالم کی طرف سے ہے

تفسیر: ‎صراط الجنان

{الٓمّٓ} یہ حروفِ مُقَطَّعات میں  سے ایک حرف ہے،اس کی مراد اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔

{تَنْزِیْلُ الْكِتٰبِ: کتاب کا نازل کرنا۔} اس آیت میں  بتایا جا رہا ہے کہ قرآنِ کریم کو معجزہ بناکرنازل کرنا رَبُّ الْعالَمین عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ہے اور اسی وجہ سے اس کے مثل ایک سورت یا چھوٹی سی عبارت بنانے سے عرب کے تمام فصیح و بلیغ لوگ عاجزرہ گئے۔

اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُۚ-بَلْ هُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّاۤ اَتٰىهُمْ مِّنْ نَّذِیْرٍ مِّنْ قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ یَهْتَدُوْنَ(3)

ترجمہ: کنزالعرفان

کیا وہ یہ کہتے ہیں کہ اِس نبی نے یہ قرآن خود بنالیا ہے؟ بلکہ یہی تمہارے رب کی طرف سے حق ہے تاکہ تم ان لوگوں کو ڈرسناؤ جن کے پاس تم سے پہلے کوئی ڈر سنانے والا نہیں آیا اس امید پر (ڈراؤ) کہ وہ ہدایت پائیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ:  کیا وہ یہ کہتے ہیں  کہ اس نبی نے یہ قرآن خود بنالیا ہے؟} جب حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام قرآنِ پاک کو لے کر نازل ہوئے تو کفارِ قریش نے ا س کا انکار کر دیا اور کہنے لگے کہ یہ مُقَدَّس کتاب رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے پاس سے بنا لی ہے ،اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایاکہ کیا مشرکین یہ کہتے ہیں  کہ رسولِ اکرم صَلَّی اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ قرآن خود بنالیا ہے؟ایسا ہرگز نہیں ،بلکہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہی قرآن تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے حق ہے اور یہ ا س لئے نازل ہو ا تاکہ آپ ان لوگوں  کو، جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈر سنانے والا نہیں  آیااس امید پر ( اللہ تعالیٰ کے عذاب سے) ڈرائیں کہ وہ گمراہی سے ہدایت پاجائیں ۔( تفسیر سمرقندی، السجدۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۲۷، ملخصاً)

            اس آیت میں  جو بیان ہوا کہ ’’جن کے پاس تم سے پہلے کوئی ڈر سنانے والا نہیں  آیا‘‘ان لوگوں  سے مراد زمانۂ فِتْرَت کے لوگ ہیں ۔اہل ِعرب کے لئے اس زمانے کی مدت حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے لے کر رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تک تھی اور ان کے علاوہ دیگر لوگوں  کے لئے وہ زمانہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد سے حضورسیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بِعثَت تک تھا کہ اس زمانہ میں  اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی رسول نہیں  آیا۔

حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد دنیا میں  نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے علاوہ کسی نبی کے تشریف نہ لانے کی صراحت اس حدیث پاک میں  بھی موجود ہے،چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’میں دنیا اور آخرت میں  حضرت عیسیٰ بن مریم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سب سے زیادہ نزدیک ہوں ۔صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کس طرح؟ارشاد فرمایا :سارے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام عَلّاتی بھائی ہیں جن کی مائیں  (یعنی فروعی احکام) الگ الگ ہیں  اور ان کا دین (یعنی اصولی عقائد ) ایک ہے اور میرے اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے درمیان کوئی نبی نہیں۔( مسلم، کتاب الفضائل، باب فضائل عیسی علیہ السلام، ص۱۲۸۷، الحدیث: ۱۴۵(۲۳۶۵))

اَللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَا فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِؕ-مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا شَفِیْعٍؕ-اَفَلَا تَتَذَكَّرُوْنَ(4)

ترجمہ: کنزالعرفان

الله ہی ہے جس نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے بیچ میں ہے سب کچھ چھ دن میں بنایاپھر عرش پر استواء فرمایا (جیسا اس کی شان کے لائق ہے) اس کے علاوہ تمہارا کوئی مددگار نہیں اور نہ کوئی سفارش کرنے والا ہے تو کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ: اللہ ہی ہے جس نے آسمان اور زمین کو بنایا۔} یہاں  سے اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیّت اور قدرت کے دلائل بیان فرمائے ہیں  ۔یاد رہے کہ آسمان و زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اسے چھ دن میں  بنانے اور اپنی شان کے لائق عرش پر اِستواء فرمانے کی تفصیل سورہ ٔاَعراف ،آیت نمبر54 کے تحت تفسیر میں  گزر چکی ہے اور جن 6دنوں  میں  دنیا بنا ئی ان کی تفصیل سے متعلق یہاں  ایک حدیثِ پاک ملاحظہ ہو،چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  ،حضور ِاقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے میرا ہاتھ پکڑ کر ارشاد فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ نے زمین کو ہفتہ کے دن پیدا فرمایا اور اتوار کے دن زمین میں  پہاڑوں  کو پیدا کیااور پیر کے دن درختوں  کو پیدا کیا اور منگل کے دن ناپسندیدہ چیزوں  کو پیدا کیا اور بدھ کے دن نور کو پیدا کیا اور جمعرات کے دن زمین پر چلنے والے جانداروں  کو پیدا کیا اور تمام مخلوق کے آخر میں  حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جمعہ کے دن، اس کی ساعات میں  سے آخری ساعت میں ، عصر کے بعد سے رات کے وقت کے درمیان پیدا کیا۔(مسلم،کتاب صفۃ القیامۃ والجنّۃ والنار،باب ابتداء الخلق وخلق آدم علیہ السلام، ص۱۵۰۰، الحدیث: ۲۷(۲۷۸۹))

{مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا شَفِیْعٍ:  اس کے علاوہ تمہارا کوئی مددگار نہیں  اور نہ کوئی سفارش کرنے والا ہے۔} یعنی اے گروہ کفار! اگرتم اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی راہ یعنی اسلام اختیار نہ کرو گے اور ایمان نہ لاؤ گے تو نہ تمہیں  کوئی مدد گار ملے گا جو تمہاری مدد کرسکے ،نہ کوئی شفیع جو تمہاری شفاعت کرے تو کیا تم اللہ تعالیٰ کی طرف سے کی گئی نصیحتوں  سے نصیحت حاصل نہیں  کرتے؟(جلالین، السجدۃ، تحت الآیۃ: ۴، ص۳۴۹، مدارک، السجدۃ، تحت الآیۃ: ۴، ص۹۲۴، ملتقطاً)

یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَى الْاَرْضِ ثُمَّ یَعْرُجُ اِلَیْهِ فِیْ یَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهٗۤ اَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ(5)

ترجمہ: کنزالعرفان

وہ آسمان سے زمین تک (ہر) کام کی تدبیر فرماتا ہے پھر (ہر کام) اُس دن میں اسی کی طرف رجوع کرے گا جس کی مقدارتمہاری گنتی سے ہزارسال ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَى الْاَرْضِ: وہ آسمان سے زمین تک (ہر) کام کی تدبیر فرماتا ہے۔} یعنی اللہ تعالیٰ قیامت تک ہونے والے دنیا کے تمام کاموں  کی اپنے حکم ، اَمر اور اپنے قضا و قدر سے تدبیر فرماتا ہے ۔ پھر دنیا کے فنا ہو جانے کے بعد اس دن اَمر و تدبیر یعنی بندوں  کو حاصل ظاہری تَصَرُّف بھی اللہ تعالیٰ کے پاس منتقل ہو جائے گا جس کی مقدار دنیا کے اَیّام کے حساب سے ہزارسال ہے اور وہ دن روز ِقیامت ہے۔(خازن، السجدۃ، تحت الآیۃ: ۵، ۳ / ۴۷۵، صاوی، السجدۃ، تحت الآیۃ: ۵، ۵ / ۱۶۱۲، ملتقطاً)

 قیامت کے دن کی درازی:

         یاد رہے کہ قیامت کے دن کی درازی بعض کافروں  کے لئے ہزار برس کے برابر ہوگی اور بعض کے لئے پچاس ہزار برس کے برابر، جیسا کہ سورۂ معارج میں  ہے:

’’تَعْرُجُ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ الرُّوْحُ اِلَیْهِ فِیْ یَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهٗ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَةٍ‘‘(معارج:۴)

ترجمہ ٔکنزُالعِرفان: فرشتے اور جبرائیل اس کی بارگاہ کی طرف چڑھتے ہیں ،وہ عذاب اس دن ہوگا جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے۔

         اور مومن پر یہ دن ایک فرض نماز کے وقت سے بھی ہلکا ہوگا جو دنیا میں  پڑھتا تھا، جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضہ ٔقدرت میں  میری جان ہے!قیامت کا دن مومن پر ہلکا ہو گا حتّٰی کہ ا س فرض نماز سے بھی زیادہ ہلکا ہو گا جو مومن دنیا میں  پڑھا کرتا تھا۔(مسند امام احمد، مسند ابی سعید الخدری رضی اللّٰہ عنہ، ۴ / ۱۵۱، الحدیث: ۱۱۷۱۷)ذٰلِكَ عٰلِمُ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ(6)

ترجمہ: کنزالعرفان

یہ ہے (الله) ہر پوشیدہ اور کھلی ہوئی بات کو جاننے والا، عزت والا، رحمت والا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ذٰلِكَ عٰلِمُ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ: یہ ہے ( اللہ) ہر پوشیدہ اور کھلی ہوئی بات کو جاننے والا۔} اس سے پہلی آیت میں  اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ وہ آسمان سے زمین تک (ہر) کام کی تدبیر فرماتا ہے اور اس آیت میں  بیان فرمایا کہ اے لوگو! اللہ تعالیٰ ان تمام چیزوں  کو جاننے والا ہے جو تمہاری نظروں  سے پوشیدہ ہیں  اور ان چیزوں  کو بھی جاننے والا ہے جن کا تم مشاہدہ کر سکتے ہو اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرے اور اس کے غیر کو اس کا شریک ٹھہرائے اور ا س کے رسولوں  کو جھٹلائے تو اللہ تعالیٰ اسے سزا دینے پر قدرت رکھتا ہے اور جو اپنی گمراہی سے توبہ کر لے ، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں  پر ایمان لے آئے اور نیک اعمال بجا لائے تو اللہ تعالیٰ ا س کی توبہ قبول فرما کر رحمت فرمانے والا ہے۔( تفسیر طبری، السجدۃ، تحت الآیۃ: ۶، ۱۰ / ۲۳۲۲۳۳، ملخصاً)

الَّذِیْۤ اَحْسَنَ كُلَّ شَیْءٍ خَلَقَهٗ وَ بَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِیْنٍ(7)ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهٗ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ مَّآءٍ مَّهِیْنٍ(8)ثُمَّ سَوّٰىهُ وَ نَفَخَ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِهٖ وَ جَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ الْاَفْـٕدَةَؕ-قَلِیْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ(9)

ترجمہ: کنزالعرفان

وہ جس نے جو چیز بنائی خوب بنائی اور انسان کی پیدائش کی ابتداء مٹی سے فرمائی۔ پھر اس کی نسل ایک بے قدر پانی کے خلاصے سے بنائی۔پھر اسے ٹھیک بنایااور اس میں اپنی طرف کی روح پھونکی اور تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے۔ تم بہت تھوڑاشکر ادا کرتے ہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَّذِیْۤ اَحْسَنَ كُلَّ شَیْءٍ خَلَقَهٗ: وہ جس نے جو چیز بنائی خوب بنائی۔}اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات میں  اللہ تعالیٰ نے اپنی مزید صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ا س نے جو چیز بھی بنائی وہ حکمت کے تقاضے کے عین مطابق بنائی ہے، ہرجاندار کو وہ صورت دی جو اُس کے معاش کے لئے بہتر ہے اور اس کو ایسے اعضاء عطا فرمائے جو اس کے معاش کے لئے مناسب ہیں  اور اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مٹی سے بنا کر انسان کی پیدائش کی ابتداء مٹی سے فرمائی ،پھر ان کی نسل ایک بے قدر پانی کے خلاصے یعنی نطفے سے بنائی ،پھر اسے مکمل درست بنایااور اس میں  اپنی طرف کی روح پھونکی اور اس کو بے حس ،بے جان ہونے کے بعد حَسّاس اور جاندار کیا اور تمہارے کان، آنکھیں  اور دل بنائے تاکہ تم سنو ،دیکھو اور سمجھو اور تمہارا حال یہ ہے کہ ان عظیم نعمتوں  کے مقابلے میں تم رب تعالیٰ کا بہت تھوڑاشکر ادا کرتے ہو۔(خازن، السجدۃ، تحت الآیۃ: ۷۹، ۳ / ۴۷۶، مدارک، السجدۃ، تحت الآیۃ: ۷۹، ص۹۲۵، روح البیان، السجدۃ، تحت الآیۃ: ۷۹، ۷ / ۱۱۱۱۱۲، ملتقطاً)

وَ قَالُوْۤا ءَاِذَا ضَلَلْنَا فِی الْاَرْضِ ءَاِنَّا لَفِیْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ۬ؕ-بَلْ هُمْ بِلِقَآئِ رَبِّهِمْ كٰفِرُوْنَ(10)

ترجمہ: کنزالعرفان

اورانہوں نے کہا: کیا جب ہم مٹی میں گم ہوجائیں گے توکیا پھرنئے سرے سے پیدا کئے جائیں گے؟ بلکہ وہ اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ قَالُوْا: اورانہوں  نے کہا۔} قیامت کے بارے میں  کفار جس شبہ میں  مبتلا تھے یہاں  اس کا ذکر کیا جا رہا ہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ مرنے کے بعد اٹھنے کا انکار کرنے والے کہتے ہیں  کہ کیا جب ہم مٹی میں  مل کرخاک ہوجائیں  گے اور  ہمارے اَجزاء مٹی سے ممتاز نہ رہیں  گے تو ہم پھرنئے سرے سے پیدا کئے جائیں  گے؟ ان کا رد کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ یہ کفار صرف اللہ تعالیٰ کی قدرت کے ہی منکر نہیں  بلکہ وہ موت کے بعد اُٹھنے اور زندہ کئے جانے کا انکار کرکے اس انتہا تک پہنچ گئے ہیں  کہ عاقبت کے تمام اُمور کے منکر ہیں  حتّٰی کہ رب عَزَّوَجَلَّ کے حضور حاضر ہونے کا بھی انکار کرتے ہیں ۔( خازن، السجدۃ، تحت الآیۃ: ۱۰، ۳ / ۴۷۶، مدارک، السجدۃ، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۹۲۵، تفسیر طبری، السجدۃ، تحت الآیۃ: ۱۰، ۱۰ / ۲۳۶، ملتقطاً)

قُلْ یَتَوَفّٰىكُمْ مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِیْ وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ تُرْجَعُوْنَ(11)

ترجمہ: کنزالعرفان

تم فرماؤ: تمہیں موت کا فرشتہ وفات دیتا ہے جو تم پر مقرر ہے پھر تم اپنے رب کی طرف واپس کئے جاؤ گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قُلْ یَتَوَفّٰىكُمْ مَّلَكُ الْمَوْتِ: تم فرماؤ: تمہیں  موت کا فرشتہ وفات دیتا ہے۔} اس فرشتہ کا نام حضرت عزرائیل عَلَیْہِ السَّلَام ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے روحیں  قبض کرنے پر مقرر ہیں ۔ اپنے کام میں  کچھ غفلت نہیں  کرتے اور جس کی موت کا وقت آجاتا ہے ، بلاتاخیر اس کی روح قبض کرلیتے ہیں  ۔مروی ہے کہ ملک الموت عَلَیْہِ السَّلَام کے لئے دنیا ہاتھ کی ہتھیلی کی طرح کردی گئی ہے تو وہ مَشارق و مَغارب کی مخلوق کی روحیں  کسی مشقت کے بغیر اُٹھالیتے ہیں  اور رحمت و عذاب کے بہت سے فرشتے اُن کے ماتحت ہیں۔( خازن، السجدۃ، تحت الآیۃ: ۱۱، ۳ / ۴۷۶)

کافر اور مومن کی روح قبض کرتے وقت حضرت عزرائیل عَلَیْہِ السَّلَام کی شکل:

         حضرت عزرائیل عَلَیْہِ السَّلَام مومن اور کافر ہر انسان کی روح قبض فرماتے ہیں  لیکن جب کافر کی روح قبض فرماتے ہیں  تو اس وقت انتہائی ڈراؤنی شکل میں  ا س کے پاس آتے ہیں  اور جب مومن کی روح قبض فرماتے ہیں  تو انتہائی خوبصورت شکل میں  اس کے پاس تشریف لاتے اور اس کے ساتھ نرمی و شفقت بھرا سلوک فرماتے ہیں ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپناخلیل بنا لیا تو حضرت عزرائیل عَلَیْہِ السَّلَام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  اس بات کی اجازت طلب کی کہ وہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ا س کی خوشخبری دیں ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عزرائیل عَلَیْہِ السَّلَام کو اجازت دے دی۔ جب حضرت عزرائیل عَلَیْہِ السَّلَام حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس حاضر ہوئے تو انہوں  نے فرمایا: ’’اے ملک الموت! عَلَیْہِ السَّلَام، مجھے دکھاؤ کہ تم کافروں  کی روحیں  کس طرح قبض کرتے ہو؟حضرت عزرائیل عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کی: اے ابراہیم! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، آپ ا س (وقت کی میری حالت ) کو دیکھ نہیں  سکیں  گے ۔حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’میں  دیکھ سکنے کی طاقت رکھتا ہوں ۔ حضرت عزرائیل عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کی:آپ اپنا رخ پھیر لیجئے۔ جب (کچھ دیر بعد) حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے پلٹ کر ملک الموت عَلَیْہِ السَّلَام کی طرف دیکھا تو وہ سیاہ رنگ کے آدمی کی شکل میں  تھے، ان کا سر آسمان تک پہنچ رہا تھا،ان کے منہ سے آگ کے شعلے نکل رہے تھے اوران کے جسم کا ہر بال ایک ایسے انسان کی صورت میں  تھا جس کے منہ اور کانوں  سے آگ کے شعلے نکل رہے تھے۔ (حضرت عزارئیل عَلَیْہِ السَّلَام کی یہ حالت دیکھ کر) حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر غشی طاری ہو گئی ۔کچھ دیر بعد افاقہ ہوا اور اس عرصے میں  ملک الموت عَلَیْہِ السَّلَام اپنی پہلی صورت میں  آ چکے تھے ۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’اے ملک الموت! عَلَیْہِ السَّلَام، اگر کافر کو (موت کے وقت) آپ کی یہ صورت دیکھنے کے علاوہ کوئی اور غم یا آزمائش نہ بھی پہنچے تو یہی ا س کے لئے کافی ہے۔ اب مجھے دکھاؤ کہ تم مومن کی روح کس طرح قبض کرتے ہو؟حضرت عزرائیل عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کی:اپنا رخ پھیر لیجئے۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنا رخ پھیر لیا اور (کچھ دیر بعد) جب ملک الموت عَلَیْہِ السَّلَام کی طرف دیکھا تو وہ سفید کپڑوں  میں  ملبوس ایک انتہائی خوبصورت چہرے والے نوجوان کی شکل میں  موجود تھے ۔حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا’’اگر مومن اپنی موت کے وقت آپ کی اس صورت کے علاوہ کوئی اور آنکھوں  کی ٹھنڈک یا کرامت نہ بھی دیکھ سکے تو یہی اس کے لئے کافی ہے۔( در منثور، السجدۃ، تحت الآیۃ: ۱۱، ۶ / ۵۴۱)

         حضرت خزرج رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک انصاری صحابی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس حضرت عزرائیل عَلَیْہِ السَّلَام کو کھڑے ہوئے دیکھا تو فرمایا: ’’اے ملک الموت! عَلَیْہِ السَّلَام، میرے صحابی کے ساتھ نرمی اور شفقت سے پیش آنا کیونکہ وہ مومن ہے۔ حضرت عزرائیل عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کی: ’’ یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ خوش رہیں  اور آپ کی آنکھیں  ٹھنڈی ہوں ،میں  آپ پر ایمان لانے والے ہر شخص کے ساتھ انتہائی نرمی اور شفقت سے پیش آتا ہوں ۔( معجم ا لکبیر، خزرج الانصاری، ۴ / ۲۲۰، الحدیث: ۴۱۸۸)

{ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ تُرْجَعُوْنَ: پھر تم اپنے رب کی طرف واپس کئے جاؤ گے۔} یعنی موت کے بعد تم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف واپس کئے جاؤ گے او رحساب و جزا کے لئے زندہ کرکے اٹھائے جاؤ گے ۔( مدارک، السجدۃ، تحت الآیۃ: ۱۱، ص۹۲۵)

وَ لَوْ تَرٰۤى اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْؕ-رَبَّنَاۤ اَبْصَرْنَا وَ سَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ(12)

ترجمہ: کنزالعرفان

اورکسی طرح تم دیکھتے جب مجرم اپنے رب کے پاس اپنے سروں کو نیچے جھکائے ہوں گے (اور کہتے ہوں گے:) اے ہمارے رب! ہم نے دیکھا اور سنا تو ہمیں واپس بھیج دے تاکہ نیک کام کریں ، بیشک ہم یقین کرنے والے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَوْ تَرٰى: اور اگرتم دیکھتے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر آپ (قیامت کے دن کفار کی حالت) دیکھ لیں  توبہت خوفناک منظر دیکھیں  گے کہ جب کفار و مشرکین اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے پاس اپنے افعال و کردار سے شرمندہ و نادم ہو کر، اپنے سروں  کو نیچے جھکائے ہوئے ہوں  گے اور عرض کرتے ہوں  گے: اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ، اب ہم نے مرنے کے بعد اٹھنے کو اور تیرے وعدہ اوروعید کی سچائی کودیکھ لیا جن کے ہم دنیا میں  منکر تھے اورتجھ سے تیرے رسولوں  کی سچائی کو سن لیا تو اب ہمیں  دنیا میں  واپس بھیج دے تاکہ ہم نیک کام کریں ۔ بیشک اب ہم یقین کرنے والے ہیں  اور اب ہم ایمان لے آئے ہیں  ۔لیکن اس وقت کا ایمان لانا انہیں  کچھ کام نہ دے گا۔( مدارک، السجدۃ، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۹۲۶، خازن، السجدۃ، تحت الآیۃ: ۱۲، ۳ / ۴۷۷، جلالین، السجدۃ، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۳۴۹، ملتقطاً)

             اورکفار کا یہ کہنا بھی جھوٹ ہے کہ اگر انہیں  دنیا میں  لوٹادیاجائے تو وہ نیک بن جائیں  گے کیونکہ ان کا حال یہ ہے کہ اگر انہیں  دنیا میں  واپس بھیج بھی دیا جائے تو یہ پھر پہلے کی طرح ہی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کریں  گے، جیساکہ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’وَ لَوْ تَرٰۤى اِذْ وُقِفُوْا عَلَى النَّارِ فَقَالُوْا یٰلَیْتَنَا نُرَدُّ وَ لَا نُكَذِّبَ بِاٰیٰتِ رَبِّنَا وَ نَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ(۲۷)بَلْ بَدَا لَهُمْ مَّا كَانُوْا یُخْفُوْنَ مِنْ قَبْلُؕ-وَ لَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُهُوْا عَنْهُ وَ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ‘‘(انعام:۲۷، ۲۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اگر آپ دیکھیں  جب انہیں  آگ پر کھڑا کیا جائے گا پھر یہ کہیں  گے اے کاش کہ ہمیں  واپس بھیج  دیا جائے اور ہم اپنے رب کی آیتیں  نہ جھٹلائیں  اور مسلمان  ہوجائیں ۔ بلکہ پہلے جو یہ چھپا رہے تھے وہ ان پر کھل گیا ہے  اور اگر انہیں  لوٹا دیا جائے تو پھر وہی کریں  گے جس سے انہیں  منع کیا گیا تھا اور بیشک یہ ضرور جھوٹے ہیں ۔

وَ لَوْ شِئْنَا لَاٰتَیْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدٰىهَا وَ لٰـكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّیْ لَاَمْلَــٴَـنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَ(13)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اگر ہم چاہتے توہر جان کو اس کی ہدایت دیدیتے مگر میری یہ بات طے ہوچکی ہے کہ میں ضرور جہنم کو جنوں اور انسانوں سب سے بھرد وں گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَوْ شِئْنَا: اور اگر ہم چاہتے۔} اس آیت میں  اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اگر ہم چاہتے توہر جان کو ایمان کی ہدایت اور توفیق دیدیتے اور اس پر ایسا لطف و کرم کرتے کہ اگر وہ اس کو اختیارکرتا تو راہ یاب ہوتا ،لیکن ہم نے ایسا نہ کیا، کیونکہ ہم کافروں  کوجانتے تھے کہ وہ کفر ہی اختیار کریں  گے،اور میری یہ بات طے ہوچکی ہے کہ میں  ضرور جہنم کو ان جنوں  اور انسانوں  سے بھردوں  گا جنہوں  نے کفر اختیار کیا ۔( مدارک، السجدۃ، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۹۲۶، خازن، السجدۃ، تحت الآیۃ: ۱۳، ۳ / ۴۷۷، ملتقطاً)

 جنوں  اور انسانوں  سے جہنم کو بھردیا جائے گا:

            معلوم ہو ا کہ جہنم کو کافر جنوں  اور انسانوں  سے بھر دیاجائے گا۔ ایک اور مقام پر ابلیس کو مُخاطَب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’ لَاَمْلَــٴَـنَّ جَهَنَّمَ مِنْكَ وَ مِمَّنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ اَجْمَعِیْنَ‘‘ (ص:۸۵)

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک میں  ضرور تجھ سے اور تیری پیروی کرنے والوں  سے سب سے جہنم بھردوں  گا۔

فَذُوْقُوْا بِمَا نَسِیْتُمْ لِقَآءَ یَوْمِكُمْ هٰذَاۚ-اِنَّا نَسِیْنٰكُمْ وَ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْخُلْدِ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(14)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو اب چکھو اِس بات کا بدلہ کہ تم نے اپنے اس دن کی حاضری کو بھلادیا تھا،بیشک ہم نے تمہیں چھوڑ دیا اور اپنے اعمال کے بدلے میں ہمیشہ کے عذاب کا مزہ چکھو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَذُوْقُوْا: تو چکھو۔} جب کافر جنّات اور انسان جہنم میں  داخل ہوں  گے تو جہنم کے خازن اُن سے کہیں  گے’’تو اب عذاب کا مزہ چکھو کیونکہ تم نے اپنے اس دن کی حاضری کو بھلادیا تھا اور دنیا میں  ایمان نہ لائے تھے ،بیشک ہم نے تمہیں  عذاب میں  چھوڑ دیا، اب تمہاری طرف کوئی توجہ نہ ہوگی اور تم اپنے کفر و تکذیب کے بدلے میں  ہمیشہ کے عذاب کا مزہ چکھو ۔( خازن، السجدۃ، تحت الآیۃ: ۱۴، ۳ / ۴۷۷، ملخصاً)

اِنَّمَا یُؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِهَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ سَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَ هُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ(15)

ترجمہ: کنزالعرفان

ہماری آیتوں پر وہی لوگ ایمان لاتے ہیں کہ جب ان آیتوں کے ذریعے انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سجدہ میں گر جاتے ہیں اور اپنے رب کی تعریف کرتے ہوئے اس کی پاکی بیان کرتے ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّمَا یُؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا: ہماری آیتوں پر وہی لوگ ایمان لاتے ہیں ۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کفار کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے آپ غمزدہ نہ ہوں ،آپ پر اور قرآن کی آیتوں پر وہی لوگ ایمان لاتے ہیں جو قرآن میں غورو فکر کرتے اور اس سے نصیحت حاصل کرتے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں کہ جب قرآن کی آیتوں کے ذریعے انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو وہ خشوع و خضوع سے اور اسلام کی نعمت نصیب ہونے پر شکر گزاری کے لئے سجدہ میں گر جاتے ہیں اور اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی تعریف کرتے ہوئے اس کی پاکی بیان کرتے ہیں اور وہ اس کی عبادت کرنے سے تکبر نہیں کرتے۔( قرطبی، السجدۃ، تحت الآیۃ: ۱۵،۷ / ۷۴، الجزء الرابع عشر، مدارک، السجدۃ، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۹۲۶، ملتقطاً)

تَتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِـعِ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا٘-وَّ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ(16)

ترجمہ: کنزالعرفان

ان کی کروٹیں ان کی خوابگاہوں سے جدا رہتی ہیں اور وہ ڈرتے اور امید کرتے اپنے رب کو پکارتے ہیں اور ہمارے دئیے ہوئے میں سے خیرات کرتے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{تَتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِـعِ: ان کی کروٹیں  ان کی خوابگاہوں  سے جدا رہتی ہیں ۔} اس آیت میں  ایمان والوں  کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ وہ رات کے وقت نوافل پڑھنے کے لئے نرم و گُداز بستروں  کی راحت کو چھوڑ کر اُٹھتے ہیں  اور ذکرو عبادتِ الٰہی میں  مشغول ہوجاتے ہیں نیز اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتے اور اس کی رحمت کی امید کرتے ہوئے اسے پکارتے ہیں ۔

 نمازِ تہجد کے دو فضائل:

            اس آیت کے مفہوم میں  رات میں  عبادت کرنا اور تہجد پڑھنا سب داخل ہیں ،اس مناسبت سے یہاں  تہجد کی نماز ادا کرنے کے دو فضائل ملاحظہ ہوں ۔

(1)… حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے۔نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جنت میں  بالا خانے ہیں  جن کے بیرونی حصے اندر سے اور اندر کے حصے باہر سے نظر آتے ہوں  گے۔ ایک اَعرابی نے کھڑے ہو کر عرض کی : یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ کس کے لئے ہوں  گے ؟حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جو اچھی گفتگو کرے،کھانا کھلائے، ہمیشہ روزہ رکھے اور رات میں  نمازا دا کرے جبکہ لوگ سوئے ہوئے ہوں ۔ (ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی قول المعروف، ۳ / ۳۹۶، الحدیث: ۱۹۹۱)

(2)… حضرت اسماء بنت ِیزید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’لوگ قیامت کے دن ایک میدان میں جمع کیے جائیں  گے تو ایک پکارنے والا پکارے گا’’ وہ لوگ کہاں  ہیں  جن کے پہلو اپنی خواب گاہوں  سے الگ رہتے تھے ؟چنانچہ وہ لوگ کھڑے ہوجائیں  گے اور وہ تھوڑے ہوں  گے اور وہ جنت میں  بغیر حساب داخل ہوں  گے ،پھر باقی تمام لوگوں کو حساب کی (جگہ کی) طرف جانے کا حکم دیا جائے گا۔( شعب الایمان، باب الحادی والعشرون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، تحسین الصلاۃ والاکثار منہا۔۔۔ الخ، ۳ / ۱۶۹، الحدیث: ۳۲۴۴)

{وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ: اور ہمارے دئیے ہوئے میں سے خرچ کرتے ہیں ۔} یعنی ایمان والوں  کاایک وصف یہ ہے کہ ہم نے انہیں  جو مال عطا کیا ہے اس میں  سے وہ نیکی اور بھلائی کے کاموں  میں  خرچ کرتے ہیں۔( روح البیان، السجدۃ، تحت الآیۃ: ۱۶، ۷ / ۱۲۱)

زائد مال راہ ِخدا میں  خرچ کرنے کی فضیلت:

            حضرت ابو عبیدہ بن جراح رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، میں  نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے اپنا زائد مال راہِ خدا میں  خرچ کیا تو اس کے لئے سات سو گُنا اجر ہے،اور جس نے اپنی جان اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کیا، یا کسی مریض کی عیادت کی ،یا اَذِیّت دینے والی چیز کو ہٹایا تو اس کے لئے دس گنا اجر ہے۔(مسند امام احمد،حدیث ابی عبیدۃ بن الجراح واسمہ عامر بن عبد اللّٰہ رضی اللّٰہ تعالی عنہ،۱ / ۴۱۴، الحدیث: ۱۶۹۰)

فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّاۤ اُخْفِیَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْیُنٍۚ-جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(17)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو کسی جان کو معلوم نہیں وہ آنکھوں کی ٹھنڈک جو ان کے لیے ان کے اعمال کے بدلے میں چھپا رکھی ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ: تو کسی جان کو نہیں  معلوم۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جنت کی نعمتیں  آدمی کے تصور سے بڑھ کر ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں  کے لئے نیک اعمال کے بدلے میں  کیسی کیسی آنکھوں  کی ٹھنڈک چھپا رکھی ہے کسی جان کو اس چیز کا تفصیلی علم نہیں  ۔

جنّتی نعمتوں  سے متعلق دو اَحادیث:            

            آیت کی مناسبت سے یہاں  جنتی نعمتوں  سے متعلق دو اَحادیث ملاحظہ ہوں :

(1)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں  نے اپنے نیک بندوں  کے لئے ایسی نعمتیں  تیار کر رکھی ہیں  جنہیں  نہ کسی آنکھ نے دیکھا،نہ کسی کان نے سنا اور نہ ہی کسی انسان کے دل پر اس کا خطرہ گزرا۔‘‘اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو: ’’ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّاۤ اُخْفِیَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْیُنٍ‘‘۔(بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ما جاء فی صفۃ الجنّۃ وانّہا مخلوقۃ، ۲ / ۳۹۱، الحدیث: ۳۲۴۴)

(2)… حضرت مغیرہ بن شعبہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے دریافت کیا:اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، سب سے کم درجے کا جنتی کون ہو گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’ایک آدمی ہو گا جو تمام اہل ِجنت کے جنت میں  داخل ہونے کے بعد آئے گا۔ اس سے کہا جائے گا:داخل ہو جا۔وہ کہے گا:میں  کیسے داخل ہوں  حالانکہ تمام لوگ اپنی اپنی جگہوں  پر پہنچ چکے اور انہوں  نے جو کچھ لینا تھا وہ لے لیا۔ اس سے کہا جائے گا’’کیا تجھے یہ بات پسند ہے کہ تجھے اتنا دیا جائے جتنا دنیا میں  کسی بادشاہ کے پاس تھا ؟وہ عرض کرے گا:اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، ہاں  ،مجھے یہ پسند ہے۔اس سے کہا جائے گا: تجھے اُتنا دیا گیا اور اس سے تین گُنا زائد بھی ملے گا ۔وہ عرض کرے گا:اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، میں  راضی ہوں ۔ اس سے کہا جائے گا’’تجھے یہ سب کچھ اور ا س سے دس گنا مزید دیا جائے گا۔وہ عرض کرے گا:اے میرے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، میں  راضی ہوں ۔اس سے پھر کہا جائے گا کہ ’’اس کے علاوہ تجھے وہ کچھ بھی ملے گا جس کا تمہارا جی چاہے اور جس سے تمہاری آنکھیں  ٹھنڈی ہوں۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ السجدۃ، ۵ / ۱۳۷، الحدیث: ۳۲۰۹)

اَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا ﳳ-لَا یَسْتَوٗنَ(18)اَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَهُمْ جَنّٰتُ الْمَاْوٰى٘-نُزُلًۢا بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(19)وَ اَمَّا الَّذِیْنَ فَسَقُوْا فَمَاْوٰىهُمُ النَّارُؕ-كُلَّمَاۤ اَرَادُوْۤا اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنْهَاۤ اُعِیْدُوْا فِیْهَا وَ قِیْلَ لَهُمْ ذُوْقُوْا عَذَابَ النَّارِ الَّذِیْ كُنْتُمْ بِهٖ تُكَذِّبُوْنَ(20)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو کیا جو ایمان والا ہے وہ اس جیسا ہوجائے گا جونافرمان ہے؟ یہ برابر نہیں ہیں ۔ بہرحال جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے توان کے لیے ان کے اعمال کے بدلے میں مہمانی کے طور پر رہنے کے باغات ہیں ۔ اور وہ جو نافرمان ہوئے توان کا ٹھکانہ آ گ ہے، جب کبھی اس میں سے نکلنا چاہیں گے تو پھر اسی میں پھیر دئیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا: اس آگ کا عذاب چکھو جسے تم جھٹلاتے تھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا: تو کیا جو ایمان والا ہے۔} یعنی دُنْیَوی مال و اَسباب اور تیزی طَرّاری، مال و دولت، قوت و طاقت جن پر لوگ ناز کرتے ہیں حقیقت میں  تعریف کے قابل نہیں ، انسان کا فضل و شرف ایمان اور تقویٰ میں  ہے، جسے یہ دولت نصیب نہیں  وہ انتہا درجے کاناکارہ ہے لہٰذا کافر ومومن آپس میں  برابر نہیں  ہوسکتے۔

{اَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: بہرحال جو ایمان لائے۔} کافر اورمومن کے دُنْیَوی اَحوال بیان کرنے کے بعداِس آیت سے ان دونوں  گروہوں کے اُخروی مَراتب بیان کئے جا رہے ہیں  ۔ چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا میں  ایمان لانے والوں  اور نیک اعمال کرنے والوں  کی جنت ِماویٰ میں  عزت و اِکرام کے ساتھ مہمان نوازی کی جائے گی جبکہ دنیا میں  کفر کرنے والوں  کا قیامت کے دن ٹھکانا آ گ ہے اور جہنم میں  ان کا حال یہ ہو گا کہ جب کبھی اس میں  سے نکلنا چاہیں  گے تو پھر اسی میں  پھیر دئیے جائیں  گے،یعنی وہ جہنم کے بھڑکتے ہوئے شعلوں  میں  اتنا اچھلیں  گے کہ دوزخ کے منہ پر آجائیں  گے ،قریب ہو گا کہ تڑپ کر باہر نکل پڑیں  کہ فرشتے ان کے جسموں  پر گُر ز مار کر پھر نیچے گرا دیں  گے، اور ان سے کہا جائے گا: اس آگ کا عذاب چکھو جسے تم دنیا میں  جھٹلاتے تھے کہ دوزخ کے عذاب نام کی کوئی چیز نہیں ۔(تفسیر ابو سعود،السجدۃ،تحت الآیۃ:۱۹۲۰،۴ / ۳۰۳، روح البیان،السجدۃ،تحت الآیۃ:۱۹۲۰، ۷ / ۱۲۳، ملتقطاً)

وَ لَنُذِیْقَنَّهُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰى دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ(21)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ضرور ہم انہیں بڑے عذاب سے پہلے قریب کا عذاب چکھائیں گے (جسے دیکھنے والا کہے) امید ہے کہ یہ لوگ باز آجائیں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَنُذِیْقَنَّهُمْ: اور ضرور ہم انہیں  چکھائیں  گے۔} اس سے پہلی آیت میں  کفار کو اُخروی عذاب کی وعید سنائی گئی اور یہاں  فرمایا جا رہا ہے کہ جس عذاب کی وعید سنائی وہ تو قیامت کے دن ہو گا لیکن اس سے پہلے ہم کافروں کو دنیا کا عذاب ضرور چکھائیں  گے جو آخرت کے مقابلے میں  قریب اوراُخروی عذاب سے کم ہے تاکہ اس عذاب کو دیکھ کر وہ اپنے کفر اور نافرمانی سے توبہ کریں  اور ایمان لے آئیں ۔(روح المعانی، السجدۃ، تحت الآیۃ: ۲۱، ۱۱ / ۱۸۱)

         ادنیٰ یعنی قریبی عذاب سے مراددنیاکے مَصائب،آفات اور بیماریاں  ہیں  جن میں  بندوں  کو اس لئے مبتلا کیا جاتا ہے تاکہ وہ توبہ کر لیں  ۔ کفارِ مکہ کے ساتھ بھی اسی طرح ہوا کہ وہ اَمراض ومَصائب میں  گرفتار ہوئے ، سات برس قحط کی ایسی سخت مصیبت میں  مبتلا رہے کہ ہڈیاں  ، مردار اور کتے تک کھا گئے اور غزوہِ بدر میں  قتل اور گرفتار بھی ہوئے ۔

وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّهٖ ثُمَّ اَعْرَضَ عَنْهَاؕ-اِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِیْنَ مُنْتَقِمُوْنَ(22)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جسے اس کے رب کی آیتوں کے ذریعے نصیحت کی جائے پھر (بھی) وہ ان سے منہ پھیر لے۔ بیشک ہم مجرموں سے انتقام لینے والے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مَنْ اَظْلَمُ: اور اس سے بڑھ کر ظالم کون۔} جھٹلانے والوں  کا تفصیلی حال بیان کرنے کے بعد یہاں  ان کا اِجمالی حال بیان کیا جارہا ہے کہ اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جسے اس کے رب عَزَّوَجَلَّ کی آیتوں  کے ذریعے نصیحت کی جائے پھر بھی وہ ان سے منہ پھیر لے اور آیات میں  غور و فکر نہ کرے اور اُن کی وضاحت و اِرشاد سے فائدہ نہ اُٹھائے اور ایمان قبول نہ کرے ، بیشک ہم مجرموں  سے انتقام لینے والے ہیں  تو اس شخص کا حال کیا ہو گا جو سب سے بڑھ کر ظالم اور سب سے بڑ امجرم ہے۔ (صاوی، السجدۃ، تحت الآیۃ: ۲۲، ۵ / ۱۶۱۶، مدارک، السجدۃ، تحت الآیۃ: ۲۲، ص۹۲۷۹۲۸)

مجرم کون؟

         حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جس نے یہ تین کام کئے وہ مجرم ہے ۔(1) جس نے ناحق جھنڈا باندھا۔ (یعنی ایسے شخص کے ساتھ لڑائی کرنے کے لئے جھنڈا باندھا جس کے ساتھ لڑنا اس کے لئے جائز نہ تھا)(2)جس نے والدین کی نافرمانی کی ۔(3)جو ظالم کے ساتھ ا س لئے چلاتاکہ اس کی مدد کرے تو وہ مجرم ہے اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’اِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِیْنَ مُنْتَقِمُوْنَ‘‘

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ہم مجرموں  سے انتقام لینے والے ہیں ۔( معجم الکبیر، معاذ بن جبل الانصاری عقبی بدری۔۔۔ الخ، جنادۃ بن ابی امیۃ عن معاذ، ۲۰ / ۶۱، الحدیث: ۱۱۲، کنز العمال ، کتاب المواعظ والرقائق ۔۔۔ الخ ،  قسم الاقوال ، الباب الثانی ، الفصل الثالث ، ۸ / ۱۲ ، الجزء السادس عشر، الحدیث:۴۳۷۷۴)

         لہٰذا جو شخص بھی ان تین جرموں  میں  سے کسی کا مُرتکِب ہے تو اسے چاہئے کہ اپنے جرم سے با زآ جائے ورنہ یاد رکھے کہ اللہ تعالیٰ مجرموں  سے اِنتقام لینے والا ہے

وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ فَلَا تَكُنْ فِیْ مِرْیَةٍ مِّنْ لِّقَآىٕهٖ وَ جَعَلْنٰهُ هُدًى لِّبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ(23)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی تو تم اس کے ملنے میں شک نہ کرو اور ہم نے اسے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنایا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ: اور بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی۔} ار شاد فرمایا کہ بے شک ہم نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کتاب تورات عطا فرمائی تو تم اس کے ملنے میں  شک نہ کرو۔ یا یہ معنی ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے آپ کی جو ملاقات ہوئی اس میں  شک نہ کرنا،چنانچہ شبِ معراج حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ کی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے ملاقات ہوئی جیسا کہ احادیث میں  وارد ہے۔( مدارک، السجدۃ، تحت الآیۃ: ۲۳، ص۹۲۸، خازن، السجدۃ، تحت الآیۃ: ۲۳، ۳ / ۴۷۹، ملتقطاً)

         اور ان میں  سے ایک حدیث یہ ہے،چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’معراج کی رات میں  نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دیکھا کہ وہ گندمی رنگ،دراز قد اور گھنگریالے بالوں  والے ہیں ، گویا کہ وہ قبیلہ شَنُوْ ءَ ہْ کے ایک فرد ہیں ۔( بخاری، کتاب بدء الخلق، باب اذا قال احدکم: آمین والملائکۃ فی السماء۔۔۔ الخ، ۲ / ۳۸۹، الحدیث: ۳۲۳۹)

{وَ جَعَلْنٰهُ هُدًى: اور ہم نے اسے ہدایت بنایا۔} اس کا ایک معنی یہ ہے کہ ہم نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنایا۔دوسرا معنی یہ ہے کہ ہم نے تورات کو بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنایا۔( جلالین، السجدۃ، تحت الآیۃ: ۲۳، ص۳۵۰، ملخصاً)

وَ جَعَلْنَا مِنْهُمْ اَىٕمَّةً یَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوْا۫ؕ-وَ كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یُوْقِنُوْنَ(24)اِنَّ رَبَّكَ هُوَ یَفْصِلُ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِیْمَا كَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ(25)

ترجمہ: کنزالعرفان

اورجب بنی اسرائیل نے صبر کیاتو ہم نے ان میں سے کچھ لوگوں کو امام بنادیا جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے اور وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے۔ بیشک تمہارا رب قیامت کے دن ان میں اس بات کا فیصلہ کردے گا جس میں وہ اختلاف کرتے تھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ جَعَلْنَا مِنْهُمْ اَىٕمَّةً: اور ہم نے ان میں  سے کچھ امام بنائے۔} یعنی جب بنی اسرائیل نے اپنے دین پر اور دشمنوں  کی طرف سے پہنچنے والی مصیبتوں  پر صبر کیا تو ہم نے ان میں  سے کچھ لوگوں  کو امام بنادیا جو ہمارے حکم سے لوگوں  کو خدا عَزَّوَجَلَّ کی طاعت ، اس کی فرمانبرداری ، اللہ تعالیٰ کے دین اور اس کی شریعت کی پیروی اورتورات کے اَحکام کی تعمیل کے بارے میں  بتاتے تھے اور وہ ہماری آیتوں  پر یقین رکھتے تھے۔یہ امام بنی اسرائیل کے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تھے یا انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیروی کرنے والے ۔(مدارک، السجدۃ، تحت الآیۃ: ۲۴، ص۹۲۸، خازن، السجدۃ، تحت الآیۃ: ۲۴، ۳ / ۴۷۹۴۸۰، ملتقطاً)

 صبر کا ثمرہ اور اس کی فضیلت:

       اس آیت سے معلوم ہوا کہ صبر کا ثمرہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ صبر کرنے والے کو امامت اور پیشوائی نصیب ہوجاتی ہے۔ صبر کے بارے میں  حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ بندے کو صبر سے زیادہ کوئی بھلائی عطا نہیں  کی گئی۔(مستدرک، کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ السجدۃ، ما رزق عبد خیراً لہ۔۔۔ الخ، ۳ / ۱۸۷، الحدیث: ۳۶۰۵)

         لہٰذا جس پر کوئی آفت یا مصیبت آئی ہو یا وہ کسی پریشانی کا شکار ہو تو اسے چاہئے کہ اس پر صبر کرے اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہے۔

{اِنَّ رَبَّكَ هُوَ یَفْصِلُ بَیْنَهُمْ: بیشک تمہارا رب ان میں  فیصلہ کردے گا۔} یعنی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں  اور اُن کی اُمتوں  میں  یا مومنین اورمشرکین کے درمیان دینی اُمور میں سے اس بات کا فیصلہ کردے گاجس میں  وہ اختلاف کرتے تھے اور حق و باطل والوں  کو جدا جدا ممتاز کردے گا۔(مدارک، السجدۃ، تحت الآیۃ: ۲۵، ص۹۲۸، جلالین، السجدۃ، تحت الآیۃ: ۲۵، ص۳۵۰، ملتقطاً)

اَوَ لَمْ یَهْدِ لَهُمْ كَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنَ الْقُرُوْنِ یَمْشُوْنَ فِیْ مَسٰكِنِهِمْؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍؕ-اَفَلَا یَسْمَعُوْنَ(26)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور کیا اس بات نے ان کی رہنمائی نہیں کی کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی قومیں ہلاک کردیں جن کے رہائشی مقامات میں یہ چلتے پھرتے ہیں ۔ بیشک اس میں ضرور نشانیاں ہیں تو کیایہ سنتے نہیں ؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَوَ لَمْ یَهْدِ لَهُمْ: اور کیا اس بات نے ان کی رہنمائی نہیں  کی۔} یعنی کیا اس بات نے اہلِ مکہ کی رہنمائی نہیں  کی کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی اُمتیں  جیسے عاد ، ثمود اور قومِ لوط وغیرہ ہلاک کردیں  اور آج اہلِ مکہ جب تجارت کے سلسلے میں  ملکِ شام کے سفر کرتے ہیں  تو ان لوگوں  کے مَنازل اور شہروں  میں  گزرتے ہیں  اور اُن کی ہلاکت کے آثار دیکھتے ہیں ۔ بیشک اس ہلاکت اور اس سے متعلقہ آثارمیں  ضرورعبرت کی نشانیاں  ہیں  تو کیایہ قرآن کو غور سے نہیں سنتے جو عبرت اور نصیحت حاصل کریں  ۔ (مدارک، السجدۃ ، تحت الآیۃ: ۲۶ ، ص۹۲۸ ، خازن ، السجدۃ ، تحت الآیۃ: ۲۶، ۳ / ۴۸۰، روح البیان ، السجدۃ، تحت الآیۃ: ۲۶، ۷ / ۱۲۸، ملتقطاً)

         یاد رہے کہ برباد شدہ لوگوں  کی بستیوں  کو عبرت کی نگاہ سے دیکھنا بہت اچھا ہے اور اسی طرح مقبول بندوں  کے آثار یعنی مزارات کی زیارت بھی بہت عمدہ ہے۔ پہلے سے گناہوں  کا خوف اور دوسرے سے نیکیوں  کی محبت پیدا ہوتی ہے۔

اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّا نَسُوْقُ الْمَآءَ اِلَى الْاَرْضِ الْجُرُزِ فَنُخْرِ جُ بِهٖ زَرْعًا تَاْكُلُ مِنْهُ اَنْعَامُهُمْ وَ اَنْفُسُهُمْؕ-اَفَلَا یُبْصِرُوْنَ(27)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم خشک زمین کی طرف پانی بھیجتے ہیں پھر اس سے کھیتی نکالتے ہیں جس میں سے ان کے چوپائے اور وہ خود کھاتے ہیں تو کیا وہ دیکھتے نہیں ؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَوَ لَمْ یَرَوْا: اور کیا انہوں  نے نہیں  دیکھا۔} یعنی کیا مرنے کے بعد اٹھائے جانے کا انکار کرنے والوں  نے نہیں  دیکھا کہ ہم خشک زمین کی طرف جس میں  سبزہ کا نام و نشان نہیں ہوتا ،پانی بھیجتے ہیں ، پھر اس زمین سے پانی کے ذریعے کھیتی نکالتے ہیں  جس میں  سے ان کے چوپائے بھوسہ کھاتے ہیں  اور یہ لوگ خود غلہ کھاتے ہیں  تو کیا وہ نہیں  سمجھتے کہ یہ دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کمال پر اِستدلال کریں  اور سمجھیں  کہ جو قادرِ برحق خشک زمین سے کھیتی نکالنے پر قادر ہے تو مُردوں  کوزندہ کردینا اس کی قدرت سے کیا بعید ہے۔( تفسیر طبری، السجدۃ، تحت الآیۃ: ۲۷، ۱۰ / ۲۵۱، مدارک، السجدۃ، تحت الآیۃ: ۲۷، ص۹۲۸، ملتقطاً)

وَ یَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْفَتْحُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(28)

ترجمہ: کنزالعرفان

اوروہ کہتے ہیں : یہ فیصلہ کب ہوگا؟ اگر تم سچے ہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ یَقُوْلُوْنَ: اوروہ کہتے ہیں ۔} مسلمان کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اور مشرکین کے درمیان فیصلہ فرمائے گا اور فرمانبرداروں  اور نافرمانوں  کو اُن کے عمل کے مطابق جزا دے گا۔ اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ ہم پر رحمت و کرم کرے گا اور کفار و مشرکین کو عذاب میں  مبتلا کرے گا ،اس پر کافر مذاق اڑانے کے طور پر کہتے تھے کہ یہ فیصلہ کب ہوگا؟ اس کا وقت کب آئے گا؟اگر تم سچے ہو تو بتاؤ۔( ابوسعود، السجدۃ، تحت الآیۃ: ۲۸، ۴ / ۳۰۵، جمل، السجدۃ، تحت الآیۃ: ۲۸، ۶ / ۱۴۶، ملتقطاً)

قُلْ یَوْمَ الْفَتْحِ لَا یَنْفَعُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِیْمَانُهُمْ وَ لَا هُمْ یُنْظَرُوْنَ(29)فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ وَ انْتَظِرْ اِنَّهُمْ مُّنْتَظِرُوْنَ(30)

ترجمہ: کنزالعرفان

تم فرماؤ: فیصلے کے دن کافروں کو ان کا ایمان لانا نفع نہ دے گا اور نہ انہیں مہلت ملے گی۔ تو ان سے منہ پھیرلو اور انتظار کرو بیشک وہ بھی منتظرہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قُلْ: تم فرماؤ۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان کافروں  سے فرما دیں  کہ فیصلے کے دن جب ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہو گا تونہ ہی انہیں  توبہ کرنے یا معذرت کرنے کی مہلت نصیب ہوگی اور نہ اس وقت کافروں  کا ایمان لانا انہیں  کوئی نفع دے گایعنی مرنے کے بعد حق واضح ہوجانے پر اگر وہ ایمان لے بھی آئے تو یہ انہیں  نفع نہ دے گا، اس صورت میں  فیصلے کے دن سے مراد غزوہِ بدر کا دن ہے جس میں  کافر قتل ہوئے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان کافروں  سے فرما دیں  کہ تم جلدی نہ مچاؤ اور نہ ہی اس کا مذاق اڑاؤ کیونکہ جب فیصلے کا دن آئے گا تو اس وقت کافروں  کا ایمان لانا انہیں  کوئی نفع نہ دے گا اور نہ انہیں  توبہ و معذرت کی مہلت ملے گی ۔اس صورت میں فیصلے کے دن سے مراد’’ قیامت کا دن‘‘ ہے۔( خازن، السجدۃ، تحت الآیۃ: ۲۹، ۳ / ۴۸۰، روح البیان، السجدۃ، تحت الآیۃ: ۲۹، ۷ / ۱۲۹۱۳۰، ملتقطاً)

{فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ: تو ان سے منہ پھیرلو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ فیصلے کے بارے میں  جلدی مچانے والے مشرکین سے منہ پھیرلیں  اور ان پر عذاب نازل ہونے کاانتظار کریں  بیشک وہ بھی انتظار کررہے ہیں۔(تفسیر طبری، السجدۃ، تحت الآیۃ: ۳۰، ۱۰ / ۲۵۳، جلالین، السجدۃ، تحت الآیۃ: ۳۰، ص۳۵۱، ملتقطاً)

Scroll to Top