سُوْرَۃُ التَّغَابُن
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
یُسَبِّحُ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِۚ-لَهُ الْمُلْكُ وَ لَهُ الْحَمْدُ٘-وَ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(1)
ترجمہ: کنزالعرفان
جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں سب اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں ، اسی کی بادشاہت ہے اور اسی کیلئے سب تعریف ہے اور وہ ہر چیز پرخوب قادر ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{یُسَبِّحُ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ: جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں سب اللّٰہ کی پاکی بیان کرتے ہیں ۔} اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ کی چار شانیں بیان ہوئی ہیں ،(1) جو کچھ آسمانوں اورزمین میں موجود ہے سب اللّٰہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتے ہیں ۔(2) اسی کی بادشاہت ہے اور وہ اپنی بادشاہت میں جیسے چاہے تَصَرُّف فرماتا ہے ،اِس میں اُس کا نہ کوئی شریک ہے نہ حصہ دار۔(3) تمام تعریفیں اسی کے لئے ہیں کیونکہ سب نعمتیں اسی کی ہیں ۔ (4) وہ ہر چیز پر قادر ہے اورکسی مانع اور رکاوٹ کے بغیر جو چاہتا ہے جیسا چاہتا ہے کرتا ہے۔(خازن، التغابن، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۲۷۴، ملخصاً)
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ فَمِنْكُمْ كَافِرٌ وَّ مِنْكُمْ مُّؤْمِنٌؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(2)
ترجمہ: کنزالعرفان
وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا تو تم میں سے کوئی کافر ہے اور تم میں سے کوئی مسلمان ہے اور اللہ تمہارے کام خوب دیکھ رہا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ: وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اے لوگو! اللّٰہ تعالیٰ وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کر کے اور عدم سے وجود میں لا کر تم پر احسان فرمایااوراِس کا حق یہ تھا کہ تم سب اللّٰہ تعالیٰ پر ایمان لا کر اور اس کی اطاعت وفرمانبرداری کر کے اس کے شکر گزار ہوتے لیکن تمہیں کیا ہو گیا کہ تم مختلف گروہوں میں تقسیم ہو گئے اورتم میں سے کوئی کافر ہے کوئی مسلمان،(یاد رکھو کہ ) اللّٰہ تعالیٰ کافر کے کفر اور مومن کے ایمان کو جانتا ہے اوروہ ہر ایک کو قیامت کے دن ا س کے عمل کے مطابق جزا دے گا۔( مدارک، التغابن، تحت الآیۃ: ۲، ص۱۲۴۶، روح البیان، التغابن، تحت الآیۃ: ۲، ۱۰ / ۴-۵، ملتقطاً)
دوسری تفسیر یہ ہے کہ اے لوگو! وہی اللّٰہ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا تو تم میں سے کوئی ایسا ہے جسے کافر پیدا فرمایا اور کوئی ایسا ہے جسے مسلمان پیدا فرمایاہے اور اللّٰہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے تو وہ تمہارے ساتھ ایسا معاملہ فرمائے گاجو تمہارے اعمال کے مناسب ہو۔( تفسیرسمرقندی، التغابن، تحت الآیۃ: ۲، ۳ / ۳۶۸-۳۶۹، بیضاوی، التغابن، تحت الآیۃ: ۲، ۵ / ۳۴۴، ملتقطاً)
یہاں آیت کی دوسری تفسیر کی مناسبت سے تین اَحادیث بھی ملاحظہ ہوں :
(1)… اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں ،نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اے عائشہ!اللّٰہ تعالیٰ نے بعض لوگوں کو جنت کا اہل بنایا حالانکہ وہ اپنے آباء کی پشتوں میں تھے اور بعض لوگوں کو جہنم کا اہل بنایا حالانکہ وہ اپنے آباء کی پشتوں میں تھے۔( مسلم، کتاب القدر، باب کلّ مولود یولد علی الفطرۃ۔۔۔ الخ، ص۱۴۳۱، الحدیث: ۳۱(۲۶۶۲))
(2)…حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللّٰہ تعالیٰ عورت کے رحم پر ایک فرشتہ مقرر فرما دیتا ہے تو وہ عرض کرتا ہے:اے میرے رب!یہ تو نطفہ ہے،یہ تو خون کا لوتھڑا ہے،یہ تو گوشت کا ٹکڑا ہے،اور جب اللّٰہ تعالیٰ اسے پیدا کرنے کا ارادہ فرماتا ہے تو فرشتہ عرض کرتا ہے :یہ مُذَکَّر ہے یا مُؤنَّث؟ یہ بد بخت ہے یا سعادت مند؟اس کا رزق کتنا ہے؟اس کی عمر کتنی ہے ؟تو(جس طرح بتایا جاتا ہے) اسی کے مطابق اس کی والدہ کے پیٹ میں لکھ دیا جاتا ہے۔( بخاری، کتاب القدر، باب فی القدر، ۴ / ۲۷۱، الحدیث: ۶۵۹۵)
(3)…حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، صادِق اور مَصدوق رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم میں سے ہر ایک کا نطفہ اس کی والدہ کے پیٹ میں چالیس دن تک رہتا ہے ،پھر اتنے ہی دن وہ جما ہوا خون رہتا ہے ،پھر اتنے ہی دنوں تک وہ گوشت کی بوٹی کی صورت میں رہتا ہے ،پھر اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجا جاتا ہے تو اسے چار باتوں کی اجازت دی جاتی ہے ،چنانچہ وہ اس کا رزق،موت،عمل اور بدبخت یا نیک بخت ہونا لکھ دیتا ہے ،پھر ا س کے اندر رُوح پھونکی جاتی ہے ،پس تم میں سے کوئی اہلِ جنت جیسے عمل کرتا رہتاہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف گز بھر کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو ا س پر لکھا ہوا غالب آ تا ہے اور وہ اہلِ جہنم جیسے کام کرنے لگتا ہے حتّٰی کہ جہنم میں داخل ہوجاتا ہے اور تم میں سے کوئی اہلِ جہنم جیسے عمل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جہنم کے درمیان صرف گز بھر کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس پر لکھا ہوا غالب آ جاتا ہے اور وہ اہلِ جنت جیسے عمل کر کے جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔( بخاری، کتاب التوحید، باب ولقد سبقت کلمتنا لعبادنا المرسلین، ۴ / ۵۶۰، الحدیث: ۷۴۵۴)
تفسیر اور اَحادیث کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات خاص طور پریاد رہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو بے بس اور مجبور نہیں بنایا بلکہ اسے عمر کے آخری حصے تک یہ اختیار دیا ہے کہ وہ کفر اور ایمان میں سے یونہی اچھے اور برے اعمال میں جسے چاہے اختیار کرے لہٰذا اس کا کافر یا مسلمان ہونا یونہی نیک یا گناہگار ہونااس کے اپنے اختیار سے ہے اور جو کچھ انسان نے اپنے اختیار سے کرنا تھااس کااللّٰہ تعالیٰ کو ازل سے ہی علم تھا اور اسی کے موافق لوحِ محفوظ میں اور ماں کے پیٹ میں فرشتے نے لکھا ہے۔
خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّ وَ صَوَّرَكُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَكُمْۚ-وَ اِلَیْهِ الْمَصِیْرُ(3)
ترجمہ: کنزالعرفان
اس نے آسمان اور زمین حق کے ساتھ بنائے اور تمہاری صورتیں بنائیں تو تمہاری اچھی صورتیں بنائیں اور اسی کی طرف پھرنا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّ: اس نے آسمان اور زمین حق کے ساتھ بنائے۔} ارشاد فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین حق کے ساتھ بنائے جن میں ہزاروں دینی اور دُنْیَوی مَصلحتیں ہیں اوراس نے تمہاری صورت بنائی تو دیگر مخلوق کے مقابلے میں تمہاری اچھی صورتیں بنائیں ،اس احسان کے شکریے میں تم پر لازم ہے کہ اپنی سیرت بھی اچھی رکھو،نیز قیامت کے دن تمہیں اسی کی بارگاہ میں لوٹ کر جانا ہے تو تم اپنے باطن کو اچھا کر لو تاکہ عذاب کے ذریعے تمہارے ظاہر کومَسخ نہ کر دیاجائے۔( روح البیان، التغابن، تحت الآیۃ:۳، ۱۰ / ۵-۶، بیضاوی، التغابن، تحت الآیۃ: ۳، ۵ / ۳۴۵، خازن، التغابن، تحت الآیۃ: ۳، ۴ / ۲۷۵، ملتقطاً)
انسانی صورت بہترین صورت ہے، اسے بگاڑنا حرام ہے، لہٰذا ناک کان کاٹنا، چہرے پر راکھ وغیرہ مل کر صورت بگاڑنا، مَردوں کو عورت کی شکل یا عورتوں کو مَردوں کی شکل بناناحرام ہے ،اللّٰہ تعالیٰ نے جو صورت بخشی وہ ہی اچھی ہے۔
یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ یَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ وَ مَا تُعْلِنُوْنَؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ(4)
ترجمہ: کنزالعرفان
وہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور وہ جانتا ہے جو تم چھپاتے ہواور جوتم ظاہر کرتے ہو، اور اللہ دلوں کی بات خوب جانتا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ: وہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے۔} اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے علم کی وسعت کو بیان فرمایا ہے ،چنانچہ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین میں موجود ہر چیز کو اللّٰہ تعالیٰ جانتا ہے،تمہاری نیتوں ،دلی ارادوں اور اعمال کو بھی جانتاہے، تمہارے ظاہری اور پوشیدہ کاموں سے بھی خبردار ہے حتّٰی کہ جو چیزیں صرف خیال میں رہیں اور کبھی ان کا ظہور نہ ہوا، ان کی بھی خبر رکھتا ہے، لہٰذا ہرکوئی اللّٰہ تعالیٰ کے ڈر اور اس سے حیا کی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچے۔
اَلَمْ یَاْتِكُمْ نَبَؤُا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ٘-فَذَاقُوْا وَبَالَ اَمْرِهِمْ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(5)
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا تمہارے پاس تم سے پہلے لوگوں کی خبر نہ آئی جنہوں نے کفر کیا اور اپنے کام کا وبال چکھ لیااور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَمْ یَاْتِكُمْ نَبَؤُا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ: کیا تمہارے پاس تم سے پہلے لوگوں کی خبر نہ آئی جنہوں نے کفر کیا۔} اس آیت میں کفارِ مکہ سے خطاب فرمایا گیا کہ اے کافرو! کیا تمہیں گزری ہوئی ان اُمتوں کے اَحوال معلوم نہیں جنہوں نے انبیاء ِکرام عَلَیْہِ مُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کی ،انہیں جھٹلایا اور دنیا میں اپنے کفر کی سزا پائی اور ان کے لئے آخرت میں درد ناک عذاب ہے۔( خازن، التغابن، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۲۷۵، مدارک، التغابن، تحت الآیۃ: ۵، ص۱۲۴۷، ملتقطاً)
آیت ’’اَلَمْ یَاْتِكُمْ نَبَؤُا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں ،
(1)… صحیح تاریخ کا پڑھنا مفید ہے کہ اس کے ذریعہ اللّٰہ تعالیٰ سے خوف اورامید حاصل ہوتی ہے۔
(2)… کفار پر دنیا میں عذاب آنا آخرت کے عذاب کو کم نہ کرے گا۔
ذٰلِكَ بِاَنَّهٗ كَانَتْ تَّاْتِیْهِمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالُوْۤا اَبَشَرٌ یَّهْدُوْنَنَا٘-فَكَفَرُوْا وَ تَوَلَّوْا وَّ اسْتَغْنَى اللّٰهُؕ-وَ اللّٰهُ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ(6)
ترجمہ: کنزالعرفان
یہ اس لیے کہ ان کے پاس ان کے رسول روشن دلیلیں لاتے تو وہ کہتے : کیا آدمی ہماری رہنمائی کریں گے تو انہوں نے کفر کیااور منہ پھیر لیا اور اللہ نے بے پروائی فرمائی اور اللہ بے پروا،ہر حمد کے لائق ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ذٰلِكَ بِاَنَّهٗ كَانَتْ تَّاْتِیْهِمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ: یہ اس لیے کہ ان کے پاس ان کے رسول روشن دلیلیں لاتے۔} یعنی سابقہ کافروں پر یہ دنیا کے عذاب اس لیے آئے کہ جب ان کے پاس ان کے رسول روشن دلیلیں لاتے اور معجزے دکھاتے( جن سے ان کی حقّانیّت روزِ روشن کی طرح ظاہر ہو جاتی) تو وہ کہتے : کیا آدمی بشر ہماری رہنمائی کریں گے؟ تو انہوں نے رسولوں کا انکار کر کے کفر کیااور ایمان لانے سے پھر گئے اور اللّٰہ تعالیٰ تو ازل سے ہی ان کے ایمان اور ان کی طاعت و عبادت سے بے پرواہ ہے کیونکہ وہ اپنی مخلوق سے بے نیاز اور اپنے تمام اَفعال میں حمد کے لائق ہے، (چنانچہ جب انہوں نے کفر کیا اور کسی طرح ایمان نہ لائے تواس کا نتیجہ یہ ہواکہ دنیا میں ان پر عذاب آئے)۔( خازن، التغابن، تحت الآیۃ: ۶، ۴ / ۲۷۵، تفسیر کبیر، التغابن، تحت الآیۃ: ۶، ۱۰ / ۵۵۳، مدارک، التغابن، تحت الآیۃ: ۶، ص۱۲۴۷، ملتقطاً)
آیت ’’ذٰلِكَ بِاَنَّهٗ كَانَتْ تَّاْتِیْهِمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے تین باتیں معلوم ہوئیں
(1)… ہر رسول عَلَیْہِ السَّلَام کو معجزہ ضروردیا گیا۔یاد رہے کہ کسی کو ایک اور کسی کو زیادہ معجزات عطا کئے گئے اور ہمارے حضور پُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سب سے زیادہ معجزے عطا ہوئے ہیں ۔
(2)…کافروں نے بشر کے رسول ہونے کا انکار کیا۔یہ ان کی بے عقلی اور نافہمی کی انتہاء ہے، کہ انہوں نے بشر کا رسول ہونا تو نہ مانا جبکہ پتھروں کو خدا تسلیم کرلیا۔
(3)… برابری کا دعویٰ کرنے کے لئے نبی کو بشر کہنا کفر ہے ۔یاد رہے کہ عام محاورہ میں یعنی بے ادبی کے انداز میں انبیاء ِکرام عَلَیْہِ مُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بشر کہہ کر پکارنا حرام ہے اور یہ کافروں کا طریقہ ہے۔
زَعَمَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنْ لَّنْ یُّبْعَثُوْاؕ-قُلْ بَلٰى وَ رَبِّیْ لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْؕ-وَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرٌ(7)
ترجمہ: کنزالعرفان
کافروں نے گمان کرلیا کہ انہیں ہر گز دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا ، تم فرماؤ: کیوں نہیں ،میرے رب کی قسم، تم ضرور دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے پھرضرور تمہارے اعمال تمہیں بتادئیے جائیں گے اور یہ اللہ پر بہت آسان ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{زَعَمَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنْ لَّنْ یُّبْعَثُوْا: کافروں نے گمان کرلیا کہ انہیں ہرگز دوبارہ زندہ نہیں کیاجائے گا۔} اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ کافر مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کا انکار کرتے ہیں ،چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کفارِ مکہ نے یہ گمان کر لیا ہے کہ وہ مرنے کے بعد ہرگز نہ اٹھائے جائیں گے اور کبھی اپنی قبروں سے نہ نکلیں گے، اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان کے گمان کا رد کرتے ہوئے ان سے فرما دیں : کیوں نہیں ، میرے رب کی قسم ،تم قیامت کے دن ضرور اٹھائے جاؤ گے ،پھر تمہارے اعمال تمہیں بتادئیے جائیں گے تاکہ تم سے حساب لیا جائے اور تمہیں تمہارے اعمال کی سزا دی جائے اور(یاد رکھو) قیامت کے دن دوبارہ زندہ کرنا،اعمال کا حساب لینا اور ان کی جزا دینا اللّٰہ تعالیٰ پر آسان ہے کیونکہ ا س کی قدرت کامل ہے ۔( خازن، التغابن، تحت الآیۃ: ۷، ۴ / ۲۷۵، روح البیان، التغابن، تحت الآیۃ: ۷، ۱۰ / ۹-۱۰، ملتقطاً)
فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ النُّوْرِ الَّذِیْۤ اَنْزَلْنَاؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ(8)
ترجمہ: کنزالعرفان
توایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول اور اس نور پر جو ہم نے اتارا اور اللہ تمہارے کاموں سے خوب خبردار ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ النُّوْرِ الَّذِیْۤ اَنْزَلْنَا: تو ایمان لاؤ اللّٰہ اور اس کے رسول اور اس نور پرجو ہم نے اتارا۔} اس سے پہلی آیت میں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کی جو خبر دی گئی ،اس کا اعتراف کرناچونکہ ایمان لانے پر ابھارتا ہے اس لئے یہاں آیت میں ایمان لانے کا فرمایا گیا۔بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ جھٹلانے والی امتوں کا حال اور ان پر نازل ہونے والے عذاب کا حال بیان کرنے کے بعدیہاں فرمایا جا رہا ہے کہ اے کافرو! جب تم نے ان کا حال اور انجام جان لیا تواللّٰہ تعالیٰ،اس کے رسول محمد مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور اس نور پرایمان لاؤ جو ہم نے اتارا ہے تاکہ تم پر وہ عذاب نازل نہ ہو جو سابقہ کافروں پر نازل ہو ا ہے اور(یاد رکھو کہ )اللّٰہ تعالیٰ تمہارے کاموں سے خبردار ہے اور وہ تمہیں تمہارے اعمال کی جزا دے گا۔( تفسیر کبیر، التغابن ، تحت الآیۃ : ۸، ۱۰ / ۵۵۴ ، خازن، التغابن، تحت الآیۃ: ۸، ۴ / ۲۷۵، روح البیان، التغابن، تحت الآیۃ: ۸، ۱۰ / ۱۰، ملتقطاً)
اس آیت میں نورسے مرادقرآن شریف ہے کیونکہ اس کی بدولت گمراہی کی تاریکیاں دور ہوتی ہیں اور ہدایت و ضلالت دونوں واضح ہوتی ہیں ۔
یَوْمَ یَجْمَعُكُمْ لِیَوْمِ الْجَمْعِ ذٰلِكَ یَوْمُ التَّغَابُنِؕ-وَ مَنْ یُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ یَعْمَلْ صَالِحًا یُّكَفِّرْ عَنْهُ سَیِّاٰتِهٖ وَ یُدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(9)
ترجمہ: کنزالعرفان
جس دن وہ جمع ہونے کے دن میں تمہیں اکٹھا کرے گا ۔وہ دن (ہارنے والوں کی) ہار ظاہر ہونے کا دن ہے اور جو اللہ پر ایمان لائے اور اچھا کام کرے اللہ اس سے اس کی برائیاں مٹادے گا اور اسے ان باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ،وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{یَوْمَ یَجْمَعُكُمْ لِیَوْمِ الْجَمْعِ: جس دن وہ جمع ہونے کے دن میں تمہیں اکٹھا کرے گا۔} اس آیت میں جمع ہونے کے دن سے مراد قیامت کادن ہے جس میں سب اوّلین وآخرین جمع ہوں گے اوریہ وہ دن ہوگاجس میں کفار کی محرومی اور مسلمانوں کی کامیابی پورے طور پر ظاہر ہو گی، کفار اپنی ہار کا اقرار کر لیں گے،نیز اس دن اللّٰہ تعالیٰ پرایمان لانے والوں اورنیک کام کرنے والوں کی برائیاں مٹادی جائیں گی اورانہیں ایسے باغوں میں داخل کیاجائے گاجن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اوروہ ان میں عارضی طور پر نہیں بلکہ ہمیشہ کے لئے رہیں گے اوریہی حقیقی اوربڑی کامیابی ہے ۔
وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ(10)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا، وہ لوگ آگ والے ہیں ، ہمیشہ اس میں رہیں گے اوروہ کیا ہی بُرا ٹھکانہ ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا: اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا۔} یعنی وہ لوگ جنہوں نے اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیّت اور قدرت کا انکار کر کے کفر کیا اور ہماری ان آیتوں کو جھٹلایاجو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے پر دلالت کرتی ہیں ،وہ آگ والے ہیں ،ہمیشہ اس میں رہیں گے اوریہ ان کا کیا ہی برا انجام ہے۔( تفسیر کبیر، التغابن، تحت الآیۃ: ۱۰، ۱۰ / ۵۵۴)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ دوزخ میں ہمیشہ رہنا اور سخت عذاب ہونا صرف کفار کے لئے ہے۔ گنہگار مومن خواہ کیساہی گنہگار ہو، اِنْ شَآئَ اللّٰہ دوزخ میں ہمیشہ نہ رہے گااور اللّٰہ تعالیٰ اسے رسوانہ کرے گا۔
مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِؕ-وَ مَنْ یُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ یَهْدِ قَلْبَهٗؕ-وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ(11)
ترجمہ: کنزالعرفان
ہر مصیبت اللہ کے حکم سے ہی پہنچتی ہے اور جو اللہ پر ایمان لائے اللہ اس کے دل کو ہدایت دیدے گا اور اللہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ: ہر مصیبت اللّٰہ کے حکم سے ہی پہنچتی ہے۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ موت کی، مرض کی اورمال کے نقصان وغیرہ کی، الغرض ہر مصیبت اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے ہی پہنچتی ہے اور جو اللّٰہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور جانے کہ جو کچھ ہوتا ہے اللّٰہ تعالیٰ کی مَشِیَّت اور اس کے ارادے سے ہوتا ہے اور مصیبت کے وقت اِنَّا ِللّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنْ پڑھے اور اللّٰہ تعالیٰ کی عطا پر شکر اور بلا پر صبر کرے تو اللّٰہ تعالیٰ اس کے دل کو ہدایت دیدے گا کہ وہ اور زیادہ نیکیوں اور طاعتوں میں مشغول ہواور اللّٰہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے۔( خزائن العرفان، التغابن، تحت الآیۃ: ۱۱، ص۱۰۳۰، ملخصاً)
خیال رہے کہ بعض مصیبتیں ہمارے گناہوں کی شامت سے آتی ہیں مگر آتی اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے ہیں ، لہٰذا یہ آیت سورۂ شوریٰ کی اس آیت:
’’وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ‘‘(شوریٰ:۳۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ تمہارے ہاتھوں کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہے۔
کے خلاف نہیں ۔نیز یہ بھی خیال رہے کہ دنیا کی مصیبتیں مومن کے لئے بہت مرتبہ گناہ کا کفارہ بنتی ہیں ، یا درجات کی بلندی کا سبب ہوتی ہیں جبکہ کفار کے لئے عذاب ہیں ، لہٰذا زیرِ تفسیر آیت بالکل صاف ہے،اس پر کسی طرح کا کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔
وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَۚ-فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاِنَّمَا عَلٰى رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ(12)اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَؕ-وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ(13)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اللہ کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو پھر اگر تم منہ پھیرو تو (جان لو کہ ) ہمارے رسول پر صرف صاف صاف پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے۔اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں اور ایمان والوں کو تو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ: اور اللّٰہ کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو۔} یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے جو حکم دیا اسے مانو اور رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جو حکم دیا اسے بھی مانو، پھر اگر تم اللّٰہ تعالیٰ اور ا س کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فرمانبرداری سے منہ پھیرو تو جان لو کہ ہمارے رسول پر صرف صریح پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے، چنانچہ اُنہوں نے اپنا فرض ادا کردیا اور کامل طور پر دین کی تبلیغ فرمادی ۔( خازن، التغابن، تحت الآیۃ: ۱۲، ۴ / ۲۷۶، مدارک، التغابن، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۱۲۴۸، ملتقطاً)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت کی طرح ضروری ہے، کیونکہ دونوں اطاعتوں کو ایک ہی طریقہ سے بیان فرمایا گیا ہے۔
{وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ: اور ایمان والوں کو تو اللّٰہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔} یاد رہے کہ اللّٰہ تعالیٰ پر توکُّل کی حقیقت یہ ہے کہ اَسباب کو اختیار کیا جائے مگر اعتماد اور بھروسہ صرف رب تعالیٰ پر کیا جائے، لہٰذا بیماری میں علاج کرنا، مصیبت میں ظاہری حکام یا باطنی حکام جیسے اللّٰہ تعالیٰ کے اولیا ء کی بارگاہ میں حاضر ہونا توکُّل کے خلاف نہیں ۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ وَ اَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوْهُمْۚ-وَ اِنْ تَعْفُوْا وَ تَصْفَحُوْا وَ تَغْفِرُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(14)
ترجمہ: کنزالعرفان
اے ایمان والو! بیشک تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے کچھ تمہارے دشمن ہیں تو ان سے احتیاط رکھو اور اگر تم معاف کرو اور درگزرکرو اور بخش دو تو بیشک اللہ بڑابخشنے والا،بہت مہربان ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ وَ اَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ: اے ایمان والو! بیشک تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے کچھ تمہارے دشمن ہیں ۔} شانِ نزول: چند مسلمانوں نے مکہ مکرمہ سے ہجرت کا ارادہ کیا تو ان کی بیوی اور بچوں نے انہیں روکا اور کہا :ہم آپ کی جدائی پر صبر نہ کرسکیں گے، آپ چلے جاؤ گے تو ہم آپ کے پیچھے ہلاک ہوجائیں گے۔ یہ بات ان پر اثر کر گئی اور وہ ٹھہر گئے۔ کچھ عرصہ کے بعد اُنہوں نے ہجرت کی تو رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو دیکھا کہ وہ دین میں بڑے ماہر اور فقیہ ہوگئے ہیں ، یہ دیکھ کر اُنہوں نے اپنے بیوی بچوں کو سزا دینے کا ارادہ کیا اوریہ قصد کیا کہ ان کا خرچ بند کردیں گے کیونکہ وہی لوگ اُنہیں ہجرت سے مانع ہوئے تھے جس کا یہ نتیجہ ہوا کہ حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ہجرت کرنے والے اصحاب علم وفقہ میں اُن سے منزلوں آگے نکل گئے۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی جس میں آئندہ ایسے بیوی بچوں کی بات ماننے سے منع کیا گیا، ان سے تعلق ترک کرنے سے بھی روکا گیا اور انہیں اپنے بیوی بچوں سے درگزر کرنے اور معاف کردینے کی ترغیب بھی دی گئی ،چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے کچھ تمہارے دشمن ہیں کہ تمہیں نیک اعمال کرنے سے روکتے ہیں تو ان سے احتیاط رکھواور ان کے کہنے میں آکر نیکی سے باز نہ رہو اور اگر تم ان کی ایسی حرکت پر مُطّلع ہونے کے بعد انہیں معاف کردو اورانہیں ڈانٹنے سے درگُزرکرو اور ان کی خطا بخش دو تو بیشک اللّٰہ تعالیٰ بخشنے والا، مہربان ہے،وہ تمہارے گناہ بخش دے گااور تمہاری خطاؤں کو مٹادے گا۔( خازن، التغابن، تحت الآیۃ: ۱۴، ۴ / ۲۷۶، مدارک، التغابن، تحت الآیۃ: ۱۴، ص۱۲۴۸، ملتقطاً)
آیت ’’اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ وَ اَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے چار باتیں معلوم ہوئیں ،
(1)… جو بیوی بچے اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت ، نماز، حج اور ہجرت سے روکیں وہ ایک اعتبار سے ہمارے دشمن ہیں کہ ہماری آخرت کو نقصان پہنچاتے ہیں اور دشمن وہی ہوتا ہے جو نقصان پہنچائے،لہٰذا ان کی بات نہیں ماننی چاہیے ۔ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں اتری جن کو ان کے بال بچوں نے ہجرت کرنے سے روکا تھا حالانکہ ہجرت ان پر فرض تھی۔
(2)… ہمارا وہ رشتہ دار جو اللّٰہ تعالیٰ اور رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے روکے وہ دشمن ہے اور وہ اجنبی اور غیر جوہمیں اللّٰہ تعالیٰ اور رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تک پہنچائے وہ ہمارا عزیز ہے۔
(3)… اللّٰہ تعالیٰ اور رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مقابلے میں کسی کی اطاعت نہیں ۔
(4)… بیوی بچوں کے قصور معاف کردینا اللّٰہ تعالیٰ کو محبوب ہے ،جو مخلوق پر رحم کرے گا خالق اس پر رحم فرمائے گا۔
اِنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌؕ-وَ اللّٰهُ عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(15)
ترجمہ: کنزالعرفان
تمہارے مال اور تمہاری اولادایک آزمائش ہی ہیں اور اللہ کے پاس بہت بڑا ثواب ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ: تمہارے مال اور تمہاری اولاد ایک آزمائش ہی ہیں ۔} ارشاد فرمایا کہ اے ایمان والو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد آزمائش ہی ہیں کہ کبھی آدمی اُن کی وجہ سے گناہ اور مَعْصِیَت میں مبتلا ہوجاتا ہے اور ان میں مشغول ہو کر اُمورِ آخرت کو سر انجام دینے سے غافل ہوجاتا ہے حالانکہ آخرت میں اللّٰہ تعالیٰ کے پاس بڑا ثواب ہے جو کہ تمہارے اَموال اور اولاد سے حاصل ہونے والی مَنفَعت سے کہیں زیادہ عظیم ہے ، تو تم لحاظ رکھو تاکہ ایسا نہ ہو کہ اَموال اور اولاد میں مشغول ہو کر ثوابِ عظیم کھو بیٹھو۔( مدارک، التغابن، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۱۲۴۸، جلالین، التغابن، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۴۶۳، ملتقطاً)
فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَ اسْمَعُوْا وَ اَطِیْعُوْا وَ اَنْفِقُوْا خَیْرًا لِّاَنْفُسِكُمْؕ-وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(16)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو اللہ سے ڈرو جہاں تک تم سے ہوسکے اور سنو اور حکم مانو اور راہِ خدا میں خرچ کرو یہ تمہاری جانوں کے لیے بہتر ہو گا اور جسے اس کے نفس کے لالچی پن سے بچالیا گیا تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ: تو اللّٰہ سے ڈرو جہاں تک تم سے ہوسکے۔} یعنی جب تم نے اس نصیحت کو سن لیا اور ثواب کے بارے میں جان لیا تو تم اپنی طاقت اور وسعت کے مطابق اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو ، اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمہیں جو بات ارشاد فرمائیں اسے سنو اور ان کا حکم مانو اور اپنے فائدے کیلئے اللّٰہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرو اور جو اپنے نفس کے لالچی پن سے بچالیا گیا اور اس نے اپنے مال کو اطمینان کے ساتھ حکمِ شریعت کے مطابق خرچ کیا تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔( روح البیان، التغابن، تحت الآیۃ: ۱۶، ۱۰ / ۱۹، خازن، التغابن، تحت الآیۃ: ۱۶، ۴ / ۲۷۷، خزائن العرفان، التغابن، تحت الآیۃ: ۱۶، ص۱۰۳۱، ملتقطاً)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہر شخص پر اپنی طاقت کے مطابق تقویٰ اورپرہیز گاری لازم ہے اور یہ اپنی طاقت کے مطابق تقویٰ ہی اس آیت میں مراد ہے جس میں ارشاد فرمایا گیا کہ
’’اِتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ‘‘( اٰل عمران:۱۰۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اللّٰہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے۔
اِنْ تُقْرِضُوا اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعِفْهُ لَكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ شَكُوْرٌ حَلِیْمٌ(17)عٰلِمُ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(18)
ترجمہ: کنزالعرفان
اگر تم اللہ کو اچھا قرض دو گے تووہ تمہارے لیے اسے کئی گنا بڑھادے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ قدر فرمانے والا،بہت حلم والا ہے۔وہ ہر پوشیدہ اور ظاہر کو جاننے والا ،بہت عزت والا،بڑا حکمت والاہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنْ تُقْرِضُوا اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا: اگر تم اللّٰہ کو اچھا قرض دو گے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! اگر تم خوش دِلی سے اور نیک نیتی کے ساتھ حلال مال سے صدقہ دو گے تو اللّٰہ تعالیٰ تمہارے لیے اسے کئی ُگنا بڑھادے گا اوراس کی برکت سے تمہیں بخش دے گا اور اللّٰہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ تھوڑے عمل کے بدلے بہت زیادہ عطا کر کے قدر فرمانے والاہے جبکہ گناہوں کی کثرت کے باوجود فوری عذاب نازل نہ کر کے حِلم فرمانے والا ہے، نیزوہ ہر پوشیدہ اور ظاہر کو جاننے والا ،عزت والا اور حکمت والاہے ،( خازن، التغابن، تحت الآیۃ: ۱۷-۱۸، ۴ / ۲۷۷، روح البیان، التغابن، تحت الآیۃ: ۱۷، ۱۰ / ۲۲، ملتقطاً) لہٰذا اللّٰہ تعالیٰ نہ تو تمہاری خیرات سے بے خبر ہے ، نہ تمہارے اِخلاص سے غافل ، اور نہ ہی اس کے خزانوں میں کچھ کمی ہے، جب اس کی یہ شان ہے تو پھر یہ نہیں ہو سکتا کہ خیرات کا بدلہ نہ ملے یا کم ملے۔
صدقہ دینے کے فضائل:
آیت نمبر17 میں اللّٰہ تعالیٰ نے صدقہ دینے کو لطف و کرم کے طور پر قرض سے تعبیر فرمایا، اس میں صدقہ دینے کی ترغیب ہے کہ صدقہ دینے والا نقصان میں نہیں ہے بلکہ بشرط ِ قبول وہ یقینی طور پر اس کی جزا پائے گا۔اسی مناسبت سے یہاں صدقہ کے فضائل پر مشتمل تین اَحادیث ملاحظہ ہوں تاکہ خوش دلی سے صدقہ دینے کی مزید ترغیب ملے اور صدقہ دینے میں آسانی ہوں ۔
(1)…حضرت جابر بن عبداللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمیں خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا،’’ اے لوگو! مرنے سے پہلے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں تو بہ کرلو اور مشغولیَّت سے پہلے نیک اعمال کرنے میں جلدی کرلو اور اللّٰہ تعالیٰ کا کثرت سے ذکر کرنے اورپوشید ہ اور ظاہر طور پر کثرت سے صدقہ دینے کے ذریعے اس سے اپنا رابطہ جوڑ لو،تو تمہیں رزق دیا جائے گا اور تمہاری مدد کی جائے گی اور تمہاری مصیبتیں دور کی جائیں گی۔( ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب فی فرض الجمعۃ، ۲ / ۵، الحدیث: ۱۰۸۱)
(2)…حضرت رافع بن خدیج رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا، ’’صدقہ برائی کے ستر دروازوں کو بند کردیتاہے۔( مجمع الزوائد، کتاب الزکاۃ، باب فضل الصدقۃ، ۳ / ۲۸۳، الحدیث: ۴۶۰۴)
(3)…حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، میں نے حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو منبر کی سیڑھیوں پر ارشادفرماتے ہو ئے سنا، ’’آگ سے بچو! اگر چہ ایک ہی کھجورکے ذریعے سے ہوبے شک یہ ٹیڑھے پن کو سیدھا کرتی اور بُری موت سے بچاتی ہے۔( مجمع الزوائد، کتاب الزکاۃ، باب الحثّ علی الصدقۃ۔۔۔ الخ، الصدقۃ، ۳ / ۲۷۶، الحدیث: ۴۵۸۳)
اللّٰہ تعالیٰ خوش دلی اور اخلاص کے ساتھ صدقہ دینے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔