سُوْرَۃُ التَّكَاثُر

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُ(1)حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَﭤ(2)

ترجمہ: کنزالعرفان

زیادہ مال جمع کرنے کی طلب نے تمہیں غافل کردیا ۔یہاں تک کہ تم نے قبروں کا منہ دیکھا

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُ: زیادہ مال جمع کرنے کی طلب نے تمہیں  غافل کردیا۔} ارشاد فرمایا کہ زیادہ مال جمع کرنے کی طلب نے اور اپنے مال اور اولادپر فخر کرنے نے تمہیں  اللّٰہ تعالیٰ کی عبادات سے غافل کردیا ۔(جلالین، التّکاثر، تحت الآیۃ: ۱، ص۵۰۵)

کثرتِ مال کی حرص کی مذمت:

اس سے معلوم ہوا کہ کثرتِ مال کی حرص اور اس پر اور اولاد پرفخر کا اظہار کرنا مذموم ہے اور اس میں  مبتلا ہو کر آدمی اُخروی سعادتوں  سے محروم رہ جاتا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’اِعْلَمُوْۤا اَنَّمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ وَّ زِیْنَةٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیْنَكُمْ وَ تَكَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِؕ-كَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ یَهِیْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَكُوْنُ حُطَامًاؕ-وَ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِیْدٌۙ-وَّ مَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانٌؕ-وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ‘‘(حدید:۲۰)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: جان لو کہ دنیا کی زندگی توصرف کھیل کود اورزینت اور آپس میں  فخرو غرور کرنا اور مال اور اولاد میں  ایک دوسرے پر زیادتی چاہنا ہے ۔(دنیا کی زندگی ایسے ہے)جیسے وہ بارش جس کا اُگایاہواسبزہ کسانوں  کواچھا لگا پھر وہ سبزہ سوکھ جاتا ہے تو تم اسے زرد دیکھتے ہو پھر وہ پامال کیا ہوا (بے کار)ہوجاتا ہے اور آخرت میں  سخت عذاب ہے اور اللّٰہ کی طرف سے بخشش اور اس کی رضا(بھی ہے) اور دنیاکی زندگی تو صرف دھوکے کاسامان ہے۔

اور ارشاد فرمایا:

’’ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِۚ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ‘‘(منافقون:۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں  اللّٰہ کے ذکر سے غافل نہ کردے اور جو ایسا کرے گاتو وہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں ۔

اور ارشاد فرمایا:

’’ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ وَ اَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوْهُمْۚ-وَ اِنْ تَعْفُوْا وَ تَصْفَحُوْا وَ تَغْفِرُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱۴)اِنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌؕ-وَ اللّٰهُ عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۱۵)فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَ اسْمَعُوْا وَ اَطِیْعُوْا وَ اَنْفِقُوْا خَیْرًا لِّاَنْفُسِكُمْؕ-وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ‘‘(تغابن:۱۴-۱۶)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! بیشک تمہاری بیویوںاور تمہاری اولاد میں  سے کچھ تمہارے دشمن ہیں  تو ان سے احتیاط رکھو اور اگر تم معاف کرواور درگزرکرو اور بخش دو تو بیشک اللّٰہ بڑا بخشنے والا، بہت مہربان ہے ۔تمہارے مال اور تمہاری اولاد ایک آزمائش ہی ہیں  اور اللّٰہ کے پاس بہت بڑا ثواب ہے۔تو اللّٰہ سے ڈرو جہاں  

تک تم سے ہوسکے اور سنو اور حکم مانو اور راہِ خدا میں  خرچ کرو یہ تمہاری جانوں  کے لیے بہتر ہوگا اور جسے اس کے نفس کے لالچی پن سے بچالیا گیا تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔

         اورحضرت مُطْرَف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں  کہ میں  رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں  حاضر ہوا،اس وقت آپ’’اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُ‘‘ کی تلاوت فرما رہے تھے،آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: ’’ابنِ آدم کہتا ہے کہ میرا مال،میرا مال،اے ابنِ آدم:تیرا مال وہی ہے جو تو نے کھا کر فنا کر دیا، یا پہن کر بوسیدہ کر دیا، یا صدقہ کر کے آگے بھیج دیا۔ (مسلم، کتاب الزّہد و الرّقائق، ص۱۵۸۲، الحدیث: ۳-(۲۹۵۸))

         حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بندہ کہتا ہے کہ میرا مال،میرا مال، ا س کے لئے تو اس کے مال سے صرف تین چیزیں  ہیں (1)جو ا س نے کھا کر فنا کر دیا۔(2)جو ا س نے پہن کر بوسیدہ کر دیا۔(3)جو کسی کو دے کر(آخرت کے لئے) ذخیرہ کر لیا۔اس کے ما سوا جو کچھ بھی ہے وہ جانے والا ہے اور وہ اس کو لوگوں  کے لئے چھوڑنے والا ہے۔( مسلم، کتاب الزّہد و الرّقائق، ص۱۵۸۲، الحدیث: ۴-(۲۹۵۹))

         حضرت عمرو بن عوف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ خدا کی قسم !مجھے تمہارے غریب ہو جانے کا ڈر نہیں  ہے،مجھے تو اس بات کا ڈر ہے کہ دنیا تم پر کشادہ نہ ہو جائے جس طرح تم سے پہلے لوگوں  پر ہوئی تھی،پھر تم اس میں  رغبت کر جاؤ جیسے وہ لوگ رغبت کر گئے اور یہ تمہیں  ہلاک کر دے جیسے انہیں  ہلاک کر دیا۔( بخاری، کتاب الجزیۃ و الموادعۃ، باب الجزیۃ و الموادعۃ مع اہل الذّمۃ و الحرب، ۲ / ۳۶۳، الحدیث: ۳۱۵۸)

         حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مال و اَسباب کی کثرت سے مالداری نہیں  ہوتی بلکہ (اصل) مالداری تو دل کا غنی ہونا ہے،خدا کی قسم!مجھے تمہارے بارے میں  محتاجی کا خوف نہیں  ہے لیکن مجھے تمہارے بارے ا س بات کا خوف ہے کہ تم کثرت ِمال کی ہوس میں  مبتلا ہو جاؤ گے۔( مسند امام احمد، مسند ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ، ۳ / ۶۴۵، الحدیث: ۱۰۹۵۸)

         حضرت کعب بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے، حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ دو بھوکے بھیڑیئے جو بکریوں  میں  چھوڑ دیئے جائیں  وہ ان بکریوں  کو اس سے زیادہ خراب نہیں  کرتے جتنا مال اور عزت کی حرص انسان کے دین کو خراب کر دیتی ہے۔( ترمذی، کتاب الزّہد، ۴۳-باب، ۴ / ۱۶۶، الحدیث: ۲۳۸۳)

            اللّٰہ تعالیٰ سب مسلمانوں  کو مال کی حرص اور ہوس سے محفوظ فرمائے، آمین۔

{حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ: یہاں  تک کہ تم نے قبروں  کا منہ دیکھا۔ } یعنی کثرتِ مال کی حرص تمہارے دل میں  رہی یہاں  تک کہ تمہیں  موت آ گئی اور تم قبروں  میں  دفن ہو گئے۔ (خازن، التّکاثر، تحت الآیۃ: ۲، ۴ / ۴۰۴)

مال اور اولاد کی حقیقت:

یاد رہے جس مال کے زیادہ ہونے کی حرص کی جاتی ہے اور جس اولاد پر فخر و غرور کااظہار کیا جاتا ہے ان کی حقیقت یہ ہے کہ یہ اس وقت تک انسان کے ساتھ رہتے ہیں  جب تک ا س کے جسم میں  روح باقی ہے اور جیسے ہی روح اس کے تن سے جدا ہوتی ہے اور اسے قبر میں  دفن کر دیا جاتا ہے تو وہ مال اور اولاد اس کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں  اور قبر میں  اس کے ساتھ صرف اس کا عمل جاتا ہے لہٰذا ہر عقلمند انسان کو چاہئے کہ وہ مال زیادہ ہونے کی حرص کرنے اور اپنی اولاد پر فخر و غرور کرنے کی بجائے نیک اعمال زیادہ کرنے کی کوشش کرے تاکہ یہ قبر میں  اس کے بہترین ساتھی ہوں ۔

حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میت کے ساتھ تین چیزیں  جاتی ہیں ،ان میں  سے دو لوٹ آتی ہیں  اور ایک(اس کے ساتھ) رہ جاتی ہے۔اس کے اہلِ خانہ،مال اور عمل ساتھ جاتے ہیں ،اہلِ خانہ اور مال لوٹ آتے ہیں  اور عمل اس کے ساتھ باقی رہتا ہے۔( بخاری، کتاب الرّقاق، باب سکرات الموت، ۴ / ۲۵۰، الحدیث: ۶۵۱۴)

حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا  فرماتی ہیں ،ایک دن رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے صحابہ ٔ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے دریافت فرمایا’’تم جانتے ہو کہ تمہاری،تمہارے اہل و عیال،مال اور اَعمال کی مثال کیسی ہے؟صحابہ ٔ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی :اللّٰہ تعالیٰ اور اس کا رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ بہتر جانتے ہیں۔ارشاد فرمایا’’تمہاری،تمہارے اہل و عیال،مال اور اعمال کی مثال ا س شخص کی طرح ہے جس کے تین بھائی ہوں ، جب اس کی موت کاوقت قریب آئے تو وہ اپنے تینوں  بھائیوں  کو بلائے اور ایک سے کہے:تم میری حالت دیکھ رہے ہو،یہ بتاؤ کہ تم میرے لئے کیا کر سکتے ہو؟وہ جواب دے:میں  تمہارے لئے اتنا کر سکتا ہوں  کہ فی الحال تمہاری تیمار داری کروں ،تمہارے ساتھ رہ کر تمہاری حاجات اور ضروریات کو پورا کروں ،پھر جب تمہارا انتقال ہو جائے تو تمہیں  غسل دے کر کفن پہناؤں  اور لوگوں  کے ساتھ مل کر تمہارا جنازہ اٹھاؤں  کہ کبھی میں  کندھا دوں  اور کبھی اور شخص، جب (تمہیں  دفن کر کے) واپس آؤں  تو جو کوئی تمہارے بارے میں  پوچھے اس کے سامنے تمہاری بھلائی ہی بیان کروں ۔ یہ بھائی در حقیقت اس شخص کے اہل و عیال ہیں ۔یہ فرمانے کے بعد حضور پُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے صحابۂ  کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے پوچھا:اس کے بارے میں  تمہارا کیا خیال ہے؟انہوں  نے عرض کی:ہم اس میں  کوئی بھلائی نہیں  پاتے۔اس کے بعد ارشاد فرمایا’’پھر وہ اپنے دوسرے بھائی سے کہے:تم بھی میری حالت دیکھ رہے ہو،تم میرے لئے کیا کر سکتے ہو؟تو وہ جواب میں  کہے: میں  اس وقت تک تمہارا ساتھ دوں  گا جب تک تم زندہ ہو،جونہی تم دنیا سے رخصت ہو گئے تو ہمارے راستے جدا جدا ہو جائیں  گے کیونکہ تم قبر میں  پہنچ جاؤ گے اور میں  یہیں  دنیا میں  رہ جاؤں  گا۔یہ بھائی اصل میں  اس شخص کا مال ہے،اس کے بارے میں  تمہارا کیا خیال ہے۔صحابہ ٔ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ،  ہم اسے بھی اچھا نہیں  سمجھتے۔ حضور ِاَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مزید ارشاد فرمایا’’پھر وہ شخص اپنے تیسرے بھائی سے کہے:یقینا تم بھی میری حالت دیکھ رہے ہو اور تم نے میرے اہل و عیال اور مال کا جواب بھی سن لیا ہے،بتاؤ تم میرے لئے کیا کر سکتے ہو؟وہ اُسے تسلی دیتے ہوئے کہے: میرے بھائی ،میں  تو قبر میں  بھی تمہارے ساتھ رہوں  گا اور تمہیں  وحشت سے بچاؤں  گا اور جب حساب کا دن آئے گا تو میں  تیرے میزان میں  جا بیٹھوں  گا اور اسے وزن دار کر دوں  گا۔یہ ا س کا عمل ہے،اس کے بارے میں  تمہارا کیا خیال ہے؟صحابۂ  کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، یہ تو بہت اچھا دوست ہے۔ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’حقیقت یہی ہے۔(کنز العمّال،حرف المیم،کتاب الموت،قسم الافعال،ذیل الموت،۸ / ۳۱۸،الجزء الخامس عشر، الحدیث:۴۲۹۷۴)

كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ(3)ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَﭤ(4)كَلَّا لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْیَقِیْنِﭤ(5)لَتَرَوُنَّ الْجَحِیْمَ(6)ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَیْنَ الْیَقِیْنِ(7)ثُمَّ لَتُسْــٴَـلُنَّ یَوْمَىٕذٍ عَنِ النَّعِیْمِ(8)

ترجمہ: کنزالعرفان

ہاں ہاں اب جلد جان جاؤ گے۔پھر یقینا تم جلد جان جاؤ گے۔یقینا اگر تم یقینی علم کے ساتھ جانتے (تو مال سے محبت نہ رکھتے)۔بیشک تم ضرور جہنم کو دیکھو گے۔پھر بیشک تم ضرور اسے یقین کی آنکھ سے دیکھو گے۔پھر بیشک ضرور اس دن تم سے نعمتوں کے متعلق پوچھا جائے گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{كَلَّاسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ: ہاں  ہاں  اب جلد جان جاؤ گے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی 5آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے لوگو!ہاں  ہاں  اب نزع کے وقت کثرتِ مال کی حرص اور اولاد پر فخر و غرور کرنے کے برے نتیجے کو جلد جان جاؤ گے،پھر یقینا تم قبروں  میں جلد جان جاؤ گے، یقینا اگر تم مال کی حرص کا انجام یقینی علم کے ساتھ جانتے تو مال کی حرص میں  مبتلا ہو کر آخرت سے غافل نہ ہوتے۔بیشک تم مرنے کے بعد ضرور جہنم کو دیکھو گے، پھر بیشک تم ضرور اسے یقین کی آنکھ سے دیکھو گے،پھر بیشک ضرور قیامت کے دن تم سے ان نعمتوں  کے بارے میں  پوچھا جائے گا جو اللّٰہ تعالیٰ نے تمہیں  عطا فرمائی تھیں  جیسے صحت، فراغت، امن ، عیش اور مال وغیرہ جن سے تم دنیا میں  لذتیں  اُٹھاتے تھے اور ان کے بارے میں  یہ پوچھا جائے گا کہ یہ چیزیں  کس کام میں  خرچ کیں  ؟ان کا کیا شکرادا کیا؟ اوران نعمتوں  کا شکر ترک کرنے پر انہیں  عذاب کیاجائے گا۔( خازن ، التّکاثر ، تحت الآیۃ : ۳-۸ ، ۴ / ۴۰۴ ، مدارک، التّکاثر، تحت الآیۃ: ۳-۸، ص۱۳۷۱، جلالین، التّکاثر، تحت الآیۃ: ۳-۸، ص۵۰۶، ملتقطاً)

قیامت کے دن ہر نعمت کے بارے میں  پوچھا جائے گا:

            اس سورت کی آیت نمبر8 سے معلوم ہو اکہ قیامت کے دن ہر نعمت کے بارے میں  سوال ہو گا چاہے وہ نعمت جسمانی ہو یا روحانی، ضرورت کی ہو ، یا عیش و راحت کی حتّٰی کہ ٹھنڈے پانی، درخت کے سائے اور راحت کی نیند کے بارے میں  بھی سوال ہو گا۔ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’ وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا ‘‘(بنی اسرائیل:۳۶)

ترجمہ ٔکنزُالعِرفان:  اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں  بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں  سوال کیا جائے گا۔

            اور حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، جب یہ آیت ’’ثُمَّ لَتُسْــٴَـلُنَّ یَوْمَىٕذٍ عَنِ النَّعِیْمِ ‘‘ نازل ہوئی توصحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، ہم سے کس نعمت کے بارے میں  پوچھا جائے گا(حالانکہ) ہمارے پاس تو صرف یہی دو سیاہ چیزیں (یعنی کھجور اور پانی) ہیں ،دشمن حاضر ہے اور تلواریں  ہمارے کندھوں  پر ہیں ؟ارشاد فرمایا’’عنقریب ایساہی ہو گا۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب و من سورۃ الہٰکم التّکاثر، ۵ / ۲۳۵، الحدیث: ۳۳۶۸)

            حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن بندے سے سب سے پہلے نعمت کے بارے میں  سوال ہو گا،اس سے پوچھا جائے گا؛کیا ہم نے تمہیں  جسمانی صحت نہ دی اور ٹھنڈے پانی سے سیراب نہ کیا؟( ترمذی، کتاب التفسیر، باب و من سورۃ الہٰکم التّکاثر، ۵ / ۲۳۶، الحدیث: ۳۳۶۹)

            حضرت عبد اللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن انسان کے قدم نہ ہٹیں  گے حتّٰی کہ اس سے پانچ چیزوں  کے بارے میں  سوال کیا جائے گا۔ (1) اس کی عمر کے بارے میں  کہ کس چیز میں  خرچ کی۔ (2) اس کی جوانی کے بارے میں  کہ کس کام میں  گزری ۔ (3،4) اس کے مال کے بارے میں کہ کہاں  سے کمایا اور کہاں  خرچ کیا۔ (5) اس کے علم کے بارے میں  کہ ا س پر کتنا عمل کیا۔( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ و الرقائق و الورع، باب فی القیامۃ، ۴ / ۱۸۸، الحدیث: ۲۴۲۴)

            اللّٰہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اپنی نعمتوں  کا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اورہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ یہ دعا مانگا کرے: ’’رَبِّ اَوْزِعْنِیْۤ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَ عَلٰى وَالِدَیَّ وَ اَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىهُ وَ اَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ ﱂاِنِّیْ تُبْتُ اِلَیْكَ وَ اِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ‘‘(احقاف:۱۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے میرے رب!مجھے توفیق دے کہ میں  تیری نعمت کا شکر ادا کروں  جو تو نے مجھ پراور میرے ماں باپ پر فرمائی ہے اور میں  وہ کام کروں  جس سے تو راضی ہوجائے اور میرے لیے میری اولاد میں  نیکی رکھ،میں  نے تیریطرف رجوع کیااور میں  مسلمانوں  میں  سے ہوں ۔

Scroll to Top