سُوْرَۃُ الطَّلَاق
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوْهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَ اَحْصُوا الْعِدَّةَۚ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَ رَبَّكُمْۚ-لَا تُخْرِجُوْهُنَّ مِنْۢ بُیُوْتِهِنَّ وَ لَا یَخْرُجْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍؕ-وَ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِؕ-وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهٗؕ-لَا تَدْرِیْ لَعَلَّ اللّٰهَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِكَ اَمْرًا(1)
ترجمہ: کنزالعرفان
اے نبی!( امت سے فرمادیں کہ) جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے وقت پر انہیں طلاق دو اور عدت کو شمارکرتے رہواور اللہ سے ڈروجو تمہارا رب ہے۔تم عورتوں کوان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ خود نکلیں مگر یہ کہ کسی صریح برائی کا ارتکاب کریں اور یہ اللہ کی حدیں ہیں اور جو اللہ کی حدوں سے آگے بڑھاتو بیشک اس نے اپنی جان پر ظلم کیا۔ تم نہیں جانتے شاید اللہ اس کے بعد کوئی نیا معاملہ پیدا فرمادے۔
تفسیر: صراط الجنان
{یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوْهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ: اے نبی! جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے وقت پر انہیں طلاق دو۔} شانِ نزول: یہ آیت حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے حق میں نازل ہوئی، اُنہوں نے اپنی بیوی کو عورتوں کے مخصوص اَیّام میں طلاق دی تھی،سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں حکم دیا کہ رجوع کریں پھر اگر طلاق دینا چاہیں تو طُہر یعنی پاکی کے دنوں میں طلاق دیں ۔صحیح بخاری شریف میں حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مبارک زمانے میں اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دیدی ،اس کے بارے میں حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دریافت کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا’’اسے رجوع کرنے کا حکم دو تاکہ وہ ٹھہری رہے یہاں تک کہ پاک ہو جائے،پھر حیض آئے اور پاک ہو جائے، اب اگر چاہے تو روک لے اور چاہے تواسے چھونے سے پہلے طلاق دیدے،پس یہی وہ عدت ہے جس کا اللّٰہ تعالیٰ نے حکم فرمایاہے کہ عورتوں کو اس طرح طلاق دی جائے۔( بخاری، کتاب الطلاق، باب قول اللّٰہ تعالی: یایّہا النبی اذا طلّقتم النسائ۔۔۔ الخ، ۳ / ۴۷۸، الحدیث: ۵۲۵۱)
{اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ: جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو۔} اس آیت میں بیوی کوطلاق دینے کاطریقہ اورطلاق یافتہ عورت کی عدت سے متعلق شرعی احکام بیان کئے گئے ہیں ہے،چنانچہ آیت کے ابتدائی حصے کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اپنی امت سے فرمادیں کہ جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دینے کا ارادہ کرو تو ان کی عدت کے وقت پر یعنی پاکی کے دنوں میں انہیں طلاق دو تاکہ ان کی عدت لمبی نہ ہو۔( خازن، الطلاق، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۲۷۷)
عورت کو طلاق دینے سے متعلق5شرعی احکام:
آیت کے اس حصے کی مناسبت سے عورت کو طلاق دینے سے متعلق 5شرعی احکام ملاحظہ ہوں ،
(1)…اس آیت میں عورتوں سے مراد وہ عورتیں ہیں جن سے ان کے شوہروں نے حقِ زوجیَّت ادا کیا ہواور ان کی عدت حیض سے شمار کی جائے،اگرانہیں طلاق دینی ہو تو ایسے پاکی کے دنوں میں ایک طلاق دیں جن میں ان سے جماع نہ کیا گیا ہو اور عدت گزرنے تک رجوع نہ کریں ۔اسے طلاقِ احسن کہتے ہیں ۔
(2)…اگر انہیں حیض کے دنوں میں طلاق دی ،یا پاکی کے ایسے دنوں میں طلاق دی جن میں حقِ زوجیَّت ادا کیا ہو، اسی طرح پاکی کے ایک زمانے میں دو یا تین طلاقیں ایک ساتھ یا الگ الگ دیدیں اگرچہ اس زمانے میں حقِ زوجیَّت ادا نہ کیا ہو تو یہ سب صورتیں طلاقِ بدعت کی ہیں ،اس کا حکم یہ ہے کہ طلاقِ بدعت مکروہ ہے ،مگر واقع ہو جاتی ہے اور ایسی طلاق دینے والا گناہگار ہوتاہے۔
(3)… وہ عورتیں جنہیں حیض نہیں آتا جیسے چھوٹی بچی اور حاملہ عورت ،یاآئسہ یعنی جسے بڑھاپے کی وجہ سے حیض آنا بند ہو گیا ہو،وہ اس آیت کے حکم میں داخل نہیں ہیں ۔
(4)…وہ عورت جس سے اس کے شوہر نے حقِ زوجیَّت ادانہ کیا ہو،اور نہ اسے شوہر کے ساتھ ایسی تنہائی ہوئی ہوجس میں وہ ہم بستری کرسکیں تو اس پر عدت نہیں ہے ،باقی وہ عورتیں جنہیں حیض نہیں آتا ، ان کی عدت حیض سے شمار نہ ہو گی۔
(5)…جس عورت سے حقِ زوجیَّت ادا نہیں کیا گیا اسے حیض کے دنوں میں طلاق دینا جائز ہے۔( طلاق سے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے کتاب ’’طلاق کے آسان مسائل‘‘ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)کا مطالعہ فرمائیں)
{وَ اَحْصُوا الْعِدَّةَ: اور عدت کو شمارکرتے رہو۔} یہاں مَردوں کو حکم دیا گیا کہ طلاق دینے کے بعد عورت کی عدت کو شمارکرتے رہو یہاں تک کہ اسے تین بار حیض آ جائے۔یاد رہے کہ عدت کا شمار مرد و عورت دونوں ہی کریں گے البتہ یہاں بطورِ خاص مَردوں کوعدت شمار کرنے کااس لئے فرمایا گیا کہ عورتوں میں بہت مرتبہ غفلت ہوجاتی ہے۔
{وَ اتَّقُوا اللّٰهَ رَبَّكُمْ: اور اللّٰہ سے ڈروجو تمہارا رب ہے۔} یعنی عورتوں کی عدت دراز کرنے اور اللّٰہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف وزری کرنے کے معاملے میں اس اللّٰہ تعالیٰ سے ڈروجو تمہارا حقیقی رب ہے۔
{لَا تُخْرِجُوْهُنَّ مِنْۢ بُیُوْتِهِنَّ: تم عورتوں کوان کے گھروں سے نہ نکالو۔} یعنی اے لوگو!عدت کے دنوں میں عورتوں کوان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ اس دوران وہ خود اپنی رہائش گاہ سے نکلیں ،البتہ اگر وہ کسی صریح بے حیائی کا اِرتکاب کریں اوراُن سے کوئی اعلانیہ فسق صادر ہو جس پر حد آتی ہے جیسے زنا اور چوری وغیرہ کریں تو اس صورت میں تم انہیں گھر سے نکال سکتے ہو ۔( مدارک ، الطلاق ، تحت الآیۃ : ۱ ، ص۱۲۵۱ ، روح البیان، الطلاق، تحت الآیۃ: ۱، ۱۰ / ۲۸، خزائن العرفان، الطلاق، تحت الآیۃ: ۱، ص۱۰۳۲)
گھر میں عدت گزارنے سے متعلق 5شرعی مسائل :
یہاں آیت کے اس حصے کی مناسبت سے گھر میں عدت گزارنے سے متعلق 5شرعی مسائل ملاحظہ ہوں ،
(1)… عورت کو عدت شوہر کے گھر پوری کرنی لازم ہے۔شوہر کو جائز نہیں کہ طلاق یافتہ کو عدت کے اَیّام میں گھر سے نکالے اور نہ ان عورتوں کو وہاں سے خود نکلنا جائز ہے کیونکہ یہ رہائش محض شوہر کا حق نہیں ہے جو ا س کی رضامندی سے ساقط ہو جائے بلکہ یہ شریعت کا حق بھی ہے۔
(2)…اگر عورت فحش بولے اور گھر والوں کو ایذا دے تو اسے نکالنا جائز ہے کیونکہ وہ ناشزہ (یعنی نافرمان عورت) کے حکم میں ہے ۔
(3)…جو عورت طلاقِ رجعی یا بائن کی عدت میں ہو اس کو گھر سے نکلنا بالکل جائز نہیں اور جو موت کی عدت میں ہو وہ حاجت پڑے تو دن میں نکل سکتی ہے لیکن اسے شوہر کے گھر ہی میں رات گزارنا ضروری ہے ۔
(4)…جو عورت طلاقِ بائن کی عدت میں ہو، اس کے اور شوہر کے درمیان پردہ ضروری ہے اور زیادہ بہتر یہ ہے کہ کوئی اور عورت ان دونوں کے درمیان حائل ہو ۔
(5)…اگر شوہر فاسق ہو یا مکان بہت تنگ ہو تو شوہر اس مکان سے چلا جائے ۔
{وَ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ: اور یہ اللّٰہ کی حدیں ہیں ۔} یعنی تمہیں جو احکام دئیے گئے یہ اللّٰہ تعالیٰ کی حدیں ہیں جن کے اندر رہنا بندوں پر لازم ہے اور جو اللّٰہ تعالیٰ کی حدوں سے آگے بڑھاتو بیشک اس نے گناہ کر کے اپنی جان پر ظلم کیا۔
{لَا تَدْرِیْ: تم نہیں جانتے۔} آیت کے اس حصے میں طلاق دینے والے کو ترغیب دی گئی ہے کہ طلاقِ رجعی یعنی ایک طلاق دے کر چھوڑ دینا ہی بہتر ہے،چنانچہ فرمایا گیا کہ اے مُخاطَب! تمہیں معلوم نہیں ،ممکن ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ طلاق دینے کے بعد شوہرکے دل میں عورت کی طرف میلان پیدا فرمادے اوراسے اپنے فعل پر ندامت محسوس ہو اور رجوع کرنے کی طرف مائل ہو،اس لئے اگر رجعی طلاق دی ہو گی تو ایسی صورتِ حال میں رجوع کرناآسان ہو گا یا تین سے کم طلاقِ بائن دی ہوں توخالی نکاح سے رجوع ہوسکتا ہے۔
فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَاَمْسِكُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ فَارِقُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ وَّ اَشْهِدُوْا ذَوَیْ عَدْلٍ مِّنْكُمْ وَ اَقِیْمُوا الشَّهَادَةَ لِلّٰهِؕ-ذٰلِكُمْ یُوْعَظُ بِهٖ مَنْ كَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ۬ؕ-وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا(2)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو جب عورتیں اپنی مدت تک پہنچنے کو ہوں تو انہیں بھلائی کے ساتھ روک لو یا انہیں بھلائی کے ساتھ جدا کر دو اور اپنوں میں سے دو عادل گواہ بنالو اور اللہ کے لیے گواہی قائم کرو۔یہ ہے جس سے اس شخص کو نصیحت کی جاتی ہے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اور جو اللہ سے ڈرے اللہ اس کے لیے نکلنے کا راستہ بنادے گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ: تو جب عورتیں اپنی مدت تک پہنچنے کو ہوں ۔} اس آیت میں طلاق یافتہ عورت سے رجوع کرنے کے احکام بیان کئے گئے ہیں ،چنانچہ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب اوپر بیان کردہ طریقے کے مطابق طلاق دی جانے والی عورتیں اپنی عدت کی اختتامی مدت کے قریب تک پہنچ جائیں تو تمہیں اختیار ہے، اگر تم ان کے ساتھ حسنِ معاشرت اور اچھا سلوک کرتے ہوئے رہنا چاہو تو رجوع کرلو اور دل میں دوبارہ طلاق دینے کا ارادہ نہ رکھو اور اگر تمہیں ان کے ساتھ خوبی اور اچھائی سے بسر کرسکنے کی اُمید نہ ہو توان کے حق، جیسے مہر وغیرہ ادا کرکے اُن سے جدائی اختیار کرلو اور انہیں اس طرح نقصان نہ پہنچاؤکہ عدت کے آخر میں رجوع کرلو پھرطلاق دے دو ،یوں اُن کی عدت دراز کرکے انہیں پریشانی میں ڈالو،نیز رجوع کرو یا جدائی اختیار کرو دونوں صورتوں میں تہمت دور کرنے اور جھگڑے سے بچنے کیلئے اپنوں میں سے دو ایسے مسلمانوں کو گواہ بنا لوجو عادل یعنی شرعاً قابلِ قبول ہوں اور گواہ بنانے سے مقصود اللّٰہ تعالیٰ کی رضا جوئی ہو اوراس میں حق کو قائم کرنے اوراللّٰہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کے علاوہ اپنی کوئی فاسد غرض نہ ہو۔ یہ وہ حکم ہے جس سے اس شخص کو نصیحت کی جاتی ہے جو اللّٰہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اور جو اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرے اور طلاق دے تو سنت کے مطابق دے ،عدت والی کو نقصان نہ پہنچائے ،نہ اُسے رہائش گاہ سے نکالے اور اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق مسلمانوں کو گواہ کرلے تواللّٰہ تعالیٰ اس کے لیے نجات کی راہ نکال دے گا جس سے وہ دنیا و آخرت کے غموں سے خلاصی پائے گااور ہر تنگی و پریشانی سے محفوظ رہے گا ۔( مدارک، الطلاق، تحت الآیۃ: ۲، ص۱۲۵۱، ملخصاً)
طلاق یافتہ عورت سے رجوع کرنے سے متعلق 3شرعی مسائل:
یہاں آیت کی مناسبت سے رجوع کا معنی اور طلاق یافتہ عورت سے رجوع کرنے سے متعلق 4شرعی مسائل ملاحظہ ہوں ،
(1)…جس عورت کو رجعی طلاق دی ہو،عدت کے اندراسے پہلے نکاح پر باقی رکھنا ’’رجوع‘‘ کہلاتا ہے۔
(2)…رجوع کرنے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ کسی لفظ سے رجوع کرے اور رجوع کرنے پر دو عادل شخصوں کو گواہ بنا لے اورعورت کو بھی اس کی خبر کردے تاکہ عدت کے بعد کسی اور سے نکاح نہ کرلے اور اگرشوہر کے رجوع کے بعد بھی عورت نے لاعلمی میں نکاح کرلیا تودوسرے شوہر سے جدا کردیا جائے اگرچہ وہ حقِ زوجیّت ادا کر چکا ہو کیونکہ یہ نکاح نہیں ہوا، اور اگر کسی لفظ سے رجوع کیا مگر گواہ نہ بنائے یا گواہ بھی بنائے مگر عورت کو خبر نہ کی تو یہ مکروہ اورخلافِ سنت ہے مگر رجوع ہو جائے گا، اور اگر فعل سے رجوع کیا مثلاً اُس سے صحبت کی یا شہوت کے ساتھ بوسہ لیا یااسی قسم کا کوئی دوسرا کام کیا تو رجوع ہو گیا مگر مکروہ ہے،لہٰذا اُسے چاہیے کہ پھر گواہوں کے سامنے رجوع کے الفاظ کہے۔
(3)…رجوع کرنے میں عورت کے راضی ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ اگر وہ انکار بھی کرے جب بھی رجوع ہو جائے گا بلکہ اگر شوہر نے طلاق دینے کے بعد کہہ دیا ہو کہ میں نے رجوع باطل کردیا یا مجھے رجوع کا اختیار نہیں جب بھی رجوع کر سکتا ہے۔( بہار شریعت، رجعت کا بیان، ۲ / ۱۷۰-۱۷۲، ملخصاً)
نوٹ:رجوع سے متعلق مزید مسائل کی معلومات حاصل کرنے کے لئے بہار شریعت ،حصہ8سے ’’رجعت کا بیان‘‘ مطالعہ فرمائیں ۔
{وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا: اور جو اللّٰہ سے ڈرے اللّٰہ اس کے لیے نکلنے کا راستہ بنادے گا۔} آیت کے اس حصے کا ایک معنی اوپر بیان ہوا اورا کثر مفسرین کے نزدیک اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ حضرت عوف بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے فرزند کو مشرکین نے قید کرلیا توآپ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ میرا بیٹا مشرکین نے قید کرلیا ہے اور اسی کے ساتھ اپنی محتاجی و ناداری کی شکایت کی، سر کارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا’’ اللّٰہ تعالیٰ کا ڈر رکھو اور صبر کرو اور کثرت سے لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم پڑھتے رہو ،حضرت عوف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے گھرآکر اپنی زوجہ سے یہ کہا اور دونوں نے یہ وظیفہ پڑھنا شروع کر دیا، ابھی وہ پڑھ ہی رہے تھے کہ بیٹے نے دروازہ کھٹکھٹادیا،ہوا یوں کہ دشمن غافل ہوگیا تھا اوریہ موقع پاکر قید سے بھاگ آیا اور ایک روایت کے مطابق چلتے ہوئے دشمن کے سو اونٹ اور ایک روایت کے مطابق چار ہزار بکریاں بھی ساتھ لے آیا۔ حضرت عوف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے خدمتِ اقدس میں حاضر ہو کر دریافت کیا کہ یہ اونٹ یا بکریاں ان کے لئے حلال ہیں ؟ حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اجازت دی اور یہ آیت نازل ہوئی۔( خازن، الطلاق، تحت الآیۃ: ۲، ۴ / ۲۷۹، مدارک، الطلاق، تحت الآیۃ: ۳، ص۱۲۵۲، ملتقطاً)
لوگوں کو کفایت کرنے والی آیت:
آیت کے اس حصے کے بارے میں حضرت ابو ذر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’میں ایک آیت جانتا ہوں ،اگر تمام لوگ اس پر عمل کریں تو وہ ان کے لئے کافی ہے ۔صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ کون سی آیت ہے؟ ارشاد فرمایا:
’’وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو اللّٰہ سے ڈرے اللّٰہ اس کے لیے نکلنے کا راستہ بنادے گا۔
( ابن ماجہ ، کتاب الزہد ، باب الورع و التقوی ، الجزء الثانی ، ص۱۴۱۱، الحدیث: ۴۲۲۰، مطبعۃ دار احیاء الکتب العربیۃ، قاہرہ)
وَّ یَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُؕ-وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗؕ-اِنَّ اللّٰهَ بَالِغُ اَمْرِهٖؕ-قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ لِكُلِّ شَیْءٍ قَدْرًا(3)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اسے وہاں سے روزی دے گا جہاں اس کا گمان بھی نہ ہو اور جو اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ اسے کافی ہے بیشک اللہ اپنا کام پورا کرنے والا ہے، بیشک اللہ نے ہر چیز کیلئے ایک اندازہ مقرر کررکھا ہے
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ: اور اسے وہاں سے روزی دے گا جہاں اس کا گمان بھی نہ ہو۔} اوپر والی آیت کے آخری حصے میں اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرنے والے کو ایک بشارت دی گئی اور یہاں اسے مزید بشارت دی جا رہی ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اسے وہاں سے روزی دے گا جہاں اس کا گمان بھی نہ ہو اور جو اللّٰہ تعالیٰ پر بھروسہ کرے اور اپنے تمام اُمور اسی کے سپرد کر دے تو وہ اسے دونوں جہان میں کافی ہے ،بیشک اللّٰہ تعالیٰ اپنا کام پورا کرنے والا ہے، بیشک اللّٰہ تعالیٰ نے ہر چیز کیلئے ایک اندازہ مقرر کررکھا ہے (لہٰذا تم تَوَکُّل کر ویا نہ کرو،ملے گا وہی جو مقدر ہے ، تو تَوَکُّل چھوڑ کر ثواب سے محروم کیوں ہوتے ہو۔)( مدارک، الطلاق، تحت الآیۃ: ۳، ص۱۲۵۱-۱۲۵۲)
توکُّل کرنے کی ترغیب:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ ہر مسلمان کو اللّٰہ تعالیٰ پر توکُّل کرنا چاہئے اور اپنے تمام اُمور میں اسی پر بھروسہ کرنا چاہئے ۔توکُّل کے بارے میں حضرت عمرفاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگرتم اللّٰہ تعالیٰ پراس طرح توکُّل کروجس طرح توکُّل کرنے کاحق ہے توتمہیں اس طرح رزق دیاجائے گاجس طرح پرندوں کورزق دیاجاتاہے ،وہ صبح کوبھوکے نکلتے ہیں اورشام کوپیٹ بھرکرآتے ہیں ۔( ترمذی، کتاب الزہد، باب فی التوکل علی اللّٰہ، ۴ / ۱۵۴، الحدیث: ۲۳۵۱)
اور حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا:جوشخص فاقہ میں مبتلاہواوروہ لوگوں کے سامنے اپنے فاقہ کوبیان کرے تواللّٰہ تعالیٰ اس کے فاقہ کودورنہیں کرتااورجس شخص کوفاقہ ہواوروہ اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کرے تواللّٰہ تعالیٰ اسے جلد وفات دے کر یا دیر سے رزق عطافرما کر بے نیاز کر دے گا۔( ابوداؤد، کتاب الزکاۃ، باب فی الاستعفاف، ۲ / ۱۷۰، الحدیث: ۱۶۴۵)
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں جیسا توکُّل کرنے کا حق ہے ویسا توکُّل کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
وَ اﻼ یَىٕسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِنْ نِّسَآىٕكُمْ اِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلٰثَةُ اَشْهُرٍۙ- وَّ اﻼ لَمْ یَحِضْنَؕ -وَ اُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّؕ-وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ اَمْرِهٖ یُسْرًا(4)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور تمہاری عورتوں میں جو حیض سے ناامید ہوچکی ہوں اگر تمہیں کچھ شک ہو تو ان کی اور جنہیں حیض نہیں آیاان کی عدت تین مہینے ہے اور حمل والیوں کی عدت کی مدت یہ ہے کہ وہ اپنا حمل جن لیں اور جو اللہ سے ڈرے اللہ اس کے لیے اس کے کام میں آسانی فرمادے گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اﻼ یَىٕسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِنْ نِّسَآىٕكُمْ: اور تمہاری عورتوں میں جو حیض سے ناامید ہوچکی ہوں ۔} شانِ نزول: صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کی : حیض والی عورتوں کی عدت تو ہمیں معلوم ہوگئی،اب جو حیض والی نہ ہوں تو اُن کی عدت کیا ہے؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ تمہاری عورتوں میں جوبڑھاپے کی وجہ سے حیض آنے سے ناامید ہوچکی ہوں ،اگر تمہیں اس میں کچھ شک ہو کہ ان کا حکم کیاہے تو سن لو، ان کی اور جنہیں ابھی کم عمری کی وجہ سے حیض نہیں آیاان کی عدت تین مہینے ہے اور حمل والیوں کی عدت کی مدت یہ ہے کہ وہ اپنا حمل جَن لیں اورجو اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرے تواللّٰہ تعالیٰ اس کے کام میں آسانی فرمادے گا۔( مدارک، الطلاق، تحت الآیۃ: ۴، ص۱۲۵۲)
جن عورتوں کو حیض نہیں آتا ان کی عدت سے متعلق4شرعی مسائل:
یہاں آیت کی مناسبت سے جن عورتوں کو حیض نہیں آتا ان کی عدت کے بارے میں4شرعی مسائل ملاحظہ ہوں :
(1)… بڑھاپے کی وجہ سے جب حیض منقطع ہوجائے وہ سنِ اِیاس ہے،اور اس عمر میں پہنچی ہوئی عورت کی عدت تین ماہ ہے۔
(2)…لڑکی نابالغہ ہو یااس کے بالغ ہونے کی عمر تو آگئی مگر ابھی حیض نہیں شروع ہوا تو اُن دونوں کی عدت تین ماہ ہے۔
(3)…حاملہ عورتوں کی عدت وضعِ حمل ہے خواہ وہ عدت طلاق کی ہو یا وفات کی۔
(4)…وضعِ حمل سے عدت پوری ہونے کے لیے کوئی خاص مدت مقرر نہیں ، موت یا طلاق کے بعد جس وقت بچہ پیدا ہو عدت ختم ہوجائے گی اگرچہ ایک منٹ بعد ۔ یونہی اگر حمل ساقط ہوگیا لیکن بچے کے اَعضابن چکے ہیں تو عدت پوری ہوگئی اور بچے کے اَعضاء بننے سے پہلے حمل ساقط ہوا تو عدت ختم نہیں ہوگی۔
ذٰلِكَ اَمْرُ اللّٰهِ اَنْزَلَهٗۤ اِلَیْكُمْؕ-وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یُكَفِّرْ عَنْهُ سَیِّاٰتِهٖ وَ یُعْظِمْ لَهٗۤ اَجْرًا(5)
ترجمہ: کنزالعرفان
یہ اللہ کا حکم ہے جو اس نے تمہاری طرف اتارا اور جو اللہ سے ڈرے تواللہ اس سے اس کی برائیاں مٹا دے گا اور اس کیلئے ثواب کو بڑا کردے گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{ذٰلِكَ اَمْرُ اللّٰهِ اَنْزَلَهٗۤ اِلَیْكُمْ: یہ اللّٰہ کا حکم ہے جو اس نے تمہاری طرف اتارا۔} یعنی یہاں جو احکام مذکور ہوئے یہ اللّٰہ تعالیٰ کا حکم ہے جو اس نے تمہاری طرف اتارا اور جو اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرے اور اللّٰہ تعالیٰ کے نازل فرمائے ہوئے احکام پر عمل کرے اور اپنے اوپر جو حقوق واجب ہیں انہیں احتیاط کے ساتھ ادا کرے تواللّٰہ تعالیٰ اس کی برائیاں مٹا دے گا اور اس کیلئے ثواب کو بڑا کردے گا۔( مدارک، الطلاق، تحت الآیۃ: ۵، ص۱۲۵۲)
تقویٰ دینی، دُنْیَوی نعمتیں ملنے کا سبب ہے:
اس سے معلوم ہوا کہ تقویٰ دینی، دُنْیَوی نعمتیں ملنے کا سبب ہے، اس سے آفتیں دور ہوتی ہیں ، دنیا میں رحمتیں آتی ہیں ، اور آخرت میں اللّٰہ تعالیٰ کرم فرماتا ہے ۔
اَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَیْثُ سَكَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِكُمْ وَ لَا تُضَآرُّوْهُنَّ لِتُضَیِّقُوْا عَلَیْهِنَّؕ-وَ اِنْ كُنَّ اُولَاتِ حَمْلٍ فَاَنْفِقُوْا عَلَیْهِنَّ حَتّٰى یَضَعْنَ حَمْلَهُنَّۚ-فَاِنْ اَرْضَعْنَ لَكُمْ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّۚ-وَ اْتَمِرُوْا بَیْنَكُمْ بِمَعْرُوْفٍۚ-وَ اِنْ تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهٗۤ اُخْرٰىﭤ(6)لِیُنْفِقْ ذُوْ سَعَةٍ مِّنْ سَعَتِهٖؕ-وَ مَنْ قُدِرَ عَلَیْهِ رِزْقُهٗ فَلْیُنْفِقْ مِمَّاۤ اٰتٰىهُ اللّٰهُؕ-لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا مَاۤ اٰتٰىهَاؕ-سَیَجْعَلُ اللّٰهُ بَعْدَ عُسْرٍ یُّسْرًا(7)
ترجمہ: کنزالعرفان
عورتوں کو وہاں رکھو جہاں خود رہتے ہو اپنی گنجائش کے مطابق اور انہیں تکلیف نہ دو کہ ان پر تنگی کرو اور اگروہ حمل والیاں ہوں تو ان پر خرچ کرتے رہو یہاں تک کہ وہ بچہ جَن دیں پھر اگر وہ تمہارے لیے (بچے کو) دودھ پلائیں تو انہیں ان کی اجرت دو اور آپس میں اچھے طریقے سے مشورہ کرلو اور اگر تم آپس میں دشواری سمجھو تو عنقریب اسے کوئی دوسری عورت دودھ پلادے گی۔مالی وسعت رکھنے والے کو چاہئے کہ اپنی گنجائش کے مطابق خرچ کرے اور جس پر اس کا رزق تنگ کیا گیا ہے تو اسے چاہئے کہ اس میں سے خرچہ دے جو اسے اللہ نے دیاہے ،اللہ کسی جان پر بوجھ نہیں رکھتا مگر اسی قابل جتنا اسے دیا ہے، جلد ہی اللہ دشواری کے بعد آسانی فرمادے گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَیْثُ سَكَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِكُمْ: عورتوں کو وہاں رکھو جہاں خود رہتے ہو اپنی گنجائش کے مطابق۔} اس آیت میں عدت کے دوران عورت کی رہائش،اس کے اخراجات اور اگراس کے ہاں بچہ پیدا ہو جائے تو اسے دودھ پلانے سے متعلق شرعی احکام بیان کئے جا رہے ہیں ،چنانچہ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جن عورتوں کو تم نے طلاق دی انہیں وہاں رکھو جہاں خود رہتے ہو، اپنی طاقت کے مطابق انہیں رہائش دو اور انہیں یوں تکلیف نہ دو کہ ان کے مکان کو گھیر کر ان کی جگہ تنگ کر دو، یا کسی نا موافق کو ان کے ساتھ رہائش دے دو نیز تم انہیں کوئی ایسی ایذا دے کر تنگی نہ پہنچاؤ کہ وہ گھر سے نکلنے پر مجبور ہوجائیں اور اگر طلاق والی عورتیں حمل والیاں ہوں تو ان پر شریعت کے مطابق خرچ کرتے رہو یہاں تک کہ وہ بچہ پیدا کر دیں کیونکہ اُن کی عدت بچہ پیداہونے پر ہی پوری ہوگی، پھر اگر وہ تمہارے لیے بچے کو دودھ پلائیں تو انہیں ان کے کام کی اجرت دو اور اجرت سے متعلق آپس میں اچھے طریقے سے مشورہ کرلو اور یہ خیال رکھو کہ نہ مرد عورت کے حق میں کوتاہی کرے، نہ عورت اِس معاملہ میں سختی کرے، پھر اگر تم آپس میں یہ معاملہ طے کرنے میں دشواری سمجھو اوربچے کی ماں کسی دوسری عورت کے برابر اُجرت پر راضی نہ ہوبلکہ زیادہ اجرت کا مطالبہ کرے اور باپ زیادہ دینا نہ چاہے تو قریب ہے کہ اسے کوئی اورعورت دودھ پلادے گی یعنی پھر شوہر کسی دوسری کا انتظام کرلے۔(مدارک، الطلاق، تحت الآیۃ: ۶، ص۱۲۵۳، خازن، الطلاق، تحت الآیۃ: ۶، ۴ / ۲۸۰، ملتقطاً)
طلاق یافتہ عورت کو عدت کے دوران رہائش اور نفقہ دینے سے متعلق دو شرعی مسائل:
یہاں آیت کی مناسبت سے طلاق یافتہ عورت کو عدت کے دوران رہائش اور نفقہ دینے سے متعلق دو شرعی مسائل ملاحظہ ہوں ،
(1) … طلاق دی ہوئی عورت کو عدت پوری ہونے تک رہنے کیلئے اپنی حیثیت کے مطابق مکان دینا شوہر پر واجب ہے اور عدت کے زمانہ میں نفقہ یعنی اخراجات دینا بھی واجب ہے۔
(2)… نفقہ جیسے حاملہ عورت کو دینا واجب ہے ایسے ہی غیر حاملہ کو بھی دینا واجب ہے خواہ اسے طلاق رجعی دی ہو یا بائن۔
بچے کو دودھ پلانے سے متعلق شرعی مسائل:
آیت کی مناسبت سے بچے کو دودھ پلانے سے متعلق چارشرعی احکام ملاحظہ ہوں ،
(1)… بچے کو دودھ پلانا ماں پر واجب نہیں ، باپ کی ذمہ داری ہے کہ اجرت دے کر دود ھ پلوائے لیکن اگر بچہ ماں کے سوا کسی اور عورت کا دود ھ نہ پئے، یا باپ فقیر ہو تواس حالت میں ماں پر دود ھ پلانا واجب ہوجاتا ہے، بچے کی ماں جب تک اس کے باپ کے نکاح میں ہو یا طلاقِ رجعی کی عدت میں ہو تو ایسی حالت میں اسے دود ھ پلانے کی اجرت لینا جائز نہیں ، عدت کے بعد لینا جائز ہے ۔
(2)… کسی عورت کو مُعَیَّن اجرت پر دود ھ پلانے کیلئے مقرر کرنا جائز ہے۔
(3)… اجرت پر دود ھ پلانے کیلئے غیر عورت کی بہ نسبت ماں زیادہ مستحق ہے۔
(4)… اگر ماں زیادہ اُجرت طلب کرے تو پھر غیر عورت کو مقرر کرنے میں اصلاً کوئی حرج نہیں ۔
{لِیُنْفِقْ ذُوْ سَعَةٍ مِّنْ سَعَتِهٖ: مالی وسعت رکھنے والے کو چاہئے کہ اپنی گنجائش کے مطابق خرچ کرے۔} یعنی مالی وسعت رکھنے والا اپنی گنجائش کے مطابق اور تنگدستی میں مبتلا شخص اپنی حیثیت کے مطابق طلاق والی اور دود ھ پلانے والی عورتوں کو خرچہ دے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ ہرجان پر اسی قابل بوجھ رکھتا ہے جتنا اسے رزق دیا ہے اور تنگدست آدمی خرچ کرنے سے ڈرے نہیں ، جلد ہی اللّٰہ تعالیٰ معاش کی تنگی کے بعد اسے آسانی عطافرمادے گا۔
وَ كَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَةٍ عَتَتْ عَنْ اَمْرِ رَبِّهَا وَ رُسُلِهٖ فَحَاسَبْنٰهَا حِسَابًا شَدِیْدًاۙ-وَّ عَذَّبْنٰهَا عَذَابًا نُّكْرًا(8)فَذَاقَتْ وَبَالَ اَمْرِهَا وَ كَانَ عَاقِبَةُ اَمْرِهَا خُسْرًا(9)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور کتنے ہی شہر تھے جنہوں نے اپنے رب کے اور اس کے رسولوں کے حکم سے سرکشی کی تو ہم نے ان سے سخت حسا ب لیا اور انہیں برا عذاب دیا ۔تو انہوں نے اپنے کام کا وبال چکھا اور ان کے کام کا انجام خسارہ ہوا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ كَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَةٍ: اور کتنے ہی شہر تھے۔} اس آیت سے اللّٰہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کرنے سے لوگوں کو ڈرایا جا رہا ہے ،چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کتنے ہی شہر والے ایسے تھے جنہوں نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حکم اور اس کے رسولوں عَلَیْہِ مُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے احکام سے سرکشی کی تو ہم نے ان سے ان کے اعمال کا سخت حسا ب لیا اور انہیں برا عذاب دیا۔یہاں سخت حساب سے مراد آخرت کاحساب ہے اور چونکہ اس کا واقع ہونا یقینی ہے اس لئے یہاں ماضی کے صیغہ سے اسے بیان فرمایا گیا اور برے عذاب سے جہنم کا عذاب مراد ہے یا اس سے مراد دنیا میں قحط اور قتل وغیرہ بلاؤں میں مبتلا کرنا ہے۔( روح البیان ، الطلاق ، تحت الآیۃ : ۸ ، ۱۰ / ۳۹ – ۴۰ ، مدارک ، الطلاق، تحت الآیۃ: ۸، ص۱۲۵۴، خازن، الطلاق، تحت الآیۃ: ۸، ۴ / ۲۸۱-۲۸۲، ملتقطاً)
{فَذَاقَتْ وَبَالَ اَمْرِهَا: تو انہوں نے اپنے کام کا وبال چکھا۔} یعنی ان شہر والوں نے(سخت حساب اور برے عذاب کے ذریعے) اپنے کفر اور سرکشی کا وبال چکھا اور ان کے کام کا انجام خسارہ ہوا کہ وہ منافع سے محروم ہو گئے اور عذاب میں مبتلا ہوئے۔( روح البیان، الطلاق، تحت الآیۃ: ۹، ۱۰ / ۴۰)
اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ عَذَابًا شَدِیْدًاۙ-فَاتَّقُوا اللّٰهَ یٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ ﲬ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاۚۛ-قَدْ اَنْزَلَ اللّٰهُ اِلَیْكُمْ ذِكْرًا(10)رَّسُوْلًا یَّتْلُوْا عَلَیْكُمْ اٰیٰتِ اللّٰهِ مُبَیِّنٰتٍ لِّیُخْرِ جَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِؕ-وَ مَنْ یُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ یَعْمَلْ صَالِحًا یُّدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-قَدْ اَحْسَنَ اللّٰهُ لَهٗ رِزْقًا(11)
ترجمہ: کنزالعرفان
اللہ نے ان کے لیے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے تو اللہ سے ڈرو، اے عقل والو جو ایمان لائے ہو، بیشک اللہ نے تمہاری طرف نصیحت اتاری۔۔(نیز) رسول (بھیجا) جوتم پر اللہ کی روشن آیتیں پڑھتا ہے تاکہ وہ ان لوگوں کو اندھیروں سے نورکی طرف لے جائے جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے اور جو اللہ پر ایمان لائے اور اچھا کام کرے تو اللہ اسے ان باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ، بیشک اللہ نے اس کے لیے اچھی روزی رکھی۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا: اللّٰہ نے ان کے لیے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے۔} یعنی دُنْیَوی عذاب کے ساتھ ساتھ اللّٰہ تعالیٰ نے ان کے لیے آخرت میں سخت عذاب تیار کر رکھا ہے تو اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرو اے عقل والو جو ایمان لائے ہو اور سابقہ جھٹلانے والی امتوں کے حال اور ان پر نازل ہونے والے عذاب سے عبرت حاصل کرو اور اللّٰہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کرنے سے بچو۔( روح البیان، الطلاق، تحت الآیۃ: ۱۰، ۱۰ / ۴۰-۴۱)
{قَدْ اَنْزَلَ اللّٰهُ اِلَیْكُمْ ذِكْرًا: بیشک اللّٰہ نے تمہاری طرف نصیحت اتاری۔} آیت کے اس حصے اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے لوگو!بیشک اللّٰہ تعالیٰ نے تمہاری طرف نصیحت اتاری اور وہ نصیحت قرآن ہے اور دوسری تفسیر یہ ہے کہ ذکر سے مراد رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں اور اگلی آیت کے شروع کا لفظ اسی ذکر کی تفسیر ہے اور معنٰی یہ ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے تمہاری طرف اپنا رسول بھیجاجوتمہارے سامنے حلال و حرام کے بیان پر مشتمل اللّٰہ تعالیٰ کی روشن آیتیں پڑھتے ہیں تاکہ وہ ان لوگوں کو کفر اور جہالت کے اندھیروں سے ایمان اور علم کے نورکی طرف لے جائیں جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے اور جو اللّٰہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور اچھا کام کرے تو اللّٰہ تعالیٰ اسے ان باغوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ، بیشک اللّٰہ تعالیٰ نے اس کے لیے اچھی روزی یعنی جنت رکھی ہے جس کی نعمتیں ہمیشہ باقی رہیں گی ، کبھی مُنقطع نہ ہوں گی ۔( مدارک، الطلاق، تحت الآیۃ: ۱۰-۱۱، ص۱۲۵۴، خازن، الطلاق، تحت الآیۃ: ۱۰-۱۱، ۴ / ۲۸۲، ملتقطاً)
سورۂ طلاق کی آیت نمبر11سے معلوم ہونے و الے مسائل:
اس آیت سے 7 مسئلے معلوم ہوئے،
(1)… کفر اندھیرا اور اسلام روشنی ہے۔
(2)… اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے کفر کے لئے’’ ظُلُمات ‘‘جمع کا صیغہ ذکر فرمایا اور اسلام کے لئے ’’نور ‘‘واحد کا صیغہ ارشاد فرمایا،اس سے معلوم ہو اکہ کفر ہزاروں قسم کا ہے مگر اسلام ایک ہی ہے ۔
(3)… حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کفر سے ایمان کی طرف، جہل سے علم کی طرف ، فسق سے تقویٰ کی طرف نکالتے ہیں ۔
(4)… ایمان عمل سے مُقَدّم ہے۔
(5)… نجات کے لئے ایمان کے ساتھ نیک اعمال کی بھی ضرورت ہے۔
(6)… اللّٰہ تعالیٰ ایک مومن کو کئی باغات عطا فرما دے گا۔
(7)… جنت میں ہمیشگی ہے، نہ وہاں موت آئے گی اور نہ وہاں سے نکلنا ہو گا۔
اَللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّ مِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّؕ-یَتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَیْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ﳔ وَّ اَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَیْءٍ عِلْمًا(12)
ترجمہ: کنزالعرفان
اللہ وہی ہے جس نے سات آسمان بنائے اور انہی کے برابر زمینیں ۔حکم ان کے درمیان اترتا ہے تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر شے پر خوب قادرہے اور یہ کہ اللہ کا علم ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّ مِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّ: اللّٰہ وہی ہے جس نے سات آسمان بنائے اور انہی کے برابر زمینیں۔} یعنی اے لوگو!اللّٰہ وہی ہے جس نے اپنی کامل قدرت سے سات آسمان بنائے اور سات ہی زمینیں بنائی ہیں ۔اللّٰہ تعالیٰ کاحکم ان سب میں جاری اور نافذ ہے تاکہ تم جان لو کہ اللّٰہ تعالیٰ ہر شے پر قادرہے اور یہ کہ اللّٰہ تعالیٰ کا علم ہر چیز کااِحاطہ کئے ہوئے ہے (لہٰذا اس کے لئے مُردوں کو زندہ کرنا اور ساری مخلوق کا حساب لینا کچھ مشکل نہیں )۔( روح البیان، الطلاق، تحت الآیۃ: ۱۲، ۱۰ / ۴۳، مدارک، الطلاق، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۱۲۵۴-۱۲۵۵، ملتقطاً)