سُوْرَۃُ الطَّارِق
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَ السَّمَآءِ وَ الطَّارِقِ(1)وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا الطَّارِقُ(2)النَّجْمُ الثَّاقِبُ(3)اِنْ كُلُّ نَفْسٍ لَّمَّا عَلَیْهَا حَافِظٌﭤ(4)
ترجمہ: کنزالعرفان
آسمان کی اور رات کو آنے والے کی قسم۔اورتمہیں کیا معلوم کہ رات کو آنے والا کیا ہے؟خوب چمکنے والا ستارا ہے۔کوئی جان نہیں مگر اس پر نگہبان موجود ہے
تفسیر: صراط الجنان
{وَ السَّمَآءِ وَ الطَّارِقِ: آسمان کی اور رات کو آنے والے کی قسم۔} شانِ نزول :ایک رات سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی خدمت میں ابو طالب کچھ ہدیہ لائے ،حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اس کو تَناوُل فرما رہے تھے کہ اسی دوران ایک ستارا ٹوٹا اور پوری فضا آگ سے بھر گئی۔ ابو طالب گھبرا کر کہنے لگے کہ یہ کیا ہے؟نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’کہ یہ ستارہ ہے جس سے شَیاطین مارے جاتے ہیں اور یہ اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ہے۔ ابو طالب کو اس سے تعجب ہوا تو اللّٰہ تعالیٰ نے (اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی تصدیق میں ) یہ آیات نازل فرمائیں۔چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی 3آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آسمان کی اور رات میں خوب چمکنے والے ستارے کی قسم ذکر کر کے ارشاد فرمایا کہ ہر جان پر اس کے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ایک نگہبان مقررہے جو اس کے اعمال کی نگہبانی کرتا ہے او راس کی نیکی بدی سب لکھ لیتا ہے۔ حضر ت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ یہاں نگہبان سے مراد فرشتے ہیں ۔( خازن، الطّارق، تحت الآیۃ: ۱-۴، ۴ / ۳۶۸)
ان فرشتوں کے بارے میں اللّٰہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
’’وَ یُرْسِلُ عَلَیْكُمْ حَفَظَةً‘‘(انعام:۶۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ تم پر نگہبان بھیجتا ہے۔
آیت ’’اِنْ كُلُّ نَفْسٍ لَّمَّا عَلَیْهَا حَافِظٌ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں :
(1)… اگرچہ رب تعالیٰ اس بات پرقادر ہے کہ خود سب کی ہر طرح حفاظت فرمائے ، مگر قانون یہ ہے کہ یہ کام اس کے مقرر کردہ فرشتے کریں ۔
(2)… رب تعالیٰ کے بعض نام اس کے بندوں کو دے سکتے ہیں ، جیسے اللّٰہ تعالیٰ کا ایک نام حافظ ہے اور یہاں آیت میں فرشتوں کو حافظ بتایا گیا، لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ہمارے حافظ وناصرہیں۔
فَلْیَنْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَﭤ(5)
ترجمہ: کنزالعرفان
انسان کو غور کرنا چاہئے کہ اسے کس چیز سے پیدا کیا گیا۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَلْیَنْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ: انسان کو غور کرنا چاہئے کہ اسے کس چیز سے پیدا کیا گیا۔} اس سے پہلی آیات میں اللّٰہ تعالیٰ نے قسم ذکر فرما کر یہ بات ارشاد فرمائی کہ ہر جان پر ایک نگہبان مقرر ہے جو ا س کے اعمال کی نگہبانی کرتا ہے اور اس کے اعمال لکھ لیتا ہے اور اس آیت میں انسان کو اپنی تخلیق کی ابتداء میں غور کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے تاکہ وہ یہ بات جان لے کہ جس نے اسے پہلی بار پیدا کیا ہے وہ اُس انسان کی موت کے بعد جزا دینے کے لئے اسے دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قادر ہے لہٰذا انسان کو چاہئے کہ وہ ا س دن کے لئے عمل کرے جس دن اسے دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور اسے جزا دی جائے گی۔( مدارک، الطّارق، تحت الآیۃ: ۵، ص۱۳۳۸)
خُلِقَ مِنْ مَّآءٍ دَافِقٍ(6)یَّخْرُ جُ مِنْۢ بَیْنِ الصُّلْبِ وَ التَّرَآىٕبِﭤ(7)اِنَّهٗ عَلٰى رَجْعِهٖ لَقَادِرٌﭤ(8)
ترجمہ: کنزالعرفان
اچھل کر نکلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا۔جو پیٹھ اور سینوں کے درمیان سے نکلتا ہے ۔بیشک اللہ اس کے واپس کرنے پر ضرورقادر ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{خُلِقَ مِنْ مَّآءٍ دَافِقٍ: اچھل کر نکلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا۔} یہاں سے وہ چیز بیان کی گئی ہے جس سے اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا فرمایا ہے ،چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو اچھل کر نکلنے والے پانی یعنی مرد اور عورت کے نطفوں سے پیدا کیاجو کہ عورت کے رحم میں مل کر ایک ہوجاتے ہیں اور یہ نطفہ مَردوں کی پیٹھ اور عورتوں کے سینوں کے درمیان سے نکلتا ہے۔حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ یہ پانی عورت کے سینے کے اس مقام سے نکلتا ہے جہاں ہار پہنا جاتا ہے اوراِنہیں سے منقول ہے کہ عورت کی دونوں چھاتیوں کے درمیان سے نکلتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ منی انسان کے تمام اَعضاء سے برآمد ہوتی ہے اور اس کا زیادہ حصہ دماغ سے مرد کی پشت میں آتا ہے اورعورت کے بدن کے اگلے حصے کی بہت سی ان رگوں میں سے آتا ہے جوسینے کے مقام پر ہیں ،اسی لئے یہاں ان دونوں مقامات کا ذکر خصوصیت سے فرمایا گیا۔( مدارک، الطّارق، تحت الآیۃ: ۶-۷، ص۱۳۳۸، خازن، الطّارق، تحت الآیۃ: ۶-۷، ۴ / ۳۶۸، ملتقطاً)
{اِنَّهٗ عَلٰى رَجْعِهٖ لَقَادِرٌ: بیشک اللّٰہ اس کے واپس کرنے پر ضرورقادر ہے۔} یعنی انسان کا اپنی تخلیق میں غور کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ جس رب تعالیٰ نے انسان کو نطفہ سے پہلی بار پیدا کر دیا تو وہ انسان کی موت کے بعد اسے دوبارہ زندگی کی طرف لوٹا دینے پرخاص طور پر قادر ہے۔( صاوی، الطّارق، تحت الآیۃ: ۸، ۶ / ۲۳۴۶، مدارک، الطّارق، تحت الآیۃ: ۸، ص۱۳۳۸، ملتقطاً)
یَوْمَ تُبْلَى السَّرَآىٕرُ(9)فَمَا لَهٗ مِنْ قُوَّةٍ وَّ لَا نَاصِرٍﭤ(10)
ترجمہ: کنزالعرفان
جس دن چھپی باتوں کو جانچا جائے گا ۔تو آدمی کے پاس نہ کچھ قوت ہوگی اورنہ کوئی مددگار۔
تفسیر: صراط الجنان
{یَوْمَ تُبْلَى السَّرَآىٕرُ: جس دن چھپی باتوں کو جانچا جائے گا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ جس دن چھپی باتوں کو ظاہر کر دیا جائے گا تو اس دن مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کاا نکار کرنے والے آدمی کے پاس نہ کوئی ایسی قوت ہوگی جس سے وہ عذاب کو روک سکے اور نہ اس کا کوئی ایسا مددگار ہوگا جو اُسے عذاب سے بچا سکے۔ چھپی باتوں سے مراد عقائد ،نیتیں اور وہ اعمال ہیں جن کو آدمی چھپاتا ہے اور قیامت کے دن اللّٰہ تعالیٰ ان سب کو ظاہر کردے گا۔(مدارک، الطّارق، تحت الآیۃ: ۹-۱۰، ص۱۳۳۸-۱۳۳۹، خازن، الطّارق، تحت الآیۃ: ۹-۱۰، ۴ / ۳۶۹، ملتقطاً)
قیامت کے دن پوشیدہ اعمال ظاہر کر دئیے جائیں گے
معلوم ہو اکہ بندے کے عقائد، نیتیں اور اعمال اگرچہ دنیا میں کسی پر ظاہر نہ ہو سکیں لیکن قیامت کے دن اس کا کیا دھرا سب سامنے آجائے گا۔ چنانچہ ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا
’’هُنَالِكَ تَبْلُوْا كُلُّ نَفْسٍ مَّاۤ اَسْلَفَتْ وَ رُدُّوْۤا اِلَى اللّٰهِ مَوْلٰىهُمُ الْحَقِّ‘‘(یونس:۳۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: وہاں ہر آدمی اپنے سابقہ اعمال کو جانچلے گا اور انہیں اللّٰہ کی طرف لوٹایا جائے گا جو ان کا سچا مولیٰ ہے۔
اور ارشاد فرمایا:
’’یُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ یَوْمَىٕذٍۭ بِمَا قَدَّمَ وَ اَخَّرَؕ(۱۳) بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰى نَفْسِهٖ بَصِیْرَةٌ‘‘(قیامہ:۱۳، ۱۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اس دن آدمی کو اس کا سب اگلا پچھلا بتادیا جائے گا۔بلکہ آدمی خود ہی اپنے حال پر پوری نگاہ رکھنے والا ہوگا۔
لہٰذا ہر ایک کو چاہئے کہ اپنے ظاہری اعمال درست کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے باطنی اور پوشیدہ اعمال کو بھی درست کرے تاکہ قیامت کے دن لوگوں کے سامنے رسوا ہونے سے بچ سکے ۔
وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الرَّجْعِ(11)وَ الْاَرْضِ ذَاتِ الصَّدْعِ(12)اِنَّهٗ لَقَوْلٌ فَصْلٌ(13)وَّ مَا هُوَ بِالْهَزْلِﭤ(14)
ترجمہ: کنزالعرفان
اس آسمان کی قسم جولوٹ لوٹ کر برستا ہے ۔اور پھاڑی جانے والی زمین کی۔ بیشک قرآن ضرور فیصلہ کردینے والا کلام ہے ۔اور وہ کوئی ہنسی مذاق کی بات نہیں ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الرَّجْعِ: اس آسمان کی قسم جولوٹ لوٹ کر برستا ہے۔} توحید اور حشر و نشر کے دلائل بیان فرمانے کے بعد یہاں سے زمین و آسمان کی قسم ارشاد فرما کر قرآنِ پاک کی حقیقت کو بیان کیا گیاہے،چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی 3آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اس آسمان کی قسم جس سے بار بار بارش اترتی ہے اوراس زمین کی قسم جسے سبزہ نکالنے کیلئے پھاڑا جاتا ہے ،بیشک قرآن ضرور فیصلہ کردینے والا کلام ہے کہ یہ حق اورباطل میں فرق و اِمتیاز کردیتا ہے اور قرآن کوئی ہنسی مذاق کی بات نہیں ہے جو نکمی اور بے کار ہو۔( تفسیرکبیر،الطّارق، تحت الآیۃ: ۱۱-۱۴، ۱۱ / ۱۲۲-۱۲۳، خازن، الطّارق، تحت الآیۃ: ۱۱-۱۴، ۴ / ۳۶۹، ملتقطاً)
ان آیات میں ا س بات کی طرف اشارہ ہے کہ آسمان جس سے بار بار بارش نازل ہوتی ہے،یہ زمینی پیداوار، نباتات اور درختوں کے لئے باپ کی طرح ہے اورپھاڑی جانے والی زمین نباتات کے لئے ماں کی طرح ہے اور یہ دونوں اللّٰہ تعالیٰ کی عجیب نعمتیں ہیں اور ان میں اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت کے بے شمار آثار نمودار ہیں جن میں غور کرنے سے آدمی کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کے بہت سے دلائل ملتے ہیں ۔( روح البیان، الطّارق، تحت الآیۃ: ۱۲، ۱۰ / ۴۰۰، ملخصاً)
قرآن فیصلہ ُکن کلام ہے
قرآنِ مجیدکی اس شان اور اس کے علاوہ دیگر شانوں کے بارے میں حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں ،میں نے رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ عنقریب ایک فتنہ برپا ہوگا۔ میں نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، اس سے بچنے کا طریقہ کیا ہو گا؟آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اللّٰہ تعالیٰ کی کتاب، جس میں تمہارے اگلوں اور پچھلوں کی خبریں ہیں اور تمہارے آپس کے فیصلے ہیں ،قرآن فیصلہ کُن ہے اور یہ کوئی مذاق نہیں ہے ۔ جو ظالم اسے چھوڑ دے گا اللّٰہ تعالیٰ اسے تباہ کردے گا اور جو اس کے غیر میں ہدایت ڈھونڈے گا اللّٰہ تعالیٰ اسے گمراہ کر دے گا، وہ اللّٰہ تعالیٰ کی مضبوط رسی اور وہ حکمت والا ذکر ہے، وہ سیدھا راستہ ہے ، قرآن وہ ہے جس کی برکت سے خواہشات بگڑتی نہیں اور جس کے ساتھ دوسری زبانیں مل کر اسے مُشتَبہ و مشکوک نہیں بناسکتیں ، جس سے علماء سیر نہیں ہوتے ،جو زیادہ دہرانے سے پرانا نہیں پڑتا ،جس کے عجائبات ختم نہیں ہوتے ، قرآن ہی وہ ہے کہ جب اسے جِنّات نے سنا تو یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ ہم نے عجیب قرآن سنا ہے جو اچھائی کی رہبر ی کرتا ہے تو ہم اس پر ایمان لے آئے ،جو قرآن کا قائل ہو وہ سچا ہے، جس نے اس پر عمل کیا وہ ثواب پائے گا اور جو اس کے مطابق فیصلہ کرے گا وہ مُنصِف ہوگا اور جو اس کی طرف بلائے گا وہ سیدھی راہ کی طرف بلائے گا۔( ترمذی، کتاب فضائل القرآن، باب ما جاء فی فضل القرآن، ۴ / ۴۱۴، الحدیث: ۲۹۱۵)