Table of Contents

سُوْرَۃُ التَّوْبَة

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

بَرَآءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۤ اِلَى الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَﭤ(1)

ترجمہ: یہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان مشرکوں کی طرف اعلانِ براء ت ہے جن سے تمہارا معاہدہ تھا۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{بَرَآءَةٌ:براء ت کا اعلان ہے۔} مشرکینِ عرب اور مسلمانوں کے درمیان عہد تھا، ان میں سے چند کے سوا سب نےعہد شکنی کی تو ان عہد شکنوں کا عہد ساقط کردیا گیا اور حکم دیا گیا کہ چار مہینے وہ امن کے ساتھ جہاں چاہیں گزاریں ان سے کوئی تَعَرُّض نہ کیا جائے گا، اس عرصہ میں انہیں موقع ہے کہ خوب سوچ سمجھ لیں کہ ان کے لئے کیا بہتر ہے اور اپنی احتیاطیں کرلیں اور جان لیں کہ اس مدت کے بعد اسلام منظور کرنا ہوگا یا قتل۔ یہ سورت   9   ؁ ھ میں فتحِ مکہ سے ایک سال بعد نازل ہوئی، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس سال حضرت ابوبکر صدیق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو امیرِ حج مقرر فرمایا تھا اور ان کے بعد حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو حاجیوں کے مجمع میں یہ سورت سنانے کے لئے بھیجا ۔ چنانچہ حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے دس ذی الحجہ کو جَمرہ ٔعَقبہ کے پاس کھڑے ہو کر ندا کی ’’ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ (اے لوگو!)‘‘ میں تمہاری طرف رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا بھیجا ہوا آیا ہوں۔ لوگوں نے کہا : آپ کیا پیام لائے ہیں ؟ تو آپ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے تیس یا چالیس آیتیں اس سورتِ مبارکہ کی تلاوت فرمائیں ،پھر فرمایا :میں چار حکم لایا ہوں :

(1)… اس سال کے بعد کوئی مشرک کعبہ معظمہ کے پاس نہ آئے۔

(2)… کوئی شخص بَرَہنہ ہو کر کعبہ معظمہ کا طواف نہ کرے۔

(3)… جنت میں مؤمن کے سوا کوئی داخل نہ ہوگا۔

(4)… جس کارسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ عہدہے وہ عہد اپنی مدت تک رہے گا اور جس کی مدت مُعَیَّن نہیں ہے اس کی میعاد چار ماہ پر تمام ہوجائے گی۔ مشرکین نے یہ سن کر کہا : اے علی!کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم، اپنے چچا کے فرزند (یعنی سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ)  کو خبر دے دیجئے کہ ہم نے عہد پسِ پُشت پھینک دیا ، ہمارے ان کے درمیان نیزہ بازی اور تیغ زنی کے سوا کوئی عہد نہیں ہے۔( مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲، ص۴۲۴-۴۲۵،ملتقطاً)

حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی خلافت کی طرف اشارہ:

            اس واقعہ میں حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی خلافت کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے کہ حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت ابوبکر  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو تو امیر حج بنایا اور حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو ان کے پیچھے سورہ ٔبرا ء ت پڑھنے کے لئے بھیجا تو حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ امام ہوئے اور حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم مقتدی، اس سے حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی تقدیم حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم پر ثابت ہوئی۔ اور خود حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی امامت و خلافت کے متعلق فرمایا ’’رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو نماز پڑھانے کا حکم دیا اور میں وہاں حاضر تھاغائب نہیں تھا اور نہ ہی مجھے کوئی مرض تھا تو ہم نے انہیں اپنی دنیا کے لئے پسند کر لیا جنہیں حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمارے دین(یعنی نماز) کے لئے پسند فرمایا تھا۔(ابن عساکر، عبد اللہ ویقال عتیق بن عثمان بن قحافۃ۔۔۔ الخ، ۳۰ / ۲۶۵)

فَسِیْحُوْا فِی الْاَرْضِ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّ اعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ غَیْرُ مُعْجِزِی اللّٰهِۙ-وَ اَنَّ اللّٰهَ مُخْزِی الْكٰفِرِیْنَ(2)

ترجمہ: تو (اے مشرکو!) تم چا ر مہینے تک زمین میں چلو پھرو اور جان لو کہ تم اللہ کو تھکا نہیں سکتے اور یہ کہ اللہ کافروں کوذلیل و رسوا کرنے والا ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَسِیْحُوْا فِی الْاَرْضِ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ:تو تم چا ر مہینے تک زمین میں چلو پھرو۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے مشرکو! تم چار مہینے تک زمین میں امن وامان سے چلو پھرو اس کے بعد تمہارے لئے کوئی امان نہیں اور ساتھ ہی اس حقیقت کو ذہن نشین رکھنا کہ تم اللہ تعالیٰ کو تھکا نہیں سکتے اور اس مہلت کے باوجود اس کی گرفت سے نہیں بچ سکتے اور یہ بھی جان لو کہ اللہ تعالیٰ کافروں کودنیا میں قتل کے ساتھ اور آخرت میں عذاب کے ساتھ  رسوا کرنے والا ہے ۔( جلالین، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲، ص۱۵۵، خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲، ۲ / ۲۱۶، ملتقطاً)

وَ اَذَانٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۤ اِلَى النَّاسِ یَوْمَ الْحَجِّ الْاَكْبَرِ اَنَّ اللّٰهَ بَرِیْٓءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ ﳔ وَ رَسُوْلُهٗؕ-فَاِنْ تُبْتُمْ فَهُوَ خَیْرٌ لَّكُمْۚ-وَ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ غَیْرُ مُعْجِزِی اللّٰهِؕ-وَ بَشِّرِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ(3)

ترجمہ: اور (یہ) اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے تمام لوگوں کی طرف بڑے حج کے دن اعلان ہے کہ اللہ مشرکوں سے بری ہے اور اس کا رسول بھی تو اگر تم توبہ کروتو تمہا رے لئے بہتر ہے اور اگر تم منہ پھیروتو جان لو کہ تم اللہ کو تھکا نہیں سکتے اور کافروں کو دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یَوْمَ الْحَجِّ الْاَكْبَرِ: بڑے حج کے دن۔}حضرت حسن  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جس سال حضرت ابو بکر صدیق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حج کیا تھا تو اس میں مسلمان اور مشرکین سب جمع تھے ،اس لئے اس حج کو حجِ اکبر فرمایاگیا۔( تفسیر طبری، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۶ / ۳۱۷)

امام عبداللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ’’یَوم سے مراد عَرفہ کا دن ہے کیونکہ وُقوف ِعرفہ حج کے اَ رکان میں سے رکنِ اعظم ہے یا اس سے مراد یومِ نَحر ہے کیونکہ حج کے زیادہ تر اَفعال جیسے طواف، قربانی، سر منڈانا اور رَمی وغیرہ اسی دن ہوتے ہیں اور اس حج کو حجِ اکبر اس لئے فرمایا گیاکہ اس زمانہ میں عمرہ کو حجِ اصغر کہا جاتا تھا۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳، ص۴۲۵)

حجِ اکبر کسے کہتے ہیں ؟

         اَحادیث اور آثارِ صحابہ میں مختلف دنوں کو حجِ اکبر کہا گیا ہے جبکہ عوام میں یہ مشہور ہے کہ جب یومِ عرفہ جمعہ کے دن ہوتووہ حجِ اکبر ہوتا ہے، اس کے ثبوت میں اگرچہ کوئی صریح حدیث موجود نہیں تاہم یہ کہنا غلط بھی نہیں کیونکہ بکثرت روایات سے اس دن کا حجِ اکبر ہونا ثابت ہے بلکہ ملا علی قاری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس دن کے حجِ اکبر ہونے کے ثبوت میں ’’اَلْحَظُّ الْاَوْفَرْ فِی الْحَجِّ الْاَکْبَرْ‘‘ کے نام سے ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔ تفسیر کی کتابوں میں حجِ اکبر سے متعلق امام ابنِ سیرین  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے ایک قول یہ بھی منقول ہے کہ ’’ حجِ اکبر وہ حج ہے کہ جو اس دن کے مُوافق ہو جس دن رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور تمام اَعراب نے حج کیا تھا۔(تفسیر طبری، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۶ / ۳۱۳)

         اس کے علاوہ امام ابن سیرین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا یہ قول تفسیر بغوی،جلد 2،صفحہ226، تفسیرقرطبی، جلد4، صفحہ9، جزء8،البحر المحیط،جلد5،صفحہ10اوردر منثور ،جلد4،صفحہ128 پر بھی مذکور ہے۔ تفسیر خازن میں ہے ’’جو حج تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حج کے موافق ہو اسے حجِ اکبر کہا گیا ہے اور یہ دن جمعہ کا دن تھا۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۲ / ۲۱۷)

اِلَّا الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ ثُمَّ لَمْ یَنْقُصُوْكُمْ شَیْــٴًـا وَّ لَمْ یُظَاهِرُوْا عَلَیْكُمْ اَحَدًا فَاَتِمُّوْۤا اِلَیْهِمْ عَهْدَهُمْ اِلٰى مُدَّتِهِمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ(4)

ترجمہ: مگر وہ مشرکین جن سے تمہارا معاہدہ تھا پھر انہوں نے تمہارے معاہدے میں کوئی کمی نہیں کی اور تمہارے مقابلے میں کسی کی مدد نہیں کی تو ان کا معاہدہ ان کی مقررہ مدت تک پورا کرو، بیشک اللہ پرہیزگاروں سے محبت فرماتا ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ثُمَّ لَمْ یَنْقُصُوْكُمْ شَیْــٴًـا:پھر انہوں نے تمہارے معاہدے میں کوئی کمی نہیں کی۔} اس سورت کے شروع میں چونکہ یہ  بیان کیا گیا تھا کہ آئندہ چار ماہ تک کافروں سے معاہدے برقرار رہیں گے اور اس کے بعد ختم ، اب یہاں فرمایا گیا کہ جن لوگوں کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہے اور وہ معاہدے کے پابند ہیں اور انہوں نے معاہدے کو اس کی شرطوں کے ساتھ پورا کیاہے تو تم بھی ان سے معاہدہ پورا کرو اور چار مہینے پر معاہدہ ختم ہوجانے کا حکم ان کیلئے نہیں ہے۔ یہ لوگ بنی ضمرہ تھے جو کنانہ کا ایک قبیلہ ہے اور ان کی مدت کے نو مہینے باقی رہے تھے۔( صاوی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴، ۳ / ۷۸۶)

فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْهُمْ وَ خُذُوْهُمْ وَ احْصُرُوْهُمْ وَ اقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍۚ-فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(5)

ترجمہ: پھر جب حرمت والے مہینے گزرجائیں تو مشرکوں کو مارو جہاں تم انہیں پا ؤاور انہیں پکڑلو اور قید کرلو اور ہر جگہ ان کی تاک میں بیٹھو پھر اگر وہ توبہ کریں اور نماز قائم رکھیں اور زکوٰۃ دیں تو ان کاراستہ چھوڑ دو،بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ:پھر جب حرمت والے مہینے گزرجائیں۔} یہاں حرمت والے مہینوں سے مراد ان کفار کی امان کے مہینے ہیں جو مسلسل چار تھے لہٰذا یہ آیت منسوخ نہیں اور جن مہینوں میں جنگ ابتدائے اسلام میں حرام تھی وہ رجب، ذیقعد، ذی الحجہ اور محرم ہیں اب ان میں جہاد جائز ہے چونکہ یہاں مذکور معاہدے کی تکمیل والے چار مہینوں میں اُن کفار سے جنگ حرام تھی اس لئے انہیں اَشْہُرِ حرام فرمایا گیا۔ (روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵، ۳ / ۳۸۷)

{فَاِنْ تَابُوْا:پھر اگر وہ توبہ کریں۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کفار کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے رسول حضرت محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کا انکار کرنے سے منع کیا گیا تھا،اگر کفار ان کاموں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کر لیں ،بتوں کی پوجا چھوڑ کر اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں ، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کا اقرار کر لیں ، نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی فرضیت کو مان لیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو اور ان کی جان و مال کے درپے نہ ہو ۔ جو بندہ توبہ کرتا ہے ،گزشتہ گناہوں کو چھوڑ کر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت میں لگ جاتا ہے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کی توبہ قبول فرماتا اور اس کے گناہ چھپا دیتا ہے ۔ توبہ سے پہلے کئے ہوئے گناہوں پر توبہ کے بعد سزا نہ دے کر اس پر رحم فرماتا ہے۔(تفسیر طبری، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱، ۶ / ۳۲۸،  احکام القرآن للجصاص، سورۃ التوبۃ، ۳ / ۱۰۶، صاوی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱، ۳ / ۷۸۸، ملتقطاً)

وَ اِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ اسْتَجَارَكَ فَاَجِرْهُ حَتّٰى یَسْمَعَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ اَبْلِغْهُ مَاْمَنَهٗؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْلَمُوْنَ(6)

ترجمہ: 

اور اگر کوئی مشرک تم سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دو حتّٰی کہ وہ اللہ کا کلام سنے پھر اسے اس کی امن کی جگہ پہنچا دو یہ اس لیے کہ وہ نادان لوگ ہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ:اور اگر کوئی مشرک ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اگر کوئی مشرک مہلت کے مہینے گزرنے کے بعد آپ سے پناہ مانگے تاکہ آپ سے توحید کے مسائل اور قرآنِ پاک سنے جس کی آپ دعوت دیتے ہیں تو اسے پناہ دے دیں حتّٰی کہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کلام سنے اور اسے معلوم ہو جائے کہ ایمان قبول کرنے کی صورت میں اسے کیا ثواب ملے گا اور کفر پر قائم رہنے کی وجہ سے اس پر کیا عذاب ہو گا اور  اگر ایمان نہ لائےتوپھر اُسے اُس کی امن کی جگہ پہنچا دیں ،یہ اس لیے کہ وہ ابھی اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دین اسلام اور اس کی حقیقت کوجانتے نہیں  تو انہیں امن دینا عین حکمت ہے تاکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کلام سنیں اور سمجھیں۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ ۶، ۲ / ۲۱۸، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶، ۱ / ۴۸۶، ملتقطاً)

آیت’’وَ اِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ‘‘سے معلوم ہونے والے مسائل:

            اس آیت سے 5مسئلے معلوم ہوئے

(1) …جس کافر کو امان دی گئی وہ ذمی کافر کی طرح دارُ الاسلام میں محفوظ ہے کہ نہ اسے قتل کیا جائے گا اور نہ اس کا مال چھینا جائے گا۔

(2)… جس کافر کو امان دی گئی اسے ہمیشہ دارُ الاسلام میں رہنے کی اجازت نہیں۔

(3)…اگر وہ مومن یا ذمی نہ بنے تو امن کی مدت گزر جانے کے بعد اسے سلامتی کے ساتھ دارُ الاسلام سے نکال دیا جائے ۔

(4)… جس کافر کو امان دی گئی اسے اسلام کی تبلیغ کی جائے شاید وہ ایمان لے آئے۔

(5)… اِسی آیت سے ایک بات یہ بھی سمجھ آتی ہے کہ کفار کیلئے تبلیغِ دین کے زیادہ سے زیادہ مواقع مہیا کرنا چاہئیں کہ وہ اسلام کو سنیں ، دیکھیں اور سمجھیں۔ بہت سے کفار اس لئے مسلمان نہیں ہوتے کہ انہوں نے اِسلام کی حقیقی تعلیمات کو سنا ہی نہیں ہوتا اور جب کبھی ان کو کہیں کچھ سننے کا موقع ملتا ہے تو وہ فوراً اسلام قبول کرلیتے ہیں۔ لہٰذا کتابوں ، کیسٹوں ، سی ڈیز، نیٹ اور میڈیا کے ذریعے اسلامی تعلیمات سیکھنے کے مَواقِع زیادہ سے زیادہ فراہم کرنے چاہئیں۔

كَیْفَ یَكُوْنُ لِلْمُشْرِكِیْنَ عَهْدٌ عِنْدَ اللّٰهِ وَ عِنْدَ رَسُوْلِهٖۤ اِلَّا الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِۚ-فَمَا اسْتَقَامُوْا لَكُمْ فَاسْتَقِیْمُوْا لَهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ(7)

ترجمہ: اللہ اور اس کے رسول کے پاس مشرکوں کے لئے کوئی عہد کیسے ہوگا؟ سوائے ان لوگوں کے جن سے تم نے مسجد حرام کے نزدیک معاہدہ کیا تو جب تک وہ تمہارے لیے عہد پر قائم رہیں توتم ان کے لیے قائم رہو۔ بیشک اللہ پرہیزگاروں سے محبت فرماتا ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{كَیْفَ یَكُوْنُ لِلْمُشْرِكِیْنَ عَهْدٌ عِنْدَ اللّٰهِ وَ عِنْدَ رَسُوْلِهٖ:اللہ اور اس کے رسول کے پاس مشرکوں کے لئے کوئی عہد کیسے ہوگا؟} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مشرکوں کے لئے اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس کوئی عہد نہیں ہے کیونکہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ کفر اور عہد شکنی کیا کرتے ہیں البتہ  بنی کنانہ اور بنی ضمرہ وغیرہ جن لوگوں سے تم نے صلحِ حدیبیہ کے موقع پر مسجد ِحرام کے نزدیک معاہدہ کیا تھا اور ان سے کوئی عہد شکنی ظہور میں نہ آئی تو ان کے معاہدہ کی مدت پوری کرو اور معاہدے کی مدت کے اندر جب تک وہ اپنے عہد پر قائم رہیں ، تم بھی قائم رہو اگر وہ اس دوران میں عہد توڑ دیں تو تم بھی ان سے جنگ کرو۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷، ۲ / ۲۱۸، جلالین، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷، ص۱۵۵-۱۵۶، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷، ص۴۲۷، ملتقطاً)

عہد شکنی حرام ہے:

            اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کفار سے کئے ہوئے معاہدے بھی پورے کرنے کا حکم دیا ہے تو اس پر افسوس ہے جو مومن کے ساتھ دھوکہ بازی اوربد عہدی سے باز نہ آئے۔ عہد شکنی حرام ہے چنانچہ حدیث مبارک ہے’’ جس شخص میں یہ چار باتیں پائی جائیں وہ خالص منافق ہے (1) جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔(2)جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے۔ (3) جب معاہدہ کرے تو اسے توڑ دے۔ (4)جب جھگڑا کرے تو گالیاں دے۔ اگر کسی کے اندر ان میں سے ایک عادت پائی جائے تو اس میں نفاق کا ایک حصہ موجود ہے یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے۔( بخاری، کتاب الجزیۃ والموادعۃ، باب اثم من عاہد ثمّ غدر، ۲ / ۳۷۰، الحدیث: ۳۱۷۸)

كَیْفَ وَ اِنْ یَّظْهَرُوْا عَلَیْكُمْ لَا یَرْقُبُوْا فِیْكُمْ اِلًّا وَّ لَا ذِمَّةًؕ-یُرْضُوْنَكُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ تَاْبٰى قُلُوْبُهُمْۚ-وَ اَكْثَرُهُمْ فٰسِقُوْنَ(8)

ترجمہ

بھلا کیسے ہوسکتا ہے حالانکہ اگر وہ تم پر غالب آجائیں تو تمہارے بارے میں نہ کسی رشتے داری کا لحاظ کریں گے اور نہ ہی کسی معاہدے کا۔ وہ تمہیں اپنے منہ سے راضی کرتے ہیں اور ان کے دل انکار کرتے ہیں اور ان میں اکثر نافرمان ہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ كَیْفَ:کیسے ہوسکتا ہے۔} یعنی مشرکین کیسے عہد پورا کریں گے اور کیسے قول پر قائم رہیں گے حالانکہ ان کا حال تو یہ ہے کہ  اگر وہ تم پر غالب آجائیں تو تمہارے بارے میں نہ کسی رشتے داری کا لحاظ کریں گے اور نہ ہی کسی معاہدے کا۔ وہ تمہیں ایمان لانے اور وفائے عہد کے وعدے کرکے اپنے منہ سے راضی کردیتے ہیں اور ان کے دل ایمان اور وفائے عہد کا انکار کرتے ہیں اور ان میں اکثر نافرمان یعنی عہد شکن ،کفر میں سرکش، بے مُرَوَّت اور جھوٹ سے نہ شرمانے والے ہیں۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۸، ص۴۲۷)

کفار کا مسلمانوں کے ساتھ عمومی رویہ:

            کفار کا یہ حال عام طور پر رہا ہے کہ وہ مسلمان کے مقابلے میں نہ قرابت داری کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ معاہدے کا بلکہ جب کبھی موقع ملتا ہے تو کوئی بہانہ بنا کر عہد شکنی کردیتے ہیں جیسا کہ آج کے زمانے میں بھی کفار کی حکومتوں کا مسلمانوں کے ساتھ رویہ دیکھا جاسکتا ہے اور ان کا حال تو اپنی جگہ لیکن افسوس تو اس بات کا بھی ہے کہ یہ سب کچھ جاننے، دیکھنے اور سمجھنے کے باوجود مسلمان عبرت حاصل نہیں کرتے اور دفاعی، تجارتی اور دیگر امور میں مسلمانوں کے ساتھ معاہدے کرنے کے مقابلے میں کفار کے ساتھ معاہدے کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ اس میں انہیں کتنا ہی نقصان کیوں نہ اٹھانا پڑے۔

اِشْتَرَوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ ثَمَنًا قَلِیْلًا فَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِهٖؕ -اِنَّهُمْ سَآءَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(9)

ترجمہ: انہوں نے اللہ کی آیتوں کے بدلے تھوڑی سی قیمت لے لی اور اس کے راستے سے روکا۔ بے شک یہ بہت برے عمل کرتے ہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِشْتَرَوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ ثَمَنًا قَلِیْلًا:انہوں نے اللہ کی آیتوں کے بدلے تھوڑی سی قیمت لے لی۔} یعنی انہوں نے قرآنِ پاک کی آیات اور ان پر ایمان لانے کے بدلے دنیا کا تھوڑا سا مال لے لیا اور ان کے اور رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مابین جو عہد تھا اسے ابو سفیان کے تھوڑے سے لالچ دینے سے توڑ دیا اور انہوں نے لوگوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دین میں داخل ہونے سے روکا۔ بے شک یہ شرک، عہد شکنی اور لوگوں کو دینِ اسلام میں داخل ہونے سے روک کر بہت برے عمل کرتے ہیں۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹، ۲ / ۲۱۹)

لَا یَرْقُبُوْنَ فِیْ مُؤْمِنٍ اِلًّا وَّ لَا ذِمَّةًؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُعْتَدُوْنَ(10)

ترجمہ: 

کسی مسلمان کے بارے میں نہ رشتے داری کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ کسی معاہدے کااور یہی لوگ سرکش ہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَا یَرْقُبُوْنَ فِیْ مُؤْمِنٍ:کسی مسلمان کے بارے میں رشتے داری کا لحاظ نہیں کرتے ہیں۔} یعنی جن مشرکین نے معاہدے کی خلاف ورزی کی یہ کسی مسلمان کے بارے میں نہ رشتے داری کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ کسی معاہدے کا بلکہ جب موقع پائیں قتل کر ڈالتے ہیں تو مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ جب ان مشرکین پر دَسْترس پائیں تو ان سے درگزر نہ کریں اور یہی مشرک لوگ عہدشکنی میں حد سے بڑھنے والے ہیں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰، ۲ / ۲۱۹)

 

فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَاِخْوَانُكُمْ فِی الدِّیْنِؕ-وَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ(11)

ترجمہ: پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز قائم رکھیں اور زکوٰۃ دیں تو وہ تمہارے دین میں بھائی ہیں اور ہم جاننے والوں کے لیے تفصیل سے آیتیں بیان کرتے ہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ فَاِنْ تَابُوْا:پھر اگر وہ توبہ کرلیں۔} یعنی اگر وہ مشرکین شرک سے ایمان کی طرف اور عہد شکنی سے وفائے عہد کی طرف لوٹ آئیں اور جو نمازیں ان پر فرض ہوں انہیں تمام شرائط و اَرکان کے ساتھ ادا کریں اور جو زکوٰۃ ان پر فرض ہو اسے خوش ہوکر دیں تو وہ تمہارے اسلامی بھائی ہیں ان کے لئے بھی وہی احکام ہیں جو تمہارے لئے ہیں ، انہیں بھی وہی چیزیں منع ہیں جو تمہیں منع ہیں۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱، ۲ / ۲۱۹)

{وَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ:اور ہم جاننے والوں کے لیے تفصیل سے آیتیں بیان کرتے ہیں۔} یعنی ہم عہد شکنی کرنے والے اور دیگر مشرکین کے احوال اور کفر و ایمان کی حالت میں ان کے احکام سے متعلق آیات ان لوگوں کے لئے تفصیل سے بیان کرتے ہیں جو انہیں جانتے اور سمجھتے ہیں۔(روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱، ۳ / ۳۹۲)

وَ اِنْ نَّكَثُـوْۤا اَیْمَانَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَ طَعَنُوْا فِیْ دِیْنِكُمْ فَقَاتِلُـوْۤا اَىٕمَّةَ الْكُفْرِۙ-اِنَّهُمْ لَاۤ اَیْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ یَنْتَهُوْنَ(12)

ترجمہ: اور اگرمعاہدہ کرنے کے بعد اپنی قسمیں توڑیں اور تمہارے دین میں طعنہ زنی کریں تو کفر کے پیشواؤں سے لڑو، بیشک ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں (ان سے لڑو) تا کہ یہ باز آئیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِنْ نَّكَثُوْۤا اَیْمَانَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ عَهْدِهِمْ:اور اگرمعاہدہ کرنے کے بعد اپنی قسمیں توڑیں۔ } یہاں حکم دیا گیا کہ اگر کفار معاہدہ توڑ دیں اور مسلمانوں کے دین میں طعن و تشنیع کریں تو پھر کوئی عہد باقی نہیں بلکہ اب ان کا فیصلہ میدانِ جنگ میں ہی ہوگا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲، ۲ / ۲۲۰)

 دین میں طعنہ زنی سے کیا مراد ہے؟

دین میں طعنہ زنی سے مراد یہ ہے کہ دینِ اسلام کی طرف کوئی ایسی بات منسوب کرنا جو دینِ اسلام کے شایانِ شان نہیں یا ضروریات ِدین میں سے کسی چیز کو ہلکا جان کر اس پر اعتراض کرنا۔اسی طرح نماز اور حج پر طعنہ زنی کرنا، قرآن اور ذکرِ رسول پر طعنہ زنی کرنا یا رسول اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شانِ پاک میں گستاخی کرنا سب اس میں داخل ہے۔(تفسیر قرطبی، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۱۲، ۴ / ۱۷، الجزء الثامن، روح المعانی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲، ۵ / ۳۵۳، ملتقطاً)

آیت’’وَ اِنْ نَّكَثُوْۤا اَیْمَانَهُمْ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

         اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں :

 (1)… جن مشرکین سے معاہدہ کیا گیا ہو تو اس معاہدے کے قائم رہنے کی ایک صورت یہ ہے کہ وہ ہمارے دین پر اعلانیہ طعنہ زنی نہ کریں اور اگر وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں یا قرآن سے متعلق کسیگستاخی کے مُرتَکِب ہوں تو ان کا معاہدہ ختم اور ان کے خلاف جنگ کی جائے گی۔ (احکام القرآن للجصاص، سورۃ التوبۃ، ۳ / ۱۱۰، ملخصاً)

(2)… کفار کے ساتھ جنگ کرنے سے مسلمانوں کی غرض ان کے ذاتی مفادات نہیں بلکہ انہیں کفرو بداعمالی سے روکنا ہے اور یہی اسلامی جہاد کا سب سے اہم مقصد ہے۔

اَلَا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا نَّكَثُـوْۤا اَیْمَانَهُمْ وَ هَمُّوْا بِاِخْرَاجِ الرَّسُوْلِ وَ هُمْ بَدَءُوْكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍؕ-اَتَخْشَوْنَهُمْۚ-فَاللّٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْهُ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(13)

ترجمہ: کیا تم اس قوم سے نہیں لڑو گے جنہوں نے اپنی قسمیں توڑیں اور رسول کونکالنے کا ارادہ کیا حالانکہ پہلی مرتبہ انہوں نے ہی تم سے ابتداء کی تھی تو کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ پس اللہ اس کا زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا:کیا تم اس قوم سے نہیں لڑو گے۔} ارشاد فرمایا کہ کیا تم اس قوم سے نہیں لڑو گے جنہوں نے اپنی قسمیں توڑیں اور صلح حدیبیہ کا عہد توڑا اور مسلمانوں کے حلیف خزاعہ کے مقابل بنی بکر کی مدد کی اور دارُالنَّدوَہ میں مشورہ کرکے رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو  مکہ مکرمہ سے نکالنے کا ارادہ کیا حالانکہ پہلی مرتبہ انہوں نے ہی تم سے لڑائی کی ابتداء کی تھی تو کیا تم ان سے ڈرتے ہو اور ا س بنا پر ان سے جنگ ترک کرتے ہو؟ پس اگر تم اللہ تعالیٰ کے وعدے اور وعید پر ایمان رکھتے ہو تواللہ عَزَّوَجَلَّ اس کا زیادہ حق دار ہے کہ تم کافروں سے جنگ ترک کرنے کے معاملے میں اس سے ڈرو۔( خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۳، ۲ / ۲۲۰)

            اس سے معلوم ہوا کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی توہین و ایذاء، مسلمانوں سے عہد شکنی اور شروفساد کی ابتداء کرنا کفار کی وہ غلطی ہے جس کی سزا انہیں ملنی چاہیے۔

ایمانِ کامل کا تقاضا!

            اس آیت سے یہ بھی معلوم ہو اکہ ایمانِ کامل کا تقاضا یہ ہے کہ مومن اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے سوا کسی سے ڈرے اور نہ ا س کے علاوہ کسی کی پرواہ کرے۔

            ایک مقام پر اللہ تعالیٰ منصبِ رسالت پر فائز ہستیوں کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:

’’اَلَّذِیْنَ یُبَلِّغُوْنَ رِسٰلٰتِ اللّٰهِ وَ یَخْشَوْنَهٗ وَ لَا یَخْشَوْنَ اَحَدًا اِلَّا اللّٰهَؕ-وَ كَفٰى بِاللّٰهِ حَسِیْبًا‘‘ (احزاب:۳۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: وہ جو اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی کا خوف نہیں کرتے اور اللہ کافی حساب لینے والاہے۔

             اور اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے ارشاد فرماتا ہے:

’’اِنَّمَا  ذٰلِكُمُ  الشَّیْطٰنُ  یُخَوِّفُ  اَوْلِیَآءَهٗ   ۪-فَلَا  تَخَافُوْهُمْ  وَ  خَافُوْنِ  اِنْ  كُنْتُمْ  مُّؤْمِنِیْنَ‘‘ (ال عمران:۱۷۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:بیشک وہ تو شیطان ہی ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے تو تم ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو اگر تم ایمان والے ہو۔

قَاتِلُوْهُمْ یُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَیْدِیْكُمْ وَ یُخْزِهِمْ وَ یَنْصُرْكُمْ عَلَیْهِمْ وَ یَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَ(14)

ترجمہ: تم ان سے لڑو، اللہ تمہارے ہاتھوں سے انہیں عذاب دے گا اور انہیں ذلیل ورسوا کرے گا اور ان کے خلاف تمہاری مدد فرمائے گا اور ایمان والوں کے دلوں کو ٹھنڈا کردے گا۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَاتِلُوْهُمْ:تم ان سے لڑو۔} ارشاد فرمایا کہ تم ان سے لڑو، اللہ عَزَّوَجَلَّ کا وعدہ ہے کہ وہ تمہارے ہاتھوں سے قتل کے ذریعے انہیں عذاب دے گا اور انہیں  قید میں مبتلا کر کے  ذلیل ورسوا کرے گا اور ان کے خلاف تمہاری مدد فرمائے گا اور ان پر غلبہ عطا فرمائے گا اور ایمان والوں کے دلوں کو ٹھنڈا کردے گا۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۴، ص۴۲۸)

             تاریخ شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ سارے وعدے پورے فرمائے اور تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دی ہوئی ساری خبریں سچ ثابت ہوئیں اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کا ثبوت واضح تر ہوگیا۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ کفار سے اپنا بدلہ لینا جس سے مسلمانوں کے دلوں کا رنج نکلے جائز ہے بلکہ بعض اوقات بدلہ لینا ضروری ہے مگر ظلم و زیادتی نہ ہو۔

وَ یُذْهِبْ غَیْظَ قُلُوْبِهِمْؕ-وَ یَتُوْبُ اللّٰهُ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ(15)

ترجمہ: 

اور ان کے دلوں کی گھٹن دور فرمائے گا اور اللہ جس پر چاہتا ہے اپنی رحمت سے رجوع فرماتا ہے اور اللہ علم والا، حکمت والا ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ یَتُوْبُ اللّٰهُ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ:اور اللہ جس پر چاہتا ہے اپنی رحمت سے رجوع فرماتا ہے۔} اس آیت میں یہ خبر دی گئی ہے کہ بعض اہلِ مکہ کفر سے باز آکر تائب ہوں گے ۔ یہ خبربھی ایسی ہی واقع ہوگئی چنانچہ حضرت ابوسفیان ،عکرمہ بن ابوجہل اور سہیل بن عمرو  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ایمان سے مشرف ہوئے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۴۲۸)

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَكُوْا وَ لَمَّا یَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَ لَمْ یَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ لَا رَسُوْلِهٖ وَ لَا الْمُؤْمِنِیْنَ وَلِیْجَةًؕ-وَ اللّٰهُ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ(16)

ترجمہ: 

کیا تم نے یہ گمان کرلیا کہ تمہیں ایسے ہی چھوڑ دیا جائے گا حالانکہ ابھی اللہ نے ان لوگوں کی پہچان نہیں کروائی جو تم میں سے جہاد کرنے والے ہیں اور وہ جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول اور ایمان والوں کے علاوہ کسی کو اپنا رازدار نہیں بنایا اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَمْ حَسِبْتُمْ:کیا تم نے یہ گمان کرلیا ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! کیا تم نے یہ گمان کرلیا کہ تمہیں ایسے ہی چھوڑ دیا جائے گا حالانکہ ابھی اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو ممتاز نہیں کیا اور لوگوں کو ان کی پہچان نہیں کروائی جو تم میں سے اخلاص کے ساتھ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہیں اور وہ جنہوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ایمان والوں کے علاوہ کسی کو اپنا رازدار نہیں بنایا اور اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہارے تمام کاموں سے خبردار ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ تم جہاد کرنے میں مخلص ہو یا نہیں۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۶، ص۴۲۸-۴۲۹، روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۶، ۳ / ۳۹۶، ملتقطاً)

            اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دعویٔ ایمان کی صداقت کا امتحان بھی لیا جاتا ہے کہ بندہ مشکل حالات میں ثابت قدم رہتا ہے یا نہیں ؟ اور صبر کرتا ہے یا نہیں ؟

مشرکوں سے دلی دوستی کرنے اور ان تک مسلمانوں کے راز پہنچانے کی ممانعت:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ مخلص اور غیر مخلص میں امتیاز کردیا جائے گا نیز اس آیت میں مسلمانوں کو مشرکوں سے دلی دوستی کرنے سے منع کیا گیا ہے اور ان کے پاس مسلمانوں کے راز پہنچانے سے ممانعت کی گئی ہے۔ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَۚ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰهِ فِیْ شَیْءٍ اِلَّاۤ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقٰىةًؕ-وَ یُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗؕ-وَ اِلَى اللّٰهِ الْمَصِیْرُ‘‘(ال عمران:۲۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: مسلمان مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں اور جو کوئی ایسا کرے گاتو اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں مگر یہ کہ تمہیں ان سے کوئی ڈر ہو اوراللہ تمہیں اپنے غضب سے ڈراتا ہے اوراللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔

            اور ارشاد فرماتا ہے: ’’بَشِّرِ الْمُنٰفِقِیْنَ بِاَنَّ لَهُمْ عَذَابًا اَلِیْمَا ﰳ ۙ (۱۳۸)الَّذِیْنَ یَتَّخِذُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَؕ-اَیَبْتَغُوْنَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَاِنَّ الْعِزَّةَ لِلّٰهِ جَمِیْعًا‘‘ (النساء ۱۳۸،۱۳۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: منافقوں کو خوشخبری دوکہ ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ وہ جو مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے ہیں کیا یہ ان کے پاس عزت ڈھونڈتے ہیں ؟ تو تمام عزتوں کا مالک اللہ ہے۔

            نیز ارشاد فرماتا ہے: ’’یٰۤاَیُّهَا  الَّذِیْنَ  اٰمَنُوْا  لَا  تَتَّخِذُوْا  بِطَانَةً  مِّنْ  دُوْنِكُمْ  لَا  یَاْلُوْنَكُمْ  خَبَالًاؕ-وَدُّوْا  مَا  عَنِتُّمْۚ-قَدْ  بَدَتِ  الْبَغْضَآءُ  مِنْ  اَفْوَاهِهِمْ ﭕ وَ  مَا  تُخْفِیْ  صُدُوْرُهُمْ  اَكْبَرُؕ-قَدْ  بَیَّنَّا  لَكُمُ  الْاٰیٰتِ  اِنْ  كُنْتُمْ  تَعْقِلُوْنَ ‘‘(ال عمران:۱۱۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو!غیروں کو راز دار نہ بناؤ، وہ تمہاری برائی میں کمی نہیں کریں گے۔ وہ تو چاہتے ہیں کہ تم مشقت میں پڑ جاؤ۔ بیشک (ان کا) بغض تو ان کے منہ سے ظاہر ہوچکا ہے اور جو ان کے دلوں میں چھپا ہوا ہے وہ اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ بیشک ہم نے تمہارے لئے کھول کرآیتیں بیان کردیں اگر تم عقل رکھتے ہو۔

نیت درست رکھنا ضروری ہے:

            اس آیت کے آخر میں بیان ہوا کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کی نیتوں اور ان کے مَقاصِد سے خبردار ہے اور ان میں سےکوئی چیز بھی اللہ تعالیٰ سے پوشیہ نہیں ، لہٰذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنی نیت درست رکھنے پر خوب توجہ دے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند نہیں فرماتا کہ باطن ظاہر کے خلاف ہو۔( تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۶، ۶ / ۸)

مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِیْنَ اَنْ یَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰهِ شٰهِدِیْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِؕ-اُولٰٓىٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ ۚۖ-وَ فِی النَّارِ هُمْ خٰلِدُوْنَ(17)

ترجمہ: مشرکوں کو کوئی حق نہیں کہ وہ اللہ کی مسجدوں کو آباد کریں جبکہ یہ خود اپنے کفر کے گواہ ہیں ، ان کے تمام اعمال برباد ہیں اور یہ ہمیشہ آگ ہی میں رہیں گے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِیْنَ اَنْ یَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰهِ:مشرکوں کو کوئی حق نہیں کہ وہ اللہ کی مسجدوں کو آباد کریں۔}اس  آیت میں مسجدوں سے بطورِ خاص مسجدِ حرام، کعبہ معظمہ مراد ہے اور اس کو جمع کے صیغے سے اس لئے ذکر فرمایا کہ وہ تمام مسجدوں کا قبلہ اور امام ہے تو اسے آباد کرنے والا ایسا ہے جیسے تمام مسجدوں کو آباد کرنے والا، نیز مسجدِ حرام شریف کا ہر بقعہ مسجد ہے ا س لئے یہاں جمع کا صیغہ ذکر کیا گیا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مسجد سے مراد جنسِ مسجد ہے یعنی جو بھی مسجد ہو کافروں کو اسے آباد کرنے کی اجازت نہیں اور اس صورت میں کعبہ معظمہ بھی اسی میں داخل ہے کیونکہ وہ توتمام مسجدوں کا سردار ہے۔( مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۴۲۹)  

             شانِ نزول: کفارِ قریش کے سرداروں کی ایک جماعت جو بدر میں گرفتار ہوئی اور ان میں حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چچا حضرت عباس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بھی تھے ان کو صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے شرک پر عار  دلائی اور حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے تو خاص حضرت عباس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مقابلے میں آنے پر بہت سخت سست کہا ۔ حضرت عباس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہنے لگے کہ تم ہماری برائیاں تو بیان کرتے ہو اور ہماری خوبیاں چھپاتے ہو۔ ان سے کہا گیا: کیا آپ کی کچھ خوبیاں بھی ہیں ؟ انہوں نے کہا: ہاں ،ہم تم سے افضل ہیں ، ہم مسجد حرام کو آباد کرتے ہیں ، کعبہ کی خدمت کرتے ہیں ،حاجیوں کو سیراب کرتے ہیں ، اسیروں کو رہا کراتے ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ مسجدوں کو آباد کرنے کا کافروں کو کوئی حق نہیں کیونکہ مسجد اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے آباد کی جاتی ہے تو جو خدا عَزَّوَجَلَّ ہی کا منکر ہو اور اس کے ساتھ کفر کرے وہ کیا مسجد آباد کرے گا؟ ایمان کے بغیر کوئی عمل معتبر نہیں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۷، ۲ / ۲۲۱-۲۲۲)

 مسجدیں آباد کرنے کے معنی:

          اس میں بھی کئی قول ہیں : ایک تو یہ کہ آباد کرنے سے مسجد کا تعمیر کرنا، بلند کرنا، مرمت کرنا مراد ہے۔ اس سے کافر کو منع کیا جائے گا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ مسجد آباد کرنے سے اس میں داخل ہونا اور بیٹھنا مراد ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۷، ۲ / ۲۲۲)

            تنبیہ: کفار سے مسجدوں کی تعمیر کے معاملے میں مدد نہیں لینی چاہیے اگرچہ بعض صورتوں میں اس کی اجازت ہوتی ہے۔

{شٰهِدِیْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ:جبکہ یہ خود اپنے کفر کے گواہ ہیں۔} یعنی یہ دونوں باتیں کس طرح جمع ہوسکتی ہیں کہ آدمی کافر بھی ہو اور خاص اسلامی اور توحید کے عبادت خانہ کو آباد بھی کرے۔ نیزارشاد فرمایا کہ’’ان کے تمام اعمال برباد ہیں ‘‘ کیونکہ حالتِ کفر کے اعمال مقبول نہیں ، نہ مہمانداری، نہ حاجیوں کی خدمت، نہ قیدیوں کا رہا کرانا، اس لئے کہ کافر کا کوئی فعل اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے تو ہوتا نہیں ، لہٰذا اس کا عمل سب اکارت ہے اور اگر وہ اسی کفر پر مرجائے تو جہنم میں اس کے لئے ہمیشگی کا عذاب ہے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۴۲۹، خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۷، ۲ / ۲۲۲، ملتقطاً)

             اس سے معلوم ہوا کہ کفار کی نیکیاں جیسے مساجد کی خدمت، مسافر خانہ، کنوئیں وغیرہ بنانا سب برباد ہیں کسی پر کوئی ثواب نہیں۔

اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَ وَ لَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ فَعَسٰۤى اُولٰٓىٕكَ اَنْ یَّكُوْنُوْا مِنَ الْمُهْتَدِیْنَ(18)

ترجمہ: اللہ کی مسجدوں کو وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لاتے ہیں اور نما ز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تو عنقریب یہ لوگ ہدایت والوں میں سے ہوں گے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ:اللہ کی مسجدوں کو وہی آباد کرتے ہیں۔} اس آیت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ مسجدیں آباد کرنے کے مستحق مؤمنین ہیں ، مسجدوں کو آباد کرنے میں یہ اُمور بھی داخل ہیں : جھاڑو دینا، صفائی کرنا، روشنی کرنا اور مسجدوں کو دنیا کی باتوں سے اور ایسی چیزوں سے محفوظ رکھنا جن کے لئے وہ نہیں بنائی گئیں ، مسجدیں عبادت کرنے اور ذکر کرنے کے لئے بنائی گئی ہیں اور علم کا درس بھی ذکر میں داخل ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۸، ۲ / ۲۲۲، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۸، ص۴۲۹، ملتقطاً)

مسجدِ نَبوی کی اِبتدائی تَزئین و آرائش:

            مسجدِ نبوی میں سب سے پہلے اعلیٰ فرش حضرت عمر  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ڈالے، اس سے پہلے صرف بجری تھی۔ اس کی عالیشان عمارت سب سے  پہلے حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بنائی۔ اس میں سب سے پہلے قندیلیں حضرت تمیم داری  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے روشن کیں۔ عہدِ فاروقی میں رمضان کی تراویح کے موقعہ پر حضرت عمر فاروق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے چراغاں کیا اور حضرت علی کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے حضرت عمر فاروق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو نور ِقبر کی دعا دی۔ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بیتُ المقدس میں کِبْرِیَّتِ اَحمر کی روشنی کی جس کی روشنی بارہ مربع میل میں ہوتی تھی اور اسے چاندی سونے سے آراستہ فرمایا۔ (روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۸، ۳ / ۳۹۹-۴۰۰، ملخصاً)

مسجد تعمیر کرنے کے فضائل:

            مسجد یں بنانے کا حکم اور ان کی تعمیر کے فضائل بکثرت اَحادیث میں مذکور ہیں ، ترغیب کے لئے 6 اَحادیث ملاحظہ فرمائیں۔

(1)…حضرت انس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ مسجدیں تعمیر کرو اور انہیں محفوظ بناؤ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الصلاۃ، فی زینۃ المساجد وما جاء فیہا، ۱ / ۳۴۴، الحدیث: ۹)

(2)…حضرت عثمان غنی  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ جو اللہ تعالیٰ کے لیے مسجد بنائے گا اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا۔ (مسلم، کتاب الزہد والرقائق، باب فضل بناء المساجد، ص۱۵۹۳، الحدیث: ۴۴(۲۹۸۳))

(3)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے چھوٹی یا بڑی مسجد بنائی اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں گھر بنائے گا۔ (ترمذی، ابواب الصلاۃ، باب ما جاء فی فضل بنیان المساجد، ۱ / ۳۴۳، الحدیث: ۳۱۹)

(4)…حضرت عمر بن خطاب  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، میں نے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے مسجد اس لئے بنائی تاکہ اس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے تو اللہ تعالیٰ ا س کیلئے جنت میں گھر بنائے گا۔ (ابن ماجہ، کتاب المساجد والجماعات، باب من بنی للّٰہ مسجداً، ۱ / ۴۰۷، الحدیث: ۷۳۵)

(5)…حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے اپنے حلال مال سے وہ گھر بنایا جس میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کی جائے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں موتی اور یاقوت کا گھربنائے گا۔ (معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد، ۴ / ۱۷، الحدیث: ۵۰۵۹)

            اللہ تعالیٰ ہمیں بھی مسجد تعمیر کرنے اور اس کی تعمیر میں حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

(6)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی حدیث میں ہے’’سات چیزیں ایسی ہیں جن کا ثواب بندے کو مرنے کے بعد بھی ملتا ہے، ان میں سے ایک مسجد تعمیر کرنا ہے۔ (شعب الایمان، باب الثانی والعشرین من شعب الایمان۔۔۔ الخ،  فصل فی الاختیار فی صدقۃ التطوّع، ۳ / ۲۴۸، الحدیث: ۳۴۴۹)

{وَ لَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ:اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔} اس سے مراد یہ ہے کہ وہ دینی معاملات میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے اور کسی کی رضا کو رضائے الٰہی پر کسی اندیشہ سے بھی مقدم نہیں کرتے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۸، ص۴۲۹) اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرنے اور غیر سے نہ ڈرنے کے یہی معنی ہیں ، نیز یاد رہے کہ جن چیزوں سے انسان فطری طور پر ڈرتا ہے جیسے اندھیرا، درندے اور زہریلے جانور وغیرہ ان سے ڈرنا اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور سے نہ ڈرنے کے خلاف نہیں کیونکہ یہ فطری خوف ہے اور اس سے بچنا انسان کے بس کی بات نہیں۔

اَجَعَلْتُمْ سِقَایَةَ الْحَآجِّ وَ عِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ جٰهَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-لَا یَسْتَوٗنَ عِنْدَ اللّٰهِؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَﭥ(19)

ترجمہ: تو کیا تم نے حا جیوں کو پانی پلانے (والے) کو اور مسجدِ حرام کی خدمت کرنے (والے) کواس شخص کے برابر ٹھہرا لیا جو اللہ اور قیامت پر ایمان لایا اور اس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا، یہ اللہ کے نزدیک برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالموں کوہدایت نہیں دیتا۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{سِقَایَةَ الْحَآجِّ:حا جیوں کو پانی پلانے (والے) کو۔} اس آیت سے مراد یہ ہے کہ کفار کو مؤمنین سے کچھ نسبت نہیں اور نہ اُن کے اعمال کو اِن کے اعمال سے کوئی نسبت ہے کیونکہ کافر کے اعمال رائیگاں ہیں خواہ وہ حاجیوں کے لئے سبیل لگائیں یا مسجدِ حرام کی خدمت کریں ،ان کے اعمال کو مومن کے اعمال کے برابر قرار دینا ظلم ہے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۴۳۰، ملخصاً) شانِ نزول: روزِ بدر جب حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ گرفتار ہو کر آئے تو انہوں نے صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے کہا کہ تم کو اسلام اور ہجرت و جہاد میں سبقت حاصل ہے تو ہم کو بھی مسجدِ حرام کی خدمت اور حاجیوں کے لئے سبیلیں لگانے کا شرف حاصل ہے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور آگاہ کیا گیا کہ جو عمل ایمان کے ساتھ نہ ہوں وہ بے کار ہیں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۹، ۲ / ۲۲۳)

اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْۙ-اَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللّٰهِؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَ(20)

ترجمہ: 

وہ جنہوں نے ایمان قبول کیا اور ہجرت کی اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا اللہ کے نزدیک ان کا بہت بڑا درجہ ہے اور وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ جٰهَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ:اورجنہوں نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔} جہاد کی تین صورتیں ہیں : (1) فقط جان سے جہاد کرنا۔ جیسے مَساکین کرتے تھے۔ (2) فقط مال سے جہاد کرنا۔ جیسا کہ معذور مالدار مومن کا عمل کہ غازی کو گھوڑا وغیرہ دے دیتے تھے۔ (3) جان و مال دونوں سے جہاد کرنا۔ جیسا کہ غنی قادر مسلمان جو کہ دوسرے مسکین غازیوں کو سامان بھی دیتے اور خود بھی میدا ن میں جاتے تھے اور ان کے اپنے جانے پر بھی خرچہ ہوتا۔ یہ آیتِ کریمہ ان تینوں مجاہدوں کو شامل ہے۔ اس سے اشارۃً معلوم ہورہا ہے کہ مہاجرین انصار سے افضل ہیں اگرچہ دونوں اللہ تعالیٰ کے پیارے اور دونوں کامیاب ہیں۔

یُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِّنْهُ وَ رِضْوَانٍ وَّ جَنّٰتٍ لَّهُمْ فِیْهَا نَعِیْمٌ مُّقِیْمٌ(21)خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(22)

ترجمہ: ان کا رب انہیں اپنی رحمت اور خوشنودی اور باغوں کی بشارت دیتا ہے، ان کے لئے ان باغوں میں دائمی نعمتیں ہیں ۔ وہ ہمیشہ ہمیشہ ان جنتوں میں رہیں گے بیشک اللہ کے پاس بہت بڑا اجر ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ یُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِّنْهُ وَ رِضْوَانٍ وَّ جَنّٰتٍ:ان کا رب انہیں اپنی رحمت اور خوشنودی اور باغوں کی بشارت دیتا ہے۔} علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : یہ اعلیٰ ترین بشارت ہے کیونکہ مالک کی رحمت و رضا بندے کا سب سے بڑا مقصد اور پیاری مراد ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۱، ۲ / ۲۲۴)

راہِ خدا میں جہا د کرنے والے مسلمانوں کے لئے بڑی پیاری تین بشارتیں :

            اِس آیت میں ایمان قبول کرنے کے بعد ہجرت کرنے اور اپنی جان و مال کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے لئے تین بڑی پیاری بشارتیں جمع کی گئی ہیں۔

(1، 2)… انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت اور رضا نصیب ہو گی۔حضرت ثوبان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ بندہ اللہ تعالیٰ کی رضا تلاش کرتا رہتا ہے، وہ اسی جُستجو میں رہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام سے فرماتا ہے’’ میرا فلاں بندہ مجھے راضی کرنا چاہتا ہے ، آگاہ رہو کہ اس پر میری رحمت ہے۔ تب حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کہتے ہیں : فلاں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے، یہ ہی بات عرش اٹھانے والے فرشتے کہتے ہیں ،یہ ہی ان کے اردگرد کے فرشتے کہتے ہیں حتّٰی کہ ساتویں آسمان والے یہ کہنے لگتے ہیں ،پھر یہ رحمت اس کے لیے زمین پر نازل ہوتی ہے ۔ (مسند امام احمد، مسند الانصار، ومن حدیث ثوبان رضی اللہ تعالی عنہ، ۸ / ۳۲۸، الحدیث: ۲۲۴۶۴)

            حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا’’ بے شک اللہ تعالیٰ اہلِ جنت سے ارشاد فرمائے گا ’’اے اہلِ جنت!وہ عرض کریں گے :اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ، ہم حاضر اور مُستَعِد ہیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا ’’کیا تم راضی ہو؟ جنتی عرض کریں گے :ہم کیوں نہ راضی ہوتے جبکہ تو نے ہمیں وہ عطا فرمایا ہے جو اپنی مخلوق میں سے کسی کو عطا نہیں فرمایا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا ’’میں تمہیں اس سے بھی افضل چیز عطا فرمانے والا ہوں۔ جنتی عرض کریں گے: اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ، کون سی چیز اس سے افضل ہے؟ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا کہ میں نے اپنی رضامندی کو تمہارے لئے حلال کر دیا لہٰذا اس کے بعد تم پر کبھی ناراضگی نہیں ہو گی۔ (بخاری، کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنّۃ والنار، ۴ / ۲۶۰، الحدیث: ۶۵۴۹)

(3)… وہ جنت میں ہمیشہ کے لئے قیام کریں گے۔ جہنم سے بچائے جانے اور جنت میں داخل کئے جانے والے کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’كُلُّ  نَفْسٍ   ذَآىٕقَةُ  الْمَوْتِؕ-وَ  اِنَّمَا  تُوَفَّوْنَ  اُجُوْرَكُمْ  یَوْمَ  الْقِیٰمَةِؕ-فَمَنْ  زُحْزِحَ  عَنِ  النَّارِ  وَ  اُدْخِلَ  الْجَنَّةَ  فَقَدْ  فَازَؕ-وَ  مَا  الْحَیٰوةُ  الدُّنْیَاۤ  اِلَّا  مَتَاعُ  الْغُرُوْرِ‘‘ (اٰل عمران:۱۸۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور قیامت کے دن تمہیں تمہارے اجر پورے پورے دئیے جائیں گے توجسے آگ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا تو وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے۔

{خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًا:وہ ہمیشہ ہمیشہ ان جنتوں میں رہیں گے ۔} یہ آیتِ کریمہ بَظاہر مہاجرین صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے لئے ہے، ان بزرگوں کا جنتی ہونا یقینی ہے۔ ان میں سے بعض کا تو نام لے کر جنتی ہونے کا اعلان فرما دیا گیا جیسے حضرات عَشرہ مُبَشَّرہ وغیرہم۔معلوم ہوا کہ صحابہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی وہ عظمت ہے کہ ان کیلئے رحمت ، جنت ور رضائے الٰہی کی بشارتیں بطورِ خاص قرآنِ پاک میں دی گئی ہیں ، لہٰذا جو صحابہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے ایمان یا تقویٰ کا انکار کرے وہ اس آیت کا منکر ہے۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْۤا اٰبَآءَكُمْ وَ اِخْوَانَكُمْ اَوْلِیَآءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْاِیْمَانِؕ-وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ(23)

ترجمہ: اے ایمان والو! اپنے باپ اور اپنے بھائیوں کو دوست نہ سمجھو اگر وہ ایمان کے مقابلے میں کفر کو پسند کریں اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی کرے گا تو وہی ظالم ہیں .

 

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَا تَتَّخِذُوْۤا اٰبَآءَكُمْ وَ اِخْوَانَكُمْ اَوْلِیَآءَ:اپنے باپ اور اپنے بھائیوں کو دوست نہ سمجھو۔} جب مسلمانوں کو مشرکین سے تَرک ِمُوالات کا حکم دیا گیا تو بعض لوگوں نے کہا: یہ کیسے ممکن ہے کہ آدمی اپنے باپ بھائی وغیرہ قرابت داروں سے ترک ِتعلق کرے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور بتایا گیا کہ کفار سے موالات یعنی قلبی محبت کا تعلق جائز نہیں چاہے ان سے کوئی بھی رشتہ ہو۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۳، ۲ / ۲۲۴)

کافروں اور بد مذہبوں سے دور رہا جائے:

اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں یعنی کافروں ، بے دینوں اور گمراہوں کے ساتھ میل جول ،رسم وراہ، مَوَدَّت ومحبت اُن کی ہاں میں ہاں ملانا اُن کی خوشامد میں رہنا سب ممنوع ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’وَ لَا تَرْكَنُوْۤا اِلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ  ‘‘ (ھود:۱۱۳)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ظالموں کی طرف نہ جھکوورنہ تمہیں آگ چھوئے گی ۔

ایک اور مقام پر ارشاد فرماتا ہے

’’وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ‘‘(انعام:۶۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اوراگر شیطان تمہیں بھلادے تو یاد آنے کے بعد ظالموں کے پاس نہ بیٹھ۔

         حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اِیَّاکُمْ وَاِیَّاہُمْ لَا یُضِلُّوْنَکُمْ وَلَا یَفْتِنُوْنَکُمْ‘‘ان سے الگ رہو، انہیں اپنے سے دور رکھو، کہیں وہ تمہیں بہکا نہ دیں ، وہ تمہیں فتنے میں نہ ڈال دیں۔ (مسلم، باب النہی عن الروایۃ عن الضعفاء والاحتیاط فی تحمّلہا، ص۹، الحدیث: ۷(۷))

حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے روایت ہے ، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اِنْ مَرِضُوْا فَلَا تَعُوْدُوْہُمْ وَاِنْ مَاتُوْا فَلَا تَشْہَدُوْہُمْ‘‘ اگر یہ بیمار پڑیں تو ان کی عیادت نہ کرنا اور اگر مر جائیں تو ان کے جنازے میں شامل نہ ہونا۔(ابو داؤد، کتاب السنّۃ،۴ / ۲۹۴، الحدیث: ۴۶۹۱)

         یہی حدیث حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے بھی مروی ہے، اس میں مزید یہ الفاظ بھی ہیں ’’وَاِنْ لَقِیْتُمُوْہُمْ فَلَا تُسَلِّمُوْا عَلَیْہِمْ‘‘اور اگر تم ان سے ملو تو انہیں سلام نہ کرو! ۔(ابن ماجہ، کتاب السنّۃ، باب فی القدر، ۱ / ۷۰، الحدیث: ۹۲)

حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میرے لئے میرے صحابہ کو منتخب فرمایا ہے ، انہیں میرا ساتھی اور قریبی عزیز بنایا ہے۔ عنقریب کچھ لوگ ایسے آئیں گے جو صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی شان میں گستاخی کریں گے اور انہیں برا بھلاکہیں گے، اگر تم انہیں پاؤ تو ان کے ساتھ نکاح کرنا، نہ ان کے ساتھ کھانا پینا، ان کے ساتھ نماز پڑھنا اور نہ ان پر نماز پڑھنا۔( کنز العمال، کتاب الفضائل، ذکر الصحابۃ وفضلہم رضی اللہ عنہم اجمعین، ۶ / ۲۴۶، الحدیث: ۳۲۵۲۵، الجزء الحادی عشر)

         ان آیات و اَحادیث کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں چاہئے کہ بد مذہبوں کے سائے سے بھی کوسوں دور بھاگیں چہ جائیکہ ان کے ساتھ اٹھیں بیٹھیں ، ان کی دعوتوں میں اور ان کی شادی غمی میں شریک ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے شر سے محفوظ رکھے۔ آمین۔

قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ(24)

ترجمہ: تم فرماؤ: اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا خاندان اور تمہاری کمائی کے مال او ر وہ تجارت جس کے نقصان سے تم ڈرتے ہو اور تمہارے پسندیدہ مکانات تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیاد ہ محبوب ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قُلْ:تم فرماؤ۔} یعنی اے محبوب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جنہوں نے رشتہ داروں سے ترک ِتعلق کے بارے میں کلام کیا آپ ان سے فرما دیں کہ اگر تمہارے باپ ، تمہارے بیٹے ، تمہارے بھائی ، تمہاری بیویاں ، تمہارا خاندان ، تمہاری کمائی کے مال او ر وہ تجارت جس کے نقصان سے تم ڈرتے ہو اور تمہارے پسندیدہ مکانات تمہیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیاد ہ محبوب ہیں تو تم انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم لائے اور اللہ تعالیٰ مشرکین سے مُوالات کے معاملے میں نافرمانی کرنے والے لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۴، ۲ / ۲۲۴، روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۴، ۳ / ۴۰۳، ملتقطاً)

اللہ تعالیٰ اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے زیادہ کسی کو عزیز نہ رکھا جائے:

             اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنّت شاہ امام احمد رضا خان  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اس آیت سے معلوم ہوا کہ جسے دنیا جہان میں کوئی معزز، کوئی عزیز، کوئی مال، کوئی چیز اللہ و رسول سے زیادہ محبوب ہو، وہ بارگاہِ الٰہی سے مردود ہے ،اسے اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنی طرف راہ نہ دے گا ،اسے عذابِ الٰہی کے انتظار میں رہنا چاہیے، وَالْعِیَاذُ بِاللہِ تَعَالٰی۔ تمہارے پیارے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں :’’تم میں کوئی مسلمان نہ ہوگا جب تک میں اسے اس کے ماں باپ، او لاد اور سب آدمیوں سے زیادہ پیارانہ ہوں۔(بخاری، کتاب الایمان، باب حبّ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم من الایمان، ۱ / ۱۷، الحدیث: ۱۵، مسلم، باب وجوب محبّۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر من الاہل۔۔۔ الخ، ص۴۲، الحدیث: ۷۰(۴۴)))اس نے تو بات صاف فرما دی کہ جو حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے زیادہ کسی کوعزیز رکھے ہرگز مسلمان نہیں۔ (فتاویٰ رضویہ، ۳۰ / ۳۰۹-۳۱۰)

             علامہ قاضی عیاض  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’یہ آیتِ کریمہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی محبت کے لازم ہونے، فرض اور اہم چیز ہونے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اس محبت کے اصل مستحق ہونے کے بارے میں ترغیب، تنبیہ اور دلیل و حجت ہونے کیلئے کافی ہے کیونکہ جس نے اپنی آل اولاد اور مال کی محبت کواللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی محبت سے زیادہ سمجھا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اسے سخت تنبیہ کی ہے اور ایسوں کو ڈراتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ‘‘تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے۔ نیز آیت کے آخر میں ایسوں کو فاسق فرمایا اور بتایا کہ یہ لوگ ان گمراہوں میں سے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی توفیق نہ دی۔(الشفا، القسم الثانی، الباب الثانی فی لزوم محبّتہ صلی اللہ علیہ وسلم، ص۱۸، الجزء الثانی)

            حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس شخص میں تین باتیں ہوں گی اس نے ایمان کی حلاوت پائی (1) اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کے ما سوا سب سے زیادہ محبوب ہو۔ (2)اللہ تعالیٰ ہی کے لئے کسی سے محبت کرے۔ (3)کفر کی طرف لوٹنے کو ایسابرا جانے جیسے آگ میں ڈالے جانے کو برا جانتا ہے۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب حلاوۃ الایمان، ۱ / ۱۷، الحدیث: ۱۶)

            حضرت سہل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’جو شخص رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ولایت و حکومت تمام حالات میں نہیں دیکھتا اور اپنی جان کو ان کی مِلک نہیں جانتا تو وہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنت کی شیرینی نہ چکھے گا کیونکہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ عِنْدَہٗ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ نَفْسِہٖ ‘‘ تم میں سے وہ شخص مومن نہیں ہو سکتا جس کے نزدیک میں اس کی جان سے زیادہ محبوب نہ ہوں۔(مسند امام احمد، مسند الشامیین، حدیث عبد اللہ بن ہشام۔۔۔ الخ، ۶ / ۳۰۳، الحدیث: ۱۸۰۶۹، الشفا، القسم الثانی، الباب الثانی فی لزوم محبّتہ صلی اللہ علیہ وسلم، ص۱۹، الجزء الثانی)

تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے محبت رکھنے کا ثواب:

            حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے محبت رکھنے کا ثواب کس قدر ہے اس کا اندازہ درج ذیل 3 اَحادیث سے لگایا جا سکتا ہے۔

(1)… حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ایک شخص نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی’’یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ قیامت کب آئے گی؟ ارشاد فرمایا: ’’ تو نے ا س کے لئے کیا تیاری کی ہے؟ اس نے عرضکی: میرے پاس اس کے لئے نہ نمازوں کی کثرت ہے نہ روزہ اور صدقہ ہے لیکن میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سب سے زیادہ محبوب رکھتا ہوں۔تب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تو اس کے ساتھ ہے جس کو تو محبوب رکھتا ہے۔ (بخاری، کتاب الادب، باب علامۃ حبّ اللہ عزّوجلّ۔۔۔ الخ، ۴ / ۱۴۷، الحدیث: ۶۱۷۱)

(2)…حضرت صفوان بن قدامہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف ہجرت کی۔ میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی’’ یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اپنا دستِ مبارک دیجئے تاکہ میں آپ کی بیعت کروں۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنا دستِ مبارک بڑھایا۔ میں نے عرض کی ’’یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں آپ کو محبوب رکھتا ہوں۔ ارشاد فرمایا ’’اَلْمَرْئُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ‘‘ مرد جس سے محبت رکھے اس کے ساتھ ہو تا ہے۔ (الشفا، القسم الثانی، الباب الثانی فی لزوم محبّتہ صلی اللہ علیہ وسلم، فصل فی ثواب محبّتہ صلی اللہ علیہ وسلم، ص۲۰، الجزء الثانی)

(3)…حضرت ثوبان  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ تاجدارِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ کمال درجے کی محبت رکھتے تھے اور انہیں جدائی کی تاب نہ تھی۔ ایک روز اس قدر غمگین اور رنجیدہ حاضر ہوئے کہ چہرے کا رنگ بدل گیا تھا تو رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دریافت فرمایا، آج رنگ کیوں بدلا ہوا ہے ؟عرض کیا: نہ مجھے کوئی بیماری ہے اور نہ درد سوائے اس کے کہ جب حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سامنے نہیں ہوتے تو انتہا درجہ کی وحشت و پریشانی ہوجاتی ہے، جب آخر ت کو یاد کرتا ہوں تو یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ وہاں میں کس طرح دیدار پاسکوں گا؟ آپ اعلیٰ ترین مقام میں ہوں گے اور مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم سے جنت بھی دی تو اس مقامِ عالی تک رسائی کہاں ؟اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔

’’وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَۚ-وَ حَسُنَ اُولٰٓىٕكَ رَفِیْقًا ‘‘ (النساء:۶۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے تو وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین اور یہ کتنے اچھے ساتھی ہیں۔ (خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۶۹، ۱ / ۴۰۰)

محبتِ رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی علامات:

            علماءِ کرام نے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے محبت کی کثیر علامات بیان فرمائی ہیں ،ان میں سے 8علامات درج ذیل ہیں :

(1)… اقوال اور افعال میں حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی کرنا یعنی سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جو کام کرنے کا حکم دیا انہیں کرنا اور جن سے منع کیا ان سے رک جانا نیزنبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنتوں پر عمل کرنا۔

(2)…آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جس عمل کی ترغیب دی اسے اپنی نَفسانی اور شَہوانی خواہشات پر ترجیح دینا۔

(3)… بکثرت نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ذکرِ جمیل کرنا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر درود شریف پڑھنا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت ِ طیبہ کا مطالعہ کرنا۔

(4)… ذکرِ حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وقت تعظیم و تَوقیر بجا لانا اور اسمِ گرامی سن کر اِنکساری کا اظہار کرنا۔

(5)…جس سے سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ محبت رکھتے ہوں اس سے بھی محبت کرنا۔

(6)… جس چیز سے اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دشمنی رکھی اس سے دشمنی رکھنا اور جس سے عداوت رکھی اس سے کنارہ کشی کرنا۔ (7)…قرآنِ مجیدسے محبت رکھنا۔

(8)… رسول اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کے ساتھ شفقت و مہربانی سے پیش آنا۔( الشفا، القسم الثانی، الباب الثانی فی لزوم محبّتہ صلی اللہ علیہ وسلم، فصل فی علامۃ محبّتہ صلی اللہ علیہ وسلم، ص۲۴-۲۸، الجزء الثانی، ملخصاً)

دین کو دنیا پر ترجیح دی جائے:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ جب ایسی صورتِ حال درپیش ہو کہ دین یا دنیا میں سے کسی ایک چیز کو اختیار کرنا پڑے تو مسلمان کوچاہئے کہ وہ دین کو ترجیح دے اور دنیا کو چھوڑ کر دین کو اختیار کرے ۔اس معاملے میں فی زمانہ مسلمانوں کا حال انتہائی افسوس ناک ہے کہ وہ اپنے دین کا نقصان برداشت کرنے میں کوئی دقت اور پریشانی محسوس نہیں کرتے بلکہ بعض اَوقات اس سے انتہائی لا پرواہی برتتے ہیں جبکہ اپنی دنیا کا نقصان لمحہ بھر کے لئے بھی برداشت کرنا انہیں گوارا نہیں ، افسوس!مسلمانوں کو نماز روزے کا کہا جائے تو یہ اپنی دُنیوی مصروفیات اور کام کی زیادتی کا بہانہ بنا کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور اللہ تعالیٰ کی خاطر چند گھنٹوں کے لئے بھوک برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ مسلمانوں کو کاروباری اور تجارتی معاملات شرعی طریقے کے مطابق سر انجام دینے کی ترغیب دی جائے تو وہ ضروریاتِ زندگی کی زیادتی اور اپنے منافع میں کمی ہو جانے کا رونا رو کراس سے روگردانی کرتے ہیں۔ مسلمان عورتوں کو شرعی پردے کی تلقین کی جائے تو وہ اسے پرانی سوچ اور عورتوں پر بلا وجہ کی پابندی قرار دے کر اور آزادیٔ نِسواں کے خلاف سمجھ کراس پر عمل کرنے کوتیار نہیں۔ طلاق کے معاملات میں جب اسلامی قانون کی رو سے شوہر اور بیوی میں جدائی کا فیصلہ ہو جائے تو اسلامی حکم کے سامنے سرِ تسلیم خَم کرنے کی بجائے یہ طرح طرح کے حیلے بہانے تراش کر ناجائز تَعلُّقات کی زندگی گزارنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ سرِ دست یہ چند مثالیں عرض کی ہیں ورنہ زندگی کا شائد ہی کوئی گوشہ ایسا ہو جس میں دین پر دنیا کو ترجیح نہ دی جا رہی ہو۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقلِ سلیم عطا فرمائے اور دنیا کے مقابلے میں دین کی اہمیت سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ فِیْ مَوَاطِنَ كَثِیْرَةٍۙ-وَّ یَوْمَ حُنَیْنٍۙ-اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَیْــٴًـا وَّ ضَاقَتْ عَلَیْكُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُّدْبِرِیْنَ(25)

ترجمہ: بیشک اللہ نے بہت سے مقامات میں تمہاری مدد فرمائی اورحنین کے دن کو یاد کروجب تمہاری کثرت نے تمہیں خود پسندی میں مبتلا کردیا تو یہ کثرت تمہارے کسی کام نہ آئی اور تم پر زمین اپنی وسعت کے باوجود تنگ ہوگئی پھر تم پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ فِیْ مَوَاطِنَ كَثِیْرَةٍ:بیشک اللہ نے بہت سے مقامات میں تمہاری مدد فرمائی ۔}یعنی رسول کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے غزوات میں مسلمانوں کو کافرو ں پر غلبہ عطا فرمایا جیسا کہ واقعۂ بدر ، قریظہ،نضیر ، حدیبیہ ، خیبر اور فتحِ مکہ میں ہوا۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۵، ۲ / ۲۲۵، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۵، ص۴۳۱، ملتقطاً)

{وَ یَوْمَ حُنَیْنٍ:اورحنین کے دن کو یاد کرو۔} ’’حنین‘‘ مکہ اور طائف کے درمیان ایک مقام کا نام ہے۔ تاریخِ اسلام میں اس جنگ کا دوسرا نام ’’غزوۂ ہوازن‘‘ بھی ہے۔ اس لئے کہ اس لڑائی میں ’’بنی ہوازن‘‘ سے مقابلہ تھا۔

غزوۂ حنین کا واقعہ:

فتحِ مکہ کے بعد عام طور سے تمام عرب کے لوگ اسلام کے حلقہ بگوش ہوگئے کیونکہ ان میں اکثروہ لوگ تھے جو اسلام کی حقانیت کا پورا پورا یقین رکھنے کے باوجود قریش کے ڈر سے مسلمان ہونے میں تَوَقُّف کررہے تھے اور فتحِ مکہ کا انتظار کررہے تھے۔ پھر چونکہ عرب کے دلوں میں کعبہ کا بے حد احترام تھا اور ان کا اعتقاد تھا کہ کعبہ پر کسی باطل پرست کا قبضہ نہیں ہوسکتا، اس لئے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جب مکہ کو فتح کرلیا تو عرب کے بچے بچے کو اسلام کی حقانیت کا پورا پورا یقین ہوگیا اور وہ سب کے سب جوق در جوق بلکہ فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے لگے۔ باقی ماندہ عرب کی بھی ہمت نہ رہی کہ اب اسلام کے مقابلہ میں ہتھیار اٹھا سکیں۔ لیکن مقامِ حُنَین میں ’’ہوازن‘‘ اور ’’ثقیف‘‘ نام کے دو قبیلے آباد تھے جو بہت ہی جنگجو اور فُنونِ جنگ سے واقف تھے۔ ان لوگوں پر فتحِ مکہ کا اُلٹا اثر پڑا اور ان لوگوں پر خواہ مخواہ کی جاہلیت کیغیرت سوار ہوگئی اور ان لوگوں نے یہ خیال قائم کرلیا کہ فتحِ مکہ کے بعد ہماری باری ہے اس لئے ان لوگوں نے یہ طے کرلیا کہ مسلمانوں پر جو اس وقت مکہ میں جمع ہیں ایک زبردست حملہ کردیا جائے۔ چنانچہ حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عبداللہ بن ابی حدرد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو تحقیقات کے لئے بھیجا۔ جب انہوں نے وہاں سے واپس آکر ان قبائل کی جنگی تیاریوں کا حال بیان کیا اور بتایا کہ قبیلہ ہوازن اور ثقیف نے اپنے تمام قبائل کو جمع کرلیا ہے اور قبیلہ ہوازن کا رئیسِ اعظم مالک بن عوف ان تمام اَفواج کا سپہ سالار ہے اور وہ سو برس سے زائد عمر کا بوڑھا ہے۔ ’’درید بن الصمہ‘‘ جو عرب کا مشہور شاعر اور مانا ہوا بہادر تھا بطور مشیر کے میدانِ جنگ میں لایا گیا ہے اور یہ لوگ اپنی عورتوں بچوں بلکہ جانوروں تک کو میدانِ جنگ میں لائے ہیں تاکہ کوئی سپاہی میدان سے بھاگنے کا خیال بھی نہ کرسکے۔ حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بھی شوال8  ھ میں بارہ ہزار کا لشکر جمع فرمایا۔ دس ہزار تو مہاجرین و انصار وغیرہ کا وہ لشکر تھا جو مدینہ سےآپ کے ساتھ آیا تھا اور دو ہزار نومسلم تھے جو فتحِ مکہ میں مسلمان ہوئے تھے۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس لشکر کو ساتھ لے کر اس شان و شوکت کے ساتھ حنین کا رُخ کیا کہ اسلامی افواج کی کثرت اور اس کے جاہ و جلال کو دیکھ کر بے اختیار بعض صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی زبان سے یہ لفظ نکل گیا کہ ’’آج بھلا ہم پر کون غالب آسکتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کوان حضرات کا اپنی فوجوں کی کثرت پر ناز کرنا پسند نہیں آیا۔ چنانچہ اس فخر و نازِش کا یہ انجام ہوا کہ پہلے ہی حملہ میں قبیلہ ہوازن و ثقیف کے تیر اندازوں نے جو تیروں کی بارش کی اور ہزاروں کی تعداد میں تلواریں لے کر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے تو وہ دو ہزار نو مسلم اور کفارِ مکہ جو لشکرِ اسلام میں شامل ہو کر مکہ سے آئے تھے ایک دم سرپر پیر رکھ کر بھاگ نکلے۔ ان لوگوں کی بھگدڑ دیکھ کر انصار و مہاجرین کے بھی پاؤں اکھڑ گئے۔ حضور تاجدارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جو نظر اٹھا کر دیکھا تو گنتی کے چند جاں نثاروں کے سوا سب فرار ہو چکے تھے۔ تیروں کی بارش ہو رہی تھی۔بارہ ہزار کا لشکر فرار ہو چکا تھا مگر خداعَزَّوَجَلَّ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پائے اِستقامت میں بال برابر بھی لغزش نہیں ہوئی۔ بلکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اکیلے ایک لشکر بلکہ ایک عالَمِ کائنات کا مجموعہ بنے ہوئے نہ صرف پہاڑ کی طرح ڈٹے رہے بلکہ اپنے سفید خچر پر سوار برابر آگے ہی بڑھتے رہے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زَبانِ مبارک پر یہ الفاظ جاری تھے کہ

 اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ       اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ

میں نبی ہوں یہ جھوٹ نہیں ہے میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔

حضرت عباس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ چونکہ بہت ہی بلند آواز تھے ا س لئے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں حکم دیا کہ انصار و مہاجرین کو پکارو۔ انہوں نے جو ’’ یَا مَعْشَرَ الْاَنْصَار‘‘ اور ’’ یَا لَلْمُھَاجِرِیْنَ‘‘ کا نعرہ مارا تو ایک دم تمام فوجیں پلٹ پڑیں اور لوگ اس قدر تیزی کے ساتھ دوڑ پڑے کہ جن لوگوں کے گھوڑے اِژْدِحام کی وجہ سے نہ مڑ سکے انہوں نے ہلکا ہونے کے لئے اپنی زرہیں پھینک دیں اور گھوڑوں سے کود کود کر دوڑے اور کفار کے لشکر پر جھپٹ پڑے اور اس طرح جانبازی کے ساتھ لڑنے لگے کہ دم زَدَن میں جنگ کا پانسہ پلٹ گیا۔ کفار بھاگ نکلے ،کچھ قتل ہو گئے اور جو رہ گئے گرفتار ہو گئے۔ قبیلہ ثقیف کی فوجیں بڑی بہادری کے ساتھ جم کر مسلما نو ں سے لڑتی رہیں یہاں تک کہ ان کے ستر بہادر کٹ گئے، لیکن جب ان کا علمبردار عثمان بن عبداللہ قتل ہو گیا تو ان کے پاؤں بھی اُکھڑ گئے۔ اور فتحِ مُبین نے حضوررَحْمَۃٌ لِلْعالَمِین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قدموں کا بوسہ لیا اور کثیر تعداد و مقدار میں مالِ غنیمت ہاتھ آیا۔(سیرت حلبیہ، باب ذکر مغازیہ صلی اللہ علیہ وسلم، غزوۃ حنین، ۳ / ۱۵۱-۱۵۵، مدارج النبوہ، قسم سوم، باب ہشتم: ذکر وقائع سال ہشتم وغزوہ حنین، ۲ / ۳۰۸-۳۱۴، شرح الزرقانی، غزوۃ حنین، ۳ / ۵۳۱-۵۳۲، ملتقطاً)

آیت’’ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ  ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات :

اس آیت سے 4 چیزیں معلوم ہوئیں :

(1)… مسلمان کا حقیقی بھروسہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی مدد پر ہونا چاہیے۔

(2)… اَسباب اختیار کرنے کا حکم ہے لیکن صرف اسی پر بھروسہ کرنا مسلمان کے شایانِ شان نہیں۔

(3)… بعض اوقات چند لوگوں کی غلطی کا نتیجہ سب کو دیکھنا پڑتا ہے۔

(4)… خود پسندی اللہ عَزَّوَجَلَّ کو ناپسند ہے، لہٰذا اپنے ہر کمال کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فضل سمجھنا چاہیے نہ کہ اپنے زورِ بازو کا نتیجہ، جیسا کہ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ مَا زَكٰى مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًاۙ-وَّ لٰكِنَّ اللّٰهَ یُزَكِّیْ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ‘‘(نور:۲۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی شخص بھی کبھی پاکیزہ نہ ہوتاالبتہ اللہ پاکیزہ فرما دیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔

خود پسندی کے6 اَسباب اور ان کا علاج:

خود پسندی ایک انتہائی مذموم صفت ہے اور اس صفت کے پیدا ہونے کے مختلف اسباب ہیں جن کی معرفت ہونے کی صورت میں ہی خود پسندی سے بچا جا سکتا ہے لہٰذا ہم ذیل میں خود پسندی کے6 اَسباب اور ان کا علاج ذکر کرتے ہیں تاکہ اس مذموم وصف کو پہچان کر اس سے چھٹکارہ حاصل کیا جا سکے۔

(1)… حسن و جمال،شکل و صورت، صحت، قوت، اَعضا ء میں تَناسُب اور اچھی آواز ۔ اس کا علاج یہ ہے کہ انسان جب شکل و صورت کی وجہ سے خود پسندی میں مبتلا ہو تووہ اپنی باطنی گندگیوں پر غور کرے، اپنے آغاز و انجام کے بارے میں سوچ بچار کرے اور یہ سوچے کہ کس طرح خوبصورت اور عمدہ بدن مٹی میں مل گئے اور قبروں میں یوں بدبودار ہو گئے کہ طبیعتیں ان سے متنفر ہو گئیں اور جب طاقت و قوت کی وجہ سے خود پسندی پیدا ہو تو وہ اس بات پر غور کرے کہ ایک دن  کے بخار سے اس کا کیا حال ہو جاتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ طاقت پر اِترانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس پر کوئی ادنیٰ سی آفت نازل کر کے اس کی طاقت ہی سَلب کر لے۔

(2)…عقل اور سمجھداری۔ اس کا علاج یہ ہے کہ جب عقل اور سمجھداری کی وجہ سے خود پسندی پیدا ہو تو انسان کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے کہ اس نے اسے عقل عطا کی اور عقل زائل ہو جانے سے خوفزدہ ہو نیز بے وقوف لوگوں کی طرف دیکھے کہ وہ کس طرح اپنی عقلوں پر اتراتے ہیں لیکن لوگ ان پر ہنستے ہیں اور اس بات سے ڈرے کہ کہیں وہ ان میں سے نہ ہو اور اسے یہ بات معلوم بھی نہ ہو ۔

(3)…اچھا نسب۔ اس کا علاج یہ ہے کہ جب انسان اپنے اعلیٰ نسب اور اونچی نسبت کی وجہ سے اترائے تو وہ جان لے کہ اس کی یہ سوچ انتہائی جہالت پر مَبنی ہے کہ اخلاق اور اعمال میں اپنے آباء واَجداد کی مخالفت کرنے کے باوجود وہ ان کے درجے تک پہنچ گیا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ اور اگر وہ ان کی پیروی کا دعویٰ کرتا ہے تو ان میں خود پسندی کہاں تھی بلکہ ان میں تو خوف تھا اور وہ اپنے آپ کو حقیر جانتے ، دوسروں کو بڑ اسمجھتے اور اپنے نفس کی مذمت کرتے تھے ، انہوں نے نسب کی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت ،علم اور اچھی خصلتوں کی وجہ سے مقام و مرتبہ حاصل کیا تھا لہٰذا اسے اس عمل کے ذریعے شرف حاصل کرنا چاہئے جس کی وجہ سے وہ مُعزز و محترم ہوئے،صرف نَسب پر بھروسہ نہیں کر لینا چاہئے کیونکہ قبائل میں شرکت اور نسب میں مُساوات تو ان لوگوں کو بھی حاصل ہے جواللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کتوں اور خنزیروں سے بھی زیادہ برے ہیں۔

(4)…ظالم بادشاہوں اور ان کے مددگاروں سے تعلق۔ اس کا علاج یہ ہے کہ وہ اس بات پر غور کرے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے غضب کے حقدار ہیں اور اگر وہ قیامت کے دن ان کی ذلت و رسوائی ، جہنم میں ان کی بگڑی صورتوں ،بدبو اور گندگی کو دیکھ لے تو اس کا کیا حال ہو گا،کیا اب بھی وہ ان سے تعلق پر اترائے گا یا ان سے کوئی تعلق نہ ہونے کا اظہار کرے گا اور جو کوئی اسے ان کی طرف منسوب کرے اس پر اعتراض کرے گا۔

(5)…بیٹوں ،خادموں ، رشتہ داروں ، مددگاروں اور پیروکاروں کی کثرت۔ اس کا علاج یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کی کمزوری کے بارے میں سوچے اور اس بات پر غور کرے کہ وہ سب اللہ تعالیٰ کے عاجز بندے ہیں اور وہ ذاتی طور پر کسی طرح کے نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں ،پھر وہ ان پر کس طرح اتراتا ہے حالانکہ جب وہ مر جائے گا تو وہ سب اسے چھوڑ دیں گے

 اور اسے قبر میں یوں دفن کیا جائے گا کہ وہ اکیلا بھی ہو گا اور رسوا بھی،اس کے اہلِ خانہ ،اولاد،قریبی رشتہ داروں اورجگری دوستوں میں سے کوئی بھی اس کے ساتھ نہیں ہو گا،وہ اسے گلنے سڑنے کے لئے ، سانپوں ،بچھوؤں اور کیڑے مکوڑوں کے خوراک بننے کے لئے قبر کے حوالے کر دیں گے اور وہ ا س پر آنے والے عذاب کو دور نہیں کر سکیں گے حالانکہ اس وقت اسے ان کی زیادہ حاجت ہو گی ،اسی طرح قیامت کے دن بھی یہ بھاگ جائیں گے اور جو لوگ تجھے سخت ترین حالت میں چھوڑ کر بھاگ جائیں تو ان میں کیا بھلائی ہے اور ان پر تو کس طرح اتراتا ہے؟

(6)…مال۔ اس کا علاج یہ ہے کہ مال کی آفات، اس کے حقوق، اور اس کی عظیم فتنہ سامانی کے بارے میں سوچے، فقراء کی فضیلت اور قیامت کے دن جنت میں ان کے سبقت لے جانے پر غور کرے اور یہ بھی سوچے کہ مال تو آنے جانے والی اور ناپائیدار چیز ہے اور یہ بھی دیکھے کہ کئی یہودیوں کے پاس اس سے زیادہ مال ہے تو وہ کس طرح اپنے مال پر اتراتا ہے؟ (احیاء علوم الدین، کتاب ذم الکبر والعجب، الشطر الثانی، بیان اقسام ما بہ العجب وتفصیل علاجہ، ۳ / ۴۵۸-۴۶۲، ملخصاً)

ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا وَ عَذَّبَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْاؕ-وَ ذٰلِكَ جَزَآءُ الْكٰفِرِیْنَ(26)

ترجمہ: پھر اللہ نے اپنے رسول پر اور اہلِ ایمان پر اپنی تسکین نازل فرمائی اور اس نے ایسے لشکر اتارے جو تمہیں دکھائی نہیں دیتے تھے اور اس نے کافروں کو عذاب دیا اور کافروں کی یہی سزا ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ:پھر اللہ نے اپنی تسکین نازل فرمائی۔} ارشاد فرمایا کہ پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر تسکین نازل فرمائی کہ اطمینان کے ساتھ اپنی جگہ قائم رہے اور اہلِ ایمان پر تسکین نازل فرمائی کہ حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پکارنے سے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں واپس آئے۔ (جلالین، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۶، ص۱۵۷)

            اس سے معلوم ہوا کہ جنگ حنین میں بھاگ جانے والے مسلمان مومن ہی رہے، ان کی معافی ہو گئی، ان پر رب عَزَّوَجَلَّ نے سکینہ اتارا۔ اب جو ان پر اعتراض کرے وہ ان آیات کامخالف ہے۔ نیز یہ بھاگ جانے والے ہی واپس ہوئے اور انہوں نے معرکہ فتح کیا لہٰذا یہ فتح گزشتہ خطاکا کفارہ ہو گئی۔آیت ِ مبارکہ میں تسکین اترنے کاتذکرہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کیلئے پہلے اور بقیہ کیلئے بعد میں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ تسکین رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی برکت سے نازل ہوئی اور پھر آپ کے فیضان سے بقیہ صحابہ پر اتری اس لئے سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا تذکرہ پہلے ہوا ،ورنہ گھبرانے والے حضرات تو دوسرے تھے اور سرکار دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تو میدانِ جنگ میں ڈٹے ہوئے تھے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۶، ۲ / ۲۲۸، ملتقطاً)

{وَ اَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا:اور اس نے ایسے لشکر اتارے جو تمہیں دکھائی نہیں دیتے تھے۔} یعنی فرشتے جنہیں کفار نے ابلق گھوڑوں پر سفید لباس پہنے عمامہ باندھے دیکھا یہ فرشتے مسلمانوں کی شوکت بڑھانے کے لئے آئے تھے۔ (ابو سعود، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۲۶، ۲ / ۳۹۷، ملخصاً)

ثُمَّ یَتُوْبُ اللّٰهُ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(27)

ترجمہ: پھر اس کے بعد اللہ جسے چاہے گا توبہ کی توفیق دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ثُمَّ یَتُوْبُ اللّٰهُ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ:پھر اس کے بعد اللہ جسے چاہے گا توبہ کی توفیق دے گا۔} یعنی انہیں اسلام کی توفیق عطا فرمائے گا ۔ چنانچہ ہوازن کے باقی لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی توفیق دی اور وہ مسلمان ہو کر رسول اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے اسیروں کو رہا فرما دیا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۷، ۲ / ۲۲۸)

ہوازن قبیلے کے لوگوں کا قبولِ اسلام:

             صحیح بخاری میں حضرت مِسْوَر بن مَخْرَمَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دس دن تک ہوازن کے وفد کا انتظار فرماتے رہے۔ جب وہ لوگ نہ آئے تو آپ نے مالِ غنیمت اور قیدیوں کو مجاہدین کے درمیان تقسیم فرما دیا۔ اس کے بعد جب ہوازن کا وفد آیا اور انہوں نے اپنے اسلام کا اعلان کرکے یہ درخواست پیش کی کہ ہمارے مال اور قیدیوں کو واپس کر دیا جائے تو حضورانور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ مجھے سچی بات ہی پسند ہے۔ لہٰذا سن لو! کہ مال اور قیدی دونوں کو تو میں واپس نہیں کرسکتا۔ ہاں ان دونوں میں سے ایک کو تم اختیار کر لو ، مال لے لویا قیدی۔ یہ سن کر وفد نے قیدیوں کو واپس لینا منظور کیا۔ اس کے بعد آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فوج کے سامنے ایک خطبہ پڑھا اور حمد و ثنا کے بعد ارشاد فرمایا کہ’’اے مسلمانو! یہ تمہارے بھائی تائب ہو کر آ گئے ہیں ا ور میری یہ رائے ہے کہ میں ان کے قیدیوں کو واپس کر دوں تو تم میں سے جو خوشی خوشی اس کو منظور کرے وہ اپنے حصہ کے قیدیوں کو واپس کر دے اور جو یہ چاہے کہ ان قیدیوں کے بدلے میں دوسرے قیدیوں کو لے کر ان کو واپس کرے تو میں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ مجھے جو غنیمت عطا فرمائے گا میں اس میں سے اس کا حصہ دوں گا۔ یہ سن کر ساری فوج نے کہہ دیا کہ یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم سب نے خوشی خوشی سب قیدیوں کو واپس کر دیا۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ اس طرح پتا نہیں چلتا کہ کس نے اجازت دی اور کس نے نہیں دی؟ لہٰذا تم لوگ اپنے اپنے سرداروں کے ذریعہ مجھے خبر دو۔ چنانچہ ہر قبیلہ کے سردار نے دربارِ رسالت میں آ کر عرض کر دیا کہ ہمارے قبیلہ والوں نے خوش دلی کے ساتھ اپنے حصہ کے قیدیوں کو واپس کر دیا ہے۔ (بخاری، کتاب الہبۃ وفضلہا والتحریض علیہا، باب اذا وہب جماعۃ لقوم، ۲ / ۱۷۸، الحدیث: ۲۶۰۷-۲۶۰۸، ملخصاً)

             سیرت ابنِ ہشام میں ہے کہ  سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب اموالِ غنیمت کی تقسیم سے فارغ ہو چکے تو قبیلہ بنی سعد کے رئیس زہیر ابو صردچند معززین کے ساتھ بارگاہ ِرسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہوئے اور اسیرانِ جنگ کی رہائی کے بارے میں درخواست پیش کی۔ اس موقع پر زہیر ابو صرد نے ایک بہت مُؤثِّر تقریر کی، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اے محمد! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ نے ہمارے خاندان کی ایک عورت حضرت حلیمہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا کا دودھ پیا ہے۔ آپ نے جن عورتوں کو ان چھپروں میں قید کر رکھا ہے ان میں سے بہت سی آپ کی (رضاعی) پھوپھیاں اور بہت سی آپ کی خالائیں ہیں۔ خدا کی قسم! اگر عرب کے بادشاہوں میں سے کسی بادشاہ نے ہمارے خاندان کی کسی عورت کا دودھ پیا ہوتا تو ہم کو اس سے بہت زیادہ امیدیں ہوتیں اور آپ سے تو اور بھی زیادہ ہماری توقُّعات وابستہ ہیں۔ لہٰذا آپ ان سب قیدیوں کو رہا کر دیجئے۔ زہیر کی تقریر سن کر حضور پُرنورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بہت زیادہ مُتَأثِّر ہوئے اور آپ نے فرمایا کہ میں نے آپ لوگوں کا بہت انتظار کیا مگر آپ لوگوں نے آنے میں بڑی دیر لگا دی۔ بہر کیف میرے خاندان والوں کے حصہ میں جس قدر لونڈی غلام آئے ہیں میں نے ان سب کو آزاد کر دیا۔ لیکن اب عام رہائی کی صورت یہ ہے کہ نماز کے وقت جب مجمع ہو توآپ لوگ اپنی درخواست سب کے سامنے پیش کریں۔ چنانچہ نمازِ ظہر کے وقت ان لوگوں نے یہ درخواست مجمع کے سامنے پیش کی اور حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجمع کے سامنے یہ ارشاد فرمایا کہ مجھ کو صرف اپنے خاندان والوں پر اختیار ہے لیکن میں تمام مسلمانوں سے سفارش کرتا ہوں کہ قیدیوں کو رہا کر دیا جائے ۔یہ سن کر تمام انصار و مہاجرین اور دوسرے تمام مجاہدین نے بھی عرض کیا کہ یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہمارا حصہ بھی حاضر ہے۔ آپ ان لوگوں کو بھی آزاد فرما دیں۔ اس طرح دفعۃً چھ ہزار اسیرانِ جنگ کی رہائی ہو گئی۔ (سیرت ابن ہشام، امر اموال ہوازن وسبایاہا وعطایا المؤلّفۃ قلوبہم منہا۔۔۔ الخ، ص۵۰۴-۵۰۵، ملخصاً)

            نسائی شریف کی روایت میں ہے کہ جب ہوازن قبیلے کے لوگوں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں اپنے قیدیوں کی رہائی کے بارے میں عرض کی توآپ نے اپنے خاندان کے حصے میں آنے والے لونڈی غلاموں کو آزاد فرما دیا، اس کے بعد ان سے ارشاد فرمایا ’’فَاِذَا صَلَّیْتُ الظُّہْرَ فَقُوْمُوْا فَقُوْلُوْا اِنَّا نَسْتَعِیْنُ بِرَسُوْلِ اللہِ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَوِ الْمُسْلِمِیْنَ فِیْ نِسَائِنَا وَاَبْنَائِنَا‘‘ جب میں ظہر کی نماز پڑھوں تو تم سب کھڑے ہو کر یوں کہو: ہم اللہ کے رسول کے وسیلے سے مسلمانوں سے اپنی عورتوں اور بچوں میں مدد چاہتے ہیں۔ (نسائی، کتاب الہبۃ، ہبۃ المشاع، ص۶۰۵، الحدیث: ۳۶۸۷)

            اس سے معلوم ہوا کہ اِستِعانت کا لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے ہی خاص نہیں بلکہ یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کے لئے بھی استعمال ہو سکتا ہے۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَاۚ-وَ اِنْ خِفْتُمْ عَیْلَةً فَسَوْفَ یُغْنِیْكُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖۤ اِنْ شَآءَؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ(28)

ترجمہ: اے ایمان والو! مشرک بالکل ناپاک ہیں تو اس سال کے بعد وہ مسجد حرام کے قریب نہ آنے پائیں اور اگرتمہیں محتاجی کا ڈر ہے تو عنقریب اللہ اپنے فضل سے اگر چاہے گاتوتمہیں دولت مند کردے گا بیشک اللہ علم والا حکمت والا ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ:مشرک بالکل ناپاک ہیں۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے فرمایا ہے کہ مشرک بالکل ناپاک ہیں یعنی ان کو باطن کے اعتبار سے ناپاک قرار دیا ہے کہ وہ کفر و شرک کی نجاست سے آلودہ ہیں۔ حکم دیا گیا کہ  اِس سال یعنی سَن 9ہجری کے بعد وہ مسجدِ حرام کے قریب نہ آنے پائیں نہ حج کے لئے نہ عمرہ کے لئے ۔

دنیا بھر کی مَساجِد میں مشرکوں کا داخلہ ممنوع ہے:

             یہاں مشرکین کو منع کرنے کے معنی یہ ہیں کہ مسلمان مسجدِ حرام شریف میں آنے سے روکیں۔یہاں اصلِ حکم مسجد ِ حرام شریف میں آنے سے روکنے کا ہے اور بقیہ دنیا بھر کی مساجد میں آنے کے متعلق بھی حکم یہ ہے کہ کفار مسجدوں میں نہیں آسکتے ۔ خصوصاً کفار کو عزت و احترام اور استقبال کے ساتھ مسجد میں لانا شدید حرام ہے۔ اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ’’ یہ کہنا کہ مسجدُ الحرام شریف سے کفار کا منع ایک خاص وقت کے واسطے تھا ،اگر یہ مراد کہ اب نہ رہا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر صَریح اِفتراء ہے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا

’’ اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَا‘‘

(ترجمۂ کنزُالعِرفان:مشرک بالکل ناپاک ہیں تو اس سال کے بعد وہ مسجد حرام کے قریب نہ آنے پائیں۔)

            یونہی یہ کہنا کہ کفار کے وُفود مسجدِ نبوی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں اپنے طریقے پر عبادت کرتے تھے محض جھوٹ ہے۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے مسجدِ کریمہ کے سوا کوئی نشست گاہ نہ تھی جو حاضر ہوتا یہیں حاضر ہوتا کسی کافر کی حاضری مَعَاذَاللہ بطورِاِستیلا واِستِعلاء (یعنی غلبے کے طور پر) نہ تھی بلکہ ذلیل وخوار ہوکر یا اسلام لانے کے لئے یا تبلیغِ اسلام سننے کے واسطے تھی ۔ (فتاویٰ رضویہ،کتاب السیر، ۱۴ / ۳۹۰-۳۹۱)

{وَ اِنْ خِفْتُمْ عَیْلَةً:اور اگرتمہیں محتاجی کا ڈر ہے۔} ارشاد فرمایا کہ اور اگر تمہیں محتاجی کا ڈر ہے کہ مشرکین کو حج سے روک دینے سے تجارتوں کو نقصان پہنچے گا اور اہلِ مکہ کو تنگی پیش آئے گی تو عنقریب اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے فضل سے اگر چاہے گا تو تمہیں دولت مند کردے گا ۔ حضرت عکرمہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا اللہ تعالیٰ نے انہیں غنی کردیا، بارشیں خوب ہوئیں اور پیداوار کثرت سے ہوئی۔ مقاتل نے کہا کہ یمن کے لوگ مسلمان ہوئے اور انہوں نے اہلِ مکہ پر اپنی کثیر دولتیں خرچ کیں۔ ’’اگرچاہے‘‘ فرمانے میں تعلیم ہے کہ بندے کو چاہئے کہ طلب ِخیر اور دفعِ آفات کے لئے ہمیشہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف متوجہ رہے اور تمام اُمور کو اسی کی مَشِیَّت سے متعلق جانے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۸، ۲ / ۲۲۹) اسی آیت پر مفتی احمد یار خاں نعیمی  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : یعنی یہ نہ سمجھو کہ اگر حج میں کفار شریک نہ ہوئے تو تمہاری تجارتیں نہ چلیں گی (بلکہ) اللہ (عَزَّوَجَلَّ) مسلمانوں کی جماعت میں اتنی برکت دے گا کہ مسلمان حاجیوں سے اہلِ مکہ کے تمام کاروبار چلیں گے۔ رب (عَزَّوَجَلَّ) نے اپنا یہ وعدہ پورا فرمایا جو آج تک دیکھا جا رہا ہے۔’’ اگر چاہے‘‘ اس لئے فرمایا کہ مسلمانوں کا توکل اللہ (عَزَّوَجَلَّ) پر رہے نہ کہ آنے والے حاجیوں پر۔ (نور العرفان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۳۰۴)

قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ لَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ لَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰى یُعْطُوا الْجِزْیَةَ عَنْ یَّدٍ وَّ هُمْ صٰغِرُوْنَ(29)

ترجمہ: وہ لوگ جنہیں کتاب دی گئی ان میں سے جو اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور نہ ہی آخرت کے دن پر اور نہ وہ ان چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیا ہے اور نہ وہ سچے دین پر چلتے ہیں ان سے جہاد کرتے رہو حتّٰی کہ وہ ذلیل ہوکر اپنے ہاتھوں سے جزیہ دیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ:ان سے جہاد کرتے رہو جو اللہ پر اورآخرت کے دن پر ایمان نہیں لاتے۔} اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لانا یہ ہے کہ اس کی ذات اور جملہ صِفات وتنزیہات کو مانے اور جو اس کی شان کے لائق نہ ہو اس کی طرف نسبت نہ کرے اور بعض مفسرین نے رسولوں پر ایمان لانا بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لانے میں داخل قرار دیا ہے تو یہودی اور عیسائی اگرچہ اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لانے کے دعویدار ہیں لیکن ان کا یہ دعویٰ باطل ہے کیونکہ یہودی تجسیم وتَشْبِیہ(اللہ عَزَّوَجَلَّ کا جسم ماننا اور اسے مخلوق کے مشابہ ماننا) کے اور عیسائی حلول کے معتقد ہیں تو وہ کس طرح اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لانے والے ہوسکتے ہیں۔ ایسے ہی یہودیوں میں سے جو حضرت عزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اور عیسائی حضرت مسیح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں تو ان میں سے کوئی بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لانے والا نہ ہوا۔ اسی طرح جو ایک رسول کی تکذیب کرے وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لانے والا نہیں ،یہودی اور عیسائی بہت سے انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کرتے ہیں لہٰذا وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لانے والوں میں نہیں۔ شانِ نزول : مجاہد کا قول ہے کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب کہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو روم سے قتال کرنے کا حکم دیا گیا اور اسی کے نازل ہونے کے بعد غزوۂ تبوک ہوا۔ کلبی کا قول ہے کہ یہ آیت یہود کے قبیلہ قریظہ اور نضیر کے حق میں نازل ہوئی ،سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان سے صلح منظور فرمائی اور یہی پہلا جزیہ ہے جو اہلِ اسلام کو ملا اوریہی پہلی ذلت ہے جو اِن کفار کو مسلمانوں کے ہاتھ سے پہنچی۔( خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۹، ۲ / ۲۲۹)

{وَ لَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ:اور نہ وہ ان چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیا ہے۔} بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اور نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حدیث میں جن چیزوں کو حرام کیا ہے یہ انہیں حرام قرار نہیں دیتے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ آیت کے معنی یہ ہیں کہ توریت و انجیل کے مطابق عمل نہیں کرتے ان کی تحریف کرتے ہیں اور احکام اپنے دل سے گڑھتے ہیں۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۹، ۲ / ۲۲۹)

سنن ابو داؤد اور ابن ماجہ میں حضرت مقدام بن معدیکرب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:سن لو ! مجھے قرآن کے ساتھ اس کا مثل ملا یعنی حدیث، دیکھو!کوئی پیٹ بھرا اپنے تخت پر بیٹھے یہ نہ کہے کہ یہی قرآن لئے رہو جو اس میں حلال ہے اسے حلال جانو،جو اس میں حرام ہے اسے حرام مانو۔ (حالانکہ)اِنَّ مَا حَرَّمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلُ مَا حَرَّمَ اللہُ‘‘جو کچھ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حرام کیا وہ بھی اس کی مثل ہے جسے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حرام کیا۔ (ابو داؤد، کتاب السنّۃ، باب فی لزوم السنّۃ، ۴ / ۲۶۵، الحدیث: ۴۶۰۴، وابن ماجہ، کتاب السنّۃ، باب تعظیم حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔ الخ، ۱ / ۱۵، الحدیث: ۱۲، مثلہ)

احکامِ شریعت نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سپرد ہیں :

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت شاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ائمۂ محققین تصریح فرماتے ہیں کہ احکامِ شریعت حضور سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سپرد ہیں جو بات چاہیں واجب کردیں جو چاہیں ناجائز فرما دیں ، جس چیز یا جس شخص کو جس حکم سے چاہیں مُسْتَثنیٰ فرما دیں۔(فتاویٰ رضویہ، ۳۰ / ۵۱۸)

اس مضمون پر چند اَحادیث کا خلاصہ ملاحظہ فرمائیں۔

(1)… حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے عرض کرنے پر حرم میں اِذخِر گھاس کاٹ لینا جائز فرما دیا۔ (بخاری، کتاب الجنائز، باب الاذخر والحشیش فی القبر، ۱ / ۴۵۳، الحدیث: ۱۳۴۹)

(2)…حضرت ابو بردہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے لئے چھ مہینے کی بکری کی قربانی جائز فرما دی۔ (بخاری، کتاب الاضاحی، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم لابی بردۃ۔۔۔ الخ، ۳ / ۵۷۵، الحدیث: ۵۵۵۷)

(3)…اکیلے حضرت خزیمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی گواہی کو دو گواہوں کے برابر قرار دے دیا۔ (ابو داؤد، کتاب الاقضیۃ، باب اذا علم الحاکم صدق الشاہد الواحد۔۔۔ الخ، ۳ / ۴۳۱، الحدیث: ۳۶۰۷)

(4)…ایک صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو اس کے روزے کا کفارہ اپنے پاس سے عطا فرما کر اسے اپنی ہی ذات اور اہلِ خانہ پر خرچ کرنے کی اجازت عطا فرما دی۔ (بخاری، کتاب الصوم، باب اذا جامع فی رمضان۔۔۔ الخ، ۱ / ۶۳۸، الحدیث: ۱۹۳۶)

(5)…حضرت علی کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے لئے حالتِ جنابت میں مسجد میں داخل ہونا حلال فرما دیا۔ (ترمذی، کتاب المناقب، ۲۰-باب، ۵ / ۴۰۸، الحدیث: ۳۷۴۸)

مزید تفصیلی معلومات کے لئے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا فتاویٰ رضویہ کی 30ویں جلد میں رسالہ ’’اَلْاَمْنُ وَالعُلٰی لِنَاعِتِی الْمُصْطَفٰی بِدَافِعِ الْبَلَاءِ‘‘(مصطفٰی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دافع البلاء یعنی بلائیں دور کرنے والا کہنے والوں کیلئے انعامات) کا مطالعہ فرمائیں

{حَتّٰى یُعْطُوا الْجِزْیَةَ:حتّٰی کہ وہ جزیہ دیں۔} اس آیت میں اہلِ کتاب سے جزیہ لینے کا ذکر ہوا ۔اسلامی سلطنت کی جانب سے ذمی کافروں پر جو (مال) مقرر کیا جاتا ہے اسے جزیہ کہتے ہیں۔ عرب کے مشرکین سے جزیہ قبول نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کیلئے دو ہی صورتیں ہیں قبولِ اسلام یا جنگ۔ بقیہ دنیا بھر کے کافروں سے جزیہ پر صلح ہوسکتی ہے۔

وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ عُزَیْرُ ﰳابْنُ اللّٰهِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰهِؕ-ذٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِاَفْوَاهِهِمْۚ- یُضَاهِــٴُـوْنَ قَوْلَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُؕ-قٰتَلَهُمُ اللّٰهُۚ-اَنّٰى یُؤْفَكُوْنَ(30)

ترجمہ: اور یہودیوں نے کہا: عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور عیسائیوں نے کہا: مسیح اللہ کا بیٹا ہے ۔ یہ ان کی اپنے منہ سے کہی ہوئی بات ہے ، یہ پہلے کے کافروں جیسی بات کرتے ہیں ۔ اللہ انہیں مارے ،کہاں اوندھے جاتے ہیں ؟

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ:اور یہودیوں نے کہا۔} اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ کتاب کی بے دینی کا ذکر فرمایا اورا س آیت میں اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کیلئے بیٹا ہونا ثابت کیا اور جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بارے میں اس طرح کا عقیدہ رکھے تووہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کا منکر ہے۔یہ بھی بیان فرمایا کہ اہلِ کتاب شرک میں مشرکین کی طرح ہیں اگرچہ ان کے شرک کا طریقہ مختلف ہے، مشرکین کے بتوں کو پوجنے میں اور عیسائیوں کے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پَرَسْتِش میں کوئی فرق نہیں ، دونوں شرک میں شریک ہیں بلکہ اگر ہم غور کریں تو معلوم ہو گا کہ بتوں کو پوجنے والے کے کفرسے عیسائیوں کا کفر بڑا ہے کیونکہ کافر بتوں کے بارے میں یہ عقیدہ نہیں رکھتا کہ بت عالَم کے خالق اور معبود ہیں بلکہ وہ بتوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا قرب حاصل کرنے کا وسیلہ اور ذریعہ سمجھتا ہے جبکہ عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں حُلول کر آیا ہے اور ان کے ساتھ مُتَّحِد ہو گیا ہے اور یہ زیادہ قبیح کفر ہے۔ (تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۰، ۶ / ۲۸)

{وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ عُزَیْرُ ﰳابْنُ اللّٰهِ:اور یہودیوں نے کہا: عزیراللہ کا بیٹا ہے۔} امام ابو بکر رازی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : یہ عقیدہ یہودیوں کے تمام فرقوں کا نہیں بلکہ ان میں سے ایک خاص فرقے کا تھا۔ حضرت عبداللہ بن عباس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’ یہودیوں کی ایک جماعت جو کہ سلام بن مشکم، نعمان بن اوفی، شاس بن قیس اور مالک بن صیف پر مشتمل تھی نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئی، انہوں نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حضرت عزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں یہ بات کہی تو ا س پر یہ آیت نازل ہوئی۔

ہمارے علم میں اب اس فرقے کا کوئی وجود نہیں۔  (احکام القرآن للجصاص، سورۃ التوبۃ، ۳ / ۱۳۴)

{ذٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ:یہ ان کی اپنے منہ سے کہی ہوئی بات ہے۔} یعنی یہودیوں کا حضرت عزیرعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اور عیسائیوں کا حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہنا یہ ان کی اپنے منہ سے کہی ہوئی بات ہے، اس پر ان کے پاس نہ کوئی دلیل ہے نہ بُرہان اور پھر اپنی جہالت کی وجہ سے اس صریح باطل چیز کے معتقد بھی ہیں۔ (روح المعانی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۰، ۵ / ۳۸۵، ملخصاً)

{یُضَاهِــٴُـوْنَ قَوْلَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ:یہ پہلے کے کافروں جیسی بات کرتے ہیں۔} اس آیت کا ایک معنی تو اوپر بیان ہوا کہ ’’ اہلِ کتاب شرک میں مشرکین کی طرح ہیں ‘‘ دوسرا معنی یہ ہے کہ عیسائیوں کی بات اپنے سے پہلے یہودیوں کے قول کے مشابہ ہے کہ جس طرح یہودیوں نے حضرت عزیرعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہا اسی طرح عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا بیٹا کہہ دیا۔ حضرت حسن رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہودیوں اور عیسائیوں کے کفر کو گزشتہ کافر امتوں کے کفر سے تشبیہ دی ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۰، ۲ / ۲۳۲)

اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَۚ-وَ مَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِیَعْبُدُوْۤا اِلٰهًا وَّاحِدًاۚ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَؕ-سُبْحٰنَهٗ عَمَّا یُشْرِكُوْنَ(31)

ترجمہ: انہوں نے اپنے پادریوں اور درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنالیا اور مسیح بن مریم کو(بھی) حالانکہ انہیں صرف یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ ایک معبود کی عبادت کریں، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ ان کے شرک سے پاک ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ:انہوں نے اپنے پادریوں اور درویشوں کو اللہ کے سوارب بنالیا۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ یہودیوں نے اپنے پادریوں اور درویشوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا رب بنالیا کہ حکمِ الٰہی کو چھوڑ کر ان کے حکم کے پابند ہوئے اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خدا بنایا اور ان کی نسبت یہ باطل عقیدہ رکھا کہ وہ خدا یا خدا کے بیٹے ہیں یا خدا نے ان میں حُلول کیا ہے حالانکہ انہیں ان کی کتابوں میں اور ان کے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف سے صرف یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ ایک معبود کی عبادت کریں ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں اوروہ ان کے شرک سے پاک ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۱، ۲ / ۲۳۳، ملخصاً)

            یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنے پادریوں اور علماء کو معبود بنا کر ان کی کوئی باقاعدہ عبادت نہیں کی تھی بلکہ خدا کے حکم کو چھوڑ کر ان کے حکم کو اپنے لئے شریعت بنالیا تھا اور اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انہوں نے خدا بنالئے چنانچہ پادریوں اور درویشوں سے متعلق ان کی اِس روِش کے بارے میں حضرت عدی بن حاتم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ روایت کرتے ہیں : میں حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت میرے گلے میں سونے کی صلیب تھی۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’عدی! اس بت کو دور کر دو۔ نیز صحابی فرماتے ہیں کہ میں نے سنا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سورۂ براءت سے پڑھ رہے تھے’’ اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ‘‘(یعنی عیسائیوں ، یہودیوں نے اپنے درویشوں اور علماء کو اللہ کے سوا رب بنا لیا) پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے (اس کی وضاحت کرتے ہوئے ارشاد) فرمایا کہ ’’ وہ ان کو پوجتے نہیں تھے بلکہ جب وہ ان کے لئے کسی چیز کو حلال قرار دیتے تو یہ حلال سمجھتے اور جب وہ حرام قرار دیتے تو یہ حرام سمجھتے تھے۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ التوبۃ، ۵ / ۶۵، الحدیث: ۳۱۰۶)

علماء اور اَولیاء کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ و رسول کے مقابلے میں جس کی دینی اطاعت کی جائے گی گویا اسے رب بنا لیا گیا جیسا کہ عیسائی اور یہودی خدا کے مقابلے میں اپنے پادریوں اور درویشوں کی بات مانتے تھے اس لئے ان کے بارے میں کہا گیا کہ انہوں نے اپنے پادریوں اور درویشوں کو اللہ کے سوارب بنالیا ۔ جبکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فرمان کے ماتحت علماء، اولیاء اور صالحین کی اطاعت عین اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت ہے۔ رب تعالیٰ ارشادفرماتا ہے:

’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْ ‘‘ (النساء:۵۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرواور ان کی جو تم میں سے حکومت والے ہیں۔

            حضرت عطا رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ اس ا ٓیت میں رسول کی اطاعت سے مراد قرآن اور سنت کی پیروی ہے اور ’’اُولِی الْاَمْرِ‘‘ کی اطاعت سے علماء اور فقہاء کی اطاعت مراد ہے۔ (سنن دارمی، باب الاقتداء بالعلماء،  ۱ / ۸۳، الحدیث: ۲۱۹)

             ایک جگہ ارشاد فرمایا

’’ فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ‘‘(النحل:۴۳)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے لوگو!اگر تم نہیں جانتے تو علم والوں سے پوچھو ۔

             ایک مقام پر ارشاد فرمایا

’’وَ اتَّبِـعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ  ‘‘ (لقمان:۱۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور میری طرف رجوع کرنے والے آدمی کے راستے پر چل۔

            اور ارشاد فرمایا: ’’وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ-رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ‘‘ (التوبہ:۱۰۰)

ترجمۂکنزُالعِرفان:اور بیشک مہاجرین اور انصار میں سے سابقینِ اَوّلین اوردوسرے وہ جو بھلائی کے ساتھ ان کی پیروی کرنے والے ہیں ان سب سے اللہ راضی ہوا اور یہ اللہ سے راضی ہیں۔

            اس آیت کی تفسیر میں  ایک قول یہ ہے کہ پیرو ی کرنے والوں سے قیامت تک کے وہ ایماندار مراد ہیں جو ایمان، طاعت اورنیکی میں انصار و مہاجرین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے راستے پرچلیں۔ ان سب سے اللہ عَزَّوَجَلَّ راضی ہوا ۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۲ / ۲۷۵، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ص۴۵۲، ملتقطاً)

            بکثرت احادیث میں بھی علماء کی اطاعت کی ترغیب دی گئی ہے، ان میں سے 3 اَحادیث درج ذیل ہیں :

(1)… صحیح مسلم میں حضرت تمیم داری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’دین خیر خواہی (کا نام) ہے۔ صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،کس کی خیر خواہی کریں ؟ ارشاد فرمایا ’’اللہ عَزَّوَجَلَّ کی، اس کی کتاب کی، اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی، مسلمانوں کے امام کی اور عام مومنین کی۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب بیان انّ الدین النصیحۃ، ص۴۷، الحدیث: ۹۵(۵۵))

             اس حدیث کی شرح میں ہے کہ یہ حدیث ان اماموں کو بھی شامل ہے جو علمائے دین ہیں ، ان کی روایت کی ہوئی احادیث کو قبول کرنا، احکام میں ان کی تقلید کرنا اور ان کے ساتھ نیک گمان رکھنا ان کی خیرخواہی سے ہے۔ (شرح نووی علی المسلم، کتاب الایمان، باب بیان انّ الدین النصیحۃ، ۱ / ۳۹، الجزء الثانی)

(2)…حضرت جبیر بن مطعم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ تین چیزیں ایسی ہیں کہ مومن کا دل ان پر خیانت نہیں کرتا (1) اللہ تعالیٰ کے لیے عمل خالص کرنا۔ (2 ) علماء کی اطاعت کرنا اور (3) (مسلمانوں کی) جماعت کو لازم پکڑنا ۔(مسند امام احمد، مسند المدنیین، حدیث جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالی عنہ، ۵ / ۶۱۵، الحدیث: ۱۶۷۳۸)

(3)… حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرورِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ علم سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ ، فرائض سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ ،قرآن سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ۔ میں وفات پانے والا ہوں علم عنقریب اٹھ جائے گا، فتنے ظاہر ہوں گے حتّٰی کہ دو شخص ایک فریضہ میں جھگڑیں گے اور ایسا کوئی شخص نہ پائیں گے جو ان میں فیصلہ کردے۔(دارمی، باب الاقتداء بالعلماء، ۱ / ۸۳، الحدیث: ۲۲۱)

یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِـٴُـوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ یَاْبَى اللّٰهُ اِلَّاۤ اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَهٗ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ(32)هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖۙ-وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ(33)

ترجمہ: یہ چاہتے ہیں کہ اپنے منہ سے اللہ کا نوربجھا دیں حالانکہ اللہ اپنے نور کو مکمل کئے بغیر نہ مانے گا اگرچہ کافر ناپسند کریں ۔ وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کر دے اگرچہ مشرک ناپسند کریں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِـٴُـوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ:یہ چاہتے ہیں کہ اپنے منہ سے اللہ کا نوربجھا دیں۔} اس آیت میں نور سے مراددینِ اسلام یا سرکار ِدو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کے دلائل ہیں اور نور بجھانے سے مراد حضورپُرنور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دین مٹانا ہے یا قرآن کو شائع نہ ہونے دینا یا حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ذکر روکنا اور حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فضائل سے چڑجانا ۔ تو فرما دیا کہ کفار کی حرکتوں سے نہ دین ختم ہوگا، نہ اسلام کی شوکت میں کمی آئے اور نہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں فرق آئے گا۔(بیضاوی، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۳۲، ۳ / ۱۴۱-۱۴۲، روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۲، ۳ / ۴۱۶، ملتقطاً)

            اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کیا خوب فرماتے ہیں:

مِٹ گئے مٹتے ہیں مٹ جائیں گے اعدا تیرے

نہ مٹا ہے نہ مٹے گا کبھی چرچا تیرا

تو گھٹائے سے کسی کے نہ گھٹا ہے نہ گھٹے

جب  بڑھائے  تجھے   اللہ تعالیٰ  تیرا

آیت’’هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ‘‘سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں :

(1)… سچا دین اور ہدایت حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ایسے وابستہ ہیں جیسے آفتاب کے ساتھ روشنی کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو چھوڑ کر نہ ہدایت ملتی ہے نہ سچا دین ، اگر صرف قرآن سے ہدایت مل جاتی تو تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کودنیا میں کیوں بھیجا جاتا۔

(2)… حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کبھی ہدایت اور سچے دین سے الگ نہ ہوئے کیونکہ یہ دونوں حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ بھیجے گئے ہیں جو انہیں ایک آن کے لئے بھی ہدایت سے الگ مانے وہ بے دین ہے۔

{ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ:تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کردے۔} قرآنِ پاک میں یہ مضمون اس آیت کے علاوہ سورۂ فتح کی آیت نمبر 28 اور سورۂ صف کی آیت نمبر 9 میں بھی بیان ہوا ہے۔ آیت میں غلبے سے دلائل اور قوت دونوں اعتبار سے غلبہ مراد ہے۔ دلائل کے اعتبار سے تو یوں کہ دینِ اسلام نے اپنی حقانیت پر جو دلائل پیش کئے ہیں اس سے مضبوط ترین دلائل کوئی بھی پیش نہ کر سکا اور جہاں تک قوت کے اعتبار سے غلبہ کاتعلق ہے تو اس مراد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک بہت بڑا عرصہ ایسا گزرا ہے کہ د نیا میں صرف دینِ اسلام ہی غالب تھا اور اب آئندہ اس کا کامل ظہور اس وقت ہو گا جب حضرت امام مہدی  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ دنیا میں تشریف لائیں گے۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَ الرُّهْبَانِ لَیَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-وَ الَّذِیْنَ یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۙ-فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ(34)

ترجمہ: اے ایمان والو!بیشک بہت سے پادری اورروحانی درویش باطل طریقے سے لوگوں کا مال کھا جاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کررکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَیَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ:باطل طریقے سے لوگوں کا مال کھا جاتے ہیں۔} پادری اور روحانی درویش اس طرح باطل طریقے سے مال کھاتے ہیں کہ دین کے احکام بدل کر لوگوں سے رشوتیں لیتے ہیں اور اپنی کتابوں میں مال و دولت کے لالچ میں تحریف وتبدیل کرتے ہیں اور سابقہ کتابوں کی جن آیات میں سردارِدو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نعت و صفت مذکور ہے مال حاصل کرنے کے لئے ان میں فاسد تاویلیں اور تحریفیں کرتے ہیں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۴، ۲ / ۲۳۴)

 دین کو دنیا کمانے کا ذریعہ بنانے کی مذمت:

         اس آیت سے معلوم ہو اکہ دین کا علم اس لئے حاصل کرنا تاکہ اس کے ذریعے دنیا کا مال، دولت، عزت، منصب اور وجاہت حاصل ہو یہ انتہائی مذموم اور اپنی آخرت تباہ کردینے والا عمل ہے۔ احادیث میں بھی اس کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے، چنانچہ

         حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے وہ علم حاصل کیا جس سے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کی جاتی ہے لیکن ا س نے وہ علم (اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی بجائے) دنیا حاصل کرنے کے لئے سیکھا تو وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو نہ پائے گا۔ (ابو داؤد، کتاب العلم، باب فی طلب العلم لغیر اللہ، ۳ / ۴۵۱، الحدیث:  ۳۶۶۴)

         حضرت کعب بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جو اس لیے علم طلب کرے تاکہ علماء کا مقابلہ کرے یا جُہلاء سے جھگڑے یا لوگوں کی توجہ اپنی طرف کرے تو اسے اللہ عَزَّوَجَلَّ آگ میں داخل کرے گا۔ (ترمذی، کتاب العلم، باب ما جاء فیمن یطلب بعلمہ الدنیا، ۵ / ۲۹۷، الحدیث: ۲۶۶۳)

         حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور انورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’علماء کے سامنے فخر کرنے، بیوقوفوں سے جھگڑنے اور مجلس آراستہ کرنے کے لئے علم نہ سیکھو کیونکہ جو ایسا کرے گا تو (اس کے لئے)  آگ ہی آگ ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب السنّۃ، باب الانتفاع بالعلم والعمل بہ، ۱ / ۱۶۵، الحدیث: ۲۵۴)

         حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے لوگوں کے دلوں کو اپنے جال میں پھنسانے کے لئے عمدہ گفتگو سیکھی تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی فرض عبادات قبول فرمائے گا نہ نفل۔ (ابو داؤد، کتاب الادب، باب ما جاء فی المتشدق فی الکلام، ۴ / ۳۹۱، الحدیث: ۵۰۰۶)

{وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ:اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔}اس سے مراد یہ ہے کہ وہ بخل کرتے ہیں ، مال کے حقوق ادا نہیں کرتے اور زکوٰۃ نہیں دیتے۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہودی و عیسائی علماء و پادریوں کی حرصِ مال کا ذکر فرمایا تو مسلمانوں کو مال جمع کرنے اور اس کے حقوق ادا نہ کرنے سے خوف دلاتے ہوئے فرمایا کہ وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کررکھتے ہیں اور اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ  ۔( خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۴، ۲ / ۲۳۵)

 کَنز کی وَعید میں کون سا مال داخل ہے؟

         حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ جس مال کی زکوٰۃ دی گئی وہ کنز نہیں (یعنی وہ اس آیت کی وعید میں داخل نہیں ) خواہ دفینہ (زمین میں دفن شدہ خزانہ) ہی ہو اور جس کی زکوٰۃ نہ دی گئی وہ کنز ہے جس کا ذکر قرآن میں ہوا کہ اس کے مالک کو اس سے داغ دیا جائے گا۔ (تفسیر طبری، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۴، ۶ / ۳۵۷-۳۵۸)

کس مال کو جمع کرنا بہتر ہے؟

         حضرت ثوبان  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی کہ سونے چاندی کا تو یہ حال معلوم ہوا ،پھر کون سا مال بہتر ہے جس کو جمع کیا جائے ۔ارشاد فرمایا :ذکر کرنے والی زبان اور شکر کرنے والا دل اور نیک بیوی جو ایماندار کی اس کے ایمان پر مدد کرے (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ التوبۃ، ۵ / ۶۵، الحدیث: ۳۱۰۵) یعنی پرہیزگار ہو کہ اس کی صحبت سے طاعت و عبادت کا شوق بڑھے۔

مال جمع کرنے کا حکم اور مالدار صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے واقعات:

       یاد رہے کہ مال کا جمع کرنا مباح ہے مذموم نہیں جبکہ اس کے حقوق ادا کئے جائیں۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف اور حضرت طلحہ وغیرہ اصحاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم مالدار تھے ۔ اسی مناسبت سے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی مالداری کے چند واقعات ملاحظہ ہوں۔ حضرت عثمان غنی  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی مالداری تو ویسے ہی بہت مشہور ہے، ان کے علاوہ چند مالدار صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم یہ ہیں

(1)…حضرت عبد الرحمٰن بن عوف  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ :تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعا کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو کثیر مال عطا فرمایا اور اپنی مالداری کے باوجود بکثرت صدقہ و خیرات بھی کیا کرتے تھے۔ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مقدس زمانے میں آپ نے اپنے مال میں سے پہلے چار ہزار درہم صدقہ کئے، پھر چالیس ہزار درہم اللہ تعالیٰ کی راہ میں خیرات کئے ،ا س کے بعد چالیس ہزار دینار صدقہ کئے، پھر پانچ سو گھوڑے اورا س کے بعد پانچ سو اونٹ راہِ خدا میں صدقہ کئے۔ (اسد الغابہ، باب العین والباء، عبد الرحمٰن بن عوف، ۳ / ۴۹۸)

         ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا تجارتی قافلہ آیا، ا س قافلے میں گندم، آٹے اور کھانے سے لدے ہوئے سات سو اونٹ تھے، حضرت عائشہ صدیقہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھانے شور سنا تو اس بارے دریافت فرمایا تو انہیں بتایا گیا کہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا تجارتی قافلہ واپس آیا ہے جس میں گندم، آٹے اور طعام سے لدے ہوئے سات سو اونٹ ہیں۔ حضرت عائشہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا نے فرمایا: میں نے نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عبد الرحمٰن بن عوف  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جنت میں گھسٹتے ہوئے داخل ہوں گے۔ جب یہ بات حضرت عبد الرحمٰن بن عوف  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو معلوم ہوئی آپ نے کہا: اے میری ماں ! میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے یہ تمام اونٹ اپنے سازو سامان کے ساتھ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں صدقہ کر دیئے۔ (اسد الغابہ، باب العین والباء، عبد الرحمٰن بن عوف، ۳ / ۴۹۸)

         جب حضرت عبد الرحمٰن بن عوف  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کاا نتقال ہوا تو آپ کے ترکہ میں حاصل ہونے والے سونے کو کلہاڑوں سے کاٹا گیا یہاں تک کہ لوگوں کے ہاتھوں میں آبلے پڑ گئے، اس کے علاوہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ترکے میں ایک ہزار اونٹ، تین ہزار بکریاں اور ایک سو گھوڑے شامل تھے جو بقیع کی چراگاہ میں چرتے تھے۔ (اسد الغابہ، باب العین والباء، عبد الرحمٰن بن عوف، ۳ / ۵۰۰)

(2)…حضرت طلحہ بن عبید اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ: حضرت طلحہ بن عبید اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی عراقی زمینوں سے ہونے والی آمدنی چار سے پانچ لاکھ درہم تک تھی اور سُرَّاۃ کی زمینوں سے ہونے والی آمدنی دس ہزار دینار کے لگ بھگ تھی یونہی اعراض سے بھی آمدنی ہوتی تھی۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بنو تمیم کے ہر ضرورت مند کی ضرورت کو پورا کرتے ، ان کی مدد کرتے ، ان کی بیواؤں اور غیر شادی شدہ افراد کی شادیاں کراتے اور ان کے قرض اتارا کرتے تھے نیز ہر سال زمین کی پیداوار کی آمدنی سے دس ہزار درہم حضرت عائشہ صدیقہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاکو بھجوایا کرتے تھے۔ (الطبقات الکبری، طبقات البدریین من المہاجرین، الطبقۃ الاولی، طلحۃ بن عبید اللہ، ۳ / ۱۶۶)

(3)…حضرت زبیر بن العوام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ: حضرت ہشام بن عروہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ترکے کی قیمت پانچ کروڑ دس لاکھ یا پانچ کروڑ بیس لاکھ درہم تھی، مصر، اسکندریہ اور کوفہ میں آپ کی رہائشگاہیں تھیں ، بصرہ میں آپ کی حویلیاں تھیں ، مدینہ منورہ کی زمینوں سے آپ کے پاس غلے کی پیداوار سے آمدنی آتی تھی۔ حضرت زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے  چار بیویاں چھوڑیں جن میں سے ہر ایک کو گیارہ گیارہ لاکھ ملے۔ (الطبقات الکبری، طبقات البدریین من المہاجرین، الطبقۃ الاولی، ومن بنی اسد بن عبد العزی بن قصی، الزبیر بن العوام، ۳ / ۸۱)

         ان کے علاوہ حضرت عمرو بن العاص، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت زید بن ثابت، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم بھی مالدار صحابہ میں شمار ہوتے تھے۔ خیال رہے کہ مالدار صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم در حقیقت مالدار کی تربیت کیلئے مشعلِ راہ تھے ، وہ اپنا مال شرعی مَصارِف میں خرچ کرتے تھے اور اسی لئے مال جمع رکھتے تھے ،ان کے اَموال اظہارِ فخر کے لئے نہ تھے اور نہ ہی دنیائے فانی کے مال کی محبت میں اسے جمع کرتے تھے۔

            اللہ تعالیٰ مالدار مسلمانوں کو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی سیرت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔

یَّوْمَ یُحْمٰى عَلَیْهَا فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوٰى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَ جُنُوْبُهُمْ وَ ظُهُوْرُهُمْؕ-هٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ فَذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُوْنَ(35)

ترجمہ: 

جس دن وہ مال جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا پھر اس کے ساتھ ان کی پیشانیوں اور ان کے پہلوؤں اور ان کی پشتوں کو داغا جائے گا (اور کہا جائے گا) یہ وہ مال ہے جو تم نے اپنے لئے جمع کر رکھا تھا تو اپنے جمع کرنے کا مزہ چکھو۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یَوْمَ یُحْمٰى عَلَیْهَا فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ:جس دن وہ مال جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا۔} یعنی وہ مال جس کی زکوٰۃ نہ دی تھی قیامت کے دن اسے جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا  یہاں تک کہ شدت ِحرارت سے سفید ہوجائے گا پھر اس کے ساتھ زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں کی پیشانیوں اور ان کے پہلوؤں اور ان کی پشتوں کو داغا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا یہ وہ مال ہے جو تم نے اپنے لئے جمع کر رکھا تھا تو دنیا میں اپنا مال جمع کر کے رکھنے اور حق داروں کو ان کا حق ادا نہ کرنے کے عذاب کا مزہ چکھو۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۵، ۲ / ۲۳۶)

زکوٰۃ نہ دینے کی وعیدیں :

            احادیث میں زکوٰۃ نہ دینے پر سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں ، ان میں 4اَحادیث درج ذیل ہیں :

(1)… حضرت ابوہریرہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص سونے چاندی کا مالک ہو اور اس کا حق ادا نہ کرے تو جب قیامت کا دن ہوگا اس کے لیے آگ کے پتلے ٹکڑے بنائے جائیں گے ان پر جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی اور اُن سے اُس کی کروٹ اور پیشانی اور پیٹھ داغی جائے گی، جب ٹھنڈے ہونے پر آئیں گے پھر ویسے ہی کر دئیے جائیں گے۔ یہ معاملہ اس دن کا ہے جس کی مقدار پچاس ہزار برس ہے یہاں تک کہ بندوں کے درمیان فیصلہ ہوجائے، اب وہ اپنی راہ دیکھے گا خواہ جنت کی طرف جائے یا جہنم کی طرف۔ اور اونٹ کے بارے میں فرمایا: جو اس کا حق نہیں ادا کرتا، قیامت کے دن ہموار میدان میں لٹا دیا جائے گا اور وہ اونٹ سب کے سب نہایت فَربہ ہو کر آئیں گے، پاؤں سے اُسے روندیں گے اور منہ سے کاٹیں گے، جب ان کی پچھلی جماعت گزر جائے گی، پہلی لوٹے گی۔ اور گائے اور بکریوں کے بارے میں فرمایا: کہ اس شخص کو ہموار میدان میں لٹائیں گے اور وہ سب کی سب آئیں گی، نہ ان میں مُڑے ہوئے سینگ کی کوئی ہوگی، نہ بے سینگ کی، نہ ٹوٹے سینگ کی اور سینگوں سے ماریں گی اور کھروں سے روندیں گی۔(مسلم، کتاب الزکاۃ، باب اثم مانع الزکاۃ، ص۴۹۱، الحدیث: ۲۴(۹۸۷))

(2)…حضرت بُریدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو قوم زکوٰۃ نہ دے گی اللہ تعالیٰ اسے قحط میں مبتلا فرمائے گا۔ (معجم الاوسط، باب العین، من اسمہ عبدان، ۳ / ۲۷۵، الحدیث: ۴۵۷۷)

(3)…امیر المؤمنین حضرت فاروقِ اعظم  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’خشکی و تری میں جو مال تَلف ہوتا ہے وہ زکوٰۃ نہ دینے سے تلف ہوتا ہے۔ (الترغیب والترہیب، کتاب الصدقات، الترہیب من منع الزکاۃ۔۔۔ الخ، ۱ / ۳۰۸، الحدیث: ۱۶)

(4)…امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’فقیر ہرگز ننگے بھوکے ہونے کی تکلیف نہ اٹھائیں گے مگر مال داروں کے ہاتھوں ، سن لو! ایسے مالداروں سے اللہتعالیٰ سخت حساب لے گا اور انھیں دردناک عذاب دے گا ۔(معجم الاوسط، باب الدال، من اسمہ دلیل، ۲ / ۳۷۴، الحدیث:  ۳۵۷۹)۔

اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ مِنْهَاۤ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌؕ-ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ ﳔ فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ وَ قَاتِلُوا الْمُشْرِكِیْنَ كَآفَّةً كَمَا یُقَاتِلُوْنَكُمْ كَآفَّةًؕ-وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ(36)

ترجمہ: بیشک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے ہیں جب سے اس نے آسمان اور زمین بنائے، ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں ۔ یہ سیدھا دین ہے تو ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے ہر حال میں لڑو جیسا وہ تم سے ہر وقت لڑتے ہیں اور جان لو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ:بیشک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے ہیں۔} یہاں یہ بیان فرمایاگیا کہ بکثرت احکامِ شرع کی بنا قَمری مہینوں پر ہے جن کا حساب چاند سے ہے۔ اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی کتاب سے یا لوحِ محفوظ مراد ہے یا قرآن یا وہ حکم جو اس نے اپنے بندوں پر لازم کیا۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۶، ص۴۳۴، خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۶، ۲ / ۲۳۶، ملتقطاً)

{مِنْهَاۤ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ:ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔} ان حرمت والے مہینوں میں سے تین متصل ہیں ، ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور ایک جدا ہے رجب۔ عرب لوگ زمانۂ جاہلیت میں بھی ان مہینوں کی تعظیم کرتے تھے اور ان میں قِتال حرام جانتے تھے۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۶، ۲ / ۲۳۶)

ان مہینوں میں سے رجب کی تعظیم اس لئے کہ لوگ اس میں عمرہ کرتے تھے اور بقیہ مہینوں کی اس لئے کہ یہ مہینے حج کیلئے جانے، حج کرنے اور حج سے واپسی کے مہینے تھے۔

{ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ:یہ سیدھا دین ہے۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ سال میں بارہ مہینوں کا ہونا یہ سیدھا اور صحیح حساب ہے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ چار مہینوں کاحرمت والا ہونا یہ وہی سیدھا دین ہے جو کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا دین تھا اور اہلِ عرب ان دونوں سے اس حکم کے وارث ہوئے ہیں۔(تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۶، ۶ / ۴۲، بیضاوی، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۳۶، ۳ / ۱۴۴، ملتقطاً)

{وَ قَاتِلُوا الْمُشْرِكِیْنَ كَآفَّةً:اور مشرکوں سے ہر حال میں لڑو۔} یعنی مشرکین سے مُتَّحِد ہو کر جنگ کرو جس طرح وہ متحد ہو کر تم سے جنگ کرتے ہیں۔ معنی یہ ہے کہ مشرکین کے خلاف جنگ کرنے میں ایک دوسرے سے تعاون اور مدد کرو اور ان کے خلاف جنگ میں بزدلی اور کم ہمتی کا مظاہرہ نہ کرو اور نہ ہی پَسپائی اختیار کرو اور اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندو! اپنے دشمن مشرکین کے خلاف جنگ کرنے میں متحد اور متفق ہو جاؤ۔ بیشتر مفسرین کے نزدیک اس آیت سے حرمت والے مہینوں میں کفار سے جنگ کی ممانعت منسوخ ہو گئی ہے اب چاہے حرمت والے مہینے ہوں یا ان کے علاوہ ہر مہینے میں مشرکین سے جنگ کی جائے گی ۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۶، ۲ / ۲۳۷)

مسلمانوں کے عروج و زوال کا ایک سبب:

اس آیت میں مسلمانوں کو کافروں کے خلاف متحد ہو کر جنگ کرنے اور اس میں ایک دوسرے سے مدد و تعاون کرنے کا حکم دیا گیا اور تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں کا اتحاد اور اتفاق ان کے عروج کا سبب اور ان کی بہت بڑی قوت تھی اور اسی اتحاد کی برکت سے ان کی قلیل تعداد کافروں کی کثیر تعداد پر ہر میدان میں غالب رہی اور مسلمان ہر طرف اپنی فتح کے جھنڈے لہراتے رہے، روم اور ایران جیسی اپنے وقت کی سپر پاورز کو اپنے قدموں تلے روند کر رکھ دیا، مصر، عراق، اسپین اور افریقی ممالک میں اسلام کا پرچم بلند کر دیا ،الغرض کفار اپنے اتحاد، عددی برتری اور جنگی ساز و سامان کی فراوانی کے باوجود مسلمانوں پر کسی طرح غالب نہ آ سکے اور یہ سب مسلمانوں کے ایک مرکز پر جمع ہونے اور باہمی اتحاد واتفاق کا نتیجہ تھا۔ جب کفار کسی طرح مسلمانوں کو شکست نہ دے سکے تو انہوں نے مسلمانوں کے اتحاد کو ختم کرنے اور ان میں اِفتراق و اِنتشار پیدا کرنے کی کوششیں شروع کر دیں اور ا س کے لئے انہوں نے بے تحاشا مال و زر، سونا چاندی اور ہیرے جواہرات خرچ کر کے مسلمانوں میں دین فروش گمراہ علماء اور غدار پیدا کئے ،مسلم وزراء ،مسلم حکمرانوں اورفوج کے سالاروں کو خریدا، یہاں تک کہ انہوں نے اس کام کے لئے اپنی عورتوں کے حسن و جمال اور ان کی عزت و آبرو کا استعمال کرنے سے بھی دریغ نہ کیا، جب وہ مسلمانوں میں مال و زر کی خواہش، سلطنت و حکومت کی ہوس ، شراب، رَباب اور شباب کی طلب اور ایک دوسرے سے حسد ،بغض اور عداوت پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو اس کا نتیجہ مسلمانوں کے زوال کی صورت میں ظاہر ہوا، مسلمانوں کا باہمی اتحاد ختم ہو گیا اور وہ لا مرکزیت کا شکار ہو کر ٹکڑوں میں بٹ گئے اور مسلمانوں کی اسی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر کفار رفتہ رفتہ ان پر غالب آتے گئے اور پھر مسلمانوں نے اندلس، قرطبہ، غرناطہ، ترکستان، ایران ، بغداد ،فلسطین اور دیگر ملکوں میں عیسائیوں اور تاتاریوں سے ایسی عبرتناک تباہی کا سامناکیا کہ اسے سن کر ہی کلیجہ کانپ جاتا ہے۔ مسلمانوں کے گھر اور مال و اَسباب جلا دئیے گئے ،ان کی مَساجد میں کفار نے اپنے گھوڑے باندھے اور اذان و نماز پر پابندیاں لگا دیں ، ان کے اہلِ حق علماء اور اسلام کے وفاداروں کو چن چن کر قتل کردیا گیا، ان کے علمی و روحانی مراکز تباہ و برباد کر دئیے گئے، بغداد میں مسلمانوں کے علمی ورثے کو جب دریائے نیل میں غرق کیا گیا تو اس کی سیاہی سے دریا کا پانی سیاہ ہو گیا، باپوں کے سامنے بیٹیوں ، شوہروں کے سامنے بیویوں ،بھائیوں کے سامنے بہنوں اور بیٹوں کے سامنے ان کی ماؤں کی عزتوں کو تار تار کیا گیا اور مسلمان حسرت کے آنسو بہانے کے سوا کچھ نہ کر سکے۔ آج کے مسلمانوں کا حال دیکھا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ اپنی تاریخی اور عبرتناک غلطیوں سے سبق حاصل کرنے کی بجائے انہی غلطیوں کو از سرِنو دُہرا رہے ہیں اور ایک مرکز پر جمع ہو کر متحد ہونے کی بجائے مختلف ٹکڑوں میں بٹ کر اور کفار کا دست نگر ہو کر زندگی گزارنے کو اپنی عظیم سعادت سمجھے بیٹھے ہیں ،اپنی حکومت اور سلطنت بچانے کی خاطر کفار کے آگے ایڑیاں رگڑتے اور ان کی ناراضی کو اپنی محتاجی کا پروانہ سمجھتے ہیں ، مسلمانوں کی اخلاقی اور ملی تباہی کے لئے کفار کی طرف سے بُنے گئے جالوں میں بری طرح پھنسنے کو اپنی کامیابی تصور کرتے ہیں ، دین فروش علماء اور غداروں نے مسلمانوں کی ملی وحدت کو پار ہ پارہ کر کے کفار کے عَزائم کامیاب بنا دئیے ہیں ، کسی مسلم ملک پر کفار حملہ کریں تویہ اپنے مسلمان بھائیوں کے جان و مال اورعزت وآبرو کی حفاظت کرنے کی بجائے کفار سے ان کے سودے کرتے ہیں ، مسلمانوں کو تباہ وبرباد کرنے کے لئے ہر طرح سے کفار کا ساتھ دیتے ہیں اور کفار سے پٹنے والے مسلمانوں کا حال و انجام دیکھ کر یہ تَصَوُّر تک کرنا گوارا نہیں کرتے کہ کفار نے اپنے منظورِ نظر مسلمانوں کا جو حال کیا کل کو وہ یہی حال ان کا بھی کر سکتے ہیں۔اے کاش!

درسِ قرآن ہم نے نہ بھلایا ہوتا

یہ زمانہ نہ زمانے نے دکھایا ہوتا

اِنَّمَا النَّسِیْٓءُ زِیَادَةٌ فِی الْكُفْرِ یُضَلُّ بِهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یُحِلُّوْنَهٗ عَامًا وَّ یُحَرِّمُوْنَهٗ عَامًا لِّیُوَاطِــٴُـوْا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ فَیُحِلُّوْا مَا حَرَّمَ اللّٰهُؕ-زُیِّنَ لَهُمْ سُوْٓءُ اَعْمَالِهِمْؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ(37)

ترجمہ: مہینوں کو آگے پیچھے کرنا کفر میں ترقی کرنا ہے، اِس کے ذریعے اُن کافروں کو گمراہ کیا جاتا ہے جو ایک سال کسی حرمت والے مہینے کو حلال قرار دے دیتے ہیں اور ایک سال اسے حرام قرار دیتے ہیں تاکہ اللہ کے حرام کئے ہوئے مہینوں کی گنتی پوری کردیں اور اللہ کے حرام کئے ہوئے کو حلال کرلیں ۔ ان کے برے کا م ان کے لئے خوشنما بنا دئیے گئے اور اللہ کافروں کوہدایت نہیں دیتا۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّمَا النَّسِیْٓءُ زِیَادَةٌ فِی الْكُفْرِ:(اِن مشرکوں کا) مہینوں کو آگے پیچھے کرنا کفر میں ترقی کرنا ہے۔}نَسِیۡٓءُ لغت میں وقت کے مؤخر کرنے کو کہتے ہیں اور یہاں شَہْرِحرام کی حرمت کا دوسرے مہینے کی طرف ہٹا دینا مراد ہے۔ زمانۂ جاہلیت میں عرب حرمت والے مہینوں (یعنی ذوالقعدہ، ذی الحجہ، محرم، رجب) کی حرمت و عظمت کے معتقد تھے تو جب کبھی لڑائی کے زمانے میں یہ حرمت والے مہینے آجاتے تو ان کو بہت شاق گزرتے ، اس لئے انہوں نے یہ کیا کہ ایک مہینے کی حرمت دوسرے کی طرف ہٹانے لگے، محرم کی حرمت صفر کی طرف ہٹا کر محرم میں جنگ جاری رکھتے اور بجائے اس کے صفر کو ماہِ حرام بنالیتے اور جب اس سے بھی تحریم ہٹانے کی حاجت سمجھتے تو اس میں بھی جنگ حلال کرلیتے اور ربیع الاول کو ماہِ حرام قرا ر دیتے اس طرح تحریم سال کے تمام مہینوں میں گھومتی اور ان کے اس طرزِ عمل سے حرمت والے مہینوں کی تخصیص ہی باقی نہ رہی۔ سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حجۃ الوداع میں اعلان فرمایا کہ نَسِیْء کے مہینے گئے گزرے ہوگئے، اب مہینوں کے اوقات کی حکمِ خداوندی کے مطابق حفاظت کی جائے اور کوئی مہینہ اپنی جگہ سے نہ ہٹایا جائے اور اس آیت میں نَسِیۡٓءُ کو ممنوع قرار دیا گیا اور کفر پر کفر کی زیادتی قرار دیا کہ اولًا تو ویسے ہی کافر تھے اور پھر مہینے آگے پیچھے کرکے حرام کو حلال سمجھنے کے کفر میں پڑتے تھے تو یہ مزید کفر میں اضافہ ہوا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۷، ۲ / ۲۳۸)

{لِیُوَاطِــٴُـوْا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ:تاکہ اللہ کے حرام کئے ہوئے مہینوں کی گنتی کے مطابق ہوجائیں۔ } یعنی ماہ ِحرام تو چار ہی رہیں اس کی تو پابندی کرتے ہیں اور ان کی تخصیص توڑ کر حکمِ الہٰی کی مخالفت کرتے ہیں کہ جو مہینہ حرام تھا اسے حلال کرلیا اس کی جگہ دوسرے کو حرام قرار دیا۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۴۳۵)

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَا لَكُمْ اِذَا قِیْلَ لَكُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَى الْاَرْضِؕ-اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَةِۚ-فَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا قَلِیْلٌ(38)

ترجمہ: اے ایمان والو! تمہیں کیا ہوا؟ جب تم سے کہا جائے کہ اللہ کی راہ میں نکلو تو زمین کے ساتھ لگ جاتے ہو ۔ کیا تم آخرت کی بجائے دنیا کی زندگی پر راضی ہوگئے ؟تو آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کا سازو سامان بہت ہی تھوڑا ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَا لَكُمْ:اے ایمان والو! تمہیں کیا ہوا؟ ۔} شانِ نزول:یہ آیت غزوۂ تبوک کی ترغیب میں نازل ہوئی ۔( خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۸، ۲ / ۲۳۹)

غزوۂ تبوک کا واقعہ:

تبوک، ملکِ شام کے اَطراف میں مدینہ طیبہ سے کافی فاصلے پر ایک مقام ہے، اس دور میں تبوک کی طرف جانے والا جو راستہ تعمیر کیا گیا ہے، جدید حساب کی رُو سے اس کا فاصلہ نو سو کلومیٹر کے قریب ہے۔ رجب 9 ہجری میں طائف سے واپسی کے بعد جب سرکارِ دو عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خبر پہنچی کہ عرب کے عیسائیوں کی سازش اور بَراَنگیختہ کرنے سے ہر قل شاہِ روم نے رومیوں اور شامیوں کا ایک بھاری لشکر جمع کر لیا ہے اور وہ مسلمانوں پر حملے کا ارادہ رکھتا ہے تو حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مسلمانوں کو ان کے خلاف جہاد کا حکم دیا۔ یہ زمانہ نہایت تنگی ،قحط سالی اور گرمی کی شدت کا تھا یہاں تک کہ دو دو آدمی ایک ایک کھجور پر گزارہ کرتے تھے۔ سفر دور کا تھا جبکہ دشمن تعداد میں زیادہ اور مضبوط تھے ان وجوہات کی بنا پر لوگوں کو گھر سے نکلنا مشکل محسوس ہو رہا تھا۔ مدینہ منورہ کے بہت سے منافقین جن کے نفاق کا راز فاش ہو چکا تھا وہ خود بھی فوج میں شامل ہونے سے جی چراتے تھے اور دوسروں کو بھی منع کرتے تھے لیکن اس کے باوجود تیس ہزار کا لشکر جمع ہوگیا۔ اب ان تمام مجاہدین کے لیے سواریوں اور سامانِ جنگ کا انتظام کرنا ایک بڑا ہی کٹھن مرحلہ تھاکیونکہ لوگ قحط کی وجہ سے انتہائی مَفلوک الحال اور پریشان تھے اس لیے حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے عرب کے تمام قَبائل سے فوجیں اور مالی امداد طلب فرمائی۔

صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے اس غزوے میں دل کھول کر مال خرچ کیا ’’حضرت عبد الرحمٰن بن خباب  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’میں بارگاہِ رسالت میں حاضر تھا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غزوۂ تبوک کے بارے میں صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو ترغیب دے رہے تھے۔ حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا ’’یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے راستے میں پالان کے ساتھ سو اونٹ میرے ذمے ہیں۔ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پھر ترغیب دلائی تو حضرت عثمان غنی  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ دوبارہ کھڑے ہوئے اور عرض کی ’’یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے راستے میں پالان سمیت دو سو اونٹ میرے ذمے ہیں۔ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تیسری مرتبہ ترغیب دلائی تو حضرت عثمان غنی  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ پھر کھڑے ہو گئے اور عرض گزار ہوئے’’یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے راستے میں تین سو اونٹ پالانوں کے ساتھ میرے ذمے ہیں۔ حضرت عبد الرحمٰن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ میں نے دیکھا کہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ منبر سے نیچے تشریف لائے اور فرما رہے تھے کہ اس کے بعد عثمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جو بھی عمل کریں ان پر کوئی حرج نہیں۔(ترمذی، کتاب المناقب، باب مناقب عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ، ۵ / ۳۹۱، الحدیث: ۳۷۲۰)

         یہ تو اعلان تھا لیکن حاضر کرتے وقت حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے اعلان سے کہیں زیادہ مال دیا تھا، حضرت علامہ برہان الدین حلبی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’غزوۂ تبوک کے موقع پر جتنا مال حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے خرچ کیا اتنا کسی اور نے نہیں کیا ،آپ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے دس ہزار مجاہدین کوجہاد کاسامان دیا اور دس ہزار دینار اس غزوے پر خرچ کئے، سازو سامان کے ساتھ نو سو اونٹ اور سو گھوڑے اس کے علاوہ ہیں۔ (سیرت حلبیہ، باب ذکر مغازیہ صلی اللہ علیہ وسلم، غزوۃ تبوک، ۳ / ۱۸۴)

         حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم فرمایا، اتفاق سے اس وقت میرے پاس مال تھا، میں نے کہا اگر میں صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے کسی دن سبقت لے سکتا ہوں تو آج لے جاؤں گا۔ فرماتے ہیں ’’ پھر میں نصف مال لے کر حاضر ہوا، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا ہے؟ میں نے عرض کی: اس کے برابر اتنے ہیں۔ حضرت ابو بکر صدیق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنا سارا مال (جس کی مقدار چار ہزار درہم تھی) لے کر حاضر ہوئے تورسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان سے فرمایا ’’ گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا ہے؟ انہوں نے عرض کی’’ اَبْقَیْتُ لَہُمْ اللہَ وَرَسُولَہٗ ‘‘ گھر والوں کے لئے اللہ اور اس کا رسول چھوڑ آیا ہوں۔ حضرت عمر  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ میں نے (دل میں ) کہا : میں ان سے کسی بات میں آگے نہیں بڑھ سکوں گا۔ (ابو داؤد، کتاب الزکاۃ، باب فی الرخصۃ فی ذلک، ۲ / ۱۷۹، الحدیث: ۱۶۷۸)

         ان کے علاوہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف، حضرت عباس اور حضرت طلحہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے بھی کثیر مال خرچ کیا، اسی طرح صحابیات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کے پاس بھی جو زیور تھا انہوں نے بارگاہ ِرسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں بھیج دیا۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا اب تک یہ طریقہ تھا کہ غزوات کے معاملے میں بہت زیادہ رازداری کے ساتھ تیاری فرماتے تھے۔ یہاں تک کہ عَساکرِ اسلامیہ کو عین وقت تک یہ بھی نہ معلوم ہوتا تھا کہ کہاں اور کس طرف جانا ہے؟ مگر جنگ تبوک کے موقع پر سب کچھ انتظام علانیہ طور پر کیا اور یہ بھی بتا دیا کہ تبوک چلنا ہے اور قیصرِ روم کی فوجوں سے جہاد کرنا ہے تا کہ لوگ زیادہ سے زیادہ تیاری کر لیں۔(سیرت حلبیہ، باب ذکر مغازیہ صلی اللہ علیہ وسلم، غزوۃ تبوک، ۳ / ۱۸۳-۱۸۴)

بہرحال حضورِاکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تیس ہزار کا لشکر ساتھ لے کر تبوک کے لئے روانہ ہوئے اور مدینہ کا نَظم و نَسق چلانے کے لئے حضرت علی کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو اپنا خلیفہ بنایا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں غزوۂ تبوک کے موقع پررسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو مدینہ منورہ میں چھوڑ دیا تو آپ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے عرض کی ’’یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑ کر جا رہے ہیں ؟ ارشاد فرمایا ’’کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تم میرے لئے ایسے ہو جیسے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تھے! البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔(مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ رضی اللہ تعالی عنہم، باب من فضائل علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، ص۱۳۱۰، الحدیث: ۳۱(۲۴۰۴))

جب نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تبوک کے قریب میں پہنچے تو ارشاد فرمایا کہ اِنْ شَآءَ اللہُ تعالٰی کل تم لوگ تبوک کے چشمہ پر پہنچو گے اور سورج بلند ہونے کے بعد پہنچو گے لیکن کوئی شخص وہاں پہنچے تو پانی کو ہاتھ نہ لگائے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب وہاں پہنچے تو جوتے کے تسمے کے برابر اس میں پانی کی ایک دھار بہہ رہی تھی۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس میں سے تھوڑا سا پانی منگا کر ہاتھ منہ دھویا اور اس پانی میں کلی فرمائی۔ پھر حکم دیا کہ اس پانی کو چشمہ میں انڈیل دو۔ لوگوں نے جب اس پانی کو چشمہ میں ڈالا تو چشمہ سے زوردار پانی کی موٹی دھار بہنے لگی اور تیس ہزار کا لشکر اور تمام جانور اس چشمہ کے پانی سے سیراب ہو گئے۔ سرکارِ دوجہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کافی عرصہ یہاں قیام فرمایا، ہرقل اپنے دل میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سچا نبی جانتا تھا اس لئے اسے خوف ہوا اور اس نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے مقابلہ نہ کیا ۔نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اَطراف میں لشکر بھیجے، چنانچہ حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو چار سو سے زائد سواروں کے ساتھ دومتہ الجندل کے حاکم اکیدر سے مقابلے کیلئے بھیجا اور فرمایا کہ تم اس کو نیل گائے کے شکار میں پکڑلو !چنانچہ ایسا ہی ہوا جب وہ نیل گائے کے شکار کے لئے اپنے قلعے سے اتر اتو حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اسے گرفتار کرلیا اور اسے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمتِ اقدس میں لے آئے ، حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جزیہ مقرر فرما کر اس کو چھوڑ دیا، اسی طرح حاکمِ ایلہ پر اسلام پیش کیا اور جزیہ پرصلح فرمائی۔ (زرقانی، ثمّ غزوۃ تبوک، ۴ / ۹۰-۹۳ملتقطاً) واپسی کے وقت جب حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مدینہ کے قریب تشریف لائے تو جو لوگ جہاد میں ساتھ ہونے سے رہ گئے تھے وہ حاضر ہوئے۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابۂ  کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے فرمایا کہ ان میں سے کسی سے کلام نہ کریں اور اپنے پاس نہ بٹھائیں جب تک ہم اجازت نہ دیں تو مسلمانوں نے ان سے اِعراض کیا یہاں تک کہ باپ اور بھائی کی طرف بھی اِلتفات نہ کیا اسی باب میں یہ آیتیں نازل ہوئیں۔

اِلَّا تَنْفِرُوْا یُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا ﳔ وَّ یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَكُمْ وَ لَا تَضُرُّوْهُ شَیْــٴًـاؕ-وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(39)

ترجمہ: اگر تم کوچ نہیں کرو گے تووہ تمہیں دردناک سزا دے گا اور تمہاری جگہ دوسرے لوگوں کو لے آئے گااور تم اس کا کچھ نہیں بگا ڑ سکوگے اور اللہ ہرشے پر قادرہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِلَّا تَنْفِرُوْا:اگر تم کوچ نہیں کرو گے۔} ارشاد فرمایا کہ اے مسلمانو! اگر تم رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم کے مطابق اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں کوچ نہیں کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں دردناک سزا دے گا اور تمہاری جگہ دوسرے لوگوں کو لے آئے گاجو تم سے بہتر اور فرمانبردار ہوں گے۔ مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نصرت اور ان کے دین کو عزت دینے میں خود کفالت فرمائے گا تو اگر تم فرمانِ رسول کی اطاعت میں جلد ی کرو گے تو یہ سعادت تمہیں نصیب ہوگی اور اگر تم نے سستی کی تو اللہ تعالیٰ دوسروں کو اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے شرفِ خدمت سے سرفراز فرمائے گا۔( تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۹، ۶ / ۴۸)

اللہ تعالیٰ کا دین ہمارا محتاج نہیں :

             اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ دین کی تبلیغ مسلمانوں کا منصب اور ذمہ داری ہے ۔ اگر کوئی یہ سعادت حاصل کرتا ہے تو یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی کرم نوازی ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کا دین ہمارا محتاج نہیں بلکہ ہم اس کے محتاج ہیں ، نیز اسلام کی اشاعت ہم پر مَوقوف نہیں کیونکہ ہم سے پہلے بھی دنیا میں اسلام تھا اور ہمارے بعد بھی رہے گا۔

اِلَّا تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّٰهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ هُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَاۚ-فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلَیْهِ وَ اَیَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَ جَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِیْنَ كَفَرُوا السُّفْلٰىؕ-وَ كَلِمَةُ اللّٰهِ هِیَ الْعُلْیَاؕ-وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ(40)

ترجمہ: اگر تم اس (نبی) کی مدد نہیں کرو گے تو اللہ ان کی مدد فرماچکا ہے جب کافروں نے انہیں (ان کے وطن سے) نکال دیا تھا جبکہ یہ دو میں سے دوسرے تھے، جب دونوں غار میں تھے، جب یہ اپنے ساتھی سے فرما رہے تھے غم نہ کرو، بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے تو اللہ نے اُس پر اپنی تسکین نازل فرمائی اور اُن لشکروں کے ساتھ اُس کی مدد فرمائی جو تم نے نہ دیکھے اور اُس نے کافروں کی بات کو نیچے کردیا اور اللہ کی بات ہی بلندو بالا ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِلَّا تَنْصُرُوْهُ:اگر تم اس (نبی) کی مدد نہیں کرو گے۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک اور انداز سے مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دی ہے کہ اگر تم میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مدد نہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائے گا کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان کی اس وقت بھی مدد فرمائی جبمکہ مکرمہ سے ہجرت کے وقت ان کے ساتھ صرف ایک شخص تھا تو یہاں بدرجہ اَولیٰ مدد فرمائے گا۔(تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۶ / ۴۹)

حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی فضیلت:

            اس آیتِ مبارکہ میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے عظیم توکل اور حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی فضیلت کا بیان ہے بلکہ یہ آیتِ مبارکہ کئی اعتبار سے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی عظمت و شان پر دلالت کرتی ہے۔

(1)…تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غارِ ثور میں اس لئے تشریف لے گئے کہ انہیں کفار کی طرف سے قتل کا اندیشہ تھا لہٰذا اگر رسولِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سچے، پکے اور صدیق مومن ہونے کا یقین نہ ہوتا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کسی طور پربھی انہیں اپنے ساتھ ہم رِکابی کا شرف عطا نہ فرماتے کیونکہ اس طرح جو اندیشہ کفار سے تھا وہ حضرت ابو بکر صدیق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے بھی ہو سکتا تھا۔ یہ کلام اُن جاہلوںکا جواب ہے جو اِس سفر کے حوالے سے بھی سیدنا صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ پر اعتراض کرتے ہیں۔

(2)…یہ ہجرت اللہ تعالیٰ کی اجازت سے تھی، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں مخلص صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی ایک پوری جماعت موجود تھی اور وہ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے مقابلے میں نسبی طور پر نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زیادہ قریب بھی تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہجرت کے وقت رسول اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صحبت میں رہنے کا شرف حضرت ابو بکر صدیق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے علاوہ اور کسی کو بھی عطا نہیں فرمایا، یہ تخصیص حضرت ابو بکر صدیق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے عظیم مرتبے اور بقیہ صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم پر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے۔

(3)… دیگر صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم حالات کی ناسازی کی وجہ سے ہجرت کر گئے جبکہ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے شدید خوف اور انتہائی خطرناک صورتِ حال کے باوجود بھی تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا قرب نہ چھوڑا بلکہ صبر و اِستقامت کے ساتھ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر رہے او ر رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں مصروف رہے۔

(4)…حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سفر و حضر میں رسولِ انورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر رہتے بلکہ اس کا اِلتزام فرماتے تھے، یہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سچے عشقِ رسول کی دلیل ہے۔

(5)… آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے غارِ ثور میں رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اُنسِیّت کا شرف پایا اور اپنی جان قربان کرنے کی سعادت پائی۔

(6)… اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ثانی فرمایا یعنی حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد جس کا سب سے پہلا نمبر ہے ۔اس کے علاوہ اور بھی کئی مقامات پر حضرت ابوبکر صدیق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ثانی (یعنی دوسرے نمبر پر )ہونے کا شرف پایا جن میں سے ایک یہ ہے کہ آپ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پہلو میں تدفین کی وجہ سے قیامت تک ثانِیّت سے مشرف ہیں۔

(7)… حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا صحابی ہونا خود اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ،یہ شرف آپ کے علاوہ اور کسی صحابی کو عطا نہ ہوا۔

(8)…اللہ تعالیٰ ان دونوں مقدس ہستیوں کے ساتھ تھا تو جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہو یہ اس کے دوسروں سے افضل ہونے کی دلیل ہے۔

(9)… اللہ تعالیٰ کا خصوصیت کے ساتھ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ پر سکینہ نازل فرمانا بھی ان کی فضیلت کی دلیل ہے۔(تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۶ / ۵۰، خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۲ / ۲۴۴، ملتقطاً)

 حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی تمنا:

          ایک مرتبہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سامنے خلیفۂ اول حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا تذکرہ ہوا تو آپ نے فرمایا ’’میری تمنا ہے کہ کاش ! میرے سارے اعمال حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے دنوں میں سے ایک دن اور راتوں میں سے ایک رات کے عمل کے برابر ہوتے ۔ان کی رات تو وہ کہ جس میں آپ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ غار کی طرف سفر کیا اور جب وہ دونوں غار تک پہنچے تو حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی’’یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! آپ سے پہلے میں غار میں جاؤں گا تاکہ اس میں کوئی تکلیف دِہ چیز ہو تو اس کی اَذِیَّت آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بجائے مجھے پہنچے ۔ جب حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ غار میں داخل ہوئے تو آپ نے اس میں سوراخ دیکھے، آپ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنی چادر کے ٹکڑے کر کے ان سوراخوں کو بند کیا، دو سوراخ باقی رہ گئے تو وہاں اپنے پاؤں رکھ دئیے، اس کے بعد تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کی’’یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اب تشریف لے آئیے۔ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غار میں تشریف لائے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت صدیق اکبررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی گود میں سرِ انور رکھ دیا اور آرام فرمانے لگے۔ اتنے میں سوراخ سے کسی چیز نے حضرت ابو بکر صدیق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاؤں پر ڈس لیا۔ آپ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس خوف سے حرکت نہ کی کہ کہیں رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نیند  سے بیدار نہ ہو جائیں لیکن تکلیف کی شدت سے نکلنے والے چند آنسو نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے رُوئے اقدس پر گر گئے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اے ابو بکر! کیا ہوا؟ عرض کی ! میرے ماں باپ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پہ فدا ہوں ، مجھے کسی چیز نے ڈس لیا ہے۔ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنا لعابِ دہن اس جگہ پر لگا دیا تو اسی وقت ساری تکلیف ختم ہو گئی، بعد میں یہی ڈنگ آپ  رَضِیَ  اللہُ تَعَالٰی عَنہُ  کی وفات کا سبب بنا۔ اور ان کا دن وہ کہ جب حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وصالِ ظاہری کے بعد عرب کے چند قبیلے مرتد ہوگئے اور زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’اگر انہوں نے زکوٰۃ کے مال کی ایک رسی بھی روکی تومیں ان کے خلاف جہاد کروں گا۔ میں نے عرض کی ’’اے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خلیفہ! لوگوں کے ساتھ اُلفت اور نرمی کا برتاؤکیجئے۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’وحی کا سلسلہ ختم ہو چکا اور اب دین مکمل ہو گیا ہے کیا وہ دین میں کمی کریں گے ؟حالانکہ میں ابھی زندہ ہوں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۲ / ۲۴۰)

     اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کیا خوب فرماتے ہیں :

صدیق بلکہ غار میں جان اس پہ دے چکے              اور حفظِ جاں تو جان فروضِ غرر کی ہے

{وَ اَیَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا:اور اُن لشکروں کے ساتھ اُس کی مدد فرمائی جو تم نے نہ دیکھے۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتے نازل فرما کر اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مدد فرمائی کہ فرشتوں نے کفار کے چہروں اور نگاہوں کو تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف دیکھنے سے پھیر دیا۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کے دلوں میں رُعب ڈال دیا یہاں تک کہ وہ واپس لوٹ گئے۔ تیسری تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں خبر دی ہے کہ جب رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غار میں تھے اور شدید خوف کا عالَم تھا اس وقت اللہ تعالیٰ نے ان سے دشمنوں کا مکر پھیر کر ان کی مدد فرمائی اور پھر میدانِ بدر میں فرشتوں کے ذریعے مدد فرمائی۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۲ / ۲۴۴)

{وَ جَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِیْنَ كَفَرُوا السُّفْلٰى:اور اُس نے کافروں کی بات کو نیچے کردیا۔} کافروں کی بات سے مراد شرک یا دعوت ِکفر ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بات سے مراد توحید یا دعوتِ اسلام ہے۔ اور ایک قول یہ ہے کہ کافروں کی بات سے مراد نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو شہید کرنے کی وہ سازش ہے جس میں کفار کامیاب نہ ہو سکے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بات سے مراد اللہ عَزَّوَجَلَّ کا وعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مددفرمائے گا۔ (بیضاوی، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۳ / ۱۴۶، بغوی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۲ / ۲۵۰، ملتقطاً)

اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا وَّ جَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(41)

ترجمہ: تم مشقت اور آسانی ہر حال میں کوچ کرو اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کرو۔ اگر تم جانو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا:تم مشقت اور آسانی ہر حال میں کوچ کرو۔} یعنی چاہے تم اس حالت میں ہو کہ جہاد کرنا تم پر آسان ہے یا اس حالت میں ہو کہ جہادکرنا تم پر بھاری ہے بہر حال کوچ کرو۔ مفسرین نے ’’خِفَافًا ‘‘ اور ’’ثِقَالًا ‘‘ کے بہت سے معنی بیان فرمائے ہیں۔ (1)تمہارے لئے نکلنے میں آسانی ہو یا مشقت۔ (2) اہل و عیال کم ہوں یا زیادہ۔ (3) اسلحہ کم ہو یا زیادہ۔ (4) سوار ہو کر نکلو یا پیدل۔ (5) جوان ہو یا بوڑھے۔ (6) طاقتور ہو یا کمزور۔ (7) بہادر ہو یا بزدل۔ (8) صحت مند ہو یا مریض۔ (9) خوشی سے نکلو یا ناخوشی سے۔ (10) مالدار ہو یا فقیر۔ (11) فارغ ہو یا کسی کام میں مصروف، خلاصہ یہ ہے کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب اور جن مسلمانوں کو جہاد کے لئے بلائیں تو انہیں جہاد میں جانا ضروری ہے چاہے وہ کسی بھی حال میں ہوں۔(تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۱، ۶ / ۵۵، خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۱، ۲ / ۲۴۴، ملتقطاً)

 حضرت ابو طلحہ انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا شوقِ جہاد:

          حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’حضرت ابو طلحہ انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک مرتبہ سورۂ توبہ کی تلاوت فرمائی ،جب اس آیت ’’اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا‘‘ پر پہنچے تو اپنے بیٹوں سے فرمایا ’’ میرے لئے جہاد کا سامان تیار کرو، میرے لئے جہاد کا سامان تیار کرو۔ ان کے بیٹوں نے عرض کی ’’اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے، آپ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ غزوات میں حاضر ہوتے رہے یہاں تک کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا وصالِ ظاہری ہو گیا، پھر حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ جنگوں میں شریک ہوئے یہاں تک کہ ان کی وفات ہو گئی،پھر حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ شریکِ جہاد رہے حتّٰی کہ ان کا بھی انتقال ہو گیا ، اب ہم آپ کی طرف سے جہاد میں شریک ہو جائیں گے۔ حضرت ابو طلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’ نہیں ، بس اب تم میرے سامانِ جہاد کی تیاری کرو ۔ اس کے بعد آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے سمند ری جہاد میں شرکت کی اور سمند رہی میں آپ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی وفات ہو گئی۔ سات دن بعد ان کے ساتھیوں کو تدفین کیلئے ایک جزیرہ ملا تو انہوں نے حضرت ابو طلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی تدفین کی۔ ان سات دنوں میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بدن مبارک سلامت ہی رہا اس میں ذرا سی بھی تبدیلی نہ ہوئی ۔ (تفسیر قرطبی، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۴۱، ۴ / ۶۶، الجزء الثامن)

{وَ جَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ: اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کرو۔} جہاد کی تین صورتیں ہیں ۔

(1)…جان اور مال دونوں کے ساتھ۔ یہ حکم اس کیلئے ہے کہ جو مال بھی رکھتا اور جہاد کے قابل تندرست و توانا جسم بھی رکھتا ہو۔

(2)…صرف جان کے ساتھ۔ یہ حکم اس کے لئے ہے جس کے پاس مال نہ ہو لیکن جسمانی طور پرجہاد کے قابل ہو۔

(3)…صرف مال کے ساتھ۔ یہ حکم اس کیلئے ہے کہ جو جسمانی کمزوری، معذوری یا بیماری وغیرہ کے باعث جہاد میں شریک نہ ہو سکتا ہو لیکن مجاہدین کی مالی مدد کرنے پر قدرت رکھتا ہو۔ (روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۱، ۳ / ۴۳۸، ملخصاً)

مجاہدین کی مالی مدد کرنے کے دو فضائل:

(1)…حضرت زید بن خالد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑنے والے کو سامان فراہم کرے تو گویا اس نے خود جہاد کیا اور جس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں لڑنے والے کے گھر بار کی نیک نیتی سے خبر گیری کی تو وہ بھی خود جہاد کرنے والوں کی طرح ہے۔ (بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب فضل من جہّز غازیاً۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۶۷، الحدیث: ۲۸۴۳)

(2)…حضرت عبداللہ بن عمرو  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ غازی (مجاہد) کے لیے اس کا ثواب ہے اور غازی کے مددگار کے لیے اپنا ثواب ہے اور غازی کا ثواب ۔ (ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب الرخصۃ فی اخذ الجعائل، ۳ / ۲۴، الحدیث: ۲۵۲۶)

لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِیْبًا وَّ سَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوْكَ وَ لٰكِنْۢ بَعُدَتْ عَلَیْهِمُ الشُّقَّةُؕ-وَ سَیَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْۚ-یُهْلِكُوْنَ اَنْفُسَهُمْۚ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ(42)

ترجمہ: اگر آسانی سے ملنے والا مال ہوتا اور درمیانہ سا سفر ہوتا تو وہ ضرور تمہارے پیچھے چلتے لیکن مشقت والا سفر ان پر بہت دور پڑگیا اور اب اللہ کی قسم کھائیں گے کہ ہمیں طاقت ہوتی تو ہم آپ کے ساتھ ضرور نکلتے ۔ یہ اپنے آپ کو ہلاک کررہے ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ یہ بیشک جھوٹے ہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِیْبًا:اگر آسانی سے ملنے والا مال ہوتا۔} یعنی تبوک کا میدان اگر قریب ہوتا اور غنیمت آرام سے مل جانے کی امید ہوتی تو یہ بہانے بنانے والے منافق ضرور ان مَنافع کے حصول کے لالچ میں جہاد میں شریک ہوجاتے لیکن دور کے سفر اور رومیوں سے جنگ کو عظیم جاننے کی وجہ سے یہ پیچھے رہ گئے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۲، ۲ / ۲۴۵)

آیت’’لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِیْبًا‘‘سے حاصل ہونے والی معلومات:

             اس سے معلوم ہوا کہ دین میں ضروری مشقت سے گھبرانا اور اگرچہ فرض و واجب ترک ہوجائے لیکن صرف آسان کام ہی اختیار کرنا منافقوں کی علامت ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ جہاد میں منافقین بھی جاتے تھے مگر اللہ عَزَّوَجَلَّ کیلئے نہیں بلکہ مالِ غنیمت کے لالچ میں جاتے تھے ۔نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اتباع وہ چاہیے جو قلبی محبت کے ساتھ ہو، دنیاوی لالچ یا سزا کے خوف سے تو منافق بھی اتباع کر لیتے تھے۔ اس لئے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا کہ: ’’قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘ (ال عمران:۳۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:تم فرمادو اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبردار بن جاؤ اللہ تم سے محبت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

            اللہ عَزَّوَجَلَّ یہ اتبا ع نصیب کرے۔آمین۔

{وَ سَیَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ:اوراب اللہ کی قسم کھائیں گے۔} یعنی یہ منافقین اب اللہ تعالیٰ کی قسم کھائیں گے اور اس طرح معذرت کریں گے کہ ہمیں طاقت ہوتی تو ہم آپ کے ساتھ ضرور نکلتے ۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۲، ۲ / ۲۴۵)منافقین کی اس معذرت سے پہلے خبر دے دینا غیبی خبرہے اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کی دلیل ہے چنانچہ جیسا فرمایا تھا ویسا ہی پیش آیا اور انہوں نے یہی معذرت کی اور جھوٹی قسمیں کھائیں۔

جھوٹی قسم کھانا ہلاکت کا سبب ہے:

           اس آیت کے اگلے حصے سے ثابت ہوا کہ جھوٹی قسمیں کھانا سببِ ہلاکت ہے۔ کثیر اَحادیث میں جھوٹی قسم کھانے کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے، ان میں سے دو اَحادیث درج ذیل ہیں :

(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تین شخص ایسے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان سے نہ کلام کرے گا اور نہ اُن کی طرف نظر فرمائے گا۔ ایک شخص وہ جس نے کسی بیچنے کی چیز کے متعلق یہ قسم کھائی کہ جو کچھ اس کے دام مل رہے ہیں اس سے زیادہ ملتے تھے۔ (لیکن نہیں بیچا) حالانکہ یہ اپنی قسم میں جھوٹا ہے ۔دوسرا وہ شخص کہ عصر کے بعد جھوٹی قسم کھائی تاکہ کسی مسلمان مرد کا مال لے لے اور تیسرا وہ شخص جس نے بچے ہوئے پانی کو روکا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا آج میں اپنا فضل تجھ سے روکتا ہوں جس طرح تونے بچے ہوئے پانی کو روکا جس کو تیرے ہاتھوں نے نہیں بنایا تھا۔( بخاری، کتاب المساقاۃ، باب من رأی انّ صاحب الحوض والقربۃ احقّ بمائہ، ۲ / ۱۰۰، الحدیث: ۲۳۶۹)

(2)…حضرت ابو ذررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’تین شخصوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کلام نہیں فرمائے گا اور نہ ان کی طرف نظر کرے گا اور نہ ان کو پاک کرے گا اور ان کے لیے تکلیف دِہ عذاب ہوگا۔ حضرت ابو ذررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی، وہ نقصان اور خسارہ اٹھانے والے ہیں ، یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،  وہ کون لوگ ہیں ؟ ارشاد فرمایا ’’کپڑا لٹکانے والا ،دے کر احسان جتانے والا اور جھوٹی قسم کے ساتھ اپنا سودا چلا دینے والا۔(مسلم، کتاب الایمان، باب بیان تحریم اسبال الازار والمنّ بالعطیۃ۔۔۔ الخ، ص۶۷، الحدیث: (۱۰۶))

عَفَا اللّٰهُ عَنْكَۚ-لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ تَعْلَمَ الْكٰذِبِیْنَ(43)

ترجمہ: اللہ تمہیں معاف کرے ،آپ نے انہیں اجازت کیوں دیدی؟ جب تک آپ کے سامنے سچے لوگ ظاہر نہ ہوجاتے اور آپ جھوٹوں کو نہ جان لیتے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ:اللہ تمہیں معاف کرے ۔} عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ سے کلام کی ابتداء کرنا اور خطاب شروع فرمانا مخاطب کی تعظیم وتَوقِیر میں مُبالغہ کے لئے ہے اور زبانِ عرب میں یہ عرف شائع ہے کہ مخاطب کی تعظیم کے موقع پر ایسے کلمے استعمال کئے جاتے ہیں۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۳، ۲ / ۲۴۶)

حضرت فقیہ ا بو لیث سمر قندی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ بعض علماء سے نقل کرتے ہیں کہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو عافیت سے رکھے آپ نے انہیں اجازت کیوں دی اور اگر نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کلام اس طرح شروع ہوتا کہ آپ نے ان کو اجازت کیوں دی تو اس کا اندیشہ تھا کہ اس کلام کی ہیبت سے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دل شَق ہو جاتا لیکن اللہ تعالیٰ نے ا پنی رحمت سے حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو پہلے ہی عَفْو کی خبر دے دی تاکہ آپ کا دل مطمئن اور پُرسکون رہے۔ اس کے بعد فرمایا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں جہاد میں شامل نہ ہونے کی اجازت کیوں دی حتّٰی کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو پتا چل جاتا کہ اپنے عذر میں کون سچا اور کون جھوٹا ہے۔(تفسیر سمرقندی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۳، ۲ / ۵۳)

لَا یَسْتَاْذِنُكَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ اَنْ یُّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالْمُتَّقِیْنَ(44)

ترجمہ: اور جو لوگ اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں وہ آپ سے اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کرنے سے بچنے کی چھٹی نہیں مانگیں گے اور اللہ پرہیزگا روں کوخوب جا نتا ہے ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ:اللہ اورقیامت پر ایمان رکھتے ہیں۔}مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اللہ(عَزَّوَجَلَّ) پر ایمان رکھنے میں رسولُ اللہ(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ)پر ایمان رکھنا بھی داخل ہے کیونکہ ایمان سے مراد ایمانِ صحیح ہے، وہ وہی ہے جو رسول کے ساتھ ہو ورنہ اللہ(عَزَّوَجَلَّ)کو منافق بھی مانتے تھے۔( نورالعرفان،التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۴، ص۳۰۹)

حضرت عمرو بن جموح رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا جذبۂ شہادت:

اس سے معلوم ہوا کہ جہاد کے موقع پر معذرتیں کرنا منافقت کی علامت تھی جبکہ کامل ایمان والے ہر کڑی آزمائش میں پورے اترتے ہیں اور جہاد جیسے سخت موقع پر بھی دل و جان اور مال کے ساتھ حاضر ہونے کو تیار رہتے ہیں۔ اس بارے میں ایک واقعہ تو چند آیات کے بعد آرہا ہے اور ایک واقعہ غزوۂ اُحد کے موقع پر جہاد کی رغبت کا بیان کیا جاتا ہے۔ حضرت عمرو بن جموح انصاری  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ لنگڑے تھے، یہ گھرسے نکلتے وقت یہ دعا مانگ کر چلے تھے کہ یااللہ! عَزَّوَجَلَّ، مجھے میدانِ جنگ سے اپنے اہل و عیال میں آنا نصیب نہ کرنا، ان کے چار بیٹے بھی جہاد میں مصروف تھے۔ لوگوں نے ان کو لنگڑا ہونے کی بنا پر جنگ کرنے سے روک دیا تو یہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں گڑ گڑا کر عرض کرنے لگے کہ یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مجھے جنگ میں لڑنے کی اجازت عطا فرمائیے، میری تمنا ہے کہ میں بھی لنگڑاتا ہوا باغِ بہشت میں خراماں خراماں چلا جاؤں۔ ان کی بے قراری اور گریہ و زاری سے رحمتِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا قلبِ مبارک متأثِّرہو گیا اور آپ نے ان کو جنگ کی اجازت دے دی۔ یہ خوشی سے اچھل پڑے اور اپنے ایک فرزند کو ساتھ لے کر کافروں کے ہجوم میں گھس گئے۔ حضرت ابو طلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عمرو بن جموح رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو دیکھا کہ وہ میدانِ جنگ میں یہ کہتے ہوئے چل رہے تھے کہ’’خدا کی قسم! میں جنت کا مشتاق ہوں۔ ان کے ساتھ ساتھ ان کو سہارا دیتے ہوئے ان کا بیٹا بھی انتہائی شجاعت کے ساتھ لڑ رہا تھا یہاں تک کہ یہ دونوں شہادت سے سرفراز ہو کر باغِ بہشت میں پہنچ گئے۔ لڑائی ختم ہو جانے کے بعد حضرت عمر و بن جموح  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی زوجہ محترمہ میدانِ جنگ میں پہنچیں اور ایک اونٹ پر ان کی اور اپنے بھائی اور بیٹے کی لاش رکھ کر دفن کے لئے مدینہ منورہ لانی چاہی تو ہزاروں کوششوں کے باوجود کسی طرح بھی وہ اونٹ ایک قدم بھی مدینہ کی طرف نہیں چلا بلکہ وہ میدانِ جنگ ہی کی طرف بھاگ بھاگ کر جاتا رہا۔ ہند نے جب حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے یہ ماجرا عرض کیا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ ’’یہ بتاؤ! کیا عمرو بن جموح رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے گھر سے نکلتے وقت کچھ کہا تھا؟ ہند نے کہا کہ جی ہاں !وہ یہ دعا کرکے گھر سے نکلے تھے کہ ’’یا اللہ!عَزَّوَجَلَّ، مجھے میدانِ جنگ سے اہل و عیال میں آنا نصیب نہ کرنا۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ یہی وجہ ہے کہ اونٹ مدینہ کی طرف نہیں چل رہا ہے۔(مدارج النبوہ، قسم سوم، باب سوم ذکر سال سوم از ہجرت۔۔۔ الخ، ۲ / ۱۲۴)

اِنَّمَا یَسْتَاْذِنُكَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ ارْتَابَتْ قُلُوْبُهُمْ فَهُمْ فِیْ رَیْبِهِمْ یَتَرَدَّدُوْنَ(45)

ترجمہ: آپ سے چھٹی وہی لوگ مانگتے ہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتے اور ان کے دل شک میں پڑے ہوئے ہیں تو وہ اپنے شک میں حیران، پریشان ہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّمَا یَسْتَاْذِنُكَ:آپ سے چھٹی وہی لوگ مانگتے ہیں۔}یعنی جہاد کے موقعہ پر بہانہ بنا کر رہ جانے کی اجازت مانگنا منافقین کی علامت ہے۔ (روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۵، ۳ / ۴۴۲)

نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان نہ لانا اللہ تعالیٰ کا انکار ہے:

             اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان نہ لانا درحقیقت رب تعالیٰ کا انکار ہے کیونکہ منافق اللہ عَزَّوَجَلَّ کو تو مانتے تھے، حضور ِانور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے منکر تھے مگر ارشاد ہوا کہ وہ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے۔

{وَ ارْتَابَتْ قُلُوْبُهُمْ:اور ان کے دل شک میں پڑے ہوئے ہیں۔} اس طرح کہ اسلام کی حقانیت اور کفر کے بطلان پر انہیں یقین نہیں اور نہ اس کے عکس کا یقین ہے۔ اگر مسلمانوں کو فتح ہوئی تو بولے کہ شاید اسلام برحق ہے اور اگر کفار کو فتح ہو گئی تو بولے کہ شاید یہ لو گ بر حق ہیں ورنہ انہیں فتح کیوں ہوتی۔ یا یہ مطلب ہے کہ انہیں اللہ رسول کے وعدوں پر یقین نہیں اور رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خبروں پر اطمینان نہیں۔ ایمان تو نام ہی اس چیز کا ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ہر خبر میں ان کی تصدیق کی جائے۔ تردد تصدیق کے ساتھ کیسے جمع ہوسکتا ہے۔

وَ لَوْ اَرَادُوا الْخُرُوْجَ لَاَعَدُّوْا لَهٗ عُدَّةً وَّ لٰـكِنْ كَرِهَ اللّٰهُ انْۢبِعَاثَهُمْ فَثَبَّطَهُمْ وَ قِیْلَ اقْعُدُوْا مَعَ الْقٰعِدِیْنَ(46)

ترجمہ: اور اگر ان کا نکلنے کا ارادہ ہوتا تو اس کے لئے کچھ تو سامان تیار کرتے لیکن اللہ کو ان کا اٹھنا ہی ناپسند ہے تو اس نے ان میں سستی پیدا کردی اور کہہ دیا گیا: تم بیٹھے رہنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَوْ اَرَادُوا الْخُرُوْجَ:اور اگر ان کا نکلنے کا ارادہ ہوتا۔} یعنی منافق ظاہر تو یہ کرتے ہیں کہ ہم غزوۂ تبوک میں جانے کو تیار تھے لیکن اچانک بیماری، لاچاری یا کسی مجبوری کی وجہ سے رک گئے ۔یہ جھوٹے ہیں کیونکہ انہوں نے سفرِ جہاد کی پہلے سے کوئی تیاری ہی نہیں کی، اگر ان کا جہاد میں جانے کا ارادہ ہوتا تو کچھ تیاری تو کرتے۔

بہت سی چیزوں کا اعتبار قَرائن سے بھی ہوتا ہے:

            اللہ عَزَّوَجَلَّ کا علم تو یقینا قطعی ہے لیکن ہمارے لئے اس میں ایک نکتہ ہے کہ بہت سی چیزوں کا اعتبار قرائن سے بھی کیا جاتا ہے جیسے یہاں منافقین کا جہاد کیلئے کوئی تیاری نہ کرنا اس بات کا قرینہ ہے کہ انہوں نے جہاد کا ارادہ ہی نہیں کیا تھا۔

{وَ قِیْلَ اقْعُدُوْا مَعَ الْقٰعِدِیْنَ:اور کہہ دیا گیا: تم بیٹھے رہنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو۔} اس کا معنی یہ ہے کہ جب منافقین نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جہاد میں شریک نہ ہونے کی اجازت طلب کی تو ان سے کہہ دیا گیا کہ تم بیٹھے رہنے والوں یعنی عورتوں ،بچوں ، مریضوں اور معذوروں کے ساتھ بیٹھے رہو۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۶، ۲ / ۲۴۷)

لَوْ خَرَجُوْا فِیْكُمْ مَّا زَادُوْكُمْ اِلَّا خَبَالًا وَّ لَاۡاَوْضَعُوْا خِلٰـلَـكُمْ یَبْغُوْنَكُمُ الْفِتْنَةَۚ-وَ فِیْكُمْ سَمّٰعُوْنَ لَهُمْؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالظّٰلِمِیْنَ(47)

ترجمہ: اگر وہ تمہارے ساتھ نکلتے تو یہ تمہارے نقصان میں اضافہ ہی کرتے اور تمہارے درمیان فتنہ انگیزی کرنے کے لئے دوڑتے پھرتے اور تمہارے اندر ان کے جاسوس موجود ہیں اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَوْ خَرَجُوْا فِیْكُمْ مَّا زَادُوْكُمْ اِلَّا خَبَالًا:اگر وہ تمہارے ساتھ نکلتے تو یہ تمہارے نقصان میں اضافہ ہی کرتے۔} یعنی یہ منافقین اگر تمہارے ساتھ جنگ کے لئے نکلتے تو شر اور فساد ہی پھیلا تے اس طرح کہ تمہیں کافروں سے ڈراتے، آپس میں لڑاتے، تمہارے سامنے کافروں کی تعریفیں اور مسلمانوں کی برائیاں کرتے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۷، ۲ / ۲۴۷)

مسلمانوں کو کافروں سے ڈرانا منافقوں کا کام ہے:

         اس سے معلوم ہوا کہ منافق ظاہری نیکی بھی کئی مرتبہ بری نیت سے کرتا ہے نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو کافروں سے ڈرانا اور آپس میں لڑانا منافقوں کا کام ہے۔ ہمارے دور میں بھی ایسے قَلمکار حضرات کی کمی نہیں جو ہر وقت غیر مسلم حکومتوں کی طاقت، اسلحہ، فوج اور وسائل کا تذکرہ کرکے مسلمانوں کو ڈرانے میں لگے رہتے ہیں۔

{وَ فِیْكُمْ سَمّٰعُوْنَ لَهُمْ:اور تمہارے اندر ان کے جاسوس موجود ہیں۔} اس آیت کاایک معنی یہ ہے کہ تمہارے اندر ان کے جاسوس موجود ہیں جوتمہاری باتیں اور تمہارے راز کفار تک پہنچا تے ہیں اور ایک معنی یہ ہے کہ تم میں سے بعض ایسے ضعیف الاعتقاد ہیں کہ جب منافقین مختلف قسم کے شُبہات ظاہر کرتے ہیں تو وہ انہیں قبول کر لیتے ہیں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۷، ۲ / ۲۴۷)

کفار مسلمانوں پر کس طرح غالب ہوئے :

         مسلمانوں کی تاریخ سے واقف شخص پر یہ بات پوشیدہ نہیں کہ ابتداءِاسلام سے لے کر آج تک کفار کسی میدان میں بھی اپنی عددی برتری اور اپنے وقت کے جدید ترین ہتھیاروں کی فراوانی کے بل بوتے پر مسلمانوں پر غالب نہیں آئے بلکہ وہ ظاہری طور پرمسلمان اور باطنی طور پر منافق حضرات کی کوششوں اور کاوشوں کی بدولت مسلمانوں پر غالب ہوئے، ان حضرات نے مال و دولت اور سلطنت و حکومت کے لالچ میں اپنے اسلامی لبادے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کفار کے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے راہیں ہموار کیں ، اپنے منافقانہ طرزِ عمل سے مسلمانوں میں سرکشی و بغاوت کا بیج بویا، مسلمانوں کے اہم ترین راز کفار تک پہنچائے اور انہیں مسلمانوں کی کمزوریوں سے آگاہ کیا اور ان کی محنتوں کا نتیجہ آج سب کھلی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔

لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ وَ قَلَّبُوْا لَكَ الْاُمُوْرَ حَتّٰى جَآءَ الْحَقُّ وَ ظَهَرَ اَمْرُ اللّٰهِ وَ هُمْ كٰرِهُوْنَ(48)

ترجمہ: بیشک انہوں نے پہلے ہی فتنہ و فساد چاہا تھا اور اے حبیب! انہوں نے پہلے بھی تمہارے لئے الٹی تدبیریں کی ہیں حتّٰی کہ حق آگیا اور اللہ کا دین غالب ہوگیا اگرچہ یہ ناپسند کرنے والے تھے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ:بیشک انہوں نے پہلے ہی فتنہ و فساد چاہا تھا۔} منافقین کے جنگ میں شریک نہ ہونے پراہلِ ایمان اور اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ منافقین غزوۂ تبوک سے پہلے ہی آپ کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو دین سے روکنے، کفر کی طرف لوٹا دینے اور لوگوں کوآپ کا مخالف بنانے کی کوشش کرتے رہے ہیں جیسا کہ عبداللہ بن اُبی سلول منافق نے جنگِ اُحد کے دن کیا کہ مسلمانوں میں اِنتشار پھیلانے کیلئے اپنے گروہ کو لے کر واپس ہوگیا۔ اور اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، انہوں نے پہلے بھی آپ کے لئے الٹی تدبیریں کی ہیں اور انہوں نے آپ کا کام بگاڑنے اور دین میں فساد ڈالنے کے لئے بہت حیلے سازیاں کی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کی طرف سے تائید و نصرت  آگئی اور اللہ تعالیٰ کا دین غالب ہوگیا اگرچہ یہ لوگ اسے ناپسند کرنے والے تھے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۸، ۲ / ۲۴۷-۲۴۸)

وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ ائْذَنْ لِّیْ وَ لَا تَفْتِنِّیْؕ-اَلَا فِی الْفِتْنَةِ سَقَطُوْاؕ-وَ اِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِیْطَةٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ(49)

ترجمہ: اور ان میں کوئی آپ سے یوں کہتا ہے کہ مجھے رخصت دیدیں اور مجھے فتنے میں نہ ڈالیں ۔ سن لو! یہ فتنے ہی میں پڑے ہوئے ہیں اور بیشک جہنم کافروں کو گھیرے ہوئے ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ:اور ان میں کوئی یوں کہتا ہے۔} شانِ نزول: یہ آیت جد بن قیس منافق کے بارے میں نازل ہوئی، جب نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے غزوئہ تبوک کے لئے تیاری فرمائی تو جد بن قیس نے کہا :’’یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میری قوم جانتی ہے کہ میں عورتوں کا بڑا شیدائی ہوں ، مجھے اندیشہ ہے کہ میں رومی عورتوں کو دیکھوں گا تو مجھ سے صبر نہ ہوسکے گا اس لئے آپ مجھے یہیں ٹھہر جانے کی اجازت دیجئے اور ان عورتوں کے فتنہ میں نہ ڈالئے ، میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اپنے مال سے مدد کروں گا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ یہ اس کا حیلہ تھا اور اس میں سوائے نفاق کے اور کوئی سبب نہ تھا۔ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا اور اسے اجازت دے دی اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۹، ۲ / ۲۴۸)

{اَلَا فِی الْفِتْنَةِ سَقَطُوْا:سن لو! یہ فتنے ہی میں پڑے ہوئے ہیں۔} اس کا معنی یہ ہے کہ منافقین فتنے میں پڑ جانے کے اندیشے کی وجہ سے جہاد سے اعراض کر رہے ہیں جیسا کہ اوپر ایک منافق کا قول گزرا ہے تو فرمایا گیا کہ یہ تواِس موجودہ وقت میں بھی فتنے میں ہی مبتلا ہیں کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ کفر کرنا اور تکلیف قبول کرنے سے اِعراض کرنا تو سب سے بڑا فتنہ ہے۔ اور اس کے ساتھ اس فتنے میں بھی مبتلا ہیں کہ منافقین مسلمانوں کی مخالفت پر قائم ہیں۔ (تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۹، ۶ / ۶۵)

اِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْۚ-وَ اِنْ تُصِبْكَ مُصِیْبَةٌ یَّقُوْلُوْا قَدْ اَخَذْنَاۤ اَمْرَنَا مِنْ قَبْلُ وَ یَتَوَلَّوْا وَّ هُمْ فَرِحُوْنَ(50)

ترجمہ: 

اگر تمہیں بھلائی پہنچتی ہے تو انہیں برالگتا ہے اور اگر تمہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں : ہم نے پہلے ہی اپنا احتیاطی معاملہ اختیار کرلیا تھا اور خوشیاں مناتے ہوئے لوٹ جاتے ہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ:اگر تمہیں بھلائی پہنچتی ہے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر تمہیں بھلائی پہنچے اور تم دشمن پر فتح یاب ہوجاؤ اور غنیمت تمہارے ہاتھ آئے تو منافقین غمزدہ ہو جاتے ہیں اور اگر تمہیں کوئی مصیبت پہنچے اور کسی طرح کی شدت کا سامنا ہو تو منافقین یہ کہتے ہیں کہ ہم نے چالاکی کے ذریعے جہاد میں نہ جاکر  اس مصیبت سے خود کو بچالیا تو گویا ہم نے پہلے ہی اپنا احتیاطی معاملہ اختیار کرلیا تھا پھر مزید ا س بات پر وہ خوشیاں مناتے ہیں کہ ہم جہاد کی مشقت و مصیبت سے محفوظ رہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۰، ۲ / ۲۴۸)

آیت’’ اِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات

            اس آیت سے اشارۃً معلوم ہوا کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مصیبت پر خوش ہونا کافروں کا کام ہے، اسی طرح مسلمانوں کی خوشی پر غم کرنا منافقوں کی نشانی ہے۔

قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَنَاۤ اِلَّا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَنَاۚ-هُوَ مَوْلٰىنَاۚ-وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ(51)

ترجمہ: تم فرماؤ: ہمیں وہی پہنچے گا جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دیا، وہ ہمارا مددگار ہے اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَنَاۤ اِلَّا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَنَا:تم فرماؤ: ہمیں وہی پہنچے گا جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دیا۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان لوگوں سے فرما دیں جو آپ کو مصیبت و تکلیف پہنچنے پر خوش ہوتے ہیں کہ ہمیں وہی پہنچے گا جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے اور ہم پر مقدر فرما دیا اور ا س نے اسے لوحِ محفوظ میں لکھ دیا کیونکہ قیامت تک ہونے والا ہر اچھا برا کام لکھ کر قلم خشک ہو چکا تو اب کوئی شخص ا س بات پر قادر نہیں کہ وہ اپنی جان سے ا س مصیبت کو دور کر دے جو اس پر نازل ہونی ہے اور نہ ہی کوئی ا س بات پر قادر ہے کہ وہ خود کوایسا فائدہ پہنچا سکے جو اس کے مقدر میں نہیں اور بے شک اللہ تعالیٰ ہی ہمارا حافظ و ناصر ہے اور وہ ہماری زندگی اور موت ہر حال میں ہماری جانوں سے زیادہ ہمارے قریب ہے اور مسلمانوں کو اپنے تمام اُمور میں اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۱، ۲ / ۲۴۸)

تقدیر سے متعلق اَحادیث و آثار

یہاں تقدیر کا مسئلہ بیان ہوا اس مناسبت سے ہم یہاں تقدیر سے متعلق دو احادیث اور دو آثار ذکر کرتے ہیں ، چنانچہ

حضرت زید بن ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اگر اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کے تمام باشندوں کو عذاب دینا چاہے تو وہ انہیں عذاب دے سکتا ہے اور یہ ا س کا کوئی ظلم نہ ہو گا (کیونکہ وہ سب کا مالک ہے اور مالک کو اپنی ملکیت میں تَصَرُّف کا حق حاصل ہے) اگر وہ ان پر رحم کرے تو اس کی رحمت ان کے اعمال سے بہتر ہو گی، اگر تم اُحد پہاڑ کے برابر سونا یا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو تو وہ ا س وقت تک ہر گز قبول نہ ہوگا جب تک تقدیر پر ایمان نہ لے آؤ، دیکھو! جو بات تم پر آنے والی ہے وہ جا نہیں سکتی اور جو نہیں آنے والی وہ آ نہیں سکتی، اگر اس کے خلاف عقیدہ رکھتے ہوئے تمہیں موت آ گئی تو سمجھ لو کہ جہنم میں جاؤ گے۔ (ابن ماجہ، کتاب السنّۃ، باب فی القدر، ۱ / ۵۹، الحدیث: ۷۷)

حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرورِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ہر چیز کی ایک حقیقت ہے اور بندہ اپنے ایمان کی حقیقت تک اس وقت پہنچے گا جب وہ اس بات پر یقین کرلے کہ جو مصیبت اسے پہنچی وہ ا س سے ٹلنے والی نہ تھی اور جو مصیبت اس سے ٹل گئی وہ اسے پہنچنے والی نہ تھی۔ (مسند امام احمد، مسند القبائل، ومن حدیث ابی الدرداء عویمر رضی اللہ عنہ، ۱۰ / ۴۱۷، الحدیث: ۲۷۵۶۰)

حضرت مسلم بن یسار رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’تقدیر اور اس کے بارے میں کلام کرنا یہ دو ایسی وسیع وادیاں ہیں کہ لوگ ان میں ہلاک تو ہو سکتے ہیں لیکن ان کی انتہا تک نہیں پہنچ سکتے لہٰذا تم اس شخص کی طرح عمل کرو جسے یہ معلوم ہو کہ اس کا عمل ہی اسے نجات دے گا اور اس شخص کی طرح توکل کرو جسے یہ علم ہو کہ اسے وہی پہنچے گا جو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اس کے لئے لکھ دیا ہے۔(تفسیر ابن ابی حاتم، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۱، ۶ / ۱۸۱۱-۱۸۱۲)

حضرت مطرف رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ کسی شخص کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ چھت پہ چڑھ کے خود کو گرا دے اور کہنے لگے کہ میری تقدیر میں ہی یوں لکھا تھا بلکہ ہمیں ڈر اور خوف ہونا چاہئے اور جب کوئی مصیبت پہنچ جائے تو یہ ذہن بنانا چاہئے کہ ہمیں وہی پہنچے گا جو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ہمارے لیے لکھ دیا۔ (در منثور، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۱، ۴ / ۲۱۶)

تقدیر کے بارے میں بحث کرنے سے بچیں 

یاد رہے کہ تقدیر کا مسئلہ انتہائی نازک ہے اور اس مسئلے میں الجھا کر شیطان لوگوں کا ایمان برباد کرنے کی کوشش کرتا ہے لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ تقدیر کے بارے میں بحث اور غورو فکر کرنے سے بچے ۔ صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’قضا و قدر کے مسائل عام عقلوں میں نہیں آ سکتے اور ان میں زیادہ غورو فکر کرنا ہلاکت کا سبب ہے، صدیق و فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاا س مسئلہ میں بحث کرنے سے منع فرمائے گئے تو ہم اور آپ کس گنتی میں۔۔۔! اتنا سمجھ لیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدمی کو پتھر اور دیگر جمادات کی طرح بے حس و حرکت پیدا نہیں کیا بلکہ اسے ایک طرح کا اختیار دیا ہے کہ ایک کام چاہے کرے چاہے نہ کرے اور ا س کے ساتھ عقل بھی دی ہے کہ بھلے، برے، نفع، نقصان کو پہچان سکے اور ہر قسم کے سامان اور اَسباب مہیا کر دئیے ہیں کہ بندہ جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو اسے اسی قسم کے سامان مہیا ہو جاتے ہیں اور اسی بنا پر اس پر مُؤاخذہ ہے۔ اپنے آپ کو بالکل مجبور یا بالکل مختار سمجھنا دونوں گمراہی ہے۔ (بہار شریعت، حصہ اول، عقائد متعلقۂ ذات وصفات، ۱ / ۱۸-۱۹، ملخصاً)

{وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ:اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔} اس آیت میں یہ اشارہ ہے کہ منافقین دنیوی اسباب ،جلد ملنے والی اور فانی لذتوں پر بھروسہ کرتے ہیں ا س لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ پر ہی بھروسہ کریں اور اس کی رضا پر راضی رہیں۔

اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنے کی فضیلت:

انسان کی زندگی نشیب و فراز کا نام ہے، کبھی دکھ کبھی سکھ، کبھی رنج و غم اور کبھی راحت و آرام، کبھی عیش و عشرت سے بھرپور لمحات اور کبھی مصائب و آلام سے معمور گھڑیاں الغرض طرح طرح کے حالات کا سامنا ہر فرد ِبشر کو اپنی زندگی میں کرنا پڑتا ہے، دینِ اسلام کا پیروکار ہونے کے ناطے ہر مسلمان کو چاہئے کہ غمی خوشی ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی اور صابر و شاکر رہے، ترغیب کے لئے اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنے کی عظمت و فضیلت پر مشتمل چند آیات اور روایات یہاں ذکر کی جاتی ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ الَّذِیْنَ صَبَرُوا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً وَّ یَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِۙ(۲۲) جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَهَا وَ مَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَآىٕهِمْ وَ اَزْوَاجِهِمْ وَ ذُرِّیّٰتِهِمْ وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْهِمْ مِّنْ كُلِّ بَابٍۚ(۲۳) سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ‘‘(الرعد:۲۲-۲۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جنہوں نے اپنے رب کی رضا کی طلب میں صبر کیا اور نماز قائم رکھی اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے ہماری راہ میں پوشیدہ اور اعلانیہ خرچ کیا اور برائی کو بھلائی کے ساتھ ٹالتے ہیں انہیں کے لئے آخرت کا اچھا انجام ہے۔ وہ ہمیشہ رہنے کے باغات ہیں ان میں وہ لوگ داخل ہوں گے اور ان کے باپ دادا اور بیویوں اور اولاد میں سے جو صالحین ہوں گے (وہ بھی جنت میں داخل ہوں گے) اور ہر دروازے سے فرشتے ان کے پاس (یہ کہتے ہوئے) آئیں گے۔تم پر سلامتی ہو کیونکہ تم نے صبر کیا تو آخرت کا اچھا انجام کیا ہی خوب ہے۔

حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ بے شک زیادہ اجر سخت آزمائش پر ہی ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو انہیں آزمائش میں مبتلا کردیتا ہے تو جو اس کی قضا پر راضی ہو اس کے لئے رضا ہے اور جوناراض ہو اس کے لئے ناراضی ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب الصبر علی البلائ، ۴ / ۳۷۴، الحدیث: ۴۰۳۱)

حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جس کے مال یا جان میں مصیبت آئی پھر اس نے اسے پوشیدہ رکھا اور لوگوں پر ظاہر نہ کیا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر حق ہے کہ اس کی مغفرت فرما دے ۔ (معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ احمد، ۱ / ۲۱۴، الحدیث: ۷۳۷)

حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی اکرم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ قیامت کے دن جب مصیبت زدہ لوگوں کو ثواب دیا جائے گا تو اس وقت دنیا میں عافیت کے ساتھ رہنے والے تمنا کریں گے کہ’’ کاش! (دنیا میں ) ان کے جسموں کوقینچیوں سے کاٹ دیا جاتا۔ (ترمذی، کتاب الزہد، ۵۹-باب، ۴ / ۱۸۰، الحدیث: ۲۴۱۰)

روئے زمین کا سب سے بڑ اعبادت گزار:

حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام سے فرمایا، میں روئے زمین کے سب سے بڑے عابد (یعنی عبادت گزار) کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ایک ایسے شخص کے پاس لے گئے جس کے ہاتھ پائوں جذام کی وجہ سے گل کٹ کر جدا ہو چکے تھے اور وہ زبان سے کہہ رہا تھا، ’’یا اللہ! عَزَّوَجَلَّ، تو نے جب تک چاہا ان اَعضاء سے مجھے فائدہ بخشا اور جب چاہا لے لیا اور میری امید صرف اپنی ذات میں باقی رکھی، اے میرے پیدا کرنے والے! میرا تو مقصود بس توہی تو ہے۔ حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا، اے جبرئیل! میں نے آپ کونمازی روزہ دار (قسم کا کوئی) شخص دکھانے کاکہا تھا۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام نے جواب دیا، اس مصیبت میں مبتلا ہونے سے قبل یہ ایسا ہی تھا، اب مجھے یہ حکم ملا ہے کہ اس کی آنکھیں بھی لے لوں۔ چنانچہ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام نے اشارہ کیا اوراس کی آنکھیں نکل پڑیں ! مگر عابد نے زبان سے وہی بات کہی ’’یا اللہ! عَزَّوَجَلَّ ،جب تک تو نے چاہا ان آنکھوں سے مجھے فائدہ بخشا اور جب چاہا انہیں واپس لے لیا۔ اے خالق! عَزَّوَجَلَّ ،میری امید گاہ صرف اپنی ذات کو رکھا، میرا تومقصود بس توہی توہے۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام نے عابد سے فرمایا، آئو ہم تم باہم ملکر دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ تم کو پھر آنکھیں اور ہاتھ پائوں لوٹا دے اور تم پہلے ہی کی طرح عبادت کرنے لگو۔ عابد نے کہا، ہرگز نہیں۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلام نے فرمایا ، آخر کیوں نہیں ؟ عابد نے جواب دیا ’’ جب میرے رب عَزَّوَجَلَّ کی رضا اسی میں ہے تو مجھے صحت نہیں چاہئے ۔ حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا، واقعی میں نے کسی اور کو اس سے بڑھ کر عابد نہیں دیکھا۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام نے کہا، یہ وہ راستہ ہے کہ رضا ئے الٰہی عَزَّوَجَلَّ تک رسائی کیلئے اس سے بہتر کوئی راہ نہیں۔( روض الریاحین، الحکایۃ السادسۃ والثلاثون بعد الثلاث مائۃ، ص۲۸۱)

قُلْ هَلْ تَرَبَّصُوْنَ بِنَاۤ اِلَّاۤ اِحْدَى الْحُسْنَیَیْنِؕ-وَ نَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِكُمْ اَنْ یُّصِیْبَكُمُ اللّٰهُ بِعَذَابٍ مِّنْ عِنْدِهٖۤ اَوْ بِاَیْدِیْنَا ﳲ فَتَرَبَّصُوْۤا اِنَّا مَعَكُمْ مُّتَرَبِّصُوْنَ(52)

ترجمہ: تم فرماؤ، تم ہمارے اوپر دو اچھی خوبیوں میں سے ایک کا انتظار کررہے ہو اور ہم تم پر انتظار کررہے ہیں کہ اللہ تمہیں اپنی طرف سے یا ہمارے ہاتھوں سے عذاب دے توتم انتظار کرو اور ہم (بھی) منتظر ہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِحْدَى الْحُسْنَیَیْنِ:دو اچھی خوبیوں میں سے ایک کا۔} اس آیت میں مسلمانوں کو پہنچنے والی مصیبتوں پر منافقوں کو ہونے والی خوشی کا ایک اور جواب دیا گیا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان منافقوں سے فرما دیں کہ اے منافقو! تم ہمارے اوپر دو اچھی خوبیوں میں سے ایک کا انتظار کررہے ہو کہ ہمیں یا تو فتح و غنیمت ملے گی یا شہادت و مغفرت کیونکہ مسلمان جب جہاد میں جاتا ہے تو وہ اگر غالب ہو جب تو فتح و غنیمت او راجرِ عظیم پاتا ہے اور اگر راہِ خدا میں مارا جائے تو اس کو شہادت حاصل ہوتی ہے جو اس کی اعلیٰ مراد ہے اور ہم تم پر دو برائیوں میں سے ایک کا انتظار کررہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سابقہ اُمتوں کی طرح تمہیں بھی اپنی طرف سے عذاب دے کر ہلاک کر دے یا ہمیں تم پر کامیابی و غلبہ عطا کر کے ہمارے ہاتھوں سے تمہیں عذاب دے اور جب یہ بات ہے توتم ہمارے انجام کا انتظار کرو اور ہم بھی تمہارے انجام کے منتظر ہیں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۲، ۲ / ۲۴۸، روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۲، ۳ / ۴۴۷، ملتقطاً)

راہِ خدا میں جہاد کرنے والے کے فضائل

            اَحادیث میں راہِ خدا میں جہاد کرنے والے مسلمان کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں ،ان میں سے دو احادیث درج ذیل ہیں :

(1)…حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ذمہ لیا ہے کہ جو میری راہ میں نکلے اور مجھ پر ایمان یا میرے رسولوں کی تصدیق ہی وہ سبب ہے جس نے اسے گھر سے نکالا ہو تو میں اسے غنیمت کے ساتھ واپس بھیجوں گا یا جنت میں داخل کر دوں گا۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب الجہاد من الایمان، ۱ / ۲۵، الحدیث: ۳۶)

(2)…حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جو شخص اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں نکلے اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کا ضامن ہو جاتا ہے۔ (اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ) جو شخص میرے راستے میں جہاد کے لئے اور صرف مجھ پر ایمان اور میرے رسولوں کی تصدیق کی وجہ سے نکلتا ہو تو میں اس بات کا ضامن ہوں کہ (اگر وہ شہید ہوگیا تو) اس کو جنت میں داخل کروں گا یا اس کو اجر اور غنیمت کے ساتھ اس کے گھر لوٹاؤں گا۔( مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الجہاد والخروج فی سبیل اللہ، ص۱۰۴۲، الحدیث: ۱۰۳(۱۸۷۶))

قُلْ اَنْفِقُوْا طَوْعًا اَوْ كَرْهًا لَّنْ یُّتَقَبَّلَ مِنْكُمْؕ-اِنَّكُمْ كُنْتُمْ قَوْمًا فٰسِقِیْنَ(53)

ترجمہ: تم فرماؤ کہ تم خوشدلی سے خرچ کرو یا ناگواری سے (بہرصورت) تم سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔ بیشک تم نافرمان قوم ہو۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قُلْ:تم فرماؤ۔}شانِ نزول: یہ آیت جد بن قیس منافق کے جواب میں نازل ہوئی جس نے جہاد میں نہ جانے کی اجازت طلب کرنے کے ساتھ یہ کہا تھا کہ میں اپنے مال سے مدد کروں گا، اس پر اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی نے اپنے حبیب سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا کہ اس منافق اور اس جیسے دوسرے منافقین سے فرما دیں : تم خوشی سے دو یا ناخوشی سے ،تمہارا مال قبول نہ کیا جائے گا ، یعنی رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کو نہ لیں گے کیونکہ یہ دینا اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے نہیں ہے۔ یہ آیت اگرچہ خاص منافقوں کے بارے میں ہے لیکن اس کا حکم عام ہے چنانچہ ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی نیت سے خرچ نہ کرے بلکہ ریا کاری اور نام و نمود کی وجہ سے خرچ کرے تو وہ قبول نہ کیا جائے گا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۳، ۲ / ۲۴۹)

دکھاوے کے لئے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے مال خرچ کرنے والے کی مثال

             لوگوں کو دکھانے کے لئے مال خرچ کرنے والے کی مثال بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰىۙ-كَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَالَهٗ رِئَآءَ النَّاسِ وَ لَا یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِؕ-فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْهِ تُرَابٌ فَاَصَابَهٗ وَابِلٌ فَتَرَكَهٗ صَلْدًاؕ-لَا یَقْدِرُوْنَ عَلٰى شَیْءٍ مِّمَّا كَسَبُوْاؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ‘‘ (بقرہ:۲۶۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اے ایمان والو! احسان جتا کر اور تکلیف پہنچا کر اپنے صدقے برباد نہ کردو اس شخص کی طرح جو اپنا مال لوگوں کے دکھلاوے کے لئے خرچ کرتا ہے اوراللہ اور قیامت پر ایمان نہیں لاتا تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چکنا پتھر ہو جس پر مٹی ہے تواس پر زورداربارش پڑی جس نے اسے صاف پتھر کر چھوڑا، ایسے لوگ اپنے کمائے ہوئے اعمال سے کسی چیز پر قدرت نہ پائیں گے اور اللہ کافروں کوہدایت نہیں دیتا۔

وَ مَا مَنَعَهُمْ اَنْ تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقٰتُهُمْ اِلَّاۤ اَنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَ بِرَسُوْلِهٖ وَ لَا یَاْتُوْنَ الصَّلٰوةَ اِلَّا وَ هُمْ كُسَالٰى وَ لَا یُنْفِقُوْنَ اِلَّا وَ هُمْ كٰرِهُوْنَ(54)

ترجمہ: اور ان کے صدقات قبول کئے جانے سے یہ بات مانع ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور وہ نماز کی طرف سستی و کاہلی سے ہی آتے ہیں اور ناگواری سے ہی مال خرچ کرتے ہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَا یَاْتُوْنَ الصَّلٰوةَ اِلَّا وَ هُمْ كُسَالٰى:اور وہ نماز کی طرف سستی و کاہلی سے آتے ہیں۔} منافقین کا راہِ خدا میں خرچ کرنا مردود ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور وہ سستی و کاہلی کے ساتھ نماز پڑھنے آتے ہیں کیونکہ وہ نہ تونماز پڑھنے پر ثواب کی امید رکھتے ہیں اور نہ ہی اسے چھوڑ دینے پر عذاب کا خوف رکھتے ہیں یونہی جو کچھ وہ خیرات کرتے ہیں وہ بھی ناگواری سے کرتے ہیں کیونکہ اس میں بھی وہ ثواب کے قائل نہیں ، صرف اپنے نفاق کو چھپانے کے لئے خیرات کرتے ہیں۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۴، ۲ / ۲۴۹)

نماز میں سستی کرنا منافقوں کا طریقہ ہے:

اس آیت سے معلوم ہوا کہ سستی سے نماز پڑھنا منافقوں کا طریقہ ہے جبکہ مومن کیلئے تو نماز معراج ہے اور امامُ الانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے نماز کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا ہے بلکہ بزرگانِ دین کی نماز کے ساتھ محبت کا یہ عالم تھا کہ وہ قبر میں بھی نماز پڑھنے کے متمنی تھے، جیساکہ حضرت ثابت بنانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو لحد میں اتارنے والے ایک شخص کا بیان ہے کہ اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ،میں نے اور میرے ساتھ ایک شخص حمید یا ان کے علاوہ کسی اور شخص نے حضرت ثابت بنانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو لحد میں اتارا، جب ہم نے مٹی برابر کر دی تو ایک جگہ سے تھوڑی مٹی ان کی قبر میں گر گئی تو اچانک میں نے دیکھا کہ حضرت ثابت بنانی  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ قبر میں نماز ادا فرما رہے ہیں ، میں نے اپنے ساتھ والے شخص سے پوچھا کہ کیا آپ نے دیکھا؟ اس نے مجھے خاموش رہنے کا کہہ دیا، پھر جب ہم حضرت ثابت بنانی  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی تدفین سے فارغ ہوئے تو ان کی بیٹی کے پاس آ کر ان کے عمل کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے پوچھا؟ آپ لوگوں نے کیا دیکھا؟ ہم نے جواب دیا: وہ قبر میں نماز ادا فرما رہے تھے۔ ان کی بیٹی نے کہا ’’پچاس سال سے حضرت ثابت بنانی  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا طریقہ یہ تھا کہ آپ ساری سا ری رات نماز ادا فرماتے، جب سحری کا وقت ہوتا تو یہ دعا فرماتے ’’اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، اگر تو اپنی مخلوق میں سے کسی کو قبر میں نماز کی توفیق عطا کرے تو مجھے بھی عطا فرمانا ‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ دعا قبول فرمالی ہے۔(حلیۃ الاولیاء، طبقۃ التابعین، الطبقۃ الاولی، طبقۃ اہل المدینۃ، ثابت البنانی، ۲ / ۳۶۲، روایت نمبر: ۲۵۶۸)

تنگدلی سے راہِ خدا میں مال خرچ کرنا منافقوں کا طریقہ ہے:

اس آیتِ مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ راہ ِ خدا میں خرچ کرنے سے د ل تنگ ہونا منافقوں کا طریقہ ہے۔لہٰذا اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں خرچ کیا جائے تو خوش دلی سے خرچ کیا جائے۔

فَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُهُمْؕ-اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ تَزْهَقَ اَنْفُسُهُمْ وَ هُمْ كٰفِرُوْنَ(55)

ترجمہ: تو تمہیں ان کے مال اور ان کی اولاد تعجب میں نہ ڈالیں ،اللہ یہی چاہتا ہے کہ اِن چیزوں کے ذریعے دنیا کی زندگی میں اِن سے راحت و آرام دور کردے اور کفر کی حالت میں اِن کی روح نکلے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُهُمْ:تو تمہیں ان کے مال اور ان کی اولاد تعجب میں نہ ڈالیں۔}اس آیت میں خطاب اگرچہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ہے لیکن اس سے مراد مسلمان ہیں اور آیت کا معنی یہ ہے کہ تم ان منافقوں کی مالداری اور اولاد پر یہ سوچ کر حیرت نہ کرو کہ جب یہ مردود ہیں تو انہیں اتنا مال کیوں ملا ۔ اللہ تعالیٰ یہی چاہتا ہے کہ ان چیزوں کے ذریعے دنیا کی زندگی میں ان سے راحت و آرام دور کردے کہ محنت سے جمع کریں ، مشقت سے اس کی حفاظت کریں اور حسرت چھوڑ کر مریں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۵، ۲ / ۲۴۹)

{لِیُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا:کہ اِن چیزوں کے ذریعے دنیا کی زندگی میں اِن سے راحت و آرام دور کردے۔} منافقوں پر مال کے ذریعے دُنْیَوی زندگی میں ڈالے جانے والے وبال کا کچھ ذکر اوپر ہوا ،اس کا مزید وبال یہ پڑے گا کہ مال خرچ کرنے کے معاملے میں ان کا دل تنگ ہو گا اور وہ (راہِ خدا) میں مال خرچ کرنا پسند نہ کریں گے جبکہ اولاد کے ذریعے ان پر دنیا میں یہ وبال آئے گا کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کرنے میں طرح طرح کی مشقتوں میں پڑیں گے، ان کے کھانے پینے اور لباس وغیرہ کا انتظام کرنے میں پریشانیوں کا سامنا کریں گے اور وہ مر جائیں تو یہ ان کی جدائی پر انتہائی رنج وغم میں مبتلا ہوں گے۔ (روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۵، ۳ / ۴۴۹)اور جب یہ مریں گے تو ان کی روح کفر کی حالت میں نکلے گی اور آخرت میں اللہ تعالیٰ انہیں شدید عذاب دے گا۔

 کافروں اور مسلمانوں کی محنت و مشقت میں فرق

یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مال اور اولاد کی وجہ سے جس محنت و مشقت ،تکلیف اور رنج و غم کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس میں کافر اور مسلمان دونوں شریک ہیں توپھر دونوں کی محنت و مشقت میں فرق کیا ہے کہ ایک جیسی محنت و مشقت ایک کے حق میں عذاب ہو اور دوسرے کے حق میں نہ ہو ؟اس کا جواب یہ ہے کہ مال اور اولاد کے معاملے میں اگرچہ مسلمان اور کافر دونوں کو ایک طرح کی محنت و مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن مسلمان چونکہ ان مشقتوں پر صبر کرتا ہے اور اس پر آخرت میں اسے ثواب ملے گا اس لئے یہ اُس کے حق میں عذاب نہیں جبکہ کافر کو چونکہ آخرت میں کوئی ثواب نہیں ملے گا اس لئے اُس کے حق میں یہ مشقتیں عذاب ہیں۔

کافروں کے مال و دولت سے دھوکہ نہ کھانے کا حکم:

اس آیت سے معلوم ہو اکہ مسلمانوں کو کافروں کی مالی اور افرادی قوت پر تعجب نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ کا دُنْیَوی عذاب ہے ۔ نیزکافروں کے مال ودولت کی کثرت سے دھوکہ نہ کھانے کا حکم اور بھی کئی جگہوں پر دیا گیا ہے ،جیسے ایک مقام پر ارشاد فرمایا

’’لَا  یَغُرَّنَّكَ  تَقَلُّبُ  الَّذِیْنَ  كَفَرُوْا  فِی  الْبِلَادِؕ(۱۹۶) مَتَاعٌ  قَلِیْلٌ-  ثُمَّ  مَاْوٰىهُمْ  جَهَنَّمُؕ-وَ  بِئْسَ   الْمِهَادُ ‘‘(اٰل عمران:۱۹۶، ۱۹۷)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے مخاطب! کافروں کا شہروں میں چلنا پھرناہرگز تجھے دھوکا نہ دے۔(یہ تو زندگی گزارنے کا) تھوڑا سا سامان ہے پھر ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا اور وہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے۔

         اور ایک مقام پر ارشاد فرمایا:

’’مَا یُجَادِلُ فِیْۤ اٰیٰتِ اللّٰهِ اِلَّا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَلَا یَغْرُرْكَ تَقَلُّبُهُمْ فِی الْبِلَادِ‘‘(مؤمن:۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اللہ کی آیتوں میں کافر ہی جھگڑا کرتے ہیں تو اے سننے والے! ان کا شہروں میں (خوشحالی سے) چلنا پھرنا تجھے دھوکا نہ دے۔

اللہ عَزَّوَجَلَّ سے غافل کردینے والامال اللہ عَزَّوَجَلَّ کا عذاب ہے:

         اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو مال اور اولاد اللہ عَزَّوَجَلَّ سے غافل کرے وہ اللہ تعالیٰ کا عذاب ہے، اس سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو اپنے مال کی کثرت اور اولاد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کی عبات و اطاعت سے انتہائی غافل ہیں۔

غافل مالدار کا انجام

         یہ بھی معلوم ہوا کہ مالدار کی جان بڑی مصیبت سے نکلتی ہے اور اسے دگنی تکلیف ہوتی ہے ایک تو دنیا سے جانے اور دوسری مال چھوڑنے کی جبکہ مومن کی جان آسانی سے نکلتی ہے کہ وہ اسے اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ملنے کا ذریعہ سمجھتا ہے۔

وَ یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ اِنَّهُمْ لَمِنْكُمْؕ-وَ مَا هُمْ مِّنْكُمْ وَ لٰـكِنَّهُمْ قَوْمٌ یَّفْرَقُوْنَ(56)لَوْ یَجِدُوْنَ مَلْجَاً اَوْ مَغٰرٰتٍ اَوْ مُدَّخَلًا لَّوَلَّوْا اِلَیْهِ وَ هُمْ یَجْمَحُوْنَ(57)

ترجمہ: اور (منافق) اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ وہ تم میں سے ہیں حالانکہ وہ تم میں سے نہیں ہیں لیکن وہ لوگ ڈرتے ہیں ۔ اگر انہیں کوئی پناہ گاہ یا غار یا کہیں سما جانے کی جگہ مل جاتی تو جلدی کرتے ہوئے ادھر پھر جائیں گے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ:اور اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں۔} منافقین اس پر اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ وہ تمہارے دین و ملت پر ہیں اور مسلمان ہیں لیکن اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرما دیا کہ  وہ تم میں سے نہیں ہیں بلکہ تمہیں دھوکا دیتے اور جھوٹ بولتے ہیں۔ وہ صرف اس بات سے ڈرتے ہیں کہ اگر ان کا نفاق ظاہر ہوجائے تو مسلمان ان کے ساتھ وہی معاملہ کریں گے جو مشرکین کے ساتھ کرتے ہیں اس لئے وہ براہِ تَقِیَّہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۶، ۲ / ۲۵۰، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۶، ص۴۴۰، ملتقطاً)

آیت ’’وَ یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:

            اس آیت سے چند مسئلے معلوم ہوئے

(1)… تقیہ کرنا منافقوں کا کام ہے، مومن کا کام نہیں۔

(2)… جب عمل قول کے مطابق نہ ہو تو قول کا کوئی اعتبار نہیں۔ منافق قسمیں کھا کر اپنے ایمان کا ثبوت دیتے تھے مگر رب تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ تم مسلمانوں میں سے نہیں ہیں۔

(3)… مسلمان دو طرح کے ہیں۔ حقیقی مسلمان اور ظاہری مسلمان یعنی دنیوی احکام کے اعتبار سے مسلمان۔ منافقین قومی مسلمان تھے دینی نہ تھے اس لئے انہیں مسجدمیں نماز پڑھنے کی اجازت تھی، انہیں کفار کی طرح قتل نہ کیا گیا لیکن وہ اللہ عَزَّوَجَلَّکے نزدیک مومن نہ تھے۔ وَ مَا هُمْ مِّنْكُمْکے یہ ہی معنی ہیں۔

{ لَوْ یَجِدُوْنَ مَلْجَاً:اگر انہیں کوئی پناہ گاہ مل جاتی۔} یعنی منافقین کا  رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور مسلمانوں سے انتہا درجے کے بغض کی وجہ سے حال یہ ہے کہ اگر وہ تمہارے پاس سے کسی پناہ گاہ، غار یا کہیں سما جانے کی جگہ کی طرف بھاگ جانے پر قادر ہوتے تو بہت جلد ادھر پھر جاتے کیونکہ بزدل کا کام ہی بھاگ جانا ہوتا ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۷، ۲ / ۲۵۰)

وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّلْمِزُكَ فِی الصَّدَقٰتِۚ-فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْهَا رَضُوْا وَ اِنْ لَّمْ یُعْطَوْا مِنْهَاۤ اِذَا هُمْ یَسْخَطُوْنَ(58)

ترجمہ: اور ان میں سے کوئی وہ ہے جو صدقات تقسیم کرنے میں تم پراعتراض کرتا ہے تو اگر اِنہیں اُن (صدقات) میں سے کچھ دیدیا جائے تو راضی ہوجاتے ہیں اور اگر اِنہیں اُن میں سے کچھ نہ دیا جائے تو اس وقت ناراض ہوجاتے ہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّلْمِزُكَ فِی الصَّدَقٰتِ:اور ان (منافقوں ) میں سے کوئی وہ ہے جو صدقات تقسیم کرنے میں تم پر اعتراض کرتا ہے۔} شانِ نزول:یہ آیت ذُوالخُوَیْصِرَہ ْ تمیمی کے بارے میں نازل ہوئی اس شخص کا نام حُرْقُوْص بن زُہَیْر ہے اور یہی خوارج کی اصل وبنیاد ہے ۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۸، ۲ / ۲۵۰)

بخاری و مسلم کی روایت میں ہے کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مالِ غنیمت تقسیم فرما رہے تھے تو ذُوالخُوَیْصِرَہ ْ نے کہا یا رسولَ اللہ ! عدل کیجئے ۔حضور پُر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : تجھے خرابی ہو ،میں عدل نہ کروں گا تو عدل کون کرے گا ؟ حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عر ض کی: مجھے اجازت دیجئے کہ اس (منافق) کی گردن مار دوں۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو اس کے اور بھی ہمراہی ہیں کہ تم ان کی نمازوں کے سامنے اپنی نمازوں کو اور ان کے روزوں کے سامنے اپنے روزوں کو حقیر دیکھو گے ، وہ قرآن پڑھیں گے اور ان کے گلوں سے نہ اترے گا، وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے۔(بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوّۃ فی الاسلام، ۲ / ۵۰۳، الحدیث: ۳۶۱۰، مسلم، کتاب الزکاۃ، باب ذکر الخوارج وصفاتہم، ص۵۳۳، الحدیث: ۱۴۸(۱۰۶۴))

اس سے معلوم ہوا کہ حضوراکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کسی فعل شریف پر اعتراض کرنا کفر ہے۔

فتنوں سے متعلق دو اَحادیث

(1)… حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک مرتبہ دعا فرمائی ’’اے اللہ ! عَزَّوَجَلَّ، ہم کو ہمارے شام میں برکت دے ۔اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، ہمارے یمن میں برکت دے ۔ لوگوں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہمارے نجد میں۔ارشاد فرمایا :اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، ہم کو ہمارے شام میں برکت دے۔ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، ہم کو ہمارے یمن میں برکت دے ۔ لوگوں نے پھر عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اور ہمارے نجد میں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں میرا خیال ہے کہ تیسری بار میں ارشاد فرمایا ’’کہ وہاں زلزلے اور فتنے ہوں گے اور وہاں شیطانی گروہ نکلے گا ۔ (بخاری، کتاب الفتن، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: الفتنۃ من قبل المشرق، ۴ / ۴۴۰، الحدیث: ۷۰۹۴)

(2)… حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں ، میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آخری زمانے میں ایک قوم نکلے گی جو کم عمر اور کم عقل ہوں گے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی احادیث بیان کریں گے ،قرآنِ مجید کو پڑھیں گے اور وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا اور وہ دین سے اسطرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکلتا ہے اور جب تم انہیں پاؤ تو ان کو قتل کرنا کیونکہ جو( ان سے جنگ کرے گا اور)  انہیں قتل کرے گا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہاں اسے اجر ملے گا۔(مسلم، کتاب الزکاۃ، باب التحریض علی قتل الخوارج، ص۵۳۵، الحدیث: ۱۵۴(۱۰۶۶))

{فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْهَا رَضُوْا:تو اگر اِنہیں اُن (صدقات) میں سے کچھ دیدیا جائے تو راضی ہوجاتے ہیں۔} معلوم ہوا کہ دُنْیَوی نفع پر حضوراکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے راضی ہو جانا اور نفع نہ ہونے کی صورت میں ناراض ہو جانا منافق کی خاص علامت ہے، ایسا آدمی نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان نہیں لایا بلکہ اپنے نفس پر ایمان لایا ہے۔ اخلاص نہ ہونے کی علامت یہ ہوتی ہے کہ جب تک فائدہ ملتا رہے تب تک راضی، خوش ہیں اور جب فائدہ ملنا بند ہوجائے تو برائیاں بیان کرنا شروع کردی جائیں۔ آج بھی کسی آدمی کے دوسرے کے ساتھ مخلص ہونے کا یہی پیمانہ ہے کہ اگر کوئی شخص ہم سے فائدہ حاصل کرتے وقت تو خوش اور راضی ہو اور تعریفیں کرے اور فائدہ ختم ہوجانے پر سلام لینا گوارا نہ کرے تو یہ مخلص نہ ہونے کی علامت ہے اور افسوس کہ فی زمانہ اسی طرح کی صورتِ حال ہے۔

وَ لَوْ اَنَّهُمْ رَضُوْا مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۙ-وَ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ سَیُؤْتِیْنَا اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ وَ رَسُوْلُهٗۤۙ-اِنَّاۤ اِلَى اللّٰهِ رٰغِبُوْنَ(59)

ترجمہ: اور (کیا اچھا ہوتا) اگر وہ اس پر راضی ہوجاتے جو اللہ اور اس کے رسول نے انہیں عطا فرمایا اور کہتے کہ ہمیں اللہ کافی ہے ۔ عنقریب اللہ اور اس کا رسول ہمیں اپنے فضل سے اور زیادہ عطا فرمائیں گے ۔ بیشک ہم اللہ ہی کی طرف رغبت رکھنے والے ہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَوْ اَنَّهُمْ رَضُوْا مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ:اوراگر وہ اس پر راضی ہوجاتے جو اللہ اور اس کے رسول نے انہیں عطا فرمایا۔} ارشاد فرمایا کہ کیا اچھا ہوتا اگر تقسیم پر اعتراض کرنے والے منافق اس پر راضی ہوجاتے جواللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں عطا فرمایا اگرچہ وہ کم ہی کیوں نہ ہو اور وہ کہتے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کا فضل اور جتنا اس نے عطا کیا وہ کافی ہے ۔ عنقریب اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمیں اپنے فضل سے اور زیادہ عطا فرمائیں گے ۔ بیشک ہم اللہ تعالیٰ ہی کی طرف رغبت رکھنے والے ہیں کہ وہ ہمیں اپنے فضل سے صدقہ اور اس کے علاوہ لوگوں کے اَموال سے غنی اور بے نیاز کر دے۔(روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۹، ۳ / ۴۵۲، خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۹، ۲ / ۲۵۰)

آیت’’مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

       اس سے معلوم ہوا کہ یہ کہنا جائز ہے کہ اللہ رسول عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمیں ایمان دیا، دوزخ سے بچایا وغیرہ وغیرہ۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ رسول عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دیتے ہیں اور آئندہ بھی دیں گے بلکہ اللہ تعالیٰ جو دیتا ہے وہ حضو ر پُر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کے ذریعے سے دیتا ہے۔

 نفع و نقصان پہنچانے کی نسبت نیک بندوں کی طرف کرنا جائز ہے:

یاد رہے کہ کسی کو نفع پہنچانے یا کسی سے نقصان دور کر دینے کی نسبت اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی طرف کرنا جائز ہے، اس طرح کی نسبتیں قرآنِ پاک میں بکثرت مقامات پر مذکور ہیں

(1)…اللہ تعالیٰ نے نعمت عطا کرنے کی نسبت تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف فرمائی،ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِ‘‘(احزاب:۳۷)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اللہ نے اسے نعمت بخشی اور اے نبی تو نے اسے نعمت بخشی۔

(2)…اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف غنی کرنے کی نسبت فرمائی، ارشاد فرمایا

’’وَ مَا نَقَمُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ اَغْنٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ مِنْ فَضْلِهٖ ‘‘ (توبہ:۷۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور انہیں یہی برا لگا کہ اللہ اور اس کے رسول نے انہیں اپنے فضل سے غنی کردیا۔

(3،4)…اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرشتوں کو ہمارا محافظ اور نگہبان فرمایا، ارشاد باری تعالیٰ ہے

’’لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَیْنِ یَدَیْهِ وَ مِنْ خَلْفِهٖ یَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ‘‘(الرعد :۱۱)

ترجمۂ  کنزُالعِرفان:آدمی کے لیے اس کے آگے اور اس کے پیچھے بدل بدل کر باری باری آنے والے فرشتے ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔

اور ارشاد فرمایا

 ’’وَ یُرْسِلُ عَلَیْكُمْ حَفَظَةً‘‘(انعام:۶۱)

ترجمۂ  کنزُالعِرفان: اور وہ تم پر نگہبان بھیجتا ہے۔

(5)…اللہ تعالیٰ نے اپنے نام کے ساتھ صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو ملا کر کفایت کرنے والا فرمایا

’’یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ حَسْبُكَ اللّٰهُ وَ مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ‘‘ (انفال:۶۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے نبی! اللہ تمہیں کافی ہے اور جو مسلمان تمہارے پیروکار ہیں۔

اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْهَا وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِؕ-فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ(60)

ترجمہ: زکوٰۃ صرف فقیروں اور بالکل محتاجوں اور زکوٰۃ کی وصولی پر مقرر کئے ہوئے لوگوں اور ان کیلئے ہے جن کے دلوں میں اسلام کی الفت ڈالی جائے اور غلام آزاد کرانے میں اور قرضداروں کیلئے اور اللہ کے راستے میں (جانے والوں کیلئے) اور مسافر کے لئے ہے۔ یہ اللہ کامقرر کیا ہوا حکم ہے اور اللہ علم والا، حکمت والا ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ:زکوٰۃ صرف ان لوگوں کے لئے ہے۔} جب منافقین نے صدقات کی تقسیم میں سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اعتراض کیا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اس آیت میں بیان فرما دیا کہ صدقات کے مستحق صرف یہی آٹھ قسم کے لوگ ہیں ان ہی پر صدقات صَرف کئے جائیں گے ،ان کے سوا اور کوئی مستحق نہیں نیز رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اموالِ صدقہ سے کوئی واسطہ ہی نہیں کیونکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اور آپ کی اولاد پر صدقات حرام ہیں تو طعن کرنے والوں کو اعتراض کا کیا موقع ہے۔ اس آیت میں صدقہ سے زکوٰۃ مراد ہے۔

 مَصارِفِ زکوٰۃ کی تفصیل اور ان سے متعلق شرعی مسائل

اس آیت میں زکوٰۃ کے مصارف بیان گئے ہیں ،ان سے متعلق چند شرعی مسائل درج ذیل ہیں

(1)… زکوٰۃ کے مستحق آٹھ قسم کے لوگ قرار دیئے گئے ہیں ان میں سے مُؤَلَّفَۃُ الْقُلُوْبْ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے اِجماع کی وجہ سے ساقط ہوگئے کیونکہ جب اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی نے اسلام کو غلبہ دیا تو اب اس کی حاجت نہ رہی اور یہ اجماع حضرت ابو بکر صدیق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے زمانے میں منعقد ہوا تھا۔ یہاں ایک اہم بات یاد رہے کہ مُؤَلَّفَۃُ الْقُلُوْبْ کے حصے کو ساقط کرنے میں ایسا نہیں ہے کہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے قرآنِ کریم کو ہی بدل دیا کیونکہ قرآنِ مجید ایسی کتاب ہے ہی نہیں کہ مخلوق میں سے کوئی اسے تبدیل کرسکے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور ا س کی حفاظت بھی اللہ تعالیٰ کے ذمۂ کرم پر ہے، بلکہ صحابۂ کرام کا مُؤَلَّفَۃُ الْقُلُوْبْ کے حصے کو ساقِط کرنے میں اِجماع یقینا کسی دلیل کی بنا پر تھا ، جیسا کہ علامہ کمال الدین محمد بن عبد الواحدرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’یقینا ان کے پاس کوئی ایسی دلیل ہو گی جس سے انہیں علم ہو گا کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی وفات سے پہلے اس حکم کو منسوخ کر دیا تھا۔ یا، اس حکم کے آپ کی (ظاہری) حیاتِ مبارکہ تک ہونے کی قید تھی۔ یا، یہ حکم کسی علت کی وجہ سے تھا اور اب وہ علت باقی نہ رہی تھی۔(فتح القدیر، کتاب الزکاۃ، باب من یجوز دفع الصدقۃ الیہ ومن لا یجوز، ۲ / ۲۰۱)

(2)…فقیر وہ ہے جس کے پاس شرعی نصاب سے کم ہو اور جب تک اس کے پاس ایک وقت کے لئے کچھ ہو اس کو سوال حلال نہیں۔ ہاں بن مانگے اگر کوئی اسے زکوٰۃ دے تو وہ لے سکتا ہے اور مسکین وہ ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو اور ایسا شخص سوال بھی کرسکتا ہے۔

(3)… عاملین وہ لوگ ہیں جن کو حاکمِ اسلام نے صدقے وصول کرنے پر مقرر کیا ہو۔

(4)… اگر عامل غنی ہو تو بھی اس کو لینا جائز ہے۔

(5)… عامل سید یا ہاشمی ہو تو وہ زکوٰۃ میں سے نہ لے۔

(6)…گردنیں چھڑانے سے مراد یہ ہے کہ جن غلاموں کو ان کے مالکوں نےمُکَاتَبْ کردیا ہو اور ایک مقدار مال کی مقرر کردی ہو کہ اس قدر وہ ادا کردیں تو آزاد ہیں ، وہ بھی مستحق ہیں ، ان کو آزاد کرانے کے لئے مالِ زکوٰۃ دیا جائے۔

(7)…قرضدار جو بغیر کسی گناہ کے مبتلائے قرض ہوئے ہوں اور اتنا مال نہ رکھتے ہوں جس سے قرض ادا کریں انہیں ادائے قرض میں مالِ زکوٰۃ سے مدد دی جائے۔

(8)…اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں خرچ کرنے سے بے سامان مجاہدین اور نادار حاجیوں پر صَرف کرنا مراد ہے۔

(9)…اِبنِ سبیل سے وہ مسافر مراد ہے جس کے پاس اُس وقت مال نہ ہو۔

 

(10)… زکوٰۃ دینے والے کو یہ بھی جائز ہے کہ وہ ان تمام اَقسام کے لوگوں کو زکوٰۃ دے اور یہ بھی جائز ہے کہ ان میں سے کسی ایک ہی قسم کو دے۔

(11)… زکوٰۃ انہیں لوگوں کے ساتھ خاص کی گئی لہٰذاان کے علاوہ اور دوسرے مَصرف میں خرچ نہ کی جائے گی، نہ مسجد کی تعمیر میں ،نہ مردے کے کفن میں ،نہ اس کے قرض کی ا دا ئیگی میں۔

(12)… زکوٰۃ بنی ہاشم اور غنی اور ان کے غلاموں کو نہ دی جائے اور نہ آدمی اپنی بیوی اور اولاد اور غلاموں کو دے۔(تفسیرات احمدیہ، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۶۰، ص۴۶۶-۴۶۸، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۰، ص۴۴۱، ملتقطاً)۔

وَ مِنْهُمُ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ النَّبِیَّ وَ یَقُوْلُوْنَ هُوَ اُذُنٌؕ-قُلْ اُذُنُ خَیْرٍ لَّكُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ یُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ رَحْمَةٌ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْؕ-وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ رَسُوْلَ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(61)

ترجمہ: اور ان میں کچھ وہ ہیں جو نبی کو ایذا دیتے ہیں اور کہتے ہیں وہ تو کان ہیں ۔ تم فرماؤ: تمہاری بہتری کے لئے کان ہیں ، وہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور مسلمانوں کی بات پر یقین کرتے ہیں اور تم میں جو مسلمان ہیں ان کیلئے رحمت ہیں اور جو رسولُ اللہ کو ایذا دیتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مِنْهُمُ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ النَّبِیَّ:اور ان  میں کچھ وہ ہیں جو نبی کو ایذا دیتے ہیں۔} شانِ نزول: منافقین اپنی مجلسوں میں سرورِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں ناشائستہ باتیں کرتے تھے، ان میں سے بعضوں نے کہا کہ اگر حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خبر ہوگئی تو ہمارے حق میں اچھا نہ ہوگا ۔جلاس بن سوید منافق نے کہا ہم جو چاہیں کہیں ، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے مُکَرْ جائیں گے اور قسم کھالیں گے وہ تو کان ہیں ان سے جو کہہ دیا جائے سن کر مان لیتے ہیں۔اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی اور ارشاد فرمایا کہ منافقوں کی جماعت میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ایذا دیتے ہیں اور ان کی شان میں نازیبا کلمات کہتے ہیں۔ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرما دیں کہ(اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) اگرچہ سننے والے ہیں لیکن ان کاسننا تمہارے لئے بہتر ہے۔ معنی یہ ہے کہ اگر وہ سننے والے بھی ہیں تو نیکی اور بھلائی کی بات سننے اور ماننے والے ہیں۔شر اور فساد کی بات سننے والے نہیں۔ اور ان کی شان یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور مسلمانوں کی بات پر یقین کرتے ہیں منافقوں کی بات پر یقین نہیں کرتے اور وہ تم میں سے جو مسلمان ہیں ان کیلئے رحمت ہیں اور جواللہ تعالیٰ کے حبیب رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ایذا دیتے ہیں ان کے لیے آخرت میں دردناک عذاب ہے۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۱، ۲ / ۲۵۵)

آیت’’وَ مِنْهُمُ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ النَّبِیَّ ‘‘سے معلوم ہونے والے مسائل:

اس آیت سے معلوم ہوا کہ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ایذا دینا کفر ہے کیونکہ دردناک عذاب کی وعید عموماً کفار کو ہی ہوتی ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر کئے جانے والے اِعتراضات کاجواب دینا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان بیان کرنا اللہ تعالیٰ کی سنت ہے۔

یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ لَكُمْ لِیُرْضُوْكُمْۚ-وَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْهُ اِنْ كَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ(62)اَلَمْ یَعْلَمُوْۤا اَنَّهٗ مَنْ یُّحَادِدِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَاَنَّ لَهٗ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدًا فِیْهَاؕ-ذٰلِكَ الْخِزْیُ الْعَظِیْمُ(63)

ترجمہ: ۔ (اے مسلمانو!) تمہارے سامنے اللہ کی قسم کھاتے ہیں تاکہ تمہیں راضی کرلیں حالانکہ اللہ اور اس کارسول اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ لوگ اسے راضی کریں ،اگر وہ ایمان والے ہیں ۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرے تو اس کے لیے جہنم کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ یہی بڑی رسوائی ہے۔

 

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ لِیُرْضُوْكُمْ:تاکہ تمہیں راضی کرلیں۔}شانِ نزول: منافقین اپنی مجلسوں میں سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اعتراضات کیا کرتے تھے اور مسلمانوں کے پاس آکر اس سے مکر جاتے تھے اور قسمیں کھا کھا کراپنی بَرِیَّت ثابت کرتے تھے اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ مسلمانوں کو راضی کرنے کے لئے قسمیں کھانے سے زیادہ اہم اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوراضی کرنا تھا اگر ایمان رکھتے تھے تو ایسی حرکتیں کیوں کیں جو خدا اور رسول عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ناراضی کا سبب ہوں۔ آیت کے اس لفظ ’’اَنْ یُّرْضُوْهُ‘‘ میں واحد کی ضمیر اس لئے ذکر کی گئی کہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رضا میں کوئی فرق نہیں ، دونوں کی رضا کا ایک ہی حکم ہے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۲، ص۴۴۲)

اللہ تعالیٰ کے ساتھ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو راضی کرنے کی نیت شرک نہیں:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ عبادت میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو راضی کرنے کی نیت کرنی شرک نہیں بلکہ ایمان کا کمال ہے۔نیز قرآنِ پاک میں بہت سی ایسی آیات ہیں جن میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اکٹھا ذکر کیاہے،سر دست ان میں سے 9آیات درج ذیل ہیں 

(1)… ’’وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ‘‘ (النساء:۱۳)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جواللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت کرے۔

(2)… ’’وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ‘‘ (النساء:۱۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور جواللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے۔

(3)… ’’اَلَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ  ‘‘ (المائدہ:۳۳)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں۔

(4)… ’’ اِنَّمَا وَلِیُّكُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ‘‘ (المائدہ:۵۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:تمہارے دوست صرف اللہ اور اس کا رسول اور ایمان والے ہیں۔

(5)… ’’ اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ ‘‘(احزاب:۵۷)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:بیشک جو اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں ان پردنیا اور آخرت میں اللہ نے لعنت فرما دی ہے۔

(6)… ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ‘‘ (حجرات:۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو۔

(7)… ’’ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ شَآقُّوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ ‘‘ (حشر:۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:یہ اس لیے ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی۔

(8)… ’’وَ یَنْصُرُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ‘‘ (حشر:۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں ، وہی سچے ہیں۔

 (9)… ’’وَ لِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُوْلِهٖ‘‘(منافقون:۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:عزت تو اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہے۔

ذکرِ خدا جو اُن سے جدا چاہو نجدیو!

واللہ ذکرِ حق نہیں کنجی سقر کی ہے

یَحْذَرُ الْمُنٰفِقُوْنَ اَنْ تُنَزَّلَ عَلَیْهِمْ سُوْرَةٌ تُنَبِّئُهُمْ بِمَا فِیْ قُلُوْبِهِمْؕ-قُلِ اسْتَهْزِءُوْاۚ-اِنَّ اللّٰهَ مُخْرِ جٌ مَّا تَحْذَرُوْنَ(64)

ترجمہ: منافقین اس بات سے ڈرتے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی ایسی سورت نازل کردی جائے جو ان کے دلوں کی چھپی باتیں بتادے۔ تم فرماؤ: مذاق اڑالو، بیشک اللہ اس چیز کو ظاہر کرنے والاہے جس سے تم ڈرتے ہو۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ تُنَبِّئُهُمْ بِمَا فِیْ قُلُوْبِهِمْ:جو ان کے دلوں کی چھپی باتیں بتادے۔} دلوں کی چھپی چیز ان کا نفاق ہے اور وہ بغض و عداوت جو وہ مسلمانوں کے ساتھ رکھتے تھے اور اس کو چھپایا کرتے تھے، سرور ِعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معجزات دیکھنے اور آپ کی غیبی خبریں سننے اور ان کو واقع کے مطابق پانے کے بعد منافقوں کو اندیشہ ہوگیا کہ کہیں اللہ تعالیٰ کوئی ایسی سور ت نازل نہ فرمائے جس سے ان کے اَسرار ظاہر کردیئے جائیں اور ان کی رسوائی ہو۔ ان کے اس اندیشے کاذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے ’’اے پیارے حبیب!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان منافقوں سے فرما دیں کہ تم نے جو مذاق اڑانا ہے وہ اڑالو، بیشک اللہ تعالیٰ اس چیز کو ظاہر کرنے والاہے جس کے ظاہر ہونے سے تم ڈرتے ہو۔  (روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۴، ۳ / ۴۵۸-۴۵۹)

وَ لَىٕنْ سَاَلْتَهُمْ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّمَا كُنَّا نَخُوْضُ وَ نَلْعَبُؕ-قُلْ اَبِاللّٰهِ وَ اٰیٰتِهٖ وَ رَسُوْلِهٖ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِءُوْنَ(65)

ترجمہ: 

اور اے محبوب! اگرآپ ان سے پوچھیں تو کہیں گے کہ ہم تو صرف ہنسی کھیل کررہے تھے ۔تم فرماؤ: کیا تم اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنسی مذاق کرتے ہو۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّمَا كُنَّا نَخُوْضُ وَ نَلْعَبُ:ہم تو صرف ہنسی کھیل کررہے تھے ۔} اس آیت کا ایک شانِ نزول یہ ہے کہ غزوۂ تبوک میں جاتے ہوئے منافقین کے تین گروپوں میں سے دو رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں مذاق اڑاتے ہوئے کہتے تھے کہ ان کا خیال ہے کہ یہ روم پر غالب آجائیں گے، کتنا بعید خیال ہے اور ایک گروپ بولتا تو نہ تھا مگر ان باتوں کو سن کر ہنستا تھا۔ حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کو طلب فرما کر ارشاد فرمایا کہ تم ایسا ایسا کہہ رہے تھے؟ انہوں نے کہا :ہم راستہ طے کرنے کے لئے ہنسی کھیل کے طور پر دل لگی کی باتیں کررہے تھے اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔ دوسرا شانِ نزول یہ ہے کہ کسی کی اونٹنی گم ہوگئی ، اس کی تلاش تھی، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا او نٹنی فلاں جنگل میں فلاں جگہ ہے اس پر ایک منافق بولا ’’محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) بتاتے ہیں کہ اونٹنی فلاں جگہ ہے ، محمد غیب کیا جانیں ؟ اس پراللہ عَزَّوَجَلَّ نے یہ آیتِ کریمہ اتاری۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۵، ص۴۴۳، در منثور، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۵، ۴ / ۲۳۰، ملتقطاً)

آیت’’وَ لَىٕنْ سَاَلْتَهُمْ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل

             اس آیت سے 3 مسئلے معلوم ہوئے :

(1)… حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اللہ تعالیٰ نے غیب کا علم دیا کہ جو تنہائی میں باتیں کی جائیں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ان کی خبر ہے۔

(2)… کفر کی باتیں سن کر رضا کے طور پر خاموش رہنا یا ہنسنا بھی کفر ہے۔ کیونکہ رضابِالْکُفر کفر ہے۔

(3)… حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تَوہین اللہ تعالیٰ کی توہین ہے کیونکہ ان منافقوں نے حضوراکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی توہین کی تھی مگر فرمایا ’’ اَبِاللہِ وَاٰیٰتِہٖ وَرَسُوۡلِہٖ‘‘ یعنی حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا  مذاق اڑانا اللہ تعالیٰ اور اس کی تمام آیتوں کا مذاق اڑانا ہے۔ لہٰذا تاجدارِرسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعظیم اللہ تعالیٰ کی تعظیم ہے۔

لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْؕ-اِنْ نَّعْفُ عَنْ طَآىٕفَةٍ مِّنْكُمْ نُعَذِّبْ طَآىٕفَةًۢ بِاَنَّهُمْ كَانُوْا مُجْرِمِیْنَ(66)

ترجمہ: بہانے نہ بنا ؤ تم ایمان ظاہر کرنے کے بعد کافر ہوچکے ۔ اگر ہم تم میں سے کسی کو معاف کر دیں تو دوسروں کو عذاب دیں گے کیونکہ وہ مجرم ہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَا تَعْتَذِرُوْا :بہانے نہ بنا ؤ۔} اللہ تعالیٰ نے منافقین کی جانب سے پیش کردہ عذر و حیلہ قبول نہ کیا اور ان کے لئے یہ فرمایا کہ بہانے نہ بنا ؤ تم ایمان ظاہر کرنے کے بعد کافر ہوچکے ۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۶، ۲ / ۲۵۷، ملخصاً)

 آیت’’ لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ‘‘سے حاصل ہونے والی معلومات

اس آیت سے معلوم ہو اکہ ایمان ایسی چیز نہیں کہ جو دنیا میں کبھی کسی سے ختم ہی نہیں ہو سکتی کیونکہ یہاں اللہ تعالیٰ نے پہلے ان کے ایمان کا ذکر فرمایا پھر ان کا ایمان ختم ہو جانے کا ذکر فرمایا جس سے معلوم ہوا کہ دنیا میں مسلمان ہونے کے بعد کوئی کافر ہو سکتاہے ۔

یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ کسی کو کافر قرار دینے کا اختیار اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے لہٰذا کوئی دوسرا کسی کو کافر نہیں کہہ سکتا ، یہ اس لئے نہیں کہا جاسکتا کہ شرعی اصولوں کے مطابق جس کا کفر ثابت ہو جائے اسے کافر قرار دینے کاحکم خود شریعت کا حکم ہے اور حقیقی علماء اسی حکمِ شریعت پر عمل کرتے ہوئے ہی کسی کو کافر کہتے ہیں۔ اگر یہ پابندی عائد کر دی جائے کہ کوئی اللہ تعالیٰ کے بارے میں ، اس کے حبیب رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں ، اس کی مقدس کتاب قرآنِ مجید کے بارے میں ، اس کے پسندیدہ دین اسلام کے بارے کیسے ہی توہین آمیز کلمات کہے یا کتنے ہی برے افعال کے ذریعے ان کی توہین کرے یا دیگر ضروریاتِ دین کا انکار کرے تو اسے کافر نہ کہا جائے کیونکہ اسے کافر قرار دینے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے تو پھر حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فیصلے سے راضی نہ ہونے والے جس منافق کاسر اڑا دیا تھا اور ا س کے بعد حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرما دیا کہ حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کسی مومن کو قتل نہیں کرسکتے اور ان کی تائید میں اللہ تعالیٰ نے بھی قرآنِ کریم میں آیت نازل فرما دی تو کیا یہاں اللہ تعالیٰ کا حق چھیننا پایا جا رہا ہے؟ اسی طرح صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے زمانے میں زکوٰۃ کا انکار کرنے والوں کو مرتد قرار دے کر ان کے خلاف جو جہاد ہوا اور مسلمان ہونے کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنے والوں کے خلاف صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے جو جہاد کیا وہ کیا تھا؟ کیا صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو معلوم نہیں تھا کہ انہیں کافر قرار دینے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور وہ انہیں کافر قرار دے کر ان کے خلاف جہاد نہیں کر سکتے۔ افسوس! فی زمانہ مسلمان ہونے کادعویٰ کرنے کے باوجود دین سے بیزار طبقے کی ایسی مت ماری جا چکی ہے کہ وہ ایسا نظریہ پیش کر رہے ہیں جسے اگر درست مان لیاجائے تو پھر قرآنِ مجید اوراحادیثِ مبارکہ میں مرتد ہونے والوں کے بارے جو احکام بیان کئے گئے اور ان کی جوتفصیلات فقہاءِ کرام زمانے سے اپنی کتابوں میں لکھتے چلے آ رہے ہیں یہ سب کالْعدم ہو کر رہ جائیں گے ۔اللہ تعالیٰ انہیں عقلِ سلیم عطا فرمائے ۔ ہاں یہاں اس بات کا خیال رکھنا بہت ہی ضروری ہے کہ کسی فردِ معین کو کافر قرار دینا بہت ہی سنگین معاملہ ہے ، جب تک کسی شخص سے صادر ہونے والے قول و فعل کی بنا پر اسے کافر قرار دینے کے تمام تر تقاضے پورے نہ ہوجائیں تب تک کافر قرار دینے کی ہرگز ہرگز اجازت نہیں یہاں تک کہ علماء نے فرمایا ہے کہ کسی شخص کے کلام میں ایک سو پہلو ہوں اور ان میں سے ننانوے پہلو کفر کے ہوں اور صرف ایک پہلو اسلام کا ہو تب بھی اس ایک پہلو کی رعایت کرتے ہوئے اس شخص کو کافر قرار نہیں دیا جائے گا جب تک وہ اپنی مراد خود متعین نہ کردے۔

سورہِ توبہ کی آیت نمبر66 سے معلوم ہونے والا ایک اہم مسئلہ:

اس آیت سے معلوم ہوا کہ جس شخص نے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں اِکراہ ِشرعی کے بغیر ایسے کلمات کہے جو عرف میں توہین اور گستاخی کے لئے متعین ہوں تو وہ نیت اور عدمِ نیت کے فرق کے بغیر قضاء ً اور دیانۃً دونوں طرح کافر ہے ۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس (مذکورہ بالا) آیت کے تین فائدے حاصل ہوئے:

اول: یہ کہ جو رسول کی شان میں گستاخی کرے وہ کافر ہوجاتاہے اگر چہ کیسا ہی کلمہ پڑھتا اور ایمان کا دعویٰ رکھتا ہو، کلمہ گوئی اسے ہرگز کفرسے نہ بچائے گی۔

دوم: یہ جو بعض جاہل کہنے لگتے ہیں کہ کفر کا تودل سے تعلق ہے نہ کہ زبان سے، جب وہ کلمہ پڑھتا ہے اور اس کے دل میں کفر ہونا معلوم نہیں توہم کسی بات کے سبب اسے کیونکر کافر کہیں ، محض خبط اور نری جھوٹی بات ہے، جس طرح کفر دل سے متعلق ہے یونہی ایمان (کا) بھی (دل سے تعلق ہے تو) زبان سے کلمہ پڑھنے پر (اسے) مسلمان کیسے کہا؟ (تو جس طرح زبان سے کلمہ پڑھنے پر اسے مسلمان کہا) یونہی زبان سے گستاخی کرنے پر کافر کہا جائے گا، اور جب (اس کا گستاخی کرنا) بغیر اکراہِ شرعی کے ہے تو اللہ کے نزدیک بھی کافر ہوجائے گا اگر چہ دل میں اس گستاخی کا معتقد نہ ہو کہ بے اعتقاد (گستاخانہ کلمہ) کہنا ہزل وسُخْرِیَہْ ہے، اور اسی پر ربُّ العزت فرما چکا کہ تم کافر ہوگئے اپنے ایمان کے بعد۔

سوم :کھلے ہوئے لفظوں میں عذر تاویل مسموع نہیں ، آیت فرما چکی کہ حیلہ نہ گھڑو تم کافر ہوگئے۔ (فتاوی رضویہ، ۱۵ / ۱۷۲)

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں ’’جو بلا اکراہ کلمۂ کفر بکے بلا فرقِ نیت مطلقاً قطعا ًیقینا اجماعاً کافر ہے ۔پھر اس پر فقہائے کرام کے جزئیات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : فتاویٰ امام قاضی خاں وفتاویٰ عالمگیری میں ہے ’’رجل کفر بلسانہ طائعا وقلبہ مطمئن بالایمان یکون کافرا و لایکون عند اﷲ تعالٰی مؤمنا‘‘ ایک شخص نے زبان سے حالت ِخوشی میں کفر کا اظہار کیا حالانکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن تھا تو وہ کافر ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مومن نہیں ہے۔(فتاوی عالمگیری،کتاب السیر، الباب التاسع فی احکام المرتدین، ۲ / ۲۸۳۔ فتاوی عالمگیری،کتاب السیر، الباب التاسع فی احکام المرتدین، ۲ / ۲۸۳)

حاوی میں ہے ’’من کفر باللسان و قلبہ مطمئن بالایمان فھوکافر و لیس بمؤمن عند ﷲ تعالٰی‘‘ جس نے زبان سے کفرکیا حالانکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن تھا تو وہ کافر ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی مومن نہیں۔

         جواہر الاخلاطی اور مجمع الانہر میں ہے ’’من کفر بلسانہ طائعا و قلبہ مطمئن بالایمان کان کافرا عندنا و عند ﷲ تعالٰی ‘‘ جس نے زبان سے حالتِ خوشی میں کفر کااظہا ر کیا حالانکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن تھا تو وہ ہمارے نزدیک کافر ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی مومن نہیں۔(مجمع الانہر، کتاب السیر والجہاد، باب المرتد، ۲ / ۵۰۲، جواہر الاخلاطی، کتاب السیر، ص۶۸، مثلہ)

شرح فقہ اکبر میں ہے ’’ اللسان ترجمان الجنان فیکون دلیل التصدیق وجودا و عدما فاذا بدلہ بغیرہ فی وقت یکون متمکنا من اظہارہ کان کافرا و اما اذا زال تمکنہ من الاظہار بالاکراہ لم یصر کافرا ‘‘ زبان دل کی ترجمان ہے تو یہ دل کی تصدیق یا عدمِ تصدیق پر دلیل ہوگی تو جب وہ اظہارِ ایمان پر قدرت کے باوجود عدمِ تصدیق کااظہار کرتاہے تو وہ کافر ہوگیا البتہ جب کسی جبر کی وجہ سے اظہار پر قدرت نہ ہو تو اب کافر نہ ہوگا۔ (منح الروض الازہر شرح فقہ الاکبر، الایمان ہو التصدیق والاقرار، ص۸۶)

طریقہ محمدیہ وحدیقہ ندیہ میں ہے ’’(حکمہ) ای التکلم بکلمۃ الکفر( ان کان طوعا) ای لم یکرھہ احد( من غیر سبق لسان) الیہ( احباط العمل وانفساخ النکاح) ‘اگر کلمۂ  کفر کا تکلم خوشی سے ہے یعنی کسی چیز کا اکراہ و جبر نہیں جبکہ سبقت ِلسانی نہ ہو، تو اس کا حکم یہ ہے کہ عمل ضائع اور نکاح ختم ہوجائے گا(الحدیقۃ الندیہ، القسم الثانی، المبحث الاول، النوع الاول من الستین کلمۃ الکفر العیاذ باللہ، ۲ / ۱۹۷-۱۹۸)۔( فتاوی رضویہ ، کتاب السیر، ۱۴ / ۶۰۰-۶۰۱)

صدرُ الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ اس آیت سے ثابت ہوا کہ رسول کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہ وَ سَلَّمَ کی شان میں گستاخی کفر ہے جس طرح بھی ہو اس میں عذر قبول نہیں۔(خزائن ا لعرفان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۶، ص۳۷۰)

یاد رہے کہ اس آیت میں واضح طور پر یہ بتادیا گیا ہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی گستاخی اگرچہ مذاق میں ہو اور گستاخی کی نیت نہ ہو تب بھی کفر ہے اور یہی حکم دوسرے تمام کفریات کا ہے کہ ہنسی مذاق میں کفر کرنے سے بھی آدمی کافر ہوجاتا ہے ، مذاق کا عذر مردود ہے۔ اس سے فلموں ، ڈراموں ، خصوصاً کامیڈی ڈراموں میں بولے جانے والے کفریات کا حکم سمجھا جاسکتا ہے۔

{اِنْ نَّعْفُ عَنْ طَآىٕفَةٍ مِّنْكُمْ:اگر ہم تم میں سے کسی کو معاف کر (بھی) دیں۔}یعنی اگر ہم تم میں سے کسی کو اس کے توبہ کرنے اور اخلاص کے ساتھ ایمان لانے کی وجہ سے معاف کر بھی دیں تو توبہ نہ کرنے والے گروہ کو ضرور عذاب دیں گے۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۶، ص۴۴۳)

حضرت محمد بن اسحٰق رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا قول ہے کہ یہاں جس شخص کی معافی کی بات ہورہی ہے اس سے وہی شخص مراد ہے جو ہنستا تھا مگر اس نے اپنی زبان سے کوئی گستاخی کا کلمہ نہ کہا تھا۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس نے توبہ کی اور اخلاص کے ساتھ ایمان لایا۔ اس نے دعا کی کہ یارب! عَزَّوَجَلَّ، مجھے اپنی راہ میں مقتول کرکے ایسی موت دے کہ کوئی یہ کہنے والا نہ ہو کہ میں نے غسل دیا، میں نے کفن دیا، میں نے دفن کیا ۔چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ وہ جنگِ یمامہ میں شہید ہوئے اور ان کا پتہ ہی نہ چلا۔ ان کا نام حضرت یحییٰ بن حمیر اشجعی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ تھا اور چونکہ انہوں نے حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بدگوئی سے زبان روکی تھی اس لئے انہیں توبہ و ایمان کی توفیق ملی ۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۶، ۲ / ۲۵۸)

اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتُ بَعْضُهُمْ مِّنْۢ بَعْضٍۘ-یَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْكَرِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ وَ یَقْبِضُوْنَ اَیْدِیَهُمْؕ-نَسُوا اللّٰهَ فَنَسِیَهُمْؕ-اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ(67)وَعَدَ اللّٰهُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتِ وَ الْكُفَّارَ نَارَ جَهَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-هِیَ حَسْبُهُمْۚ-وَ لَعَنَهُمُ اللّٰهُۚ-وَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّقِیْمٌ(68)

ترجمہ: منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک ہی ہیں ، برائی کا حکم دیتے ہیں اور بھلائی سے منع کرتے ہیں اور اپنے ہاتھ بند رکھتے ہیں ۔ انہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اس نے انہیں چھوڑ دیا ۔بیشک منافقین ہی نافرمان ہیں ۔ اللہ نے منافق مردوں اور منافق عورتوں اور کافروں سے جہنم کی آگ کا وعدہ کیا ہے جس میں یہ ہمیشہ رہیں گے، وہ (جہنم) انہیں کافی ہے اور اللہ نے ان پر لعنت فرمائی اور ان کے لیے ہمیشہ رہنے والا عذاب ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتُ:منافق مرد اور منافق عورتیں۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ منافق مرد اور منافق عورتیں  سب نِفاق اور اَعمالِ خبیثہ میں یکساں ہیں ان کا حال یہ ہے کہ کفر و مَعْصِیَت اور رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تکذیب کا حکم دیتے ہیں اور ایمان وطاعت ا ور تصدیقِ رسول سے منع کرتے ہیں اورراہِ خدا میں خرچ کرنے سے اپنے ہاتھ بند رکھتے ہیں ،انہوں نے اللہ تعالیٰ کو بھلا دیا اور انہوں نے اس کی اطاعت و رضا طلبی نہ کی تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے انہیں چھوڑ دیا اور ثواب و فضل سے محروم کردیا، بیشک وہی نافرمان ہیں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۷، ۲ / ۲۵۸)

 برائی کا حکم دینا اور بھلائی سے منع کرنا منافق کا کام ہے:

اس آیت سے معلوم ہوا کہ برائی کا حکم دینا اور بھلائی سے منع کرنا منافق کا کام ہے۔ افسوس کہ ہمارے زمانے میں یہ چیز گھر گھر دیکھنے میں آرہی ہے کہ گھر والوں کو گناہ کرنے کی ترغیب دی جاتی اور ان کے سامنے گناہوں کو معمولی قرار دے کر انہیں مزید گناہوں پر ابھارا جاتا ہے جیسے نماز اور روزے کی پابندی کرنے سے روکا جاتا اور ان کے بارے میں اس طرح کلام کیاجا تا ہے جیسے ان کی خاص اہمیت نہ ہو۔ ٹی وی پر کوئی من پسند ڈرامہ یا فلم آ رہی ہو تو دوسروں کے سامنے ان کی خوبیاں بیان کر کے انہیں بھی وہ ڈرامہ یا فلم دیکھنے کے لئے بلا یا جاتا ہے۔ فلموں ، ڈراموں اور ٹی وی کے بے حیائی عام کرنے اور مسلمانوں کے دینی اور مذہبی عقائد و معمولات کو مَجروح کرنے والے پروگراموں کو دیکھنے کے لئے نت نئے انداز سے ایک دوسرے کومائل کیا جاتا ہے۔ بے حیائی اور عُریانی پر مَبنی لباسوں کو فیشن اور سوسائٹی کا تقاضا بتا کر انہیں پہننے کی ترغیب دی جاتی ہے ۔ والدین اپنی اولاد کو ماڈرن اور آزاد خیال دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور مذہبی حلیے میں دیکھ کر تکلیف محسوس کرتے ہیں۔ کوئی داڑھی رکھ لے اور مذہبی شکل و صورت بنالے تو والدین اس سے ناراض ہوتے ہیں اور اسے گناہوں کی طرف جانے پر مجبور کرتے ہیں جبکہ اگر کوئی رشوت اور سود کا مال لا کر گھر میں خوشحالی لاتا ہے تواس سے خوش ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے درج ذیل حدیثِ پاک میں بڑی عبرت ہے،  حضرت ابوامامہ باہلی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جب تمہاری عورتیں سرکشی کریں گی، تمہارے نوجوان فاسق ہوجائیں گے اور تم جہاد چھوڑ دو گے تو اس وقت تمہارا کیا حال ہو گا؟ صحابۂ  کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی :یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا ایسا ہو گا؟ آپ نے ارشاد فرمایا ’’اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، اس سے بھی زیادہ سخت ہو گا۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی:یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اس سے زیادہ سخت کیا ہوگا ارشاد فرمایا’’ تمہارا کیا حال ہو گا جب تم نیکی کا حکم نہیں دو گے اور برائی سے نہیں روکو گے۔ صحابۂ  کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عر ض کی: یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا ایسا ہو گا؟ ارشاد فرمایا ’’ہاں ! اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، اس سے بھی زیادہ سخت ہو گا۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی : یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اس سے زیادہ سخت کیاہو گا؟ ارشاد فرمایا’’اس وقت تمہارا کیا حال ہو گا جب تم نیکی کو برائی اور برائی کو نیکی سمجھو گے؟ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی:یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا ایسا ہو گا؟ ارشاد فرمایا ’’اس ذات کی قسم ! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، اس سے بھی زیادہ سخت ہو گا۔ انہوں نے عرض کی: اس سے زیادہ سخت کیا ہو گا؟ ارشاد فرمایا ’’اس وقت تمہارا کیا حال ہو گا جب تم برائی کا حکم دو گے اور نیکی سے روکو گے۔ صحابۂ  کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی : یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا اس طرح ہو گا؟ ارشاد فرمایا ’’ہاں ! اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، اس سے بھی زیادہ سخت ہو گا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’مجھے اپنی قسم ہے، میں ان پر ایسا فتنہ مقرر کروں گا کہ اس میں سمجھدار لوگ بھی حیران رہ جائیں گے۔ (احیاء علوم الدین، کتاب الامر بالمعروف والنہی عن المنکر، الباب الاول فی وجوب الامر بالمعروف والنہی عن المنکر ۔۔۔ الخ، ۲ / ۳۸۰)

            اللہ تعالیٰ ہمیں منافقت کی اس علامت سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

{وَعَدَ اللّٰهُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتِ:اللہ نے منافق مردوں اور منافق عورتوں سے وعدہ کیا ہے۔} اس سے پہلی آیات میں منافقوں کے برے اعمال بیان کئے گئے اور اس آیت میں ان کی سزا بیان کی گئی ہے کہ وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ رہیں گے اور عذاب وسزا کے طور پر جہنم انہیں کافی ہے ،اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی رحمت سے دور کر دیا اور ان کے لئے ہمیشہ رہنے والا عذاب ہے۔

كَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ كَانُوْۤا اَشَدَّ مِنْكُمْ قُوَّةً وَّ اَكْثَرَ اَمْوَالًا وَّ اَوْلَادًاؕ-فَاسْتَمْتَعُوْا بِخَلَاقِهِمْ فَاسْتَمْتَعْتُمْ بِخَلَاقِكُمْ كَمَا اسْتَمْتَعَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ بِخَلَاقِهِمْ وَ خُضْتُمْ كَالَّذِیْ خَاضُوْاؕ-اُولٰٓىٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ(69)

ترجمہ: ۔ (اے منافقو!) جس طرح تم سے پہلے لوگ تم سے قوت میں زیادہ مضبوط اور مال اور اولاد کی کثرت میں تم سے بڑھ کر تھے پھر انہوں نے اپنے (دنیا کے) حصے سے لطف اٹھایا تو تم بھی ویسے ہی اپنے حصے سے لطف اٹھالو جیسے تم سے پہلے والوں نے اپنے حصوں سے فائدہ حاصل کیا اور تم اسی طرح بیہودگی میں پڑگئے جیسے وہ بیہودگی میں پڑے تھے۔ ان لوگوں کے تمام اعمال دنیا و آخرت میں برباد ہوگئے اور وہی لوگ گھاٹے میں ہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{كَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ:جس طرح تم سے پہلے لوگ۔} یعنی اے منافقو! تم گزشتہ زمانے کے ان لوگوں کی طرح ہو جو قوت میں تم سے زیادہ مضبوط اور مال و اولاد کی کثرت میں تم سے بڑھ کر تھے پھر انہوں نے اپنی دنیوی لذتوں اور شہوتوں کے حصے سے لطف اٹھایا ۔ اے منافقو! تم بھی ویسے ہی اپنے حصے سے لطف اٹھالو اور جو موج مستی کرنی ہے کرلو۔ یہ سارا کلام انہیں ڈانٹ ڈپٹ اور دھمکی کے طور پر ہے۔ مزید فرمایا کہ جیسے پہلے لوگ بیہودگی میں پڑے ہوئے تھے تم بھی اسی طرح بیہودگی میں پڑگئے اور تم نے باطل کی اتباع کی اور اللہ عَزَّوَجَلَّ اورا س کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تکذیب اور مؤمنین کے ساتھ اِستہزاء کرنے میں ان کی رَوِش اختیار کر لی، جس کے نتیجے میں ان لوگوں کے تمام اَعمال دنیا و آخرت میں برباد ہوگئے اوروہ اس کی وجہ سے خسارے میں پڑگئے، اور اب انہیں کفار کی طرح اے منافقین تم بھی گھاٹے میں ہو اور تمہارے عمل باطل ہیں۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۹، ۲ / ۲۵۸-۲۵۹، ملخصاً)

مال و دولت اور افرادی قوت کی زیادتی کامیابی کی علامت نہیں 

            اس  آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دنیوی مال ودولت کی کثرت اور افرادی قوت کی زیادتی کوئی کامیابی کی علامت نہیں بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں کامیابی ایمان اور تقویٰ و پرہیزگاری کے ساتھ ہے۔ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ مَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُكُمْ بِالَّتِیْ تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفٰۤى اِلَّا مَنْ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا٘-فَاُولٰٓىٕكَ لَهُمْ جَزَآءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوْا وَ هُمْ فِی الْغُرُفٰتِ اٰمِنُوْنَ‘‘ (سبا:۳۷)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور تمہارے مال اور تمہاری اولاد اس قابل نہیں کہ تمہیں ہمارے قریب کردیں مگر وہ جو ایمان لایا اور اس نے نیک عمل کیا (وہ ہمارے قریب ہے) ان لوگوں کے لیے ان کے اعمال کے بدلے میں کئی گنا جزا ہے اور وہ(جنت کے) بالاخانوں میں امن وچین سے ہوں گے۔

اَلَمْ یَاْتِهِمْ نَبَاُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ عَادٍ وَّ ثَمُوْدَ ﳔ وَ قَوْمِ اِبْرٰهِیْمَ وَ اَصْحٰبِ مَدْیَنَ وَ الْمُؤْتَفِكٰتِؕ-اَتَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِۚ-فَمَا كَانَ اللّٰهُ لِیَظْلِمَهُمْ وَ لٰـكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ(70)

ترجمہ: کیا ان کے پاس ان سے پہلے لوگوں (یعنی) قومِ نوح اور عاد اور ثمود اور قومِ ابراہیم اور مدین اور الٹ جانے والی بستیوں کے مکینوں کی خبر نہ آئی؟ ان کے پاس اُن کے رسول روشن نشانیاں لے کر تشریف لائے تو اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہ تھا بلکہ وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کررہے تھے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَمْ یَاْتِهِمْ نَبَاُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ:کیاان کے پاس ان سے پہلے لوگوں کی خبر نہ آئی۔} یعنی منافقوں کو گزری ہوئی امتوں کا حال معلوم نہ ہوا کہ ہم نے انہیں اپنے حکم کی مخالفت اور اپنے رسولوں کی نافرمانی کرنے پر کس طرح ہلاک کیا۔ قومِ نوح جو طوفان سے ہلاک کی گئی اور قومِ عاد جو ہوا سے ہلاک کئے گئے  اور قومِ ثمود جو زلزلہ سے ہلاک کئے گئے  اور قومِ ابراہیم جو سَلب ِ نعمت سے ہلاک کی گئی اور نمرود مچھر سے ہلاک کیا گیا اور مدین والے یعنی حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم جوبادل والے دن کے عذاب سے ہلاک کی گئی اور وہ بستیاں کہ الٹ دی گئیں اور زیرو زبر کر ڈالی گئیں وہ قومِ لوط کی بستیاں تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان چھ کا ذکر فرمایا اس لئے کہ بلادِ شام و عراق و یمن جو سرزمینِ عرب کے بالکل قریب ہیں ان میں ان ہلاک شدہ قوموں کے نشان باقی ہیں اور عرب لوگ ان مقامات پر اکثر گزرتے رہتے ہیں۔

مزید ارشاد فرمایا کہ ان کے پاس ان کے رسول روشن نشانیاں لے کر تشریف لائے تھے اور ان لوگوں نے تصدیق کرنے کی بجائے اپنے رسولوں کی تکذیب کی جیسا کہ اے منافقو! تم کررہے ہو، لہٰذا تم اس بات سے ڈرو کہ کہیں انہیں کی طرح مبتلائے عذاب نہ کردئیے جائو۔ سابقہ لوگ اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے برباد ہوئے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ ان پر ظلم کرنے والا نہ تھاکیونکہ وہ حکیم ہے ،بغیر جرم کے سزا نہیں فرماتا بلکہ لوگ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کررہے تھے کہ کفر کر کے او ر انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نہ مان کر عذاب کے مستحق بنے۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۰، ۲ / ۲۵۹، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۰، ص۴۴۴، ملتقطاً)

وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍۘ-یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ یُطِیْعُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ-اُولٰٓىٕكَ سَیَرْحَمُهُمُ اللّٰهُؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ(71)

ترجمہ: اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں ، بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانتے ہیں ۔ یہ وہ ہیں جن پر عنقریب اللہ رحم فرمائے گا۔ بیشک اللہ غالب حکمت والا ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ:اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کے خبیث اَعمال اور فاسد اَحوال بیان فرمائے، پھراس عذاب کا بیان فرمایا جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے دنیاو آخرت میں تیار کیا اور اِس آیت سے مومنوں کے اوصاف، ان کے اچھے اعمال اور ان کے اس اجر و ثواب کو بیان فرمایا جو اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت میں ان کے لئے تیار فرمایا ہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ، آپس میں دینی محبت والفت رکھتے اور ایک دوسرے کے معین و مددگار ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے اور شریعت کی اتباع کرنے کا حکم دیتے ہیں اور شرک و معصیت سے منع کرتے ہیں۔ فرض نمازیں ان کے حدود و اَرکان پورے کرتے ہوئے ادا کرتے ہیں۔  اپنے اوپر واجب ہونے والی زکوٰۃ دیتے ہیں اور ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حکم مانتے ہیں۔ان صفات سے مُتَّصِف مومن مرد اور عورتیں وہ ہیں جن پر عنقریب اللہ تعالیٰ رحم فرماے گا اور انہیں دردناک عذاب سے نجات دے گا۔ بیشک اللہ تعالیٰ غالب اور حکمت والا ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۱، ۲ / ۲۵۹-۲۶۰)

 مسلمانوں اور منافقوں کے اَوصاف

            اس آیت سے تین آیات پہلے منافق مردوں اور منافقہ عورتوں کے4 اَوصاف بیان ہوئے

(1)… یہ  سب نفاق اور اعمالِ خبیثہ میں یکساں ہیں۔

(2)…یہ کفر و معصیت اور رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تکذیب کا حکم دیتے ہیں ، یونہی برائی کا حکم دیتے ہیں اور نیکی سے منع کرتے ہیں۔

(3)…ایمان وطاعت ا ور تصدیقِ رسول سے منع کرتے ہیں۔

(4)…راہِ خدا میں خرچ کرنے سے اپنے ہاتھ بند رکھتے ہیں۔

            اورمذکورہ بالا آیت میں مومنوں کے5 اَوصاف بیان کئے گئے

(1)…وہ ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔

(2)…بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں۔

(3)…نماز قائم کرتے ہیں۔

(4)… زکوٰۃ دیتے ہیں۔

(5)…اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حکم مانتے ہیں۔

                منافقوں اور مخلص ایمان والوں کے اوصاف کوسامنے رکھتے ہوئے عمومی طور پر تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ غور کریں کہ ان کے اعمال کن لوگوں کے ساتھ ملتے ہیں ؟ اگر ان کے اعمال مخلص ایمان والوں کے ساتھ ملتے ہیں تووہ اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا شکر ادا کریں اور اگراعمال منافقوں کے ساتھ ملتے ہوں تو انہیں چاہئے کہ اپنی عملی حالت درست کرنے کی بھر پور کوشش کریں اور مخلص ایمان والوں جیسے اوصاف اپنائیں تاکہ وہ منافقوں کے بارے میں بیان کی گئی وعید میں داخل ہونے سے بچ سکیں۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

مسلمانوں کا اتحاد اور اتفاق:

            اس آیت میں بیان ہوا کہ مسلمان ایک دوسرے کے رفیق اور معین ومددگار ہیں اور حدیثِ پاک میں بیان ہوا کہ مسلمان اتفاق اور اتحاد میں ایک عمارت کی طرح ہیں ، چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فر مایا ’’سارے مسلمان ایک عمارت کی طرح ہیں جس کا ایک حصہ دوسرے کو طاقت پہنچاتا ہے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی انگلیوں میں انگلیاں ڈالیں۔ (بخاری، کتاب المظالم والغصب، باب نصر المظلوم، ۲ / ۱۲۷، الحدیث: ۲۴۴۶)

            اور حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’مسلمانوں کی آپس میں دوستی، رحمت اور شفقت کی مثال جسم کی طرح ہے، جب جسم کا کوئی عُضْو بیمار ہوتا ہے تو بخار اور بے خوابی میں سارا جسم اس کا شریک ہو جاتاہے۔ (مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والآداب، باب تراحم المؤمنین وتعاطفہم۔۔۔ الخ، ص۱۳۹۶، الحدیث: ۶۶(۲۵۸۶))

            اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اتفاق اور اتحاد کی اہمیت کو سمجھنے اورآپس میں متفق و متحد ہونے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔

نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کی ضرورت

            اس آیت میں ایمان والوں کا ایک وصف یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے ہیں۔ فی زمانہ اس کام کی ضرورت بڑھتی جارہی ہے کیونکہ آج کے دور میں مسلمانوں کی بھاری اکثریت بے عملی کا شکار ہے، نیکیاں کرنا، نفس کے لئے بے حد دشوار جبکہ گناہ کا اِرتکاب کرنا بہت آسان ہو چکا ہے، مسجدوں کی ویرانی، سینما گھروں اور ڈرامہ گاہوں کی رونق، دین کا درد رکھنے والوں کو رُلا دیتی ہے، ڈش انٹینا اور کیبل کے ذریعے ٹی وی اور انٹر نیٹ کا غلط استعمال کرنے والوں نے گویا اپنی آنکھوں سے حیا دھو ڈالی ہے، ضروریات کی تکمیل اور سہولیات کے حصول کی حد سے زیادہ جدو جہد نے مسلمانوں کی بھاری تعداد کو آخرت کی فکر سے غافل کر دیا ہے ،گالی دینا، تہمت لگانا، بد گمانی کرنا، غیبت کرنا، چغلی کھانا، لوگوں کے عیب جاننے کی جستجو میں رہنا، لوگوں کے عیب اچھالنا، جھوٹ بولنا، جھوٹے وعدے کرنا، کسی کا مال ناحق کھانا، خون بہانا، کسی کو شرعی اجازت کے بغیر تکلیف دینا، کسی کا قرض دبا لینا، کسی کی چیز وقتی طور پر لے کر واپس نہ کرنا، مسلمانوں کو برے القاب سے پکارنا، کسی کی چیز اسے ناگوار گزرنے کے باوجود اجازت کے بغیر استعمال کرنا، شراب پینا، جوا کھیلنا، چوری کرنا، زنا کرنا، فلمیں ڈرامے دیکھنا، گانے باجے سننا، سود اور رشوت کا لین دین کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا اور انہیں ستانا، امانت میں خیانت کرنا، بد نگاہی کرنا، عورتوں کا مردوں اور مردوں کا عورتوں کی نقالی کرنا، بے پردگی، غرور، تکبر ، حسد،ریا کاری، اپنے دل میں کسی مسلمان کا بغض و کینہ رکھنا، غصہ آجانے پر شریعت کی حد توڑ ڈالنا، گناہوں کی حرص ،حُب ِجاہ، بخل اور خود پسندی وغیرہ معاملات ہمارے معاشرے میں بڑی بے باکی کے ساتھ کئے جاتے ہیں حتّٰی کہ بظاہر نیک نظر آنے والے کسی شخص کے قریب جائیں تو وہ بھی بسا اوقات عقیدے کی خرابی، زبان کی بے احتیاطی، بد نگاہی اور بد اَخلاقی وغیرہ کی آفتوں میں مبتلا نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کا، جذبہ ،ہمت اور توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔

وَعَدَ اللّٰهُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا وَ مَسٰكِنَ طَیِّبَةً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍؕ-وَ رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰهِ اَكْبَرُؕ-ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(72)

ترجمہ:

اللہ نے مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں سے جنتوں کا وعدہ فرمایا ہے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ، ان میں ہمیشہ رہیں گے اور عدن کے باغات میں پاکیزہ رہائشوں کا (وعدہ فرمایا ہے) اوراللہ کی رضا سب سے بڑی چیز ہے۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔

 کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَعَدَ اللّٰهُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ:اللہ نے مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں سے جنتوں کا وعدہ فرمایا ہے۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کے بارے میں وعیدیں اور ان کے لئے تیار کردہ جہنم کے عذاب کا ذکر فرمایا اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مومنین سے جس ثواب اور جزاء کا وعدہ فرمایا، اسے ذکر فرمایا ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۲، ۲ / ۲۶۰)

{فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ: عدن کے باغات میں۔} ایک قول یہ ہے کہ ’’عَدن‘‘ جنت میں ایک خاص جگہ کا نام ہے اور ایک قول یہ ہے کہ عدن جنت کی صفت ہے۔ (تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۲، ۶ / ۱۰۲)

آٹھ جنتوں کے اَسماء

             حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے ایک روایت یہ ہے کہ جنتیں آٹھ ہیں اورا ن کے نام یہ ہیں (1) دارُ الجلال۔ (2) دارُ القرار ۔ (3) دارُ السّلام۔ (4) جنتِ عدن۔ (5) جنتِ مأویٰ۔ (6) جنتِ خُلد۔ (7) جنت فردوس۔ (8) جنتِ نعیم۔(روح البیان، الصف، تحت الآیۃ: ۱۲، ۹ / ۵۰۸)

جنتِ عدن اور اس کی نعمتیں :

            جنت عدن کے بارے میں حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ نے جنتِ عدن کو اپنے دستِ قدرت سے پیدا فرمایا، اس کی ایک اینٹ سفید موتی کی ہے، ایک سرخ یاقوت کی اور ایک سبز زبرجد کی ہے، مشک کا گارا ہے، اس کی گھاس زعفران کی ہے، موتی کی کنکریاں اور عنبر کی مٹی ہے۔ (ابن ابی دنیا،صفۃ الجنۃ، ۶ / ۳۱۹، الحدیث: ۲۰)

            حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جب اللہ تعالیٰ نے جنتِ عد ن کو پیدا فرمایا تو اس میں وہ چیزیں پیدا فرمائیں جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال آیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جنت عدن سے فرمایا ’’ مجھ سے کلام کر۔ اس نے کہا ’’ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ‘‘ بیشک ایمان والے کامیاب ہوگئے۔ (معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ احمد، ۱ / ۲۱۵، الحدیث: ۷۳۸)

{ وَ رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰهِ اَكْبَرُ:اور اللہ کی رضا سب سے بڑی ہے۔} یعنی جنت کی نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت یہ ہوگی کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ جنتیوں سے راضی ہو گا ۔کبھی نا راض نہ ہوگا ۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۲، ۲ / ۲۶۱)

            یہ نعمت تمام نعمتوں سے اعلیٰ اور عاشقانِ الٰہی کی سب سے بڑی تمنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اللہ تعالیٰ کا دیدار کسی عمل کا بد لہ نہ ہو گا بلکہ یہ خاص رب عَزَّوَجَلَّ کا عطیہ ہو گا۔ ’’ رَزَقَنَا اللہُ تَعَالٰی بِجَاہِ حَبِیْبِہٖ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم‘‘

دنیا میں اللہ تعالیٰ کے راضی ہونے کی علامت

            کسی بندے سے دنیا میں اللہ تعالیٰ کے راضی ہونے کی ایک علا مت یہ ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کے نیک بندےراضی ہوں اور اسے نیک اعمال کی توفیق ملے ۔ جب اللہ عَزَّوَجَلَّ کسی سے راضی ہوتا ہے تو فر شتوں میں اعلان ہوتا ہے کہ ہم اس سے راضی ہیں تم بھی اس سے راضی ہو جاؤ پھر تما م زمین والوں کے دلوں میں اس کی محبت پڑ جا تی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کو ند اکی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت رکھتا ہے لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو۔ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام اس سے محبت کرتے ہیں۔ پھر حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام آسمانی مخلوق میں ندا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت فرماتا ہے لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو، چنانچہ آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں ، پھر زمین والوں (کے دلوں)  میں اس کی مقبولیت رکھ دی جاتی ہے۔ (بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ، ۲ / ۳۸۲، الحدیث: ۳۲۰۹)

            اس سے معلوم ہوا کہ بزر گا نِ دین کی طرف دلو ں کا مائل ہونا ان کے محبوبِ الٰہی ہونے کی علامت ہے ۔

یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ اغْلُظْ عَلَیْهِمْؕ-وَ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُؕ-وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ(73)

ترجمہ: اے غیب کی خبریں دینے والے نبی! کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو اور ان پر سختی کرو اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور کتنی بری پلٹنے کی جگہ ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ:اے غیب کی خبریں دینے والے نبی!} اس سے معلوم ہوا کہ حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نام لے کر نہ پکارا جائے بلکہ اچھے القاب سے پکارا جائے جب خداوند ِ قدوس عَزَّوَجَلَّ ان کو نام لے کر نہیں پکارتا تو ہم کس شمار میں ہیں۔ ایک مقام پر اللہتعالیٰ واضح طور پرفرماتا ہے۔

’’ لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ‘‘ (النور :۶۳)

ترجمۂ  کنزُالعِرفان: (اے لوگو!) رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا (معمولی) نہ بنالو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے۔

{جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ:کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو۔} یعنی کافروں پر تو تلوار اور جنگ سے اور منافقوں پر حجت قائم کرنے سے جہاد کرو اور ان سب پر سختی کرو۔ حضرت عبداللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ہر وہ شخص جس کے عقیدے میں فساد ہو اس کے بارے میں بھی یہی حکم ہے کہ حجت و دلائل کے ساتھ اس سے جہاد کیا جائے اور جتنا ممکن ہو اس کے ساتھ سختی کا برتاؤ کیا جائے۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۳، ص۴۴۵)

 دین کیلئے کی جانے والی ہر کوشش جہاد ہے:

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جہاد صرف لڑائی کی شکل میں نہیں ہوتا بلکہ دین کیلئے کی جانے والی ہر کوشش جہاد ہے خواہ وہ زبان یا قلم سے ہو۔ یہ بھی واضح ہوا کہ جو علماء ،دینِ حق اور عقیدہ ِ صحیحہ کے تحفظ و بَقا کیلئے تقریر وتحریر کے ذریعے کوشش کرتے ہیں وہ سب مجاہدین ہیں اور اِس آیتِ مبارکہ پر عمل کرنے والے ہیں۔ اس میں مصنفین اور صحیح مقررین کیلئے بڑی بشارت و فضیلت ہے۔

دین کے دشمنوں پر سختی کرنے کا حکم:

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کافروں اور منافقوں پر سختی کرنے کا حکم دیا، اس سے معلوم ہوا کہ دین و ایمان کے دشمنوں پر سختی کرنا اَخلاقیات اور اسلامی تعلیمات کے منافی نہیں اور نہ ہی یہ شدت پسندی ہے بلکہ یہ عین اسلام کی تعلیمات اوراللہ تعالیٰ کا حکم ہے البتہ بے جا کی سختی یا اسلامی تعلیمات کے منافی قتل و غارت گری ضرور حرام ہے جیسے آج کل مسلک کے نام پر ایک دوسرے کو قتل کرنے کی مہم جاری ہے۔

یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ مَا قَالُوْاؕ-وَ لَقَدْ قَالُوْا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَ كَفَرُوْا بَعْدَ اِسْلَامِهِمْ وَ هَمُّوْا بِمَا لَمْ یَنَالُوْاۚ-وَ مَا نَقَمُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ اَغْنٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ مِنْ فَضْلِهٖۚ-فَاِنْ یَّتُوْبُوْا یَكُ خَیْرًا لَّهُمْۚ-وَ اِنْ یَّتَوَلَّوْا یُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ عَذَابًا اَلِیْمًاۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِۚ-وَ مَا لَهُمْ فِی الْاَرْضِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیْرٍ(74)

ترجمہ: منافقین اللہ کی قسم کھاتے ہیں کہ انہوں نے کچھ نہ کہا حالانکہ انہوں نے یقینا کفریہ کلمہ کہا اور وہ اپنے اسلام کے بعد کافر ہوگئے اور انہوں نے اس چیز کا قصد و اِرادہ کیا جو انہیں نہ ملی اور انہیں یہی برا لگا کہ اللہ اور اس کے رسول نے انہیں اپنے فضل سے غنی کردیا تو اگر وہ توبہ کریں تو ان کے لئے بہتر ہوگا اور اگر وہ منہ پھیریں تو اللہ انہیں دنیا اور آخرت میں سخت عذاب دے گا اور ان کے لئے زمین میں نہ کوئی حمایتی ہوگا اور نہ مددگار۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ:اللہ کی قسم کھاتے ہیں۔} شانِ نزول: امام بغوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے کلبی سے نقل کیا کہ یہ آیت جُلَّاسْ بن سُوَید کے بارے میں نازل ہوئی۔ واقعہ یہ تھا کہ ایک روز سرور ِعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تبوک میں خطبہ فرمایا اس میں منافقین کا ذکر کیا اور ان کی بدحالی و بدما ٓلی کا ذکر فرمایا: یہ سن کر جُلَّاسْ نے کہا کہ اگر محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) سچے ہیں تو ہم لوگ گد ھوں سے بدتر ہیں۔ جب حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مدینہ واپس تشریف لائے تو حضرت عامر بن قیس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جُلَّاسْ کا مقولہ بیان کیا۔ جُلَّاسْ نے انکار کیا اور کہا کہ یا رسولَ اللہ ! عامر نے مجھ پر جھوٹ بولا ہے۔ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے د⁞ونوں کو حکم فرمایا کہ منبر کے پاس قسم کھائیں۔ جُلَّاسْ نے عصر کے بعد منبر کے پاس کھڑے ہو کر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم کھائی کہ یہ بات اس نے نہیں کہی اور عامر نے اس پر جھوٹ بولا پھر حضرت عامر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کھڑے ہو کر قسم کھائی کہ بے شک یہ مقولہ جُلَّاس نے کہا اور میں نے اس پر جھوٹ نہیں بولا ۔حضرت عامر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی: یارب! عَزَّوَجَلَّ، اپنے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر سچے آدمی کی تصدیق نازل فرما۔ ان دونوں کے جدا ہونے سے پہلے ہی حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام یہ آیت لے کر نازل ہوئے۔ آیت میں ’’فَاِنْ یَّتُوْبُوْا یَكُ خَیْرًا لَّهُمْ‘‘ سن کر   جُلَّاسْ کھڑے ہوگئے اور عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، سنئے، اللہ تعالیٰ نے مجھے توبہ کا موقع دیا، حضرت عامر بن قیس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جو کچھ کہا سچ کہا اور میں نے وہ کلمہ کہا تھا اور اب میں توبہ و استغفار کرتا ہوں۔ رحمتِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کی توبہ قبول فرمائی اور وہ توبہ پر ثابت رہے۔ (بغوی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۴، ۲ / ۲۶۳)اس آیت میں جمع کے صیغے ذکر کئے گئے حالانکہ توہین آمیز بات کہنے والا شخص ایک تھا، اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ باقی منافق اس بات پر راضی ہونے کی وجہ سے کہنے والے کی طرح ہیں۔ (روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۴، ۳ / ۴۶۷)

{وَ هَمُّوْا بِمَا لَمْ یَنَالُوْا:اور انہوں نے اس چیز کا قصد و ارادہ کیا جو انہیں نہ ملی۔} ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد منافقین کا نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سواری سے گرانے کا ارادہ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ پندرہ کے قریب منافقین کے ایک گروہ نے یہ منصوبہ بنایا تھا کہ تبوک سے واپسی پر رات کے اندھیرے میں کسی گھاٹی پر نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ان کی سواری سے گرا کے شہید کردیا جائے۔ حضرت حذیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سواری پیچھے سے ہانک رہے تھے اور حضرت عمار بن یاسر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سواری کی لگام تھامے آگے چل رہے تھے۔ اسی دوران جب حضرت حذیفہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اونٹوں اور اسلحے کی آواز سنی توانہوں نے پکار کر کہا کہ اے اللہ عَزَّوَجَلَّ  کے دشمنو! دور ہو جاؤ، دور ہو جاؤ۔ یہ سن کر منافقین بھاگ گئے۔ (بیضاوی، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۷۴، ۳ / ۱۵۸-۱۵۹)

            ایک قول یہ ہے کہ منافقین نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رضا کے بغیر عبداللہ بن اُبی کی تاج پوشی کا ارادہ کیا تھا اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انہوں نے جس چیز کا قصد و ارادہ کیا تھا وہ انہیں نہ ملی۔ (ابو سعود، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۷۴، ۲ / ۴۲۸)

            امام مجاہد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جلاس نے افشائے راز کے اندیشہ سے حضرت عامر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے قتل کا ارادہ کیا تھا اس کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ پورا نہ ہوا ۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۴، ۲ / ۲۶۲)

{اَغْنٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ مِنْ فَضْلِهٖ:اللہ اور اس کے رسول نے انہیں اپنے فضل سے غنی کردیا۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مدینہ منورہ تشریف آوری سے پہلے یہ منافق تنگدستی کی حالت میں زندگی بسر کرتے تھے ۔ جب مدینہ منورہ میں رحمتِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی آمد ہوئی تو ان کے صدقے غنیمت میں مال و دولت پا کر یہ منافق خوشحال ہو گئے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ جُلَّاسْ  کا غلام قتل کر دیا گیا تو نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بارہ ہزار درہم اس کی دِیَت ادا کرنے کا حکم دیا تو دیت پا کر وہ غنی گیا۔ (تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۴، ۶ / ۱۰۴)

            یہاں آیت میں غنی کرنے کی نسبت اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف کی گئی ہے۔ اس پر تفصیلی کلام اسی سورت کی آیت نمبر 62 کی تفسیر میں گزر چکا ہے۔

وَ مِنْهُمْ مَّنْ عٰهَدَ اللّٰهَ لَىٕنْ اٰتٰىنَا مِنْ فَضْلِهٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(75)فَلَمَّاۤ اٰتٰىهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖ بَخِلُوْا بِهٖ وَ تَوَلَّوْا وَّ هُمْ مُّعْرِضُوْنَ(76)

ترجمہ: اور ان میں کچھ وہ ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا ہوا ہے کہ اگراللہ ہمیں اپنے فضل سے دے گا تو ہم ضرور صدقہ دیں گے اور ہم ضرور صالحین میں سے ہوجائیں گے۔پھر جب اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا فرمایا تو اس میں بخل کرنے لگے اور منہ پھیر کر پلٹ گئے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مِنْهُمْ مَّنْ عٰهَدَ اللّٰهَ:اور ان میں کچھ وہ ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا ہوا ہے۔} شانِ نزول: ایک شخص ثعلبہ نے رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے درخواست کی کہ اس کے لئے مالدار ہونے کی دعا فرمائیں۔ حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا :اے ثعلبہ تھوڑا مال جس کا تو شکر ادا کرے اس بہت سے بہتر ہے جس کا شکر ادا نہ کرسکے۔ دوبارہ پھر ثعلبہ نے حاضر ہو کر یہی درخواست کی اور کہا اسی کی قسم جس نے آپ کو سچا نبی بنا کر بھیجا کہ اگر وہ مجھے مال دے گا تو میں ہر حق والے کا حق ادا کروں گا ۔حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دعا فرمائی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کی بکریوں میں برکت فرمائی اور اتنی بڑھیں کہ مدینہ میں ان کی گنجائش نہ ہوئی تو ثعلبہ ان کو لے کر جنگل میں چلا گیا اور جمعہ و جماعت کی حاضری سے بھی محروم ہوگیا۔ حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس کا حال دریافت فرمایا تو صحابۂ  کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کیا کہ اس کا مال بہت کثیر ہوگیا ہے اور اب جنگل میں بھی اس کے مال کی گنجائش نہ رہی۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ ثعلبہ پر افسوس پھر جب حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے زکوٰۃ کے وصول کرنے والے بھیجے تو لوگوں نے انہیں اپنے اپنے صدقات دئیے، جب ثعلبہ سے جا کر انہوں نے صدقہ مانگا اس نے کہا یہ توٹیکس ہوگیا، جاؤ میں پہلے سوچ لوں۔ جب یہ لوگ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں واپس آئے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے کچھ عرض کرنے سے قبل دو مرتبہ فرمایا ، ثعلبہ پر افسوس۔ اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی پھر ثعلبہ صدقہ لے کر حاضر ہوا تو سرورِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کے قبول فرمانے کی ممانعت فرما دی، وہ اپنے سر پر خاک ڈال کر واپس ہوا۔ پھر اس صدقہ کو خلافت صدیقی میں حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس لایا انہوں نے بھی اسے قبول نہ فرمایا۔ پھر خلافت فاروقی میں حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس لایا انہوں نے بھی قبول نہ فرمایا اور خلافتِ عثمانی میں یہ شخص ہلاک ہوگیا۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۵، ص۴۴۶، ملتقطاً)

ثعلبہ کی توبہ کیوں قبول نہ ہوئی:

ثعلبہ کی توبہ اس لئے قبول نہیں ہوئی کہ اس کا توبہ کرنا اور رونا دھونا دل سے نہ تھا بلکہ لوگوں کے درمیان اس کے مردود ہونے کی وجہ سے جو ذلت ہورہی تھی وہ اس سے بچنے کیلئے واویلا کررہا تھا تو چونکہ توبہ صدقِ دل سے نہ تھی اس لئے مقبول نہ ہوئی۔

ثعلبہ کے نام سے متعلق ایک اہم وضاحت

       یہاں ایک وضاحت کردینا مناسب ہے اور وہ یہ کہ تفسیرحدیث اور سیرت کی عام کتب میں اس شخص کا نام ’’ثعلبہ بن حاطب‘‘ لکھا ہو اہے، علامہ ابن حجر عسقلانی اور علامہ ابنِ اثیر جزری کی تحقیق یہ ہے کہ اس شخص کا نام ’’ثعلبہ بن حاطب‘‘ درست نہیں کیونکہ ثعلبہ بن حاطب بدری صحابی ہیں اور وہ جنگ اُحد میں شہید ہو گئے تھے اور بدری صحابہ کے بارے میں قرآن و حدیث میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اس کی روشنی میں دیکھا جائے تو ثعلبہ بن حاطب اس آیت کا مِصداق نہیں ہو سکتے نیز جب وہ جنگ ِ احد میں شہید ہوگئے تو وہ اس کے مِصداق ہوہی نہیں سکتے کہ یہ شخص تو زمانۂ عثمانی میں مرا تھا۔ اس سے ظاہر ہے کہ آیت میں جس شخص کا واقعہ مذکور ہے وہ ثعلبہ بن حاطب کے علاوہ کوئی اور ہے اور تفسیر ابن مردویہ میں مذکور حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت کے مطابق وہ شخص ’’ثعلبہ بن ابو حاطب‘‘تھا۔ علامہ محمد بن یوسف صالحی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ’سبل الہدٰی والرشاد‘‘ میں اور علامہ زبیدی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اتحاف میں اس تحقیق سے اتفاق کیا ہے۔ اسی طرح اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’یہ شخص جس کے باب میں یہ آیت اتری ثعلبہ ابن ابی حاطب ہے اگرچہ یہ بھی قوم اَوس سے تھا اور بعض نے اس کانام بھی ثعلبہ ابن حاطب کہا۔ مگروہ بدری خود زمانۂ اقدس حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں جنگ اُحد میں شہیدہوئے اور یہ منافق زمانۂ خلافت امیرالمومنین عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ میں مرا۔(فتاویٰ رضویہ، فوائد تفسیریہ وعلوم قرآن، ۲۶ / ۴۵۳-۴۵۴)

         اور علامہ شریف الحق امجدی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’صحیح یہ ہے کہ (وہ شخص) ثعلبہ بن ابی حاطب ہے جیسا کہ خازن اور اصابہ میں ہے۔ ثعلبہ بن حاطب بن عمرو صحابیٔ مخلص تھے جو بدر اور اُحد میں شریک ہوئے اور احد میں شہید ہوئے،اور یہ ثعلبہ بن ابی حاطب خلافت عثمانی میں مرا۔ (فتاوی شارح بخاری، عقائد متعلقہ صحابۂ کرام، ۲ / ۴۳)

فَاَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِیْ قُلُوْبِهِمْ اِلٰى یَوْمِ یَلْقَوْنَهٗ بِمَاۤ اَخْلَفُوا اللّٰهَ مَا وَعَدُوْهُ وَ بِمَا كَانُوْا یَكْذِبُوْنَ(77)

ترجمہ: تو اللہ نے انجام کے طور پر اس دن تک کے لئے ان کے دلوں میں منافقت ڈال دی جس دن وہ اس سے ملیں گے کیونکہ انہوں نے اللہ سے وعدہ کرکے وعدہ خلافی کی اور جھوٹ بولتے رہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِیْ قُلُوْبِهِمْ:تو اللہ نے انجام کے طور پر ان کے دلوں میں منافقت ڈال دی۔} امام فخر الدین رازی  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ عہد شکنی اور وعدہ خلافی سے نفاق پیدا ہوتا ہے تو مسلمان پر لازم ہے کہ ان باتوں سے اِحتراز کرے اور عہد پورا کرنے اور وعدہ وفا کرنے میں پوری کوشش کرے۔(تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۷، ۶ / ۱۰۸-۱۰۹)

            حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ منافق کی تین نشانیاں ہیں (1) جب بات کرے جھوٹ بولے۔ (2) جب وعدہ کرے خلاف کرے۔ (3) جب اس کے پاس امانت رکھی جائے خیانت کرے ۔ (بخاری،کتاب الایمان، باب علامۃ المنافق، ۱ / ۲۴،الحدیث: ۳۳)

 آیت ’’ فَاَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِیْ قُلُوْبِهِمْ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس آیت سے مزید 4باتیں یہ معلوم ہوئیں ،

(1)…  بعض گناہ کبھی بد عقیدگی تک پہنچا دیتے ہیں۔

(2)… غریبی میں خداعَزَّوَجَلَّ کو یاد کرنا اور امیری میں بھول جانا منافقت کی علامت ہے۔

(3)… آدمی کا ایمان و تقویٰ سے محروم ہو جانا بھی عذاب ِ الٰہی ہے۔

(4)… حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے وعدہ کرنا اللہ تعالیٰ سے وعدہ کرنا ہے کیونکہ ثعلبہ نے حضو ر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے وعدہ کیا تھا۔

اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے وعدوں سے متعلق مسلمانوں کا حال:

            ثعلبہ کے طرزِ عمل کو سامنے رکھ کر ہم اپنے حالات میں غور کریں تو یہ نظر آئے گا کہ ہم میں بھی بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کے پاس مال نہیں یا کہیں سے مال ملنے کی امید ہے تووہ یہ دعا ئیں کرتے ہیں کہ اے اللہ !عَزَّوَجَلَّ، تو ہمیں مال عطا فرما، ہم اس مال کے ذریعے فلاں نیک کام کریں گے ،اس سے فلاں کی مدد کریں گے اور تیرا دیا ہوا مال غریبوں کی بھلائی اور ان کی بہتری میں خرچ کریں گے ۔ اسی طرح بعض لوگ کسی بڑے مالی نقصان ، شدید بیماری یا حادثے سے بچ جانے کے دوران یا بچ جانے کے بعد اللہ تعالیٰ سے بہت سے وعدے کرتے ہیں کہ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، تو ہماری فلاں مشکل اور پریشانی دور فرما دے اور ہمیں فلاں بیماری یا حادثے کی وجہ سے ہونے والے زخموں سے شفا عطا کردے ، ہم اب کبھی تیری نافرمانی نہیں کریں گے اور تیری فرمانبرداری والے کاموں میں اپنی زندگی بسر کریں گے ،نماز روزے کی پابندی کریں گے، اپنے مالوں کی زکوٰۃ دیں گے، ہم نے جن لوگوں کے حقوق ضائع کئے ہیں وہ پورے کر دیں گے ،خود بھی نیک بنیں گے اور دوسروں کو بھی نیک بنانے کی کوششوں میں مصروف ہوجائیں گے ۔ اسی طرح کچھ لوگ اپنے کسی قریبی عزیز کے اچانک فوت ہوجانے پر دنیا کے عیش و عشرت اور اس کی رنگینیوں سے دور ہونے اور اپنی قبر و آخرت کی تیاری میں مصروف ہونے کے وعدے کرتے ہیں لیکن جب انہیں مال مل جاتا ہے اور ان پر آنے والی مصیبت ٹل جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ انہیں شدید بیماری اور زخمی حالت سے شفا عطا کر دیتا ہے اور قریبی عزیز کے انتقال کو کچھ وقت گزر جاتا ہے تو یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے سب وعدے بھول جاتے ہیں اور مال ملنے کے بعد اسے نیک کاموں میں خرچ کرنے کا سوچتے نہیں اور غریبوں کو اچھی نظر سے دیکھنا تک گوارا نہیں کرتے اور اپنی سابقہ گناہوں بھری زندگی میں مشغول ہو کر قبر و آخرت کی تیاری سے بالکل غافل ہو جاتے ہیں۔قرآن اس طرزِ عمل کو منافقوں کا طرز ِعمل قرار دیتا ہے اور یقینا یہ ایک سچے مسلمان کا کردار نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت نصیب کرے اور انہیں کامل مسلمان بننے کی توفیق عطا کرے،اٰمین۔

اَلَمْ یَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَ نَجْوٰىهُمْ وَ اَنَّ اللّٰهَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ(78)اَلَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِیْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ فِی الصَّدَقٰتِ وَ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ اِلَّا جُهْدَهُمْ فَیَسْخَرُوْنَ مِنْهُمْؕ-سَخِرَ اللّٰهُ مِنْهُمْ٘-وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(79)

ترجمہ: کیا انہیں معلوم نہیں تھا کہ اللہ ان کے دل کی ہرچھپی بات اور ان کی ہر سرگوشی کو جانتا ہے اور یہ کہ اللہ سب غیبوں کو خوب جاننے والا ہے۔ اور وہ جو دل کھول کر خیرات دینے والے مسلمانوں پر اور ان پر جو اپنی محنت مشقت کی بقدر ہی پاتے ہیں عیب لگاتے ہیں پھر ان کا مذاق اڑاتے ہیں تو اللہ انہیں ان کے مذاق اڑانے کی سزا دے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَمْ یَعْلَمُوْا:کیا انہیں معلوم نہیں تھا ۔} یعنی ان منافقین کو معلوم تھا کہ اللہ تعالیٰ پر کچھ مخفی نہیں ، وہ ان کے دلوں کی بات بھی جانتا ہے اور جو آپس میں وہ ایک دوسرے سے کہیں وہ بھی جانتا ہے اور جب اللہ عَزَّوَجَلَّ کی شان یہ ہے کہ وہ ہر چیز کو جانتا ہے تو ان کا حال اللہ تعالیٰ سے کیسے مخفی رہ سکتا تھا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۸، ۲ / ۲۶۵)

{اَلَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ:وہ جو عیب لگاتے ہیں۔} شانِ نزول :جب آیتِ صدقہ نازل ہوئی تو لوگ صدقہ لائے، ان میں بعض بہت زیادہ مال لائے انہیں تو منافقین نے ریا کار کہا اور کوئی تھوڑا سا مال لے کر آیا تو منافقین نے ان کے متعلق کہا: اللہ تعالیٰ کو اس کی کیا پرواہ، (یعنی اتنا تھوڑا دینے کا کیا فائدہ۔) اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ حضرت عبداللہ بن عباس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہے کہ جب رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے لوگوں کو صدقہ کی رغبت دلائی تو حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ چار ہزار درہم لائے اور عرض کیا: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میرا کل مال آٹھ ہزار درہم تھا چار ہزار تویہ راہِ خدا میں حاضر ہے اور چار ہزار میں نے گھر والوں کے لئے روک لئے ہیں۔ حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا جو تم نے دیا اللہ تعالیٰ اس میں برکت فرمائے اور جو روک لیا اس میں بھی برکت فرمائے۔ حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعا کا یہ اثر ہوا کہ ان کا مال بہت بڑھا یہاں تک کہ جب ان کی وفات ہوئی تو انہوں نے دو بیویا ں چھوڑیں ،انہیں آٹھواں حصہ ملا جس کی مقدار ایک لاکھ ساٹھ ہزار درہم تھی۔ حضرت ابو عقیل انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ چار کلو کے قریب کھجوریں لے کر حاضر ہوئے اور انہوں نے بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں عرض کیا کہ’’ میں نے آج رات پانی کھینچنے کی مزدوری کی، اس کی اجرت دو صاع کھجوریں ملیں ، ایک صاع تو میں گھر والوں کے لئے چھوڑ آیا اور ایک صاع راہِ خدا میں حاضر ہے۔ حضوراکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ صدقہ قبول فرمایا اور اس کی قدر کی۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۹، ۲ / ۲۶۵)

اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مال کی مقدار نہیں بلکہ دل کا اخلاص دیکھا جاتا ہے

            اس سے معلوم ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں مال کی مقدار نہیں دیکھی جاتی بلکہ دلوں کا خلوص دیکھا جاتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بے شک اللہ تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں اور عملوں کو دیکھتا ہے ۔ (مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والآداب، باب تحریم ظلم المسلم وخذلہ واحتقارہ۔۔۔ الخ، ص۱۳۸۷، الحدیث: ۳۴(۲۵۶۴))

آیت’’ اَلَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِیْنَ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس آیت سے تین چیزیں معلوم ہوئیں۔

(1)… جو لوگ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی ہر عبادت کو نفاق یا دکھلاوے پر محمول کرتے ہیں اور صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم پر طعن کرتے ہیں وہ منافقین ہیں۔

(2)…نیک لوگوں کا نیکی پر مذاق اڑانا منافقین کا کام ہے۔ آج بھی بہت سے مسلمان کہلانے والوں کو فلموں ، ڈراموں سے تو تکلیف نہیں ہوتی البتہ دینی شَعائر پر عمل کرنے، دینی حُلیہ اپنانے، دین کا نام لینے سے تکلیف ہوتی ہے اور اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔

(3)… نیک بندوں کا مذاق اڑانا، انہیں تہمت لگانا، رب تعالیٰ سے مقابلہ کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا بدلہ لیتا ہے۔

اِسْتَغْفِرْ لَهُمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْؕ-اِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّةً فَلَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَهُمْؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ(80)

ترجمہ: ۔ (اے حبیب!) تم ان کی مغفرت کی دعا مانگو یا نہ مانگو، اگر تم ستر بار بھی ان کی مغفرت طلب کرو گے تو اللہ ہرگز ان کی مغفرت نہیں فرمائے گا ۔یہ اس لیے کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا کرتے تھے اوراللہ فاسقوں کوہدایت نہیں دیتا۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اِسْتَغْفِرْ لَهُمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ:(اے حبیب!) تم ان کی مغفرت کی دعا مانگو یا نہ مانگو۔} شانِ نزول: اوپر کی آیتیں جب نازل ہوئیں اور منافقین کا نفاق کھل گیا اور مسلمانوں پر ظاہر ہوگیا تو منافقین سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے معذرت کرکے کہنے لگے کہ آپ ہمارے لئے استغفار کیجئے اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ ہر گز ان کی مغفرت نہ فرمائے گا چاہے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ استغفار میں مبالغہ کریں۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۸۰، ۲ / ۲۶۶)

{ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ:یہ اس لیے کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا کرتے تھے۔} اس آیت میں منافقوں کو نہ بخشنے کی وجہ بیان فرمائی گئی کہ وہ اللہ ورسول عَزَّوَجَلَّ وصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے منکر ہیں اور جو اِن کا منکر ہو اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کے لئے اپنی رحمت عامہ کی بنا پردعا بھی کردیں ، تب بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ اسے نہ بخشے گا۔ اِس نہ بخشنے میں حضورپُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی انتہائی عظمت کا اظہار ہے کہ آپ کا منکر جنت میں نہیں جاسکتا۔ معلوم ہوا کہ کافر کو کسی کی دعائے مغفرت فائدہ نہیں دیتی، اس کی بخشش ناممکن ہے۔

{وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ:اور اللہ فاسقوں کوہدایت نہیں دیتا۔} اس سے مراد یہ ہے کہ جو ایمان سے خارج ہوں ، جب تک کہ وہ کفر پر قائم رہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ انہیں ہدایت نہیں دیتا۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۸۰، ص۴۴۷)اور جوہدایت کاارادہ کرے ، ہدایت اسے ہی ملتی ہے ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ جبراً کسی کو ہدایت نہیں دیتا۔

فَرِحَ الْمُخَلَّفُوْنَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلٰفَ رَسُوْلِ اللّٰهِ وَ كَرِهُوْۤا اَنْ یُّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ قَالُوْا لَا تَنْفِرُوْا فِی الْحَرِّؕ-قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ اَشَدُّ حَرًّاؕ-لَوْ كَانُوْا یَفْقَهُوْنَ(81)

ترجمہ: پیچھے رہ جانے والے اس بات پر خوش ہوئے کہ وہ اللہ کے رسول کے پیچھے بیٹھے رہے اور انہیں یہ بات ناپسندتھی کہ اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کریں اور انہوں نے کہا :اس گرمی میں نہ نکلو۔ تم فرماؤ: جہنم کی آگ شدید ترین گرم ہے۔کسی طرح یہ لوگ سمجھ لیتے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَرِحَ الْمُخَلَّفُوْنَ:پیچھے رہ جانے والے خوش ہوئے۔} غزوۂ تبوک میں گرمی کی شدت، سفر کی دوری، زادِ راہ کی کمی اور جان کے خوف کی وجہ سے منافقین کی ایک بڑی تعداد جہاد میں ساتھ نہ گئی تھی بلکہ حیلے بہانے کرکے پیچھے رہ گئی اور یہ لوگ پیچھے رہ جانے پر بڑے خوش تھے کہ شکر ہے کہ تکلیفوں سے جان چھوٹ گئی۔ یہاں انہی لوگوں کے بارے میں فرمایا جارہا ہے کہ غزوۂ تبوک سے پیچھے رہ جانے والے اس بات پر خوش ہوئے کہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پیچھے بیٹھے رہے اور بہانے بنا کر غزوۂ تبوک میں نہ گئے۔

{وَ كَرِهُوْا:اور انہیں یہ بات ناپسندتھی۔} اس سے معلوم ہوا کہ ایمان کی برکت سے نیک اعمال پر دلیری پیدا ہوتی ہے اور کفر و نفاق کی وجہ سے کم ہمتی پیدا ہوتی ہے ۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’منافقین پرسب نمازوں میں زیادہ بھاری نماز عشا و فجر ہے اور جو ان میں فضیلت ہے، اگر جانتے تو ضرور حاضر ہوتے اگرچہ سرین کے بل گھسٹتے ہوئے آتے۔(معجم الکبیر، ومن مسند عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، ۱۰ / ۹۹، الحدیث: ۱۰۰۸۲)

نفاق کی ایک علامت

             اِس آیت و حدیث سے سمجھ آتا ہے کہ جس کو گناہ آسان معلوم ہوں اور نیک کام بھاری محسوس ہوں اور اس وجہ سے وہ گناہ کرے اور نیکیاں نہ کرے تو اس کے دل میں نفاق کی ایک علامت موجود ہے ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں اس سے محفوظ رکھے،اٰمین۔

{وَ قَالُوْا لَا تَنْفِرُوْا فِی الْحَرِّ:اور انہوں نے کہا :اس گرمی میں نہ نکلو۔} غزوۂ تبوک کے موقعہ پر موسم بہت گرم تھا۔ اور وہ جگہ بھی بہت گرم تھی ۔ وقت اور علاقے کی گرمی جمع ہو گئی تو ان لوگوں نے ایک دوسرے سے یہ کہا :اس گرمی میں نہ نکلو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، تم فرماؤ: جہنم کی آگ شدید ترین گرم ہے۔ اگر یہ جانتے تو تھوڑی دیر کی گرمی برداشت کرلیتے اور ہمیشہ کی آگ میں جلنے سے اپنے آپ کو بچالیتے۔ (قرطبی، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۸۱، ۴ / ۱۱۵، الجزء الثامن، ملخصاً)

حضرت ابوخیثمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا واقعہ

             یہ تو منافقین کا حال تھا، اب یہاں حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ایک سچے عاشق کا حال سنئے۔ چنانچہ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ حضرت ابوخیثمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ غزوۂ تبوک میں جانے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے مگر ایک دن وہ شدید گرمی میں کہیں باہر سے آئے تو ان کی بیوی نے چھپر میں چھڑ کائو کر رکھا تھا۔ تھوڑی دیر اس سایہ دار ا ور ٹھنڈی جگہ میں بیٹھے لیکن پھر اچانک ان کے دل میں حضوراکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا خیال آ گیا۔ اپنی بیوی سے کہا کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ میں تو اپنی چھپر میں ٹھنڈک اور سایہ میں آرام و چین سے بیٹھا رہوں اور خدا عَزَّوَجَلَّ کے مقدس رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس دھوپ کی تَمازت اور شدید لو کے تھپیڑوں میں سفر کرتے ہوئے جہادکے لئے تشریف لے جا رہے ہوں ، ایک دم ان پر ایساجوشِ ایمانی سوار ہوا کہ توشہ کیلئے کھجور لے کر ایک اونٹ پر سوار ہو گئے اور تیزی کے ساتھ سفر کرتے ہوئے روانہ ہو گئے۔ لشکر والوں نے دور سے ایک شُتر سوار کو دیکھا تو حضوراکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ ابوخیثمہ ہوں گے، اس طرح یہ لشکرِ اسلام میں پہنچ گئے۔(زرقانی، ثمّ غزوۃ تبوک، ۴ / ۸۲)

فَلْیَضْحَكُوْا قَلِیْلًا وَّ لْیَبْكُوْا كَثِیْرًاۚ-جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(82)

ترجمہ: تو انہیں چاہیے کہ تھوڑا سا ہنس لیں اور بہت زیادہ روئیں (یہ) ان کے اعمال کا بدلہ ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَلْیَضْحَكُوْا قَلِیْلًا:تو انہیں چاہیے کہ تھوڑا سا ہنس لیں۔ } اس آیت میں منافقین کو تھوڑا ہنسنے اور بہت رونے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ منافقین کی حالت کی خبر دینے کے طور پر کلام کیا گیا ہے۔ آیت کا معنی یہ ہے کہ منافقین اگرچہ اپنی ساری زندگی ہنسیں اور خوشیاں منائیں یہ کم ہے کیونکہ دنیا اپنی درازی کے باوجود قلیل ہے اور آخرت میں ان کا غم اور رونا بہت زیادہ ہو گا کیونکہ آخرت کی سزا ہمیشہ کے لئے ہو گی، کبھی ختم نہ ہو گی اور ختم ہو جانے والی چیز نہ ختم ہونے والی کے مقابلے میں تھوڑی ہی ہے۔ (تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۸۲، ۶ / ۱۱۴، ملخصاً)

             تفسیر خازن میں ہے دنیا میں خوش ہونا اور ہنسنا چاہے کتنی ہی دراز مدت کے لئے ہو مگر وہ آخرت کے رونے کے مقابل تھوڑا ہے کیونکہ دنیا فانی ہے اور آخرت دائم اور باقی ہے۔ آخرت کا رونا دنیا میں ہنسنے اور خبیث عمل کرنے کا بدلہ ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۸۲، ۲ / ۲۶۷)

تھوڑا ہنسیں اور زیادہ روئیں 

             اس آیت میں اگرچہ منافقین سے متعلق کلام ہے البتہ جداگانہ طور پر ہمیں بہرحال یہی حکم دیا گیا ہے کہ تھوڑا ہنسیں اور گریہ و زاری زیادہ کیا کریں۔ چنانچہ حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرور ِعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ اگر تم وہ جانتے جو میں جانتا ہوں تو تھوڑا ہنستے اور بہت روتے۔ (بخاری،کتاب التفسیر، باب لاتسألوا عن اشیاء۔۔۔ الخ، ۳ / ۲۱۷، الحدیث: ۴۶۲۱)

             حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ اے لوگو! روؤ، اگر تمہیں رونا نہ آئے تو رونے کی کوشش کرو کیونکہ جہنمی جہنم میں روئیں گے حتّٰی کہ ان کے آنسو ان کے چہروں پرا س طرح بہیں گے گویا کہ وہ نہریں ہیں یہاں تک کہ ان کے آنسو ختم ہو جائیں گے، پھر ان کا خون بہنے لگے گا اور وہ خون اتنا زیادہ بہہ رہا ہو گا کہ ا گرا س میں کشتی چلائی جائے تو چل پڑے۔ (شرح السنّہ، کتاب الفتن، باب صفۃ النار واہلہا، ۷ / ۵۶۵، الحدیث: ۴۳۱۴)

             حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ حضرت سعد بن عبادہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیمار ہوئے تو نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے اور ساتھ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم تھے۔ جب اندر داخل ہوئے تو انہیں گھر والوں کے جھرمٹ میں پایا، ارشاد فرمایا: کیا فوت ہو گئے؟ لوگوں نے عرض کی:یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، نہیں۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ رونے لگے، جب لوگوں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو روتے ہوئے دیکھا تو وہ بھی رونے لگے۔ ارشاد فرمایا ’’سنو! بے شک اللہ تعالیٰ آنکھ کے بہنے اور دل کے مغموم ہونے پر عذاب نہیں دیتا بلکہ اس کی وجہ سے عذاب دیتا ہے یا رحم فرماتا ہے، اور زبان کی طرف اشارہ فرمایا۔ (بخاری، کتاب الجنائز، باب البکاء عند المریض، ۱ / ۴۴۱ رقم ۱۳۰۴)

            نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک مرتبہ حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام کو دیکھا کہ وہ رو رہے ہیں تو آپ نے دریافت فرمایا، ’’اے جبرائیل! عَلَیْہِ السَّلَام، تم کیوں روتے ہو حالانکہ تم بلندترین مقام پر فائز ہو؟ انہوں نے عرض کی ’’میں کیوں نہ روؤں کہ میں رونے کا زیادہ حق دار ہوں کہ کہیں میں اللہتعالیٰ کے علم میں اپنے موجودہ حال کے علاوہ کسی دوسرے حال میں نہ ہوں اور میں نہیں جانتا کہ کہیں ابلیس کی طرح مجھ پر اِبتلا نہ آجائے کہ وہ بھی فرشتوں میں رہتا تھا اور میں نہیں جانتا کہ مجھ پر کہیں ہاروت وماروت کی طرح آزمائش نہ آجائے ۔ یہ سن کر رسول اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی رونے لگے ۔ یہ دونوں روتے رہے یہاں تک کہ نداء دی گئی ، ’’اے جبرائیل !عَلَیْہِ السَّلَام، اور اے محمد ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،اللہ تعالیٰ نے تم دونوں کو نافرمانی سے محفوظ فرما دیا ہے ۔ ‘‘پھر حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام چلے گئے اور رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ باہر تشریف لے آئے ۔ (مکاشفۃ القلوب، الباب التاسع بعد المائۃ فی التخویف من عذاب جہنم، ص۳۱۷)

            اللہ تعالیٰ ہمیں بھی کم ہنسنے ، اپنی آخرت کے بارے میں فکرمند ہونے اور گریہ و زاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔

وَ لَا تُصَلِّ عَلٰۤى اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لَا تَقُمْ عَلٰى قَبْرِهٖؕ-اِنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ مَاتُوْا وَ هُمْ فٰسِقُوْنَ(84)

ترجمہ: 

اور ان میں سے کسی کی میت پر کبھی نماز جنازہ نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا۔ بیشک انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور نافرمانی کی حالت میں مرگئے ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَا تُصَلِّ عَلٰۤى اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا:اور ان میں سے کسی کی میت پر کبھی نماز جنازہ نہ پڑھنا ۔} اس آیت میں سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو منافقین کے جنازے کی نماز اور ان کے دفن میں شرکت کرنے سے منع فرمایا گیا اور اس کا شانِ نزول یہ ہے کہ عبداللہ بن اُبی بن سلول منافقوں کا سردار تھا، جب وہ مرگیا تو اس کے بیٹے حضرت عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جو مسلمان صالح مخلص صحابی اور کثیرُ العبادت تھے انہوں نے یہ خواہش کی کہ سیّدِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کے باپ عبداللہ بن اُبی بن سلول کو کفن کے لئے اپنا قمیص مبارک عنایت فرمادیں اور اس کی نمازِ جنازہ پڑھا دیں۔ حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی رائے اس کے خلاف تھی لیکن چونکہ اس وقت تک ممانعت نہیں ہوئی تھی اور حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو معلوم تھا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا یہ عمل بہت سے منافقین کے ایمان لانے کا باعث ہوگا اس لئے حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی قمیص بھی عنایت فرمائی اور جنازہ میں شرکت بھی کی۔ قمیص دینے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چچا حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جو بدر میں اسیر ہو کر آئے تھے تو عبداللہ بن اُبی نے اپنا کرتہ انہیں پہنایا تھا۔ حضورانور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس کا بدلہ دینا بھی منظور تھا لہٰذا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے قمیص بھی دیا اور جنازہ بھی پڑھایا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اس کے بعد پھر کبھی سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کسی منافق کے جنازہ میں شرکت نہ فرمائی اور حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی وہ مصلحت بھی پوری ہوئی۔ چنانچہ جب منافقین نے دیکھا کہ ایسا شدید عداوت والا شخص جب سیّدِعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کرتے سے برکت حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کے عقیدے میں بھی آپ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور اس کے سچّے رسول ہیں یہ دیکھ کرایک بڑی تعدادمسلمان ہوگئی۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۸۴، ۲ / ۲۶۸-۲۶۹)

کافر، فاسق اور مسلمان کے جنازے سے متعلق چند شرعی مسائل:

اس آیت سے معلوم ہو اکہ اگر کوئی کافر مر جائے تو مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اس کے مرنے پر نہ اس کے لئے دعا کرے اور نہ ہی ا س کی قبر پر کھڑا ہو۔ افسوس! فی زمانہ حال یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کے ملک میں کوئی بڑا کافر مر جاتا ہے تو مسلمانوں کی سربراہی کے دعوے دار اس کے مرنے پر اس طرح اظہارِ افسوس کرتے ہیں جیسے اِ ن کا کوئی اپنا بڑا فوت ہوگیا ہو اور اگر اس کی قبر بنی ہو تو اس پر کھڑے ہو کر دعا ئیں مانگتے ہیں۔ یہ دعا بالکل حرام ہے۔

آیت کی مناسبت سے ہم یہاں کافر،فاسق اور مسلمان کے جنازے سے متعلق چند شرعی مسائل ذکر کرتے ہیں

(1)… اس آیت سے ثابت ہوا کہ کافر کے جنازے کی نماز کسی حال میں جائز نہیں اور کافر کی قبر پر دفن و زیارت کے لئے کھڑے ہونا بھی ممنوع ہے اور یہ جو فرمایا ’’اور فسق ہی میں مرگئے‘‘یہاں فسق سے کفر مراد ہے قرآنِ کریم میں اور جگہ بھی فسق بمعنی کفر وارد ہوا ہے جیسے کہ آیت ’’ اَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا‘‘(السجدۃ :۳۲)(توکیا جو ایمان والا ہے وہ اس جیسا ہوجائے گا جو نافرمان ہے)میں۔

(2)… فاسق کے جنازے کی نماز جائز بلکہ فرضِ کِفایہ ہے ،اس پر صحابہ اور تابعین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا اجماع ہے اور اس پر علماء و صالحین کا عمل اور یہی اہلِ سنت و جما عت کا مذہب ہے۔

(3)… جب کوئی کافر مر جائے اور اس کا ولی مسلمان ہو تو اس کو چاہیے کہ بطریق مَسنون غسل نہ دے بلکہ اس پر پانی بہا دے اور نہ کفن مسنون دے بلکہ اتنے کپڑے میں لپیٹ دے جس سے اس کا ستر چھپ جائے اور نہ سنت طریقہ پر دفن کرے اور نہ بطریقِ سنت قبر بنائے ،صرف گڑھا کھود کر اندر رکھ دے ۔

وَ لَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَ اَوْلَادُهُمْؕ-اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّعَذِّبَهُمْ بِهَا فِی الدُّنْیَا وَ تَزْهَقَ اَنْفُسُهُمْ وَ هُمْ كٰفِرُوْنَ(85)

ترجمہ: 

اور ان کے مال اور اولاد تمہیں تعجب میں نہ ڈالیں ۔ اللہ یہی چاہتا ہے کہ انہیں اس کے ذریعے دنیا میں سزا دے اور کفر کی حالت میں ان کی روح نکل جائے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَ اَوْلَادُهُمْ:اور ان کے مال اوراولاد تمہیں تعجب میں نہ ڈالیں۔} اس آیت کی تفسیر آیت نمبر 55 کے تحت گزر چکی ہے اور یہاں منافقوں کے مال و اولاد پر تعجب نہ کرنے کو دوبارہ ذکر کرنے کی ایک حکمت یہ ہے کہ لوگ اس بات کو بھول نہ جائیں اور اس سے غافل نہ ہوں اور یہ اعتقاد رکھیں کہ اس پر عمل کرنا انتہائی اہم ہے۔ دوسری حکمت یہ ہے کہ مال اور اولاد ایسی چیزیں ہیں جن میں مشغولیت کی وجہ سے دل بہت جلد دنیا کی طرف راغب ہو جاتا ہے اور جو چیز دنیا کی طرف زیادہ راغب کرنے والی ہواس سے بار بار بچنے کا حکم دیاجاتاہے ا س لئے یہاں دوبارہ منافقوں کے مال اور اولاد پر تعجب نہ کرنے کافرما یاگیا ہے۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۸۵، ۲ / ۲۶۹، تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۸۵، ۶ / ۱۱۸، ملتقطاً)

وَ اِذَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ اَنْ اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ جَاهِدُوْا مَعَ رَسُوْلِهِ اسْتَاْذَنَكَ اُولُوا الطَّوْلِ مِنْهُمْ وَ قَالُوْا ذَرْنَا نَكُنْ مَّعَ الْقٰعِدِیْنَ(86)رَضُوْا بِاَنْ یَّكُوْنُوْا مَعَ الْخَوَالِفِ وَ طُبِـعَ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا یَفْقَهُوْنَ(87)

ترجمہ: اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے کہ اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول کے ہمراہ جہاد کرو تو ان کے قوت و طاقت رکھنے والے تم سے رخصت مانگتے ہیں اور کہتے ہیں ہمیں چھوڑ دیجیے تاکہ بیٹھے رہنے والوں کے ساتھ ہوجائیں ۔انہیں یہ پسند آیا کہ پیچھے رہنے والی عورتوں کے ساتھ ہوجائیں اور ان کے دلوں پر مہُرلگادی گئی تو وہ کچھ سمجھتے نہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ جَاهِدُوْا مَعَ رَسُوْلِهٖ:اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول کے ہمراہ جہاد کرو۔}بعض علماء نے اس آیت کی بنا پر فرمایا کہ ایمان کے بعد جہاد کا درجہ ہے اور جہاد اعلیٰ درجے کی عبادت ہے کہ رب تعالیٰ نے اسے ایمان کے بعد ذکر فرمایا۔ مگر حق یہ ہے کہ نماز سب سے اعلیٰ درجے والی عبادت ہے کہ جہاد اس کے قائم کرنے کے لئے ہے ۔ یہ آیت اس خصوصی موقعہ کے لحاظ سے ہے جب جہاد کی سخت ضرورت تھی۔

 قدرت کے باوجود دینِ اسلام کی مدد نہ کرنے کی مذمت:

اس آیت سے معلوم ہوا کہ قدرت کے باوجود دینِ اسلام کی مدد نہ کرنا منافقوں کاعمل ہے کہ فرمایا گیا : ان منافقوں میں سے جو قدرت والے ہیں وہ آپ سے جہاد میں نہ جانے کی رخصت مانگ رہے ہیں۔ اس سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو کفار کے ظلم و ستم کا شکار مسلمانوں کی مدد کرنے پر قدرت رکھنے کے باوجود ان کی مدد نہیں کرتے اور انہیں بے یار و مدد گار چھوڑے ہوئے ہیں ، اسی طرح ان لوگوں کو بھی نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو اہلسنّت کے عقائد و معمولات کا دفاع کرنے کی قدرت رکھنے کے باوجود اس کا دفاع نہیں کرتے اور سنی عوام کو بد مذہبوں کے رحم و کرم پر چھوڑے ہوئے ہیں اور وہ لوگ بھی اس سے نصیحت حاصل کریں جو لوگوں کو گناہ سے روکنے کی قدرت رکھنے کے باوجود انہیں گناہ سے نہیں روکتے اور انہیں نفس و شیطان کے واروں کا شکار ہونے کے لئے چھوڑ رکھا ہے ، اسی وجہ سے علماء نے جمعہ کے دن پڑھے جانے والے خطبات میں یہ لکھا ہے کہ اے اللہ! اس کی مدد کر جو ہمارے سردار اور ہمارے مولیٰ محمد (مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کے دین کی مدد کرے اور اسے بے یار و مددگار چھوڑ دے جو ہمارے سردار اور ہمارے آقا محمد ( مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کے دین کو فراموش کردے۔

{وَ طُبِـعَ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ:اور ان کے دلوں پر مہُرلگادی گئی۔} یعنی ان کے کفر و نفاق اختیار کرنے کے باعث ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی تو وہ کچھ سمجھتے نہیں کہ جہاد میں کیا کامیابی و سعادت اور بیٹھ رہنے میں کیسی ہلاکت و شقاوت ہے۔( مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۸۷، ص۴۴۹)

لٰـكِنِ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ جٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ لَهُمُ الْخَیْرٰتُ٘-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(88)اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(89)

ترجمہ: لیکن رسول اور جو ان کے ساتھ ایمان لائے انہوں نے اپنے مالوں اورجانوں کے ساتھ جہاد کیا اور انہیں کے لیے بھلائیاں ہیں اور یہی کامیاب ہونے والے ہیں ۔اور اللہ نے ان کے لئے جنتیں تیار کر رکھی ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، ہمیشہ ان میں رہیں گے ۔یہی بڑی کامیابی ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لٰكِنِ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ:لیکن رسول اور جو ان کے ساتھ ایمان لائے۔} اس سے پہلی آیات میں جہاد سے راہِ فرار اختیار کرنے میں منافقوں کا حال بیان کیا گیا اور اس آیت سے نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا جذبۂ جہاد بیان کیا گیا کہ انہوں نے اللہتعالیٰ کی رضا کی طلب میں اور اس کی بارگاہ میں قرب حاصل کرنے کے لئے اپنے مال اور اپنی جانیں دونوں خرچ کر دیں۔ (تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۸۸، ۶ / ۱۱۹)

آیت ’’ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:

اس آیت سے دومسئلے معلوم ہوئے

(1)… جنت اور وہاں کی نعمتیں پیدا ہو چکی ہیں۔

(2)… جنتی اپنی اپنی جنت کے پورے پورے مالک ہوں گے۔ وہاں صرف مہمان کی طرح بغیر ملکیت کے نہ ہوں گے البتہ ان کی خاطر تواضع مہمانوں کی سی ہوگی۔

وَ جَآءَ الْمُعَذِّرُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ لِیُؤْذَنَ لَهُمْ وَ قَعَدَ الَّذِیْنَ كَذَبُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ-سَیُصِیْبُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(90)

ترجمہ: اور عذر پیش کرنے والے دیہاتی آئے تا کہ انہیں رخصت دیدی جائے اور اللہ اور اس کے رسول سے جھوٹ بولنے والے بیٹھے رہے ۔ ان میں سے کافروں کو عنقریب دردناک عذاب پہنچے گا۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ جَآءَ الْمُعَذِّرُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ:اور عذر پیش کرنے والے دیہاتی آئے۔} تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں جہاد سے رہ جانے کا عذر پیش کرنے کیلئے دیہاتی آئے ۔ ضحاک کا قول ہے کہ یہ عامر بن طفیل کی جماعت تھی انہوں نے سرورِعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کی: یا نَبِیَّ اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر ہم آپ کے ساتھ جہاد میں جائیں تو قبیلہ طے کے عرب ہمارے بیوی بچوں اور جانوروں کو لوٹ لیں گے۔ حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: مجھے اللہ تعالیٰ نے تمہارے حال سے خبردار کیا ہے اور وہ مجھے تم سے بے نیاز کرے گا۔عمرو بن علاء نے کہا کہ ان لوگوں نے باطل عذر بنا کر پیش کیا تھا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۰، ۲ / ۲۷۱)

{وَ قَعَدَ:اور بیٹھے رہے۔} یہ دوسرے گروہ کا حال ہے جو بغیر کسی عذر کے بیٹھ رہے یہ منافقین تھے انہوں نے ایمان کا دعویٰ جھوٹا کیا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جھوٹ بولنا اللہ تعالیٰ سے جھوٹ بولنا ہے کیونکہ ان بد نصیبوں نے رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جھوٹ بولا ، اِس پر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا کہ انہوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے جھوٹ بولا۔

{سَیُصِیْبُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ:ان میں سے کافروں کو عنقریب دردناک عذاب پہنچے گا۔} یعنی ان منافقوں میں سے جو کھلے کافر بن جائیں ، انہیں دنیا میں قتل و غارت کا عذاب ہو گا یا ان منافقوں میں سے جو آخر دم تک کفر پر قائم رہیں ،ا نہیں آخرت کا درد ناک عذاب ہو گا۔

لَیْسَ عَلَى الضُّعَفَآءِ وَ لَا عَلَى الْمَرْضٰى وَ لَا عَلَى الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ مَا یُنْفِقُوْنَ حَرَجٌ اِذَا نَصَحُوْا لِلّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖؕ-مَا عَلَى الْمُحْسِنِیْنَ مِنْ سَبِیْلٍؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(91)

ترجمہ: کنزالعرفان

کمزوروں پر اور بیماروں پر اورخرچ کرنے کی طاقت نہ رکھنے والوں پر کوئی حرج نہیں جبکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے خیر خواہ رہیں ۔ نیکی کرنے والوں پر کوئی راہ نہیں اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَیْسَ عَلَى الضُّعَفَآءِ:کمزوروں پرکوئی حرج نہیں۔} باطل عذر والوں کا ذکر فرمانے کے بعد سچے عذر والوں کے متعلق فرمایا کہ ان پر سے جہاد کی فرضیت ساقط ہے ۔یہ کون لوگ ہیں ؟ان کے چند طبقے بیان فرمائے

          پہلا طبقہ ضعیف جیسے کہ بوڑھے ،بچے ، عورتیں اور وہ شخص بھی انہیں میں داخل ہے جو پیدائشی کمزور ضعیف ونحیف ہو۔

          دوسرا طبقہ بیمار، اس میں اندھے ،لنگڑے، اپاہج بھی داخل ہیں۔

           تیسرا طبقہ وہ لوگ جنہیں خرچ کرنے کی قدرت نہ ہو اور سامانِ جہاد نہ کرسکیں یہ لوگ رہ جائیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں۔(تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۱، ۶ / ۱۲۱)

{اِذَا نَصَحُوْا لِلّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ:جبکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے خیر خواہ رہیں۔} یعنی ان کی اطاعت کریں اور مجاہدین کے گھر والوں کی خبر گیری رکھیں۔ (تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۱، ۶ / ۱۲۱، ملخصاً)

            اس سے معلوم ہوا کہ حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خیر خواہی رب تعالیٰ کی خیر خواہی ہے ۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی نیکی نہ کر سکے مگر نیکیوں کا دل سے خیر خواہ رہے تب بھی اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ نیکوں میں شمار ہو گا۔ آیت کا مَنشا یہ ہے کہ مجبور مسلمان جو جہاد میں شریک نہ ہو سکیں وہ مدینہ میں رہ کر اللہ رسول عَزَّوَجَلَّ وصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خیر خواہی میں مجاہدین کے بچوں کی خدمت کریں۔ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تم مدینہ منورہ میں ایسے لوگوں کو بھی چھوڑ آئے ہو کہ تم جو سفر کر رہے ہو ،جو مال خرچ کر رہے ہو اور جن وادیوں کو طے کر رہے ہو ہر کام میں وہ تمہارے ساتھ ہیں۔ صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ ہمارے ساتھ کس طرح شمار ہو گئے جبکہ وہ تو مدینہ منورہ میں ہیں ، ارشاد فرمایا: انہیں مجبوری نے روکا ہے۔ (ابوداؤد، کتاب الجہاد، باب فی الرخصۃ فی القعود من العذر، ۳ / ۱۷، الحدیث: ۲۵۰۸)

وَّ لَا عَلَى الَّذِیْنَ اِذَا مَاۤ اَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَاۤ اَجِدُ مَاۤ اَحْمِلُكُمْ عَلَیْهِ۪ – تَوَلَّوْا وَّ اَعْیُنُهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا اَلَّا یَجِدُوْا مَا یُنْفِقُوْنَﭤ(92)اِنَّمَا السَّبِیْلُ عَلَى الَّذِیْنَ یَسْتَاْذِنُوْنَكَ وَ هُمْ اَغْنِیَآءُۚ-رَضُوْا بِاَنْ یَّكُوْنُوْا مَعَ الْخَوَالِفِۙ-وَ طَبَعَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ(93)

ترجمہ: 

اور نہ ان پر کوئی حرج ہے جوآپ کے پاس اس لئے آتے ہیں تاکہ آپ انہیں سواری دیدیں (لیکن آپ) فرما دیتے ہیں: میں تمہارے لئے کوئی ایسی چیز نہیں پاتا جس پر تمہیں سوار کردوں تو وہ اس حال میں لوٹ جاتے ہیں کہ ان کی آنکھوں سے اس غم میں آنسو بہہ رہے ہوں کہ وہ خرچ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔مواخذہ تو ان لوگوں پر ہے جو مالدار ہونے کے باوجود آپ سے رخصت مانگتے ہیں ۔ انہیں یہ پسند ہے کہ عورتوں کے ساتھ پیچھے بیٹھ رہیں اور اللہ نے ان کے دلوں پر مہرلگادی تو وہ کچھ نہیں جانتے ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَا عَلَى الَّذِیْنَ:اور نہ ان پر کوئی حرج ہے۔} شانِ نزول: حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’ ’سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے لوگوں کو اپنے ساتھ جہاد میں جانے کا حکم دیا تو صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی ایک جماعت آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوئی، ان میں حضرت عبداللہ بن مغفل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بھی تھے، انہوں نے عرض کی! یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہمیں کوئی سواری عطا کیجئے۔ حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان سے فرمایا ’’اللہ کی قسم ! میرے پاس کوئی سواری نہیں کہ جس پر میں تمہیں سوار کروں۔ وہ روتے ہوئے واپس چلے گئے کیونکہ جہاد سے رہ جانا ان پر بہت گراں تھا اور ان کے پاس زادِ راہ تھا، نہ سواری۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے محبت اور جہاد پر حرص کی وجہ سے ان کے عذر میں یہ آیتیں بیان فرمائیں۔ (تفسیر ابن ابی حاتم، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۲،  ۶ / ۱۸۶۳-۱۸۶۴)

صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا جذبۂ جہاد:

            اس آیت ِ مبارکہ اور اس کے شانِ نزول کے واقعہ سے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے جذبہ ِ جہاد ، شوقِ عبادت اور ذوقِ اطاعت کاپتہ چلتا ہے کہ ایک طرف تو منافقین ہیں جو قدرت ہونے کے باوجود جھوٹے حیلے بہانے کرکے جہاد سے جان چھڑاتے ہیں اور ایک طرف یہ کامل الایمان، مخلص غلام ہیں جو شرعاً رخصت و اجازت ہونے کے باوجود جہاد نہ کرسکنے اور اس عبادت میں شریک نہ ہوسکنے کے غم میں آنسو بہارہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ایسا ذوق و شوق عطا فرمائے۔

{اِنَّمَا السَّبِیْلُ عَلَى الَّذِیْنَ:مواخذہ تو ان لوگوں پر ہے۔} یعنی مُواخَذہ تو ان لوگوں پر ہے جو جہاد میں جانے کی قدرت رکھتے ہیں ، اس کے باوجود آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے رخصت مانگتے ہیں۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۳، ص۴۵۰)

یَعْتَذِرُوْنَ اِلَیْكُمْ اِذَا رَجَعْتُمْ اِلَیْهِمْؕ-قُلْ لَّا تَعْتَذِرُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكُمْ قَدْ نَبَّاَنَا اللّٰهُ مِنْ اَخْبَارِكُمْؕ-وَ سَیَرَى اللّٰهُ عَمَلَكُمْ وَ رَسُوْلُهٗ ثُمَّ تُرَدُّوْنَ اِلٰى عٰلِمِ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(94)

ترجمہ: 

جب تم ان کے پاس لوٹ کر جاؤگے تو یہ تم سے بہانے بنائیں گے ۔ تم فرماؤ : بہانے نہ بناؤ ہم ہرگز تمہاری بات پر یقین نہیں کریں گے اللہ نے ہمیں تمہاری خبریں دیدی ہیں اور اب اللہ اور اس کا رسول تمہارے کام دیکھیں گے پھر تمہیں اس کی طرف لوٹایا جائے گا جو غیب اور ظاہر کو جاننے والا ہے تو وہ تمہیں تمہارے اعمال بتادے گا۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یَعْتَذِرُوْنَ اِلَیْكُمْ:تم سے بہانے بنائیں گے ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اور آپ کے صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم جب غزوۂ تبوک سے واپس مدینہ منورہ پہنچیں گے تو غزوہ سے رہ جانے والے منافقین جھوٹے بہانے بنا کر اور باطل عذر پیش کر کے آپ سب کو راضی کرنے کی کوشش کریں گے۔ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرما دینا کہ بہانے مت بناؤ، جو عذر تم پیش کر رہے ہو ہم اس کی ہر گز تصدیق نہیں کریں گے، تم نے جو کچھ کیا اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ہمیں اس کی خبریں دیدی ہیں اور اب اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کا رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  تمہارے کام دیکھیں گے کہ تم نفاق سے توبہ کرتے ہو یا اس پر قائم رہتے ہو۔ بعض مفسرین نے کہا کہ منافقین نے وعدہ کیا تھا کہ زمانۂ مستقبل میں وہ مومنین کی مدد کریں گے، ہوسکتا ہے کہ اسی کے متعلق فرمایا گیا ہو کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمہارے کام دیکھیں گے کہ تم اپنے اس عہد کو بھی وفا کرتے ہو یا نہیں۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۴، ۲ / ۲۷۲-۲۷۳)

{عٰلِمِ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ:غیب اور ظاہر کو جاننے والا ہے۔} یہاں آیت میں اللہ تعالیٰ کی ایک صفت عالم الغیب بیان فرمائی گئی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وصف ِ خاص ہے یعنی اللہ نے جن مقربینِ بارگاہ کو غیب کا علم عطا فرمایا ہے ان کے بارے میں یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عطا سے وہ غیب جانتے ہیں یا غیب پر مطلع ہیں یا غیب پر خبردار ہیں لیکن انہیں عالم الغیب نہیں کہا جاسکتا کہ اس لفظ کا استعمال اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے جیسے لفظ ِ رحمٰن ہے۔ اس مسئلہ پر عقیدہ ٔاہلسنّت جاننے کیلئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی یہ تحریر ملاحظہ فرمائیں ’’ہماری تحقیق میں لفظ ’’عالم الغیب ‘‘کا اطلاق حضرت عزت عَزَّجَلَالُہ کے ساتھ خاص ہے کہ اُس سے عرفاً علم بالذات متبادر ہے اور اس سے انکار معنی لازم نہیں آتا۔ حضورپر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ  قطعاً بے شمار غیوب و ماکان مایکون کے عالم ہیں مگر ’’عالم الغیب‘‘ صرف اللہ عَزَّوَجَلَّ کو کہا جائے گا۔ جس طرح حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قطعاً عزت جلالت والے ہیں ، تمام عالم میں ان کے برابر کوئی عزیز و جلیل ہے نہ ہوسکتا ہے، مگر محمدعَزَّوَجَلَّ کہنا جائز نہیں بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ و محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (کہا جائے گا)۔(فتاوی رضویہ، ۲۹ / ۴۰۵)

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں ’’علم غیب بالذات اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے خاص ہے کفار اپنے معبود انِ باطل وغیرہم کیلئے مانتے تھے لہٰذا مخلوق کو’’عالم الغیب ‘‘کہنا مکروہ ، اور یوں (کہنے میں ) کوئی حرج نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے بتائے سے امورِ غیب پر انہیں اطلاع ہے۔(فتاوی رضویہ، ۳۰ / ۵۷۵)

اور فرماتے ہیں ’’اس پر اجماع ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دیئے سے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کثیر و وافر غیبوں کا علم ہے، یہ بھی ضروریاتِ دین سے ہے ،جو اس کا منکر ہوکافر ہے کہ سرے سے نبوت ہی کا منکر ہے۔ اس پر بھی اجماع ہے کہ اس فضلِ جلیل میں محمَّد رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا حصہ تمام انبیاء و تمام جہان سے اتم و اعظم ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا سے حبیب اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو اتنے غیبوں کا علم ہے جن کا شمار اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی جانتا ہے۔( فتاوی رضویہ، رسالہ: خالص الاعتقاد، ۲۹ / ۴۵۱)

سَیَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ لَكُمْ اِذَا انْقَلَبْتُمْ اِلَیْهِمْ لِتُعْرِضُوْا عَنْهُمْؕ-فَاَعْرِضُوْا عَنْهُمْؕ-اِنَّهُمْ رِجْسٌ٘-وَّ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُۚ-جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(95)

ترجمہ: اب جب تم ان کی طرف لوٹ کر جاؤ گے تو یہ تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے درگزر کرو تو تم ان سے اعراض ہی کرو۔ یہ ناپاک ہیں اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔ یہ ان کے اعمال کا بدلہ ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{سَیَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ لَكُمْ: اب تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھائیں گے ۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جب آپ اپنے اس سفر سے واپس ہو کر مدینہ طیبہ میں ، غزوے میں شرکت نہ کرنے والے منافقین کی طرف لوٹ کر جائیں گے تو یہ آپ کے سامنے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسمیں کھائیں گے تاکہ آپ ان سے درگزر کریں اور پیچھے رہ جانے کی وجہ سے ان پر ملامت و عتاب نہ کریں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۵، ۲ / ۲۷۳)

             اس سے معلوم ہوا کہ منافق و گمراہ زیادہ قسمیں کھا کر اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ! مومنوں کو اس کی ضرورت نہیں پڑتی۔

{فَاَعْرِضُوْا عَنْهُمْ:تو تم ان سے اعراض ہی کرو۔} بعض مفسرین نے فرمایا :’’اس سے مراد یہ ہے کہ اُن کے ساتھ بیٹھنا اور ان سے بولنا ترک کردو۔ چنانچہ جب نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  مدینہ منورہ تشریف لائے تو حضور ِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ منافقین کے پاس بیٹھیں ، نہ اُن سے بات کریں کیونکہ اُن کے باطن خبیث اور اعمال برے ہیں اور ملامت و عتاب سے ان کی اصلاح نہ ہوگی ،اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ناپاک ہیں اور ان کے پاک ہونے کا کوئی طریقہ نہیں ، آخرت میں ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور یہ ان کے دنیا میں کیے ہوئے خبیث  اعمال کا بدلہ ہے۔ شانِ نزول: حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں کہ یہ آیت جد بن قیس ، معتب بن قشیر اور ان دونوں کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ یہ 80 منافق تھے۔ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ ان کے پاس بیٹھو ،نہ ان سے کلام کرو۔ مقاتل نے کہا کہ یہ آیت عبداللہ بن اُبی کے بارے میں نازل ہوئی، اس نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے سامنے قسم کھائی تھی کہ اب کبھی وہ جہاد میں جانے سے سستی نہ کرے گا اور سیدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے درخواست کی تھی کہ حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس سے راضی ہوجائیں ، اس پر یہ آیت اور اس کے بعد والی آیت نازل ہوئی۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۵، ۲ / ۲۷۳، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۵، ص۴۵۰، ملتقطاً)

یَحْلِفُوْنَ لَكُمْ لِتَرْضَوْا عَنْهُمْۚ-فَاِنْ تَرْضَوْا عَنْهُمْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یَرْضٰى عَنِ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ(96)

ترجمہ: تمہارے سامنے قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تم ان سے راضی ہوجاؤ تو اگر تم ان سے راضی ہو (بھی) جاؤ تو بیشک اللہ تو نافرمان لوگوں سے راضی نہیں ہوگا۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یَحْلِفُوْنَ لَكُمْ:تمہارے سامنے قسمیں کھاتے ہیں۔} یعنی اے مسلمانو! منافقین تمہارے سامنے تمہاری رضا حاصل کرنے کے لئے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسمیں کھاتے ہیں تاکہ اس طرح انہیں دنیا میں نفع حاصل ہو، اے ایمان والو! اگر تم ان کی قسموں کا اعتبار اور ان کے عذر قبول کرتے ہوئے ان سے راضی ہو بھی جاؤ تو انہیں کوئی فائدہ نہ ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ اُن کے دل کے کفر و نفاق کو جانتا ہے، وہ ان سے کبھی راضی نہ ہو گا۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۶، ۲ / ۲۷۳، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۶، ص۴۵۰، ملتقطاً)

            اس سے معلوم ہوا کہ جھوٹی قسمیں کھانا منافقین کا کام ہے نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ جھوٹی قسمیں کھانے والے فاسق ہیں۔

اَلْاَعْرَابُ اَشَدُّ كُفْرًا وَّ نِفَاقًا وَّ اَجْدَرُ اَلَّا یَعْلَمُوْا حُدُوْدَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوْلِهٖؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ(97)

ترجمہ: 

دیہاتی (منافق) کفر اورمنافقت میں زیادہ سخت ہیں اور اس قابل ہیں کہ اُن احکام سے جاہل رہیں جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل فرمائے ہیں اور اللہ علم والا، حکمت والا ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلْاَعْرَابُ:دیہاتی۔} یعنی  دیہات میں رہنے والے منافق کفر اور منافقت میں شہر میں رہنے والوں سے زیادہ سخت ہیں ، اس کا سبب یہ ہے کہ وہ لوگ علم کی مجالس اور علماء کی صحبت سے دور رہتے ہیں ، قرآن و حدیث اور وعظ ونصیحت نہیں سنتے ۔ وہ اسی قابل ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جوفرائض، سُنَن اور اَحکام اپنے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نازل فرمائے ہیں ان سے جاہل رہیں۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۷، ۲ / ۲۷۳)

جہالت شدت پیدا کرتی ہے

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ جہالت شدت پیدا کرتی ہے لہٰذا جو شخص بلا وجہ شدت کا عادی ہے وہ علم سے دور ہے۔ ہمارے زمانے میں بھی ایک گروہ ایسی شدت کی طرف مائل ہے کہ سب کو مشرک قرار دیتا ہے یہ شدت بھی جہالت کی علامت ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ دیہات والوں کو بھی چاہیے کہ علم حاصل کریں اور علماء و صالحین کی صحبت اختیار کریں کیونکہ علم اور اچھی صحبت جہالت و بے عملی کو ختم کردیتی ہے اور علم کی وجہ سے بے جا کی شدت کا خاتمہ ہوتا ہے۔

وَ مِنَ الْاَعْرَابِ مَنْ یَّتَّخِذُ مَا یُنْفِقُ مَغْرَمًا وَّ یَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوَآىٕرَؕ-عَلَیْهِمْ دَآىٕرَةُ السَّوْءِؕ-وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(98)

ترجمہ

اور کچھ دیہاتی وہ ہیں کہ وہ جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اسے تاوان سمجھتے ہیں اور تم پر گردشیں آنے کے انتظار میں رہتے ہیں ۔ بری گردش انہی پر ہے اور اللہ سننے والا جاننے والاہے۔

 کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مِنَ الْاَعْرَابِ:اور کچھ دیہاتی۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کچھ دیہاتی ایسے ہیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں جو خرچ کرتے ہیں اسے تاوان سمجھتے ہیں کیونکہ وہ جو کچھ خرچ کرتے ہیں رضائے الٰہی اور طلبِ ثواب کے لئے تو کرتے نہیں بلکہ ریا کاری کے طور پر اور مسلمانوں کے خوف سے خرچ کرتے ہیں اور وہ مسلمانوں پر گردشیں آنے کے انتظار میں رہتے ہیں اور یہ راہ دیکھتے ہیں کہ کب مسلمانوں کا زور کم ہو اور کب وہ مغلوب ہوں ، انہیں خبر نہیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کو کیا منظورہے ، وہ اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ بری گردش انہی پر ہے اور وہی رنج و بلا اور بدحالی میں گرفتار ہوں گے۔ شانِ نزول: یہ آیت قبیلہ اسد، غطفان ا ور تمیم کے دیہاتیوں کے بارے میں نازل ہوئی پھر اللہ تعالیٰ نے ان میں سے جن کو علیحدہ کیا ان کا ذکر اگلی آیت میں ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۸، ۲ / ۲۷۴)

منافقت کی علامات

اس آیت میں منافقت کی مزید دو علامتیں بیان کی گئی ہیں ، ایک تو یہ کہ وہ راہِ خدا میں خرچ کرنے کو ٹیکس اور تاوان کی طرح سمجھتے ہیں اس لئے کبھی خوشدلی سے خرچ نہیں کرتے اور دوسری یہ کہ مسلمانوں کے نقصان کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ یاد رہے کہ قرآنِ مجید کی آیات ہماری اصلاح کیلئے نازل ہوئی ہیں ا س لئے ہمیں بھی اپنے حال پر غور کرنا چاہیے کیونکہ آج ہمارے معاشرے میں بھی ایسے لوگ ہیں جو راہِ خدا میں خرچ کرنے کو اپنے عمل سے ٹیکس کی طرح سمجھتے ہیں اور مسلمانوں کے نقصان کے خواہشمند رہتے ہیں۔

وَ مِنَ الْاَعْرَابِ مَنْ یُّؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ یَتَّخِذُ مَا یُنْفِقُ قُرُبٰتٍ عِنْدَ اللّٰهِ وَ صَلَوٰتِ الرَّسُوْلِؕ-اَلَاۤ اِنَّهَا قُرْبَةٌ لَّهُمْؕ-سَیُدْخِلُهُمُ اللّٰهُ فِیْ رَحْمَتِهٖؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(99)

ترجمہ: اور کچھ گاؤں والے وہ ہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو خرچ کرتے ہیں اسے اللہ کے ہاں نزدیکیوں اور رسول کی دعاؤں کا ذریعہ سمجھتے ہیں ۔ سن لو! بیشک وہ ان کے لیے (اللہ کے) قرب کا ذریعہ ہیں ۔ عنقریب اللہ انہیں اپنی رحمت میں داخل فرمائے گا، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مِنَ الْاَعْرَابِ مَنْ یُّؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ:اور کچھ گاؤں والے وہ ہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں۔} اس سے پہلی آیت میں بیان فرمایا گیا کہ کچھ دیہاتی ایسے ہیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں جو خرچ کرتے ہیں اسے تاوان سمجھتے ہیں اور اس آیت میں بیان فرمایا جا رہاہے کہ دیہاتیوں میں بعض حضرات ایسے ہیں جو نیک اور صالح مومن ہیں ، راہِ خدا میں جہاد کرنے والے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کو غنیمت تَصَوُّر کرتے ہیں۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ دیہات میں رہنے والے بعض حضرات ایسے ہیں کہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے اللہ تعالیٰ کے ہاں نزدیکیوں اور رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعاؤں کا ذریعہ سمجھتے ہیں کہ جب رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی بارگاہ میں صدقہ پیش کریں گے تو حضورپُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  ان کیلئے خیرو برکت و مغفرت کی دعا فرمائیں گے۔( تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۹، ۶ / ۱۲۶-۱۲۷، خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۹، ۲ / ۲۷۴، ملتقطاً)

            اس آیت میں جن دیہاتیوں کا ذکر ہوا ان کے بارے میں امام مجاہد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ قبیلہ مُزَیْنَہ میں سے بنی مُقَرَّن ہیں۔ کلبی نے کہا وہ اسلم ،غِفار اور جُہَینہ کے قبیلے ہیں۔ (بغوی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۹، ۲ / ۲۷۰)

             ان قبائل کے بارے میں صحیح بخاری او رمسلم میں حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے ، رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ قریش ، انصار ، جُہَینہ ،مُزَیْنَہ ، اسلم ، غفارا ورا شجع کے لوگ ہمارے دوست ہیں ، ان کامولیٰ اللہ اور رسول کے سوا اور کوئی نہیں۔(بخاری، کتاب المناقب، باب ذکر اسلم وغفار ومزینۃ۔۔۔ الخ،  ۲ / ۴۷۷، الحدیث: ۳۵۱۲، مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب دعاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم لغفار واسلم، ص۱۳۶۵، الحدیث: ۱۸۹(۲۵۲۰))

آیت ’’مَنْ یُّؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل

             اس سے دو مسئلے معلوم ہوئے۔

(1)… اللہ عَزَّوَجَلَّ اور قیامت کو ماننے والا وہی ہے جو حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  پر ایمان لائے کیونکہ دوسرے گنوار بھی اللہ تعالیٰ اور قیامت کو مانتے تھے مگر انہیں منکرین میں شامل کیا گیا۔

(2)… تمام اعمال پر ایمان مقدم ہے ۔یاد رہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور قیامت پر ایمان میں تمام ایمانیات داخل ہیں لہٰذا قیامت، جنت دوزخ، حشر، نشر سب ہی پر ایمان ضروری ہے ۔

نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وسیلے کے بغیر رضائے الٰہی کے حصول کی کوشش بیکار ہے:

            علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ آیت کے اس حصے ’’ وَصَلَوٰتِ الرَّسُوۡلِ ‘‘ اور رسول کی دعاؤں کا ذریعہ سمجھتے ہیں ‘‘ کے تحت فرماتے ہیں ’’ کیونکہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  ہر نعمت میں سب سے بڑا واسطہ ہیں تو اللہ تعالیٰ کے لئے جو بھی عمل کیا جائے ا س میں ان کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، اللہ تعالیٰ نے ہمیں نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وسیلے سے اپنی فرمانبرداری کا حکم دیا ہے، ارشاد فرمایا 

’’قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ‘‘ (ال عمران:۳۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:  اے حبیب! فرما دو کہ اے لوگو! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبرداربن جاؤ اللہ تم سے محبت فرمائے گا۔

            تو جو یہ گمان رکھے کہ وہ اپنے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کو واسطہ اور وسیلہ بنائے بغیر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر لے گا تو یہ اس کی خام خیالی اور بیکار کوشش ہے ۔ (صاوی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۹، ۳ / ۸۳۱)

             معلوم ہوا کہ نیک اعمال میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے ساتھ حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی خوشنودی کی نیت کرنا شرک نہیں بلکہ قبولیت کی دلیل ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور ِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی دعا ئے مبارک ساری کائنات سے مُنفرد اور جداگانہ چیز ہے کیونکہ یہاں آیت میں قرب ِ الٰہی کے ساتھ حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعا کا حصول ایک مقصد کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔

 صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اور رضائے رسول:

             صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رضا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ كی خوشی کیلئے بطورِ خاص کوشش کیا کرتے تھے جیسے اَحادیث میں ہے کہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں زیادہ تر نذرانے اس دن پیش کیا کرتے جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا کے گھر تشریف فرما ہوتے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا سے زیادہ محبت ہے ۔ اسی طرح سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خوشی ہی کیلئے خلفائے راشدین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے اَزواجِ مُطہّرات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کیلئے وظائف مقرر کئے ہوئے تھے۔

صدقہ وصول کرنے والے کے لئے سنت 

             تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا عمل مبارک یہی تھا کہ جب آپ کی بارگاہ میں کوئی صدقہ حاضر کرتا تو اس کے لئے خیر وبرکت اور بخشش کی دعا فرماتے ۔اس سے معلوم ہو اکہ  صدقہ وصول کرنے والے کیلئے سنت یہ ہے کہ صدقہ دینے والے کو دعائے خیر سے نوازے۔

{اَلَاۤ اِنَّهَا قُرْبَةٌ لَّهُمْ:سن لو! بیشک وہ ان کے لیے (اللہ کے) قرب کا ذریعہ ہے۔} یعنی بے شک ان کا خرچ کرنا ان کے لئے اللہ تعالیٰ کے قرب اور اس کی رضا حاصل ہونے کا ذریعہ ہے کیونکہ انہوں نے اخلاص کے ساتھ اپنا مال خرچ کیا اور اپنے اس عمل کو رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف وسیلہ بنایا عنقریب اللہ عَزَّوَجَلَّ انہیں اپنی رحمت یعنی جنت میں داخل فرمائے گا، بیشک اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے اطاعت گزار بندوں کو بخشنے والا اور ان پرمہربان ہے۔ (جلالین مع صاوی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۹، ۳ / ۸۳۱)

اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ

            اِس آیت میں راہِ خدا میں خرچ کرنے کی نہایت عظمت کا بیان ہے اور وہ یوں کہ ویسے تو ہر نیک عمل اللہ عَزَّوَجَلَّ کے قرب کا ذریعہ ہے لیکن راہِ خدا میں خرچ کرنا ایسا خاص عمل ہے کہ جس کو بطورِ خاص اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے قرب کا ذریعہ قرآن میں بیان فرمایا ہے۔

اللہ تعالیٰ کے قرب سے متعلق 3 اَحادیث:

            یہاں آیت کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کے قرب سے متعلق3اَحادیث ملاحظہ ہوں ،

(1)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے’’ جو میرے کسی ولی سے عداوت رکھے میں اسے اعلانِ جنگ دیتا ہوں اور میرے کسی بندے کا فرض عبادتوں کے مقابلے میں دوسری عبادتوں کے ذریعے مجھ سے قریب ہونا مجھے زیادہ پسند نہیں اور میرا بندہ (فرض عبادات کی ادائیگی کے ساتھ) نَوافل کے ذریعے مجھ سے قریب ہوتا رہتا ہے، حتّٰی کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں ، پھر جب اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کے کان ہو جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھیں ہوجاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پائوں بن جاتا ہے جن سے وہ چلتا ہے ، اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو اسے دیتا ہوں اور اگر میری پناہ لیتا ہے تو اسے پناہ دیتا ہوں اور جو مجھے کرنا ہوتا ہے اس میں کبھی میں تردد نہیں کرتا جیسے کہ میں اس مومن کی جان نکالنے میں توقف کرتا ہوں جو موت سے گھبراتا ہے اور میں اسے ناخوش کرنا پسند نہیں کرتا ادھر موت بھی اس کے لیے ضروری ہے۔ (مشکاۃ المصابیح، کتاب الدعوات، باب ذکر اللہ عزّوجل والتقرّب الیہ، الفصل الاول، ۱ / ۴۲۳، الحدیث: ۲۲۶۶)

(2)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے’’ میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ رہتا ہوں ، پس اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرے تو میں بھی اسے اکیلے ہی یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے کسی گروہ میں یاد کرتا ہے تو میں اس سے بہتر گروہ میں اسے یاد کرتا ہوں اور اگر وہ بالشت بھر میرے قریب ہوتا ہے تو میری رحمت گز بھر اس کے قریب ہوجاتی ہے اور اگر وہ گز بھر میرے قریب ہوتا ہے تو میری رحمت دونوں ہاتھوں کے پھیلاؤ کے برابر اس کے قریب ہو جاتی ہے اور اگر وہ چل کر میری طرف آتا ہے تو میری رحمت دوڑ کر ا س کی طرف جاتی ہے۔ (بخاری، کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالی: ویحذّرکم اللہ نفسہ، ۴ / ۵۴۱، الحدیث: ۷۴۰۵)

(3)…حضرت ابو ذر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’جو ایک نیکی کرے اسے دس گنا ثواب ہے اور زیادہ بھی دوں گا اور جو ایک گناہ کرے تو ایک برائی کا بدلہ اس کے برابر ہی ہے یا (میں چاہوں تو ) اسے بخش دوں اور جو مجھ سے ایک بالشت قریب ہوتا ہے تو میری رحمت ایک گز اس کے نزدیک ہوجاتی ہے اورجو مجھ سے ایک گز نزدیک ہو تا ہے تو میری رحمت دونوں ہاتھوں کے پھیلاؤ برابر اس سے قریب ہوجاتی ہے ، جو میری طرف چلتا ہوا آتا ہے تومیری رحمت اس کی طرف دوڑتی ہوئی آتی ہے، اور جو کسی کو میرا شریک نہ ٹھہرائے پھر زمین بھر گناہ لے کر مجھ سے ملے تو میں اتنی ہی بخشش کے ساتھ اس سے ملوں گا۔ (مسلم، کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، باب فضل الذکر والدعاء والتقرّب الی اللہ تعالی، ص۱۴۴۳، الحدیث: ۲۲(۲۶۸۷))

وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ-رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(100)

ترجمہ: اور بیشک مہاجرین اور انصار میں سے سابقینِ اولین اوردوسرے وہ جو بھلائی کے ساتھ ان کی پیروی کرنے والے ہیں ان سب سے اللہ راضی ہوا اور یہ اللہ سے راضی ہیں اور اس نے ان کیلئے باغات تیار کررکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ،ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے، یہی بڑی کامیابی ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ السّٰبِقُوْنَ:اور سبقت لے جانے ۔} اس آیت کی ابتداء میں صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے دو گروہوں کا ذکر ہوا۔

(1)… سابقین مہاجرین یعنی ایمان قبول کرنے میں دوسروں پر سبقت لے جانے والے مہاجرین ۔ان کے بارے میں بعض مفسرین کا قول یہ ہے کہ ان سے مراد وہ لوگ ہیں  جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف نمازیں پڑھیں۔ ایک قول یہ ہے کہ ان سے اہلِ بدر مراد ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ ان سے اہلِ بیت ِرضوان مراد ہیں۔

(2)… سابقین انصار یعنی ایمان قبول کرنے میں دوسروں پر سبقت لے جانے والے انصار۔ ان سے مراد وہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ہیں کہ جو بیعتِ عَقَبۂ اُولیٰ میں شریک تھے جن کی تعداد چھ تھی، یونہی بیعتِ عقبۂ ثانیہ میں شریک بارہ صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اور بیعتِ عقبۂ ثالثہ میں شریک ستر صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم بھی سابقین انصار کہلاتے ہیں۔ پھر سابقین کے گروہ میں بھی جو ایمان قبول کرنے میں سب سے سابق ہیں وہ یہ حضرات ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا یعنی مردوں میں سب پہلے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے، عورتوں میں سب سے پہلے اُمّ المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھانے، بچوں میں سب سے پہلے حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے اور غلاموں میں سب سے پہلے حضرت زید بن حارثہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایمان قبول کیا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۳ / ۲۷۴، ملخصاً)

{وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ: اور جو بھلائی کے ساتھ ان کی پیروی کرنے والے ہیں۔} بعض مفسرین نے فرمایا کہ ان سے باقی مہاجرین و انصار مراد ہیں ، اس قول کے مطابق تمام صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اس آیت میں داخل ہوگئے اور ایک قول یہ ہے کہ پیرو ی کرنے والوں سے قیامت تک کے وہ ایماندار مراد ہیں جو ایمان ، طاعت ا ورنیکی میں انصار و مہاجرین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے راستے پرچلیں۔ ان سب سے اللہ عَزَّوَجَلَّ راضی ہوا کہ اسے  ان کے نیک عمل قبول ہیں اور یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے راضی ہیں کہ اس کے ثواب و عطاسے خوش ہیں۔ اور اس نے ان کیلئے باغات تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور یہ حضرات ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۲ / ۲۷۵)

سب صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم عادل اور جنتی ہیں 

            اس سے معلوم ہوا کہ سارے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم عادل ہیں اور جنتی ہیں ان میں کوئی گنہگار اور فاسق نہیں لہٰذا جوبد بخت کسی تاریخی واقعہ یا روایت کی وجہ سے صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم میں سے کسی کو فاسق ثابت کرے، وہ مردود ہے کہ اس آیت کے خلاف ہے اور ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ درج ذیل حدیث پاک کو دل کی نظر سے پڑھ کر عبرت حاصل کرنے کی کوشش کرے، چنانچہ

             حضرت عبداللہ بن مغفل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میرے صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے بارے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو، اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو۔ میرے صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے بارے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو، اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو۔ میرے بعد انہیں نشانہ نہ بنانا کیونکہ جس نے ان سے محبت کی تو ا س نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو اس نے میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا اور جس نے انہیں ستایا اس نے مجھے ستایا اور جس نے مجھے ستایا اس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کو ایذا دی اور جس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کی پکڑ فرما لے۔ (ترمذی، کتاب المناقب، باب فی من سبّ اصحاب النبیّ صلی اللہ علیہ وسلم، ۵ / ۴۶۳، الحدیث: ۳۸۸۸)

نیکی میں پہل کرنا زیادہ باعث فضیلت ہے

             اِس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نیکی کرنا یقینا بہت اچھی بات ہے لیکن نیکی میں پہل کرنا زیادہ فضیلت کا باعث ہے کیونکہ پہل کرنے والا نیکی کے اس کام کو قوت و طاقت دیتا ہے اور نیکی کی طرف جلد رغبت میں فطرت کے نیک اور اچھا ہونے کی علامت بھی ہوتی ہے۔

تابعی کی تعریف اور ان کے فضائل

           صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی حالت ِ ایمان میں زیارت کرنے والے حضرات کوتابعین کہا جاتا ہے اور یہ لفظ بھی غالباً اسی آیتِ مبارکہ سے لیا گیا ہے۔ ان کے زمانے کے بارے میں حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں ، پھر جو لوگ ان کے قریب ہیں ، پھر جو لوگ ان کے قریب ہیں۔ (بخاری، کتاب الشہادات، باب لا یشہد علی شہادۃ جور اذا شہد، ۲ / ۱۹۳، الحدیث: ۲۶۵۲)

            حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’لوگوں پر ایک ایسازمانہ آئے گا کہ جب وہ بکثرت جمع ہو کر جہاد کریں گے توان سے پوچھا جائے گا کہ کیاتم میں کوئی ایسا شخص ہے جو رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صحبت میں رہا ہو؟لوگ کہیں گے کہ ہاں ! تو انہیں فتح حاصل ہو جائے گی۔ پھر ایک ایسا زمانہ آئے گاکہ وہ کثیر تعداد میں جمع ہو کر جہاد کریں گے تو ان سے دریافت کیا جائے گا کہ کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے جس نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اصحاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی صحبت پائی ہو؟ وہ جواب دیں گے :ہاں !تو انہیں فتح حاصل ہو جائے گی ۔ پھر لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ وہ بڑی تعداد میں جمع ہو کر جہاد کریں گے تو ان سے دریافت کیا جائے گا: کیا تمہارے درمیان کوئی ایسا شخص ہے جس نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اصحاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی صحبت سے مشرف ہونے والو ں کی صحبت کا شرف حاصل کیا ہو؟ لوگ اِثبات میں جواب دیں گے تو انہیں بھی فتح دی جائے گی۔ (بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبیّ صلی اللہ علیہ وسلم، ۲ / ۵۱۵، الحدیث: ۳۶۳۹)

            حضرت جابررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اس مسلمان کو آگ نہ چھوئے گی جس نے مجھے دیکھا یا میرے دیکھنے والے کو دیکھا۔ (ترمذی، کتاب المناقب، باب ما جاء فی فضل من رأی النبیّ صلی اللہ علیہ وسلم وصحبہ، ۵ / ۴۶۱، الحدیث: ۳۸۸۴)

وَ مِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ ﳍ وَ مِنْ اَهْلِ الْمَدِیْنَةِ ﳌ مَرَدُوْا عَلَى النِّفَاقِ-لَا تَعْلَمُهُمْؕ-نَحْنُ نَعْلَمُهُمْؕ-سَنُعَذِّبُهُمْ مَّرَّتَیْنِ ثُمَّ یُرَدُّوْنَ اِلٰى عَذَابٍ عَظِیْمٍ(101)

ترجمہ: اور تمہارے آس پاس دیہاتیوں میں سے کچھ منافق ہیں اور کچھ مدینہ والے (بھی )وہ منافقت پر اڑگئے ہیں ۔ تم انہیں نہیں جانتے ، ہم انہیں جانتے ہیں ۔ عنقریب ہم انہیں دو مرتبہ عذاب دیں گے پھر انہیں بڑے عذاب کی طرف پھیرا جائے گا۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ:اور (اے مسلمانو!) تمہارے آس پاس دیہاتیوں میں سے کچھ منافق ہیں۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے مدینے کے منا فقین کے حالات بیان فرمائے، اس کے بعد دیہاتیوں میں جو منافقین تھے ان کا حال بیان فرمایا، پھر بیان فرمایا کہ اکابر مؤمنین وہ ہیں جو مہاجرین اور انصار میں سب سے پہلے ایمان قبول کرنے والے ہیں اور اس آیت میں بیان فرمایا کہ مدینہ منورہ کی آس پاس کی بستیوں میں بھی منافقین کی ایک جماعت ہے اگرچہ تم ان کے نفاق کو نہیں جانتے۔(تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۶ / ۱۳۰)

اور یونہی خود مدینہ طیبہ میں بھی کچھ منافقین ہیں جیسے عبداللہ بن اُبی اور اس کے ساتھی اور دیگر بہت سے لوگ جن کے بارے میں قرآن مجید کی متعدد آیات میں نشاندہی کی جاتی رہی۔

صرف جگہ سے کسی کے اچھا یا برا ہونے کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا :

اس آیت سے معلوم ہوا کہ کسی کے اچھا یا برا ہونے کا فیصلہ صرف جگہ سے نہیں کیا جاسکتا جیسے مدینہ منورہ میں رہنے کے باوجود کچھ لوگ منافق اور لائقِ مذمت ہی رہے، ہاں اگر عقیدہ صحیح ہے تو پھر جگہ کی فضیلت بھی کام دیتی ہے جیسے سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مدینہ طیبہ کے بارے میں ارشاد فرمایا : ’’مدینہ کی تکلیف و شدت پر میری اُمت میں سے جو کوئی صبر کرے قیامت کے دن میں اس کا شفیع ہوں گا ۔ (مسلم، کتاب الحج، باب الترغیب فی سکنی المدینۃ۔۔۔ الخ، ص۷۱۵، الحدیث: ۴۸۳(۱۳۷۷))

حضرت سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ مدینہ لوگوں کے لئے بہتر ہے اگر جانتے ، مدینہ کو جو شخص بطورِ اعراض چھوڑے گا اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اُسے لائے گا جو اس سے بہتر ہوگا اور مدینہ کی تکلیف و مشقت پر جو ثابت قدم رہے روزِ قیامت میں اس کا شفیع یا شہید (یعنی گواہ) ہوں گا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ’’ جو شخص اہلِ مدینہ کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے اللہ عَزَّوَجَلَّ اُسے آگ میں اس طرح پگھلائے گا جیسے سیسہ یا اس طرح جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے ۔ (مسلم، کتاب الحج، باب فضل المدینۃ ودعاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم فیہا بالبرکۃ۔۔۔ الخ، ص۷۰۹-۷۱۰، الحدیث: ۴۵۹-۴۶۰(۱۳۶۳))

حضرت سفیان بن ابی زہیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ’’ یمن فتح ہو گا ،اس وقت کچھ لوگ دوڑتے ہوئے آئیں گے اور اپنے گھر والوں اور ان کو جو اُن کی اطاعت میں ہیں لے جائیں گے حالانکہ مدینہ اُن کے لئے بہتر ہے اگر جانتے اور شام فتح ہوگا، کچھ لوگ دوڑتے آئیں گے ، اپنے گھر والوں اور فرمانبرداروں کو لے جائیں گے حالانکہ مدینہ ان کے لئے بہتر ہے اگر جانتے، اور عراق فتح ہو گا، کچھ لوگ جلدی کرتے آئیں گے اور اپنے گھر والوں اور فرمانبرداروں کو لے جائیں گے حالانکہ مدینہ ان کے لئے بہتر ہے اگر جانتے۔ (بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، باب من رغب عن المدینۃ، ۱ / ۶۱۸، الحدیث: ۱۸۷۵، مسلم، کتاب الحج، باب الترغیب فی المدینۃ عند فتح الامصار، ص۷۱۹، الحدیث: ۴۹۷(۱۳۸۸))

حضرت سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جو شخص اہلِ مدینہ کے ساتھ فریب کرے گا وہ ایسے گھل جائے گا جیسے نمک پانی میں گھلتا ہے۔ (بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، باب اثم من کاد اہل المدینۃ، ۱ / ۶۱۸، الحدیث: ۱۸۷۷)

حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےارشادفرمایا:’’ جو اہلِ مدینہ کو ڈرائے گااللہ عَزَّوَجَلَّ اسے خوف میں ڈالے گا۔ (ابن حبان، کتاب الحج، باب فضل المدینۃ، ذکر البیان بانّ اللہ جلّ وعلا یخوف من اخاف اہل المدینۃ۔۔۔ الخ، ۴ / ۲۰، الحدیث: ۳۷۳۰، الجزء السادس)

حضرت عبادہ بن صامت  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سےروایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ یا اللہ !عَزَّوَجَلَّ، جو اہلِ مدینہ پر ظلم کرے اور انہیں ڈرائے تو اُسے خوف میں مبتلا کر اور اس پر اللہ تعالیٰ ، فرشتوں اور تمام آدمیوں کی لعنت ہے اور اس کا نہ فرض قبول کیا جائے گا نہ نفل ۔ (معجم الاوسط، باب الراء، من اسمہ روح، ۲ / ۳۷۹، الحدیث: ۳۵۸۹)

حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو اہلِ مدینہ کو ایذا دے گا اللہ تعالیٰ اُسے ایذا دے گا اور اس پر اللہ عَزَّوَجَلَّ اور فرشتوں اور تما م آدمیوں کی لعنت اور اللہ تعالیٰ اس کا نہ فرض قبول فرمائے گا نہ نفل ۔(مجمع الزوائد، کتاب الحج، باب فیمن اخاف اہل المدینۃ وارادہم بسو ء، ۳ / ۶۵۹، الحدیث: ۵۸۲۶)

حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، سرکار ِدو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس سے ہو سکے کہ مدینہ میں مرے تو مدینہ ہی میں مرے کہ جو شخص مدینہ میں مرے گا میں اُس کی شفاعت فرماؤں گا۔ (ترمذی، کتاب المناقب، باب فی فضل المدینۃ، ۵ / ۴۸۳، الحدیث: ۳۹۴۳)

{ لَا تَعْلَمُهُمْؕ-نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ:تم انہیں نہیں جانتے ، ہم انہیں جانتے ہیں۔} اس کے معنی یا تویہ ہیں کہ ایسا جاننا جس کا اثر انہیں معلوم ہو ،وہ ہمارا جاننا ہے کہ ہم انہیں عذاب کریں گے یا حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے منافقین کا حال جاننے کی نفی جو پہلے ہو چکا اس کے اعتبار سے ہے اور اس کا علم بعد میں عطا ہوا جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا

’’وَ لَتَعْرِفَنَّهُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ‘‘ (محمد:۳۰)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور ضرور تم انہیں گفتگو کے انداز میں پہچان لو گے۔ (جمل، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۳ / ۳۰۴، ملخصاً)

کلبی اور سدی نے کہا کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جمعہ کے دن خطبے کے لئے قیام کرکے نام بنام فرمایا: نکل اے فلاں ! تو منافق ہے ،نکل۔ اے فلاں ! تو منافق ہے، تو مسجد سے چند لوگوں کو رسوا کرکے نکالا۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس کے بعد منافقین کے حال کا علم عطا فرمایا گیا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۲ / ۲۷۶)

{سَنُعَذِّبُهُمْ مَّرَّتَیْنِ:عنقریب ہم انہیں دو مرتبہ عذاب دیں گے۔} دو مرتبہ عذاب دینے سے مراد یہ ہے  ایک بار تو دنیا میں رسوائی اور قتل کے ساتھ اور دوسری مرتبہ قبر میں عذاب دیں گے۔ پھر انہیں بڑے عذاب یعنی عذابِ دوزخ کی طرف پھیرا جائے گا جس میں ہمیشہ گرفتار رہیں گے۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ منافقین کو تین بار عذاب دے گا ایک مرتبہ دنیا میں ، دوسری مرتبہ قبر میں اور تیسری مرتبہ آخرت میں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۲ / ۲۷۶

عذابِ قبر کا ثبوت:

         اسی آیت میں عذاب ِ قبر کا بھی ثبوت ہے۔ بعض بے علم لوگ اور منکرینِ حدیث عذاب ِقبر کا انکار کرتے ہیں یہ صریح گمراہی ہے ۔ اِس بارے میں اَحادیث بکثرت ہیں جن میں سے 5یہاں پر بیان کی جاتی ہیں۔

(1)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اگر مجھے یہ خدشہ نہ ہوتا کہ تم مُردوں کو دفن کرنا چھوڑ دو گے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ وہ تمہیں عذابِ قبر سنائے۔ (مسلم، کتاب الجنّۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب عرض مقعد المیّت من الجنّۃ او النار علیہ۔۔۔ الخ، ص۱۵۳۴، الحدیث: ۶۸(۲۸۶۸))

(2)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دو قبروں کے پا س سے گزرے تو ارشاد فرمایا ’’ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور یہ کسی (ایسے) بڑے گناہ کی وجہ سے عذاب نہیں دئیے جا رہے (جن سے بچنا مشکل ہو)۔پھر ارشاد فرمایا’’کیوں نہیں ! (بے شک وہ گناہ معصیت میں بڑا ہے) ان میں سے ایک چغلی کھایا کرتا تھا اور دوسرا پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا۔ پھر آپ نے ایک سبز ٹہنی توڑی اور اس کے دو حصے کئے ،پھر ہر قبر پرا یک حصہ گاڑ دیا، پھر فرمایا کہ جب تک یہ خشک نہیں ہوں گی شاید ان کے عذاب میں تخفیف ہوتی رہے۔( بخاری، کتاب الجنائز، باب عذاب القبر من الغیبۃ والبول، ۱ / ۴۶۴، الحدیث: ۱۳۷۸)

(3)…حضرت براء بن عازب  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ہم حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ایک انصا ری صحابی  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے جنازے میں نکلے ،جب قبر تک پہنچے تو وہ ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی چنانچہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بیٹھ گئے اور ہم بھی ان کے اردگرد اس طرح خاموشی سے بیٹھ گئے گویا کہ ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دستِ مبارک میں ایک لکڑی تھی جس کے ساتھ زمین کرید نے لگے اور سرِ انور اٹھا کر دو یا تین مرتبہ ارشاد فرمایا ’’اِسْتَعِیْذُوْا بِاللہِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ‘‘ قبر کے عذاب سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو۔( ابوداؤد، کتاب السنّۃ، باب فی المسألۃ فی القبر وعذاب القبر، ۴ / ۳۱۶، الحدیث: ۴۷۵۳)

(4)…حضرت امّ مبشر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَافرماتی ہیں کہ میں بنو نجار کے ایک باغ میں تھی اور اس میں بنو نجار کے زمانۂ جاہلیت میں مرنے والوں کی قبریں تھیں اس وقت میرے پا س رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لائے، پھر جاتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’اِسْتَعِیْذُوْا بِاللہِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ‘‘ قبر کے عذاب سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو۔ میں نے سنا تو عرض کی ’’یا رسول اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کیا قبر میں عذاب ہوتا ہے؟ ارشاد فرمایا: ’’ہاں ! مردے اپنی قبروں میں ایسا عذاب دیئے جاتے ہیں جسے جانور سنتے ہیں۔(معجم ا لکبیر، امّ مبشر الانصاریۃ، ۲۵ / ۱۰۳، الحدیث:  ۲۶۸)

(5)…حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دعا مانگا کرتے ’’اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ وَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَ الْمَمَاتِ وَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ‘‘ اے اللہ ! عَزَّوَجَلَّ، میں عذابِ قبر سے، جہنم کے عذاب سے، زندگی اور موت کے فتنے سے اور مسیح دجال کے فتنے سے تیری پناہ لیتا ہوں۔(بخاری، کتاب الجنائز، باب التعوّذ من عذاب القبر، ۱ / ۴۶۴، الحدیث: ۱۳۷۷)

وَ اٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِهِمْ خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَّ اٰخَرَ سَیِّئًاؕ-عَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْهِمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(102)

ترجمہ: اور کچھ دوسرے لوگ جنہوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کیا تو انہوں نے ایک اچھا عمل اور دوسرا برا عمل ملادیا عنقریب اللہ ان کی توبہ قبول فرمائے گا۔ بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِهِمْ:اور کچھ دوسرے لوگ جنہوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کیا۔} یعنی کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جنہوں نے دوسروں کی طرح جھوٹے عذر نہ کئے بلکہ انہوں نے  اپنے گناہوں کا اقرار کیا اور اپنے فعل پر نادم ہوئے۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ص۴۵۲)

 شانِ نزول: جمہور مفسرین کا قول ہے کہ یہ آیت مدینہ طیبہ کے مسلمانوں کی ایک جماعت کے بارے میں نازل ہوئی جو غزوۂ تبوک میں حاضر نہ ہوئے تھے ،اس کے بعد نادم ہوئے اور توبہ کی اور کہا :افسوس ہم گمراہوں کے ساتھ یا عورتوں کے ساتھ رہ گئے حالانکہ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آپ کے اصحاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنہُم جہاد میں ہیں۔ جب حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے سفر سے واپس ہوئے اور مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو ان لوگوں نے قسم کھائی کہ ہم اپنے آپ کو مسجد کے ستونوں سے باندھ دیں گے اور ہر گز نہ کھولیں گے یہاں تک کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کھولیں۔یہ قسمیں کھا کر وہ مسجد کے ستونوں سے بندھ گئے جب حضورِانور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لائے اور انہیں ملاحظہ کیا تو فرمایا: یہ کون ہیں ؟ عرض کیا گیا :یہ وہ لوگ ہیں جو جہاد میں حاضر ہونے سے رہ گئے تھے، انہوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے عہد کیا ہے کہ یہ اپنے آپ کو نہ کھولیں گے جب تک حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اُن سے راضی ہو کر اُنہیں خود نہ کھولیں۔ حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا اور میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم کھاتا ہوں کہ میں انہیں نہ کھولوں گا نہ اُن کا عذر قبول کروں جب تک کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن کے کھولنے کا حکم نہ دیا جائے۔ تب یہ آیت نازل ہوئی اور رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں کھولا تو انہوں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ مال ہمارے رہ جانے کاسبب بنے۔ انہیں لیجئے اور صدقہ کیجئے اور ہمیں پاک کردیجئے اور ہمارے لئے دُعائے مغفرت فرمائیے ۔ حضورپُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: مجھے تمہارے مال لینے کا حکم نہیں دیا گیا اس پر اگلی آیت ’’خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ‘‘ نازل ہوئی۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۲ / ۲۷۶-۲۷۷)

{عَمَلًا صَالِحًا:ایک اچھا عمل۔} یہاں اچھے عمل سے یا قصور کا اعتراف کرلینا اور توبہ کرنامراد ہے یا اس غزوے میں حاضر نہ ہونے سے پہلے غزوات میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ حاضر ہونا مراد ہے یا طاعت و تقویٰ کے تمام اعمال مراد ہیں ،اس صورت میں یہ آیت تمام مسلمانوں کے بارے میں ہوگی۔ آیت کے اگلے حصے میں برے عمل سے تَخَلُّفْ یعنی جہاد سے رہ جانا مراد ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۲ / ۲۷۷)

{عَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْهِمْ:عنقریب اللہ ان کی توبہ قبول فرمائے گا۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کے توبہ کرنے کا ذکر نہیں فرمایا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے گناہوں کے اعتراف کو ذکر کر دیا اور گناہوں کا اعترف توبہ کی دلیل ہے۔( مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ص۴۵۳)

گناہوں پر ندامت بھی توبہ ہے:

            اس سے معلوم ہوا کہ گناہوں پر شرمندہ ہونا بھی توبہ ہے بلکہ توبہ کی اہم شرط ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’شرمندگی توبہ ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر التوبۃ، ۴ / ۴۹۲، الحدیث: ۴۲۵۲)

            نیز گناہوں پر شرمندگی عام طور پر گناہ چھڑوا ہی دیتی ہے، اسی لئے گناہوں پر جَری اور بیباک کی مذمت زیادہ ہے۔ اِس آیت میں ہم جیسے گناہگاروں کیلئے بھی بڑی امید ہے کہ اگرچہ ہمارے گناہ بے حدوحساب ہیں لیکن اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ نیک اعمال بھی کرہی لیتے ہیں اور اگر ہمارے اعمال ناقص ہیں تو کم از کم ہمارا نفسِ ایمان تو قطعی اور یقینی طور پر درست ہے اور وہ بھی نیک عمل ہے۔

خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّیْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَیْهِمْؕ-اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(103)

ترجمہ: 

اے حبیب! تم ان کے مال سے زکوٰۃ وصول کرو جس سے تم انھیں ستھرا اور پاکیزہ کردو اور ان کے حق میں دعائے خیر کروبیشک تمہاری دعا ان کے دلوں کا چین ہے اور اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً:اے حبیب! تم ان کے مال سے زکوٰۃ وصول کرو۔} اس آیت میں جو ’’صدقہ‘‘ کا لفظ مذکور ہے اس کے معنی میں مفسرین کے کئی قول ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ جن صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا ذکر اُوپر کی آیت میں ہے ،انہوں نے کفارے کے طور پر جو صدقہ دیا تھا وہ مراد ہے اوروہ صدقہ ان پر واجب نہ تھا۔  دوسرا قول یہ ہے کہ اس صدقہ سے مراد وہ زکوٰۃ ہے جو اُن کے ذمہ واجب تھی ،انہوں نے توبہ کی اور زکوٰۃ ادا کرنی چاہی تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لینے کا حکم دیا۔ امام ابوبکر جصاص رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس قول کو ترجیح دی ہے کہ صدقہ سے زکوٰۃ مراد ہے۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ۲ / ۲۷۸، احکام القرآن للجصاص، سورۃ التوبۃ، باب دفع الصدقات الی صنف واحد، ۳ / ۱۹۰)

{وَصَلِّ عَلَیْهِمْ:اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو۔} صدقہ پیش کرنے والے کے لئے دعائے خیر کرناسیّدا لمرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معمولات میں شامل تھا ،چنانچہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بِن اَبی اوفی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ جب کوئی رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے پاس صدقہ لاتا توآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کے حق میں دُعا کرتے، میرے والد صاحب نے صدقہ حاضر کیا تو حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے دعا فرمائی ’’اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی اٰلِ اَبِیْ اَوْفٰی‘‘ اے اللہ! ابو اَوفی کی اولاد پر رحمت نازل فرما۔( بخاری، کتاب الزکاۃ، باب صلاۃ الامام ودعائہ لصاحب الصدقۃ، ۱ / ۵۰۴، الحدیث: ۱۴۹۷، مسلم، کتاب الزکاۃ، باب الدعاء لمن اتی بصدقۃ، :ص۵۴۲، الحدیث: ۱۷۶(۱۰۷۸))

تفسیرمدارک میں ہے: سنت یہ ہے کہ صدقہ لینے والا صدقہ دینے والے کے لئے دعا کرے۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ص۴۵۳)

{اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ:بیشک تمہاری دعا ان کے دلوں کا چین ہے ۔}یعنی اے حبیب !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کی دعا ان کے لئے رحمت اور دلوں کا چین ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ خود حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مومنوں کے دلوں کا چین ہیں اور مسلمان کو جس قدر محبت و رغبت حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعائے مبارک کے حصول میں ہوسکتی ہے اور کس چیز میں ہوگی؟ یہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی ظاہری زندگی میں بھی تھا اور اب بھی ہے کیونکہ ہمارے اعمال نبی ٔرحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں ، اچھے عمل دیکھ کر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہیں اور اگر اچھے نہ پائیں تو ہمارے لئے استغفار کرتے ہیں جیساکہ حدیث پاک میں ہے ’’ میری زندگی تمہارے لئے بہتر ہے اور میرا انتقال فرمانا تمہارے لئے بہتر ہے،تمہارے اعمال میری بارگاہ میں پیش کئے جائیں گے اگر اچھے عمل پاؤں گا تو میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی حمد کروں گا اور اگر اچھے اعمال کے علاوہ پاؤں گا تو تمہارے لئے مغفرت طلب کروں گا۔(مسند البزار، زاذان عن عبد اللہ، ۵ / ۳۰۸، الحدیث: ۱۹۲۵)

لہٰذا نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعا ان کی زندگی اور وفات کے بعد دونوں صورتوں میں حاصل ہو گی اور دلوں کے چین و سکون کا باعث بھی ہو گی۔

اَلَمْ یَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ هُوَ یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ وَ یَاْخُذُ الصَّدَقٰتِ وَ اَنَّ اللّٰهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(104)

ترجمہ: کیا انہیں معلوم نہیں کہ اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور خود صدقات( اپنے دستِ قدرت میں ) لیتا ہے اور یہ کہ اللہ ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَمْ یَعْلَمُوْا:کیا انہیں معلوم نہیں۔} اس آیت میں توبہ کرنے والوں کو بشارت دی گئی کہ ان کی توبہ اور ان کے صدقات مقبول ہیں۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جن لوگوں نے اب تک توبہ نہیں کی اس آیت میں انہیں توبہ اور صدقہ کی ترغیب دی گئی ہے۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۲ / ۲۷۹)

ہر جرم کی توبہ ایک جیسی نہیں :

             یاد رہے کہ ہر جرم کی توبہ ایک جیسی نہیں ، بلکہ مختلف جرموں کی توبہ بھی مختلف ہے جیسے اگر اللہ تعالیٰ کے حقوق تَلف کئے ہوں مثلاً نمازیں قضا کی ہوں ، رمضان کے روزے نہ رکھے ہوں ، فرض زکوٰۃ ادا نہ کی ہو، حج فرض ہونے کے بعد حج نہ کیا ہو ان سے توبہ یہ ہے کہ نماز روزے کی قضا کرے، زکوٰۃ ادا کرے ، حج کرے اور ندامت و شرمندگی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی تقصیر کی معافی مانگے، اسی طرح اگر اپنے کان ،آنکھ، زبان، پیٹ، ہاتھ پاؤں ، شرمگاہ اور دیگر اَعضا سے ایسے گناہ کئے ہوں جن کا تعلق اللہ تعالیٰ کے حقوق کے ساتھ ہو بندوں کے حقوق کے ساتھ نہ ہو جیسے غیر مَحرم عورت کی طرف دیکھنا، جنابت کی حالت میں مسجد میں بیٹھنا، قرآنِ مجید کو بے وضو ہاتھ لگانا، شراب نوشی کرنا، گانے باجے سننا وغیرہ، ان سے توبہ یہ ہے کہ