سُوْرَۃ يُونُس
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
ترجمہ: کنزالعرفان
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ، رحمت والاہے ۔
تفسیر: صراط الجنان
{ بِسْمِ اللّٰهِ: اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔(کنز العمال، کتاب الاذکار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول، الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔
{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق
الٓرٰ- تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِیْمِ(1)
ترجمہ: کنزالعرفان
’’الر‘‘، یہ حکمت والی کتاب کی آیتیں ہیں
تفسیر: صراط الجنان
{الٓرٰ:} یہ حروفِ مُقَطَّعات میں سے ہے، اس کی مراد اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ (جلالین، یونس، تحت الآیۃ: ۱، ص۱۶۹)
{تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِیْمِ:یہ حکمت والی کتاب کی آیتیں ہیں۔} ایک قول یہ ہے کہ اس آیت میں ان آیات کی طرف اشارہ ہے جو اس سورت میں موجود ہیں ، معنی یہ ہیں کہ اے حبیب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ آیات قرآن ہی کی آیات ہیں جو آپ پر نازل کیا گیا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے قرآنِ پاک کی ان آیات کی طرف اشارہ ہے جو اس سورت سے پہلے ذکر ہوئیں اور معنی یہ ہیں کہ وہ آیات حکمت والی کتاب کی آیتیں ہیں۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۱، ۲ / ۲۹۹
اَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى رَجُلٍ مِّنْهُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَ بَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ ﳳ-قَالَ الْكٰفِرُوْنَ اِنَّ هٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِیْنٌ(2)
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا لوگوں کو اس بات پر تعجب ہے کہ ہم نے ان میں سے ایک مرد کی طرف یہ وحی بھیجی کہ لوگوں کو ڈر سناؤاور ایمان والوں کو خوشخبری دو کہ ان کے لیے ان کے رب کے پاس سچ کا مقام ہے۔ کافروں نے کہا: بیشک یہ تو کھلا جادوگر ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا:کیا لوگوں کو اس بات پر تعجب ہے۔} شانِ نزول : حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ جب اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی نے رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو رسالت سے مشرف فرمایا اور آپ نے اس کا اظہار کیا تو عرب میں رہنے والے لوگ منکر ہوگئے اور ان میں سے بعضوں نے یہ کہا کہ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ اس سے برتر ہے کہ کسی بشر کو رسول بنائے، اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۲، ۲ / ۳۰۰)
{قَدَمَ صِدْقٍ:سچ کا مقام ۔} قدم سے اس کی جگہ یعنی مقام مراد ہے اور مفسرین نے قَدَمَ صِدْقٍ کے معنی بیان فرمائے ہیں ، بہترین مقام، جنت میں بلند مرتبہ، نیک اعمال، نیک اعمال کا اَجر اور نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شفاعت۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۲، ۲ / ۳۰۰، صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۲، ۳ / ۸۵۳، ملتقطاً) گویا فرمایا گیا کہ مومنین کیلئے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں بہترین مقام ہے یا جنت میں بلند مرتبہ ہے یادنیا میں نیک اعمال کی توفیق ہے یا آخرت میں نیکیوں کا اجر ہے یا سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شفاعت ہے۔
{قَالَ الْكٰفِرُوْنَ:کافروں نے کہا۔} کفار نے پہلے تو بشر کا رسول ہونا قابلِ تعجب و انکار قرار دیا اور پھر جب حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معجزات دیکھے اور یقین ہوا کہ یہ بشر کی قدرت سے بالا تر ہیں تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ساحر بتایا۔ اُن کا یہ دعویٰ تو کِذب و باطل ہے مگر اس میں بھی حضورِاکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کمال اور اپنے عِجز کا اِعتراف پایا جاتا ہے۔(تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۲، ۶ / ۱۸۷، مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۲، ص۴۶۲، ملتقطاً)
اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ یُدَبِّرُ الْاَمْرَؕ-مَا مِنْ شَفِیْعٍ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اِذْنِهٖؕ-ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ(3)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک تمہارا رب اللہ ہے جس نے آسمان اور زمین چھ دن میں بنائے پھر عرش پر استواء فرمایا جیسا اس کی شان کے لائق ہے، وہ کام کی تدبیر فرما تا ہے ، اس کی اجازت کے بعد ہی کوئی سفارشی ہوسکتا ہے۔ یہ اللہ تمہارا رب ہے تو تم اس کی عبادت کرو تو کیا تم سمجھتے نہیں
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ:بیشک تمہارا رب اللہ ہے۔} اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے وحی، بعثت اور رسالت پر کفار کے تعجب کو بیان فرمایا اورا س آیت میں ان کے اُس تعجب کو اس طرح زائل فرمایا کہ ساری مخلوق کو پیدا فرمانے والی ذات کا ان کی طرف ایک رسول بھیجنا کہ جوانہیں نیک اعمال پر ثواب کی بشارت دے اور برے اعمال پر عذاب سے ڈرائے کوئی بعید نہیں ہے کیونکہ اس جہاں کو پیدا کرنے والا ایک ہے ، وہ ہر چیز پر قادر اور اس کے احکام نافذ ہیں۔ا س کی دلیل یہ ہے کہ اس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا اور وہی اس کائنات کے نظام کو چلا رہا ہے ،نیز وہی ثواب اور عذاب دینے والا ہے کیونکہ اس دنیا کی زندگی کے بعد سب نے اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ،اس لئے تمام مخلوق کو اسی کی عبادت کرنی چاہئے۔ (تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۳،۶ / ۱۸۸، ملخصاً)
نوٹ:آسمانوں اور زمینوں کو چھ دن میں پیدا کرنے اور عرش پر اِستوا فرمانے کی تفسیر سورۂ اَعراف آیت نمبر 54 میں گزر چکی ہے۔
{مَا مِنْ شَفِیْعٍ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اِذْنِهٖ:اس کی اجازت کے بعد ہی کوئی سفارشی ہوسکتا ہے۔} اس میں بت پرستوں کے اس قول کا رد ہے کہ بت اُن کی شفاعت کریں گے انہیں بتایا گیا کہ شفاعت اجازت یافْتْگان کے سوا کوئی نہیں کرے گا اور اجازت یافتہ صرف اس کے مقبول بندے ہوں گے۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۳، ۲ / ۳۰۱)
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شفاعت:
قیامت کے دن انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، اولیاء و صالحین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اور دیگر جنتی شفاعت فرمائیں گے اور اِن شفاعت کرنے والوں کے سردار اور آقا و مولیٰ حضور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہوں گے۔ چنانچہ
حضرت اُبی بن کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میں قیامت کے دن انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا امام، خطیب اور شفیع ہوں گا اور اس پر (مجھے) فخر نہیں۔ (ترمذی، کتاب المناقب، باب ما جاء فی فضل النبی صلی اللہ علیہ وسلم، ۵ / ۳۵۳، الحدیث: ۳۶۳۳)
حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ شہید کی شفاعت اس کے ستر قریبی رشتہ داروں کے بارے میں مقبول ہوگی۔ (ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب فی الشہید یشفع،۳ / ۲۲، الحدیث: ۲۵۲۲)
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن لوگ صفیں باندھے ہوں گے ،اس وقت ایک جہنمی ایک جنتی کے پاس سے گزرے گا تو اس سے کہے گا: کیا آپ کو یاد نہیں کہ آپ نے ایک دن مجھ سے پانی پینے کو مانگا تو میں نے آپ کو پانی پلایا تھا؟ اتنی سی بات پر وہ جنتی اس جہنمی کی شفاعت کرے گا۔ ایک (جہنمی) دوسرے (جنتی) کے پاس سے گزرے گا تو کہے گا: آپ کو یاد نہیں کہ ایک دن میں نے آپ کو وضو کرنے کے لئے پانی دیا تھا؟ اتنے ہی پروہ اس کا شفیع ہوجائے گا ،ایک کہے گا: آپ کو یاد نہیں کہ فلاں دن آپ نے مجھے فلاں کام کے لئے بھیجا تو میں چلا گیا تھا؟ اس قدر پریہ اس کی شفاعت کرے گا۔(ابن ماجہ، کتاب الادب، باب فضل صدقۃ الماء، ۴ / ۱۹۶، الحدیث: ۳۶۸۵)
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ایک جنتی شخص جھانک کر جہنمیوں کی طرف دیکھے گا تو ایک جہنمی اس سے کہے گا: آپ مجھے نہیں جانتے؟ وہ کہے گا ’’وَاللہ! میں تو تجھے نہیں پہچانتا، تم پر افسوس ہے، تو کون ہے؟ وہ کہے گا: میں وہ ہوں کہ آپ ایک دن میری طرف سے ہو کر گزرے اور مجھ سے پانی مانگا اور میں نے پلا دیا تھا ، اس کے صِلہ میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حضور میری شفاعت کیجئے۔ وہ جنتی اللہ عَزَّوَجَلَّ کے زائروں میں اس کے حضور حاضر ہو کر یہ حال بیان کر کے عرض کرے گا: اے میرے رب !عَزَّوَجَلَّ، تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔ تو اللہ تعالیٰ اُس کے حق میں اِس کی شفاعت قبول فرمائے گا۔(مسند ابو یعلی، مسند انس بن مالک، ما اسندہ ثابت البنانی عن انس، ۳ / ۲۳۷، الحدیث: ۳۴۷۷)
اِلَیْهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِیْعًاؕ-وَعْدَ اللّٰهِ حَقًّاؕ-اِنَّهٗ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ بِالْقِسْطِؕ-وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِیْمٍ وَّ عَذَابٌ اَلِیْمٌۢ بِمَا كَانُوْا یَكْفُرُوْنَ(4)
ترجمہ: کنزالعرفان
اسی کی طرف تم سب کو لوٹنا ہے (یہ) اللہ کا سچا وعدہ ہے۔ بیشک وہ پہلی بار (بھی) پیدا کرتا ہے پھر فنا کرنے کے بعد دوبارہ بنائے گا تاکہ ایمان لانے والوں اور اچھے عمل کرنے والوں کو انصاف کے ساتھ بدلہ دے اور کافروں کے لیے ان کے کفر کی وجہ سے شدید گرم پانی کا مشروب اور دردناک عذاب ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّهٗ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ: بیشک وہ پہلی بار (بھی) پیدا کرتا ہے۔} اس آیت میں حشر و نشر، مَعاد یعنی لوٹنے کی جگہ کا بیان اور منکرین کا رد ہے اور اس پر نہایت لطیف پیرایہ میں دلیل قائم فرمائی گئی ہے کہ وہ پہلی بار زندگی دیتا ہے اور اَعضاءِ مُرَکَّبَہ کو پیدا کرتا اور ترکیب دیتا ہے تو موت کے ساتھ اعضاء کے مُنتشر ہو جانے کے بعد ان کو دوبارہ ترکیب دینا اور بنے ہوئے انسان کو فنا ہوجانے کے بعد پھر دوبار ہ بنا دینا اور وہی جان جو اس بدن سے تعلق رکھتی تھی اس کو اس بدن کی درستی کے بعد پھر اسی بدن سے متعلق کردینا اس کی قدرت سے کیا بعید ہے اور اس دوبارہ پیدا کرنے کامقصود جزائے اعمال یعنی فرمانبردار کو ثواب اور گناہگار کو عذاب دینا ہے۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۴، ۲ / ۳۰۱)
{بِالْقِسْطِ: انصاف کے ساتھ ۔} اس سے مراد یہ ہے کہ نیکوں کے ثواب میں کمی نہ کی جائے گی، یا اس سے یہ مراد ہے کہ نیکوں نے دنیا میں انصاف کیا کہ جن باتوں کا انہیں حکم دیا گیا ان پر عمل کیا اور جن سے روکا گیا اس سے باز رہے۔یہ عربی ترکیب کے اعتبار سے فرق ہے۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۴، ۲ / ۳۰۱، صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۴، ۳ / ۸۵۴، ملتقطاً)
{وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِیْمٍ:اور کافروں کے لیے شدید گرم پانی کا مشروب ہے۔} اس آیت میں جہنم کے اندر کفار کے جس مشروب کا بیان ہوا اس کی کیفیت ملاحظہ ہو ،چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’شدید گرم پانی ان (جہنمیوں )کے سر پر ڈالا جائے گا تو وہ سَرایت کرتے ہوئے ان کے پیٹ تک پہنچ جائے گا اور جو کچھ پیٹ میں ہو گا اسے کاٹ کر قدموں سے نکل جائے گا اور یہی ’’صَہْر‘‘ یعنی گل جانا ہے، (ان کے ساتھ) بار بار اسی طرح کیا جائے گا۔ (ترمذی، کتاب صفۃ جہنّم، باب ما جاء فی صفۃ شراب اہل النار، ۴ / ۲۶۲، الحدیث: ۲۵۹۱)
هُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَآءً وَّ الْقَمَرَ نُوْرًا وَّ قَدَّرَهٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَ الْحِسَابَؕ-مَا خَلَقَ اللّٰهُ ذٰلِكَ اِلَّا بِالْحَقِّۚ-یُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ(5)
ترجمہ: کنزالعرفان
وہی ہے جس نے سورج کو روشنی اور چاند کونور بنایا اور چاندکے لیے منزلیں مقرر کردیں تاکہ تم سالوں کی گنتی اور حساب جان لو ۔ اللہ نے یہ سب حق کے ساتھ پیدا فرمایا۔ وہ علم والوں کے لئے تفصیل سے نشانیاں بیان کرتا ہے
تفسیر: صراط الجنان
{هُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَآءً وَّ الْقَمَرَ نُوْرًا:وہی ہے جس نے سورج کو روشنی اور چاند کونور بنایا۔} ضیاء سے مراد ذاتی روشنی اور نور سے مراد دوسرے سے حاصل کی ہوئی روشنی ہے۔ جب اس روشنی کاتعلق سورج سے ہو تو اسے ضیاء اور چاند سے ہو تو اسے نور کہتے ہیں۔(صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۵، ۳ / ۸۵۵)
{وَ قَدَّرَهٗ مَنَازِلَ:اور چاندکے لیے منزلیں مقرر کردیں۔} چاند کی اٹھائیس منزلیں ہیں اور یہ بارہ بُرجو ں میں تقسیم ہیں ، ہر برج کے لئے2_1 / 3 منزلیں ہیں ،چاند ہر رات ایک منزل میں رہتا ہے اور مہینہ تیس دن کا ہو تو دو راتیں ورنہ ایک رات چھپتا ہے۔(بغوی، یونس، تحت الآیۃ: ۵، ۲ / ۲۹۰-۲۹۱) ان منزلوں کو مقرر کرنے میں حکمت یہ ہے تاکہ تم سالوں کی گنتی اور مہینوں ، دنوں اور ساعتوں کا حساب جان لو ۔اللہ عَزَّوَجَلَّ نے یہ سارا نظام عَبَث اور بیکار نہیں بنایا بلکہ حق کے ساتھ پیدا فرمایا ہے تاکہ اس سے اُس کی قدرت اور اس کی وحدانیت کے دلائل ظاہر ہوں اور اللہ عَزَّوَجَلَّ علم والوں کے لئے تفصیل سے نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ وہ ان میں غور کرکے نفع اٹھائیں۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۵، ۲ / ۳۰۲، مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۵، ص۴۶۳، ملتقطاً) اس سے معلوم ہوا کہ علمِ ریاضی ، علمِ ہَیئت ، علمِ فلکیات وغیرہ بڑے مفید علم ہیں کہ ان سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قدرت معلوم ہوتی ہے نیز حسنِ نیت کے ساتھ ان کا سیکھنا ثواب کا کام ہے۔
اِنَّ فِی اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ وَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَّقُوْنَ(6)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک رات اور دن کی تبدیلی میں اور جو کچھ اللہ نے آسمانوں اور زمین میں پیدا کیا ان میں ڈرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ فِی اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ:بیشک رات اور دن کی تبدیلی میں۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت اور وحدانیت پر زمین وآسمان کی تخلیق ،سورج اور چاند کے اَحوال سے دلائل قائم فرمائے اور اس آیت میں دن اور رات کے اختلاف سے حاصل ہونے والے فَوائد سے وحدانیت پر دلیل قائم فرمائی۔آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ بے شک دن اور رات کے آنے جانے،کم اور زیادہ ہونے میں اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں میں پیدا فرمایا جیسے فرشتے،سورج ، چاند، ستارے وغیرہ اور جو کچھ زمین میں پیدا فرمایا جیسے حیوان ،پہاڑ ،دریا،نہریں اور درخت وغیرہ ان سب میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کیلئے اللہ تعالیٰ کی قدرت اور وحدانیت پر نشانیاں موجود ہیں۔ (تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۶، ۶ / ۲۱۰، جلالین، یونس، تحت الآیۃ: ۶، ص۱۷۰، ملتقطاً)ان چیزوں کا نشانیاں ہونا بالکل واضح ہے کہ یہ سب اللہ عَزَّوَجَلَّ کی تخلیق اور قدرت کی دلیلیں ہیں کہ وہ کتنی عظیم قدرت و عظمت والا ہے جس نے ان سب چیزوں کو وجود بخشا۔
نوٹ:اس سے متعلق مزید تفصیل جاننے کے لئے سورۂ بقرہ آیت164کے تحت مذکور تفسیر ملاحظہ کیجئے۔
آیت کے آخر میں فرمایا کہ متقیوں کیلئے ان چیزوں میں نشانیاں ہیں۔چونکہ ا ن چیزوں میں غور کرکے ایما ن و عِرفان صرف خوفِ خدارکھنے والوں کو مُیَسَّر ہوتا ہے اس لئے انہی کا ذکر فرمایا۔ بہت سے کافر یہ چیزیں دیکھ کر سرکش ہوجاتے ہیں جیسے آج اکثرسائنس دانوں نے سائنس میں ترقی کرکے خداعَزَّوَجَلَّ کا انکار کردیا۔
اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا وَ رَضُوْا بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ اطْمَاَنُّوْا بِهَا وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنْ اٰیٰتِنَا غٰفِلُوْنَ(7)اُولٰٓىٕكَ مَاْوٰىهُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(8)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی پسند کر بیٹھے ہیں اور اس پر مطمئن ہوگئے ہیں اور وہ جو ہماری آیتوں سے غافل ہیں ۔ ان لوگوں کا ٹھکانہ ان کے اعمال کے بدلے میں دوزخ ہے
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ الَّذِیْنَ:بیشک وہ لوگ۔} ان آیات میں پہلے ان لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے کہ جو حشر یعنی مرنے کے بعد اٹھنے پر ایمان نہیں لاتے اور اس کے بعد حشر پر ایمان لانے والوں کا ذکر ہے۔(تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۷، ۶ / ۲۱۰، ملخصاً)اس آیت میں حشر پر ایمان نہ لانے والوں کی چار صِفات بیان فرمائی گئی ہیں :
(1)… وہ لوگ اللہ تعالیٰ سے ملنے کی امید نہیں رکھتے۔ مفسرین نے اس آیت میں ’’امید‘‘ کے دومعنی بیان کئے ہیں۔ (۱) خوف۔ اس سورت میں آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ جو قیامت کے دن ہم سے ملنے کاخوف نہیں رکھتے تو وہ ثواب اور عذاب کو جھٹلا رہے ہیں۔ (۲) طمع۔ اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ دنیا پر مطمئن ہو بیٹھے اور اللہ تعالیٰ کے ثواب کی طمع نہیں رکھتے۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۷، ۲ / ۳۰۲)
(2)… دنیا کی زندگی پسند کر بیٹھے ہیں۔ یعنی انہوں نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا، اس تھوڑی سی اور فانی کو بہت زیادہ اور باقی رہنے والی پر ترجیح دی۔(مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۷، ص۴۶۴)
(3)… اس پر مطمئن ہوگئے ہیں۔ کفار کا یہ قلبی اطمینان دنیا اور اس کی لذتوں کی طرف میلان کی وجہ سے ہے، اسی لئے ان کے دلوں سے ڈر اور خوف نکل گیا اور جب اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرنے اور اس کے عذاب کا خوف دلانے والی باتیں سنتے ہیں تو ان کے دل اس طرف مائل ہی نہیں ہوتے۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۷، ۲ / ۳۰۲)
(4)… وہ اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے غافل ہیں۔ حضرت عبد للہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہے کہ یہاں آیات سے تاجدار ِرسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذاتِ پاک اور قرآن شریف مراد ہے اور غفلت کرنے سے مراد اُن سے اِعراض کرنا ہے۔(بغوی، یونس، تحت الآیۃ: ۷، ۲ / ۲۹۱)
دنیا اور آخرت سے متعلق مسلمانوں کا حال :
یہاں آیتِ مبارکہ میں کفار کے اعتقاد کے اعتبار سے یہ احوال بیان فرمائے گئے ہیں لیکن عملی طور پر مسلمان بھی ان میں سے بہت سی چیزوں میں مُلَوّث ہیں جیسے دلوں سے قیامت کے حساب کتاب اورعذاب ِ الہٰی کا خوف نکل جانا، دنیا کی زندگی کو ہی پسند کرنا اور اسی کیلئے کوشش کرنا اور اسی پر مطمئن ہوکر بیٹھ جانا، قرآن اور احکاماتِ الہٰیہ سے غفلت، دلوں کا سخت ہونا، شدید وعیدیں سن کر بھی گناہوں سے باز نہ آنا یہ سب چیزیں ہمارے اندر اِس آیت کی روشنی میں افعالِ کفار کا عکس نہیں دِکھا رہیں تو اور کیا ہے؟
{اُولٰٓىٕكَ مَاْوٰىهُمُ النَّارُ:ان لوگوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔} یعنی ان لوگوں کے کفر، تکذیب اور خبیث اعمال کے بدلے میں ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۸، ۲ / ۳۰۲)
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ یَهْدِیْهِمْ رَبُّهُمْ بِاِیْمَانِهِمْۚ-تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْهٰرُ فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ(9)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے اعمال کئے ان کا رب ان کے ایمان کے سبب ان کی رہنمائی فرمائے گا۔ ان کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ (وہ) نعمتوں کے باغوں میں ہوں گے
تفسیر: صراط الجنان
{یَهْدِیْهِمْ رَبُّهُمْ بِاِیْمَانِهِمْ:ان کا رب ان کے ایمان کے سبب ان کی رہنمائی فرمائے گا۔} حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ مومن جب اپنی قبر سے نکلے گا تو اس کا عمل خوب صورت شکل میں اس کے سامنے آئے گا یہ شخص کہے گا تو کون ہے ؟وہ کہے گا :میں تیرا عمل ہوں۔ اور اس کے لئے نور ہوگا اور جنت تک پہنچائے گا اور کافر کا معاملہ برعکس ہوگا کہ اس کا عمل بری شکل میں نمودار ہو کر اسے جہنم میں پہنچائے گا۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۹، ۲ / ۳۰۲-۳۰۳)
سُبْحَانَ اللہ، کتنی پیاری فضیلت ہے کہ مومنین کی جنت کی طرف رہنمائی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی جانب سے ہوگی ۔ وہ جنت میں جائیں گے اور ہمیشہ کیلئے رہیں گے اور ان کے محلات کے نیچے دودھ ، شہد، شرابِ طہور اور خالص پانی کی نہریں جاری ہوں گی۔
دَعْوٰىهُمْ فِیْهَا سُبْحٰنَكَ اللّٰهُمَّ وَ تَحِیَّتُهُمْ فِیْهَا سَلٰمٌۚ-وَ اٰخِرُ دَعْوٰىهُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(10)
ترجمہ: کنزالعرفان
ان کی دعا اس میں یہ ہوگی کہ اے اللہ ! تو پاک ہے اورجنت میں ان کی ملاقات کا پہلا بول ’’سلام‘‘ ہوگا اور ان کی دعا کا خاتمہ یہ ہے کہ تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{دَعْوٰىهُمْ فِیْهَا:ان کی دعا اس میں یہ ہوگی ۔} یعنی اہلِ جنت اللہ تعالیٰ کی تسبیح ، تحمید، تقدیس میں مشغول رہیں گے اور اس کے ذکر سے انہیں فرحت و سُرور اور اِنتہا درجہ کی لذت حاصل ہوگی ۔ سُبْحَانَ اللہ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۱۰، ۲ / ۳۰۳)
اہلِ جنت کو تسبیح اور حمد کااِ لہام ہو گا:
حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جنتی لوگ جنت میں کھائیں اور پئیں گے، اس میں تھوکیں گے نہ پیشاب کریں گے، رفعِ حاجت کریں گے اور نہ ناک صاف کریں گے۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: پھر ان کا کھانا کہاں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: ایک ڈکار (آئے گی) اور پسینہ مشک کی طرح ہو گا۔ انہیں تسبیح اور حمد کا اس طرح اِلہام ہو گا جیسے سانس آتا جاتا ہے۔( مسلم، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب فی صفات الجنۃ واہلہا۔۔۔ الخ، ص۱۵۲۰، الحدیث: ۱۸(۲۸۳۵))
{وَ تَحِیَّتُهُمْ فِیْهَا سَلٰمٌ:اور جنت میں ان کی ملاقات کا پہلا بول ’’سلام‘‘ہوگا۔} یعنی اہلِ جنت آپس میں ایک دوسرے کی تحیت یعنی تعظیم و تکریم سلام سے کریں گے یا ملائکہ انہیں بطورِ تحیت سلام عرض کریں گے یا ملائکہ رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ان کے پاس سلام لائیں گے۔ (بغوی، یونس، تحت الآیۃ: ۱۰، ۲ / ۲۹۲) معلوم ہوا کہ بوقتِ ملاقات سلام کرنا اور بوقتِ رخصت حمدِ الٰہی کرنا جنتی لوگوں کا مشغلہ ہے۔
{وَ اٰخِرُ دَعْوٰىهُمْ:اور ان کی دعا کا خاتمہ یہ ہے۔} اس کا معنی یہ ہے کہ ان کے کلام کی ابتدا ء اللہ عَزَّوَجَلَّ کی تعظیم و تَنزیْہ سے ہوگی اور کلام کا اختتام اس کی حمد و ثناپر ہوگا اور اس کے دوران جو چاہیں گے آپس میں کلام کریں گے۔ (مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۴۶۴) اس سے معلوم ہوا کہ حمدِ الٰہی جنت میں بھی ہوگی۔ حمد کی فضیلت کے بارے میں حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر کوئی نعمت نازل فرماتا ہے اور وہ (نعمت ملنے پر) الْحَمْدُ لِلہِ کہتا ہے تو یہ حمد اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس دی گئی نعمت سے زیادہ افضل ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب الادب، باب فضل الحامدین، ۴ / ۲۵۰، الحدیث: ۳۸۰۵)
نماز اور دعا قبول ہونے کا وظیفہ:
حضرت عبادہ بن صامت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو رات کو اٹھے اور یہ کہے ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیئٍ قَدِیرٌ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَسُبْحَانَ اللہِ وَلَا اِلٰـہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ‘‘ پھر کہے ’’اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِیْ‘‘ یا کوئی اور دعا کرے تو قبول کی جائے گی اور اگر وضو کرے (اور نماز پڑھے) تو ا س کی نماز قبول کی جائے گی۔( بخاری، کتاب التہجّد، باب فضل من تعارّ من اللیل فصلّی، ۱ / ۳۹۱، الحدیث: ۱۱۵۴)
وَ لَوْ یُعَجِّلُ اللّٰهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُمْ بِالْخَیْرِ لَقُضِیَ اِلَیْهِمْ اَجَلُهُمْؕ-فَنَذَرُ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ(11)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اگر اللہ لوگوں پرعذاب اسی طرح جلدی بھیج دیتا جس طرح وہ بھلائی جلدی طلب کرتے ہیں تو ان کی مدت ان کی طرف پوری کردی جاتی تو جو لوگ ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے ہم انہیں ان کی سرکشی میں بھٹکتا ہوا چھوڑ دیتے ۔
تفسیر: صراط الجنان
{لَقُضِیَ اِلَیْهِمْ اَجَلُهُمْ:تو ان کی مدت ان کی طرف پوری کردی جاتی ۔} یعنی اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کی بددعائیں جیسے کہ وہ غصے کے وقت اپنے لئے اور اپنے اہل واولاد و مال کے لئے کرتے ہیں ، اور کہتے ہیں ہم ہلاک ہوجائیں ، خدا ہمیں غارت کرے ، برباد کرے اور ایسے کلمے ہی اپنی اولاد اور رشتہ داروں کے لئے کہہ گزرتے ہیں جسے اردو میں کوسنا کہتے ہیں اگر وہ دعا ایسی جلدی قبول کرلی جاتی جیسی جلدی وہ دعائے خیر کے قبول ہونے میں چاہتے ہیں تو ان لوگوں کا خاتمہ ہوچکا ہوتا اور وہ کب کے ہلاک ہوگئے ہوتے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے دعا ئے خیر قبول فرمانے میں جلدی کرتا ہے اور دعائے بد کے قبول میں نہیں ، یہ اس کی رحمت ہے۔ شانِ نزول: نضر بن حارث نے کہا تھا: یارب !یہ دینِ اسلام اگر تیرے نزدیک حق ہے تو ہمارے اوپر آسمان سے پتھر برسا۔ اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی اور بتایا گیا کہ اگر اللہ تعالیٰ کافروں کے لئے عذاب میں جلدی فرماتا جیسا کہ اُن کیلئے مال و اولاد وغیرہ دنیا کی بھلائی دینے میں جلدی فرمائی تو وہ سب ہلاک ہوچکے ہوتے۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۱۱، ۲ / ۳۰۳، ملخصاً)
خود کو اوراپنے بچوں وغیرہ کو کوسنے سے بچیں :
اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہماری تمام دعائیں قبول نہ ہونا بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت ہے کہ ہم کبھی برائی کو بھلائی سمجھ لیتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ غصہ میں اپنے کو یاا پنے بال بچوں کو کوسنا نہیں چاہیے ہر وقت رب تعالیٰ سے خیر ہی مانگنی چاہئے نہ معلوم کو ن سی گھڑی قبولیت کی ہو اور بعض اوقات ایسے ہو بھی جاتا ہے کہ اولاد کیلئے بددعا کی اور وہ قبولیت کی گھڑی تھی جس کے نتیجے میں اولاد پر واقعی وہ مصیبت و آفت آجاتی ہے جس کی بددعا کی ہوتی ہے۔ لہٰذا اس طرح کی چیزوں سے اِحتراز ہی کرنا چاہیے۔ حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :ہم نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ بواط کی جنگ میں گئے ، آپ مَجدِی بن عمرو جُہَنی کو تلاش کر رہے تھے ، ایک اونٹ پر ہم پانچ، چھ اورسات آدمی باری باری سوار ہوتے تھے، ایک انصاری اونٹ پر بیٹھنے لگا تو اس نے اونٹ کو بٹھایا، پھر اس پر سوار ہو کر اسے چلانے لگا۔ اونٹ نے اس کے ساتھ کچھ سرکشی کی تو اس نے اونٹ کو کہا: شَاْ، اللہ تم پر لعنت کرے۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دریافت فرمایا کہ اونٹ پر لعنت کرنے والا شخص کون ہے؟ اس نے کہا:یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،یہ میں ہوں۔ ارشاد فرمایا ’’اس اونٹ سے اتر جاؤ اور ہمارے ساتھ ملعون جانور کو نہ رکھو، تم اپنے آپ کو بد دعا دو، نہ اپنی اولاد کو بد دعا دو اور نہ اپنے اَموال کو بد دعا دو، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ وہ گھڑی ہو جس میں اللہ تعالیٰ سے کسی عطا کاسوال کیا جائے تو وہ دعا قبول ہوتی ہو۔ (مسلم، کتاب الزہد والرقائق، باب حدیث جابر الطویل وقصۃ ابی الیسر، ص۱۶۰۴، الحدیث: ۳۰۰۹)
وَ اِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْۢبِهٖۤ اَوْ قَاعِدًا اَوْ قَآىٕمًاۚ-فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهٗ مَرَّ كَاَنْ لَّمْ یَدْعُنَاۤ اِلٰى ضُرٍّ مَّسَّهٗؕ-كَذٰلِكَ زُیِّنَ لِلْمُسْرِفِیْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(12)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جب آدمی کوتکلیف پہنچتی ہے تولیٹے ہوئے اور بیٹھے ہوئے اور کھڑے ہوئے (ہرحالت میں ) ہم سے دعا کرتا ہے پھر جب ہم اس کی تکلیف دور کردیتے ہیں تو یوں چل دیتا ہے گویا کبھی کسی تکلیف کے پہنچنے پر ہمیں پکارا ہی نہیں تھا۔ حد سے بڑھنے والوں کے لئے ان کے اعمال اسی طرح خوشنما بنا دئیے گئے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ الضُّرُّ:اور جب آدمی کوتکلیف پہنچتی ہے۔} یعنی کافر کو جب تکلیف پہنچتی ہے تو وہ لیٹے ، بیٹھے، کھڑے ہر حال میں ہم سے دعا کرتا ہے اور جب تک اُس کی تکلیف زائل نہ ہو دعا میں مشغول رہتا ہے، پھر جب ہم اس کی تکلیف دور کردیتے ہیں تووہ ہم سے منہ موڑ کر اپنے پہلے طریقہ پر چل دیتا ہے اور وہی کفر کی راہ اختیار کرتا ہے اور تکلیف کے وقت کو بھول جاتا ہے گویا کبھی کسی تکلیف کے پہنچنے پر اس نے ہمیں پکارا ہی نہیں تھا۔ کافروں کے لئے ان کے اعمال اسی طرح خوشنما بنا دئیے گئے۔ اس آیت سے مقصود یہ ہے کہ انسا ن مصیبت کے وقت بہت ہی بے صبر ا ہے اور راحت کے وقت نہایت ناشکرا جب تکلیف پہنچتی ہے تو کھڑے لیٹے بیٹھے ہر حال میں دعا کرتا ہے اور جب اللہ عَزَّوَجَلَّ تکلیف دور کردے تو شکر بجانہیں لاتا اور اپنی سابقہ حالت کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ یہ حال غافل کا ہے ۔ عقلمند مومن کا حال اس کے خلاف ہے وہ مصیبت و بلا پر صبر کرتا ہے راحت و آسائش میں شکر کرتا ہے ، تکلیف و راحت کے جملہ اَحوال میں اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری اور دعا کرتا ہے اور ایک مقام اس سے بھی اعلیٰ ہے جو مومنوں میں بھی مخصوص بندوں کو حاصل ہے کہ جب کوئی مصیبت و بلا آتی ہے اس پر صبر کرنے کے ساتھ ساتھ دل و جان سے قضاءِالٰہی پر نہ صرف راضی رہتے ہیں بلکہ اس حال میں بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۱۲، ۲ / ۳۰۴، ملخصاً)
مصیبت اور راحت کے وقت ہمارا حال:
مذکورہ بالا تفسیر کو سامنے رکھ کر ہمیں اپنے حال پر غور کرنا چاہیے کہ ہم کس گروہ کے پیچھے ہیں اور ہمارے اندر کس گروہ کی علامات پائی جارہی ہیں۔ کیا ہم بھی مصیبت میں نمازی، پرہیزگار، ذاکر و شاغل اور مصیبت دور ہونے کے بعد بے نمازی، جَری و بیباک اور غافل ہوتے ہیں یا خوشی و غمی دونوں حالتوں میں ہم تقویٰ کو اختیار کرتے ہیں اور ذکرِ خدا میں مشغول رہتے ہیں۔
وَ لَقَدْ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَمَّا ظَلَمُوْاۙ-وَ جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ وَ مَا كَانُوْا لِیُؤْمِنُوْاؕ-كَذٰلِكَ نَجْزِی الْقَوْمَ الْمُجْرِمِیْنَ(13)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ہم نے تم سے پہلی قوموں کوہلاک کردیا جب انہوں نے ظلم کیا اور ان کے پاس ہمارے رسول روشن دلائل لے کر تشریف لائے اور وہ ایسے تھے ہی نہیں کہ ایمان لاتے ۔ ہم یونہی مجرموں کوبدلہ دیتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ:اور بیشک ہم نے تم سے پہلی قوموں کوہلاک کردیا۔} یعنی اے کفارِ مکہ! تم سے پہلی قوموں نے جب شرک کر کے اپنی جانوں پرظلم کیا تو ہم نے انہیں ہلاک کردیا اور ان کے پاس ہمارے رسول روشن دلائل لے کر تشریف لائے جو اُن کے صدق کی بہت واضح دلیلیں تھیں لیکن اُنہوں نے نہ مانا اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تصدیق نہ کی اور وہ ایسے تھے ہی نہیں کہ رسولوں پر ایمان لاتے اور جو کچھ وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے پاس سے لائے تھے اس کی تصدیق کرتے تو جس طرح رسولوں کو جھٹلانے کے سبب ہم نے ان گزری ہوئی قوموں کو ہلاک کر دیا اسی طرح اے مشرکو! میں اپنے حبیب محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تکذیب کرنے پر تمہیں بھی ہلاک کر دوں گا۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۱۳، ۲ / ۳۰۴-۳۰۵)
ثُمَّ جَعَلْنٰكُمْ خَلٰٓىٕفَ فِی الْاَرْضِ مِنْۢ بَعْدِهِمْ لِنَنْظُرَ كَیْفَ تَعْمَلُوْنَ(14)
ترجمہ: کنزالعرفان
پھر ہم نے ان کے بعد تمہیں زمین میں جانشین بنایا تا کہ ہم دیکھیں کہ تم کیسے کام کرتے ہو؟
تفسیر: صراط الجنان
{ثُمَّ جَعَلْنٰكُمْ خَلٰٓىٕفَ فِی الْاَرْضِ مِنْۢ بَعْدِهِمْ:پھر ہم نے ان کے بعد تمہیں زمین میں جانشین بنایا ۔} اس آیت میں خطاب اہلِ مکہ سے ہے جبکہ آیت کا معنی یہ ہے کہ اے لوگو! پھر ہم نے گزشتہ اُمتوں کے بعد جنہیں ہلاک کردیا گیا تمہیں زمین میں ان کا جانشین بنایا۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۱۴، ۲ / ۳۰۵)
سابقہ قوموں کے جانشین:
علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ جس دن سے اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مبعوث فرمایا اس سے لے کر قیامت تک ان کی امت میں مسلمان یا کافر جتنے لوگ ہوں گے سب زمین میں گزشتہ قوموں کے جانشین ہیں۔ (صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۱۴، ۳ / ۸۵۹)
{لِنَنْظُرَ كَیْفَ تَعْمَلُوْنَ:تا کہ ہم دیکھیں کہ تم کیسے کام کرتے ہو؟} یعنی تاکہ ہم تمہارے اعمال کا امتحان لیں کہ تم اچھے یا برے کیسے عمل کرتے ہو اور تمہارے اعمال کے مطابق تم سے معاملہ فرمائیں۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۱۴، ۲ / ۳۰۵)
حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بے شک دنیا سرسبز اور میٹھی ہے، اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس میں جانشین بنایا ہے، پس وہ دیکھتا ہے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔( ترمذی، کتاب الفتن، باب ما اخبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم واصحابہ بما ہو کائن الی یوم القیامۃ، ۴ / ۸۱، الحدیث: ۲۱۹۸)
اس آیت سے یہ مراد نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کو پہلے علم نہیں تھا اور جب مشرکین عمل کر لیں گے تو اللہ تعالیٰ کو علم ہو گا بلکہ یہاں مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ایسامعاملہ فرمائے گا جیسا امتحان لینے والا لوگوں کے ساتھ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں اور اسے ہر چیز کا ہمیشہ سے علم ہے۔
وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیَاتُنَا بَیِّنٰتٍۙ-قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَیْرِ هٰذَاۤ اَوْ بَدِّلْهُؕ-قُلْ مَا یَكُوْنُ لِیْۤ اَنْ اُبَدِّلَهٗ مِنْ تِلْقَآئِ نَفْسِیْۚ-اِنْ اَتَّبِـعُ اِلَّا مَا یُوْحٰۤى اِلَیَّۚ-اِنِّیْۤ اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ(15)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جب ان کے سامنے ہماری روشن آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو ہم سے ملاقات کی امید نہ رکھنے والے کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ کوئی اور قرآن لے کر آؤ یا اسے تبدیل کردو ۔ تم فرماؤ: مجھے حق نہیں کہ میں اسے اپنی طرف سے تبدیل کردوں ۔ میں تو اسی کا تابع ہوں جو میری طرف وحی بھیجی جاتی ہے ۔ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیَاتُنَا بَیِّنٰتٍ:اور جب ان کے سامنے ہماری روشن آیات کی تلاوت کی جاتی ہے۔} شانِ نزول : کفار کی ایک جماعت نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہم آپ پر ایمان لے آئیں تو آپ اس قرآن کے سوا دوسرا قرآن لائیے جس میں لات،عُزّیٰ، مَنات وغیرہ بتوں کی برائی اور ان کی عبادت چھوڑنے کا حکم نہ ہو اور اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ ایسا قرآن نازل نہ کرے تو آپ اپنی طرف سے بنالیجئے یا اسی قرآن کو بدل کر ہماری مرضی کے مطابق کردیجئے تو ہم ایمان لے آئیں گے۔ ان کا یہ کلام یا تو تمسخر واِستہزاء کے طور پرتھا یا انہوں نے تجربہ و امتحان کے لئے ایسا کہا تھا کہ اگر یہ دوسرا قرآن بنا لائیں یا اس کو بدل دیں تو ثابت ہوجائے گا کہ قرآن کلامِ ربّانی نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حکم دیا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرما دیں کہ میرے لئے حلال نہیں کہ میں اپنی طرف سے اس میں کوئی تبدیلی کروں۔ میں تو کمی زیادتی اور تبدیلی کے بغیر صرف اسی کا تابع ہوں جو اللہ تعالیٰ میری طرف وحی فرماتا ہے اور یہ میرا کلام نہیں کہ میں اس میں تبدیلی کر سکوں بلکہ یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کلام ہے اگر میں نے اپنی طرف سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے کلام میں کوئی تبدیلی کر کے اس کی نافرمانی کی تو مجھے بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے اور ویسے بھی دوسرا قرآن بنانا انسان کے بس کی بات ہی نہیں کیونکہ انسا ن کااس سے عاجز ہونا تو اچھی طرح ظاہر ہو چکا ہے۔(بغوی، یونس، تحت الآیۃ: ۱۵، ۲ / ۲۹۳، صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۱۵، ۳ / ۸۵۹، مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۴۶۶، ملتقطاً)
اسلام کی کسی قطعی چیز پر کفار سے معاہدہ نہیں ہو سکتا:
اس آیتِ مبارکہ سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ کفار کے ساتھ اسلام کے قَطْعِیّات میں سے کسی چیز پر کوئی معاہدہ نہیں ہوسکتا کہ ہم ان کی خوشنودی کیلئے اسلام کی کوئی قطعی چیز چھوڑ دیں جیسے ان کی خوشی کیلئے سود کی اجازت دیں ، یا پردے کو ختم کردیں ،یا نمازوں میں کمی کرلیں یا گائے کی قربانی بند کردیں۔
قُلْ لَّوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا تَلَوْتُهٗ عَلَیْكُمْ وَ لَاۤ اَدْرٰىكُمْ بِهٖ ﳲ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(16)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ: اگر اللہ چاہتا تو میں تمہارے سامنے اس کی تلاوت نہ کرتا اور نہ وہ تمہیں اس سے خبردار کرتا تو بیشک میں اس سے پہلے تم میں اپنی ایک عمر گزار چکا ہوں تو کیا تمہیں عقل نہیں ؟
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ:تم فرماؤ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان مشرکین سے فرما دیں جنہوں نے قرآن میں تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے کہ اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ چاہتا تو مجھ پر نہ تویہ قرآن نازل کیا جاتا اور نہ میں تمہارے سامنے اس کی تلاوت کرتا اور نہ تمہیں خبردار کیا جاتا لہٰذا اس کی تلاوت محض اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہے، نیز میں اس قرآن کے نازل ہونے سے پہلے تم میں چالیس سال کا عرصہ گزار چکا ہوں اور اس زمانے میں تمہارے پاس کوئی کتاب نہیں لایا اور نہ تمہیں پہلے ایسی کوئی چیز سنائی ہے ، تم نے میرے اَحوال کا خوب مُشاہدہ کیا ہے، میں نے کسی سے ایک حرف نہیں پڑھا۔ کسی کتاب کا مطالعہ نہیں کیا ، اس کے بعد یہ عظیم کتاب لایا ہوں جس کے سامنے ہر ایک فصیح کلام پَست اور بے حقیقت ہوگیا، اس کتاب میں نفیس عُلوم ہیں ، اُصول و فُروع کا بیان ہے، اَحکام و آداب میں مکارمِ اَخلاق کی تعلیم ہے، غیبی خبریں ہیں ،اس کی فصاحت و بلاغت نے ملک بھر کے فصیح و بلیغ افراد کو عاجز کردیا ہے، ہر عقلِ سلیم رکھنے والے کے لئے یہبات سورج سے زیادہ روشن ہوگئی ہے کہ ایسا کلام اللہ تعالیٰ کی وحی کے بغیر ممکن ہی نہیں تو کیا تمہیں عقل نہیں کہ اتنا سمجھ سکو کہ یہ قرآن اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ہے مخلوق کی قدرت میں نہیں کہ اس کی مثل بنا سکے۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۱۶، ۲ / ۳۰۵-۳۰۶)
فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰیٰتِهٖؕ-اِنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الْمُجْرِمُوْنَ(17)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا اس کی آیتوں کو جھٹلائے؟ بیشک مجرم فلاح نہیں پائیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا:تو اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے۔} مشرکین نے یہ کہا تھا کہ قرآن نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا اپنا بنایا ہوا کلام ہے اور آپ نے اسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر کے اللہ عَزَّوَجَلَّ پر جھوٹ باندھا ہے ، ان کے رد میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر جھوٹ باندھے یعنی بفرضِ محال اگر میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے کلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا ہوتا تو آپ سب سے بڑے ظالم قرار پاتے لیکن جب دلائل سے ثابت ہو چکا کہ ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ قرآن اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کلام اوراس کی وحی ہے تو اب جو مشرکین اسے اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کلام نہیں مانتے وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی آیات کو جھٹلانے والے اور لوگوں میں سب سے بڑے ظالم ہیں۔ (تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۱۷، ۶ / ۲۲۶)
وَ یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَضُرُّهُمْ وَ لَا یَنْفَعُهُمْ وَ یَقُوْلُوْنَ هٰۤؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّٰهِؕ-قُلْ اَتُنَبِّــٴُـوْنَ اللّٰهَ بِمَا لَا یَعْلَمُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِی الْاَرْضِؕ-سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ(18)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور (یہ مشرک) اللہ کے سوا ایسی چیزکی عبادت کرتے ہیں جو نہ انہیں کوئی نقصان دے سکے اور نہ نفع دے سکے اوریہ کہتے ہیں کہ یہ (بت) اللہ کی بارگاہ میں ہمارے سفارشی ہیں ۔ تم فرماؤ: کیا تم اللہ کو وہ بات بتاتے ہو جو اس کے علم میں نہ آسمانوں میں ہے اورنہ زمین میں ۔ وہ ان کے شرک سے پاک اور بلندو بالا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یَعْبُدُوْنَ:اوروہ عبادت کرتے ہیں۔} مشرکین بتوں کی عبادت بھی کرتے تھے اور انہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں اپنا شفیع بھی مانتے تھے، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے پہلے بتوں کی عبادت کرنے کا رد فرمایا کہ یہ مشرکین جن بتوں کی عبادت کرتے ہیں وہ اپنے نافرمان کو نہ تو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے عبادت گزار کو کوئی نفع دے سکتے ہیں کیونکہ وہ بے جان پتھر ہیں ، نفع و نقصان پہنچانے کی قدرت نہیں رکھتے جبکہ عبادت تعظیم کی سب سے اعلیٰ قسم ہے تو اس کا مُستحق وہی ہو گا کہ جو نفع و نقصان پہنچانے،زندگی اور موت دینے پر قدرت رکھتا ہو۔اس کے بعد بتوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں اپنا شفیع ماننے کا رد فرمایا۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں ’’مشرکین کا عقیدہ یہ تھا کہ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے مقابلے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی تعظیم اس میں زیادہ ہے کہ بتوں کی عبادت کی جائے اور وہ یہ کہتے تھے کہ ہم اس قابل نہیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کر سکیں اس لئے ہم ان بتوں کی عبادت میں مشغول ہوتے ہیں کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہماری شفاعت کریں گے۔( خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۱۸، ۲ / ۳۰۷)
بتوں کو شفیع ماننے اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کو شفیع ماننے میں فرق:
مشرکین شفاعت کے چکر میں بتوں کی عبادت کرتے تھے اور یہ دونوں چیزیں ہی غلط تھیں۔ ایک تو شرک اور دوسرا ایسے بتوں کو شفیع ماننا جن کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے کوئی اِذن نہیں دیا گیا اور یہیں سے مشرکوں اور مسلمانوں کے درمیان فرق ہوگیا کہ مسلمان انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اَولیاء و صالحین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کو اپنا شفیع مانتے ہیں لیکن ان کی عبادت نہیں کرتے اور پھر جن ہستیوں کو شفیع مانتے ہیں ان کواللہ عَزَّوَجَلَّ نے شفاعت کا اختیار بھی دیا ہے جیسا کہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے تو گویا مشرکوں نے دو کام کئے اور دونوں غلط یعنی شرک اور نااہلوں کی شفاعت کا عقیدہ اور مسلمانوں نے عقیدہِ شفاعت رکھا لیکن ویسا جیسا ان کے رب کریم عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا۔
وَ مَا كَانَ النَّاسُ اِلَّاۤ اُمَّةً وَّاحِدَةً فَاخْتَلَفُوْاؕ-وَ لَوْ لَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَقُضِیَ بَیْنَهُمْ فِیْمَا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ(19)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور سب لوگ ایک ہی امت تھے پھر مختلف ہوگئے اور اگر تیرے رب کی طرف سے ایک بات پہلے نہ ہوچکی ہوتی تو ان کے درمیان ان کے باہمی اختلافات کا فیصلہ ہوگیا ہوتا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَا كَانَ النَّاسُ اِلَّاۤ اُمَّةً وَّاحِدَةً:اورسب لوگ ایک ہی اُمت تھے۔} یعنی سب لوگ ایک دین اسلام پر تھے جیسا کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے میں قابیل کے ہابیل کو قتل کرنے کے وقت تک حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی ذُرِّیَّت ایک ہی دین پر تھے، اس کے بعد ان میں اختلاف ہوا ۔
مذہبی اختلاف کی ابتداء کب ہوئی؟
دوسرا قول یہ ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے کشتی سے اترنے کے وقت سب لوگ ایک دین اسلام پر تھے۔
تیسرا قول یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے سے سب لوگ ایک دین پر تھے یہاں تک کہ عمرو بن لُحَی نے دین میں تبدیلی کی، اس قول کے مطابق ’’اَلنَّاسُ‘‘ سے مراد خاص عرب ہوں گے۔
بعض علماء نے کہا کہ معنی یہ ہیں کہ لوگ پہلی مرتبہ پیدائش کے وقت فطرتِ سلیمہ پر تھے پھر ان میں اختلافات ہوئے۔ حدیث شریف میں ہے ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی بناتے ہیں یا نصرانی بناتے ہیں یا مجوسی بناتے ہیں اور حدیث میں فطرت سے فطرتِ اسلام مراد ہے۔(بخاری، کتاب الجنائز، باب ما قیل فی اولاد المشرکین، ۱ / ۴۶۶، الحدیث: ۱۳۸۵، خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۱۹، ۲ / ۳۰۷)بظاہر پہلا قول ہی درست ہے۔
{وَ لَوْ لَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ:اور اگر تیرے رب کی طرف سے ایک بات پہلے نہ ہوچکی ہوتی۔} ارشاد فرمایا کہ اگر تیرے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ایک بات پہلے نہ ہوچکی ہوتی کہ کفار کو مُہلت دی جائے گی اور ہر اُمت کے لئے ایک میعاد مُعَیّن نہ کردی گئی ہوتی یا اَعمال کی جزاء قیامت تک مُؤخّر نہ فرمائی گئی ہوتی تودنیا میں ہی ان کے درمیان ان کے باہمی اختلافات کا نُزولِ عذاب سے فیصلہ ہوگیا ہوتا۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۱۹، ۲ / ۳۰۷، مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۴۶۷، ملتقطاً)
وَ یَقُوْلُوْنَ لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ اٰیَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖۚ-فَقُلْ اِنَّمَا الْغَیْبُ لِلّٰهِ فَانْتَظِرُوْاۚ-اِنِّیْ مَعَكُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ(20)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور کہتے ہیں ، اس نبی پر ان کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں اترتی ؟ تم فرماؤ: غیب تو صرف اللہ کے لیے ہے، تو تم انتظار کرو بیشک میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کررہاہوں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یَقُوْلُوْنَ:اور کہتے ہیں۔}اہلِ باطل کا طریقہ ہے کہ جب ان کے خلاف مضبوط دلیل قائم ہوتی ہے اور وہ جواب دینے سے عاجز ہوجاتے ہیں تو اس دلیل کا ذکر اس طرح چھوڑ دیتے ہیں جیسے کہ وہ پیش ہی نہیں ہوئی اور یوں کہتے ہیں کہ دلیل لائو ، تاکہ سننے والے اس مغالطہ میں پڑ جائیں کہ ان کے مقابلے میں اب تک کوئی دلیل ہی نہیں قائم کی گئی ۔ اس طرح کفار نے حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معجزات اور بالخصوص قرآنِ کریم جو کہ عظیم معجزہ ہے اس کی طرف سے آنکھیں بند کرکے یہ کہنا شروع کیا کہ کوئی نشانی کیوں نہیں اتری؟ گویا کہ معجزات انہوں نے دیکھے ہی نہیں اور قرآنِ پاک کو وہ نشانی شمار ہی نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا کہ آپ اس سوال کے وقت فرما دیجئے کہ غیب تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے ہے اب راستہ دیکھو ،میں بھی تمہارے ساتھ راہ دیکھ رہا ہوں۔ اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ دلالتِ قاہرہ اس پر قائم ہے کہ تاجدار ِرسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر قرآنِ پاک کا نازل ہونا بہت ہی عظیم الشّان معجزہ ہے، کیونکہ حضوراکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ انہی لوگوں میں پیدا ہوئے ، ان کے درمیان پلے بڑھے، حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے تمام زمانے ان کی آنکھوں کے سامنے گزرے ،وہ خوب جانتے ہیں کہ آپ نے نہ کسی کتاب کا مطالعہ کیا ، نہ کسی استاد کی شاگردی کی، یکبارگی قرآنِ کریم آپ پرظاہر ہوا اور ایسی بے مثال اعلیٰ ترین کتاب کا ایسی شان کے ساتھ نُزول بغیر وحی کے ممکن ہی نہیں ،یہ قرآنِ کریم کے معجزئہ قاہرہ ہونے کی دلیل ہے اور جب ایسی مضبوط دلیل قائم ہے تو اِثباتِ نبوت کے لئے کسی دوسری نشانی کا طلب کرنا قطعاً غیر ضروری ہے، ایسی حالت میں اس نشانی کا نازل کرنا، نہ کرنا اللہ تعالیٰ کی مَشِیَّت پر ہے، چاہے کرے ، چاہے نہ کرے تو یہ امر غیب ہوا اور اس کے لئے انتظار لازم آیا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کیا کرتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ یہ غیر ضروری نشانی جو کفار نے طلب کی ہے نازل فرمائے یا نہ فرمائے (اس کی مرضی لیکن بہرحال) نبوت توثابت ہوچکی اور رسالت کا ثبوت قاہر معجزات سے اپنے کمال کو پہنچ چکا۔ (تفسیرکبیر، یونس تحت الآیۃ: ۲۰، ۶ / ۲۳۰، ملخصاً)
دلیل کاجواب دینے سے عاجز ہونے پر لوگوں کو مغالطے میں ڈالنا اہلِ باطل کا ایک طریقہ ہے:
اس آیت میں اہلِ باطل کا جو طریقہ بیان ہوا ا س کی کچھ جھلک بعض اوقات ان افراد میں بھی نظر آتی ہے جو خود کو اہلِ علم مسلمانوں میں شمار کرنے کے باوجود مسلمانوں کے عقائد و نظریات پر انتہائی شاطرانہ طریقے سے وار کرتے ہیں اور مسلمانوں کے دین و ایمان کو برباد کرنے اور انہیں کفر و گمراہی کی طرف دھکیلنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب خوفِ خدا رکھنے اور مسلمانوں کے دین و ایمان کے تحفظ کی فکر کرنے والے علماء کی طرف سے ان کی علمی گرفت کی جاتی ہے تو وہ یہ کہہ کر لوگوں کی نظروں میں اس کی وقعت کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس گرفت کی کوئی ایسی اہمیت نہیں جس کا جواب دے کر اپنا قیمتی وقت ضائع کیا جائے۔ اے کاش! یہ اس بات پر غور کر لیں کہ علم کے باوجود ان کا مسلمانوں کے مُسلَّمہ عقائد و نظریات سے جدا راستے پر چلنا کہیں ان کے حق میں اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر تو نہیں۔وَ اِذَاۤ اَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِّنْۢ بَعْدِ ضَرَّآءَ مَسَّتْهُمْ اِذَا لَهُمْ مَّكْرٌ فِیْۤ اٰیَاتِنَاؕ-قُلِ اللّٰهُ اَسْرَعُ مَكْرًاؕ-اِنَّ رُسُلَنَا یَكْتُبُوْنَ مَا تَمْكُرُوْنَ(21)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جب ہم لوگوں کو انہیں تکلیف پہنچنے کے بعد رحمت کا مزہ دیتے ہیں تو اسی وقت ان کا کام ہماری آیتوں کے بارے میں سازش کرنا ہوجاتا ہے ۔ تم فرماؤ: اللہ سب سے جلد خفیہ تدبیرفرمانے والا ہے۔بیشک ہمارے فرشتے تمہارے مکروفریب کو لکھ رہے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذَاۤ اَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً:اور جب ہم (کافر) لوگوں کو رحمت کا مزہ دیتے ہیں۔} اس آیت میں کفار کے اس قول ’’اس (نبی) پر ان کے رب کی طرف سے کوئی (خاص قسم کی) نشانی کیوں نہیں اترتی ؟‘‘ کا ایک اور جواب دیا گیا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ا ہلِ مکہ پر اللہ تعالیٰ نے قحط مُسلط کیا جس کی مصیبت میں وہ سات برس گرفتار رہے یہاں تک کہ ہلاکت کے قریب پہنچے، پھر اس نے رحم فرمایا، بارش ہوئی، زمینیں سرسبز ہوئیں ، تو اگرچہ اس تکلیف و راحت دونوں میں قدرت کی نشانیاں تھیں اور تکلیف کے بعد راحت بڑی عظیم نعمت تھی اور اس پر شکر لازم تھا مگر انہوں نے اس سے نصیحت حاصل نہ کی اور فساد و کفر کی طرف پلٹ گئے۔ (صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۲۱، ۳ / ۸۶۱-۸۶۲، خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۲۱، ۲ / ۳۰۸، ملتقطاً)
رحمت کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنااورآفت کو منسوب نہ کرنابارگاہِ الٰہی کا ایک ادب ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ رب عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ کا ادب یہ ہے کہ رحمتوں کو اس کی طرف منسوب کیا جائے اور آفات کو اس کی جانب منسوب نہ کیا جائے اور یہی اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کا طرزِ عمل ہے ،جیسے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کافروں سے کلام کے دوران جب اللہ تعالیٰ کی شان بیان فرمائی تو ادب کی وجہ سے بیماری کو اپنی طرف اور شفا کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا : ’’وَ اِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ یَشْفِیْنِ‘‘(شعراء:۸۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جب میں بیمار ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔
{قُلْ:تم فرماؤ۔} یعنی اے حبیب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرما دیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ انہیں بہت جلد سزا دینے والا ہے اوران کی سازشوں کی گرفت پر بہت زیادہ قادر ہے اور اس کا عذاب دیر نہیں کرتا۔ اور ارشاد فرمایا کہ بیشک ہمارے فرشتے تمہارے مکر و فریب کو لکھ رہے ہیں اور تمہاری خُفیہ تدبیریں کاتب ِ اعمال فرشتوں پر بھی مخفی نہیں ہیں تو اللہ عَزَّوَجَلَّ علیم و خبیر سے کیسے چھپ سکتی ہیں۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۲۱، ۲ / ۳۰۸، مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۲۱، ص۴۶۸، ملتقطاً)
کافروں پر بھی کِرامًا کاتبین فرشتے مقرر ہیں :
اس سے معلوم ہو ا کہ کِرَامًا کَاتِبِینْ اعمالِ کفار پر بھی مقرر ہیں جو ان کے ہر قول و عمل کو لکھتے ہیں۔ البتہ گناہ لکھنے والا فرشتہ تو لکھتا رہتا ہے اور نیکیاں لکھنے والا فرشتہ اس پر گواہ رہتا ہے وہ کچھ نہیں لکھتا کیونکہ ان کی نیکی نیکی نہیں۔ (تفسیر روح البیان، یونس، تحت الآیۃ: ۲۱، ۴ / ۳۰)
هُوَ الَّذِیْ یُسَیِّرُكُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِؕ-حَتّٰۤى اِذَا كُنْتُمْ فِی الْفُلْكِۚ-وَ جَرَیْنَ بِهِمْ بِرِیْحٍ طَیِّبَةٍ وَّ فَرِحُوْا بِهَا جَآءَتْهَا رِیْحٌ عَاصِفٌ وَّ جَآءَهُمُ الْمَوْجُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَّ ظَنُّوْۤا اَنَّهُمْ اُحِیْطَ بِهِمْۙ-دَعَوُا اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ ﳛ لَىٕنْ اَنْجَیْتَنَا مِنْ هٰذِهٖ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِیْنَ(22)
ترجمہ: کنزالعرفان
وہی ہے جو تمہیں خشکی اور تری میں چلاتا ہے یہاں تک کہ جب تم کشتی میں ہوتے ہو اور وہ (کشتیاں ) خوشگوار ہوا کے ساتھ انہیں لے کر چلتی ہیں اور وہ اس پر خوش ہوتے ہیں پھر ان پر شدید آندھی آنے لگتی ہے اور ہر طرف سے لہریں ان پر آتی ہیں اور وہ سمجھ جاتے ہیں کہ انہیں گھیر لیا گیا ہے تو اللہ کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے اس سے دعا مانگتے ہیں ، (اے اللہ !) اگر تو ہمیں اس (طوفان) سے نجات دیدے تو ہم ضرور شکر گزار ہوجائیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{هُوَ الَّذِیْ یُسَیِّرُكُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ:وہی ہے جو تمہیں خشکی اور تری میں چلاتا ہے۔} اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ’’اور جب ہم لوگوں کو انہیں تکلیف پہنچنے کے بعد رحمت کا مزہ دیتے ہیں تو اسی وقت ان کا کام ہماری آیتوں کے بارے میں سازش کرنا ہوجاتا ہے ۔‘‘ اور ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے شدید مصیبت سے رحمت کی طرف منتقل ہونے اورانسان کی سازش کی ایک مثال بیان فرما ئی ہے۔ اس آیت میں پہلے بیان فرمایا کہ وہی اللہ عَزَّوَجَلَّ ہے جو تمہیں خشکی اور تری میں چلاتا ہے اور تمہیں مسافت طے کرنے کی قدرت دیتا ہے خشکی میں تم پیادہ اور سوار منزلیں طے کرتے ہو اور دریاؤں میں کشتیوں اور جہازوں سے سفر کرتے ہو وہ تمہیں خشکی اور تری دونوں میں چلنے کے اَسباب عطا فرماتا ہے ۔اس کے بعد فرمایا: یہاں تک کہ جب تم کشتی میں مَحوِ سفر ہوتے ہو اور وہ کشتیاں خوشگوار ہوا کے ساتھ لوگوں کو لے کر چلتی ہیں اور وہ لوگ اس بات پر خوش ہورہے ہوتے ہیں کہ ہوا ان کے موافق ہے، پھر اچانک ان پر شدید آندھی آنے لگتی ہے اور ہر طرف سے سمندر کی طوفانی لہریں اٹھتی ہیں تو وہ گرداب میں پھنس جاتے ہیں ، اس وقت انہیں اپنی نَجات کی امید نہیں رہتی اور ہلاکت کا یقین ہوجاتا ہے۔ سخت خوف اور شدید مایوسی کا عالَم ہوتا ہے اور اب تک جن باطل معبودوں کی عبادت کرتے رہے تھے ان کی بیچارگی بالکل عیاں ہوجاتی ہے اور جب تمام مخلوق سے امیدیں ختم ہو جاتی ہیں تو اس وقت تمام مشرکین اپنے جسم اور رُوح کے ساتھ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی کو پکارتے اورا سی سے فریاد کرتے ہیں کہ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، اگر تو ہمیں اس طوفان سے نجات دیدے تو ہم ضرور تیری نعمتوں کے، تجھ پر ایمان لا کر اور خاص تیری عبادت کرکے شکر گزار ہوجائیں گے۔ (تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۲۲، ۶ / ۲۳۲، خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۲۲، ۲ / ۳۰۹، ملتقطاً)لیکن طوفان ختم ہوجانے کے بعد کیا ہوتا ہے وہ اگلی آیت میں بیان کیا گیا ہے۔
مَصائب اور تکالیف میں کسے پکارا جائے :
اس آیت سے معلوم ہو اکہ کٹرترین کافر بھی مصائب اور تکالیف میں اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے ا س لئے مسلمان کو بدرجہ اَولیٰ چاہئے کہ جب اس پر کوئی مصیبت ،تکلیف یا کوئی پریشانی آئے تو وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں فریاد کرے اور گریہ وزاری کرتے ہوئے اسی کے حضور مشکلات کی آسانی کے لئے دعا کرے کیونکہ دنیا و آخرت کی ہر مصیبت و بلا اسی کی رحمت سے دور ہوتی ہے اور اس کا بہترین طریقہ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کے مقدس صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی سیرتِ مبارکہ میں موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس کے نیک اور مقبول بندوں کا وسیلہ پیش کر کے اس سے مصائب و آلام کی دوری اور حاجت روائی کی اِلتجاء کی جائے جیسے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عثمان بن حُنیف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو اپنے وسیلے سے دعا مانگنے کی تعلیم دی جیسا کہ ترمذی شریف میں ہے اور حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چچا حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا وسیلہ پیش کر کے بارش کی دعا مانگی جیسا کہ بخاری شریف میں ہے البتہ یہ یاد رہے کہ مشکلات میں اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں سے مدد طلب کرنا اِعتدال کی حد سے خارج نہیں کیونکہ کوئی مسلمان ان کے بارے یہ نظریہ نہیں رکھتا کہ یہ بذاتِ خود مدد کرنے پر قدرت رکھتے ہیں بلکہ ہر مسلمان کا یہی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندے اس کے اِذن اور اس کی عطا سے مدد کرتے ہیں اور یہ جائز و ثابت ہے جیسے غزوۂ بدر میں فرشتوں کا مدد کرنا۔
فَلَمَّاۤ اَنْجٰىهُمْ اِذَا هُمْ یَبْغُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّؕ-یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّمَا بَغْیُكُمْ عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْۙ-مَّتَاعَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا٘-ثُمَّ اِلَیْنَا مَرْجِعُكُمْ فَنُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(23)
ترجمہ: کنزالعرفان
پھر جب اللہ انہیں بچا لیتا ہے تواس وقت وہ زمین میں ناحق زیادتی کرنے لگتے ہیں ۔ اے لوگو! تمہاری زیادتی صرف تمہارے ہی خلاف ہے ۔ دنیا کی زندگی سے فائدہ اٹھالو پھر تمہیں ہماری طرف لوٹنا ہے تواس وقت ہم تمہیں بتادیں گے جوتم کیا کرتے تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَلَمَّاۤ اَنْجٰىهُمْ:پھرجب اللہ انہیں بچا لیتا ہے۔} یعنی جب اللہ تعالیٰ طوفان کی موجوں میں پھنسے ہوؤں اور اپنی ہلاکت کو یقینی جاننے والوں کو اس مصیبت سے بچا لیتا ہے تواس وقت وہ زمین میں ناحق زیادتی کرنے لگتے ہیں اور اپنے وعدے کے خلاف کرکے کفر و مَعْصِیَت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’ اے لوگو! تمہاری زیادتی کا وبال تمہاری طرف ہی لوٹے گا ، اللہ عَزَّوَجَلَّ کا اس میں کچھ نقصان نہیں۔تم دنیا کی زندگی سے تھوڑا عرصہ فائدہ اٹھالو پھر تمہیں مرنے کے بعد ہماری طرف ہی لوٹنا ہے تواس وقت ہم تمہیں بتادیں گے جوتم اچھے برے اعمال کیا کرتے تھے اور ان کی تمہیں جزا دیں گے۔( خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۲۳، ۲ / ۳۰۹، صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۲۳، ۳ / ۸۶۳، ملتقطاً)
مصیبت کے وقت اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا اور خوشحالی میں اسے بھول جانا کافروں کا طریقہ ہے:
اس سے معلوم ہوا کہ مصیبت میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا اور خوشحالی کے وقت بھول جانا حقیقت میں کافروں کا طریقہ ہے، افسوس کے آج کل مسلمان بھی عملی اعتبار سے اس میں مبتلا ہیں۔ اولاد بیمار ہوئی یا خود کو کوئی خطرناک بیماری لگ گئی یا کوئی قریبی عزیز ایکسیڈنٹ کی وجہ سے ہسپتال میں داخل ہوگیا تو نماز، ذکر، دعا، تلاوت، صدقہ و خیرات، مسجدوں کی حاضری اور مزید بہت کچھ شروع ہوجاتا ہے اور جیسے ہی معاملہ ختم ہوا تو کہاں کی نماز و مسجد اور کہاں کی ذکر و تلاوت؟ دوبارہ پھر اپنی پرانی دنیا میں لوٹ جاتے ہیں۔ مسلمان کا قول تو یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ کہتا ہے کہ میرا جینا مرنا سب اللہ کیلئے ہے ،لیکن افسوس کہ آج مسلمان کا عمل اِس کے خلاف نظر آ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت اور عقلِ سلیم عطا فرمائے،اٰمین۔
اِنَّمَا مَثَلُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ مِمَّا یَاْكُلُ النَّاسُ وَ الْاَنْعَامُؕ-حَتّٰۤى اِذَاۤ اَخَذَتِ الْاَرْضُ زُخْرُفَهَا وَ ازَّیَّنَتْ وَ ظَنَّ اَهْلُهَاۤ اَنَّهُمْ قٰدِرُوْنَ عَلَیْهَاۤۙ-اَتٰىهَاۤ اَمْرُنَا لَیْلًا اَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنٰهَا حَصِیْدًا كَاَنْ لَّمْ تَغْنَ بِالْاَمْسِؕ-كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ(24)
ترجمہ: کنزالعرفان
دنیا کی زندگی کی مثال تو اس پانی جیسی ہے جسے ہم نے آسمان سے اتارا تو اس کے سبب زمین سے اگنے والی چیزیں گھنی ہو کر نکلیں جن سے انسان اور جانور کھاتے ہیں یہاں تک کہ جب زمین نے اپنی خوبصورتی پکڑلی اور خوب آراستہ ہوگئی اور اس کے مالک سمجھے کہ (اب) وہ اس فصل پر قادر ہیں تو رات یا دن کے وقت ہمارا حکم آیا تو ہم نے اسے ایسی کٹی ہوئی کھیتی کردیا گویا وہ کل وہاں پر موجود ہی نہ تھی۔ ہم غور کرنے والوں کیلئے اسی طرح تفصیل سے آیات بیان کرتے ہیں
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّمَا مَثَلُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا:دنیا کی زندگی کی مثال۔} اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا تھا کہ ’’اے لوگو! تمہاری زیادتی (درحقیقت) صرف تمہارے ہی خلاف ہے ۔ ‘‘ اورا س آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس شخص کے بارے میں ایک عجیب مثال بیان فرمائی ہے جو دنیا کی لذتوں میں گم ہو کر اپنی آخرت سے بے پر واہ ہو جاتا ہے ۔اس مثال کا خلاصہ یہ ہے کہ آسمان سے اترنے والے پانی کی وجہ سے زمین کی پیداوار بہت گھنی ہوجاتی ہے کیونکہ جب بارش ہوتی ہے تو اس کے سبب زمین سے رنگ برنگے پھول، خوبصورت بیلیں ،خوش ذائقہ پھل اوران کے علاوہ طرح طرح کی اَجناس پیدا ہوتی ہیں حتّٰی کہ جب باغات اور کھیتوں کا مالک پھلوں سے لدے ہوئے درختوں اور ہری بھری،لہلہاتی فصلوں کو دیکھتا ہے تو خوشی سے پھولے نہیں سماتا ،پھر وہ اس پیداوار سے فوائد حاصل کرنے سے متعلق بڑے بڑے منصوبے بناتا ہے ، اس کا دل ان منصوبوں میں ہی مشغول ہوتا ہے اور یوں وہ بالکل غافل ہوتا ہے اور اسی حالت میں اللہ تعالیٰ دن یا رات میں ان پُرکشش باغوں اور کھیتوں پر ژالہ باری، آندھی یا طوفان وغیرہ کوئی بڑی آفت نازل فرما دیتا ہے جس سے یہ باغات اور فصلیں ایسے تباہ ہوجاتے ہیں جیسے کبھی تھے ہی نہیں اور ان کا مالک حسرت زدہ اور شدید غم میں مبتلا ہو کر بس ہاتھ ملتا ہی رہ جاتا ہے۔ (تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۲۴، ۶ / ۲۳۶-۲۳۷)
دُنیوی زندگی امیدوں کا سبز باغ ہے:
اس آیت میں بہت بہترین طریقے سے دل میں یہ بات بٹھائی گئی ہے کہ دنیوی زندگانی امیدوں کا سبز باغ ہے، اس میں عمر کھو کر جب آدمی اس مقام پر پہنچتا ہے جہاں اس کو مراد حاصل ہونے کا اطمینان ہوتا ہے اور وہ کامیابی کے نشے میں مست ہو جاتا ہے تو اچانک اس کو موت آ پہنچتی ہے اور وہ تمام نعمتوں اور لذتوں سے محروم ہوجاتا ہے۔ حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ دنیا کا طلب گار جب بالکل بے فکر ہوتا ہے اس وقت اس پر عذابِ الٰہی آتا ہے اور اس کا تمام سازو سامان جس سے اس کی امیدیں وابستہ تھیں غارت ہوجاتا ہے۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۲۴، ۲ / ۳۱۰، ملخصاً)
{كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ:ہم غور کرنے والوں کیلئے اسی طرح تفصیل سے آیات بیان کرتے ہیں۔} یعنی جس طرح ہم نے تمہارے سامنے دُنیوی زندگی کی مثال اور اس کا حکم بیان فرمایا اسی طرح ہم غور وفکر کرنے والوں کیلئے تفصیل سے اپنے دلائل بیان کرتے ہیں تاکہ وہ نفع حاصل کریں اور شک و وہم کی ظلمتوں سے نجات پائیں اور دنیائے ناپائیدار کی بے ثَباتی سے باخبر ہوں۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۲۴، ۲ / ۳۱۱)
وَ اللّٰهُ یَدْعُوْۤا اِلٰى دَارِ السَّلٰمِؕ-وَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(25)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اللہ سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے اور جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اللّٰهُ یَدْعُوْۤا اِلٰى دَارِ السَّلٰمِ:اور اللہ سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے۔} دنیا کی بے ثباتی بیان فرمانے کے بعد اس آیت میں باقی رہنے والے گھر جنت کی طرف دعوت دی گئی اور فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ تمام لوگوں کو اس گھر کی طرف بلاتا ہے جس میں ہر قسم کی تکلیف اور مصیبت سے سلامتی ہے۔ حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ دارُالسَّلام سے مراد جنت ہے۔ اوریہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بے انتہاء رحمت اور اس کا کرم ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو جنت کی دعوت دی۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۲۵، ۲ / ۳۱۱)
جنت کے داعی:
یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو جنت کی طرف دعوت دیتا ہے اور یہ دعوت اللہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ذریعے ہے چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں کچھ فرشتے اس وقت حاضر ہوئے جب آپ سوئے ہوئے تھے ،ان میں سے بعض نے کہا کہ’’ آپ تو سوئے ہوئے ہیں اور بعض نے کہا کہ’’ ان کی آنکھ سوتی ہے اور دل جاگتا ہے ۔بعض کہنے لگے کہ ’’ان کی کوئی مثال بیان کرو تو انہوں نے کہا :ان کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے ایک مکان بنایا اور اس میں طرح طرح کی نعمتیں مہیا کیں اور ایک بلانے والے کوبھیجا کہ لوگوں کو بلائے جس نے اس بلانے والے کی اطاعت کی وہ اس مکان میں داخل ہوا اور ان نعمتوں کو کھایا پیا اور جس نے بلانے والے کی اطاعت نہ کی وہ نہ مکان میں داخل ہوسکا، نہ کچھ کھا سکا ۔ پھر وہ کہنے لگے کہ اس کا مطلب بیان کیجئے تاکہ بات سمجھ میں آجائے۔ انہوں نے کہا کہ مکان سے مراد جنت ہے اور بلانے والے سے محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مراد ہیں ، جس نے ان کی اطاعت کی اس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت کی ، جس نے ان کی نافرمانی کی اس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی کی۔(بخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنّۃ، باب الاقتداء بسنن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ۴ / ۴۹۹، الحدیث: ۷۲۸۱)
{وَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ:اور جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتا ہے۔}اس آیت میں صراطِ مستقیم سے مراد دینِ اسلام ہے۔(بغوی، یونس، تحت الآیۃ: ۲۵، ۲ / ۲۹۶) آیت کے اس حصے سے معلوم ہو اکہ اللہ تعالیٰ کی دعوت تو عام ہے کہ سب کوبلایا جا رہا ہے مگر اس کی ہدایت خاص ہے کہ وہ کسی کسی کو ملتی ہے۔
لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰى وَ زِیَادَةٌؕ-وَ لَا یَرْهَقُ وُجُوْهَهُمْ قَتَرٌ وَّ لَا ذِلَّةٌؕ-اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(26)
ترجمہ: کنزالعرفان
بھلائی کرنے والوں کے لیے بھلائی ہے اور اس سے بھی زیادہ ہے اور ان کے منہ پر نہ سیاہی چھائی ہوگی اور نہ ذلت۔یہی جنت والے ہیں ، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰى وَ زِیَادَةٌ:بھلائی کرنے والوں کے لیے بھلائی ہے اور اس سے بھی زیادہ۔} بھلائی والوں سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فرمانبردار بندے مومنین مراد ہیں اور یہ جو فرمایا کہ ان کے لئے بھلائی ہے، اس بھلائی سے جنت مراد ہے اور اس پر زیادت سے مراد دیدارِ الٰہی ہے۔ (مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۲۶، ص۴۷۰)
اَحادیث سے بھی ثابت ہے کہ اس آیت میں زیادت سے مراد دیدارِ الٰہی ہے ،چنانچہ حضرت صہیب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جنتیوں کے جنت میں داخل ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا :کیا تم چاہتے ہو کہ تم پر اور زیادہ عنایت کروں۔ وہ عرض کریں گے: یارب! عَزَّوَجَلَّ، کیا تو نے ہمارے چہرے سفید نہیں کئے، کیا تو نے ہمیں جنت میں داخل نہیں فرمایا ، کیا تو نے ہمیں دوزخ سے نجات نہیں دی۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: پھر پردہ اٹھادیا جائے گا تودیدارِ الٰہی انہیں ہر نعمت سے زیادہ پیارا ہوگا۔ ایک روایت میں یہ اضافہ ہے کہ پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ’’ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰى وَ زِیَادَةٌ ‘‘ (مسلم، کتاب الایمان، باب فی قولہ علیہ السلام: انّ اللہ لا ینام۔۔۔ الخ، ص۱۱۰، الحدیث: ۲۹۷-۲۹۸(۱۸۱))
یہی روایت الفاظ کی کچھ تبدیلی کے ساتھ ترمذی ،نسائی اور ابن ماجہ میں بھی موجود ہے، صحیح بخاری میں ہے ’’امام مجاہد کے علاوہ کے نزدیک آیت میں زیادت سے مراد اللہ تعالیٰ کا دیدار ہے۔(بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ یونس، ۱-باب، ۳ / ۲۴۳، عمدۃ القاری، ، کتاب التفسیر، سورۃ یونس، ۱-باب وقال ابن عباس: فاختلط فنبت بالماء من کلّ لون، ۱۳ / ۴وَ الَّذِیْنَ كَسَبُوا السَّیِّاٰتِ جَزَآءُ سَیِّئَةٍۭ بِمِثْلِهَاۙ-وَ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌؕ-مَا لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ عَاصِمٍۚ-كَاَنَّمَاۤ اُغْشِیَتْ وُجُوْهُهُمْ قِطَعًا مِّنَ الَّیْلِ مُظْلِمًاؕ-اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(27)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جنہوں نے برائیاں کمائیں تو برائی کا بدلہ اسی کے برابر ہے اور ان پر ذلت چھائی ہوگی، انہیں اللہ سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا، گویا ان کے چہروں کو اندھیری رات کے ٹکڑوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔ وہی دوزخ والے ہیں ، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الَّذِیْنَ كَسَبُوا السَّیِّاٰتِ:اور جنہوں نے برائیوں کی کمائی کی۔} اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے اُخروی حالات اور انعامات بیان فرمائے اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے چار اخروی اَحوال بیان فرمائے ہیں۔
(1)…جتنا گناہ ہو گا اتنی ہی سزا ملے گی۔ اس قید سے اس بات پر تَنبیہ مقصود ہے کہ نیکی اور گناہ میں فرق ہے کیونکہ نیکی کا ثواب ایک سے لے کر سات سوگنا تک بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑھایا جاتا ہے اور یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فضل و کرم ہے اور گناہ کی سزا اتنی ہی دی جاتی ہے جتنا گناہ ہو اور یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا عدل ہے۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۲۷، ۲ / ۳۱۳)
(2)… ان پر ذلت چھائی ہوگی۔ اس میں ان کی توہین اور تحقیر کی طرف اشارہ ہے۔
(3)…انہیں اللہ کے عذاب اور اس کی ناراضی سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا۔
(4)… گویا ان کے چہروں کو اندھیری رات کے ٹکڑوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔ ان کی روسیاہی کا یہ حال ہوگا خدا کی پناہ۔
قیامت کے دن بعض مسلمانوں پر بھی عذابِ الٰہی کے آثار ہوں گے:
اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کے دن مومن و کافر چہروں ہی سے معلوم ہو جائیں گے۔ رب عَزَّوَجَلَّفرماتا ہے
’’ یُعْرَفُ الْمُجْرِمُوْنَ بِسِیْمٰىهُمْ ‘‘ (رحمٰن:۴۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:مجرم اپنے چہروں سے پہچانے جائیں گے۔
اور فرماتا ہے: ’’ تَبْیَضُّ وُجُوْهٌ وَّ تَسْوَدُّ وُجُوْهٌ ‘‘ (اٰل عمران:۱۰۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: کئی چہرے روشن ہوں گے اور کئی چہرے سیاہ ہوں گے۔
البتہ کئی مسلمان بھی ایسے ہوں گے جو قیامت کے دن اپنے عذاب کی علامات لئے ہوئے ہوں گے جیسے
پیشہ ور بھکاری کے منہ پر گوشت نہ ہوگا ،چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’آدمی سوال کرتا رہے گا، یہاں تک کہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اُس کے چہرہ پر گوشت کا ٹکڑا نہ ہوگا۔ (مسلم، کتاب الزکاۃ، باب کراہۃ المسألۃ للناس، ص۵۱۸، الحدیث: ۱۰۴(۱۰۴۰))
بیویوں میں انصاف نہ کرنے والے کی ایک کروٹ ٹیڑھی ہوگی۔ حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ا رشاد فرمایا جب کسی کے پاس دو بیویاں ہوں پھر ان میں انصاف نہ کرے تو وہ قیامت میں اس طرح آئے گا کہ اس کی ایک کروٹ ٹیڑھی ہوگی۔ (ترمذی، کتاب النکاح، باب ما جاء فی التسویۃ بین الضرائر، ۲ / ۳۷۵، الحدیث: ۱۱۴۴)
زکوٰۃ ادا کرنے میں بخل کرنے والے پر گنجا سانپ مُسلّط ہو گا، چنانچہ حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس کو اللہ تعالیٰ مال دے اور وہ اُس کی زکوٰۃ ادا نہ کرے تو قیامت کے دن وہ مال گنجے سانپ کی صورت میں کر دیا جائے گا، جس کے سر پر دونشان ہوں گے۔ وہ سانپ اُس کے گلے میں طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا پھر اس کی باچھیں پکڑے گا اور کہے گا میں تیرا مال ہوں ، میں تیرا خزانہ ہوں۔‘‘ اس کے بعد حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس آیت کی تلاوت کی
’’ وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ هُوَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ ‘‘ (اٰل عمران:۱۸۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو لوگ اس چیز میں بخل کرتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی ہے وہ ہرگز اسے اپنے لئے اچھا نہ سمجھیں بلکہ یہ بخل ان کے لئے برا ہے۔(بخاری، کتاب الزکاۃ، باب اثم مانع الزکاۃ، ۱ / ۴۷۴، الحدیث: ۱۴۰۳)
وَ یَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا مَكَانَكُمْ اَنْتُمْ وَ شُرَكَآؤُكُمْۚ-فَزَیَّلْنَا بَیْنَهُمْ وَ قَالَ شُرَكَآؤُهُمْ مَّا كُنْتُمْ اِیَّانَا تَعْبُدُوْنَ(28)فَكَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًۢا بَیْنَنَا وَ بَیْنَكُمْ اِنْ كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغٰفِلِیْنَ(29)هُنَالِكَ تَبْلُوْا كُلُّ نَفْسٍ مَّاۤ اَسْلَفَتْ وَ رُدُّوْۤا اِلَى اللّٰهِ مَوْلٰىهُمُ الْحَقِّ وَ ضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ(30)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جس دن ہم ان سب کو اٹھائیں گے پھر مشرکوں سے فرمائیں گے: تم اور تمہارے شریک اپنی جگہ ٹھہرے رہو، تو ہم انہیں مسلمانوں سے جدا کردیں گے اور ان کے شریک ان سے کہیں گے: تم ہماری عبادت کرتے ہی نہیں تھے۔تو ہمارے اور تمہارے درمیان گواہی کے لئے اللہ کافی ہے ۔ بیشک ہم تمہاری عبادت سے بے خبر تھے۔ وہاں ہر آدمی اپنے سابقہ اعمال کو جانچ لے گا اور انہیں اللہ کی طرف لوٹایا جائے گا جو ان کا سچا مولیٰ ہے اور ان کے سارے گھڑے ہوئے (شریک) ان سے غائب ہوجائیں گے
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِیْعًا:اور جس دن ہم ان سب کو اٹھائیں گے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سب کواٹھائے گا اور تمام مخلوق کو حساب کی جگہ میں اکٹھا فرمائے گا، پھر مشرکوں سے فرمائے گا کہ تم اور تمہارے شریک یعنی وہ بت جن کو تم پوجتے تھے اپنی جگہ ٹھہرے رہو۔ یوں اللہ تعالیٰ مشرکوں کو مسلمانوں سے جدا کر دے گا اور جب مشرکوں سے سوال جواب ہوگا تو اس وقت ایک ساعت ایسی شدت کی آئے گی کہ بت اپنے پجاریوں کی پوجا کا انکار کردیں گے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم کھاکر کہیں گے کہ ہم نہ سنتے تھے، نہ دیکھتے تھے، نہ جانتے تھے، نہ سمجھتے تھے کہ تم ہمیں پوجتے ہو۔ اس پر بت پرست کہیں گے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! ہم تمہیں کو پوجتے تھے، تو بت کہیں گے: اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ تم ہمیں پوجتے تھے یا نہیں ہم بہرحال تمہاری عبادت سے بے خبر تھے۔ (صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۲۳، ۳ / ۸۶۶-۸۶۷)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بتوں کو قوتِ گویائی دے گا اور وہ اپنے پجاریوں کی مخالفت کریں گے۔
{هُنَالِكَ تَبْلُوْا كُلُّ نَفْسٍ مَّاۤ اَسْلَفَتْ:وہاں ہر آدمی اپنے سابقہ اعمال کو جانچ لے گا۔} یعنی اس مَوقف میں سب کو معلوم ہوجائے گا کہ انہوں نے پہلے جو عمل کئے تھے وہ کیسے تھے اچھے یا برے ،مُضِر یا مفید، مقبول یا مردود اور مشرکوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف لوٹایا جائے گا جو اُن کارب ہے اور اپنی رَبوبیت میں سچا ہے اور مشرک جن بتوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شریک ٹھہراتے تھے وہ ان سے غائب ہو جائیں گے یا جو جھوٹی باتیں مثلاً بتوں کاان کی شفاعت کرنا گھڑتے تھے وہ سب باطل اور بے حقیقت ثابت ہوں گی۔(مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۳۰، ص۴۷۱-۴۷۲
قُلْ مَنْ یَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ اَمَّنْ یَّمْلِكُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ مَنْ یُّخْرِ جُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ یُخْرِ جُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَ مَنْ یُّدَبِّرُ الْاَمْرَؕ-فَسَیَقُوْلُوْنَ اللّٰهُۚ-فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ(31)فَذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّۚ-فَمَا ذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ ۚۖ-فَاَنّٰى تُصْرَفُوْنَ(32)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ: آسمان اور زمین سے تمہیں کون روزی دیتا ہے؟یاکان اور آنکھوں کا مالک کون ہے؟ اور زندہ کو مردے سے اور مردے کو زندہ سے کون نکالتا ہے ؟ اور کون تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے؟ تو اب کہیں گے : ’’ اللہ ‘‘ ۔ تو تم فرماؤ تو تم ڈرتے کیوں نہیں ؟تو یہ اللہ ہے جو تمہارا سچا رب ہے ۔پھر حق کے بعد گمراہی کے سوا اور کیا ہے؟ پھر تم کہاں پھیرے جاتے ہو؟
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ:تم فرماؤ۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی مذمت بیان فرمائی اور ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ مشرکوں کے مذہب کے باطل ہونے اور اسلام کے حق ہونے کو واضح فرما رہا ہے،چنانچہ اس آیت میں بیان فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان مشرکوں سے فرما دیں کہ آسمان سے بارش برسا کر اور زمین سے سبزہ اُگا کر تمہیں کون روزی دیتا ہے؟ تمہیں یہ حواس کس نے دئیے ہیں جن کے ذریعے تم سنتے اور دیکھتے ہو،آفات کی کثرت کے باوجود کان اور آنکھ کو لمبے عرصے تک کون محفوظ رکھتا ہے حالانکہ یہ اتنے نازک ہیں کہ ذرا سی چیز انہیں نقصان پہنچا سکتی ہے اور زندہ کو مردہ سے جیسے انسان کونطفہ سے، پرندے کو انڈے سے کون نکالتا ہے اور یونہی مردہ کو زندہ سے جیسے نطفہ کو انسان سے اور انڈے کو پرندے سے کون نکالتا ہے؟ اور ساری کائنات کے تمام کاموں کی تدبیر کون کرتا ہے؟ آپ کے سوالات سن کر وہ کہیں گے کہ بے شک ان چیزوں پر قدرت رکھنے والا اللہ عَزَّوَجَلَّ ہے ۔ جب وہ لوگ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قدرتِ کاملہ کا اِعتراف کر لیں تواے حبیب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، تم ان سے فرماؤ : جب تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ربوبیت کا اعتراف کرتے ہو تو بتوں کو عبادت میں اس کا شریک ٹھہرانے سے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے ڈرتے کیوں نہیں حالانکہ بت نہ نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ ان اُمور میں سے کسی پر کوئی قدرت رکھتے ہیں۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۳۱، ۲ / ۳۱۴، مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۳۱، ص۴۷۲، ملتقطاً)بلکہ الٹا ان کی عبادت تمہارا بیڑہ غرق کردے گی کہ شرک کے مُرتکب ہونے کی وجہ سے ہمیشہ کیلئے جہنم میں جاؤ گے۔
{فَذٰلِكُمُ اللّٰهُ:تو یہ اللہ ہے۔} یعنی جو اِن چیزوں کوسر انجام دیتاہے اور آسمان وزمین، زندگی وموت سب کا مالک ہے اور رزق و عطا پر قدرت رکھتا ہے وہی اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہارا سچا رب ہے، وہی عبادت کا مُستحق ہے نہ کہ یہ ناکارہ، خود ساختہ، بناوٹی بت اور جب ایسے واضح اور قطعی دلائل سے ثابت ہوگیا کہ عبادت کا مستحق صرف اللہ عَزَّوَجَلَّ ہے تو اس کے ماسوا سب معبود باطلِ مَحض ہیں اور جب تم نے اس کی قدرت کو پہچان لیا اور اس کی کارسازی کا اِعتراف کرلیا توپھر تم حق قبول کرنے سے کیوں اِعراض کررہے ہو؟ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۳۲، ۲ / ۳۱۴)
كَذٰلِكَ حَقَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ عَلَى الَّذِیْنَ فَسَقُوْۤا اَنَّهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ(33)
ترجمہ: کنزالعرفان
یونہی نافرمانوں پر تیرے رب کے یہ کلمات ثابت ہوچکے کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے
تفسیر: صراط الجنان
{ كَذٰلِكَ حَقَّتْ:یونہی ثابت ہوچکے۔} یعنی جس طرح یہ مشرکین حق سے گمراہی کی طرف پھیر دئیے گئے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے علمِ اَزلی میں اُس کا جو حکم اور قضا تھی وہ ان لوگوں پر ثابت ہو چکی جنہوں نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت کی بجائے اس کی نافرمانی کی اور اس سے کفر کیا۔یہ لوگ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی وحدانیت کی تصدیق کریں گے نہ اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تصدیق کریں گے ۔ (طبری، یونس، تحت الآیۃ: ۳۳، ۶ / ۵۵۹)
یاد رہے کہ اس آیت میں رب کی بات سے مرادتقدیر الٰہی ہے یعنی تقدیرمیں یہ لکھا ہوا ہے کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے یا اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان’’ لَاَمْلَــٴَـنَّ جَهَنَّمَ‘‘(اعراف:۱۸) یعنی ہم ان سے دوزخ بھریں گے۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۳۳، ۲ / ۳۱۴، جلالین، یونس، تحت الآیۃ: ۳۳، ص۱۷۳، ملتقطاً)
قُلْ هَلْ مِنْ شُرَكَآىٕكُمْ مَّنْ یَّبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗؕ-قُلِ اللّٰهُ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ(34)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ: کیا تمہارے شریکوں میں کوئی ایسا ہے جو پہلے مخلوق کو بنائے پھر ختم کر کے دوبارہ بنادے ؟ تم فرما دو: اللہ پہلے بناتا ہے پھر ختم کرنے کے بعد دوبارہ بنادے گا تو تم کہاں اوندھے جارہے ہو؟
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ:تم فرماؤ۔} اس آیت میں توحید کی حقیقت اور شرک کے بُطلان پر ایک اور دلیل بیان کی گئی ہے اور یہ دلیل یوں دی گئی ہے کہ ‘‘اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان مشرکین سے فرما دیں کہ ! کیا وہ بت جنہیں تم معبود مانتے ہو ان میں کوئی ایسا ہے جس میں یہ قدرت ہو کہ وہ بغیر کوئی مثال دیکھے خود ہی مخلوق کو پیدا بھی کرلیتا ہو اور پھر موت کے بعد انہیں پہلے ہی کی طرح دوبارہ بنا بھی دے؟ اس کا جواب ظاہر ہے کہ ایسا کوئی نہیں کیونکہ مشرکین بھی یہ جانتے ہیں کہ پیدا کرنے والا اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی ہے اور بتوں میں پیدا کرنے کی قوت و قدرت ہرگز نہیں ہے۔ تو فرمایا گیا کہ جب بت کچھ نہیں کرسکتے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ سب کچھ کرسکتا ہے اور وہ پہلی مرتبہ بنانے پر اور فنا کے بعد دوبارہ بنانے پر بھی قادر ہے تو تم کہاں الٹے پھرے جارہے ہو اور ایسی روشن دلیلیں قائم ہونے کے بعد راہِ راست سے کیوں مُنْحَرِف ہوتے ہو۔ (ابوسعود، یونس، تحت الآیۃ: ۳۴، ۲ / ۴۹۲، خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۳۴، ۲ / ۳۱۴، ملتقطاً)
قُلْ هَلْ مِنْ شُرَكَآىٕكُمْ مَّنْ یَّهْدِیْۤ اِلَى الْحَقِّؕ-قُلِ اللّٰهُ یَهْدِیْ لِلْحَقِّؕ-اَفَمَنْ یَّهْدِیْۤ اِلَى الْحَقِّ اَحَقُّ اَنْ یُّتَّبَعَ اَمَّنْ لَّا یَهِدِّیْۤ اِلَّاۤ اَنْ یُّهْدٰىۚ-فَمَا لَكُمْ- كَیْفَ تَحْكُمُوْنَ(35)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ: تمہارے شریکوں میں کوئی ایسا ہے جو حق کی طرف رہنمائی کرے ؟تم فرماؤ: اللہ حق کی طرف ہدایت دیتا ہے، تو کیا جو حق کا راستہ دکھائے وہ اس کا حق دار ہے کہ اس کی پیروی کی جائے یا وہ (بت) جسے خود راستہ دکھائی نہ دے جب تک اسے راستہ دِکھا نہ دیا جائے تو تمہیں کیا ہوا ، تم کیسا فیصلہ کرتے ہو؟
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ:تم فرماؤ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ فرما دیں کہ تمہارے شریکوں میں کوئی ایسا ہے جو حجتیں اور دلائل قائم کرکے، رسول بھیج کر، کتابیں نازل فرما کر اور مُکَلَّفین کو عقل و نظر عطا فرما کر حق کی طرف رہنمائی کرے ؟ اس کاواضح جواب یہ ہے کہ ایسا کوئی نہیں ، تو اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، تم فرماؤ: اللہ عَزَّوَجَلَّ حق کی طرف ہدایت دیتا ہے، تو کیا جو حق کا راستہ دکھائے وہ اِس کا حق دار ہے کہ اُس کی پیروی کی جائے یا وہ جسے خود اس وقت تک راستہ دکھائی نہ دے جب تک اسے راستہ دکھایا نہ جائے جیسا کہ تمہارے بت ہیں کہ وہ تب تک کسی جگہ جا نہیں سکتے جب تک کوئی اٹھالے جانے والا انہیں اٹھا کر لے نہ جائے اور نہ وہ کسی چیز کی حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں اور نہ راہِ حق کو پہچان سکتے ہیں ، ہاں اگر اللہ تعالیٰ انہیں زندگی، عقل اور سمجھنے کی صلاحیت دے تو ایسا کر سکتے ہیں ، جب ان کی مجبوری کا یہ عالَم ہے تو وہ دوسروں کو کیا راہ بتاسکیں گے اور ایسوں کو معبود بنانا ،ان کا مطیع بننا کتنا باطل اور بے ہُودہ ہے۔( روح المعانی، یونس، تحت الآیۃ: ۳۵، ۶ / ۱۵۱، مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۳۵، ص۴۷۳، صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۳۵، ۳ / ۸۶۹، ملتقطاً)
وَ مَا یَتَّبِـعُ اَكْثَرُهُمْ اِلَّا ظَنًّاؕ-اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْــٴًـاؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَفْعَلُوْنَ(36)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ان کی اکثریت تو صرف وہم وگمان پر چلتی ہے ۔بیشک گمان حق کاکوئی فائدہ نہیں دیتا۔ بیشک اللہ ان کے کاموں کو جانتا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَا یَتَّبِـعُ اَكْثَرُهُمْ اِلَّا ظَنًّا:اور ان کی اکثریت تو صرف وہم وگمان پر چلتی ہے ۔} یعنی ان مشرکین کی اکثریت بتوں کو معبود اور انہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں اپنا شفیع ماننے میں تو صرف وہم وگمان پر چلتی ہے جس کی ان کے پاس نہ تو کوئی دلیل ہے اورنہ اس کے صحیح ہونے کا یقین ہے بلکہ یہ صرف شک میں پڑے ہوئے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ پہلے لوگ بھی بت پرستی کرتے تھے اور انہوں نے کچھ سمجھ کر ہی بت پرستی کی ہوگی۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۳۶، ۲ / ۳۱۵، مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۳۶، ص۴۷۳، ملتقطاً)
آیت میں ’’اکثر ‘‘فرمایا گیا ، اس سے معلوم ہوا کہ بعض بت پرست وہ بھی تھے جو جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہر نقص سے پاک اور ہر کمال سے مُتَِّصف ہے لیکن وہ عناد اور سرکشی کی وجہ سے کفر کرتے تھے۔ (صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۳۶، ۳ / ۸۶۹)
{اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْــٴًـا:بیشک گمان حق کا کوئی فائدہ نہیں دیتا۔} اس آیت میں ظن سے مراد وہ گمان ہے جو خلافِ تحقیق ہو، اس میں شک اور وہم بھی داخل ہیں اور یہ کلام کفار کے بارے میں ہے جنہوں نے کفر اِختیار کرنے میں اپنے آباؤ اَجداد کی پیروی اور تقلید کی۔ اس تقلید پر دنیا و آخرت میں ان کا کوئی عذر مقبول نہیں البتہ خالص مومن جس کا دل ایمان سے بھرا ہوا ہے لیکن وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر دلائل قائم کرنے سے عاجز ہے ، وہ اگر کسی ایسے شخص کی تقلید کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر دلائل قائم کر تا ہے تو وہ اس آیت کا مِصداق نہیں بلکہ وہ یقینی طور پر مومن ہے کیونکہ اس کے نزدیک یہ گمان نہیں بلکہ یقین ہے جو کہ واقع کے مطابق ہے۔ (صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۳۶، ۳ / ۸۶۹)
وَ مَا كَانَ هٰذَا الْقُرْاٰنُ اَنْ یُّفْتَرٰى مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ لٰـكِنْ تَصْدِیْقَ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْهِ وَ تَفْصِیْلَ الْكِتٰبِ لَا رَیْبَ فِیْهِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَﭦ(37)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اس قرآن کی یہ شان نہیں کہ اللہ کے نازل کئے بغیر کوئی اسے اپنی طرف سے بنالے ، ہاں یہ اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق ہے اور لوحِ محفوظ کی تفصیل ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے، یہ ربُّ العالَمین کی طرف سے ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَا كَانَ هٰذَا الْقُرْاٰنُ:اور اس قرآن کی یہ شان نہیں۔} کفارِ مکہ نے یہ وہم کیا تھا کہ قرآنِ کریم نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خود بنالیا ہے اس آیت میں ان کا یہ وہم دور فرمایا گیا ہے ۔چنانچہ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اس قرآن کی یہ شان نہیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نازل کئے بغیر کوئی اسے اپنی طرف سے بنالے، کیونکہ قرآن فصاحت و بلاغت اور علوم و اَسرار کے جس مرتبے پر ہے وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے علاوہ کسی کے شایانِ شان نہیں۔یہ قرآن اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے وحی ہے جسے اس نے اپنے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نازل کیا ہے، یہ جھوٹ اور اِفتراء سے مُنزہ ہے، اس کی مثال بنانے سے ساری مخلوق عاجز ہے ۔ ہاں قرآن تَورات اور انجیل وغیرہ کتابوں کی تصدیق کرتا ہے جنہیں قرآن سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر نازل فرمایا اور قرآن میں لوحِ محفوظ میں لکھے ہوئے حلال و حرام اور فرائض و اَحکام کی تفصیل ہے اوریہ بات قطعی و یقینی ہے کہ قرآن اللہ ربُّ العلمین عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ہے، اسے کسی نے اپنی طرف سے نہیں بنایا اور کوئی فردِ بشر اس جیسا کلام پیش ہی نہیں کرسکتا۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۳۷، ۲ / ۳۱۵-۳۱۶)
{وَ تَفْصِیْلَ الْكِتٰبِ:اور لوحِ محفوظ کی تفصیل ہے۔}اس مقام پر علامہ صاوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے بڑا پیارا کلا م فرمایا ہے، چنانچہ فرماتے ہیں کہ قرآن لوحِ محفوظ کی تفصیل ہے، لوحِ محفوظ میں مَا کَانَ وَمَا یَکُوْنُ یعنی جو ہو چکا اور جو آئندہ ہوگا اور دنیا و آخرت میں جو ہونے والا ہے سب کچھ لکھا ہوا ہے( اور جب قرآن میں لوحِ محفوظ کی پوری تفصیل ہے) تو جسے قرآن کے اَسرار میں سے کوئی چیز عطا ہوئی اسے لوحِ محفوظ پر لکھا ہوا جاننے کی حاجت نہیں بلکہ وہ جو چاہے قرآن ہی سے معلوم کر لیتا ہے۔ (صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۳۷، ۳ / ۸۷۰)
اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُؕ-قُلْ فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّثْلِهٖ وَ ادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(38)
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا وہ یہ کہتے ہیں کہ اس (نبی) نے اسے خود ہی بنالیا ہے ؟ تم فرماؤ: تو تم (بھی) اس جیسی کوئی ایک سورت لے آؤ اور اللہ کے سوا جو تمہیں مل سکیں سب کو بلا لاؤ اگر تم سچے ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَمْ یَقُوْلُوْنَ:کیا وہ یہ کہتے ہیں۔} یہاں کافروں کی اسی بات کا جواب دیا گیا ہے کہ کیا کفار یہ سمجھتے اور کہتے ہیں کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے قرآن خود ہی بنالیا ہے اور یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کلام نہیں ؟ا ے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، تم ان سے فرما دو کہ اگر تمہارا یہی خیال ہے تو تم بھی عربی ہو، فصاحت و بلاغت کے دعویدار ہو، دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں ہے جس کے کلام کے مقابل کلام بنانے کو تم ناممکن سمجھتے ہو، لہٰذا اگر تمہارے گمان میں یہ انسانی کلام ہے تو تم بھی اس جیسی کوئی ایک سورت لے آؤ اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا جو تمہیں مل سکیں سب کو بلا لاؤ اور ان سے مدد یں لو اور سب مل کر قرآن جیسی ایک سورت تو بنا کر دکھاؤ۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۳۸، ۲ / ۳۱۶، ملخصاً) قرآنِ مجید کا یہ چیلنج چودہ سوسال سے زائد عرصے سے چلا آرہا ہے لیکن آج تک کوئی کافر اس کا جواب نہیں دے سکا اور اگر کسی نے جواب دینے کی کوشش بھی کی ہے تو قرآنِ کریم کے مقابلے میں اس کی حیثیت ناچیز ذرے سے بھی کم ثابت ہوئی۔
بَلْ كَذَّبُوْا بِمَا لَمْ یُحِیْطُوْا بِعِلْمِهٖ وَ لَمَّا یَاْتِهِمْ تَاْوِیْلُهٗؕ-كَذٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظّٰلِمِیْنَ(39)
ترجمہ: کنزالعرفان
بلکہ انہوں نے اس کو جھٹلایاجس کے علم کا وہ احاطہ نہ کرسکے اور ان کے پاس اس کاانجام نہیں آیا۔ ایسے ہی ان سے پہلے لوگوں نے بھی جھٹلایا تھاتو دیکھو ظالموں کا کیسا انجام ہوا؟
تفسیر: صراط الجنان
{ بَلْ كَذَّبُوْا بِمَا لَمْ یُحِیْطُوْا بِعِلْمِهٖ:بلکہ انہوں نے اس کو جھٹلایا جس کے علم کا وہ اِحاطہ نہ کرسکے۔}یعنی قرآنِ پاک کو سمجھنے اور جاننے کے بغیر انہوں نے اس کی تکذیب کی اور یہ انتہائی جہالت ہے کہ کسی شئے کو جانے بغیر اس کا انکار کیا جائے اور قرآنِ کریم کا ایسے عُلوم پر مشتمل ہونا جن کا علم و خِرَد کے دعوے دار احاطہ نہ کرسکیں اس کتاب کی عظمت و جلالت ظاہر کرتا ہے تو ایسی اعلیٰ علوم والی کتاب کو ماننا چاہئے تھا نہ کہ اس کا انکار کرنا۔ (ابو سعود، یونس، تحت الآیۃ: ۳۹، ۲ / ۴۹۶، ملخصاً)
{ وَ لَمَّا یَاْتِهِمْ تَاْوِیْلُهٗ:اور ان کے پاس اس کاانجام نہیں آیا۔} یعنی جس عذاب کی قرآنِ پاک میں وعیدیں مذکور ہیں وہ انہوں نے نہیں دیکھا اور جس طرح انہوں نے قرآنِ مجید کو جھٹلایا ایسے ہی ان سے پہلے لوگوں نے بھی عناد کی وجہ سے اپنے رسولوں کے معجزات اور آیات دیکھ کر نظر وتَدَبُّر سے کام لئے بغیر انہیں جھٹلایا تھا تو تم دیکھ لو کہ ظالموں کا کیسا انجام ہوا اور پہلی امتیں اپنے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلا کر کیسے کیسے عذابوں میں مبتلا ہوئیں ، اس لئے اے سیّدُ الانبیاء ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،آپ کی تکذیب کرنے والوں کو بھی ڈرنا چاہیے کہ کہیں وہ بھی میرے عذاب میں گرفتار نہ ہو جائیں۔( خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۳۹، ۲ / ۳۱۶، مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۳۹، ص۴۷۴، ملتقطاً)
وَ مِنْهُمْ مَّنْ یُّؤْمِنُ بِهٖ وَ مِنْهُمْ مَّنْ لَّا یُؤْمِنُ بِهٖؕ-وَ رَبُّكَ اَعْلَمُ بِالْمُفْسِدِیْنَ(40)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ان میں کوئی تواس پر ایمان لاتا ہے اور ان میں کوئی اس پر ایمان نہیں لاتا اور تمہارا رب فسادیوں کو خوب جانتا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مِنْهُمْ مَّنْ یُّؤْمِنُ بِهٖ:اور ان میں کوئی تواس پرایمان لاتا ہے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، قریش میں سے بعض وہ لوگ ہیں جو اس قرآن پر عنقریب ایمان لے آئیں گے اور بعض وہ ہیں جو اس قرآن پر کبھی بھی نہ ایمان لائیں گے ، نہ کبھی اس کا اقرار کریں گے اور آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ ان جھٹلانے والوں کو خوب جانتا ہے اور عنقریب انہیں اس کے عذاب کا سامنا ہو گا۔(تفسیر طبری، یونس، تحت الآیۃ: ۴۰، ۶ / ۵۶۳)
کفارِ مکہ کے ایمان لانے سے متعلق غیبی خبر:
اس آیت میں یہ غیبی خبر ہے کہ موجودہ مکہ والے نہ تو سار ے ایمان لائیں گے اورنہ سارے ایمان سے محروم رہیں گے، چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ بعض لوگ ایمان لے آئے اور بعض ایمان سے محروم رہے۔
وَ اِنْ كَذَّبُوْكَ فَقُلْ لِّیْ عَمَلِیْ وَ لَكُمْ عَمَلُكُمْۚ-اَنْتُمْ بَرِیْٓــٴُـوْنَ مِمَّاۤ اَعْمَلُ وَ اَنَا بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ(41)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اگر وہ تمہیں جھٹلائیں تو تم فرمادو کہ میرا عمل میرے لیے ہے اور تمہارا عمل تمہارے لئے ہے اور تم میرے عمل سے الگ ہو اور میں تمہارے اعمال سے بیزار ہوں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِنْ كَذَّبُوْكَ:اور اگر وہ تمہیں جھٹلائیں۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر آپ کی قوم آپ کو جھٹلانے پر قائم رہے اور ان کے راہِ راست پر آنے اور حق و ہدایت قبول کرنے کی امید مُنقطع ہوجائے توتم ان سے فرما دو کہ میرا عمل میرے لیے ہے اور تمہارا عمل تمہارے لئے ہے اور ہم میں سے کسی کے عمل پر دوسرے کی پکڑنہ ہوگی بلکہ جو پکڑا جائے گا خود اپنے عمل کی وجہ سے پکڑا جائے گا اور تم میرے عمل سے الگ ہو اور میں تمہارے اعمال سے بیزار ہوں۔ یہ فرمانا بطور زَجر کے ہے کہ تم نصیحت نہیں مانتے اور ہدایت قبول نہیں کرتے تو اس کا وبال خود تم پر ہوگا کسی دوسرے کا اس سے نقصان نہیں۔( خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۴۱، ۲ / ۳۱۷، مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۴۱، ص۴۷۴، ملتقطاً)
نیکی کی دعوت دینے والے کو نصیحت:
اس آیت ِ مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی کو نیکی کی دعوت دیں تو اسے دعوت دے کر اپنے آپ کو بریٔ الذمہ سمجھیں، یہ نہیں کہ بس سامنے والے کو سیدھا کرکے ہی چھوڑنا ہے اگرچہ وہ پہلے سے زیادہ بگڑ جائے۔
وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّسْتَمِعُوْنَ اِلَیْكَؕ-اَفَاَنْتَ تُسْمِـعُ الصُّمَّ وَ لَوْ كَانُوْا لَا یَعْقِلُوْنَ(42)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ان میں کچھ وہ ہیں جو تمہاری طرف کان لگاتے ہیں تو کیا تم بہروں کو سنا دو گے؟ اگرچہ وہ سمجھتے نہ ہوں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّسْتَمِعُوْنَ اِلَیْكَ:اور ان میں کچھ وہ ہیں جو تمہاری طرف کان لگاتے ہیں۔} یعنی ان مشرکین میں سے بعض ایسے ہیں کہ جو اپنے ظاہری کانوں کے ساتھ سننے کیلئے جھکتے ہیں اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے قرآنِ پاک اور دین کے اَحکام سنتے ہیں لیکن آپ سے شدید بغض اور عداوت کی وجہ سے یہ سننا انہیں کوئی فائدہ نہیں دیتا تو جس طرح آ پ بہرے کو نہیں سنا سکتے اسی طرح اسے بھی نہیں سنا سکتے جس کے دل کو اللہ تعالیٰ نے سننے سے بہرہ کر دیا ہے اور جو کچھ یہ سنتے ہیں اس سے نفع اٹھانے سے اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو پھیر دیا اور اسے قبول کرنے کی توفیق سے محروم کر دیا ہے اورجب وہ سن کر عمل نہیں کرتے تو وہ جاہلوں کی مانند ہیں۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۴۲، ۲ / ۳۱۷، مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۴۲، ص۴۷۴، ملتقطاً)
آیت’’وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّسْتَمِعُوْنَ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے تین چیزیں معلوم ہوئیں :
(1)… بغض و عناد کی وجہ سے آدمی کا دل اندھا ، بہرا ہوجاتا ہے ، اس لئے وہ سامنے والے کی بات نہیں مانتا۔
(2)… کسی سے بات منوانی ہو تو پہلے اس کے دل میں اپنے لئے نرم گوشہ پیدا کرنا چاہیے۔
(3)…علم ہونے کے باوجود عمل نہ کرنے والا اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک جاہل ہی کے حکم میں ہے۔
وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّنْظُرُ اِلَیْكَؕ-اَفَاَنْتَ تَهْدِی الْعُمْیَ وَ لَوْ كَانُوْا لَا یُبْصِرُوْنَ(43)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ان میں کوئی تمہاری طرف دیکھتا ہے توکیا تم اندھوں کو راستہ دکھا دو گے؟ اگرچہ وہ دیکھتے ہی نہ ہوں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّنْظُرُ اِلَیْكَ:اور ان میں کوئی تمہاری طرف دیکھتا ہے۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ان مشرکین میں سے بعض ایسے ہیں کہ جو تمہاری طرف اپنی ظاہری آنکھوں سے دیکھتے ہیں ، آپ کی سچائی کے دلائل اور نبوت کی نشانیوں کا مُشاہدہ بھی کرتے ہیں لیکن وہ تصدیق نہیں کرتے تو کیا آپ دل کے اندھوں کو راستہ دکھا دیں گے اگرچہ وہ دیکھتے ہی نہ ہوں کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان کے دل کی نظروں کو اندھا کر دیا ہے اسی لئے انہیں ہدایت کی کوئی چیز نظر ہی نہیں آتی۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس آیت اوراس سے اوپر والی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دی ہے کہ جس کی سماعت کو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے سَلب فرما لیا ہے آپ اسے سنا نہیں سکتے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ نے جس کی بصارت لے لی ہے آپ اسے ہدایت کی راہ نہیں دکھا سکتے اور جس کے ایمان نہ لانے کا اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فیصلہ فرما دیا ہے آپ اسے ایمان کی توفیق نہیں دے سکتے لہٰذا آپ ان مشرکین کے ایمان قبول نہ کرنے پر غمزدہ نہ ہوں۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۴۳، ۲ / ۳۱۷، مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۴۳، ص۴۷۴،صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۴۳، ۳ / ۸۷۲، ملتقطاً)گویا فرمایا گیا کہ کفار حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دیکھتے تو ہیں لیکن صرف سر کی آنکھوں سے، دل کی آنکھوں سے نہیں جس سے(دیکھنے والا) صحابی بن جائے اور جو حضور ِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو صرف محمد بن عبداللہ (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) ہونے کے لحاظ سے دیکھے وہ محرومِ اَزلی ہے اور جو محمَّد رسولُ اللہ(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) ہونے کے لحاظ سے دیکھے وہ جنتی ہے، اس لئے ا ن دیکھنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے اندھا فرمایا یعنی دل کے اندھے جنہیں ہدایت نہ نصیب ہو سکے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جمالِ مصطفٰی دیکھنے والی نگاہ اور ہوتی ہے اور وہ آنکھ وہ ہے جس سے حضرت ابوبکر و عمر اورصحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے دیکھا ہے۔
اِنَّ اللّٰهَ لَا یَظْلِمُ النَّاسَ شَیْــٴًـا وَّ لٰـكِنَّ النَّاسَ اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ(44)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک اللہ لوگوں پر کوئی ظلم نہیں کرتا، ہاں لوگ ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ اللّٰهَ لَا یَظْلِمُ النَّاسَ شَیْــٴًـا :بیشک اللہ لوگوں پرکوئی ظلم نہیں کرتا۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا کہ مشرکین کی عقل ، سماعت اور بصارت اللہ تعالیٰ نے سَلب فرما لی ہے جس کی وجہ سے وہ ہدایت حاصل نہیں کر سکتے اور اس آیت میں بیان فرمایا کہ یہ لوگوں پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کاظلم نہیں کیونکہ کفار کا ہدایت سے محروم ہونا ان کے اپنے کرتوتوں اور ضد و عناد کے سبب ہے ، یہ نہیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان میں حق قبول کرنے کی صلاحیت ہی پیدا نہیں کی تھی بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے یہ صلاحیت ان میں پیدا کی مگر انہوں نے خود اسے تباہ کردیا تو قصور خود ان کا ہے کسی اور کا نہیں۔
وَ یَوْمَ یَحْشُرُهُمْ كَاَنْ لَّمْ یَلْبَثُوْۤا اِلَّا سَاعَةً مِّنَ النَّهَارِ یَتَعَارَفُوْنَ بَیْنَهُمْؕ-قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِلِقَآءِ اللّٰهِ وَ مَا كَانُوْا مُهْتَدِیْنَ(45)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جس دن (اللہ ) انہیں اٹھائے گا گویا وہ دنیا میں دن کی ایک گھڑی سے زیادہ ٹھہرے ہی نہیں تھے، آپس میں ایک دوسرے کو پہچان رہے ہوں گے۔ بیشک اللہ کی ملاقات کو جھٹلانے والے نقصان میں رہے اور وہ ہدایت یافتہ نہیں تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یَوْمَ یَحْشُرُهُمْ:اور جس دن انہیں اٹھائے گا۔} یہاں قیامت کا حال بیان کیا گیا ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،آپ وہ وقت یاد کیجئے جس دن اللہ عَزَّوَجَلَّ ان مشرکوں کو قبروں سے حساب کی جگہ میں حاضر کرنے کے لئے اٹھائے گا تو اس روز کی ہَیبت و وحشت سے یہ حال ہوگا کہ وہ دنیا میں رہنے کی مدت کو بہت تھوڑا سمجھیں گے اور یہ خیال کریں گے کہ گویا وہ دنیا میں دن کی ایک گھڑی کے علاوہ ٹھہرے ہی نہیں تھے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کفار نے طلب ِدنیا میں اپنی عمریں ضائع کردیں اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت جو آج کار آمد ہوتی وہ بجا نہ لائے تو ان کی زندگانی کا وقت ان کے کام نہ آیا اس لئے وہ اسے بہت ہی کم سمجھیں گے ،نیز قبروں سے نکلتے وقت تو ایک دوسرے کو ایسا پہچانیں گے جیسا دنیا میں پہچانتے تھے پھر قیامت کے دن کے ہَولناک اور دہشت آمیز مَناظِر دیکھ کر یہ معرفت باقی نہ رہے گی اور ایک قول یہ ہے کہ قیامت کے دن حالات مختلف ہوں گے کبھی ایسا حال ہوگا کہ ایک دوسرے کو پہچانیں گے کبھی ایسا کہ نہ پہچانیں گے اور جب پہچانیں گے تو کہیں گے جس نے اپنی باقی رہنے والی آخرت کو فانی دنیا کے بدلے بیچ دیا وہ نقصان میں رہا کیونکہ اس نے فانی کو باقی پر ترجیح دی۔آیت کے آخر میں فرمایا کہ انہیں ا س چیز کی ہدایت نہ تھی جو انہیں روزِ قیامت کے اس خسارے سے نجات دیتی۔( خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۴۵، ۲ / ۳۱۷-۳۱۸، مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۴۵، ص۴۷۵، ملتقطاً)
وَ اِمَّا نُرِیَنَّكَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّكَ فَاِلَیْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ اللّٰهُ شَهِیْدٌ عَلٰى مَا یَفْعَلُوْنَ(46)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم تمہیں اس چیزکا کچھ حصہ دکھا دیں جس کا ہم ان سے وعدہ کررہے ہیں یا ہم تمہیں پہلے ہی اپنے پاس بلالیں بہرحال انہیں ہماری طرف ہی لوٹ کر آنا ہے پھر اللہ ان کے کاموں پرگواہ ہے ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِمَّا نُرِیَنَّكَ:اور ہم تمہیں دکھا دیں۔} فرمایا گیا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جس عذاب کا ہم نے کفار سے وعدہ کیا ہے اگر اس کا کچھ حصہ آپ کو دنیا میں ہی دکھا دیں تو وہ ملاحظہ کیجئے اور اگر دنیا میں وہ عذاب دکھانے سے پہلے ہم آپ کواپنے پاس بلالیں تو عنقریب آخرت میں آپ ان کے عذاب کو دیکھ لیں گے کیونکہ آخرت میں انہیں بہر حال ہماری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے اورکفار دنیا میں جو اَعمال کرتے ہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ ان پر گواہ ہے اور قیامت کے دن وہ انہیں ان کے اعمال کا بدلہ دے گا۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کافروں کے بہت سے عذاب اور ان کی ذلت و رسوائیاں آپ کی حیاتِ دنیا ہی میں دکھائے گا چنانچہ بدر وغیرہ میں ذلت و رُسوائیاں دکھائی گئیں اور جو عذاب کافروں کے لئے کفر و تکذیب کی وجہ سے آخرت میں مقرر فرمایا ہے وہ آخرت میں دکھائے گا۔( خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۴۶، ۲ / ۳۱۸)
وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلٌۚ-فَاِذَا جَآءَ رَسُوْلُهُمْ قُضِیَ بَیْنَهُمْ بِالْقِسْطِ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ(47)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہر امت کے لئے ایک رسول ہوا ہے توجب ان کا رسول ان کے پاس تشریف لاتا تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا جاتا اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جاتاہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلٌ:اور ہر امت کے لئے ایک رسول ہوا ہے۔} اس آیت سے پہلے اللہ تعالیٰ نے رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ کفارِ قریش کی مخالفت کاحال بیان فرمایا تھا اور اس آیت میں یہ بیان فرمایا کہ ہر نبی عَلَیْہِ السَّلَام کے ساتھ اس کی قوم ایسا ہی معاملہ کرتی تھی۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۴۷، ۲ / ۳۱۸)
{قُضِیَ بَیْنَهُمْ بِالْقِسْطِ: ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا جاتا۔} ایک قول یہ ہے کہ اس میں دنیا کا بیان ہے اور معنی یہ ہے کہ ہر اُمت کے لئے دنیا میں ایک رسول ہوا ہے جو انہیں دینِ حق کی دعوت دیتا اور طاعت و ایمان کا حکم کرتا، جب ان کا رسول ان کے پاس تشریف لاتا اور احکامِ الٰہی کی تبلیغ کرتا تو کچھ لوگ ایمان لاتے اور کچھ تکذیب کرتے اور مُنکر ہوجاتے ، تب ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا جاتا کہ رسول کو اور ان پر ایمان لانے والوں کو نجات دی جاتی اور تکذیب کرنے والوں کو عذاب سے ہلاک کردیا جاتا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس میں آخرت کا بیان ہے اور معنی یہ ہیں کہ روزِ قیامت ہر امت کے لئے ایک رسول ہوگا جس کی طرف وہ منسوب ہوگی جب وہ رسول مَوقف میں آئے گا اور مومن و کافر پرگواہی دے گا ،تب ان میں فیصلہ کیا جائے گا اور مومنوں کو نجات نصیب ہوگی اور کافر عذاب میں گرفتار ہوں گے۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۴۷، ۲ / ۳۱۸)
وَ یَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(48)قُلْ لَّاۤ اَمْلِكُ لِنَفْسِیْ ضَرًّا وَّ لَا نَفْعًا اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُؕ-لِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌؕ-اِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ فَلَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ(49)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور کہتے ہیں : اگر تم سچے ہو تو یہ وعدہ کب آئے گا ۔تم فرماؤ میں اپنی جان کیلئے نقصان اور نفع کا اتنا ہی مالک ہوں جتنا اللہ چاہے۔ ہر گروہ کے لئے ایک مدت ہے تو جب وہ مدت آجائے گی تووہ لوگ ایک گھڑی نہ تو اس سے پیچھے ہٹ سکیں گے اور نہ آگے ہوسکیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یَقُوْلُوْنَ:اور کہتے ہیں۔} جب نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کفار کو عذاب نازل ہونے سے ڈرایا اور ایک عرصہ گزرنے کے باوجود عذاب نہ آیا تو اس وقت کفار نے کہا کہ اگر تم سچے ہو تو یہ عذاب کاوعدہ کب آئے گا۔ (تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۴۸، ۶ / ۲۶۲)
{قُلْ لَّاۤ اَمْلِكُ لِنَفْسِیْ ضَرًّا وَّ لَا نَفْعًا اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُ:تم فرماؤ! میں اپنی جان کیلئے نقصان اور نفع کا اتنا ہی مالک ہوں جتنا اللہ چاہے۔}اس آیت میں کفار کے اس قول ’’اگر تم سچے ہو تو یہ وعدہ کب آئے گا ‘‘ کا جواب دیا گیا ہے اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ دشمنوں پر عذاب نازل کرنے اور دوستوں کے لئے مدد ظاہر کرنے کی قدرت اور اختیار صرف اللہ تعالیٰ کو ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس وعدہ اور وعید کو پورا کرنے کا ایک وقت مُعیّن کر دیا ہے اور اس وقت کاتَعَیُّن اللہ تعالیٰ کی مَشِیَّت پر مَوقوف ہے اور جب وہ وقت آ جائے گا تو وہ وعدہ بہرصورت پورا ہوگا۔ (تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۴۹، ۶ / ۲۶۲)
اس آیت میں جو یہ فرمایا گیا کہ اے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آپ فرما دیں کہ’’میں اپنی جان کیلئے نقصان اور نفع کا اتنا ہی مالک ہوں جتنا اللہ چاہے‘‘ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قادر کئے بغیر میں اپنی جان پر بھی کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتاالبتہ اللہ تعالیٰ جس چیز کا چاہے مجھے مالک و قادر بنا دیتا ہے۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۴۹، ۲ / ۳۱۸)
نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نفع و نقصان کا اختیار ملا ہے:
بکثرت آیات اور اَحادیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نفع و نقصان آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قدرت اور اختیار میں دیا ہے جیسے ایک مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ اَغْنٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ مِنْ فَضْلِهٖ‘‘(التوبہ:۷۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اللہ اور اس کے رسول نے انہیں اپنے فضل سے غنی کردیا۔
اس سے معلوم ہو اکہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی لوگوں کو غنی اور مالدار بناتے ہیں اور دوسروں کو غنی وہی کر سکتا ہے جسے غنی کرنے کی قدرت اور اختیار حاصل ہو۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
’’وَ لَوْ اَنَّهُمْ رَضُوْا مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۙ-وَ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ سَیُؤْتِیْنَا اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ وَ رَسُوْلُهٗۤۙ-اِنَّاۤ اِلَى اللّٰهِ رٰغِبُوْنَ‘‘(توبہ:۵۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور (کیا اچھا ہوتا) اگر وہ اس پر راضی ہو جاتے جو اللہ اور اس کے رسول نے انہیں عطا فرمایا اور کہتے کہ ہمیں اللہ کافی ہے ۔ عنقریب اللہ اور اس کا رسول ہمیں اپنے فضل سے اور زیادہ عطا فرمائیں گے ۔ بیشک ہم اللہ ہی کی طرف رغبت رکھنے والے ہیں۔
اس سے معلوم ہو اکہ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دیا بھی ہے اور دیں گے بھی اور دیتا وہی ہے جس کے پاس خود ہو۔
صحیح بخاری میں ہے، دو عالَم کے مالک و مختار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’وَاِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَاللہُ یُعْطِیْ‘‘ بے شک میں تقسیم کرنے والا ہوں جبکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ عطا کرتا ہے۔(بخاری، کتاب العلم، باب من یرد اللہ بہ خیراً یفقّہہ فی الدین، ۱ / ۴۲، الحدیث: ۷۱)
اس سے معلوم ہو اکہ جو چیز جب بھی جس کو اللہ تعالیٰ دیتا ہے وہ حضور پُر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تقسیم سے ہی ملتی ہے اور اس حدیث پاک میں اللہ تعالیٰ کے دینے اور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے تقسیم فرمانے کو کسی قید کے بغیر بیان فرمایا گیا ہے کہ نہ زمانے کی قید ہے، نہ چیز اور نہ لینے والے کی قید ہے،اس سے معلوم ہوا کہ حضورِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دینا کسی زمانے، چیز اور لینے والے کے ساتھ خاص نہیں بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے میں سے ہر زمانے میں ، جو چیز، جسے جو چاہیں عطا فرتے ہیں۔
نیز بکثرت اَحادیث سے ثابت ہے کہ آپ نے دینِ اسلام کو دل سے ماننے والوں اور اس کی حمایت کرنے والوں کو نفع پہنچایا ہے اور آئندہ بھی پہنچائیں گے ، جیسے حضرت ربیعہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو جنت عطا فرمانا، حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے گھر تھوڑے سے آٹے اور گوشت میں لعابِ دہن ڈال کر سینکڑوں لوگوں کو کھلا دینا، غزوۂ بدر میں حضرت ابو ذر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی آنکھ زخمی ہونے پر اسے صحیح کر دینا، غزوۂ اُحد کے موقع پر حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی تیر لگنے سے آنکھ نکل جانے پر ان کی آنکھ درست کر دینا، حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے لئے سورج کو واپس لوٹا کر گئے ہوئے دن کو عصر کردینا ، غزوۂ خیبر کے موقع پر آپ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو ہونے والی آشوبِ چشم کی بیماری دور کردینا، ایک غزوے کے موقع پر 1500 صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری کر کے سیراب کر دینا، اسی طرح وصالِ ظاہری کے بعد حضرتِ بلال بن حارث مزنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مزارِ اقدس پر حاضر ہو کر بارش کی دعا کرنے کی عرض پر بارش ہونے کی خوشخبری دینا، مزارِ اقدس پر حاضر ہو کر مغفرت طلب کرنے والے اَعرابی کو مغفرت ہو جانے کی بشارت دینا، قیامت کے انتہائی سخت لمحات میں اُمتوں کا حساب شروع کروا کر اَوّلین و آخرین تمام انسانوں ، جنوں اور حیوانوں کی مدد کرنا، گنہگار امتیوں کی شفاعت کرنا، حوضِ کوثر پر پیاسے اُمتیوں کو سیراب کرنا، میزانِ عمل پر گنہگار اُمتیوں کے اَعمال کے وزن کو بڑھانا اورپل صراط پر کھڑے ہو کر اپنے امتیوں کی سلامتی کی دعائیں مانگنا، یہ سب تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نفع پہنچانے کی واضح مثالیں ہیں ، اور جس طرح آپ نے دینِ اسلام کے حامیوں کو نفع پہنچایا ہے اسی طرح اسلام کے دشمنوں کو نقصان بھی پہنچایا ہے۔
قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَابُهٗ بَیَاتًا اَوْ نَهَارًا مَّا ذَا یَسْتَعْجِلُ مِنْهُ الْمُجْرِمُوْنَ(50)اَثُمَّ اِذَا مَا وَقَعَ اٰمَنْتُمْ بِهٖؕ- ﰰ لْــٴٰـنَ وَ قَدْ كُنْتُمْ بِهٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ(51)ثُمَّ قِیْلَ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ذُوْقُوْا عَذَابَ الْخُلْدِۚ-هَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا بِمَا كُنْتُمْ تَكْسِبُوْنَ(52)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ: بھلا بتاؤ تو کہ اگر اس کا عذاب تم پر رات کو آئے یا دن کو تو اس میں وہ کونسی چیز ہے جس کی مجرم جلدی مچا رہے ہیں ؟تو کیا جب وہ (عذاب) واقع ہوجائے گا اس وقت اللہ پر ایمان لاؤگے؟ (ان سے کہا جائے گا کہ )کیا اب (تم ایمان لارہے ہو) حالانکہ اس سے پہلے تو تم اس کی بڑی جلدی مچا رہے تھے۔پھر ظالموں سے کہا جائے گا: ہمیشہ کے عذاب کا مزہ چکھو ۔ تمہیں تمہارے کمائے ہوئے اعمال ہی کا بدلہ دیا جارہا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ اَرَءَیْتُمْ:تم فرماؤ : بھلا بتاؤ تو۔} یعنی اے حبیب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی قوم کے مشرکین سے فرما دیں کہ ذرا بتاؤ تو سہی کہ اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ کا وہ عذاب جس کے نازل ہونے کی تم جلدی مچا رہے ہو، تم پر رات میں اس وقت آئے جب تم غافل پڑے سو رہے ہو یا دن میں اس وقت آئے جب تم مَعاش کے کاموں میں مشغول ہو تو تمہاری تکلیف میں کیا فرق پڑے گا یعنی عذاب کا ہر حصہ عذاب ہے اور ہر وقت کا عذاب عذاب ہی ہے تو تمہارے لئے تو بہرحال مُہلِک ہے تو پھر تم اس کے جلدی وُقوع کا مطالبہ کیوں کررہے ہو؟
{اَثُمَّ اِذَا مَا وَقَعَ:تو کیا جب وہ (عذاب)واقع ہوجائے گا ۔} یعنی اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ کا عذاب تم پر آجائے گا توکیا اس کے نازل ہونے کے بعد اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لاؤ گے؟ اس وقت کا ایمان کچھ فائدہ نہ دے گا اور جب عذاب نازل ہونے کے بعد ایمان لائیں گے توان سے کہا جائے گا کہ تم اب ایمان لارہے ہوحالانکہ اس سے پہلے تو تم سر کشی اور اِستہزاء کے طور پر اس کی بڑی جلدی مچا رہے تھے۔(بیضاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۵۲،۳ / ۲۰۲)
{ثُمَّ قِیْلَ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا:پھر ظالموں سے کہا جائے گا۔} یعنی جن لوگوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے شرک اور کفر کر کے اپنی جانوں پر ظلم کیا ان سے کہا جائے گا: جس عذاب میں تمہیں ہمیشہ رہنا ہے اس کا مزہ چکھو، تم دنیا میں جو کفر اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کرتے تھے یہ اسی کا بدلہ دیا جا رہا ہے۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۵۲، ۲ / ۳۱۹، مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۵۲، ص۴۷۶، ملتقطاً)
وَ یَسْتَنْۢبِــٴُـوْنَكَ اَحَقٌّ هُوَ ﳳ-قُلْ اِیْ وَ رَبِّیْۤ اِنَّهٗ لَحَقٌّ ﱢ وَ مَاۤ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ(53)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور تم سے پوچھتے ہیں : کیا وہ حق ہے؟ تم فرماؤ ، ہاں !میرے رب کی قسم بیشک وہ ضرور حق ہے اور تم اللہ کو عاجز نہیں کرسکو گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ یَسْتَنْۢبِــٴُـوْنَكَ:اور تم سے پوچھتے ہیں۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا قیامت اور وہ عذاب جس کے نازل ہونے کی آپ نے ہمیں خبر دی ہے واقعی حق ہے؟ آپ ان سے فرما دیں ، ہاں ! میرے رب عَزَّوَجَلَّ کی قسم! بیشک میں نے جس کی خبر دی ہے وہ ضرور حق ہے اوراس میں کوئی شک نہیں اورتم اللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے بھاگ کر اسے عاجز نہیں کرسکتے بلکہ وہ عذاب تمہیں ضرور پہنچے گا۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۵۳، ۲ / ۳۱۹، صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۵۳، ۳ / ۸۷۵، ملتقطاً)
وَ لَوْ اَنَّ لِكُلِّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ مَا فِی الْاَرْضِ لَافْتَدَتْ بِهٖؕ-وَ اَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَۚ-وَ قُضِیَ بَیْنَهُمْ بِالْقِسْطِ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ(54)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور زمین میں جو کچھ ہے اگر ہر ظالم جان اس سب کی مالک ہوجائے تو وہ یقینااپنی جان چھڑانے کے معاوضے میں دیدے اور وہ جب عذاب دیکھیں گے تو دل میں چپکے چپکے پشیمان ہوں گے اور ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَوْ اَنَّ لِكُلِّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ مَا فِی الْاَرْضِ:اور زمین میں جو کچھ ہے اگر ہر ظالم جان اس کی مالک ہوجائے۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا میں زمین کے اندر جو خزانہ اور مال و دولت ہے یہ سب اگر ہر کافر و مشرک کی مِلک میں ہوتا تو وہ یقیناًاپنی جان چھڑانے کے معاوضے میں دیدیتا اور قیامت کے دن اسے اپنی رہائی کے لئے فِدیہ کر ڈالتا، لیکن یہ فدیہ قبول نہیں اور تمام دنیا کی دولت خرچ کرکے بھی اب رہائی ممکن نہیں۔ جب قیامت میں یہ منظر پیش آئے گا اور کفار کی امیدیں ٹوٹ جائیں گی اور کافروں کے سردار عذاب دیکھیں گے تو وہ دل ہی دل میں شرمندہ اور پشیمان ہوں گے لیکن اپنی شرمندگی عام کافروں سے چھپانے کی کوشش کریں گے اور اس دن ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا جائے گا اور ان پر کچھ بھی ظلم نہ ہو گا۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۵۴، ۲ / ۳۱۹، جلالین، یونس، تحت الآیۃ: ۵۴، ص۱۷۵، ملتقطاً)چونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے کفر و شرک کی سزا کا دائمی ہونا بیان فرما دیا اور قانون بنا دیا تو اب جسے یہ سزا ملے گی اسے یقیناً قانون کے مطابق ملے گی اور قانون کے مطابق سزا انصاف ہی ہوتی ہے۔
اَلَاۤ اِنَّ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-اَلَاۤ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّ لٰـكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ(55)هُوَ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ(56)
ترجمہ: کنزالعرفان
سن لو بیشک اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے۔ سن لو! بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے مگر ان میں اکثر نہیں جانتے۔ وہ زندہ کرتا ہے اور موت دیتا ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَاۤ اِنَّ لِلّٰهِ:سن لو بیشک اللہ ہی کا ہے۔} اس سے پہلی آیت میں بیان ہوا کہ ہر کافر تمنا کرے گا کہ اگر روئے زمین کی تمام چیزیں میری ملک میں ہوتیں تو وہ سب فدیے میں دے دیتا اور اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اس کی ملکیت میں کوئی چیز نہیں ہے ۔ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ زمین و آسمان میں موجود ہر چیز کا مالک اللہ عَزَّوَجَلَّ ہے،اس میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کا اور کوئی شریک نہیں تو قیامت کے دن کسی کافر کے پاس اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات پانے کیلئے فدیے کے طور پر دینے کیلئے کوئی چیز نہ ہوگی کیونکہ سب چیزوں کا مالک اللہ عَزَّوَجَلَّ ہے بلکہ کافر خود بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ملک میں ہے تو اس کا فدیہ دینا کیسے ممکن ہے۔ (صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۵۵، ۳ / ۸۷۶، خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۵۵، ۲ / ۳۱۹، ملتقطاً)
{اَلَاۤ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ:سن لو! بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے۔} ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جو ثواب اور عذاب کا وعدہ فرمایا ہے وہ سچا ہے اور ضرور پورا ہو گا لیکن ان میں سے اکثر لوگ اپنی عقل کی کمی اور غفلت کے غلبے کی وجہ سے اسے نہیں جانتے اور وہ صرف دنیا کی ظاہری زندگی کو جاننے تک ہی محدود ہیں اسی لئے وہ ایسی غلط باتیں بولتے اور غلط کام کرتے ہیں۔( روح البیان، یونس، تحت الآیۃ: ۵۵، ۴ / ۵۳)
{ہُوَ یُحْیٖ:وہ زندہ کرتا ہے۔} یعنی اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ کسی کی دخل اندازی کے بغیر وہی دنیا میں زندہ کرتا اور موت دیتا ہے اور آخرت میں تم دوبارہ زندہ ہو کر اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ (روح البیان، یونس، تحت الآیۃ: ۵۶، ۴ / ۵۳)
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِۙ۬-وَ هُدًى وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ(57)
ترجمہ: کنزالعرفان
اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت اور دلوں کی شفا اور مومنوں کیلئے ہدایت اور رحمت آگئی۔
تفسیر: صراط الجنان
{ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ:اے لوگو!۔} اس آیت میں قرآنِ کریم کے آنے اور اس کے نصیحت، شفا،ہدایت ا ور رحمت ہونے کا بیان ہے کہ یہ کتاب اُن فوائدِ عظیمہ کی جامع ہے۔
قرآنِ مجید کے عظیم فوائد :
اس آیت میں قرآنِ کریم کے تین عظیم فائدے بیان کئے گئے
(1)… ’’ مَوْعِظَةٌ ‘‘اس کے معنی ہیں وہ چیز جو انسان کو پسندیدہ چیزکی طرف بلائے اور خطرے سے بچائے ۔ خلیل نے کہا کہ ’’ مَوْعِظَةٌ ‘‘نیکی کی نصیحت کرنا ہے جس سے دل میں نرمی پیدا ہو۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۵۷، ۲ / ۳۲۰)
تفسیر جمل میں ہے کہ ’’ مَوْعِظَةٌ‘‘ کا معنی ہے وعظ و نصیحت یعنی مُکَلَّف کے سامنے نیک اعمال جو کہ اس کیلئے فائدہ مند ہیں اور برے اعمال جو کہ اس کے لئے نقصان دِہ ہیں بیان کر کے اسے نصیحت کرنا اسی طرح اچھے عمل کرنے کی ترغیب دینا اور برے اعمال کے انجام سے ڈرانا بھی اس میں داخل ہے۔ (جمل، یونس، تحت الآیۃ: ۵۷، ۳ / ۳۷۲) اور قرآنِ کریم سے یہ فائدہ انتہائی احسن طریقے سے حاصل ہوتاہے۔
(2)…شفاء :اس سے مراد یہ ہے کہ قرآنِ پاک قلبی اَمراض کودور کرتا ہے، دل کے امراض سے مراد مَذموم اَخلاق ، فاسد عقائد اور مُہلِک جہالتیں ہیں ، قرآنِ پاک ان تمام اَمراض کو دور کرتا ہے۔
(3)…قرآنِ کریم کی صفت میں ہدایت بھی فرمایا ،کیونکہ وہ گمراہی سے بچاتا اور راہِ حق دکھاتا ہے اور ایمان والوں کے لئے رحمت اس لئے فرمایا کہ وہی اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۵۷، ۲ / ۳۲۰، ملخصاً)
شریعت ،طریقت اور حقیقت کی طرف اشارہ:
علامہ صاوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ’’ مَوْعِظَةٌ‘‘ کا معنی یہ ہے کہ نفع دینے والی چیزوں یعنی اچھے اعمال کی ہدایت اور نقصان دینے والی چیزوں یعنی برے اعمال سے ڈرانا۔’’ مِنْ رَّبِّكُمْ‘‘ ’’ مَوْعِظَةٌ ‘‘ کی صفت ہے اور ارشاد فرمایا ’’ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ‘‘ اس میں سینوں سے مراد دل ہیں اور معنی یہ ہے کہ قرآن وعظ و نصیحت کرنے والا ہے اورا سی کے ذریعے دلوں کے اَمراض یعنی کینہ ،حسد، بغض اور برے عقائد سے شفاء نصیب ہوتی ہے۔اور ارشاد فرمایا ’’وَهُدًى‘‘ یعنی نور جو کہ کامل مسلمانوں کے دلوں میں پیدا ہوتا ہے اور اس کے ذریعے وہ حق و باطل میں اِمتیاز کر لیتے ہیں۔ مزید فرماتے ہیں ’’اس آیت میں شریعت ، طریقت اور حقیقت تینوں کی طرف اشارہ ہے۔ شریعت کی طرف اشارہ آیت کے اس حصے’’مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ‘‘ میں ہے، کیونکہ شریعت سے ظاہری طہارت حاصل ہوتی ہے اور طریقت کی طرف اشارہ آیت کے اس حصے’’وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ‘‘ میں ہے کیونکہ طریقت باطن کو ہر نا مناسب چیز سے پاک کرتی ہے۔ جبکہ حقیقت کی طرف اشارہ آیت کے اس حصے ’’وَ هُدًى وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ‘‘ میں ہے کیونکہ حقیقت ہی کے ذریعے دلوں میں ان اَنوار کی تجلیات پھیلتی ہیں جن کے ذریعے چیزیں اپنی حقیقت کے مطابق نظر آتی ہیں۔ جب دلوں میں ان انوار کی تجلیات آ جائیں تو پھر ہر چیز میں اللہ تعالیٰ کی قدرت دکھائی دیتی ہے اور ہر چیز علمِ ذوقی کے اعتبار سے اس کے قریب ہو جاتی ہے،خلاصہ یہ ہے کہ حقیقت طریقت کا ثمرہ ہے اور حقیقت، طریقت اور شریعت کو مضبوطی سے تھامنے کے بعد ہی حاصل ہوتی ہے ،اسی لئے کہا گیا ہے کہ حقیقت شریعت کے بغیر باطل ہے اور شریعت حقیقت کے بغیربیکار ہے۔ (صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۵۷، ۳ / ۸۷۶-۸۷۷)
قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْاؕ-هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ(58)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ: اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر ہی خوشی منانی چاہیے ، یہ اس سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْا:تم فرماؤ: اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر ہی خوشی منانی چاہیے۔} کسی پیاری اور محبوب چیز کے پانے سے دل کو جو لذت حاصل ہوتی ہے اس کو ’’فَرح ‘‘کہتے ہیں ،اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ ایمان والوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل و رحمت پر خوش ہونا چاہئے کہ اس نے انہیں نصیحتیں ، سینوں کی شفاء اور ایمان کے ساتھ دل کی راحت و سکون عطا فرمایا۔
اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت سے کیا مراد ہے؟
اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے کیا مراد ہے اس بارے میں مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں ، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ، حضرت حسن اور حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل سے اسلام اور اس کی رحمت سے قرآن مراد ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل سے قرآن اور رحمت سے اَ حادیث مراد ہیں۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۵۸، ۲ / ۳۲۰)
بعض علماء نے فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فضل حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت قرآنِ کریم۔ رب عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے: ’’وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ عَظِیْمًا‘‘(نساء ۱۱۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور آپ پر اللہ کافضل بہت بڑا ہے۔
بعض نے فرمایا :اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فضل قرآن ہے اور رحمت حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں جیسا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے: ’’وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ‘‘(انبیاء:۱۰۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا۔
اور اگر بالفرض اِس آیت میں متعین طور پر فضل و رحمت سے مراد سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذاتِ مبارکہ نہ بھی ہو تو جداگانہ طور پر تواللہ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یقینا اللہ تعالیٰ کا عظیم ترین فضل اور رحمت ہیں۔ لہٰذا فنِ تفسیر کے اس اصول پر کہ عمومِ الفاظ کا اعتبار ہوتا ہے ، خصوصِ سبب کا نہیں ، اس کے مطابق ہی نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذات ِ مبارکہ کے حوالے سے خوشی منائی جائے گی خواہ وہ میلاد شریف کرکے ہو یا معراج شریف منانے کے ذریعے، ہاں اگر کسی بدنصیب کیلئے یہ خوشی کامقام ہی نہیں ہے تو اس کا معاملہ جدا ہے، اسے اپنے ایمان کے متعلق سوچنا چاہیے۔
قُلْ اَرَءَیْتُمْ مَّاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ لَكُمْ مِّنْ رِّزْقٍ فَجَعَلْتُمْ مِّنْهُ حَرَامًا وَّ حَلٰلًاؕ-قُلْ ﰰ للّٰهُ اَذِنَ لَكُمْ اَمْ عَلَى اللّٰهِ تَفْتَرُوْنَ(59)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ :بھلا بتاؤ کہ اللہ نے تمہارے لیے جو رزق اتاراہے تو تم نے اس میں سے خود ہی حرام اور حلال بنالیا، تم فرماؤ: کیا اللہ نے تمہیں اس کی اجازت دی ہے یا تم اللہ پر جھوٹ باندھتے ہو؟
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ:تم فرماؤ۔}کفارِ عرب چونکہ بحیرہ، سائبہ اور وصیلہ وغیرہ بتوں پر چھوڑے ہوئے جانوروں کو حرام سمجھتے تھے، ان پر عتاب فرمانے کے لئے یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔(تفسیر ابن کثیر، یونس، تحت الآیۃ: ۵۹، ۴ / ۲۳۹) کہ یہ جانور حلال ہیں انہیں حرام جاننا اللہ عَزَّوَجَلَّ پر بہتان باندھنا ہے۔
اپنی طرف سے حلال کو حرام سمجھنا اللہ تعالیٰ پر اِفتراء ہے:
اس آیت سے ثابت ہوا کہ کسی چیز کو اپنی طرف سے حلال یا حرام سمجھنا ممنوع اور اللہ تعالیٰ پر اِفترا ء ہے۔ آج کل بہت سے لوگ اس میں مبتلا ہیں، ممنوعات کو حلال کہتے ہیں اور مُباحات کو حرام۔ بعض سود کو حلال کہنے پر مُصِر ہیں اور بعض عورتوں کی بے قیدیوں اور بے پردگیوں کو مُباح سمجھتے ہیں اور حلال ٹھہراتے ہیں۔ اسی طرح کچھ لوگ حلال چیزوں کو حرام ٹھہرانے پر مُصِر ہیں جیسے محفلِ میلاد، فاتحہ ،گیارہویں اور ایصالِ ثواب کے دیگر طریقوں کو حرام کہنے والے ۔ یہ سب اللہ عَزَّوَجَلَّ پر اِفتراء باندھنے کی صورتیں ہیں۔
وَ مَا ظَنُّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَ لٰـكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَشْكُرُوْنَ(60)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اللہ پر جھوٹ باندھنے والوں کا قیامت کے دن کے بارے میں کیا خیال ہے؟ بیشک اللہ لوگوں پر فضل فرمانے والا ہے مگر اکثر لوگ شکرادا نہیں کرتے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَا ظَنُّ:اور کیا خیال ہے؟} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ لوگ جو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر جھوٹا بہتان باندھ رہے ہیں اور جو رزق اور خوراک اللہ تعالیٰ نے حرام نہیں فرمائی بلکہ وہ ان کی غذاہے ا س کے حرام ہونے کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں ، کیا وہ یہ گمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کے اس جھوٹ پر کوئی پکڑ نہ فرمائے گا ؟کیا ان کا یہ خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے در گزر فرمائے گا اور انہیں بخش دے گا؟ہر گز نہیں ! بلکہ وہ انہیں جہنم میں پہنچائے گا جس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (تفسیرطبری، یونس، تحت الآیۃ: ۶۰، ۶ / ۵۷۲)
{اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ:بیشک اللہ لوگوں پر فضل فرمانے والا ہے۔} یعنی بے شک اللہ تعالیٰ عقل عطا فرما کر، رسول بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر لوگوں پر فضل فرماتا ہے لیکن اکثر لوگ ناشکرے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے دلائل میں غوروفکر کرنے کے لئے عقل استعمال کرتے ہیں نہ اللہ تعالیٰ کے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعوت قبول کرتے ہیں اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتابوں سے سن کر نفع اٹھاتے ہیں۔ (تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۶۰، ۶ / ۲۷۲)
وَ مَا تَكُوْنُ فِیْ شَاْنٍ وَّ مَا تَتْلُوْا مِنْهُ مِنْ قُرْاٰنٍ وَّ لَا تَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ اِلَّا كُنَّا عَلَیْكُمْ شُهُوْدًا اِذْ تُفِیْضُوْنَ فِیْهِؕ-وَ مَا یَعْزُبُ عَنْ رَّبِّكَ مِنْ مِّثْقَالِ ذَرَّةٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِی السَّمَآءِ وَ لَاۤ اَصْغَرَ مِنْ ذٰلِكَ وَ لَاۤ اَكْبَرَ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ(61)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور تم کسی کام میں ہو اور تم اس کی طرف سے قرآن کی تلاوت کرتے ہو اور (اے لوگو!) تم کوئی بھی کام کررہے ہو ،ہم تم پر گواہ ہوتے ہیں جب تم اس میں مشغول ہوتے ہو اور زمین و آسمان میں کوئی ذرہ برابر چیز تیرے رب سے غائب نہیں اور ذرے سے چھوٹی اور بڑی کوئی چیز ایسی نہیں جو ایک روشن کتاب میں نہ ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَا تَكُوْنُ فِیْ شَاْنٍ:اور تم کسی حال میں بھی ہو۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پرشاہد اور ہر چیز کو جاننے والا ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی خالق ہے نہ اِیجاد کرنے والا، بندوں کی ظاہری اور باطنی اَعمال میں سے جو چیز بھی موجود ہے وہ اللہ تعالیٰ کے وجود میں لانے سے ہی موجود ہے اور جو اِیجاد کرنے والا ہوتا ہے وہ اس چیز کو جانتا بھی ہے لہٰذا نبی پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَعمال و اَحوال، تلاوت ِ قرآن، اُمورِ دُنیویہ و حاجت ِ ضروریہ میں مصروفیت اور اسی کے ساتھ تمام لوگوں کے تمام اعمال اللہ تعالیٰ کو معلوم ہیں اور وہ ان سب پر گواہ ہے۔پھر فرمایا کہ زمین و آسمان میں ایک ذرے کی مقدار بھی کوئی چیز اللہ تعالیٰ سے دور اور اس کے علم سے پو شیدہ نہیں اور اس ذرے سے چھوٹی یا بڑی کوئی چیز ایسی نہیں کہ جو روشن کتاب یعنی لَوحِ محفوظ میں درج نہ ہو۔(تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۶۱، ۶ / ۲۷۲-۲۷۳، بیضاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۶۱، ۳ / ۲۰۵)
اللہ تعالیٰ سے حیا کرتے ہوئے نافرمانی سے بچنا چاہئے:
یہ آیتِ مبارکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے علم، قدرت اور اس کی عظمت کے اظہار کیلئے ہے اور اسی میں ہمارے لئے تنبیہ اور نصیحت ہے کہ جب اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمارے تمام اَعمال کو ہر وقت، ہر لمحہ دیکھ رہا ہے تو اس کریم ذات کی حیا اور خوف سے ہمیں اس کی نافرمانی کے کاموں سے بچنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا حقیقی خوف اور اپنی نافرمانی سے بچتے رہنے کی توفیق نصیب فرمائے،اٰمین
اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ(62)الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَﭤ(63)
ترجمہ: کنزالعرفان
سن لو! بیشک ا للہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ وہ جو ایمان لائے اور ڈرتے رہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ:سن لو! بیشک اللہ کے ولیوں۔} لفظِ ’’ولی‘‘ وِلَاء سے بناہے جس کا معنی قرب ا ور نصرت ہے۔ وَلِیُّ اللہ وہ ہے جو فرائض کی ادائیگی سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کا قرب حاصل کرے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں مشغول رہے اور اس کا دل اللہ تعالیٰ کے نورِ جلال کی معرفت میں مستغرق ہو ،جب دیکھے قدرتِ الٰہی کے دلائل کو دیکھے اور جب سنے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی آیتیں ہی سنے اور جب بولے تو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی ثناہی کے ساتھ بولے اور جب حرکت کرے، اطاعتِ الٰہی میں حرکت کرے اور جب کوشش کرے تو اسی کام میں کوشش کرے جو قربِ الٰہی کاذریعہ ہو، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ذکر سے نہ تھکے اور چشمِ دل سے خدا کے سوا غیر کو نہ دیکھے۔ یہ صفت اَولیاء کی ہے، بندہ جب اس حال پر پہنچتا ہے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کا ولی و ناصر اور معین و مددگار ہوتا ہے۔
وَلِیُّ اللہ کی علامات:
علماء نے ’’ ولی اللہ‘‘ کی کثیر علامات بیان فرمائی ہیں ، جیسے متکلمین یعنی علمِ کلام کے ماہر علماء کہتے ہیں ’’ولی وہ ہے جو صحیح اور دلیل پر مبنی اعتقاد رکھتا ہو اور شریعت کے مطابق نیک اعمال بجالاتا ہو ۔
بعض عارفین نے فرمایا کہ ولایت قربِ الٰہی اور ہمیشہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ مشغول رہنے کا نام ہے،جب بندہ اس مقام پر پہنچتا ہے تو اس کو کسی چیز کا خوف نہیں رہتااور نہ کسی شے کے فوت ہونے کا غم ہوتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ ولی وہ ہے جس کو دیکھنے سے اللہ تعالیٰ یاد آئے، یہی طبری کی حدیث میں بھی ہے۔
ابنِ زید نے کہا کہ ولی وہی ہے جس میں وہ صفت ہو جو اس سے اگلی آیت میں مذکور ہے۔ ’’اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَ‘‘ یعنی ایمان و تقویٰ دونوں کا جامع ہو۔
بعض علماء نے فرمایا کہ ولی وہ ہیں جو خالص اللہ کے لئے محبت کریں۔ اَولیاء کی یہ صفت بکثرت اَحادیث میں ذکر ہوئی ہے۔
بعض بزرگانِ دین نے فرمایا: ولی وہ ہیں جو طاعت یعنی فرمانبرداری سے قربِ الٰہی کی طلب کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کرامت سے ان کی کار سازی فرماتا ہے یا وہ جن کی ہدایت کا دلیل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کفیل ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کا حقِ بندگی ادا کرنے اور اس کی مخلوق پر رحم کرنے کے لئے وقف ہوگئے ۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۶۲، ۲ / ۳۲۲-۳۲۳)
صدرُ الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’یہ معانی اور عبارات اگرچہ جداگانہ ہیں لیکن ان میں اختلاف کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ ہر ایک عبارت میں ولی کی ایک ایک صفت بیان کردی گئی ہے جسے قربِ الٰہی حاصل ہوتا ہے یہ تمام صفات اس میں ہوتے ہیں ، ولایت کے درجے اور مَراتب میں ہر ایک اپنے درجے کے بقدر فضل و شرف رکھتا ہے۔ (خزائن العرفان، یونس، تحت الآیۃ: ۶۲، ص۴۰۵)
{لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ:اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خو ف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔} مفسرین نے اس آیت کے بہت سے معنی بیان کئے ہیں ، ان میں سے 3معنی درج ذیل ہیں :
(1)…مستقبل میں انہیں عذاب کا خوف نہ ہو گا اور نہ موت کے وقت وہ غمگین ہوں گے۔
(2)… مستقبل میں کسی ناپسندیدہ چیز میں مبتلاہونے کا خوف ہوگا اور نہ ماضی اور حال میں کسی پسندیدہ چیز کے چھوٹنے پر غمگین ہوں گے۔ (البحرا لمحیط، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۳۸، ۱ / ۳۲۳۔جلالین مع صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۶۲، ۳ / ۸۸۰)
(3)… قیامت کے دن ان پر کوئی خوف ہو گا اور نہ اس دن یہ غمگین ہوں گے کیونکہ اللہتعالیٰ نے اپنے ولیوں کو دنیا میں ان چیزوں سے محفوظ فرما دیا ہے کہ جو آخرت میں خوف اور غم کا باعث بنتی ہیں۔ (4)ان تین کے علاوہ مزید اَقوال بھی تَفاسیر میں مذکور ہیں۔
اولیاءِ کرام کی اَقسام:
اولیاءِ کرام کی کثیر اَقسام ہیں جیساکہ حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے ،بے شک انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام زمین کے اَوتاد تھے ، جب نبوت کا سلسلہ ختم ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اُمتِ احمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں سے ایک قوم کو اُن کا نائب بنایا جنہیں اَبدال کہتے ہیں ، وہ حضرات (فقط) روزہ و نماز اور تسبیح وتقدیس میں کثرت کی وجہ سے لوگوں سے افضل نہیں ہوئے بلکہ اپنے حسنِ اَخلاق، وَرع و تقویٰ کی سچائی، نیت کی اچھائی، تمام مسلمانوں سے اپنے سینے کی سلامتی، اللہ عَزَّوَجَلَّکی رضا کے لیے حلم ، صبر اور دانشمندی ، بغیر کمزوری کے عاجزی اور تمام مسلمانوں کی خیر خواہی کی وجہ سے افضل ہو ئے ہیں۔ پس وہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے نائب ہیں۔ وہ ایسی قوم ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی ذات پاک کے لئے منتخب اور اپنے علم اور رضا کے لئے خاص کر لیا ہے ۔ وہ 40 صدیق ہیں ، جن میں سے 30 رحمٰن عَزَّوَجَلَّ کے خلیل حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے یقین کی مثل ہیں۔ ان کے ذریعے سے اہلِ زمین سے بلائیں اور لوگوں سے مصیبتیں دور ہوتی ہیں ، ان کے ذریعے سے ہی بارش ہوتی اور رزق دیا جاتا ہے، ان میں سے کوئی اُسی وقت فوت ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ اس کی جانشینی کیلئے کسی کو پروانہ دے چکا ہوتا ہے۔ وہ کسی پر لعنت نہیں بھیجتے، اپنے ماتحتوں کو اَذیت نہیں دیتے ، اُن پر دست درازی نہیں کرتے ،اُنہیں حقیر نہیں جانتے ، خود پر فَوقیت رکھنے والوں سے حسد نہیں کرتے ، دنیا کی حرص نہیں کرتے ، دکھاوے کی خاموشی اختیار نہیں کرتے ، تکبرنہیں کرتے اور دکھاوے کی عاجزی بھی نہیں کرتے ۔ وہ بات کرنے میں تمام لوگوں سے اچھے اور نفس کے اعتبار سے زیادہ پرہیزگار ہیں ، سخاوت ان کی فطرت میں شامل ہے، اَسلاف نے جن (نامناسب ) چیزوں کو چھوڑا اُن سے محفوظ رہنا ان کی صفت ہے ، اُن کی یہ صفت جدا نہیں ہوتی کہ آج خشیت کی حالت میں ہوں اور کل غفلت میں پڑے ہوں بلکہ وہ اپنے حال پر ہمیشگی اختیا ر کرتے ہیں ، وہ اپنے اور اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّ کے درمیان ایک خاص تعلق رکھتے ہیں ، جہاں تک دوسرے کسی کی رسائی نہیں۔ اُن کے دل اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا اور شوق میں آسمان کی طرف بلند ہوتے ہیں ،(پھر یہ آیت تِلاوت فرمائی)’’ اُولٰٓىٕكَ حِزْبُ اللّٰهِؕ-اَلَاۤ اِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ‘‘(المجادلۃ:۲۲)ترجمۂ کنزُالعِرفان:یہ اللہ کی جماعت ہے، سن لو! اللہ کی جماعت ہی کامیاب ہے۔ (نوادرُ الاصول، الاصل الحادی والخمسون، ۱ / ۲۰۹، الحدیث: ۳۰۱)
حضرت شریح بن عبید رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے پاس شام والوں کا ذکر ہوا تو ان سے عرض کی گئی کہ ان پر لعنت کیجئے۔ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’نہیں ، میں نے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اَبدال شام میں ہوں گے، وہ حضرات چالیس مرد ہیں ، جب ان میں ایک وفات پاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرے کو بدل دیتا ہے، ان کی برکت سے بارشیں برستی ہیں ، ان کے ذریعے دشمنوں پر فتح حاصل ہوتی ہے اور ان کی برکت سے شام والوں سے عذاب دور ہوتا ہے۔ (مسند امام احمد، ومن مسند علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، ۱ / ۲۳۸، الحدیث: ۸۹۶)
اولیاءِ کرام کی اَقسام کے بارے میں اَکابر علماء و محدثین نے بڑا تفصیلی کلام فرمایا ہے ۔ علامہ سیوطی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے قطب، اَبدال وغیرہما کے وجود پر ایک کتاب تصنیف فرمائی ہے۔ علامہ نبہانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی اس موضوع پر مشہور کتاب ’’جامع کراماتِ اولیاء‘‘ ضخیم ترین کتاب ہے۔ علامہ نبہانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے کلام کی روشنی میں یہاں چند مشہور اَقسام بیان کی جاتی ہیں
(1)… اَقطاب۔ یہ قُطب کی جمع ہے۔ قطب اسے کہتے ہیں کہ جو خود یا کسی کے نائب کے طور پر حال اور مقام دونوں کا جامع ہو۔
(2)… اَئمہ ۔ یہ وہ حضرات ہیں کہ جو قطب کے انتقال کے بعد اس کے خلیفہ بنتے ہیں اور وہ قطب کیلئے وزیر کی طرح ہوتے ہیں۔ہر زمانے میں ان کی تعداد دو ہوتی ہے۔
(3)… اَوتاد۔ہر زمانے میں ان کی تعداد چار ہوتی ہے، اس سے کم یا زیادہ نہیں ہوتے۔ ان میں سے ایک کے ذریعے اللہ تعالیٰ مشرق کی حفاظت فرماتا ہے ، دوسرے کے ذریعے مغرب کی ، تیسرے کے ذریعے شمال کی اور چوتھے کے ذریعے جنوب کی حفاظت فرماتا ہے اور ان میں سے ہر ایک کی اپنے حصے میں ولایت ہوتی ہے۔
(4)… اَبدال۔ ان کی تعداد سات ہوتی ہے، اس سے کم یا زیادہ نہیں ہوتے، اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے ساتوں برِّ اَعظم کی حفاظت فرماتا ہے، انہیں ابدال ا س لئے کہتے ہیں کہ جب یہ کسی جگہ سے کوچ کرتے ہیں اور کسی مَصلحت اور قربت کی وجہ سے اس جگہ اپنا قائم مقام چھوڑنے کا ارادہ کرتے ہیں تو وہاں ایسے آدمی کو نامزد کرتے ہیں کہ جو ان کا ہم شکل ہواور جو کوئی بھی اس ہم شکل کو دیکھے تو وہ اسے اصلی شخص ہی سمجھے حالانکہ وہ ایک روحانی شخصیت ہوتا ہے جسے ابدال میں سے کوئی بدل قصداً وہاں ٹھہرا تا ہے۔ جن اَولیاء میں یہ قوت ہوتی ہے ، انہیں ا بدال کہتے ہیں۔
(5)…رِجال ا لغیب ۔ اَہلُ اللہ کی اِصطلاح میں یہ وہ لوگ ہیں جو رب کی بارگاہ میں انتہائی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں اور تجلیات ِ رحمٰن کے غلبے کے سبب آہستہ آواز کے سوا کچھ کلام نہیں کرتے، ہمیشہ اسی حال میں رہتے ہیں ، چھپے ہوئے ہوتے ہیں پہچانے نہیں جاتے، اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے مُناجات نہیں کرتے اور اس کے سوا کسی کے مشاہدے میں مشغول نہیں ہوتے۔ بعض اوقات اس سے مراد وہ لوگ ہوتے ہیں کہ جو انسانی نگاہوں سے پوشیدہ ہوں اور کبھی اس کا اِطلاق نیک اور مومن جنات پر ہوتا ہے ۔ بعض اوقات ان سے مراد وہ لوگ ہوتے ہیں جو ظاہری حواس سے علم اور رزق وغیرہ نہیں لیتے انہیں غیب سے یہ چیزیں عطا ہوتی ہیں۔ (جامع کرامات اولیاء، القسم الاول فی ذکر مراتب الولایۃ۔۔۔ الخ، ۱ / ۶۹، ۷۴)
{اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:وہ جو ایمان لائے ۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ولی کی دو صِفات بیان فرمائی ہیں :
(1)…ولی وہ ہے جو ایمان کے ساتھ مُتَّصِف ہو۔ ایمان کا معنی ہے وہ صحیح اعتقاد جو قَطعی دلائل پر مبنی ہو۔
(2)… ولی کی دوسری صفت یہ ہے کہ وہ متقی ہو۔ تقویٰ کا معنی یہ ہے کہ جن کاموں کو کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا انہیں کرنا اور جن کاموں سے منع کیا ہے ان سے اِجتناب کرنا۔ (صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۶۳، ۳ / ۸۸۰) اوراس کے ساتھ ساتھ ہر اس کام کیلئے کوشش کرنا جس میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا ہو اور ہر اُس کام سے بچنا جو اللہ عَزَّوَجَلَّ سے دور کرنے والا ہو۔
لَهُمُ الْبُشْرٰى فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَةِؕ-لَا تَبْدِیْلَ لِكَلِمٰتِ اللّٰهِؕ-ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُﭤ(64)
ترجمہ: کنزالعرفان
ان کے لئے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں خوشخبری ہے ، اللہ کی باتیں بدلتی نہیں ،یہی بڑی کامیابی ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{لَهُمُ الْبُشْرٰى فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا:ان کے لئے دنیا کی زندگی میں خوشخبری ہے۔} اس خوش خبری سے یا تو وہ مراد ہے جو پرہیزگار ایمانداروں کو قرآنِ کریم میں جا بجادی گئی ہے یااس سے اچھے خواب مراد ہیں جو مومن دیکھتا ہے یا اس کے لئے دیکھا جاتا ہے جیسا کہ کثیر اَحادیث میں وارد ہوا ہے، اور اس کا سبب یہ ہے کہ ولی کا قلب اور اس کی روح دونوں ذکرِ الٰہی میں مستغرق رہتے ہیں تو بوقت ِخواب اس کے دل میں سوائے ذکر و معرفتِ الٰہی کے اور کچھ نہیں ہوتا، اس لئے ولی جب خواب دیکھتا ہے تو اس کا خواب حق اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے حق میں بشارت ہوتی ہے۔ بعض مفسرین نے اس بشارت سے دنیا کی نیک نامی بھی مراد لی ہے۔(مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۶۴، ص۴۷۸، خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۶۴، ۲ / ۳۲۳، ملتقطاً) جیسا کہ مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کیا گیا :اس شخص کے لئے کیا ارشاد فرماتے ہیں جو نیک عمل کرتا ہے اور لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں ؟ فرمایا: یہ مومن کے لئے جلد خوشخبری ہے۔(مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والآداب، باب اذا اثنی علی الصالح فہی بشری ولا تضرہ، ص۱۴۲۰، الحدیث: ۱۶۶ (۲۶۴۲))
علماء فرماتے ہیں کہ یہ بشارتِ عاجلہ یعنی جلد خوشخبری رضائے الٰہی اور اللہ تعالیٰ کے محبت فرمانے اور خلق کے دل میں محبت ڈال دینے کی دلیل ہے جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اس کو زمین میں مقبول کردیا جاتا ہے۔ (شرح النووی علی المسلم، کتاب البرّ والصلۃ والآداب، باب اذا اثنی علی الصالح فہی بشری ولا تضرہ، ۸ / ۱۸۹، الجزء السادس عشر)
حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ ملائکہ ،مومن کو اس کی موت کے وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت دیتے ہیں۔ حضرت عطا رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا قول ہے کہ دنیا کی بشارت تو وہ ہے جو ملائکہ موت کے وقت سناتے ہیں اور آخرت کی بشارت وہ ہے جو مومن کو جان نکلنے کے بعد سنائی جاتی ہے کہ اس سے اللہ عَزَّوَجَلَّ راضی ہے۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۶۴، ۲ / ۳۲۳-۳۲۴)
اولیاءِ کرام کے فضائل:
یہاں آیت کی مناسبت سے اولیاءِ کرام کے فضائل پر مشتمل 4 اَحادیث ملاحظہ ہوں
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’جو میرے کسی ولی سے دشمنی کرے، اس سے میں نے لڑائی کا اعلان کردیا اور میرا بندہ کسی شے سے میرا اُس قدر قرب حاصل نہیں کرتا جتنا فرائض سے کرتا ہے اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے سے ہمیشہ قرب حاصل کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ میں اسے محبوب بنا لیتا ہوں اور جب اس سے محبت کرنے لگتاہوں تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ پکڑتا ہے اور اس کا پیر بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے سوال کرے، تو اسے دوں گا اور پناہ مانگے تو پناہ دوں گا۔ (بخاری، کتاب الرقاق، باب التواضع، ۴ / ۲۴۸، الحدیث: ۶۵۰۲)
(2)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام کو بلا کر ان سے فرماتا ہے کہ میں فلاں سے محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو چنانچہ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام اس سے محبت کرتے ہیں ،پھر حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام آسمان میں ندا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں سے محبت کرتا ہے تم بھی اس سے محبت کرو تو آسمان والے بھی اس سے محبت کرتے ہیں ، پھر اس کے لیے زمین میں مقبولیت رکھ دی جاتی ہے ۔اور جب رب تعالیٰ کسی بندے سے ناراض ہوتا ہے تو حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام کو بلا کر ان سے فرماتا ہے کہ میں فلاں سے ناراض ہوں تو تم بھی اس سے ناراض ہوجائو چنانچہ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام اس سے ناراض ہوجاتے ہیں ،پھر وہ آسمان والوں میں اعلان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں سے ناراض ہے تم بھی اس سے ناراض ہوجائو تو آسمان والے اس سے نفرت کرتے ہیں پھر زمین میں اس کے لیے نفرت رکھ دی جاتی ہے۔ (مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والآداب، باب اذا احبّ اللہ عبداً حبّبہ الی عبادہ، ص۱۴۱۷، الحدیث: ۱۵۷(۲۶۳۷))
(3)…حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو لوگ میرے جلال کی وجہ سے آپس میں محبت رکھتے ہیں ان کے لیے نور کے منبر ہوں گے، انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور شُہدا اُن پر رشک کریں گے۔ (ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی الحبّ فی اللہ، ۴ / ۱۷۴، الحدیث: ۲۳۹۷)
(4)…حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کے کچھ ایسے بندے ہیں کہ وہ نہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں اور نہ شُہدا ء ۔ اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کا ایسا مرتبہ ہوگا کہ قیامت کے دن انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور شہدا اُن پر رشک کریں گے۔ لوگوں نے عرض کی، یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ارشاد فرمائیے یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا کہ ’’یہ وہ لوگ ہیں جو محض رحمتِ الٰہی کی وجہ سے آپس میں محبت رکھتے ہیں ، نہ ان کا آپس میں رشتہ ہے، نہ مال کا لینا دینا ہے۔ خدا کی قسم! ان کے چہرے نور ہیں اور وہ خود بھی نور پر ہیں۔ جب لوگ خوف میں ہوں گے ، اس وقت اِنہیں خوف نہیں ہو گااور جب دوسرے غم میں ہوں گے تویہ غمگین نہ ہوں گے۔‘‘ اور حضورپُر نور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) نے یہ آیت پڑھی۔
’’ اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ ‘‘ (یونس:۶۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:سن لو! بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔( ابوداؤد، کتاب الاجارۃ، باب فی الرہن، ۳ / ۴۰۲، الحدیث: ۳۵۲۷)
{لَا تَبْدِیْلَ لِكَلِمٰتِ اللّٰهِ:اللہ کی باتیں بدلتی نہیں۔} یعنی اللہ تعالیٰ کے وعدے غلط نہیں ہوسکتے جو اس نے اپنی کتاب میں اور اپنے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زبان سے اپنے اَولیاء رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اور اپنے فرمانبردار بندوں سے فرمائے ہیں۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۶۴، ۲ / ۳۲۴)
وَ لَا یَحْزُنْكَ قَوْلُهُمْۘ-اِنَّ الْعِزَّةَ لِلّٰهِ جَمِیْعًاؕ-هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(65)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور تم ان کی باتو ں کا غم نہ کروبیشک تمام عزتوں کا مالک اللہ ہے ، وہی سننے والا جاننے والاہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَا یَحْزُنْكَ قَوْلُهُمْ:اور تم ان کی باتو ں کا غم نہ کرو۔} اس آیت میں سرورِ دو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دی گئی ہے کہ کفار نابکار جو آپ کی تکذیب کرتے ہیں اور آپ کے خلاف برے مشورے کرتے ہیں آپ اس کا کچھ غم نہ فرمائیں۔ بیشک تمام عزتوں کا مالک اللہ عَزَّوَجَلَّ ہے وہ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل کرے ، اے سیّدِ انبیاء! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کا ناصر و مددگار ہے، اس نے آپ کو اور آپ کے صدقے میں آپ کے فرمانبرداروں کو عزت دی، جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا کہ
’’وَ لِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُوْلِهٖ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ ‘‘ (منافقون:۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اللہ کے لئے عزت ہے اور اس کے رسول کے لئے اور ایمانداروں کے لئے۔( خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۶۵، ۲ / ۳۲۴، ملخصاً)
بلکہ کائنات میں عزت کا پیمانہ ہی حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذات ِ مبارکہ ہے جو آپ سے جتنا قریب ہے وہ اتنا ہی زیادہ معزز ہے چنانچہ صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سب سے زیادہ قریب تھے تو اُمت میں سب سے معزز بھی وہی ہیں اور ابوجہل سب سے زیادہ دور تھا اس لئے کفار میں سب سے خبیث ترین بھی وہی قرار پایا۔
اَلَاۤ اِنَّ لِلّٰهِ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِؕ-وَ مَا یَتَّبِـعُ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ شُرَكَآءَؕ-اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنْ هُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ(66)
ترجمہ: کنزالعرفان
سن لو! بیشک اللہ ہی مالک ہے سب کا جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں اور اللہ کے سوا اور شریکوں کی عبادت کرنے والے کس کی پیروی کررہے ہیں ؟ وہ تو صرف گمان کے پیچھے چل رہے ہیں اور وہ صرف جھوٹے اندازے لگا رہے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَاۤ اِنَّ لِلّٰهِ:سن لو! بیشک سب کا مالک اللہ ہی ہے۔} اس آیت سے پہلے آیت نمبر 55 میں ارشاد ہوا تھا کہ ’’ اَلَاۤ اِنَّ لِلّٰهِ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ‘‘ اور اس آیت میں ارشاد ہوا ’’ اَلَاۤ اِنَّ لِلّٰهِ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ‘‘ ان دونوں آیتوں کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ عقل والے ہوں یا بے عقل تمام جمادات، نباتات، حیوانات، جن ، انسان اور فرشتے سب کا مالک اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی ہے اور جب ہر چیز اس کی مَملوک ہے تو ان میں سے کوئی معبود کیسے ہو سکتا ہے۔ اسی کی مزید وضاحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا اور شریکوں کی عبادت کرنے والے کس دلیل کی بنا پر ان کی عبادت کر رہے ہیں ان کے پاس کوئی دلیل نہیں اور وہ صرف جھوٹے اندازے لگارہے ہیں اور بے دلیل محض گمانِ فاسد سے اپنے باطل معبودوں کو خدا کا شریک ٹھہراتے ہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا ہر ایک کی پرستش باطل ہے۔ (تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۶۶، ۶ / ۲۷۹، ملخصاً)یہ تو حید کی ایک عمدہ دلیل ہے اوراس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی قدرت و نعمت کا اظہار فرماتا ہے۔
هُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ لِتَسْكُنُوْا فِیْهِ وَ النَّهَارَ مُبْصِرًاؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّسْمَعُوْنَ(67)
ترجمہ: کنزالعرفان
وہی ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی تاکہ اس میں سکون حاصل کرو اور دن کو آنکھیں کھولنے والا بنایا بیشک اس میں سننے والوں کے لیے نشانیاں ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{هُوَ الَّذِیْ:وہی ہے جس نے۔} ارشاد فرمایا کہ وہی ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی تاکہ اس میں راحت و سکون حاصل کرواور آرام کرکے دن بھر کی تھکان دور کرو اور دن کو آنکھیں کھولنے والا بنایا تاکہ تم اس کی روشنی میں اپنی ضروریاتِ زندگی اور اَسبابِ مَعاش فراہم کرسکو۔ بیشک اس میں سننے والوں کے لیے نشانیاں ہیں جو سنیں اور سمجھیں کہ جس نے ان چیزوں کو پیدا کیا وہی معبود ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۶۷، ۲ / ۳۲۴-۳۲۵، مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۶۷، ص۴۷۹، ملتقطاً)
رات اور دن اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتیں ہیں :
یاد رہے کہ رات اور دن دونوں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عظیم نعمتوں میں سے ہیں۔ رات کے وقت آدمی آرام کرتا ہے اور سکون حاصل کرتا ہے، گزشتہ دن کی تھکاوٹ اتارتا ہے اور اگلے دن کیلئے چاق و چوبند ہوجاتا ہے اور دن کے وقت آدمی ہزاروں کام سرانجام دیتا ہے، دنیا بھر کے کام کرتا ہے اوراس کے ساتھ دن کی روشنی سے بھی راحت و آرام پاتا ہے ۔ دن یا رات میں سے کوئی ایک ختم ہوجائے تو زندگی نہایت کٹھن ہوجائے ۔ اگردن ختم ہوجائے اور ہمیشہ رات ہی رہے تو زمین پر کچھ کھانے کو نہ اُگ سکے گا اور سردی کی شدت بڑھتے بڑھتے انسان ہلاک ہوجائے اور اگر رات ختم ہوجائے اور ہمیشہ دن ہی رہے تو فصلیں سورج کی تَمازت سے جل جائیں اور لوگوں کا راحت و آرام چھن جائے۔ الغرض رات اور دن دونوں ہی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نعمت ہیں اور نعمتوں کی اہمیت کا صحیح اندازہ ان ممالک میں رہنے سے ہو سکتا ہے جہاں کئی کئی مہینے دن یا کئی کئی مہینے رات رہتی ہے۔
قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا سُبْحٰنَهٗؕ-هُوَ الْغَنِیُّؕ-لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِؕ-اِنْ عِنْدَكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍۭ بِهٰذَاؕ-اَتَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(68)قُلْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَﭤ(69)
ترجمہ: کنزالعرفان
۔ (کافروں نے )کہا: اللہ نے اپنے لیے اولاد بنا رکھی ہے۔ وہ پاک ہے، وہی بے نیاز ہے، جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اسی کا ہے۔ تمہارے پاس اس کی کوئی بھی دلیل نہیں ، کیا تم اللہ پر وہ بات کہتے ہو جس کا تمہیں علم نہیں ۔ تم فرماؤ: بیشک اللہ پر جھوٹ باندھنے والے فلاح نہیں پائیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا:(کافروں نے )کہا: اللہ نے اپنے لیے اولاد بنارکھی ہے ۔} کفار کا یہ کلمہ نہایت قبیح اور اِنتہا درجہ کے جہل کا حامل ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مشرکین کے اس قول کے تین رد فرمائے ہیں ،
پہلا رد تو کلمہ ’’سُبْحٰنَهٗ ‘‘ میں ہے جس میں بتایا گیا کہ اس کی ذات اولاد سے منزہ و پاک ہے کہ وہ واحدِ حقیقی ہے۔
دوسرا رد ’’ هُوَ الْغَنِیُّ ‘‘ فرمانے میں ہے کہ وہ تمام مخلوق سے بے نیاز ہے تو اولاد اس کے لئے کیسے ہوسکتی ہے؟ اولاد تو یا کمزور چاہتا ہے جو اس سے قوت حاصل کرے یا فقیر چاہتا ہے جوا س سے مدد لے یا کم عزت چاہتا ہے جو اس کے ذریعے سے عزت حاصل کرے ، الغرض جو چاہتا ہے وہ حاجت رکھتا ہے تو جو غنی ہو، بے نیاز ہو، کسی کا محتاج نہ ہو اس کے لئے اولاد کس طرح ہوسکتی ہے۔
تیسرا رد ’’لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ ‘‘ میں ہے کہ تمام مخلوق اس کی مملوک ہے اور مملوک ہونا بیٹا ہونے کے ساتھ نہیں جمع ہوتا لہٰذا ان میں سے کوئی اس کی اولاد نہیں ہوسکتا۔ (مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۶۸، ص۴۷۹-۴۸۰)اسی سِیاق میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے کافرو! تم جو اللہ تعالیٰ کیلئے اولاد قرار دیتے ہو اس کی تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں بلکہ اس کے برخلاف پر قطعی دلائل موجود ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اسی آیت میں بیان فرمائے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی عظمت و شان:
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’بنی آدم نے مجھے جھٹلایا حالانکہ یہ اس کے لئے جائز نہیں اور اس نے مجھے گالی دی حالانکہ یہ بھی ا س کے لئے جائز نہیں ہے، اس کا جھٹلانا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے: جس طرح میں نے اسے پہلے پیدا کیا اسی طرح دوبارہ زندہ نہیں کروں گا حالانکہ پہلی دفعہ بنانا میرے لئے دوبارہ زندہ کرنے سے زیادہ آسان نہیں ہے ، اور اس کا گالی دینا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے: اللہ کا بیٹا بھی ہے، حالانکہ میں اکیلا ہوں ، بے نیاز ہوں ، نہ میں نے کسی کو جنا ہے اور نہ مجھے کسی نے جنا ہے اور کوئی ایک بھی میری برابری کرنے والا نہیں ہے۔ (بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ قل ہو اللہ احد، ۱-باب، ۳ / ۳۹۴، الحدیث: ۴۹۷۴)
نوٹ: یہاں حدیث پاک میں جو یہ فرمایا گیا ’’پہلی دفعہ بنانا میرے لئے دوبارہ زندہ کرنے سے زیادہ آسان نہیں ہے‘‘یہ کلام بندوں کے اعتبار سے ہے اور مراد یہ ہے کہ بندوں کے نزدیک کسی چیز کو پہلی بار بنانا مشکل ہوتا ہے اور دوسری بار بنانا آسان جبکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے سامنے پہلی اور دوسری دونوں بار بنانا ایک جیسا ہے، تو جب لوگوں کے نزدیک جو چیز مشکل ہے یعنی پہلی بار بنانا وہ اللہ تعالیٰ نے کر دیا اور اس کا کافروں کو بھی اقرار ہے تو دوسری بار بنانے پر اس کی قدرت مانتے ہوئے کافروں کوکیا تکلیف ہے حالانکہ قیامت کے دن پہلے پیدا کر دی گئی مخلوق کو ہی دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔
{قُلْ:تم فرماؤ۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا ہے کہ جولوگ اللہ تعالیٰ کیلئے اولاد کا دعویٰ کر کے اس پر جھوٹ باندھتے ہیں آپ انہیں تَنبیہ فرما دیں کہ ان کا انجام بہت برا ہوگا اور یہ لوگ اپنی کوششوں میں کامیاب نہ ہوں گے بلکہ ناکام و نامُراد ہوں گے، اگرچہ ان پر نعمتوں کی بہتات ہو لیکن انجامِ کار زوال ہی ہے۔ (صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۶۹، ۳ / ۸۸۳)
مَتَاعٌ فِی الدُّنْیَا ثُمَّ اِلَیْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ نُذِیْقُهُمُ الْعَذَابَ الشَّدِیْدَ بِمَا كَانُوْا یَكْفُرُوْنَ(70)
ترجمہ: کنزالعرفان
دنیا میں تھوڑا سا فائدہ اٹھانا ہے پھر انہیں ہماری طرف واپس آنا ہے پھر ہم انہیں ان کے کفر کے بدلے میں شدیدعذاب کا مزہ چکھائیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{مَتَاعٌ فِی الدُّنْیَا:دنیا میں تھوڑا سافائدہ اٹھانا ہے۔}اس آیت میں کچھ لوگوں کے اِس شُبہے کا جواب دیا گیا ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ پر جھوٹ باندھنے والے بہت سے افراد عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں اور دنیاوی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں تو وہ ناکام کہاں سے ہوئے؟ ان کے شبہ کے ازالے کیلئے فرمایا گیا کہ یہ عارضی آرام ہے، اس کا کوئی اعتبار نہیں بلکہ اعتبار انجام کا ہے اور ان کاانجام خراب ہی ہے ۔ (صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۷۰، ۳ / ۸۸۳)
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ نُوْحٍۘ-اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖ یٰقَوْمِ اِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَیْكُمْ مَّقَامِیْ وَ تَذْكِیْرِیْ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ فَعَلَى اللّٰهِ تَوَكَّلْتُ فَاَجْمِعُوْۤا اَمْرَكُمْ وَ شُرَكَآءَكُمْ ثُمَّ لَا یَكُنْ اَمْرُكُمْ عَلَیْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُوْۤا اِلَیَّ وَ لَا تُنْظِرُوْنِ(71)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور انہیں نوح کی خبر پڑھ کر سناؤ جب اس نے اپنی قوم سے کہا: اے میری قوم اگر میرا قیام کرنا اور میرا اللہ کی آیتوں کے ذریعے نصیحت کرنا تم پر بھاری ہے تو میں نے اللہ ہی پر بھروسہ کیا تو تم اپنا کام اور اپنے شریکوں کو جمع کرلو پھر تمہارا کام تم پر پوشیدہ نہ رہے پھر میرے بارے میں جو کچھ کرسکتے ہو کرلو اور مجھے کوئی مہلت نہ دو۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ نُوْحٍ:اور انہیں نوح کی خبر پڑھ کر سناؤ ۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفارِ قریش کے اَحوال اور ان کے کفر و عناد کو بیان فرمایا اس کے بعد اب ان آیات سے اللہ تعالیٰ نے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعات اور جو کچھ ان کی امتوں کے ساتھ پیش آیا اس کا بیان شروع فرمایا ہے، گزشتہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حالاتِ زندگی بتاکر حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دینا مقصود ہے تاکہ کفارِ قریش کی طرف سے پہنچنے والی اَذیت کی تکلیف آسان ہو نیز ان واقعات اور ماضی میں کفر کرنے والی امتوں پر آنے والے عذاب اور دنیا میں ان کی ہلاکت کا بیان کفارِ قریش کے لئے قلبی خوف کا سبب ہو اور وہ ایمان قبول کرنے کی طرف مائل ہوں اور چونکہ سب سے پہلے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر ان کے کفر و سرکشی کی وجہ سے عذاب آیا اس لئے یہاں ان کا ذکر پہلے فرمایا گیا۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ دیکھا کہ ان کا اپنی قوم کے درمیان مدتِ دراز تک ٹھہرنا اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی آیتوں کے ذریعے نصیحت کرنا انہیں ناگوار گزراہے اوراس پر انہوں نے مجھے قتل کر دینے اور اپنے علاقے سے نکال دینے کا ارادہ کیا ہے تو آپ نے ان سے فرمایا: ’’مجھے اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی پر کامل بھروسہ ہے اور میں نے اپنے معاملات اسی کے سپرد کر دئیے ہیں ، تم میری مخالفت میں اور مجھے اِیذاء پہنچانے کیلئے جس قدر اَسباب جمع کر سکتے ہو کر لوبلکہ اپنے باطل معبودوں کو بھی ملا لو اور تمہاری یہ سازش پوشیدہ نہ رہے بلکہ علی الاعلان سب کچھ کرو، پھر میرے خلاف جو کچھ کرسکتے ہو کر گزرو اور مجھے کوئی مہلت نہ دو مجھے تمہاری کوئی پرواہ نہیں۔ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ کلام انہیں عاجز کر دینے کے طور پر تھا،مُدَّعا یہ ہے کہ مجھے اپنے قوی وقادر پروردگار عَزَّوَجَلَّ پر کامل بھروسہ ہے تم اور تمہارے بے اختیار معبود مجھے کچھ بھی نقصان نہیں پہنچاسکتے۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۷۱، ۲ / ۳۲۵-۳۲۶، ملخصاً)
حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا مختصر تعارف:
حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام دنیا میں چوتھے نبی اور پہلے رسول ہیں۔ آپ کا نام یَشْکُرْ اور لقب نوح ہے کیونکہ آپ خوفِ الٰہی سے نوحہ و گریہ بہت کرتے تھے۔ آپ آدمِ ثانی کہلاتے ہیں کیونکہ طوفانِ نوح کے بعد آپ ہی سے نسلِ انسانی چلی۔ قرآنِ پاک میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تبلیغ کے واقعات کو متعدد جگہ کافی تفصیل سے بیان فرمایا گیا ہے۔
آیت ’’ وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ نُوْحٍ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے پانچ چیزیں معلوم ہوئیں :
(1)… انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نہایت شُجاع، بہادر ، جَری، باہمت اور اُولُواالعزم ہوتے ہیں ، جیسے یہاں ایک طرف پوری قوم دشمن اور مخالف ہے اور دوسری طرف تنِ تنہا صرف اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بھروسے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کس قدرت جرأت کے ساتھ مخالفین کو پکار رہے ہیں۔ اسی سے معلوم ہوا کہ قادیانی نبی نہیں تھا کیونکہ وہ انتہا درجے کا ڈرپوک تھا، ساری زندگی اسی ڈر سے حج کو نہ گیا اور جہاں جانے سے اسے نقصان پہنچنے کا خوف ہوتا تھا وہاں نہ جاتا تھا۔
(2)… لوگوں کی ایذاء کی وجہ سے تبلیغ سے کنارہ کشی نہیں کرنی چاہیے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے تکالیف برداشت کرنے کے باوجود ساڑھے نو سو سال تک تبلیغ فرمائی۔
(3)… تبلیغِ دین کیلئے جرأت اور ہمت کی ضرورت ہوتی ہے، بُزدل اور ڈرپوک آدمی تبلیغ کا حق ادا نہیں کرسکتا۔
(4)…انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، اولیاءِ عِظام اور صالحین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کے سچے واقعات پڑھنا سننا عبادت ہے۔ اس لئے آیات ِ قرآنیہ کے ذریعے اور سیرت و واقعات کی کتابوں کے ذریعے بزرگانِ دین کی سیرت سے واقفیت حاصل کرتے رہنا چاہیے۔
(5)…یہ بھی معلوم ہوا کہ تاریخ کا علم بھی بہت عمدہ ہے کہ اس میں عبرت پوشیدہ ہوتی ہے البتہ تاریخ وہی پڑھی جائے جو حقائق پر مبنی ہو۔ آج کل ظالموں کو عادل، مسلمانوں کو قتل کرنے والوں کو مجاہد اور اُمت کو تباہ کرنے والوں کو امت کا مُصلِح و مُحسن بنا کر پیش کرنا عام ہے۔ ایسی تاریخ سے دور رہنا ہی مناسب ہے۔
فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَمَا سَاَلْتُكُمْ مِّنْ اَجْرٍؕ-اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَى اللّٰهِۙ-وَ اُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ(72)
ترجمہ: کنزالعرفان
پھر اگر تم منہ پھیرو تو میں تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا، میرا اجر تو اللہ کے ذمہ کرم پر ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ:پھر اگر تم منہ پھیرو۔} یعنی اگر تم میرے وعظ و نصیحت سے اِعراض کرو تو میں نے تم سے وعظ و نصیحت پر کوئی مُعاوضہ نہیں مانگا کہ تمہارے منہ پھیرنے کی وجہ سے مجھے اس کے نہ ملنے کا افسوس ہو، میرا اجر تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ذمۂ کرم پر ہے وہی مجھے جزا دے گا ۔مدعا یہ ہے کہ میرا وعظ و نصیحت خاص اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے ہے، کسی دنیوی غرض سے نہیں ہے۔ (مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۷۲، ص۴۸۰)
تبلیغِ دین پر اُجرت نہ لی جائے:
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تبلیغِ دین پر اُجرت نہ لی جائے، ہاں امامت وخطابت ، تدریس اور تعلیمِ قرآن وغیرہ میں جہاں شریعت کی طرف سے اجازت ہے وہ جدا بات ہے لیکن اس میں بھی ممکن ہو تو بغیر پیسے ہی کے کام کرے۔
{وَ اُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ: اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں۔} اس کا ایک معنی یہ ہے کہ تم دینِ اسلام قبول کرو یا نہ کرو مجھے دینِ اسلام پر قائم رہنے کا حکم دیا گیا ہے اور میں اس پر قائم ہوں۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ دینِ اسلام کی دعوت دینے کی بنا پر مجھے تمہاری طرف سے خواہ کیسی ہی اَذیت پہنچے ہر حال میں مجھے اللہ تعالیٰ کے حکم کا فرمانبرداررہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۷۲، ۲ / ۳۲۶
فَكَذَّبُوْهُ فَنَجَّیْنٰهُ وَ مَنْ مَّعَهٗ فِی الْفُلْكِ وَ جَعَلْنٰهُمْ خَلٰٓىٕفَ وَ اَغْرَقْنَا الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاۚ-فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُنْذَرِیْنَ(73)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو انہوں نے نوح کو جھٹلایا تو ہم نے اسے اور کشتی میں اس کے ساتھ والوں کو نجات دی اور انہیں ہم نے جانشین بنایااور جنہوں نے ہماری آیتوں کی تکذیب کی انہیں ہم نے غرق کردیا تو دیکھو ان لوگوں کا کیسا انجام ہوا جنہیں ڈرایا گیا تھا
تفسیر: صراط الجنان
{فَكَذَّبُوْهُ:تو انہوں نے نوح کو جھٹلایا ۔} اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کے درمیان ہونے والے معاملات کا بیان فرمایا اور اس آیت میں ان معاملات کا انجام بیان فرمایا ہے۔اس آیت میں حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے اصحاب کے بارے میں دو چیزیں بیان ہوئیں :
(1)…اللہ تعالیٰ نے انہیں کفار سے نجات دی۔
(2)…کفار کو غرق کرنے کے بعد حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھیوں کو زمین میں ان کا جانشین بنایا۔ کفار کے بارے میں فرمایا گیا کہ انہیں غرق کر کے ہلاک کر دیا گیا۔ اس میں کفار کے لئے بہت عبرت ہے کہ جو لوگ بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ کے رسول کو جھٹلائیں گے ان پر ویسا عذاب آ سکتا ہے جیسا حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے والوں پر آیا ، وہیں ایمان والوں کے لئے بھی نصیحت ہے کہ وہ ایمان پر ثابت قدم رہیں تو جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لانے والوں کو مخالفین کے شر سے نجات دی اسی طرح انہیں بھی مخالفین کے شر سے بچائے گا۔ (تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۷۳، ۶ / ۲۸۶)
ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ رُسُلًا اِلٰى قَوْمِهِمْ فَجَآءُوْهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَمَا كَانُوْا لِیُؤْمِنُوْا بِمَا كَذَّبُوْا بِهٖ مِنْ قَبْلُؕ-كَذٰلِكَ نَطْبَعُ عَلٰى قُلُوْبِ الْمُعْتَدِیْنَ(74)
ترجمہ: کنزالعرفان
پھر اس کے بعدہم نے ان کی قوموں کی طرف کئی رسول بھیجے تو وہ ان کے پاس روشن دلیلیں لائے (لیکن) وہ کفار ایسے نہ تھے کہ اس پر ایمان لے آئیں جسے پہلے جھٹلا چکے ہیں ۔ ہم اسی طرح سرکشوں کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ رُسُلًا اِلٰى قَوْمِهِمْ:پھر اس کے بعد ہم نے ان کی قوموں کی طرف کئی رسول بھیجے۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت نو ح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دور میں صر ف مو من باقی رہ گئے تھے اور کافر سب ہلا ک ہو گئے تھے مگر ان باقی ماند گان کی اولاد میں جب کفر و شرک پھیل گیا تو ان میں حضرت صالح، حضرت ہود، حضرت ابراہیم ،حضرت لوط اور حضرت شعیب عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے اپنے و قتوں میں بھیجے گئے ۔ان انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ نے ان کی صداقت پر دلالت کرنے والے واضح دلائل اور عظیم معجزات دے کر بھیجا لیکن ان کی قوم کے لوگوں نے بھی حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی طرح اپنے نبیوں کی تکذیب کی اور ان پر ایمان لانے کے لئے تیار نہ ہوئے اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کو تکذیب کی وجہ سے غرق کر دیا اسی طرح اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کے دل پر مہر لگا دیتا ہے جو سرکش ہو اور تکذیب میں ان کی راہ اختیار کرے۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۷۴، ۲ / ۳۲۶، ملخصاً) اس سے معلوم ہوا کہ بروں کی پیروی بری ہے اور ان کی راہ پر چلنے کا انجام بھی برا ہے۔
ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ مُّوْسٰى وَ هٰرُوْنَ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡىٕهٖ بِاٰیٰتِنَا فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ(75)
ترجمہ: کنزالعرفان
پھر ان کے بعد ہم نے موسیٰ اور ہارون کو فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف اپنی نشانیاں دے کر بھیجا تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم لوگ تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ مُّوْسٰى وَ هٰرُوْنَ:پھر ان کے بعد ہم نے موسیٰ اور ہارون کو بھیجا۔} یہاں دیگر انبیاءِ کرام ، حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعات بیان کرنے سے مقصود نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دینا ہے۔ (صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۷۵، ۳ / ۸۸۶)
فَلَمَّا جَآءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوْۤا اِنَّ هٰذَا لَسِحْرٌ مُّبِیْنٌ(76)قَالَ مُوْسٰۤى اَتَقُوْلُوْنَ لِلْحَقِّ لَمَّا جَآءَكُمْؕ-اَسِحْرٌ هٰذَاؕ-وَ لَا یُفْلِحُ السّٰحِرُوْنَ(77)قَالُوْۤا اَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَیْهِ اٰبَآءَنَا وَ تَكُوْنَ لَكُمَا الْكِبْرِیَآءُ فِی الْاَرْضِؕ-وَ مَا نَحْنُ لَكُمَا بِمُؤْمِنِیْنَ(78)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو جب ان کے پاس ہماری طرف سے حق آیا تو کہنے لگے : بیشک یہ کھلا جادو ہے۔ موسیٰ نے کہا: کیا تم حق کے بارے میں یہ کہتے ہو جب وہ تمہارے پاس آیا؟ کیا یہ جادو ہے؟ اور جادوگر فلاح نہیں پاتے۔ انہوں نے کہا: آپ ہمارے پاس اس لئے آئے ہیں تاکہ ہمیں اس (دین) سے پھیر دیں جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے اور زمین میں تم دونوں کی بڑائی ہوجائے اور ہم توتم پر ایمان لانے والے نہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَلَمَّا جَآءَهُمُ الْحَقُّ:تو جب ان کے پاس حق آیا۔} یعنی جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واسطے سے فرعون اورا س کی قوم کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق آیااور فرعونیوں نے پہچان لیا کہ یہ حق ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو براہ نَفسانیت کہنے لگے کہ بیشک یہ کھلا جادو ہے حالانکہ انہیں علم تھا کہ جادو کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۷۶، ۲ / ۳۲۷، مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۷۶، ص۴۸۱، ملتقطاً)
حق معلوم ہونے کے بعد قبول نہ کرنا فرعونیوں کا طریقہ ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ حق بات معلوم ہوجانے کے بعد نفسانیت کی وجہ سے اسے قبول نہ کرنا اور اس کے بارے میں ایسی باتیں کرنا جو دوسروں کے دلوں میں حق بات کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کر دیں فرعونیوں کا طریقہ ہے، اس سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو حق جان لینے کے باوجود صرف اپنی ضد اور اَنا کی وجہ سے اسے قبول نہیں کرتے اور اس کے بارے میں دوسرو ں سے ایسی باتیں کرتے ہیں جن سے یوں لگتا ہے کہ ان کا عمل درست ہے اور حق بیان کرنے والا اپنی بات میں سچا نہیں ہے۔
سورہِ یونس کی آیت نمبر78سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس آیت سے دو مسئلے معلوم ہوئے۔
(1)… پیغمبر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر بدگمانی کفر ہے۔ فرعونیوں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے متعلق یہ بد گمانی کی کہ آپ مصر کی بادشاہت چاہتے ہیں اور بادشاہت حاصل کرنے کے لئے نبوت کا بہانہ بنا رہے ہیں۔
(2)… حکمرانوں کی پرانی روِش یہی چلتی آرہی ہے کہ اصلاح قبول کرنے کی بجائے وہ سمجھانے والے پر جھوٹے الزام لگا کر اور اسے اِقتدار کا لالچی قرار دے کر اپنی جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آج بھی اس بات کو دیکھا جاسکتا ہے کہ غلط اندازِ حکمرانی پر ٹوکا جائے تو حکمران کہنا شروع کردیتے ہیں کہ یہ لوگ ہماری حکومت ختم کرکے اپنی حکومت لانا چاہتے ہیں۔
وَ قَالَ فِرْعَوْنُ ائْتُوْنِیْ بِكُلِّ سٰحِرٍ عَلِیْمٍ(79)فَلَمَّا جَآءَ السَّحَرَةُ قَالَ لَهُمْ مُّوْسٰۤى اَلْقُوْا مَاۤ اَنْتُمْ مُّلْقُوْنَ(80)فَلَمَّاۤ اَلْقَوْا قَالَ مُوْسٰى مَا جِئْتُمْ بِهِۙ-السِّحْرُؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَیُبْطِلُهٗؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِیْنَ(81)وَ یُحِقُّ اللّٰهُ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُوْنَ(82)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور فرعو ن نے کہا: ہر علم والے جادوگر کو میرے پاس لے آؤ۔پھر جب جادوگر آگئے توان سے موسیٰ نے کہا: ڈال دو جو تم ڈالنے والے ہو ۔پھر جب انہوں نے ڈال دیا توموسیٰ نے کہا: جو تم لائے ہو یہ جادو ہے۔ بیشک اب اللہ اسے باطل کردے گا، اللہ فساد والوں کے کام کو نہیں سنوارتا۔اور اللہ اپنے کلمات کے ذریعے حق کو حق کر دکھاتا ہے اگرچہ مجرموں کو ناگوار ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَالَ فِرْعَوْنُ:اور فرعو ن نے کہا۔} سرکش ومتکبر فرعون نے چاہا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزہ کا مقابلہ باطل سے کرے اور دنیا کو اس مُغالطہ میں ڈالے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزات مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ جادو کی قسم سے ہیں اس لئے وہ بولا :حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مقابلہ کیلئے ہر علم والے جادوگر کو میرے پاس لے آؤ۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۷۹، ۲ / ۳۲۷)
{فَلَمَّا جَآءَ السَّحَرَةُ:پھر جب جادوگر آگئے۔} جب جادوگر آگئے توان سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: جادو کی جوچیزیں رسّے شہتیر وغیرہ تم ڈالنے والے ہو میرے سامنے ڈال دو اور جو تمہیں جادو کرنا ہے کرو ۔ یہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس لئے فرمایا کہ حق و باطل ظاہر ہوجائے اور جادو کے کرشمے جو وہ کرنے والے ہیں ان کا فساد واضح ہو۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۸۰، ۲ / ۳۲۷)
{ فَلَمَّاۤ اَلْقَوْا:پھر جب انہوں نے ڈال دیا۔} پھر جب انہوں نے اپنے پاس موجود رسیاں اور شہتیر ڈال دیئے تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: جو تم لائے ہو یہ جادو ہے نہ کہ وہ آیاتِ الہٰیہ جن کو فرعون نے اپنی بے ایمانی سے جادو بتایا۔ بیشک اب اللہ تعالیٰ اسے باطل کردے گا اور اللہ عَزَّوَجَلَّ فساد والوں کے کام کو نہیں سنوارتا۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۸۱، ۲ / ۳۲۷، مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۸۱، ص۴۸۲، ملتقطاً)
{وَ یُحِقُّ اللّٰهُ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖ:اور اللہ اپنے کلمات کے ذریعے حق کو حق کر دکھاتا ہے۔} یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے حکم ، اپنی قضاء و قدر اور اپنے اس وعدے سے حق کو حق کر دکھاتا ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جادو گروں پر غالب کرے گا اگرچہ مجرموں کو ناگوار ہو۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۸۲، ۲ / ۳۲۷)
فَمَاۤ اٰمَنَ لِمُوْسٰۤى اِلَّا ذُرِّیَّةٌ مِّنْ قَوْمِهٖ عَلٰى خَوْفٍ مِّنْ فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡىٕهِمْ اَنْ یَّفْتِنَهُمْؕ-وَ اِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِی الْاَرْضِۚ-وَ اِنَّهٗ لَمِنَ الْمُسْرِفِیْنَ(83)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو فرعون اور اس کے درباریوں کے خوف کی وجہ سے موسیٰ پراس کی قوم میں سے چند لوگوں کے علاوہ کوئی ایمان نہ لایا (اس ڈر سے) کہ فرعون انہیں تکلیف میں ڈال دے گا اور بیشک فرعون زمین میں تکبر کرنے والا تھا اور بیشک وہ حد سے گزرنے والوں میں سے تھا۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَمَاۤ اٰمَنَ لِمُوْسٰى:تو موسیٰ پر ایمان نہ لائے۔} اس آیت میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دی گئی ہے، کیونکہ آپ لوگوں کے ایمان لانے کیلئے بہت کوشش فرماتے تھے اور لوگوں کے اِعراض کرنے کی وجہ سے مغموم ہوتے تھے۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تسکین کے لئے فرمایا گیا کہ باوجودیکہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اتنا بڑا معجزہ دکھایا پھر بھی تھوڑے لوگوں نے ایمان قبول کیا، ایسی حالتیں انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پیش آتی رہی ہیں ،آپ اپنی امت کے اِعراض سے رنجیدہ نہ ہوں۔
حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے میں قوم کی ذُرِّیَّت سے کون لوگ مراد ہیں ؟
اس آیت میں قوم کی ذریت سے کون لوگ مراد ہیں ،اس بارے میں مفسرین کے دو قول ہیں :
ایک قول یہ ہے کہ ’’مِنْ قَوْمِهٖ‘‘ میں جوضمیر ہے وہ تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طر ف لوٹ رہی ہے، اس صورت میں قوم کی ذریت سے بنی اسرائیل مراد ہوں گے جن کی اولاد مصر میں آپ کے ساتھ تھی اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو فرعون کے قتل سے بچ رہے تھے کیونکہ جب بنی اسرائیل کے لڑکے فرعون کے حکم سے قتل کئے جاتے تھے تو بنی اسرائیل کی بعض عورتیں جو قومِ فرعون کی عورتوں کے ساتھ کچھ رسم و راہ رکھتی تھیں وہ جب بچہ جنتیں تو اس کی جان کے اندیشہ سے وہ بچہ فرعونی قوم کی عورتوں کو دے ڈالتیں ، ایسے بچے جو فرعونیوں کے گھروں میں پلے تھے اس روز حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایما ن لے آئے جس دن اللہ تعالیٰ نے آپ کو جادوگروں پر غلبہ دیا تھا۔
دوسرا قول یہ ہے کہ ’’مِنْ قَوْمِهٖ‘‘ میں ضمیر فرعون کی طرف لوٹ رہی ہے ،اس صورت میں قوم کی ذریت سے قومِ فرعون کی ذریت مراد ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہے کہ وہ قومِ فرعون کے تھوڑے لوگ تھے جو ایمان لائے۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۸۳، ۲ / ۳۲۷)
بندے کا حد میں رہنا اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے:
فرعون کے بارے میں فرمایا کہ وہ متکبر تھا کیونکہ وہ خود کو خدا کہتا تھا اور اس سے بڑھ کر کیا تکبر ہوسکتا ہے، نیز فرعون کو حد سے بڑھنے والا کہا گیا کیونکہ اس نے بندہ ہو کر بندگی کی حد سے گزرنے کی کوشش کی اور اُلُوہیت کا مدعی ہوگیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ حد میں رہنا اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے ۔ پانی حد سے بڑھ جائے تو طوفان بن جاتا ہے اور آدمی حد سے بڑھ جائے تو شیطان بن جاتاہے۔
وَ قَالَ مُوْسٰى یٰقَوْمِ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ فَعَلَیْهِ تَوَكَّلُـوْۤا اِنْ كُنْتُمْ مُّسْلِمِیْنَ(84)فَقَالُوْا عَلَى اللّٰهِ تَوَكَّلْنَاۚ-رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ(85)وَ نَجِّنَا بِرَحْمَتِكَ مِنَ الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَ(86)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور موسیٰ نے کہا: اے میری قوم! اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو اگر تم مسلمان ہوتو اسی پر بھروسہ کرو۔ انہوں نے کہا: ہم نے اللہ ہی پر بھروسہ کیا۔ اے ہمارے رب! ہمیں ظالم لوگوں کے لیے آزمائش نہ بنا۔ اور اپنی رحمت فرما کر ہمیں کافروں سے نجات دے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَالَ مُوْسٰى:اور موسیٰ نے کہا۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا: اگر تم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے ہوتو اسی پر بھروسہ کرو ،وہ اپنے فرمانبرداروں کی مدد کرتا اور دشمنوں کو ہلاک فرماتا ہے۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ پر بھروسہ کرنا کمالِ ایمان کا تقاضا ہے۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۸۴، ۲ / ۳۲۸)
{فَقَالُوْا:انہوں نے کہا۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے جواب دیتے ہوئے عرض کی: ہم نے اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی پر بھروسہ کیا اس کے علاوہ کسی اور پر بھروسہ نہیں کرتے، پھر اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے دعا کرتے ہوئے عرض گزار ہوئے ’’ اے ہمارے رب!عَزَّوَجَلَّ، ہمیں ظالم لوگوں کے لیے آزمائش نہ بنا یعنی انہیں ہم پر غالب نہ کر اور ان کے گناہوں کی وجہ سے ہمیں ہلاک نہ فرما تاکہ وہ یہ گمان نہ کریں کہ وہ حق پر ہیں اور یوں سرکشی و کفر میں بڑھ جائیں اور اپنی رحمت فرما کر ہمیں قومِ فرعون کے کافروں کے قبضے سے نجات دے اور ان کے ظلم و ستم سے بچا۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۸۵، ۲ / ۳۲۸)
وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰى وَ اَخِیْهِ اَنْ تَبَوَّاٰ لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُیُوْتًا وَّ اجْعَلُوْا بُیُوْتَكُمْ قِبْلَةً وَّ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَؕ-وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ(87)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی کو وحی بھیجی کہ مصر میں اپنی قوم کے لیے مکانات بناؤ اور اپنے گھروں کو نماز کی جگہ بناؤ اور نماز قائم رکھو اور مسلمانوں کو خوشخبری سناؤ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اجْعَلُوْا بُیُوْتَكُمْ قِبْلَةً:اوراپنے گھروں کو نماز کی جگہ بناؤ۔ }حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا قبلہ کعبہ شریف تھا اور ابتداء میں بنی اسرائیل کو یہی حکم تھا کہ وہ گھروں میں چھپ کر نماز پڑھیں تاکہ فرعونیوں کے شر واِیذا ء سے محفوظ رہیں۔ (مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۸۷، ص۴۸۲-۴۸۳)
آیت’’وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰى وَ اَخِیْهِ اَنْ تَبَوَّاٰ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے پانچ باتیں معلوم ہوئیں :
(1)… گھر بنانا بھی سنتِ اَنبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہے لیکن شرط یہ ہے کہ فخر کے لئے نہ ہو بلکہ ضرورت پوری کرنے کے لئے ہو۔
(2)…رہنے سہنے کے گھروں میں گھریلو مسجد بنانا، جسے مسجد بیت کہا جاتا ہے، یہ ایک قدیم طریقہ ہے ، لہٰذا یہ ہونا چاہیے کہ مسلمان اپنے گھر کا کوئی حصہ نماز کے لئے پاک و صاف رکھیں اور اس میں عورت اِعتکاف کرے۔
(3)… خوف کے وقت چھپ کر گھروں میں نماز پڑھنا جائز ہے کیونکہ بنی اسرائیل اس زمانہ میں ایسے ہی نماز پڑھتے تھے۔
(4)… مصیبت کے وقت اچھی خبریں سنانی چاہئیں تاکہ لوگوں کا حوصلہ بڑھے اور مایوسی دور ہو۔
(5)… حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دین میں نماز فرض تھی، اس وقت زکوٰۃکا حکم اس لئے نہ دیا گیا کہ بنی اسرائیل غریب و مساکین تھے، جب ان کے پاس مال آیا تو پھر ان پر مال کا چوتھائی حصہ زکوٰۃ نکالنی فرض ہوئی۔
وَ قَالَ مُوْسٰى رَبَّنَاۤ اِنَّكَ اٰتَیْتَ فِرْعَوْنَ وَ مَلَاَهٗ زِیْنَةً وَّ اَمْوَالًا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۙ-رَبَّنَا لِیُضِلُّوْا عَنْ سَبِیْلِكَۚ-رَبَّنَا اطْمِسْ عَلٰۤى اَمْوَالِهِمْ وَ اشْدُدْ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْا حَتّٰى یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ(88)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور موسیٰ نے عرض کی: اے ہمارے رب! تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو دنیا کی زندگی میں آرائش اور مال دیدیا، اے ہمارے رب! تاکہ وہ تیرے راستے سے بھٹکا دیں ۔ اے ہمارے رب ! ان کے مال برباد کردے اور ان کے دلوں کو سخت کردے تاکہ وہ ایمان نہ لائیں جب تک دردناک عذاب نہ دیکھ لیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَالَ مُوْسٰى:اور موسیٰ نے عرض کی۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے عظیم معجزات دکھانے کے باوجود فرعونی اپنے کفر و عناد پر قائم رہے تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان کے خلاف دعا فرمائی : اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ، تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو دنیا کی زندگی میں آرائش ،عمدہ لباس ،نفیس فرش، قیمتی زیور اورطرح طرح کے سامان دئیے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ مال و دولت کے ذریعے لوگوں کوتیرے راستے سے بھٹکانے لگے ۔ اے ہمارے رب ! عَزَّوَجَلَّ، ان کے مال برباد کردے کیونکہ وہ تیری نعمتوں پر بجائے شکر کے جَری ہو کر مَعْصِیَت کرتے ہیں۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی یہ دعا قبول ہوئی اور فرعونیوں کے درہم ودینار وغیرہ پتھر ہو کر رہ گئے اور یہ ان 9 نشانیوں میں سے ایک ہے جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دی گئی تھیں۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۸۸، ۲ / ۳۲۹، مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۸۸، ص۴۸۳، ملتقطاً)
{وَ اشْدُدْ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ:اور ان کے دلوں کو سخت کردے۔} جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان لوگوں کے ایمان لانے سے مایوس ہوگئے تب آپ نے ان کے لئے یہ دعا کی اور ایسا ہی ہوا کہ وہ غرق ہونے کے وقت تک ایمان نہ لائے۔ (مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۸۸، ص۴۸۳)
آیت’’وَ اشْدُدْ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے دو چیزیں معلوم ہوئیں :
(1)…مال عام طور پر غفلت کا سبب بنتا ہے، اس لئے مالدار کو اپنے مُحاسبے کی زیادہ حاجت ہے کہ کہیں اس کے مال نے اسے غافل تو نہیں کردیا۔ اسی لئے قرآن میں فرمایا گیا :
’’ اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُۙ(۱) حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ ‘‘ (تکاثر:۱، ۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: زیادہ مال جمع کرنے کی طلب نے تمہیں غافل کردیا۔ یہاں تک کہ تم نے قبروں کا منہ دیکھا۔
اور فرمایا گیا
’’وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌۙ-وَّ اَنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِیْمٌ ‘‘(انفال:۲۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جان لوکہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد ایک امتحان ہے اوریہ کہ اللہ کے پاس بڑا ثواب ہے۔
(2)… دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ دل کی سختی بڑا عذاب ہے ۔ دل کی سختی کا معنی ہے کہ نصیحت دل پر اثر نہ کرے، گناہوں سے رغبت ہو اور گناہ کرنے پر کوئی پشیمانی نہ ہو اور توبہ کی طرف توجہ نہ ہو۔ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کے ذکر کے سوا زیادہ گفتگو نہ کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے بغیر زیادہ کلام کرنا دل کی سختی( کا باعث ہے) اور سخت دل آدمی اللہ تعالیٰ سے بہت دور ہوتا ہے۔(ترمذی، کتاب الزہد، ۶۲-باب منہ، ۴ / ۱۸۴، الحدیث: ۲۴۱۹)
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو دل کی سختی سے محفوظ فرمائے ، یاد رہے کہ اگر کوئی آدمی نیک اعمال کرتا ہے اور گناہوں سے بچتا ہے لیکن اس کی آنکھوں میں آنسو نہیں آتے تو اسے سخت دل نہیں کہا جاسکتا کہ اصل مقصود آنسو بہانا نہیں بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی فرمانبرداری کرنا ہے۔
قَالَ قَدْ اُجِیْبَتْ دَّعْوَتُكُمَا فَاسْتَقِیْمَا وَ لَا تَتَّبِعٰٓنِّ سَبِیْلَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ(89)
ترجمہ: کنزالعرفان
۔ (اللہ نے )فرمایا: تم دونوں کی دعا قبول ہوئی پس تم ثابت قدم رہو اورنادانوں کے راستے پر نہ چلنا۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ قَدْ اُجِیْبَتْ دَّعْوَتُكُمَا:(اللہ نے ) فرمایا: تم دونوں کی دعا قبول ہوئی۔} اس آیت میں دعا کی نسبت حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام دونوں کی طرف کی گئی حالانکہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام دعا کرتے تھے اور حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آمین کہتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آمین کہنے والا بھی دعا کرنے والوں میں شمار کیا جاتا ہے ۔یہ بھی ثابت ہوا کہ آمین دعا ہے لہٰذا اس کیلئے اِخفا ہی مناسب ہے۔ (مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۸۹، ص۴۸۳) یاد رہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا اور اس کی مقبولیت کے درمیان چالیس برس کا فاصلہ ہوا۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۸۹، ۲ / ۳۳۰) اسی لئے فرمایا گیا کہ ان لوگوں میں سے نہ ہونا جو قبولیت ِ دعا میں دیر ہونے کی حکمتیں نہیں جانتے۔
دعا قبول ہونے میں تاخیر ہونا بھی حکمت ہے:
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دعا کی قبولیت میں یہ ضروری نہیں کہ فوراً ہی اس کا اثر ہوجائے بلکہ بعض اوقات حکمت ِ الٰہی سے اس میں ایک عرصے کی تاخیر بھی ہوجاتی ہے، نیز اس شخص کی دعا ویسے ہی قبول نہیں ہوتی جو شور مچائے کہ اس نے بڑی دعا کی مگر قبول نہیں ہوئی چنانچہ حدیث میں ہے، حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بندے کی دعا قبول ہوتی ہے جب تک کہ وہ گناہ یا قَطعِ رحمی کی دعا نہ مانگے اور جب تک کہ جلد بازی سے کام نہ لے۔ عرض کی گئی :یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جلد بازی کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا ’’ یہ کہے کہ میں نے دعا مانگی اور مانگی مگر مجھے امید نہیں کہ قبول ہو، لہٰذا اس پر دل تنگ ہوجائے اور دعا مانگنا چھوڑ دے۔(مسلم، کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، باب بیان انّہ یستجاب للداعی ما لم یعجّل فیقول: دعوت فلم یستجب لی، ص۱۴۶۳، الحدیث: ۹۲(۲۷۳۵))
اسی لئے دعا کے آداب میں سے یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ قبولیت کے یقین سے دعا مانگو جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تم اللہ تعالیٰ سے قبولیت کے یقین کے ساتھ دعا مانگا کرو اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ غافل دل سے(دعا کرنے والے کی )دعا قبول نہیں فرماتا۔(ترمذی، کتاب الدعوات، ۶۵-باب، ۵ / ۲۹۲، الحدیث: ۳۴۹۰)
وَ جَاوَزْنَا بِبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ الْبَحْرَ فَاَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَ جُنُوْدُهٗ بَغْیًا وَّ عَدْوًاؕ-حَتّٰۤى اِذَاۤ اَدْرَكَهُ الْغَرَقُۙ-قَالَ اٰمَنْتُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا الَّذِیْۤ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُوْۤا اِسْرَآءِیْلَ وَ اَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ(90)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا عبور کرا دیا تو فرعون اور اس کے لشکروں نے سرکشی اور ظلم سے ان کا پیچھا کیا یہاں تک کہ جب اسے غرق ہونے نے آلیا تو کہنے لگا: میں اِس بات پر ایمان لایا کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں مسلمان ہوں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ اٰمَنْتُ:فرعون نے کہا: میں ایمان لایا۔} جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا قبول فرما لی تو بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ وہ ایک معین وقت میں مصر سے روانہ ہو جائیں اور اس کیلئے اپنا سامان بھی تیار کر لیں ، فرعون اس معاملے سے غافل تھا، جب ا س نے سنا کہ بنی اسرائیل اس کا ملک چھوڑنے کے عَزم سے نکل گئے ہیں تو وہ ان کے پیچھے روانہ ہوا، جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنی قوم کے ساتھ روانہ ہوئے اور دریا کے کنارے پہنچے اور ادھر فرعون بھی اپنے لشکر کے ساتھ ان کے قریب پہنچ گیا تو بنی اسرائیل شدید خوف میں مبتلا ہو گئے کیونکہ سامنے دریا تھا اور پیچھے فرعون کا لشکر، آگے بڑھتے ہیں تو دریا میں ڈوب جائیں گے پیچھے ہٹتے ہیں تو فرعون کا لشکر انہیں ہلاک کر دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس خطرناک حالت میں ان پر اس طرح انعام فرمایا کہ دریامیں ان کیلئے ایک راستہ ظاہر کر دیا، پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے اَصحاب کے ساتھ اس میں داخل ہو کر دریا کے پار تشریف لے گئے ، اللہ تعالیٰ نے دریا میں بننے والے رستے کو اسی طرح خشک رکھا تاکہ فرعون حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے تَعاقُب میں اپنے لشکر کے ساتھ ا س میں داخل ہو جائے۔ جب فرعون اپنے پورے لشکر کے ساتھ اس دریائی راستے میں داخل ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے دریا میں پڑے ہوئے شگاف کو ملا کر فرعون کواس کے پورے لشکر سمیت ڈبو دیا ۔ جب فرعون ڈوبنے لگا تو اس امید پر اپنے اخلاص اور ایمان کااِ ظہار کرنے لگا کہ اللہ تعالیٰ اسے اس مصیبت سے نجات دیدے گا۔ (تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۹۰، ۶ / ۲۹۵)
ﰰ لْــٴٰـنَ وَ قَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَ كُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ(91)
ترجمہ: کنزالعرفان
۔ ( اُسے کہا گیا) کیا ا ب (ایمان لاتے ہو؟) حالانکہ اس سے پہلے تو نافرمان رہا اور تو فسادی تھا۔
تفسیر: صراط الجنان
{ﰰ لْــٴٰـنَ:کیا اب۔} ڈوبتے وقت جب فرعون نے ایمان کا اقرار کیا تواس وقت اس سے کہا گیا: کیا اب حالتِ اِضطرار میں جب کہ غرق میں مبتلا ہوچکا ہے اور زندگی کی امید باقی نہیں رہی اس وقت ایمان لاتا ہے حالانکہ اس سے پہلے تو نافرمان رہا اور تو فسادی تھا، خود گمراہ تھا اور دوسروں کو گمراہ کرتا تھا۔ مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام فرعون کے پاس ایک تحریری سوال لائے جس کا مضمون یہ تھا کہ ایسے غلام کے بارے میں بادشاہ کا کیا حکم ہے جس نے ایک شخص کے مال و نعمت میں پرورش پائی، پھر اس کی ناشکری کی اور اس کے حق کا منکر ہوگیا اور اپنے آپ مولیٰ ہونے کا مدعی بن گیا؟ اس پر فرعون نے یہ جواب لکھا کہ جو غلام اپنے آقا کی نعمتوں کا انکار کرے اور اس کے مقابل آئے اس کی سزا یہ ہے کہ اس کو دریا میں ڈبو دیا جائے۔ جب فرعون ڈوبنے لگا تو حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے اس کا وہی فتویٰ اس کے سامنے کردیا اور اس کو اس نے پہچان لیا۔ (مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۹۱، ص۴۸۴)
فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُوْنَ لِمَنْ خَلْفَكَ اٰیَةًؕ-وَ اِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ(92)
ترجمہ: کنزالعرفان
آج ہم تیری لاش کو بچالیں گے تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لیے نشانی بن جائے اور بیشک لوگ ہماری نشانیوں سے ضرور غافل ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْكَ بِبَدَنِكَ:آج ہم تیری لاش کو بچالیں گے ۔} علماءِ تفسیر کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو ان کی ہلاکت کی خبر دی تو بنی اسرائیل میں سے بعض کو شُبہ رہا اور اس کی عظمت و ہَیبت جوان کے قُلوب میں تھی اس کے باعث انہیں اس کی ہلاکت کا یقین نہ آیا تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے دریا نے فرعون کی لاش ساحل پر پھینک دی، بنی اسرائیل نے اس کو دیکھ کر پہچانا۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۹۲، ۲ / ۳۳۲-۳۳۳)
{وَ اِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ:اور بیشک لوگ ہما ری نشانیوں سے ضرور غافل ہیں۔}اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور فرعون کا واقعہ بیان فرمایا اور فرعون کا انجام ذکر کیا اور اس واقعے کا اختتام اس کلام پر فرمایا۔ اس میں خطاب نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہے تاکہ وہ اپنی امت کو دلائل سے اِعراض کرنے پر ڈرائیں اور ان واقعات میں غورو فکر کرنے اور ان سے عبرت حاصل کرنے کی ترغیب دیں یہی ان واقعات کو بیان کرنے کا مقصود ہے۔(تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۹۲، ۶ / ۲۹۸)
وَ لَقَدْ بَوَّاْنَا بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ مُبَوَّاَ صِدْقٍ وَّ رَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِۚ-فَمَا اخْتَلَفُوْا حَتّٰى جَآءَهُمُ الْعِلْمُؕ-اِنَّ رَبَّكَ یَقْضِیْ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِیْمَا كَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ(93)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ہم نے بنی اسرائیل کو عزت کی جگہ دی اور انہیں پاکیزہ رزق عطا کیا تو وہ اختلاف میں نہ پڑے مگر علم آنے کے بعد ۔ بیشک تمہارا رب قیامت کے دن اُن میں اُس بات کا فیصلہ کردے گا جس میں وہ جھگڑتے تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ بَوَّاْنَا بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ مُبَوَّاَ صِدْقٍ:اور بیشک ہم نے بنی اسرائیل کو عزت کی جگہ دی۔} یعنی ہم نے بنی اسرائیل کو عزت کی جگہ ٹھہرایا اور ان کے سمندر سے نکلنے اور ان کے دشمن فرعون کی ہلاکت کے بعد انہیں عزت کے مقام میں اتارا۔ آیت میں عزت کی جگہ سے یا تو ملک مصر اور فرعون و فرعونیوں کے اَملاک مراد ہیں یا سرزمینِ شام ، قُدس اور اُردن، جو کہ نہایت سرسبز و شاداب اور زرخیز ملک ہیں۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۹۳، ۲ / ۳۳۳)
{فَمَا اخْتَلَفُوْا حَتّٰى جَآءَهُمُ الْعِلْمُ:تو وہ اختلاف میں نہ پڑے مگر علم آنے کے بعد } یہاں علم سے مراد یا تو توریت ہے جس کے معنی میں یہودی آپس میں اختلاف کرتے تھے یا سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری ہے کہ اس سے پہلے تو سب یہودی آپ کے قائل اور آپ کی نبوت پر متفق تھے اور توریت میں جو آپ کی صفات مذکور تھیں ان کو مانتے تھے لیکن تشریف آوری کے بعد اختلاف کرنے لگے ،کچھ ایمان لے آئے اور کچھ لوگوں نے حسدو عداوت کی وجہ سے کفر کیا ۔ ایک قول یہ ہے کہ علم سے قرآنِ مجید مراد ہے۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۹۳، ۲ / ۳۳۳)
علم اللہ تعالیٰ کا عذاب اور حجاب بھی ہوتا ہے:
اس سے معلوم ہوا کہ جس علم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی توفیق اور حقیقی معرفت نہ ہووہ علم اللہ عَزَّوَجَلَّ کا عذاب اور حجاب ہے ،چنانچہ علم کے باوجود گمراہ ہوجانے کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
’’وَ اَضَلَّهُ اللّٰهُ عَلٰى عِلْمٍ‘‘ (الجاثیہ:۲۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللہ نے اسے علم کے باوجودگمراہ کردیا۔
اور جو علم معرفتِ الہٰی کا ذریعہ ہو ، وہ رحمت ہے ، جیسے اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرمایا
’’ وَ قُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا‘‘ (طہ:۱۱۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور عرض کرو: اے میرے رب!میرے علم میں اضافہ فرما۔
{اِنَّ رَبَّكَ یَقْضِیْ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ ِ:بیشک تمہارا رب قیامت کے دن ان میں فیصلہ کردے گا۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہودی دنیا میں آپ کی نبوت کے معاملے میں جھگڑ رہے ہیں ،قیامت کے دن آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ ان میں عملی طور پر اس طرح فیصلہ کر دے گا کہ آپ پر ایمان لانے والوں کو جنت میں داخل فرمائے گا اور آپ کا انکار کرنے والوں کو جہنم کے عذاب میں مبتلا فرمائے گا۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۹۳، ۲ / ۳۳۳)
فَاِنْ كُنْتَ فِیْ شَكٍّ مِّمَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ فَسْــٴَـلِ الَّذِیْنَ یَقْرَءُوْنَ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكَۚ-لَقَدْ جَآءَكَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ(94)وَ لَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ فَتَكُوْنَ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(95)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو اے سننے والے! اگر تجھے اس میں کوئی شک ہو جو ہم نے تیری طرف اتارا ہے تو ان سے پوچھ لو جو تجھ سے پہلے کتاب پڑھنے والے ہیں ، بیشک تیرے پاس تیرے رب کی طرف سے حق آیاتو تُو ہر گز شک والوں میں نہ ہو۔ اور ہرگز ان میں نہ ہونا جنہوں نے اللہ کی آیتوں کو جھٹلایا ورنہ تو نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائے گا
تفسیر: صراط الجنان
{فَاِنْ كُنْتَ فِیْ شَكٍّ:تو اے سننے والے! اگر تجھے کوئی شک ہو۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے سننے والے! اگر تمہیں ان قصوں میں کچھ تردد ہو جو ہم نے اپنے رسول محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے واسطے سے تمہیں بیان کئے ہیں تو تم علمائے اہلِ کتاب جیسے حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور ان کے ساتھیوں سے پوچھ لو تاکہ وہ تمہیں سرورِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کا اطمینان دلائیں اور آپ کی نعت و صفت جو توریت میں مذکور ہے وہ سنا کر شک دور کردیں۔ بیشک تیرے پاس تیرے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے وہ حق آیا جو اپنے واضح دلائل سے اتنا روشن ہے کہ اس میں شک کی مجال نہیں لہٰذا تو ہر گز شک کرنے والوں میں سے نہ ہواور ہرگز ان لوگوں میں سے نہ ہونا جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی واضح دلیلوں کو جھٹلایا ورنہ تو اپنی جانوں کو خسارے میں ڈال کر نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائے گا۔(جلالین، یونس، تحت الآیۃ: ۹۴، ص۱۷۸، خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۹۴، ۲ / ۳۳۴-۳۳۵، ملتقطاً)
اِنَّ الَّذِیْنَ حَقَّتْ عَلَیْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ(96)وَ لَوْ جَآءَتْهُمْ كُلُّ اٰیَةٍ حَتّٰى یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ(97)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک جن لوگوں پر تیرے رب کی بات پکی ہوچکی ہے وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ اگرچہ ان کے پاس ہر نشانی آجائے جب تک دردناک عذاب نہ دیکھ لیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ الَّذِیْنَ حَقَّتْ عَلَیْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ:بیشک جن لوگوں پر تیرے رب کی بات پکی ہوچکی ہے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ قول ان پر ثابت ہوچکا جو لوحِ محفوظ میں لکھ دیا گیا ہے اور جس کی ملائکہ نے خبر دی ہے کہ یہ لوگ کافر مریں گے اور جب تک وہ موت کے وقت یا قیامت میں دردناک عذاب نہ دیکھ لیں گے ایمان نہیں لائیں گے اگرچہ سب نشانیاں ان کے پاس آجائیں اور اس وقت کا ایمان نہ نفع بخش ہے اور نہ مقبول۔ (مدار ک، یونس، تحت الآیۃ: ۹۶، ص۴۸۵)
فَلَوْ لَا كَانَتْ قَرْیَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَهَاۤ اِیْمَانُهَاۤ اِلَّا قَوْمَ یُوْنُسَؕ-لَمَّاۤ اٰمَنُوْا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ مَتَّعْنٰهُمْ اِلٰى حِیْنٍ(98)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو کیوں ایسا نہ ہوا کہ کوئی قوم ایمان لے آتی تاکہ اس کا ایمان اسے نفع دیتا لیکن یونس کی قوم جب ایمان لائی توہم نے ان سے دنیا کی زندگی میں رسوائی کا عذاب ہٹادیا اور ایک وقت تک انہیں فائدہ اٹھانے دیا۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَلَوْ لَا:تو کیوں ایسا نہ ہوا۔} یعنی ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان بستیوں میں سے جنہیں ہم نے ہلاک کیا کوئی قوم عذاب کا مشاہدہ کرنے سے پہلے کفر چھوڑ کر اِخلاص کے ساتھ توبہ کر کے ایمان لے آتی اور جس طرح فرعون نے اپنا ایمان لانا مُؤخَّر کیا وہ قوم نہ کرتی تاکہ اس کا ایمان اسے نفع دیتا کیونکہ اختیار کے وقت میں ایمان لانے کی وجہ سے اللہ عَزَّوَجَلَّ ان کا ایمان قبول کر لیتا۔ (مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۹۸، ص۴۸۶)
{ اِلَّا قَوْمَ یُوْنُسَ:لیکن یونس کی قوم۔} حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کا واقعہ یہ ہے کہ یہ لوگ موصل کے علاقے نینوٰی میں رہتے تھے اور کفر و شرک میں مبتلا تھے اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کی طرف بھیجا، آپ نے انہیں بت پرستی چھوڑنے اور ایمان لانے کا حکم دیا، ان لوگوں نے انکار کیا اور حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کی، آپ نے انہیں اللہ تعالیٰ کے حکم سے عذاب نازل ہونے کی خبر دی، ان لوگوں نے آپس میں کہا کہ حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کبھی کوئی بات غلط نہیں کہی ہے، دیکھو اگر وہ رات کو یہاں رہے جب تو کوئی اندیشہ نہیں اور اگر انہوں نے رات یہاں نہ گزاری تو سمجھ لینا چاہیے کہ عذاب آئے گا۔ جب رات ہوئی توحضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام وہاں سے تشریف لے گئے اور صبح کے وقت عذاب کے آثار نمودار ہوگئے ، آسمان پر سیاہ رنگ کا ہیبت ناک بادل آیا ، بہت سارا دھواں جمع ہوا اور تمام شہر پر چھا گیا۔ یہ دیکھ کر انہیں یقین ہوگیا کہ عذاب آنے والا ہے ، انہوں نے حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو تلاش کیاتو آپ کو نہ پایا، اب انہیں اور زیادہ اندیشہ ہوا تو وہ لوگ اپنی عورتوں ، بچوں اور جانوروں کے ساتھ جنگل کی طرف نکل گئے، موٹے کپڑے پہن کر توبہ و اسلام کا اظہار کیا، شوہر سے بیوی اور ماں سے بچے جدا ہوگئے اور سب نے بارگاہِ الٰہی میں گریہ و زاری شروع کر دی اور عرض کرنے لگے کہ جودین حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام لائے ہیں ہم اس پر ایمان لاتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے سچی توبہ کی اور جو جَرائم ان سے ہوئے تھے انہیں دور کیا، پرائے مال واپس کئے حتّٰی کہ اگر دوسرے کا ایک پتھرکسی کی بنیاد میں لگ گیا تھا تو بنیاد اکھاڑ کر وہ پتھر نکال دیا اور واپس کردیا ۔ اللہ تعالیٰ سے اخلاص کے ساتھ مغفرت کی دعائیں کیں توپروردگارِ عالَم نے ان پر رحم کیا، دعا قبول فرمائی اور عذاب اٹھا دیا گیا۔( خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۹۸، ۲ / ۳۳۵-۳۳۶)
فرعون کی توبہ اور حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی توبہ میں فرق:
اس مقام پر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرعون کے بارے میں ذکر فرمایا کہ اس نے آخری وقت توبہ کی لیکن اس کی توبہ قبول نہ ہوئی جبکہ حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے بارے میں ذکر فرمایا کہ انہوں نے توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرما لی، دونوں کی توبہ میں کیا فرق ہے؟ امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ فرعون کی توبہ اور حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی توبہ میں واضح فرق ہے وہ یہ کہ فرعون نے عذاب کا مشاہدہ کرنے کے بعد توبہ کی تھی جبکہ حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر جب وہ نشانیاں ظاہر ہوئیں جو عذاب کے قریب ہونے پر دلالت کرتی ہیں تو انہوں نے عذاب کا مشاہدہ کرنے سے پہلے اسی وقت ہی توبہ کر لی تھی ۔ (تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۹۸، ۶ / ۳۰۳) اس کا مطلب یہ نکلا کہ نزولِ عذاب کے بعد توبہ قبول نہیں البتہ نزولِ عذاب سے پہلے صرف علاماتِ عذاب کے ظہور کے بعد توبہ قبول ہوسکتی ہے۔
وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِیْعًاؕ-اَفَاَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتّٰى یَكُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ(99)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اگر تمہارا رب چاہتا توجتنے لوگ زمین میں ہیں سب کے سب ایمان لے آتے توکیا تم لوگوں کومجبور کرو گے یہاں تک کہ مسلمان ہوجائیں
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ:اور اگر تمہارا رب چاہتا۔} یعنی ایمان لانا سعادتِ اَزلی پر مَوقوف ہے، ایمان وہی لائیں گے جن کیلئے توفیق الٰہی شاملِ حال ہو، اس آیت میں سیّدِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ چاہتے ہیں کہ سب ایمان لے آئیں اور راہِ راست اختیار کریں لیکن آپ کی خواہش وکوشش کے باوجود بھی جو لوگ ایمان سے محروم رہ جاتے ہیں ان کا آپ کو غم ہوتا ہے تواس کا آپ کو غم نہ ہونا چاہیے کیونکہ اَزل سے جو شقی ہے وہ ایمان نہ لائے گا۔( خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۹۹، ۲ / ۳۳۶)
{اَفَاَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ:توکیا تم لوگوں کومجبور کرو گے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کو یہ روا نہیں کہ لوگوں کو ایمان قبول کرنے پر مجبور کریں کیونکہ ایمان تصدیق اور اِقرار کا نام ہے اور کسی پر جَبر اور زبر دستی کرنے سے تصدیقِ قلبی حاصل نہیں ہوتی۔ (مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۹۹، ص۴۸۶)معلوم ہوا کہ کسی کو جبراً مسلمان بنانا درست نہیں ،اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
’’لَاۤ اِكْرَاهَ فِی الدِّیْنِ‘‘ (البقرہ:۲۵۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: دین میں کوئی زبردستی نہیں۔
وَ مَا كَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تُؤْمِنَ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِؕ-وَ یَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِیْنَ لَا یَعْقِلُوْنَ(100)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور کسی جان کو قدرت نہیں کہ وہ اللہ کے حکم کے بغیرایمان لے آئے اوراللہ ان لوگوں پر عذاب ڈالتا ہے جو سمجھتے نہیں
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَا كَانَ لِنَفْسٍ:اور کسی جان کو قدرت نہیں۔} خلاصۂ کلام یہ ہے کہ جب اللہ عَزَّوَجَلَّ چاہتا ہے تو بندہ اپنے اختیار سے ایمان قبول کرتا ہے، اپنے چاہنے کی وجہ سے وہ ثواب کا مستحق ہوتا ہے اور جب اللہ عَزَّوَجَلَّ ہدایت کا ارادہ نہ کرے تو بندہ اپنی رَغْبت سے کفر پر رہتا ہے اور اس رغبت کا عذاب پاتا ہے۔ لہٰذا اس آیت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بندہ مجبور ہے کیونکہ بندے کی رغبت بھی مَشِیَّتِ الٰہی میں داخل ہے۔ مجبور کرنے کی بات تب ہو جب آدمی کفر پر اس طرح مجبور ہو جیسے رعشے میں مبتلا آدمی کے ہاتھ کانپتے ہیں کہ اگرچہ وہ کتنا ہی اسے روکنا چاہے روک نہیں پاتا تو اگر کوئی آدمی کفر پر اس طرح مجبور ہے کہ وہ دل سے ایمان لانا چاہتا ہے مگر اسے قدرت ہی نہیں ، وہ ایمان لاہی نہیں پاتا، اس کا دل تصدیق ہی نہیں کرتا اور اس کی زبان اقرارِ اسلام کرتی ہی نہیں پھر تو کہا جائے گا کہ اسے کفر پر مجبور کردیا گیا لیکن اگر دل میں قبول کرنے کا اختیار موجود ہے لیکن پھر بھی کوئی ایمان قبول نہیں کرتا تو وہ ہرگز مجبور نہیں ہے۔
قُلِ انْظُرُوْا مَا ذَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-وَ مَا تُغْنِی الْاٰیٰتُ وَ النُّذُرُ عَنْ قَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُوْنَ(101)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ: تم دیکھو کہ آسمانوں اور زمین میں کیا کیا (نشانیاں ) ہیں اور نشانیاں اور رسول ان لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں دیتے جو ایمان نہیں لاتے
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ:تم فرماؤ۔} اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا تھا کہ اس کی تخلیق اور مَشِیَّت کے بغیر ایمان حاصل نہیں ہو سکتا اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور قدرت پر موجود دلائل میں غورو فکر کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ انسان مجبورِ محض ہے۔آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان نشانیاں طلب کرنے والے مشرکین سے فرما دیں کہ تم دل کی آنکھوں سے دیکھو اور غور کرو کہ آسمانوں اور زمین میں توحیدِباری تعالیٰ کی کیاکیا نشانیاں ہیں ، اوپر سورج اور چاند ہیں جو کہ دن اور رات کے آنے کی دلیل ہیں ، ستارے ہیں جو کہ طلوع اور غروب ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش نازل فرماتا ہے۔ زمین میں پہاڑ ،دریا، دفینے، نہریں ، درخت نباتات یہ سب اللہ تعالیٰ کے واحد ہونے اور ان کا خالق ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔ (تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۶ / ۳۰۶، خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۲ / ۳۳۶، ملتقطاً) توعظمتِ خدواندی، توحید ِ الٰہی اور قدرتِ رَبّانی سمجھانے کیلئے یہی دلائل کافی ہیں ، اب اگر ان سب دلائل کے باوجود کوئی ایمان نہیں لاتا تو پھر اس کا ارادہ جہنم میں جانے کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے۔
فَهَلْ یَنْتَظِرُوْنَ اِلَّا مِثْلَ اَیَّامِ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِهِمْؕ-قُلْ فَانْتَظِرُوْۤا اِنِّیْ مَعَكُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ(102)ثُمَّ نُنَجِّیْ رُسُلَنَا وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كَذٰلِكَۚ-حَقًّا عَلَیْنَا نُنْجِ الْمُؤْمِنِیْنَ(103)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو انہیں ان لوگوں کے دنوں جیسے (دنوں ) کا انتظار ہے جو ان سے پہلے گزرے ہیں ۔ تم فرماؤ: تو انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار میں ہوں ۔ پھر ہم اپنے رسولوں اور ایمان والوں کو نجات دیں گے۔ہم پر اسی طرح حق ہے کہ ایمان والوں کو نجات دیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَهَلْ یَنْتَظِرُوْنَ اِلَّا مِثْلَ اَیَّامِ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِهِمْ:تو انہیں ان لوگوں کے دنوں جیسے (دنوں ) کا انتظار ہے جو ان سے پہلے گزرے ہیں۔} آیت کا معنی یہ ہے کہ ان لوگوں کا طرزِ عمل یہ بتاتا ہے کہ گویایہ لوگ گزشتہ اُمتوں کے دنوں جیسے دنوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ گزشتہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے زمانوں میں کفار کو اُن دنوں کے آنے سے ڈراتے تھے جن میں مختلف قسم کے عذاب نازل ہوں جبکہ کفار اسے جھٹلاتے اور مذاق اڑاتے ہوئے عذاب نازل ہونے کی جلدی مچاتے تھے اسی طرح نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے کے کفار بھی انہی کی رَوِش اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا : آپ ان سے فرما دیں کہ تم انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار میں ہوں۔ (تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۶ / ۳۰۷)
{ثُمَّ نُنَجِّیْ رُسُلَنَا وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:پھر ہم اپنے رسولوں اور ایمان والوں کو نجات دیں گے۔} حضرت ربیع بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ عذاب کا خوف دلانے کے بعد اس آیت میں یہ بیان فرمایا کہ جب عذاب واقع ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ رسول کو اور ان کے ساتھ ایمان لانے والوں کو نجات عطا فرماتا ہے۔ (تفسیر طبری، یونس، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۶ / ۶۱۷)
قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ شَكٍّ مِّنْ دِیْنِیْ فَلَاۤ اَعْبُدُ الَّذِیْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ لٰـكِنْ اَعْبُدُ اللّٰهَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰىكُمْ ۚۖ-وَ اُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ(104)وَ اَنْ اَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًاۚ-وَ لَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ(105)
ترجمہ: کنزالعرفان
: تم فرماؤ، اے لوگو! اگر تم میرے دین کی طرف سے کسی شبہ میں ہو تو (جان لو کہ) میں ان چیزوں کی عبادت نہیں کروں گا جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو البتہ میں اس اللہ کی عبادت کرتا ہوں جو تمہاری جان نکالے گا اور مجھے حکم ہے کہ میں ایمان والوں میں سے رہوں ۔او ر یہ کہ ہر باطل سے جدا رہ کر اپنا چہرہ دین کے لئے سیدھا رکھو اور ہرگز مشرکوں میں سے نہ ہونا۔
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ:تم فرماؤ، اے لوگو!} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ حکم دیا ہے کہ اپنے دین کا اِظہار کریں اور یہ اعلان کردیں کہ وہ مشرکین سے علیحدہ ہیں تاکہ مشرکین کے ساتھ رہنے والوں کے بارے میں مشرکوں کے شکوک و شُبہات زائل ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ کی عبادت چھپ کر ہونے کی بجائے اِعلانیہ ہونے لگے۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اہلِ مکہ سے فرما دیں کہ اے لوگو! اگر تم میرے دین کی حقیقت اور اس کی صحت کی طرف سے کسی شُبہ میں مبتلا ہو اور اس وجہ سے غیرُاللہ کی عبادت میں مشغول ہو تو میں تمہیں اپنے دین کی حقیقت بتادیتا ہوں کہ میں ان بتوں کی عبادت نہیں کروں گا جن کی تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہوکیونکہ بت خود مخلوق ہے اورعبادت کے لائق نہیں البتہ میں اس اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کرتا ہوں جو تمہاری روحیں قبض کر کے تمہاری جان نکالے گاکیونکہ وہ قادر، مختار، برحق معبود اور مُستحقِ عبادت ہے اور مجھے حکم ہے کہ میں ایمان والوں میں سے رہوں اور یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہر باطل سے جدا رہ کر دینِ حق پر اِستقامت کے ساتھ قائم رہوں اور ہرگز مشرکوں میں سے نہ ہوں۔ (تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۶ / ۳۰۸، جلالین مع صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۳ / ۸۹۵، روح البیان، یونس، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۴ / ۸۷، ملتقطاً)
وَ لَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَنْفَعُكَ وَ لَا یَضُرُّكَۚ-فَاِنْ فَعَلْتَ فَاِنَّكَ اِذًا مِّنَ الظّٰلِمِیْنَ(106)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اللہ کے سوا اس کی عبادت نہ کر جو نہ تجھے نفع دے سکے اور نہ تجھے نقصان پہنچا سکے پھر اگر تو ایسا کرے گاتو اس وقت تو ظالموں میں سے ہوگا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَنْفَعُكَ:اور اللہ کے سوا اس کی عبادت نہ کر جو تجھے نفع نہ دے سکے ۔} مفسرین فرماتے ہیں کہ اس آیت میں بظاہر خطاب نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہے لیکن اس سے مراد آپ کا غیر ہے کیونکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کبھی بھی اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کسی کی عبادت نہیں کی تو اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اے انسان! تو اللہ تعالیٰ کے علاوہ اس کی مستقل یا شریک بنا کر عبادت نہ کر جو عبادت کرنے اور پکارنے کے باوجود تجھے کوئی نفع نہ دے سکے اوراگر تو اس کی عبادت کرنا اور اسے پکارنا چھوڑ دے تو وہ تجھے کوئی نقصان نہ پہنچا سکے اور اگر میرے منع کرنے کے باوجود تو نے ایسا کیاتو اس وقت تو اپنی جان پر ظلم کرنے والوں میں سے ہوگا۔( خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۱۰۶، ۲ / ۳۳۸، روح البیان، یونس، تحت الآیۃ: ۱۰۶، ۴ / ۸۷، ملتقطاً)
وَ اِنْ یَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗۤ اِلَّا هُوَۚ-وَ اِنْ یُّرِدْكَ بِخَیْرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضْلِهٖؕ-یُصِیْبُ بِهٖ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖؕ-وَ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(107)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اگر اللہ تجھے کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سواکوئی تکلیف کو دور کرنے والا نہیں اور اگر وہ تیرے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرمائے تو اس کے فضل کو کوئی رد کرنے والا نہیں ۔ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اپنا فضل پہنچاتا ہے اور وہی بخشنے والا مہربان ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَلَا كَاشِفَ لَهٗۤ اِلَّا هُوَ:تو اس کے سوا کوئی تکلیف کو دور کرنے والا نہیں۔} یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں لوگ ایک دوسرے کو نفع بھی پہنچاتے ہیں اور نقصان بھی جبکہ آیت میں کسی مخلوق کے نفع نقصان پہنچانے کا انکار کیا گیا ہے۔ اِس سوال کا جواب آیت کے الفاظ میں ہی موجود ہے کہ مخلوق کے نفع نقصان پہنچانے کا انکار نہیں کیا گیا بلکہ یہ فرمایا گیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کو نفع پہنچانا چاہے تو کوئی اسے روک کرنقصان نہیں پہنچا سکتا اور جب اللہ تعالیٰ کسی کے نقصان کا ارادہ فرمائے تو کوئی اس نقصان کو ٹال کر نفع نہیں پہنچا سکتا۔
{وَ اِنْ یُّرِدْكَ بِخَیْرٍ:اور اگر وہ تیرے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرمائے۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ تیرے ساتھ وُسعت اور آسانی کا ارادہ فرمائے تو اس کے رزق کو روکنے والا کوئی نہیں ،وہی نفع و نقصان میں ہر ایک کا مالک ہے تمام کائنات اسی کی محتاج ہے وہی ہر چیز پر قادر اور جودو کرم والا ہے، بندوں کو اس کی طرف رغبت اور اس کا خوف اور اسی پر بھروسہ اور اسی پر اعتماد چاہیے اور نفع و ضَرر جو کچھ بھی ہے وہی اسے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے پہنچاتا ہے اور وہی اپنے بندوں کے گناہوں کو چھپانے والا اور ان پر مہربان ہے۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۲ / ۳۳۸)
قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْۚ-فَمَنِ اهْتَدٰى فَاِنَّمَا یَهْتَدِیْ لِنَفْسِهٖۚ-وَ مَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْهَاۚ-وَ مَاۤ اَنَا عَلَیْكُمْ بِوَكِیْلٍ(108)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ: اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق آیا تو جو ہدایت حاصل کرلے تو وہ اپنے فائدے کے لئے ہی ہدایت حاصل کررہا ہے اور جو کوئی گمراہ ہوتا ہے تو اپنے ہی نقصان کو گمراہ ہوتا ہے اور میں تم پر کوئی نگران نہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ:تم فرماؤ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، تم فرماؤ کہ اے اہلِ مکہ! تمہارے پاس اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے قرآن اور اس کا رسول محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لائے ہیں تواُن سے جوہدایت حاصل کر لے تو وہ اپنے فائدے کیلئے ہی ہدایت حاصل کررہا ہے کیونکہ اس کی ہدایت کا ثواب اسے ہی ملے گا اور اگر تم میں سے کوئی کفر کرے تو اس سے اللہ تعالیٰ کا کچھ نقصان نہیں اور کوئی ایمان لائے تو اس سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ اُسے کوئی نفع یا نقصان پہنچے اور جو کوئی گمراہ ہوتا ہے تو وہ اپنے ہی نقصان کو گمراہ ہوتا ہے کیونکہ اس کی گمراہی کا عذاب اسی کی جان پر ہو گا۔ خلاصہ یہ کہ اس کی ہدایت اور گمراہی میں کوئی اور شریک نہیں بلکہ ہر جان اپنے کمائے ہوئے اَعمال میں گِروی رکھی ہے اور میں تم پرکوئی نگران نہیں کہ تمہیں ہدایت حاصل کرنے پر مجبور کروں۔(جلالین مع صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ۳ / ۸۹۶)
وَ اتَّبِـعْ مَا یُوْحٰۤى اِلَیْكَ وَ اصْبِرْ حَتّٰى یَحْكُمَ اللّٰهُ ۚۖ-وَ هُوَ خَیْرُ الْحٰكِمِیْنَ(109)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اس وحی کی پیروی کرو جو آپ کی طرف بھیجی جاتی ہے اور صبر کرتے رہو حتّٰی کہ اللہ فیصلہ فرما دے اور وہ سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اتَّبِـعْ مَا یُوْحٰۤى اِلَیْكَ:اور اس کی پیروی کرو جو آپ کی طرف وحی بھیجی جاتی ہے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ تعالیٰ آپ کی طرف جو وحی فرماتا ہے آپ اسی کی پیروی کر یں اور آپ کی قوم کے کفار کی طرف سے آپ کو جو اَذِیَّت پہنچتی ہے اس پر صبر کرتے رہیں حتّٰی کہ اللہ تعالیٰ آپ کے دین کو غلبہ عطا فرما کر ان کے خلاف آپ کی مدد کا فیصلہ فرمائے ،اللہ عَزَّوَجَلَّ سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والا ہے۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ۲ / ۳۳۸)