سُوْرَۃُ الزُّمَر
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
تَنْزِیْلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللّٰهِ الْعَزِیْزِ الْحَكِیْمِ(1)
ترجمہ: کنزالعرفان
کتاب کانازل فرمانا اس اللہ کی طرف سے ہے جو عزت والا، حکمت والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{تَنْزِیْلُ الْكِتٰبِ: کتاب کانازل فرمانا۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ اس کتاب قرآنِ پاک کو نازل فرمانا اس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے جو عزت والا، حکمت والا ہے،کسی اور کی طرف سے ہر گز نہیں جیسا کہ مشرکین کہتے ہیں کہ اسے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے پاس سے بنا لیا ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ یہ کتاب قرآنِ کریم اور خصوصاً اس مبارک سورت کو نازل کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے لہٰذا تم اسے غور سے سنو اور ا س کے احکامات پر عمل کرو کہ یہ کتاب عزیز، اسے بھیجنے والا عزیز،اسے لے کر آنے والا فرشتہ عزیز اور جس پر نازل ہوئی وہ بھی عزیز ہے۔( روح البیان، الزمر، تحت الآیۃ: ۱، ۸ / ۶۸)
اِنَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللّٰهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّیْنَﭤ(2)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب حق کے ساتھ اتاری تو اللہ کی عبادت کرواسی کے بندے بن کر۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ: بیشک ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب حق کے ساتھ اتاری۔} یعنی اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے آپ کی طرف یہ کتاب اتاری اور اس میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ حق ہے، اس میں کوئی شک نہیں اور وہ حتمی طور پر عمل کے قابل ہے اور آپ اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت پر قائم رہتے ہوئے اخلاص کے ساتھ اس کی عبادت کرتے رہیں ۔
بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس آیت میں خطاب اگرچہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہے لیکن اس سے مراد آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت ہے۔(روح البیان، الزمر، تحت الآیۃ: ۲، ۸ / ۶۹، جلالین، الزمر، تحت الآیۃ: ۲، ص۳۸۵، ملتقطاً)
اللہ تعالیٰ کی عبادت اخلاص کے ساتھ کرنی چاہئے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اخلاص کے ساتھ کرنی چاہئے کہ اس میں نہ شرک کا کوئی شائبہ ہو اور نہ ہی اس میں ریا کاری کا کوئی عمل دخل ہو اور جو لوگ اخلاص کے ساتھ عبادت کرتے ہیں ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا وَ اَصْلَحُوْا وَ اعْتَصَمُوْا بِاللّٰهِ وَ اَخْلَصُوْا دِیْنَهُمْ لِلّٰهِ فَاُولٰٓىٕكَ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَؕ-وَ سَوْفَ یُؤْتِ اللّٰهُ الْمُؤْمِنِیْنَ اَجْرًا عَظِیْمًا‘‘(النساء:۱۴۶)
کنزُالعِترجمۂ رفان: مگر وہ لوگ جنہوں نے توبہ کی اور اپنی اصلاح کرلی اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیا اور اپنا دین خالص اللہ کے لئے کرلیا تو یہ مسلمانوں کے ساتھ ہیں اور عنقریب اللہ مسلمانوں کو بڑا ثواب دے گا۔
اَلَا لِلّٰهِ الدِّیْنُ الْخَالِصُؕ-وَ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِیَآءَۘ-مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَاۤ اِلَى اللّٰهِ زُلْفٰىؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَحْكُمُ بَیْنَهُمْ فِیْ مَا هُمْ فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ۬ؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِیْ مَنْ هُوَ كٰذِبٌ كَفَّارٌ(3)
ترجمہ: کنزالعرفان
سن لو! خالص عبادت اللہ ہی کیلئے ہے اور وہ جنہوں نے اس کے سوا اور مددگار بنارکھے ہیں (وہ کہتے ہیں 🙂 ہم تو ان بتوں کی صرف اس لئے عبادت کرتے ہیں تاکہ یہ ہمیں اللہ کے زیادہ نزدیک کردیں ۔ اللہ ان کے درمیان اس بات میں فیصلہ کردے گا جس میں یہ اختلاف کررہے ہیں بیشک اللہ اسے ہدایت نہیں دیتا جو جھوٹا، بڑا ناشکرا ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَا لِلّٰهِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ: سن لو! خالص عبادت اللہ ہی کیلئے ہے۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے لوگو! سن لو کہ شرک سے خالص عبادت اللہ تعالیٰ ہی کیلئے ہے کیونکہ اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق ہی نہیں اور وہ بت پرست جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور معبود ٹھہرا لئے ہیں اور بتوں کی پوجا کرتے ہیں ،وہ (اللہ تعالیٰ کو خالق ماننے کے باوجود) کہتے ہیں کہ ہم تو ان بتوں کی صرف اس لئے عبادت کرتے ہیں تاکہ یہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے زیادہ نزدیک کردیں تو یہ سمجھنے والے جھوٹے اور ناشکرے ہیں یعنی جھوٹے تو اِس بات میں ہیں کہ بتوں کو خدا کا قرب دلانے والا سمجھتے ہیں اور ناشکرے اِس لئے ہیں کہ خدا کی نعمتیں کھاکر اور اس کو خالق مان کر پھر بھی شرک کرتے ہیں تو ان کافروں کا مسلمانوں کے ساتھ توحید و شرک میں جو اختلاف ہے اس کا فیصلہ قیامت میں اللہ تعالیٰ ہی فرمائے گا اور وہ فیصلہ ایمان داروں کو جنت میں اور کافروں کو دوزخ میں داخل کرنے کے ذریعے ہوگا ۔
صرف اللہ تعالیٰ کی رضاکے لئے کیا جانے والا عمل مقبول ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ وہی عمل قابلِ قبول ہے جو صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کیا جائے ،اسی طرح حضرت یزید رقاشی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،ایک شخص نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم شہرت حاصل کرنے کے لئے اپنے اَموال دیتے ہیں ،کیا ہمیں اس کا کوئی اجر ملے گا؟نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’اللہ تعالیٰ اسی عمل کو قبول فرماتا ہے جو خالص اس کے لئے کیا جائے ،پھر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’اَلَا لِلّٰهِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ‘‘۔(در منثور، الزمر، تحت الآیۃ: ۳، ۷ / ۲۱۱)
اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں کو وسیلہ سمجھنا شرک نہیں
یاد رہے کہ کسی کو اللہ تعالیٰ سے قرب حاصل ہونے کا وسیلہ سمجھنا شرک نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ تک پہنچنے کے لئے وسیلہ تلاش کرنے کا قرآنِ پاک میں حکم دیا گیا ہے،جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ‘‘(مائدہ:۳۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو۔
البتہ جسے وسیلہ سمجھا جائے اسے معبود جاننا اور اس کی پوجا کرنا ضرور شرک ہے۔یہ فرق سامنے رکھتے ہوئے اگر انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاءِ عِظام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کو اللہ تعالیٰ سے قرب حاصل ہونے کا وسیلہ سمجھنے سے متعلق اہلِ حق کا عقیدہ اور نظرِیَّہ دیکھا جائے تو واضح ہوجائے گا کہ ان کا یہ عقیدہ شرک ہر گز نہیں ، کیونکہ وہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاء ِعظام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کو معبود نہیں مانتے اور نہ ہی ان کی عبادت کرتے ہیں بلکہ معبود صرف اللہ تعالیٰ کو مانتے ہیں اور صرف اسی کی عبادت کرتے ہیں جبکہ انہیں صرف اللہ تعالیٰ کا مقبول بندہ مان کر اس کی بارگاہ تک پہنچنے کا ذریعہ اور وسیلہ سمجھتے ہیں ۔آیت میں مشرکوں کی بتوں کو وسیلہ ماننے کی تردید دو وجہ سے ہے۔ ایک تو اِس وجہ سے کہ وہ وسیلہ ماننے کے چکر میں بتوں کو خدا بھی مانتے تھے جیسا کہ ان کا اپنا قول آیت میں موجود ہے کہ ہم ان کی عبادت اِس لئے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں خدا کے قریب کردیں ۔ دوسرا رد اِس وجہ سے ہے کہ وسیلہ ماننا اصل میں انہیں شفیع یعنی شفاعت کرنے والا ماننا ہے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شفاعت کی اجازت اَنبیاء و اَولیاء و صُلحاء کو ہے نہ کہ بتوں کو، تو بتوں کو شفیع ماننا خدا پر جھوٹ ہے۔
لَوْ اَرَادَ اللّٰهُ اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًا لَّاصْطَفٰى مِمَّا یَخْلُقُ مَا یَشَآءُۙ-سُبْحٰنَهٗؕ-هُوَ اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ(4)
ترجمہ: کنزالعرفان
اگر اللہ اپنے لیے اولاد بنانے کا ارادہ فرماتا تو اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا چن لیتا وہ پاک ہے۔ وہی ایک اللہ سب پر غالب ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{لَوْ اَرَادَ اللّٰهُ اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًا: اگر اللہ اپنے لیے اولاد بنانے کا ارادہ فرماتا۔} کفار اللہ تعالیٰ کے لئے اولاد مانتے تھے ، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفار کا رد کرتے ہوئے اپنے اولاد سے پاک ہونے کا بیان فرمایا کہ اگر بالفرض مشرکین کے گمان کے مطابق اللہ تعالیٰ کے لئے اولاد ممکن ہوتی تو وہ خود جسے چاہتا اولاد بناتا نہ کہ یہ تجویز کفار پر چھوڑتا کہ وہ جسے چاہیں خدا کی اولاد قرار دیں (مَعَاذَ اللہ) لیکن اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ اولاد سے اور ہر اس چیز سے پاک ہے جو اس کی شانِ اقدس کے لائق نہیں ،کیونکہ وہی ایک اللہ عَزَّوَجَلَّ سب پر غالب ہے،نہ اس کا کوئی شریک ہے اورنہ اس کی کوئی اولاد ہے۔( مدارک، الزمر، تحت الآیۃ: ۴، ص۱۰۳۰-۱۰۳۱، خازن، الزمر، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۴۹، ملتقطاً)
خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّۚ-یُكَوِّرُ الَّیْلَ عَلَى النَّهَارِ وَ یُكَوِّرُ النَّهَارَ عَلَى الَّیْلِ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَؕ-كُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّىؕ-اَلَا هُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفَّارُ(5)
ترجمہ: کنزالعرفان
اس نے آسمان اور زمین حق کے ساتھ بنائے،وہ رات کو دن پر لپیٹتا ہے اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے اور اس نے سورج اور چاند کو کام میں لگایا ہر ایک، ایک مقررہ مدت تک چلتا رہے گا۔ سن لو! وہی عزت والا،بخشنے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّ: اس نے آسمان اور زمین حق کے ساتھ بنائے۔} اس سے پہلی آیت کے آخر میں بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ واحد ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ، وہ غلبے والا ،قدرت والا ہے اور اس آیت میں اپنے اوصاف بیان کرکے اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیّت اور قدرت کی دلیل دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمان باطل اور بیکار نہیں بنائے بلکہ بے شمار حکمتوں پر مشتمل بنائے ہیں ،وہ کبھی رات کی تاریکی سے دن کے ایک حصہ کو چھپاتا ہے اور کبھی دن کی روشنی سے رات کے حصہ کو۔ مراد یہ ہے کہ کبھی دن کا وقت کم کر کے رات کو بڑھاتا ہے اور کبھی رات کا وقت کم کر کے دن کو زیادہ کرتا ہے ،یوں رات اور دن میں سے کم ہونے والا کم ہوتے ہوتے کئی گھنٹے کم ہو جاتا ہے اور بڑھنے والا بڑھتے بڑھتے کئی گھنٹے بڑھ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند کو کام میں لگایا ،ان میں سے ہر ایک قیامت تک اپنے مُقرر نظام پر چلتا رہے گا، (جب اللہ تعالیٰ کے اوصاف یہ ہیں تو اس کا کوئی شریک کس طرح ہو سکتا ہے) سن لو! بیشک اللہ تعالیٰ اس شخص کو سزا دینے پر قادر ہے جو سورج اور چاند کی تسخیر سے نصیحت حاصل نہ کرے اور اسے بخشنے والا ہے جو ان میں غورو فکرکر کے نصیحت حاصل کرے اور ان کے نظام کو چلانے والے رب تعالیٰ پر ایمان لے آئے۔( روح البیان ، الزمر ، تحت الآیۃ : ۵، ۸ / ۷۲-۷۳ ، خازن ، الزمر ، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۴۹، مدارک، الزمر، تحت الآیۃ: ۵، ص۱۰۳۱، ملتقطاً)
خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَ اَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ الْاَنْعَامِ ثَمٰنِیَةَ اَزْوَاجٍؕ-یَخْلُقُكُمْ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ خَلْقًا مِّنْۢ بَعْدِ خَلْقٍ فِیْ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍؕ-ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُؕ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۚ-فَاَنّٰى تُصْرَفُوْنَ(6)
ترجمہ: کنزالعرفان
اس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا پھر اسی سے اس کا جوڑا بنایا اور تمہارے لیے چوپایوں میں سے آٹھ جوڑے بنائے، تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹ میں تین اندھیروں میں پیدا کرتا ہے، ایک حالت کی تخلیق کے بعد دوسری حالت کی تخلیق ہوتی ہے۔ یہ اللہ تمہارا رب ہے ،اسی کی بادشاہی ہے، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔ تو تم کہاں پھیرے جاتے ہو؟
تفسیر: صراط الجنان
{خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ: اس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا۔} اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت اور قدرت پر آفاقی نشانیوں سے دلائل بیان کئے گئے اور اس آیت میں زمینی نشانیوں سے وحدانیّت اور قدرت پر دلائل دئیے جا رہے ہیں :
پہلی دلیل یہ ارشاد فرمائی کہ اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک جان حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پیدا فرمایا ،پھر انہی سے حضرت حوا رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کو پیدا فرمایا ۔
دوسری دلیل یہ ارشاد فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے اونٹ،گائے،بکری اوربھیڑ سے آٹھ جوڑے پیدا کئے، جوڑوں سے مراد نر اور مادہ ہیں ۔
تیسری دلیل یہ ارشاد فرمائی کہ اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹ میں تین اندھیروں میں پیدا کرتا ہے، ایک حالت کی تخلیق کے بعد دوسری حالت کی تخلیق ہوتی ہے۔ تین اندھیروں سے مرادپیٹ، بچہ دانی اور ا س کی جھلی کا اندھیرا ہے اور ایک حالت کے بعد دوسری حالت کی تخلیق سے مراد یہ ہے کہ پہلے نطفہ،پھر جمے ہوئے خون،پھر گوشت کے ٹکڑے اور پھر مکمل بچے کی تخلیق ہو تی ہے۔آیت کے آخر میں ارشاد فرمایا کہ جس نے اپنی کامل قدرت سے ان چیزوں کو پیدا فرمایا صرف وہی اللہ تعالیٰ تمہارا رب ہے ،اسی کی بادشاہی ہے نہ کہ کسی اور کی، اس کے سوا نہ کوئی خالق ہے اور نہ ہی کوئی عبادت کے لائق ہے ،تو تم کہاں پھیرے جاتے ہو اور اس بیان کے بعدحق راستے سے دور ہوتے ہو کہ اس کی عبادت چھوڑ کر غیر کی عبادت کرتے ہو۔( مدارک، الزمر، تحت الآیۃ: ۶، ص۱۰۳۱، خازن، الزمر، تحت الآیۃ: ۶، ۴ / ۴۹، ملتقطاً)
اِنْ تَكْفُرُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ عَنْكُمْ- وَ لَا یَرْضٰى لِعِبَادِهِ الْكُفْرَۚ-وَ اِنْ تَشْكُرُوْا یَرْضَهُ لَكُمْؕ-وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰىؕ-ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ مَّرْجِعُكُمْ فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَؕ-اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ(7)
ترجمہ: کنزالعرفان
اگر تم ناشکری کرو تو بیشک اللہ تم سے بے نیاز ہے اوروہ اپنے بندوں کی ناشکری کو پسند نہیں کرتا اور اگر تم شکر کرو تو اسے تمہارے لیے پسند فرماتا ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گی پھر تمہیں اپنے رب ہی کی طرف پھرنا ہے تو وہ تمہیں بتادے گا جو تم کرتے تھے بیشک وہ دلوں کی بات جانتا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنْ تَكْفُرُوْا: اگر تم ناشکری کرو۔} اس آیت میں کفار سے خطاب فرمایا گیا اور ایک احتمال یہ ہے کہ تمام لوگوں سے خطاب فرمایا گیاکہ اللہ تعالیٰ کی عظمت پر دئیے گئے دلائل کامشاہدہ کرنے کے بعد بھی اگر تم (کفر کر کے) اللہ تعالیٰ کی ناشکری کرو تو بیشک اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان اور تمہاری طاعت و عبادت سے بے نیاز ہے اور تم ہی اس کے محتاج ہو، ایمان لانے میں تمہارا ہی نفع ہے اور کافر ہوجانے میں تمہارا ہی نقصان ہے اور اگرچہ بندوں کے کفر و ایمان سے اللہ تعالیٰ کو کوئی نفع یا نقصان نہیں لیکن اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اپنے بندوں کی ناشکری کو پسند نہیں کرتا کیونکہ اس میں بندوں کا نقصان ہے اوراگر تم ایمان قبول کر کے شکر کرو تو اسے تمہارے لیے پسند فرماتا ہے کیونکہ وہ تمہاری کامیابی کا سبب ہے، اس پر تمہیں اللہ تعالیٰ ثواب دے گا اور جنت عطا فرمائے گا اور کوئی شخص دوسرے کے گناہ کی وجہ سے نہیں پکڑا جائے گا (البتہ گمراہ کرنے والوں پر ان کا اپنا بوجھ بھی ہو گا اور دوسرے گمراہوں کا بھی جنہیں اِنہوں نے بہکایا ہوگا)، پھر تمہیں آخرت میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ ہی کی طرف پھرنا ہے تو وہ تمہیں بتادے گا جو تم دنیا میں کرتے تھے اور اس کی تمہیں جزا دے گا ،بیشک وہ دلوں کی بات جانتا ہے۔(بحر المحیط ، الزمر، تحت الآیۃ : ۷، ۷ / ۴۰۰، بیضاوی، الزمر، تحت الآیۃ: ۷، ۵ / ۵۹، مدارک، الزمر، تحت الآیۃ: ۷، ص۱۰۳۱-۱۰۳۲، خازن، الزمر، تحت الآیۃ: ۷، ۴ / ۴۹-۵۰، ملتقطاً)
وَ اِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهٗ مُنِیْبًا اِلَیْهِ ثُمَّ اِذَا خَوَّلَهٗ نِعْمَةً مِّنْهُ نَسِیَ مَا كَانَ یَدْعُوْۤا اِلَیْهِ مِنْ قَبْلُ وَ جَعَلَ لِلّٰهِ اَنْدَادًا لِّیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِهٖؕ-قُلْ تَمَتَّعْ بِكُفْرِكَ قَلِیْلًا ﳓ اِنَّكَ مِنْ اَصْحٰبِ النَّارِ(8)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جب آدمی کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تواپنے رب کو اس کی طرف رجوع کرتے ہوئے پکارتا ہے پھر جب اللہ اسے اپنے پاس سے کوئی نعمت دیدے تو وہ اس تکلیف کوبھول جاتا ہے جس کی طرف وہ پہلے پکاررہا تھا اور اللہ کے لئے شریک بنانے لگتا ہے تاکہ اس کے راستے سے بہکادے۔ تم فرماؤ: تھوڑے دن اپنے کفر کے ساتھ فائدہ اٹھالے بیشک تو دوزخیوں میں سے ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهٗ مُنِیْبًا اِلَیْهِ: اور جب آدمی کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تواپنے رب کو اس کی طرف رجوع کرتے ہوئے پکارتا ہے۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب آدمی کو فقر،بیماری یا کوئی اور تکلیف و شدت پہنچتی ہے تووہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف ہی رجوع کرتے ہوئے اسے پکارتا ہے اوراس مصیبت کو دور کرنے کے لئے اسی سے فریاد کرتا ہے،پھر جب اللہ تعالیٰ اسے اپنے پاس سے کوئی نعمت دیدے اور ا س کی تکلیف دور کر کے ا س کے حال کو درست کر دے تو وہ اس شدت و تکلیف کو فراموش کردیتا ہے جس کے لئے اس نے اللہ تعالیٰ سے فریاد کی تھی اور حاجت پوری ہونے کے بعد پھر بت پرستی میں مبتلا ہوجاتا ہے اور وہ صرف اپنی گمراہی کو کافی نہیں سمجھتا بلکہ اپنے قول اور فعل سے دوسروں کو بھی اللہ تعالیٰ کے دین سے گمراہ کرنا شروع کردیتا ہے ۔اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اس کافر سے فرما دیں کہ تھوڑے دن اپنے کفر کے ساتھ فائدہ اٹھالے اور دنیا کی زندگی کے دن پورے کرلے بیشک تو قیامت کے دن دوزخیوں میں سے ہے۔(خازن، الزمر، تحت الآیۃ: ۸، ۴ / ۵۰، روح البیان، الزمر، تحت الآیۃ: ۸، ۸ / ۷۸-۸۰، تفسیرکبیر، الزمر، تحت الآیۃ: ۸، ۹ / ۴۲۸، ملتقطاً)
مصیبت وراحت میں مسلمانوں کا حال:
کفار کے اس طرزِ عمل کو سامنے رکھتے ہوئے ہم اپنی حالت پر غور کریں تو بے شمار مسلمان ایسے نظر آئیں گے جو مصیبت،پریشانی یا بیماری آنے پر نہ صرف خود دعاؤں ،التجاؤں اور اللہ تعالیٰ سے مُناجات میں مصروف ہو جاتے ہیں بلکہ اپنے عزیزوں ، رشتہ داروں اور دوست احباب سے بھی دعاؤں کا کہنے لگتے ہیں لیکن جیسے ہی اللہ تعالیٰ ان کی مصیبت و پریشانی یا بیماری دور کردے تو دوبارہ ایسے ہوجاتے ہیں گویا کبھی کسی تکلیف کے پہنچنے پر انہوں نے اللہ تعالیٰ کو پکارا ہی نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت عطا فرمائے اور انہیں اپنے اس طرزِ عمل کو بدلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جسے یہ بات پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ سختیوں اور مَصائب میں اس کی دعا قبول فرمائے تو اسے چاہئے کہ وہ راحت و آسائش کے دنوں میں اللہ تعالیٰ سے بکثرت دعا کرے۔(ترمذی، کتاب الدعوات، باب ما جاء انّ دعوۃ المسلم مستجابۃ، ۵ / ۲۴۸، الحدیث: ۳۳۹۳)
اَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ اٰنَآءَ الَّیْلِ سَاجِدًا وَّ قَآىٕمًا یَّحْذَرُ الْاٰخِرَةَ وَ یَرْجُوْا رَحْمَةَ رَبِّهٖؕ-قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَؕ-اِنَّمَا یَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ(9)
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا وہ شخص جو سجدے اور قیام کی حالت میں رات کے اوقات فرمانبرداری میں گزارتا ہے، آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے رب کی رحمت کی امید لگا رکھتا ہے (کیا وہ نافرمانوں جیسا ہوجائے گا؟) تم فرماؤ: کیا علم والے اور بے علم برابر ہیں ؟ عقل والے ہی نصیحت مانتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ اٰنَآءَ الَّیْلِ سَاجِدًا وَّ قَآىٕمًا: کیا وہ شخص جو سجدے اور قیام کی حالت میں رات کے اوقات فرمانبرداری میں گزارتا ہے۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کیا وہ شخص جو سجدے اور قیام کی حالت میں رات کے تمام اوقات فرمانبرداری میں گزارتا ہے ،آخرت کے عذاب سے ڈرتا ہے اور اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی رحمت یعنی مغفرت اور جنت کی امید لگا رکھتا ہے ،وہ نافرمانی اور غفلت میں رہنے والے کی طرح ہوسکتا ہے؟ ہرگز نہیں ۔اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ فرمائیں کہ کیا علم والے اور بے علم برابر ہیں ؟ جب یہ برابر نہیں تو اطاعت گزار و فرمانبردار اور غافل و نافرمان کس طرح برابر ہو سکتے ہیں ،لیکن اللہ تعالیٰ کی نصیحتوں سے عقل والے ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں ۔ اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر اور حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی شان میں نازل ہوئی اور حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ یہ آیت حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے حق میں نازل ہوئی اور ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت عمار اور حضرت سلمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے حق میں نازل ہوئی ۔
رات کے نوافل دن کے نوافل سے افضل ہیں :
اس آیت سے ثابت ہوا کہ رات کے نوافل اور عبادت دن کے نوافل سے افضل ہیں ، اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ رات کا عمل پوشیدہ ہوتا ہے اس لئے وہ ریا سے بہت دور ہوتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ رات کے وقت دنیا کے کاروبار بند ہوتے ہیں اس لئے دن کے مقابلے میں دل بہت فارغ ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ اور خشوع دن سے زیادہ رات میں مُیَسَّر آتا ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ رات کا وقت چونکہ راحت و آرام اور سونے کا ہوتا ہے اس لئے اس میں بیدار رہنا نفس کو بہت مشقت اور تکلیف میں ڈالتا ہے لہٰذا اس کا ثواب بھی زیادہ ہوگا۔
مومن پر امید اور خوف کے درمیان رہنا لازم ہے
اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مومن کے لئے لازم ہے کہ وہ امید اور خوف کے درمیان ہو، اپنے عمل کی تقصیر پر نظر کرکے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتا رہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کا امیدوار رہے ۔دنیا میں بالکل بے خوف ہونا یا اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مُطْلَقا ً مایوس ہونا یہ دونوں حالتیں قرآنِ کریم میں کفار کی بتائی گئی ہیں ،چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ اَفَاَمِنُوْا مَكْرَ اللّٰهِۚ-فَلَا یَاْمَنُ مَكْرَ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ‘‘(اعراف:۹۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: کیا وہ اللہ کی خفیہ تدبیر سے بے خوف ہیں تو اللہ کی خفیہ تدبیر سے صرف تباہ ہونے والے لوگ ہی بے خوف ہوتے ہیں ۔
اور ارشاد فرمایا:
’’اِنَّهٗ لَا یَایْــٴَـسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ‘‘(یوسف:۸۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اللہ کی رحمت سے کافر لوگ ہی ناامید ہوتے ہیں ۔( مدارک، الزمر، تحت الآیۃ: ۹، ص۱۰۳۲، خازن، الزمر، تحت الآیۃ: ۹، ۴ / ۵۰، ملتقطاً)
امید اور خوف کے درمیان رہنے کی فضیلت:
حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک نوجوان کے پاس تشریف لے گئے،وہ مرنے کے قریب تھا۔آپ نے ارشاد فرمایا’’تم اپنے آپ کو کیسا پاتے ہو؟اس نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، خدا کی قسم! اللہ تعالیٰ (کی رحمت) کی امید بھی ہے اور گناہوں کا خوف بھی۔ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جب مومن کے دل میں اس موقع پر یہ دونوں باتیں جمع ہوتی ہیں تو اللہ تعالیٰ وہ چیز عطا فرماتا ہے جس کی بندہ امید کرتا ہے اور اس چیزسے بے خوف کر دیتا ہے جس سے بندہ ڈرتا ہے۔( ترمذی، کتاب الجنائز، ۱۱-باب، ۲ / ۲۹۶، الحدیث: ۹۸۵)
{قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ: تم فرماؤ: کیا علم والے اور بے علم برابر ہیں ؟} اس آیت سے علم اورعلماءِ کرام کی فضیلت معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے علم والوں کو بے علموں سے ممتاز فرمایا ہے۔
علماء کے فضائل پر مشتمل4اَحادیث
بکثرت اَحادیث میں بھی علماء کے فضائل بیان کئے گئے ہیں ،ان میں سے 4اَحادیث یہاں درج ذیل ہیں ، چنانچہ
(1)… حضرت حذیفہ بن یمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے زیادہ ہے اور تمہارے دین کی بھلائی تقویٰ و پرہیز گاری (میں ) ہے۔(معجم الاوسط، باب العین، من اسمہ: علی، ۳ / ۹۲، الحدیث: ۳۹۶۰)
(2)…حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’عالم کی عابد پر فضیلت ایسی ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کی تمام ستاروں پر فضیلت ہے۔( ابو داؤد، کتاب العلم، باب الحث علی طلب العلم، ۳ / ۴۴۴، الحدیث: ۳۶۴۱)
(3)… حضرت ابو امامہ باہلی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا،ان میں سے ایک عالِم تھا اور دوسرا عبادت گزار،توحضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’عالم کی فضیلت عبادت گزار پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے ادنیٰ پر ہے، پھرسرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اللہ تعالیٰ،اس کے فرشتے،آسمانوں اور زمین کی مخلوق حتّٰی کہ چیونٹیاں اپنے سوراخوں میں اور مچھلیاں لوگوں کو (دین کا) علم سکھانے والے پر درود بھیجتے ہیں۔(ترمذی، کتاب العلم، باب ما جاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ، ۴ / ۳۱۳، الحدیث: ۲۶۹۴)
(4)… حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’(قیامت کے دن) عالم اور عبادت گزار کو لایا جائے گا اور عبادت گزار سے کہا جائے گا’’تم جنت میں داخل ہو جاؤ جبکہ عالم سے کہا جائے گا کہ تم ٹھہرو اور لوگوں کی شفاعت کرو کیونکہ تم نے ان کے اَخلاق کو سنوارا ہے۔(شعب الایمان، السابع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی فضل العلم وشرفہ، ۲ / ۲۶۸، الحدیث: ۱۷۱۷)
اللہ تعالیٰ ہمیں علمِ دین سیکھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
قُلْ یٰعِبَادِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوْا رَبَّكُمْؕ-لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا حَسَنَةٌؕ-وَ اَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةٌؕ-اِنَّمَا یُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ(10)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ :اے میرے مومن بندو! اپنے رب سے ڈرو۔ جنہوں نے بھلائی کی، ان کے لیے اِس دنیا میں بھلائی ہے اور اللہ کی زمین وسیع ہے۔ صبرکرنے والوں ہی کو ان کا ثواب بے حساب بھرپور دیا جائے گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ: تم فرماؤ۔} اس آیت میں سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حکم دیا گیا کہ آپ اہلِ ایمان کو نصیحت فرمائیں اور انہیں تقویٰ و پرہیزگاری اور عبادت وریاضت کی ترغیب دلائیں ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ ارشادفرماتا ہے: اے میرے ایمان والے بندو!تم اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری کرکے اور اس کی نافرمانی سے خود کو بچا کر اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے ڈرو۔( ابوسعود، الزمر، تحت الآیۃ: ۱۰، ۴ / ۴۶۰، مدارک، الزمر، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۱۰۳۳، ملتقطاً)
{لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا حَسَنَةٌ: جنہوں نے بھلائی کی ان کے لیے اِس دنیا میں بھلائی ہے۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ جنہوں نے عبادت کی اور اچھے اعمال بجا لائے ان کے لئے اس دنیا میں بھلائی یعنی صحت و عافیت ہے۔دوسری تفسیر یہ ہے کہ جنہوں نے اس دنیا میں عبادت کی اور اچھے اعمال بجا لائے ان کے لئے آخرت میں بھلائی یعنی جنت ہے۔( بیضاوی، الزمر، تحت الآیۃ: ۱۰، ۵ / ۶۰، خازن، الزمر، تحت الآیۃ: ۱۰، ۴ / ۵۱، ملتقطاً)
{وَ اَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةٌ: اور اللہ کی زمین وسیع ہے۔} اس آیت میں ہجرت کی ترغیب ہے کہ جس شہر میں گناہوں کی کثرت ہو اور وہاں رہنے سے آدمی کو اپنی دینداری پر قائم رہنادشوار ہوجائے تو اسے چاہیے کہ وہ اس جگہ کو چھوڑ دے اور وہاں سے ہجرت کرجائے ۔شانِ نزول : یہ آیت مہاجرینِ حبشہ کے حق میں نازل ہوئی اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت جعفر بن ابی طالب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اور ان کے ہمراہیوں کے حق میں نازل ہوئی جنہوں نے مصیبتوں اور بلاؤں پر صبر کیا اور ہجرت کی اور اپنے دین پر قائم رہے، اسے چھوڑنا گوارا نہ کیا۔ (خازن، الزمر، تحت الآیۃ: ۱۰، ۴ / ۵۱، ملخصاً)
{ اِنَّمَا یُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ: صبرکرنے والوں ہی کو ان کا ثواب بے حساب بھرپور دیا جائے گا۔} یعنی جنہوں نے اپنے دین پر صبر کیا اور اس کی حدود پر پابندی سے عمل پیرا رہے اور جب یہ کسی آفت یا مصیبت میں مبتلا ہوئے تو دین کے حقوق کی رعایت کرنے میں کوئی زیادتی نہ کی انہیں دیگر لوگوں کے مقابلے میں بے حساب اوربھر پور ثواب دیا جائے گا۔( ابوسعود، الزمر، تحت الآیۃ: ۱۰، ۴ / ۴۶۱)
صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر ملے گا
اس آیت سے معلوم ہوا کہ صبر کرنے والے بڑے خوش نصیب ہیں کیونکہ قیامت کے دن انہیں بے حساب اجر و ثواب دیاجائے گا۔یہاں ان کے اجرو ثواب سے متعلق حدیثِ پاک بھی ملاحظہ ہو،چنانچہ
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،رسول اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ مصیبت اور بلا میں مبتلا رہنے والے (قیامت کے دن) حاضر کئے جائیں گے ،نہ اُ ن کے لئے میزان قائم کی جائے گی اور نہ اُن کے لئے (اعمال ناموں کے) دفتر کھولے جائیں گے ،ان پر اجرو ثواب کی (بے حساب) بارش ہوگی یہاں تک کہ دنیا میں عافیت کی زندگی بسر کرنے والے ان کا بہترین ثواب دیکھ کر آرزو کریں گے کہ’’کاش (وہ اہلِ مصیبت میں سے ہوتے اور )ان کے جسم قینچیوں سے کاٹے گئے ہوتے( تاکہ آج یہ صبر کا اجرپاتے)۔( معجم الکبیر، ابو الشعثاء جابر بن زید عن ابن عباس، ۱۲ / ۱۴۱، الحدیث: ۱۲۸۲۹)
اور حضرت علی مرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں کہ صبر کرنے والوں کے علاوہ ہر نیکی کرنے والے کی نیکیوں کا وزن کیا جائے گا کیونکہ صبر کرنے والوں کوبے اندازہ اور بے حساب دیا جائے گا۔( خازن، الزمر، تحت الآیۃ: ۱۰، ۴ / ۵۱)
اللہ تعالیٰ ہمیں عافیت نصیب فرمائے اور مَصائب و آلام آنے کی صورت میں صبر کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
قُلْ اِنِّیْۤ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّیْنَ(11)وَ اُمِرْتُ لِاَنْ اَكُوْنَ اَوَّلَ الْمُسْلِمِیْنَ(12)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ : مجھے حکم ہے کہ میں اللہ کی عبادت کروں اسی کیلئے دین کو خالص کرتے ہوئے۔ اور مجھے حکم ہے کہ میں سب سے پہلا مسلمان بنوں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ اِنِّیْۤ اُمِرْتُ: تم فرماؤ : مجھے حکم ہے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی قوم کے مشرکین سے فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اخلاص کے ساتھ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کروں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤں اور مجھے میرے رب عَزَّوَجَلَّ نے یہ حکم دیا ہے کہ میں سب سے پہلے (اللہ تعالیٰ کے حضور) گردن رکھوں اور عبادت گزاروں اور مخلص لوگوں میں سب سے مُقدّم اور سبقت لے جانے والا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے اخلاص کا حکم دیا جو دل کاعمل ہے پھر اطاعت یعنی اعمالِ جوارح کا حکم دیا اور چونکہ شرعی اَحکام رسول سے حاصل ہوتے ہیں ،وہی ان اَحکام کو پہنچانے والے ہیں تو وہ ان کے شروع کرنے میں سب سے مقدم اور اوّل ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ حکم دے کرلوگوں کو تنبیہ کی ہے کہ دوسروں پر اس کی پابندی انتہائی ضروری ہے اور دوسروں کی ترغیب کے لئے نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ حکم دیا گیا ہے۔(تفسیر طبری ، الزمر ، تحت الآیۃ : ۱۱-۱۲ ، ۱۰ / ۶۲۳ ، خازن ، الزمر ، تحت الآیۃ : ۱۱-۱۲، ۴ / ۵۱، مدارک، الزمر، تحت الآیۃ: ۱۱-۱۲، ص۱۰۳۳، ملتقطاً)
قُلْ اِنِّیْۤ اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ(13)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ :بالفرض اگر مجھ سے نافرمانی ہوجائے تو مجھے اپنے رب سے ایک بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ: تم فرماؤ۔} اس آیت کاشانِ نزول یہ ہے کہ کفارِ قریش نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا تھا کہ آپ اپنی قوم کے سرداروں اور اپنے رشتہ داروں کو نہیں دیکھتے جو لات و عُزّیٰ کی پوجاکرتے ہیں ۔ اُن کے رد میں یہ آیت نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا کہ آپ ان مشرکین سے فرمادیں’’اگر بالفرض مجھ سے اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی ہوجائے تو مجھے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے ایک بڑے دن یعنی قیامت کے عذاب کا ڈر ہے۔(مدارک، الزمر، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۱۰۳۳، تفسیر طبری، الزمر، تحت الآیۃ: ۱۳، ۱۰ / ۶۲۳، ملتقطاً) مراد یہ ہے کہ میں خدا کے عذاب سے بچنے کی کوشش کروں یا آباؤ اَجداد کی مخالفت سے بچوں ۔ وہ آباؤ اَجداد جو اللہ کے عذاب سے بچا نہیں سکتے۔
قُلِ اللّٰهَ اَعْبُدُ مُخْلِصًا لَّهٗ دِیْنِیْ(14)فَاعْبُدُوْا مَا شِئْتُمْ مِّنْ دُوْنِهٖؕ-قُلْ اِنَّ الْخٰسِرِیْنَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ وَ اَهْلِیْهِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-اَلَا ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ(15)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ :میں اللہ ہی کی عبادت کرتاہوں خالص اس کا بندہ ہوکر۔ تو تم اس کے سوا جس کی عبادت کرنا چاہتے ہو، کرلو۔ (اے نبی) تم فرماؤ:بلاشبہ نقصان اٹھانے والے وہی ہیں جنہوں نے اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو قیامت کے دن خسارے میں ڈالا۔سن لو! یہی کھلا نقصان ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ: تم فرماؤ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی قوم کے مشرکین سے فرما دیں کہ میں کسی اور کی عبادت نہیں کرتا بلکہ خالص اللہ تعالیٰ کا بندہ ہو کر صرف اسی کی عبادت کرتا ہوں اوراے کفار! تم اللہ تعالیٰ کے سوا جس کی چاہو عبادت کرو ۔جب مشرکین نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا کہ آپ نے اپنے آباؤ اَجداد کے دین کی مخالفت کر کے نقصان اٹھایا تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرما دیں : بیشک حقیقت میں نقصان اٹھانے والے وہی ہیں جنہوں نے اپنی جانوں اور اپنے گھروالوں کو قیامت کے دن خسارے میں ڈالا کہ خود گمراہی اختیار کرکے اور گھر والوں کو گمراہی میں مبتلا کر کے ہمیشہ کے لئے جہنم کے مستحق ہوگئے اور جنت کی ان عالیشان نعمتوں سے محروم ہوگئے جو ایمان لانے پر انہیں ملتیں ۔سن لو! یہی کھلا نقصان ہے۔ یاد رہے کہ یہ جو فرمایا گیا: ’’تم اللہ تعالیٰ کے سوا جس کی چاہو عبادت کرو‘‘ اس میں شرک کی اجازت نہیں بلکہ انتہائی غضب کا اظہار ہے۔(خازن، الزمر، تحت الآیۃ: ۱۴-۱۵، ۴ / ۵۱، مدارک، الزمر، تحت الآیۃ: ۱۴-۱۵، ص۱۰۳۳، روح البیان، الزمر، تحت الآیۃ: ۱۴-۱۵، ۸ / ۸۷، ملتقطاً)
لَهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِّنَ النَّارِ وَ مِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَلٌؕ-ذٰلِكَ یُخَوِّفُ اللّٰهُ بِهٖ عِبَادَهٗؕ-یٰعِبَادِ فَاتَّقُوْنِ(16)
ترجمہ: کنزالعرفان
ان کیلئے ان کے اوپر سے آگ کے پہاڑ ہوں گے اور ان کے نیچے پہاڑ ہوں گے۔ اللہ اپنے بندوں کو اسی سے ڈراتا ہے،اے میرے بندو!توتم مجھ سے ڈرو۔
تفسیر: صراط الجنان
{لَهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِّنَ النَّارِ: ان کیلئے ان کے اوپر سے آگ کے پہاڑ ہوں گے۔} اوپر نیچے آگ کے پہاڑ ہونے کا معنی یہ ہے کہ ہر طرف سے آگ انہیں گھیرے ہوئے ہو گی۔(مدارک، الزمر، تحت الآیۃ: ۱۶، ص۱۰۳۴)
کافروں کو ہر طرف سے آگ گھیرے ہوئے ہو گی
ایک اور مقا م پر کفار کے اس عذاب کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’ یَوْمَ یَغْشٰىهُمُ الْعَذَابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ وَ یَقُوْلُ ذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ‘‘(عنکبوت:۵۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: جس دن عذاب انہیں ان کے اوپر سے اور ان کے پاؤں کے نیچے سے ڈھانپ لے گا اور (اللہ) فرمائے گا: اپنے اعمال کا مزہ چکھو۔
اورحضرت سوید بن غفلہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’جب اللہ تعالیٰ اس بات کا ارادہ فرمائے گا کہ جہنمی اپنے ماسوا سب کوبھول جائیں تو ان میں سے ہر شخص کے لئے اس کے قد برابر آگ کا ایک صندوق بنایا جائے گا پھر اس پر آگ کے تالوں میں سے ایک تالا لگا دیا جائے گا، پھر اس شخص کی ہر رگ میں آگ کی کیلیں لگا دی جائیں گی، پھر اس صندوق کو آگ کے دوسرے صندوق میں رکھ کر آگ کا تالا لگا دیا جائے گا ،پھر ان دونوں کے درمیان آگ جلائی جائے گی تو اب ہر کافر یہ سمجھے گا کہ اس کے سوا اب کوئی آگ میں نہ رہا۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’لَهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِّنَ النَّارِ وَ مِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ‘‘ اور ارشاد فرمایا: ’’لَهُمْ مِّنْ جَهَنَّمَ مِهَادٌ وَّ مِنْ فَوْقِهِمْ غَوَاشٍ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: ان کے لئے آگ بچھونا ہے اوران کے اوپر سے (اسی کا) اوڑھنا ہوگا۔( مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الزہد، الشعبی، ۸ / ۲۸۱، الحدیث: ۱۰)
اللہ تعالیٰ ہمارا ایمان سلامت رکھے اور جہنم کے عذابات سے ہماری حفاظت فرمائے،اٰمین۔
{ذٰلِكَ یُخَوِّفُ اللّٰهُ بِهٖ عِبَادَهٗ: اللہ اپنے بندوں کو اسی سے ڈراتا ہے۔} یعنی اے لوگو! میں نے قیامت کے دن نقصان اٹھانے والوں کے جس عذاب کی تمہیں خبر دی ہے اللہ تعالیٰ تمہیں اس عذاب سے ڈراتا ہے تاکہ تم اس کے خوف سے گناہوں سے بچو اور کفر چھوڑ کر اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آؤ،اس کے رسول کی تصدیق کر کے اوراحکامات و ممنوعات میں اس کی پیروی کر کے آخرت کے عذاب سے نجات پا جاؤ۔اے میرے بندو!میں نے جو چیزیں تم پر فرض کیں ان کی ادائیگی اور گناہوں سے بچنے کے معاملے میں مجھ سے ڈرو اور وہ کام نہ کرو جو میری ناراضی کا سبب ہو۔( تفسیر طبری، الزمر، تحت الآیۃ: ۱۶، ۱۰ / ۶۲۴، مدارک، الزمر، تحت الآیۃ: ۱۶، ص۱۰۳۴)
وَ الَّذِیْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ اَنْ یَّعْبُدُوْهَا وَ اَنَابُوْۤا اِلَى اللّٰهِ لَهُمُ الْبُشْرٰىۚ-فَبَشِّرْ عِبَادِ(17)الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَهٗؕ-اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ هَدٰىهُمُ اللّٰهُ وَ اُولٰٓىٕكَ هُمْ اُولُوا الْاَلْبَابِ(18)
ترجمہ: کنزالعرفان
اورجنہوں نے بتوں کی پوجا سے اجتناب کیا اور اللہ کی طرف رجوع کیا انہیں کے لیے خوشخبری ہے تو میرے بندوں کو خوشخبری سنادو۔جو کان لگا کر بات سنتے ہیں پھر اس کی بہتربات کی پیروی کرتے ہیں ۔ یہ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی اور یہی عقلمند ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الَّذِیْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ اَنْ یَّعْبُدُوْهَا: اورجنہوں نے بتوں کی پوجا سے اجتناب کیا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے بتوں کی پوجا کرنے سے اجتناب کیا اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کی اوراس کی توحید کے اقر ار،صرف اسی کی عبادت اور ا س کے علاوہ تمام معبودوں سے براء ت کا اظہار کیا ،انہیں کے لئے دنیا میں اور آخرت میں خوشخبری ہے،دنیا میں نیک اعمال کی وجہ سے اچھی تعریف ،موت کے وقت اور قبر میں رکھے جانے کے وقت راحت اور یونہی آخرت میں قبر وں سے نکالنے کے وقت،حساب کے لئے کھڑے ہوتے وقت، پل صرا ط پار کرتے وقت،جنت میں داخل ہوتے وقت اور جنت میں الغرض ان تمام مقامات پر بھلائی ، راحت اور رحمت انہیں حاصل ہو گی ،تو اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میرے ان بندوں کو خوشخبری سنادو جو کان لگا کر غور سے بات سنتے ہیں ،پھر اس پر عمل کرتے ہیں جس میں ان کی بہتری ہو۔یہ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت اور وحدانیّت کے اقرار کی ہدایت دی اور یہی عقلمند ہیں ۔ شانِ نزول ۔حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ جب حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ایمان لائے تو آپ کے پاس حضرت عثمان، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف،حضرت طلحہ ،حضرت زبیر ،حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت سعید بن زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ آئے اور ان سے حال دریافت کیا ،انہوں نے اپنے ایمان کی خبر دی تو یہ حضرات بھی سن کر ایمان لے آئے۔ ان کے حق میں یہ آیت ’’ فَبَشِّرْ عِبَادِ…الاٰیہ‘‘ نازل ہوئی۔ (تفسیر طبری، الزمر، تحت الآیۃ: ۱۷-۱۸، ۱۰ / ۶۲۴-۶۲۵ ، جلالین، الزمر، تحت الآیۃ: ۱۷-۱۸،ص۳۸۶، خازن، الزمر، تحت الآیۃ: ۱۷-۱۸، ۴ / ۵۲)
زیادہ بہتر اَحکام پر عمل کرنے والے بشارت کے مستحق ہیں :
قرآن و حدیث میں مسلمانوں کو جو احکام دئیے گئے ہیں ان میں ثواب کے اعتبار سے فرق ہے ، یوں بعض اعمال بعض سے بہتر ہیں ،جیسے تنگدست مقروض کو آسانی آنے تک مہلت دینا اور قرض معاف کر دینا دونوں بہتر ہیں لیکن قرض معاف کردینا مہلت دینے سے زیادہ بہتر ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
’’ وَ اِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَیْسَرَةٍؕ-وَ اَنْ تَصَدَّقُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ‘‘(بقرہ:۲۸۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اگر مقروض تنگدست ہو تو اسے آسانی تک مہلت دو اور تمہارا قرض کوصدقہ کردینا تمہارےلئے سب سے بہتر ہے اگر تم جان لو۔
اسی طرح جیسی کسی نے تکلیف پہنچائی ویسی اسے سزا دینا اور صبر کرنا دونو ں جائز ہیں لیکن صبر کرنا سزا دینے سے زیادہ بہتر ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
’’وَ اِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖؕ-وَ لَىٕنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ‘‘(نحل:۱۲۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اگر تم (کسی کو)سزا دینے لگو تو ایسی ہی سزا دو جیسی تمہیں تکلیف پہنچائی گئی ہو اور اگر تم صبر کرو تو بیشک صبر والوں کیلئے صبر سب سے بہتر ہے۔
یونہی سب سے بہتر نیک عمل وہ ہے جو اِستقامت کے ساتھ ہو اگرچہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ تم اتنے عمل کی عادت بناؤ جتنے کی تم طاقت رکھتے ہو،پس بہترین عمل وہ ہے جو ہمیشہ ہو اگرچہ کم ہی ہو۔(ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب المداومۃ علی العمل، ۴ / ۴۸۷، الحدیث: ۴۲۴۰)
جولوگ جائز احکام پر عمل کرتے ہیں وہ ملامت کے مستحق نہیں اورجو ثواب کے کام کرتے ہیں وہ قابلِ تعریف ہیں لیکن جو زیادہ بہتر اعمال بجالاتے ہیں وہ زیادہ ثواب کے مستحق اور زیادہ قابلِ تعریف ہیں ۔
اَفَمَنْ حَقَّ عَلَیْهِ كَلِمَةُ الْعَذَابِؕ-اَفَاَنْتَ تُنْقِذُ مَنْ فِی النَّارِ(19)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو کیا وہ جس پر عذاب کی بات ثابت ہوچکی ہے (وہ نجات والوں کے برابر ہوجائے گا؟ ہرگز نہیں ۔) تو کیا تم اسے جو آگ کا مستحق ہے بچالو گے؟
تفسیر: صراط الجنان
{اَفَمَنْ حَقَّ عَلَیْهِ كَلِمَةُ الْعَذَابِ: تو کیا وہ جس پر عذاب کی بات ثابت ہوچکی ہے۔} بت پرستی سے بچنے والوں کا حال بیان کرنے کے بعد یہاں سے بت پرستوں کا حال بیان کیا جارہا ہے۔اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے کہ وہ جہنمی ہے کیا وہ اس کی طرح ہو سکتا ہے جس پر عذاب واجب نہیں ہوا۔ (وہ ہر گز اس کی طرح نہیں ہو سکتا۔)( روح البیان، الزمر، تحت الآیۃ: ۱۹، ۴ / ۹۱-۹۲، تفسیر سمرقندی، الزمر، تحت الآیۃ: ۱۹، ۳ / ۱۴۷، ملتقطاً)
{اَفَاَنْتَ تُنْقِذُ مَنْ فِی النَّارِ: تو کیا تم اسے جو آگ میں ہے بچالو گے؟} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ (جو اَزلی بدبخت ہے اور) جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے کہ وہ اپنے خبیث اعمال کی وجہ سے جہنم میں جانے کا حقدار ہے تو کیا آپ اسے ہدایت دے کر جہنم سے بچالیں گے ،ہر گز نہیں ۔(تفسیر سمرقندی، الزمر،تحت الآیۃ:۱۹، ۳ / ۱۴۷، جلالین، الزمر،تحت الآیۃ:۱۹،ص۳۸۶، خازن، الزمر، تحت الآیۃ: ۱۹، ۴ / ۵۲، ملتقطاً)
لٰكِنِ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ لَهُمْ غُرَفٌ مِّنْ فَوْقِهَا غُرَفٌ مَّبْنِیَّةٌۙ-تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ۬ؕ-وَعْدَ اللّٰهِؕ-لَا یُخْلِفُ اللّٰهُ الْمِیْعَادَ(20)
ترجمہ: کنزالعرفان
لیکن اپنے رب سے ڈرنے والوں کیلئے بلند محلات ہیں جن کے اوپر (مزید) بلند محلات بنے ہوئے ہیں ۔ان کے نیچے نہریں بہتی ہیں ،یہ اللہ کا وعدہ ہے۔ اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔
تفسیر: صراط الجنان
{لٰكِنِ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ: لیکن جو اپنے رب سے ڈرے۔} اس آیت میں متقی اور پرہیزگار اہلِ ایمان کا حال بیان کرتے ہوئے فرمایا: لیکن اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے ڈرنے والوں اور ا س کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے والوں کیلئے جنت کے بلند محلا ت ہیں جن کے اوپر مزیدبلند محلات بنے ہوئے ہیں جو ان سے زیادہ بلند ہیں ۔ ان کے نیچے نہریں بہتی ہیں ،یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا وعدہ ہے اور اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔( خازن، الزمر، تحت الآیۃ: ۲۰، ۴ / ۵۲)
حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک جنتی لوگ اپنے مقامات میں فرق کے باعث اپنے سے اوپر بالاخانے والوں کو ایسے دیکھیں گے جس طرح اُفق میں مشرق یا مغرب کی جانب کسی روشن ستارے کو دیکھتے ہوں ۔صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ تو انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی منزلیں ہیں دوسرے وہاں کیسے پہنچ سکتے ہیں !ارشاد فرمایا: ’’کیوں نہیں ،وہ لوگ پہنچ سکیں گے جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تصدیق کی۔(بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ما جاء فی صفۃ الجنّۃ وانّہا مخلوقۃ، ۲ / ۳۹۳، الحدیث: ۳۲۵۶)
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَسَلَكَهٗ یَنَابِیْعَ فِی الْاَرْضِ ثُمَّ یُخْرِ جُ بِهٖ زَرْعًا مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُهٗ ثُمَّ یَهِیْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَجْعَلُهٗ حُطَامًاؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِاُولِی الْاَلْبَابِ(21)
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا تو نے نہ دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے پانی اتارا پھر ا سے زمین میں موجود چشموں میں داخل کیا پھر اس سے مختلف رنگوں کی کھیتی نکالتا ہے پھر وہ کھیتی خشک ہوجاتی ہے تو تُو دیکھتا ہے کہ وہ پیلی پڑ جاتی ہے پھر اللہ اسے ٹکڑے ٹکڑے کردیتا ہے، بیشک اس میں عقل مندوں کیلئے نصیحت ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَمْ تَرَ: کیا تو نے نہ دیکھا۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے آخرت کے اوصاف بیان فرمائے تاکہ عقلمند اس کی طرف راغب ہوں جبکہ اس آیت میں دنیا کے اوصاف بیان فرمائے تاکہ ان میں دنیا کی محبت سے دوری پیدا ہو۔ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے بارش نازل فرمائی ،پھر اس پانی کو مختلف جگہوں کی طرف بھیجا، پھر اسے زمین میں موجود چشموں میں داخل کر دیا،پھر اللہ تعالیٰ اس پانی سے مختلف رنگوں جیسے زرد،سبز،سرخ ،سفید اور مختلف قسموں جیسے گیہوں ، جَو اور طرح طرح کے غلے کی کھیتی نکالتا ہے،پھر وہ کھیتی خشک ہوجاتی ہے اورتُو دیکھتا ہے کہ وہ سرسبز و شاداب ہونے کے بعد پیلی پڑ جاتی ہے پھر اللہ تعالیٰ اسے ٹکڑے ٹکڑے کردیتا ہے۔بے شک جس نے نباتات میں ان احوال کا مشاہدہ کیا ہے تو وہ جان جائے گا کہ حیوان اور انسان کا حال بھی اسی طرح ہے کہ اگرچہ اس کی عمر لمبی ہو لیکن ایک دن ایسا آئے گا کہ اس کا رنگ پیلا پڑ جائے گا اور اس کے اَعضا ء و اَجزاء ٹوٹنے لگیں گے اور بالآخر اس کا انجام موت ہے لہٰذا جب وہ نباتا ت میں ان اَحوال کا مشاہدہ کر کے اپنی ذات اورزندگی میں غور کرے گا تو ا س سے اس کے دل میں دنیا اور اس کی رنگینیوں سے نفرت پیدا ہوگی۔(تفسیرکبیر، الزمر، تحت الآیۃ: ۲۱، ۹ / ۴۳۹-۴۴۰)
اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰهُ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ فَهُوَ عَلٰى نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّهٖؕ-فَوَیْلٌ لِّلْقٰسِیَةِ قُلُوْبُهُمْ مِّنْ ذِكْرِ اللّٰهِؕ-اُولٰٓىٕكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(22)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو کیا وہ جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا تو وہ اپنے رب کی طرف سے نور پر ہے (اس جیسا ہوجائے گا جو سنگدل ہے) تو خرابی ہے ان کیلئے جن کے دل اللہ کے ذکر کی طرف سے سخت ہوگئے ہیں ۔وہ کھلی گمراہی میں ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰهُ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ: تو کیا وہ جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لیے کھول دیا اور اسے حق قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی تو وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے یقین و ہدایت پر ہے اس جیسا ہوجائے گا جس کے دل پر اللہ تعالیٰ نے مہر لگا دی تو وہ ہدایت قبول نہیں کرتا ۔( خازن، الزمر، تحت الآیۃ: ۲۲، ۴ / ۵۳)
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ یَّهْدِیَهٗ یَشْرَحْ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِۚ-وَ مَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّهٗ یَجْعَلْ صَدْرَهٗ ضَیِّقًا حَرَجًا كَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآءِؕ-كَذٰلِكَ یَجْعَلُ اللّٰهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ‘‘(انعام:۱۲۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جسے اللہ ہدایت دینا چاہتا ہے تو اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہ کرنا چاہتا ہے اس کا سینہ تنگ، بہت ہی تنگ کردیتا ہے گویا کہ وہ زبردستی آسمان پر چڑھ رہا ہے۔اسی طرح اللہ ایمان نہ لانے والوں پر عذاب مسلط کردیتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جب یہ آیت ’’اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰهُ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ‘‘ تلاوت فرمائی تو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، سینے کا کھلنا کس طرح ہوتا ہے؟ارشاد فرمایا کہ جب نور دل میں داخل ہوتا ہے تو وہ کھلتا ہے اور اس میں وسعت ہوتی ہے ۔صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی:اس کی کیا علامت ہے؟ ارشاد فرمایا: ’’ہمیشگی کے گھر (یعنی جنت) کی طرف متوجہ ہونا اور دھوکے کے گھر (یعنی دنیا سے) دور رہنا اور موت کے لئے اس کے آنے سے پہلے آمادہ ہونا۔( الزہد الکبیر للبیہقی، الجزء الخامس، ص۳۵۶، الحدیث: ۹۷۴)
{فَوَیْلٌ لِّلْقٰسِیَةِ قُلُوْبُهُمْ مِّنْ ذِكْرِ اللّٰهِ: تو خرابی ہے ان کیلئے جن کے دل اللہ کے ذکر کی طرف سے سخت ہوگئے ہیں۔} یعنی ان کے لئے خرابی ہے جن کے پاس اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے یا اس کی آیات کی تلاوت کی جائے تو وہ پہلے سے زیادہ سکڑ جائیں اور ان کے دلوں کی سختی زیادہ ہو جائے ،یہی لوگ جن کے دل سخت ہو گئے حق سے بہت دور اور کھلی گمراہی میں ہیں۔( ابوسعود، الزمر، تحت الآیۃ: ۲۲، ۴ / ۴۶۵، ملخصاً)
اللہ تعالیٰ کے ذکر سے مومنوں کے دل نرم ہوتے اور کافروں کے دِلوں کی سختی بڑھتی ہے:
علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنی مشہور تصنیف تفسیر خازن میں فر ماتے ہیں ’’ نفس جب خبیث ہوتا ہے تو اسے حق قبول کرنے سے بہت دوری ہوجاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا ذکر سننے سے اس کی سختی اور دل کا غباربڑھتا ہے اور جیسے سورج کی گرمی سے موم نرم ہوتا ہے اور نمک سخت ہوتا ہے ایسے ہی اللہ تعالیٰ کے ذکر سے مومنین کے دل نرم ہوتے ہیں اور کافروں کے دِلوں کی سختی اور بڑھتی ہے۔( خازن، الزمر، تحت الآیۃ: ۲۲، ۴ / ۵۳)
اس آیت سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہئے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے ذکر سے روکنا اپنا شعار بنالیا ہے، وہ صوفیوں کے ذکر کو بھی منع کرتے ہیں ،نمازوں کے بعد اللہ کا ذکر کرنے والوں کو بھی روکتے اور منع کرتے ہیں ، ایصالِ ثواب کے لئے قرآنِ کریم اور کلمہ پڑھنے والوں کو بھی بدعتی بتاتے ہیں اور ان ذکر کی محفلوں سے بہت گھبراتے اور دور بھاگتے ہیں ،اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت کی توفیق عطا فرمائے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کے ذکر کے سوا زیادہ گفتگو نہ کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے علاوہ زیادہ گفتگو دل کی سختی ہے،اور لوگوں میں اللہ تعالیٰ سے زیادہ دور وہ ہو تا ہے جس کا دل سخت ہو۔(ترمذی، کتاب الزہد، ۶۲-باب، ۴ / ۱۸۴، الحدیث: ۲۴۱۹)
اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِیَ ﳓ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْۚ-ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُهُمْ وَ قُلُوْبُهُمْ اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِؕ-ذٰلِكَ هُدَى اللّٰهِ یَهْدِیْ بِهٖ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ(23)
ترجمہ: کنزالعرفان
اللہ نے سب سے اچھی کتاب اتاری کہ ساری ایک جیسی ہے، باربار دہرائی جاتی ہے۔ اس سے ان لوگوں کے بدن پر بال کھڑے ہوتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں پھر ان کی کھالیں اور دل اللہ کی یاد کی طرف نرم پڑجاتے ہیں ۔ یہ اللہ کی ہدایت ہے وہ جسے چاہتاہے اس کے ذریعے ہدایت دیتا ہے اور جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ: اللہ نے سب سے اچھی کتاب اتاری۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک کے چار اوصاف بیان فرمائے ہیں ۔
پہلا وصف:قرآن پاک سب سے اچھی کتاب ہے۔قرآن شریف عبارت اور معنی دونوں اعتبار سے سب سے اچھی کتاب ہے، عبارت میں اس طرح کہ یہ ایسا فصیح و بلیغ کلام ہے کہ کوئی کلام اس سے کچھ نسبت ہی نہیں رکھ سکتا،اس کا مضمون انتہائی دل پذیر ہے حالانکہ یہ نہ عام کلاموں جیسی نظم ہے نہ شعر بلکہ بڑے نرالے ہی اُسلوب پر ہے اور معنی میں یہ ایسا بلند مرتبہ ہے کہ تمام علوم کا جامع اور معرفتِ الٰہی جیسی عظیم الشّان نعمت کا رہنما ہے اوراس میں باہمی کوئی ٹکراؤ اور اختلاف نہیں ۔
دوسرا وصف: یہ کتاب شروع سے آخر تک حسن و خوبی میں ایک جیسی ہے۔
تیسرا وصف:یہ کتاب مَثانی ہے،اس کا ایک معنی یہ ہے کہ یہ دوہرے بیان والی ہے کہ اس میں وعدے کے ساتھ وعید ،امر کے ساتھ نہی اور اَخبار کے ساتھ اَحکام ہیں ۔دوسرا معنی یہ ہے کہ یہ کتاب بار بار پڑھی جانے والی ہے۔
چوتھا وصف: اس کی تلاوت کرنے سے ان لوگوں کے بدن پر بال کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے ڈرتے ہیں ،پھر ان کی کھالیں اور دل اللہ تعالیٰ کی یاد کی طرف رغبت میں نرم پڑجاتے ہیں ۔ حضرت قتادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ یہ اَولِیَائُ اللہ کی صفت ہے کہ ذکر ِالٰہی سے اُن کے بال کھڑے ہوتے ،جسم لرزتے ہیں اور دل چین پاتے ہیں۔( خازن، الزمر، تحت الآیۃ: ۲۳، ۴ / ۵۳-۵۴، ملخصاً)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں بھی اپنا حقیقی خوف نصیب کرے ۔ حضرت عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جب اللہ تعالیٰ کے خوف سے بندے کے بال کھڑے ہو جائیں تو ا س کے گناہ اس طرح جھڑتے ہیں جس طرح خشک درخت سے اس کے پتے جھڑتے ہیں ۔( شعب الایمان، الحادی عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۱ / ۴۹۱، الحدیث: ۸۰۳)
{ذٰلِكَ هُدَى اللّٰهِ: یہ اللہ کی ہدایت ہے۔} یعنی یہ قرآن جو سب سے اچھی کتاب ہے،یہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے، وہ جسے چاہتاہے اس کے ذریعے ہدایت دیتا ہے اور ہدایت پانے والا وہ ہے جس کے سینے کو اللہ تعالیٰ ہدایت قبول کرنے کے لئے کھول دے اور جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کرے (اس طرح کہ اس کی بد عملیوں کی وجہ سے اس میں گمراہی پیدا فرما دے تو) اسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں ۔( خازن، الزمر، تحت الآیۃ: ۲۳، ۴ / ۵۴)
اَفَمَنْ یَّتَّقِیْ بِوَجْهِهٖ سُوْٓءَ الْعَذَابِ یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-وَ قِیْلَ لِلظّٰلِمِیْنَ ذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْسِبُوْنَ(24)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو کیا وہ جو قیامت کے دن اپنے چہرے کے ذریعے برے عذاب کوروکنے کی کوشش کرے گا (وہ نجات پانے والوں کی طرح ہوسکتا ہے؟) اور ظالموں سے فرمایا جائے گا: اپنے کمائے ہوئے اعمال کا مزہ چکھو۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَفَمَنْ یَّتَّقِیْ بِوَجْهِهٖ سُوْٓءَ الْعَذَابِ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ: تو کیا وہ جو قیامت کے دن اپنے چہرے کے ذریعے برے عذاب کوروکنے کی کوشش کرے گا۔} اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر دو چیزیں لازم فرمادیں جن کے دل (اللہ تعالیٰ کے ذکر سے) سخت ہو گئے،(1) دنیا میں گمراہی۔اس کا ذکر اوپر والی آیت میں ہوا،(2)آخرت میں شدید عذاب۔اس کا ذکر اس آیت میں ہے اورایک قول یہ ہے کہ اس آیت میں جس کا ذکر ہے ا س سے مراد وہ کافر ہے جس کے ہاتھ گردن کے ساتھ ملا کر باندھ دیئے جائیں گے اور اس کی گردن میں گندھک کا ایک جلتا ہوا پہاڑ پڑا ہوگا جو اس کے چہرے کوبھون ڈالتا ہوگا ،اس طرح اسے اوندھا کرکے آتشِ جہنم میں گرایا جائے گا۔آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ تو کیا وہ جو قیامت کے دن اپنے چہرے کو ڈھال بنا کر اس کے ذریعے برے عذاب کوروکنے کی کوشش کرے گاوہ اس مومن کی طرح ہوسکتا ہے جو عذاب سے مامون اور محفوظ ہو؟ہرگز نہیں ۔ اور ظالموں سے جہنم کے خازن کہیں گے :دنیا میں جو کفر سرکشی اختیار کی تھی اب اس کا وبال و عذاب برداشت کرو۔(تفسیرکبیر، الزمر، تحت الآیۃ: ۲۴، ۹ / ۴۴۸، خازن، الزمر، تحت الآیۃ: ۲۴، ۴ / ۵۴، ملتقطاً)
كَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَاَتٰىهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَ(25)فَاَذَاقَهُمُ اللّٰهُ الْخِزْیَ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۚ-وَ لَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُۘ-لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ(26)
ترجمہ: کنزالعرفان
ان سے پہلے لوگوں نے جھٹلایا تو ان کے پاس وہاں سے عذاب آیا جہاں سے انہیں خبر نہ تھی۔ اور اللہ نے انہیں دنیا کی زندگی میں رسوائی کا مز ہ چکھایا اور بیشک آخرت کا عذاب سب سے بڑا ہے۔ کیا اچھا ہوتا اگر وہ جان لیتے۔
تفسیر: صراط الجنان
{كَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ: ان سے پہلے لوگوں نے جھٹلایا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جس طرح آپ کی قوم نے آپ کو جھٹلایا اسی طرح کفارِ مکہ سے پہلے کافروں نے بھی اپنے رسولوں کو جھٹلایا تو ان کے پاس وہاں سے عذاب آیا جہاں سے عذاب آنے کا انہیں خطرہ بھی نہ تھا اور وہ غفلت میں پڑے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا کی زندگی میں رسوائی کا مز ہ چکھایا کہ کسی قوم کی صورتیں مَسخ کیں ، کسی کو زمین میں دھنسایا ، کسی کو قتل اور جلا وطنی میں مبتلا کیا،کسی پر پانی کا طوفان بھیجا اور کسی پر پتھر برسائے اور بیشک آخرت کا جوعذاب ان کے لئے تیار کیا گیا ہے وہ دنیا کے سب عذابوں سے بڑاہے۔ اگر وہ اس بات کو جان لیتے اور تکذیب کرنے کی بجائے ایمان لے آتے تو ان کیلئے بہترہوتا۔(خازن، الزمر، تحت الآیۃ: ۲۵-۲۶، ۴ / ۵۴، مدارک، الزمر، تحت الآیۃ: ۲۵-۲۶، ص۱۰۳۶، روح البیان، الزمر، تحت الآیۃ: ۲۵-۲۶، ۸ / ۱۰۱، ملتقطاً)
آیت ’’ كَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں ۔
(1)… غفلت بھی کفار کے عیوب میں سے ایک عیب ہے، یعنی سرکشی کرنا اور انجام سے بے خبر رہنا۔
(2)… کبھی بد عملی کی سزا دنیا میں بھی مل جاتی ہے مگر یہ سزا آخرت کی سزا پر اثر انداز نہ ہوگی بلکہ وہ سزا پوری پوری علیحدہ ہے۔
وَ لَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِیْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ(27)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ہم نے لوگوں کے لیے اس قرآن میں ہر قسم کی مثال بیان فرمائی تاکہ وہ نصیحت حاصل کرلیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِیْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ: اور بیشک ہم نے لوگوں کے لیے اس قرآن میں ہر قسم کی مثال بیان فرمائی۔} ارشاد فرمایا کہ بیشک ہم نے لوگوں کے لیے اس قرآن میں وہ تمام مثالیں بیان فرمائی ہیں جن کی اپنے دین کے معاملے میں غور کرنے والے کو ضرورت ہے تاکہ وہ (انہیں پڑھ اور سن کر) نصیحت قبول کریں ۔( بیضاوی، الزمر، تحت الآیۃ: ۲۷، ۵ / ۶۵)
قرآنِ پاک میں سب کی ضرورتوں کا لحاظ رکھا گیاہے
یادرہے کہ قرآنِ کریم میں دلائل ، مثالیں ، بشارت، ڈرانا ، عشقِ الٰہی اور نعتِ مصطفٰی سب ہی مذکور ہیں کیونکہ قرآنِ پاک ساری دنیا کے لئے آیا ہے اورہر جگہ اور علاقے کے لوگوں کی طبیعتیں مختلف ہیں ،ان میں سے کوئی دلائل سے مانتا ہے، کوئی خوف سے، کوئی لالچ سے، کوئی عشق و محبت سے،اس لئے قرآنِ پاک میں سب کی ضرورتوں کا لحاظ رکھا گیاہے۔
قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا غَیْرَ ذِیْ عِوَجٍ لَّعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ(28)
ترجمہ: کنزالعرفان
عربی زبان کا قرآن جس میں کوئی ٹیڑھا پن نہیں تاکہ وہ ڈریں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا: عربی زبان کا قرآن۔} یعنی اس قرآن کی زبان عربی ہے اور یہ ایسا فصیح ہے کہ جس نے فصاحت و بلاغت کے ماہرترین افراد کو بھی اپنی مثل بنا لانے سے عاجز کردیا اور یہ آیات کے باہمی ٹکراؤ اور اختلاف سے پاک ہے اور اس لئے نازل ہوا تاکہ لوگ اللہ تعالیٰ سے ڈریں اور کفر وتکذیب سے باز آئیں ۔( خازن، الزمر، تحت الآیۃ: ۲۸، ۴ / ۵۴)
قرآنِ پاک کی یہی شان بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’قُلْ لَّىٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَ الْجِنُّ عَلٰۤى اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِهٖ وَ لَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِیْرًا‘‘(بنی اسرائیل:۸۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم فرماؤ: اگر آدمی اور جن سب اس بات پر متفق ہوجائیں کہ اس قرآن کی مانند لے آئیں تو اس کا مثل نہ لاسکیں گے اگرچہ ان میں ایک دوسرے کا مددگار ہو۔
اور فرماتا ہے:
’’ اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَؕ-وَ لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِیْهِ اخْتِلَافًا كَثِیْرًا‘‘(النساء:۸۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے اور اگریہ قرآن اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہوتا تو ضرور اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے۔
ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا رَّجُلًا فِیْهِ شُرَكَآءُ مُتَشٰكِسُوْنَ وَ رَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍؕ-هَلْ یَسْتَوِیٰنِ مَثَلًاؕ-اَلْحَمْدُ لِلّٰهِۚ-بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ(29)
ترجمہ: کنزالعرفان
اللہ نے ایک غلام آدمی کی مثال بیان فرمائی جس میں کئی بداخلاق آقا شریک ہوں اور ایک ایسا غلام مرد ہو جو خالص ایک ہی کا غلام ہو۔ کیا دونوں کا حال ایک جیسا ہے ؟ سب خوبیاں اللہ کیلئے ہیں بلکہ ان میں اکثر نہیں جانتے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا: اللہ ایک مثال بیان فرماتا ہے۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک مثال بیان فرما کر مومن اور کافر میں فرق بیان فرمایا ہے ۔اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی قوم کے سامنے ایک مثال بیان فرمائیں اور ان سے دریافت فرمائیں کہ تم اس مرد کے بارے میں کیا کہتے ہوجو کئی بد اَخلاق آقاؤں کا غلام ہو اور وہ آقا آپس میں اختلاف کریں اور ہر ایک دعویٰ کرے کہ یہ مرد میرا غلام ہے،ان میں سے ہر ایک آقا اسے اپنی طرف کھینچتا ہے اور اپنے اپنے کام بتاتا ہے ،وہ غلام حیران اور انتہائی پریشان ہے کہ کس کا حکم بجالائے اور کس طرح اپنے تمام آقاؤں کو راضی کرے اور خود اس غلام کو جب کوئی حاجت و ضرورت درپیش ہو تو کس آقا سے کہے ، اور ا س مرد کے بارے میں کیا کہتے ہوجو ایک ہی آقا کا غلام ہو، وہ اخلاص کے ساتھ اس کی خدمت کرکے اسے راضی کرسکتا ہے اور جب کوئی حاجت پیش آئے تو اسی سے عرض کرسکتا ہے، اس کو کوئی پریشانی پیش نہیں آتی۔ مجھے بتاؤ کہ ان دونوں غلاموں میں سے کس کا حال اچھا ہے (یقینا اسی غلام کا حال اچھا ہے جو صرف ایک آقا کا غلام ہے) تو یہی حال مومن اور کافر کا ہے کہ مومن ایک مالک کا بندہ ہے، اسی کی عبادت کرتا ہے ا س لئے ا س کا حال اچھا ہے جبکہ مشرک جماعت کے غلام کی طرح ہے کہ اس نے بہت سے معبود قرار دے دیئے ہیں ا س لئے ا س کا حال برا ہے۔سب خوبیاں اللہ تعالیٰ کیلئے ہیں جو اکیلا ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، بلکہ ان کفار میں اکثر یہ بات نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں۔(خازن، الزمر، تحت الآیۃ: ۲۹، ۴ / ۵۵، ملخصاً)
اِنَّكَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّهُمْ مَّیِّتُوْنَ(30)
ترجمہ: کنزالعرفان
۔ (اے حبیب!) بیشک تمہیں انتقال فرمانا ہے اور ان کو بھی مرنا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ اِنَّكَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّهُمْ مَّیِّتُوْنَ: بیشک تمہیں انتقال فرمانا ہے اور ان کو بھی مرنا ہے۔} اس آیت میں ان کفار کا رد ہے جوسرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی وفات کا انتظارکیا کرتے تھے، انہیں فرمایا گیا کہ خود مرنے والے ہو کر دوسرے کی موت کا انتظار کرنا حماقت ہے۔( جلالین مع صاوی، الزمر، تحت الآیۃ: ۳۰، ۵ / ۱۷۹۶)
انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی موت ایک آن کے لئے ہوتی ہے
کفار تو زندگی میں بھی مرے ہوئے ہیں اور انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی موت ایک آن کے لئے ہوتی ہے پھر اُنہیں حیات عطا فرمائی جاتی ہے۔ اس پر بہت سے شرعی دلائل قائم ہیں ،ان میں سے دو یہاں ذکر کئے جاتے ہیں ۔
(1)…حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جسموں کو کھانا زمین پر حرام فرما دیا ہے،پس اللہ تعالیٰ کا نبی زندہ ہے ،اسے رزق دیا جاتا ہے۔( ابن ماجہ، کتاب الجنائز، باب ذکر وفاتہ ودفنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ۲ / ۲۹۱، الحدیث: ۱۶۳۷)
(2)… حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور ان میں نماز پڑھتے ہیں ۔( مسند ابو یعلی، مسند انس بن مالک، ثابت البنانی عن انس، ۳ / ۲۱۶، الحدیث: ۳۴۱۲) اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :
اَنبیا کو بھی اجل آنی ہے
مگر ایسی کہ فقط آنی ہے
پھر اُسی آن کے بعد اُن کی حیات
مثلِ سابق وہی جسمانی ہے
ثُمَّ اِنَّكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ عِنْدَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُوْنَ(31)
ترجمہ: کنزالعرفان
پھر (اے لوگو!) تم قیامت کے دن اپنے رب کے پاس جھگڑو گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ثُمَّ اِنَّكُمْ: پھر تم} ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! پھر مرنے کے بعد تم قیامت کے دن اپنے رب کے پاس جھگڑو گے۔ اس جھگڑے سے مراد یہ ہے کہ ا نبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اُمت پر حجت قائم کریں گے کہ انہوں نے رسالت کی تبلیغ کی اور دین کی دعوت دینے میں بہت زیادہ کوشش صَرف فرمائی اور کافر بے فائدہ معذرتیں پیش کریں گے ۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے سب لوگوں کاجھگڑنا مراد ہے کہ لوگ دُنْیَوی حقوق کے بارے میں ایک دوسرے سے جھگڑا کریں گے اور ہر ایک اپنا حق طلب کرے گا۔(روح البیان، الزمر، تحت الآیۃ: ۳۱، ۸ / ۱۰۶)
بندوں کے حقوق کی اہمیت
اس آیت سے بندوں کے حقوق کی اہمیت بھی واضح ہوئی ،لہٰذا جس نے کسی کا کوئی حق تَلف کیا ہے اسے چاہئے کہ اپنی زندگی میں ہی اس کا حق ادا کر دے یا اس سے معاف کروا لے ورنہ قیامت کے دن حق کی ادائیگی کرنا پڑی تو وہ بہت بڑی مصیبت میں مبتلا ہو سکتا ہے۔یہاں اس سے متعلق 2اَحادیث بھی ملاحظہ ہوں ،چنانچہ
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے کسی کی عزت یا کسی اور چیز پر زیادتی کی ہو تو اسے چاہئے کہ اس دن کے آنے سے پہلے آج ہی معافی حاصل کر لے جس دن درہم و دینار پاس نہ ہوں گے۔اگر ا س کے پاس نیک اعمال ہوئے تو ظلم کے برابر ان میں سے لے لئے جائیں گے اور اگر نیکیاں نہ ہوئیں تو ظلم کے برابر مظلوم کے گناہ ا س پر ڈال دئیے جائیں گے ۔(بخاری، کتاب المظالم والغصب، باب من کانت لہ مظلمۃ عند الرجل۔۔۔ الخ، ۲ / ۱۲۸، الحدیث: ۲۴۴۹)
(2)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’کیا تم جانتے ہو کہ مُفلس و کنگال کون ہے؟ صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: ہم میں مُفلس وہ ہے کہ جس کے پاس نہ درہم ہوں نہ سامان ۔ارشاد فرمایا: ’’میری اُمت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز ، روزے، زکوٰۃ لے کر آیا اور یوں آیاکہ اِسے گالی دی، اُسے تہمت لگائی، اِس کا مال کھایا، اُس کا خون بہایا، اُسے مارا ۔ اِس کی نیکیوں میں سے کچھ اِس مظلوم کو دے دی جائیں گی اور کچھ اُس مظلوم کو ، پھر اگر اس کے ذمہ حقوق کی ادائیگی سے پہلے اس کی نیکیاں (اس کے پاس سے)ختم ہوجائیں تو ان مظلوموں کی خطائیں لے کر اس ظالم پر ڈال دی جائیں گی، پھر اسے آگ میں پھینک دیا جائے گا۔(مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تحریم الظلم، ص۱۳۹۴، الحدیث: ۵۹ (۲۵۸۱))
اللہ تعالیٰ ہمیں دوسروں کی حق تَلفی کرنے سے محفوظ فرمائے اور جن کے حقوق تَلف ہو گئے تو دنیا کی زندگی میں ہی ان کے حق ادا کر دینے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَبَ عَلَى اللّٰهِ وَ كَذَّبَ بِالصِّدْقِ اِذْ جَآءَهٗؕ-اَلَیْسَ فِیْ جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْكٰفِرِیْنَ(32)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے اور حق کو جھٹلائے جب وہ اس کے پاس آئے؟ کیا کافروں کا ٹھکانہ جہنم میں نہیں ؟
تفسیر: صراط الجنان
{فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَبَ عَلَى اللّٰهِ: تو اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے زیادہ ظالم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے لئے شریک ثابت کرے اور اس کے لئے اولاد قرار دے،پھر کہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہی حکم دیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی اس کتاب کو جھٹلائے جو اس نے اپنے حبیب محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نازل فرمائی ہے اور تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت کا انکار کرے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف مبعوث فرمایا ہے اورخود ہی سمجھ لو کہ کیا ایسے آدمی کا ٹھکانہ جہنم میں نہیں ہونا چاہیے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرے اور رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تصدیق کرنے سے انکار کرے اور قرآنِ پاک کے اَحکامات کی پیروی کرنے سے منہ موڑے۔ (یقینا جہنم ہی میں اس کا ٹھکانہ ہے۔)( تفسیر طبری، الزّمر، تحت الآیۃ: ۳۲، ۱۱ / ۴، ملخصاً)
اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے کی صورت
یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے کی مختلف صورتیں ہیں ،ایک صورت تو یہاں آیت کی تفسیر میں بیان ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرانا اور اس کے لئے اولاد قرار دینا اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنا ہے ،اور دوسری صورت بیان کرتے ہوئے علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے کی صورتوں میں سے ایک صورت یہ بھی ہے کہ اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر جھوٹ باندھا جائے،مثلاً یوں کہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس طرح فرمایا ،یا یہ ان کی شریعت ہے ،حالانکہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے نہ اُس طرح فرمایا ہو اور نہ ہی وہ چیز ان کی شریعت ہو۔ (صاوی، الزّمر، تحت الآیۃ: ۳۲، ۵ / ۱۷۹۷)
لہٰذا جو لوگ اپنی گھڑی ہوئی باتیں نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف یا ا ن کی شریعت کی جانب منسوب کرتے ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے والوں میں شامل ہیں ۔ ہمارے معاشرے میں ا س کی ایک عام مثال یہ ہے کہ کچھ لوگ SMS یا E-MAIL وغیرہ کے ذریعے قرآن پاک اور رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کر کے عوام میں پھیلاتے ہیں اور انہیں عام کرنے کی لوگوں کو ترغیب دیتے ہیں اور بعض اوقات عام نہ کرنے پر جھوٹی وعیدیں بھی بیان کر دیتے ہیں ۔عوامُ النّاس کو چاہئے کہ آیات و اَحادیث اور بزرگانِ دین کے اَقوال وغیرہ پر مشتمل اسلامی SMS مُستَنَد علماءِ کرام سے تصدیق کروائے بغیر کسی کو مت بھیجیں ،کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف جھوٹی بات منسوب کرنے کی وعید بہت سخت ہے،جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت مغیرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’مجھ پر جھوٹ باندھنا کسی اور پر جھوٹ باندھنے کی طرح نہیں ہے،جو مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے گا تو اسے چاہئے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔ (بخاری، کتاب الجنائز، باب ما یکرہ من النّیاحۃ علی المیّت، ۱ / ۴۳۷، الحدیث: ۱۲۹۱)
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی اور اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف کوئی بھی جھوٹی بات منسوب کرنے سے بچنے کی توفیق عطافرمائے، اٰمین۔
وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِهٖۤ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ(33)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جس نے ان کی تصدیق کی یہی پرہیز گار ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ: اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے۔} اس آیت میں صِدق سے کیا مراد ہے اوراسے لانے والے اور ا س صِدق کی تصدیق کرنے والے سے کیا مراد ہے اس بارے میں مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں ، ان میں سے 5قول درج ذیل ہیں ،
(1)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’صدق سے مراد اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت ہے اور اسے لے کر تشریف لانے والے سے مراد رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں اور اس کی تصدیق کرنے والے بھی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی ہیں کہ اسے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مخلوق تک پہنچایا۔
(2)… صدق سے مراد قرآنِ پاک ہے،اسے لانے والے جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام ہیں اور اس کی تصدیق کرنے والے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں ۔
(3) …حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم اور مفسرین کی ایک جماعت سے مروی ہے کہ سچ لے کر تشریف لانے والے رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں اور ا س کی تصدیق کرنے والے حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ہیں۔
(4)… سچ لے کر تشریف لانے والے سے مراد حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں اور تصدیق کرنے والے سے تمام مومنین مراد ہیں ۔
(5)… سچ لے کر تشریف لانے والے اور تصدیق کرنے والے سے ایک پوری جماعت مراد ہے،تشریف لانے والے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں اور تصدیق کرنے والے سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کی پیروی کی۔( خازن، الزّمر، تحت الآیۃ: ۳۳، ۴ / ۵۵-۵۶، تفسیرکبیر، الزّمر، تحت الآیۃ: ۳۳، ۹ / ۴۵۲، مدارک، الزّمر، تحت الآیۃ: ۳۳، ص۱۰۳۸، ملتقطاً)
{اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ: یہی پرہیز گار ہیں ۔} یعنی وہ لوگ جن کے یہ اَوصاف ہیں (جو اوپر بیان ہوئے) یہی اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت کا اقرار کر کے،بتوں سے بیزاری ظاہر کر کے، اللہ تعالیٰ کے فرائض کی ادائیگی اور اس کی نافرمانی سے اِجتناب کر کے ا س کے عذاب سے ڈرنے والے ہیں ۔(تفسیر طبری، الزّمر، تحت الآیۃ: ۳۳، ۱۱ / ۶)
لَهُمْ مَّا یَشَآءُوْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْؕ-ذٰلِكَ جَزٰٓؤُا الْمُحْسِنِیْنَ(34)
ترجمہ: کنزالعرفان
ان کیلئے ان کے رب کے پاس ہر وہ چیز ہے جو یہ چاہیں گے۔ یہ نیک بندوں کا صلہ ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{لَهُمْ مَّا یَشَآءُوْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ: ان کیلئے ان کے رب کے پاس ہر وہ چیز ہوگی جو یہ چاہیں گے۔} اس آیت میں متقی لوگوں کے اُخروی انعامات کو بیان کیا گیا ہے ،چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ان متقی لوگوں کے لئے دنیا میں اچھے اعمال کرنے کے بدلے آخرت میں ہر وہ نفع ہے جو و ہ چاہیں گے اور وہ ہر طرح کے نقصان سے محفوظ رہیں گے، نیک بندوں کا یہی صلہ ہے ۔
اللہ تعالیٰ کے مُقَرّب بندوں کو ملنے والی قدرت اور اختیار
یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعض مقرب بندے ایسے ہیں جنہیں دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ یہ قدرت و اختیار دیتا ہے کہ وہ جو چاہتے ہیں وہ ہوجاتا ہے جیسے صحیح بخاری کی حدیث ہے ،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’کیا میں تمہیں بتا دوں کہ جنتی کون ہیں ؟ ہر وہ کمزور اور گمنام آدمی کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر قسم کھا بیٹھے تو اللہ تعالیٰ اسے سچا کر دے۔(بخاری، کتاب الادب، باب الکبر، ۴ / ۱۱۸، الحدیث: ۶۰۷۱)
اور صحیح مسلم میں ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ جن کے بال پَراگَندہ ہیں ،اورلوگ انہیں اپنے دروازوں سے دھتکار دیتے ہیں (لیکن ان کا مقام یہ ہوتا ہے کہ) اگر وہ اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر قسم کھا لیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم کو سچا کر دیتا ہے۔( مسلم، کتاب البرّ والصّلۃ والآداب، باب فضل الضّعفاء والخاملین، ص۱۴۱۲، الحدیث: ۱۳۸(۲۶۲۲))
یہاں ایک بڑی دلچسپ بات ہے کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ اگر اولیاء رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کیلئے یہ فضیلت ثابت کریں کہ وہ جو چاہیں ہوجاتا ہے تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ تم نے انہیں خدا بنا دیا، یا یہ تو خدا بنانے والی بات ہوگئی۔ ایسے لوگوں سے سوال ہے کہ جنت میں تو ہر جنتی کو یہ فضیلت حاصل ہوگی تو کیا جنت میں تمام لوگ خدا بن جائیں گے؟ یا اِس آیت میں جو فضیلت بیان کی گئی ہے وہ بندوں کو جنت میں خدا بن جانے کی بشارت سنا رہی ہے۔ مَعَاذَاللہ، اصل یہ ہے کہ سب کچھ دنیامیں اولیاء کے لئے ثابت کیا جائے یا آخرت میں جنت میں ہر جنتی کیلئے وہ بہرحال اللہ تعالیٰ کی عطا سے ہوگا لہٰذا یہاں شرک کا تَصَوُّر بھی نہیں کیا جاسکتا اور جو لوگ ایسی چیزوں کو شرک کہتے ہیں وہ حقیقت میں نہ تو شرک کا مطلب جانتے ہیں اور نہ ہی خدا کی عظمت کو سمجھتے ہیں ۔
لِیُكَفِّرَ اللّٰهُ عَنْهُمْ اَسْوَاَ الَّذِیْ عَمِلُوْا وَ یَجْزِیَهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ الَّذِیْ كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(35)
ترجمہ: کنزالعرفان
تاکہ اللہ ان سے ان کے برے کام مٹا دے جو انہوں نے کیے اور انہیں ان کا اجر دے ان اچھے کاموں پر جو وہ کرتے تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{لِیُكَفِّرَ اللّٰهُ: تاکہ اللہ مٹا دے۔} امام محمد بن جریر طبری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ’’ان نیک بندوں کو اللہ تعالیٰ نے ان کے نیک کاموں کی جزا دی ہے تا کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں کئے ہوئے ان کے وہ برے کام مٹا دے جن کا صرف ان کے رب تعالیٰ کو علم تھا اور جو انہوں نے ظاہری طور پر برے کام کئے،پھر ان سے توبہ و اِستغفار کی اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا تو انہیں بھی مٹا دے ۔ یونہی انہوں نے دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رضا والے جو اچھے کام کئے تھے ان پر اللہ تعالیٰ انہیں اجر و ثواب عطا فرمائے ۔(تفسیر طبری، الزّمر، تحت الآیۃ: ۳۵، ۱۱ / ۶)
اَلَیْسَ اللّٰهُ بِكَافٍ عَبْدَهٗؕ-وَ یُخَوِّفُوْنَكَ بِالَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِهٖؕ-وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ(36)وَ مَنْ یَّهْدِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ مُّضِلٍّؕ-اَلَیْسَ اللّٰهُ بِعَزِیْزٍ ذِی انْتِقَامٍ(37)
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا اللہ اپنے بندے کو کافی نہیں ؟ اور وہ تمہیں اللہ کے سوا دوسروں سے ڈراتے ہیں اور جسے اللہ گمراہ کرے اس کیلئے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ۔ اور جسے اللہ ہدایت دے اسے کوئی بہکانے والا نہیں ۔ کیا اللہ سب پر غالب، بدلہ لینے والا نہیں ؟
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَیْسَ اللّٰهُ بِكَافٍ عَبْدَهٗ: کیا اللہ اپنے بندے کو کافی نہیں ؟} اس آیت میں ’’بندے‘‘ سے مراد سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں جیسے وہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جن کے ساتھ ان کی قوموں نے ایذا رسانی کے ارادے کئے ، اللہ تعالیٰ نے انہیں دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھا اور ان کی کفایت فرمائی،جیسے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو غرق ہونے سے محفوظ رکھا اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو آگ میں سلامت رکھا،تو اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جب اللہ تعالیٰ آپ سے پہلے رسولوں کو کافی رہا تو آپ کے لئے کیوں کافی نہ ہو گا، یقیناً جس طرح اللہ تعالیٰ آپ سے پہلے رسولوں کوکافی تھا اسی طرح آپ کو بھی کافی ہے۔
{وَ یُخَوِّفُوْنَكَ بِالَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِهٖ: اور وہ تمہیں اللہ کے سوا دوسروں سے ڈراتے ہیں ۔} شانِ نزول:بعض مفسرین نے فرمایا کہ کفارِ عرب نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوبتوں سے ڈرانا چاہا اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا کہ آپ ہمارے معبودوں یعنی بتوں کی برائی بیان کرنے سے باز آئیے ورنہ وہ آپ کو اس طرح نقصان پہنچائیں گے کہ ہلاک کردیں گے یا عقل کو فاسد کردیں گے۔ (خازن، الزّمر، تحت الآیۃ: ۳۶، ۴ / ۵۶) اس پر یہ آیت نازل ہوئی، اور بعض مفسرین کے نزدیک یہ آیت حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جیسا کہ حضرت قتادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ عُزّیٰ بت کی طرف گئے تاکہ اسے کلہاڑے کے ذریعے توڑ دیں ،جب اس کے قریب پہنچے تو اس کے خدمتگار نے کہا ’’اے خالد بن ولید! اس بت سے ڈرو کیونکہ یہ بڑی قوت والا ہے اور اس کے سامنے کوئی چیز ٹھہر نہیں سکتی۔حضرت خالدبن ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس کی پرواہ کئے بغیر کلہاڑے سے عُزّیٰ بت کی ناک توڑ دی اور پھر اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔حضرت خالد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو ڈرانا گویا کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ڈرانا ہے کیونکہ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم سے ہی یہ کام کیا تھا اس لئے آیت میں نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا گیا کہ وہ تمہیں اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں سے ڈراتے ہیں ۔(قرطبی، الزّمر، تحت الآیۃ: ۳۶، ۸ / ۱۸۸، الجزء الخامس عشر)
آیت کے اس حصے کا خلاصہ یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کفار کی حماقت کا یہ حال ہے کہ وہ آپ کو اللہ تعالیٰ کے سوا اپنے بنائے ہوئے جھوٹے معبودوں سے ڈراتے ہیں حالانکہ ان کے بناوٹی معبود خود بے جان اور بے بس ہیں اور اگر بالفرض انہیں کوئی قدرت حاصل بھی ہوتی تو وہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں عاجز ہی رہتے اور جب حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو کافی ہے تو ان کا اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے معبودوں سے ڈرانا باطل اور بے کار ہے ۔
{وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ: اور جسے اللہ گمراہ کرے اس کیلئے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ۔} آیت کے اس حصے اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ باتیں اسی وقت فائدہ مند ہیں جب بندے کو ہدایت اور توفیق حاصل ہو اوراصل بات یہ ہے کہ جس کی بد عملیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس میں گمراہی پیدا فرما دے تو اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں اور جسے اللہ تعالیٰ ہدایت یعنی ایمان کا نور دے تواسے کوئی بہکانے والا نہیں ۔مزید فرمایا کہ کیا اللہ تعالیٰ سب پر غالب اور بدلہ لینے والا نہیں ؟ کیوں نہیں ؟یقیناً ہے توجب اللہ تعالیٰ ہی غالب ہے اور بتوں کا عاجز و بے بس ہونابھی ظاہر ہے تو پھر کافروں کا بتوں سے ڈرانا حماقت نہیں تو اور کیا ہے۔
وَ لَىٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰهُؕ-قُلْ اَفَرَءَیْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ اَرَادَنِیَ اللّٰهُ بِضُرٍّ هَلْ هُنَّ كٰشِفٰتُ ضُرِّهٖۤ اَوْ اَرَادَنِیْ بِرَحْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكٰتُ رَحْمَتِهٖؕ-قُلْ حَسْبِیَ اللّٰهُؕ-عَلَیْهِ یَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكِّلُوْنَ(38)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اگر تم ان سے پوچھو :آسمان اور زمین کس نے بنائے؟ تو ضرور کہیں گے: ’’اللہ نے‘‘ تم فرماؤ: بھلا بتاؤ کہ جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو اگر اللہ مجھے کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تو کیا وہ اس کی بھیجی ہوئی تکلیف کوٹال دیں گے یا اگر اللہ مجھ پر مہربانی فرمانا چاہے تو کیا وہ اس کی مہربانی کو روک سکتے ہیں ؟تم فرماؤ : مجھے اللہ کافی ہے۔ توکل کرنے والے اسی پربھروسہ کرتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَىٕنْ سَاَلْتَهُمْ: اور اگر تم ان سے پوچھو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جو مشرکین آپ کو اپنے باطل معبودوں سے ڈرا نا چاہ رہے ہیں آپ اگر ان سے پوچھیں کہ’’آسمان اور زمین کس نے بنائے؟ تو وہ ضرور کہیں گے : اللہ تعالیٰ نے بنائے ہیں ،یعنی یہ مشرکین قادر اور علم و حکمت والے خداکی ہستی اور اس کی کامل قدرت کااقرار کرتے ہیں اور ویسے بھی یہ بات تمام مخلوق کے نزدیک تسلیم شدہ ہے اور مخلوق کی فطرت اس کی گواہ ہے اور جو شخص آسمان و زمین کے عجائبات اور ان میں پائی جانے والی طرح طرح کی موجودات میں نظر کرے تو اسے یقینی طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ موجودات ایک قادر اور حکیم کی بنائی ہوئی ہیں ۔
یہ فرمانے کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حکم دیتا ہے کہ آپ ان مشرکین پرحجت قائم کیجئے، چنانچہ فرماتا ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان مشرکین سے فرمادیں :جب تم اللہ تعالیٰ کو خالق اور قادر مانتے ہوتوبھلا بتاؤ کہ جن بتوں کو تم اللہ تعالیٰ کے سوا پوجتے ہو وہ کچھ بھی قدرت رکھتے ہیں اور کسی کام بھی آسکتے ہیں ؟ اگر اللہ تعالیٰ مجھے کسی طرح کے مرض کی ،یا قحط کی، یا ناداری کی، یا اور کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تو کیا وہ بت اس کی بھیجی ہوئی تکلیف کوٹال دیں گے ؟یا اگر اللہ تعالیٰ مجھ پر صحت کی ،مالداری کی یا کوئی اورمہربانی فرمانا چاہے تو کیا وہ اس کی مہربانی کو روک سکتے ہیں ؟ جب نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مشرکین سے یہ سوال فرمایا تو وہ لاجواب ہوئے اور خاموش رہ گئے ،اب حجت تمام ہوگئی اور ان کے خاموش اقرار سے ثابت ہوگیا کہ بت محض بے قدرت ہیں ، نہ کوئی نفع پہنچاسکتے ہیں نہ کچھ نقصان، ان کی عبادت کرنا انتہائی جہالت ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرمایا کہ آپ ان سے فرمادیں : (اس سے ثابت ہو گیا کہ) مجھے اللہ تعالیٰ کافی ہے اور چونکہ تَوَکُّل کرنے والے اسی پر توکل کرتے ہیں ،اسی لئے میرا بھی اُسی پر بھروسہ ہے اور جس کا اللہ تعالیٰ پر بھروسہ ہو وہ کسی سے بھی نہیں ڈرتا ،تم جو مجھے بت جیسی بے قدرت اور بے اختیار چیزوں سے ڈراتے ہو یہ تمہاری انتہائی بے وقوفی اور جہالت ہے۔( روح البیان، الزّمر، تحت الآیۃ: ۳۸، ۸ / ۱۱۱، خازن، الزّمر، تحت الآیۃ: ۳۸، ۴ / ۵۶، مدارک، الزّمر، تحت الآیۃ: ۳۸، ص۱۰۳۸-۱۰۳۹، ملتقطاً)
اللہ تعالیٰ پر توکُّل کرنے کی تعلیم
توکل کا عام فہم معنی یہ ہے کہ ظاہری اسباب اختیار کرنے کے بعد نتیجہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا جائے اور یاد رہے کہ قرآنِ پاک اور اَحادیثِ مبارکہ میں بیسیوں مقامات پر اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ان میں سے ایک مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ‘‘( طلاق:۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ اسے کافی ہے۔
اورحضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جسے یہ بات پسند ہو کہ وہ لوگوں میں سب سے زیادہ مُعَظَّم بن جائے تو اسے چاہئے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرا کرے اور جسے یہ بات خوش کرتی ہو کہ وہ سب لوگوں سے زیادہ طاقتور بن جائے تو اسے چاہئے کہ اللہ تعالیٰ پر توکل کیاکرے اور جسے یہ بات اچھی لگے کہ وہ سب لوگوں سے زیادہ غنی ہو جائے تو اسے چاہئے کہ جومال و دولت اس کے ہاتھ میں ہے اِ س سے زیادہ وہ اُس پر یقین رکھے جو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ۔(مکارم الاخلاق لابن ابی دنیا، باب ما جاء فی مکارم الاخلاق، ص۸، الحدیث: ۵)
اللہ تعالیٰ ہمیں توکل اور یقین کی دولت عطا فرمائے،اٰمین۔
قُلْ یٰقَوْمِ اعْمَلُوْا عَلٰى مَكَانَتِكُمْ اِنِّیْ عَامِلٌۚ-فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ(39)مَنْ یَّاْتِیْهِ عَذَابٌ یُّخْزِیْهِ وَ یَحِلُّ عَلَیْهِ عَذَابٌ مُّقِیْمٌ(40)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ: اے میری قوم!تم اپنی جگہ پرکام کیے جاؤ، میں اپنا کام کرتا ہوں تو عنقریب تم جان لو گے۔ کس پر آتا ہے وہ عذاب جو اسے رسواکردے اور کس پرہمیشہ کا عذاب اترتا ہے؟
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ: تم فرماؤ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کی قوم کے وہ مشرک جنہوں نے بتوں کو معبود بنا لیا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی بجائے ان بتوں کی عبادت میں مصروف ہیں ، اور آپ کو ان بتوں سے ڈراتے ہیں ، آپ ان سے فرما دیں ’’اے میری قوم!اگر تم نہیں مانتے توتم اپنی جگہ پرکام کیے جاؤ اورمیری عداوت و دشمنی میں تم سے جو جو سازشیں اور حیلے ہوسکیں سب ہی کر گزرو اورمیں اپنا وہ کام کرتا ہوں جس پر مامور ہوں ،میری ذمہ داری دین قائم کرنا ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ میر احامی و ناصر اور مددگار ہے اور اسی پر میرا بھروسہ ہے،بس عنقریب تم جان لو گے کہ رسوا کُن عذاب کس پر آتا ہے اور کس پرہمیشہ کا عذاب اترتا ہے؟ چنانچہ غزوہ ِبدر کے دن و ہ مشرکین رسوائی کے عذاب میں مبتلا ہوئے اور آخرت میں جہنم کے دائمی عذاب میں مبتلا ہوں گے۔( تفسیر طبری، الزّمر، تحت الآیۃ: ۳۹-۴۰، ۱۱ / ۸-۹، خازن، الزّمر، تحت الآیۃ: ۳۹-۴۰، ۴ / ۵۶-۵۷، مدارک، الزّمر، تحت الآیۃ: ۳۹-۴۰، ص۱۰۳۹، ملتقطاً)
اِنَّاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ لِلنَّاسِ بِالْحَقِّۚ-فَمَنِ اهْتَدٰى فَلِنَفْسِهٖۚ-وَ مَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْهَاۚ-وَ مَاۤ اَنْتَ عَلَیْهِمْ بِوَكِیْلٍ(41)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک ہم نے حق کے ساتھ تم پر یہ کتاب لوگوں کی ہدایت کیلئے اتاری تو جس نے ہدایت پائی تو اپنی ذات کیلئے ہی (پائی) اور جو گمراہ ہوا تو اپنی جان کے خلاف ہی گمراہ ہوا اور تم ان پرکوئی ذمہ دار نہیں ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ لِلنَّاسِ بِالْحَقِّ: بیشک ہم نے حق کے ساتھ تم پر یہ کتاب لوگوں کی ہدایت کیلئے اتاری۔} تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اہلِ مکہ کے کفر پر اِصرار کرنے کی وجہ سے بہت غم ہوتاتھا ، اس کاا ظہار کرتے ہوئے ایک مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’ فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا‘‘(کہف:۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اگر وہ اس بات پر ایمان نہ لائیں تو ہوسکتا ہے کہ تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کو ختم کردو۔
اور ارشاد فرماتاہے:
’’لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا یَكُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ‘‘(شعراء:۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: (اے حبیب!) کہیں آپ اپنی جان کو ختم نہ کردو اس غم میں کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔
اور ارشاد فرماتا ہے
’’فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَیْهِمْ حَسَرٰتٍ‘‘(فاطر:۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو حسرتوں کی وجہ سے ان پر تمہاری جان نہ چلی جائے۔
اور جب اللہ تعالیٰ نے مضبوط دلائل،مثالیں اور وعدہ و وعید بیان کر کے مشرکین کا رد کر دیا اوراس کے باوجود وہ ایمان نہ لائے تو سورہِ زمر کی آیت نمبر41میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے لوگوں کے فائدے اور ان کی ہدایت کے لئے یہ کامل اور عظیم کتاب آپ پر نازل فرمائی ہے اور اسے معجزہ بنا کر نازل کیا ہے جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ کتاب اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی ہے، لہٰذا جو ہدایت حاصل کرے تو اس راہ یابی کا نفع وہی پائے گا اور جو گمراہ ہوا تو اس کی گمراہی کا نقصان اور وبال اسی پر پڑے گا ،اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کی یہ ذمہ داری نہیں کہ چارو ناچار انہیں ایمان قبول کرنے پر مجبور کریں بلکہ ایمان قبول کرنا یا نہ کرنا اِن مشرکین کے ذمے ہے ،آپ سے اُن کی کوتاہیوں کا مُؤاخذہ نہ ہوگا۔( تفسیرکبیر، الزّمر، تحت الآیۃ: ۴۱، ۹ / ۴۵۵، خازن، الزّمر، تحت الآیۃ: ۴۱، ۴ / ۵۷، ملتقطاً)
اَللّٰهُ یَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِهَا وَ الَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِهَاۚ-فَیُمْسِكُ الَّتِیْ قَضٰى عَلَیْهَا الْمَوْتَ وَ یُرْسِلُ الْاُخْرٰۤى اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّىؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ(42)
ترجمہ: کنزالعرفان
اللہ جانوں کوان کی موت کے وقت وفات دیتا ہے اور جو نہ مریں انہیں ان کی نیند کی حالت میں پھر جس پر موت کا حکم فرمادیتا ہے اسے روک لیتا ہے اور دوسرے کو ایک مقرر ہ مدت تک چھوڑ دیتا ہے ۔بیشک اس میں ضرور سوچنے والوں کیلئے نشانیاں ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَللّٰهُ یَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِهَا: اللہ جانوں کوان کی موت کے وقت وفات دیتا ہے۔} یعنی اللہ تعالیٰ جانوں کو ان کی زندگی کی مدت پوری ہو جانے پر روح قبض کر کے وفات دیتا ہے اور جن کی موت کا وقت ابھی تک نہیں آیا انہیں ان کی نیند کی حالت میں ایک قسم کی وفات دیتاہے،پھر جس پر حقیقی موت کا حکم فرمادیتا ہے تو اس کی روح کو اس کے جسم کی طرف واپس نہیں کرتا اور جس کی موت مقدر نہیں فرمائی تو اس کی روح کو موت کے وقت تک کیلئے اس کے جسم کی طرف لوٹادیتا ہے۔بیشک اس میں ضرور ان لوگوں کیلئے نشانیاں ہیں جو سوچیں اور سمجھیں کہ جو اس پر قادر ہے وہ ضرور مُردوں کو زندہ کرنے پر بھی قادر ہے۔ (خازن، الزّمر، تحت الآیۃ: ۴۲، ۴ / ۵۷، ملخصاً)
نیند ایک طرح کی موت ہے
اس آیت سے معلوم ہوا کہ نیند بھی ایک قسم کی موت ہے اورحضرت جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’نیند موت کی بہن ہے۔( معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: مقدام، ۶ / ۲۹۳، الحدیث: ۸۸۱۶)
لہٰذا ہمیں چاہئے کہ سوتے وقت اور نیند سے بیدار ہوتے وقت وہ دعائیں پڑھ لیا کریں جن کا درج ذیل دو اَحادیث میں ذکر ہے،
(1)…حضرت حذیفہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :جب حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ رات کے وقت اپنے بستر پر تشریف لے جاتے تو اپنی ہتھیلی رخسار کے نیچے رکھ لیتے،پھر کہتے ’’اَللّٰہمَّ بِاِسْمِکَ اَمُوْتُ وَاَحْیَا‘‘ اے اللہ !میں تیرے نام کے ساتھ سوتا اور جاگتا ہوں ۔‘‘ اور جب بیدار ہوتے تو یوں (دعا) فرماتے ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَحْیَانَا بَعْدَ مَا اَمَاتَنَا وَاِلَیْہِ النُّشُوْرْ‘‘ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جس نے ہمیں مرنے کے بعد زندہ کیا اور اسی کی طرف (ہمیں قیامت کے دن) لوٹنا ہے۔( بخاری، کتاب الدّعوات، باب وضع الید الیمنی تحت الخدّ الایمن، ۴ / ۱۹۲، الحدیث: ۶۳۱۴)
(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی اپنے بستر سے اٹھے اور پھر واپس جائے تو ا سے اپنے اِزار کے پَلُّو سے تین مرتبہ جھاڑے کیونکہ اسے معلوم نہیں کہ اس کے بعد بستر پر کیا چیز آئی ہے۔ پھر لیٹتے وقت کہے ’’بِاسْمِکَ رَبِّیْ وَضَعْتُ جَنْبِیْ وَبِکَ اَرْفَعُہُ فَاِنْ اَمْسَکْتَ نَفْسِیْ فَارْحَمْہَا وَاِنْ اَرْسَلْتَہَا فَاحْفَظْہَا بِمَا تَحْفَظُ بِہٖ عِبَادَکَ الصَّالِحِیْنْ‘‘ اے میرے رب!میں نے تیرے نام سے اپنا پہلو رکھا اور تیرے ہی نام سے اٹھاؤں گا۔اگر تو میری جان روک لے تو اس پر رحم فرما اور اگر اسے چھوڑ دے تو اس کی ایسے حفاظت فرما جیسے تو اپنے نیک بندوں کی حفاظت فرماتا ہے۔‘‘اور جب بیدار ہو تو کہے ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ عَافَانِیْ فِیْ جَسَدِیْ وَرَدَّ عَلَیَّ رُوْحِیْ وَاَذِنَ لِیْ بِذِکْرِہٖ‘‘ سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے میرے جسم میں مجھے عافیت دی ،میری روح میری طرف لوٹا دی اور مجھے اپنے ذکر کی اجازت دی۔ (ترمذی، ابواب الدّعوات، ۲۰-باب ، ۹ / ۸۷، الحدیث: ۳۴۰۲، مطبوعہ دار ابن کثیر دمشق، بیروت)
اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ شُفَعَآءَؕ-قُلْ اَوَ لَوْ كَانُوْا لَا یَمْلِكُوْنَ شَیْــٴًـا وَّ لَا یَعْقِلُوْنَ(43)قُلْ لِّلّٰهِ الشَّفَاعَةُ جَمِیْعًاؕ-لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-ثُمَّ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ(44)
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا انہوں نے اللہ کے مقابلے میں کچھ سفارشی بنا رکھے ہیں ؟ تم فرماؤ :کیا اگرچہ وہ کسی چیز کے مالک نہ ہوں اور نہ کچھ سمجھ رکھتے ہوں ۔تم فرماؤ:تمام شفاعتوں کا مالک اللہ ہی ہے۔ اسی کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ شُفَعَآءَ: کیا انہوں نے اللہ کے مقابلے میں کچھ سفارشی بنا رکھے ہیں ؟} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ مشرکین اللہ تعالیٰ کے علاوہ جن باطل معبودوں کی پوجا کرتے ہیں ،کیا انہوں نے اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں انہیں سفارشی بنا رکھا ہے کہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں ان کی حاجات کے وقت شفاعت کریں گے ؟اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرما دیں کہ کیا تم بتوں کو اپنا سفارشی بناتے ہو اگرچہ وہ تمہارے لئے کسی نفع اور نقصان کے مالک نہ ہوں ،اگرچہ وہ کسی چیز کی سمجھ بوجھ نہ رکھتے ہوں ؟ اگر تم اس وجہ سے بتوں کی پوجا کرتے ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تمہاری سفارش کریں گے تو پھر انہیں چھوڑ کر صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا شروع کردو اور صرف اسے ہی اپنامعبود مانو کیونکہ تمام شفاعتوں کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اور اس کی بارگاہ میں صرف وہی کسی کی سفارش کر سکے گا جسے اللہ تعالیٰ اجازت دے گا اور اس سے اللہ تعالیٰ راضی ہو گا۔ آسمانوں اور زمینوں میں صرف اللہ تعالیٰ ہی کی سلطنت اور بادشاہت ہے جبکہ تمہارے باطل معبودوں کو ذرہ بھر بھی بادشاہت حاصل نہیں لہٰذا تم اس کی عبادت کرو جس کی بادشاہت ہے اور جو تمہیں دنیا میں اور مرنے کے بعد اپنی طرف لوٹتے وقت بھی نفع اور نقصان پہنچانے پر قدرت رکھتا ہے کیونکہ مرنے کے بعد تمہیں اسی کی طرف لوٹنا ہے۔( تفسیرطبری، الزّمر، تحت الآیۃ: ۴۳-۴۴، ۱۱ / ۱۰، ملخصاً)
وَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَحْدَهُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِۚ-وَ اِذَا ذُكِرَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِذَا هُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ(45)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جب ایک اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے توآخرت پر ایمان نہ لانے والوں کے دل متنفر ہو جاتے ہیں اور جب اللہ کے سوا اوروں کا ذکر ہوتا ہے تو اس وقت وہ خوش ہوجاتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَحْدَهُ: اور جب ایک اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے۔} اس آیت میں مشرکین کے برے اعمال کی ایک اور قسم بیان کی جارہی کہ جب ایک اللہ عَزَّوَجَلَّ کا ذکر کیا جاتا ہے یعنی یہ کہ وہی تنہامعبودو مالک ہے تومنکرین ِآخرت کے دلوں میں ذکر ِ خدا سے نفرت پیدا ہوتی ہے اور وہ سینوں میں گھٹن محسوس کرتے ہیں نیز تنگ دل اور پریشان ہوتے ہیں اور ناگواری کے اثرات ان کے چہروں پر ظاہر ہوجاتے ہیں اور جب اللہ تعالیٰ کی بجائے ان کے بتوں کا ذکر ہوتا ہے تو اس وقت خوش ہوتے ہیں اور دلوں میں بڑی فرحت محسوس کرتے ہیں ، یہ ان کی جہالت اور حماقت کی دلیل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ذکر تو سب سے بڑی سعادت ،تمام بھلائیوں کی بنیاد اور دلوں کی ٹھنڈک ہے جبکہ بے جان اور خسیس بتوں کا ذکر جہالت و حماقت ہے ۔
قُلِ اللّٰهُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ عٰلِمَ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ اَنْتَ تَحْكُمُ بَیْنَ عِبَادِكَ فِیْ مَا كَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ(46)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم عرض کرو: اے اللہ !آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے!ہرپوشیدہ اور ظاہر کے جاننے والے! تو اپنے بندوں میں اس چیز کا فیصلہ فرمائے گا جس میں وہ اختلاف رکھتے تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ: تم عرض کرو۔} مشرکین کی خراب عقل پر دلالت کرنے والا عجیب و غریب معاملہ بیان کرنے کے بعد اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ایک عظیم دعا تعلیم فرمائی ہے ،اس دعا میں پہلے اللہ تعالیٰ کی قدرتِ تامہ کا ذکر ہے اور اس کے بعد کامل علم کا بیان ہے،اس کے بعد فرمایا کہ اس طرح عرض کرو’’ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، مشرکین کی توحید سے نفرت اور شرک سنتے وقت کی خوشی معروف ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اس پر ا تنے مضبوطی سے قائم ہیں کہ تیرے سوا کوئی بھی ان کے فاسد عقیدے اور باطل مذہب کو زائل نہیں کر سکتا۔( تفسیرکبیر، الزّمر، تحت الآیۃ: ۴۶، ۹ / ۴۵۷)
دعا قبول ہونے کے لئے پڑھی جانے والی آیت
زیرِ تفسیر آیت کے بارے میں حضرت سعید بن مسیب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے منقول ہے کہ یہ آیت پڑھ کر جو دعا مانگی جائے وہ قبول ہوتی ہے۔ (مدارک، الزّمر، تحت الآیۃ: ۴۶، ص۱۰۴۱) لہٰذا جب بھی کوئی دعا مانگیں تو اُس سے پہلے مذکورہ بالا آیت پڑھ لیں اِنْ شَآءَاللہ دعا قبول ہو گی۔
وَ لَوْ اَنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا وَّ مِثْلَهٗ مَعَهٗ لَافْتَدَوْا بِهٖ مِنْ سُوْٓءِ الْعَذَابِ یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-وَ بَدَا لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ مَا لَمْ یَكُوْنُوْا یَحْتَسِبُوْنَ(47)وَ بَدَا لَهُمْ سَیِّاٰتُ مَا كَسَبُوْا وَ حَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ(48)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اگر جو کچھ زمین میں ہے وہ سب اور اس کے ساتھ اس جیسا اوربھی ظالموں کی ملک میں ہوتا تو قیامت کے دن بڑے عذاب سے چھٹکارے کے عوض وہ سب کا سب دیدیتے اور ان کیلئے اللہ کی طرف سے وہ ظاہر ہوگا جس کا انہوں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ اور ان پر ان کے کمائے ہوئے برے اعمال کھل گئے اور ان پر وہی آپڑا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَوْ اَنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا: اور اگر ظالموں کی ملک میں ہوتا۔} مشرکین کے باطل مذہب کو بیان کرنے کے بعد اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے تین وعیدیں بیان فرمائی ہیں۔
پہلی وعید: اگر بالفرض کافر پوری دنیا کے اَموال اور ذخائر کے مالک ہوتے اور اتنا ہی اور بھی ان کے مِلک میں ہوتا توقیامت کے دن بڑے عذاب سے چھٹکارے کے عِوَض وہ سب کا سب دیدیتے تا کہ کسی طرح یہ اَموال دے کر انہیں اِس عذاب ِعظیم سے رہائی مل جائے لیکن وہ قبول نہ کیا جائے گا۔
دوسری وعید: بروزِ قیامت ان کیلئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ ظاہر ہوگا جس کا انہوں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ اس کامعنی یہ ہے کہ ان کے لئے ایسے ایسے شدید عذاب ظاہر ہوں گے جن کا انہیں خیال بھی نہ تھا۔
تیسری وعید:اُن پر ان کے برے اعمال کے آثار ظاہر ہو جائیں گئے جو انہوں نے دنیا میں کئے تھے جیسے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کرنا اور اس کے دوستوں پر ظلم کرنا وغیرہ اور نبیٔ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خبر دینے پر وہ جس عذاب کامذاق اڑایاکرتے تھے وہ نازل ہوجائے گااور مشرکین کو گھیرلے گا۔( تفسیرکبیر، الزّمر، تحت الآیۃ:۴۷-۴۸،۹ / ۴۵۸، خازن، الزّمر،تحت الآیۃ: ۴۷-۴۸، ۴ / ۵۸، روح البیان، الزّمر، تحت الآیۃ: ۴۷-۴۸، ۸ / ۱۲۰-۱۲۱، ملتقطاً)
{وَ بَدَا لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ مَا لَمْ یَكُوْنُوْا یَحْتَسِبُوْنَ: اور ان کیلئے اللہ کی طرف سے وہ ظاہر ہوگا جس کا انہوں نے سوچا بھی نہیں تھا۔} اس آیت کی تفسیر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مشرکین گمان کرتے ہوں گے کہ اُن کے پاس نیکیاں ہیں لیکن جب نامہ ِاعمال کھلیں گے تو بدیاں ظاہر ہوں گی۔ (مدارک، الزّمر، تحت الآیۃ: ۴۷، ص۱۰۴۱)
نیک اعمال کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے ڈرنا چاہئے
یاد رہے کہ اس آیت میں اگرچہ مشرکین کے لئے وعید کا بیان ہے لیکن اس میں مسلمانوں کے لئے بھی عبرت اور نصیحت ہے اور انہیں بھی چاہئے کہ نیک اعمال کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے ڈرتے رہیں ۔ہمارے بزرگانِ دین اس حوالے سے کس قدر خوفزدہ رہا کرتے تھے اس کی ایک جھلک ملاحظہ ہو،چنانچہ حضرت محمد بن منکدر رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے وصال کا وقت قریب آیا تو آپ گریہ و زاری کرنے لگے ۔ لوگوں نے وجہ پوچھی تو فرمایا’’میرے پیش ِنظرقرآنِ پاک کی ایک آیت ہے جس کی وجہ سے میں بہت خوفزدہ ہوں ،پھر آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے یہی آیت تلاوت کی اور فرمایا’’ مجھے اس بات کا خوف ہے کہ جنہیں میں نیکیاں شمار کر رہا ہوں کہیں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے لئے بدیاں بن کر نہ ظاہر ہو جائیں ۔ (مدارک، الزّمر، تحت الآیۃ: ۴۷، ص۱۰۴۱)
اللہ تعالیٰ ہمارے نیک اعمال کو محفوظ فرمائے اور ان کے بارے میں اپنی خفیہ تدبیر سے ڈرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
فَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا٘-ثُمَّ اِذَا خَوَّلْنٰهُ نِعْمَةً مِّنَّاۙ-قَالَ اِنَّمَاۤ اُوْتِیْتُهٗ عَلٰى عِلْمٍؕ-بَلْ هِیَ فِتْنَةٌ وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ(49)
ترجمہ: کنزالعرفان
پھر جب آدمی کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارتا ہے پھر جب اسے ہم اپنے پاس سے کوئی نعمت عطا فرمائیں توکہتا ہے یہ تو مجھے ایک علم کی بدولت ملی ہے بلکہ وہ توایک آزمائش ہے مگر ان میں اکثر لوگ جانتے نہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا: پھر جب آدمی کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارتا ہے۔} یعنی یوں تو مشرک اپنے معبودوں کے ذکر سے مسرور ہوتا اور اللہ تعالیٰ کے ذکر سے منہ بگاڑتا ہے لیکن جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ ا س وقت ہمیں پکارتا ہے اور ہم سے مدد طلب کرتا ہے، پھر جب ہم اپنے فضل سے اس کی تکلیف دور کر دیں اور اسے اپنے پاس سے کوئی نعمت عطا فرمادیں تو وہ اس راحت و نعمت کو ہماری طرف منسوب کرنے کی بجائے یوں کہتا ہے کہ میں معاش کا جو علم رکھتا ہوں اس کے ذریعے سے میں نے یہ دولت کمائی ہے،حالانکہ ایسا نہیں بلکہ یہ راحت اور نعمت اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش اور امتحان ہے جس کے ذریعے دیکھا جاتا ہے کہ بندہ اس کے ملنے پر شکر کرتا ہے یا ناشکری، لیکن ان میں اکثر لوگ جانتے نہیں کہ یہ نعمت اورعطا اِستدراج اور امتحان ہے۔(روح البیان،الزّمر، تحت الآیۃ: ۴۹، ۸ / ۱۲۱-۱۲۲، مدارک، الزّمر، تحت الآیۃ: ۴۹، ص۱۰۴۱، جلالین، الزّمر، تحت الآیۃ: ۴۹، ص۳۸۹، ملتقطاً)
مصیبت اور راحت کے وقت مشرکوں کی عملی حالت کو دیکھتے ہوئے ہمیں اپنی حالت پر بھی غور کرنا چاہیے کہ ہم بھی مصیبت میں خدا کو یاد کرنے اور خوشی کے وقت بھلادینے کے مرض میں مبتلا تو نہیں ہیں ۔ حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جو یہ چاہے کہ مصیبتوں کے وقت اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول کرے تو وہ آرام کے زمانہ میں دعائیں زیادہ مانگا کرے ۔( ترمذی، کتاب الدّعوات، باب ما جاء انّ دعوۃ المسلم مستجابۃ، ۵ / ۲۴۸، الحدیث: ۳۳۹۳)
اللہ تعالیٰ ہمیں راحت و تکلیف ہر حال میں اپنا ذکر اور اپنی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
نعمت آزمائش اور امتحان بھی ہو سکتی ہے
اس آیت سے معلوم ہو اکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے عطا ہونے والی کوئی نعمت آزمائش بھی ہو سکتی ہے اور یہ بھی معلوم ہو اکہ دنیا کی نعمتیں پانے والوں کی ایک تعداد ایسی ہے جو نعمتوں کے آزمائش ہونے اور اس کا انجام برا ہونے کو نہیں جانتی اور نعمتوں پر تکبر اور غرور کرنے کی وجہ سے ان کے دل سخت ہو چکے ہیں ،غفلت ان پر غالب آ چکی ہے ،وہ ان نعمتوں پر مطمئن ہو گئے ہیں اور اپنے مالک و مولیٰ اور آخرت کو بھول چکے ہیں ۔اگر غور کیا جائے تو ہمارے معاشرے میں بطورِ خاص مالدار اور منصب دار طبقے کی ایک تعداد ایسی نظر آئے گی جن کے پاس نعمتوں کی بہتات ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ تکبر و غرور کا نشہ ان کے سر سے نہیں اترتا،دل ایسے سخت ہو چکے ہیں کہ انسان کو انسا ن سمجھنا بھی انہیں ناگوار گزرتا ہے ،غفلت ایسی غالب ہے کہ انہیں فرض نمازوں اور ان کی رکعتوں کی تعداد تک یاد نہیں ،نعمتوں پر مطمئن ایسے ہیں جیسے یہ ہمیشہ ان کے پاس ہی رہیں گی اور یہ بات ان کے خیال میں بھی نہیں آتی کہ ایک دن انہیں ضرور مرنا ہے،قبر میں مُنکَر نکیر کے سوالات کے جوابات دینے ہیں اور قیامت کے دن ایک ایک نعمت کا اور ہر ہر عمل کا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حساب دینا ہے ۔ اے کاش!ان کی سمجھ میں یہ بات ا ٓجائے کہ دنیا کی سب نعمتیں عارضی اور فانی ہیں اور دنیا میں نعمتیں دے کر انہیں آزمایا بھی جا سکتا ہے اس لئے ان نعمتوں پر تکبر و غرور کرنے اور ان پر مطمئن ہونے کی بجائے آخرت میں ملنے والی دائمی نعمتوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت اور عقل ِسلیم عطا فرمائے،اٰمین۔
قَدْ قَالَهَا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَمَاۤ اَغْنٰى عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(50)
ترجمہ: کنزالعرفان
ان سے پہلوں نے بھی ایسے ہی بات کہی تھی تو ان کی کمائیاں ان کے کچھ کام نہ آئیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَدْ قَالَهَا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ: ان سے پہلوں نے بھی ایسے ہی بات کہی تھی۔} یعنی کفارِ مکہ سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں انہوں نے بھی یہ بات کہی تھی کہ ’’ یہ نعمت تو ہمیں ایک علم کی بدولت ملی ہے۔مفسرین فرماتے ہیں ’’پہلوں سے مراد قارون اور ا س کی قوم ہے۔قارون نے یہ کہا تھا کہ یہ (خزانہ) تو مجھے ایک علم کی بنا پرملا ہے جو میرے پاس ہے، اور قارون کی قوم چونکہ اس کی اس بے ہودہ گوئی پر راضی رہی تھی اس لئے وہ بھی کہنے والوں میں شمار ہوئی۔
بعض مفسرین فرماتے ہیں ’’ ممکن ہے کہ قارون کے علاوہ سابقہ امتوں میں سے اور لوگوں نے بھی ایساکہا ہو۔(تفسیر طبری، الزّمر، تحت الآیۃ: ۵۰، ۱۱ / ۱۳، روح البیان، الزّمر، تحت الآیۃ: ۵۰، ۸ / ۱۲۲، ملتقطاً)
{فَمَاۤ اَغْنٰى عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ: تو ان کی کمائیاں ان کے کچھ کام نہ آئیں ۔} یعنی جو نعمت انہیں ملی اس نے ان سے سختی اور عذاب دور نہ کیا اور نہ ہی اس نعمت نے انہیں کوئی فائدہ دیا۔( روح البیان، الزّمر، تحت الآیۃ: ۵۰، ۸ / ۱۲۲)
فَاَصَابَهُمْ سَیِّاٰتُ مَا كَسَبُوْاؕ-وَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْ هٰۤؤُلَآءِ سَیُصِیْبُهُمْ سَیِّاٰتُ مَا كَسَبُوْاۙ-وَ مَا هُمْ بِمُعْجِزِیْنَ(51)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو اُن کے کمائے ہوئے اعمال کی برائیاں اُنہیں پہنچیں اوراِن میں (بھی) جو ظالم ہیں عنقریب ان پر ان کے کمائے ہوئے اعمال کی برائیاں آپڑیں گی اور وہ اللہ کو بے بس نہیں کرسکتے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَاَصَابَهُمْ سَیِّاٰتُ مَا كَسَبُوْا: تو اُن کے کمائے ہوئے اعمال کی برائیاں انہیں پہنچیں ۔} یعنی پہلے لوگوں نے جو برے اعمال کئے تھے،اُن کی سزائیں انہیں پہنچیں اور اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کے ہم عصر وہ لوگ جو شرک کر کے اپنی جانوں پر ظلم کر رہے ہیں عنقریب پہلوں کی طرح ان پر بھی ان کے کفر اور گناہوں کی سزائیں آپڑیں گی اور وہ اپنے برے اعمال اور اخلاق کی بنا پر اللہ تعالیٰ کو بے بس نہیں کرسکتے۔ کفارِ مکہ کو ان کے اعمال کی سزائیں ملیں ، چنانچہ ان پر قحط کی مصیبت آئی اور وہ سات برس تک قحط کی مصیبت میں مبتلا رکھے گئے اور غزوۂ بدر کے دن ان کے بڑے بڑے سردار قتل کر دئیے گئے۔ (روح البیان، الزّمر، تحت الآیۃ: ۵۱، ۸ / ۱۲۲، ملخصاً)
اَوَ لَمْ یَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یَقْدِرُؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ(52)
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا انہیں معلوم نہیں کہ اللہ روزی کشادہ کرتا ہے جس کے لیے چاہتا ہے اور تنگ (بھی) فرماتا ہے۔ بیشک اس میں ایمان والوں کے لیے ضرور نشانیاں ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَوَ لَمْ یَعْلَمُوْا: کیا انہیں معلوم نہیں ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جن لوگوں کی ہم نے تکلیف دور کر دی اور وہ ہمارا احسان ماننے کی بجائے کہنے لگے کہ یہ نعمتیں تو ہمیں ہمارے علم کی بنا پر ملی ہیں ،کیا وہ جانتے نہیں کہ تکلیف اور راحت،وسعت ،تنگی اور مصیبت اللہ تعالیٰ کے دست ِقدرت میں ہے اور ا س کے علاوہ اور کوئی یہ قدرت نہیں رکھتا،کیا وہ جانتے نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہے روزی کشادہ کر دے اور جس کے لئے چاہے تنگ کر دے ۔بے شک یہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کی حجتیں ہیں تاکہ وہ ان کے ذریعے عبرت اور نصیحت حاصل کریں اور بے شک رزق کی وسعت اور تنگی میں ایمان والوں کے لیے اس بات پر ضرور دلائل ہیں کہ رزق وسیع اور تنگ کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے تو جو شخص ان نشانیوں کو دیکھ لے گا اور دلائل کو سمجھ لے گا تووہ نعمت ملنے کو اپنے علم اور کوشش کی طرف منسوب نہیں کرے گا بلکہ اسے اللہ تعالیٰ کا ہی فضل و کرم اور ا س کی عطا قرار دے گا۔
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(53)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ :اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی! اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا ، بیشک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے ،بیشک وہی بخشنے والا مہربان ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ: تم فرماؤ۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بندوں پر اپنی کامل رحمت،فضل اور احسان کا بیان فرمایا ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے’’اے میرے وہ بندو! جنہوں نے کفر اور گناہوں میں مبتلا ہو کر اپنی جانوں پر زیادتی کی، تم اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا اور یہ خیال نہ کرناکہ ایمان قبو ل کر لینے کے بعد سابقہ کفر و شرک پر تمہارا مُؤاخذہ ہو گا، بیشک اللہ تعالیٰ اُس کے سب گناہ بخش دیتا ہے جو اپنے کفر سے باز آئے اور اپنے گناہوں سے سچی توبہ کر لے ،بیشک وہی گناہوں پر پردہ ڈال کربخشنے والا اور مصیبتوں کو دور کر کے مہربانی فرمانے والا ہے۔ (تفسیرکبیر، الزّمر،تحت الآیۃ:۵۳، ۹ / ۴۶۳-۴۶۴، جلالین مع جمل، الزّمر، تحت الآیۃ: ۵۳، ۶ / ۴۳۹-۴۴۰، مدارک، الزّمر، تحت الآیۃ: ۵۳، ص۱۰۴۳، ملتقطاً)
اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں متعدد روایات ہیں ،ان میں سے ایک یہ ہے ،حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’مشرکوں کے کچھ آدمیوں نے بارہا قتل و زِنا کا اِرتکاب کیا تھا،یہ لوگ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ جو کچھ آپ فرماتے ہیں وہ باتیں تو بہت اچھی ہیں لیکن ہمیں یہ تو معلوم ہو جائے کہ کیا ہمارے اتنے سارے گناہوں کا کفارہ ہو سکتا ہے؟اس پر یہ آیت نازل ہوئی: ’’وَ الَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ وَ لَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لَا یَزْنُوْنَ‘‘(فرقان:۶۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کی عبادت نہیں کرتے اور اس جان کو ناحق قتل نہیں کرتے جسے اللہ نے حرام فرمایا ہے اور بدکاری نہیں کرتے۔
اور یہ آیت نازل ہوئی:
’’قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم فرماؤ: اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی! اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔(بخاری، کتاب التفسیر، باب یا عبادی الذین اسرفوا علی انفسہم… الخ، ۳ / ۳۱۴، الحدیث: ۴۸۱۰)
گناہگاروں کو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے:
اس آیت سے معلوم ہو ا کہ بندے سے اگرچہ بڑے بڑے اور بے شمار گناہ صادر ہوئے ہوں لیکن اسے اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بے انتہا وسیع ہے اور ا س کی بارگاہ میں توبہ کی قبولیت کا دروازہ تب تک کھلا ہے جب تک بندہ اپنی موت کے وقت غَرغَرہ کی حالت کو نہیں پہنچ جاتا ،اس وقت سے پہلے پہلے بندہ جب بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے گناہوں سے سچی توبہ کر لے گا تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل ورحمت سے اس کی توبہ قبول کرتے ہوئے اس کے سب گناہ معاف فرما دے گا۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت کی تو کیا بات ہے، چنانچہ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اے انسان !جب تک تو مجھ سے دعا کرتا اور امید رکھتا رہے گا میں تیرے گناہ بخشتا رہوں گا، چاہے تجھ میں کتنے ہی گناہ ہوں مجھے کوئی پروا نہیں ۔اے انسان!اگر تیرے گناہ آسمان تک پہنچ جائیں ،پھر تو بخشش مانگے تو میں بخش دوں گا مجھے کوئی پروا نہیں ۔اے انسان! اگر تو زمین بھر گناہ بھی میرے پاس لے کر آئے لیکن تو نے شرک نہ کیا ہو تو میں تمہیں اس کے برابر بخش دوں گا۔ (ترمذی، کتاب الدّعوات، باب فی فضل التوبۃ والاستغفار… الخ، ۵ / ۳۱۸، الحدیث: ۳۵۵۱)
اس آیت کا مفہوم مزید وضاحت سے سمجھنے کیلئے امام غزالی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا یہ کلام ملاحظہ فرمائیں : جوشخص سرتا پا گناہوں میں ڈوبا ہوا ہو، جب اس کے دل میں تو بہ کا خیال پیدا ہو تو شیطان اس سے کہتا ہے کہ تمہاری تو بہ کیسے قبول ہوسکتی ہے؟ وہ (یہ کہہ کر) اسے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس کردیتا ہے، تو اس صورت میں ضروری ہے کہ مایوسی کو دور کرکے امید رکھے اور اس بات کو یاد کرے کہ اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو بخشنے والا ہے اور بے شک اللہ تعالیٰ کریم ہے جو بندوں کی تو بہ قبول کرتاہے، نیز تو بہ ایسی عبادت ہے جو گناہوں کو مٹادیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ وَ اَنِیْبُوْۤا اِلٰى رَبِّكُمْ‘‘(زمر:۵۳،۵۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم فرماؤ :اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی! اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، بیشک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے ،بیشک وہی بخشنے والا مہربان ہے۔اور اپنے رب کی طرف رجوع کرو۔
تو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف رجوع (یعنی توبہ) کرنے کا حکم دیا۔
اور ارشاد فرمایا: ’’ وَ اِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدٰى ‘‘(طہ:۸۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک میں اس آدمی کو بہت بخشنے والا ہوں جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور نیک عمل کیا پھر ہدایت پر رہا۔
تو جب تو بہ کے ساتھ مغفرت کی توقُّع ہوتو ایسا شخص امید کرنے والا ہے اور اگر گناہ پر اِصرار کے باوجود مغفرت کی تو قع ہو تو یہ شخص دھو کے میں ہے جیسے ایک شخص بازار میں ہو اور اس پر جمعہ کی نماز کا وقت تنگ ہوجائے، اب اس کے دل میں خیال آئے کہ وہ نمازِ جمعہ کے لئے جائے لیکن شیطان اس سے کہتا ہے کہ تم جمعہ کی نماز نہیں پاسکتے لہٰذا یہاں ہی ٹھہرو،لیکن وہ شیطان کو جھٹلا تے ہوئے دوڑ جاتا ہے اور اسے امید ہے کہ نمازِ جمعہ پالے گا تو یہ شخص امید رکھنے والا ہے اور اگر وہ شخص کاروبار میں مصروف رہے اور یہ امید رکھے کہ امام میرے یا کسی او ر کے لئے درمیانے وقت تک انتظار کرے گا یا کسی اور وجہ سے منتظر رہے گا جس کا اسے علم نہیں ہے تو یہ شخص دھو کے میں مبتلا ہے۔( احیاء علوم الدّین، کتاب ذمّ الغرور، بیان ذمّ الغرور وحقیقتہ وامثلتہ، ۳ / ۴۷۳)
اللہ تعالیٰ ہمیں گناہوں سے سچی توبہ کرنے اور اپنی رحمت و مغفرت سے حقیقی امید رکھنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
کسی حال میں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں
یاد رہے کہ اس آیت میں اگرچہ ایک خاص چیز کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونے سے منع فرمایا گیا لیکن عمومی طور پر ہر حوالے سے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس اور نا امید ہونا منع ہے ،لہٰذا ہر شخص کو چاہئے کہ وہ زندگی میں آنے والی پے در پے مصیبتوں ،مشکلوں اور دشواریوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ہر گز مایوس اور نا امید نہ ہو کیونکہ یہ کافروں اور گمراہوں کا وصف اور کبیرہ گناہ ہے ، چنانچہ سورہِ یوسف میں حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا قول نقل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’وَ لَا تَایْــٴَـسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِؕ-اِنَّهٗ لَا یَایْــٴَـسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ‘‘(یوسف:۸۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بیشک اللہ کی رحمت سے کافر لوگ ہی ناامید ہوتے ہیں ۔
اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا قول نقل کرتے ہوئے ارشادفرماتا ہے
’’وَ مَنْ یَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَةِ رَبِّهٖۤ اِلَّا الضَّآلُّوْنَ‘‘(حجر:۵۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: گمراہوں کے سوا اپنے رب کی رحمت سے کون ناامید ہوتا ہے؟
اور کافر شخص کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے :
’’لَا یَسْــٴَـمُ الْاِنْسَانُ مِنْ دُعَآءِ الْخَیْرِ٘-وَ اِنْ مَّسَّهُ الشَّرُّ فَیَــٴُـوْسٌ قَنُوْطٌ‘‘(حٰمٓ السجدۃ:۴۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: آدمی بھلائی مانگنے سے نہیں اُکتاتا اور اگرکوئی برائی پہنچے تو بہت ناامید ،بڑا مایوس ہوجاتا ہے۔
اورحضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے پوچھا گیا کہ کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟آپ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا’’ اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیرسے بے خوف اوراُس کی رحمت سے مایوس اور ناامید ہونا۔(کنزالعمّال، کتاب الاذکار، قسم الافعال، فصل فی التفسیر، سورۃ النّساء، ۱ / ۱۶۷، الجزء الثانی، الحدیث: ۴۳۲۲)
اورحضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : دو باتوں میں ہلاکت ہے، (1)مایوسی۔ (2)خود پسندی۔
امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان دو باتوں کو جمع فرمایا کیونکہ سعادت کا حصول کوشش،طلب،محنت اور ارادے کے بغیر ناممکن ہے اور مایوس آدمی نہ کوشش کرتا ہے اور نہ ہی طلب کرتا ہے جبکہ خود پسند آدمی یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ وہ خوش بخت ہے اور اپنی مراد کے حصول میں کامیاب ہو چکا ہے اس لئے وہ کوشش کرنا چھوڑ دیتا ہے۔(احیاء علوم الدّین، کتاب ذمّ االکبر والعجب، الشطر الثانی من الکتاب فی العجب، بیان ذمّ العجب وآفاتہ، ۳ / ۴۵۲)
لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ کسی حال میں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہو اورمَصائب و آلام میں اسی کی بارگاہ میں دست ِدعا دراز کرتا رہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی حقیقی طور پر مشکلات کو دور کرنے والا اور آسانیاں عطا فرمانے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رحمت سے مایوس اور ناامید ہو جانے سے محفوظ فرمائے،اٰمین۔
وَ اَنِیْبُوْۤا اِلٰى رَبِّكُمْ وَ اَسْلِمُوْا لَهٗ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ(54)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اپنے رب کی طرف رجوع کرواور اس وقت سے پہلے اس کے حضور گردن رکھو کہ تم پر عذاب آئے پھر تمہاری مدد نہ کی جائے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اَنِیْبُوْۤا اِلٰى رَبِّكُمْ: اور اپنے رب کی طرف رجوع کرو۔} اس سے پہلی آیت میں بیان فرمایاگیا کہ جو کفر و شرک اور گناہوں سے سچی توبہ کر لے اسے بخش دیا جائے گااور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بندوں کو جلد توبہ کرنے کاحکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے میرے بندو! کفر و شرک اورگناہوں سے سچی توبہ کر کے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف رجوع کرو اور اس وقت سے پہلے اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرو کہ تم پر دنیا میں عذاب آجائے ،اگر تم نے توبہ نہ کی تو عذاب سے چھٹکارا پانے میں تمہاری کوئی مدد نہ کی جائے گی۔(تفسیر قرطبی، الزّمر، تحت الآیۃ: ۵۴، ۸ / ۱۹۶، الجزء الخامس عشر، ابن کثیر، الزّمر، تحت الآیۃ: ۵۴، ۷ / ۹۹، روح البیان، الزّمر، تحت الآیۃ: ۵۴، ۸ / ۱۲۷، ملتقطاً)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ فقط اللہ تعالیٰ کی رحمت پر بھروسہ کر کے گناہوں میں مصروف رہنا درست نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں گناہوں سے سچی توبہ مطلوب ہے اور جو توبہ کرناچھوڑ دے گا تو اس کے لئے بڑی وعید ہے ۔
وَ اتَّبِعُوْۤا اَحْسَنَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَّ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(55)اَنْ تَقُوْلَ نَفْسٌ یّٰحَسْرَتٰى عَلٰى مَا فَرَّطْتُّ فِیْ جَنْۢبِ اللّٰهِ وَ اِنْ كُنْتُ لَمِنَ السّٰخِرِیْنَ(56)اَوْ تَقُوْلَ لَوْ اَنَّ اللّٰهَ هَدٰىنِیْ لَكُنْتُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ(57)اَوْ تَقُوْلَ حِیْنَ تَرَى الْعَذَابَ لَوْ اَنَّ لِیْ كَرَّةً فَاَكُوْنَ مِنَ الْمُحْسِنِیْنَ(58)
ترجمہ: کنزالعرفان
اورتمہارے رب کی طرف سے جو بہترین چیزتمہاری طرف نازل کی گئی ہے اس کی اس وقت سے پہلے پیروی اختیار کرلو کہ تم پر اچانک عذا ب آجائے اور تمہیں خبر (بھی) نہ ہو۔ ۔ (پھر ایسا نہ ہو) کہ کوئی جان یہ کہے کہ ہائے افسوس ان کوتاہیوں پر جو میں نے اللہ کے بارے میں کیں اور بیشک میں مذاق اڑانے والوں میں سے تھا۔یا کہے :اگر اللہ مجھے ہدایت دیتا تو میں بھی پرہیزگاروں میں سے ہوتا۔ یاجب عذاب دیکھے توکہے :اگر مجھے ایک مرتبہ لوٹنا (نصیب) ہوتا تو میں نیکیاں کرنے والوں میں سے ہوجاتا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اتَّبِعُوْا: اور پیروی کرو۔} اس آیت اور اس کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے لوگو!اس سے پہلے کہ تم پر اچانک عذاب آجائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو، تم وہ کام کرو جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآنِ پاک میں تمہیں حکم دیا ہے اور جس کام سے منع کیا ہے اس سے باز آ جاؤ۔پھر ایسا نہ ہوکہ عذاب دیکھنے کے بعد کوئی جان یہ کہے کہ ہائے افسوس ان کوتاہیوں پر جو میں نے اللہ تعالیٰ کے بارے میں کیں کہ اس کی فرمانبرداری نہ کرسکااور اس کے حق کو نہ پہچانا اور اس کی رضا حاصل کرنے کی فکر نہ کی اور بیشک میں تو اللہ تعالیٰ کے دین کا اور ا س کی کتاب کا مذاق اڑانے والوں میں سے تھا۔ یا کوئی جان یہ کہے کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے اپنا دین قبول کرنے اور اپنی فرمانبرداری کی توفیق دیتا تو میں بھی پرہیزگاروں میں سے ہوتا۔یاجب عذاب دیکھے توکوئی جان یہ کہے :اگر مجھے ایک مرتبہ پھردنیا کی طرف لوٹنانصیب ہوتاتو میں نیکیاں کرنے والوں میں سے ہوجاتا۔(تفسیر طبری، الزّمر، تحت الآیۃ: ۵۵-۵۸، ۱۱ / ۱۸-۲۰، خازن، الزّمر، تحت الآیۃ: ۵۵-۵۸، ۴ / ۶۰-۶۱، ملتقطاً)
بَلٰى قَدْ جَآءَتْكَ اٰیٰتِیْ فَكَذَّبْتَ بِهَا وَ اسْتَكْبَرْتَ وَ كُنْتَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(59)
ترجمہ: کنزالعرفان
ہاں کیوں نہیں ! بیشک تیرے پاس میری آیتیں آئیں تو تُو نے انہیں جھٹلایا اور تکبر کیا اور تو انکار کرنے والوں میں سے ہوگیا۔
تفسیر: صراط الجنان
{بَلٰى: ہاں کیوں نہیں ۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان باطل عذروں کارد کرتے ہوئے گویا کہ ارشاد فرمایا: ’’ہاں کیوں نہیں ! تیرے پاس قرآنِ پاک پہنچا اور حق و باطل کی راہیں تم پر واضح کردی گئیں اور تجھے حق و ہدایت اختیار کرنے کی قدرت بھی دی گئی ، اس کے باوجود تو نے حق کو چھوڑا اور اس کو قبول کرنے سے تکبر کیا ، گمراہی اختیار کی اور جو حکم دیا گیا اس کی ضد و مخالفت کی، تو اب تیرا یہ کہنا غلط ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے راہ دکھاتا تو میں ڈرنے والوں میں سے ہوتا اور تیرے تمام عذرجھوٹے ہیں ۔ (مدارک، الزّمر، تحت الآیۃ: ۵۹، ص۱۰۴۴)
وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ تَرَى الَّذِیْنَ كَذَبُوْا عَلَى اللّٰهِ وُجُوْهُهُمْ مُّسْوَدَّةٌؕ-اَلَیْسَ فِیْ جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْمُتَكَبِّرِیْنَ(60)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور قیامت کے دن تم اللہ پر جھوٹ باندھنے والوں کو دیکھو گے کہ ان کے منہ کالے ہوں گے۔ کیامتکبروں کا ٹھکانہ جہنم میں نہیں ہے
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ تَرَى الَّذِیْنَ كَذَبُوْا عَلَى اللّٰهِ: اور قیامت کے دن تم اللہ پر جھوٹ باندھنے والوں کو دیکھو گے۔} یعنی قیامت کے دن تم ان لوگوں کو دیکھو گے جنہوں نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا اور اللہ تعالیٰ کی شان میں ایسی بات کہی جو اس کے لائق نہیں ،اس کے لئے شریک تجویز کئے ،اولاد بتائی اور اس کی صفات کا انکار کیا، اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ قیامت کے دن ان کے منہ کالے ہوں گے۔ کیاان متکبروں کیلئے جہنم میں ٹھکانہ نہیں ہے جو تکبر کی وجہ سے ایمان نہ لائے؟ یقیناً وہیں ان کا ٹھکانہ ہے۔(مدارک، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۰، ص۱۰۴۴، خازن، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۰، ۴ / ۶۱، ملتقطاً)
وَ یُنَجِّی اللّٰهُ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا بِمَفَازَتِهِمْ٘-لَا یَمَسُّهُمُ السُّوْٓءُ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ(61)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اللہ پرہیزگاروں کو ان کی نجات کی جگہ کے ذریعے بچائے گا۔ نہ انہیں عذاب چھوئے گااور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یُنَجِّی اللّٰهُ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا: اور اللہ پرہیزگاروں کو نجات دے گا۔} اس سے پہلی آیت میں جھٹلانے والوں کا اُخروی حال بیان ہوا اور اس آیت میں پرہیزگار مسلمانوں کا اُخروی حال بیان کیا جا رہا ہے،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ شرک اور گناہوں سے بچنے والوں کو نجات کی جگہ جنت میں بھیج کر تکبر کرنے والوں کے ٹھکانے جہنم سے بچا لے گا اور ان کا حال یہ ہو گا کہ نہ ان کے جسموں کو عذاب چھوئے گا اور نہ ان کے دلوں کو غم پہنچے گا۔(روح البیان، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۱، ۸ / ۱۳۰-۱۳۱، ملتقطاً)
جہنم کے عذاب سے نجات کا سبب اور تقویٰ کے فضائل
اس آیت سے معلوم ہو اکہ دنیا میں پرہیز گاری اختیار کرنا یعنی کفر و شرک اور گناہوں سے بچناقیامت کے دن جہنم کے عذاب سے نجات پانے کا بہت بڑا سبب ہے ۔اسی سے متعلق ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
’’وَ لَوْ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَمَثُوْبَةٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ خَیْرٌؕ-لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ‘‘(بقرہ:۱۰۳)
ترجمہ ٔکنزُالعِرفان: اور اگر وہ ایمان لاتے اور پرہیزگاری اختیارکرتے تو اللہ کے یہاں کا ثواب بہت اچھا ہے، اگر یہ جانتے۔
اور ارشاد فرماتا ہے :
’’مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَؕ-تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُؕ-اُكُلُهَا دَآىٕمٌ وَّ ظِلُّهَاؕ-تِلْكَ عُقْبَى الَّذِیْنَ اتَّقَوْا ﳓ وَّ عُقْبَى الْكٰفِرِیْنَ النَّارُ‘‘(رعد:۳۵)
ترجمہ ٔکنزُالعِرفان: جس جنت کا پرہیزگاروں سے وعدہ کیا گیا ہے اس کا حال یہ ہے کہ اس کے نیچے نہریں جاری ہیں ،اس کے پھل اور اس کا سایہ ہمیشہ رہنے والا ہے۔یہ پرہیزگاروں کا انجام ہے اور کافروں کا انجام آ گ ہے۔
اور ارشاد فرماتا ہے : ’’وَ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَاۚ-كَانَ عَلٰى رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِیًّاۚ(۷۱) ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ نَذَرُ الظّٰلِمِیْنَ فِیْهَا جِثِیًّا‘‘(مریم:۷۱،۷۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور تم میں سے ہرایک دوزخ پر سے گزرنے والاہے۔یہ تمہارے رب کے ذمہ پر حتمی فیصلہ کی ہوئی بات ہے۔ پھر ہم ڈر نے والوں کو بچالیں گے اور ظالموں کو اس میں گھٹنوں کے بل گرے ہوئے چھوڑ دیں گے۔
لہٰذا جو کافر ہے تو اسے چاہئے کہ ایمان لائے اور ہر مومن کو چاہئے کہ وہ گناہوں سے بچے اور نیک اعمال کرے تاکہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی رحمت سے اسے جہنم کے عذاب سے نجات ملے اور جنت میں داخلہ نصیب ہو۔ ترغیب کے لئے تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرنے کے 15 فضائل ملاحظہ ہوں :
(1)…اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عزت والاوہ ہے جو متقی ہے ۔(حجرات:۱۳)
(2)…اللہ تعالیٰ متقی لوگوں کے ساتھ ہے ۔(بقرہ:۱۹۴)
(3)…اللہ تعالیٰ متقی لوگوں کو پسند فرماتا ہے ۔(اٰل عمران:۷۶)
(4)…جنت متقی لوگوں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔(اٰل عمران:۱۳۳)
(5)…قیامت کے دن متقی لوگوں کو مہمان بنا کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر کیا جا ئے گا۔(مریم:۸۵)
(6)…متقی لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے پاس نعمتوں والی جنتیں ہیں ۔ (قلم:۳۴)
(7)…اللہ تعالیٰ متقی لوگوں کا مددگار ہے۔(جاثیہ:۱۹)
(8)…متقی لوگ قیامت کے دن ایک دوسرے کے دوست ہوں گے۔ (زخرف:۶۷)
(9)…متقی لوگ امن والے مقام میں ہوں گے ۔(دخان:۵۱)
(10)…آخرت کا اچھا انجام متقی لوگوں کے لئے ہے۔(ہود:۵۱)
(11)…تقویٰ فضیلت حاصل ہونے کا سبب ہے ۔(معجم الاوسط، باب العین، من اسمہ: عبد الرحمٰن، ۳ / ۳۲۹، الحدیث: ۴۷۴۹)
(12)…تقویٰ بہترین زادِ راہ ہے۔(کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، الباب الاول، الفصل الثانی، ۲ / ۴۱، الجزء الثالث، الحدیث: ۵۶۳۲)
(13)…جسے تقویٰ عطا کیا گیا اسے دین ودنیا کی بہترین چیز دی گئی۔(کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، الباب الاول، الفصل الثانی، ۲ / ۴۱، الجزء الثالث، الحدیث: ۵۶۳۸)
(14)…تقویٰ آخرت کا شرف ہے۔ (مسند الفردوس، باب الشین، ۲ / ۳۵۸، الحدیث: ۳۶۰۰)
(15)…متقی لوگ سردار ہیں ۔(کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، الباب الاول، الفصل الثانی، ۲ / ۴۱، الجزء الثالث، الحدیث: ۵۶۵۰)
اللہ تعالیٰ ہمیں تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے کرم سے ہمیں جہنم کے عذاب سے بچائے ،اٰمین۔
اَللّٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَیْءٍ٘-وَّ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ وَّكِیْلٌ(62)
ترجمہ: کنزالعرفان
اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور وہ ہرچیز پر نگہبان ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَللّٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَیْءٍ: اللہ ہر چیز کا خالق ہے۔} ارشاد فرمایاکہ اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں ہونے والی ہر چیز کا خالق ہے اور وہ ہر چیز میں جیسے چاہے تَصَرُّف فرماتا ہے۔( خازن، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۲، ۴ / ۶۱، جلالین، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۲، ص۳۸۹)
حاجات پوری ہونے اور مَصائب دور ہونے سے متعلق ایک مفید وظیفہ
جس شخص کو آندھی،آسمانی بجلی یا کسی اور چیز سے نقصان پہنچنے کا ڈر ہو یا وہ تنگدستی کا شکار ہو تو اسے چاہئے کہ کثرت سے ’’یَا وَکِیْلُ‘‘ پڑھا کرے، اس سے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ حاجتیں پوری ہوں گی،مصیبتیں دور ہوں گی اور پڑھنے والے کے لئے رزق اور بھلائی کے دروازے کھلیں گے ۔( روح البیان، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۲، ۸ / ۱۳۱، ملخصاً)
لَهٗ مَقَالِیْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ(63)
ترجمہ: کنزالعرفان
آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اسی کی ملکیت میں ہیں اور جنہوں نے اللہ کی آیتوں کا انکار کیا وہی نقصان اٹھانے والے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{لَهٗ مَقَالِیْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ: آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اسی کی ملکیت میں ہیں ۔} یعنی رحمت، رزق اور بارش وغیرہ کے خزانوں کی کنجیاں اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں ، وہی اُن کا مالک ہے ۔روایت ہے کہ حضرت عثمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اس آیت کی تفسیر دریافت کی تو ارشادفرمایا کہ’’زمین و آسمان کی کنجیاں یہ ہیں : ’’لَااِلٰـہَ اِلَّا اللہ وَاللہ اَکْبَرُ وَسُبحْانَ اللہ وَبِحَمْدِہٖ وَاَسْتَغْفِرُ اللہ وَلَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہ وَھُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَ الظَّاھِرُ وَ الْبَاطِنُ بِیَدِہِ الْخَیْرُ یُحْیِیْ وَ یُمِیْتُ وَ ھُوَعَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر۔ مراد یہ ہے کہ ان کلمات میں اللہ تعالیٰ کی توحید اور تمجید ہے، یہ آسمان و زمین کی بھلائیوں کی کنجیاں ہیں ، جس مومن نے یہ کلمات پڑھے تو وہ دونوں جہاں کی بہتری پائے گا۔( جلالین، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۳، ص۳۸۹، مدارک، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۳، ص۱۰۴۵، ملتقطاً)
زمین کے خزانوں کی کنجیاں حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بھی عطا ہوئی ہیں
یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کے خزانوں کی کنجیاں اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بھی عطا فرمائی ہیں ،چنانچہ حضرت عقبہ بن عامر فرماتے ہیں کہ ایک دن تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ شہدائے اُحد پر نماز پڑھنے کے لئے تشریف لے گئے جیسے میت پر نماز پڑھی جاتی ہے،پھر منبر پر جلوہ افروز ہو کر فرمایا’’میں تمہارا پیش رَو ہوں اور میں تم پر گواہ ہوں اور بے شک خدا کی قسم! میں اپنے حوض کو اب بھی دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں یا (یہ فرمایا کہ مجھے) زمین کی کنجیاں عطا فرما دی گئی ہیں اور بے شک خدا کی قسم ! مجھے تمہارے متعلق یہ ڈر نہیں کہ میرے بعد شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے اندیشہ ہے کہ تم دنیا کی محبت میں پھنس جاؤ گے۔( بخاری، کتاب الجنائز، باب الصّلاۃ علی الشہید، ۱ / ۴۵۲، الحدیث: ۱۳۴۴)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کیا خوب فرماتے ہیں
اِن کے ہاتھ میں ہر کنجی ہے مالکِ کُل کہلاتے یہ ہیں
{وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ: اور جنہوں نے اللہ کی آیتوں کا انکار کیا۔} یعنی جب ہر چیز کا خالق اللہ تعالیٰ ہے، وہی ہر چیز پر نگہبان ہے،آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اسی کی ملکیت میں ہیں اور کفار ان چیزوں کو تسلیم بھی کرتے ہیں تو ان پر لازم تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت کو تسلیم کریں ، اس لئے یہاں فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت و شان کا اقرار کرنے کے باوجود جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت اور جزا و سزا کے مضمون پر مشتمل آیات کا انکار کیا وہی نقصان اٹھائیں گے کیونکہ انہوں نے ثواب کے مقابلے میں سزا کو اختیار کیا اور کفر و نفاق کی چابی سے اپنے آپ کے لئے عذاب کے دروازے کھول لئے۔
اس آیت سے معلوم ہو اکہ کفار ہی در اصل نقصان اٹھانے والے ہیں اور یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ جو شخص کافر نہیں اسے اللہ تعالیٰ کی رحمت میں سے کچھ حصہ ضرور ملے گا۔(تفسیرکبیر، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۳، ۹ / ۴۷۱)
قُلْ اَفَغَیْرَ اللّٰهِ تَاْمُرُوْٓنِّیْۤ اَعْبُدُ اَیُّهَا الْجٰهِلُوْنَ(64)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ: اے جاہلو! کیا تم مجھے اس بات کاحکم دیتے ہو کہ میں اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت کروں ؟
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ: تم فرماؤ۔} مشرکین نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا کہ آپ ہمارے بعض معبودوں کی عبادت کریں تو ہم آپ کے معبود پر ایمان لے آئیں گے۔اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان کفارِ قریش سے فرما دیں جو آپ کو اپنے آباؤ اَجداد کے دین یعنی بت پرستی کی طرف بلاتے ہیں کہ اے جاہلو! دلائل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت کا حق ہونا اور کفر و شرک کا باطل ہونا ثابت ہو جانے کے باوجود کیا مجھے یہ کہتے ہو کہ میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی عبادت کروں ؟انہیں جاہل اس لئے فرمایاگیا کہ اس سے پہلے حقیقی معبود کے یہ اوصاف بیان ہوئے کہ وہ ہر چیز کا خالق ہے اور آسمان و زمین کے خزانوں کی چابیاں اسی کے پاس ہیں اور یہ بات ظاہر ہے کہ بتوں کا تعلق جمادات سے ہے اور وہ کوئی نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتے اور جو شخص اتنے مقدس اور عظمت والے اوصاف سے مَوصوف معبود کی عبادت سے منہ پھیر کر ان بے جان جسموں کی عبادت میں مشغول ہو تو وہ بہت بڑا جاہل ہے (اور ا س کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت کے عَلمبردار کو بھی اس جھوٹی عبادت کی طرف بلانا اس سے بڑی جہالت ہے) اس لئے یہاں انہیں جاہل فرمایا گیا۔( تفسیرکبیر، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۴، ۹ / ۴۷۱-۴۷۲، خازن، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۴، ۴ / ۶۲، روح البیان، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۴، ۸ / ۱۳۲، ملتقطاً)
وَ لَقَدْ اُوْحِیَ اِلَیْكَ وَ اِلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكَۚ-لَىٕنْ اَشْرَكْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَ لَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(65)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک تمہاری طرف اور تم سے اگلوں کی طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ (اے ہر سننے والے مخاطب!) اگر تو نے شرک کیا تو ضرور تیراہر عمل برباد ہوجائے گا اور ضرور توخسارہ پانے والوں میں سے ہوجائے گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ اُوْحِیَ اِلَیْكَ وَ اِلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكَ: اور بیشک تمہاری طرف اور تم سے اگلوں کی طرف یہ وحی کی گئی ہے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بیشک آپ کی طرف اور آپ سے پہلے رسولوں کی طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ اگر بالفرض تم نے اللہ تعالیٰ کا شریک کیا تو ضرور تمہاراہر عمل برباد ہوجائے گا اور ضرور تم خسارہ پانے والوں میں سے ہوجاؤگے ۔
اس آیت میں خطاب اگرچہ حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہے لیکن مراد سننے والے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو (اور تمام انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو) شرک سے معصوم فرمایا ہے۔(خازن، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۵، ۴ / ۶۲، جلالین، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۵، ص۳۹۰، ملتقطاً)
یا اس آیت میں ایک ناممکن چیز کو نا ممکن چیز پر مَوقوف کیا گیا ہے،جیسے اس آیت میں ہے:
’’قُلْ اِنْ كَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌ ﳓ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِیْنَ‘‘(زخرف:۸۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم فرماؤ: (ایک ناممکن بات کو فرض کرکے کہتا ہوں کہ) اگر رحمٰن کے کوئی بیٹاہوتا تو سب سے پہلے میں (اس کی) عبادت کرنے والا ہوتا۔
بَلِ اللّٰهَ فَاعْبُدْ وَ كُنْ مِّنَ الشّٰكِرِیْنَ(66)
ترجمہ: کنزالعرفان
بلکہ اللہ ہی کی بندگی کر اور شکر گزاروں میں سے ہوجا۔
تفسیر: صراط الجنان
{بَلْ: بلکہ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مشرکین جو آپ کو بتوں کی پوجا کرنے کا کہتے ہیں آپ ان کی بات کی طرف توجہ نہ دیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کی بندگی کرتے رہیں اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے جو نعمتیں آپ کو عطا فرمائی ہیں ، اللہ تعالیٰ کی عبادت بجالا کر ان کی شکر گزاری کرتے رہیں ۔( روح البیان، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۶، ۸ / ۱۳۳، ملخصاً)
وَ مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ ﳓ وَ الْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ السَّمٰوٰتُ مَطْوِیّٰتٌۢ بِیَمِیْنِهٖؕ-سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ(67)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور انہوں نے اللہ کی قدر نہ کی جیسا اس کی قدر کرنے کا حق تھا اور قیامت کے دن ساری زمین اس کے قبضے میں ہوگی اور اس کی قدرت سے تمام آسمان لپیٹے ہوئے ہوں گے اوروہ ان کے شرک سے پاک اوربلند ہے
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ: اور انہوں نے اللہ کی قدر نہ کی جیسا اس کی قدر کرنے کا حق تھا۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جو مشرکین آپ کو بتوں کی پوجا کرنے کی دعوت دے رہے ہیں انہوں نے اللہ تعالیٰ کی ویسی قدر نہ کی جیسی اس کی قدر کرنے کا حق تھا،اسی وجہ سے وہ شرک میں مبتلا ہوئے، اگر وہ عظمت ِالٰہی سے واقف ہوتے اور اس کا مرتبہ پہچانتے تو ایسا کیوں کرتے!اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی عظمت و جلال بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ قیامت کے دن ساری زمین اس کے قبضے میں ہوگی اور اس دن کوئی بھی زمین کے کسی حصے پر اپنی ظاہری مِلکیَّت کا دعویٰ نہ کر سکے گااور اس کی قدرت سے تمام آسمان لپیٹے ہوئے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کافروں کے شرک سے پاک اوربلند ہے۔( تفسیر طبری، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۷، ۱۱ / ۲۳-۲۷، روح البیان، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۷، ۸ / ۱۳۴-۱۳۵، ملتقطاً)
یہاں آیت کے اس حصے سے متعلق ایک حدیثِ پاک ملاحظہ ہو،چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ آسمان کو لپیٹ کر اپنے دست ِقدرت میں لے گا ،پھر فرمائے گا’’ میں ہوں بادشاہ۔ کہاں ہیں جَبّار؟کہاں ہیں مُتکَبِّر؟ ملک و حکومت کے دعویدار؟ پھر زمینوں کو لپیٹ کر اپنے دوسرے دست ِقدرت میں لے گا اور یہی فرمائے گا ’’میں ہوں بادشاہ، کہاں ہیں زمین کے بادشاہ؟( بخاری، کتاب التوحید، باب قول اللّٰہ تعالی: مالک النّاس، ۴ / ۵۳۳، الحدیث: ۷۳۸۲، مسلم، کتاب صفۃ القیامۃ و الجنۃ والنار، ص۱۴۹۹، الحدیث: ۲۴(۲۷۸۸))
وَ نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰهُؕ-ثُمَّ نُفِخَ فِیْهِ اُخْرٰى فَاِذَا هُمْ قِیَامٌ یَّنْظُرُوْنَ(68)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور صُور میں پھونک ماری جائے گی تو جتنے آسمانوں میں ہیں اور جتنے زمین میں ہیں سب بیہوش ہو جائیں گے مگر جسے اللہ چاہے پھر اس میں دوسری بار پھونک ماری جائے گی تواسی وقت وہ دیکھتے ہوئے کھڑے ہوجائیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ نُفِخَ فِی الصُّوْرِ: اور صُور میں پھونک ماری جائے گی۔} آیت کے اس حصے میں پہلی بار صور پھونکنے کا بیان ہے، اس سے جو بے ہوشی طاری ہوگی اس کا یہ اثر ہوگا کہ فرشتوں اور زمین والوں میں سے اس وقت جو لوگ زندہ ہوں گے اوران پر موت نہ آئی ہوگی تو وہ اس سے مرجائیں گے اور وہ بزرگ ہستیاں جنہیں ان کی دُنْیَوی موت کے بعد پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں زندگی عنایت کی ہوئی ہے اوروہ اپنی قبروں میں زندہ ہیں جیسے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور شہداء، ان پر اُس نَفخہ سے بے ہوشی کی سی کیفِیَّت طاری ہوگی۔(جمل، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۸، ۶ / ۴۴۷) اور جو لوگ قبروں میں مرے پڑے ہیں انہیں اس نفخہ کا شعور بھی نہ ہوگا۔
{اِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰهُ: مگر جسے اللہ چاہے۔} یعنی پہلی مرتبہ صور پھونکنے کے بعد آسمانوں میں اور زمین پر موجود تمام فرشتے اور جاندار مر جائیں گے البتہ جسے اللہ تعالیٰ چاہے گا اُسے اُس وقت موت نہ آئے گی۔ اس اِستثناء میں کون کون داخل ہے اس بارے میں مفسرین کے بہت سے اَقوال ہیں ،ان میں سے4قول درج ذیل ہیں :
پہلا قول: حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ بے ہوشی کے نَفخہ سے حضرت جبریل، حضرت میکائیل، حضرت اسرافیل اور حضرت مَلکُ الموت عَلَیْہِمُ السَّلَام کے علاوہ تمام آسمان اور زمین والے مرجائیں گے ، پھر اللہ تعالیٰ پہلے اور دوسرے نَفخہ کے درمیان جو چالیس برس کی مدت ہے اس میں اُن فرشتوں کو بھی موت دے گا۔
دوسرا قول یہ ہے کہ جنہیں پہلے نَفخہ سے موت نہیں آئے گی ان سے مراد شہداء ہیں جن کے لئے قران مجید میں ’’بَلْ اَحْیَآءٌ‘‘ آیا ہے ۔ حدیث شریف میں بھی ہے کہ وہ شہداء ہیں جو تلواریں حمائل کئے عرش کے گرد حاضر ہوں گے۔
تیسرا قول :حضرت جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ اس وقت جنہیں موت نہیں آئے گی وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں ، چونکہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوہِ طور پر بے ہوش ہوچکے ہیں اس لئے پہلی مرتبہ صور پھونکنے سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بے ہوش نہ ہوں گے بلکہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بیدار اور ہوشیارر ہیں گے ۔
چوتھا قول یہ ہے کہ پہلی بار صور پھونکے جانے کے وقت جنہیں موت نہ آئے گی وہ جنت کی حوریں اور عرش و کرسی کے رہنے والے ہیں ۔حضرت ضحاک رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا قول ہے کہ مُستَثنیٰ رضوانِ جنت، حوریں ، وہ فرشتے جو جہنم پر مامور ہیں اور جہنم کے سانپ، بچھو ہیں ۔( تفسیرکبیر، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۸، ۹ / ۴۷۶، جمل، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۸، ۶ / ۴۴۹-۴۵۰، قرطبی، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۸، ۸ / ۲۰۴، الجزء الخامس عشر، ملتقطاً)
{ثُمَّ نُفِخَ فِیْهِ اُخْرٰى: پھر اس میں پھونک ماری جائے گی۔} آیت کے اس حصے میں دوسری بار صور پھونکے جانے کا بیان ہے جس سے مردے زندہ کئے جائیں گے ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ پھردوسری مرتبہ صور میں پھونک ماری جائے گی تواسی وقت وہ دیکھتے ہوئے اپنی قبروں سے زندہ ہوکرکھڑے ہوجائیں گے۔
دیکھتے ہوئے کھڑے ہونے سے یا تو یہ مراد ہے کہ وہ حیرت میں آکر مَبہوت شخص کی طرح ہر طرف نگاہیں اُٹھا اُٹھا کر دیکھیں گے یا یہ معنی ہیں کہ وہ یہ دیکھتے ہوں گے کہ اب انہیں کیا معاملہ پیش آئے گا ۔اس وقت مومنین کی قبروں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت سے سواریاں حاضر کی جائیں گی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے،چنانچہ ارشاد فرمایا:
’’یَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِیْنَ اِلَى الرَّحْمٰنِ وَفْدًا‘‘(مریم:۸۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: یاد کرو جس دن ہم پرہیزگاروں کو رحمٰن کی طرف مہمان بناکرلے جائیں گے۔
جبکہ کفار کو پیدل ہی ہانکا جائے گا،جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَ نَسُوْقُ الْمُجْرِمِیْنَ اِلٰى جَهَنَّمَ وِرْدًا‘‘(مریم:۸۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور مجرموں کو جہنم کی طرف پیاسے ہانکیں گے۔( تفسیرکبیر، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۸، ۹ / ۴۷۷، جمل، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۸، ۶ / ۴۴۹، ملتقطًا)
وَ اَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّهَا وَ وُضِعَ الْكِتٰبُ وَ جِایْٓءَ بِالنَّبِیّٖنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ قُضِیَ بَیْنَهُمْ بِالْحَقِّ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ(69)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور زمین اپنے رب کے نور سے جگمگا اٹھے گی اورکتاب رکھی جائے گی اور انبیاء اور گواہی دینے والے لائے جائیں گے اور لوگوں میں سچا فیصلہ فرمادیا جائے گا اور ان پر ظلم نہ ہوگا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّهَا: اور زمین اپنے رب کے نور سے جگمگا اٹھے گی۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کے5 اَحوال بیان فرمائے ہیں ،ان کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
(1)…قیامت کے دن زمین اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے نور سے بہت تیز روشنی کے ساتھ جگمگا اٹھے گی یہاں تک کہ سرخی کی جھلک نمودار ہوگی، اور یہ زمین دنیا کی زمین نہ ہوگی بلکہ نئی ہی زمین ہوگی جسے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کے لئے پیدا فرمائے گا، جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ‘‘(ابراہیم:۴۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: یاد کروجس دن زمین کو دوسری زمین سے بدل دیا جائے گا۔
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ اس آیت میں جس نور کا ذکر ہے یہ چاند ، سورج کا نور نہ ہوگا بلکہ یہ اور ہی نور ہوگاجسے اللہ تعالیٰ پیدا فرمائے گا اور اس سے زمین روشن ہوجائے گی۔
(2)… حساب کے لئے اَعمال کی کتاب رکھی جائے گی۔ اِس کتاب سے مراد یا تو لوحِ محفوظ ہے کہ جس میں قیامت تک ہونے والے دنیا کے تمام اَحوال اپنی مکمل تفصیلات کے ساتھ لکھے ہوئے ہیں یا اس سے ہر شخص کا اعمال نا مہ مراد ہے جو اس کے ہاتھ میں ہوگا،جیساکہ ایک اور مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَ كُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ طٰٓىٕرَهٗ فِیْ عُنُقِهٖؕ-وَ نُخْرِ جُ لَهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ كِتٰبًا یَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا‘‘(بنی اسرائیل:۱۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہر انسان کی قسمت ہم نے اس کے گلے میں لگادی ہے اورہم اس کیلئے قیامت کے دن ایک نامہ اعمال نکالیں گے جسے وہ کھلا ہوا پائے گا۔
اور مجرموں کا قول نقل کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’مَالِ هٰذَا الْكِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَةً وَّ لَا كَبِیْرَةً اِلَّاۤ اَحْصٰىهَا‘‘(کہف:۴۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اس نامہ اعمال کو کیاہے کہ اس نے ہر چھوٹے اور بڑے گناہ کو گھیرا ہوا ہے۔
(3)… انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو لایا جائے گا تاکہ وہ لوگوں پر گواہی دیں ۔ان کے بارے میں ایک اور مقام پر ارشادفرمایا گیا: ’’فَكَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۭ بِشَهِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ شَهِیْدًا‘‘(النساء:۴۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو کیسا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور اے حبیب! تمہیں ان سب پر گواہ اور نگہبان بناکر لائیں گے۔
(4)…گواہی دینے والے لائے جائیں گے جو رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تبلیغ کی گواہی دیں گے ۔اس سے متعلق ایک اور مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ‘‘(البقرہ:۱۴۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اسی طرح ہم نے تمہیں بہترین امت بنایا تا کہ تم لوگوں پر گواہ بنو۔
(5)…قیامت کے دن لوگوں میں سچا فیصلہ فرمادیا جائے گا اور ان کے ثواب میں کمی کر کے یا عذاب میں زیادتی کر کے ان پر کوئی ظلم نہ ہوگا۔(جمل، الزّمر، تحت الآیۃ:۶۹، ۶ / ۴۵۰-۴۵۱، تفسیرکبیر، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۹، ۹ / ۴۷۷-۴۷۸، روح البیان، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۹، ۸ / ۱۴۰، ملتقطاً)
وَ وُفِّیَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَا یَفْعَلُوْنَ(70)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہر جان کو اس کے اعمال کا بھرپور بدلہ دیا جائے گا اوروہ (اللہ ) خوب جانتا ہے جو لوگ کرتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ وُفِّیَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ: اور ہر جان کو اس کے اعمال کا بھرپور بدلہ دیا جائے گا۔} یعنی قیامت کے دن ہر جان کو اس کے اچھے یا برے تما م اعمال کا بھرپور بدلہ دیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ ان اعمال کوخوب جانتا ہے جو لوگ کرتے ہیں ، اس سے کچھ مخفی نہیں اورنہ اسے گواہ اور لکھنے والے کی حاجت ہے بلکہ یہ سب لوگوں پر حجت تمام کرنے کیلئے ہوں گے۔(روح البیان، الزّمر، تحت الآیۃ: ۷۰، ۸ / ۱۴۰-۱۴۱، جمل، الزّمر، تحت الآیۃ: ۷۰، ۶ / ۴۵۱، ملتقطاً)
گناہ گاروں کے لئے عبرت اور نصیحت:
اس آیت ِمبارکہ میں خاص طور پر ان لوگوں کے لئے بڑی عبرت اور نصیحت ہے جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں اور گناہوں میں مصروف ہیں ،انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ قیامت کے دن سے زیادہ طویل دن اور کوئی نہیں ،اس دن سے زیادہ ہَولْناک دن اور کوئی نہیں اور اس دن اعمال کا حساب لئے جانے کے مرحلے سے زیادہ خطرناک مرحلہ اور کوئی نہیں ،اس دن کی دہشت ، شدت اور ہَولْناکی بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’فَكَیْفَ اِذَا جَمَعْنٰهُمْ لِیَوْمٍ لَّا رَیْبَ فِیْهِ۫-وَ وُفِّیَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ‘‘(اٰل عمران:۲۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو کیسی حالت ہوگی جب ہم انہیں اس دن کے لئے اکٹھا کریں گے جس میں کوئی شک نہیں اور ہر جان کو اس کی پوری کمائی دی جائے گی اور ان پر ظلم نہ ہوگا۔
اور ارشاد فرماتا ہے : ’’فَكَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۭ بِشَهِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ شَهِیْدًا یَوْمَىٕذٍ یَّوَدُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ عَصَوُا الرَّسُوْلَ لَوْ تُسَوّٰى بِهِمُ الْاَرْضُؕ-وَ لَا یَكْتُمُوْنَ اللّٰهَ حَدِیْثًا‘‘(سورۃ نساء:۴۱، ۴۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو کیسا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور اے حبیب! تمہیں ان سب پر گواہ اور نگہبان بناکر لائیں گے۔اس دن کفار اور رسول کی نافرمانی کرنے والے تمنا کریں گے کہ کاش انہیں مٹی میں دبا کر زمین برابر کردی جائے اور وہ کوئی بات اللہ سے چھپانہ سکیں گے۔
لہٰذا ا س نصیحت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہر گناہگار کو چاہئے کہ وہ اپنے گناہوں سے باز آ جائے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے تمام گناہوں سے سچی توبہ کر لے تاکہ قیامت کے دن گناہوں کی سزا سے بچ سکے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں گناہوں سے بچنے،سابقہ گناہوں سے سچی توبہ کرنے اور نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
وَ سِیْقَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى جَهَنَّمَ زُمَرًاؕ-حَتّٰۤى اِذَا جَآءُوْهَا فُتِحَتْ اَبْوَابُهَا وَ قَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَاۤ اَلَمْ یَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ یَتْلُوْنَ عَلَیْكُمْ اٰیٰتِ رَبِّكُمْ وَ یُنْذِرُوْنَكُمْ لِقَآءَ یَوْمِكُمْ هٰذَاؕ-قَالُوْا بَلٰى وَ لٰـكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ(71)قِیْلَ ادْخُلُوْۤا اَبْوَابَ جَهَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۚ-فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِیْنَ(72)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور کافروں کو گروہ در گروہ جہنم کی طرف ہانکا جائے گا یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے تو جہنم کے دروازے کھولے جائیں گے اور اس کے داروغہ ان سے کہیں گے: کیا تمہارے پاس تمہیں میں سے وہ رسول نہ آئے تھے جو تم پر تمہارے رب کی آیتیں پڑھتے تھے اور تمہیں تمہارے اِس دن کی ملاقات سے ڈراتے تھے؟ وہ کہیں گے: کیوں نہیں مگر عذاب کا قول کافروں پر ثابت ہوگیا۔ کہاجائے گا:جہنم کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ،اس میں ہمیشہ رہنا ہے، تو متکبروں کاکیا ہی برا ٹھکانہ ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ سِیْقَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى جَهَنَّمَ زُمَرًا: اور کافروں کو گروہ در گروہ جہنم کی طرف ہانکا جائے گا۔} قیامت کے دن کے چند اَحوال بیان کرنے کے بعد اس آیت سے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا حال بیان کیا ہے جوعذاب میں مبتلا ہوں گے۔ چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن کافروں کو سختی کے ساتھ قیدیوں کی طرح جہنم کی طرف ہانکا جائے گا اور ان کی ہر ہر جماعت اور اُمت علیحدہ علیحدہ ہو گی، یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے تو جہنم کے ساتوں دروازے کھولے جائیں گے جو پہلے سے بند تھے اور جہنم کے داروغہ ڈانٹتے ہوئے ان سے کہیں گے: کیا تمہارے پاس تمہیں میں سے وہ رسول نہ آئے تھے جو تمہارے سامنے تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی آیتیں پڑھتے تھے اور تمہیں تمہارے اِس دن کی ملاقات سے ڈراتے تھے؟ وہ کہیں گے: کیوں نہیں !بے شک انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تشریف بھی لائے اور اُنہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکام بھی سنائے اور اُس دن سے بھی ڈرایا مگر عذاب کا قول کافروں پر ثابت ہوگیا کہ ہم پر ہماری بدنصیبی غالب ہو ئی اور ہم نے گمراہی اختیار کی اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق جہنم میں بھرے گئے۔ان کافروں سے کہاجائے گا:تم جہنم کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ اور تم ہمیشہ کے لئے جہنم میں رہو گے اور کسی طرح اس سے نکل نہ سکو گے۔ (اے لوگو! دیکھ لو کہ) ایمان اور اطاعت سے تکبر کرنے والوں کاکیا ہی برا ٹھکانہ ہے۔(تفسیرکبیر، الزّمر، تحت الآیۃ: ۷۱-۷۲، ۹ / ۴۷۸، خازن، الزّمر، تحت الآیۃ: ۷۱-۷۲، ۴ / ۶۳، مدارک، الزّمر، تحت الآیۃ: ۷۱-۷۲، ص۱۰۴۷، روح البیان، الزّمر، تحت الآیۃ: ۷۱-۷۲، ۸ / ۱۴۲-۱۴۳، ملتقطاً)
وَ سِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ اِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًاؕ-حَتّٰۤى اِذَا جَآءُوْهَا وَ فُتِحَتْ اَبْوَابُهَا وَ قَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْهَا خٰلِدِیْنَ(73)وَ قَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَهٗ وَ اَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَتَبَوَّاُ مِنَ الْجَنَّةِ حَیْثُ نَشَآءُۚ-فَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَ(74)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اپنے رب سے ڈرنے والوں کو گروہ درگروہ جنت کی طرف چلایا جائے گا یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے اور اس کے دروازے کھلے ہوئے ہوں گے اور اس کے داروغے ان سے کہیں گے: تم پر سلام ہو،تم پاکیزہ رہے تو ہمیشہ رہنے کوجنت میں جاؤ۔ اور وہ کہیں گے سب خوبیاں اس اللہ کیلئے ہیں جس نے اپنا وعدہ ہم سے سچا کیا اور ہمیں اِس زمین کا وارث کیا ،ہم جنت میں جہاں چاہیں رہیں گے تو کیا ہی اچھا اجر ہے عمل کرنے والوں کا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ سِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ اِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا: اور اپنے رب سے ڈرنے والوں کو گروہ درگروہ جنت کی طرف چلایا جائے گا۔} اس سے پہلے عذاب پانے والوں کا حال بیان کیا گیا اور اب اس آیت سے ثواب پانے والوں کے احوال بیا ن کئے جا رہے ہیں ،چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے ڈرنے والوں کو عزت و احترام اور لطف و کرم کے ساتھ سواریوں پر گروہ درگروہ جنت کی طرف چلایا جائے گا یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے تو اُن کی عزت و احترام کے لئے جنت کے دروازے پہلے سے ہی کھلے ہوئے ہوں گے اورجنت کے دروازے آٹھ ہیں ۔
حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے مروی ہے کہ جنت کے دروازے کے قریب ایک درخت ہے، اس کے نیچے سے دو چشمے نکلتے ہیں ،مومن وہاں پہنچ کر ایک چشمہ میں غسل کرے گا تواس سے اس کا جسم پاک و صاف ہوجائے گا اور دوسرے چشمہ کا پانی پئے گا تواس سے اس کا باطن پاکیزہ ہوجائے گا،پھر فرشتے جنت کے دروازے پر استقبال کریں گے اور جنت کے خازن ان سے کہیں گے: تم پر سلام ہو،تم پاکیزہ رہے تو ہمیشہ رہنے کوجنت میں جاؤ۔(تفسیرکبیر، الزّمر، تحت الآیۃ: ۷۳، ۹ / ۴۷۹-۴۸۰، خازن، الزّمر، تحت الآیۃ: ۷۳، ۴ / ۶۳-۶۴، ملتقطاً)
{وَ قَالُوْا: اور وہ کہیں گے۔} یعنی اہلِ جنت کہیں گے کہ سب خوبیاں اس اللہ تعالیٰ کیلئے ہیں جس نے اپنا جنت کا وعدہ ہم سے سچا کیا اور ہمیں جنت کی زمین کا وارث کیا تاکہ ہم اس میں جیسے چاہیں تَصَرُّف کریں اورہم اپنی جنت میں جہاں چاہیں رہیں ،لہٰذا دنیا میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والوں کا آخرت میں کیا ہی اچھا اجر ہے۔( خازن، الزّمر، تحت الآیۃ: ۷۴، ۴ / ۶۴، ملخصاً)
وَ تَرَى الْمَلٰٓىٕكَةَ حَآفِّیْنَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْۚ-وَ قُضِیَ بَیْنَهُمْ بِالْحَقِّ وَ قِیْلَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(75)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور تم فرشتوں کو دیکھو گے کہ ہرطرف سے عرش کو گھیرے ہوئے اپنے رب کی تعریف کے ساتھ اس کی پاکی بیان کررہے ہیں اور لوگوں میں سچا فیصلہ فرمادیا جائے گا اور کہا جائے گا : تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جوتمام جہانوں کا پالنے والاہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ تَرَى الْمَلٰٓىٕكَةَ: اور تم فرشتوں کو دیکھو گے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ فرشتوں کو دوبارہ زندہ فرمائے گا تو آپ دیکھیں گے کہ فرشتے ہرطرف سے عرش کو گھیرے ہوئے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی تعریف کے ساتھ ا س کی پاکی بیان کررہے ہیں اور قیامت کے دن لوگوں میں سچا فیصلہ فرمادیا جائے گا کہ مومنوں کو جنت میں اور کافروں کو دوزخ میں داخل کر دیا جائے گا اور جنتی لوگ جنت میں داخل ہو کر شکر ادا کرنے کے لئے عرض کریں گے کہ تمام تعریفیں اس اللہ تعالیٰ کیلئے ہیں جوتمام جہانوں کا پالنے والاہے۔(روح البیان، الزّمر، تحت الآیۃ: ۷۵، ۸ / ۱۴۷-۱۴۸، خازن، الزّمر، تحت الآیۃ: ۷۵، ۴ / ۶۴، ملتقطاً)
حضرت وہب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’جو یہ جاننے کا ارادہ رکھتا ہو کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے درمیان کیسے فیصلہ فرماتا ہے تو وہ سورہِ زمر کے آخری حصے کو پڑھے۔(درمنثور، الزّمر، تحت الآیۃ: ۷۵، ۷ / ۲۶۷)